سلیمانی

سلیمانی

Monday, 12 April 2021 13:55

امریکی جنگی جنون

امریکی صدر نے 2 اپریل کو 2022ء کا مجوزہ بجٹ امریکی کانگریس کے حوالے کر دیا ہے۔ اس مجوزہ بجٹ میں دفاعی اخراجات کے لیے 753 ارب ڈالر مختص کیے گئے ہیں۔ اگر یہ مجوزہ بجٹ کانگریس میں منظور ہو جاتا ہے تو 715 ارب ڈالر براہ راست امریکی وزارت جنگ پینٹاگون کے سپرد کر دیئے جائیں گے۔ اس بجٹ میں چین اور روس کا مقابلہ کرنے کے لیے نیز ایٹمی ہتھیاروں کی تجدید اور بیالوجیکل ہتھیاروں کا مقابلہ کرنے کے لیے خطیر رقم مختص کی گئی ہے، اس کے علاوہ ہائپر سونیک ہتھیاروں کی تیاری اور بحری جنگی جہازوں کو جدید بالسیٹک میزائلوں سے لیس کرنے کے لیے بھی بجٹ میں مختلف رقوم رکھی گئی ہیں۔ دوسری طرف فوجی بجٹ میں اضافے پر امریکہ کے اندر سے شدید تنقدیں بھی سامنے آرہی ہیں۔

امریکہ کا انفراسٹرکچر بری طرح تباہ ہو رہا ہے اور جو بائیڈن نے اس کی تعمیر کے لیے خطیر رقم کا اعلان کیا ہے، لیکن اس کے باوجود ڈیموکریٹس حکومت پر اعتراض ہو رہا ہے کہ فوجی بجٹ میں جتنا اضافہ ہوا ہے، انفراسٹرکچر کی تعمیر و مرمت پر اتنی توجہ نہیں دی گئی ہے۔ سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرامپ ہمیشہ امریکہ کی سڑکوں، پلوں اور دیگر انفراسٹرکچر کی زبوں حالی پر بہت زیادہ بیانات دیتے تھے اور انھوں نے اعلان بھِی کیا تھا کہ امریکی انفراسٹرکچر کی بہتری کے لیے لازمی اقدامات انجام دیں گے۔ امریکی بجٹ کا ایک بہت بڑا حصہ فوجی اخراجات پر استعمال ہو رہا ہے، جبکہ امریکہ میں سڑکوں، پلوں، پانی و بجلی کے محکموں اور دیگر ضروری استعمال کے وسائل ناگفتہ بہہ صورت حال اختیار کرچکے ہیں، لیکن امریکی حکومت مقامی مسائل پر خرچ کرنے کی بجائے فوجی اقدامات اور فوجی صنعت پر اربوں ڈالر خرچ کر رہی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر جو بائیڈن کے دور حکومت کا بجٹ ڈونالڈ ٹرامپ کے فوجی بجٹ سے بڑھ گیا تو امریکی انفراسٹرکچر کو سخت نقصان پہنچے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت امریکی سینیٹ میں فوجی بجٹ کی مخالفت سامنے آرہی ہے اور ری پبلکنز سینیٹر بالخصوص مارکو روبیو، میچ مک کامل اور آزاد سینیٹر برنی سینڈرز فوجی بجٹ میں اضافے پر شدید تنقید کر رہے ہیں۔ برنی سینڈرز کے بقول جب امریکی فوجی بجٹ بارہ ملکوں کے مشترکہ فوجی بجٹ سے بھی زیادہ ہے تو امریکہ کو اپنے فوجی بجٹ پر نظرثانی کرنی چاہیئے۔ امریکہ کا وسیع فوجی بجٹ اور اس میں حالیہ اضافہ ایسی صورت میں انجام پانے جا رہا ہے کہ اسی ملک میں کرونا سے مرنے والوں کی تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔

اس وقت تک تین کروڑ سے زیادہ امریکی شہری کرونا وائرس میں مبتلا ہیں جبکہ اس وائرس کی وجہ سے پانچ لاکھ ساٹھ ہزار امریکی وفات پا چکے ہیں۔ ہلاکتوں کی تعداد میں روز بروز اضافے کے ساتھ ساتھ امریکہ میں اقتصادی زبوں حالی، بے روزگاری، غربت و افلاس اور دیگر سماجی مشکلات میں اضافہ زبان زد خاص و عام ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکہ کو اپنی عوام کی فلاح و بہبود کی بجائے فوجی صنعت کی ترقی اور دوسرے ممالک کے خلاف جنگی اقدامات کی جاری رکھنا زیادہ عزیز ہے۔ موجودہ بجٹ میں امریکہ نے اپنے ایٹمی ہتھیاروں کو اب گریڈ کرنے کے لیے بھاری رقوم مختص کی ہیں، حالانکہ عالمی معاہدے اس کی اجازت نہیں دیتے، امریکہ نہ صرف انہیں اپ گریڈ کر رہا ہے بلکہ انہیں پھیلانے میں بھی مصروف ہے۔

ایٹمی سائنس کے بارے میں اعداد و شمار جاری کرنے والے ادارے "اٹامک سائنس بولٹن" نے 2019ء کے بارے میں جاری کردہ اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ امریکہ کے پاس 6185 ایٹمی وار ہیڈز موجود ہیں، جن میں 150 یورپ کے مختلف ملکوں میں موجود اسٹریٹجک فوجی اڈوں میں رکھے گئے ہیں۔ آئی اے ای اے کے بورڈ آف گورنرز کے سابق سربراہ برترانڈ گولڈ اشمیٹ کا اسی تناظر میں کہنا ہے کہ امریکہ اور اسی طرح کی دیگر عالمی طاقتوں کا غیر منطقی طریقہ کار عالمی سطح پر سیاسی، سلامتی اور فوجی بحرانوں کا باعث بنا ہے، جس کی وجہ سے عالمی امن و صلح کو شدید خطرات کا سامنا ہے۔ ایران مغربی طاقتوں کے برخلاف مذہبی اور اخلاقی فریضے کی بنیاد پر ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری اور استعمال کو حرام ہونے کا دنیا میں اعلان کرچکا ہے اور باقاعدہ طور پر اقوام متحدہ کی دستاویز میں رجسٹرڈ بھی کروا چکا ہے۔

