سلیمانی

سلیمانی

اسلامی جمہوریہ ایران کے دارالحکومت تہران میں کل  بروز بدھ ماہرین اور یونیورسٹیوں کے بعض اساتید کی موجودگی میں افغانستان کی موجودہ صورتحال کے بارے میں ایک خصوصی اجلاس منعقد ہوگا۔

اطلاعات کے مطابق یہ اجلاس افغانستان کی موجودہ صورتحال کے بارے میں تہران میں مقامی وقت کے مطابق بعد از ظہر 14 بجے سے 16 بجے تک منعقد ہوگا ۔ اس اجلاس میں افغانستان کی قومی کانگرس پارٹی کے سربراہ اور افغان پارلیمنٹ کے سابق رکن پدرام عبداللطیف بھی شرکت کریں گے۔ ایرانی وزارت خارجہ کے مغربی جنوب ایشیاء کے ڈائریکٹر ڈاکٹر سید روسل موسوی بھی شرکت کریں گے ۔ دیگر ماہرین اور اساتید میں جناب محمد حسن جعفری، ڈاکٹر سید رضا صدر الحسینی ، ڈاکٹر منیرہ راہ نجات ۔ ڈاکٹر محمود مہدوی ، ڈاکٹر سمیہ مرونی، ڈاکٹر سید لطف اللہ جلالی، جناب محمد عارف ، ڈاکٹر حسین جعفری اور جناب سعید قدیری شامل ہیں۔

آيه ولايت:

{إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ ءَامَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَوةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَوةَ وَهُمْ رَ كِعُونَ} .

المائدة : 55.

ایمان والو بس تمہارا ولی اللہ ہے اور اس کا رسول اور وہ صاحبانِ ایمان جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوِٰ دیتے ہیں۔

  اهل سنت کے بزرگ علماء نے مجاهد سے یہ روایت نقل کی ہے {إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ} نَزَلَتْ فِي عَلي بن أبي طالب تَصَدَّقَ وَهُوَ راكِعٌ. جس وقت علی ابن ابی طالب حالت رکوع میں تھے اور آپ نے حالت رکوع میں صدقہ دیا تو یہ آیت آپ کی شان میں نازل ہوئی  تفسير الطبري ج 6 ص 390

اسی طرح  ابن ابي حاتم از عتبه بن ابي حکيم نے اسی مطالب کو نقل کیا ہے .تفسير ابن أبي حاتم ج 4 ص1162 .

ابن تيميه ان دو تفاسیر کے بارے میں کہتا ہے : تفاسيرهم متضمّنة للمنقولات التي يعتمد عليها في التفسير  طبري اور ابن ابي حاتم کی تفاسیر  ایسی تفاسیر میں سے ہیں کہ کہ جن میں ایسی احادیث اور باتیں موجود ہیں کہ جن پر قرآن کی تفسیر کے لئے اعتماد کیا جاسکتا ہے ۔

آلوسي سلفي کہتا ہے: « وغالب الأخباريّين على أنّ هذه الآية نزلت في ‌علي‌» اکثر اخباریوں کا یہ نظریہ ہے کہ یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کے بارے نازل ہوئی ہے .تفسير روح المعاني ج6ص167.

اسی طرح آلوسی کہتا ہے: «والآية عند معظم المحدثين نزلت في علي» اکثر محدثین کا یہ نظریہ ہے کہ آیت، علي بن ابي طالب کے بارے نازل ہوئی ہے .

تفسير روح المعاني ج6ص186.

آيه ابلاغ:

{يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا اُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ} المائدة: 67.

اے پیغمبر ! آپ اس حکم کو پہنچادیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا کہ اللہ کافروں کی ہدایت نہیں کرتا ہے۔

اھل سنت کے بڑے عالم ابن ابي حاتم نے ابو سعيد خُدْرِي سے نقل کیا ہے  : «نزلت هذه الآية . . . في علي بن أبي طالب» یہ آيه ابلاغ حضرت علی ابن ابی  طالب علیہ السلام کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔

تفسير ابن أبي حاتم ج 4 ص1172.

آلوسی کہ جو اھل سنت ہی بڑے علماء سے ہیں۔ انہوں نے عبد الله بن مسعود کی یہ روایت نقل کی ہے کہ ہم  رسول الله صلي الله عليه وآله کے زمانے میں  اس آیت کی اس طرح سے تلاوت کرتے تھے : «بَلِّغْ مَا اُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ إنّ عليّاً وليُّ المؤمنين وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ» یہ جو چیز آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل ہوئی ہے "علی مومنوں کے ولی ہیں " اس کو لوگوں تک پہنچائے اگر ایسا نہیں کیا تو گویا آپ نے رسالت کے کام کو نہیں پہنچایا۔

روح المعاني ج6 ص193

سيوطي ،شوكاني ، محمد رشيد رضا وغیرہ نے بھی اس حدیث کو نقل کیا ہے .

الدر المنثور ج2ص298 و فتح القدير ج 2 ص60 والمنار: ج 6ص463 .

آيه اکمال دين:

{أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمْ الاِسْلاَمَ دِيناً}. المائدة: 3

-آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا ہے اور اپنی نعمتوں کو تمام کردیا ہے اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسندیدہ بنادیا ہے.

خطيب بغدادي کہ جو اهل سنت کے بڑے علماء میں سے ہیں ،انہوں نے ابوهريره سے نقل کیا ہے : غدير خم کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے علي بن ابي طالب علیہ السلام کے ہاتھ کو پکڑ کر فرمایا : «أَلَسْتُ وَلِيَّ المُؤْمِنِين؟» کیا میں مومنوں کے ولی اور ان کا سرپرست نہیں ہوں؟ سب نے کہا جی ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم! ۔ اس وقت آپ نے فرمایا : «مَنْ كُنْتَ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ» جس کا میں مولی ہوں علی اس کا مولا ہیں  . اس کے بعد عمر بن خطاب نے کہا  : اے ابو طالب کے فرزند مبارک ہو مبارک ہو ، آپ میرے اور سارے مسلمانوں کے ولی بن گئے  اور پھر یہ آیت نازل ہوئی "آج آپ کے دین کو ہم نے کامل کیا (اس روایت کی سند معتبر ہے )

تاريخ بغداد ج8 ص284

ابن کثير کی نقل کردہ روایت کے مطابق عمر بن خطاب نے کہا : «أَصْبَحْتَ الْيَومَ وَلِيَّ كُلِّ مُؤْمِنٍ» يا علي! آج کے بعد آپ تمام مومنوں کے ولی بن گئے.

البداية والنهاية ج 7 ص350 .

سنت اور ادله امامت الهي و خلافت بلا فصل علي عليه السلام ۔

حديث ولايت:

حاكم نيشابوری کہ جو اھل سنت کے بڑے علماء میں سے ہیں،انہوں نے  پیغمبر صلي الله عليه وآله کی یہ روایت نقل کی ہے : «إنَّ عَلِيّاً مِنِّي وَأَنَا مِنْهُ وَهُوَ وَلِيُّ كُلِّ مُؤْمِنٍ بَعْدِي» علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ، علی میرے بعد تمام مومنین کے ولی ہیں ۔

یہ روایت مسلم کی شراط کے مطابق صحیح ہے اسی طرح ذھبی نے بھی اس کو صحیح قرار دیا یے .

مستدرك ج 3 ص 110

وهابي فکر والے بڑے عالم آلبانی نقل کرتا ہے کہ پیغمبر صلی الله عليه وآله نے  اميرالمؤمنين عليه السلام سے خطاب میں فرمایا : «أَنْتَ وَلِيُّ كُلِّ مُؤْمِنٍ وَمُؤْمِنَةٍ» تم میرے بعد تمام مومنین مرد اور عورتوں کے ولی ہیں. حاکم  اور ذهبي نے اس  روايت کو صحیح قرار دیا ہے  جب ان دو نے کہا ہے تو اس روایت کی سند صحیح ہے۔

السلسلة الصحيحة ، ج 5 ص263 . المستدرك ج3 ص133.

حديث الخلافة :

ابن أبي عاصم کہ جو اھل سنت کے بڑے علماء میں سے ہیں،انہوں نے پیغمبر صلی الله عليه وآله کی اس حدیث کو نقل کیا ہے کہ آپ نے اميرالمؤمنين سے خطاب میں فرمایا : «وَأنْتَ خَلِيفَتِي فِي كُلِّ مُؤْمِنٍ مِنْ بَعْدِي» آپ میرے بعد میرا جانشین اور تمام مومنوں کے ولی ہیں ۔

 كتاب السنة 551 .

