
سلیمانی
امام سجاد علیہ السلام کی سیرت طیبہ اور الہیٰ تحریک
امام زین العابدین علیہ السلام نے 61 ہجری میں عاشور کے دن امامت کی عظیم ذمہ داریاں اپنے کاندھوں پر سنبھالیں اور 94 ہجری میں آپ کو زہر سے شہید کر دیا گیا۔ اس پورے عرصے میں آپ (ع) اسی الہیٰ مقصد کی تکمیل کے لئے کوشاں رہے، جس پر آپ سے پہلے دیگر آئمہ کوشاں رہے۔ وہ تمام ارشادات جو آپ (ع) کے دہن مبارک سے جاری ہوئے، وہ اعمال جو آپ (ع) نے انجام دیئے، وہ دعائیں جو لب مبارک تک آئیں، وہ مناجاتیں اور راز و نیاز کی باتیں جو آج صحیفہ کاملہ کی شکل میں موجود ہین، ان سب کی امام (ع) کے اسی بنیادی موقف کی روشنی میں تفسیر و تعبیر کی جانی چاہیئے۔ چنانچہ اس پورے دور امامت میں مختلف موقعوں پر حضرت (ع) کے موقف اور فیصلوں کو بھی اسی عنوان سے دیکھنا چاہیئے۔ مثال کے طور پر اسیری کے دوران کوفہ میں عبید اللہ ابن زیاد اور پھر شام میں یزید پلید کے مقابلہ میں آپ (ع) کا موقف جو شجاعت و فداکاری سے بھرا ہوا تھا۔
امام زین العابدین علیہ السلام کے مختلف موقفوں اور اقدامات کا بڑی باریک بینی کے ساتھ مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر اس بنیادی موقف کو پیش نظر رکھتے ہوئے تمام جزئیات و حوادث کا جائزہ لیا جائے تو بڑے ہی معنی خیز حقائق سامنے آئیں گے۔ امام کی حیات طیبہ کا مطالعہ کریں تو عظیم ہستی ایک ایسا انسان نظر آئے گی، جو اس روئے زمین پر خداوند وحدہ لا شریک کی حکومت قائم کرنے اور اسلام کو اس کی اصل شکل میں نافذ کرنے کو ہی اپنا مقدس مقصد سمجھتے ہوئے اپنی تمام تر کوشش و کاوش بروئے کار لاتا رہا ہے اور جس نے پختہ ترین اور کار آمد ترین کارکردگی سے بہرہ مند ہوکر نہ صرف یہ کہ اسلامی قافلہ کو اس پراگندگی اور پریشاں حالی سے نجات دلائی ہے، جو واقعہ عاشور کے بعد دنیائے اسلام پر مسلط ہوچکی تھی بلکہ قابل دید حد تک اس کو آگے بھی بڑھایا ہے۔ دو اہم اور بنیادی فریضے جو ہمارے تمام ائمہ علیہم السلام کو سونپے گئے تھے، ان کو امام سجاد علیہ السلام نے بڑی خوش اسلوبی سے جامہ عمل پہنایا ہے۔
امام علیہ السلام کی زندگی کا وہ مختصر اور تاریخ ساز دور، معرکہ کربلا کے بعد آپ (ع) کی اسیری کا زمانہ ہے، جو مدت کے اعتبار سے مختصر، لیکن واقعات و حالات کے اعتبار نہایت ہی پرہیجان اور و سبق آموز ہے، جہاں اسیری کے بعد بھی آپ کا موقف بہت ہی سخت اور مزاحمت آمیز رہتا ہے۔ بیمار اور قید ہونے کے باوجود کسی عظیم مرد مجاہد کی مانند اپنے قول و فعل کے ذریعے شجاعت و دلیری کے بہترین نمونے پیش کئے ہیں۔ ایام اسیری میں امام (ع) کے اقدامات بالکل کسی پرجوش انقلابی کی مانند نظر آتے ہیں، جس کے لئے کوئی معمولی سی بات بھی برداشت کر لینا ممکن نہیں ہے۔ لوگوں کے سامنے بلکہ پھرے مجمع میں بھی مغرور و بااقتدار دشمن کا دندان شکن جواب دینے میں کسی طرح کا تامل نہیں کرتے۔
کوفہ کا درندہ صفت خونخوار حاکم، عبیداللہ ابن زیاد جس کی تلوار سے خون ٹپک رہا ہے، جو فرزند رسول (ص) امام حسین علیہ السلام اور ان کے اعوان و انصار کا خون بہا کر مست و مغرور اور کامیابی کے نشہ میں بالکل چور ہے، اس کے مقابلہ میں حضرت (ع) ایسا بے باک اور سخت لب و لہجہ اختیار کرتے ہیں کہ ابن زیاد آپ (ع) کے قتل کا حکم جاری کر دیتا ہے۔ چنانچہ اگر جناب زینب سلام اللہ علیہا ڈھال کی مانند آپ (ع) کے سامنے آکر یہ نہ کہتیں کہ میں اپنے جیتے جی ایسا ہرگز نہ ہونے دوں گی اور ایک عورت کے قتل کا مسئلہ درپیش نہ آتا نیز یہ کہ قیدی کے طور پر دربار شام میں حاضر کرنا مقصود نہ ہوتا تو عجب نہیں ابن زیاد امام زین العابدین علیہ السلام کے خون سے بھی اپنے ہاتھ رنگین کر لیتا۔
بازار کوفہ میں آپ (ع) اپنی پھوپھی جناب زینب (ع) کے ساتھ ہم صدا ہو کر تقریر کرتے ہیں، لوگوں میں جوش و خروش پیدا کرتے ہیں اور حقیقتوں کا انکشاف کر دیتے ہیں۔اسی طرح شام میں چاہے وہ یزید کا دربار ہو یا مسجد میں لوگوں کا بے پناہ ہجوم، بڑے ہی واضح الفاظ میں دشمن کی سازشوں سے پردہ اٹھا کر حقائق کا برملا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ چنانچہ حضرت (ع) کے ان تمام خطبوں اور تقریروں میں اہلبیت (ع) کی حقانیت، خلافت کے سلسلہ میں ان کا استحقاق اور موجودہ حکومت کے جرائم اور ظلم و زیادتی کا پردہ چاک کرتے ہوئے نہایت ہی تلخ اور درشت لب و لہجہ میں غافل و ناآگاہ عوام کو جھنجوڑنے اور بیدار کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
اس قید و بند کے سفر میں حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کا کردار جناب زینب سلام اللہ علیہا کے کردار سے بالکل ہم آہنگ ہے۔ دونوں کا مقصد حسینی انقلاب اور پیغامات کی تبلیغ و اشاعت ہے۔ اگر لوگ اس بات سے واقف ہو جائیں کہ حسین علیہ السلام قتل کر دیئے گئے، کیوں قتل کر دیئے گئے؟ اور کس طرح قتل کئے گئے تو آئندہ اسلام اور اہلبیت علیہم السلام کی دعوت ایک نیا رنگ اختیار کر لے گی، لیکن اگر عوام ان حقیقتوں سے ناواقف رہ گئے تو انداز کچھ اور ہوگا۔ لہٰذا معاشرہ میں ان حقائق کو عام کر دینے اور صحیح طور پر حسینی (ع) انقلاب کو پہچنوانے کے لئے اپنا تمام سرمایہ بروئے کار لاکر جہاں تک ممکن ہوسکے اس کام کو انجام دینا ضروری تھا۔