امریکہ کا فوجی بجٹ دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ دنیا بھر میں امریکی فوجی اڈوں کی تعداد بھی دنیا کے کسی بھی ملک سے کئی گنا زیادہ ہے۔ امریکہ اپنے ہتھیاروں کی صنعت کا منافع برقرار رکھنے کیوجہ سے بھی عرب ممالک کو ایرانو فوبیا اور دوسرے خطرات سے گاہے بگائے ڈراتا رہتا ہے، تاکہ یہ ممالک امریکہ سے زیادہ سے زیادہ ہتھیار خریدیں۔ قابل غور و فکر نکتہ یہ ہے کہ امریکہ کو اپنے جدید ہتھیاروں اور اسلحہ کی صنعت کے باوجود اس وقت بجٹ کے خسارے کا سامنا ہے۔ امریکہ دنیا کا سب سے مقروض ملک بھی ہے، جبکہ جنگی میدان میں تمام تر دعووں کے باوجود مسلسل شکست سے دوچار ہے، افغانستان اس کے لیے گلے کی ہڈی بنا ہوا ہے۔ عراق میں امریکی انخلاء کا نعرہ زبان زد خاص و عام ہے۔ شام و لبنان میں بھی امریکی لابیاں آخری سانس لے رہی ہیں۔ اگثر تجزیہ نگاروں کے مطابق امریکہ جنگی میدان میں ویت نام سے لے کر اب تک مسلسل شکستوں سے دوچار ہے اور اس کا مستقبل بھی زیادہ روشن نہیں ہے۔ چین اقتصادی میدان میں امریکہ کو شکست فاش دینے کے لیے تیار ہے، جبکہ جنگی میدان میں امریکہ کو مسلسل ناکامیوں کا سامنا ہے۔ ایسے میں نئے سال کے بجٹ مین 715 ارب ڈالر کا بجٹ پینٹاگون کو کونسی کامیابیاں عظا کرسکتا ہے، اس کا کہیں سے مثبت جواب سننے کو نہیں مل رہا ہے۔

تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

 موساد اور سکیورٹی فورسز کے کمانڈروں میں صہیونی حکومت کے وزیر اعظم نے کہا ہے کہ ایران کے ہتھیاروں کے خلاف جنگ ایک بہت بڑا کام ہے اور جو موقع اس حوالے سے ہمیں آج میسر ہے شائد آئندہ کبھی ایسی فرصت پیش نہ آئے۔ صیہونی ٹی وی چینل 13 نے مغربی انٹلیجنس ذرائع کے حوالے سے اطلاع دی ہے کہ موساد (اسرائیلی انٹیلی جنس سروس) نطنز کی واقعے میں ملوث ہے۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق اس حملے میں نقصان کی رپورٹ ہے۔ یہ رپورٹ ایسے وقت نشر کی گئی ہے جب صہیونی فوج کے چیف آف اسٹاف کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے مشرق وسطی میں ایک خفیہ فوجی آپریشن کیا انجام دیا ہے۔

دوسری جانب نطنز سائٹ حادثہ کے بارے میں ایران کی جوہری توانائی تنظیم کے سربراہ صالحی نے کہا ہے کہ نطنز کی افزودگی مرکز پر ہونے والی کارروائی ملکی صنعتی اور سیاسی پیشرفت پر دشمن کی ناکامی اور جوہری صنعت پر مایوسی کی علامت ہے. یہ کاروائی اس بات کی علامت ہے کہ دشمن ایران کے خلاف ظالمانہ پابندیوں سے مایوس ہو چکا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران اس گھناؤنے اقدام کی مذمت کرتا ہے اور بین الاقوامی برادری اور بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کی طرف سے اس جوہری دہشت گردی کا جواب دینے کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔ صالحی نے مزید کہا کہ ایران مجرموں اور ان کے دہشت گرد سربراہوں کے خلاف کارروائی کا حق محفوظ رکھتا ہے۔

Saturday, 10 April 2021 19:34

الغدیر اور اسلامی اتحاد

ہمارے زمانے کے مصلحین اور روشن فکر دانشوراسلامی فرقوں کے اتحاد ویکجہتی کو ملت اسلامیہ کی بنیادی ترین ضرورتوں میں شمارکرتے ہیں بالخصوص اس وجہ سے بھی کہ دشمن چاروں طرف سے اسلام ومسلمین پر حملے کررہا ہے اور مختلف وسائل و ذرایع استعمال کرکے مسلمانوں کے درمیان پرانے اختلافات کو دوبارہ ھوادیکر نۓ طریقوں سے ان کو تفرقہ و تشتت میں مبتلا کرنے کی کوشش کررہا ہے بنیادی طور پر جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ شارع مقدس اسلام نے اتحاد کو نہایت اھمیت دی ہے اور اتحاد کو اسلام کے اھم ترین مقاصد میں شامل کیا ہے اس امر کی گواہی قرآن و سنت بھی دے رہے ہیں بنابریں بعض لوگوں کے ذھن میں یہ سوال آسکتاہے کہ “الغدیر”جیسی کتاب کی اشاعت کہ جس کا موضوع مسلمانوں کا بنیادی اختلافی مسئلہ ہے کیا اسلامی اتحاد جیسے مقدس و اعلی ھدف میں رکاوٹ نہیں ہے؟ اس سوال کا واضح واطمئنان بخش جواب دینے کے لۓ ہمیں سب سے پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ اسلامی اتحاد کا مفہوم کیا ہےاور اس کی حدود کہاں تک ہیں اسکے بعد ہم گرانقدر کتاب الغدیر اور اس کے جلیل القدر مصنف علامہ امینی رضوان اللہ علیہ کے کردار پر روشنی ڈالیں گے۔

