سلیمانی
اسرائیل نے خلیج میں اپنا پہلا سفارت خانہ ابوظبی میں کھول لیا
ابوظبی کے ائیر پورٹ پہنچے پر اسرائیلی وزیرخارجہ یائر لاپڈ نے سوشل میڈیا پر متحدہ عرب امارات کے حکام کی جانب سے گرم جوش استقبال کاشکریہ ادا کیا اور تصاویر بھی جاری کیں۔
بعد ازاں یائرلاپڈ نے ابوظبی میں اسرائیلی سفارتخانے کا افتتاح کیا جب کہ وہ دبئی میں اسرائیل کے قونصلیٹ جنرل کا افتتاح بھی کریں گے اور اپنے ہم منصب شیخ عبداللہ بن زاید سےبھی ملاقات کریں گے۔
خیال رہے کہ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان گزشتہ سال ستمبر میں تعلقات بحال ہوئے تھے اور رواں سال جنوری میں اسرائیل نے یو اے ای میں باضابطہ طور پر اپنا سفارتخانہ کھولنے کی منظوری دی تھی جب کہ یو اے ای نے بھی تل ابیب میں اپنا سفارتخانہ کھولنے کی منظوری دی تھی۔
اسرائیل اور متحدہ عرب امارات میں سفارتی تعلقات کے بعد سےکسی بھی اسرائیلی وزیرکا یہ پہلا دورہ ہے۔
"ایران کی قومی رصدگاہ" کا افتتاح / ایران ٹیلی اسکوپ بنانے والے دنیا کے 10 ملکوں میں شامل
"ایران کی قومی رصد گاہ" (Observatory) کو بروز پیر 28 جون، 2021 کو اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر حجۃ الاسلام و المسلمین ڈاکٹر حسن روحانی کی موجودگی میں افتتاح کر دیا گیا۔
یہ رصد گاہ کاشان کے اطراف میں واقع ایک اونچی چوٹی پر تعمیر کی گئی ہے۔ ایران کے مختلف حصوں میں چالیس سے زیادہ اونچی پہاڑیوں کا جائزہ لینے کے بعد کاشان کی "گرگش" نامی پہاڑی کو اس پیشہ ور فلکیاتی رصد گاہ کے لیے انتخاب کیا گیا اور ایرانی سائنس دانوں اور اینجینئروں کے ذریعے اس قومی رصد گاہ کو تعمیر کیا گیا۔
صاف آسمان، مناسب اونچائی اور روشنی کی آلودگی سے دوری اس بات کا باعث بنی کہ ملک کی دسیوں اونچی چوٹیوں کو نظر انداز کر کے گرگش کی 3622 میٹر اونچی چوٹی کو ایران کی قومی رصد گاہ کے لیے انتخاب کیا جائے۔
اس رصدگاہ کے گنبد کے تمام اجزاء اور ٹیلی اسکوپ کے تمام آلات ایران میں بنائے گئے ہیں۔ اور اس منصوبے کے نفاذ کے ساتھ، اسلامی جمہوریہ ایران دنیا کے ان دس ممالک میں شامل ہو گیا ہے جنہوں نے دنیا کے بڑے ٹیلی اسکوپ بنائے ہیں۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر نے اس افتتاحی تقریب میں کہا: "خدا کا شکر ہے کہ آج ہم اس عظیم اور بڑی رصد گاہ کو افتتاح کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ یہ رصد گاہ علاقے کی اہم رصد گاہوں میں سے ایک ہے۔
ڈاکٹر حسن روحانی نے مزید کہا: "ہم زمین نامی ایک چھوٹے سے سیارے پر زندگی بسر کر رہے ہیں جبکہ یہ دنیا بہت وسیع اور عظیم دنیا ہے، اور خداوند عالم نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:" وَإِنَا لَمُوسِعُون "۔ خدا کائنات کو مسلسل وسعت دے رہا ہے ، کہکشاں ، سیارے اور ستارے سب بڑھ رہے ہیں اور جو ہماری آنکھیں اس وسیع و عریض کائنات میں دوربین سے دیکھ سکتی ہے وہ بہت ہی محدود ہے۔
انہوں نے امریکی مجرمانہ پابندیوں کے باوجود ایران کی ترقی کے بارے میں کہا ، "مجھے خوشی ہے کہ ان برسوں کے دوران ، جو معاشی جنگ کے سال تھے ، ہم سائنس اور ٹیکنالوجی کے راستے کو جاری رکھنے میں کامیاب رہے۔" ان 8 سالوں میں ، ہمارے ملک نے سائنس اور ٹکنالوجی کی راہ میں ایک نیا باب کھولا ہے۔
لو افغانستان کو برباد کرکے چل دیئے
افغانستان کے حالات بڑی تیزی سے خراب ہو رہے ہیں۔ امریکی قیادت میں نیٹو فورسز نے مسلسل بیس سال افغانستان پر قبضہ جمائے رکھا اور افغان وسائل کو بری طرح سے لوٹا۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ کے نام پر امریکی و یورپی عوام کو مسلسل بے وقوف بنائے رکھا اور اب جب بیس سال بعد خطے سے بھاگ رہے ہیں تو آگ و خون کا کھیل عروج پر چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ لاکھوں لوگوں کو مارنے و زخمی کرنے کے بعد افغانستان کو سول وار کے حوالے کرکے جانا ظلم ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ طالبان نے افغانستان کے دو سو چالیس میں سے اسی اضلاع پر قبضہ کر لیا ہے۔ طالبان مسلسل آگے بڑھ رہے ہیں۔ امریکہ نے دنیا بھر کا پیسہ اکٹھا کرکے چار لاکھ فوجی تیار کیے تھے، امریکی افواج کے نکلنے کے اعلان کے ساتھ ہی وہ شکست خوردگی میں ہتھیار ڈال رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایسی بہت سی ویڈیوز گردش کر رہی ہیں، جن میں افغان سپاہی ہتھیار ڈالتے ہیں، گھر کا کرایہ وصول کرتے ہیں اور پوسٹ چھوڑ کر نکل جاتے ہیں۔
افغانستان کے پشتونوں کی وابستگیاں طالبان کے ساتھ ہیں، اس لیے پشتون سپاہی اور عوام طالبان کو خوش آمدید کہہ رہے ہیں۔ ایسے میں افغان صدر مدد کے لیے وائٹ ہاوس پہنچے ہیں۔ امریکی صدر نے یہ نے کہا کہ ہمارے فوجی جا رہے ہیں، فوجی مدد جاری رہے گی، ایک لالی پوپ دینے کی کوشش کی ہے۔ ابھی تک امریکہ کی نصف کے قریب فوج افغانستان میں ہے تو طالبان نے افغان حکومت کی درگت بنا دی ہے، جب یہ چلی جائے گی تو دور سے کیا خاک مدد ہوگی؟ افغان صدر اشرف غنی ان دنوں آرمی چیف اور وزیر دفاع کو تبدیل کر رہے ہیں۔ یہ بدانتظامی اور عدم اعتماد کی انتہا ہے کہ ملک کو جنگ درپیش ہے اور عہدوں کی بندر بانٹ ہو رہی ہے۔ ویسے تو پورے ملک میں عدم تحفظ کی لہر ہے، مگر کابل کے سفارتی حلقے شائد طالبان کی آمد کی آہٹ کو جلد محسوس کر رہے ہیں۔ کابل میں سفارتکار تک ڈرے ہوئے ہیں کہ اگر طالبان آگئے تو ہمارا کیا ہوگا۔؟
طالبان بار بار کہہ رہے ہیں کہ ہم قتل عام نہیں کریں گے مگر اعتبار کون کرے؟ کیونکہ 1998ء میں گیارہ ایرانی سفارتکار مار دیئے گئے تھے۔ انہی خدشات کے پیش نظر آسٹریلیا نے اپنی ایمبیسی مکمل طور پر بند کر دی ہے۔ سفارتکاروں کے ساتھ ساتھ امریکہ اور نیٹو فورسز کے ساتھ کام کرنے والے پندرہ ہزار ڈرائیور، باورچی اور مترجم بہت زیادہ پریشان ہیں کہ طالبان انہیں نہیں چھوڑیں گے۔ ان کے پچاس ہزار رشتہ دار ہیں، ان سب کو امریکی ویزہ دینا ایک بڑے پروسس کا متقاضی ہے، اس پر وقت لگے گا۔ امریکہ کو بھی پتہ ہے کہ اب وقت کم ہے، اس لیے انہیں پہلے کسی تیسرے ملک میں بھیج کر وہاں سے ان کا ویزہ پروسس کرکے انہیں امریکہ کا ویزہ دیا جائے گا۔ نیٹو اور مریکی فوسز کے سو مترجمین امریکی سفارتخانے کے سامنے احتجاج کر رہے ہیں کہ انہوں ویزے نہیں دیئے جا رہے ہیں۔ افغانستان میں امریکہ کے ساتھ کام کرنا آسان نہیں تھا، جن لوگوں نے کام کیا، اب انہیں جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں کہ اب انہیں نقصان پہنچایا جائے گا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ امریکہ نے افغانستان کے دارالحکومت کابل کو کس قدر غیر محفوظ شہر بنا دیا ہے کہ وہاں کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔
اس بدامنی میں مہاجرین کا سیلاب آنے کا خدشہ ہے، جس سے حسب سابق پڑوسی ممالک کو اس سے نمٹنا پڑے گا۔ آج کی صورتحال وزیراعظم پاکستان نے کچھ عرصہ پہلے اپنے خطاب میں بتا دی تھی کہ سول وار کا خدشہ ہے، جو سچ ثابت ہو رہی ہے، کیونکہ جیسے جیسے طالبان کابل کی طرف بڑھ رہے ہیں، ویسے ویسے ان کے خلاف لوگ بھی اٹھ رہے ہیں۔ عمران خان صاحب نے متحدہ حکومت بنانے کی تجویز دی، جس میں سب گروہ شامل ہوں۔ اسی طرح انہوں نے امریکہ کو کسی بھی صورت میں اڈے دینے سے انکار کر دیا تھا اور کہا تھا کہ ہم امن میں شریک ہیں، جنگ میں شریک نہیں ہیں۔ یہ دونوں باتیں افغانستان اور خطے کے لیے انتہائی مناسب تھیں مگر ان پر توجہ نہیں دی گئی۔
ترکی کے پانچ سو فوجی افغانستان میں موجود ہیں، جو موجود رہیں گے، ان کے حوالے سے مختلف اطلاعات سامنے آرہی ہیں۔ ترک فوجی کابل ائرپورٹ کے دفاع کو یقینی بنائیں گے اور دوسرا افغان فورسز کو تربیت دیں گے۔ طالبان نے ترکی کے افغان سرزمین پر رہنے کے فیصلے کی شدید مخالفت کی ہے اور کہا کہ 2019ء کے معاہدے کے مطابق تمام نیٹو فورسز نے افغانستان سے نکلنا ہے اور ترکی کی افواج بطور نیٹو فورس یہاں موجود تھیں۔ اس لیے ان کی کسی بھی قسم کی موجودگی کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ ترکی امریکہ سے روس معاہدے کی وجہ سے خراب تعلقات کو بحال کرنا چاہتا ہے، اس لیے ذرا امریکی مفادات میں بڑھ بڑھ کر خود کو پیش کر رہا ہے۔ ورنہ پانچ سو ترک فوجی کوئی بڑی تبدیلی لانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ یہ زیادہ سے زیادہ ایک علامتی موجودگی ہے، مگر ترک حکومت ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔
سب سے اہم سوال کہ عام افغان کیا سوچ رہا ہے؟ طالبان ہوں یا افغان حکومت ہو، سب سے زیادہ متاثر تو افغانستان کا عام شہری ہی ہوتا ہے۔ اپنے جغرافیہ کی وجہ سے دنیا کی بڑی طاقتوں کے بیچ پس جانے والے افغان اب جنگ سے تنگ آچکے ہیں، مگر جنگ اب بھی ان کا پیچھا چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ بقول منیر نیازی:
اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
روس گیا تو خانہ جنگی شروع ہوگئی، طالبان اور شمالی اتحاد کی جنگ رہی اور اب امریکہ جا رہا ہے تو ایک اور سول وار راستہ دیکھ رہی ہے۔ 1960ء سے جاری یہ کشمکش اب تیسری افغان نسل دیکھ رہی ہے۔ روس امریکہ، چین و یورپ کو اپنے مسائل اپنے بارڈرز کے اندر حل کرنے چاہیں، دوسروں کی زمین اور خون کی قربانی کا مسلسل سلسلہ روک دینا چاہیئے۔ یہ افغان عوام کی خواہش اور ان کا بنیادی حق ہے کہ وہ پرامن افغانستان میں زندگی گزاریں اور اسے تسلیم کیا جانا چاہیئے
فرانسیسی بحریہ کےکمانڈرکی طرف سے ایرانی بحریہ کے کمانڈرایڈمرل حسین خانزادی کا استقبال
اسلامی جمہوریہ ایران کی بحریہ کے سربراہ ایڈمرل حسین خانزادی مڈغاسکر کے مغرب میں واقع رونیان جزیرے میں بحر ہند کے ساحلی ممالک کی بحری افواج کے کمانڈروں کے ساتویں اجلاس میں شرکت کے لئے جب پہنچے تو فرانسیسی بحریہ کے سربراہ ایڈمرل وینڈینے ان کا والہانہ استقبال کیا۔
اطلاعات کے مطابق ایرانی بحریہ کے سربراہ بحر ہند کے ساحلی ممالک کی بحری افواج کے کمانڈروں کے ساتویں اجلاس میں شرکت کے لئے رونیان جزیرے میں پہنچ گئے ہیں جہاں فرانسیسی بحریہ کے کمانڈر ایڈمرل وینڈیر نے سرکاری طور پر ان کا استقبال کیا۔
ایرانی بحریہ کے سربراہ نے فرانسیسی بحریہ کے سربراہ سے باہمی تعاون کو فروغ دینے کے سلسلے میں تبادلہ خیال کیا۔ بحر ہند کے جنوب میں واقع رونیان جزیرہ فرانس کے قبضہ میں ہے۔
ایران کا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شام کی حمایت جاری رکھنے کا عزم
اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ کے اعلی مشیرعلی اصغر خاجی نے شام کے صدر بشار اسد کے ساتھ ملاقات میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شام کی حمایت جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق ایرانی وزیر خارجہ کے اعلی مشیر ایک وفد کے ہمراہ شام کے دورے پر ہیں جہاں انھوں نے شام کے صدر بشار اسد سے ملاقات اور گفتگو کی۔ اس ملاقات میں دو طرفہ تعلقات ، علاقائی اور عالمی امور کے بارے میں بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ خاجی نے اس ملاقات میں دونوں ممالک کے درمیان مضبوط اور مستحکم تعلقات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران ، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شامی حکومت اور عوام کی مدد کا سلسلہ جاریر کھےگا۔ اس ملاقات میں شام کے صدر بشار اسد نے ایران میں تیرہویں صدارتی انتخابات کے کامیاب منعقد ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایران کی حمایت کے قدرداں اور شکر گزار ہیں۔ خاجی نے شام کے وزیر خارجہ فیصل المقداد کے ساتھ بھی ملاقات اور گفتگو کی اور باہمی دلچسپی کے امور کے بارے میں تبادلہ خیال کیا۔
حضرت یوشع نبی(ع) کا مزار اصفھان ایران
حضرت یوشع نبی(ع) کا مرقد اسلامی جمہوریہ ایران کے شھر اصفہان کے تاریخی مقام تخت فولاد کے شمال تکیہ شہداء میں واقع ہے۔
وہ ایریا کہ جس میں حضرت یوشع(ع) مدفون ہیں اسے “لسان الارض” کہا جاتاہے۔
حضرت یوشع نبی (ع) کی قبر مبارک سطح زمین سے تھوڑٰی بلند ہے اور اس کے اوپر سبز رنگ کا کپڑا بچھایا ہوا ہے جو کہ آج بھی دنیا بھر کے بہت سارے زائرین کی توجھ کا مرکز ہے۔
حضرت یوشع قوم بنی اسرائیل کے پیامبروں میں سے ایک پیامبر ہے جو حضرت موسی کی وفات کے تین دن بعد خود حضرت موسی کی وصیت پر عمل کرتے ہوے قوم بنی اسرائیل کی رھبریت کے منصب پر فائز ہوے۔
بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ حضرت یوشع بنی بھی ان افراد میں سے ہے کہ جسے کوروش (کہ جو ھخامنشی دور حکومت کا بانی اور پہلا بادشاہ تھا) کے زریعے بختنصر(کہ جو بنی اسرائیل کے اوپر خدا کی طرف سے عذاب کی صورت میں آیا تھا اور بہت ہی بے رحم اور ظالم تھا) کے ہاتھوں سے آزاد کیا اور بعد میں ایران کی طرف ھجرت کی۔
یہاں پر یہ بات بھی بیان کرنا مناسب ہے کہ حضرت یوشع کے نام سے دو اور مقام بھی تاریخدانوں نے بیان کیا ہے ان میں سے ایک مقام حضرت یوشع کے نام سے لبنان کے شمال میں المینہ الضنیہ نام کے کسی شھر کے ایک پرانے غار میں واقع ہے۔
اور دوسرا مقام اردن کے شھر اُمان کے نزدیک حضرت یوشع نبی کے نام سے ایک مقام موجود ہے۔
بزرگ صحابی امیر المومنین علیہ السلام پر سب و شتم کا آغاز کب سے ہوا۔
بني امية کے سارے حکام امير المؤمنين علی ابن طالب عليه السلام کو سب وشتم کرتے تھے:
جیساکہ معتبر روایات کے مطابق خود امیر المومنین علیہ السلام نے اس چیز کی خبر دی تھی کہ آپ کے آپ پر سب و شتم کرنے کا حکم دیا جائے گا ۔ہم ذیل میں بعض تاریخی اسناد کی طرف اشارہ کریں گے کہ جو اس بات پر دلیل ہے کہ مولا علی علیہ السلام نے جو خبر دی تھی وہ حقیقت پر مبنی تھی اور بعد میں جس طرح آپ نے فرمایا تھا ،ایسا ہی ہوا ۔
بنی امیہ کا جو بھی حاکم آتا وہ امير المؤمنين عليه السلام کو لعن کرتا تھا :
۱: حافظ ابن عساكر نے تاريخ مدينه دمشق میں لکھا ہے :
حدثنا خالد بن يزيد عن معاوية قال كان لا يقوم أحد من بني أمية إلا سب عليا فلم يسبه عمر فقال كثير عزة :
وليت فلم تشتم عليا ولم تخف بريا ولم تقنع سجية مجرم
وقلت فصدقت الذي قلت بالذي فعلت فأضحى راضيا كل مسلم .
تاريخ مدينه دمشق ، ج50 ، ص96 .
: جب بھی بنی امیہ کا کوئی حاکم آتا وہ علی علیہ السلام کو برا بلا کہتا ،لیکن عمر بن عبد العزيز نے ایسا نہیں کیا ۔ لہذا شاعر كثير العزة نے ان کی یوں تعریف کی :
تم جب حاکم بنا تو نے علی کو سب و شتم نہیں کیا اور تم نہ ڈرے ۔ تو اچھا آدمی ہے۔ تو نے مجرم لوگوں کے طریقے پر عمل نہیں کیا ۔۔۔تو نے جو کہا سچ کہا اور اس کو انجام بھی دیا اسی لئے سارے مسلمان اس کام سے راضی تھے ۔
۲: ابونعيم اصفهاني نے بھی "حلية الأولياء" میں بھی حافظ ابن عساكر کی روایت کو نقل کیا ہے :
ثنا خالد بن يزيد عن جعونة قال كان لا يقوم أحد من بني أمية إلا سب عليا فلم يسبه عمر بن عبد العزيز فقال كثير عزة :
وليت فلم تشتم عليا ولم تخف بريا ولم تتبع سجية مجرم
حلية الأولياء ، ابو نعيم ، (المتوفى: 430هـ) ج5 ، ص356 ، ط الثانيه ، دار الكتب العلمية ، بيروت ، 1423 هـ .