 

وھابی عالم آلبانی نقل کرتا ہے : پیغمبر صلی الله عليه وآله نے اميرالمؤمنين سے خطاب میں فرمایا : «لَا يَنْبَغِي اَنْ اَذْهَبَ اِلَّا وَأَنْتَ خَلِيفَتِي» سزاوار نہیں ہے کہ میں جاوں مگر یہ کہ آپ میرا جانشین ہو ۔  الباني کہتا ہے کہ : حاکم اور ذهبي نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے ۔جس طرح سے ان دو نے اس کو صحیح قرار دیا ہے ،یہ صحیح ہے ۔

سلسلة الصحيحة ج 5 ص263 .

حديث امامت:

حاكم نيشابوري نے نقل کیا ہے کہ پیغمبر صلی الله عليه وآله نے فرمایا : مجھ پر وحی نازل ہوئی ہے کہ «علي إمام المتقين» علی متقین کے امام ہیں. اس روايت کی سند بھی صحیح ہے .

مستدرك حاكم ج3 ص133 .

خوارزمي کہ جو اهل سنت کے علماء میں سے ہے ،انہوں نے رسول اللہ  صلی ‌الله عليه وآله، سے نقل کیا ہے کہ آپ نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا : «أَنْتَ إِمَامُ كُلِّ مُؤْمنٍ وَمُؤْمِنَةٍ» آپ تمام مومن مردوں اور مومنہ عورتوں کے امام ہیں .  مناقب ص 61.

امام باقر عليه السلام نے آیت ولاية ، آیت ابلاغ  اور آیت  اكمال کے ذریعے سے امام علی علیہ السلام کی ولایت اور خلافت پر استدلال کیا ۔

كليني نے صحیح سند نقل کیا ہے کہ امام باقر عليه السلام نے فرمایا : اللہ نے رسول اكرم صلی الله عليه وآله کو ولايت علي عليه السلام کے اعلان کا حکم دیا ، سوره مائده آيه 55 ، {إِنَّما وَلِيُّكُمُ‏ اللَّهُ...} کو نازل کیا «وفَرَضَ وَلَايَةَ أُولِي الْأَمْرِ» اور اولی الامر کی ولایت کو ضروری قرار دیا۔

اسی طرح سوره مائده کی آيه 67 میں فرمایا  «يا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ ما أُنْزِلَ إِلَيْكَ‏ مِنْ رَبِّكَ» اس میں آپ کو یہ حکم دیا کہ آپ جو بات آپ پر وحی ہوئی ہے وہ آپ لوگوں تک پہنچائے اور  رسول اللہ صلی ‌الله عليه وآله نے بھی اللہ کے حکم کو عملی جامعہ پہنایا « فَقَامَ بِوَلَايَةِ عَلِيٍّ × يَوْمَ غَدِيرِ خُمٍّ» اور غدیر کے دن علي عليه السلام کی ولایت کا اعلان فرمایا اور یہ حکم دیا کہ اس حکم کو جو غائب ہیں ان تک پہنچائے .

پھر امام باقر عليه السلام نے فرمایا : اور اس آخری واجب کو کہ جو حضرت علي عليه السلام کی ولایت تھا، سوره مائده کی آیت نمبر ۳ کی نزول کے بعد کامل کیا ،{الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ‏ وأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي} آج آپ کے دین کو کامل کیا اور آپنی نعمتوں کو آپ پر کامل کیا «قَدْ أَكْمَلْتُ لَكُمُ الْفَرَائِضَ» در حقیقت سارے واجبات کو آپ پر مکمل کیا ۔كافي، ج1، ص 289 ح 4.

4 - اگر حضرت علي عليه السلام خليفه بلافصل ہوتے تو کیا ہوتا؟

علي عليه السلام كتاب اور  سنت پر عمل کرنے کا زمینہ فراہم کرتے :

اهل سنت کے علماء میں سے ابن شُبّه نُمَيري نے خليفه دوم سے نقل کیا ہے  ابن عباس نے نقل کیا ہے : إنَّ أَحْراهُمْ إنْ وَلِيَهَا أَنْ يَحْمِلَهُمْ عَلَى كِتَابِ اللّهِ وَسُنَّةِ نَبِيِّهِمْ صَاحِبُكَ، يَعِنِي عَلِيّاً. جو شخص مسلمان کو قرآن اور سنت کے مطابق عمل کرانے کے لئے سب سے زیادہ مناسب اور اھلیت رکھتا ہے ، وہ آپ کے  دوست علی ابن ابی طالب ہیں ،

تاريخ المدينة المنورة ج 3 ص 883.

لوگوں کو صراط مستقم کی طرف دعوت دینے کا باعث بنتے :

حنبلي فرقے کے بڑے امام ، احمد بن حنبل نے رسول اللہ صلی الله عليه وآله سے صحیح سند روایت نقل کیا ہے : واِن تُؤَمِّرُوا عَلِيًّا رضي الله عنه وَلاَ أُرَاكُمْ فَاعِلِينَ يَأْخُذُ بِكُمُ الطَّرِيقَ الْمُسْتَقِيمَ.

اگر علي کو  امير (المؤمنين) قرار دئے تو { اگرچہ میں جانتا ہوں ایسا نہیں کروگے  }  تو آپ سب لوگوں کو ہدایت کی راہ پر لے جاتے ۔

مسند أحمد ج 1 ص 537.

ابو نعيم اصفهاني کہ جو اهل سنت کے بڑے علماء میں سے ہے انہوں نے  رسول اللہ  صلی الله عليه وآله سے نقل کیا ہے : «إِنْ تَسْتَخْلِفُوا عَلِيّاً وَمَا أَرَاكُمْ فَاعِلِينَ تَجِدُوهُ هَادِياً مَهْدِيّاً ، يَحْمِلُكُمْ عَلَى الْمَحَجَّةِ الْبَيْضَاءِ». آگر علی کو اپنا خلیفہ قرار دئے آگرچہ میں جانتا ہو تم لوگ ایسا نہیں کرو گے، تو تم لوگ ان کو ہدایت کرنے والے اور اھل ہدایت پاتے یہ  تم لوگوں کو روشن اور سیدھے راستے پر چلاتے ۔

حلية الأولياء ج 1 ص 64.

اسلامی اتحاد کا موجب بنتے :

حاكم نيشابوري نے رسول اللہ صلی الله عليه وآله سے نقل کیا ہے کہ علي عليه السلام سے فرمایا : «أَنْتَ تُبَيِّنُ لِأُمَّتِي مَا اخْتَلَفُوا فِيهِ بَعْدِي». تم ای علی میرے بعد، جو فتنہ اور اختلاف ہوگا، تم اس کو صاف اور روشن کرو گے.

 آپ میرے بعد میری امت کو اس چیز کو بیان کریں گے جس میں وہ لوگ اختلاف کرئے ۔ یہ روایت صحیح اور صحیح بخاری اور مسلم کی شرائط کے مطابق صحیح ہے ۔

المستدرك: ج 3 ص 122.

ایک اور حدیث میں آپ نے فرمایا : «وَأَهْلُ بَيْتِي أَمَانٌ لِأُمَّتِي مِنَ الْاِخْتِلافِ» میرے اھل بيت امت کے لئے اختلافات سے آمن اور  امنیت  کا باعث ہے اور جو بھی قبیلہ ان سے اختلاف کرئے وہ شیطان کے گروہ سے ہے۔

یہ حدیث بھی صحیح ہے ۔

مستدرك ج 3 ص 149.

لوگوں کی دنیوی زندگی میں آسائش اور رفاہ کا باعث :

حضرت صديقه طاهره سلام اللہ علیہا نے اپنے مشہور خطبے میں ارشاد فرمایا : «يَالَلّهِ لَوْ تَكَافَؤُا عَلِي زِمَامٍ نَبَذَهُ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وآله ...لَفُتِحَتْ عَلَيْهِمْ بَرِكَاتٌ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ» اللہ کی قسم ! اگر زمام خلافت کو اسی کے حوالے کرتے جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے معین فرمایا تھا تو زمین اور آسمان کی برکتوں کے دروازے ان پر کھل جاتے .