 
اسلامی اتحاد :-

اسلامی اتحاد سے کیا مراد ہے؟ کیا یہ مراد ہے کہ اسلامی مذاھب میں ایک کا انتخاب کیا جاۓ اور دیگر مذاھب کو کنارےلگادیا جاۓ ،یا یہ مراد ہے کہ تمام مذاھب کے اشتراکات کو لیکر مفترقات کو مسترد کردیا جاے اورایک نیا مذھب بنایا جاے کہ اس طرح سارے مذاھب کالعدم ہوجائیں ؟یا اتحاد اسلامی سے مراد مذاھب کا اتحاد نہیں بلکہ مسلمانوں کا اتحاد ہے ؟وہ اس طرح سے کہ اسلامی مذاھب کے پیرو اپنے اختلافات کو ہاتھ لگاے بغیر مشترکہ دشمن کے مقابل متحد ہوجائیں۔
اسلامی اتحاد کے مخالف اتحاد کو غیر منطقی اور غلط معنی میں پیش کرکے کہتے ہیں کہ اتحاد سے مراد مذاھب کا اتحاد ہے تاکہ پہلے ہی مرحلے میں وہ شکست سے دوچار ہوجاے۔
صاف روشن ہے کہ علماء اور روشن فکراسلامی دانشوروں کے نزدیک اتحاد یہ نہیں ہے کہ تمام مذاھب کو ملاکر ایک کردیا جاے یاتمام مذاھب کے مشترکات کو لےلیا جاے یا ان کے مفترقات کو ترک کردیا جاے کیونکہ یہ نہ معقول ہے نہ منطقی بلکہ ان لوگوں کے کہنے کا یہ مقصد ہے کہ مسلمانوں کو مشترکہ دشمنوں کا مقابلہ کرنے کے لۓ متحد اور ایک ہوجانا چاہیے ۔
مسلمان علماء اور دنشوروں کا کہنا ہےکہ مسلمانوں کے پاس اتحاد کے بہت سے اسباب ہیں جو مسلمانوں کے اتحاد کا باعث بن سکتے ہیں سارے مسلمانان ایک خدا ،ایک رسول پر ایمان رکھتے ہیں سارے مسلمانوں کی ایک کتاب ہے یعنی قرآن کریم ،اور سب کا قبلہ بھی ایک ہی ہے سارے مسلمان ایک ساتھ ایک دن اور ایک ہی جگہ پر حج بجالاتے ہیں ان کی عبادات و معاملات کے احکام ایک جیسے ہیں کچھ جزئی امور میں اختلاف کے علاوہ ان کے مابین اختلاف نہیں ہے مسلمان ایک ہی نظریہ کائینات رکھتے ہیں ان کی ایک ہی تہذیب و تمدن ہے اور سب اس عظیم تہذیب و تمدن میں برابر کے شریک ہیں ۔
ان تمام امور میں اتحاد مسلمانوں کو امت واحدہ میں تبدیل کرسکتاہے اوروہ ایسی عظیم طاقت بن کر ابھر سکتے ہیں جس کے سامنے دنیا کی تمام طاقتیں جھکنے کو مجبور ہوجائیں گی ۔
قرآن کریم نے اتحاد پر بے حد زور دیا ہے قرآن کے صریحی حکم کے مطابق مسلمان بھائی بھائی ہیں اور ان کے حقوق اور ذمہ داریاں انہیں ایک دوسرے سے جوڑے رکھتی ہیں تاہم مسلمان ہرطرح کے وسائل وذرایع کے مالک ہونے کے باوجود ان سے استفادہ کیوں نہیں کرتے؟
علماء کی نظر میں اس بات کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ مسلمان اتحاد کے لۓ اپنے مذھب کے اصول و فروع پر کسی طرح کا سمجھوتہ کریں اسی طرح یہ بھی ضروری نہیں ہےکہ اپنے اصولی اور فروعی اختلافات کے سلسلے میں بحث واستدلال اور تحقیقات نہ کریں بلکہ اتحاد کے لۓ جس چیزکی ضرورت ہے وہ یہ ہےکہ مسلمان یہ کوشش کریں کہ ایک دوسرے کے جذبات مجروح نہ ہوں ،ایک دوسرے کو برابھلا نہ کہیں ،ایک دوسرے پر تہمت وبہتان نہ لگائیں اور کم ازکم ان اصولوں کی پابندی کریں جو اسلام نے غیر مسلمانوں کو اسلام کی دعوت دینے کی غرض سے وضع کۓ تھے ۔
اتحاد کے بارے میں بعض لوگ یہ منفی سوچ رکھتے ہیں کہ جو مذاھب صرف فروع میں اختلاف رکھتے ہیں جیسے شافعی اور حنفی وہ آپس میں ایک ہوسکتے ہیں لیکن جو مذاھب اصول میں ایک دوسرے سے اختلاف رکھتے ہیں ان کے مابین اتحاد ممکن نہیں ہے ،اس فکر کے حامل لوگوں کا کہنا ہےکہ اصول مذھب بہم پیوستہ تعلیمات کا ایسا مجموعہ ہے جس میں ایک اصل پرلچک دکھانے سے گویا سارے اصول ناکارہ ہوجاتے ہیں ۔