عمر بن عبد العزيز نے اس سلسلے کوروکنا چاہا
عمر بن عبد العزيز کے زمانے تک علي (عليه السلام) کو برا بلا کہنے کا سلسلہ جاری رہا :
۳: محمد بن سعد{متوفی 230ھ} نے الطبقات الكبري میں اور ذهبي نے سير اعلام النبلاء میں نقل کیا ہے :
أخبرنا علي بن محمد عن لوط بن يحيى الغامدي قال كان الولاة من بني أمية قبل عمر بن عبد العزيز يشتمون عليا رحمه الله فلما ولي عمر أمسك عن ذلك .
الطبقات الكبري ، محمد بن سعد ، ج5 ، ص393 و سير اعلام النبلاء ، ج5 ، ص147 .
عمر بن عبد العزیز سے پہلے بنی امیه کے سارے حاکم ، علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو سب و شتم کرتے تھے ؛ لیکن جب عمر بن عبد العزیز کی حکومت آئی تو اس نے اس کام کو انجام نہیں دیا .
۴: ذهبي نے بھی بني مروان کے حکام کے بارے میں لکھا : في آل مروان نصب ظاهر سوى عمر بن عبد العزيز ... .
عمربن عبد العزيز کے علاوہ بنی مروان کے حکام علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے دشمن تھے۔
سير اعلام النبلاء ، ج 5 ، ص113 ۔
۵:. مشہور تاریخ نگار إسماعيل بن أبي الفداء اس سلسلے میں لکھتا ہے :
كان خلفاء بني أمية يسبون علياً رضي الله عنه من سنة إِحدى وأربعين وهي السنة التي خلع الحسن فيها نفسه من الخلافة إلى أول سنة تسع وتسعين آخر أيام سليمان بن عبد الملك فلما ولي عمر أبطل ذلك وكتب إِلى نوابه بإبطاله ... .
تاريخ أبي الفداء ، فصل في ذكر إبطال عمر بن عبد العزيز سب علي بن أبي طالب علي المنابر ، ج1 ، ص287
۴۱ ہجری سے، جب حسن بن علی علیہما السلام نے خلافت سے دوری اختیار کی ، اس وقت سے ۹۹ ہجری تک بنی امیہ کے سارے حکام علی ابی طالب علیہ السلام کو برا بلا کہتے تھے اور یہ سلسلہ سليمان بن عبد الملك کے دور حکومت کے آخری ایام اور عمر بن عبد العزيز کے دور حکومت کے ابتدائی آیام تک جاری رہا ۔
۶: آلوسي کہ جو اہل سنت کے ایک نامور مفسر ہیں وہ آيه : «إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ ... » (النحل / 90) کی تفسير میں لکھتا ہے :
أقامها عمر بن عبد العزيز حين آلت الخلافة إليه مقام ما كانو بنو أمية غضب الله تعالى عليهم يجعلونه في أواخر خطبهم من سب علي كرم الله تعالى وجهه ولعن كل من بغضه وسبه وكان ذلك من أعظم مآثره رضي الله تعالى عنه .
روح المعاني في تفسير القرآن العظيم والسبع المثاني ، آلوسي ، ج7 ، ص456 ، ط الأولي ، دار الكتب العلمية ، بيروت ، 1422 هـ .
جس وقت عمر بن عبد العزيز خلیفہ بنا ان سے پہلے کے خلفاء { سب اللہ کے غیض و غضب کے مستحق قرار پائے} یہ سب اپنے خطبوں کے بعد علی علیہ السلام کو برا بلا کہتے تھے، عمر ابن ابی العزیز نے اس سے لوگوں کو منع کیا اور یہ اس کے نیک اور قابل فخر کاموں میں سے ہے ۔
۷: ابن خلدون نے اپنی تاریخ میں نقل کیا ہے :
وكان بنو أمية يسبون عليا فكتب عمر إلى الآفاق بترك ذلك .
تاريخ ابن خلدون ، ج3 ، ص75 .
بني اميه والے علی عليه السلام کو برا بلا کہتے تھے اور یہ سلسلہ عمر بن عبد العزيز کے دور تک باقی رہا ۔ اس نے مختلف علاقوں میں خط لکھنے کے ذریعے اس کام سے منع کیا ۔
۸: شيخ محمد بن علي ، مشهور به ابن العمراني (متوفى: 580هـ) نے الإنباء في تاريخ الخلفاء میں لکھتا ہے :
وكان بني امية كلهم يلعنون عليا ـ صلوات الله عليه وسلامه ـ علي المنبر ، فمذ ولي عمر بن عبد العزيز قطع تلك اللعنة .
الإنباء في تاريخ الخلفاء ، ابن العمراني ، ص51 ، ط الأولي ، دار الآفاق العربية ، مصر ، 1419 هـ .
بني اميه کے سارے حکام ، علي (عليه السلام) کو ممبروں سے لعن کرتے تھے یہاں تک کہ عمر بن عبد العزيز کا دور حکومت آیا اس نے اس چیز سے منع کیا ۔
۹: شهاب الدين احمد بن عبد الوهاب نويري نے " نهاية الأرب في فنون الأدب " بيعت عمر بن عبد والے فصل میں لکھا ہے :
وكان من أول ما ابتدأ به عمر بن عبد العزيز أن ترك سب علي بن أبي طالب رضي الله عنه على المنابر، وكان يسب في أيام بني أمية إلى أن ولي عمر فترك ذلك .
نهاية الأرب في فنون الأدب ، النويري ، ج21 ، ص216 ، ط الأولي ، دار الكتب العلمية ، بيروت ، 1424 هـ .
عمر بن عبد العزيز نے پہلا کام یہ کیا کہ ممبروں سے علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو برا بلا کہنے سے منع کیا بنی امیہ کے دور میں علي (عليه السلام) کو برا بلا کہتے تھے لیکن جب عمر بن عبد العزيز خليفه بنا تو اس نے یہ کام انجام نہیں دیا ۔
۱۰: حافظ جلال الدين سيوطي نے تاريخ الخلفاء میں لکھا :
كان بنو أمية يسبون علي بن أبي طالب في الخطبة فلما ولي عمر ابن عبد العزيز أبطله وكتب إلى نوابه بإبطاله .
تاريخ الخلفاء ، السيوطي ، ص194 ، ط الأولي ، مصر ، دار الفجر للتراث ، 1420 هـ .
بني اميه والے علي بن أبي طالب (عليه السلام) کو اپنے خطبوں میں برا بلا کہتے تھے لیکن جب عمر بن عبد العزیز خلیفہ بنا تو اس نے اس کام کو انجام نہیں دیا اور اپنے گونروں کو بھی اس کام کو انجام نہ دینے کا حکم دیا ۔
۱۱: مشہور تاریخ دان ابن أثير{ المتوفى: 630ھ} نے اس سلسلے میں لکھا ہے:
كان بنو أمية يسبون أمير المؤمنين علي بن أبي طالب عليه السلام إلى أن ولي عمر بن عبد العزيز فترك ذلك وكتب إلى العمال في الآفاق بتركه .
الكامل في التاريخ ، حوادث سال 99 هـ ، ج5 ، ص42 .
بني اميه والے علي کو دشنام دیتے اور انہیں برا بلا کہتے ؛ یہاں تک کہ عمر بن عبد العزیز کی حکومت آئی تو اس نے ایسا نہیں کیا اور اپنے گورنروں اور حکومتی نمائندوں کو اس سے منع کرنےکے لئے خط لکھا ۔
۱۲: خير الدين زركلي نے اپنی كتاب ' 'الأعلام" میں عمر بن عبد العزيز کے زندگی نامے میں لکھا ہے :
وولي الخلافة بعهد من سليمان سنة 99 ه ، فبويع في مسجد دمشق . وسكن الناس في أيامه ، فمنع سب علي بن أبي طالب ( وكان من تقدمه من الأمويين يسبونه على المنابر ) .
الأعلام ، خير الدين الزركلي ، ج 5 ، ص50 .
عمر بن عبد العزيز ، 99 هـ کو سليمان کے بعد خلیفہ بنا ، لوگوں نے دمشق کی مسجد میں اس کی بیعت کی۔ لوگ اس کے دور حکومت میں آرام اور سکون سے رہے اور انہوں نے علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو ممبروں سے سب و شتم کرنے سے منع کیا جبکہ اس سے پہلے کے بنی امیہ کے حکام کا طریقہ کار ممبروں سے انہیں برا بلا کہنا تھا ۔
مغيرة بن شعبة اور سبّ امير المؤمنين :
خوارزمي کہ جو اہل سنت کے مشهور تاریخ نگار ہے وہ مقتل الحسين عليه السلام میں لکھتا ہے :
ایک جلسہ کہ جو امام حسن علیہ السلام اور معاویہ کی موجودگی میں ہوا اس میں بنی امیہ والے ایک ایک کر کے اٹھے اور جو منہ میں آیا حضرت علی علیہ السلام کے خلاف کہہ دیا، یہاں تک کہ جب مغیرہ {اللہ کی لعنت ہو اس پر } کی باری آئی تو وہ اٹھا اور اس طرح بولنا شروع کیا :
إن علياً ناصب رسول الله صلي الله عليه وسلم في حياته ، وأجلب عليه قبل موته وأراد قتله ، فعلم ذلك من أمره رسول الله ، ثم كره أن يبايع أبا بكر حتي أتي به قوداً ، ثم نازع عمر حتي همّ أن يضرب عنقه ، ثم طعن علي عثمان حتي قتله ، و قد جعل الله سلطاناً لولي المقتول في كتابه المنزل ، فمعاوية ولي المقتول بغير حق ، فلو قتلناك وأخاك كان من الحق ، فو الله ما دم ولد علي عندنا بخير من دم عثمان ، و ما كان الله ليجمع فيكم الملك مع النبوة .
مقتل الحسين ، ج1 ، ص170 .
علي (عليه السلام) نے پيامبر (صلي الله عليه وآله وسلم) کی زندگی میں ان سے دشمنی کی {نعوذ باللہ }اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی میں انہیں قتل کرنا چاہا۔ رسول اللہ صلي الله عليه وآله وسلم اس سے باخبر ہوئے ۔ آپ کے بعد ابوبکر کی بیعت نہیں کی لیکن اس کو مجبور کر کے بیعت کے لئے لایا گیا اور عمر مقابلے کے لئے اٹھا اور قریب تھا عمر ان کی گردن اڑا دیتا ۔پھر بعد میں عثمان کی برائی بیان کرنا شروع کیا یہاں تک کہ لوگ اس کے خلاف اٹھے اور وہ قتل ہوا۔ اللہ نے قرآن میں ہر قتل ہونے والے کے لئے ایک ولی قرار دیا ہے تاکہ اس کے خون کا بدلہ لیا جائے ، معاویہ عثمان کے ولی اور وارث ہے لہذا تجھے {امام حسن علیہ السلام سے مخاطب ہوکر }اور تیرے بھائی کو قتل کرئے تو تم لوگ اس کے مستحق ہیں۔ اللہ کی قسم علی کے بیٹوں کے خون کی قیمت ہمارے نذدیک عثمان کے خون سے قیمتی نہیں ہے۔ اللہ نے نبوت اور بادشاہت دونوں کو تم لوگوں میں ہی قرار نہیں دیا ہے ۔
معاویہ کا خصوصی گورنر مغيرة بن شعبه اور سب و شتم
۔ ابن خلدون نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے :
كان المغيرة بن شعبة أيام امارته على الكوفة كثيرا ما يتعرض لعلى في مجالسه وخطبه ويترحم على عثمان ويدعو له .
تاريخ ابن خلدون۔ 3/ 12 ۔ وفاة المغيرة
مغيرة بن شعبه ،كوفه میں اپنی حکومت کے دوران اپنے خطبوں اور جلسوں میں علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو برا بلا کہتے تھے اور عثمان پر رحمت پر اور اس کی مغفرت کے لئے دعا کرتا۔
ذهبي نے سير اعلام النبلاء میں لکھا ہے :
كان المغيرة ينال في خطبته من علي ، وأقام خطباء ينالون منه .
سر اعلام النبلاء ، ج3 ، ص31 . یشتمون علیا
مغيره اپنے خطبوں میں علي (عليه السلام) کو برا بلا کہتا تھا اور خطیبوں کو حضرت علی علیہ السلام کے خلاف برا بلا کہنے کے لئے مامور کرتا تھا ۔
مروان اور بنی مروان والے امير المؤمنين (عليه السلام) کو برا بلا کہتے :
ابن عساكر نے تاريخ مدينه دمشق میں اور احمد بن حنبل نے العلل میں لکھا ہے :
عن ابن عون عن عمير بن إسحاق قال كان مروان بن الحكم أميرا علينا ست سنين فكان يسب عليا كل جمعة على المنبر ثم عزل فاستعمل سعيد بن العاص سنتين فكان لا يسبه ثم عزل وأعيد مروان فكان يسبه فقيل يا حسن ألا تسمع ما يقول هذا فجعل لا يرد شيئا قال وكان حسن يجئ يوم الجمعة فيدخل في حجرة النبي ( صلى الله عليه وسلم ) فيقعد فيها فإذا قضيت الخطبة خرج فصلى ثم رجع إلى أهله .
تاريخ مدينه دمشق ، ج57 ، ص243 و العلل ، احمد بن حنبل ، ج3 ، ص176 .
عمير بن اسحاق کہتا ہے : مروان حكم جس نے چھے سال ہم پر حکومت کی وہ ہر جمعہ کو ممبر سے علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو برا بلا کہتا تھا ۔پھر اس کو ہٹایا اور سعید بن عاص ہمارا حاکم بنا لیکن وہ علی کو برا بلا نہیں کہتا تھا لہذا اس کو ہٹا کر دوبارہ مروان کو حاکم بنایا اور اس نے پھر سے علی علیہ السلام کو بر بلا کہنا شروع ۔امام حسن مجتبي (عليه السلام) سے کسی نے کہا: کیا آپ نہیں سن رہے ہیں کہ یہ کیا کہہ رہا ہے ؟ امام نے توجہ نہیں دی ، امام حسن علیہ السلام جمعہ کو مسجد تشریف لاتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کمرے میں تشریف لے جاتے اور وہی بیٹھ جاتے ،خطبہ ختم ہونے کے بعد باہر آتے اور نماز پڑھتے اور گھر واپس تشریف لے جاتے.
سيوطي نے تاريخ الخلفاء میں لکھا ہے :
عن عمير بن إسحاق قال: كان مروان أميراً علينا فكان يسب علياً كل جمعة على المنبر وحسن يسمع فلا يرد شيئاً ثم أرسل إليه رجلا يقول له بعلي وبعلي وبعلي وبك وبك وما وجدت مثلك إلا مثل البغلة يقال لها من أبوك؟ فتقول أمي الفرس فقال له الحسن: أرجع إليه فقل له إني والله لا أمحو عنك شيئاً مما قلت بأن أسبك ولكن موعدي وموعدك الله .
تاريخ الخلفاء ، ترجمه امام حسن عليه السلام .
عمير بن بن اسحاق سے نقل ہوا ہے : ہمارا حاکم اور گورنر مروان حکم تھا وہ ہر جمعہ کو ممبر سے خطبے میں علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو برا بلا کہتا لیکن امام حسن علیہ السلام یہ سب سنتے اور کچھ نہیں فرماتے ،مروان نے کسی کو امام کے پاس بھیجا تاکہ امام کے سامنے امام کی اور ان کے والد کی برائی کرئے،اس نے امام سے کہا تجھ جیسا گھوڑا اور خچر نہیں دیکھا {نعوذ بااللہ} اس سے پوچھا تیر باپ کون ہے ؟ اس نے کہا : گھوڑا ۔ امام حسن مجتبی علیہ السلام نے فرمایا : جاو مروان سے کہو میں تجھے جواب نہیں دوں گا، تیری طرح گالی نہیں دوں گا تاکہ تیرا گناہ کم ہوجائے۔ روز قیامت اللہ کے حضور میری اور تیری ملاقات ہوگی۔
سب جگہ ممبروں سے علی علیہ السلام پر لعن و طعن :
ياقوت حموي { المتوفى: 626ھ} ، کہ جو اہل سنت کے مشہور تاریخ دان ہے وہ لکھتا ہے :
لعن علي بن أبي طالب ، رضي الله عنه ، على منابر الشرق والغرب ... منابر الحرمين مكة والمدينة .
معجم البلدان ، ج3 ، ص191 .
علي (عليه السلام) پر مشرق ، مغرب اور مکہ اور مدینہ کے ممبروں سے لعن طعن کرتے تھے ۔
۷۰ ہزار ممبروں سے علی علیہ السلام پر لعن طعن :
زمخشري ، کہ جو اہل سنت کے مشہور مفسر اور اديب ہیں ،لکھتے ہیں :
إنّه كان فى أيّام بنى اميّة أكثر من سبعين ألف منبر يلعن عليها علىّ بن أبى طالب بما سنّه لهم معاوية من ذلك.
ربيع الأبرار ، ج 2 ، ص186 و النصايح الكافية ، محمد بن عقيل ، ص79 به نقل از سيوطي .
بنی امیہ کے دور میں ۷۰ ہزار ممبروں سے علی علیہ السلام پر لعن و طعن کیا جاتا تھا اور یہ معاویہ کی بنائی ہوئی سنت تھی .
علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو برا بلا کہنے کی روایات متواتر ہیں :
شيخ محمود سعيد بن ممدوح ، امير المؤمنين عليه السلام کو سب و شتم اور ان پر لعن و طعن کے سلسلے میں روایات اور واقعات کو ذکر کرنے کے بعد لکھتا ہے :
الآثار في هذه الجريمة البشعة وأخبارها الشنيعة متواترة ، وهذه عظيمة تصغر عندها العظائم ، وجريمة تصغر عندها الجرائم وشنيعة تتلاشي أمام بشاعتها الشنائع .
غاية التبجيل ، محمود سعيد ، ص283 ، ط الأولي ، مكتبة الفقيه ، الإمارات ، 1425 هـ .
اس برے اور مجرمانہ کام کے دلايل اور شواهد بہت زیادہ اور متواتر ہیں ،کہا جاسکتا ہے کہ یہ برا عمل اس حد تک بڑا جرم اور برا کام ہے کہ دوسرے جرائم اور برے کام اس کے مقابل میں چھوٹا اور کم اہمیت ہے ۔
سب و شتم ،امیر المومنین علیہ السلام کے دشمنوں سے تقرب کا وسیلہ
اهل بيت عليهم السلام کے دشمنوں کے قریب ہونے کے لئے اہل بیت علیہم السلام کی برائی :
قال أخبرنا مالك بن إسماعيل قال حدثنا سهل بن شعيب النهمي وكان نازلا فيهم يؤمهم عن أبيه عن المنهال يعني بن عمرو قال دخلت على علي بن حسين فقلت كيف أصبحت أصلحك الله فقال ما كنت أرى شيخا من أهل المصر مثلك لا يدري كيف أصبحنا فأما إذ لم تدر أو تعلم فسأخبرك أصبحنا في قومنا بمنزلة بني إسرائيل في آل فرعون إذ كانوا يذبحون أبناءهم ويستحيون نساءهم وأصبح شيخنا وسيدنا يُتقرب إلى عدونا بشتمه أو سبه على المنابر .
الطبقات الكبري ، محمد بن سعد ، ج 5 ، ص220 و تهذيب الكمال ، مزي ، ج 20 ، ص400 ترجمه امام علي بن الحسين و المنتخب من ذيل المذيل ، محمد بن جرير طبري ، ص120 .