بلاغات النساء، ص24 .

سلمان نے فرمایا : «لَوْ بَايَعُوا عَلِيّاً لَأَكَلُوا مِنْ فَوقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ» اگر علی کی بیعت کرتے تو آسمان اور زمین کی برکتوں سے استفادہ کرتے ۔

أنساب الأشراف ج 2 ص 274. مصنف ابن أبي شيبة ج 7 ص 443.

حضرت امير عليه السلام نے فرمایا : «وَلَو أَنَّ الْأُمَّةَ مُنْذُ قَبَضَ اللهُ نَبِيَّهُ، اِتَّبَعُونِي وَأَطَاعُونِي لَأَكَلُوا مِنْ فَوقِهِمْ وَمِنْ تَحْتَ أَرْجُلِهِم رَغَداً إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ». اگر امت پیغمبر صلی الله عليه وآله کی رحلت کے وقت میری اتباع اور اطاعت کرتے تو زمین اور آسمان کی نعمتوں سے فائدہ اٹھاتے اور قیامت تک خوش اور آسائش کے ساتھ زندگی گزارتے۔ .

كتاب سليم بن قيس ج 1 ص 658 و احتجاج طبرسي ج 1 ص 223.

اخروی زندگی میں سعادت کے ضامن :

عبد الرزاق صنعاني نے عبد الله بن مسعود کے توسط سے  رسول اكرم صلی الله عليه وآله سے نقل کیا ہے : «أَمَا وَالَّذِي نَفْسِي بيده، لَئِنْ أَطَاعُوهُ لَيَدْخُلَنَّ الْجَنَّةَ أَجْمَعِينَ أَكْتَعِينَ». اگر لوگ میرے بعد علي عليه السلام کی اطاعت کرئے تو سب کے سب ایک ساتھ جنت میں داخل ہوجاتے ۔

المصنف، ج 11، ص 317.

مہر خبررساں ایجنسی نے فلسطین الان کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ فلسطینی مزاحتمی تنظیموں کے رہنماؤں نے علیحدہ علیحدہ رابطوں میں اسلامی جمہوریہ ایران کے نئے صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی کو مبارکباد پیش کی ہے۔

اطلاعات کے مطابق فلسطینی تنظیم حماس کے سیاسی شعبہ کے سربراہ اسماعیل ہنیہ اور فلسطینی تنظیم جہاد اسلامی کے سکریٹری جنرل زیادہ النخالہ نے ایران کے نئے صدر کے ساتھ ٹیلیفون پر گفتگو کی اور انھیں ایران کا صدر منتخب ہونے پر مبارکباد پیش کی۔

اسماعیل ہنیہ نے اسلامی جمہوریہ ایران کی طرف سے فلسطینیوں کے بے لوث مدد اور حمایت پر شکریہ ادا کرتے ہوئے سید ابراہیم رئیسی کو ایران کا نیا صدر منتخب ہونے پر انھیں مبارکباد پیش کی۔

فلسطینی تنظیم جہاد اسلامی کے سربراہ نے زيادہ النخالہ نے بھی ٹیلیفون پر گفتگو کرتے ہوئے آیت اللہ رئيسی کو ایران کا صدر منتخب ہونے پر تبریک اور تہنیت پیش کی۔

ایران کے نئے صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی نے بھی سیف القدس جنگ میں فلسطینی عوام  کی فتح پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ بیت المقدس کی آزادی تک ایران کی طرف سے فلسطینیوں کی حمایت کا سلسلہ جاری رہےگا۔

واضح ہو کہ ذالحجہ ایک عظیم اور بزرگ تر مہینہ ہے جب اس مہینے کاچاند نظر آتا تو اکثر صحابہ وتابعین عبادت میں خاص اہتمام کرتے تھے قرآ ن میں اس کے پہلے دس دنوں کوایام معلوما ت کہاگیا ہے اور یہ بڑی فضیلت اور برکت والے ایام ہیں -حضرت رسول اللہ کافر مان ہے کہ کسی بھی دن کی نیکی و عبادت خداکے ہاں اس نیکی وعبادت سے محبوب تر نہیں جو ان دس دنوں میں کی جائے ۔

ان دس دنوں کے چند اعمال ہیں ۔

۱۔پہلے نود ن کے روزے رکھے توایساہے گویا ساری زندگی روزے رکھے ہوں۔

۲۔ان دس دنو ں میں مغرب وعشا کے درمیان دورکعت نمازپرھے کہ ہر رکعت میں سورہ الحمدکے بعد سور ہ توحید اور یہ آیات پڑھے تا کہ حجاج کعبہ کے ثواب میں شریک ہو جائے ۔

ووعد نا موسی ثلاثین لیلۃواتممناہا بعشر فتم میقات ربہ اربعین لیلۃ وقال موسی لاخیہ ہرون اخلفنی فی قومی واصلح ولاتتبع سبیل المفسدین

وعدہ کیا ہم نے موسی ٰ سے تیس راتوں کا اور مزید دس راتوں کااضافہ کیا توپھر اس کے رب کاوعدہ چالیس راتوں کا ہوگیااور کہا موسی نے اپنے بھائی ہارون میری امت میں میر اجانیشین بن اور ان کی اصلاح کراور فساد کرنیوالوں کی راہ پر نہ چلنا

۳۔ان دس دنوں میں ہر روز یہ تہلیلات پڑھے جو حضرت امیرالمومنین سے منقول ہیں اوران پر ثواب کثیر کا ذکر ہواہے اور ان کو روزانہ دس مرتبہ پڑھے تو خوب ہے وہ تہلیلات یہ ہے

لاالہ الااللہ عدد اللیالی والدہورلاالہ الااللہ عدد امواج البحور لا الہ الا اللہ ورحمتہ خیر مما یجمعون لاالہ الا اللہ عددالشوک والشجر لا الا اللہ عدد الشعر والوبرلاالہ الااللہ عددالحجر والمدرلاالہ الااللہ عددلمح العیون لاالہ الااللہ فی الیل اذا عسعس والصبح اذاتنفس لا الہ الا اللہ عدد الریاح فی البراری والصخور لاالہ الا اللہ من الیوم الی یوم ینفخ فی الصور

نہیں معبود سوائے کوئی اللہ کے راتوں اور زمانوں کی تعداد میں نہیں معبود سوائے اللہ کےسمندر کی لہروں کی تعداد میں نہیں معبودسوائے اللہ کے اور اسکی رحمت بہتر ہے  اس سے جو وہ جمع کر تے ہیں نہیں معبو دسو ائے اللہ کے درختوں اورکانٹوں کی تعداد میں نہیں  اس معبود سوائے اللہ کے بالوں اور دن کے ریشوں کی تعداد میں نہیں معبود سوائے اللہ کے پتھروں اور ڈھیلوں کی تعداد میں نہیں معبود سوائے اللہ کے پلکوں کے جھپکنے کی تعداد میں نہیں سوائے اللہ کے رات میں جب تاریک ہوجائے اور صبح کوجب وہ روشن ہونہیں معبود سوائے اللہ کے ہواؤں اور بیابانوں اور صحراوں کی تعداد میں نہیں معبود سوائے اللہ کے آج سے صور پھو نکنے کے دنوں میں

نویں ذالحجہ کی رات

یہ بڑی مبارک رات ہے یہ قاضی الحاجات سے مناجات اور رازو نیاز کی رات ہے کہ اس رات توبہ قبول اور دعامستجاب ہو تی ہے ۔پس جو شخص یہ رات عبادت میں گزارے وہ ایساہے کہ گویا ایک سوستر سال تک عبادت میں مصروف رہا ہو اس رات کے چند اعمال ہیں ۔

۱۔وہ دس تسبیحا ت جو سید نے ذکر کی ہیں ان کوہزار مرتبہ پڑہے اور وہ روز عرفہ کے اعمال میں آئیں گے ۔

۲۔ دعا ء”اللہم تعبا و تہیاپڑہے

۳۔زمین کربلا امام حسین کی زیارت کرے اوریوم عید تک وہیں رہے تاکہ اس سال میں ہر شر سے محفوظ رہ سکے ۔

نویں ذی الحجہ کا دن

یہ روز عرفہ ہے اور بہت بڑی عید کادن ہے اگرچہ اس کوعید کے نام سے موسوم نہیں کیاگیا  یہی وہ دن ہے جسمیں خدائے تعالی ٰ نے بندوں کواپنی اطاعت وعبادت کی طرف بلایاہے آج کے دن ان کے لیے اپنے جود وسخا کا دستر خوان بچھایا ہے اور آج شیطان کودہتکاراگیااور زلیل وخوارہواہے ۔