علماءو دانشور ان لوگوں کویہ جواب دیتے ہیں کہ ضروری نہیں ہےکہ ہم اصول دین کو بہم پیوستہ اصولوں کا مجموعہ سمجھیں اور “یا سب یا کچھ بھی نہیں “کے اصول کی پیروی کریں بلکہ یہاں پر یہ قاعدہ لاگوکیا جاے گا کہ المیسور لایسقط بالمعسور،ومالایدرک کلہ لایترک کلہ یعنی ناممکن امر کی بناپر ممکن امر کو ترک نہیں کیا جاسکتاہے اور جس چیزکو مکمل طرح سے درک(حاصل ) نہیں کیاجاسکتا اسے مکمل طرح سے چھوڑابھی نہیں جاسکتا ۔
اس سلسلے میں امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی شخصیت ہمارے لۓبہترین نمونہ عمل ہے آپ نے مسلمانوں کو تفرقہ و تشتت سے بچانے کے لۓ ایسا بے مثال منطقی اور معقول موقف اپنایا تھا جو آپ کی عظیم شخصیت کے شایان شان تھا،آپ نے اپنے حق کی بازیابی کے لۓ اپنی طاقت بھر کوشش کی امامت کے احیاء کے لۓ کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا لیکن کبھی بھی “یا سب یا کچھ نہیں “کے اصول پر عمل نہیں کیا بلکہ برعکس مالایدرک کلہ لایترک کلہ کے اصول کو اپنی روش کی بنیاد قراردیا۔
امیرالمومنین علی علیہ السلام نے اپنے حق کے غاصبوں کے خلاف قیام نہیں کیا اور آپ کا قیام نہ کرنا مجبوری کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ آپنے سوچ سمجھ کر یہ موقف اختیار کیا تھا،آپ موت سے نہیں ڈرتے تھے بلکہ شہادت آپ کی دیرینہ آرزو تھی اور آپ نے فرمایا ہے کہ آپ موت سے اس طرح مانوس تھے جس طرح بچہ اپنی ماں کے دودھ سے مانوس ہوتاہے ،حضرت علی علیہ السلام نے اپنے زمانے میں اس نتیجہ پر پہنچے تھے کہ ان حالات میں ترک قیام بلکہ تعاون ضروری ہے آپ نے متعدد مرتبہ اس امر کی طرف اشارہ فرمایا ہے ،مالک اشتر کے نام ایک خط میں تحریر فرماتے ہیں کہ فامسکت یدی حتی رایت راجعۃ الناس قد رجعت عن الاسلام و اھلہ یدعون الی محق دین محمد صلی اللہ علیہ وآلہ فخشیت ان لم انصر الاسلام و اھلہ اری فیہ ثلمااوھدما تکون المصیبۃ بہ علی اعظم من فوت ولایتکم التی انما ھی متاع ایام قلائل “ان حالات میں میں نے اپنا ہاتھ روکے رکھایہانتک کہ میں نے دیکھا کہ مرتد ہونے والے اسلام سے مرتد ہوکر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کو مٹاڈالنے کی دعوت دے رہے ہیں اب میں ڈرا کہ اگر کوئی رخنہ یا خرابی دیکھتے ہوۓ میں اسلام ومسلمین کی مدد نہ کرونگا تو یہ میرے لۓ تمہاری خلافت کے ہاتھ سے چلے جانے سے بڑی مصیبت ہوگی جوکہ چند دنوں کا اثاثہ ہے”۔
چھ افراد پر مشتمل شوری میں عثمان کے خلیفہ چنے جانے کے بعد آپ نے شوری کو مخاطب کرکے کہا کہ لقد علمتم انی احق الناس بھامن غیری واللہ لاسلمن ماسلمت امور المسلمین ولم یکن فیھا جورالاعلی خاصۃ (خطبۃ 72 )”تم جانتے ہوکہ مجھے اوروں سے زیادہ خلافت کا حق پہنچتاہے خدا کی قسم جب تک مسلمانوں کے امورکا نظم ونسق برقراررہے گا اور صرف میری ہی ذات ظلم وجور کا نشانہ بنتی رہے گی میں خاموشی اختیار کرتارہونگا تاکہ (اس صبرپر)اللہ سے اجر و ثواب طلب کروں اور اس زیب وزینت و آرائیش کو ٹھکرادوں جس پر تم مرمٹے ہو”۔
ان امور سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے کبھی بھی یا سب کچھ یا کچھ نہیں کے اصول پر عمل نہیں کیا بلکہ اس طرزفکر کو مسترد کیا یہاں اس مختصر مقالے میں اتحاد قائم رکھنے کے سلسلے میں حضرت علی علیہ السلام کےاقدامات کااحصاء نہیں کیاجاسکتا آپ کی سیرت پر لکھی گئی کتابوں میں ان امور کا تفصیل سے مطالعہ کیا جاسکتا ہے ۔