منهال بن عمرو کہتا ہے : میں علی بن الحسین ( امام سجاد علیه السلام ) کے پاس گیا اور ان سے عرض کیا : اللہ آپ کو سلامت رکھے ،آپ نے کیسے صبح کی {آپ کی حالت کیسی ہے} امام نے فرمایا : میرا ایسا خیال نہیں تھا کہ شہر کے کسی بزرگ اور بڑے کو ہماری حالت کا علم نہ ہو ، اب جو تجھے معلوم نہیں تو میں بتا دیتا ہوں ، ہماری حالت اپنی قوم میں ایسا ہے جیسے فرعونیوں کے پاس بنی اسرائیل کی حالت تھی ان کے فرزندوں کو قتل کرتے تھے اور ان کی عورتوں کو زندہ رکھتے تھے اور ہمارے دشمنوں سے قریب ہونے کے لئے ہمارے سردار { علی ابن ابی طالب ع } کی شان میں توہین کرتے ہیں اور برا بلا کہے جاتے ہیں۔
امير المؤمنين (عليه السلام) فضائل اور ان کو سب وشتم کرنا قابل جمع نہیں ہے:
امام محمد بن ابراهيم الوزير اليماني بعض راویوں کی طرف سے اہل بیت کے فضائل نقل کرنے کے سلسلے میں لکھتا ہے :
روايتهم لفضائل علي عليه السلام وفضائل أهل البيت في أيام بني امية وهو عليه السلام ـ حاشا مع ذلك ـ يُلعنُ علي المنابر ولا يروي فضائله إلا من خاطر بروحه .
العواصم والقواسم في الذب عن سنة أبي القاسم ، ابن الوزير ، ج2 ، ص400 ، ط الثالثة ، مؤسسه الرسالة ، بيروت ، 1415 هـ .
بنی امیہ کے دور میں علي اور اهل بيت (عليهم السلام) کے فضائل کی بات کرنا ممکن نہیں تھا ، لیکن ممبروں سے ان پر لعن و طعن کیا جاتا تھا لہذا ان کے دور میں یہ دونوں قابل جمع نہیں تھا ۔
بني اميه والے سرزنش کے مستحق ہیں :
ڈاکٹر فرحان المالكي کہتے ہیں :
فبنو أمية اذن يستحقون الذم لأنهم لم يغسموا ألسنتهم في البحث فقط ، وإنما تجاوزوا ذلك إلي اللعن علي المنابر وسفك الدماء ، و فرضوا هذا الظلم علي الأمة حتي جاءت الأجيال تعتقد أنهم مأجورون علي هذا !
مع سليمان العلوان في معاوية ، ص35 .
بنی امیہ والے سرزنش کے مستحق ہے ؛ کیونکہ انہوں نے صرف علی ابن ابی طالب ع کو برا بلا کہنے پر اکتفاء نہیں کیا ؛ بلکہ ممبروں سے بھی آپ (عليه السلام) پر لعن طعن کیا اور اہل بیت اور ان کے چاہنے والوں کے خون بہایا ہے اور اس ظلم کو سب کے لئے ضروری قرار دیا ۔ یہاں تک کہ بنی امیہ والے اپنی بعد کی نسلوں کو بھی اس کام کی وجہ سے اجر و ثواب کا مستحق قرار دیتے تھے۔
بنی امیہ کی حکومت امير المؤمنين عليه السلام کو بلا بلا کہنے پر ہی قائم تھی :
ابن عساكر نے امام سجاد عليه السلام سے نقل کیا ہے :
قال مروان بن الحكم ما كان في القوم أحد أدفع عن صاحبنا من صاحبكم يعني عليا عن عثمان قال قلت فما لكم تسبونه على المنبر قال لا يستقيم الأمر إلا بذلك.
تاريخ مدينة دمشق ، ج42 ، ص 438 و الصواعق المحرقة ، ابن حجر هيثمي ، ص 33 و النصائح الكافية ، محمد بن عقيل ، ص 114 از دار قطني و شرح نهج البلاغة ، ج13 ، ص220 .
مروان بن حکم نے مجھ سے کہا : لوگوں میں کوئی جتنا اپ کے صاحب { حضرت علی} سے دفاع کرنے والے تھے اتنا ہمارے صاحب {عثمان } سے دفاع کرنے والے نہ تھے ۔ میں نے اس سے پوچھا تو پھر کیوں ممبروں سے انہیں برا بلا کہتے ہو ؟ اس نے جواب دیا : یہ نہ ہو تو حکومت ختم ہوجاتی ہے ۔
بلاذري لکھتا ہے :
قال مروان لعلي بن الحسين : ما كان أحد أكف عن صاحبنا من صاحبكم . قال : فلم تشتمونه على المنابر ؟ ! ! قال : لا يستقيم لنا هذا إلا بهذا ! ! .
أنساب الأشراف ، ص 184.
مروان نے علي بن الحسين علیہما السلام سے کہا : کوئی ایسا نہیں تھا کہ جو اپ کے صاحب کی طرح ہمارے صاحب سے دفاع کرئے ؛ علی بن الحسین نے جواب میں فرمایا : تو پھر کیوں ممبروں سے ان پر لعن طعن کرتے ہو ؟ اس نے کہا : اس کے بغیر ہمارا کام ہی نہیں چلتا۔
امير المؤمنين (عليه السلام) کی برائی بیان کرتے وقت لگنت زبان:
ابن أثير اور بلاذري نے عبد الله بن عبيد الله سے نقل کیا ہے :
وكان أبي إذا خطب فنال من علي رضي الله عنه تلجلج فقلت يا أبت إنك تمضي في خطبتك فإذا أتيت على ذكر علي عرفت منك تقصيرا ؟ قال : أو فطنت لذلك ؟ قلت : نعم . فقال يا بني إن الذين حولنا لو يعلمون من علي ما نعلم تفرقوا عنا إلى أولاده .
الكامل في التاريخ ، حوادث سال 100 هـ ، ج5 ، ص42 و انساب الأشراف ، ج8 ، ص195 .
میرا بابا جب بھی خطبہ دیتا اور اس میں علي (عليه السلام) کے خلاف بات کرتا تو اس کی زبان میں لگنت پیدا ہوجاتی ، میں نے اس سے پوچھا :کیا وجہ ہے جب خطبے میں علي (عليه السلام) کے خلاف کچھ کہنا چاہتا ہے تو بہت سخت انداز میں بات کرتے ہو اور زبان لڑکھڑا جاتی ہے؟ باپ نے کہا : کیا تو نے اس کو محسوس کیا ؟ کہا: ہاں ۔ پھر کہا میرے بیٹے! جو فضائل علی ابن ابی طالب کے بارے میں ہم جانتے ہیں اگر لوگوں کو پتہ چل جائے تو ہم سے لوگ دور بھاگیں گے اور سب علی علیہ السلام کے بیٹوں کے پاس چلے جائیں گے۔
سب و شتم کو رواج دینے والا اصلی سیاست مدار
گزشتہ صفحات میں ہم نے بنی امیہ کے دور کے حاکموں میں رائج اس انتہائی بری سنت کی طرف اشارہ کیا ۔۔ اب ہم ذیل میں اس بری سنت اور بدعت کی کا اصلی بانی معاویہ اور اس کی حکومت ہونے پر بعض شواہد پیش کرتے ہیں ۔
خود معاویہ اس کا اصلی محرک تھا ۔
صحیح مسلم، کتاب الفضائل الصحابہ، باب من فضائل علی بن ابی طالب۔
- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ، - وَتَقَارَبَا فِي اللَّفْظِ - قَالاَ حَدَّثَنَا حَاتِمٌ، - وَهُوَ ابْنُ إِسْمَاعِيلَ - عَنْ بُكَيْرِ بْنِ مِسْمَارٍ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ أَمَرَ مُعَاوِيَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ سَعْدًا فَقَالَ مَا مَنَعَكَ أَنْ تَسُبَّ أَبَا التُّرَابِ فَقَالَ أَمَّا مَا ذَكَرْتُ ثَلاَثًا قَالَهُنَّ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَلَنْ أَسُبَّهُ لأَنْ تَكُونَ لِي ۔۔۔
ترجمہ: معاویہ نے سعد کو حکم [أَمَرَ مُعَاوِيَةُ] دیتے ہوئے کہا کہ تمہیں کس چیز نے روکا ہے [مَا مَنَعَكَ] کہ تم ابو تراب [یعنی علی ابن ابی طالب] پر سب نہ کرو [سب: گالیاں دینا ، برا بھلا کہنا]۔ اس پر سعد نے کہا میں نے رسول ص سے علی کے متعلق تین ایسی باتیں سنی ہیں کہ جس کے بعد میں کبھی علی پر سب [گالیاں دینا، برا بھلا کہنا] نہیں کہہ سکتا ۔۔۔
ابن کثیر الدمشقی۔۔۔۔۔۔وقال أبو زرعة الدمشقي: ثنا أحمد بن خالد الذهبي أبو سعيد، ثنا محمد بن إسحاق، عن عبد الله بن أبي نجيح، عن أبيه قال: لما حج معاوية أخذ بيد سعد بن أبي وقاص.فقال: يا أبا إسحاق إنا قوم قد أجفانا هذا الغزو عن الحج حتى كدنا أن ننسى بعض سننه فطف نطف بطوافك.قال: فلما فرغ أدخله دار الندوة فأجلسه معه على سريره، ثم ذكر علي بن أبي طالب فوقع فيه.فقال: أدخلتني دارك وأجلستني على سريرك،ثم وقعت في علي تشتمه ؟والله لأن يكون في إحدى خلاله الثلاث أحب إلي من أن يكون لي ما طلعت عليه الشمس، ولأن يكون لي ما قال۔۔۔۔۔۔۔، ثم نفض رداءه ثم خرج.
ابن کثیر الدمشقی، کتاب البدایہ و النہایہ، حلد7، صفحہ341، باب فضائل علی ابن ابی طالب
ترجمہ: ابو زرعہ الدمشقی عبداللہ بن ابی نجیح کے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جب معاویہ نے حج کیا تو وہ سعد بن ابی وقاص کا ہاتھ پکڑ کر دارالندوہ میں لے گیا اور اپنے ساتھ تخت پر بٹھایا۔ پھر علی ابن ابی طالب کا ذکر کرتے ہوئے انکی عیب جوئی کی۔ اس پر سعد بن ابی وقاص نے جواب دیا: "آپ نے مجھے اپنے گھر میں داخل کیا، اپنے تخت پر بٹھایا،پھر آپ نے علی ابن ابی طالب کے حق میں بدگوئی اور سب و شتم شروع کر دیا۔خدا کی قسم، اگر مجھے علی کے تین خصائص و فضائل میں سے ایک بھی ہو تو وہ مجھے اس کائنات سے زیادہ عزیز ہو جس پر سورج طلوع ہوتا ہے۔ کاش کہ نبی اللہ ص نے میرے حق میں یہ فرمایا ہوتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھر سعد بن ابی وقاص نے اپنی چادر جھٹکی اور وہاں سے نکل گئے۔"
نوٹ:
یہ صحیح روایت ہے۔ ایک راوی احمد بن خالد پر اعتراض کرنے کی کوشش کی ہے۔ مگر یہ راوی احمد بن خالد انتہائی ثقہ ہیں اور ان کی ضعیف ثابت کرنے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی۔ انکے متعلق ائمہ رجال کے اقوال:
الذھبی: امام، محدث، ثقہ [سر اعلام النبلاء جلد 9، صفحہ 539]
امام یحیی ابن معین: ثقہ [تہذیب الکمال جلد 1، صفحہ 301]
امام ابن حبان نے ان کا اپنی کتاب "الثقات" میں شامل کیا ہے [جلد 8، صفحہ 6]
امام ابن ماجہ نے احمد بن خالد سے روایات نقل کی ہیں اور سعودیہ کے شیخ البانی نے ان احادیث کو صحیح قرار دیا ہے [سنن ابن ماجہ، جلد 2، حدیث 3188]
سنن ابن ماجہ،
حدثنا علي بن محمد حدثنا أبو معاوية حدثنا موسى بن مسلم عن ابن سابط وهو عبد الرحمن عن سعد بن أبي وقاص قال قدم معاوية في بعض حجاته فدخل عليه سعد فذكروا عليا فنال منه فغضب سعد و قال تقول هذا لرجل سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول من كنت مولاه فعلي مولاه وسمعته يقول أنت مني بمنزلة هارون من موسى إلا أنه لا نبي بعدي وسمعته يقول لأعطين الراية اليوم رجلا يحب الله ورسوله
ترجمہ:
یعنی حج پر جاتے ہوئے سعد بن ابی وقاص کی ملاقات معاویہ سے ہوئی اور جب کچھ لوگوں نے علی کا ذکر کیا تو اس پر معاویہ نے علی کی بدگوئی کی۔ اس پر سعد بن ابی وقاص غضبناک ہو گئے اور کہا کہ تم علی کے متعلق ایسی بات کیوں کہتے ہو۔ میں نے رسول اللہ ص کو کہتے سنا ہے کہ جس جس کا میں مولا، اُس اُس کا یہ علی مولا، اور یہ کہ اے علی آپکو مجھ سے وہی نسبت ہے جو کہ ہارون ع کو موسی ع سے تھی سوائے ایک چیز کہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا، اور میں نے [رسول اللہ ص] سے یہ بھی سنا ہے کہ کل میں علم ایسے شخص کو دوں گا جو اللہ اور اور اسکے رسول سے محبت کرتا ہے۔
یہ بالکل صحیح الاسناد روایت ہے اور البانی صاحب نے اسے "سلسلة الأحاديث الصحيحة" میں ذکر کیا ہے۔
صلح میں امیر المومنین علیہ علیہ السلام کو گالی نہ دینے کی شرط
عجیب مظلومیت ۔۔۔ عجیب تاریخی حقیقت ہے کہ امام حسن علیہ السلام اس منحوس سلسلے کو روکنے کے لئے صلح نامے میں امیر المومنین کو برا بلا نہ کہنے کی شرط رکھتے ہیں لیکن یہ شرط جب قبول نہیں ہوتی تو آپ یہ شرط رکھتے ہیں کہ کم از کم ان کے حضور میں ایسا نہ کیا جائے ۔۔۔۔
: ابن عساکر نے تاریخ مدینہ الدمشق میں لکھتے ہیں:
اخبرنا أبو بكر محمد بن عبد الباقي أنا الحسن بن علي أنا محمد بن العباس أنا احمد بن معروف نا الحسين بن محمد بن سعد أنا أبو عبيد عن مجالد عن الشعبي وعن يونس بن أبي إسحاق عن أبيه وعن أبي السفر وغيرهم ۔۔۔۔۔۔۔ ولا يسب علي وهو يسمع ۔۔۔۔۔
ترجمہ: یعنی حسن بن علی نے جب معاویہ سے صلح کی تھی تو اس میں جو شرائط تھیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ "۔۔۔۔۔ اور علی ابن ابی طالب پر سب [گالیاں دینا ، برا بھلا کہنا] نہیں کیا جائے گا جب کہ وہ سن رہے ہوں۔۔۔۔۔
ابن عساکر نے یہ اس شرط کا ذکر تین روایات میں کیا ہے، جس میں سے دوسری روایت کے تمام راوی ثقہ ہیں اور یہ صحیح روایت ہے۔
۔۔۔ابن کثیر اپنی کتاب البدایہ و النہایہ میں لکھتے ہیں:
فاشترط أن يأخذ من بيت مال الكوفة خمسة آلاف ألف درهم، وأن يكون خراج دار أبجرد له، وأن لا يسب علي وهو يسمع
ترجمہ:[حسن] نے یہ شرائط رکھیں کہ کوفہ کے بیت المال سے پچاس لاکھ درھم کا خراج انہیں [اور انکی فوج] کے حوالے رکھا جائے اور دار ابجرد کا خراج بھی انہیں کو ملے اور یہ کہ علی ابن ابی طالب پر سب [گالیاں دینا، برا بھلا کہنا] نہ کیا جائے جبکہ وہ اسے سن سکتے ہوں۔
ابن كثير إسماعيل بن عمر بن كثير القرشي أبو الفداء،البداية والنهاية۔ ۔ج ۸ ص ۱۴: مكتبة المعارف - بيروت
علامہ ابن اثیر اپنی کتاب تاریخ الکاملمیں لکھتے ہیں:
وكان الذي طلب الحسن من معاوية أن يعطيه ما في بيت مال الكوفة، ومبلغه خمسة آلاف ألف، وخراج دار ابجرد من فارسن وأن لا يشتم علياً، فلم يجبه إلى الكف عن شتم علي، فطلب أن لا يشتم وهو يسمع، فأجابه إلى ذلك ثم لم يف له به أيضاً، وأما خراج دار ابجرد فإن أهل البصرة منعوه منه وقالوا: هو فيئنا لا نعطيه أحداً، وكان منعهم بأمر معاوية أيضاً.
ترجمہ:امام حسن نے امیر معاویہ سے جو امور طلب کئے تھے وہ یہ تھے کہ کوفے کے بیت المال کی تمام رقم جسکی مقدار پچاس لاکھ تھی اور فارس کے دار ابجرد کا خراج انہیں دیا جائے [تاکہ وہ اپنی فوج کا خرچ ادا کر سکیں]اور یہ کہ علی ابن ابی طالب پر سب و شتم نہ کیا جائے۔ معاویہ نے سب و شتم سے باز رہنے کو منظور نہیں کیا۔ اسپر امام حسن نے پھر طلب کیا کہ انکو ایسے وقت میں سب و شتم نہ کیا کریں
الكامل في التاريخ ،ج ۳ ص ۲۷۲: أبو الحسن علي بن أبي الكرم محمد بن محمد بن عبد الكريم الشيباني،دار النشر: دار الكتب العلمية - بيروت - 1415هـ، الطبعة: ط2، تحقيق: عبد الله القاضي
المختصر في أخبار البشر (1/ 126، ) :
امام الذھبی اپنی کتاب "العبر في خبر من غبر ، ج ۱ ص ۳۵" میں یہی روایت نقل کرتے ہیں کہ علی ابن ابی طالب پر سب و شتم نہ کیا جائے۔
ثم كتب إلى معاوية على أن يسلم إليه بيت المال وأن لا يسب عليًا بحضرته وأن يحمل إليه خراج فسا ودارابجرد كل سنة.