روایت ہے کہ امام زین العابدین نے روز عرفہ ایک سائل کی آواز سنی جو لو گوں سے خیرات مانگ رہا تھا آپ نے فرمایا :افسوس ہے تجھ پر کہ آج کے دن بھی تو غیر خدا سے سوال کررہا ہے حالانکہ آج تویہ امید ہے کے ماوں کے پیٹ کے بچے بھی خداکے لطف وکرم سے مالامال ہو کر سعید وخوش بخت ہوجائیں گے ۔

اس دن کے چند ایک اعمال یہ ہیں ۔

 

۱۔ غسل کرے

۲۔ اما م حسین علیہ السلام کی زیارت کہ اسکاثواب ہزارحج ہزار عمرہ اور ہزار جہاد جتنا بلکہ اس سے بھی زیادہ ہے اس زیارت کی فضیلت میں بہت سی متواتر حدیثیں نقل ہوئی ہیں کہ آج کے دن جو کوئی حضرت کے قبہ مقدسہ کے تحت تو اس کا ثواب عرفات والوں سے کم نہیں ذیادہ ہے

۳۔نماز عصر کے بعد دعاء عرفہ پڑھنے سے قبل زیر آسمان دورکعت نماز بجالائے اور اپنے گناہوں کااقرارو اعتراف کرے تاکہ اسے عرفات میں حاضری کاثواب ملے اور اس کے گناہ معاف ہوں۔اس کے بعد آئمہ طاہرین علیہم السلام کے حکم کے مطابق دعا پڑھے اوراعمال عرفہ بجا لائے اوریہ اعمال بہت زیادہ ہیں کہ اس مختصر کتاب میں ان کا بیان ممکن نہیںپھر بھی حسب گنجائش ہم یہاں چندااعمال کاذکر کرتے ہیں ۔

شیخ کفعمی نے مصباح میں فرمایا ہے کہ یوم عرفہ کا روزہ مستحب ہے بشرطیکہ دعا عرفہ کے پڑھنے میں کمزوری آنے کا بھی خوف نہ ہوزوال سے پہلے غسل کرنا بھی مستحب ہے اورشب عرفہ وروز عرفہ زیارات امام حسین  بھی مستحب ہے زوال کے وقت زیر آسمان نماز ظہر وعصرنہایت متانت اور سنجیدگی سے بجالائے اس کے بعد دورکعت نماز پڑھے کہ پہلی رکعت میں سو رہ الحمد کے بعد سورہ توحیداوردوسری رکعت میں سورہ الحمدکے بعد سورہ کافرون پڑھے بعد چار رکعت نمازپڑھے کہ ہر رکعت میں سورہ الحمد کے بعد پچاس مرتبہ سورہ توحید کی قرائت کرے ۔

دسو یں ذی الحجہ کی رات

یہ بڑی عظمت وبرکت والی رات ہے اوریہ چار راتوں میں سے ہے جن میں شب بیداری مستحب ہے آج کی رات آسمان کے دروازے کھلے ہوئے ہیں اس شب میں امام حسین علیہ السلام کی زیارت مستحب ہے اوردعا ” یا دائم الفضل علی البریۃ ۔۔۔کا پڑھنا بھی بہتر ہے جس کاذکرشب جمعہ کے اعمال میں ہوچکاہے

دسو یں ذی الحجہ کادن

یہ روز عید قربان اور بڑی عظمت و بزرگی والا دن ہے اس میں کئی ایک اعمال ہیں :

۱۔ غسل : آج کے دن غسل کرنا سنت موکدہ ہے اوربعض علماء تو اس کے واجب ہونے کے قائل بھی ہیں ۔

۲۔نمازعید آج کے دن بھی نماز عید کے بعد قربانی کے گوشت سے استعمال کرے ۔

۳۔ نمازعید سے قبل وبعد منقولہ دعائیں پڑھے

۴۔ دعا ندبہ پڑھے

۵۔ قربانی : قربانی کرنا سنت موکدہ ہے قربانی کی کھالیں دینی اور رفاحی اداروں کو دیں ۔

۶۔ تکبیرات : جو شخص منی میں ہو وہ روز عید کی نماز ظہر سے تیر ھویں ذی الحجہ کی نماز فجر تک پندرہ  نماز وں کے بعد تکبیریں پڑھے اور دیگر شہروں کے لوگ روز عید کی نماز ظہر سے بارہویں ذی الحجہ کی نماز فجر تک

دس نمازوں کے بعد تکبیریں پڑھیں ۔کافی کی صیحح روایت کے مطابق وہ تکبیریں یہ ہیں ۔

اللہ اکبر اللہ اکبر لاالہ اللہ واللہ اکبر وللہ الحمد اللہ اکبر علی ما ہدینا اللہ اکبر علی ما رزقنامن بہمۃ الانعام والحمدللہ علی ما ابلانا

اللہ بزرگ تر ہے اللہ بزرگ تر ہے نہیں کوئی سو ائے اللہ کے اللہ بزرگ تر ہے اور اللہ ہی کے لیے حمد ہے اللہ بز رگ تر ہے کہ اس نے ہمیں ہدا یت دی اللہ بز رگ تر ہے کہ اس نے ہمیں روز ی دی بے زبان چو پا یو ں میں سے اور حمد ہے اللہ کے لیے کہ اس نے ہماری آزمائش کی ۔

یہ تکبیریں مذکورہ نمازوں کے بعد حتی الامکان باربار پڑھنامستحب ہے بلکہ نوافل کے بعدبھی پڑھے ۔

اٹھارہویں ذی الحجہ کی رات

یہ عید غدیر کی رات ہے جو بڑی عزت وعظمت کی حامل ہے سید نے کتاب اقبال میں اس رات کی بارہ رکعت نما زذکر کی ہے ۔

اٹھارہویں ذی الحجہ کا دن

یہ عیدغدیر کادن ہے جوخدائے تعالی ٰ اور آل محمد علیہم السلام کی عظیم ترین عیدوں میں سے ہے ہر پیغمبر نے اس دن عید منائی اور ہر نبی اس دن کی شان وعظمت کاقائل رہا ہے آسمان میں اس عید کا نام ”روز عہد معہود “۔ہے اور زمین میں اس کانام ۔میثاق ماخوذوجمع مشہور ہے ۔

ایک روایت کے مطابق امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ جمعہ عید الفطر اورعید قر بان کے علاوہ بھی مسلمانوں کے لیے کوئی عیدہے ؟حضرت نے فرمایا :ہاں ان کے علاوہ بھی ایک عید ہے اور وہ بڑی عزت وشرافت کی حامل ہے عرض کی گئی وہ کو نسی عید ہے؟آپ نے فر مایاوہ دن کہ جس میں رسو ل اعظم نے امیرالمومنین کاتعارف اپنے خلیفہ کے طور پرکرایا آپ نے فرمایاکہ جس کا میں مولاہوں علی بھی اس کے مولا ہیں اوریہ اٹھارہویں ذی الحجہ کا دن اورروز عید غدیرہے ۔راوی نے عرض کی کہ اس دن ہم کیاعمل کریں ؟ حضرت نے فرمایا کہ اس دن روزہ رکھو  خد اکی عبادت کرو محمد وآل محمدکاذکر کرو اور ان پرصلواٰت بھیجو ۔

حضور نے امیر المومنین کواس دن عید منا نے کی وصیت فر مائی جیسے ہر پیغمبر اپنے اپنے وصی کو اسطرح وصیت کرتا رہا ہے :

