سلیمانی

سلیمانی

 اسرائیل میں عام انتخابات سے تین روز پہلے ہزاروں افراد نے وزیر اعظم نتن یاہو کے گھر کے سامنے مظاہرہ کیا۔ مظاہرین نے اسرئیلی وزیراعظم نتن یاہو سے استعفے کا مطالبہ کیا۔ واضح  رہے کہ اسرائیل میں تین روز بعد ہونے والے انتخابات دو سال کے اندر ہونے والے چوتھے انتخابات ہونگے، اسرائیل میں سیاسی عدم استحکام کا سلسلہ جاری ہے۔

عید نوروز اور نئے  ایرانی شمسی سال کی مناسبت سے حضرت امام علی بن موسیٰ رضا علیہ السلام کے حرم مطہر کے تمام صحنوں میں قالینیں بچھائی گئیں اور پورا حرم عود، عنبراور گلاب کی خوشبو سے مہکا ہوا تھا،  تحویل سال( نئے سال  کے آغاز ) کے وقت نماز،دعا و قرآن خوانی میں شرکت کے لئے لوگوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی ۔

عید نوروز کے اس خصوصی پروگرام کو اسلامی جمہوریہ ایران کے تمام ٹی وی چینلوں پر براہ راست نشر کیا گيا ۔
اس پروگرام کے انعقاد کے وقت حرم مطہر کے تیس ہزاراعزازی خدام  پروگرام کو منظم کرنے،ماسک کی تقسیم،سینیٹائزر لگانے اور زائرین کوحفظان صحت سے متعلق نکات پرعمل کرنے کا مشورہ دینے میں مصروف رہے۔

آستان قدس  رضوی کے متولی حجت الاسلام احمد مروی نے جشن عید نوروز کے  پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ ہر سال دسیوں لاکھ زائرین کی  کوشش ہوتی ہے کہ خوشی و مسرت سے بھرپور ان لمحات کو حرم امام علی رضا علیہ السلام میں گزاریں لیکن کورونا کی وجہ سے گذشتہ سال بھی اور اس سال بھی ہم حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے زائرین و مہمانوں کی اس طرح پذیرائي نہ کرسکے جیسا کہ کورونا سے پہلے کے برسوں میں کیا کرتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ انشاء اللہ مومنین عید نوروز کے اس پر مسرت موقع پر اپنی توانائی کے مطابق غریبوں اور ضرورتمندوں کی مدد کریں گے تاکہ ہماری یہ عید نوروز حقیقی معنوں میں انسان دوستی، آپسی محبت و بھائی چارہ اور ایک دوسرے کے ساتھ نیکی و بھلائی کی مظہر ہو۔

حرم مطہر رضوی کے سربراہ اعلیٰ جناب محمد مہدی برادران نے اس بات پر تاکید فرماتے ہوئے کہ زائرین و مجاورین کی صحت و سلامتی کی حفاظت امام رضا علیہ السلام کی نورانی بارگاہ کی اولین ترجیح ہے ؛ کہا کہ جیسا کہ آستان قدس رضوی کے متولی نے بھی اس بات پر زور دیا ہے کہ عید نوروز میں حفظان صحت کے نکات پرسختی سے  نگرانی کی جائے گی  اور صحت سے متعلق  نکات پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے گا تا کہ زائرین بغیرکسی پریشانی کے امام علی رضا علیہ السلام کے حرم مطہر کی زیارت سے شرفیاب ہو سکیں۔
 

سنہ 1400 ہجری شمسی کے آغاز کی مناسبت سے رہبر انقلاب اسلامی کا پیغام حسب ذیل ہے؛

بسم اللّه الرّحمن الرّحیم

و الحمد للّه ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّدٍ و آله الطّاهرین

یا مقلّب القلوب و الأبصار. یا مدبّراللّیل و النّهار. یامحوّل الحول و الاحوال. حوِّل حالنا إلی أحسنِ الحال

اپنے سبھی عزیز ہم وطنوں بالخصوص شہیدوں اور اپنے اعضائے بدن کی قربانی دینے والے  جانبازوں کے لواحقین اور خود  جسمانی معذوری سے دوچار جانبازوں اور (مسلط کردہ جنگ میں حصہ لینے والے) سبھی فداکارسپاہیوں کو اور ان سب اقوام کو جو عید نوروز مناتی ہیں، عید نوروز اور نئے سال کے آغاز کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اس سال ہماری یہ عید (نوروز) شعبان کی عیدوں کے مبارک موقع پرآئی ہے اور ہمیں امید ہے کہ یہ مناسبت، ہمارے نئے  سال کے لئے مادی اور روحانی دونوں لحاظ سے، ان شاء اللہ بے شمار برکتوں کا باعث بنے گی ۔ سن 1400 (ہجری شمسی) اس لحاظ سے بہت متبرک ہے کہ اس میں  نیمہ شعبان دو بار آئے گی اور ہمارے عوام حضرت  ولی اللہ الاعظم یعنی امام مہدی (ارواحنا فداہ) کے یوم ولادت باسعات کا جشن دو بار منائیں گے۔

تیرہ سو ننانوے کے حوادث ، کورونا اور عوام کی زندگی پر اس کے اثرات

سن 1399 (ہجری شمسی) گوناگوں اور بعض ایسے حوادث کے ساتھ اپنے اختتام کو پہنچا ہے جو بے نظیر ہیں۔ انہی حوادث میں سے ایک جو واقعی ہماری قوم کے لئے بالکل نیا ہے، کورونا کی وبا  ہے، جس نے پوی قوم کی زندگی کو متاثر کیا ہے، لوگوں کا کام کاج، پڑھائی کا ماحول، دینی اجتماعات، مسافرتوں، کھیل کود اور ملک کے گوناگوں دیگر امور کو متاثر کیا اور ملک میں روزگار کو سخت نقصان پہنچایا۔ لیکن سب سے
زیادہ تکلیف دہ ہمارے دسیوں ہزارعزیز شہریوں کا موت سے ہم آغوش ہو جانا ہے جس نے دسیوں ہزار کنبوں کو غمزدہ اور سوگوار کر دیا۔ میں ان تمام عزیز خاندانوں کو تعزیت پیش کرتا ہوں اور ان کے غم میں شریک ہوں۔ خداوند عالم انہیں صبر و اجر عطا فرمائے اور مرحومین کی مغفرت  کرے اور ان پر رحمت نازل فرمائے۔

کورونا اور دشمنوں کے حداکثر دباؤ کے مقابلے میں ایرانی قوم کی توانائیاں

1399 (ہجری شمسی) ایک لحاظ سے قوم کی توانائیوں کے اجاگر ہونے کا سال تھا۔ اسی بڑے امتحان یعنی اسی کورونا کی وبا میں واقعی ہماری عزیز قوم، علاج و معالجے اور حفظان صحت کے مراکز سے لے کر، محققین اور سائنسدانوں تک، عوام کی ایک ایک فرد سے لے کر، جہادی تنظیموں اور رفاہی خدمات کے گروہوں تک، سبھی نے اس ناگوار حادثے کو کنٹرول کرنے میں، اپنی عظیم صلاحیتوں اور توانائیوں کو ثابت کر دیا اور وہ بھی پابندیوں کے زمانے میں،  دشمن کے حد اکثر دباؤ کی حالت میں۔ پابندیوں کے باوجود، ملک سے باہر کے وسائل سے استفادے کی سبھی راہوں کے بند ہونے کے باوجود ہماری قوم نے، ہمارے سائنسدانوں نے، ہمارے ڈاکٹروں اور نرسوں نے،  طبی مددگاروں اور پیرامیڈیکل اسٹاف نے، تجربے گاہوں اور ایکسرے کے مراکز میں کام کرنے والے افراد نے اور ان سبھی لوگوں نے جو علاج معالجے کے شعبے سے وابستہ ہیں، واقعی بڑے  تجربات کئے اور عظیم توانائیوں کا ثبوت دیا۔ اسی طرح ایرانی قوم نے بھی دشمن کے حد اکثر دباؤ کے مقابلے میں اپنی توانائیوں کو ثابت کر دیا۔

ہمارے دشمن جن میں سب سے آگے امریکا ہے، اپنے حد اکثر دباؤ سے ہماری قوم کو جھکا دینا چاہتے تھے۔ آج وہ خود اور ان کے یورپی دوست کہتے ہیں کہ حد اکثر دباؤ ناکام ہو گیا۔ ہم تو جانتے ہی تھے کہ ناکام ہوگا اور ہم دشمن کو شکست دینے کے لئے پرعزم بھی تھے۔ ہم جانتے تھے کہ ایرانی قوم استقامت دکھائے گی۔ لیکن آج وہ خود بھی اعتراف کر رہے ہیں  کہ یہ حد اکثر دباؤ ناکام ہو گیا۔

تیز رفتار پیداوار کا سلوگن توقع کے مطابق نہیں لیکن قابل قبول حدتک پورا ہوا

سن ننانوے (1399 ہجری شمسی) کا سلوگن "پیداوار میں تیزرفتار پیشرفت" تھا۔ میں اگر ان متعدد عوامی اور حکومتی اور مختلف مراکز اور اداروں کی رپورٹوں کی بنیاد پر جو مختلف ذرائع سے ہم تک پہنچتی ہیں، جائزہ لینا چاہوں تو کہوں گا کہ یہ سلوگن، ایک حد تک، کسی حدتک، قابل قبول حد تک پورا ہوا۔ یعنی مختلف میدانوں اور مختلف مسائل سے متعلق شعبوں میں پیداوار میں واقعی اچھال آیا ہے۔ اگرچہ اتنا  نہیں رہا جتنی توقع تھی۔ یعنی جن جگہوں پر یہ سلوگن پورا ہوا، جو زیادہ تر بنیادی  اور تعمیری امور میں تھا، اس کا نتیجہ، ملک کے عام اقتصادی حالات اور عوام کی معیشت میں نظر نہیں آیا۔ یعنی یہ رفتار محسوس نہیں ہوئی۔ جبکہ ہمیں یہ توقع تھی کہ پیداوار میں اچھال عوام کی حالت میں بہتری لائے گا۔ البتہ پیداوار میں اچھال کا سلوگن حقیقی معنوں میں ایک انقلابی اور بہت اہم سلوگن ہے۔ اگر واقعی ملک میں پیداوار میں اچھال آ جائے اور ان شاء اللہ آئے گا، تو ملک کے اقتصاد پر بھی بہت گہرے اثرات مرتب کرے گا، ملک کی کرنسی کی قدر بڑھے گی اور دیگر اہم اقتصادی مسائل میں اس کے اثرات مرتب ہوں گے۔ اس کے علاوہ  قومی خود اعتمادی بھی آئے گی، عوامی رضا مندی بھی پیدا ہوگی اور قومی سلامتی کی ضمانت بھی ہو جائے گی ۔ یعنی اگر ملک میں پیداوارمیں اچھال ہو، ان شاء اللہ یہ ہو جائے اور امید ہے کہ یہ ہوگا، تو اس کے نتائج اور فائدے بہت عظیم ہوں گے۔

پیداوار میں تیز رفتار ترقی کا سلوگن پورا نہ ہونے کے  عوام ، رکاوٹیں پیداوار کی عدم حمایت

اب دیکھنا یہ ہے کہ 1399 (ہجری شمسی) میں یہ اچھال کیوں نہیں آیا؟ اس لئے کہ ایک طرف تو رکاوٹیں تھیں اور دوسری طرف سبھی شعبوں میں پیداوار کو حمایت اور سپورٹ نہیں ملی۔ یعنی پیداوار کو سبھی لازمی قانونی اور حکومتی حمایت کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور اس بات کی بھی ضرورت ہوتی ہے کہ پیداوار کے راستے میں حائل رکاوٹیں دور کی جائیں۔ اب مثال کے طور پر فرض کریں، کوئی ادھوری فیکٹری، ایسا کارخانہ جس میں گنجائش کا صرف تیس چالیس فیصد کام ہو رہا ہے یا بالکل بند ہو گیا ہے۔ چند نوجوانوں کی ہمت سے یہ کارخانہ چلایا جاتا ہے، ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے، ہمت بندھائی جاتی ہے اور کارخانہ چلنے لگتا ہے۔ جب پیداوار شروع ہوتی ہے تو اچانک نظر آتا ہے کہ اس کی جیسی مصنوعات بیرون ملک سے درآمد کی جا رہی ہیں۔ خیانتکار اسمگلروں کے ذریعے یہ مصنوعات ملک میں لائی جاتی ہیں یا قانون میں پائی جانے والی  کمزوریوں سے فائدہ اٹھاکے قانونی راستے سے درآمد کی جاتی ہیں ۔ تو ظاہر ہے کہ اس پیداوار کی حوصلہ افزائی نہیں ہوگی۔ یہ پیداوار کے راستے میں رکاوٹ ہے۔ یعنی جو کام کیا گیا اس میں ناکامی ہاتھ لگتی ہے۔ اسی طرح حوصلہ افزائی اور حمایت کا نہ ہونا بھی ایک مشکل ہے۔ مثال کے طور پر سرمایہ کاری کے لئے حوصلہ افزائی کا فقدان۔ پیداواری کاموں میں سرمایہ کاری کے لئے ترغیبی پیکیج کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو لوگ سرمایہ کاری کر سکتے ہوں ان کی حوصلہ افزائی ہونی چاہئے۔ ضروری ہے کہ ملک میں کاروبارکے حالات ایسے ہوں کہ انہیں حوصلہ ملے کہ وہ یہ کام کریں۔ یا ان کے لئے پیداوار کے اخراجات نہ بڑھیں۔ لیکن افسوس کہ یہ امور انجام نہیں پائے۔ یعنی ضروری تقاضے پورے نہیں کئے گئے۔ نہ حوصلہ افزائی ہوئی اور نہ ہی پیداواری اخراجات کے بارے میں سوچا گیا۔ ایسے ہی کسی سال میں، شاید وہ 1399 نہیں تھا، اس سے پہلے کا، شاید 1398 کا سال تھا، پیداوار کے اخراجات فروخت کی  قیمت سے زیادہ تھے۔ یہ باتیں پیداوار کی پیشرفت میں رکاوٹ ہیں۔ ہم نے 1399 میں ایک طرح سے ملک میں یہ تحریک شروع کی۔ ایرانی قوم نے ایک معین اور محدود پیمانے پر پیداوار میں اچھال کا خیر مقدم کیا۔ اس کو جاری رہنا چاہئے۔

ملکی مسائل کو طویل المیعاد نقطہ نگاہ سے دیکھنے کی ضرورت

سن 1400 (ہجری شمسی) جو اس نئے سال کی آمد سے شروع ہو رہا ہے، درحقیقت ایک لحاظ سے نئی صدی  کا آغاز ہے۔ درحقیقت ںئی صدی شروع ہو رہی ہے۔ بنابریں ملک کے مسائل کو طویل المیعاد  نقطہ نگاہ  سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ان کا دراز مدتی نگاہ سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

چودہ سو ہجری شمسی سال کی اہمیت ، پیداوار میں اچھال اور تیز رفتار ترقی جاری رہنے کی ضرورت

 سن 1400 بہت ہی اہم اور حساس سال ہے۔ ان انتخابات کی وجہ سے بھی جو اوائل سال میں درپیش ہیں، سن 1400 کے (تیسرے مہینے) خرداد ماہ (مئی جون) میں اہم انتخابات ہوں گے۔ یہ انتخابات ملک کے حالات و واقعات اور مستقبل پر بہت زیادہ اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔  ںئی انتظامیہ اقتدار میں آئے گی۔ ان شاء اللہ تازہ دم اور گوناگوں جذبات کے ساتھ ملک میں نئی حکومت اجرائی امور کا انتظام سنبھالے گی۔ بنابریں ایک لحاظ سے اس سال کے انتخابات بہت حساس اور اہم ہیں۔ میں ان شاء اللہ انتخابات کے بارے میں بعد میں تقریر میں کچھ باتیں عرض کروں گا۔ اس گفتگو میں اتنے پر ہی اکتفا کروں گا۔ اس لحاظ سے کہ سن 1399 میں پیداوار میں ایک تحرک پیدا ہوا، پیداواری اچھال نے تحرک پیدا کیا-