العبر في خبر من غبر۔ المؤلف : الذهبي محمد بن أحمد بن عثمان ،المحقق : أبو هاجر محمد السعيد بن بسيوني زغلول،الناشر : دار الكتب العلمية – بيروت
امام الذھبی نے سير أعلام النبلاء میں لکھا ہے ۔
ثُمَّ كَاتَبَ مُعَاوِيَةَ فِي الصُّلْحِ عَلَى أَنْ يُسِلِّمَ لَهُ ثَلاَثَ خِصَالٍ: يُسلِّمَ لَهُ بَيْتَ المَالِ فَيَقْضِي مِنْهُ دَيْنَهُ وَمَوَاعِيدَهُ وَيَتحمَّلَ مِنْهُ هُوَ وَآلُهُ، وَلاَ يُسَبَّ عَلِيٌّ وَهُوَ يَسَمَعُ،۔۔۔۔۔ سير أعلام النبلاء (5/ 256):
یعنی جس وقت امام حسن علیہ السلام سن رہے ہو اس وقت کم از کم امیر المومنین علی علیہ السلام کو برا بلا نہ کہنا ۔۔۔۔
ابن جریر طبری بھی یہ روایت نقل کرتے ہیں۔
وقد كان صالح الحسن معاوية على أن جعل له ما في بيت ماله وخرج دارا بجرد على ألا يشتم علي وهو يسمع۔۔ تاريخ الطبري (3/ 165 :
تاريخ مدينة دمشق میں بھی یہ روایت موجود ہے ؛۔۔۔۔۔ولا يسب علي وهو يسمع
تاريخ مدينة دمشق (13/ 264۔ إبن هبة الله علي بن الحسن الشافعي ، {م 571 }،تحقيق محب الدين العمري،الناشر دار الفكر 1995،مكان النشر بيروت
کہ امام حسن نے معاویہ سے اس شرط پر صلح کی کہ علی ابن ابی طالب پر سب و شتم نہ کیا جائے گا ایسے وقت میں جبکہ وہ اسے سن رہے ہوں۔
ابن [تاریخ ابن خلدون، جلد 2، صفحہ 648]:
فكتب إلى معاوية يذكر له النزول عن الأمر على أن يعطيه ما في بيت المال بالكوفة و مبلغه خمسة آلاف ألف و يعطيه خراج دار ابجرد من فارس و ألا يشتم عليا و هو يسمع
ترجمہ: یعنی امام حسن نے شرط رکھی کہ علی ابن ابی طالب کو گالیاں نہیں دی جائیں گی جبکہ وہ اسے سن سکتے ہوں۔
علامہ اسمعیل بن ابو الفداء اپنی تاریخ ابوالفداء جلد اول، صفحہ 648 پر لکھتے ہیں:
وكان الذي طلبه الحسن أن يعطيه ما في بيت مال الكوفة وخراج دارا بجرد من فارس وأن لا يسب علياً فلم يجبه إلى الكف عن سبّ علي فطلب الحسن أن لا يشتم علياً وهو يسمع فأجابه إِلى ذلكَ ثم لم يف له به
ترجمہ: یعنی علی ابن ابی طالب کو گالیاں نہیں دی جائیں گی جبکہ وہ اسے سن سکتے ہوں۔
جناب ام سلمہ کا سخت رد و عمل :
ابن عبد ربه الأندلسي نے العقد الفريد میں لکھا ہے:
۔ فأمسك معاوية عن لعنه حتى مات سعد. فلما مات لَعنه عَلَى المنبر، وكتب إلى عماله أن يَلعنوه على المنابر، ففعلوا. فكتبتْ أم سَلمة زوج النبيّ صلى عليه وسلم إلى معاوية: إنكم تلعن اللّه ورسولَه على منابركم، وذلك أنكم تلعنون عليّ بن أبي طالب ومن أحبّه، وأنا أشهد أن اللّه ۔ : العقد الفريد (2/ 127
"جب تک سعد زندہ رہا معاویہ نے بھی خاموشی اختیار کی جب سعد دنیا سے چلا گیا تو ممبر سے علی ابن ابی طالب پر لعن کرنا شروع کیا اور اپنے گورنروں اور حاکموں کو بھی ممبروں سے لعن کرنے کا حکم دیا ۔۔۔یہ صورت حال دیکھ کر جناب ام سلمہ نے معاویہ کو خط لکھا۔۔۔ تم لوگ[معاویہ]منبر رسول سے اللہ اور اسکے رسول پر لعن کر رہے ہو، اور یہ اسطرح کہ تم علی ابن ابی طالب پر لعن کر رہے ہو اور ہر اُس پر جو علی سے محبت کرتا ہے۔ اور میں گواہ ہوں کہ اللہ اور اسکا رسول علی سے محبت رکھتے تھے۔" مگر ام سلمہ سلام اللہ علیہا نے جو کچھ کہا کسی نے اسکی پرواہ نہ کی۔
ام المومنین حضرت ام سلمہ سلام اللہ علیہا کی سے کئی طریقوں سے امام احمد نے اپنی مسند میں نقل کی ہے۔ :
25523 حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ اَبِي بُكَيْرٍ، قَالَ حَدَّثَنَا اِسْرَائِيلُ، عَنْ اَبِي اِسْحَاقَ، عَنْ اَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْجَدَلِيِّ، قَالَ دَخَلْتُ عَلَى اُمِّ سَلَمَةَ فَقَالَتْ لِي اَيُسَبُّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيكُمْ قُلْتُ مَعَاذَ اللَّهِ اَوْ سُبْحَانَ اللَّهِ اَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ سَبَّ عَلِيًّا فَقَدْ سَبَّنِي.
اس روایت میں ام سلمہ سلام اللہ علیہا صحابہ کو علی ابن ابی طالب پر "سب" کرنے کو رسول اللہ ص پر "سب" کرنا قرار دے رہی ہیں۔
امام حاکم نے اپنی کتاب مستدرک میں نقل کی ہے
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ كَامِلٍ الْقَاضِي ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ سَعْدٍ الْعَوْفِيُّ ، ثنا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ ، ثنا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْجَدَلِيِّ ، قَالَ : دَخَلْتُ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا ، فَقَالَتْ لِي : أَيُسَبُّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ فِيكُمْ ؟ فَقُلْتُ : مُعَاذَ اللَّهِ ، أَوْ سُبْحَانَ اللَّهِ ، أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا ، فَقَالَتْ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : " مَنْ سَبَّ عَلِيًّا فَقَدْ سَبَّنِي " . هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الإِسْنَادِ ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ ، وَقَدْ رَوَاهُ بُكَيْرُ بْنُ عُثْمَانَ الْبَجَلِيُّ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ بِزِيَادَةِ أَلْفَاظٍ .
یہ روایت نقل کرنے کے بعد امام حاکم کہتے ہیں کہ یہ روایت "صحیح الاسناد" ہے۔
معاویہ کے گورنروں کا کھلے عام علی ابن ابی طالب پر سب و شتم کرنا
اور یہ سب خود معاویہ کی سیاست کا حصہ تھا اور اسی کے حکم سے ایسا کرتے تھے ،
طبری نے اپنی تاریخ طبری جلد 4، صفحه 188 میں لکھا ہے :
أن معاویة بن أبی سفیان لما ولى المغیرة بن شعبة الکوفة فی جمادى سنة 41 دعاه فحمد الله وأثنى علیه ثم قال : ... ولست تارکا إیصاءک بخصلة لا تتحم عن شتم على وذمه والترحم على عثمان والاستغفار له والعیب على أصحاب على والاقصاء لهم وترک الاستماع منهم ...
تاریخ ابو الفداء میں ہے ۔
وكان معاوية وعماله يدعون لعثمان في الخطبة يوم الجمعة ويسبون علياً ويقعون فيه
ترجمہ:
معاویہ اور اسکے گورنر جمعے کے خطبوں میں عثمان کی تعریف کرتے تھے اور علی کو گالیاں دیتے تھے۔
تاریخ ابو الفداء، جلد 1، صفحہ 120:
بلاذری نے انساب الاشراف جلد 5، ص 30 پر لکھا ہے :
کتب معاویة إلی المغیرة بن شعبة : أظهر شتم علی وتنقصه ...
معاویہ نے مغیرہ کو لکھا کہ وہ علی الاعلان علی پر سب و شتم کرئے اور ان کی برائی بیان کرئے ۔
ابن تیمیہ اپنی کتاب منہاج السنہ، جلد 6، صفحہ 201 پر لکھتا ہے:
وقد كان من شيعة عثمان من يسب عليا ويجهر بذلك على المنابر
ترجمہ:عثمان کے شیعہ [طرفدار] کھلے عام مسجدوں کے منبروں سے علی ابن ابی طالب کو گالیاں دیتے تھے۔
صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابہ۔۔۔۔۔۔
6382 - حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ، - يَعْنِي ابْنَ أَبِي حَازِمٍ - عَنْ أَبِي، حَازِمٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ اسْتُعْمِلَ عَلَى الْمَدِينَةِ رَجُلٌ مِنْ آلِ مَرْوَانَ - قَالَ - فَدَعَا سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ فَأَمَرَهُ أَنْ يَشْتِمَ عَلِيًّا - قَالَ - فَأَبَى سَهْلٌ فَقَالَ لَهُ أَمَّا إِذْ أَبَيْتَ فَقُلْ لَعَنَ اللَّهُ أَبَا التُّرَابِ . ۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ:
سہل روایت کرتے ہیں کہ مدینہ میں مروان کے خاندان میں سے ایک شخص حاکم ہوا اور اس نے سہل کو بلایا اورحکم دیا[فَأَمَرَهُ أَنْ يَشْتِمَ عَلِيًّا]کہ وہ علی ابن ابی طالب کو گالی دے۔ سہل نے انکار کیا۔ اس پر آوہ حاکم بولا کہ اگر تو گالی دینے سے انکار کرتا ہے تو کہہ لعنت ہو اللہ کی ابو تراب پر۔ ۔۔۔۔۔
اور مسند احمد بن حنبل میں ہے
«لمّا خرج معاویة من الکوفة استعمل المغیرة بن شعبة، قال: فاقام خطباء یقعون فی علی. قال: وأنا إلی جنب سعید بن زید بن عمرو بن نفیل. قال: فغضب فقام فأخذ بیدی فتبعته فقال: ألا تری إلی هذا الرجل الظالم لنفسه الذی یأمر بلعن رجل من ا هل الجنّة؟...».
ترجمہ:۔
عبد الله بن المازنی سے روایت ہے جب معاویہ نے کوفہ چھوڑا تو اس نے مغیرہ بن شعبتہ کو مقرر کیا اور مغیرہ نے ایسے خطیب مقرر کیے جو حضرت علی عہ کی توھین کرین۔
مسند ابن حنبل جلد 3 صفحہ 185 محقق شعیب الا ارنوط نے اس روایت کو حسن لکھا ہے۔
حجر بن عدی اور ان کے ساتھیوں کو امیر المومنین علیہ السلام پر لعن کرنے کا حکم
حجر بن عدی اور ان کے ساتھی کوفہ میں معاویہ کے گورنروں کی طرف سے امیر المومنین علیہ السلام کی شان میں گستاخی پر احتجاج کرتے تھے ،انہیں گرفتار کر کے دمشق کی طرف روانہ کیا گیا۔۔۔۔اور مقام عزار پر انہیں شہید کردیا گیا ۔۔۔ شہید کرنے سے پہلے معاویہ کے نمائندے نے معاویہ کا یہ پیغام انہیں دیا کہ اگر علی ابن ابی طالب سے اظہار برائت کر لے اور ان پر لعن کرئے تو ہم تمہیں آزاد کردیں گے ،اگر ایسا نہیں کیا تو سب کو قتل کریں گے ۔۔۔۔ مولی علی علیہ السلام کے ان جیالوں نے موت کو گلے لگانے کا عزم کیا اور سب شہید ہوئے ۔
فقال لهم رسول معاوية إنا قد أمرنا أن نعرض عليكم البراءة من على واللعن له فإن فعلتم تركناكم وإن أبيتم قتلناكم وإن أمير المؤمنين يزعم أن دماءكم قد حلت له بشهادة -
تاريخ الطبري ،ج ۳ص ۲۲۹، المؤلف : محمد بن جرير الطبري أبو جعفر الناشر : دار الكتب العلمية – بيروت الطبعة الأولى ، 1407۔
تاريخ مدينة دمشق ، علي بن الحسن إبن هبة الله بن عبد الله الشافعي سنة الوفاة 571 ،تحقيق محب الدين أبي سعيد عمر بن غرامة العمري ،الناشر دار الفكر ، سنة النشر 1995 ، مكان النشر بيروت، عدد الأجزاء 70
الكامل في التاريخ،3 /335،تأليف: أبو الحسن علي بن أبي الكرم الشيباني،دار النشر: دار الكتب العلمية - بيروت - 1415هـ، الطبعة: ط2، تحقيق: عبد الله القاضي۔
تاريخ ابن خلدون [3 /12] أنساب الأشراف [2 /167]
امیر المومنین علیہ السلام کے شیعوں کو قتل کرنے کا حکم
معاویہ کا اپنے گورنروں اور کمانڈروں کو امیرا المومنین علیہ کے شیعوں پر سختی کرنے ان معمولی بہانے انہیں قتل کرنے کا حکم ،اس سلسلے میں تاریخی کتابوں میں بہت سے شواہد موجود ہیں ہم ذیل میں بعض کی طرف مختصر اشارہ کرتے ہیں ۔
وكان معاوية يبعث الغارات فيقتلون من كان في طاعة علي ومن أعان على قتل عثمان—
الجزء المتمم لطبقات ابن سعد [1 /61] تاريخ دمشق [59 /119] سير أعلام النبلاء [3 /137]
وجه معاوية الضحاك بن قيس وأمره أن يمر بأسفل واقصة وأن يغير على كل من مر به ممن هو في طاعة على....
تاريخ الطبري [4 /104] تاريخ دمشق [10 /145] الكامل في التاريخ [2 /97] المنتظم [2 /127]
وبسر بن أرطأة وكان معاوية وجهه إلى اليمن والحجاز في أول سنة أربعين وأمره أن ينظر من كان في طاعة على فيوقع بهم ففعل ذلك /
الإصابة في تمييز الصحابة [1 /289] أسد الغابة [ص 113 الاستيعاب [ص 49
وأمره ؛ اقتل كل من كان في طاعة علي إذا امتنع من بيعتنا، وخذ ما وجدت لهم من مال- أنساب الأشراف [1 /366] تاريخ الطبري [4 /107]
دعا الناس إلى بيعة معاوية ۔۔۔، وقتل جماعة من شيعة علي.
أنساب الأشراف [1 /366] المنتظم [2 /128 الكامل في التاريخ [2 /100]
مندجہ بالا اسناد اس سلسلے کے کچھ نمونے ہیں ۔
یہی چند نمونے ہیں ۔ ان سے واضح طور پر یہ ثابت ہوتی ہے کہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو برا بلا کہنے کے سلسلے کا آغاز معاویہ کے دور حکومت میں ہوا وہ خود ، اس کے گورنر اور اس کے پیروکار اس سیاست پر سختی سے عمل کرتے تھے اور یہ سلسلہ عمر ابن عبد العزیز کے دور تک یعنی سنہ ۴۰ سے ۱۰۰ ہجری تک جاری رہا ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔
بني امية کے سارے حکام امير المؤمنين علی ابن طالب عليه السلام کو سب وشتم کرتے تھے:
جیساکہ معتبر روایات کے مطابق خود امیر المومنین علیہ السلام نے اس چیز کی خبر دی تھی کہ آپ کے آپ پر سب و شتم کرنے کا حکم دیا جائے گا ۔ہم ذیل میں بعض تاریخی اسناد کی طرف اشارہ کریں گے کہ جو اس بات پر دلیل ہے کہ مولا علی علیہ السلام نے جو خبر دی تھی وہ حقیقت پر مبنی تھی اور بعد میں جس طرح آپ نے فرمایا تھا ،ایسا ہی ہوا ۔
بنی امیہ کا جو بھی حاکم آتا وہ امير المؤمنين عليه السلام کو لعن کرتا تھا :
۱: حافظ ابن عساكر نے تاريخ مدينه دمشق میں لکھا ہے :
حدثنا خالد بن يزيد عن معاوية قال كان لا يقوم أحد من بني أمية إلا سب عليا فلم يسبه عمر فقال كثير عزة :
وليت فلم تشتم عليا ولم تخف بريا ولم تقنع سجية مجرم
وقلت فصدقت الذي قلت بالذي فعلت فأضحى راضيا كل مسلم .
تاريخ مدينه دمشق ، ج50 ، ص96 .
: جب بھی بنی امیہ کا کوئی حاکم آتا وہ علی علیہ السلام کو برا بلا کہتا ،لیکن عمر بن عبد العزيز نے ایسا نہیں کیا ۔ لہذا شاعر كثير العزة نے ان کی یوں تعریف کی :
تم جب حاکم بنا تو نے علی کو سب و شتم نہیں کیا اور تم نہ ڈرے ۔ تو اچھا آدمی ہے۔ تو نے مجرم لوگوں کے طریقے پر عمل نہیں کیا ۔۔۔تو نے جو کہا سچ کہا اور اس کو انجام بھی دیا اسی لئے سارے مسلمان اس کام سے راضی تھے ۔
۲: ابونعيم اصفهاني نے بھی "حلية الأولياء" میں بھی حافظ ابن عساكر کی روایت کو نقل کیا ہے :
ثنا خالد بن يزيد عن جعونة قال كان لا يقوم أحد من بني أمية إلا سب عليا فلم يسبه عمر بن عبد العزيز فقال كثير عزة :
وليت فلم تشتم عليا ولم تخف بريا ولم تتبع سجية مجرم
حلية الأولياء ، ابو نعيم ، (المتوفى: 430هـ) ج5 ، ص356 ، ط الثانيه ، دار الكتب العلمية ، بيروت ، 1423 هـ .
عمر بن عبد العزيز نے اس سلسلے کوروکنا چاہا
عمر بن عبد العزيز کے زمانے تک علي (عليه السلام) کو برا بلا کہنے کا سلسلہ جاری رہا :
۳: محمد بن سعد{متوفی 230ھ} نے الطبقات الكبري میں اور ذهبي نے سير اعلام النبلاء میں نقل کیا ہے :
أخبرنا علي بن محمد عن لوط بن يحيى الغامدي قال كان الولاة من بني أمية قبل عمر بن عبد العزيز يشتمون عليا رحمه الله فلما ولي عمر أمسك عن ذلك .
الطبقات الكبري ، محمد بن سعد ، ج5 ، ص393 و سير اعلام النبلاء ، ج5 ، ص147 .
عمر بن عبد العزیز سے پہلے بنی امیه کے سارے حاکم ، علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو سب و شتم کرتے تھے ؛ لیکن جب عمر بن عبد العزیز کی حکومت آئی تو اس نے اس کام کو انجام نہیں دیا .
۴: ذهبي نے بھی بني مروان کے حکام کے بارے میں لکھا : في آل مروان نصب ظاهر سوى عمر بن عبد العزيز ... .
عمربن عبد العزيز کے علاوہ بنی مروان کے حکام علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے دشمن تھے۔
سير اعلام النبلاء ، ج 5 ، ص113 ۔
۵:. مشہور تاریخ نگار إسماعيل بن أبي الفداء اس سلسلے میں لکھتا ہے :
كان خلفاء بني أمية يسبون علياً رضي الله عنه من سنة إِحدى وأربعين وهي السنة التي خلع الحسن فيها نفسه من الخلافة إلى أول سنة تسع وتسعين آخر أيام سليمان بن عبد الملك فلما ولي عمر أبطل ذلك وكتب إِلى نوابه بإبطاله ... .
تاريخ أبي الفداء ، فصل في ذكر إبطال عمر بن عبد العزيز سب علي بن أبي طالب علي المنابر ، ج1 ، ص287
۴۱ ہجری سے، جب حسن بن علی علیہما السلام نے خلافت سے دوری اختیار کی ، اس وقت سے ۹۹ ہجری تک بنی امیہ کے سارے حکام علی ابی طالب علیہ السلام کو برا بلا کہتے تھے اور یہ سلسلہ سليمان بن عبد الملك کے دور حکومت کے آخری ایام اور عمر بن عبد العزيز کے دور حکومت کے ابتدائی آیام تک جاری رہا ۔
۶: آلوسي کہ جو اہل سنت کے ایک نامور مفسر ہیں وہ آيه : «إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ ... » (النحل / 90) کی تفسير میں لکھتا ہے :
أقامها عمر بن عبد العزيز حين آلت الخلافة إليه مقام ما كانو بنو أمية غضب الله تعالى عليهم يجعلونه في أواخر خطبهم من سب علي كرم الله تعالى وجهه ولعن كل من بغضه وسبه وكان ذلك من أعظم مآثره رضي الله تعالى عنه .
روح المعاني في تفسير القرآن العظيم والسبع المثاني ، آلوسي ، ج7 ، ص456 ، ط الأولي ، دار الكتب العلمية ، بيروت ، 1422 هـ .
جس وقت عمر بن عبد العزيز خلیفہ بنا ان سے پہلے کے خلفاء { سب اللہ کے غیض و غضب کے مستحق قرار پائے} یہ سب اپنے خطبوں کے بعد علی علیہ السلام کو برا بلا کہتے تھے، عمر ابن ابی العزیز نے اس سے لوگوں کو منع کیا اور یہ اس کے نیک اور قابل فخر کاموں میں سے ہے ۔
۷: ابن خلدون نے اپنی تاریخ میں نقل کیا ہے :
وكان بنو أمية يسبون عليا فكتب عمر إلى الآفاق بترك ذلك .