آپ کی حیات طیبہ کا دوسرا دور اس وقت شروع ہوتا ہے، جب آپ (ع) مدینہ رسول (ص) میں ایک محترم شہری کی حیثیت سے اپنی زندگی کا آغاز کرتے ہیں اور اپنا کام پیغمبر اسلام (ص) کے گھر اور آپ (ع) کے حرم (مسجد النبی (ص)) سے آغاز کرتے ہیں۔ حضرت امام سجاد علیہ السلام کے آئندہ موقف اور طریقہ کار کو سمجھنے کے لئے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے کی حالت و کیفیت اور اس کے تقاضوں پر بھی ایک تحقیقی نظر ڈال لی جائے۔ جب عاشور کا المناک حادثہ رونما ہوا، پوری اسلامی دنیا میں جہاں جہاں بھی یہ خبر پہنچی، خصوصاً عراق اور حجاز میں مقیم ائمہ علیہم السلام کے شیعوں اور طرفداروں میں ایک عجیب رعب و وحشت کی فضا پیدا ہو گئی، کیونکہ یہ محسوس کیا جانے لگا کہ یزیدی حکومت اپنی حاکمیت کو مسلط کرنے کے لئے کچھ بھی کرسکتی ہے، حتیٰ اس کو عالم اسلام کی جانی پہچانی عظیم، مقدس اور معتبر ترین ہستی فرزند رسول (ص)حسین ابن علی علیہما السلام کو بے دردی کے ساتھ قتل کرنے میں بھی کسی طرح کا کوئی دریغ نہیں ہے اور اس رعب و وحشت میں جس کے آثار کوفہ و مدینہ میں کچھ زیادہ ہی نمایاں تھے، جو کچھ کمی رہ گئی تھی، وہ بھی اس وقت پوری ہوگئی جب کچھ ہی عرصہ بعد بعض دوسرے لرزہ خیز حوادث رونما ہوئے، جن میں سرفہرست حادثہ ”حرہ“ ہے۔
اہلبیت طاہرین علیہم السلام کے زیر اثر علاقوں یعنی حجاز خصوصاً مدینہ اور عراق خصوصاً کوفہ میں بڑا ہی گھٹن کا ماحول پیدا ہوگیا تھا، تعلقات و ارتباطات کافی کمزور ہوچکے تھے۔ وہ لوگ جو ائمہ طاہرین علیہم السلام کے طرفدار تھے اور بنو امیہ کی خلافت و حکومت کے زبردست مخالفین میں شمار ہوتے تھے، بڑی ہی کسمپرسی اور شک و شبہ کی حالت میں زندگی بسر کر رہے تھے۔ حضرت امام سجاد (ع) نے اپنی سیرت اور نہج کے ذریعے کبھی بھی گوشہ نشینی، صوفیت یا رہبانیت کی نمائندگی نہیں کی، امام سجاد (ع) نے سانحہ کربلا سے ناقابل تصور صدمہ اٹھایا اور اس کے بعد اپنی سیرت و کردار اور سچے گفتار و بیان کے ذریعے جہاد کیا اور اپنے گرد موجود لوگوں کو ایسے ہدایت یافتہ گروہوں میں تبدیل کر دیا کہ جنہوں نے ظالموں کے دلوں میں زلزلہ برپا کر دیا اور ان کے تاج و تخت کو ہلا کر رکھ دیا۔
امام سجاد سانحہ کربلا کے بعد تمام ھم و غم اور الم و دکھوں کے باوجود معاشرے کے درمیان رہے، جس کی وجہ سے لوگوں کی بہت بڑی تعداد آپ کے گرد جمع ہوگئی اور چشمہ امامت سے سیراب ہونے لگی، آپ کے علم و فضل، بزرگی و دانائی اور فضائل و مناقب کی شہرت دور دور تک پھیل گئی۔ حضرت امام سجاد (ع) کی دعاؤں میں سے صرف چند دعائیں ہی ہم تک کتابی صورت میں پہنچیں ہیں، جو دنیا میں صحیفہ سجادیہ کے نام سے جانی جاتی ہیں، لیکن ان دعاؤں میں موجود عظیم ترین مفاہیم و معانی کے لعل و جواہر کو مدنظر رکھتے ہوئے بابصیرت لوگ دعاؤں کے اس مجموعے کو "زبور آل محمد" کہتے ہیں۔ ان دعاؤں نے عارفین کے دلوں کو حرمِ خدا اور معرفتِ الہیٰ کی ناقابلِ تصور بلندیوں تک پہنچا دیا، عابدوں کے لیے محرابِ عبادت میں وہ لذت مہیا کر دی کہ جس نے ان کے لیے فانی دنیا کی لذتوں کو بے معنی کر دیا، زاہدوں کو ایسا زادِ راہ عطا کیا، جس سے وہ دنیا ومافیہا سے بے نیاز ہوگئے۔۔۔۔۔
حضرت امام سجاد (ع) ایسے بلند اخلاق کے مالک تھے کہ مومنین کے دل ان کی طرف کھنچے چلے آتے تھے اور بشری پیکر میں موجود اس مشعلِ نور سے ہدایت حاصل کرتے تھے۔۔۔۔۔ ہشام بن عبد الملک تخت حکومت پر بیٹھنے سے پہلے ایک مرتبہ حج کے لیے آیا تو طواف کے بعد حجر اسود کا بوسہ لینے کے لیے اس نے حجر اسود تک پہنچنے کی بہت کوشش کی، لیکن وہ لوگوں کے رش کی وجہ سے حجر اسود تک نہ پہنچ سکا، پھر اس کے لیے حطیم میں زم زم کے کنویں کے پاس ایک منبر لگا دیا گیا، جس پر بیٹھ کر وہ لوگوں کو دیکھنے لگا اور اہل شام اس کے گرد کھڑے ہوگئے۔ اسی دوران حضرت امام سجاد (ع) بھی آکر خانہ کعبہ کا طواف کرنے لگے اور جب وہ حجر اسود کی طرف بڑھے تو لوگوں نے امام سجاد (ع) کو خود ہی راستہ دے دیا اور وہ حجر اسود کے پاس بغیر کسی رکاوٹ کے پہنچ گئے۔
یہ منظر دیکھ کر ایک شامی نے کہا: یہ کون ہے، جس کی لوگوں کے دلوں میں اتنی ہیبت و جلالت ہے کہ لوگ اس کے لیے دائیں بائیں ہٹ کر صف بستہ کھڑے ہوگئے؟ ہشام نے اس شامی کو جواب دیتے ہوئے کہا: میں اس کو نہیں جانتا۔ (حالانکہ ہشام خوب اچھی طرح سے امام سجاد (ع) کو جانتا اور پہنچانتا تھا لیکن پھر بھی اس نے جھوٹ بولا کہ کہیں ان شامیوں کے دل میں امام سجاد (ع) کی ہیبت و جلالت نہ بیٹھ جائے)۔ فرزدق بھی وہیں پر موجود تھا، اس نے سوال کرنے والے شامی سے کہا: میں اس شخص کو جانتا ہوں۔ اس شامی نے کہا: اے ابا فراس کون ہے یہ؟ تو فرزدق نے اس کے جواب میں ایک ایسا قصیدہ پڑھا کہ جس نے باطل کے پردوں کو ہٹا کر ہر طرف حق کا نور پھیلا دیا، اس قصیدہ کے چند اشعار کا ترجمہ سامعین کے نظر ہے: "یہ وہ شخصیت ہیں، جن کے نشانِ قدم کو بھی وادئ بطحاء (مکہ) پہنچانتی ہے، انھیں خانہ کعبہ، حرم اور حرم سے باہر کا سارا علاقہ پہنچانتا ہے۔ یہ تمام بندگان خدا میں سے بہتر و افضل ہستی کے فرزند ہیں، یہ متقی و پرہیزگار پاک و پاکیزہ اور عَلمِ ہدایت ہیں۔ یہ علی ہیں اور ان کے بابا رسول خدا (ص) ہیں، کہ جن کے نور سے امت تاریکیوں میں ہدایت حاصل کرتی ہے۔ جب قریش انھیں دیکھتے ہیں تو کہنے والے کہتے ہیں، ان کے بلند مرتبہ اخلاق پہ جود و سخا کی انتہاء ہوتی ہے۔ انھیں عزت و شرف کی وہ بلندی نصیب ہوئی ہے، جس کو پانے سے عرب و عجم قاصر ہیں۔
اگر یہ حجر اسود کا بوسہ لینے نہ آتے تو حجر اسود والا کونہ خود ان کی ہتھیلی کو چومنے ان کے پاس پہنچ جاتا۔ وہ حیا و شرافت کی وجہ سے آنکھیں جھکائے رکھتے ہیں اور لوگ ان کی ہیبت و جلالت کی وجہ سے آنکھیں نیچی رکھتے ہیں اور ان سے صرف اس وقت بات کی جا سکتی ہے جب وہ مسکرا رہے ہوں۔ اگر تم ان کو نہیں جانتے تو جان لو یہ فرزندِ فاطمہ ہیں، ان کے جد امجد پر تمام انبیاء کی نبوت کا اختتام ہوتا ہے۔ لوگوں کا ان (آل رسول) سے محبت کرنا عین دین ہے اور ان سے بغض و کینہ رکھنا عین کفر ہے، ان کا قرب ہی نجات دینے والا اور بچانے والا ہے۔ ان کی محبت کے صدقہ میں شر اور بلائیں دور ہوتی ہیں اور ان کے وسیلے سے احسان خدا اور نعمات الہیٰ کو حاصل کیا جاتا ہے۔ ذکرِ خدا کے بعد ہر روز ان کا ذکر سب سے مقدم و افضل ہے اور انھی کے ذکر کے ساتھ کلام کا اختتام ہوتا ہے۔ اگر اہل تقویٰ کو شمار کیا جائے تو یہ متقیوں کے امام نظر آئیں گے اور اگر کوئی کہے زمین پر سب سے افضل کون ہیں؟ تو بھی کہا جائے گا، سب سے افضل یہی ہیں۔"