چودہ سوہجری شمسی کا سلوگن ، پیداوار، اوررکاوٹوں کا ازالہ

 سن 1400 میں پیداواری اچھال کے اجاگر ہونے کے اچھے امکانات ہیں۔ اس سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنا چاہئے۔ اس مشن کو سنجیدگی سے آگے بڑھانا چاہئے۔ پیداواری اچھال کی بھرپور قانونی حکومتی اور سرکاری پشت پناہی کی جائے۔  موجودہ حکومت بھی جب تک اقتدار میں ہے اور آئندہ حکومت بھی اپنی تشکیل کی ابتدا سے ہی پوری کوشش کرے کہ اس راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرے اور ضروری حمایت کرے تاکہ ان شاء اللہ حقیقی معنی میں پیداواری اچھال آئے۔ لہذا میں نے اس سال کا سلوگن "پیداوار، حمایت اور رکاوٹوں کا ازالہ" قرار دیا ہے۔ یعنی سلوگن پیداوار، حمایت اور رکاوٹوں کا ازالہ ہے۔ ہم پیداوار کو محور قرار دیں، ضروری حمایت کریں اور پیداوار کے راستے سے رکاوٹیں دور کریں۔

امید ہے کہ ان شاء اللہ  خدا کے لطف و کرم سے  یہ سلوگن پورا ہوگا۔   ان شاء اللہ میں بعد کی تقریر میں ،  اس بارے میں اور اسی طرح انتخابات کے بارے میں بھی کچھ باتیں عرض کروں گا۔

امید ہے کہ ہمارے عظیم امام کی روح پاک اور ہمارے عظیم الشان شہیدوں کی ارواح ہم سے راضی ہوں گی اور یہ سال ایرانی قوم کے لئے مبارک سال ہوگا اور حضرت ولی عصر ارواحنا فداہ ایرانی قوم، حکام اور عوام کے لئے دعا کریں گے،  آپ کا فضل و کرم اس قوم کے شامل حال ہوگا اور جس طرح ماضی میں اس قوم پر آپ کی عنایت اور لطف و کرم رہا ہے، ان شاء اللہ اسی طرح جاری رہے گا۔

و السلام علیکم رحمت اللہ برکاتہ
 
 
 

امام زین العابدین علیہ السلام چونکہ فرزندرسول (ص)تھے اس لئے آپ میں سیرت محمدیہ کاہونالازمی تھا علامہ محمدابن طلحہ شافعی لکھتے ہیں کہ ایک شخص نے آپ کوبرابھلاکہا، آپ نے فرمایابھائی میں نے توتیراکچھ نہیں بگاڑا،اگرکوئی حاجت رکھتاہے توبتاتاکہ میں پوری کروں ،وہ شرمندہ ہوکرآپ کے اخلاق کاکلمہ پڑھنے لگا
(مطالب السؤل ص 267) ۔

علامہ ابن حجرمکی لکھتے ہیں ،ایک شخص نے آپ کی برائی آپ کے منہ پرکی آپ نے اس سے بے توجہی برتی، اس نے مخاطب کرکے کہا،میں تم کوکہہ رہاہوں، آپ نے فرمایا، حکم خدا”واعرض عن الجاہلین“میں جاہلوں کی بات کی پرواہ نہ کرو پرعمل کررہاہوں
(صواعق محرقہ ص 120)

علامہ شبلنجی لکھتے ہیں کہ ایک شخص نے آپ سے آکرکہاکہ فلاں شخص آپ کی برائی کررہاتھا آپ نے فرمایا کہ مجھے اس کے پاس لے چلو، جب وہاں پہنچے تواس سے فرمایابھائی جوبات تونے میرے لیے کہی ہے، اگرمیں نےایساکیاہوتوخدامجھے بخشے اوراگرنہیں کیاتوخداتجھے بخشے کہ تونے بہتان لگایا۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ مسجدسے نکل کرچلے توایک شخص آپ کوسخت الفاظ میں گالیاں دینے لگا آپ نے فرمایاکہ اگرکوئی حاجت رکھتاہے تومیں پوری کروں، ”اچھالے“ یہ پانچ ہزاردرہم ،وہ شرمندہ ہوگیا۔ ایک روایت میں ہے کہ ایک شخص نے آپ پربہتان باندھا،آپ نے فرمایامیرے اورجہنم کے درمیان ایک گھاٹی ہے،اگرمیں نے اسے طے کرلیاتوپرواہ نہیں جوجی چاہے کہواوراگراسے پارنہ کرسکاتومیں اس سے زیادہ برائی کامستحق ہوں جوتم نے کی ہے
(نورالابصار ص 127 ۔ 126) ۔

علامہ دمیری لکھتے ہیں کہ ایک شامی حضرت علی کوگالیاں دے رہاتھا،امام زین العابدین نے فرمایا بھائی تم مسافرمعلوم ہوتے ہو،اچھا میرے ساتھ چلو،میرے یہاں قیام کرو،اورجوحاجت رکھتے ہوبتاؤتاکہ میں پوری کروں وہ شرمندہ ہوکرچلاگیا(حیواۃ الحیوان جلد 1 ص 121) ۔ علامہ طبرسی لکھتے ہیں کہ ایک شخص نے آپ سے بیان کیاکہ فلاں شخص آپ کوگمراہ اوربدعتی کہتاہے،آپ نے فرمایاافسوس ہے کہ تم نے اس کی ہمنشینی اوردوستی کاکوئی خیال نہ کیا، اورا سکی برائی مجھ سے بیان کردی،دیکھویہ غیبت ہے ،اب ایساکبھی نہ کرنا(احتجاج ص 304) ۔ جب کوئی سائل آپ کے پاس آتاتھا توخوش ومسرورہوجاتے تھے اورفرماتے تھے خداتیرابھلاکرے کہ تومیرازاد راہ آخرت اٹھانے کے لیے آگیاہے (مطالب السؤل ص 263) ۔ امام زین العابدین علیہ السلام صحیفہ کاملہ میں فرماتے ہیں خداوندمیراکوئی درجہ نہ بڑھا،مگریہ کہ اتناہی خودمیرے نزدیک مجھ کوگھٹا اورمیرے لیے کوئی ظاہری عزت نہ پیداکرمگریہ کہ خودمیرے نزدیک اتنی ہی باطنی لذت پیداکردے۔

امام زین العابدین (ع) اورفقراء مدینہ کی کفالت

علامہ ابن طلحہ شافعی لکھتے ہیں کہ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام فقراء مدینہ کے سوگھروں کی کفالت فرماتے تھے اورساراسامان ان کے گھرپہنچایاکرتے تھے جنہیں آپ بہ بھی معلوم نہ ہونے دیتے تھے کہ یہ سامان خوردونوش رات کوکون دے جاتاہے آپ کااصول یہ تھاکہ بوریاں پشت پرلادکر گھروں میں روٹی اورآٹا وغیرہ پہنچاتے تھے اوریہ سلسلہ تابحیات جاری رہا، بعض معززین کاکہناہے کہ ہم نے اہل مدینہ کویہ کہتے ہوئے سناہے کہ امام زین العابدین کی زندگی تک ہم خفیہ غذائی رسد سے محروم نہیں ہوئے۔ (مطالب السؤل ص 265 ،نورالابصار ص 126) ۔

امام زین العابدین اورصحیفہ کاملہ

کتاب صحیفہ کاملہ آپ کی دعاؤں کامجموعہ ہے اس میں بے شمارعلوم وفنون کے جوہرموجودہیں یہ پہلی صدی کی تصنیف ہے (معالم العلماء ص ۱ طبع ایران)۔ اسے علماء اسلام نے زبورآل محمداورانجیل اہلبیت کہاہے (ینابیع المودۃ ص 499 ،فہرست کتب خانہ طہران ص 36) ۔ اوراس کی فصاحت وبلاغت معانی کودیکھ کراسے کتب سماویہ اورصحف لوحیہ وعرشیہ کادرجہ دیاگیاہے (ریاض السالکین ص ۱) اس کی چالیس شرحیں ہیں ان میں ریاض السالکین کو فوقیت حاصل ہے۔

امام زین العابدین عمربن عبدالعزیزکی نگاہ میں

86 ھ میں عبدالملک بن مروان کے انتقال کے بعداس کابیٹاولید بن عبدالملک خلیفہ بنایاگیایہ حجاج بن یوسف کی طرح نہایت ظالم وجابرتھا اسی کے عہدظلمت میں عمربن عبدالعزیزجوکہ ولیدکاچچازادبھائی تھا حجازکاگورنرہوایہ بڑامنصف مزاج اورفیاض تھا ،اسی کے عہدگورنری کاایک واقعہ یہ ہے کہ 87 ھ ء میں سرورکائنات کے روضہ کی ایک دیوارگرگئی تھی جب اس کی مرمت کاسوال پیداہوا، اوراس کی ضرورت محسوس ہوئی کہ کسی مقدس ہستی کے ہاتھ سے اس کی ابتداء کی جائے توعمربن عبدالعزیزنے حضرت امام زین العابدین علیہ السلام ہی کوسب پرترجیح دی (وفاء الوفاء جلد 1 ص 386) ۔ اسی نے فدک واپس کیاتھا اورامیرالمومنین پرسے تبراء کی وہ بدعت جومعاویہ نے جاری کی تھی، بندکرائی تھی۔

امام زین العابدین علیہ السلام کی شہادت

آپ اگرچہ گوشہ نشینی کی زندگی بسرفرمارہے تھے لیکن آپ کے روحانی اقتدارکی وجہ سے بادشاہ وقت ولیدبن عبدالملک نے آپ کوزہردیدیا،اورآپ بتاریخ 25 محرم الحرام 95 ھ مطابق 714 کودرجہ شہادت پرفائزہوگئے امام محمدباقرعلیہ السلام نے نمازجنازہ پڑھائی اورآپ مدینہ کے جنت البقیع میں دفن کردئیے گئے علامہ شبلنجی ،علامہ ابن حجر،علامہ ابن صباغ مالکی، علامہ سبط ابن جوزی تحریرفرماتے ہیں کہ ”وان الذی سمہ الولیدبن عبدالملک“ جس نے آپ کوزہردے کر شہیدکیا،وہ ولیدبن عبدالملک خلیفہ وقت ہے (نورالابصار ص128 ،صواعق محرقہ ص 120 ،فصول المہمہ، تذکرہ سبط ابن جوزی، ارجح المطالب ص 444 ، مناقب جلد 4 ص 131) ۔ ملاجامی تحریرفرماتے ہیں کہ آپ کی شہادت کے بعدآپ کاناقہ قبرپرنالہ وفریادکرتاہوا تین روزمیں مرگیا (شواہد النبوت ص 179 ، شہادت کے وقت آپ کی عمر57 سال کی تھی

وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ملک کا جغرافیائی مقام خطے میں پائیدار امن اور سلامتی پر انحصار کرتا ہے، ایران ایک بھرپور ذریعہ کے طور پر پاکستان کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرسکتا ہے۔ یہ بات انہوں نے اسلام آباد سکیورٹی ڈائیلاگ فورم کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے کہا کہ معاشی اہداف کا حصول اور ملک کے اسٹریٹجک مقام سے فائدہ اٹھانا اور خطے میں سلامتی اور امن کے قیام کے بغیر حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ عمران خان نے کہا کہ افغانستان میں خصوصاً چین سے پاکستان کے وسط ایشیاء تک افغانستان کے راستے تجارتی راستہ امن علاقائی نقل و حمل کی سلامتی کے لئے بھی اہم ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران ہمارے ملک کے ساتھ ہی واقع ہے اور یہ توانائی کا ایک ذریعہ ہے، جس کے ذریعے وہ پاکستان کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرسکتا ہے۔

یمن پر سعودی عرب کی سربراہی میں جارح عرب اتحاد کی جانب سے تھونپی گئی جنگ تقریبا ایک ماہ بعد ساتویں سال میں داخل ہو جائے گی۔ اس جنگ میں اب تک بیگناہ یمنی خواتین، بچوں اور بوڑھوں کے قتل عام کے علاوہ سعودی عرب کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو سکا۔ یمن میں "عین الانسانیہ" نامی انسانی حقوق کے مرکز نے حال ہی میں ایک رپورٹ شائع کی ہے جس کے مطابق 25 مارچ 2015ء سے شروع ہونے والی یمن کی جنگ میں اب تک 43 ہزار 397 عام شہری شہید اور زخمی ہو چکے ہیں۔ اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ 17 ہزار سے زیادہ عام شہری شہید ہوئے ہیں جن میں 3804 بچے اور 2389 خواتین شامل ہیں۔ دوسری طرف جنگ کے دوران زخمی ہونے والے عام شہریوں کی تعداد 26 ہزار سے زیادہ ہے۔
 
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل خبردار کر چکے ہیں کہ جنگ کے نتیجے میں یمن کی صورتحال شدید بحرانی صورت اختیار کرتی جا رہی ہے اور عنقریب اس ملک میں دنیا کا بدترین قحط اور غذائی قلت آنے والی ہے۔ ان تمام مشکلات کے ساتھ ساتھ کرونا وائرس کے پھیلاو سے پیدا ہونے والی وبا کا بھی اضافہ ہو چکا ہے۔ اس نابرابر جنگ میں سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور دیگر مغربی ممالک سے خریدا گیا اسلحہ اور جنگی سازوسامان استعمال کر رہے ہیں۔ یمن کے وزیر صحت طہ متوکل نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ گذشتہ چھ برس کے دوران سعودی عرب نے مغربی طاقتوں سے حاصل ہونے والے اسلحہ کی مدد سے یمن کے 523 اسپتال، ڈسپنسریاں اور مراکز صحت نابود کر دی ہیں۔
 
12 فروری 2021ء کے روز اقوام متحدہ کے چار ذیلی اداروں، ورلڈ فوڈ پروگرام، فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن، اقوام متحدہ کا بچوں کا فنڈ اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے اپنی مشترکہ رپورٹ میں اعلان کیا: "یمن میں کم از کم چار لاکھ پانچ سال سے کم عمر کے بچے ایسے ہیں جو اس سال (2021ء) موجودہ حالات جاری رہنے کے نتیجے میں بھوک کے باعث اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔" یہ شدید وارننگ ایسے حالات میں سامنے آئی ہے جب یمن پر تھونپی گئی جنگ کے چھ سال گزر جانے کے بعد یمن کی اسی فیصد آبادی اپنی زندگی جاری رکھنے کیلئے انسانی بنیادوں پر غیر ملکی امداد کی محتاج ہو چکی ہے۔ اقوام متحدہ کے تحت سرگرم انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی اس بارے میں شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔
 
انسانی حقوق کی تنظیموں کی جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گذشتہ سال کی نسبت اس سال پانچ سال سے کم عمر کے بچوں میں شدید بھوک اور غذائی قلت میں 22 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ قحط اور غذائی قلت کے شکار ہونے کا خطرہ عدن، تعز، حدیدہ اور صنعا میں زیادہ شدید ہے۔ دوسری طرف یہ تشویش بھی پائی جاتی ہے کہ یمن میں 12 لاکھ حاملہ اور بچوں کو دودھ پلانے والی خواتین بھی شدید غذائی قلت کا شکار ہو جائیں گی۔ اقوام متحدہ کے ادارے ریلیف اینڈ ہیلپ ایجنسی نے اعلان کیا ہے یمن میں انسانی امداد رسانی کیلئے فوری طور پر چار ارب ڈالر درکار ہیں جن میں سے اب تک صرف 1.9 ارب ڈالر ہی اکٹھے ہو سکے ہیں۔
 
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاوس میں اپنے آخری ایام کے دوران سعودی عرب کی سربراہی میں جارح عرب اتحاد کے اصرار پر ملک کا دفاع کرنے میں مصروف عوامی رضاکار فورس انصاراللہ کو دہشت گرد گروہوں کی فہرست میں شامل کر دیا تھا۔ دوسری طرف جو بائیڈن کی سربراہی میں امریکہ کی نئی حکومت نے 16 فروری 2021ء کے دن انصاراللہ یمن کو اس فہرست سے خارج کر دیا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ اینتھونی بلینکن نے یمن کے خلاف جاری جنگ کے حقیقی مسببین کی جانب اشارہ کئے بغیر دعوی کیا ہے کہ امریکہ یمن سے درپیش خطرات کا مقابلہ کرنے کیلئے اپنی اتحادی خلیجی ریاستوں کی مدد کرنے کا عہد کر چکا ہے۔ یمن کے خلاف سعودی اتحاد کی حمایت کا آغاز براک اوباما کے دور حکومت سے ہوا جو اب تک جاری ہے۔
 
اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس اسٹڈیز انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق 2015ء سے لے کر اب تک امریکہ سعودی عرب کو اسلحہ فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک رہا ہے۔ سعودی عرب نے اس دوران دنیا بھر سے خریدے ہوئے اسلحہ کا ء سے لے کر اب تک امریکہ سعودی عرب کو اسلحہ فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک رہا ہے۔ سعودی عرب نے اس دوران دنیا بھر سے خریدے ہوئے اسلحہ کا  فیصد حصہ امریکہ سے حاصل کیا ہے۔ یمن کے خلاف جنگ شروع ہونے سے پانچ سال پہلے سعودی عرب امریکہ سے تین ارب ڈالر کا اسلحہ خرید چکا تھا۔ یہ مقدار 2015ء سے 2020ء تک بڑھ کر 64.1 ارب ڈالر تک پہنچ گئی تھی۔ یعنی سالانہ دس ارب ڈالر کا اسلحہ سعودی عرب امریکہ سے خریدتا آیا ہے۔
 
