سلیمانی
ماہ مبارک رمضان، ماہ طہارت و بندگی
یہ وہ مہینہ ہے جس میں تم کو خداوند نے اپنی مہمانی کی طرف دعوت دی ہے اور تمہیں صاحب کرامت قرار دیا ہے ۔ اس مہینہ میں تمھاری ہر سانس تسبیح کا ثواب رکھتی ہے۔ تمہارا سونا عبادت ہے۔ تمہارے اعمال اس مہینہ میں قبول ہوتے ہیں۔ تمہاری دعائیں مستجاب ہوتی ہیں۔ پس تم صدق دل سے صاف اور خالص نیت کے ساتھ گناہوں سے دوری اختیار کرتے ہوئے خدا سے دعا کرو کہ وہ اس مہینے میں روزہ رکھنے اور تلاوت قرآن پاک کرنے کی تم کو توفیق عنایت فرمائے۔
وہ شخص بدبخت اور شقی ہے جو اس عظیم مہینہ میں اللہ کی بخشش سے محروم رہے۔ اس مہینہ کی بھوک اور پیاس سے قیامت کی بھوک اور پیاس کو یاد کرو ۔ اپنے عزیز فقراء و محتاجوں کو صدقہ دو ، اپنے بزرگوں کا احترام کرو، اپنے بچوں سے نوازش و مہربانی کے ساتھ پیش آؤ، اپنے خاندان والوں کے ساتھ صلہ رحم کرو ، اپنی زبانوں کو محفوظ رکھو ( برے الفاظ غیبت وغیرہ سے ) اپنی نگاہوں کو محفوظ رکھو ان چیزوں سے جن کا دیکھنا تمہارے لیے حلال نہیں ہے۔ یتیموں کے ساتھ مہربانی کرو تا کہ تمہارے بعد لوگ تمہارے یتیم پر رحم کریں۔ اپنے گناہوں سے توبہ کرو اور نمازوں کے وقت خداوند عالم کی بارگاہ میں دعا کے لیے اپنے ہاتھوں کو بلند کرو کیوں کہ یہ دعا کی قبولیت کا بہترین وقت ہے۔ خداوند عالم نماز کے وقت اپنے بندوں کی طرف رحمت کی نگاہ کرتا ہے اور مناجات کرنے والوں کا جواب دیتا۔ اے لوگو! تمہاری زندگی میں گرہیں پڑی ہوئی ہیں تم اللہ سے طلب مغفرت کر کے اپنی زندگی کی گرہیں کھولنے کی کوشش کرو۔ تمہاری پشت گناہوں کی سنگینی کی وجہ سے خمیدہ ہو چکی ہیں لہٰذا طولانی سجدے کے ذریعہ اپنی پشت کے وزن کو ہلکا کرو۔ خداوند عالم اپنی عزت و جلال کی قسم کھا کر کہتا ہے کہ میں اس مہینہ میں نماز گزاروں اور سجدہ کرنے والوں پر عذاب نہیں کروں گا اور قیامت میں انہیں جہنم کی آگ سے نہیں ڈراؤں گا۔
اے لوگو! اگر کوئی شخص اس مہینہ میں کسی مؤمن روزہ دار کو افطار کرائے تو اس کا ثواب ایک غلام آزاد کرنے کے برابر ہے اور اس کے پچھلے تمام گناہ معاف ہو جائیں گے۔ کسی صحابی نے سوال کیا: یا رسول اللہ (ص) ہم اس پر قدرت نہیں رکھتے کہ مؤمنین کو افطار کرائیں، تو آنحضرت (ص) نے فرمایا: تم آدھی کھجور یا ایک گھونٹ پانی ہی افطار میں دے کر اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے محفوظ کر سکتے ہو کیوں کہ خداوند عالم اس کو وہی ثواب عنایت فرمائے گا جو افطار دینے پر قدرت رکھنے والوں کو دیتا ہے۔ جو شخص اس مہینے میں اپنے اخلاق کو درست کر لے اسے خداوند عالم قیامت کے دن پل صراط سے آسانی کے ساتھ گزار دے گا۔ حالانکہ لوگوں کے قدم اس وقت وہاں ڈگمگا رہے ہوں گے۔ اگر کوئی اس مہینہ میں اپنے غلام یا کنیز سے کم کام لے قیامت میں خداوند عالم اس کے حساب و کتاب میں آسانی فرمائے گا۔ جو شخص اس مہینہ میں کسی یتیم کو مہربانی و عزت کی نگاہ سے دیکھے قیامت میں خداوند عالم بھی اس کو مہربانی کی نگاہ سے دیکھے گا۔ جو شخص اس مہینہ میں اپنے اعزہ و اقرباء کے ساتھ احسان اور صلہ رحم کرے خداوند عالم قیامت میں اپنی رحمت سے اسے نوازے گا۔ اور جو شخص اس مہینہ میں اپنے اعزہ و اقرباء سے قطع رحم کرے گا خداوند عالم قیامت کے دن اس کو اپنی رحمت سے محروم کر دے گا۔
رمضان المبارک کا مہینہ خداوند عالم کا مہینہ ہے، یہ مہینہ تمام مہینوں سے افضل ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں خداوند عالم آسمانوں، جنت اور اپنی رحمت کے دروازے کھول دیتا ہے اور جہنم کا دروازہ بند کر دیتا ہے ۔ اس مہینہ کی ایک شب (شب قدر) ایسی ہے جس میں عبادت کرنا ہزار مہینوں کی عبادت سے افضل ہے ۔
پس صاحبان ایمان کو اس بات کی فکر کرنا چاہیے کہ اس مہینہ کے دن و رات کس طرح سے گزاریں اور اپنے اعضاء و جوارح کو خداوند عالم کی نافرمانی سے کس طرح محفوظ رکھیں، کیوں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :
جب تم روزہ رکھو تو اس کے ساتھ تمہارے بدن کے تمام اعضاء بھی روزہ رکھیں ، عام دنوں کے مانند نہ ہو جن میں تم بغیر روزہ کے رہتے ہو ۔ امام علیہ السلام فرماتے ہیں :
روزہ فقط کھانے پینے سے بچنے کا نام نہیں بلکہ روزہ کی حالت میں اپنی زبانوں کو بھی (جھوٹ ،گالی ،غیبت ،چغل خوری ،تہمت وغیرہ سے) محفوط رکھو۔ آنکھوں کو حرام چیزوں کی طرف نگاہ کرنے سے محفوظ رکھو ،لڑائی جھگڑا نہ کرو ،برے لوگوں سے بچو،اپنے آپ کو اللہ کی مرضی کے مطابق رکھو آخرت کی طرف بڑہو اور ہر وقت خوف خدا کو مد نظر رکھو اور اللہ کے عذاب سے ڈرو اور قائم آل محمد (ص) کے ظہور کی تعجیل کے لیے ہر وقت دعائیں مانگو۔
امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :
غیبت کے زمانہ میں ظہور امام عصر (ع) کا انتظار واجب ہے۔
روزے کے کئی لحاظ سے مختلف مادی، روحانی، طبی اور معاشرتی آثار ہیں، جو اس کے ذریعے سے وجود انسانی میں پیدا ہوتے ہیں، روزہ رکھنا اگرچہ ظاہراً سختی و پابندی ہے لیکن انجام کار انسان کے لیے راحت و آسائش اور آرام و سلامتی کا باعث ہے، یہ بات طے ہے کہ اللہ تعالٰی ہمارے لیے راحت و آسانی چاہتا ہے نہ کہ تکلیف و تنگی، روزہ بھی دوسری عبادات کی طرح خداوند کے جاہ و جلال میں کوئی اضافہ نہیں کرتا بلکہ اس کے تمام تر فوائد خود انسانوں کے لیے ہیں۔
