
سلیمانی
ایران، روس اور چین کی خلیج فارس میں فوجی مشقیں
تہران میں ماسکو کے سفیر کہنا ہے کہ ایران، روس اور چین کی بحریہ دسمبر کے آخری میں یا جنوری کے آغاز میں فوجی مشقیں کریں گی۔
فارس نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق تہران میں روس کے سفیر کا کہنا تھا کہ ان فوجی مشقوں کا مقصد، جہاز رانی کی سیکورٹی فراہم کرنا اور سمندر راہزنی سے کشتیوں کو محفوظ رکھنا ہے۔
روس کی خبر رساں ایجنسی نے بھی پیر کے روز اپنی رپورٹ میں خلیج فارس میں ایران، روس اور چین کی بحریہ کی فوجی مشقوں کی خبر دی ہے۔
اس رپورٹ کی بنیاد پر تہران میں روسی فیڈریشن کے سفیر لوان جاگاریان نے کہا کہ ایران، روس اور چین کی بحریہ 2021 کے آخری دنوں میں یا 2022 کے شروعاتی دنوں میں فوجی مشقیں کریں گی۔۔
ابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا انٹرویو: امریکہ اپنی تاریخ کے ذلت آمیزترین دور سے گذر رہا ہے / ہم نے مشرق وسطی میں کھربوں ڈالر خرچ کئے اور ملینوں انسانوں کو قتل کیا
ڈونلڈ ٹرمپ جس نے قبل ازیں افغانستان کے مسئلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے صدر جو بائیڈن سے استعفا دینے کا مطالبہ کیا تھا، فاکس نیوز کے مشہور میزبان شان ہینٹی (Sean Patrick Hannity) کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا: "کبھی بھی ہمارے ملک کی اتنی تذلیل نہیں ہوئی ہے"۔
شان ہینٹی نے ابتداء میں ٹرمپ سے کہا: بعض ذرائع اور افراد نے مجھ سے کہ آپ نے بذات خود مذاکرات میں طالبان کو (مذاکرات میں) کچھ انتباہات دیئے تھے، اب جو بائیڈن آپ (افغانستان کی موجودہ صورت حال اور اس ملک پر طالبان کے تسلط) کے سلسلے میں قصور وار ٹہرانے کی کوشش کررہے ہیں۔ میں پہلے آپ کو جواب کا موقع دیتا ہوں، افغانستان کی موجودہ صورت حال کے بارے میں آپ کا تجزیہ کیا ہے، نیز ہمیں طالبان کے سرکردہ افراد کے ساتھ اپنی گفتگو کے بارے میں بتایئے۔
ٹرمپ: شان (ہینٹی) مجھے خوشی ہے کہ آپ کے ساتھ ہوں۔ لیکن اس وقت ہمارا ملک ایک ہولناک دور سے گذر رہا ہے۔ میرے خیال میں طویل عرصے سے ہمارے ملک کی اس قدر تذلیل نہیں ہوئی تھی، میں یہ نہیں جانتا کہ اس کو عسکری شکست کا نام دیں یا نفسیاتی شگست کا۔ لیکن آج تک ہمیں اس طرح کے واقعے کا سامنا نہیں ہؤا ہے۔ ہمیں جمی کارٹر کے زمانے میں ایران میں ہمارے یرغمالیوں کے مسئلے سے بھی بری طرح کی خفت کا سامنا ہے۔ ہم اس کو شرمساری کا سبب سمجھتے تھے لیکن رونلڈ ریگن نے ہمیں اس مسئلے سے خارج کردیا۔ لیکن افغانستان کا مسئلہ کئی گنا زیادہ ہولناک ہے۔ ہزاروں امریکی اور دوسرے ممالک کے باشندے افغانستان میں پھنس گئے ہیں۔ صورت حال ایسی ہے کہ مجھے یقین نہيں آرہا تھا کہ اس طرح کا واقعہ رونما ہورہا ہے۔ جب آپ نے ایک بڑے فوجی طیارے کو دیکھا جس کے دو پہلؤوں سے لوگ سوار ہوکر افغانستان سے فرار ہونے کی کوشش کر رہے تھے یہ سب ان حالات کا نتیجہ تھا جس سے یہ لوگ خائف تھے۔ ان میں سے کچھ افراد 2000 میٹر کی بلندی سے طیارے سے نیچے گر گئے۔ کسی نے بھی ایسا واقعہ نہیں دیکھا ہے۔ افغانستان کی موجودہ صورت حال ویت نام میں ہیلی کاپٹر کے واقعے کے ساتھ قابل قیاس نہیں ہے؛ اور ہم امریکہ کو درپیش خفت آمیز ترین دور سے گذر رہے ہیں۔
ٹرمپ نے بعدازاں طالبان کے ساتھ اپنی حکومت کی مفاہمت کی طرف اشارہ کیا اور اپنی کارکردگی کی تعریف کی۔
