سلیمانی

سلیمانی

مہر خبررساں ایجنسی نے العربیہ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ سعودی عرب نے سال 2021 کے حج کے لیے کورونا وائرس کے پیشِ نظر احتیاطی تدابیر اور شرائط کا اعلان کردیا ہے ، جس کے تحت 18 سال سے زائد عمر کے 60 ہزار ملکی اور غیر ملکی عازمین حج کی سعادت حاصل کرسکیں گے۔

سعودی وزارت صحت کی جانب سے 9 صفحات پر مشتمل دستاویز جاری کی گئی ہے جس میں حج کے حوالے سے مختلف شرائط کا ذکر کیا گیا جسے حرمین شریفین سے منسلک آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ پر شیئر کیا گیا ہے۔

مذکورہ نکات کے مطابق عازمینِ حج کا صحت مند ہونا ضروری ہے اور انہیں حج کا سفر کرنے سے 6 ماہ قبل تک کسی بیماری کی وجہ سے ہسپتال میں داخل نہ ہونا پڑا ہو جبکہ اس بات کا ثبوت دینا بھی لازمی ہے۔

اس کے علاوہ عازمین حج کے لیے ویکسینز کی دونوں خوراکیں لگوانا اور بطور ثبوت اپنے ملک کی وزارت صحت یا حکام سے جاری کردہ ویکسینیشن کارڈ فراہم کرنا ضروری ہوگا۔

حج پالیسی میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سعودی مملکت کی وزارت صحت کی جانب سے منظور کردہ ویکسین کی فہرست میں شامل ویکسین ہی لگوانا لازم ہے۔

واضح رہے کہ سعودی حکومت نے سعودی عرب میں  آنے والے مسافروں کے لیے صرف فائزر، ایسٹرا زینیکا اور موڈرنا اور جانسن اینڈ جانسن ویکسین کی منظوری دی ہے۔

ساتھ ہی یہ شرط بھی رکھی گئی ہے کہ عازمین کو 2 خوراکوں والی ویکسین کی پہلی خوراک یکم شوال اور دوسری خوراک سعودی عرب پہنچنے سے 14 روز پہلے لگ چکی ہو۔

اس کے باجود غیر ملکی عازمین کو سعودی عرب پہنچنے کے بعد 3 روز کے لیے قرنطینہ کرنا ہوگا جبکہ سماجی فاصلہ رکھنے، ماسک پہننے سمیت دیگر احتیاطی تدابیر اپنانے کی شرط عازمین حج کے لیے برقرار رہے گی۔

اسرائیلی وزیر اعظم نے غزہ جنگ میں یکطرفہ جنگ بندی کا اعلان کرکے اپنی شکست و ناکامی کا اعتراف کیا ہے جس کے بعد غزہ اور مقبوضہ فلسطین میں فلسطینی شہریوں میں شادی اور خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنے پیغام میں  بارہ روزہ جنگ میں فلسطینی عوام کو کامیابی پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے فرمایا:  فلسطینی عوام کو اللہ تعالی نے ان چند دنوں کے امتحان میں سرافرازی اور کامیابی عطا فرمائي ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فلسطین کے غیور، طاقتور، شجاع اور بہادر عوام اور جوانوں کو سلام پیش کرتے ہوئے اسرائیل کا مقابلہ کرنے والی تمام فلسطینی مزاحمتی تنظیموں کو مبارکباد پیش کی ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے پیغام میں فلسطین کے مجاہدین اور مؤمنین کی عظیم کامیابی اور سرافرازی پر اللہ تعالی کا شکر ادا کیا۔ اللہ تعالی کی بارگاہ میں راہ حق میں  شہداء پیش کرنے والے خاندانوں کے لئے صبر و تحمل کی دعا کرتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالی شہداء پر رحمت اور بخشش مرحمت اور زخمیوں کو جلد از جلد شفا عنایت فرمائے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اسرائیل کی درندہ صفت اور غاصب حکومت نے مظلوم فلسطینیوں پر بیشمار جرائم اور مظالم کا ارتکاب کیا ہے، جو اسرائیل کی ناتوانی اور ناکامی کا مظہر ہے۔ فلسطینی جوانوں نے غاصب صہیونی حکومت کا شجاعانہ اور دلیرانہ انداز میں مقابلہ کیا اور اسے ایک بار پھر تاریخي شکست سے دوچار کردیا۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فلسطینی عوام پر زوردیا کہ وہ اسرائیل کا مقابلہ کرنے کے سلسلے میں اپنی آمادگی کا سلسلہ جاری رکھیں کیونکہ بیت المقدس اور فلسطین کی آزادی تک غاصب صہیونی حکومت کے خلاف نبرد کا سلسلہ جاری رہےگا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: فلسطینی عوام کی حمایت اور مدد اسلامی ممالک اور امت مسلمہ کی دینی، مذہبی اور اخلاقی ذمہ داری ہے مسلم ممالک کو ہر لحاظ سے فلسطینیوں کی بھر پور حمایت کرنی چاہیے کیونکہ فلسطینی غاصب صہیونی حکومت کا فرنٹ لائن پر مقابلہ کررہے ہیں اور فلسطینیوں کی حمایت کے سلسلے میں مسلمانوں کو اپنی حکومتوں سے بھر پور مطالبہ کرنا چاہیے ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اسرائیل کے سفاک ،ظالم و جابر، بے رحم اور بچوں کے قاتل وزير اعظم نیتن یاہوکے خلاف جنگی جرائم کے تحت عالمی عدالت میں کارروائی ہونی چاہیے اور اسرائيل کے سفاک وزیراعظم کو کیفر کردار تک پہنچانا چاہیے۔ تمام فلسطینیوں کو ان کی اسقتامت اور شجاعت پر انھیں مبارکباد پیش کرتے ہیں اور فلسطین و بیت المقدس کی نبرد میں ہم اپنے فلسطینی بھائیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔

حزب اللہ لبنان نے اپنے ایک بیان میں  فلسطینی مزاحمتی تنظیموں کو 11 روزہ سیف القدس پیکار میں اسرائيل پر کامیابی اور فتح کے سلسلے میں مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ سیف القدس پیکار میں اسرائیل کو ایک اور شکست ہوئی ہے۔ اسرائیل مکڑی کے جالے سے بھی کمزور ہے۔

حزب اللہ لبنان نے اپنے بیان میں اسرائيل پر فلسطینی مزاحمتی تنظیموں کی 11 روزہ جنگ میں کامیابی کو تاریخی کامیابی قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ  فلسطینی تنظیموں نے 11 روزہ سیف القدس جنگ میں طاقت کا توازن بدل دیا ہے۔ فلسطینی تنظیم حماس ، جہاد اسلامی اور دیگر تنظیموں نے ثابت کردیا ہے کہ اسرائیل کا گھر مکڑي کے گھر سے بھی زیادہ کمزور ہے۔فلسطین اوربیت المقدس کی کامیابی قریب پہنچ گئی ہے۔ واضح رہے کہ اسرائیل نے آج صبح 2 بجے سے یکطرفہ طور پر جنگ بندی قبول کرتے ہوئے شیخ جراح علاقہ سے خارج ہونے کا اعلان کردیا ہے جنگ بندی کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی فلسطین الیوم کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ فلسطینی تنظیم جماس کے سیاسی شعبہ کے سربراہ اور سابق وزیر اعظم اسماعیل ہنیہ نے غزہ جنگ میں فلسطینیوں کی بھر پوراور بے لوث حمایت کرنے پر اسلامی جمہوریہ ایران کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران نے فلسطینیوں اور غزہ کے عوام کو ہر لحاظ سے مدد فراہم کی اور کسی بھی قسم کی مدد سے دریغ نہیں کیا۔

اسماعیل ہنیہ نے سیف القدس جنگ میں فلسطینیوں کی کامیابی کو اسٹراٹیجک کامیابی قراردیتے ہوئے کہا کہ قدس اور مسجد الاقصی ہماری ریڈ لائنیں ہیں ۔ سیف القدس دفاعی جنگ میں اسلامی مزاحمت کے کمانڈروں نے اسرائيلی فوج کوایک بار پھر ذلت آمیز شکست سے دوچار کیا ، میں حماس کے عسکری ونگ کے کمانڈر محمد ضیف اور دیگر کمانڈروں کواس اسٹراٹیجک کامیابی پر سلام پیش کرتا ہوں۔ انھوں نے کہا کہ سیف القدس جنگ میں کامیابی کسی گروہ کی کامیابی نہیں بلکہ پوری ملت فلسطین کی کامیابی ہے اور ہم اس عظیم کامیابی پر فلسطینی قوم اور تمام مسلمانوں کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔

قبروں کو مسمار کرنے کے لئے وہابیت کی اہم دلیل:

قبروں کو مسمار کرنے کے لئے وہابیوں کی ایک اہم دلیل وہ روایت ہے جس میں رسول اللہ صَلَّى اللہ عَلَيْہ وَ آلِہ وَسَلَّمَ نے حضرت علی عَلَیہ السَّلَام کو مدینہ کی قبروں کو مسمار کرنے کی ذمہ داری سونپا تھا ۔

«عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي جَنَازَةٍ فَقَالَ: " أَيُّكُمْ يَنْطَلِقُ إِلَى الْمَدِينَةِ فَلا يَدَعُ بِهَا وَثَنًا إِلا كَسَرَهُ، وَلا قَبْرًا إِلا سَوَّاهُ، وَلا صُورَةً إِلا لَطَّخَهَا؟» 