ذٰلکم خیر لکم ان کنتم تعلمون۔
روزے کے نتیجے میں جو اثرات روزہ دار پر مرتب ہوتے ہیں، ان میں سے اہم ترین اخلاقی و تربیتی پہلو ہے، روزے روح انسانی کو لطیف تر، ارادے کو قوی تر اور مزاج انسانی کو معتدل تر بنا دیتے ہیں، روزہ دار حالت روزہ میں آب و غذا کی دستیابی کے باوجود اس کے قریب نہیں جاتا، اسی طرح وہ تمام جنسی لذات سے دوری و اجتناب اختیار کر لیتا ہے اور عملی طور یہ ثابت کر دیتا ہے کہ وہ جانوروں کی طرح کسی چراگاہ اور گھاس پھوس کی قید میں نہیں ہے، سرکش نفس کی لگام اس کے قبضے اور اختیار میں ہے، ہوس و شہوت و خواہشات نفسانی اس کے کنٹرول میں ہیں نہ کہ اس کے برعکس۔
حقیقت میں روزے کا سب سے بڑا فلسفہ یہی روحانی و معنوی اثر ہے، وہ انسان کہ جس کے قبضے میں طرح طرح کی غذائیں اور مشروبات ہوتے ہیں، جب اسے بھوک و پیاس محسوس ہوتی ہے تو فوراً ان کے پیچھے دوڑ نکلتا ہے، لیکن یہی روزہ وقتی پابندی کے ذریعے انسان میں قوت مدافعت اور قوت ارادی پیدا کرتا ہے اور اس انسان کو سخت سے سخت حوادث کے مقابلے کی طاقت بخشتا ہے، غرض کہ روزہ انسان کو حیوانیت سے بلند کر کے فرشتوں کی صف میں کھڑا کرتا ہے۔
حضرت امام علی (ع) سے نقل ہوا ہے کہ: رسول خدا (ص) سے پوچھا گیا کہ ہم کون سا کام کریں کہ جس کی وجہ سے شیطان ہم سے دور رہے، آپ (ص) نے فرمایا:
الصوم یسود وجھہ، روزہ شیطان کا منہ کالا کر دیتا ہے۔
ایک اور حدیث میں ہے کہ:
الصوم جنۃ من النار، روزہ جہنم کی آگ سے بچانے کے لئے ڈھال ہے۔
امام علی (ع) روزے کے بارے میں فرماتے ہیں کہ:
اللہ تعالٰی نے روزے کو شریعت میں اس لیے شامل کیا ہے تا کہ لوگوں میں روح اخلاص کی پرورش ہو۔
پیغمبر اکرم (ص) نے ایک اور مقام پر فرمایا ہے کہ:
بہشت کا ایک دروازہ ہے، جس کا نام ریان (سیراب کرنے والا) ہے، اس میں سے صرف روزہ دار داخل جنت ہونگے۔
روایت میں ہے کہ:
روزے دار کو چونکہ زیادہ تکلیف پیاس کی وجہ سے ہوتی ہے، جب روزہ دار اس دروازے سے داخل ہو گا تو وہ ایسا سیراب ہو گا کہ اسے پھر کبھی بھی پیاس و تشنگی کا احساس نہ ہو گا۔
حمزہ بن محمد نے امام حسن عسکری (ع) کو خط لکھا اور پوچھا کہ:
اللہ تعالی نے روزے کو کیوں فرض کیا ہے؟ تو آپ (ع) نے جواب میں فرمایا: تا کہ غنی اور دولتمند شخص کو بھی بھوک کی تکلیف کا علم ہو جائے اور وہ فقیروں پر ترس کھائے۔
من لا یحضر الفقیہ جلد 2 ص 55
ایک اور مشہور حدیث میں امام صادق (ع) سے منقول ہے کہ:
ہشام بن حکم نے روزے کی علت اور سبب کے بارے میں پوچھا تو آپ (ع) نے فرمایا: روزہ اس لیے واجب ہوا ہے کہ فقیر اور غنی کے درمیان مساوات قائم ہو جائے اور یہ اس وجہ سے ہے کہ غنی و مالدار بھی بھوک کا مزہ چکھ لے اور فقیر کا حق ادا کرے، کیونکہ مالدار عموماً جو کچھ چاہتے ہیں ان کے لیے فراہم ہوتا ہے، خدا چاہتا ہے کہ اس کے بندوں کے درمیان مساوات قائم ہو اور دولتمند کو بھی بھوک، اور رنج کا ذائقہ چکھائے، تا کہ وہ کمزور اور بھوکے افراد پر رحم کریں۔ غرض کہ روزے کی انجام دہی سے صاحب ثروت لوگ بھوکوں و معاشرے کے محروم افراد کی کیفیت کا احساس کر سکتے ہیں اور اپنے شب و روز کی غذا میں بچت کر کے ان کی مدد کر سکتے ہیں۔
روزے تمام خوبیوں کے ساتھ ساتھ انسان کی زندگی پر طبی لحاظ سے بہترین اثرات مرتب کرتے ہیں، طب کی جدید تحقیقات کی روشنی میں روزہ بہت سی بیماریوں کے علاج کے لیے معجزانہ اثر رکھتا ہے، روزے سے انسانی معدے کو ایک نمایاں آرام ملتا ہے اور اس فعال ترین مشینری (معدے) کو آرام کی بہت ضرورت ہوتی ہے، یہ بھی واضح ہے کہ حکم اسلامی کی رو سے روزہ دار کو اجازت نہیں ہے کہ وہ سحری و افطاری کے کھانے میں افراط و اضافہ سے کام لے، تا کہ روزہ سے مکمل طبی نتیجہ حاصل کیا جا سکے، روزے کے بارے میں رسول اکرم (ص) نے فرمایا ہے کہ:
روزہ رکھو تا کہ صحت مند رہو۔
ایک اور حدیث آپ سے مروی ہے کہ:
معدہ ہر بیماری کا گھر ہے اور امساک و فاقہ اعلٰی ترین دوا ہے۔
بحار الانوار ج 14 ص34
ماہ مبارک رمضان آسمانی کتب کے نزول اور تعلیم و تدریس کا مہینہ ہے، اس ماہ اللہ کی یاد میں قلوب نیکی کی جانب مائل ہوتے ہیں، اس لیے روح انسانی کی تربیت آسانی سے ہو جاتی ہے، سانسیں تسبیح کی مانند ہوتی ہیں اور سونا عبادت ہوتا ہے، اعمال و دعائیں قبول ہوتی ہیں، پیغمبر اسلام (ص) نے ماہ مبارک رمضان کی فضائل و برکات کے حوالے سے اپنے خطبہ میں کہا ہے کہ:
اے لوگو! یہ مہینہ تمام مہینوں سے بہتر ہے، اس کے دن دوسرے ایام سے بہتر، یہ ایسا مہینہ ہے جس میں تمہیں خدا نے مہمان بننے کی دعوت دی ہے اور تمہیں ان لوگوں میں سے قرار دیا گیا ہے جو خدا کے اکرام و احترام کے زیر نظر ہیں، اس میں تمہاری سانسیں تسبیح کی مانند ہیں، تمہاری نیند عبادت ہے اور تمہارے اعمال و دعائیں مستجاب ہیں۔