حضرت امام سجاد (ع) ہی وہ شخضیت ہیں کہ جن کا خشوع و خضوع، زہد و تقویٰ اور عبادت و خدا پرستی ضرب المثل بن گئی اور آج تک آپ کو زین العابدین کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ حضرت امام سجاد (ع) نے اپنے کردار و عمل سے ظالموں اور نام نہاد مسلمان حکمرانوں کو خوف میں مبتلا کر رکھا تھا۔ امام سجاد (ع) کبھی تو اپنے مظلوم بابا حضرت امام حسین (ع) کی شہادت اور سانحہ کربلا کے مصائب پر گریہ کرتے، کبھی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سرانجام دیتے اور کبھی اپنے کردار و عمل کے ذریعے لوگوں کو ہدایت کے راستے کی رہنمائی کرتے۔۔۔۔۔۔ حضرت امام سجاد (ع) کے طرز عمل سے لوگوں کو امام حسین (ع) اور اہل بیت رسول (ص) کی مظلومیت سے آگاہی مل رہی تھی، نسل در نسل اہل بیت کے حقوق کو غضب کرنے والوں کے اصل چہرے لوگوں پہ عیاں ہو رہے تھے، لوگوں کے دلوں پہ حکمرانوں کی بجائے اہل بیت کا اقتدار مضبوط سے مضبوط تر ہو رہا تھا۔۔۔۔۔
اور یہی وہ بات تھی، جس نے بنی امیہ کے لیے حضرت امام سجاد (ع) کے مقدس وجود کو خطرہ بنا دیا تھا اور وہ نبوت کی نیابت میں جلنے والی اس شمعِ امامت کو بجھانے کے درپے ہوگئے، آخر میں اس ظلم کو ڈھانے کی ذمہ داری ولید بن عبدالملک اور بعض روایات کے مطابق ہشام بن عبد الملک کو سونپی گئی کہ جس نے ایک کھانے میں زہر ملا کر حضرت امام سجاد (ع) کو کھلا دیا۔ آپ (ع) پوری سیاسی بصیرت اور شجاعت و شہامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہایت ہی احتیاط اور باریک بینی سے اپنے فرائض انجام دیتے رہے، یہاں تک کہ تقریبا 35 سال کی انتھک جدوجہد اور الٰہی نمایندگی کی عظیم ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے بعد آپ (ع) سرفراز و سربلند اس دارفانی سے کوچ کر گئے اور اپنے بعد امامت و ولایت کا عظیم بار اپنے فرزند و جانشین امام محمد باقر علیہ السلام کے سپرد فرما دیئے۔
غزہ پر اسرائیل کا وحشیانہ حملہ
مہر خبررساں ایجنسی نے المیادین کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ غزہ میں اسرائیلی فوج اور فلسطینیوں کے درمیان جھڑپوں کے بعد اسرائیلی فضائیہ نے غزہ پروحشیانہ بمباری کی ہے۔اطلاعات کے مطابق اسرائیلی فوج نے فلسطینی مزاحمتی تنظیم کے بعض ٹھکانوں پر بمباری کی ہے۔ ذرائع کے مطابق حملے میں فوری طور پر کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔اس سے پہلے سرحدی علاقے میں اسرائیلی فوج اور مظاہرین میں جھڑپیں ہوئی تھیں، اسرائیلی فوج کی فائرنگ اور شیلنگ سے 41 فلسطینی زخمی ہوگئے تھے۔ اسرائیلی فوج نے غزہ ميں حماس کے 4 ٹھکانوں پر بمباری کی تصدیق کی ہے۔ ادھر فلسطینیم زاحتمی تنظيموں نے بھی اسرائیل کو منہ توڑ جواب دینے کی دھمکی تھی۔
ایران کے اہل سنت مذہبی رہنما نے قائد انقلاب اسلامی کی قدردانی کی
ایران پریس کی رپورٹ کے مطابق ایران کے بلوچستان صوبے کے صدر مقام زاہدان کے امام جمعہ مولانا عبد الحمید نے قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کے نام ایک مراسلہ ارسال کیا جس میں انہوں نے ایک اہلسنت کو بحریہ کا کمانڈر بنانے پر انکی قدردانی کی اور انکے اس اقدام کو ایک خداپسندانہ اقدام قرار دیا۔
مولانا عبد الحمید نے مزید لکھا کہ قائد انقلاب اسلامی کے اس فیصلے نے ایران کی اہلسنت برادری میں ایک خوشی کی لہر دوڑا دی ہے۔
زاہدان کے امام جمعہ نے ساتھ ہی یہ امید ظاہر کی کہ حکومت قائد انقلاب اسلامی کے اس فیصلے کو اپنے لئے نمونہ عمل قرار دے کر ملک میں اتحاد و برادری کی فضا کو مزید مستحکم بنائے گی۔
قابل ذکر ہے قائد انقلاب اسلامی اور ایران کی مسلح افواج کے سپریم کمانڈر آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے گزشتہ منگل کے روز کوموڈور شہرام ایرانی کو ملک کی بحریہ کا کمانڈر مقرر کیا۔
قائد انقلاب اسلامی کے اس اقدام سے دشمن کے کھوکلے اور بے بنیاد پروپیگنڈے پر پانی گیا جس میں یہ دعوا کیا جاتا رہا ہے کہ ایران میں اہلسنت کو حساس عہدے نہیں دئے جاتے۔ یہ پروپیگنڈا ایسے حالات میں کیا جاتا رہا ہے کہ ایران کے مختلف سطح کے سرکاری عہدوں پر اس وقت اہلسنت خدمات کی انجام دہی میں مصروف ہیں جن میں ملک کے سفرا بھی شامل ہیں۔
کربلا کی شیر دل خواتین
اسلامی اور انسانی اقدار کے پاسبان واقعہ کربلا میں جہاں جوانوں نے قربانیاں دیں، وہیں عمر دارز شخصیات بھی ایثار میں پیچھے نہیں رہیں، یہاں تک کہ کمسن بچوں نے عروس شہادت کو گلے لگایا حتی امام حسین علیہ السلام کے شیرخوار بچے کی شہادت بھی افق عالم پر سورج چاند کی طرح دمک چمک رہی ہے۔ نہ صرف مردوں بلکہ خواتین نے بھی اپنا وہ کردار نبھایا کہ اگر تاریخ کربلا میں ان شیر دل خواتین کا ذکر نہ ہو تو تاریخ نہ صرف ادھوری بلکہ طاق نسیاں کا شکار ہو جائے گی۔
ذیل میں کربلا کی چند خواتین کا تذکرہ پیش ہے؛
حضرت زینب سلام اللہ علیہا
نبیؐ کی نواسی، زینت حیدرؑ، ثانی زہراؑ، شریکۃ الحسینؑ کا نام اللہ نے لوح محفوظ پر "زین اب" یعنی زینب رکھا۔
حضرت زینب سلام اللہ علیہا عصر عاشور تک معمار کربلا امام حسین علیہ السلام کی مشاور تھیں۔ اسکے بعد مقصد کربلا کی محافظ اور پیغام کربلا کی مبلغہ ہیں۔
کربلا در کربلا می ماند اگر زینب نبود
شیعہ پژمردہ می شد اگر زینب نبود
حضرت ام کلثوم سلام اللہ علیہا
جس طرح حضرت عباس علیہ السلام امام حسین علیہ السلام کے نہ صرف بھائی بلکہ باوفا پیروکار تھے اسی طرح نبی کی چھوٹی نواسی، امیرالمومنین علیہ السلام کی آخری میزبان حضرت ام کلثوم سلام اللہ علیہا تعمیر، تحفظ اور تبلیغ کربلا کے ہر محاذ پر حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے شانہ بہ شانہ رہیں۔ کوفہ میں خطبہ دیا اور مدینہ واپسی پر وہ نوحہ پڑھا جسے سن کر آج بھی ہر دل غمزدہ اور ہر آنکھ اشکبار ہو جاتی ہے۔