ابن نصربزنطی نے امام علی رضاعلیہ السلام سے روایت کی ہے کہ حضرت نے فرمایا: اے ابن ا بی نصر!تم جہاں بھی ہو روز غدیرنجف اشرف پہنچو اور حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی زیارت کرو کہ ہرمومن مرد اور ہر مومنہ عورت کے ساٹھ سال کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔مزید یہ کہ پورے ماہ رمضان شب ہائے قدراور عیدالفطرمیں جتنے انسان جہنم کی آگ سے آزاد کیے جاتے ہیں،اس ایک دن میں ان سے دوچندافراد کو جہنم سے آزاد قرار دیا جاتا ہے۔ آج کے دن اپنے حاجت مند مومن بھائی کو ایک درہم بطورصدقہ دینا دوسرے دنوں میں ایک ہزار درہم دینے کے برابر ہے۔پس عیدغدیر کے دن اپنے برادر مومن کے ساتھ احسان ونیکی کرواور اپنے مومن بھائی ومومنہ بہن کو شاد کرے، خدا کی قسم ! اگر لوگوں کو اس دن کی فضیلت کا علم ہوتا اور وہ اس کا لحاظ رکھتے تو اس روز ملائکہ سے دس مرتبہ مصافحہ کیا کرتے۔ مختصر یہ ہے کہ اس دن کی تعظیم کرنا لازم ہے اور اس میں چند اعمال ہیں:

۱۔اس دن کا روزہ رکھنا ساٹھ سال کے گناہوں کا کفارہ ہے، ایک روایت میں ہے کہ یوم غدیر کا روز مدت دنیا کے روزوں ،سوحج اور سوعمرے کے برابر ہے۔

۲۔اس دن غسل کرنا ضروری اور باعث خیروبرکت ہے۔

۳۔اس روز جہاں کہیں بھی ہوخود کو روضہ امیرالمومنین علیہ السلام پر پہنچائے اور آپ کی زیارت کرے۔ آج کے دن کے لیے حضرت کی تین مخصوص زیارتیں ہیں اور ان میں سب سے مشہور زیارت امین اللہ ہے جو دور و نزدیک سے پڑھی جا سکتی ہے۔ یہ زیارت جامعہ مطلقہ ہے اور اسے باب زیارات میں تحریر کیا جائے گا۔

 ۴۔حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سے منقول تعویز پڑھے کہ سید نے کتاب اقبال میں اس کا ذکر کیا ہے۔

۵۔ دو رکعت نماز بجا لائے اور سجدہ شکر میں سو مرتبہ شکراً شکراً کہے، پھر سجدے سے سر اٹھائے اور یہ دعا پڑھے:

۷۔ آج کے دن دعاء ندبہ پڑھے،

۱۰۔ سو مرتبہ کہے:

الحمدللہ الذی جعل کمال دینہ وتمام نعمتہ بولایۃ امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام

حمد ہے اللہ کے لیے جس نے اپنے دین کے کمال اور نعمت کے اتمام کو امیرالمومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی ولایت کے ساتھ مشروط قرار دیا

واضح ہو کہ عیدغدیر کے دن اچھالباس پہنے، خوشبولگائے، خوش وخرم ہو ،مؤمنین کو راضی وخوش کرے، ان کے قصور معاف کرے ، ان کی حاجات پوری کرے، رشتہ داروں سے نیک سلوک کرے، اہل وعیال کے لیے عمدہ کھانے کا انتظام کرے، مومنین کی ضیافت کرے اور ان کا روزہ افطار کرائے۔ مومنین سے مصافحہ کرے ، برادران ایمانی سے خوش خوش ملے اور ان کو تحائف دے۔ آج کی عظیم نعمت یعنی ولایت امیرالمومنین پر خدا کا شکر بجا لائے۔ کثرت سے صلوات پڑھے اور اس دن خدا کی عبادت کرے کہ ان تمام امور میں سے ہر ایک کی بڑی فضیلت ہے۔

آج کے دن اپنے مومن بھائی کو ایک روپیہ دینا دوسرے دنوں میں ایک لاکھ روپیہ دینے کے برابر ثواب رکھتا ہے اور آج کے دن اپنے مومن بھائیوں کو دعوت طعام دینا گویا تمام پیغمبروں اور مومنوں کو دعوت طعام دینے کی مانند ہے۔ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے خطبہ غدیر میں ہے جو شخص آج کے دن کسی روزہ دار کو افطاری دے گویا اس نے دس فئام کو افطاری دی ہے۔ ایک شخص نے اٹھ کر عرض کی مولا!فئام کیا ہے؟ فرمایا کہ فئام سے مراد ایک لاکھ پیغمبر،صدیق اور شہید ہیں، ہاں تو کتنی فضیلت ہو گی اس شخص کی جو چند مومنین ومومنات کی کفالت کر رہا ہو؟ پس میں بارگاہ الہٰی میں اس شخص کا ضامن ہوں کہ وہ کفراور فقر سے امان میں رہے گا۔

خلاصہ یہ کہ عزوشرف والے دن کی فضیلت کا بیان ہماری استطاعت سے باہر ہے، یہ شیعہ مسلمانوں کے اعمال قبول ہونے اور ان کے غم دور ہونے کا دن ہے۔ اسی دن حضرت موسٰی علیہ السلام کو جادوگروں پر غلبہ حاصل ہوااور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے آگ گلزار بنی۔ حضرت عیسٰی علیہ السلام کی طرف حضرت شمعون کوولایت ووصایت ملی، حضرت سلیمان علیہ السلام نے آصف بن برخیا کی وزارت دنیا بت پر لوگوں کو گواہ بنایا اور اسی دن حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ نے اپنے اصحاب میں اخوت قائم فرمائی ۔ پس یوم غدیر مومنین باہم صیغہ اخوت پڑھیں اور آپس میں بھائی چارہ قائم کریں۔

ماخوذ: مفاتیح الجنان

 

 

 

 

گذشتہ تین ماہ سے افغانستان میں طالبان نے تیزی سے پیشقدمی کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ دوسری طرف اگرچہ امریکہ نے افغان حکومت کو بہت سے وعدے دے رکھے تھے لیکن مشکل وقت آنے پر یہ تمام وعدے بھلا کر افغانستان کو طالبان کے رحم و کرم پر چھوڑ کر جا چکا ہے۔ یوں افغانستان کا مستقبل بہت زیادہ مبہم اور پیچیدہ ہو گیا ہے۔ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ افغانستان کے کل 370 صوبوں میں سے 160 سے زائد صوبوں پر طالبان کا قبضہ برقرار ہو چکا ہے۔ دوسری طرف افغانستان کے صدر اشرف غنی کا دورہ امریکہ بھی ناکامی کا شکار ہو چکا ہے جس میں انہوں نے امریکی حکام سے فوجی انخلاء میں تاخیر کرنے کی درخواست کی تھی۔ امریکی حکام نے ماضی میں بے شمار وعدوں کے باوجود طالبان کے مقابلے میں افغان حکومت کی کوئی مدد نہیں کی۔
 
امریکہ نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان سے خفیہ مذاکرات بھی انجام دیے۔ ان مذاکرات میں امریکی حکام نے نہ صرف افغان حکومت کو اعتماد میں نہیں لیا بلکہ حتی انہیں اطلاع دینے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی۔ اسی طرح ٹھیک اس وقت جب طالبان نے اپنی پیشقدمی تیز کی ہوئی تھی اور تیزی سے مختلف صوبوں پر قابض ہوتے جا رہے تھے امریکہ نے مکمل طور پر اپنی فوجیں افغانستان سے واپس بلا لیں۔ لہذا یہ کہنا بجا ہو گا کہ امریکہ دوحہ مذاکرات میں طالبان کو اس بارے میں سبز جھنڈی دکھا چکا تھا۔ دیگر اہم نکتہ یہ ہے کہ افغانستان کے اندر ذرائع ابلاغ بھی متضاد صورتحال کا شکار ہیں۔ ایک طرف طالبان کو شدت پسند گروہ قرار دیا جا رہا ہے جبکہ دوسری طرف یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ طالبان عوام کی مرضی سے مختلف صوبوں پر قابض ہوتے جا رہے ہیں۔
 
حقیقت یہ ہے کہ ابھی تک طالبان نے عام شہریوں خاص طور پر ہزارہ، اہل تشیع اور تاجک اقوام کے ساتھ شدت پسندانہ رویہ اختیار نہیں کیا اور ان کے تمام تر فوجی اقدامات حکومتی فورسز کے خلاف انجام پائے ہیں۔ لہذا افغانستان کے مستقبل سے متعلق واضح تصویر نظر نہیں آ رہی۔ البتہ طالبان کی مختلف علاقوں پر قابض ہونے کی طاقت اور متعدد علاقوں کی عوام کا طالبان سے اظہار یکجہتی اس حقیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ آئندہ تین سے چھ ماہ تک افغانستان میں اقتدار کی کیفیت یونہی رہے گی جیسی اس وقت پائی جاتی ہے۔ یہاں ایک اور اہم نکتہ بھی موجود ہے جس پر توجہ ضروری ہے۔ وہ یہ کہ امریکہ گذشتہ بیس برس میں اپنے فوجی قبضے کے دوران القاعدہ اور داعش سمیت کئی دہشت گرد گروہوں کو دوبارہ منظم کر کے انہیں کافی مقدار میں اسلحہ فراہم کر چکا ہے۔
 