لہذا خالص نیتوں اور پاک دلوں کے ساتھ خدا سے دعائیں مانگو، تا کہ وہ تمہیں روزہ رکھنے اور تلاوت قرآن کرنے کی توفیق عطا فرمائے، کیونکہ بدبخت ہے وہ شخص جو اس مہینے خدا کی بخشش سے محروم رہ جائے، اپنے فقراء و مساکین پر احسان کرو، اپنے بڑے بوڑھوں کا احترام کرو، اور چھوٹوں پر مہربان ہو جاو، رشتہ داروں کے روابط کو جوڑ دو، اپنی زبانیں گناہوں سے پاک رکھو، اپنی آنکھیں ان چیزوں کو دیکھنے سے باز رکھو، جن کا دیکھنا حلال نہیں، اپنے کانوں کو ان چیزوں کے سننے سے روکو جن کا سننا حرام ہے اور لوگوں کے یتیموں سے شفقت و مہربانی سے پیش آؤ، تا کہ وہ بھی تمہارے یتیموں سے یہی سلوک کریں۔
وسائل الشیعہ ج 8 باب احکام شہر رمضان
افغانستان سے بغیر جیتے امریکہ کی پسپائی
افغانستان کی سیاسی صورتحال اس وقت مزید پیچیدگی اختیار کر لیتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ ابھی تک ملک میں طالبان کا کردار اور مستقبل کے ممکنہ سیاسی اسٹرکچر میں اس کی حیثیت واضح نہیں ہو پائی ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے افغانستان سے مکمل فوجی انخلاء کے فیصلے کا اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ یہ فیصلہ فروری 2020ء میں سابقہ امریکی حکومت اور طالبان کے درمیان قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طے شدہ معاہدے کی روشنی میں انجام پایا ہے۔ اس معاہدے پر سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے افغانستان کیلئے خصوصی ایلچی زلمائے خلیل زاد نے طالبان کے اعلی سطحی وفد سے مذاکرات کی متعدد نشستیں منعقد ہونے کے بعد دستخط کئے تھے۔ موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن نے بھی زلمائے خلیل زاد کی مدت ملازمت میں توسیع کر دی ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے زلمائے خلیل زاد کو افغانستان کیلئے امریکہ کے خصوصی ایلچی کے طور پر برقرار رکھے جانے سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ سابق امریکی حکومت کی افغان پالیسی کو ہی مزید آگے بڑھانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ دوسری طرف جو بائیڈن نے برسراقتدار آنے کے بعد بعض ایسے بیانات دیے تھے جن کے باعث ان کی افغان پالیسی مبہم ہو گئی تھی اور یوں محسوس ہوتا تھا کہ گویا وہ افغانستان سے مکمل فوجی انخلاء کا ارادہ نہیں رکھتے۔ حتی انہوں نے 11 فروری کے دن پینٹاگون کے پہلے دورے میں یہ بھی کہا تھا کہ افغانستان سے امریکہ کا فوجی انخلاء مئی میں طے پانے والے دوحہ معاہدے کے تحت انجام نہیں پائے گا۔
لہذا گذشتہ ہفتے بدھ کے روز افغانستان سے مکمل طور پر فوجی انخلاء کا اعلان درحقیقت جو بائیڈن کی اپنے ابتدائی موقف سے واضح پسپائی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس نتیجے تک پہنچ چکے ہیں کہ دوحہ معاہدے کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں۔ اس پسماندگی کی وجہ واشنگٹن پوسٹ نے امریکہ کے ایک اعلی سطحی حکومتی عہدیدار کی زبانی بیان کی ہے۔ اس امریکی عہدیدار کے مطابق اگر امریکہ کی موجودہ حکومت افغانستان سے فوجی انخلاء کے بارے میں سابقہ حکومت کی جانب سے طالبان کے ساتھ طے شدہ معاہدے کی خلاف ورزی کرتی ہے تو اس کا لازمی نتیجہ طالبان سے جنگ کے دوبارہ آغاز کی صورت میں ظاہر ہو گا اور یہ وہ تلخ نتیجہ ہے جسے موجودہ امریکی صدر بالکل پسند نہیں کرتے۔
دراصل طالبان نے ترکی کے شہر استنبول میں منعقد ہونے والی افغانستان امن کانفرنس میں اپنی شرکت کے بارے میں تردید ظاہر کر کے جو بائیڈن کو واضح پیغام دے دیا تھا۔ دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان محمد نعیم وردک نے گذشتہ ہفتے اعلان کیا تھا کہ طالبان جمعہ 15 اپریل کے روز منعقد ہونے والی نشست میں شرکت کا ارادہ نہیں رکھتا۔ اسی طرح طالبان کے سابقہ کمانڈر سید اکبر آغا نے طالبان کی جانب سے استنبول کانفرنس میں عدم شرکت کی وجہ افغانستان سے امریکہ کا فوجی انخلاء انجام نہ پانا بیان کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا: "جب تک افغانستان سے امریکہ کے فوجی انخلاء کا مسئلہ واضح نہیں ہو جاتا کام آگے نہیں بڑھے گا۔ یہ طالبان کا موقف ہے۔ لہذا میری نظر میں جب تک یہ بات واضح نہیں ہو جاتی ترکی میں کوئی نشست بھی منعقد نہیں ہو گی۔"
یوں طالبان نے بائیڈن حکومت کو یہ پیغام بھی پہنچا دیا کہ جب تک دوحہ معاہدے کی مکمل پاسداری نہیں کی جاتی اور خاص طور پر امریکہ کا مکمل فوجی انخلاء انجام نہیں پاتا، طالبان نہ صرف استنبول کی نشست یا کسی اور امن مذاکرات میں حاضر نہیں ہوں گے بلکہ امریکہ کی فوجی تنصیبات پر حملوں کا نیا سلسلہ شروع کر دیں گے۔ یہ جو بائیڈن حکومت کی مطلوبہ صورتحال نہیں ہے۔ خاص طور پر اس وقت جب روس سے اس کے تعلقات شدید تناو کا شکار ہو چکے ہیں اور چین کا مسئلہ بھی امریکہ کیلئے پہلے کی نسبت بہت زیادہ پیچیدہ ہو چکا ہے۔ لہذا اس وقت امریکہ کی ترجیحات افغانستان سے باہر حتی مشرق وسطی سے باہر ہیں اور کسی صورت میں وہ افغانستان میں دوبارہ جنگ میں الجھنا نہیں چاہتا۔ اسی وجہ سے جو بائیڈن دوحہ معاہدہ قبول کرنے اور اس پر عمل پیرا ہونے پر مجبور ہو چکے ہیں۔