حضرت سکینہ سلام اللہ علیہا
سکون نفس مطمئنہ، باعث تسکین قلب وارث انبیاء حضرت سکینہ سلام اللہ علیہا نے کمسنی میں ایثار و قربانی کے وہ نقوش چھوڑے ہیں جن تک دنیاکی بزرگ خواتین بلکہ مردوں کی بھی رسائی ممکن نہیں۔ بھوک و پیاس، یتیمی اور مظلومیت کے باوجود اس کمسنی میں اہداف حسینی کی حفاظت فرمائی۔
حضرت رباب سلام اللہ علیہا
امام حسین علیہ السلام کی شریکہ حیات و مقصد حضرت رباب سلام اللہ علیہا نے کربلا میں سہاگ کی قربانی دی وہی اس سے پہلے اپنے شیر خوار بچے کی وہ قربانی پیش کی جو رہتی دنیا تک امام حسین علیہ السلام کی مظلومیت اور حقانیت کی دلیل بن گئی۔ امام حسین علیہ السلام کے غم میں نوحہ کیا اور جب واپس مدینہ آئیں تو ایک سال تک کربلا والوں کی عزاداری کی کبھی سایہ میں نہ بیٹھیں یہاں تک کہ روح جسم سے پرواز کر گئی۔
حضرت ام اسحاق سلام اللہ علیہا
امام حسین علیہ السلام کی زوجہ جناب ام اسحاق سلام اللہ علیہا کربلا میں موجود تھیں۔ آپ حاملہ تھیں۔ مظلوم کربلا نے اپنے مظلوم بھائی حضرت محسن بن علی و فاطمہ سلام اللہ علیہم کے نام پر ولادت سے قبل اپنے نور نظر کا نام محسن رکھا تھا۔ راہ شام میں حلب کے نزدیک یزیدی ظلم و ستم کے سبب یہ محسن مظلوم اپنے مظلوم چچا کی طرح بطن مادر میں ہی شہید ہو گئے اور وہیں دفن ہوئے۔ حلب کے نزدیک "مشہد السقط" و "مشہد المحسن" کے نام سے آپ کا مزار مقدس عاشقان اہلبیت علیہم السلام کی زیارت گاہ ہے۔
جناب ام سلیمان سلام االلہ علیہا
آپ کا نام کبشہ تھا، کنیز تھیں۔ امام حسین علیہ السلام نے ایک ہزار درہم میں انہیں خریدا، جناب ام اسحٰقؑ (زوجہ امام حسین علیہ السلام ) کے یہاں خدمت کرتی تھیں۔ جنکی بعد میں ابو رزین سے شادی ہوئی اور جناب سلیمان پیدا ہوئے۔ جناب سلیمان امام حسین علیہ السلام کا خط لے کر بصرہ گئے۔ عبیداللہ بن زیاد کے سپاہیوں نے انہیں گرفتار کر کے شہید کر دیا جناب ام سلیمان سلام اللہ علیہا عالمہ و فاضلہ تھیں۔ اپنے مولا امام حسین علیہ السلام کے ساتھ مدینہ سے کربلا گئیں۔ شہادت حسینی کے بعد اہل حرم کے ساتھ آپ کو اسیر کر کے شام و کوفہ لے جایا گیا۔
جناب فُکھیہ سلام اللہ علیہا
آپ عبداللہ بن اریقط کی زوجہ تھیں اور امام حسین علیہ السلام کی زوجہ جناب رباب سلام اللہ علیہا کی خادمہ تھیں۔ جب امام حسین علیہ السلام نے مدینہ سے سفر کیا تو جناب فُکھیہ بھی اپنے فرزند جناب قارب سلام اللہ علیہ کو لے کر امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ کربلا تشریف لائیں۔ جناب قارب علیہ السلام کربلا میں شہید ہوئے اور آپ دیگر اسیروں کے ساتھ اسیر ہو کر کوفہ و شام تک گئیں۔
جناب حُسنیہ سلام اللہ علیہا
آپ امام حسین علیہ السلام کی کنیز تھیں جنہیں امام عالی مقام نے آزاد کر دیا تھا۔ آپ کی شادی ’’سہم‘‘نامی شخص سے ہوئی۔ اللہ نے آپ کو ایک بیٹا دیا جنکا نام ’’منجح ‘‘ تھا۔ جناب حسنیہ سلام اللہ علیہا امام زین العابدین علیہ السلام کی خادمہ تھیں۔ آپ اپنے بیٹے جناب منجح کو لے کر امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ کربلا تشریف لائیں۔ جناب منجح کربلا میں شہید ہوئے اور آپ اسیر ہوئیں۔
جناب ام وہب سلام اللہ علیہا
کربلا کی شجاع اور مجاہدہ خاتون جناب ام وہب سلام اللہ علیہا شہید کربلا جناب عبداللہ بن عمیر علیہ السلام کی زوجہ تھیں۔اپنے شوہر کے ہمراہ کوفہ سے نکلیں اور راہ کربلا میں حسینی قافلہ سے ملحق ہوئیں اور کربلا پہنچی۔ یوم عاشورا جب آپ کے شوہر جناب عبداللہ بن عمیر علیہ السلام جہاد کے لئے میدان کی جانب چلے تو آپ بھی چوب خیمہ لے کر نکلیں لیکن امام حسین علیہ السلام نے آپ کو یہ کہہ کر روک دیا کہ خواتین پر جہاد نہیں ہے۔ لیکن جب آپ کے شوہر شہید ہوئے تو آپ انکے جنازہ پر پہنچی تو فرمایا کہ تمہیں جنت مبارک ہو خدا سے دعا ہے کہ ہمیں تمہارے ساتھ قرار دے۔ شمر ملعون نے اپنے غلام رستم کو حکم دیا کہ آپ کو شہید کر دے۔ رستم نے آپ کے سر پر وار کیا اور آپ بھی شہید ہو گئیں۔
دوسری روایات میں اسی سے مشابہ واقعہ جناب وھب ابن عبداللہ ابن عمیر علیہ السلام کا تھوڑے اختلاف سے نقل ہوا ہے اور کربلا میں جو خاتون شہید ہوئیں وہ جناب وہب کی بیوی تھیں۔ جیسے بحارالانوار میں علامہ مجلسی رحمۃ اللہ علیہ نقل فرماتے ہیں: "وہب بن عبداللہ کلبی شہدائے کربلا میں سے ہیں۔ ان کی ماں اور بیوی بھی کربلا میں تھیں اور شہید ہوئیں۔
شیخ عباس قمی رحمۃ اللہ علیہ نے علامہ مجلسی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے نقل فرمایا: میں نے ایک روایت میں دیکھا کہ ابن وہب عیسائی تھے اور وہ امام حسین علیہ السلام کے ہاتھوں اپنی ماں کے ساتھ مسلمان ہوئے۔ اپنی جدوجہد اور سجاعت سے عمربن سعد کے لشکر کے
چوبیس پیادوں اور بارہ گھڑسواروں کو قتل کیا۔ آخر میں انہیں گرفتار کر کے عمر بن سعد کے پاس لے جایا گیا۔ عمر بن سعد نے کہا: تم بہت شجاع ہو۔ اس کے بعد اس نے حکم دیا کہ ان کا سر قلم کر کے امام حسین علیہ السلام کی جانب پھینک دیا جائے۔ ان کی ماں نے ان کا سر اٹھایا اور بوسہ دیا اور لشکر ابن سعد کی جانب پھینک دیا جو ایک سپاہی کو لگا اور وہ وہیں مر گیا۔ جسکے بعد انھوں نے چوب خیمہ سے حملہ کیا اور دو یزیدیوں کو واصل جہنم کیا۔ امام حسین علیہ السلام نے ان سے فرمایا: اے ام وہب واپس آجائیں۔ خواتین پر جہاد نہیں ہے۔ ام وہب واپس ہوئیں اور کہا: اے خدا مجھے مایوس نہ کر ، امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: خدا تجھے مایوس نہ کرے۔
سید ابن طاووس رحمۃ اللہ علیہ اس سلسلہ میں لکھتے ہیں: جناب وہب ابن جناح کلبی اپنی زوجہ اور والدہ کے ساتھ کربلا آئے۔ بعض روایات میں دو ’’وہب‘‘ کا ذکر ہواہے۔ بہر حال جناب وہب کی زوجہ امام حسین علیہ السلام کی فوج میں شہید ہونے والی پہلی خاتون تھیں اور جناب وہب کی والدہ ان سے اس وقت تک راضی نہیں ہوئیں جب تک کہ انھوں نے اپنی جان امام حسین علیہ السلام پر قربان نہ کر دی۔