علی (علیہ السلام)  سے روایت ہے : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کسی جنازہ کی تشییع میں شریک تھے کہ فرمایا : تم میں سے کون ہے جو مدینہ جا کے تمام بتوں کو توڑ سکتا ہے ، تمام قبروں کو ہموار ، اور تمام تصویروں کو مٹا سکتا ہے؟

مسند الإمام أحمد بن حنبل، اسم المؤلف: أحمد بن حنبل أبو عبدالله الشيباني، دار النشر: مؤسسة قرطبة – مصر؛ ج 1، ص 87، ح 657

اس روایت کی سند سے قطع نظر، اس کے الفاظ کو بھی اگر ملحوظ نظر رکھا جائے تو بھی وہابیوں کا دعوا ثابت نہیں ہوتا کیوں کہ روایت کے الفاظ ہیں : «ولا قبرا إلا سواه» یہ نہیں کہا :  «ولا قبرا إلا خربته» یا «ولا قبرا إلا هدمته» لہذا روایت میں خراب کرنے یا مسمار کرنے کا حکم نہیں ،بلکہ حکم «تسویة القبر» ہے؛ یعنی قبروں کو ہموار کرنے کا حکم ہے کیونکہ جاہلیت کے دور میں قبروں کو اونٹ کے کوبڑ کی طرح بنایا کرتے تھے لہذا رسول اللہ صَلَّى اللہ عَلَيْہ وَ آلِہ وَسَلَّمَ نے جاہلیت کے آثار کو مٹانے کے لئے یہ حکم دیا تھا۔ اس کے باجود وہابیوں کے مطابق اس  روایت کی رو سے جو بھی قبروں کو اونچا بنائے منجملہ «ابوحنیفہ» کی قبر اور اس کے لئے گنبد و بارگاہ بنائے وہ کافر ہوگا ۔ وہابی لوگ اس روایت سے بہت استدلال کرتے جب کہ مزہ کی بات یہ  ہے کہ ان کا معروف اور معتبر عالم «شعیب أرنؤوط» اس روایت کے ذیل میں لکھتا ہے: «إسناده ضعیف»  اس کی سند ضعیف ہے۔

روایت کی سند کے بارے میں بحث :

«شعیب أرنؤوط» کے ساتھ ، نہایت معتبر وہابی عالم «ألبانی» جس کے اعتبار کی حیثیت یہ ہے کہ وہابیوں میں اسے بخاری ثانی کہا جاتا ہے، وہ بھی کتاب «ارواء الغلیل» جلد سوم صفحہ 206 میں یہی بحث پیش کرتے ہوئے کہتا ہے کہ :«ورجاله ثقات رجال الشیخین غیر أبی المودع أو أبی محمد, فهو مجهول کما قال فی " التقریب " وغیره» حالانکہ اس کے رجال، شیخین کی نظر میں ثقہ ہیں لیکن أبی المودع یا أبی محمد تو بالکل مجہول ہیں جیسا کہ کتاب " التقریب " میں یا دوسری کتابوں میں مذکور ہے. 

إرواء الغلیل فی تخریج أحادیث منار السبیل، المؤلف: محمد ناصر الدین الألبانی، الناشر: المکتب الإسلامی – بیروت، الطبعة: الثانیة - 1405، ج 3، ص 210، ح 759

ظاہر سی بات ہے مجہول کی روایت، ضعیف ہوا کرتی ہے ۔

تیسرا نکتہ یہ کہ کتاب «صحیح مسلم» میں روایت ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے آخری سفر میں مکہ و مدینہ کے درمیان اپنی والدہ بزرگوار کے مرقد پہ حاضر ہوئے، خود بھی گریہ فرمایا اور آپ کے گرد سب لوگوں نے بھی گریہ کیا : «زَارَ النبی قَبْرَ أُمِّهِ فَبَکی وَأَبْکی من حَوْلَهُ»  سوال یہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تمام قبروں کو مسمار کرنے کا حکم دیدیا تھا تو آپ کی والدہ کی قبر کی پہچان کیسے ہوئی ؟!

انبیاء و اولیا کے قبور کی تعمیر، قرآن کی نظر میں :

پہلی آیہ: آیہ 36 سورہ مبارکہ نور: 

«ثعلبی» نقل کرتا ہے : پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله وسلم ایک مرتبہ اس آیت کی تلاوت فرما رہے تھے کہ ایک شخص اٹھ کے پوچھتا ہے : یا رسول اللہ صلی الله علیه و آله وسلم! یہ کون سا گھر مراد ہے ؟ پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله وسلم نے فرمایا : انبیاء کا گھر مراد ہے ۔ پھر ابوبکر نے اٹھ کے پوچھا : یا رسول اللہ صلی الله علیه و آله وسلم! علی و زہرا کا گھر بھی انبیاء کے گھر کے برابر ہے ؟! حضرت نے فرمایا: ہاں بلکہ انبیاء کے گھر سے افضل ہے . 