توبہ نصوح
کوئی بھی ماں نے اپنے بیٹے کو گناھگار پیدا نھیں کرتی، رحم مادر سے کوئی بچہ بھی عاصی او رخطاکار پیدا نھیںھوتا۔جب بچہ اس دنیا میں قدم رکھتا ھے تو علم و دانش اورفکر و نظر سے خالی ھوتا ھے، اور اپنے اطراف میں ھونے والے واقعات سے بالکل بے خبر رھتا ھے۔جس وقت بچہ اس دنیاکی فضا میں آتا ھے تو رونے اور ماں کا دودھ پینے کے علاوہ اور کچھ نھیں جانتا، بلکہ شروع شروع میں اس سے بھی غافل ھوتا ھے۔ لیکن آہستہ آہستہ اس میںاحساسات، خواہشیں اور شھوات پیدا ھونے لگتی ھیں، اپنے کارواں زندگی کو آگے بڑھانے کے لئے اپنے گھروالوںاور پھر باھر والوں سے سیکھتا جاتا ھے۔اسی طرح اس کی زندگی کے دوران اس کے بدن میں مختلف بیماریاں پیدا ھونے لگتی ھیں، اس کی فکر و روح، نفس اور قلب میں خطائیں ھوجاتی ھیں، اسی طرح عمل و اخلاق کے میدان میں گناھوںکا مرتکب ھونے لگتا ھے، پس معلوم یہ ھوا کہ گناہ بدن پر طاری ھونے والی ایک بیماری کی طرح عارضی چیز ھے، ذاتی نھیں ۔
انسان کے بدن کی بیماری طبیب کے تجویز کئے ھوئے نسخہ پر عمل کرنے سے ختم ھوجاتی ھے، بالکل اسی طرح اس کی باطنی بیماری یعنی فکر و روح اور نفس کی بیماری کا علاج بھی خداوندمھربان کے احکام پر عمل کرنے سے کیا جاسکتا ھے۔گناھگار جب خود کو پہچان لیتا ھے اور اپنے خالق کے بیان کردہ حلال و حرام کی معرفت حاصل کرلیتا ھے یقینااس روحانی طبیب کے نسخہ پر عمل کرتے ھوئے گناھوں سے توبہ کرنے پر آمادہ ھوجاتا ھے، اور خداوندمھربان کی ذات سے امید رکھتا ھے کہ وہ اس کو گناھوں کے دلدل سے باھرنکال دے گا اور پھر وہ اس طرح پاک ھوجاتا ھے جیسے شکم مادر سے ابھی پیدا ھواھو۔گناھگار یہ نھیں کہہ سکتا کہ میں توبہ کرنے کی طاقت نھیں رکھتا، کیونکہ جو شخص گناہ کرنے کی طاقت رکھتا ھے بے شک وہ توبہ کرنے کی طاقت بھی رکھتا ھے۔
جی ھاں، انسان کھانے پینے، آنے جانے، کہنے سننے، شادی کرنے، کاروبار میں مشغول ھونے، ورزش کرنے، زندگی گذارنے اور زورآزمائی کے مظاھرے پر قدرت رکھتا ھے، وہ اپنی خاص بیماری کی وجہ سے ڈاکٹر کے کہنے پر بعض چیزوں سے پرھیز بھی کرسگتا ھے اور بیماری کے بڑھنے کے خوف سے جس طرح کچھ چیزیں نھیں کھاتا، اسی طرح جن گناھوں میں ملوث ھے ان سے بھی تو پرھیز کرسکتا ھے، اور جن نافرمانیوں میں مبتلا ھے اس سے بھی تو رک سکتا ھے۔
خداوندعالم کی بارگاہ میں توبہ کی قدرت نہ رکھنے کا عذر و بھانہ کرنا قابل قبول نھیں ھے، اگر گناھگار توبہ کی قدرت نہ رکھتا ھوتا تو خداوندعالم کبھی بھی توبہ کی دعوت نہ دیتا۔
گناھگار کو اس حقیقت پر یقین رکھنا چاہئے کہ وہ ھر موقع و محل پر تركِ گناہ پر قادرھے، اور قرآنی نقطہ نظر سے خداوندعالم کی ذات گرامی بھی تواب و رحیم ھے، وہ انسان کی توبہ قبول کرلیتا ھے، اور انسان کے تمام گناھوں کو اپنی رحمت و مغفرت کی بنا پر بخش دیتا ھے اگرچہ تمام ریگزاروں کے برابر ھی کیوں نہ ھوں، اور اس کے سیاہ نامہ اعمال کو اپنی مغفرت کی سفیدی سے مٹادیتا ھے۔
گناھگار کو اس چیزکا علم ھونا چاہئے کہ اگر تركِ گناہ اور اپنے ظاھر و باطن کی پاکیزگی کے لئے قدم نہ اٹھائے اور گناہ و معصیت میں اضافہ کرتا رھے، تو پھر خداوندعالم بھی اس کو دردناک عذاب میں گرفتار کردیتا ھے اور سخت سے سخت عقوبت اس کے لئے مقرر فرماتاھے۔
خداوندعالم نے قرآن مجید میں خود کو اس طرح سے پہچنوایا ھے:
((غَافِرِ الذَّنْبِ وَقَابِلِ التَّوْبِ شَدِیدِ الْعِقَاب))۔ 1
"وہ گناھوں کا بخشنے والا، توبہ کا قبول کرنے والا اور شدید عذاب کرنے والا ھے "۔
امام معصوم علیہ السلام دعائے افتتاح میں خداوندعالم کی اس طرح حمد و ثنا فرماتے ھیں:
"وَاَیْقَنْتُ اَنَّكَ اَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ فِی مَوْضِعِ الْعَفْوِوَالرَّحْمَةِ، وَاَشَدُّ المُعَاقِبِینَ فِی مَوْضِعِ النَّکالِ وَالنَّقِمَةِ"۔
"مجھے اس بات پر یقین ھے کہ تو رحمت و بخشش کے مقام میں سب سے زیادہ مھربان ھے، اور عذاب و عقاب کے مقام میں شدید ترین عذاب کرنے والاھے"۔
اسی طرح خداوندعالم نے قرآن مجید میں گناھگاروں سے خطاب فرمایا ھے:
((قُلْ یَاعِبَادِی الَّذِینَ اٴَسْرَفُوا عَلَی اٴَنْفُسِهم لاَتَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللهِ إِنَّ اللهَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیعًا إِنَّه هوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ))۔ 2
"(اے )پیغمبر آپ پیغام پہنچا دیجئے کہ اے میرے بندو! جنھوں نے اپنے نفس پر زیادتی کی ھے رحمت خدا سے مایوس نہ ھوں، اللہ تمام گناھوں کا
معاف کرنے والا ھے اور وہ یقینا بھت زیادہ بخشنے والا اور مھربان ھے"۔
لہٰذا ایک طرف خداوندعالم کا تواب و غفور ھونا اور دوسری طرف سے گناھگار انسان کا گناھوں کے ترک کرنے پر قادر ھونا اس کے علاوہ قرآن مجید کی آیات کا گناھگار انسان کو خدا کی رحمت و مغفرت کی بشارت دیناان تمام باتوں کے باوجود ایک گناھگار کو اپنے گناھوں کے ترک کرنے میں کوئی عذر و بھانہ باقی نھیں رہنا چاہئے، اسی لئے گناھگار کے لئے توبہ کرنا عقلی اور اخلاقی لحاظ سے "واجب فوری"ھے۔