جناب ام خلف سلام اللہ علیہا
جناب ام خلف پہلی صدی ہجری کی نامور شیعہ خاتون تھیں۔ امام حسین علیہ السلام کے باوفا صحابی جناب مسلم بن عوسجہ علیہ السلام سے شادی کی اللہ نے آپ کو ایک بیٹا دیا جس کا نام خلف تھا۔ آپ اپنے شوہر اور بیٹے کے ہمراہ کوفہ سے نکلیں اور راہ کربلا میں حسینی قافلہ سے ملحق ہوئیں اور کربلا پہنچی۔ جناب مسلم بن عوسجہ کی شہادت کے بعد آپ نے اپنے فرزند جناب خلف کو میدان کی جانب بھیجا۔ امام حسین علیہ السلام نے جناب خلف سے فرمایا: پلٹ جاو! تمہاری ماں کے لئے تمہارے بابا کا غم کافی ہے۔ تو آپ نے اپنے بیٹے سے کہا کہ اپنی جان فرزند رسول پر قربان کر دو۔ جناب خلف میدان میں گئے اور شجاعت کے جوہر دکھائے آخر آپ کے سر و تن میں جدائی کر کے سر کو لشکر حسینی کی جانب پھینکا۔ جناب ام خلف نے بیٹے کے سر کو اٹھایا، بوسہ لیا اور ایسا نوحہ کیا جسے سن کر ہر دل غمگین اور ہر آنکھ اشکبار ہو گئی۔
جناب ام عمرو سلام اللہ علیہا
آپ کا نام بحریہ بنت مسعود الخزرجی ہے۔ آپ شہید کربلا جناب جنادہ ابن کعب انصاری کی زوجہ تھیں۔ جنکا نام جنادہ ابن حرث بھی نقل ہوا ہے جو قبیلہ خزرج سے تھے۔ جناب جنادہ ابن کعب مکہ سے امام حسین علیہ السلام کے قافلے میں شامل ہوئے اور روز عاشورہ حملہ اولیٰ میں شہید ہوئے۔ آپ کے فرزند جناب عمر وبن جنادہ بھی کربلا میں شہید ہوئے۔ عمرو ابن جنادہ انصاری کربلا کے نوجوان شہداء میں سے تھے اور جب وہ میدان جنگ کی جانب جا رہے تھے تو امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: اس نوجوان کے والد شہید ہو گئے ہیں شاید اس کی والدہ اس کے میدان میں جانے پر راضی نہ ہوں۔ جناب عمرو نے عرض کیا: میری ماں نے ہی مجھے جہاد کا حکم دیا ہے اور انھوں نے
ہی مجھے تیار کیا ہے۔ جناب عمرو بن جنادہ کی عمر 9 یا 11 سال سے زیادہ نہیں تھی جب وہ شہید ہوئے۔ یزیدی لشکر نے شہادت کے بعد ان کا سر انکی ماں کی جانب ہھینکا۔ ماں نے سر اٹھایا اور کہا: تم نے کتنا اچھا جہاد کیا ، میرے بیٹے ، اے میرے دل کی خوشی! اے میری آنکھوں کی روشنی! پھر وہ سر دشمن کی جانب اچھال دیا۔ جو ایک یزیدی سپاہی کو لگا اور وہ واصل جہنم ہو گیا۔ اس کے بعد جناب ام عمرو نے چوب خیمہ اٹھایا اور میدان کا رخ کیا لیکن امام حسین علیہ السلام نے انہیں خیمہ کی جانب واپسی کاحکم دیا اور وہ واپس خیمہ میں چلی گئیں۔
جناب رویحہ سلام اللہ علیہا
آپ جناب ہانی بن عروہ کی زوجہ تھیں۔ جناب مسلم بن عقیل علیہ السلام اور جناب ہانی بن عروہ علیہ السلام کی شہادت کے بعد آپ اور آپ کے فرزند جناب یحییٰ کوفہ میں مخفی ہو گئے۔ جب اطلاع ملی کہ امام حسین علیہ السلام۲ ؍ محرم کووارد کربلا ہوگئے ہیں تو آپ ماں بیٹے بھی مخفیانہ طور پر کوفہ سے نکلے اور کربلا میں لشکر حسینی میں شامل ہو گئے۔ جناب یحییٰ علیہ السلام روز عاشورا شہید ہوئے اور آپ اسیر ہوئیں۔ اگرچہ جناب رویحہ کے والد عمر بن حجاج کربلا میں عمر بن سعد کے لشکر کا سپاہی تھا اور عمر سعدنے اسے فرات پر مامور کیا تھا تا کہ خیام حسینی میں پانی نہ جاسکے لیکن آپ اپنے شوہر جناب ہانی کی راہ کی راہی تھیں۔
خدا کا درود و سلام ہو کربلا کی ان شیر دل خواتین پر جنہوں نے اپنی جان ، مال اور اولاد راہ خدا میں قربان کردی ۔ دنیا اور دنیا والوں کی دوستی اور رشتہ ان کے پائے ثبات میں لغزش نہ لا سکے۔ ان خواتین نےنہ صرف تبلیغ کربلا بلکہ تعمیرکربلا کے مراحل میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ان کا کردار رہتی دنیاتک نہ صرف خواتین بلکہ مردوں کے لئے اسوہ حسنہ ہے۔
اللہ ہمیں انکی معرفت اور پیروی کی توفیق کرامتے فرمائے۔ آمین
پیام عرفانی قیام امام حسین علیہ السلام
قیام کربلا کے بہت سارے پیغام ہیں ان میں سے ایک وہ جو ہماری آنکھوں کے سامنے واضح و روشن ہے وہ عرفانی پیغام ہے اور یہی عرفانی پیام ایک مہمترین اور بہترین پیغام ہے کہ ہر زمانے کے عرفا ء نے اسی عرفانی پیغام پر تکیہ کیا ہے اسی عرفانی پیام نے عرفاء کی زندگی میں رونق بخشی ہے ۔
ان شاء اللہ تعالی بندہ حقیر اس مختصر مقالہ میں کچھ نکات کی طرف اشارہ کرنے کی کوشش کرونگا
1۔ خدا سے عشق کا پیغام :
عاشورا کے مہم ترین پیغاموں سے ہے
عاشوراء اور نہضت امام حسین ع کے مہترین پیغاموں میں سے ایک خدا سے عشق کا پیغام ہے
الف: جیسے شب عاشور میں جب امام حسین ع نے اشقیا ء سے ایک رات کی مہلت مانگی اور مہلت کا پیغام لیکر حضرت عباس کو جب انکی طرف بھیجا تو اس وقت امام ع نے فرمایا : وھو یعلم انی احب الصلواۃ ، وہ جانتے ہیں کہ میں نماز سے کتنی محبت کرتا ہوں
ب: اصولی طور پر بھی اس کائنات کے پورے نظام میں معبود و معشوق ایک ہی ہے اور وہ خدا وند کی ذات ہے
اسی کی طرف فارسی کا ایک مشہور شاعر کہتے ہیں :
عشق ہائی کز بی رنگی بود عشق نبود عاقبت ننگی بود
عشق آن بگزین کہ جملہ انبیاء یافتند زان عشق خود کار روکیا (1)
ج: امام حسین ع اور انکے اصحاب کے کلمات میں غور کرنے سے معارف الہی کا سمندر ہیں مل جاتا ہے
2۔ بلا ءاور ابتلا ء کا پیغام
الف : عاشوراء کے عرفانی پیغامات میں سے ایک آزمائش کا پیام ہے
ب: جس دنیا میں ہم زندگی بسرکرتے ہیں وہ آزمائش اور سے پر ہے ان میں سے کسی کو چھٹکارا حاصل نہیں ہے بلکہ ہر انسان کی اپنی ظرفیت کے مطابق آزمائشیں آجاتیں ہیں
ج: آزمائشیں انسان کے امتحان کا وسیلہ ہے کیونکہ انسان کو بلا وگرفتاری وآزمایش اسکے اصلی ہدف تک پہنچاتی ہے
د: حدیث شریف ہے (البلاء للولاء )(2) ہر انسان کا جتنا ایمان قوی ہوتا ہے اسی حساب سے انکی زندکی میں آزمائشیں اور مشکلات زیادہ ہوتی ہیں جسکی واضح مثال محمدو آل محمد ص ہیں
3۔ یاد خدا کا پیغام
قیام عاشورا کا ایک اور عرفانی پیغام یاد خدا ہے