الکشف والبیان؛ المؤلف: أبو إسحاق أحمد بن محمد بن إبراهیم الثعلبی النیسابوری، دار النشر: دار إحیاء التراث العربی - بیروت - لبنان - 1422 هـ - 2002 م، الطبعة: الأولی، تحقیق: الإمام أبی محمد بن عاشور، ج 7، ص 107

اسی طرح «جلال الدین سیوطی» کی کتاب «تفسیر در المنثور» میں، نیز «ألوسی» کی کتاب « تفسیر روح المعانی» میں بھی یہ روایت نقل ہوئی ہے ۔

ملاحظہ کیجئے رفعت سے مراد کیا ؟! خداوند عالم سورہ بقرہ آیہ 127 میں ارشاد ‌فرماتا ہے :

 (وَ إِذْ یرْفَعُ إِبْراهِیمُ الْقَواعِدَ مِنَ الْبَیتِ وَ إِسْماعِیلُ رَبَّنا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّک أَنْتَ السَّمِیعُ الْعَلِیم) اس آیہ شریفہ میں (یرْفَعُ) کس معنی میں ہے؟! ظاہر سی بات ہے عمارت کو اٹھانے ، بلند کرنے اور اونچا کرنے کے معنی میں ہے؛ اسی سے حرم، گنبد، ضریح اور بارگاہ بنانے کا اشارہ بھی ملتا ہے جس طرح حضرت ابراہیم نے خانہ خدا کی عمارت کو اونچا کیا.

«ابن جوزی» کہتا ہے:

 «والثانی أن تبنی قاله مجاهد وقتادة» دوسرا نظریہ یہ ہے کہ قبور پر عمارت تعمیر کی جا سکتی ہے جیسا کہ مجاہد اور قتادہ قائل ہیں ۔

زاد المسیر فی علم التفسیر، اسم المؤلف: عبد الرحمن بن علی بن محمد الجوزی، دار النشر: المکتب الإسلامی - بیروت - 1404، الطبعة: الثالثة، ج 6، ص 46، النور: (36)

اسی طرح کتاب «تفسیر بحر المحیط» میں «ابو حیان أندلسی» بھی یہی روایت نقل کرتے ہیں : «وإذنه تعالی وأمره بأن (تُرْفَعَ) أی یعظم قدرها قاله الحسن والضحاک» خداوند عالم نے اذن اور حکم دیا ہے کہ ان کی تکریم و تعظیم ہو اور اسے حسن بصری اور ضحاک نے کہا ہے «وقال ابن عباس ومجاهد: تبنی وتعلی» او ر ابن عباس و مجاہد کا کہنا ہے کہ : ان کے قبور پر عمارت تعمیر ہو اور وہ دوسرے گھروں سے اونچی ہو ۔

تفسیر البحر المحیط، اسم المؤلف: محمد بن یوسف الشهیر بأبی حیان الأندلسی، دار النشر: دار الکتب العلمیة - لبنان/ بیروت - 1422 هـ -2001 م، الطبعة: الأولی، تحقیق: الشیخ عادل أحمد عبد الموجود - الشیخ علی محمد معوض، ج 6، ص 421، باب النور: (36)

دوسری آیت: آیہ 23 سورہ مبارکہ کہف: (فَقالُوا ابْنُوا عَلَیهِمْ بُنْیاناً رَبُّهُمْ أَعْلَمُ بِهِمْ قالَ الَّذِینَ غَلَبُوا عَلی أَمْرِهِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَیهِمْ مَسْجِداً إِذْ یتَنازَعُونَ بَینَهُمْ أَمْرَهُم) 

اگر قبروں پہ مسجد بنانا کفر اور بدعت کا مصداق ہوتا تو خداوند عالم اس سورہ میں اس جگہ ضرور مذمت کرتا جبکہ خداوند عالم نہ صرف مذمت نہیں کر رہا ہے بلکہ تائید کر رہا ہے!