 

 
علامہ امینی

آئیے اب دیکھتے ہیں کہ علامہ امینی کتاب الغدیر کے مولف کی سوچ کیا ہے اور کیا وہ صرف تشیع میں اتحاد کو منحصر سمجھتے ہیں یا یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ اسلامی اتحاد کا دائرہ وسیع تر ہے اور کلمہ شہادتین کی ادائیگی کے بعد دائرہ اسلام میں داخل ہونے سے مسلمانوں کے ایک دوسرے پر حقوق بن جاتے ہیں اور قرآن کے مطابق ان کے درمیان اخوت کا رشتہ قائم ہوجاتاہے۔
علامہ امینی نے اتحاد کے بارے میں اپنے نظریات متعدد مرتبہ بیان کۓ ہیں اور یہ بھی واضح الفاظ میں بیان کردیا ہےکہ الغدیر جیسی کتاب اتحاد بین المسلمین میں مثبت کردار کی حامل ہے ۔
علامہ امینی نے دشمنوں کی صف یا خود اپنے حلقے میں موجود اعتراض کرنے والوں کا جواب دیتے ہوے عالم اسلام میں کتاب الغدیر کی افادیت اور مثبت کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ کہا ہے کہ ہمارا یہ کام خدمت دین اعلاے کلمہ حق اور امت اسلامی کو زندہ کرنے کے لۓ ہے علامہ امینی الغدیرکی تیسری جلد میں نقدواصلاح کے زیر عنوان ابن تیمیہ ،آلوسی ،اور قصیمی کی یہ افتراپردازی کہ شیعہ اھل بیت کے بعض افراد جیسے زید بن علی کو دوست نہیں رکھتے کہتے ہیں کہ “اس طرح کے جھوٹے الزامات اور تہمتیں فساد کاباعث ہوتی ہیں اور امت اسلامی میں دشمنی پھیلاتی ہیں اور مسلمانوں میں تفرقہ ڈالتی ہیں امت کو متشتت کردیتی ہیں اور مسلمانوں کے مفادات کے منافی ہیں”
علامہ امینی الغدیر کی تیسری جلد میں سید رشید رضا کے ان الزامات کا جواب دیتے ہیں کہ شیعہ مسلمانوں کی ہرشکست سے خوش ہوتے ہیں یہانتک کہ ایران میں روس کےہاتھوں مسلمانوں کی شکست کا بھی جشن منایا گیاتھا علامہ امینی ان الزامات کا جواب دیتے ہو‌ۓ لکھتے ہیں کہ یہ جھوٹے الزامات خود سید رشید رضا کی ذھنی اپچ ہیں وہ لکھتے ہیں کہ اس طرح کے الزامات عراق و ایران کے شیعہ مسلمانوں پر لگاے جاتے ہیں لیکن ان دونوں ملکوں کا سفر کرنے والے سیاحوں مستشرقین اور اسلامی ممالک کےنمائندوں کو ایسی کوئی چیزنہیں دکھائی دی ،شیعہ بلااستثناء تمام مسلمانوں کے جان و مال و آبرو کو محترم سمجھتاہے اور جب بھی عالم اسلام میں کسی بھی علاقے اور کسی بھی فرقے پر براوقت پڑا ہے اھل تشیع نے ان کے ساتھ غم بانٹا ہے شیعہ نے کبھی بھی اسلامی اخوت کو جس پرقرآن و سنت نے تاکید کی ہے عالم تشیع میں محدود نہیں سمجھا ہے اور اتحاد کےسلسلے میں شیعہ وسنی میں کبھی فرق نہیں کیا ہے ۔
علامہ امینی اپنی کتاب کی تیسری جلد میں قدماءکی بعض کتابوں جیسے ابن عبدربہ کی عقد الفرید ،ابوالحسین خیاط معتزلی کی الانتصار ،ابومنصوربغدادی کی الفرق بین الفرق ،محمد بن عبدالکریم شہرستانی کی الملل والنحل ،ابن تیمیہ کی منھاج السنۃ ،ابن کثیر کی البدایہ والنھایہ اور بعض متاخرین کی کچھ کتابیں جیسے شیخ محمد خضری کی الامم الاسلامیہ ،احمد امین کی فجرالاسلام ،محمد ثابت مصری کی الجولۃ فی ربوع الشرق الادنی ،قصیمی کی الصراع بین الاسلام والوثنیہ والشیعہ وغیرہ پر تنقید کرتے ہوۓ لکھتے ہیں کہ ان کتابوں پر تنقید کرنے سے ہماراھدف یہ ہے کہ ہم عالم اسلام کو خبردار کریں مسلمانوں کو بیدار کریں کہ یہ کتابیں عالم اسلام کے لۓ شدید ترین خطرات کاباعث ہیں کیونکہ اسلامی اتحاد کونشانہ بنایا ہواہے ان سے مسلمانوں کی صفوف میں شگاف پڑجائیں گے ان کتابوں کی طرح سے کوئی اور شی مسلمانوں کے اتحاد کو نقصان نہیں پہنچاتی اور ان کے رشتہ اخوت کو پارہ نہیں کرتی ۔
علامہ امینی نے اپنی گرنقدر کتاب کی پانچویں جلد میں نظریۃ کریمہ کی زیرعنوان مصر کے ایک مصنف کے تعریفی خط کا جواب دیا ہے جس سے یہ بالکل واضح ہوجاتاہےکہ آپ اتحاد بین المسلمین کے بڑے حامیوں میں سے تھے علامہ امینی لکھتے ہیں کہ “مذاھب کےبارے میں آراءو نظریات کا اظہار کرنا آزاد ہے اس سے رشتہ اخوت اسلامی کو کہ جس پر قرآن نے انماالمومنوں اخوہ کی مھرلگائی نقصان نہیں پہنچتا گرچہ علمی بحث ومباحثہ ،کلامی ومذھبی مجادلہ اپنے عروج ہی کوکیوں نہ پہنچاہو،وہ لکھتے ہیں اس سلسلے میں ہمارے لۓ ماسلف بالخصوص صحابہ وتابعین کی سیرت نمونہ عمل ہے۔
علامہ امینی لکھتے ہیں کہ ہم مصنفین ومولفین جو دنیا کہ گوشہ وکنار میں ہیں ہم اصول وفروع میں تمام اختلافات کے باوجودایک جامع مشترکہ قدر کےحامل ہیں اور وہ خداورسول پر ایمان جوہمارےوجود میں رچابساہے اور یہی اسلام کی روح اور کلمہ اخلاص ہے “
علامہ امینی لکھتے ہیں کہ ہم اسلامی مصنفین سب کے سب پرچم اسلام کے تحت زندگی گزاررہے ہیں اور قرآن و رسالت پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قیادت میں اپنافریضہ اداکررہے ہیں ہمارا پیغام یہ ہےکہ ان الدین عنداللہ الاسلام اور ہمارانعرہ یہ ہےکہ لاالہ الااللہ ومحمد رسول اللہ جی ہاں ہم حزب اللہ ہیں اور اس کے دین کےحامی ہیں ۔
علامہ امینی اپنی کتاب کی آٹھویں جلد میں “الغدیر یوحد الصفوف فی الملاء الاسلامی “کے زیر عنوان اسلامی اتحاد میں کتاب الغدیر کے کردار پرروشنی ڈالتے ہیں اس باب میں وہ ان لوگوں کے الزامات کاجواب دیتے ہیں جوغدیر کو مسلمانوں کےدرمیان تفرقہ کا سبب سمجھتے ہیں اور ثابت کرتے ہیں کہ الغدیر سے بہت سی غلط فہمیوں کا ازالہ ہوجاتاہے اور مسلمان ایک دوسرے کےقریب آتےہیں اس کے بعد غیر شیعہ علماء کے اعترافات نقل کرتےہیں اور آخر میں شیخ محمد سعید دحدوح کا خط بھی قارئین کی سامنے پیش کرتے ہیں۔
ہم اپنے قارئین سے معذرت خواہ ہیں کہ اسلامی اتحاد میں الغدیر کے کردارکے بارے میں علامہ امینی کے سارے نظریات پیش کرنا ہمارے لۓ ناممکن ہے البتہ یہ بتاتے چلیں کہ الغدیر کا ترجمہ بہت سی عالمی زبانوں میں ہوچکاہے
اسلامی اتحاد میں الغدیر اس طرح مفید ثابت ہوئی ہےکہ سب سے پہلے اھل تشیع کا نقطہ نظر بیان کرتی ہے اور یہ ثابت کرتی ہےکہ اسلام کا یہ بڑا فرقہ پروپگینڈوں کے برخلاف سیاسی نسلی اور خاندانی مسائل کی بناپر معرض وجود میں نہیں آیا بلکہ اھل تشیع قرآن و سنت پر استوار مستحکم نظریاتی نظام کے حامل ہیں ،دوسری بات یہ ہے کہ الغدیر اس وجہ سے بھی اتحاد کےلۓ مفید ہےکہ اھل تشیع پر عائد دسیوں بےبنیاد الزامات کا مستدل جواب پیش کرتی ہے جن کو پڑہ کرمنصف مزاج لوگ یقینا اس نتیجہ پر پہنچتے ہونگے کہ الزام تراشی سے صرف اور صرف دشمنان دین کے مفادات فراہم ہوتے ہیں اور امت اسلامیہ میں تفرقہ پھیلتا ہے ،تیسری بات یہ ہےکہ الغدیر امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی شخصیت کوجوکہ اسلام کی مظلوم ترین شخصیت ہے اور جو تمام مسلمانوں کارہبر بننے کے قابل ہے ان کی اور ان کی ذریت کی شناخت کرواتی ہے ۔