اکر ہم امام حسین ع کی حیات طیبہ کا غور سے مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ امام حسین ع کسی بھی وقت ایک لحظہ کے لیے یاد خدا سے غافل نہ رہے خصوصا قیام کربلا میں کیونکہ آپ جانتے تھے کہ یاد خدا کے علاوہ کوئی اور چیز دلوں میں تسلی وسکون نہیں لاسکتی ہے بلکہ آپ أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ (3) کے مصداق تھے اور امام کا ہر خطبہ اور کلام ذکر ونام خدا سے شروع ہوتا ہے جیسے :
جب اشقیاء عاشور کے دن اہلبیت کے خیام کی طرف حملہ کرنے آے تو امام ع نے فرمایا : لا حول ولا قوۃ الا باللہ اسی طرح کربلا کے راستہ میں مسلم ابن عقیل کی شہادت کی خبر سنی تو فرمایا : إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ (4)
4۔ خدا کی راہ میں قربانی کا پیغام
نہضت کربلا کےبنیادی پیغامات میں سے ایک خدا راہ میں قربان ہونا ہے
الف : اصولی طور پر ایک عاشق کے لیے سب سے پہلی چیز اپنے محبوب کی خاطر انکی راہ میں فدا ہونے کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں ہے اس بناء پر پورے کائنات میں خدا کے علاوہ معشوق ومعبود حقیقی نہیں ہے تو نتیجہ یہ ہوا کہ ایک انسان مؤمن وموحد کے لیے خدا پر ایمان کے سوا کوئی اور چیز مہم نہیں ہے اور تعجب کی بات نہیں کہ امام حسین ع جبسے موحد نے اپنی جان نچھاور کرنے کے ساتھ اپنے باوفا اصحاب کی جانوں کو بھی خدا کی راہ میں قربان کردیا تو فقط خدا کی رضایت کی خاطر ودین مقدس کی بقاء کے لیے تھا ۔
ب : جب امام ع میدان جنگ میں فوج اشقیاء سے لڑ رہے تھے اس وقت فرمایا : ان کا ن دین محمد لم یستقم الا بقتلی فیاسوف خذینی ج: حضرت زینب س شھداء کے سرہانے پہنچی تو فرمایا : الهی تقبل منا هذا القربان القلیل (5)
5۔ تسلیم ورضا کا پیغام
الف : حماسہ حسینی کے عرفانی پیغاموں میں سے ایک تسلیم ورضا ہونا ہے
ب: عبادت گزار اور توحید پرست انساس کی بارز ترین خصوصیات میں ایک خدا کی رضایت پر راضی ہونا اور اللہ کے تمام احکام الہی کے سامنے سر تسلیم خم ہونا ہے
ج: امام حسین ع نے فرمایا کوفیوں سے مخاطب ہوکر : تم لوگ کبھی فلاح نہیں پاوگے کیونکہ تم لوگوں نے اپنی خشنودی کی خاطر خدا کی رضاکو چھوڑ دیا ہے ۔
د: امام زین العابدین ع نے دربار یزید میں یزید کے زر خرید خطیب کے بکواسات سنے تو اس کے جواب میں فرمایا : افسوس ہو تم پر اے زر خرید تم نے لوگوں کی خشنودی کی خاطر خدا کی رضایت کو چھوڑ دی ہے
جب امام حسین ع پر دشمنوں کا خنجر چلا تو بارگاہ الہی میں رضایت کا اعلان کرتے ہوے فریا : رضا بقضائک وتسلیما لامرک اسی طرح ایک اور جمله میں فرمایا : ترکت الخلق ترا فی هواک وایتم العیال لکی آراک
6۔ حقیقی کامیابی کا پیغام (فوزعظیم )
خدا کی راہ میں امام حسین ع اور انکی با وفا اصحاب نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور سید السجاد ع اور جناب زینب س نے امام کے مشن کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچایا : جیسے امام کی مختلف زیارت میں ہم یہی تمنا کرتے ہیں : فیالیتنا کنا معکم فنفوز فوزا عظیما
7۔ اخلاص کا پیغام
الف: قیام امام کے سب سے درخشان چہرہ اخلاص کا ہے
ب: یوں تو تاریخ اسلام میں بہت سارے واقعات رونما ہوے ہیں لیکن ان میں سے کچھ کو حیات جاودانہ ملی ہے تو صرف اخلاص وخدائی رنگ ہونے کی وجہ سے ہے یہی اخلاص وصبغۃ اللہ اور اس بے زوال رنگ الہی کی وجہ سے نہضت عاشورا کو جاوادنہ زندگی خدا نے عطا کی ہے
ج: نیت میں عمل میں قیام میدان جنگ میں تمام مراحل میں اخلاص کے ساتھ قدم بڑھانے کی وجہ سے اسی طرح عزاداری ومرثیہ خوانی وخطابت ۔ تمام چیزوں میں اخلاص ہونے کی وجہ سے قیام عاشورا نے تا صبح قیامت رہنا ہے ان شاء اللہ
د: چونکہ اخلاص ہی حماسہ حسینی کا اساسی رکن تھا اس لیے کوئی چیز امام حسین ع اور انکے اصحاب کی شھادت کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکیں ۔
8۔ قیام فقط خدا کے لیے ہونے کا پیغام
حماسہ افرین عاشورا کا ایک پیغام یہ ہےکہ قیام امام حسین ع فقط خدا کے لیے تھا
الف: کوئی بھی شخص خدا کے لیے قیام کرے تو اسکا تمام ہم وغم صرف اپنی تکلیف پر عمل کرنا اور خدا کی رضایت کو حاصل کرنا ہے ۔
خلاصہ ہمیں کربلا سے درس لینا چاہیے کہ ہم اپنے تمام کاموں میں اخلاص کے ساتھ ھمیشہ قدم بڑھانے کی کوشش کریں ۔
____________________
1 - ابیاتی برگزیدہ از اشعار مثنوی مولانا
2 الر شھری ، میزان الحکمت 2 ص 170
3 سورہ الرعد آیة 28
4 بقرة آیة 156
5 - دا ئرت المعارف تشیع 1372 دکتر احمد صدر
منابع وحوالہ :
قرآن کریم
1- اعلام الھدایۃ مھدی پیشوائی
2- دا ئرت المعارف تشیع 1372 دکتر احمد صدر
3- زندگانی امام حسین ع (علی اصغر ہمدانی)
4 -لہوف سید ابن طاووس
5-میزان الحکمت الری شھری
6- منتہی الامال شیخ عباس قمی
7-نفس المہموم شیخ عباس قمی
اشرف حسین صالحی
ایران کی پاکستان میں جلوس عزا کے دوران ہوئے دہشتگردانہ حملے کی مذمت
ایران نے پاکستان میں جلوس عزا کے دوران ہوئے دہشتگردانہ حملے کی مذمت کی ہے۔
ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے پاکستان کے صوبے پنجاب میں عزاداران حسینی پر ہوئے بہیمانہ حملے کی سخت مذمت کرتے ہوئے متاثرہ افراد اور خاندانوں کے ساتھ اپنا قلبی اظہار ہمدردی کیا۔
خطیب زادہ نے کہا کہ اس قسم کے غیر انسانی اور دہشگردانہ اقدامات کا بہر شکل ممکن سد باب ضروری ہے اور اس کے لئے انہوں نے تمام علاقائی ممالک سے اپیل کی کہ وہ مستقل بنیادوں پر اس قسم کے اقدامات کی منصوبہ بندی، مالی امداد اور حمایت کرنے والوں کے خلاف آپسی تعاون کا آغاز کریں۔
خیال رہے کہ پاکستان کے صوبے پنجاب کے بھاول نگر علاقے میں دہشتگردوں نے دستی بموں سے عزادارن سید الشہدا امام حسین علیہ السلام کو نشانہ بنایا جس میں کم از کم تین افراد کے شہید اور پچاس زخمی ہوگئے۔