«زمخشری» کتاب «الکشاف» میں کہتا ہے : «{ لَنَتَّخِذَنَّ } علی باب الکهف {مَّسْجِدًا} یصلی فیه المسلمون ویتبرکون بمکانهم» مراد یہ ہے کہ ہم اصحاب کہف کی قبر پر مسجد بنائیں گے تا کہ مومنین یہاں نماز پڑھیں ، اور اصحاب کہف کے اس مقدس مقام سے برکتیں حاصل کریں ۔

الکشاف عن حقائق التنزیل وعیون الأقاویل فی وجوه التأویل، أبو القاسم محمود بن عمر الزمخشری الخوارزمی، تحقیق عبد الرزاق المهدی، الناشر دار إحیاء التراث العربی، عدد الأجزاء 4، ج 2، ص 665

«طبری» کتاب «تفسیر طبری» جلد 15 میں لکھتے ہیں: «وقال المسلمون نحن أحق بهم هم منا نبنی علیهم مسجدا نصلی فیه ونعبد الله فیه» مومنوں نے کہا کہ ہم دوسروں سے زیادہ حق رکھتے ہیں ، ہم اصحاب کہف کی قبر پہ مسجد بنائیں گے، اور وہاں نماز پڑھیں گے اور خدا کی عبادت کریں گے ۔

«ابن جوزی» متوفای 597 کتاب «زاد المسیر» میں کہتے ہیں : «فقال المسلمون نبنی علیهم مسجدا لأنهم علی دیننا» مومنین نے کہا کہ ہم اصحاب کہف کی قبر پر مسجد بنائیں گے کیونکہ وہ لوگ ہمارے دین پر تھے ۔

قبور پر تعمیر سیرت صحابه :

اہل سنت کی برجستہ شخصیت‌ اور بزرگ عالم دین «سمہودی» اپنی کتاب «وفاء الوفا» کی دوسری جلد صفحہ 109 میں رقم طراز ہیں : «وکان بیت عائشة رضی الله عنها أحد الأربعة المذکورة. لکن سیأتی من روایة ابن سعد أنه لم یکن علیه حائط زمن النبی صلّی الله علیه وسلّم، وأن أول من بنی علیه جدارا عمر بن الخطاب» رسول اسلام صلّی الله علیه و آلہ و سلّم کے زمانے میں عائشہ کے حجرہ اور  مسجد میں دیوار نہیں تھی، اس پر سب سے پہلے عمر نے دیوار بنائی ۔

یعنی قبر رسول صلی الله علیه و آله وسلم  اور عائشہ کے حجرہ کے درمیان عمر نے دیوار بنائی ۔  اب اگر قبر پر کسی طرح کی تعمیر حرام ہوتی تو قبر کو تو مسمار کر دینا چاہئے تھا ، اس پر دیوار بنانے کا کیا مطلب ؟ اور دیوار کو بھی کسی اور نے نہیں خلیفہ دوم نے بنوایا!

کتاب «البدایة و النهایة» میں بیان ہوا ہے . «فأدخل فیه الحجرة النبویة حجرة عائشة فدخل القبر فی المسجد» پھر نبی کا حجرہ، عائشہ کا حجرہ، نبی کی قبر، مسجد میں داخل کر لی گئی ۔

البداية والنهاية ، اسم المؤلف:  إسماعيل بن عمر بن كثير القرشي أبو الفداء ، دار النشر : مكتبة المعارف – بيروت؛ ج9، ص 75

دوسری روایت اسی کتاب «وفاء الوفاء» میں یہی «سمہودی» جناب «فاطمہ بنت اسد» کے بارہ میں نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں : «فلما توفیت خرج رسول الله صلی الله علیه وسلم، فأمر بقبرها فحفر فی موضع المسجد الذی یقال له الیوم قبر فاطمة» جب فاطمہ بنت اسد کا انتقال ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا اس مکان میں جہاں مسجد تھی کھود کر ان کے لئے قبر تیار کی جائے ۔

غزہ پر اسرائیل کے وحشیانہ اور مجرمانہ فضائی حملوں کا سلسلہ دسویں روزبھی جاری ہے غزہ پر اسرائیل کی بمباری کے نتیجے میں اب تک 218 فلسطینی شہید اور 1508 زخمی ہوگئے ہیں۔ ادھر حماس کے عسکری ونگ کے کمانڈر محمد ضیف کو قتل کرنے کی اسرائیل کی کوشش ناکام ہوگئی ہے۔ اسرائیل کے خلاف فلسطینی مزاحمتی تنظیموں کی  شمشیر قدس نامی جوابی کارروائیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ حماس نے اسرائیلی شرائط کے تحت جنگ بندی کی مصری تجویز کو بھی رد کردیا ہے۔

حماس کے سیاسی شعبہ کے رکن عزت الرشق نے کہا ہے کہ حماس کی طرف سے جمعرات سے جنگ بندی پر مبنی خبریں غیر مصدقہ ہیں۔ جنگ بندی کے سلسلے میں کوششیں جاری ہیں۔

فلسطین کے اسپتال ذرائع کے مطابق مغربی پٹی میں اسرائیلی فوجیوں کے حملوں میں 26 فلسطینی شہید ہوگئے ہیں۔ جبکہ غزہ اسرائیل کی وحشیانہ اور ظالمانہ بمباری کے نتیجے میں 72 ہزار افراد بے گھر ہوگئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق اسرائیل کی طرف سے حماس کے بعض اہم رہنماؤں کو شہید کرنے کی کوششیں ناکام ہوگئی ہیں۔