اگر گناھگار توبہ کے لئے قدم نہ بڑھائے، اپنے گزشتہ کا جبران وتلافی نہ کرے اور اپنے ظاھر و باطن کو گناہ سے پاک نہ کرے، تو عقل و شرع، وجدان اور حکمت کی نظر میں اس دنیا میں بھی محکوم و مذموم ھے، اور آخرت میں بھی خداوندعالم کے نزدیک مستحق عذاب ھے۔ ایسا شخص روز قیامت حسرت و یاس اور ندامت و پشیمانی کے ساتھ فریاد کرے گا:
(( ۔ ۔ ۔ لَوْ اٴَنَّ لِی كَرَّةً فَاٴَكُونَ مِنْ الْمُحْسِنِینَ))۔ 3
"اگر مجھے دوبارہ واپس جانے کا موقع مل جائے تو میں نیک کردار لوگوں میں سے ھو جاوٴں "۔
اس وقت خداوندعالم جواب دے گا:
((بَلَی قَدْ جَائَتْكَ آیَاتِی فَكَذَّبْتَ بِها وَاسْتَكْبَرْتَ وَكُنْتَ مِنْ الْكَافِرِینَ))۔ 3
"ھاں ھاں تیرے پاس میری آیت یں آئی تھیں تو نے انھیں جھٹلا دیا اور تکبر سے کام لیا اور کافروں میں سے ھو گیا"۔
روز قیامت گناھگار شخص کی نجات کے لئے دین و عمل کے بدلے میں کوئی چیز قبول نہ ھوگی، اور اس کی پیشانی پر سزا کی مھر لگادی جائے گی:
((وَلَوْ اٴَنَّ لِلَّذِینَ ظَلَمُوا مَا فِی الْاٴَرْضِ جَمِیعًا وَمِثْلَه مَعَه لاَفْتَدَوْا بِه مِنْ سُوءِ الْعَذَابِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَبَدَا لَهم مِنْ اللهِ مَا لَمْ یَكُونُوا یَحْتَسِبُونَ))4
"اور اگر ظلم کرنے والوں کو زمین کی تمام کائنات مل جائے اور اتنا ھی اور بھی دیدیا جائے تو بھی یہ روز قیامت کے بدترین عذاب کے بدلے میں سب دیدیں گے، لیکن ان کے لئے خدا کی طرف سے وہ سب بھر حال ظاھر ھوگا جس کا یہ وھم و گمان بھی نھیں رکھتے تھے"۔
حضرت امیر المومنین علیہ السلام دعائے کمیل میں فرماتے ھیں :
خدا کی بارگاہ میں گناھگار کے توبہ نہ کرنے میں کوئی عذر قبول نھیں کیا جائے گا، کیونکہ خدا نے گناھگار پر اپنی حجت تمام کردی ھے:
" فَلَكَ الحُجةُ عَلَيَّ فی جَمیعِ ذٰلِكَ، وَلاٰحُجَّةَ لِی فِی مٰاجَریٰ عَلَيَّ فیه قَضٰاوُٴكَ"۔
"تمام معاملات میں میرے اوپر تیری حجت تمام ھوگئی ھے اور اسے پورا کرنے میں تیری حجت باقی نھیں رھی "۔
بندوں پر خدا کی حجت کے سلسلے میں ایک اھم روایت
"عبد الاعلیٰ مولیٰ آل سام کھتے ھیں : میں نے حضرت امام صادق علیہ السلام سے سنا کہ آپ نے فرمایا: روز قیامت ایک حسین و جمیل عورت کو لایا جائے گا جس نے دنیا میں اپنے حسن و جمال کی وجہ سے گناہ ومعصیت کو اپنا شعار بنایا تھا، وہ اپنی بے گناھی ثابت کرنے کے لئے کھے گی: پالنے والے! تو نے مجھے خوبصورت پیدا کیا، لہٰذا میں اپنے حسن و جمال کی بنا پر گناھوں کی مرتکب ھوگئی، اس وقت جناب مریم (سلام اللہ علیھا) کو لایا جائے گا، اور کھا جائے گا: تو زیادہ خوبصورت ھے یا یہ باعظمت خاتون؟ ھم نے اس کو بھت زیادہ خوبصورت خلق فرمایا، لیکن پھر بھی انھوں نے اپنے کو محفوظ رکھا، برائیوں سے دور رھیں۔
اس کے بعد ایک خوبصورت مرد کو لایا جائے گاوہ بھی اپنی خوبصورتی کی بنا پر گناھوں میں غرق رھا، وہ بھی کھے گا: پالنے والے ! تو نے مجھے خوبصورت پیدا کیا، جس کی بنا پر میں نامحرم عورتوں کے ساتھ گناھوں میں ملوث رھا۔ اس وقت جناب یوسف (علیہ السلام) کو لایا جائے گا، اور کھا جائے گا: تو زیادہ خوبصورت ھے یا یہ عظیم الشان انسان، ھم نے انھیں بھی بھت خوبصورت پیدا کیا لیکن انھوں نے بھی اپنے آپ کو گناھوں سے محفوظ رکھااور فتنہ و فساد میں غرق نہ ھوئے۔
اس کے بعد ایک ایسے شخص کو لایا جائے گا، جو بلاء اور مصیبتوں میںگرفتار رہ چکا تھا اور اسی وجہ سے اس نے اپنے کو گناھوں میں غرق کرلیا تھا، وہ بھی عرض کرے گا: پالنے والے! چونکہ تونے مجھے مصیبتوں اور بلاؤں میں گرفتار کردیا تھا جس سے میرا حوصلہ اور استقامت جاتی رھی اور میں گناھوں میں غرق ھوگیا، اس وقت جناب ایوب (علیہ السلام) کو لایا جائے گااور کھا جائے گا: تمھاری مصیبتیں زیادہ ھیں یا اس عظیم انسان کی، یہ بھی مصیبتوں میں گھرے رھے، لیکن انھوں اپنے آپ کو محفوظ رکھا اور فتنہ وفساد کے گڑھے میں نہ گرے" 5
مؤلف: حسین انصاریان ذرائع: کتاب(توبہ آغوش رحمت )
1. (ورہٴ موٴمن (غافر)آيت 3۔
2. سورہٴ زمر آيت 53۔
3. سورہٴ زمر آيت، 58۔
4. سورہٴ زمر آيت، 59۔
5. سورہٴ زمر آيت، 47۔
اللہ کی معرفت کا سبق
ولایت پورٹل: ہمارے سامنے یہ سوالات پیدا ہوتے ہیں: کیا آنکھ کو اپنی اہمیت اور باریکی کی خبر تھی؟ جو اس نے آنکھ کے گڑھے کو امن و امان کی جگہ سمجھ کر اپنے لئے منتخب کیا ہے؟ یا وہ اتفاقیہ طور پراس پرامن جگہ پر آگئی ہے؟ یا کسی دوسرے نے اس کے لئے ایسی پر امن جگہ بنائی ہے؟
کیا خود آنکھ، پسینہ کو اپنے اندر آنے سے روکتی ہے؟ اپنے اوپر ا ٓبرو (Eye brow) ناتی ہے؟ یا یہ کہ ابرووں کو اس کی ضرورت کی خبر تھی اس لئے وہ خود اس کی مددکے لئے آگئی ہیں؟ یا کسی دوسرے شخص نے ابرووں کو آنکھ کے اوپر بنادیا ہے؟