 
تحریر: محسن ایران دوست
Wednesday, 17 March 2021 21:43

یمن کا پاک لہو

دنیا حیرت کے مارے انگشت بہ دندان ہے، یہود و نصاریٰ اور آل سعود کے ایوانوں میں انسان نما مخلوق دنگ رہ گئی ہے کہ جمہوریہ یمن کے جس محاذ کو محمد بن سلمان 3 ہفتوں میں فتح کرنے کی آرزو رکھتا تھا، وہ آرزو یمنی مجاہدین کے برہنہ پاؤں تلے روندی جا چکی ہے اور اس محاذ کو 6 سال بیت چکے ہیں جبکہ اتنی طولانی مدت کا خمیازہ سعودیہ کی اقتصاد کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں دو ایسے اسلامی ممالک ہیں، جن کو جغرافیائی اعتبار سے شکست دینا تقریباً ناممکن ہے اور وہ دو ممالک "افغانستان اور یمن" ہیں۔ اس کی دو وجوہات ہیں: ۱۔ یہاں پر موجود مشکلات اور وسائل کی عدم فراہمی ہر صاحبِ عقل کو یہاں سے باہر نکلنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔ ۲۔ یہاں کے لوگوں کی مقاومت، ان کا پختہ عزم اور سب سے بڑھ کر خدا پر توکّل ان کو صبحِ نو دکھاتا ہے۔ اسی لیے یمن کو شکست دینا محلّات میں بیٹھی شہنشایت کا کام نہیں، "زمین کہاں آسمان کہاں؟" پس سعودیہ، یمن میں آ کر مکمل طور پر پھنس چکا ہے۔

یمن نے 2000ء میں اپنی عسکری طاقت کی ایک وسیع و عریض نمائش کی، جس کے بعد امریکہ نے یمن سے دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ اس دوستی کا صلہ اس وقت کے صدر "علی عبداللہ صالح" کو تب ملا جب امریکہ نے اسے دو اختیارات کے مابین لا کھڑا کیا، یا تو وہ یمن کی عسکری قدرت کو تباہ کرے، یا حکومت کی کرسی سے دستبردار ہو جائے۔ منصب کی لالچ میں آکر علی عبداللہ صالح نے 2005ء میں امریکی عہدہ داران اہلکاروں کی زیر نگرانی، یمن کے فضائی و بحری عسکری ذخائر کو جدعان کے علاقے میں تباہ کر دیا، جس پر وہاں موجود امریکی عہدہ داران نے تالیاں بجا کر خوشی کا اظہار کیا۔ اسی بات کو ذہن نشین رکھتے ہوئے سعودی عرب نے 2015ء میں اپنے اتحادی ملک امریکہ کیساتھ ملکر یمن پر جنگ مسلط کی، جس کا سنگِ بنیاد یمن کی شہری آبادی پر گولہ باری کرکے متعدد بےگناہ شہریوں کو شہید کرکے رکھا گیا۔

ستم تو تب ہوا جب نام نہاد اسلامی اتحادی بلاک نے بھی سعودیہ کا ساتھ دیتے ہوئے یمنی شہداء کے خون سے اپنے ہاتھوں کو رنگ لیا۔ سعودیہ نے پہلے یمن کا مکمل طور پر محاصرہ کرکے اس کی اشیائے خورد و نوش سمیت ہر قسم کی ترسیل کو مکمل طور پر بند کر دیا اور پھر وحشیانہ فضائی حملے کرکے آئے روز بےگناہ بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کو شہید کرتا چلا گیا۔ اس سفاک مجرم نے سکول، مدارس، مساجد، شادی ہالز، بچوں کی سکول بَس اور عام شہریوں کے گھروں کو بخوبی و اَحسن نشانہ بنا کر ظلم و بربریت کا تمغہ اپنے نام کیا۔ اس وحشی درندے نے یمن میں بےگناہ شہریوں کے خون کی ہولی کھیلی اور ان کو ہر قسم کے انسانی حقوق سے محروم کر دیا۔

اب ایسے میں جب یمن کا پاک لہو کھول اٹھا اور حوثی مجاہدین اپنے عزیز و اَقارب کے خون کا جائز انتقام لینے اور سلب شدہ انسانی حقوق کو غاصبوں سے واپس لینے کیلئے بھوکے، پیاسے، برہنہ پا ہو کر خدا پر توکّل کرتے ہوئے میدان میں آئے اور دشمن کو مختلف محاذوں پر لوہے کے چنے چبوائے، تب جا کر دشمن کی چیخوں کی آوازیں دنیا کو سنائی دیں اور مسئلہ یمن دنیا کے سامنے اُبھر کر آیا۔ یمنی مجاہدین آزاد، خود مختار، شجاع، غیرتمند اور باوفا لوگ ہیں، جو ذلت و رسوائی کو کبھی قبول نہیں کرتے۔ یمن کے محصور مگر خداداد صلاحیتوں کے حامل ذہین ترین سائنسدانوں نے مختصر مدت کے اندر اپنا دفاعی سامان تیار کرتے ہوئے خود ساختہ ڈرون طیارے، کروز میزائلز اور بلاسٹک میزائلز بنا ڈالے، جنہوں نے اس جنگ کی کایا ہی پلٹ دی۔

حوثی مجاہدین نے دشمن کو اپنے اکثر و بیشتر محاذوں سے بھگا کر سعودیہ کی حدود کے قریب کر دیا اور ان کے ہزاروں کرائے کے فوجیوں کو جہنم واصل کرکے بہت سارے فوجیوں کو قیدی بنا لیا، بلکہ اب تو کچھ محاذوں پر یہ جنگ سعودیہ کی سرحد کے اندر لڑی جا رہی ہے، جن میں سعودی علاقے "نجران اور جیزان" شامل ہیں۔ بِنابَراَیں یہ جنگ یمن کے متعدد محاذوں پر بھی جاری ہے، جن میں "مأرب، تعز، الحُدیدۃ" سمیت دیگر کچھ علاقے شامل ہیں۔ یمنی مجاہدین نے سعودیہ کے وحشیانہ حملوں کے نتیجے میں جوابی کارروائی کرتے ہوئے "توازن الردع(توازن کی خاطر جوابی حملے)" کے نام سے ابھی تک سعودی عرب کے وسط میں 6 بڑے حملے کیے ہیں، جس میں سعودیہ کے حساس مقامات کو نشانہ بنایا گیا۔ ان حملوں میں یمنی میزائلز اور ڈرون طیاروں نے سعودیہ میں نصب شدہ جدید ترین امریکی دفاعی سسٹم "پیٹریوٹ(Patriot)" کے ریڈار کو ناکام بنا کر اپنے اہداف کو نشانہ بنایا۔ جس کے نتیجے میں سعودیہ کو بےشمار خسارہ اٹھانا پڑا۔

یمنی مسلح افواج کی جانب سے اس نوعیت کا آخری حملہ 7 مارچ 2021ء کو کیا گیا، جس میں یمنی مجاہدین نے سعودی بندرگاہ "رأس التنورة" میں موجود "آئل ریفائنری کمپنی آرامکو" کو متعدد "صمّاد3" ڈرون طیاروں اور "ذوالفقار" نامی ایک بلاسٹک میزائل سے اپنا کامیاب ہدف بنایا۔ جس کے بعد سعودی عرب نے ہمیشہ کی طرح اس حملے کا الزام بھی ایران کے سر پر تھونپ دیا۔ یمن کا ابھی تک سعودیہ کی جانب سے گھیراؤ جاری ہے، جس کے باعث انہیں غذائی قلت کا بھی سامنا ہے مگر سعودیہ، ہمیشہ ایران پر الزام لگاتے ہوئے کہتا ہے کہ ایران یمن میں میزائلز، ڈرون طیارے اور اپنے فوجی بھیجتا ہے، لیکن آج تک سعودیہ اس کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں دے سکا، کیونکہ زمینی حقائق بھی اس کی نفی کرتے ہیں، جہاں یمنیوں کا محاصرہ کرکے ان کی طبی و غذائی ترسیل کو روکا جا رہا ہے، وہاں ایران کیسے اپنے میزائل یا فوجی بھیج سکتا ہے؟ اور ویسے بھی قیدیوں کے تبادلے کے نتیجے میں سعودیہ نے یمن کو ہمیشہ یمنی مجاہدین ہی واپس کیے ہیں، کبھی ایک بھی ایرانی فوجی واپس نہیں کیا جبکہ یمن کی جانب سے سعودیہ کو سعودی، اماراتی، سوڈانی اور دیگر جنسیات کے فوجی واپس کیے جاتے ہیں جو کہ کرائے کے فوجی ہوتے ہیں۔

یمن کی تنظیم انصار اللہ کے قائد اور مجاہدین انتہائی بہادر و شجاع ہیں کہ جس کے بارے میں سید العرب سید حسن نصراللہ (روحی لہ الفداء) فرماتے ہیں: "اے کاش! میں آپ کے ساتھ ہوتا۔ اے کاش! میں آپ کے باعزت و شجاع قائد کے پرچم تلے، آپ کے جنگجوؤں میں سے ایک جنگجو ہوتا۔" اسی یمنی قوم کے بارے میں رہبر معظم سید علی خامنہ ای(دامت برکاتہ) فرماتے ہیں: "یمنی قوم ایسی قوم ہے، جس میں خداداد صلاحتیں پائی جاتی ہیں۔" محمد بن سلمان کے ہوتے ہوئے بظاہر یمن کی یہ جنگ نہیں رُک سکتی، کیونکہ وہ اس جنگ کو کینے کی آگ سے کھیل رہا ہے، جس کی طرف سید العرب (روحی لہ الفداء) نے 2020ء کے اپنے آخری انٹرویو میں فرمایا: "سعودیہ ان چند سالوں میں عقل سے کام نہیں لے رہا بلکہ کینہ پروری سے چل رہا ہے۔ یمن کے خلاف اس جنگ میں کونسی عقلمندی، کونسی منطق، کونسی اقدار، کونسا قانون، کونسا مفاد اور کونسا اصول ہے؟ یہ جنگ صرف عناد و کینے سے لبریز ہے۔"

اس کے علاوہ اقوام متحدہ بھی یمن کے معاملے میں ظالم کا ساتھ دیتے ہوئے نظر آتی ہے، جو یمنی غیرتمند قوم کے سامنے ایسی شرطیں پیش کر رہی ہے، جو صرف سعودیہ کے مفاد میں ہیں اور ایسی صورت میں کبھی بھی جنگ بندی نہیں ہوسکتی۔ ایک طرف سعودیہ جنگ بندی کا ڈھنڈورا پیٹتا ہے اور دوسری طرف مجرمانہ حملے کرتا ہے۔ اسی لیے "اقوام متحدہ یمن" میں موجود انصار اللہ کے رُکن محمد البُخیتی نے کہا ہے: "یہ لوگ اصولاً ہی اَمن و سلامتی کا انکار کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک سلامتی کا تصور یہ ہے کہ یمن اپنے حملے بند کر دے جبکہ سعودیہ، یمن پر اپنے حملے جاری رکھے۔ یعنی سلامتی کے متعلق انکا فہم، شکست خوردہ ہونا ہے جبکہ یمن کبھی بھی شکست خوردہ نہیں ہوسکتا۔ یمن ایک طاقتور ملک ہے۔"

یمنی مسلح افواج اور مجاہدین آخری چند عرصے میں مسلسل سعودیہ پر قہر بن کر ٹوٹ رہے ہیں، جس کے باعث سعودیہ کی چیخیں بلند ہو رہی ہیں، جس میں "مذاکرات، مذاکرات" کی آوازیں گونج رہی ہیں۔ سعودیہ سلامتی نہیں چاہتا مگر حوثی مجاہدین اپنے اس عمل سے سعودیہ کو سلامتی پر مجبور کر رہے ہیں کہ جس کا ثمرہ شاید ہمیں یمن میں سلامتی کی صورت میں مل سکتا ہے۔ روایات میں ظہورِ امام مہدیؑ کے حوالے سے یمن کے حالات پر نظر رکھنے کی بہت تاکید کی گئی ہے۔ اِن شاء اللہ وہ دن دور نہیں جب "یمن کا پاک لہو" ظہور کی راہ ہموار کر دے گا اور استعمار و استکبار کے نجس ایوانوں کو تہہ و بالا کر دے گا، *"إِنَّهُمْ يَرَوْنَهُ بَعِيْدًا. وَّنَرَاهُ قَرِيْبًا. ترجمہ: وہ لوگ اسے دور سمجھتے ہیں جبکہ ہم اسے قریب دیکھ رہے ہیں(سورۃ المعارج/6،7)"۔

تحریر: سید محمد علی نقوی

تمہید:

ہر انسان اپنی زندگی کے مختلف ادوار میں نشیب و فراز سے دوچار ہوتا ہے، وہ مختلف قسم کی مشکلات اور دشواریوں کا سامنا کرتا ہے۔ عام طور پر لوگ مشکلات کے سامنے ہارمان کر اپنے آپ کو حالات کے بہاؤ کے حوالے کر دیتے ہیں۔ لیکن انسانوں کے درمیان کچھ اس طرح کے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو معاشرے میں موجود سخت ترین حالات اور کٹھن سے کٹھن لمحات میں بھی پائداری کا ثبوت  دیتے ہوئے ایک ذرّےبھی اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹتے ، یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ کے بھیجے ہوئے نمائندوں کی صحیح طرح سے معرفت حاصل کی اور اپنی زندگی  امامت اور ولایت کی اطاعت میں گزاری ۔ ائمہ اطہار  ؑ کو اپنی زندگی میں نمونہ اور آیڈیل قرار دیا ۔ ایثار و وفا کے پیکر، حیدر کرار ؑ کی تمنا ، ام البنین (س) کی آس ، حسنینؑ کے قوت بازو ، زینب و ام کلثوم (علیہما السلام) کی ڈھارس ، قمر بنی ہاشم حضرت ابوالفضل العباس ؑ کا شمار انہی افراد میں ہوتا ہے

آپ ؑ نے اپنی زندگی میں بہت نشیب و فراز دیکھے ان سب کا بیان ایک مقالہ میں ممکن نہیں ۔ آپ ؑ کو تین معصوم اماموں ؑ کا زمانہ درک کرنے کا شرف حاصل رہا اور آپ ؑ نے کماحقہ ہر ایک سے کمال فیض حاصل کیا۔ پوری زندگی میں ایک لمحے کے لئے بھی امام حق کی اطاعت میں آپ کے قدم نہیں ڈگمگائے۔

  مدینے میں ام البنین(س)کے  چاند کا طلوع:

  حضرت عباسؑ کے سن ولادت میں مؤرخین نے اختلاف کیا ہے لیکن ان اقوال میں سے دو قول مشہور ہیں کہ آپ 4شعبان المعظم سنہ 23 یا 26ہجری کو مدینہ منورہ میں پیدا  ہوئے۔

 یہ بات حکمت سے خالی نظر نہیں آتی کہ امام حسین ؑ نے 3شعبان المعظم کو اپنے وجود سے اس جہان خاکی کو منور فرمایا اور 4شعبان کو حضرت ابوالفضل العباسؑ اس دنیا میں آئے  یوں ان دو ہستیوں کا آپس میں ایک خاص ارتباط سے انکار نا ممکن ہے۔

حضرت علی ؑ کو اپنے مستجاب تمنا کی آمد پر خوشی:

  جب امیرالمومنین حضرت علی ؑ کو حضرت عباسؑ کی ولادت کی بشارت دی گئی تو  آپؑ خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے، جلدی گھر آئے بچے کو آغوش میں لیا اور نومولود کے دائیں کان میں آذان اور بائیں کان میں اقامت کہی، حضرت علیؑ کا یہ طرز عمل شاید عام لوگوں کو معمولی لگے لیکن حضرت علی ؑ اپنے مستجاب دعا کو بد و تولد میں ہی یکتا پرستی کا سبق پڑھا رہے تھے، چونکہ حضرت علی ؑ اپنی دوررس نگاہوں سے دیکھ رہے تھے کہ ان کے بیٹا عباس ؑ گوش شنوا اور چشم بینا رکھتے ہیں اور تاریخ نے یہ ثابت کیا ہے کہ حضرت عباسؑ نے اپنی پوری حیات بابرکت میں ایک لحظہ کے لئے بھی حق کے راستے میں شک کا شکار نہیں ہوئے اور ہمیشہ اپنے امام وقت کی اطاعت اور پیروی میں زندگی گزاری۔ امام علیؑ نے اپنے نو مولود کا نام عباس(یعنی بپھرا ہوشیر)رکھا۔