تاريخ ابن خلدون ، ج3 ، ص75 .
بني اميه والے علی عليه السلام کو برا بلا کہتے تھے اور یہ سلسلہ عمر بن عبد العزيز کے دور تک باقی رہا ۔ اس نے مختلف علاقوں میں خط لکھنے کے ذریعے اس کام سے منع کیا ۔
۸: شيخ محمد بن علي ، مشهور به ابن العمراني (متوفى: 580هـ) نے الإنباء في تاريخ الخلفاء میں لکھتا ہے :
وكان بني امية كلهم يلعنون عليا ـ صلوات الله عليه وسلامه ـ علي المنبر ، فمذ ولي عمر بن عبد العزيز قطع تلك اللعنة .
الإنباء في تاريخ الخلفاء ، ابن العمراني ، ص51 ، ط الأولي ، دار الآفاق العربية ، مصر ، 1419 هـ .
بني اميه کے سارے حکام ، علي (عليه السلام) کو ممبروں سے لعن کرتے تھے یہاں تک کہ عمر بن عبد العزيز کا دور حکومت آیا اس نے اس چیز سے منع کیا ۔
۹: شهاب الدين احمد بن عبد الوهاب نويري نے " نهاية الأرب في فنون الأدب " بيعت عمر بن عبد والے فصل میں لکھا ہے :
وكان من أول ما ابتدأ به عمر بن عبد العزيز أن ترك سب علي بن أبي طالب رضي الله عنه على المنابر، وكان يسب في أيام بني أمية إلى أن ولي عمر فترك ذلك .
نهاية الأرب في فنون الأدب ، النويري ، ج21 ، ص216 ، ط الأولي ، دار الكتب العلمية ، بيروت ، 1424 هـ .
عمر بن عبد العزيز نے پہلا کام یہ کیا کہ ممبروں سے علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو برا بلا کہنے سے منع کیا بنی امیہ کے دور میں علي (عليه السلام) کو برا بلا کہتے تھے لیکن جب عمر بن عبد العزيز خليفه بنا تو اس نے یہ کام انجام نہیں دیا ۔
۱۰: حافظ جلال الدين سيوطي نے تاريخ الخلفاء میں لکھا :
كان بنو أمية يسبون علي بن أبي طالب في الخطبة فلما ولي عمر ابن عبد العزيز أبطله وكتب إلى نوابه بإبطاله .
تاريخ الخلفاء ، السيوطي ، ص194 ، ط الأولي ، مصر ، دار الفجر للتراث ، 1420 هـ .
بني اميه والے علي بن أبي طالب (عليه السلام) کو اپنے خطبوں میں برا بلا کہتے تھے لیکن جب عمر بن عبد العزیز خلیفہ بنا تو اس نے اس کام کو انجام نہیں دیا اور اپنے گونروں کو بھی اس کام کو انجام نہ دینے کا حکم دیا ۔
۱۱: مشہور تاریخ دان ابن أثير{ المتوفى: 630ھ} نے اس سلسلے میں لکھا ہے:
كان بنو أمية يسبون أمير المؤمنين علي بن أبي طالب عليه السلام إلى أن ولي عمر بن عبد العزيز فترك ذلك وكتب إلى العمال في الآفاق بتركه .
الكامل في التاريخ ، حوادث سال 99 هـ ، ج5 ، ص42 .
بني اميه والے علي کو دشنام دیتے اور انہیں برا بلا کہتے ؛ یہاں تک کہ عمر بن عبد العزیز کی حکومت آئی تو اس نے ایسا نہیں کیا اور اپنے گورنروں اور حکومتی نمائندوں کو اس سے منع کرنےکے لئے خط لکھا ۔
۱۲: خير الدين زركلي نے اپنی كتاب ' 'الأعلام" میں عمر بن عبد العزيز کے زندگی نامے میں لکھا ہے :
وولي الخلافة بعهد من سليمان سنة 99 ه ، فبويع في مسجد دمشق . وسكن الناس في أيامه ، فمنع سب علي بن أبي طالب ( وكان من تقدمه من الأمويين يسبونه على المنابر ) .
الأعلام ، خير الدين الزركلي ، ج 5 ، ص50 .
عمر بن عبد العزيز ، 99 هـ کو سليمان کے بعد خلیفہ بنا ، لوگوں نے دمشق کی مسجد میں اس کی بیعت کی۔ لوگ اس کے دور حکومت میں آرام اور سکون سے رہے اور انہوں نے علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو ممبروں سے سب و شتم کرنے سے منع کیا جبکہ اس سے پہلے کے بنی امیہ کے حکام کا طریقہ کار ممبروں سے انہیں برا بلا کہنا تھا ۔
مغيرة بن شعبة اور سبّ امير المؤمنين :
خوارزمي کہ جو اہل سنت کے مشهور تاریخ نگار ہے وہ مقتل الحسين عليه السلام میں لکھتا ہے :
ایک جلسہ کہ جو امام حسن علیہ السلام اور معاویہ کی موجودگی میں ہوا اس میں بنی امیہ والے ایک ایک کر کے اٹھے اور جو منہ میں آیا حضرت علی علیہ السلام کے خلاف کہہ دیا، یہاں تک کہ جب مغیرہ {اللہ کی لعنت ہو اس پر } کی باری آئی تو وہ اٹھا اور اس طرح بولنا شروع کیا :
إن علياً ناصب رسول الله صلي الله عليه وسلم في حياته ، وأجلب عليه قبل موته وأراد قتله ، فعلم ذلك من أمره رسول الله ، ثم كره أن يبايع أبا بكر حتي أتي به قوداً ، ثم نازع عمر حتي همّ أن يضرب عنقه ، ثم طعن علي عثمان حتي قتله ، و قد جعل الله سلطاناً لولي المقتول في كتابه المنزل ، فمعاوية ولي المقتول بغير حق ، فلو قتلناك وأخاك كان من الحق ، فو الله ما دم ولد علي عندنا بخير من دم عثمان ، و ما كان الله ليجمع فيكم الملك مع النبوة .
مقتل الحسين ، ج1 ، ص170 .
علي (عليه السلام) نے پيامبر (صلي الله عليه وآله وسلم) کی زندگی میں ان سے دشمنی کی {نعوذ باللہ }اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی میں انہیں قتل کرنا چاہا۔ رسول اللہ صلي الله عليه وآله وسلم اس سے باخبر ہوئے ۔ آپ کے بعد ابوبکر کی بیعت نہیں کی لیکن اس کو مجبور کر کے بیعت کے لئے لایا گیا اور عمر مقابلے کے لئے اٹھا اور قریب تھا عمر ان کی گردن اڑا دیتا ۔پھر بعد میں عثمان کی برائی بیان کرنا شروع کیا یہاں تک کہ لوگ اس کے خلاف اٹھے اور وہ قتل ہوا۔ اللہ نے قرآن میں ہر قتل ہونے والے کے لئے ایک ولی قرار دیا ہے تاکہ اس کے خون کا بدلہ لیا جائے ، معاویہ عثمان کے ولی اور وارث ہے لہذا تجھے {امام حسن علیہ السلام سے مخاطب ہوکر }اور تیرے بھائی کو قتل کرئے تو تم لوگ اس کے مستحق ہیں۔ اللہ کی قسم علی کے بیٹوں کے خون کی قیمت ہمارے نذدیک عثمان کے خون سے قیمتی نہیں ہے۔ اللہ نے نبوت اور بادشاہت دونوں کو تم لوگوں میں ہی قرار نہیں دیا ہے ۔
معاویہ کا خصوصی گورنر مغيرة بن شعبه اور سب و شتم
۔ ابن خلدون نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے :
كان المغيرة بن شعبة أيام امارته على الكوفة كثيرا ما يتعرض لعلى في مجالسه وخطبه ويترحم على عثمان ويدعو له .
تاريخ ابن خلدون۔ 3/ 12 ۔ وفاة المغيرة
مغيرة بن شعبه ،كوفه میں اپنی حکومت کے دوران اپنے خطبوں اور جلسوں میں علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو برا بلا کہتے تھے اور عثمان پر رحمت پر اور اس کی مغفرت کے لئے دعا کرتا۔
ذهبي نے سير اعلام النبلاء میں لکھا ہے :
كان المغيرة ينال في خطبته من علي ، وأقام خطباء ينالون منه .
سر اعلام النبلاء ، ج3 ، ص31 . یشتمون علیا
مغيره اپنے خطبوں میں علي (عليه السلام) کو برا بلا کہتا تھا اور خطیبوں کو حضرت علی علیہ السلام کے خلاف برا بلا کہنے کے لئے مامور کرتا تھا ۔
مروان اور بنی مروان والے امير المؤمنين (عليه السلام) کو برا بلا کہتے :
ابن عساكر نے تاريخ مدينه دمشق میں اور احمد بن حنبل نے العلل میں لکھا ہے :
عن ابن عون عن عمير بن إسحاق قال كان مروان بن الحكم أميرا علينا ست سنين فكان يسب عليا كل جمعة على المنبر ثم عزل فاستعمل سعيد بن العاص سنتين فكان لا يسبه ثم عزل وأعيد مروان فكان يسبه فقيل يا حسن ألا تسمع ما يقول هذا فجعل لا يرد شيئا قال وكان حسن يجئ يوم الجمعة فيدخل في حجرة النبي ( صلى الله عليه وسلم ) فيقعد فيها فإذا قضيت الخطبة خرج فصلى ثم رجع إلى أهله .
تاريخ مدينه دمشق ، ج57 ، ص243 و العلل ، احمد بن حنبل ، ج3 ، ص176 .
عمير بن اسحاق کہتا ہے : مروان حكم جس نے چھے سال ہم پر حکومت کی وہ ہر جمعہ کو ممبر سے علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو برا بلا کہتا تھا ۔پھر اس کو ہٹایا اور سعید بن عاص ہمارا حاکم بنا لیکن وہ علی کو برا بلا نہیں کہتا تھا لہذا اس کو ہٹا کر دوبارہ مروان کو حاکم بنایا اور اس نے پھر سے علی علیہ السلام کو بر بلا کہنا شروع ۔امام حسن مجتبي (عليه السلام) سے کسی نے کہا: کیا آپ نہیں سن رہے ہیں کہ یہ کیا کہہ رہا ہے ؟ امام نے توجہ نہیں دی ، امام حسن علیہ السلام جمعہ کو مسجد تشریف لاتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کمرے میں تشریف لے جاتے اور وہی بیٹھ جاتے ،خطبہ ختم ہونے کے بعد باہر آتے اور نماز پڑھتے اور گھر واپس تشریف لے جاتے.
سيوطي نے تاريخ الخلفاء میں لکھا ہے :
عن عمير بن إسحاق قال: كان مروان أميراً علينا فكان يسب علياً كل جمعة على المنبر وحسن يسمع فلا يرد شيئاً ثم أرسل إليه رجلا يقول له بعلي وبعلي وبعلي وبك وبك وما وجدت مثلك إلا مثل البغلة يقال لها من أبوك؟ فتقول أمي الفرس فقال له الحسن: أرجع إليه فقل له إني والله لا أمحو عنك شيئاً مما قلت بأن أسبك ولكن موعدي وموعدك الله .
تاريخ الخلفاء ، ترجمه امام حسن عليه السلام .
عمير بن بن اسحاق سے نقل ہوا ہے : ہمارا حاکم اور گورنر مروان حکم تھا وہ ہر جمعہ کو ممبر سے خطبے میں علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو برا بلا کہتا لیکن امام حسن علیہ السلام یہ سب سنتے اور کچھ نہیں فرماتے ،مروان نے کسی کو امام کے پاس بھیجا تاکہ امام کے سامنے امام کی اور ان کے والد کی برائی کرئے،اس نے امام سے کہا تجھ جیسا گھوڑا اور خچر نہیں دیکھا {نعوذ بااللہ} اس سے پوچھا تیر باپ کون ہے ؟ اس نے کہا : گھوڑا ۔ امام حسن مجتبی علیہ السلام نے فرمایا : جاو مروان سے کہو میں تجھے جواب نہیں دوں گا، تیری طرح گالی نہیں دوں گا تاکہ تیرا گناہ کم ہوجائے۔ روز قیامت اللہ کے حضور میری اور تیری ملاقات ہوگی۔
سب جگہ ممبروں سے علی علیہ السلام پر لعن و طعن :
ياقوت حموي { المتوفى: 626ھ} ، کہ جو اہل سنت کے مشہور تاریخ دان ہے وہ لکھتا ہے :
لعن علي بن أبي طالب ، رضي الله عنه ، على منابر الشرق والغرب ... منابر الحرمين مكة والمدينة .
معجم البلدان ، ج3 ، ص191 .
علي (عليه السلام) پر مشرق ، مغرب اور مکہ اور مدینہ کے ممبروں سے لعن طعن کرتے تھے ۔
۷۰ ہزار ممبروں سے علی علیہ السلام پر لعن طعن :
زمخشري ، کہ جو اہل سنت کے مشہور مفسر اور اديب ہیں ،لکھتے ہیں :
إنّه كان فى أيّام بنى اميّة أكثر من سبعين ألف منبر يلعن عليها علىّ بن أبى طالب بما سنّه لهم معاوية من ذلك.
ربيع الأبرار ، ج 2 ، ص186 و النصايح الكافية ، محمد بن عقيل ، ص79 به نقل از سيوطي .
بنی امیہ کے دور میں ۷۰ ہزار ممبروں سے علی علیہ السلام پر لعن و طعن کیا جاتا تھا اور یہ معاویہ کی بنائی ہوئی سنت تھی .
علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو برا بلا کہنے کی روایات متواتر ہیں :
شيخ محمود سعيد بن ممدوح ، امير المؤمنين عليه السلام کو سب و شتم اور ان پر لعن و طعن کے سلسلے میں روایات اور واقعات کو ذکر کرنے کے بعد لکھتا ہے :
الآثار في هذه الجريمة البشعة وأخبارها الشنيعة متواترة ، وهذه عظيمة تصغر عندها العظائم ، وجريمة تصغر عندها الجرائم وشنيعة تتلاشي أمام بشاعتها الشنائع .
غاية التبجيل ، محمود سعيد ، ص283 ، ط الأولي ، مكتبة الفقيه ، الإمارات ، 1425 هـ .
اس برے اور مجرمانہ کام کے دلايل اور شواهد بہت زیادہ اور متواتر ہیں ،کہا جاسکتا ہے کہ یہ برا عمل اس حد تک بڑا جرم اور برا کام ہے کہ دوسرے جرائم اور برے کام اس کے مقابل میں چھوٹا اور کم اہمیت ہے ۔
سب و شتم ،امیر المومنین علیہ السلام کے دشمنوں سے تقرب کا وسیلہ
اهل بيت عليهم السلام کے دشمنوں کے قریب ہونے کے لئے اہل بیت علیہم السلام کی برائی :
قال أخبرنا مالك بن إسماعيل قال حدثنا سهل بن شعيب النهمي وكان نازلا فيهم يؤمهم عن أبيه عن المنهال يعني بن عمرو قال دخلت على علي بن حسين فقلت كيف أصبحت أصلحك الله فقال ما كنت أرى شيخا من أهل المصر مثلك لا يدري كيف أصبحنا فأما إذ لم تدر أو تعلم فسأخبرك أصبحنا في قومنا بمنزلة بني إسرائيل في آل فرعون إذ كانوا يذبحون أبناءهم ويستحيون نساءهم وأصبح شيخنا وسيدنا يُتقرب إلى عدونا بشتمه أو سبه على المنابر .
الطبقات الكبري ، محمد بن سعد ، ج 5 ، ص220 و تهذيب الكمال ، مزي ، ج 20 ، ص400 ترجمه امام علي بن الحسين و المنتخب من ذيل المذيل ، محمد بن جرير طبري ، ص120 .
منهال بن عمرو کہتا ہے : میں علی بن الحسین ( امام سجاد علیه السلام ) کے پاس گیا اور ان سے عرض کیا : اللہ آپ کو سلامت رکھے ،آپ نے کیسے صبح کی {آپ کی حالت کیسی ہے} امام نے فرمایا : میرا ایسا خیال نہیں تھا کہ شہر کے کسی بزرگ اور بڑے کو ہماری حالت کا علم نہ ہو ، اب جو تجھے معلوم نہیں تو میں بتا دیتا ہوں ، ہماری حالت اپنی قوم میں ایسا ہے جیسے فرعونیوں کے پاس بنی اسرائیل کی حالت تھی ان کے فرزندوں کو قتل کرتے تھے اور ان کی عورتوں کو زندہ رکھتے تھے اور ہمارے دشمنوں سے قریب ہونے کے لئے ہمارے سردار { علی ابن ابی طالب ع } کی شان میں توہین کرتے ہیں اور برا بلا کہے جاتے ہیں۔
امير المؤمنين (عليه السلام) فضائل اور ان کو سب وشتم کرنا قابل جمع نہیں ہے:
امام محمد بن ابراهيم الوزير اليماني بعض راویوں کی طرف سے اہل بیت کے فضائل نقل کرنے کے سلسلے میں لکھتا ہے :
روايتهم لفضائل علي عليه السلام وفضائل أهل البيت في أيام بني امية وهو عليه السلام ـ حاشا مع ذلك ـ يُلعنُ علي المنابر ولا يروي فضائله إلا من خاطر بروحه .
العواصم والقواسم في الذب عن سنة أبي القاسم ، ابن الوزير ، ج2 ، ص400 ، ط الثالثة ، مؤسسه الرسالة ، بيروت ، 1415 هـ .
بنی امیہ کے دور میں علي اور اهل بيت (عليهم السلام) کے فضائل کی بات کرنا ممکن نہیں تھا ، لیکن ممبروں سے ان پر لعن و طعن کیا جاتا تھا لہذا ان کے دور میں یہ دونوں قابل جمع نہیں تھا ۔
بني اميه والے سرزنش کے مستحق ہیں :
ڈاکٹر فرحان المالكي کہتے ہیں :
فبنو أمية اذن يستحقون الذم لأنهم لم يغسموا ألسنتهم في البحث فقط ، وإنما تجاوزوا ذلك إلي اللعن علي المنابر وسفك الدماء ، و فرضوا هذا الظلم علي الأمة حتي جاءت الأجيال تعتقد أنهم مأجورون علي هذا !
مع سليمان العلوان في معاوية ، ص35 .
بنی امیہ والے سرزنش کے مستحق ہے ؛ کیونکہ انہوں نے صرف علی ابن ابی طالب ع کو برا بلا کہنے پر اکتفاء نہیں کیا ؛ بلکہ ممبروں سے بھی آپ (عليه السلام) پر لعن طعن کیا اور اہل بیت اور ان کے چاہنے والوں کے خون بہایا ہے اور اس ظلم کو سب کے لئے ضروری قرار دیا ۔ یہاں تک کہ بنی امیہ والے اپنی بعد کی نسلوں کو بھی اس کام کی وجہ سے اجر و ثواب کا مستحق قرار دیتے تھے۔
بنی امیہ کی حکومت امير المؤمنين عليه السلام کو بلا بلا کہنے پر ہی قائم تھی :
ابن عساكر نے امام سجاد عليه السلام سے نقل کیا ہے :
قال مروان بن الحكم ما كان في القوم أحد أدفع عن صاحبنا من صاحبكم يعني عليا عن عثمان قال قلت فما لكم تسبونه على المنبر قال لا يستقيم الأمر إلا بذلك.
تاريخ مدينة دمشق ، ج42 ، ص 438 و الصواعق المحرقة ، ابن حجر هيثمي ، ص 33 و النصائح الكافية ، محمد بن عقيل ، ص 114 از دار قطني و شرح نهج البلاغة ، ج13 ، ص220 .