کیا پلکیں اتفاقیہ طور سے آنکھوں کی حفاظت اور انہیں نرم رکھنے اور دھونے کے لئے یونہی بن گئی ہیں؟ کیا پلکوں کو آنکھوں کی صحت کی ضرورت تھی کہ جو وہ آنکھ کے ڈھیلے پر چربی ملتی رہتی ہیں اور اپنی تیز حرکت سے آنکھ کو دھوتی رہتی ہیں، یا یہ کہ کسی خالق علیم و قدیر نے انہیں اس انداز سے ڈھالا ہے؟
کیا آنسووں کا غدہ (Lacrimalglands)آنکھ کے کونے میں اچانک پیدا ہوگیا؟ اس جراثیم کش (بیکٹیریا کے قاتل) سیال کامرکب کس نے تیار کیا ہے؟ کیا آنسووں کے غدودکو یہ معلوم تھا کہ آنکھ کے بیکٹیریا کو مارنے کے لئے انہیں نمکین پانی کی ضرورت ہے؟ کیا آنکھ کے گوشہ کا سوراخ (DACRIOSIST) (جس سے اضافی آنسو باہر نکل جاتے ہیں) اتفاقاً بن گیا ہے یا خود آنکھ نے اس سوراخ کو بنایا ہے؟ کیا آنکھ کو ناک اور سانس کے سسٹم میں رطوبت کی ضرورت کی خبر تھی کہ جس کی وجہ سے وہ اپنی ضرورت سے زیادہ آنسووں کو ناک کی طرف منتقل کردیتی ہے؟ یا یہ کہ خدائے علیم و قدیر نے ان سب کو بنایا ہے؟
کیا پلکوں میں چربی نکلنے کے سوراخ خود بخود اور اچانک پیدا ہوگئے ہیں؟ یا یہ کہ آنکھ کو چونکہ ان کی ضرورت تھی اس لئے اس نیخود انہیں بنایا ہے؟ کیا پلکوں کو یہ خبر تھی کہ اس طرح چربی چھوڑنے سے وہ آنکھ کی صحت مندی میں کتنا اہم کردار ادا کررہی ہیں؟یا آنکھ اور پلکوں کے ماہیچے اس عجیب و غریب انداز میں خود بخود اور اتفاقی طور پر پیدا ہوگئے؟ یا ان کو آنکھ نے بنایا ہے، یا کسی دوسرے نے ان کو اس انداز سے بنایا ہے؟
کیا بینائی کے اعصاب اپنی تمام ظرافتوں اور باریکیوںکے ساتھ خود بخود آنکھ کو دماغ میں موجود بصارت کے مرکز سے جوڑ دیتے ہیں؟ یا یہ کہ کسی صاحب علم ہستی نے انہیں جوڑا ہے۔
ایک جملہ میں یہ کہ یہ منظم و مرتب مجموعہ جس کے تمام اعضا آپس میںایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں سب کا ایک مقصد (دیکھنا) ہے کیا یہ اتفاقاً اور اچانک پیدا ہوسکتے ہیں؟
جی ہاں! ہر صاحب عقل انسان یہ جواب دے گا کہ ایسے منظم و مرتب مجموعے ( جس میں سینکڑوں قانون اور ہزاروں باریکیاں اور عجائبات پائے جاتے ہیں) کے بارے میں یہ سوچا بھی نہیں جاسکتا ہے کہ یہ اتفاقی طور پر اور اچانک خود بخود پیدا ہوگیا ہے، بیشک اس کو کسی جاننے والے اور صاحب قدرت نے بنایا ہے۔
صحیح جواب بھی یہی ہے، جب ہم آنکھ کی پیچیدہ عمارت کو دیکھتے ہیں اور جب آنکھ سے اس کے فرعی اعضا کے رابطہ اور ان سب کا دماغ سے رابطہ اور ان اجزا کا پورے بدن سے رابطہ اور پورے بدن کا اس کائنات سے رابطہ کا انداز دیکھتے ہیں تو ہمیں یہ پوری دنیا ایک منظم اکائی(Unit) کی طرح مربوط اورجڑی ہوئی دکھائی دیتی ہے جس میں نظم ہی نظم ہے او رہمیں اچھی طرح یہ دکھائی دیتا ہے کہ اس دنیا کو ایک عظیم خالق نے بنایا ہے جو علیم و قدیر ہے اور وہی اس کے نظام کو چلا رہا ہے۔
اگر ہم چشم بصیرت سے غور وفکرکے ساتھ دیکھیں تو خداوند عالم کے علم و حکمت کی نشانیاں ہمیں کائنات میں ہر جگہ نظر آتی ہیں، ہم اسے پہچانتے ہیں، دل سے اسے چاہتے ہیں، اور اس کی قدرت و عظمت کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہیں اور اپنے دل کی گہرائیوں سے اس کے الطاف اور بے شمار نعمتوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں، اس کی مقدس محبت ہمارے وجود کے ہر حصہ میں پیوست ہے، ہم صرف اسی کو عبادت و دعا کے لائق سمجھتے ہیں اور صرف اور صرف اسی کے حکم کو مانتے ہیں اور اسی کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہیں۔
اسرائیل کی نابودی کے لیے ایران سے لے کر لبنان ، شام ، فلسطین اور یمن تک استقامتی تحریک تیار کھڑی ہے: سپاہ قدس کے سربراہ
:ایران کی سپاہ قدس کے کمانڈر جنرل اسماعیل قاآنی نے اصفہان میں شہید جنرل سید محمد حجازی کی تشییع جنازہ کے موقع پر کہا کہ آج استقامتی محاذ ایران سے لے کر لبنان ، شام ، فلسطین اور یمن تک پھیلا ہوا ہے اور محاذ استقامت کے سپوت و جیالے جنھوں نے اس مکتب سے درس لیا ہے سبھی غاصب صیہونی حکومت کے مقابلے میں ایک بنیادی اقدام انجام دے رہے ہیں اور استقامت کا یہ راستہ امام زمانہ عج کی حکومت قائم ہونے تک جاری رہے گا۔
سپاہ قدس کے کمانڈر نے زور دے کر کہا کہ یہ وہ راستہ ہے جس میں فتح و کامیابی کا وعدہ خود اللہ تعالی نے دیا ہے اور ہم پورے عزم و کامیابی کے ساتھ آگے کی جانب بڑھتے رہیں گے اور صرف اس وقت رکیں گے جب امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی عالمی حکومت تشکیل پاجائے۔
جنرل اسماعیل قاآنی نے استقامتی محاذ کو مضبوط بنانے کے لئے شہید جنرل حجازی کی کوششوں کی جانب اشارہ کیا اور کہا کہ مقدس دفاع میں اہواز کی منتظران شہادت چھاؤنی سے لے کر کردستان کی بلند و بالا چوٹیوں اور قدس فوجی ہیڈکوارٹر تک ہر جگہ مثالی شخصیات اور آئیڈیل انسان موجود رہے ہیں جن میں سے ایک شہید حجازی تھے۔
سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے شعبہ رابطہ عامہ نے اتوار کی رات ایک بیان جاری کر کے اعلان کیا تھا کہ سپاہ قدس کے ڈپٹی کمانڈر جنرل محمد حجازی جو صدام کی بعثی حکومت کے شیمیائی حملے سے متاثر تھے حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے درجہ شہادت پر فائز ہوگئے ۔