عباس کا بچپن، لڑکپن اور جوانی عصمت و طہارت کے سایہ تلے گذری۔ انہوں نے اس موقع سے اپنے لئے پورا فائدہ اٹھایا۔ باپ نے جس غرض کے لئے آپ کو مانگا  تھا اس پر پورے اترے اور کربلا میں آپ نے وہ کردار ادا کیا جو رہتی دنیا تک دوسروں کے لئے نمونہ عمل رہے۔

 امام علی ؑ نے کان میں اذان و اقامت اور نامگذاری کے مراسم انجام دینے کے بعدحضرت عباس کو فرزند رسولﷺ ، لخت جگر بتول حضرت امام حسین ؑ کی آغوش میں دیا۔ آقا حسینؑ نے اپنے قوت بازو کو اپنی باہوں میں سمیٹ لیا، مولا حسینؑ کی خوشبو محسوس کر کے حضرت عباسؑ نےولادت کے بعد پہلی بار آنکھیں کھولیں اور اپنے بھیا کے چہرے کی زیارت کی اس منظر کی شاعر نے یوں نقشہ کشی کی ہے۔

 

ہے گود میں شبیر کے تصویر وفا کی              

    اک آنکھ ہے مسرور تو اک آنکھ ہے باکی

 

  میرا دل کہہ رہا ہے شاید حضرت عباسؑ مولا حسین ؑ کی آغوش میں پہلی بار آنکھیں کھول کر اپنے مولا و آقا حسینؑ کے چہرے کی زیارت کے ساتھ، اپنے باپ کی تمنا اور آرزوں پر پورا اترنے کا عہد و پیمان کر رہے تھے۔

حضرت عباس ؑ مختلف مراحل میں:

  حضرت عباس ؑ نے اپنی زندگی میںبڑےنشیب و فراز دیکھے ۔ جب آپ نے اس دنیا میں قدم رکھا خاندان عصمت و طہارت کڑے وقت سے گذر رہا تھا۔ اس مقالے میں کوشش کی گئی ہے کہ حضرت عباس ؑ کی پر فراز و نشیب زندگی کو پانچ مرحلوں میں بیان کریں۔

1۔ حضرت عباس ؑ ماں کی آغوش میں:

  حضرت علی ؑ نے اپنے بھائی عقیل کے مشورے سے جو علم انساب کے ماہر سمجھے جاتے تھے ایک متقی و پرہیزگار گھر میں بہادر قبیلے کی نہایت ہی باوقار خاتون فاطمہ کلا بیہ سے عقد کیا اور اپنے خالق سے آرزو کی کہ پروردگارا ! مجھے ایک ایسا فرزند عطا کردے جو اسلام اور توحید کی سر بلندی کے لئے کربلا کے خونی معرکے میں رسولﷺ کے فرزند حسینؑ کی نصرت و مدد کرے۔ چنانچہ اللہ تعالی نے حضرت علیؑ کی دعا کو شرف قبولیت بخشا  اور فاطمہ کلابیہ(س)  کے بطن سے اللہ تعالیٰ نے چار بیٹے ان ؑ کو عطا کر دیے جس کی بناءپر آپ کو ام البنین(س) کا لقب ملا، ام البنین(س) کے چاروں بیٹے شجاعت و دلیری میں زبان زد عام و خاص تھے ،اور سبھی نے معرکہ کربلا میں نصرت اسلام کا حق ادا کیا ، لیکن عباس ؑ ان سب میں نمایاں تھے، ماں نے ایک خاص نہج پر ان کی تربیت اور پرورش کی چونکہ وہ جانتی تھیں کہ حضرت عباسؑ  ہی امیرالمؤمنینؑ کی مستجاب تمنا ہیں، اور انہیں ایک خاص مقصد اور ہدف کی تکمیل کے لئے آمادہ کرنا ہے ، لہذا بچپنے سے ہی عباس ؑ کی تربیت میں ایثار و فداکاری اور اپنے امام ؑ کے سامنے اطاعت اور  سر تسلیم خم کرنے جیسی صفات کوٹ کوٹ کر بھردی تھیں۔

ماں کے سامنے انو کھا واقعہ:

  ایک بار جناب ام البنین(س) مادر حضرت عباسؑ تشریف فرما تھیں، اور حضرت عباسؑ کا بچپن تھا حضرت علیؑ نے اپنے فرزند کو گود میں بٹھایا اور آستین کو الٹ کر بازؤوں کی جانب خیرہ ہوئے ، محو فکر ہیں اور پھر ان بازؤوں پر بو سے دینے لگے، ام البنین (س) نے آپ کا یہ انداز محبت دیکھ کر عرض کیا؛مولا! یہ کیسا طریقہ محبت ہے ؟ یہ آستین کیوں الٹی جارہی ہے ، یہ بازؤوں کو بوسے کیوں دیئے جا رہے ہیں؟! کیا ان میں کسی طرح کا عیب و نقص پایا جاتا ہے؟! امیرالمؤمنین ؑ نے فرمایا: ام البنین ؑ اگر صبر و تحمل سے کام لو تو بتاؤنگا؟ "تمہارا یہ لال کربلا میں شہید کردیا جائیگا اور اس کے شانے قلم ہوں گے، پروردگارانہیں دو پر عنایت کرے گا جس سے یہ حضرت جعفر طیارؑ  کی طرح جنت میں پرواز کرے گا۔

  یہ وہ نازک لمحہ ہے جہاں ماں کی ممتا کے سامنے ایک طرف بیٹے کی شہادت ہے اور دوسری طرف امام حق کی نصرت ، وہ کتنی عظیم ماں ہوگی کہ جس نے نصرت امامؑ کے لئے اپنیممتاقربان کردی اور آنسو  نہ بہائے۔

2۔ عباسؑ تربیت گاہ علیؑ میں:

   اسلامی تاریخ کے تلخ ترین لمحات میں حضرت عباس ؑ نے آنکھیں کھولیں حضرت عباسؑ کی ولادت اگر 23 سن ہجری کو درست مانی جائے تو آپ خلیفہ دوم کی حکومت کے آخری سالوں میں پیدا    ہوئے اسی طرح آپ ؑ نے عثمان کے دور خلافت کو اچھی طرح سے اپنی تیزبین نگاہوں کے سامنے سے گزارا ،عثمان کی اقرباء پروری،اور خیرخواہ لوگوں کی نصیحتوں کو خلیفہ کی طرف سے بد بینی سے تعبیر کرنے جیسی صورت حال کو حضرت عباسؑ نے قریب سے حس کیا اور جب انقلابیوں کے اصرار کے باوجود مروان کو ان کی جایگاہ سے نہ ہٹایا گیا تو انہوں نے خلیفہ کو محاصرے میں لےلیا اور عثمان کے قتل کے درپے ہوئے اور پانی روٹی کی ترسیل روک دی،تاریخ کے ان سخت حالات میں حضرت عباسؑ  دور سے صرف تماشائی بن کر نہ رہے بلکہ ہمیشہ اپنے باپ علیؑ کے ساتھ سائے کی طرح رہے اور معاشرے میں کردار ادا کیا۔ جب عثمان کے محل اقامت کا محاصرہ کیا گیا ، حضرت عباسؑ نے اپنے باپ کے حکم کی تعمیل میں خلیفہ تک پانی اور غذا پہنچائی۔  عباس نے حادثہ قتل عثمان کو بھی دیکھا اور ان تمام حالات سے اپنے لئے آگاہی اور عبرت کا سامان مہیا کیا۔

    آپ ؑ نے لوگوں کو حکومت عدل علویؑ کی برقراری کی طرف میلان اور اپنے باپ کے حق میں لوگوں کی بیعت کے مناظرکا بھی مشاہدہ کیا، اور ساتھ ہی ان لوگوں کو بھی جانچا اور پرکھا کہ جنہوں نے مال دنیا اور ثروت اندوزی کی خاطر حکومت حق کی حمایت نہیں کی اور یا وہ لوگ جنہوں نے اوّل امام علیؑ کی بیعت کی پھر جب دیکھا حکومت علویؑ میں اقربا پروری، ثروت اندوزی اور بیت المال لوٹنے کی کوئی گنجائش نہیں بیعت توڑی اور جنگ جمل کے ذریعے امام حق  ؑ کا استقبال کیا۔عباس ؑ بنوامیہ کی دغا بازیوں کو بھی سمجھ رہے تھے جو قتل عثمان کو بہانہ بنا کر نو پا علویؑ حکومت پر ضرب لگانا چاہتے تھے اور خونخواہی عثمان کے نعرے کے ذریعےمظلوم نمائی کر رہے تھے اور مسلمانوں کے درمیان تفرقہ ایجاد کر رہے تھے۔حضرت عباس ؑ اپنے باپ علی مرتضیٰؑ اور اپنے دونوں بھائیوں امام حسن ؑ  اور امام حسین ؑ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ان حالات میں بہترین کردار ادا کرتے رہے اور ایک لحظے کے لئے بھی پیچھے نہیں ہٹے،ایسا کرتے بھی کیسے آخر حضرت عباسؑ نے حضرت علی ؑ جیسے باپ کے زیر سایہ تربیت پائی تھی،علیؑ کے نزدیک حکومت اور مال دنیا کی کوئی وقعت نہیں تھی۔وہ خلیفہ مسلمین ہونے کے باوجود ان کی خوراک خشک نان جو ہوا کرتی تھی،اور کبھی لذیذ کھانا تناول نہیں فرمایا۔ حضرت علی ؑ پر مسلط کردہ جنگوں میں بھی حضرت عباس ؑ ہمیشہ اپنے باپ ؑ کے ساتھ کوہ استوار کی طرح رہے ۔ بعض نقلوں کے مطابق جنگ صفین میں اپنی بہادری کے جوہر دکھائے، امام علی ؑ نے مختف جنگوں میں عباس ؑ کو میدان میں جانے  نہیں دیا شاید امام ؑ انہیں ایک خاص معرکہ کے لئے جو 61 ہجری میں وقوع پذیر ہونا تھا ، محفوظ کر رہے تھے۔ حضرت عباس ؑ نے اپنے بابا کی مظلومانہ شہادت کو بھی تحمل کیا اور بستر شہادت میں دوسرے فرزندوں کی طرح حضرت عباس ؑنے بھی اپنے باپ کی وصیتوں کو سنا اور ان کو ہمیشہ کے لئے اپنے سینے میں حفظ کیا اور ان پر عمل پیرا رہے۔

3۔حضرت عباس ؑ امام حسن ؑ کی خدمت میں :

  سنہ 40 ہجری 21 رمضان المبارک آل علی ؑ کے لئے نہایت غمگین گھڑی تھی؛چونکہ ابن ملجم کی زہر آلود تلوار کا وار کاری ثابت ہوا اور یوں خورشید عدالتؑ نے غروب کیا۔اور لوگوں نے امام حسنؑ کے ہاتھ پر  بیعت کی،عین اسی وقت معاویہ اور اس کے کارندے سیم ورز کے ذریعے رؤسا قبائل کو خریدنے میں سرگرم عمل  ہوئے اور امام حسن ؑ کی بیعت کو کمزور اور لوگوں کی عقیدت کو امام حسن ؑ کے لئے  سست کرنے لگے اس کا فوری اثریہ ہوا کہ کوفہ اور اس کے اطراف سے امام علیؑ کی شہادت سے پہلے ایک لاکھ بیس ہزار لوگ معاویہ سے جنگ کے لئے آمادگی ظاہر کی تھی لیکن آج ان میں سے صرف بارہ ہزار افراد کو(وہ بھی بڑی زحمت اور تگ و دوسے) جمع کیا[1] ۔یوں لوگ انتظار سے پہلے ہی اپنے امامؑ کو تنہا چھوڑ کر ان کے پاس سے  ہٹ گئے ، یہاں تک کہ ان کے چچیرے عبیدالہ بن عباس (جو سپاہ امام ؑ کے کمانڈر تھے ) کو بھی بھاری رقم رشوت دیکر خرید لیا۔ عبیداللہ بن عباس کی خیانت سے سپاہ امام  کی رہی سہی ہمت بھی جاتی رہی ،دیکھتے ہی دیکھتے امامؑ کے ایک اور کمانڈر بنام کندی 4 ہزار سپاہیوں کے ساتھ (جو شہر انبار میں مستقر تھے)معاویہ سے جاملے ،اس سے بڑھ کر ان بے ایمان لوگوں نے مدائن کے نزدیک (ساباط)نامی گاؤں میں امام حسن ؑ کے خیمے پر حملہ کر کے آپ ؑ کے سجادہ کو پاؤوں تلے سے باہر کھینچ نکالا اور آپ ؑ کو زمین پر گرا دیا اور خنجر سے آپؑ کی ران پر زخم لگادیا، لوگوں کی بے وفائی ، معاویہ کے سیم وزر کے سامنے بک کر امام ؑ سے خیانت اور حتی آپ ؑ کے قتل کے درپے ہونا۔۔۔ ایسے عوامل تھے کہ امام حسن ؑ نے 25 ربیع الاول 41 ہجری کو معاویہ کے ساتھ صلح کی، اسی طرح حکومت عدل کہ جس کی امام علی  ؑ نے بنیاد ڈالی تھی جو غریب اور بینوا لوگوں کی خوشبختی کی نوید تھی آج اختتام کو پہنچی ،پھر کیا تھا معاشرہ معاویہ اور اس کے بیٹے یزید کے ظلم و ستم کا شکار ہوا۔ ان تمام حالات اور مشکلات میں حضرت عباس ؑ اپنے بھائی امام حسنؑ کے ساتھ کھڑےہیں۔لوگوں کو اصل حقیقت کی شناخت کی طرف دعوت دے رہے تھے،پکار پکار کر لوگوں کو خواب غفلت سے بیدارکرنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن جہالت اور خوف کی قبر میں سوئے لوگ جاگ نہ سکے۔ لیکن جب معاویہ کے کار ندے  جیسےسمرۃ بن جندب،بسر بن ارطاۃ اور زیاد بن ابیہ کے تیغ تلے قتل عام ہوئے تو حکومت عدل علوی یاد آئی لیکن " اب ہوتا کیا جب چڑیا چگ گئی کھیت"

4۔ حضرت عباس ؑ امام حسینؑ کی خدمت میں:

  28 صفر سال 50ہجری کو امام حسن ؑ کی شہادت واقع ہوئی ، امام حسین ؑ ، ابوالفضل العباسؑ اور دوسرے سارے بنی ہاشم نے عزت و جلال کے ساتھ امام حسن ؑ کے بدن پاک کو مسجدالنبی ﷺ کی طرف تشییع کیا تا کہ نانا رسول اللہ ﷺ کے جوار میں دفن کریں ، لیکن عائشہ نے امام ؑ کے مخالفوں کی مدد سے سبط رسول ﷺ کے جنازے کو روکا اور آنحضرت ﷺ کے جوار میں دفنانے سے منع کیا  اور امام ؑ کے جنازے پر تیر باران کرکے ان کے جنازے کی بے حرمتی کی ، اس منظر کو دیکھ کر حضرت عباس ؑ کے جذبات تلوار چلانے کے متقاضی ہوئے ، حضرت عباس ؑ کو دیکھتے ہوئے جوانان بنی ہاشم نے بھی تلواریں نیام سے نکالنا چاہیں لیکن حضرت عباس ؑ کی شجاعت ہمیشہ اطاعت امام ؑ کے سایہ تلے تھی ، امام حسین ؑ کے حکم پر حضرت عباس ؑ نے بنی ہاشم کے دوسرے جوانوں سمیت اپنی تلواروں کو نیام میں رکھا ؛ چونکہ امام حسن ؑ کی وصیت  تھی کہ ان کے وفات کے بعد اور دفن کے دوران خون کا ایک قطرہ بھی زمین پر نہ گرے  ، آپ ؑ کا جنازہ بقیع کی طرف لے جایا گیا اور وہیں پر آپ کا مرقد مطہر بنا ۔

حضرت عباس ؑ اپنے بھائی امام حسین ؑ کے عاشق و گرویدہ تھے  اور سخت ترین حالات میں بھی آپ ؑ نےمحبت و وفاداری کے وہ نقوش چھوڑے ہیں کہ اب لفظ وفاء ان کے نام کے ساتھ وابستہ ہوگیا ہے ۔