واضح رہے کہ غزہ پر اسرائیل کی وحشیانہ بمباری کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے اسرائیل نے رہائشی عمارتوں کو اپنی بربریت اور جارحیت کا نشانہ بنایا ہے جبکہ فلسطین کی مزاحمتی تنظیموں نے بھی جوابی کارروائی میں صہیونیوں کے آرام و سکون کو سلب کرلیا ہے۔

اسرائیلی افواج نے اقوام متحدہ سمیت تمام عالمی رہنماں کی جانب سے کی جانے والی اپیلوں و درخواستوں کو یکسر مسترد کرتے ہوئے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں زمینی و فضائی حملوں حملوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے جس کے نتیجے میں اب تک 218 فلسطینی شہید ہوچکے ہیں جن میں بڑی تعداد میں بچے اور خواتین شامل ہیں۔

فلسطینی تنظیموں نے غزہ کے اطراف میں صہیونی علاقوں  پر راکٹ فائر کئے ہیں ۔ عرب ذرائع کے مطابق اسرائیلی افواج نے دریائے اردن کے مغربی کنارے کے علاقے میں بھی اب جارحانہ اور پر تشدد کارروائیاں شروع کردی ہیں جس کے باعث متعدد فلسطینی شہید ہوگئے ہیں۔

فلسطین کی پانچ تنظیموں اور تحریکوں نے خطوط ارسال کرکے رہبر انقلاب اسلامی کی یوم قدس کی تقریر کی قدردانی کی۔

فلسطین کی پانچ تنظیموں اور تحریکوں نے خطوط ارسال کرکے رہبر انقلاب اسلامی کی یوم قدس کی تقریر کی قدردانی کی۔

ان خطوط میں فلسطین کے عوام کی مزاحمت کی حمایت اور صیہونی حکومت کو تسلیم نہ کرنے پر مبنی اسلامی جمہوریہ ایران اور رہبر انقلاب اسلامی کے موقف کی قدردانی کی گئی ہے اور زور دیکر کہا گیا ہے کہ قدس کی آزادی تک مزاحمت جاری رہے گی اور یوم قدس پر رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب در حقیقت فلسطین کی آزادی کا روڈ میپ ہے۔

عوامی محاذ برائے آزادی فلسطین، تحریک فتح انتفاضہ، فلسطین عوامی مزاحمتی محاذ اور فلسطینی فورسز الاینس نے ان خطوط میں اسلامی جمہوریہ ایران کو اسلامی ممالک میں اتحاد و استقامت کا محور قرار دیا اور فلسطین کی امنگوں کو نئی زندگی دینے والے شہید سردار قاسم سلیمانی کو خراج عقیدت پیش کیا۔

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے سات مئی 2021 کو یوم قدس پر دو حصوں فارسی اور عربی پر مشتمل اپنی تقریر میں مزاحمتی فورسز کی قوت و توانائی میں قابل لحاظ اضافے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں طاقت کا توازن دنیائے اسلام کے حق میں تبدیل ہو چکا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا تھا کہ صیہونی حکومت رو بزوال و نابودی ہے اور اس غاصب حکومت سے مقابلے کا منطقی طریقہ اس وقت تک مزاحمت جاری رکھنا ہے جب تک وہ فلسطین کے مستقبل کا تعین کرنے والے سیاسی نظام کی تشکیل کے لئے فلسطینی علاقوں کے اندر اور باہر ریفرنڈم کرانے پر مجبور نہ ہو جائے۔

قابل ذکر ہے کہ تحریک حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے بھی 10 مئی 2021 کو رہبر انقلاب اسلامی کے نام اپنے پیغام میں فلسطین کے تعلق سے اسلامی جمہوریہ ایران کے موقف کی قدردانی کی تھی اور قدس کے رہائشیوں کی حمایت میں اور غاصب صیہونی حکومت کے جرائم کو رکوانے کے لئے عالم اسلام کے دو ٹوک موقف کی ضرورت پر زور دیا تھا۔

فلسطینی تنظیم حماس کے سیاسی شعبہ کے سربراہ اور فلسطین کے سابق وزير اعظم اسماعیل ہنیہ نے رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے نام اپنے دوسرے خط میں فلسطین کی تازہ ترین صورتحال کے بارے میں رپورٹ پیش کی ہے۔