سپاہ قدس کے ڈپٹی کمانڈر جنرل سید محمد حجازی کی تشیع جنازہ منگل کو ایس او پیز کا خیال رکھتے ہوئے اصفہان کے کیڈٹ کالج کی کھلی فضاؤں میں انجام پائی ۔
اس موقع پر عسکری و سیاسی شخصیات بھی موجود تھیں ۔
شہید جنرل حجازی سپاہ پاسداران کے ایک عظیم المرتبہ کمانڈر تھے آپ نے حزب اللہ لبنان اور استقامتی محاذ کو مضبوط بنانے میں نہایت نمایاں کردار کیا ہے ۔
صیہونی درندوں کے ہاتھوں فلسطینی شہری اپنے گھر کو مسمار کرنے پر مجبور
ولایت پورٹل:عرب 48 ویب سائٹ کی رپورٹ کے مطابق مقبوضہ بیت المقدس میں صہیونیوں سے وابستہ بلدیاتی عہدیداروں نے آج (منگل) کو قابض حکومت کے سکیورٹی اہلکاروں کے ساتھ مل کر ایک فلسطینی کو زیر تعمیر مکان منہدم کرنے پر مجبور کیا، رپورٹ کے مطابق اسرائیلی ایجنٹوں نے آج صبح امجد مسلم جعابیص نامی ایک فلسطینی کو البشیر کے علاقے میں اپنامکان منہدم کرنے پر مجبور کیا۔
اس دوران ، صیہونیوں کا مقابلہ کرنےوالے پانچ فلسطینی نوجوان کو گرفتار کرلیا گیا،واضح رہے کہ مقبوضہ بیت المقدس کی بلدیہ مکان تعمیر کرنے کی اجازت نہ لینے کے بہانے فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار کررہی ہے جسے فلسطینیوں نے یہودی آبادکاری اور اپنی زمین پر قبضہ کرنے کا اقدام قرار دیا ہے ۔
اسی دوران فلسطینی میڈیا کے مطابق رمضان کے آغاز سے اب تک یروشلم کے 270 رہائشی مظاہروں کے دوران زخمی ہوئے ہیں اور 30 سے زائد فلسطینیوں کو حراست میں لیا گیا ہےجبکہ عرب 48 کے مطابق 1967 سے صہیونیوں نے مقبوضہ بیت المقدس میں 2 ہزار سے زائد فلسطینی مکانات کو تباہ کردیا ہے،تاہم صیہونیوں کی اس طرح کی درندگی پر اقوام متحدہ سمیت پوری عالمی برادری مجرمانہ طورپر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے دوسرے کچھ شیخ نشین عرب ریاستوں کے حکمرانوں نےفلسطینیوں کے حقوق کو پائمال کرتے ہوئے پوری عالم اسلام کی جانب سے لعنت کا طوق اپنے گلے میں ڈال کر صیہونیوں کے ساتھ تعلقات بحال کر لیے ہیں جن میں بحرین ،سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پیش پیش ہیں،ان کے اس اقدام سے صیہونی کی مزید ہمت بڑھ گئی ہے اور ہر طرح سے فلسطینیوں کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ انھیں معلوم ہے کہ عرب ہمارے ساتھ ہیں اور باقی ہمیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔
رمضان المبارک کے آٹھویں دن کی دعا
اے معبود! مجھے اس مہینے میں توفیق عطا کر کہ یتیموں پر مہربان رہوں، اور لوگوں کو کھانا کھلاتا رہوں، اور بزرگوں کی مصاحبت کی توفیق عطا کر، اے آرزومندوں کی پناہ گاہ۔
رمضان المبارک کے ساتویں دن کی دعا
اے معبود! اس مہینے کے دوران اس کے روزے اور شب زندہ داری میں میری مدد فرما، اور مجھے اس مہینے کے گناہوں اور لغزشوں سے دور رکھ، اور اپنا ذکر اور اپنی یاد کی توفیق جاری رکھنے کی توفیق عطا فرما، اپنی توفیق کے واسطے اے گمراہوں کے ہادی و راہنما۔
تکفیری سوچ کے حامل لوگ صیہونی ایجنڈے کی تکمیل میں ٹشو پیپر کا کردارادا کررہے ہیں
سربراہ نورالھدیٰ مرکز تحقیقات (نمت ) اسلام آباد، حجت الاسلام سید رمیز الحسن موسوی نے رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر سے گفتگو میں پاکستان کی موجودہ صورت حال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا : جو شخص بھی عالمی سیاست خصوصاً دنیائے اسلام کی سیاست سے معمولی سی بھی دلچسپی رکھتا ہے وہ جانتا ہے کہ پوری دنیا اور بالخصوص عالم اسلام کی سیاست کا دارومدار اسرائیل کے مفادات کے گرد گھومتا ہے اور پوری دنیا میں استعماری طاقتوں کا ہم وغم اسرائیل کو بچانا اور اس کے اہداف کو پورا کرنا ہے ۔
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا : بقول امام خمینی ؒ اس سرطانی غدے کو ایجاد کرنے کامقصد ہی عالمی شیطانی قوتوں کو تقویت پہنچانا تھا اور پچھلے بہتر، تہتر سال سے عالم اسلام اور اسلامی ممالک میں ہونے والی تبدیلیاں اسی مقصد کےلئے تھیں ۔ اس عالمی شیطانی سازش کو امام خمینی ؒ کی اسلامی تحریک نے برملا کیااور عالم اسلام کو بیدارکرکے اسے اس طاغوتی نظام کے مقابلے کے لئے آمادہ کیا ۔اس لئے دنیائے اسلام میں جہاں بھی کوئی اضطرابی کیفیت پیدا ہوتی ہے ،اس کے پیچھے یہی طاغوتی مقاصد کی تکمیل کارفرماہوتی ہے ۔
سربراہ نورالھدیٰ مرکز تحقیقات اسلام آباد نے بیان کیا : اس وقت آپ جانتے ہیں کہ اسرائیلی مقاصد کو تحفظ دینے اور ان کی تکمیل کے لئے آخری مراحل کو طے کیا جارہا ہے۔اس سلسلے کی ایک کڑی امارات کا اسرائیل کو سرکاری سطح پر تسلیم کرنا ہے اور تازہ خبروں کے مطابق بحرین نے بھی اسرائیلی مملکت کو رسمی طور پر تسلیم کرلیا ہے ۔ ایسے حالات میں پاکستان جیسے اہم ملک میں اضطراب پیدا کرنا ایک ان طاقتوں کی سیاسی ضرورت ہے ۔پاکستان دنیائے اسلام میں اسرائیلی مخالفت کے لحاظ سے ایک اہم ملک سمجھا جاتا ہے کیونکہ پاکستان کے بانیوں نے شروع ہی سے اسرائیل کے وجود کو تسلیم نہیں کیا تھا اور اس عدم تسلیم کو پاکستان کی نظریاتی بنیاد بنا دیا تھا ۔جس کی بنا پر پاکستانی عوام خواہ جس مسلک سے بھی تعلق رکھتے ہوں ،اسرائیل کو رسمی طور پر تسلیم کرنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں ۔