عینی شاہدین کے مطابق دہشت گردوں نے مسجد جامعہ الزھراہ سے برآمد ہونے والے جلوس میں شریک عزاداروں پر کئی طاقتور دستی بم پھنکے۔ چند روز قبل بھی دہشت گردوں نے مسجد جامعہ الزھرا پر حملے کی کوشش کی تھی۔
اس دہشتگردانہ اقدام کی پاکستان کی سبھی سیاسی و مذہبی جماعتوں نے مذمت کی ہے۔
لبنان کے لئے ایرانی ایندھن کے حامل بحری جہازوں کی روانگی
لبنان کے لئے ایرانی ایندھن کے حامل بحری جہازوں کی روانگی کے بارے میں حزب اللہ لبنان کے سربراہ کے بیان کا سوشل میڈیا پر لبنان کی مشہور سیاسی اور دیگر شخصیات نے خیرمقدم کیا ہے۔
فارس خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق سید حسن نصراللہ نے اپنے ایک خطاب میں اعلان کیا ہے کہ ایندھن کے حامل ایرانی تیل بردار بحری جہاز لبنان کے لئے روانہ ہو رہے ہیں۔انھوں نے ان جہازوں کو جارحیت کا نشانہ بنانے کی کوشش کے سلسلے میں امریکہ و اسرائیل کو سخت خبردار کرتے ہوئے تاکید کی کہ لبنان کی تحریک مزاحمت ان بحری جہازوں کو اپنے سے متعلق سمجھتی ہے۔
لبنان کے لئے ایرانی ایندھن کے حامل بحری جہازوں کی روانگی کے بارے میں حزب اللہ لبنان کے سربراہ کے بیان کا، سوشل میڈیا پر خیرمقدم کیا گیا ہے اور صرف چند مغرب نواز گروہوں نے ہی اس خبر پر اپنی مخالفت ظاہر کی ہے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ سوشل میڈیا کے بیشتر لبنانی صارفین نے اس خبر کا ہیش ٹیگ ٹرینڈ کرتے ہوئے حزب اللہ لبنان کے سربراہ سید حسن نصراللہ اور ایران کی جانب سے لبنان کی مدد کے لئے ایندھن کے حامل بحری جہاز روانہ کئے جانے کی قدردانی کی ہے۔
واضح رہے کہ لبنان، گذشتہ ایک سال سے سیاسی و اقتصادی بحران سے دوچار ہے اور اس ملک میں ایندھن کا مسئلہ اس حد تک سخت بن چکا ہے کہ بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ جنوبی لبنان کے مختلف علاقوں اور اسپتالوں کی بجلی کی سپلائی منقطع ہو گئی ہے
حضرت ابو الفضل العباس علمدار کربلا ، ادب ، شجاعت اور وفا کے پیکر ہیں
حضرت ابو الفضل العباس علیہ السلام 4 شعبان العمظم سن 26 ہجری قمری میں مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ آپ حضرت علی علیہ السلام اور حضرت ام البنین کے فرزند نیز"ابوالفضل" اور "علمدار کربلا" کے نام سے مشہور ہیں۔
حضرت عباس،شیعوں کے نزدیک،آئمہ (ع) کی اولاد میں اعلی ترین مقام و مرتبہ رکھتے ہیں اور اسی اعلی مرتبت کی بنا پرمحرم کا نواں دن آپ سے مختص کیا گیا ہے اور اس روز حضرت عباس(ع) کی عزاداری کی جاتی ہے۔ شیعہ مصادر و منابع میں آپ سے متعلق بہت سی کرامات نقل ہوئی ہیں۔ اسی طرح آپ کو ادب، شجاعت اور سخاوت کا مظہر، وفا کا پیکر اور امام معصوم کی اطاعت میں نمونۂ کاملہ سمجھا جاتا ہے۔آپ کو نہایت خوش چہرہ نوجوان ہونے کے ناطے قمربنی ہاشم کا لقب دیا گیا ہے۔ آپ کربلا میں اپنے بھائی حسین بن علی (ع) کی سپاہ کے علمدار اور سقا تھے اسی بنا پرشیعیان اہلبیت (ع) کے درمیان علمدار کربلا اور سقائے دشت کربلا کے لقب سے مشہور ہیں۔ حضرت ابو الفضل العباس علیہ السلام اسلامی تاریخ کی پیشانی پر ایک عظیم ترین رہنما اوربہادر ترین جرنیل کی صورت میں ابھر کر سامنے آئے۔
مؤرخین کا بیان ہے کہ میدان کربلا میں جب بھی حضرت عباس علیہ السلام دشمن کی فوجوں پر حملہ کرتے تو ہر سامنے آنے والا موت کے گھاٹ اترتا اور فوجی خوف اور دہشت سے ایک دوسرے کو کچلتے ہوئے یوں بھاگتے جیسے سب کو یقین ہو کہ موت ان کے پیچھے آرہی ہے اور ان کی کثرت ان کو کوئی فائدہ نہ پہنچا سکتی۔
حضرت عباس علیہ السلام کی شجاعت وبہادری اور ہر فضیلت و کمال فقط مسلمانوں کے لئے باعث فخر نہیں ہے بلکہ ہر وہ انسان جس کے اندر معمولی سی بھی انسانیت ہے وہ جناب عباس علیہ السلام کے فضائل و کمالات پہ ایمان رکھنے پہ فخر محسوس کرتا ہے اور اپنے آپ کو جناب عباس علیہ السلام کا عقیدت مند کہنا اپنے لئے باعث افتخار سمجھتا ہے۔
حضرت عباس علیہ السلام عظیم ترین صفات اور فضائل کا مظہر تھے شرافت ، شہامت ، وفا ، ایثار اور دلیری کا مجسم نمونہ تھے۔ واقعہ کربلا میں جناب عباس علیہ السلام نے مشکل ترین اور مصائب سے بھرے لمحات میں اپنے آقاومولا امام حسین علیہ السلام پر اپنی جان قربان کی اور مکمل وفا داری کا مظاہرہ کیا اور مصائب کے پہاڑوں کو اپنے اوپر ٹوٹتے ہوئے دیکھا لیکن ان کے عزم وحوصلہ، ثابت قدمی اور وفا میں ذرا برابر بھی فرق نہ پڑا اور یہ ایک یقینی بات ہے کہ جن مصائب کا سامنا جناب عباس علیہ السلام نے کیا ان پر صبر کرنا اور ثابت قدم رہنا فقط اس کے لئے ہی ممکن ہے کہ جو خدا کا مقرب ترین بندہ ہو اور جس کے دل کو خدا نے ہر امتحان کے لئے مضبوط بنا دیا ہو۔
حضرت عباس علیہ السلام نے اپنے بھائی حضرت امام حسین علیہ السلام کی خاطر جتنی بھی قربانیاں دیں وہ اس لئے نہیں تھیں کہ امام حسین علیہ السلام ان کے بھائی ہیں بلکہ حضرت عباس علیہ السلام نے امام حسین علیہ السلام کو اپنا حقیقی امام، خدائی نمائندہ اور عین اسلام سمجھتے ہوئے ان کی خاطرتمام تر مصائب و مشکلات کو برداشت کیا اور اپنی جان ان پر قربان کر دی اور اس بات کا انھوں نے کئی بار اظہار بھی کیا اور یہی وجہ ہے کہ حضرت عباس علیہ السلام جب بھی امام حسین علیہ السلام کو پکارتے یا ان کا ذکر کرتے تو انھیں بھائی کی بجائے اپنا مولاو آقا اور امام کہتے۔ پس ادب کا کوئی ایسا رنگ نہیں جو حضرت عباس علیہ السلام نے امام حسین علیہ السلام کے حق میں اختیار نہ کیا ہو، کوئی ایسی نیکی نہیں جو انہوں نے امام حسین علیہ السلام کے ساتھ نہ کی ہو، کوئی ایسی قربانی نہیں کہ جو انہوں نے اپنے آقا امام حسین علیہ السلام کے قدموں پر نچھاور نہ کی ہو۔ جانثاری وفا،اور ایثار کی وہ مثال قائم کی جس کی نظیر تاریخ بشریت میں نہیں مل سکتی، جب حضرت عباس علیہ السلام نے تن و تنہا ہزاروں کے لشکر پر حملہ کر کے فرات کو دشمن سے خالی کیا تو تین دن کی پیاس اور شدید جنگ کرنے کے باوجود بھی فقط اس لیے پانی نہ پیا کہ امام حسین علیہ السلام اور ان کے بچے اور اہل و عیال پیاسے تھے جناب عباس علیہ السلام کی وفا و غیرت یہ برداشت نہیں کر سکتی تھی کہ امام حسین علیہ السلام اور ان کے اہل و عیال تو پیاسے ہوں اور وہ پانی پی لیں لہٰذا اپنے آقا اور بچوں کی پیاس کو یاد کرکے بہتے دریا سے پیاسے واپس آئے۔ دنیا کی پوری تاریخ کو ورق ورق چھاننے سے بھی اس طرح کی وفا کی نظیر نہیں مل سکتی کہ جس کا مظاہرہ جناب عباس علیہ السلام نے میدانِ کربلا میں کیا۔