اسی طرح امریکہ نے وہ فوجی سازوسامان بھی مختلف افغان گروہوں میں بانٹ دیا ہے جسے امریکی فوجی اپنے ساتھ واپس لے جانے سے عاجز تھے۔ البتہ یہ امریکی اسلحہ اور فوجی سازوسامان ہمسایہ ممالک خاص طور پر اسلامی جمہوریہ ایران کیلئے کوئی خطرہ قرار نہیں پا سکتا کیونکہ اب تک خود امریکی فوجی اس سے کہیں زیادہ جدید اور مہلک ہتھیاروں سے لیس وہاں موجود رہے ہیں لیکن ایران کے سرحدی علاقوں کو کوئی خطرہ پیش نہیں آیا۔ اس بارے میں اہم نکتہ یہ ہے کہ امریکہ نے یہ اسلحہ اور فوجی سازوسامان شدت پسند اور دہشت گرد گروہوں کو دیا ہے جس کا مقصد خطے میں بدامنی اور عدم استحکام برقرار رکھ کر امریکی اہداف اور مفادات کا حصول یقینی بنانا ہے۔ یوں یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ امریکہ جس ملک سے باہر نکلتا ہے وہاں بدامنی اور عدم استحکام پیدا ہو جاتا ہے۔
 
موجودہ صورتحال میں بین الافغان مذاکرات بہت زیادہ اہمیت اختیار کر چکے ہیں۔ یہ مذاکرات مفید بھی ہیں اور افغانستان کی قومی سلامتی اور عوام کے مفادات کا تحفظ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اسی طرح بین الافغان امن مذاکرات خطے میں قیام امن کا بھی باعث بن سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے ہمیشہ بین الافغان امن مذاکرات کی حمایت کی ہے اور ان کے انعقاد پر زور بھی دیا ہے اور ان کے انعقاد میں مدد بھی فراہم کی ہے۔ اشرف غنی کی سربراہی میں موجودہ افغان حکومت ملک میں موجود وسیع پیمانے پر انارکی اور بیرونی امداد پر حد سے زیادہ انحصار کے باعث زیادہ عرصے تک اقتدار میں باقی رہنے کی طاقت نہیں رکھتی۔ دوسری طرف افغان حکومت میں موجود سابقہ جہادی عناصر بھی عوام میں محبوبیت کھو چکے ہیں۔
 
ایسی صورتحال میں اسلامی جمہوریہ ایران خطے کے دیگر ممالک کے تعاون سے ممکنہ حد تک فوجی ٹکراو اور جنگ روکنے کی بھرپور کوشش میں مصروف ہے۔ اس مقصد کیلئے تمام گروہوں کو مذاکرات کی ٹیبل پر لانے کی تگ و دو جاری ہے۔ شدت پسندی اور قتل و غارت سے بچنے کا واحد راستہ گفتگو اور مذاکرات ہیں۔ افغانستان میں نئی جنگ کا آغاز اور بدامنی کا نیا سلسلہ شروع ہونا کسی کے فائدے میں نہیں ہے۔ اس کا نقصان سب سے پہلے افغان عوام کو ہو گا اور اس کے بعد ہمسایہ ممالک کو اس کے منفی اثرات بھگتنے پڑیں گے۔ اس وقت افغانستان میں کوئی ایسا گروہ یا طاقت موجود نہیں جو اکیلے اپنے سو فیصد اہداف اور مفادات کی تکمیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ لہذا بہترین راستہ یہی ہے کہ تمام گروہ مل کر قومی سلامتی اور عوامی مفادات کا تحفظ یقینی بنائیں۔

تحریر: ڈاکٹر سید رضا صدر الحسینی
 

 حضرت امام محمد تقی(ع) شیعوں کے نویں امام ہیں آپؑ کی والدہ ماجدہ حضرت سبیکہ(س) اورآپؑ کے والد بزرگوار حضرت امام علی بن موسیٰ الرضا علیہ السلام ہیں آپؑ کی کنیت ابوجعفر ثانی اور مشہور القاب جواد، ابن الرضا اور تقیؑ ہیں۔

مؤرخین کے مطابق آپ کی ولادت باسعادت سنہ ۱۹۵ ہجری میں مدینہ منورہ میں ہوئی، لیکن آپؑ کی ولادت کے دن اور مہینے کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔
مورخین نے آپ (ع) کی تاریخ ولادت شب جمعہ 19 رمضان المبارک کی شب، بیان کی ہے اور بعض دوسروں نے لکھا ہے کہ امام (ع) پندرہ رمضان المبارک کو پیدا ہوئے. تا ہم شیخ طوسی کتاب "المصباح" میں لکھتے ہیں کہ حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کا یوم ولادت 10 رجب المرجب سنہ 195 ہجری ہے۔ (بحار الانوار، ج 50، ص 1 تا 14)

بابرکت مولود:
بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی ولادت سے پہلے بعض واقفیہ یہ کہتے تھے کہ حضرت علی بن موسیٰ رضا (ع) کی نسل باقی نہیں رہے گی اور ان کے بعد ان کی نسل میں سلسلہ امامت منقطع ہو جائے گا۔ یہی سبب ہے جس وقت امام محمد تقیؑ کی ولادت ہوئی حضرت امام رضاؑ نے فرمایا: ’’ هذا المولود الذي لم يولد مولود أعظم بركة على شيعتنا منه‘‘(یہ وہ مولود ہے جس سے زیادہ بابرکت مولود ہمارے شیعوں کے لئے اب تک دنیا میں نہیں آیا)۔ (کلینی، الکافی، ج1 ص321)
ابن اسباط اور عباد بن اسمعیل نیز ابویحیٰ صنعانی کہتے ہیں:’’ إنا لعند الرضا عليه السلام بمنى إذ جبئ بأبي جعفر عليه السلام قلنا: هذا المولود المبارك ؟ قال: نعم، هذا المولود الذي لم يولد في الاسلام أعظم بركة منه ‘‘ ( ہم حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے ساتھ تھے جب ابو جعفر کو ان کے پاس لایا گیا۔ ہم نے عرض کیا: کیا وہ بابرکت مولود یہی ہے؟ فرمایا: ہاں! یہی وہ مولود ہے جس سے زيادہ برکت والا اسلام میں پیدا نہیں ہوا)۔ (مجلسی، بحار الانوار، ج50، ص20و23و35۔ شیخ مفید، الارشاد ص 279۔ کلینی رازی، الكافي ج1 ص321)

ازدواج اور اولاد:
امام جوادؑ کی شادی سنہ 215 میں مامون عباسی کی بیٹی ام فضل سے ہوئی یہ شادی مامون کی درخواست پر ہوئی اس شادی سے امامؑ کی کوئی اولاد نہیں ہوئی اور آپ کی تمام اولادیں آپؑ کی دوسری زوجہ مکرمہ سمانہ مغربیہ سے ہوئیں۔( قمی، منتہی الامال، ج2، ص235)
شیخ مفید علیہ الرحمہ کی روایت کے مطابق حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کی اولاد کی تعداد چار ہیں جن کے نام امام علی نقیؑ، موسیٰ مبرقعؑ،فاطمہ اور امامہ ہیں۔( مفید، الارشاد، ج2، ص284)

امامت:
کم سنی میں امامت کے حوالے سے ہونے والے اعتراضات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وصال کے بعد سے پہلی مرتبہ اہل تشیع کو ایک نئے مسئلے کا سامنا تھا اور وہ مسئلہ کم سنی میں امام جواد علیہ السلام کی امامت کا مسئلہ تھا. کیونکہ امام رضا علیہ السلام کی شہادت کے وقت حضرت امام محمد تقی علیہ السلام سات برس کے تھے اور اسی عمر میں ہی مرتبہ امامت پر فائز ہوئے. چونکہ اس سے پہلے ائمہ طاہرین علیہم السلام کے بارے میں ایسا مسئلہ پیش نہیں آیا تھا لہذا امام جواد علیہ السلام نے خود ہی کئی مرتبہ اس شبہے کا ازالہ فرمایا. ابراہیم بن محمود کہتے ہیں: ’’میں خراسان میں امام رضا علیہ السلامی کی خدمت میں حاضر تھا. اسی وقت امام (ع) کے ایک صحابی نے سوال کیا: اگر آپ کو کوئی حادثہ پیش آئے تو ہم کس سے رجوع کریں؟امام علیہ السلام نے فرمایا: میرے بیٹے محمد سے.اس وقت امام علیہ السلام کی عمر بہت کم تھی اور امام علیہ السلام نے ممکنہ شبہے کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: خداوند متعال نے حضرت عیسی علیہ السلام کو میرے محمد (محمد تقی الجواد) کی موجودہ عمر سے بھی کم عمری میں نبی بنا کر بھیجا اور ان کو ایک نئی شریعت قائم کرنے کی ذمہ داری سونپ دی جبکہ میں اپنے بیٹے کو اسلام کی مستحکم شدہ شریعت کی برپائی اور حفاظت کے لئے متعارف کررہا ہوں. (بحارالانوار، ج 50، ص 34، ح 20.)