امام حسین ؑ اپنے بھیا امام حسن ؑ کی شہادت کے بعد دس سال تک معاویہ کی حکومت کے دوران مدینہ میں رہے اور تبلیغ دین اور تدریس معارف الہی میں مشغول رہے اور حضرت عباس ؑ ہمیشہ سائے کی طرح امام حسین ؑ کے ساتھ رہے ، انہوں نے کبھی بھی امام حسن ؑ اور امام حسین ؑ کو اپنے بھائی ہونے کی حیثیت سے نہیں دیکھا ، بلکہ ان کو فرزندان رسولخدا ﷺ و بتول (س) و امام و مقتدائے خود سمجھ کر ان کی اطاعت و نصرت میں ہمہ وقت مصروف عمل رہے  ۔ اور اپنے خون کا آخری قطرہ تک اپنے امام ؑ کی اطاعت اور ان کے اہداف کی تکمیل میں نچھاور کیا ۔ تبھی تو ائمہ اطہار ؑ کی لسان مبارک میں آپ ؑ عبد صالح سے ملقب ہوئے [2]۔

امام حسین ؑ سے بیعت طلبی کے وقت حضرت عباس ؑ کا کردار

جب معاویہ اس دنیا سے چل بسے اور یزید لعین مسند  خلافت پر بھٹایا گیا اور عالم اسلام کی بڑی بڑی شخصیات سے بیعت کا درپے ہوا ، حاکم مدینہ ولید بن عقبہ نے امام حسین ؑ کو رات کے وقت،  دارالامارۃ میں طلب کیا ، امام ؑ ان کی نیت سے واقف تھے لہذا آپ ؑ اپنے قوت بازو عباسؑ اور دوسرے جوانان بنی ہاشم کے ہمراہ دارالامارۃ پہنچے اور انہیں ولید کے گھر کے باہر مامور کیا اور کہا کہ جب میری آواز اونچی ہوجائے تو گھر میں داخل ہونا ، اور خود ولید کے گھر میں داخل ہوئے ۔ ولید نے امام عالیمقامؑ کا استقبال کیا اور معاویہ کی موت کی خبر سنائی ، ساتھ ہی امام ؑ کو یزید کا حکم سنایا جس میں اہل مدینہ سے بالعموم اور امام حسین ؑ سے بالخصوص بیعت لینے کا کہا گیا تھا ۔ امام ؑ نے ولید کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا : ہم اہلبیت نبوت ہیں صبح ہوجائے اور سب لوگوں کے سامنے اپنے موقف کا اظہار کریں گے ۔ مروان بن حکم ( لعین ) جو ولید کے پاس موجود تھا کہنے لگا  :یا امیر  انہیں جانے نہ دیجئے ، اگر یہاں سے باہرچلے گئے  تو پھر آپ کے ہاتھ آنا مشکل ہے ، یہیں ان سے بیعت طلب کرو ، نہ ماننے کی صورت میں ان کی گردن  اڑاؤ  ! امام حسین ؑ نے مروان پر ایک تحقیر آمیز نگاہ ڈالی اور فرمایا : اے پسر زرقا  (نیلی آنکھیں والی ماں کے بیٹا)! آیا تو مجھے قتل کرے گا یا یہ ؟ ( پاس بیٹھے ہوئے ولید کی طرف اشارہ کیا )پھر  امام ؑ نے ولید سے کہا " اے امیر ہم اہلبیت نبوت ، معدن رسالت ،  محل رفت و آمد ملائکہ ہیں ۔۔۔ اور یزید ایک فاسق و فاجر ، شرابخوار ، ناحق قاتل نفس ۔۔۔ ہے کبھی بھی مجھ جیسا یزید جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا ۔۔۔" یوں امام ؑ نے صراحتا اپنی عدم بیعت کا اعلان کردیا ۔ مروان اور ولید نے حضرت عباس ؑ کی قیادت میں جوانان بنی ہاشم کے تلواروں کی چھنکار سنی  تو امام عالیمقامؑ سے متعرض ہونے کی ہمت نہیں کی ،  حضرت امام حسین ؑ جوانان بنی ہاشم ( جن کی سربراہی حضرت عباس ؑ فرمارہے تھے )کے جھرمٹ میں محلہ بنی ہاشم پہنچے ۔

امام ؑ نے مدینہ چھوڑنے کا ارادہ کیا اور مکہ ،حرم  امن الہی کی طرف کوچ کا حکم دیا ، بہت ساری بزرگ شخصیات اس سفر میں امام حسین ؑ کی ہمراہی  سے محروم رہیں لیکن حضرت عباس ؑ  نہ فقط ان مشکل حالات میں امام ؑ کے ساتھ رہے بلکہ انہوں نے امام ؑ کے تمام امور اور اہل خانہ کی سرپرستی اپنے ذمے لی  اور اس کاروان کی علمداری کاحق نبھایا  تمام ممکنہ خطرات کے سامنے سینہ سپر ہوکر آگے بڑھتے رہے یہاں تک کہ مکہ مکرمہ پہنچے[3] ۔

۵۔ حضرت عباسؑ میدان کربلا میں :

امام حسین ؑ ۳ شعبان ( یعنی اپنے روز ولادت) سنہ ۶۰ ہجری وارد مکہ ہوئے اور۸ذیحجہ تک حرم امن الہی میں عبادت ، دین اسلام کی تبلیغ اور فاسد حکمرانوں کی کارستانیوں سے زائرین بیت اللہ الحرام اور حجاج کرام کو مطلع کرتے رہے۔  اسی اثناء اہل عراق نے آپؑ کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کوفہ آنے کی دعوت دی  اور بے شمار خطوط لکھ کر آپ ؑ پر حجت تمام کی ۔ ۸ ذیحجہ کو امام ؑ جان گئے کہ عمر و بن سعید بن العاص بہت سارے یزیدی سپاہیوں سمیت حاجیوں کی بھیس میں امام عالیمقام ؑ کے قتل کی غرض سے وارد مکہ ہوئے ہیں ، امام ؑ نے بیت اللہ کی حرمت کی پاسبانی اور جس تحریک ( بنی امیہ ، خاص کر یزید کی شخصیت اور ان کی حکومت سے پردہ برداری) کا آغاز کیا تھا اس کی حفاظت کی غرض سے کوفہ کا رخ اختیار کیا تا اینکہ  اہل عراق کی دعوت کی اجابت بھی ہوجائے ۔ حسینی کاروان حضرت عباسؑ کی علمداری اور قیادت میں منزلیں طے کرتا ہوا ۲ یا ۳ محرم  سنہ ۶۱ ہجری کو دشت کربلا پہنچا ، اس پورے سفر میں حضرت عباسؑ نے کاروان حسینی میں شامل تمام افراد خاص کر اہل حرم کی آسائش کے لئے کوئی کسر نہیں چھوڑی ، جنگ صفین میں ابن شعثاء اور ان کے سات بیٹوں کو تہ تیغ کرنے والا شکاری شیر آج کربلا میں ہے ،  حر بن یزید ریاحی امام ؑ کا راستہ روک رہے ہیں ؛  ثانی حیدر ، قوت بازوئے  حسین ؑ حضرت عباسؑ بپھرے ہوئے شیر کی طرح انگڑائی لیتے ہیں لیکن مولا و آقا حسین ؑ عباس ؑ کو سمجھا بجھا کر آرام کررہے ہیں ، امام ؑ کو خیموں کی جابجائی کا کہا  جارہا ہے عباس طیش میں آتے ہیں لیکن ان کی شجاعت امام وقت کی تابع ہوتی ہے ، ان کا ہر فعل و عمل ولایت اور امامت کی اطاعت اور تابعداری میں انجام پاتا ہے ۔ جب شمر امان نامہ عبیداللہ بن زیاد کو عباس اور ان کے بھائیوں کو دینے کے لئے آواز دے رہا ہوتا ہے لیکن حضرت عباسؑ شمر کی آواز کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتے لیکن حکم امام ؑ پر ان سے ہمکلام ہوتے ہیں اور امان نامے کو رد کرکے  شمر اور ابن زیاد کے منہ پر طمانچہ مارتے ہیں ۔  یوں تو حضرت عباسؑ کی پوری زندگی معرکہ آرا  ہے لیکن کربلا میں ان کے کارنامے  بلندی کی اوج کو پہنچے ،  علی ؑ کے مستجاب تمنا اور ام البنین کی تربیت کا ثمر اپنے ہدف ( شہادت) کے نزدیک ہورہا ہے ۔ تین دن سےحضرت زہراءؑ کے لعل اور ان کے اہل و عیال پر پانی کی بندش رہی لیکن حضرت عباسؑ نے کئی بار نہر فرات پر قبضہ جمایا لیکن مولا حسین ؑ کی پیاس اور ننھے بچوں کی العطش کی صدائیں یاد کرکے اپنی پیاس بھلایا اور  ایک گھونٹ پانی پیئے بغیر خیام حسینؑ کی طرف  پانی لے کر لوٹ آئے ۔

۹ محرم کی سہ پہر :

۹ محرم سنہ ۶۱ ہجری سہ پہر کا وقت ہے فوج اشقیاء ریحانہ رسولﷺ کی جانب پیکار کی غرض سے بڑھنے لگتی ہیں ۔ حضرت عباسؑ فورا امام عالیمقام ؑ کی خدمت میں پہنچتے ہیں  اور عرض کرتے ہیں کہ آقا دشمن آپ کے سو آرہے ہیں ، امام حسین ؑ نے فرمایا : میرے بھیا  ، قربان جاؤں  جاؤ اور پتہ کرو  وہ کیا چاہتے ہیں ؟ امام ؑ کا یہ طرز تکلم حضرت عباسؑ کی قدر  اور منزلت کو بخوبی روشن کردیتی ہے کہ وہ ایمان اور یقین کے عالیترین مرتبہ پر فائز ہیں ۔

حضرت ابوالفضلؑ تیس صحابی جن میں زہیر بن قین ، حبیب بن مظاہر شامل تھے ، یزیدی فوج کے پاس پہنچے  اور اس سے اس کا مقصد دریافت کیا کہ یہ فوجی تحرکات کس لئے انجام دئے جا رہے ہیں ۔ انہوں نے بے شرمانہ جواب دیا : عبیداللہ ابن زیاد کا حکم آیا ہے یا تم لوگ یزید کی بیعت کرو ورنہ جنگ کے لئے آمادہ ہوجاؤ ، حضرت عباس ؑ نے ان کے ارادوں سے امام ؑ کو آگاہ کیا  ، آپ ؑ نے فرمایا : دیکھو بھیا ان کے پاس جاؤ اور آج رات کے لئے جنگ ٹالنے کی مہلت مانگو  تاکہ یہ رات میں قرآن کی تلاوت اور نماز پڑھ کر گزاروں ۔ جب امام ؑ کا یہ پیغام عمر سعد تک پہنچایا گیا تو کافی چون و  چرا کے بعد ایک رات کی مہلت مل گئی [4]۔

شب عاشورا  امام ؑ کے دل ہلادینے والے کلمات :

محرم کی دسویں رات امام حسین ؑ ، ان کے خاندان اور اصحاب کے لئے بڑی سخت رات تھی امام حسین ؑ نے اس رات اپنے تمام اعوان و انصار کو یکجا کیا  اور اس حساس موقع  پر فرمایا : ((میں اپنے اصحاب اور خاندان سے بڑھکر وفادار اور بہتر کسی کے خاندان اور اصحاب کو نہیں سمجھتا ، اللہ تعالی آپ سب کو جزائے خیر عنایت فرمائے لیکن آگاہ رہو  میں گمان نہیں کرتا کہ آج ان دشمنوں کی طرف سے ہمارے لئے کوئی کل نصیب ہوجائے ، میں نے آپ سب کو اجازت دی  اور اپنی بیعت کو آپ سے اٹھایا  تا اینکہ آسودگی اور بغیر ملامت کے رات کی تاریکی سے فائدہ اٹھاکر اپنا راستہ اختیار کرو اور چلے جاؤ [5]۔ لیکن ابھی امام ؑ کا خطبہ آخر کو نہیں پہنچا تھا ایک جوش و جذبہ اہلبیت و اصحاب امام ؑ کے اندر وجود میں آیا ، حضرت ابوالفضل ؑ نے سب سے پہلے سکوت کو توڑا  اور اہلبیت کی نمائندگی میں بولے : آقا کبھی بھی آپ کو تنہا نہیں چھوڑیں گے ، خدا ہمیں وہ دن نہ دکھائے کہ آپ ؑ کے بعد ہم زندہ رہیں [6]، اور اصحاب کی طرف سے سب سے پہلے مسلم ابن عوسجہ نے اپنی حمایت کا اعلان کیا ۔

حضرت عباسؑ  کی آخری  آس جو پوری نہ ہوسکی :

عصر عاشور امام حسین ؑ کے تمام یار و انصار شہادت کے رفیع درجے پر فائز ہوئے ۔ صبح سے سہ پہر تک حضرت عباسؑ  ، امام حسینؑ کے ساتھ جوانان بنی ہاشم اور اصحاب با وفاء کی لاشیں اٹھا اٹھا کر نڈھال ہوگئے تھے  اپنے بھائیوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے شہید ہوتے دیکھ چکے تھے ۔ مرحوم حبیب اللہ شریف کاشانی ، کتاب تذکرۃ الشہداء میں لکھتے ہیں کہ حضرت عباسؑ  کے دو صاحبزادے محمد و قاسم بھی کربلا میں شہید ہوئے ہیں ۔ لیکن ان سب سے بڑھکر انہیں بھائی کی تنہائی اور چھوٹے بچوں کی شدت پیاس سے العطش کی صدائیں برداشت نہیں ہوپارہی تھیں ۔ حضرت عباسؑ  نے میدان میں جانے کی اجازت   چاہی لیکن امام والا مقام ؑ نے یہ کہہ کر ٹالا کہ آپ میرے لشکر کے سپہ سالار اور علمدار ہیں ۔ امام ؑ حضرت عباسؑ کی موجودگی سے احساس توانمندی کرتے تھے اور دشمن بھی عباسؑ کی موجودگی میں خیام حسینی ؑ پر حملہ کی جرأت نہیں کرسکتے تھے ۔ حضرت عباسؑ کے اصرار پر آپ کو فقط بچوں کی پیاس بجھانے کے لئے پانی فراہم کرنے کی اجازت ملی ۔ آپ ؑ مشکیزہ ساتھ لئے نہر فرات کی طرف بڑھے  ، دشمن کا محاصرہ توڑ کر نہر فرات پہنچے  ، ایک چلو پانی لیا  پیاس کی شدت بڑھ رہی تھی ۔ لیکن آپ نے پانی نہر فرات پر پھینکا  اور اپنے آپ سے مخاطب ہوکر کہنے لگے: اے عباسؑ یہ تیرے آئین  (وفاء) کے خلاف ہے  کہ تو  اپنے مولا حسین ؑ اور ان کے ننھے بچوں اور مخدرات سے پہلے اپنی پیاس بجھائے ۔ مشکیزہ پانی سے بھر کر خیام حسینی کی طرف چل دیئے  ، فوج اشقیاء مانع بنی  لیکن ثانی حیدر ان کو مولی گاجر کی طرح کاٹتے ہوئے آگے بڑھتے گئے ، عباس کی ایک آس تھی کہ کسی طرح پانی کا مشکیزہ خیام حسینیؑ تک پہنچادیں لیکن ایک بزدل نے پیچھے سے گھات میں لگا کر آپ ؑ کا دایاں  بازو جدا کیا لیکن آپ نے مشکیزہ کو بائیں ہاتھ سے پکڑ کر آگے بڑھنے کی کوشش کی لیکن ایک بد ذات شقی نے چھپ کر پیچھے سے بائیں بازو کو بھی شہید کر ڈالا لیکن شجاعت کے پیکر عباسؑ نے اس حالت میں بھی ہمت نہیں ہاری ،مشکیزہ کو دانتوں سے پکڑ کر پاؤں سے دفاع کرتے ہوئے آگے بڑھے، لیکن دشمنوں نے ایک دفعہ مشکیزے  پر تیروں کی بارش کی اور پانی زمین کربلا میں گرا ، یوں عباس کی آس ٹوٹ گئی ۔ ایک ظالم نے گرز جفا کو آنحضرت ؑ کے سر اقدس پر مارا  اور آپؑ اسی حالت میں زمین کربلا پرگرے درحالیکہ دونوں بازو جدا ہوچکے تھے ؛ مولا حسینؑ کو آخری سلام دیا ۔ امام حسین ؑ آپؑ کی شہادت پر بہت روئے ۔ عرب شاعر نے کہا :

احق الناس  ان یبکی  علیه                           فتی ابکی الحسین بکربلاء

اخوه وابن والده علی                                         ابوالفضل المضرج بالدماء