مروان بن حکم نے مجھ سے کہا : لوگوں میں کوئی جتنا اپ کے صاحب { حضرت علی} سے دفاع کرنے والے تھے اتنا ہمارے صاحب {عثمان } سے دفاع کرنے والے نہ تھے ۔ میں نے اس سے پوچھا تو پھر کیوں ممبروں سے انہیں برا بلا کہتے ہو ؟ اس نے جواب دیا : یہ نہ ہو تو حکومت ختم ہوجاتی ہے ۔
بلاذري لکھتا ہے :
قال مروان لعلي بن الحسين : ما كان أحد أكف عن صاحبنا من صاحبكم . قال : فلم تشتمونه على المنابر ؟ ! ! قال : لا يستقيم لنا هذا إلا بهذا ! ! .
أنساب الأشراف ، ص 184.
مروان نے علي بن الحسين علیہما السلام سے کہا : کوئی ایسا نہیں تھا کہ جو اپ کے صاحب کی طرح ہمارے صاحب سے دفاع کرئے ؛ علی بن الحسین نے جواب میں فرمایا : تو پھر کیوں ممبروں سے ان پر لعن طعن کرتے ہو ؟ اس نے کہا : اس کے بغیر ہمارا کام ہی نہیں چلتا۔
امير المؤمنين (عليه السلام) کی برائی بیان کرتے وقت لگنت زبان:
ابن أثير اور بلاذري نے عبد الله بن عبيد الله سے نقل کیا ہے :
وكان أبي إذا خطب فنال من علي رضي الله عنه تلجلج فقلت يا أبت إنك تمضي في خطبتك فإذا أتيت على ذكر علي عرفت منك تقصيرا ؟ قال : أو فطنت لذلك ؟ قلت : نعم . فقال يا بني إن الذين حولنا لو يعلمون من علي ما نعلم تفرقوا عنا إلى أولاده .
الكامل في التاريخ ، حوادث سال 100 هـ ، ج5 ، ص42 و انساب الأشراف ، ج8 ، ص195 .
میرا بابا جب بھی خطبہ دیتا اور اس میں علي (عليه السلام) کے خلاف بات کرتا تو اس کی زبان میں لگنت پیدا ہوجاتی ، میں نے اس سے پوچھا :کیا وجہ ہے جب خطبے میں علي (عليه السلام) کے خلاف کچھ کہنا چاہتا ہے تو بہت سخت انداز میں بات کرتے ہو اور زبان لڑکھڑا جاتی ہے؟ باپ نے کہا : کیا تو نے اس کو محسوس کیا ؟ کہا: ہاں ۔ پھر کہا میرے بیٹے! جو فضائل علی ابن ابی طالب کے بارے میں ہم جانتے ہیں اگر لوگوں کو پتہ چل جائے تو ہم سے لوگ دور بھاگیں گے اور سب علی علیہ السلام کے بیٹوں کے پاس چلے جائیں گے۔
سب و شتم کو رواج دینے والا اصلی سیاست مدار
گزشتہ صفحات میں ہم نے بنی امیہ کے دور کے حاکموں میں رائج اس انتہائی بری سنت کی طرف اشارہ کیا ۔۔ اب ہم ذیل میں اس بری سنت اور بدعت کی کا اصلی بانی معاویہ اور اس کی حکومت ہونے پر بعض شواہد پیش کرتے ہیں ۔
خود معاویہ اس کا اصلی محرک تھا ۔
صحیح مسلم، کتاب الفضائل الصحابہ، باب من فضائل علی بن ابی طالب۔
- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ، - وَتَقَارَبَا فِي اللَّفْظِ - قَالاَ حَدَّثَنَا حَاتِمٌ، - وَهُوَ ابْنُ إِسْمَاعِيلَ - عَنْ بُكَيْرِ بْنِ مِسْمَارٍ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ أَمَرَ مُعَاوِيَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ سَعْدًا فَقَالَ مَا مَنَعَكَ أَنْ تَسُبَّ أَبَا التُّرَابِ فَقَالَ أَمَّا مَا ذَكَرْتُ ثَلاَثًا قَالَهُنَّ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَلَنْ أَسُبَّهُ لأَنْ تَكُونَ لِي ۔۔۔
ترجمہ: معاویہ نے سعد کو حکم [أَمَرَ مُعَاوِيَةُ] دیتے ہوئے کہا کہ تمہیں کس چیز نے روکا ہے [مَا مَنَعَكَ] کہ تم ابو تراب [یعنی علی ابن ابی طالب] پر سب نہ کرو [سب: گالیاں دینا ، برا بھلا کہنا]۔ اس پر سعد نے کہا میں نے رسول ص سے علی کے متعلق تین ایسی باتیں سنی ہیں کہ جس کے بعد میں کبھی علی پر سب [گالیاں دینا، برا بھلا کہنا] نہیں کہہ سکتا ۔۔۔
ابن کثیر الدمشقی۔۔۔۔۔۔وقال أبو زرعة الدمشقي: ثنا أحمد بن خالد الذهبي أبو سعيد، ثنا محمد بن إسحاق، عن عبد الله بن أبي نجيح، عن أبيه قال: لما حج معاوية أخذ بيد سعد بن أبي وقاص.فقال: يا أبا إسحاق إنا قوم قد أجفانا هذا الغزو عن الحج حتى كدنا أن ننسى بعض سننه فطف نطف بطوافك.قال: فلما فرغ أدخله دار الندوة فأجلسه معه على سريره، ثم ذكر علي بن أبي طالب فوقع فيه.فقال: أدخلتني دارك وأجلستني على سريرك،ثم وقعت في علي تشتمه ؟والله لأن يكون في إحدى خلاله الثلاث أحب إلي من أن يكون لي ما طلعت عليه الشمس، ولأن يكون لي ما قال۔۔۔۔۔۔۔، ثم نفض رداءه ثم خرج.
ابن کثیر الدمشقی، کتاب البدایہ و النہایہ، حلد7، صفحہ341، باب فضائل علی ابن ابی طالب
ترجمہ: ابو زرعہ الدمشقی عبداللہ بن ابی نجیح کے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جب معاویہ نے حج کیا تو وہ سعد بن ابی وقاص کا ہاتھ پکڑ کر دارالندوہ میں لے گیا اور اپنے ساتھ تخت پر بٹھایا۔ پھر علی ابن ابی طالب کا ذکر کرتے ہوئے انکی عیب جوئی کی۔ اس پر سعد بن ابی وقاص نے جواب دیا: "آپ نے مجھے اپنے گھر میں داخل کیا، اپنے تخت پر بٹھایا،پھر آپ نے علی ابن ابی طالب کے حق میں بدگوئی اور سب و شتم شروع کر دیا۔خدا کی قسم، اگر مجھے علی کے تین خصائص و فضائل میں سے ایک بھی ہو تو وہ مجھے اس کائنات سے زیادہ عزیز ہو جس پر سورج طلوع ہوتا ہے۔ کاش کہ نبی اللہ ص نے میرے حق میں یہ فرمایا ہوتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھر سعد بن ابی وقاص نے اپنی چادر جھٹکی اور وہاں سے نکل گئے۔"
نوٹ:
یہ صحیح روایت ہے۔ ایک راوی احمد بن خالد پر اعتراض کرنے کی کوشش کی ہے۔ مگر یہ راوی احمد بن خالد انتہائی ثقہ ہیں اور ان کی ضعیف ثابت کرنے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی۔ انکے متعلق ائمہ رجال کے اقوال:
الذھبی: امام، محدث، ثقہ [سر اعلام النبلاء جلد 9، صفحہ 539]
امام یحیی ابن معین: ثقہ [تہذیب الکمال جلد 1، صفحہ 301]
امام ابن حبان نے ان کا اپنی کتاب "الثقات" میں شامل کیا ہے [جلد 8، صفحہ 6]
امام ابن ماجہ نے احمد بن خالد سے روایات نقل کی ہیں اور سعودیہ کے شیخ البانی نے ان احادیث کو صحیح قرار دیا ہے [سنن ابن ماجہ، جلد 2، حدیث 3188]
سنن ابن ماجہ،
حدثنا علي بن محمد حدثنا أبو معاوية حدثنا موسى بن مسلم عن ابن سابط وهو عبد الرحمن عن سعد بن أبي وقاص قال قدم معاوية في بعض حجاته فدخل عليه سعد فذكروا عليا فنال منه فغضب سعد و قال تقول هذا لرجل سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول من كنت مولاه فعلي مولاه وسمعته يقول أنت مني بمنزلة هارون من موسى إلا أنه لا نبي بعدي وسمعته يقول لأعطين الراية اليوم رجلا يحب الله ورسوله
ترجمہ:
یعنی حج پر جاتے ہوئے سعد بن ابی وقاص کی ملاقات معاویہ سے ہوئی اور جب کچھ لوگوں نے علی کا ذکر کیا تو اس پر معاویہ نے علی کی بدگوئی کی۔ اس پر سعد بن ابی وقاص غضبناک ہو گئے اور کہا کہ تم علی کے متعلق ایسی بات کیوں کہتے ہو۔ میں نے رسول اللہ ص کو کہتے سنا ہے کہ جس جس کا میں مولا، اُس اُس کا یہ علی مولا، اور یہ کہ اے علی آپکو مجھ سے وہی نسبت ہے جو کہ ہارون ع کو موسی ع سے تھی سوائے ایک چیز کہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا، اور میں نے [رسول اللہ ص] سے یہ بھی سنا ہے کہ کل میں علم ایسے شخص کو دوں گا جو اللہ اور اور اسکے رسول سے محبت کرتا ہے۔
یہ بالکل صحیح الاسناد روایت ہے اور البانی صاحب نے اسے "سلسلة الأحاديث الصحيحة" میں ذکر کیا ہے۔
صلح میں امیر المومنین علیہ علیہ السلام کو گالی نہ دینے کی شرط
عجیب مظلومیت ۔۔۔ عجیب تاریخی حقیقت ہے کہ امام حسن علیہ السلام اس منحوس سلسلے کو روکنے کے لئے صلح نامے میں امیر المومنین کو برا بلا نہ کہنے کی شرط رکھتے ہیں لیکن یہ شرط جب قبول نہیں ہوتی تو آپ یہ شرط رکھتے ہیں کہ کم از کم ان کے حضور میں ایسا نہ کیا جائے ۔۔۔۔
: ابن عساکر نے تاریخ مدینہ الدمشق میں لکھتے ہیں:
اخبرنا أبو بكر محمد بن عبد الباقي أنا الحسن بن علي أنا محمد بن العباس أنا احمد بن معروف نا الحسين بن محمد بن سعد أنا أبو عبيد عن مجالد عن الشعبي وعن يونس بن أبي إسحاق عن أبيه وعن أبي السفر وغيرهم ۔۔۔۔۔۔۔ ولا يسب علي وهو يسمع ۔۔۔۔۔
ترجمہ: یعنی حسن بن علی نے جب معاویہ سے صلح کی تھی تو اس میں جو شرائط تھیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ "۔۔۔۔۔ اور علی ابن ابی طالب پر سب [گالیاں دینا ، برا بھلا کہنا] نہیں کیا جائے گا جب کہ وہ سن رہے ہوں۔۔۔۔۔
ابن عساکر نے یہ اس شرط کا ذکر تین روایات میں کیا ہے، جس میں سے دوسری روایت کے تمام راوی ثقہ ہیں اور یہ صحیح روایت ہے۔
۔۔۔ابن کثیر اپنی کتاب البدایہ و النہایہ میں لکھتے ہیں:
فاشترط أن يأخذ من بيت مال الكوفة خمسة آلاف ألف درهم، وأن يكون خراج دار أبجرد له، وأن لا يسب علي وهو يسمع
ترجمہ:[حسن] نے یہ شرائط رکھیں کہ کوفہ کے بیت المال سے پچاس لاکھ درھم کا خراج انہیں [اور انکی فوج] کے حوالے رکھا جائے اور دار ابجرد کا خراج بھی انہیں کو ملے اور یہ کہ علی ابن ابی طالب پر سب [گالیاں دینا، برا بھلا کہنا] نہ کیا جائے جبکہ وہ اسے سن سکتے ہوں۔
ابن كثير إسماعيل بن عمر بن كثير القرشي أبو الفداء،البداية والنهاية۔ ۔ج ۸ ص ۱۴: مكتبة المعارف - بيروت
علامہ ابن اثیر اپنی کتاب تاریخ الکاملمیں لکھتے ہیں:
وكان الذي طلب الحسن من معاوية أن يعطيه ما في بيت مال الكوفة، ومبلغه خمسة آلاف ألف، وخراج دار ابجرد من فارسن وأن لا يشتم علياً، فلم يجبه إلى الكف عن شتم علي، فطلب أن لا يشتم وهو يسمع، فأجابه إلى ذلك ثم لم يف له به أيضاً، وأما خراج دار ابجرد فإن أهل البصرة منعوه منه وقالوا: هو فيئنا لا نعطيه أحداً، وكان منعهم بأمر معاوية أيضاً.
ترجمہ:امام حسن نے امیر معاویہ سے جو امور طلب کئے تھے وہ یہ تھے کہ کوفے کے بیت المال کی تمام رقم جسکی مقدار پچاس لاکھ تھی اور فارس کے دار ابجرد کا خراج انہیں دیا جائے [تاکہ وہ اپنی فوج کا خرچ ادا کر سکیں]اور یہ کہ علی ابن ابی طالب پر سب و شتم نہ کیا جائے۔ معاویہ نے سب و شتم سے باز رہنے کو منظور نہیں کیا۔ اسپر امام حسن نے پھر طلب کیا کہ انکو ایسے وقت میں سب و شتم نہ کیا کریں
الكامل في التاريخ ،ج ۳ ص ۲۷۲: أبو الحسن علي بن أبي الكرم محمد بن محمد بن عبد الكريم الشيباني،دار النشر: دار الكتب العلمية - بيروت - 1415هـ، الطبعة: ط2، تحقيق: عبد الله القاضي
المختصر في أخبار البشر (1/ 126، ) :
امام الذھبی اپنی کتاب "العبر في خبر من غبر ، ج ۱ ص ۳۵" میں یہی روایت نقل کرتے ہیں کہ علی ابن ابی طالب پر سب و شتم نہ کیا جائے۔
ثم كتب إلى معاوية على أن يسلم إليه بيت المال وأن لا يسب عليًا بحضرته وأن يحمل إليه خراج فسا ودارابجرد كل سنة.
العبر في خبر من غبر۔ المؤلف : الذهبي محمد بن أحمد بن عثمان ،المحقق : أبو هاجر محمد السعيد بن بسيوني زغلول،الناشر : دار الكتب العلمية – بيروت
امام الذھبی نے سير أعلام النبلاء میں لکھا ہے ۔
ثُمَّ كَاتَبَ مُعَاوِيَةَ فِي الصُّلْحِ عَلَى أَنْ يُسِلِّمَ لَهُ ثَلاَثَ خِصَالٍ: يُسلِّمَ لَهُ بَيْتَ المَالِ فَيَقْضِي مِنْهُ دَيْنَهُ وَمَوَاعِيدَهُ وَيَتحمَّلَ مِنْهُ هُوَ وَآلُهُ، وَلاَ يُسَبَّ عَلِيٌّ وَهُوَ يَسَمَعُ،۔۔۔۔۔ سير أعلام النبلاء (5/ 256):
یعنی جس وقت امام حسن علیہ السلام سن رہے ہو اس وقت کم از کم امیر المومنین علی علیہ السلام کو برا بلا نہ کہنا ۔۔۔۔
ابن جریر طبری بھی یہ روایت نقل کرتے ہیں۔
وقد كان صالح الحسن معاوية على أن جعل له ما في بيت ماله وخرج دارا بجرد على ألا يشتم علي وهو يسمع۔۔ تاريخ الطبري (3/ 165 :
تاريخ مدينة دمشق میں بھی یہ روایت موجود ہے ؛۔۔۔۔۔ولا يسب علي وهو يسمع
تاريخ مدينة دمشق (13/ 264۔ إبن هبة الله علي بن الحسن الشافعي ، {م 571 }،تحقيق محب الدين العمري،الناشر دار الفكر 1995،مكان النشر بيروت
کہ امام حسن نے معاویہ سے اس شرط پر صلح کی کہ علی ابن ابی طالب پر سب و شتم نہ کیا جائے گا ایسے وقت میں جبکہ وہ اسے سن رہے ہوں۔
ابن [تاریخ ابن خلدون، جلد 2، صفحہ 648]:
فكتب إلى معاوية يذكر له النزول عن الأمر على أن يعطيه ما في بيت المال بالكوفة و مبلغه خمسة آلاف ألف و يعطيه خراج دار ابجرد من فارس و ألا يشتم عليا و هو يسمع
ترجمہ: یعنی امام حسن نے شرط رکھی کہ علی ابن ابی طالب کو گالیاں نہیں دی جائیں گی جبکہ وہ اسے سن سکتے ہوں۔
علامہ اسمعیل بن ابو الفداء اپنی تاریخ ابوالفداء جلد اول، صفحہ 648 پر لکھتے ہیں:
وكان الذي طلبه الحسن أن يعطيه ما في بيت مال الكوفة وخراج دارا بجرد من فارس وأن لا يسب علياً فلم يجبه إلى الكف عن سبّ علي فطلب الحسن أن لا يشتم علياً وهو يسمع فأجابه إِلى ذلكَ ثم لم يف له به
ترجمہ: یعنی علی ابن ابی طالب کو گالیاں نہیں دی جائیں گی جبکہ وہ اسے سن سکتے ہوں۔
جناب ام سلمہ کا سخت رد و عمل :
ابن عبد ربه الأندلسي نے العقد الفريد میں لکھا ہے:
۔ فأمسك معاوية عن لعنه حتى مات سعد. فلما مات لَعنه عَلَى المنبر، وكتب إلى عماله أن يَلعنوه على المنابر، ففعلوا. فكتبتْ أم سَلمة زوج النبيّ صلى عليه وسلم إلى معاوية: إنكم تلعن اللّه ورسولَه على منابركم، وذلك أنكم تلعنون عليّ بن أبي طالب ومن أحبّه، وأنا أشهد أن اللّه ۔ : العقد الفريد (2/ 127
"جب تک سعد زندہ رہا معاویہ نے بھی خاموشی اختیار کی جب سعد دنیا سے چلا گیا تو ممبر سے علی ابن ابی طالب پر لعن کرنا شروع کیا اور اپنے گورنروں اور حاکموں کو بھی ممبروں سے لعن کرنے کا حکم دیا ۔۔۔یہ صورت حال دیکھ کر جناب ام سلمہ نے معاویہ کو خط لکھا۔۔۔ تم لوگ[معاویہ]منبر رسول سے اللہ اور اسکے رسول پر لعن کر رہے ہو، اور یہ اسطرح کہ تم علی ابن ابی طالب پر لعن کر رہے ہو اور ہر اُس پر جو علی سے محبت کرتا ہے۔ اور میں گواہ ہوں کہ اللہ اور اسکا رسول علی سے محبت رکھتے تھے۔" مگر ام سلمہ سلام اللہ علیہا نے جو کچھ کہا کسی نے اسکی پرواہ نہ کی۔
ام المومنین حضرت ام سلمہ سلام اللہ علیہا کی سے کئی طریقوں سے امام احمد نے اپنی مسند میں نقل کی ہے۔ :
25523 حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ اَبِي بُكَيْرٍ، قَالَ حَدَّثَنَا اِسْرَائِيلُ، عَنْ اَبِي اِسْحَاقَ، عَنْ اَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْجَدَلِيِّ، قَالَ دَخَلْتُ عَلَى اُمِّ سَلَمَةَ فَقَالَتْ لِي اَيُسَبُّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيكُمْ قُلْتُ مَعَاذَ اللَّهِ اَوْ سُبْحَانَ اللَّهِ اَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ سَبَّ عَلِيًّا فَقَدْ سَبَّنِي.