 

 
الغدیر کے بارے میں علماء اسلام کے نظریات ۔

عالم اسلام کے علماء اور دانشورجو تعصب سے مبرا ہیں الغدیر کے بارے میں وہی نظریات رکھتے ہیں جوہم نے بیان کۓ ہیں ۔
محمدعبدالغنی حسن مصری الغدیر کی پہلی جلد طبع دوم کے مقدمے پر تقریظ میں لکھتے ہیں کہ خدا آپ کی اس غدیر کو کہ جس میں صاف وشفاف پانی ہے شیعہ اور سنی بھائیوں کےدرمیان صلح ودوستی کا باعث قراردے کہ وہ متحد ہوکر امت واحدہ کی بنیاد رکھیں ۔
مصر کے الکتاب رسالے کے مدیر عادل غضبان الغدیر کی تیسری جلد کے مقدمے میں لکھتے ہیں کہ یہ کتاب اھل تشیع کی منطق کوواضح کرتی ہے اور اھل سنت اس کتاب کےذریعے شیعہ فرقے کے بارے میں صحیح شناخت حاصل کرسکتے ہیں کیونکہ شیعوں کی شناخت سے شیعہ سنی نظریات قریب آئیں گے اور مجموعی طور سے سب ایک صف میں آجائیں گے ۔
جامع الازھر کے شعبہ اصول دین میں فلسفہ کے استاد ڈاکٹر محمد غلاب الغدیر کی چوتھی جلد کے مقدمےمیں لکھتے ہیں کہ”آپکی کتاب بہت مناسب وقت میں مجھے موصول ہوئی کیونکہ میں اس وقت مسلمانوں کے بارے میں ایک کتاب لکھ رہا ہوں اوریہ چاھتاہوں کہ اھل تشیع کے بارے میں صحیح معلومات حاصل کروں آپ کی کتاب سے مجھے بڑی مدد حاصل ہوگی اور میں شیعوں کےبارے میں دوسروں کی طرح غلطیاں نہیں کرونگا ۔
ڈاکٹر عبدالرحمن کیالی حلبی الغدیر کی چوتھی جلد کے مقدمے میں دور حاضر میں مسلمانوں کےانحطاط کےاسباب کاذکر کرتے ہوۓ اس انحطاط سے نجات حاصل کرنے کی راہوں کی نشاندھی بھی کرتے ہیں ان میں ایک راہ وصی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شناخت کو بھی قراردیتے ہیں وہ کہتے ہیں “کتاب الغدیر اور اس کے مستدل مطالب ایسے مطالب ہیں جن سے ہرمسلمان کو آگاہ ہونا چاہیے تاکہ انہیں معلوم ہوکہ مورخین نے کس طرح غلطیان کی ہیں اور حقیقت کہاں ہے کیاہے ہمیں اس کتاب کے ذریعے ماضی کی تلافی کرنی چاہیے اور کوشش کرکے اتحاد قائم کرنا چاہیے تاکہ اجر وثواب کے مستحق بن سکیں ۔
جی ہاں یہ تھی علامہ امینی کی نظر اتحاد اور عالم اسلام میں الغدیر کے مفید کردار کے سلسلے میں رضوان اللہ علیہ

 قومی میٹرو ٹرین کے پہلے سیمپل کی  8 اپریل بروز جعمرات کو صدر روحانی کی ویڈیو کانفرنس کے ذریعے تہران کے ویگن مینوفیکچرنگ میں نقاب گشائی کر دی گئی۔
نیشنل میٹرو ٹرین کا ایک قیمتی قومی منصوبہ ہے جو 18 مہینے کے عرصے میں ثمر بخش ثابت ہوا ہے اور 85 فیصد اندرونی توانائیوں کے بل بوتے پر اس منصوبہ کو مکمل کرنے کی کوشش جاری ہے جس کے بعد غیر ملکی کمپنیوں پر انحصار ختم ہو جائے گا۔
یہ منصوبہ نائب صدر برائے سائنس اینڈ ٹکنالوجی اور دیگر مختلف اندرونی کمپنیوں، نیز تہران کی ویگن مینوفیکچرنگ کمپنی، جہاد دانشگاہی، مپنا اور ایریکو کمپنی نے اپنے گزشتہ 20 سالہ تجربات کا استعمال کرتے ہوئے موجودہ ٹیکنالوجی کے مطابق میٹرو ٹرین کا ویگن بنانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔
حناچی: ایران کو آئندہ دس سالوں میں 5 ہزار میٹرو ویگن کی ضرورت
تہران کے میئر نے صدر روحانی کے ساتھ ہونے والی ویڈیو کانفرنس اور نیشنل میٹرو ٹرین کے سیمپل کی رونمائی کی تقریب سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: آئندہ دس سالوں میں ہمیں بڑے بڑے شہروں میں میٹرو ٹرین بحال کرنے کے لیے کم سے کم 5 ہزار ویگن کی ضرورت ہے۔
انہوں نے مزید کہا: بڑے شہروں کی ٹریفک کم کرنے اور شہروں کو آلودگی سے بچانے کے لیے سب سے بہترین طریقہ میٹرو لائن کو بچھانا ہے۔
تہران کے میئر نے مزید کہا: تہران میں اس وقت 7 میٹرو لائنیں ہیں جن کی لمبائی 246 کلو میٹر ہے۔
حناچی نے کہا: "چھٹے ترقیاتی منصوبے کے قانون کے آرٹیکل 58 کے مطابق ، 1400 کے آخر تک ، 2 ارب یورو سے زیادہ مالیت کے 2،000 ویگنوں کی فراہمی لازمی ہے۔"