 و من واساه  لا یثنیه شئی                           و جادله علی عطش بماء [7]۔

ترجمہ : لوگوں کے رونے کے زیادہ حقدار وہ جوان ہے کہ جس پر کربلاء میں امام حسین ؑ روئے ۔ وہ ان کے بھائی اور بابا علی ؑ کے بیٹے ہیں ۔ وہ حضرت ابوالفضل ہیں جو اپنے خون سے نہلا گئے ۔ اور اس نے اپنے بھائی کی مدد کی  اور کسی چیز سے خوف کھائے بغیر ان کی راہ میں جہاد کی اور اپنے بھائی کی پیاس کو یاد کرکے پانی سے اپنا منہ پھیرا ۔(انا لله و انا الیه راجعون)

 

[1]۔ ماہ بی غروب ، عباس علی محمودی ، ص73

[2]۔ قہرمان علقمہ ، آیت اللہ دکتر احمد بہشتی ، ص ۱۸۹

[3]۔ زندگانی حضرت ابوالفضلؑ ، شریف قریشی ، ص ۱۱۸ ۔ ۱۲۰

[4]۔ زندگانی حضرت ابوالفضل العباسؑ، شریف قریشی ، ص ۱۷۰

[5]۔ ایضا  ص ۱۷۵ ، نقل از تاریخ ابن اثیر ، ج۳ ، ص ۲۸۵

[6]۔ تاریخ طبری ، ج۶ ، ص ۲۳۸

مؤلف: محمدنذیر 

Wednesday, 17 March 2021 20:53

حضرت عباس کی صفات کمالیہ

قرآن مجید کے سورہٴ مریم میں جناب زکریا کی دعا اور تمنا کا تذکرہ ملتا ہے جس سے جناب یحییٰ پیدا ہوئے،
حضرت فاطمہ بنت اسد کی دعا اور تمنا سے حضرت علی نے دنیا کو زینت بخشی اور حضرت علی کی دعا اور تمنا سے قمر بنی ہاشم ،علمدار کربلا، سقائے حرم، عبد صالح حضرت عباس نے دنیا کو رونق بخشی،حضرت عباس کی تاریخ ولادت میں اختلاف پایا جاتا ہے
لیکن سن ولادت میں کوئی اختلاف نہیں ہے تمام محققین نے حضرت عباس کی ولادت سن ۲۶ ہجری میں بیان کی ہے،
ہندوستانی علماء نے حضرت عباس کی تاریخ ولادت میں اختلاف کیا ہے کسی نے ۱۹ جمادی لثانی،کسی نے ۱۸/ رجب، کسی نے۲۶/جمادی الثانی بیان کی ہے لیکن اہل ایران۴ شعبان پر متفق ہیں،جو مطابق ہے ۱۸/مئی ۶۴۷ء بروز منگل،آپ کی ولادت کے ساتویں روز آپ کا عقیقہ کیا گیا اور عباس نام رکھا گیا،
عباس عبس مصدر سے ہے جس کے معنی تیوری چڑھانا،ترش رو ہونا،چیں بجبیں ہونا ہے
اور اصطلاح میں بپھرے ہوئے شیر کو عباس کہتے ہیں،سن ۴۰ ہجری میں حضرت علی نے سر پر ضربت لگنے کے بعد آخری لمحات میں اپنے بیٹوں منجملہ حضرت عباس کو وصیت و تاکید فرمائی کہ :رسول اللہ کے بیٹوں حسن و حسین سے منھ نہ موڑنا پھر تمام اولاد کا ہاتھ امام حسن کے ہاتھ میں دیا اور حضرت عباس کا ہاتھ امام حسین کے ہاتھ میں دیا،
جیسا کہ حضرت علی کی تمنا سے ظاہر ہے آپ نے حضرت عباس کی تربیت میں ایثار و فدا کاری کوٹ کوٹ کر بھردی تھی، حضرت علی مسلسل حضرت عباس سے اس کا اظہار فرماتے رہتے تھے کہ تمہیں ایک خاص مقصد کے لئے مہیا کیا گیا ہے ،تمہارا مقصد شہادت کے علاوہ اورر کچھ نہیں ہے ،
ایک بار جناب ام البنین مادر حضرت عباس تشریف فرما تھیں اور حضرت عباس کا بچپن تھا مولائے کائنات نے اپنے فرزند عباس کو گود میں بٹھایا اور آستین کو الٹ کر بازووٴں کو بوسے دینے لگے،ام البنین نے آپ کا یہ انداز محبت دیکھ کر عرض کی :مولا !یہ کیسا طریقہٴ محبت ہے یہ بازووٴں کو بوسے کیوں دیئے جا رہے ہیں ،یہ آستین کیوں الٹی جا رہی ہے،آپ نے فرمایا: ام البنین !تمہارا یہ لال کربلا میں شہید ہوگا،اس کے شانے قلم ہوں گے،پروردگار اسے دوپر عنایت کرے گا جس سے یہ جعفر طیار کی طرح جنت میں پروز کرے گا،یہ وہ نازک لمحہ ہے جہاں ماں کی ممتا کے سامنے ایک طرف بیٹے کی شہادت ہے اور دوسری طرف جنت الفردوس ،مولائے کائنات حضرت عبا س کو مستقبل سے باخبر کرنے کے ساتھ دنیا کو متوجہ کررہے ہیں کہ ہمارے گھر کے بچے حالات میں گرفتار ہوکر قربانی نہیں دیاکرتے بلکہ آغاز حیات سے ہی قربانی کے لئے آمادہ رہتے ہیں ،
جب شب عاشور زہیر قین نے یاد دلایا اور کہا عباس !آپ کو یاد ہے کہ آپ کے پدر بزرگوار نے آپ کو کس دن کے لئے مہیا کیاہے؟ تو حضرت عباس نے اس طرح انگڑائی لی کہ رکابیں ٹوٹ گئیں اور فرمایا: اے زہیر آج کے دن شجاعت دلارہے ہو،عاشور کی رات تمام ہونے دو اور صبح کا وقت آنے دو تمہیں اندازہ ہوجائے گا کہ بیٹے نے باپ کے مقصد کو کس انداز سے پورا کیا ہے اور عباس اپنے عہد و فا پر کس طرح قائم ہے ،دشمن کو میدان میں تلوار کا پانی پلانا واقعاً شجاعت ہے لیکن جب جذبات تلوار چلانے پر پوری طرح آمادہ ہوں تو اس وقت اطاعت مولا کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہوئے تلوار نہ چلانا اس سے بھی بڑی شجاعت ہے ،جناب عباس نے صرف صفین کی جنگ میں تلوار چلائی باقی موقعوں پر آپ نے اطاعت مولا کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہوئے اپنی تلوار نیام ہی میں رکھی ،امام حسن کے جنازے کی بے حرمتی،والد بزرگوار کی شان میں منبر سے گستاخی ،مخلصین کا بے دردی سے قتل ،کربلا میں فرات سے خیمے ہٹائے جانے کا مطالبہ یہ تمام وہ مواقع تھے جہاں حضرت عباس کے جذبات تلوار چلانے کے متقاضی تھے لیکن آپ نے ان موقعوں پر بھی اطاعت مولا کے سامنے سر تسلیم خم کرکے شجاعت کی مثال قائم کردی ،اس کے علاوہ اور بھی بہت سے ایسے کمالات و اوصاف سے حضرت عباس متصف تھے جو آپ کو معصوم علی جیسے امام سے ورثہ میں ملے تھے،ان کمالات کا احصاء کرنا کسی کے بس کی بات نہیں ہے ،یہ توہم تذکرہ کے طور پر تبرکاً تحریر کر رہے ہیں،اسلامی لشکر کی علمداری،پیاس کی شدت سے انسانوں کی جان بچا نے کو سقائی اور عبد صالح کا خطاب وہ صفات ہیں جن میں حضرت عباس کو کمال حاصل تھا،لشکر کی علمبرداری ہی کو لے لیجئے ہر قوم اپنے پرچم یا علم کو اپنی عزت و عظمت کا نشان سمجھتی ہے بالخصوص میدانِ کارزار میں جنگ کے درمیان دونوں فوجیں اپنا اپنا علم بلند رکھتی ہیں جس کا پرچم بلند رہتا ہے اُ س لشکر کو فتح مند قرار دیاجاتاہے اور جس فوج کا پرچم سرنگوں ہوجاتا ہے وہ شکست خوردہ سمجھی جاتی تھی،اسی لئے علمدار کا باقاعدہ انتخاب کیاجاتاتھا اور علم اس شخص کو دیاجاتاتھا جس میں ایک ماہر اوربہادر کمانڈر کی تمام خوبیاں ہوتی تھیں ،جسے علم مل جاتا تھا اُس کا سر افتخار سے بلند رہتاتھا ،
علمدار کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے نہج البلاغہ میں امام علی فرماتے ہیں : علم صرف بہادروں کے پاس رہنا چاہئے جو شخص مصائب کو برداشت کرسکے اور شدائد کا مقابلہ کرسکے وہی محافظ کہاجاسکتاہے اور جو محافظت کا اہل ہوتاہے وہی پرچم کے گردو پیش رہتاہے اور چار طرف سے اس کی حفاظت کرتاہے محافظ اپنے پرچم کو ضائع نہیں کرتے ،وہ نہ پیچھے رہ جاتے ہیں کہ پرچم دوسروں کے حوالے کردیں اور نہ آگے بڑھ جاتے ہیں کہ پرچم کو چھوڑ دیں“ امام علی کے مذکورہ بیان کی روشنی میں علمدار شجاع،بہادر،محافظ، غیرت دار،ثابت قدم، مستقل مزاج اورصابر انسان ہوتا ہے ،کربلا کے میدان میں لاثانی مجاہدوں کے ہوتے ہوئے امام حسین حضرت عباس کو علم دے کر شجاع، بہادر، محافظ، غیرت دار، ثابت قدم ،مستقل مزاج اور صابر ہونے کی سند عطا کررہے تھے،حضرت عباس کی دوسری صفت کمالیہ آپ کا سقاء ہونا ہے،سقائی یعنی پانی پلانا،کسی کو پانی پلاکر سیراب کرنا عظیم اجر و ثواب کا باعث ہے جس کے لئے بے شمار اسلامی روایات موجود ہیں لیکن جب یہی کام کسی جاندار کی زندگی بچانے کا سبب بن جائے تو صفت کمالیہ میں شمار ہونے لگتا ہے کیونکہ اس کام کو خدا وند عالم نے اپنے عظیم احسانات میں شمار کیاہے ،قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے ،
اور ہم نے آسمان سے پانی اس لئے نازل کیا ہے کہ اس سے مردہ زمینوں کو زندہ بنائیں اور حیوانات و انسان کو سیراب کریں اور رسول اسلام فرماتے ہیں :جس نے ایک انسان کی زندگی بچائی اس نے پوری انسانیت کو بچایا ،اب اگر پانی پلاکر کسی کی زندگی کو بچالیا جائے تو وہ بھی اسی زمرے میں آئے گا،پانی پلاکر زندگی بچانے کی اہمیت اس وقت اور زیادہ ہوجاتی ہے جب شارع مقدس نمازیوں کو یہ حکم دیتے ہیں کہ اگر نمازی کے پاس صرف اتنا پانی ہو جس سے صرف وضو ہوسکتا ہو اور کوئی بھی جاندار پیاس کی شدت سے دم توڑ رہاہو تو وضو کا پانی پلاکر جاندار کی زندگی بچالی جائے اور نماز تیمم سے ادا کی جائے ،
حضرت عباس ایسے ہی باکمال سقاء تھے آپ نے اپنی سقائی سے سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں جانیں بچائیں ،سن ۳۴ ہجری میں انقلابیوں نے مدینہ میں حضرت عثمان بن عفان کے گھر کا محاصرہ کیا اور کھانا پانی تک گھر میں نہ جانے دیا اس طرح حضرت عثمان اور ان کے اہل خانہ بھوک و پیاس سے تڑپنے لگے تو ساقی ٴ کوثر حضرت علی نے کھانے کا سامان اور پانی کے مشکیزے اپنے بیٹوں کے ذریعہ حضرت عثمان کے گھر پہنچوائے،یہاں بھی حضرت عباس کی عمر اگرچہ ۸ سال تھی لیکن آپ نے پانی پلا کر لوگوں کی جان بچائی،تعجب ہے ابن زیاد پر جس نے امام حسین اور ان کے بچوں پر پانی بند کرنے کے حکم نامے میں اس بات کا حوالہ دیاتھا کہ انہیں (اہل بیت کو ) اسی طرح پیاسا رکھو جس طرح خلیفہ عثمان کو پیاسا رکھاگیا تھا ،جن لوگوں نے حضرت عثمان اوران کے اہل خانہ کی پیاس بجھائی انہیں کو حضرت عثمان پر بندش آب کے جرم میں پیاسا رکھا گیا ،اس سے زیادہ نا انصافی اور کیا ہوسکتی ہے،بہر حال اسی طرح سن ۶۰ ہجری میں منزل ذو خشب یا ذو حسم کے پاس جب یزیدی کمانڈر حر نے امام حسین کا راستہ روکا تو حر کے لشکر کی زبانیں شدت عطش سے باہر نکل چکی تھیں ،گھوڑے اور اونٹ بھی لب دم تھے امام حسین نے جناب عباس کو حر کے لشکر کی مع جانوروں کے پیاس بجھاکر جان بچانے کی ذمہ داری سونپی ،
حضرت عباس نے حر کے لشکر کو مع جانوروں کے سیراب کردیااور جانوروں کے آگے سے جب تک پانی نہ ہٹایا گیا جب تک کہ تین مرتبہ جانوروں نے پانی سے خود منھ نہ پھیر لیا،لیکن ۶۱ ہجری میں حضرت عباس نے اپنی سقائی کو بام عروج تک پہنچادیا ،علمداری کی یہ صفت بھی آپ کو امام معصوم حضرت علی سے ورثہ میں ملی تھی ،حضرت علی کو ساقی ٴ کوثر کا خطاب ملا ہوا تھا
لیکن عباس کی معراج نے اس خطاب کو مبالغہ میں بدل دیا اور اس طرح آپ سقاء کہلائے ،سقاء مبالغہ کا صیغہ ہے یعنی بہت زیادہ سیراب کرنے والے،حضرت علی نے لوگوں کو مہیا پانی سے سیراب کیا لیکن کربلا میں حضرت عباس نے جو سقائی کرنا چاہی اس میں پانی بھی خود ہی مہیا کرنا تھا ،
اس مقصد کے لئے آپ نے کربلا میں متعدد کنوئیں کھودے لیکن پانی نہ نکلا،ادھر امام حسین کے 6ماہ کے بچے علی اصغر پیاس کی وجہ سے لب دم ہیں ،مچھلی جب پانی سے باہر آجاتی ہے تو اس کی تین کیفیتیں ہوتی ہیں ،پہلی یہ کہ وہ بہت زیادہ تڑپتی ہے اور دوسری کیفیت وہ جب اس کی تڑپ اور حرکت میں کمی آجاتی ہے اور تیسری کیفیت یہ کہ اُس سے تڑپا بھی نہیں جاتا وہ صرف منھ کھول کر سانس لینے کی کوشش کرتی ہے ،
روز عاشور کربلا میں حضرت علی اصغر کی یہی کیفیت تھی ،آپ بے حس و حرکت پیاس کی شدت اور تکلیف سے اسی طرح برداشت کررہے تھے،بچوں کی یہ حالت جناب عباس سے نہ دیکھی گئی،ادھر آپ کی بھتیجی سکینہ نے آپ سے پانی کا مطالبہ بھی کردیا تو آپ سے رہا نہ گیا اور آ پ نے امام حسین سے اجازت طلب کی ،
اجازت ملنے کے بعد آپ دریا پر پہنچے ،دریا پر قبضہ کرنے کے بعد بھی آپ نے پانی لبوں کو نہ لگایا،بچوں کے لئے مشکیزہ بھر لیا لیکن پانی بچوں تک نہ پہنچ سکا اور آپ نے پانی مہیا کرنے پراپنی جان بھی قربان کردی اس سقائی کی حسرت آپ کے دل ہی میں رہ گئی ،حضرت عباس کی تیسری صفت کمالیہ ”عبد صالح“ کا وہ خطاب ہے جو تمام انبیاء کو بھی نصیب نہ ہوا ،
قرآن مجید میں اللہ نے حضرت داوٴد، حضرت ابراہیم ،حضرت اسحاق، حضرت یعقوب، حضرت ایوب،حضرت عیسیٰ اور ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفی کو عبد صالح کا خطاب دیا ہے،غیر انبیاء اور ائمہ میں صرف حضرت عباس کو یہ شرف حاصل ہے کہ آپ کو عبد صالح کا خطاب دیا گیا جس کی سند چھٹے امام جعفر صادق نے زیارت حضرت عباس میں دی ہے ،اس کی روایت ابو حمزہ ثمالی نے کی ہے ،
حضرت عباس کے لئے امام جعفر صادق فرماتے ہیں : السلام علیک ایها العبد الصالح
یعنی اے عبد صالح آپ پر خدا کی طرف سے سلامتی ہو ،
ہم روزانہ نماز کے اختتام پر اللہ کے نیک بندوں (عباد الصالحین) پر سلام پڑھتے ہوئے تشہد کے بعد کہتے ہیں السلام علینا و علی عباد اللہ الصالحین یعنی ہمارے اوپر اوراللہ کے نیک بندوں پر سلام ہو،اس سلام میں انبیاء اور ائمہ کے ساتھ ساتھ حضرت عباس بھی شریک ہیں کیونکہ آپ عبد صالح ہیں