اس روایت میں ام سلمہ سلام اللہ علیہا صحابہ کو علی ابن ابی طالب پر "سب" کرنے کو رسول اللہ ص پر "سب" کرنا قرار دے رہی ہیں۔
امام حاکم نے اپنی کتاب مستدرک میں نقل کی ہے
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ كَامِلٍ الْقَاضِي ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ سَعْدٍ الْعَوْفِيُّ ، ثنا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ ، ثنا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْجَدَلِيِّ ، قَالَ : دَخَلْتُ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا ، فَقَالَتْ لِي : أَيُسَبُّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ فِيكُمْ ؟ فَقُلْتُ : مُعَاذَ اللَّهِ ، أَوْ سُبْحَانَ اللَّهِ ، أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا ، فَقَالَتْ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : " مَنْ سَبَّ عَلِيًّا فَقَدْ سَبَّنِي " . هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الإِسْنَادِ ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ ، وَقَدْ رَوَاهُ بُكَيْرُ بْنُ عُثْمَانَ الْبَجَلِيُّ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ بِزِيَادَةِ أَلْفَاظٍ .
یہ روایت نقل کرنے کے بعد امام حاکم کہتے ہیں کہ یہ روایت "صحیح الاسناد" ہے۔
معاویہ کے گورنروں کا کھلے عام علی ابن ابی طالب پر سب و شتم کرنا
اور یہ سب خود معاویہ کی سیاست کا حصہ تھا اور اسی کے حکم سے ایسا کرتے تھے ،
طبری نے اپنی تاریخ طبری جلد 4، صفحه 188 میں لکھا ہے :
أن معاویة بن أبی سفیان لما ولى المغیرة بن شعبة الکوفة فی جمادى سنة 41 دعاه فحمد الله وأثنى علیه ثم قال : ... ولست تارکا إیصاءک بخصلة لا تتحم عن شتم على وذمه والترحم على عثمان والاستغفار له والعیب على أصحاب على والاقصاء لهم وترک الاستماع منهم ...
تاریخ ابو الفداء میں ہے ۔
وكان معاوية وعماله يدعون لعثمان في الخطبة يوم الجمعة ويسبون علياً ويقعون فيه
ترجمہ:
معاویہ اور اسکے گورنر جمعے کے خطبوں میں عثمان کی تعریف کرتے تھے اور علی کو گالیاں دیتے تھے۔
تاریخ ابو الفداء، جلد 1، صفحہ 120:
بلاذری نے انساب الاشراف جلد 5، ص 30 پر لکھا ہے :
کتب معاویة إلی المغیرة بن شعبة : أظهر شتم علی وتنقصه ...
معاویہ نے مغیرہ کو لکھا کہ وہ علی الاعلان علی پر سب و شتم کرئے اور ان کی برائی بیان کرئے ۔
ابن تیمیہ اپنی کتاب منہاج السنہ، جلد 6، صفحہ 201 پر لکھتا ہے:
وقد كان من شيعة عثمان من يسب عليا ويجهر بذلك على المنابر
ترجمہ:عثمان کے شیعہ [طرفدار] کھلے عام مسجدوں کے منبروں سے علی ابن ابی طالب کو گالیاں دیتے تھے۔
صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابہ۔۔۔۔۔۔
6382 - حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ، - يَعْنِي ابْنَ أَبِي حَازِمٍ - عَنْ أَبِي، حَازِمٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ اسْتُعْمِلَ عَلَى الْمَدِينَةِ رَجُلٌ مِنْ آلِ مَرْوَانَ - قَالَ - فَدَعَا سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ فَأَمَرَهُ أَنْ يَشْتِمَ عَلِيًّا - قَالَ - فَأَبَى سَهْلٌ فَقَالَ لَهُ أَمَّا إِذْ أَبَيْتَ فَقُلْ لَعَنَ اللَّهُ أَبَا التُّرَابِ . ۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ:
سہل روایت کرتے ہیں کہ مدینہ میں مروان کے خاندان میں سے ایک شخص حاکم ہوا اور اس نے سہل کو بلایا اورحکم دیا[فَأَمَرَهُ أَنْ يَشْتِمَ عَلِيًّا]کہ وہ علی ابن ابی طالب کو گالی دے۔ سہل نے انکار کیا۔ اس پر آوہ حاکم بولا کہ اگر تو گالی دینے سے انکار کرتا ہے تو کہہ لعنت ہو اللہ کی ابو تراب پر۔ ۔۔۔۔۔
اور مسند احمد بن حنبل میں ہے
«لمّا خرج معاویة من الکوفة استعمل المغیرة بن شعبة، قال: فاقام خطباء یقعون فی علی. قال: وأنا إلی جنب سعید بن زید بن عمرو بن نفیل. قال: فغضب فقام فأخذ بیدی فتبعته فقال: ألا تری إلی هذا الرجل الظالم لنفسه الذی یأمر بلعن رجل من ا هل الجنّة؟...».
ترجمہ:۔
عبد الله بن المازنی سے روایت ہے جب معاویہ نے کوفہ چھوڑا تو اس نے مغیرہ بن شعبتہ کو مقرر کیا اور مغیرہ نے ایسے خطیب مقرر کیے جو حضرت علی عہ کی توھین کرین۔
مسند ابن حنبل جلد 3 صفحہ 185 محقق شعیب الا ارنوط نے اس روایت کو حسن لکھا ہے۔
حجر بن عدی اور ان کے ساتھیوں کو امیر المومنین علیہ السلام پر لعن کرنے کا حکم
حجر بن عدی اور ان کے ساتھی کوفہ میں معاویہ کے گورنروں کی طرف سے امیر المومنین علیہ السلام کی شان میں گستاخی پر احتجاج کرتے تھے ،انہیں گرفتار کر کے دمشق کی طرف روانہ کیا گیا۔۔۔۔اور مقام عزار پر انہیں شہید کردیا گیا ۔۔۔ شہید کرنے سے پہلے معاویہ کے نمائندے نے معاویہ کا یہ پیغام انہیں دیا کہ اگر علی ابن ابی طالب سے اظہار برائت کر لے اور ان پر لعن کرئے تو ہم تمہیں آزاد کردیں گے ،اگر ایسا نہیں کیا تو سب کو قتل کریں گے ۔۔۔۔ مولی علی علیہ السلام کے ان جیالوں نے موت کو گلے لگانے کا عزم کیا اور سب شہید ہوئے ۔
فقال لهم رسول معاوية إنا قد أمرنا أن نعرض عليكم البراءة من على واللعن له فإن فعلتم تركناكم وإن أبيتم قتلناكم وإن أمير المؤمنين يزعم أن دماءكم قد حلت له بشهادة -
تاريخ الطبري ،ج ۳ص ۲۲۹، المؤلف : محمد بن جرير الطبري أبو جعفر الناشر : دار الكتب العلمية – بيروت الطبعة الأولى ، 1407۔
تاريخ مدينة دمشق ، علي بن الحسن إبن هبة الله بن عبد الله الشافعي سنة الوفاة 571 ،تحقيق محب الدين أبي سعيد عمر بن غرامة العمري ،الناشر دار الفكر ، سنة النشر 1995 ، مكان النشر بيروت، عدد الأجزاء 70
الكامل في التاريخ،3 /335،تأليف: أبو الحسن علي بن أبي الكرم الشيباني،دار النشر: دار الكتب العلمية - بيروت - 1415هـ، الطبعة: ط2، تحقيق: عبد الله القاضي۔
تاريخ ابن خلدون [3 /12] أنساب الأشراف [2 /167]
امیر المومنین علیہ السلام کے شیعوں کو قتل کرنے کا حکم
معاویہ کا اپنے گورنروں اور کمانڈروں کو امیرا المومنین علیہ کے شیعوں پر سختی کرنے ان معمولی بہانے انہیں قتل کرنے کا حکم ،اس سلسلے میں تاریخی کتابوں میں بہت سے شواہد موجود ہیں ہم ذیل میں بعض کی طرف مختصر اشارہ کرتے ہیں ۔
وكان معاوية يبعث الغارات فيقتلون من كان في طاعة علي ومن أعان على قتل عثمان—
الجزء المتمم لطبقات ابن سعد [1 /61] تاريخ دمشق [59 /119] سير أعلام النبلاء [3 /137]
وجه معاوية الضحاك بن قيس وأمره أن يمر بأسفل واقصة وأن يغير على كل من مر به ممن هو في طاعة على....
تاريخ الطبري [4 /104] تاريخ دمشق [10 /145] الكامل في التاريخ [2 /97] المنتظم [2 /127]
وبسر بن أرطأة وكان معاوية وجهه إلى اليمن والحجاز في أول سنة أربعين وأمره أن ينظر من كان في طاعة على فيوقع بهم ففعل ذلك /
الإصابة في تمييز الصحابة [1 /289] أسد الغابة [ص 113 الاستيعاب [ص 49
وأمره ؛ اقتل كل من كان في طاعة علي إذا امتنع من بيعتنا، وخذ ما وجدت لهم من مال- أنساب الأشراف [1 /366] تاريخ الطبري [4 /107]
دعا الناس إلى بيعة معاوية ۔۔۔، وقتل جماعة من شيعة علي.
أنساب الأشراف [1 /366] المنتظم [2 /128 الكامل في التاريخ [2 /100]
مندجہ بالا اسناد اس سلسلے کے کچھ نمونے ہیں ۔
یہی چند نمونے ہیں ۔ ان سے واضح طور پر یہ ثابت ہوتی ہے کہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو برا بلا کہنے کے سلسلے کا آغاز معاویہ کے دور حکومت میں ہوا وہ خود ، اس کے گورنر اور اس کے پیروکار اس سیاست پر سختی سے عمل کرتے تھے اور یہ سلسلہ عمر ابن عبد العزیز کے دور تک یعنی سنہ ۴۰ سے ۱۰۰ ہجری تک جاری رہا ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایرانی ویکسین کی پہلی خوراک وصول کی
جمعہ) صبح ،رہبر معظم آیت اللہ سید خامنہ ای کو ایران کی کوو ایران برکت ویکسین کی پہلی خوراک موصول ہوئی۔
افغانستان، خطرات و امکانات
افغانستان میں ایک بار پھر طالبان اپنی فتوحات کے جھنڈے گاڑتے نظر آرہے ہیں، کئی اضلاع میں داخل ہونے کے مناظر، عام لوگوں کیساتھ سرکاری فورسز کے لوگوں کو ہتھیار ڈالتے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کرتے اپنے سفید جھنڈے جن پہ کلمہ لکھا گیا ہے، کو لہراتے فتوحات کے منظر سامنے لائے جا رہے ہیں۔ یہ فتوحات کے منظر دکھانا جنگوں میں پروپیگنڈا ویڈیوز اور میڈیا کا استعمال ہی تو ہے۔ ایسے ہی کچھ مناظر سرکاری افواج کی طرف سے بھی ایک ویڈیو میں دکھائے گئے ہیں کہ سینکڑوں طالبان اپنے ہتھیار ڈالتے اپنے پرچم کو رکھ کر افغانستان کا قومی پرچم اٹھاتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہ تو جنگوں میں چلتا رہتا ہے، فتوحات کے دعوے اور دشمن کی شکست کے اعلانات دونوں اطراف سے جاری رہتے ہیں، اس لئے کہ جنگوں میں سچ چھپ جاتا ہے اور پروپیگنڈا سامنے آجاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ طالبان نے ملک کے بڑے حصے پر اپنا قبضہ کر لیا ہے اور وہ مسلسل آگے بڑھ بھی رہے ہیں۔ اب یہ خطرہ سب ہی محسوس کرنے لگے ہیں کہ ِافغانستان کی بگڑتی ہوئی صورتحال خانہ جنگی کا الارم ہے، جبکہ طالبان کا کہنا ہے کہ امریکہ کے پاس گھڑی ہے اور ہمارے پاس وقت ہے۔
طالبان کے پچھلے ایک ڈیڑھ ہفتہ میں پچاس اضلاع سمیت تاجکستان۔افغان بارڈر اور ضلع کرم سے متصل پاک۔افغان بارڈر پر قبضے سے اس بات میں اب وزن بھی پیدا ہوگیا ہے۔ طالبان نے مختلف افغان اضلاع کو روندتے ہوئے لگ بھگ چوبیس گھنٹوں میں چوبیس اضلاع پر قبضہ کرنے کا دعویٰ کیا تھا اور جوز جان کے قچہ ضلع میں بھی افغان فورسز نے طالبان کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے، یوں جنرل رشید دوستم کا آبائی شہر بغیر گولی چلائے طالبان کے قبضے میں چلا گیا، اب یہ کوئی اتفاق تو نہی ہوسکتا۔ اس لئے کہ رشید دوستم وار لارڈ اور افغانستان کا ایک پرانا منجھا ہوا کھلاڑی ہے، مگر قطر اور طالبان کے ساتھ ایک مبینہ ڈیل کی وجہ سے تاجک اور ازبک علاقوں میں جہاں پہلے طالبان کا جانا ممکن نہیں تھا، اب طالبان کو ڈھیل دے دی گئی ہے اور بادغیث، کندوز اور تاجکستان کی سرحدی چوکی تک طالبان نہایت آسانی سے قبضہ کرتے جا رہے ہیں اور لوگ جوق در جوق طالبان کی صفوں میں شامل ہو رہے ہیں۔
ذرائع کے مطابق بعض قبائلی سرداروں اور صوبوں کے گورنر بھی طالبان کے ساتھ ملے ہوئے ہیں اور خرید و فروخت کے معاملات قطر میں طے پائے ہیں۔ اب جبکہ طالبان کا تقریباً آدھے افغانستان پر کنٹرول ہے، یہ علاقے طالبان نے لڑتے ہوئے اور اضلاع کو روندتے ہوئے قبضہ میں لئے ہیں۔ ادھر طالبان ترجمان سہیل شاہین امریکہ کو دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دے رہے ہیں، طالبان نے پاکستان اور ترکی کو خمیازہ بھگتنے کی دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ مسلمان ممالک کابل ہوائی اڈے یا دوسری کسی ڈیل سے دور رہیں اور ہمارے (طالبان) کے ساتھ مل کر افغانستان میں اسلامی حکومت کے قیام میں مدد کریں۔ یاد رہے کہ چند دن قبل یہ خبر میڈیا پر نشر ہوئی تھی کہ امریکہ نے کابل ایئر پورٹ کی سکیورٹی کا ٹھیکہ ترکی کو دیا ہے، جبکہ ترکی نے اس معاملے میں پاکستان سے مدد لینے کا کہا تھا۔
صورتحال کی اس سنگینی میں افغانستان کی موجودہ سرکار جس میں صدر عبدالغنی اور عبد اللہ عبد اللہ بھی شامل ہیں، دو روز سے امریکہ کے دورے پر پہنچے ہیں، جہاں وہ اعلیٰ امریکی عہدیداران سمیت صدر امریکہ جو بائیڈن سے ملے ہیں۔ وہ افغانستان کے مستقبل کے بارے میں ملاقاتیں بھی کر رہے ہیں۔ ان ملاقاتوں کا نتیجہ کیا نکلتا ہے، یہ تو جلد ہی سامنے آجائے گا، مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ فیصلے میدان میں ہی ہونگے اور میدان اس وقت طالبان کے ہاتھ میں جا چکا ہے، بیس سال تک امریکہ افغانستان میں اپنے دو ہزار سے زیادہ فوجی مروا کر اور اتنا بھاری مالی نقصان کرکے اگر بھاگ رہا ہے تو اسے یہ سمجھ آچکی ہے کہ اب مزید نقصان نہیں کروانا، ایک رائے یہ بھی ہے کہ یہ سب امریکہ کی اپنی پلاننگ کا حصہ ہے کہ افغانستان کو آگ و خون کی وادی میں دھکیل کر خود باہر ہو جائے، اس مقصد کیلئے اس نے اپنی حکمت عملی تبدیل کی اور طالبان سے مذاکرات کا ڈرامہ رچایا۔
انہیں قطر میں دفتر کی اجازت دی، ان کے اہم ترین افراد سے پابندیاں اٹھائیں اور انہیں دنیا بھر میں گھومنے کا اجازت نامہ دیا۔ اس دوران طالبان نے بھرپور سفارت کاری سے روس، ترکی، چین، ایران، پاکستان، ہندوستان سے اچھے تعلقات بنا لئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ افغانستان میں امریکہ کی ایک اتحادی حکومت کے ہوتے ہوئے قطر میں طالبان کے دفتر کو ان کے سفارت خانہ کی حیثیت دی گئی تھی، اسی طرح امریکہ نے دوحہ مذاکرات اور ڈیل کے نتیجہ میں ہزاروں طالبان کو جیلوں سے رہا کروایا اور ان کے حوصلوں کو تقویت بخشی، اب بھی جب طالبان مختلف اضلاع میں وارد ہو رہے ہیں تو ان کا ٹارگٹ نہ امریکی بیس ہیں نہ امریکی فوجی قافلے یا مراکز۔ جس سے واضح پیغام ملتا ہے کہ امریکہ کو طالبان کی موجودہ پیش رفت کی مکمل مدد و حمایت حاصل ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ امریکہ افغانستان کی سیاسی قیادت کو اپنے پاس بلا کر کیا نسخہ کیمیا دیتا ہے۔
پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے بھی ایک انٹرویو میں طالبان کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں پر کہا ہے کہ اگر طالبان نے کابل پر قبضہ کر لیا تو ہم اپنی سرحدیں بند کر دیں گے اور افغانستان میں صرف منتخب حکومت جسے عوام کی حمایت حاصل ہوگی، کو ہی تسلیم کریں گے یاد رہے کہ ماضی میں جب طالبان کابل پر 1995ء میں قابض ہوئے تھے تو سب سے پہلے پاکستان نے طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا تھا، جس نے پختونوں کے علاوہ دیگر اکائیوں کے خلاف مظالم کی ایک نئی تاریخ لکھی تھی، جسے اہل مزار شریف، بامیان، بلخ اور شمالی علاقوں کے عوام کبھی نہیں بھلا پائیں گے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اب کی بار ایک طرف تو طالبان جن علاقوں میں پیش رفت کر رہے ہیں، وہاں عوام کو اپنا بظاہر اچھا طرز عمل دکھا رہے ہیں اور سرکاری افواج کے اہلکاروں کو ہتھیار ڈالنے پر عام معافی دے رہے ہیں، جبکہ اس کے باوجود بہت سے علاقوں میں عوامی سطح پر لشکر تشکیل پا رہے ہیں اور طالبان سے مقابلے اپنے شہر ان کے حوالے نہ دینے کیلئے جنگی حکمت عملی ترتیب دی جا رہی ہے، بلکہ تخار، بلخ، مزار شریف اور دیگر ایریاز میں طالبان کو مزاحمت کے ذریعے بھاگنے پر مجبور کر دیا گیا۔