حضرت امام  علی رضا علیہ السلام امام محمد تقی (ع) کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟
کلیم بن عمران کہتے ہیں: میں نے امام رضا علیہ السلام سے عرض کیا: اللہ تعالی سے التجا کریں کہ آپ کو اولاد نرینہ عطا فرمائے. امام علیہ السلام نے فرمایا: میری قسمت میں ایک ہی بیٹا ہے جو میرا وارث ہوگا.جب امام جواد علیہ السلام دنیا میں تشریف لائے تو امام رضا علیہ السلام نے اپنے اصحاب سے مخاطب ہوکر فرمایا: خداوند متعال نے مجھے ایسا فرزند عطا فرمایا ہے جو حضرت موسی علیہ السلام کی طرح دریاؤں کو شکافتہ کرنے والا ہے اور حضرت عیسی بن مریم کی طرح ہے جس کی ماں مقدس ہے اور پاک و طاہر متولد ہوا ہے۔ میرا یہ فرزند ناحق مارا جائے گا اور آسمان والے اس پر گریہ و بکاء کریں گے اور اللہ تعالی اس کے دشمن پر غضبناک ہوگا اور بہت تھوڑا عرصہ بعد اس کو دردناک عذاب سے دوچار فرمائے گا. (بحار الانوار، ج 50، ص 15، ح 19)

کرامات:
صاحب تفسیرعلامہ حسین واعظ کاشفی کا بیان ہے کہ حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کی کرامات بے شمارہیں (روضة الشہدا ص ۴۳۸) میں بعض کا تذکرہ مختلف کتب سے کرتا ہوں ۔
۱ ۔ ایک شخص نے آپ کی خدمت میں حاضرہو کرعرض کیا کہ ایک مسماة (ام الحسن) نے آپ سے درخواست کی ہے کہ اپنا کوئی جامہ کہنہ دیجیے تاکہ میں اسے اپنے کفن میں رکھوں آپ نے فرمایا کہ اب جامہ کہنہ کی ضرورت نہیں ہے روای کا بیان ہے کہ میں وہ جواب لے کرجب واپس ہوا تومعلوم ہواکہ ۱۳ ۔ ۱۴ دن ہو گئے ہیں کہ وہ انتقال کرچکی ہے۔
۲ ۔ ایک شخص (امیہ بن علی) کہتا ہے کہ میں اورحماد بن عیسی ایک سفرمیں جاتے ہوئے حضرت کی خدمت میں حاضرہوئے تاکہ آپ سے رخصت ہولیں، آپ نے ارشاد فرمایا کہ تم آج اپنا سفرملتوی کردو، چنانچہ میں حسب الحکم ٹہرگیا، لیکن میراساتھی حماد بن عیسی نے کہا کہ میں نے ساراسامان سفرگھرسے نکال رکھا ہے اب اچھا نہیں معلوم ہوتا کہ سفرملتوی کردوں، یہ کہہ کروہ روانہ ہوگیا اورچلتے چلتے رات کو ایک وادی میں جا پہنچا اوروہیں قیام کیا، رات کے کسی حصہ میں عظیم الشان سیلاب آ گیا،اوروہ تمام لوگوں کے ساتھ حماد کوبھی بہا کر لے گیا (شواہدالنبوت ص ۲۰۲) ۔

فرامین:
۱۔  ’’ مَنْ خَطَبَ إلَيْكُمْ فَرَضيتُمْ دينَهُ وَ أمانَتَهُ فَزَوِّجُوهُ، إلّا تَفْعَلُوهُ تَكْنُ فِتْنَةٌ فِى الأرْضِ وَ فَسادٌ كَبير‘‘ ( جس نے تم سے [بیٹی یا بہن کا] رشتہ مانگا اور تمہیں اس کا دین پسند آیا تو وہ رشتہ قبول کرو اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو تمہارا یہ عمل روئے زمان پر عظیم برائی کا سبب بنے گا)۔
۲۔ ’’مَنْ أتَمَّ رُكُوعَهُ لَمْ تُدْخِلْهُ وَحْشَةُ الْقَبْرِ ‘‘(جو شخص اپنی نماز کا رکوع مکمل اور صحیح طور پر انجام دے وہ قبر میں وحشت سے دوچار نہ ہوگا)۔
۳۔’’إنَّ اللّهَ عَزَّ وَ جَلَّ يَخْتارُ مِنْ مالِ الْمُؤْمِنِ وَ مِنْ وُلْدِهِ أنْفَسَهُ لِيَأجُرَهُ عَلى ذلِكَ ‘‘(بے شک خداوند متعال مؤمن کے مال و اولاد میں سے بہترین مال اور فرزند منتخب کرکے لے لیتا ہے تا کہ انہیں اس کے بدلے اجر عظیم عطا فرمائے)۔

شہادت:
عباسی خلیفہ معتصم نے حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کو مدینہ سے بغداد بلوایا؛ امام علیہ السلام ۲۸ محرم الحرام سنہ ۲۲۰ کو بغداد پہنچے اور اسی سال ذیقعدہ کے مہینے اسی شہر میں شہید ہوگئے ، البتہ بعض ماخذ میں ہے کہ آپ ؑ نے پانچ یا چھ ذی الحج یا بعض میں آیا ہے کہ ذیعقدہ کی آخری تاریخ کو شہادت پائی۔

 

 ہندوستان کے وزیر خارجہ سبرامنیم جیشنکر  تہران کے دورے پر ہیں جہاں انھوں نے آج ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کے ساتھ ملاقات اور گفتگو کی۔ اس ملاقات میں دو طرفہ تعلقات ، علاقائی مسائل اور عالمی امور کے بارے میں تبادلہ خیال کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق بھارتی وزیر خارجہ ایران کے نئے صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی سے بھی ملاقات کریں گے اور اس ملاقات میں وہ  ہندوستان کے وزير اعظم نریندر مودی کا تہنیتی پیغام ایران کے نئے صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی کو پیش کریں گے۔

 افغانستان کے 4 سیاسی وفود تہران کے دورے پر ہیں جہاں اسلامی جمہوریہ ایران کی میزبانی میں مذاکرات کا آغاز ہوگيا ہے مذاکرات میں افغان حکومت اور طالبان کے نمائندہ  وفود بھی موجود ہیں۔

تہران میں بین الافغان مذاکرات کا آغاز ہوگیا ہے ۔ ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے بین الافغان مذاکرات کے افتتاحی اجلاس سے خطاب میں  امریکہ کی افغانستان میں شکست کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ دو دہائیوں سے زائد عرصہ تک افغانستان میں موجود رہا ، جہاں اس نے تباہی اور بربادی مچانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ۔

ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ افغانستان کے روشن اور تابناک مستقبل کے لئے افغان رہنماؤں کو آج سخت او ردشوار فیصلے کرنا ہوں گے۔  محمد جواد ظریف نے کہا کہ افغان رہنماؤں کو اپنے تمام مسائل اور مشکلات کو مذاکرات کے ذریعہ حل کرنا چاہیے، جنگ و جدال کسی مسئلہ کا حل نہیں۔ انھوں نے کہا کہ افغانستان میں پائدار قیام امن کے لئے ایران ہر ممکن مدد کے لئے تیار ہے۔