 

سید الشہدا، امام حسین بن علی علیھما السلام، رسول اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نواسے اور شیعوں کے تیسرے امام ہیں۔ آپ (ع) کی مادر گرامی سیدہ کونین حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا ہیں۔ آپ ہجرت کے تیسرے سال تین شعبان کو یا دوسری روایت کے مطابق ہجرت کے چوتھے سال تیسری یا پانچویں شعبان کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ جب اس نومولود کو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں لے جایا گیا تو آپ مسرت سے پھولے نہ سمائےاور آپ کے دائیں کان میں آذان اور بائیں کان میں اقامت کہی۔
ولادت کے ساتویں روز عقیقہ کی رسم ادا کرتے ہوئے آپ کے سر کے بال اتارے گئے۔ اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی بیٹی فاطمہ زہرا (س) سے فرمایا کہ حسن کی طرح میرے حسین کے سر کے بالوں کا وزن کر کے ان کے برابر چاندی صدقہ کرو۔
امام حسین(ع) اپنے بھائی امام حسن(ع) سے عمر میں بہت کم چھوٹے تھے اسی وجہ سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ان دونوں سے متعلق احادیث اور واقعات میں دونوں کا ایک ساتھ تذکرہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل شدہ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا: " جو شخص حسن و حسین کو دوست رکھے گا میں اسے دوست رکھوں گا اور جو مجھے دوست رکھے گا خدا اسے دوست رکھے گا اور خدا سے دوستی بہشت کا سبب ہے۔ اور جو ان دونوں سے دشمنی رکھے گا میں اس سے دشمنی رکھوں گا اور جسے میں دشمن سمجھوں گا خدا بھی اس کو اپنا دشمن قرار دے گا۔ اور جس سے خدا دشمنی کرے گا وہ جہنم کی آگ میں بھنے گا"۔
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ایک اور روایت میں نقل ہوا ہے کہ فرمایا: میرے یہ دو بیٹے، میرے لیے اس دنیا کے دو پھول ہیں۔
محمد بن عبد اللہ نے ابن ابی نعم سے نقل کرتے ہوئے کہا: میں اپنے چچا زاد بھائی کے پاس تھا کہ ایک آدمی آیا اور اس نے اس سے مچھر کے خون کا حکم معلوم کرنا چاہا۔ اس نے پوچھا تم کہاں کے رہنے والے ہو؟ جواب دیا: عراق کا۔ اس نے کہا: اس آدمی کو دیکھو کہ مجھ سے مچھر کے خون کا حکم معلوم کر رہا ہے حالانکہ انہوں نے فرزند رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا خون بہایا ہے۔ میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا تھا کہ آپ نے فرمایا: میرے یہ دوبیٹے( حسن و حسین) میرے لیے اس دنیا کے دو پھول ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے نواسوں کو جنت کا سردار بنایا ہے۔
حذیفہ نے آنحضرت سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: مجھ پر آج وہ فرشتے نازل ہوئے ہیں جو اس سے پہلے کبھی نہیں آئے اذن خدا سے مجھ پر سلام کرنے کےبعد یہ خوشخبری دی ہے کہ فاطمہ خواتین جنت کی سردار اور حسن و حسین جوانان جنت کے سردار ہیں۔
امام حسین علیہ السلام کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ آپ رسول خدا سے شباہت رکھتے تھے عاصم اپنے باپ سے نقل کرتے ہوئے کہتا ہے: میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو خواب میں دیکھا اور اپنی خواب کو ابن عباس کے سامنے بیان کیا۔ اس نے پوچھا: کیا ان کو دیکھتے وقت تمہیں امام حسین یاد نہیں آئے؟ میں نے کہا: بخدا کیوں نہیں۔ پیغمبر کے شانوں پر نگاہ پڑتے ہی مجھے امام حسین کی یاد آگئی۔ ابن عباس نے کہا: امام حسین رسول خدا سے کتنا مشابہ ہیں!۔
امام حسین علیہ السلام سن ۶۱ ہجری میں شہادت فرما گئے۔ اس وقت آپ کی عمر مبارک ۵۶ سال تھی۔ اپنی زندگی کے چھ یا سات سال اپنے نانا رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ گزارے ۳۷ سال تک اپنے بابا علی مرتضی علیہ السلام کے ساتھ اور ۴۷ سال کی عمر تک اپنے بھائی امام حسن(ع) کے ساتھ رہے۔اپنے بھائی کی شہادت کے دس سال بعد خود بھی مقام شہادت پر فائز ہو گئے۔
آپ کی کنیت ابا عبد اللہ تھی اور القاب: الرَّشيد، الوَفىّ، الطّيِّب، السّيد الزّكى، المبارك، التّابع لمرضاة اللَّه، الدّليل على ذات اللَّه والسِّبط، تھے۔
سید شباب اھل الجنہ اور سبط اصغر دو ایسے القاب ہیں جو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے آپ کو عطا کئے۔
امام حسین (ع) کے چھ بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں۔ ۱: علی اکبر کہ جو کربلا میں شہید ہو گئے جن کی ماں لیلی ابومرۃ بن مسعود ثقفی کی بیٹی تھی۔ ۲: علی اوسط، ۳: علی اصغر، زین العابدین کہ جن کی ماں " شاہ بانو" ایران کے بادشاہ یزدگرد کی بیٹی تھیں۔ لیکن شیخ مفید کے عقیدہ کے مطابق زین العابدین علی اکبر سے بڑے تھے۔ ۴: محمد۔ ۵: جعفر کہ جو پہلے ہی دنیا سے چل بسے تھے۔ ۶: عبد اللہ، شش ماہے جو کربلا میں اپنی گردن پر سہ شعبہ تیر کھا کر شہید ہو گئے۔ آ پ کی بیٹیاں سکینہ، فاطمہ اور زینب تھیں۔
واقعہ کربلا کے بعد آپ کی اولاد میں سے صرف امام زین العابدین باقی بچے تھے جن سے آپ کی نسل آگے بڑھی۔

اخلاقی فضائل

امام حسین علیہ السلام انسانی فضائل و کمالات اور اسلامی اخلاق کے نمونہ عمل تھے۔ سخاوت، کرامت، عفو و بخشش، شجاعت و بہادری، ظلم و ستم کا مقابلہ آپ کی آشکارا خصوصیات تھیں۔ یہاں پر آپ کے بعض فضائل و کمالات کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
اسامہ بن زید حالت احتضار میں تھے امام حسین علیہ السلام عیادت کرنے انکے پاس گئے اور انہیں غمگین حالت میں دیکھا۔ سبب معلوم کیا تو انہوں نے کہا: ساٹھ ہزار درھم کا مقروض ہوں۔ اور اس بات سے ڈر رہا ہوں کہ کبھی ادا کرنے سے پہلے ہی مر جاؤں۔ آپ نے فرمایا: میں تمہارے مرنے سے پہلے اسے ادا کر دوں گا اور اس کے بعد آپ نے ان کا قرضہ ادا کر دیا۔
ایک دیہاتی آدمی آپ کی خدمت میں آیا اور کہا: ایک دیّت میری گردن پر ہے اسے ادا کرنے سے ناتوان ہوں۔ اور میں نے سوچا باکرامت ترین شخص سے اس کا مطالبہ کروں گا اور خاندان پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے زیادہ کریم کوئی شخص میں نے نہیں پایا۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: اے مومن بھائی میں تجھ سے تین سوال کروں گا۔ اگر ایک کا جواب دیا تو تمہاری دیّت کا ایک تہائی مال ادا کروں گا اور دو سوال کے جواب دئے تو دو تہائی اور تینوں کا جواب دیا تو پورا مال عطا کر دوں گا۔ اس آدمی نے کہا: آپ جیسا عالم اور شریف آدمی مجھ سے سوال کرے گا؟ فرمایا: ہاں، رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے میں نے سنا ہے کہ " المعروف بقدر المعرفۃ" نیکی انسان کی معرفت کی مقدار میں ہونا چاہیے۔ اس آدمی نے کہا: اچھا سوال پوچھئے اگر معلوم نہیں ہوں گے تو آپ سے معلوم کر لوں گا۔ آپ نے فرمایا:
سب سے بہترین عمل کون سا ہے؟ اس نے کہا: خدا پر ایمان۔ فرمایا: ہلاکت اور عذاب سے بچنے کا راستہ کیا ہے؟ کہا: خدا پر بھروسہ اور توکل۔ امام نے پھر پوچھا: مرد کی زینت کیا ہے؟ کہا: علم حلم اور بردباری کے ساتھ۔ فرمایا: اگر یہ اس کے پاس نہ ہو؟ ( یعنی علم اور حلم نہ رکھتا ہو) اس نے کہا: مال سخاوت کے ساتھ۔ فرمایا اگر یہ بھی نہ ہو؟ فقر صبر کے ساتھ۔ فرمایا: اگر یہ بھی نہ ہو؟ اس نے کہا: پس آسمان سے بجلی گرے اور مر جائے۔ امام حسین علیہ السلام مسکرائے اور ایک ہزار دینار کی تھیلی اسے عطا کی۔ اور ایک انگوٹھی جس کی قیمت دو سو درھم تھی اسے دی اور کہا ان پیسوں سے دیت ادا کرو اور انگھوٹھی بیچ کر اپنا خرچ چلاؤ۔ اس اعرابی نے پیسے لیئے اور کہا: خدا بہتر جانتا ہے کہ اس کی رسالت کا سزوار کون ہے؟
انصار کا ایک آدمی اپنی حاجت لے کر امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا۔ امام (ع) نے فرمایا: اے میرے بھائی ! سوال کر کے اپنی آبرو ریزی نہ کرو اپنی حاجت ایک خط میں لکھ کر مجھے دو۔ اس نے لکھا : یا ابا عبد اللہ ! میں فلاں آدمی کا پانچ سو دینار کا مقروض ہوں۔ اس سے کہیئے کہ کچھ دن مجھے مہلت دے۔ امام (ع) خط پڑھنے کے بعد گھر تشریف لے گئے اور ایک ہزار دینار کی تھیلی لا کر اس کو دی اور فرمایا: پانچ سو دینار اس کا قرض دو اور پانچ سو اپنے بال بچوں پر خرچ کرو۔ اور اپنی حاجت کو کسی سے طلب نہ کرو مگر تین اشخاص سے: دیندار، سخی اور سید و سردار ۔ اس لیے کہ دیندار اپنی دینداری کا پاس و لحاظ رکھے گا۔ سخاوت مند اپنی سخاوت مندی سے شرم و حیا کر کے دے گا اور سید و سردار یہ جانتا ہے کہ جب آپ نے اس کے سامنے اپنی آبرو ریزی کی ہے تو اس کی حفاظت کرتے ہوئے آپ کی ضرورت کو پورا کرے گا۔
نقل ہوا ہے کہ روز عاشورا آپ کی پیٹھ پر گھٹوں کے نشان نکھائی دئے تو اس کا سبب امام سجاد علیہ السلام سے معلوم کیا گیا تو آپ نے فرمایا: آپ اپنی پیٹھ پر اناج کی بوریاں لاد کر یتیموں، بیواؤں اور بیکسوں کے گھروں میں پہنچاتے تھے۔
ایک دن آپ کا چند فقیروں کے پاس سے گذر ہوا جو عبا بچھا کر بیٹھے ہوئے سوکھی روٹیاں چبا رہے تھے۔ آپ نے ان پر سلام کیا اور ان کی دعوت قبول کرتے ہوئے ان کے پاس بیٹھ گئے اور کہا: اگر یہ روٹیاں صدقہ نہ ہوتیں تو میں بھی آپ کے ساتھ کھاتا۔ اس کے بعد انہیں اپنے گھر ساتھ لے گئے اور کھانا کھلایا پہنے کو لباس دیا اور ہر ایک کو کچھ درھم عطا کئے۔

فصاحت و بلاغت

امام حسین علیہ السلام ایک بہترین سخنور تھے آپ ایسے گھر میں پروان چڑھے کہ جہاں الٰہی فرشتے کلام خدا لے کر نازل ہوتے تھے۔ جب آپ نے انکھیں کھولیں تو سب سے پہلے رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زبان مبارک سے آذان و اقامت کی صورت میں کلام وحی کو سنا۔ آپ کی معلم اور مربی آپ کی والدہ گرامی سیدہ کونین دختر رسول جناب زہرا (س) تھیں اور استاد آپ کے والد بزرگوار علی مرتضیٰ تھے کہ جن کا خطابت کے میدان میں عرب و عجم میں کوئی ماں کالال مقابلہ نہ کر پایا۔
حضرت سید الشھداء (ع) کے بہت سارے حکیمانہ خطبات نقل ہوئے ہیں کہ جن میں سے ایک خوبصورت اور لاجواب خطبہ صبح عاشور آپ نے فرمایا:
الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذى‏ خَلَقَ الدُّنيا فَجَعَلَها دارَ فَناءٍ وَزَوالٍ، مُتَصَرِّفَةً بِأَهْلِها حالًا بَعْدَ حالٍ، فَالْمَغْرُورُ مَنْ غَرَّتْهُ وَالشَّقِىُّ مَنْ فَتِنَتْهُ، فَلا تَغُرَّنَّكُمْ هذِهِ الدُّنْيا، فَإِنَّها تَقْطَعُ رَجاءَ مَنْ رَكَنَ إِلَيْها وَتُخَيِّبُ طَمَعَ مَنْ طَمِعَ فيها وَأَراكُمْ قَدْ اجْتَمَعْتُمْ عَلى أَمْرٍ قَدْ أَسْخَطْتُمُ اللَّهَ فيهِ عَلَيْكُمْ. فأَعْرَضَ بِوَجْهِهِ الْكَريمِ عَنْكُمْ وَأَحَلَّ بِكُمْ نِقْمَتَهُ وَجَنَّبَكُمْ رَحْمَتَهُ فَنِعْمَ الرَّبُّ رَبُّنا وَبِئْسَ الْعَبْدُ أَنْتُمْ، أَقْرَرْتُمْ بِالطَّاعَةِ وَآمَنْتُمْ بِالرَّسُولِ مُحَمَّدٍ- صَلىَّ اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ- ثُمَّ إنَّكُمْ زَحَفْتُمْ إِلى ذُرِّيَّتِهِ وَتُريدُونَ قَتْلَهُمْ، لَقَدِ اسْتَحْوَذَ عَلَيْكُمُ الشَّيْطانُ فَأَنْساكُمْ ذِكْرَ اللَّهِ الْعَظيمِ. فَتَبّاً لَكُمْ وَما تُرِيدُونَ، إنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ راجِعُونَ، هؤُلاءِ قَوْمٌ كَفَرُوا بَعْدَ إيمانِهِمْ فَبُعْداً لِلْقَوْمِ الظَّالِمينَ۔
تمام تعریفیں اس خدا عظیم کی ہیں جس نے دنیا کو خلق کیا اور اس کو فنا اور زوال کا گھر بنا دیا۔ دنیا اپنے اندر بسنے والوں کو ہر لمحہ دگرگوں بناتی ہے۔ مغرور وہ شخص ہے جس کو دنیا نے فریب دیا ہو اور بد بخت وہ ہے جس کو دنیا نے گمراہ کیا ہو۔ مبادا دنیا کا فریب کھاجاؤ۔ اس لیے کہ دنیا اس پر اعتماد کرنے والوں کے ساتھ قطع تعلق کرتی ہے اور اس کی لالچ کرنے والوں کو امید دلاتی رہتی ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں ایسے کام کو کرنے کی خاطر جمع ہوئے ہو کہ جس سے خدا غضبناک ہوا ہے۔ اور اس کریم اور مہربان خدا نے اپنا منہ تم لوگوں سے موڑ کر تمہارے لیے عذاب کا سامان فراہم کیا ہے۔ اور تم لوگوں کواپنی رحمت سے محروم کر دیا ہے۔ ہمارا پرودگار کتنا اچھا پرودگار ہے۔ اور تم لوگ کتنے برے لوگ ہو۔ تم لوگوں نے یہ قبول کیا تھا کہ خدا کے حکم کی اطاعت کروگے اور اس کے رسول (ص) پر ایمان لاؤ گے لیکن آج اس کی اولاد کے ساتھ جنگ کرنے آگئے ہو۔ اور انہیں قتل کرنے پر مصمم ہو۔ بتحقیق شیطان نے تم لوگوں پر غلبہ کر لیا ہے اور خدا کی یاد کو اپنے دلوں سے محو کر دیا ہے۔ وای ہو تم پر تم کس چیز کی تلاش میں ہو؟۔ ہم خدا کی جانب سے ہیں اور اس کی طرف ہماری بازگشت ہو گی۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ایمان کے بعد کفر اختیار کر لیا ہے ۔ پس نابودی ہو ظالم قوم پر۔