ان ایریاز میں سب سے زیادہ اہل تشیع کی آبادیاں ہیں، جو ہزارہ قبائل پر مشتمل ہیں، کچھ عرصہ پہلے انہی ہزارہ قبائل نے داعش کے پے در پے حملوں سے تنگ آکر ہتھیار اٹھا لئے تھے تو موجودہ عبد الغنی حکومت نے ان پر امریکی جہازوں کے ذریعے بمبارمنٹ کی تھی اور ہتھیار اٹھانے والے کمانڈرز کو گرفتار کیا تھا، آج یہی کمانڈرز اور عوام افغانستان کی عزت، حمیت اور غیرت کی علامت کے طور پر دیکھے جا رہے ہیں اور صدر غنی اپنے آقا امریکہ کی گود میں جا بیٹھا ہے، دیکھیں اسے وہاں سے کیا ہڈی ملتی ہے۔ طالبان اگرچہ بار بار اعلان کر رہے ہیں کہ اہل تشیع سمیت سب افغان ہیں اور شیعہ علاقوں میں شیعوں کو ہی کمان دی جائیگی اور سب کی جان و مال محفوط ہوگا، مگر جن لوگوں کے رہبر کو مذاکرات کیلئے بلا کر انتہائی بے دردی سے شہید کیا گیا، جن کے گھروں کو تہس نہس کیا گیا، جن کی بیٹیوں کو کنیزی میں لیا گیا، جن کے اموال کو جلا دیا گیا، جن کی عزتوں کو پائمال کیا گیا، ان کو آپ پر کیسے اعتماد ہوگا۔ یہ لوگ تو آپ کا سفاک چہرہ ماضی میں اور پھر شام و عراق میں دیکھ چکے ہیں، ان کیلئے تو مزاحمت ہی عزت کا راستہ ہے، جسے انہوں نے چن لیا ہے، ان کے سامنے اب عراق کی مثال ہے، ان کے سامنے شام کی مثال ہے، جہاں عوام مزاحمت سے ہی ملک و ریاست کو بچانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔افغانستان میں ایک بار پھر طالبان اپنی فتوحات کے جھنڈے گاڑتے نظر آرہے ہیں، کئی اضلاع میں داخل ہونے کے مناظر، عام لوگوں کیساتھ سرکاری فورسز کے لوگوں کو ہتھیار ڈالتے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کرتے اپنے سفید جھنڈے جن پہ کلمہ لکھا گیا ہے، کو لہراتے فتوحات کے منظر سامنے لائے جا رہے ہیں۔ یہ فتوحات کے منظر دکھانا جنگوں میں پروپیگنڈا ویڈیوز اور میڈیا کا استعمال ہی تو ہے۔ ایسے ہی کچھ مناظر سرکاری افواج کی طرف سے بھی ایک ویڈیو میں دکھائے گئے ہیں کہ سینکڑوں طالبان اپنے ہتھیار ڈالتے اپنے پرچم کو رکھ کر افغانستان کا قومی پرچم اٹھاتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہ تو جنگوں میں چلتا رہتا ہے، فتوحات کے دعوے اور دشمن کی شکست کے اعلانات دونوں اطراف سے جاری رہتے ہیں، اس لئے کہ جنگوں میں سچ چھپ جاتا ہے اور پروپیگنڈا سامنے آجاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ طالبان نے ملک کے بڑے حصے پر اپنا قبضہ کر لیا ہے اور وہ مسلسل آگے بڑھ بھی رہے ہیں۔ اب یہ خطرہ سب ہی محسوس کرنے لگے ہیں کہ ِافغانستان کی بگڑتی ہوئی صورتحال خانہ جنگی کا الارم ہے، جبکہ طالبان کا کہنا ہے کہ امریکہ کے پاس گھڑی ہے اور ہمارے پاس وقت ہے۔
طالبان کے پچھلے ایک ڈیڑھ ہفتہ میں پچاس اضلاع سمیت تاجکستان۔افغان بارڈر اور ضلع کرم سے متصل پاک۔افغان بارڈر پر قبضے سے اس بات میں اب وزن بھی پیدا ہوگیا ہے۔ طالبان نے مختلف افغان اضلاع کو روندتے ہوئے لگ بھگ چوبیس گھنٹوں میں چوبیس اضلاع پر قبضہ کرنے کا دعویٰ کیا تھا اور جوز جان کے قچہ ضلع میں بھی افغان فورسز نے طالبان کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے، یوں جنرل رشید دوستم کا آبائی شہر بغیر گولی چلائے طالبان کے قبضے میں چلا گیا، اب یہ کوئی اتفاق تو نہی ہوسکتا۔ اس لئے کہ رشید دوستم وار لارڈ اور افغانستان کا ایک پرانا منجھا ہوا کھلاڑی ہے، مگر قطر اور طالبان کے ساتھ ایک مبینہ ڈیل کی وجہ سے تاجک اور ازبک علاقوں میں جہاں پہلے طالبان کا جانا ممکن نہیں تھا، اب طالبان کو ڈھیل دے دی گئی ہے اور بادغیث، کندوز اور تاجکستان کی سرحدی چوکی تک طالبان نہایت آسانی سے قبضہ کرتے جا رہے ہیں اور لوگ جوق در جوق طالبان کی صفوں میں شامل ہو رہے ہیں۔
ذرائع کے مطابق بعض قبائلی سرداروں اور صوبوں کے گورنر بھی طالبان کے ساتھ ملے ہوئے ہیں اور خرید و فروخت کے معاملات قطر میں طے پائے ہیں۔ اب جبکہ طالبان کا تقریباً آدھے افغانستان پر کنٹرول ہے، یہ علاقے طالبان نے لڑتے ہوئے اور اضلاع کو روندتے ہوئے قبضہ میں لئے ہیں۔ ادھر طالبان ترجمان سہیل شاہین امریکہ کو دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دے رہے ہیں، طالبان نے پاکستان اور ترکی کو خمیازہ بھگتنے کی دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ مسلمان ممالک کابل ہوائی اڈے یا دوسری کسی ڈیل سے دور رہیں اور ہمارے (طالبان) کے ساتھ مل کر افغانستان میں اسلامی حکومت کے قیام میں مدد کریں۔ یاد رہے کہ چند دن قبل یہ خبر میڈیا پر نشر ہوئی تھی کہ امریکہ نے کابل ایئر پورٹ کی سکیورٹی کا ٹھیکہ ترکی کو دیا ہے، جبکہ ترکی نے اس معاملے میں پاکستان سے مدد لینے کا کہا تھا۔
صورتحال کی اس سنگینی میں افغانستان کی موجودہ سرکار جس میں صدر عبدالغنی اور عبد اللہ عبد اللہ بھی شامل ہیں، دو روز سے امریکہ کے دورے پر پہنچے ہیں، جہاں وہ اعلیٰ امریکی عہدیداران سمیت صدر امریکہ جو بائیڈن سے ملے ہیں۔ وہ افغانستان کے مستقبل کے بارے میں ملاقاتیں بھی کر رہے ہیں۔ ان ملاقاتوں کا نتیجہ کیا نکلتا ہے، یہ تو جلد ہی سامنے آجائے گا، مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ فیصلے میدان میں ہی ہونگے اور میدان اس وقت طالبان کے ہاتھ میں جا چکا ہے، بیس سال تک امریکہ افغانستان میں اپنے دو ہزار سے زیادہ فوجی مروا کر اور اتنا بھاری مالی نقصان کرکے اگر بھاگ رہا ہے تو اسے یہ سمجھ آچکی ہے کہ اب مزید نقصان نہیں کروانا، ایک رائے یہ بھی ہے کہ یہ سب امریکہ کی اپنی پلاننگ کا حصہ ہے کہ افغانستان کو آگ و خون کی وادی میں دھکیل کر خود باہر ہو جائے، اس مقصد کیلئے اس نے اپنی حکمت عملی تبدیل کی اور طالبان سے مذاکرات کا ڈرامہ رچایا۔
انہیں قطر میں دفتر کی اجازت دی، ان کے اہم ترین افراد سے پابندیاں اٹھائیں اور انہیں دنیا بھر میں گھومنے کا اجازت نامہ دیا۔ اس دوران طالبان نے بھرپور سفارت کاری سے روس، ترکی، چین، ایران، پاکستان، ہندوستان سے اچھے تعلقات بنا لئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ افغانستان میں امریکہ کی ایک اتحادی حکومت کے ہوتے ہوئے قطر میں طالبان کے دفتر کو ان کے سفارت خانہ کی حیثیت دی گئی تھی، اسی طرح امریکہ نے دوحہ مذاکرات اور ڈیل کے نتیجہ میں ہزاروں طالبان کو جیلوں سے رہا کروایا اور ان کے حوصلوں کو تقویت بخشی، اب بھی جب طالبان مختلف اضلاع میں وارد ہو رہے ہیں تو ان کا ٹارگٹ نہ امریکی بیس ہیں نہ امریکی فوجی قافلے یا مراکز۔ جس سے واضح پیغام ملتا ہے کہ امریکہ کو طالبان کی موجودہ پیش رفت کی مکمل مدد و حمایت حاصل ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ امریکہ افغانستان کی سیاسی قیادت کو اپنے پاس بلا کر کیا نسخہ کیمیا دیتا ہے۔
پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے بھی ایک انٹرویو میں طالبان کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں پر کہا ہے کہ اگر طالبان نے کابل پر قبضہ کر لیا تو ہم اپنی سرحدیں بند کر دیں گے اور افغانستان میں صرف منتخب حکومت جسے عوام کی حمایت حاصل ہوگی، کو ہی تسلیم کریں گے یاد رہے کہ ماضی میں جب طالبان کابل پر 1995ء میں قابض ہوئے تھے تو سب سے پہلے پاکستان نے طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا تھا، جس نے پختونوں کے علاوہ دیگر اکائیوں کے خلاف مظالم کی ایک نئی تاریخ لکھی تھی، جسے اہل مزار شریف، بامیان، بلخ اور شمالی علاقوں کے عوام کبھی نہیں بھلا پائیں گے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اب کی بار ایک طرف تو طالبان جن علاقوں میں پیش رفت کر رہے ہیں، وہاں عوام کو اپنا بظاہر اچھا طرز عمل دکھا رہے ہیں اور سرکاری افواج کے اہلکاروں کو ہتھیار ڈالنے پر عام معافی دے رہے ہیں، جبکہ اس کے باوجود بہت سے علاقوں میں عوامی سطح پر لشکر تشکیل پا رہے ہیں اور طالبان سے مقابلے اپنے شہر ان کے حوالے نہ دینے کیلئے جنگی حکمت عملی ترتیب دی جا رہی ہے، بلکہ تخار، بلخ، مزار شریف اور دیگر ایریاز میں طالبان کو مزاحمت کے ذریعے بھاگنے پر مجبور کر دیا گیا۔
ان ایریاز میں سب سے زیادہ اہل تشیع کی آبادیاں ہیں، جو ہزارہ قبائل پر مشتمل ہیں، کچھ عرصہ پہلے انہی ہزارہ قبائل نے داعش کے پے در پے حملوں سے تنگ آکر ہتھیار اٹھا لئے تھے تو موجودہ عبد الغنی حکومت نے ان پر امریکی جہازوں کے ذریعے بمبارمنٹ کی تھی اور ہتھیار اٹھانے والے کمانڈرز کو گرفتار کیا تھا، آج یہی کمانڈرز اور عوام افغانستان کی عزت، حمیت اور غیرت کی علامت کے طور پر دیکھے جا رہے ہیں اور صدر غنی اپنے آقا امریکہ کی گود میں جا بیٹھا ہے، دیکھیں اسے وہاں سے کیا ہڈی ملتی ہے۔ طالبان اگرچہ بار بار اعلان کر رہے ہیں کہ اہل تشیع سمیت سب افغان ہیں اور شیعہ علاقوں میں شیعوں کو ہی کمان دی جائیگی اور سب کی جان و مال محفوط ہوگا، مگر جن لوگوں کے رہبر کو مذاکرات کیلئے بلا کر انتہائی بے دردی سے شہید کیا گیا، جن کے گھروں کو تہس نہس کیا گیا، جن کی بیٹیوں کو کنیزی میں لیا گیا، جن کے اموال کو جلا دیا گیا، جن کی عزتوں کو پائمال کیا گیا، ان کو آپ پر کیسے اعتماد ہوگا۔ یہ لوگ تو آپ کا سفاک چہرہ ماضی میں اور پھر شام و عراق میں دیکھ چکے ہیں، ان کیلئے تو مزاحمت ہی عزت کا راستہ ہے، جسے انہوں نے چن لیا ہے، ان کے سامنے اب عراق کی مثال ہے، ان کے سامنے شام کی مثال ہے، جہاں عوام مزاحمت سے ہی ملک و ریاست کو بچانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
تحریر: ارشاد حسین ناصر
خواہشات کا علاج
انسانی خو اہشات اس کیلئے جس مقدار میں مفید ہیں اس کے مطا بق انکے اندر قدرت اور طاقت بھی پا ئی جاتی ہے چنانچہ اگر یہ غلط راستے پر لگ جائیں تو پھر یہ اپنی طاقت کے اعتبار سے ہی انسانی زندگی کو تہہ وبالا کر کے رکھ دیتی ہیں ۔۔۔انسانی نفس کے اندر اسکے یہ دونوں (مثبت اورمفید منفی اورمضر )پہلو بالکل طے شدہ ہیں اور اس میں کسی شک وشبہ کی گنجا ئش نہیں ہے کیونکہ خواہشات ہی دراصل انسان کی زندگی کے پہیوںکو گردش دینے والی قوت ہیں اور اگر خداوندعالم نے انسان کے
نفس میں جنسیات ،مال ،خود ی (حب ذات )،کھا نے پینے اور اپنے دفاع کی محبت نہ رکھی ہوتی تو قافلۂ انسانی ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتاتھا ۔لہٰذا خواہشات کے اندر جتنے فا ئد ے ہیں انکے اندر اتنی ہی طاقت موجود ہے اور انکے اندر جتنی طاقت پائی جاتی ہے انکے بہک جانے کی صورت میں انکے نقصانات بھی اسی کے مطابق ہونگے جیسا کہ مولا ئے کا ئنات نے ارشاد فرمایا ہے:
(الغضب مفسد للالباب ومبعد عن الصواب )( ۱ )
''غصہ عقلوں کو برباد اور راہ حق سے دور کر دینے والی چیز ہے ''
آپ نے یہ بھی فرما یا ہے :
(أکثرمصارع العقول تحت بریق المطامع )( ۲ )
''عقلوں کی اکثر قتل گاہیں طمع کی جگہوںکی چمک دمک کے آس پاس ہیں''
خواہشات کی پیروی پر روک اور انکی آزادی کے درمیان
یہی وجہ ہے کہ خواہشات کو ایکدم کچل کر رکھ دینا بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ خواہش انسانی زندگی کیلئے ایک مفید طاقت ہے جس کے سہار ے کا روان حیات انسانی رواں دواںہے اور اس کو معطل اور نا کارہ بنا دینا یا اسکی مذمت کرنا اور اسکی اہمیت کا اعتراف نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی شخصیت کے ایک بڑے حصہ کا انکار کردیا جائے اور اسکو نقل و حرکت میں رکھنے والی اصل طاقت کو نا کار ہ قرار دیدیا جائے ۔
اسی طرح خواہشات اور ہوس کی لگام کو بالکل ڈھیلا چھوڑ دینا اور انکے ہر مطالبہ کی تکمیل کرنا اور ان کی ہر بات میںہاں سے ہاں ملا نا بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ اگر ان کی رسی ڈھیلی چھو ڑدی جائے تو
____________________
(۱)غرر الحکم ج۱ص۶۷ ۔
(۲)غررالحکم ج۱ص۱۹۸۔
یہ فائد ہ مند ہو نے کے بجائے انسان کیلئے مضر بن جاتے ہیں ۔
لہٰذا ہمیں یہ اعتراف کر نا پڑیگا کہ شرعی اعتبار سے خواہشات کی محدود تکمیل کی بہت اہمیت ہے اور جس طرح انکو بالکل آزاد چھوڑ دینا صحیح نہیں ہے اسی طرح ہر بات میں انکی تکمیل بھی صحیح نہیں ہے ۔
اسی معیار پر اسلام نے خواہشات کے بارے میں اپنے احکام بنائے ہیں یعنی پہلے وہ خواہشات کو انسان کیلئے ضروری سمجھتا ہے اور اسے فضول چیز قرار نہیں دیتا جیسا کہ قرآن کریم میں پروردگار عالم کاارشاد ہے :
( زُیّن للناسِ حبُّ الشهواتِ من النسائِ والبنینَ والقناطیرِالمقنطرةِمن الذهبِ والفضة ِوالخیلِ المسوّمةِ والأنعام والحرثِ ) ( ۱ )
''لوگوں کے لئے خواہشات دنیا ،عورتیں،اولاد،سونے چاندی کے ڈھیر،تندرست گھوڑے یا چوپائے کھیتیاںسب مزین اور آراستہ کردی گئیں ہیں ''
دوسری آیت میں ارشاد ہے :
(ا( ٔلمالُ والبنونَ زینة الحیاةِ الدنیا ) ( ۲ )
''مال اور اولاد، زندگانی دنیا کی زنیت ہیں ''
ان آیات میں نہ صرف یہ کہ خواہشات کی مذمت نہیں ہے بلکہ اسکو زینت اور جمال زندگانی قرار دیا گیاہے اور اسی اہم نکتہ سے خواہشات کے بار ے میں اسلام کا واضح نظر یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے ۔
دوسر ے مرحلہ پر اس نے ہمیں اپنی خواہشات کو پورا کر نے اور دنیاوی لذتوں سے بہرہ مند ہونے کا حکم دیا ہے :
____________________
(۱)آل عمر ان آیت۱۴۔
(۲) سورئہ کہف آیت۴۶ ۔
( کلوا من طیبات مارزقناکم ) ( ۱ )
''تم ہمارے پاکیزہ رزق کو کھائو ''
یایہ ارشاد الٰہی ہے :
( ولا تنس نصیبک من الدنیا ) ( ۲ )
''اور دنیا میں اپنا حصہ بھول نہ جائو''
اور اسی طرح یہ بھی ارشاد ہے :
( قل من حرّم زینة ﷲ التی أخرج لعبادهِ والطیبات من الرزق ) ( ۳ )
''پیغمبر آپ ان سے پوچھئے کہ کس نے اس زینت کو جس کو خدا نے اپنے بندوں کیلئے پیدا کیا ہے اور پاکیزہ رزق کو حرام کردیا ہے''
خواہشات کے بارے میں اسلام نے یہ دوسرا نظریہ پیش کیا ہے جس کے اندر نہ اپنی خواہشات کی تکمیل کی کھلی چھوٹ ہے کہ جس کا جس طرح دل چاہے وہ اپنی خواہشات کی پیاس بجھاتا رہے اور کسی قاعد ہ وقانون کے بغیر سر جھکا کر انھیں کے پیچھے چلتا رہے ۔
امام جعفر صادق نے فرما یا ہے :
(لاتدع النفس وهواها فن هواها رداها )( ۴ )
''اپنے نفس کو اسکے خواہشات کے اوپر نہ چھو ڑدو کیونکہ اسکے خواہشات میں اسکی پستی اور
____________________
(۱)سورئہ طہ آیت۸۱ ۔
(۲)سورئہ قصص آیت۷۷ ۔
(۳)سورئہ اعراف آیت ۳۲ ۔
(۴)اصول کافی ج۲ص۳۳۶۔
ذلت ہے ''
ان تمام پا بند یوں اور سختیوں کے باوجود اسلام نے انسانی خواہشات کی تسلی کیلئے ایک نظام بنا کر خود بھی اس کے بیحد موا قع فراہم کئے ہیں جیسے اسلام نے جنسیات کو حرام قرار نہیں دیا ہے اور نہ اس سے منع کیا ہے اور نہ ہی اسے کوئی بر ایا پست کام کہا ہے بلکہ خود اسکی طرف رغبت دلا ئی ہے اور اسکی تاکید کی ہے البتہ اسکے لئے کچھ شرعی قواعد و ضوابط بھی بنائے ہیں اسی طرح مال سے محبت کرنے کونہ اسلام منع کر تاہے اور نہ اسے بر اکہتا ہے بلکہ یہ تمام انسانو ں کیلئے مباح ہے البتہ اسکے لئے بھی کچھ قو اعد وقوانین مرتب کردئے گئے ہیں تا کہ مالی یا جنسی خواہشات وغیرہ کی تسلی کیلئے ہر شخص کے سامنے مواقع موجود رہیں اور کوئی شخص بھی بے راہ رو ی کا شکار نہ ہو نے پا ئے یہ خواہشات کے بارے میں اسلامی نظر یہ کا تیسر ا نکتہ ہے۔