عراقی ذرائع نے سیکورٹی کمیٹی کے حوالے سے بتایا ہے کہ چوبیس راکٹ اور ایک راکٹ لانچر صوبہ الانبار میں امریکی فوجی اڈے عین الاسد سے کچھ فاصلے پر کھڑی ایک مشکوک گاڑی میں نصب تھے۔

عراقی فوج اور سیکورٹی اداروں نے موقع پر پہنچ کر گاڑی کو اپنے قبضے میں لینے  کے بعد راکٹوں ناکارہ بنادیا۔
جمعرات کو عراق کے چند مسلح گروہوں نے ایک بیان جاری کیا تھا جس میں بغداد واشنگٹن اسٹریٹیجک مذاکرات کے تازہ دور کی جانب اشارہ کرتے ہوئے امریکی اہداف پر حملے کی دھمکی دی گئی تھی۔

پچھلے چند روز کے دوران عراق میں دہشت گرد امریکی فوج سینٹ کام کے متعدد لاجسٹگ کارروانوں کو حملوں کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

خانہ فرہنگ ایران لاہور میں علمائے اہلسنت و مشائخ  عظام نے ڈائریکٹر جنرل خانہ فرہنگ ایران جعفر روناس سے ملاقات کی۔ خانہ فرہنگ ایران لاہور میں مشائخ عظام اور اہلسنت  علمائے کرام  کے وفد نے ڈائریکٹر جنرل خانہ فرہنگ ایران جعفر روناس کو پاکستان میں خوش آمدید کہا۔ تلاوت قرآن کریم سے تقریب کا آغاز ہوا، پیر اختر رسول قادری، سجادہ نشین آستانہ عالیہ حق باہو والٹن لاہور نے تلاوت کی۔ اس کے بعد رضوان حسین نے نعت رسول مقبولﷺ پیش کی۔ دربار حضرت میاں میرؒ کے سجادہ نشین اور متولی پیر علی رضا شاہ گیلانی کا کہنا تھا کہ میں دربار عالیہ میاں میر سرکارؒ کا خدمتگزار ہونے کے ناطے آغا جان کو دوستوں کیساتھ پاکستان میں خوش آمدید کہتا ہوں۔ اس بزم کو سجانے میں شبیر احمد شگری کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے ہمیں دوبارہ اکھٹا کیا، ہماری خواہش ہے کہ یہاں پھر سے جشن اہلبیت کرام علیھم السلام، حسن قرات، تقریری مقابلوں کی محافل اور نمائشوں کی وجہ سے خانہ فرہنگ آباد ہو۔ یہاں موجود مشائخ اپنی اپنی جگہ بہترین مقام رکھتے ہیں اور ان میں سے ہر نفر کے پیچھے ہزاروں عقیدتمند موجود ہیں۔

امجد حسین چشتی جنرل سیکرٹری جمعیت علمائے پاکستان نیازی کا اس موقع پر کہنا تھا کہ ہم ڈائریکٹر جنرل خانہ فرہنگ ایران لاہور جعفر روناس کو پاکستان میں خوش آمدید کہتے ہیں۔ جب انقلاب اسلامی ایران آیا اور لوگوں نے امام خمینی ؒ کیخلاف باتیں کیں تو سب سے پہلے ہمارے قائد مولانا عبدالستار نیازی نے امام خمینیؒ کی حمایت کی، جو اس وقت ممبر اسبلی تھے۔ ہم قاسم سلیمانی کے چہلم کے موقع پر ایران گئے وہ صرف ایران کے نہیں ہر غیرتمند مسلمان کے لیڈر تھے۔ ہمارا یہ بھی مطالبہ ہے کہ پاک ایران گیس پائپ لائین کے منصوبے کو  بھی پورا کیا جائے۔ علمائے اہلسنت کونسل کے نائب صدر محمد حسین گولڑوی نے کہا کہ یہاں پر مشائخ عظام اور اتحاد بین المسلمین  کے قائدین موجود ہیں، ہم سب کی جانب سے ڈائریکٹر جنرل خانہ فرہنگ ایران لاہور جعفر روناس کو پاکستان اور شہر لاہور میں خوش آمدید کہتے ہیں۔ اس موقع پر محمد حسین گولڑوی نے پیر سید نصیر الدین نصیر کے فارسی میں خوبصورت اشعار اور نعتیہ کلام بھی پڑھا اور ساتھ ہی پیر مہر علی شاہ کے بارے میں بھی بتایا کہ وہ صرف صوفی نہ تھے بلکہ مدبر اور عالم دین بھی تھے، وہ شاعر ہفت زبان تھے اور ان کی فارسی کتاب "مجموعہ آغوش حیدر" تہران یونیورسٹی کے نصاب میں شامل ہے۔