اسماعیل ہنیہ نے اپنے خط میں غزہ پر اسرائیل کے جنگی طیاروں کے وحشیانہ حملوں میں جانی اور مالی نقصانات ، محلہ شیخ جراح، مسجد الاقصی اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں کی تازہ ترین صورتحال بیان کی ہے۔ حماس کے سیاسی شعبہ کے سربراہ نے فلسطینی عوام اور مقدسات اسلامی کے خلاف اسرائیل حملوں کی شدت  کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلامی مزاحمتی تنظیموں نے بھی گذشتہ ایک ہفتہ میں اسرائیل کو منہ توڑ جواب دیا ہے اور اس کے بعد بھی اسرائيل کو دنداں شکن جواب دیا جائےگا۔ اسماعیل ہنیہ نے کہا کہ اسرائیل فلسطینی عوام کے خلاف ممنوعہ ہتھیاروں کا استعمال کرکے جنگی جرائم کا ارتکاب کررہا ہے۔ حماس کے سربراہ نے عالمی رہنماؤں کے ساتھ اپنی گفتگو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلامی اور عربی ممالک کو  اسرائیل کے خلاف عملی اقدامات انجام دینے چاہییں اور اسرائیل کی غاصب حکومت کے ساتھ سفارتی تعلقات کو ختم کردینا چاہیے۔ اسماعیل ہنیہ نے اس سے قبل بھی رہبر معظم انقلاب اسلامی کے نام اپنے خط میں کہا تھا کہ مسجد الاقصی کی بے حرمتی اور فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیل کے مجرمانہ اقدامات کا حماس نے منہ توڑ اور دنداں شکن جواب دینے کا عزم کررکھا ہے اور اسرائیل کے وحشیانہ حملوں کے متوقف ہونے تک جوابی اور دفاعی حملوں کا سلسلہ جاری رہےگا۔ اس سے قبل فلسطین کی پانچ مزاحمتی تنظیموں نے بھی علیحدہ علیحدہ خطوط میں فلسطین کی حمایت پر رہبر معظم انقلاب اسلامی کا شکریہ ادا کیا۔

 
گذشتہ چند دنوں سے غزہ کی پٹی میں شروع ہونے والی جنگ، 2014ء کے بعد اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم اور غزہ میں مقیم فلسطینی گروہوں کے درمیان شدید ترین فوجی جھڑپ قرار دی جا رہی ہے۔ اس جنگ میں رونما ہونے والے واقعات کا بغور جائزہ لینے سے چند ایسے نئے حقائق کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے جن کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ یہ نئے حقائق صرف غاصب صہیونی رژیم کے مقابلے میں اسلامی مزاحمتی گروہوں کی فوجی طاقت میں خاطرخواہ اضافے تک ہی محدود نہیں ہیں۔ اگرچہ یہ حقیقت اپنی جگہ پر بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے لیکن بعض ایسے نئے حقائق ابھر کر سامنے آئے ہیں جنہیں ماضی کی نسبت بے مثال قرار دیا جا سکتا ہے۔ مقبوضہ فلسطین پر اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کے 73 ویں سال ان نئے حقائق کا ظہور خاص اہمیت رکھتا ہے۔
 
1)۔ پہلی حقیقت امریکی کانگریس سے غاصب صہیونی رژیم کے خلاف مظلوم فلسطینی قوم کے حق میں اٹھنے والی آواز پر مشتمل ہے۔ امریکی حکومت کی جانب سے غاصب صہیونی رژیم کی غیر مشروط اور بھرپور حمایت کے خلاف خود امریکہ کے اندر سے صدائے احتجاج بلند ہونا خاص اہمیت رکھتا ہے۔ اگرچہ معروف تھیوریشن نوآم چامسکی یا ریاست ویرمانٹ کے سینیٹر برنی سینڈرز جیسی اہم شخصیات کی جانب سے اٹھنی والی یہ آواز نئی بات نہیں لیکن کیپیٹل ہل (امریکہ میں قانون سازی کی علامت) میں کانگریس کے ایک رکن کی جانب سے فلسطینیوں کے حقوق کیلئے اٹھنے والی آواز بے سابقہ ہے۔ رشیدہ طلیب اور ایلہان عمر ڈیموکریٹک پارٹی سے وابستہ کانگریس کی دو رکن خواتین ہیں جنہوں نے پہلی بار امریکی ایوان نمائندگان میں فلسطینی عوام کے حق میں آواز اٹھائی ہے اور غزہ پر اسرائیلی جارحیت کو "دہشت گردی" قرار دیا ہے۔
 