شجاعت اور دلیری

امام حسین علیہ السلام نے گویا پوری دنیا کی شجاعت کو اپنے اندر سمیٹ رکھا تھا۔ آپ اس معمولی اور انگشت شمار دوست و احباب کے ساتھ یزید کے لاکھوں کی تعداد میں لشکر کے مقابلہ میں صف آرا ہو گئے اور جنگ کے یقینی ہونے کےبعد ذرہ برابر خوف و ہراس آپ کے چہرے پر ظاہر نہیں ہوا۔ اس کے باوجود کہ اپنی اور اپنے اصحاب کی شہادت پر یقین کامل رکھتے تھے پورے انتظام کے ساتھ اپنی مختصر سی فوج کو آمادہ کیا اور پورے اقتداراور دلیری کے ساتھ جنگ کو قبول کر لیا۔
آپ کی آنکھوں کے سامنے آپ کے اعزاء و اقرباء اور اصحاب و انصار خون میں غلتیدہ ہوگئے لیکن ہر گز آپ دشمن کے سامنے تسلیم نہیں ہوئے۔ اور جب اپنی جنگ کی باری آئی، تو شیر دلاور کی طرح دشمن پر ایسا حملہ کیا کہ ان کی صفوں کر چیرتے ہوئے لاشوں پر لاشے بچھا دئے۔
آپ نے ہر جنگی ٹیکنیک کو پوری امید کے ساتھ استعمال کرتے ہوئے ایسی جنگ کی کہ دشمن نے جنگی قوانین کو پامال کرتے ہوئے حیوانوں کی طرح آپ پر حملہ کیا۔
وہ لوگ جو آپ کے مد مقابل بر سر پیکار تھے کوچہ و بازار کے افراد نہ تھے بلکہ پیشاور اور ماہر جنگجو تھے لیکن آپ کی شجاعت کے سامنے سب نے گھٹنے ٹیک دئے اور اس بات کا اعتراف کیا کہ آج تک کسی کو ایسا نہ دیکھا کہ جس کی آنکھوں کے سامنے اس کی گودی کے پلے ہوئے اور لاڈلے ذبح کئے جائیں پھر بھی وہ تمام قوت کے ساتھ میدان کارزار میں اپنی شجاعت کا مظاہرہ کرے۔
برخلاف دشمن کے کہ جو حکومت اور اقتدار کی لالچ دلا کر لوگوں کو جنگ کرنے پر مجبور کر رہا تھا۔ امام حسین علیہ السلام نے اپنے اصحاب و انصار کو واپس چلے جانے اور جنگ کرنے میں اختیار دیا تھا۔ آپ نے اپنی اپنے مختصر سے لشکر کو دنیا پرستی اور پست عناصر سے پاک وپاکیزہ کر دیا تھا اور صرف وہی لوگ آپ کے ہمراہ آئے تھے جنہوں نے دنیا کو بیچ کر جنت کے مقامات خرید لئے تھے یہی وجہ تھی کہ دشمن نے کبھی بھی امام حسین (ع) اور ان کے اصحاب کے اندر ضعف اور ناتوانی کے آثار نہیں دیکھے۔
فوج اشقیاء کے چاروں طرف سے آپ کو گیر کر جو چیز انہیں میسر ہوئی اس سے آپ پر حملہ کیا لیکن پھر بھی شجاعانہ طریقہ سے دفاع کر رہے تھے اور دشمن کو نزدیک نہیں آنے دیا۔ ہاں، حسین ابن علی (ع) نے زخموں سے چھلنی بدن کے ساتھ زندگی کے آخری لمحہ تک فوج اشقیاء کے سیلاب کے سامنے جبل راسخ کی طرح ڈت کر مقابلہ کیا یہاں تک کہ جام شہادت نوش فرما لیا۔

حریت اور آزادی

امام حسین علیہ السلام کی شخصیت کی آشکارا صفات میں سے ایک صفت حریت اور آزادی تھی۔
امام حسین (ع) نے ذلت کو قبول نہیں کیا، ظلم وستم کے نیچے نہیں دبھے اور ظالموں کا آخری لمحہ تک منہ توڑ جواب دیا۔ یزید کے بر سر اقتدار آنے سے یہ احساس کیا کہ اسلامی اور انسانی قدریں نابود ہو رہی ہیں۔ اگر یزید جیسا شرابخوار، ہوس پرست اور زن باز اسلامی تخت خلافت پر بیٹھ جائے تو دین اور دینداری کا چراغ گل ہو جائے گااسی وجہ سے روز اول مروان کے سامنے بیٹھ کر یہ اعلام کر دیا:
جب بھی اسلامی حکومت کی باگ ڈور یزید جیسوں کے ہاتھ میں ہو تو ایسے میں اسلام کی فاتحہ پڑھنا چاہیے ۔ اپنے بھائی محمد حنفیہ کے جواب میں جو مسالحت کی دعوت دے رہے تھے فرمایا: چنانچہ پوری دنیا میں اگر کہیں پناہگاہ نہ ملے تب بھی یزید کی بیعت نہیں کی جائے گی۔
وہ حسین (ع) کہ جنہوں نے آغوش وحی میں تربیت حاصل کی تھی ہر گز اپنے ذاتی مفاد اور مصالح کی حفاظت کی خاطر اھداف رسالت کو پامال ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے تھے۔ جیسا کہ فرمایا تھا: ہم خاندان پیغمبر، آماجگاہ رسالت اور فرشتوں کی رفت و آمد کی جگہ ہیں۔ خدا وند عالم نے ہم سے آغاز کیا ہے اور ہمیں پر ختم کرے گا۔

مجھ جیسا یزید جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا۔

آپ نے اپنی تحریک اور قیام کے اندر بھی حریت اور آزادی کو پیغام دیا ہے مدینہ سے مکہ کی طرف حرکت کرتےوقت آپ کو یہ پیشنہاد دی تھی کہ آپ بھی عبداللہ بن ذبیر کی طرح کہیں اور کا راستہ اختیار کریں لیکن آپ نے فرمایا: خدا کی قسم میں اس راستے کو نہیں چھوڑ سکتا جب تک کہ خدا جو چاہے میرے مقدر میں لکھ دے۔ جب جناب حر نے آپ پر راستہ روکا اور آپ سے کہا گیا کہ خدا کے لیے اپنا راستہ بدل دیں اور جان بچالیں اگر جنگ کریں گے تو قتل ہو جائیں گے۔ آپ نے فرمایا: میری روش اور منطق اس اوسی بھائی کی طرح ہے جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نصرت کا قصد رکھتا تھا لیکن اس کا چچیرا بھائی اسے موت کا خوف دلا رہا تھا اس نے جواب میں کہا:
میں جاؤں گا اس لیے کہ جب تک مرد مجاہد کی نیت حق رہے اور اسلام کی راہ میں جنگ کرتا رہے موت اس کے لیے ننگ و عار نہیں ہے۔
میں اپنی جان کو قربان کرتا ہوں اس کے باقے رہنے کی آرزؤں نہیں کرتا۔ یہاں تک کہ دو چھوٹے اور بڑے لشکر آپس میں معرکہ آراء نہ ہو جائیں۔
اگر زندہ رہ گیا تو پشیمان نہیں ہوں اور اگر قتل ہو گیا تو سرزنش نہ کریں مرد کے لیے یہی سب سے بڑی ذلت ہے کہ وہ زندہ رہے لیکن ظالم کے حکم کی اتباع کرتا رہے۔
دشمن کے پاس عظیم لشکر تھا اور امام حسین علیہ السلام کے مختصر اصحاب و انصار انے مقابلہ میں ناچیز تھے۔ لیکن علی (ع) کے لال اس لشکر غفیر کو اپنے مد مقابل کے لیے کچھ بھی سمجھ رہا تھا اس لیے وہ پست و ضمیر فروش لوگ تھے اور انسانی اعلی قدروں کے لیے کسی حرمت کے قائل نہیں تھے اسی وجہ سے ان کی بے غیرت مندانہ رفتار کو دیکھ کر آپ نے فرمایا:
«انْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ دينٌ وَكُنْتُمْ لا تَخافُونَ الْمَعادَ فَكُونُوا أَحْراراً فِى دُنْياكُمْ ...» اگر تمہارے پاس دین نہیں ہے اور قیامت سے نہیں ڈرتے تو کم سے کم اپنی زندگی میں آزاد تو رہو۔۔۔۔

صلح امام حسن (ع) کے دور میں

حضرت امام حسن علیہ السلام نے اپنے دور کے سیاسی۔ سماجی اور عسکری شرائط کے پیش نظرمعاویہ کے ساتھ ایسا عہد و پیمان کر جس اسلامی قدروں کا محفوظ رکھا جا سکتا تھا جنگ کرنے سے ہاتھ کھینچ لیا۔ لیکن خود خوواہ اور زیرک عناصر اس بیچ اس صلح پر راضی نہ تھے امام حسن علیہ السلام کے ساتھ مخالف کا اظہار کرتے ہوئے امام حسین علیہ السلام کو بھی اس صلح سےکنارہ کشی کی ترغیب دلاتے تھے۔لیکن امام حسین علیہ السلام نے ان کی پیشنہادوں کو در کرتے ہوئے فرمایا ہم نے بیعت کر لی ہے اور بیعت ٹورنے کا ابھی کوئی راستہ ہمارے پاس نہیں ہے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ اس وقت منصب امامت پر امام حسن علیہ السلام فائز ہیں ان کے ساتھ مخالفت جائز نہیں ہے۔
امام حسن (ع) کی شہادت کے بعد جب تک معاویہ زندہ تھا پیمان صلح کی بنا پر آپ نے اس کے ساتھ عہد و پیمان نہیں توڑا اور کسی طرح کا قیام اس کے خلاف نہیں کیا۔ جو اس کے ساتھ مخالفت کی دعوتیں دیتے تھے آپ فرماتے تھے کہ جب تک معاویہ زندہ ہے ہم پیمان صلح کی وجہ سے اس کے ساتھ مخالفت کا حق نہیں رکھتے۔
امام حسن (ع) اور معاویہ کے درمیان پیمان صلح کی بنا پر معاویہ اپنے بعد جانشین مقرر کرنے کا حق نہیں رکھتا تھا ایک دن مغیرہ بن شعبہ کہ جو کوفہ کی سربراہی سے معزول ہوا تھا معاویہ کے پاس آیا اور اسے پیشنہاد دی کہ اپنے بعد یزید کو جانشین مقرر کرے۔ معاویہ اس پیشنہاد کو عملی جامہ پہنانے میں مردّد تھا لیکن مغیرہ نے اسے دعدہ دیا کہ وہ کوفہ اور بصرہ کے لوگوں سے اس کے لیے بیعت لے گا اور ان شہروں کی بیعت کے بعد مخالفت کوئی معنی نہیں رکھتی۔
اس کے بعد معاویہ نے بھی کوشش کرنا شروع کردی کہ یزید کے لیے ہر ممکن صورت میں بیعت لے اور چونکہ سب زیادہ مخالف لوگ اس کے حجاز میں تھے لہذا حاکم مدینہ کو حکم دیا کہ وہ امام حسین (ع) اور چند دوسرے سر کرفہ افراد سے یزید کے لیے بیعت لے لے۔ اس تلاش و کوشش کے ناکام ہونے کے بعد وہ خود مکہ و مدینہ میں عزم سفر ہوا اور لوگوں کے درمیان اس پیشنہاد کو رکھا لیکن اس کوشش بھی ناکام رہ گئی اور وہ واپس شام آنے پر مجبور ہو گیا۔
معاویہ کی مرگ کے بعد سب سے پہلا سیاسی اقدام یہ تھا کہ امام حسین اور چند دوسرے افراد سے یزید کے لیے بیعت حاصل کی جائے۔ لیکن امام حسین (ع) یزید کی بیعت کرنے پر راضی نہیں ہوئے اور اس کے مقابلہ میں قیام کرنے پر تیار ہوگئے۔ حاکم مدینہ نے یزید کے حکم کے مطابق امام حسین(ع) کو اس کام کے لیے مجبور کرنے کی کوشش کی۔ لیکن آپ نے اپنا وطن مدینہ چھوڑا اور مکہ کی طرف چل پڑے۔ کوفہ کے لوگوں کو محض خبر ملتے کہ امام یزید کی بیعت کے مخالف ہیں اور نتیجہ میں اس کی مخالف میں قیام کرنا چاہتے ہیں ان کی طرف خطوط کے ڈھیر لکھنا شروع کر دئے کہ امام ان کے شہر یعنی کوفہ میں تشریف لے جاکر حکومت اسلامی کی زمام کو اپنے ہاتھ میں لیں۔ ان کے خطوط کے مضامین تقریبا کچھ اس طرح کے تھے: "ہمارے ہاں کوئی امام نہیں ہے۔ آپ آجائیے ۔ خدا آپ کےذریعے ہمیں حق کی طرف ہدایت کرے گا" امام علیہ السلام نے بھی فریضہ الہی پر عمل کرتے ہوئے اور حجت تمام کرتے ہوئے یہ ارادہ بنا لیا کہ ان کے تقاضہ و پورا کیا جائے۔
اس دوران مکہ میں کئی شخصیات آپ کو اس کام سے روکنے کی غرض آئیں۔ منجملہ ابن عباس نے اس سلسلے میں امام (ع) سے گفتگو کی اور کہا اگر کوفہ کے لوگ اپنے حاکم کو قتل کرکے حکومتی امور کو اپنے ہاتھ میں لیں اور اپنے دشمنوں کو اپنے شہر سے باہر کریں تو ٹھیک ہے آپ جائیں۔ لیکن اگر ان کا حاکم ان پر حکومت کر رہا ہو اور وہ اس کو ٹیکس اور جزئیہ ادا کرتے ہوں تو ایسی حالت میں آپ کو دعوت صرف جنگ و جدال کے ہو گی۔ ابن عباس نے مزید کہا اگر سچ مچ آپ کو مکہ بھی چھوڑنا تو یمن کی طرف چلے جائیے اور اپنا آپ بچا لیجیئے۔
اس کے بعد عبد اللہ بن زبیر نے بھی اصرار کیا کہ آپ مکہ میں ہی ٹھر جائیں اس لیے کہ مکہ میں آپ کا مقام و منزلت عظیم ہے۔ اور لوگ یہی پر آپ کے حکم کی اتباع کریں گے۔
اس باوجود ان میں سے بعض باتیں منطقی اور بظاہر صحیح معلوم ہوتی ہیں لیکن امام (ع) نے کسی ایک کی بھی نہ سنی اور سب کی باتوں کی تردید کی۔ آخر کیوں؟ اس بات کو راز امام (ع) کے عقیدہ اور دوسرے لوگوں کے طرز تفکرات میں نہفتہ تھا۔ وہ لوگ سیاسی اور فوجی نگاہ سے اس مسئلہ کی طرف دیکھتے تھے اور نتیجہ میں امام (ع) کی بنی امیہ پر کامیابی کو امر محال سمجھتے تھے۔ لیکن امام (ع) ان خبروں کی بنا پر جو آپ کے نانا اور بابا کی طرف سے آپ کی شہادت کے بارے میں نقل ہوئیں تھی اورآپ کے لیے تعیین تکلیف کر رہی تھیں آگے بڑھ رہے تھے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہ فرمادیا تھا کہ میرا بیٹا حسین (ع) بنی امیہ کےہاتھوں شہید ہوگا۔ اور امام حسین (ع) قضای الٰہی کے سامنے تسلیم تھے اور الہی الھامات کی بنا پر قدم اٹھا رہے تھے۔

مؤلف: افتخار علی جعفری