واضح رہے کہ افغان حکومت کے وفد کی قیادت سابق وزیر خارجہ یونس قانونی کررہے ہیں جبکہ طالبان وفد کی قیادت طالبان دفتر کے معاون عباس استانکزی کررہے ہیں۔

امریکہ نے بیس سال افغانستان میں جنگ اور بدامنی پیدا کرنے کے بعد آخرکار اس ملک سے نکل جانے کا فیصلہ کر ہی لیا ہے۔ موصولہ رپورٹس کے مطابق امریکہ نے افغانستان میں اپنا سب سے بڑا فوجی اڈہ یعنی بگرام ہوائی اڈہ خالی کر دیا ہے۔ ان بیس سالوں میں امریکہ کے 3500 سے زیادہ فوجی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ دسیوں ہزار فوجی زخمی بھی ہو گئی۔ دوسری طرف افغانستان پر بیس سالہ فوجی چڑھائی کے دوران امریکہ نے 2 ٹریلین ڈالر سے زیادہ اخراجات بھی برداشت کئے ہیں۔ افغانستان سے امریکہ کی فوجی پسپائی کے بارے میں چند اہم نکات درج ذیل ہیں:

1)۔ افغانستان سے امریکہ کے فوجی انخلاء کا مطلب سرکاری طور پر فوجی شکست اور ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے اس ملک میں فوجی مشن کے اختتام کا اعلان ہے۔
 
افغانستان ایسا ملک ہے جہاں اس سے پہلے سابق سوویت یونین کے بھی دانت کھٹے ہو چکے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ سابق سوویت یونین کو افغانستان سے نکال باہر کرنے میں خود امریکہ نے بہت اہم کردار ادا کیا تھا۔ امریکہ نے اس زمانے میں افغان مجاہدین نامی مسلح افراد کو فوجی ٹریننک اور مالی امداد فراہم کی تھی۔ یوں یہ کہنا بجا ہو گا کہ تاریخ خود کو دہرا رہی ہے۔

2)۔ اس وقت افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہونے کا قوی امکان پایا جاتا ہے۔ ایک طرف پشتو بولنے والے قبیلوں سے تعلق رکھنے والے افراد پر مشتمل "طالبان" گروہ ہے جو ملکی آبادی کا 45 فیصد حصہ تشکیل دیتے ہیں جبکہ دوسری طرف دیگر ایسی قومیں پائی جاتی ہیں جو اقلیت میں ہیں اور اپنا وجود خطرے میں محسوس کر رہی ہیں۔
 
3)۔ موجودہ حالات میں افغانستان ایک اور بڑے خطرے سے بھی روبرو ہے جو قومی اور مذہبی بنیادوں پر اس ملک کے ٹوٹ کر کئی حصوں میں تقسیم ہو جانے پر مشتمل ہے۔ یوں افغانستان ایک ایسے شکست خوردہ اور ناکام ملک میں تبدیل ہو جائے گی جو ہمیشہ عدم استحکام کا شکار رہے گا۔ افغانستان سے امریکہ کا فوجی انخلاء انتہائی خاموشی سے انجام پایا ہے۔ اس کیلئے نہ تو کسی تقریب کا انعقاد کیا گیا ہے اور نہ ہی کسی نے خوشی یا افسوس کا اظہار کیا ہے۔ افغان صدر اشرف غنی کو امریکہ کی جانب سے دہشت گردانہ حملوں اور بم دھماکوں کا تحفہ دیا گیا ہے۔ وہ اپنی صدارت کی مدت پوری ہونے کا انتظار کر رہے ہیں اور اس انتظار میں ہیں کہ کب صدارتی محل ترک کرتے ہیں۔

افغانستان کے مستقبل کے بارے میں ایک اور بھیانک خطرہ بھی موجود ہے جو دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ کی جانب سے ہے۔ القاعدہ کی جانب سے اپنی نئی شکل یعنی "داعش" کے روپ میں واپسی کا بہت قوی امکان پایا جاتا ہے جس کے نتیجے میں افغانستان مختلف قسم کے بھاری اور ہلکے ہتھیاروں کے جنگل میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ افغان آرمی کے زوال اور ٹوٹ پھوٹ کا آغاز گذشتہ دو ماہ سے ہو چکا ہے اور اشرف غنی سمیت دیگر سیاسی رہنما اور لیڈران امریکہ سے لے کر یورپ تک محفوظ پناہ گاہوں کی تلاش شروع کر چکے ہیں۔ البتہ یہ اسی وقت ممکن ہو گا جب وہ طالبان کے ہاتھ سے زندہ بچ نکلنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ عراقی کی طرح افغانستان کے بارے میں بھی تمام امریکی وعدے محض دھوکہ اور فریب ثابت ہوئے۔
 
افغانستان پر فوجی جارحیت کے وقت امریکی حکام کا دعوی تھا کہ وہ اس ملک کو امن و امان کا ایسا گہوارہ بنا دیں گے جہاں فلاح و بہبود اور جمہوری اقدار کی گہما گہمی ہو گی۔ ان کے بیانات سے یوں محسوس ہوتا تھا گویا افغانستان بہشت عدن میں تبدیل ہو جائے گا۔ امریکی حکام نے عراق کے بارے میں بھی ایسے ہی وعدے کئے تھے۔ اب پوری دنیا کیلئے واضح ہو چکا ہے کہ ان وعدوں کا مقصد انہیں دھوکہ اور فریب دینا تھا۔ اس وقت طالبان تیزی سے پیشقدمی کر رہے ہیں اور ملک کے اکثر صوبوں پر ان کا قبضہ ہو چکا ہے۔ طالبان سے وابستہ مسلح عناصر دارالحکومت کابل کے قریب پہنچ چکے ہیں اور آئندہ چند ہفتوں کے اندر اندر پورے ملک پر ان کا قبضہ حتمی دکھائی دیتا ہے۔
 
امریکی صدر جو بائیڈن مشرق وسطی میں موجود تنازعات اور بدامنی کو چین کی جانب دھکیلنا چاہتے ہیں۔ اسی طرح وہ اس مقصد کیلئے سیاسی اسلام کا ہتھکنڈہ بھی استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ لہذا ہمیں اس نئے امریکی منصوبے کیلئے بہت جلد خلیجی ریاستوں کی جانب سے اربوں ڈالر منتقل کئے جانے کی توقع رکھنی چاہئے۔ یہی وجہ ہے کہ افغان سرحد کے قریب مشرقی چین میں ایگور قبیلے کے مسلمان شہری اچانک امریکی توجہ کا مرکز بن گئے ہیں۔ بہرحال، افغانستان سے امریکہ کا فوجی انخلاء امریکی تاریخ کی ایک اور ذلت آمیز شکست اور اپنے اتحادیوں کے حق میں امریکہ کی ایک اور غداری ہے۔ امریکہ کے اتحادی ممالک کو اس واقعے سے درس عبرت حاصل کرنا چاہئے لیکن اس کی امید بہت کم ہے۔

 تجزیہ نگار: عبدالباری عطوان

حوزہ نیوز ایجنسی کی ریپورٹ کے مطابق، یمن کے المسیرا ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے جہاد اسلامی موومنٹ کے ترجمان، طارق سلمی نے کہا کہ 5 ہزار اسرائیلیوں کو متحدہ عرب امارات کی شہریت دینا قابل مذمت ہے اور یہ فیصلہ متحدہ عرب امارات کے حکمرانوں کے ماتھے پر ایک نیا کلنک ہے۔

انہوں نے اسرائیل سے وابستہ عرب حکمرانوں سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی پالیسی پر نظر ثانی کریں کیونکہ حالیہ غزہ اسرائیل جنگ میں صہیونی حکومت کی شکست واضح ہوچکی ہے۔

یاد رہے کہ حال ہی میں امارات لیکس نامی ایک ویب سائٹ نے انکشاف کیا ہے کہ پچھلے تین ماہ کے دوران متحدہ عرب امارات نے 5 ہزار اسرائیلیوں کو شہریت دی ہے۔

گذشتہ سال ستمبر میں ، متحدہ عرب امارات اور بحرین ، جو سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ذریعہ پیوست ہوئے تھے، اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے لئے ایک معاہدہ کر لیا تھا جس پر عالم اسلام کی طرف سے تنقید کی گئی اور فلسطینیوں نے اسے اپنی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف سمجھا تھا۔