جناب عباس علیہ السلام نے ان بلند ترین مقاصد اور عظیم ترین اصولوں کی خاطر شہادت کو گلے لگایا کہ جن کی خاطر امام حسین علیہ السلام نے قیام کیا تھا پس جناب عباس علیہ السلام نے انسانیت کی آزادی،عدل و انصاف کے فروغ، لوگوں کی فلاح و بہبود، قرآنی احکام کی نشر و اشاعت اور پوری انسانیت کو ذلت کے گڑھے سے نکال کرعزت و شرف اور سعادت دلانے کے لیے اپنے بھائی و آقا امام حسین علیہ السلام کی طرح شہادت کو اختیار کیا ۔
جناب عباس علیہ السلام نے حریت و آزادی اور کرامت و شرف کی مشعل روشن کی اور عزت و سعادت کے میدان میں اترنے والے شہداء کے قافلوں کی قیادت کی اور ظلم و جور کی چکی میں پسنے والے مسلمانوں کی مدد و نصرت کو اپنا فریضہ سمجھا۔
ایران میں حضرت ابو الفضل العباس (ع)کی یاد میں مجالس اور جلوس عزا کا اہتمام
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق اسلامی جمہوریہ ایران میں طبی دستورات کی رعایت کے ساتھ کربلا کے شہیدوں کی یاد میں مجالس اور جلوس عزا کا سلسلہ جاری ہے۔ آج ایران بھر میں علمدار کربلا حضرت ابو الفضل العباس (ع) کی یاد میں علم اور تعزیے نکالے جارہے ہیں ۔ حضرت ابو الفضل العباس،حضرت علی (ع) کے فرزند اور امام حسن (ع)و امام حسین (ع) کے بھائی تھے۔میدان کر بلا میں امام عالی مقام نے آپ کو اپنے لشکر جرار کا سپہ سالار بنایا تھا حضرت عباس (ع) کی جرأت،بہادری اور وفا کو خراج عقیدت پیش کر نے کیلئے آج عزاداروں نے جلوس علم اور تعزیہ بر آمد کئے حضرت عباس اپنے باپ حضرت علی (ع) کی طرح نہایت جری اور بہادر تھے،کربلا میں موجود تمام مردو خواتین اور بچوں کو آپ سے بڑی ڈھارس تھی۔ آپ اہلبیت کے پیاسے بچوں کی پیاس بجھانےکے لئے فرات پر پانی لانے کی غرض سے گئے تھے آپ نے فرات سے یزیدی فوج کو شکست دیکر فرات پر قبضہ کرکے مشکیزہ میں پانی بھر لیا اور اب پانی کو لیکر خمیہ کی طرف گھوڑے کو ایڑھ لگائی لیکن کمین میں بیٹھے ہوئے یزیدیوں نے آپ کے دونوں بازؤں پر وار کرکے قلم کردیا حضرت عباس نے مشک سکینہ کو اپنے دانتوں میں دبا لیا اور اپنے ہاتھوں کی پروا کئے بغیر خیمہ کی طرف رواں دواں تھے کہ ناگاہ دشمن کا ایک تیر مشک پر لگا اور پانی بہہ گیا ایک تیر آنکھ میں پیوست ہوگیا اور شیر خدا کا شیر گھوڑے پر نہ سنبھل سکا گھوڑے سےزمین پر گرے بھائی کو آواز دی امام حسین (ع) کی کمر اور پیاسے بچوں کی ڈھارس ٹوٹ گئی اور عباس علمدار اپنے بھائی کی آغوش میں شہید ہوگئے۔
ہر زمانے کو کربلا اور حسین ابن علی کی تلاش رہتی ہے
کربلا وہ بیداری کی تحریک ہے، جو بہن اور بھائی نے آج سے چودہ سو سال پہلے شروع کی تھی۔ کربلا دراصل قوموں کے اندر مری ہوئی روح کو زندہ کرنے کا نام ہے۔ کربلا اسلام کا روشن چہرہ ہے، جو ہر دور کے فرعون، شمر اور یزید جیسوں کی غلاظت کو صاف کرتا ہے۔ یہ بیداری کی تحریک آج بھی جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گی۔ آج کا باشعور انسان حسینؑ سے غیرت کا درس حاصل کر رہا ہے۔ کربلا وہ واحد جنگ تھی، جس کا مفتوحہ علاقہ مخصوص نہیں بلکہ دنیا میں جہاں بھی زندہ ضمیر لوگ زندہ ہیں، وہ حسین ابن علی کو اپنا ہادی، رہبر اور پیشوا تسلیم کرتے ہیں۔
ہم اپنے مضمون کی طرف واپس آتے ہیں کہ ہر عصر یعنی زمانے کو کربلا اور حسین ابن علی کی تلاش رہتی ہے، وہ اس لیے کہ حسین روشن فکر، بے مثال تہذیب اور عالم گیر ثقافت کا بچانے والا ہے۔
اُس وقت جب یزید برسر اقتدار آیا تو اس نے روح اسلام کو مارنے کی بہت کوشش کی، یعنی کہ اسلام رہے اور اس کی اصل ختم ہو جائے۔ جس کے لیے اس نے عمر سعد، شمر اور سنان ابن انس جیسے لوگ خریدے۔ یہ وہ لوگ تھے، جو ظاہری طور پر مسلمان تھے، مگر ان کے اندر روح اسلام نہ تھی۔ اس طرح یزید نے پورے معاشرے میں اسلام کی مثالی صورت خراب کرنے کی کوشش شروع کی اور یزید کا اقتدار بھی اس صورت میں قائم رہ سکتا تھا کہ وہ روح دین میں سے روح نکال دے اور کھوکھلا دین اس کے اقتدار میں رکاوٹ نہ ہو، یعنی 61 ہجری میں نماز تھی، مگر روح نماز نہ رہی تھی۔ حج ادا ہو رہا تھا مگر فقط رسومات کی حد تک اور باقی احکام دین کا بھی یہی حال تھا۔
یہ وہ معاشرہ تھا، جس میں امام حسین علیہ السلام نے اپنے لہو سے روح دین کو زندہ کیا، یعنی دین کی اس حقیقی شکل کو پھر سے زندہ کیا، جسے حسین کے نانا لیکر آئے تھے، یعنی وہ قومیں جنہوں نے حسین کو مدینے سے جاتا دیکھا تھا، مگر ساتھ نہ دیا اور وہ کوفہ جو خط لکھ کر پیچھے ہٹ گیا تھا، امام کے خون سے بیدار ہوا اور ظالم کے آگے قیام پر آمادہ ہوگیا۔ حسین کے وہ ساتھی جو مقتل حسین میں تو نہ آسکے، مگر انہوں نے توابین کی شکل میں پھر انقلاب حسینی کے نام سے اپنی تحریک شروع کی۔ اسی طرح بعد میں یہ بیداری کی تحریک رواں دواں رہی۔
اگر اسی پس منظر میں آج کے زمانے کی طرف نظر کی جائے تو یہاں بھی سب کچھ ویسا ہی ہے، یعنی نماز ہے، مگر روح نماز نہیں، روزہ ہے تو روح روزہ نہیں۔ حج تو ہے مگر حج ابراہیمی نہیں ہے، یعنی کہ وہ ساری رسومات تو ہیں، مگر ان کے اندر روح نہیں ہے، یعنی سب کچھ ظاہری حد تک تو ٹھیک ہے، مگر اندر سے ہر احکام دین کھوکھلا ہوچکا ہے۔ اس لئے ہر عصر یعنی زمانے کی روح کو زندہ رکھنے کے لئے کربلا اور حسین ابن علی کی ضرورت رہتی ہے۔ بقول شاعر
یزید آتا رہے گا ہر اک زمانے میں
زمانہ کہتا رہے گا حسین زندہ باد
تحریر: مہر عدنان حیدر