2)۔ دوسری حقیقت مقبوضہ فلسطین کے اندر مقیم فلسطینی مسلمان شہریوں کا قیام اور شدت پسند صہیونیوں کے خلاف ان کے صف آرا ہونے پر مبنی ہے۔ اس ٹکراو کی شدت کے باعث غاصب صہیونی رژیم تاریخ میں پہلی بار "اللاد" نامی شہر میں ایمرجنسی نافذ کرنے پر مجبور ہو گئی ہے۔ اس شہر کے میئر نے اعتراف کیا ہے کہ یہ شہر کنٹرول سے باہر ہو چکا ہے اور شہر کے گلی کوچے فلسطینی مسلمانوں اور یہودی آبادکاروں کے درمیان سول وار یا خانہ جنگی کی صورتحال کی تصویر پیش کر رہے ہیں۔ اس نے صہیونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو سے اس شہر میں فوج تعینات کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ غاصب صہیونی رژیم اب تک مقبوضہ فلسطین میں ان مسلمان شہریوں کی موجودگی کو یہودی آبادکاروں اور مقامی عرب باشندوں کے درمیان دوستانہ تعلقات کے پرچار کیلئے استعمال کرتی آئی ہے۔
 
اس میں خاص بات یہ ہے کہ ان مسلمان عرب باشندوں کا غاصب صہیونی رژیم اور مسلمان فلسطینی شہریوں میں ٹکراو کے آغاز میں کوئی کردار نہیں تھا لیکن جب اس ٹکراو کی شدت میں اضافہ ہوا تو یہ باشندے بھی ان کی حمایت میں گھروں سے باہر نکل آئے۔ مقبوضہ فلسطین کے مختلف شہروں جیسے اللاد، عکا اور حیفا میں مقامی باشندوں اور یہودی آبادکاروں کے درمیان جھڑپوں نے ثابت کر دیا ہے کہ ان شہروں کے مسلمان فلسطینی باشندے اب محض تماشائی نہیں رہے اور غاصب صہیونی رژیم کے خلاف کھل کر میدان میں اتر آئے ہیں۔ اس صورتحال سے مجبور ہو کر صہیونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کو اعلانیہ طور پر اس حقیقت کا اعتراف کرنا پڑا کہ "وہ دو محاذون پر لڑنے پر مجبور ہو چکا ہے۔" یہ غاصب صہیونی رژیم اور اسلامی مزاحمتی محاذ کے درمیان ٹکراو میں اہم اور تاریخی تبدیلی قرار دی جا رہی ہے جس کے دور رس نتائج برآمد ہوں گے۔
 
3)۔ حالیہ غزہ جنگ کے دوران رونما ہونے والی تیسری نئی حقیقت غاصب صہیونی رژیم کی ایک عدالت کی جانب سے مشرقی بیت المقدس میں واقع محلے "شیخ جراح" کے انخلاء کا حکم جاری کئے جانے پر مشتمل ہے۔ درحقیقت حالیہ ٹکراو اور جھڑپوں کی بنیادی وجہ ہی یہ عدالتی حکم اور اس کی بنیاد پر صہیونی فورسز کی جانب سے شیخ جراح محلے پر دھاوا بول دینا قرار پایا ہے۔ صہیونی فورسز نے اس محلے سے مسلمان فلسطینی شہریوں کو نکال باہر کرنے کیلئے گرینڈ آپریشن کا آغاز کیا جس کے خلاف مقامی افراد اٹھ کھڑے ہوئے اور مزاحمت کا مظاہرہ کرنے لگے۔ جب اس ٹکراو میں اچھی خاصی شدت پیدا ہوئی تو غزہ میں موجود اسلامی مزاحمتی گروہوں نے بھی مقامی فلسطینیوں کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے غاصب صہیونی رژیم کو یہ آپریشن روک دینے کا الٹی میٹم دے دیا۔
 
مقامی فلسطینی شہریوں کو جبری طور پر اپنے آبائی گھر چھوڑ کر جلاوطنی پر مجبور کرنا گذشتہ 73 برس سے غاصب صہیونی رژیم کا معمول بن چکا ہے۔ اگرچہ صہیونی رژیم کا یہ اقدام ہمیشہ مسلمان فلسطینی شہریوں کی جانب سے مزاحمت سے روبرو رہا ہے لیکن حالیہ مزاحمت اس قدر بے مثال اور شدید ہے کہ غاصب صہیونی رژیم اس کے سامنے پسپائی اختیار کرنے پر مجبور ہو گئی ہے۔ صہیونی رژیم کے اٹارنی جنرل نے انٹیلی جنس اور فوجی اداروں کی خفیہ رپورٹ کی بنیاد پر عدالت سے اس حکم کو ملتوی کر دینے کی درخواست کی ہے۔ اگرچہ اس حکم کو صرف ملتوی کیا گیا ہے لیکن صہیونی رژیم کی اس حد تک پسپائی بھی فلسطین کی تاریخ میں بے مثال ہے۔ یہ اسلامی مزاحمت کی بہت بڑی فتح ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ غاصب صہیونی رژیم صرف مزاحمت اور مسلح جدوجہد کی زبان سمجھتی ہے۔

تحریر: محمود حکیمی