انہوں نے کہا : اس رکاوٹ کو فرقہ وارنہ جنگ ہی کے ذریعے کمزور کیا جاسکتا ہے ۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اسلامی انقلاب کے ظہور کے بعد سےاسرائیلی مخالفت کے محاذ کی قیادت اہل تشیع کے ہاتھ میں ہے اور پاکستان کے باشعور اہل سنت کی اکثریت اس نظریاتی قیادت کو تسلیم کرچکی ہے اور قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی ؒ کے زمانے سے ہی اس فکری اور نظریاتی قیادت کی جڑیں پاکستان میں کافی مضبوط ہوچکی تھیں ۔لہذا جب بھی اسرائیلی مفادات کا مسئلہ پیش آتا ہے تو پاکستان میں اہل تشیع پر دباؤ بڑھ جاتا ہے ۔ شاید پاکستان کی سیاسی اور مبارزاتی تاریخ میں اس وقت جس قدر دباؤ اہل تشیع پر ڈالاجارہا ہے وہ اس سے پہلے نہیں ڈالا گیا ۔
سید رمیز الحسن موسوی نے کہا : اس وقت محرم الحرام سے پہلے ہی اس دباؤ اور تنش کے محرکات فراہم کردیئے گئے تھے ۔آصف جلالی نامی ایک سعودی ایجنٹ کے ذریعے بنت رسول ؐ جناب فاطمہ زہراسلام اللہ علیہا کی توہین کرائی گئی ۔اس کے بعد اس سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے آصف علوی نامی عالمی ایجنٹ کو استعمال کرتے ہوئے محرم الحرام کے آغاز میں ہی اہل تشیع کے خلاف ایک ماحول پیدا کیا گیا اور آخر کار روز عاشور زیارت عاشورہ کی تلاوت کو بہانہ بنا کر تمام شیعہ مخالف گروہوں کو ایک پلیٹ فارم مہیا کرنے کی سازش کی گئی ۔لیکن اہل سنت عوام کے باشعور طبقے خصوصاً حالا ت سے آگاہ علمائے اہل سنت کی اکثریت نے اس عالمی صیہونی منصبوے کی نفی کی ہے ۔گو کہ تکفیری سوچ کے حامل کچھ بے شعور لوگ صیہونی ایجنڈے کی تکمیل میں ٹشو پیپر کا کردارادا کررہے ہیں، جنہیں بعد میں ہمیشہ کی طرح استعمال کرکے پھینک دیا جائے گا ۔
انہوں نے کہا : الحمدللہ بعض اہل سنت علما اور شیعہ علماء نے بصیرت کا ثبوت دیا ہے گو کہ پہلے شیعوں کے اندرونی خلفشار اور گروہی سیاست نے ان نازک حالات کا ادراک نہیں کیا، لیکن جلد ہی بعض علماءکی بصیرت کی وجہ سے کہ جنہوں نے ہمیشہ ملت کے مفاد کی خاطر اپنے گروہی جذبات واحساسات کو پس پشت ڈالا ہے ، آخر کل ۱۲ ستمبر ۲۰۲۰ء کو اسلام آباد میں بزرگ علماء کی زیرسرپرستی علما وذاکرین کانفرنس منعقد ہوئی جس میں ملت کے تقریبا ً سبہی گروہ شامل تھے سوائے ایک دو کو چھوڑ کر سب نے ذمہ داری کا احساس کیا اور ایک مشترکہ بیانیہ سامنے آیا ۔جس کے انشا اللہ امید افزا نتائج نکلیں گے اور عالمی سازش ایک بار پھر پاکستانی عوام کی امنیت کو خراب کرنے میں ناکام ہو گی ۔
سربراہ نورالھدیٰ مرکز تحقیقات اسلام آباد نے اس سوال کے جواب میں کہ دشمن مسلمان سے کیوں خوف کھاتا ہے بیان کیا : واضح سی بات ہے اور اس کے پیچھے قرآنی فکر کارفرما ہے ۔دشمن مسلمانوں سے خوف زدہ نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کے متحد ہونے سے خوف زدہ ہے ۔اسی لئے وہ اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے مسلمانوں میں تفرقہ پیدا کرنے کی سعی کرتا ہے ۔جس کی مثال پاکستان کے حالیہ صورت حال ہے کہ اسرائیل کے ناجائز وجود کو دوام دینے اوراس کے مفادات کی حفاظت کے لئے پاکستان جیسے اسلام کے قلعے میں اضطراب اور تنش پیدا کرنے کی سعی کی گئی ہے تاکہ مسلمانان پاکستان متحد ہو کر اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرنے والے مسلمان ممالک کے خلاف قیام نہ کرسکیں ۔
انہوں نے موجودہ صوت حال میں مسلمانوں کی ذمہ داری بہت ہی اہم جانا ہے اور بیان کیا : ایسے حالات میں ہمارے فریضہ وہی ہے جو قرآن اور اہل بیت اطہار علیہم السلام کی سیرت نے ہمارے لئے معین کیا ہے ۔یعنی اتحاد اور وحدت کلمہ تمام مسلمانوں کو خصوصاً پیروان اہل بیت اطہار کو ایسے حالات میں صبر وتحمل سے کام لینا چاہیے ۔اہل تشیع کوکہ جو امام علی علیہ السلام کی پیروی کا دعوی ٰ کرتے ہیں ،سب سے زیادہ صبر وتحمل کرناچاہیے اور بصیرت وشعور کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرنا چاہیے ہمارے سامنے امام علی علیہ السلام کی پچیس سالہ سیرت موجود ہے اور پھر موجود ہ دور میں امام خمینی ؒ اور رہبر معظم کی بصیرت افروز سیرت کہ کس طرح ہماری قیادت نے پچھلے چالیس سال میں صبر تحمل کے ساتھ پوری دنیا سے انقلاب اسلامی ایران کو منوایا ہے اور ثابت کیا ہے کہ عالم اسلام بلکہ عالم بشریت کا مفاد امام خمینی ؒکی فکر ونظریئے کے ذریعے ہی پور ا کیا جاسکتا ہے کہ جو اسلام ناب محمد ی کی فکر ہے نہ عالمی طاغوتوں کی سیاست کے ذریعے ۔
رمضان المبارک کے چھٹے دن کی دعا
اے معبود! مجھے اس مہینے میں اپنی نافرمانی کے قریب جانے کی وجہ سے نظراندار کرکے تنہا نہ فرما اور مجھے اپنے انتقام کے تازیانوں سے مضروب نہ کر، اور اپنے غضب کے اسباب و موجبات سے دور رکھ، اپنے فضل و عطا اور احسان کے واسطے، اے راغبوں کی رغبت کی انتہا ۔