جمعیت علمائے پاکستان نیازی کے چئیرمین معصوم حسین نقوی کا کہنا تھا کہ جمعیت علمائے پاکستان علما و مشائخ کی سب سے بڑی جماعت ہے، آج یہان موجود افراد سے آپ اندازہ لگا لیں کہ ہم آپ سے کتنا پیار کرتے ہیں اور جس طرح گزشتہ دور میں پروگراموں کا سلسلہ تھا اسے دوبارہ شروع کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم آپ کو خانہ فرہنگ کا ڈائریکٹر نہیں بلکہ امت مسلمہ کا سفیر بھی سمجھتے ہیں، اس لئے آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ خانہ فرہنگ ایران کے ڈائریکٹر جنرل  آقای جعفر روناس نے اس موقع پر  فرداً فرداً تمام علماء اور مشائخ کی آمد کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ میں یہاں روحانی اور عرفانی چہرے دیکھ کر خوش ہوا ہوں، خانہ فرہنگ آپ کا اپنا گھر ہے یہاں آپ کو دعوت دینے کی ضرورت نہیں۔ ان شاءاللہ یہ محافل اور ملاقاتیں جاری رہیں گی۔ رمضان المبارک کی آمد بھی نزدیک ہے اور میں آپ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ رمضان المبارک میں قرآنی محافل کے پروگرام بھی ہوں گے جن میں آپ بھی شرکت کریں۔

ڈائریکٹر جنرل خانہ فرہنگ کا مزید کہنا تھا کہ جمعتہ الوداع یوم القدس مسلمانوں کا اہم دن ہے جسے ہم سب کو بھرپور انداز میں منانا چاہیئے۔ تقریب میں علامہ اصغر عارف چشتی ترجمان مذہبی امور پاکستان تحریک انصاف مشائخ ونگ، مفتی سید عاشق حسین شاہ مہتمم دارالعلوم  فاطمۃ الزھرا سلام اللہ علیھا، پپیر امیر سلطان سجادہ نشین اوگالی شریف وادی سون، خوشاب پنجاب، سید مناظر حسین گیلانی، سید عقیل حیدر رابطہ سیکرٹری جمعیت علمائے پاکستان نیازی، اور ماہر امور فرہنگی شبیر احمد شگری موجود تھے۔ جنھوں نے ترجمان کے فرائض ادا کئے۔ تقریب کے آخر میں دعائے خیر کی گئی اور وحدت و یکجہتی کا اظہار کیا گیا۔

عرب میڈیا کے مطابق وزارت حج وعمرہ کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق شرائط وضوابط کا اطلاق یکم رمضان سے ہوگا۔

وزارت حج وعمرہ کا کہنا ہے کہ حرم شریف اور مسجد نبویﷺ میں کورونا ویکسین کی دونوں خوراکیں لگوانے والے ہی جاسکیں گے، ویکسین کی دونوں خوراکیں لگوانے والے حرمین میں عمرہ، زیارت اور نمازیں بھی ادا کرسکیں گے۔

سعودی وزارت حج کے مطابق عمرہ، زیارت اور نمازوں کی ادائیگی کے اجازت نامے مقررہ ایپس کے ذریعے ہی جاری کیے جائیں گے۔

وزارت حج وعمرہ کا کہنا ہے کہ نمازی مقررہ ایپس کی مدد سے مرضی کی تاریخ اور وقت کا تعین کرسکیں گے۔

بحرین الیوم کے مطابق بحرینی شیعہ عالم آیت‌الله عیسی قاسم نے عوام سے کہا کہ وہ آل خلیفہ کے قید میں موجود اسیروں کی رہائی کے لیے مظاہرہ جاری رکھیں۔
 
شیعہ رھنما نے کہا کہ دنیا کو معلوم ہونا چاہیے کہ مظلوم عوام اپنے حق کے لیے کس طرح سے میدان میں نکل آتے ہیں جبکہ وہ  مذہب، عقل اور ادب کے دائرے سے نکلتے بھی نہیں۔
 
انکا مزید کہنا تھا: جو انصاف رکھتا ہے ظلم برداشت نہیں کرتا وہ آپ پر جاری ظلم سے انکار نہیں کرسکتا وہ نہیں دیکھتا کہ آپ کے قیدی کورونا بحران میں اسیر ہیں۔ 
 
آیت‌الله عیسی قاسم نے کہا کہ عوام دائرہ ادب میں رہتے ہوئے اپنے حق کے لیے آواز بلند کریں اور مظاہروں میں املاک کو کسی طور نقصان نہ پہنچائیں۔
 
اس سے پہلے بھی  شیخ عیسی قاسم مظاہروں کو جاری رکھنے کی تاکید کرچکے ہیں۔
 
بحرینی عوام دو اپریل سے جیلوں میں بند اسیروں کی رہائی کے لیے سڑکوں پر نکل چکے ہیں جو کورونا بحران میں قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کررہے ہیں۔
 
گذشتہ رات بھی مختلف شہروں میں عوام نے قیدیوں کی رہائی کے لیے مظاہرے کیے۔/

 

 
اسپوٹنیک نیوز کے مطابق سعودی حکام نے رمضان المبارک کی آمد کے حوالے سے اتوار سے غلاف کعبہ کی مرمت، آرایش اور سجاوٹ کا کام شروع کردیا ہے ۔
 
پانچ روزہ غلاف کعبہ مرمت کے حوالے سے پروگرام میں سعودی ماہرین صحت اور دیگر اعلی حکام شریک ہیں۔
 
غلاف کعبہ کمیٹی کے انچارج فهد بن حضیض الجابرنے کہا کہ غلاف کعبہ کی دھلائی، گولڈن اور سونے کی تاروں سے سلائی اور سجاوٹ کا پروگرام شامل ہے۔
 
انکا کہنا تھاکورونا کے پیش نظر اس بار مرمت سازی میں ماہرین صحت کو خصوصی طور پر شامل کیا گیا ہے۔
 
ادارہ امور مسجدالحرام و مسجدالنبی کے مطابق رمضان میں خصوصی طور پر علمی مقابلوں کا اہتمام بھی «مناره الحرمین الشریفین» کے عنوان سے کی جارہا ہے.