انھوں نے کہا: جی ہاں ہم نے طالبان کے ساتھ مفاہمت پر کافی کام کیا اور مائک پامپیو اور کئی دوسرے افراد نے شب و روز اس مسئلے پر کام کیا اور طالبان سے ملاقاتیں کی؛ بےشک طالبان سے ملاقات کی ضرورت ہے کیونکہ وہ ایسے لوگ ہیں جن کے ساتھ آپ کو بات چیت کرنا پڑتی ہے۔ میں نے طالبان کے مذاکرات کاروں کے سربراہ سے کئی مرتبہ ملاقات کی۔ ہماری گفتگو کافی مضبوط تھی۔ میں نے گفتگو کے آغاز پر ہی اس سے کہہ دیا کہ "اگر امریکیوں کو کوئی حادثہ پیش آیا، اور اگر تم ہماری سرزمین کی طرف آئے، تو تمہیں ایسی طاقت کا سامنا کرنا پڑے گا جو کسی بھی ملک کے خلاف آج تک استعمال نہیں ہوئی ہے؛ نقصان اٹھاؤ گے، اتنی بڑی قوت تمہارے خلاف استعمال ہوگی جس کا تمہیں یقین تک نہیں آتا۔ میں نے اس شخص کے گاؤں کا نام لیا اور کہا کہ سب سے پہلا بم تمہارے گاؤں پر گرا دیا جائے گا"۔
شان ہینٹی: آپ نے یہ باتیں کس شخص سے کہہ دیں؟
ٹرمپ: ملا (عبدالغنی) برادر سے؛ جو غالبان طالبان کے اعلی قائدین میں سے ایک ہے۔ البتہ کوئی نہیں جانتا کہ طالبان کا اصلی قائد کون ہے۔ ہماری بات چیت بہت مضبوط تھی، گوکہ اس کے بعد بھی ہمارے درمیان بات چیت ہوئی جو کافی اچھی تھی۔ ۔۔۔ میں نے ان سے کہا کہ افغان حکومت کے ساتھ مفاہمت کریں، لیکن میرا افغان صدر اشرف غنی پر کبھی بھی اعتماد نہیں تھا۔ میں نے یہ بات خفیہ طور پر بھی اور اعلانیہ بھی کہہ دی تھی۔ میرے خیال میں وہ ایک بدعنوان شخص تھا۔
ٹرمپ نے دعوی کیا کہ امریکی سینٹروں کے درمیان اشرف غنی کی اپنی لابی تھی جبکہ میں اسے کبھی بھی نہیں چاہتا تھا۔ اب خبر آرہی ہے کہ وہ بڑی رقوم لے کر ملک سے فرار ہوگیا ہے اور میرے خیال میں یہ خبر درست ہے۔ اشرف غنی افغانستان میں ہمارے لئے ایک مشکل مسئلہ تھا۔
میرے خیال میں طالبان کے ساتھ مذاکرات اشرف غنی کے ساتھ مذاکرات سے زیادہ اہمیت رکھتے تھے کیونکہ افغانستان کا اصل مسئلہ طالبان تھے اور وہ عرصۂ دراز سے وہاں تھے اور اچھے جنگجو ہیں جو جم کر لڑتے ہیں۔
ٹرمپ کا کہنا تھا کہ بہت سارے ریپلکن اور ڈیموکریٹ راہنما افغانستان میں امریکی کی موجودگی جاری رکھنے پر زور دے رہے تھے۔
ٹرمپ نے کہا: میں نے آپ کے اس پروگرام اور دوسرے پروگراموں میں لوگوں کی باتیں سنی ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں افغانستان میں رہنا چاہئے۔ انہیں معلوم نہیں ہے کہ ہم ہر سال 42 ارب ڈالر افغانستان میں خرچ کئے ہیں۔ ہر سال 42 ارب ڈالر سالانہ۔ جہاں تک میں سمجھا ہوں روس اپنی پوری فوج کے لئے سالانہ 40 ارب ڈالر خرچ کرتا ہے۔ لیکن ہم صرف افغانستان میں 42 ارب ڈالر خرچ کرتے ہیں۔ یہ سب مہمل ہے۔ ہم برسوں سے سالانہ 42 ارب ڈالر اس ملک کے دفاع کے لئے خرچ کرتے ہیں۔ 20 سال سے نہیں بلکہ 21 سال چھ مہینوں سے، ہم وہاں موجود ہیں اور وہاں سے ہمیں کچھ بھی نہ ملا۔
سابق امریکی صدر نے جارج بش جونیئر کو ایک بار پھر شدید تنقید کا نشانہ بنایا جس نے امریکہ کو افغانستان اور عراق کی جنگ میں جھونک دیا تھا۔
ٹرمپ نے کہا: ہم دنیا کی سب سے بڑی فوج کے مالک ہیں لیکن جو واقعات رونما ہوئے ہیں، ہم اس فوج کو بدنام کررہے ہیں۔ ہم نے اس خوفناک علاقے (افغانستان) پر (2001ء) میں قابض ہوئے، ایسے ملک میں جہاں ہمیں مداخلت کرنا ہی نہیں چاہئے تھی، اور یہ ایک ہولناک فیصلہ تھا کہ ہم مشرق وسطی میں داخل ہوئے۔ میں جانتا ہوں کہ بش خاندان کو میری ان باتوں سے خوشی نہيں ہوگی لیکن مجھے یقین ہے کہ جب ہم نے مشرق وسطی میں مداخلت کا فیصلہ کیا۔ یہ ہمارے ملک کی تاریخ کا بدترین فیصلہ تھا اور "واضح ہؤا کہ وہاں ایک دلدل ہے" اور ہمارے اس فیصلے نے مشرق وسطی کو نیست و نابود کیا۔ مشرق وسطی کی صورت حال 20 21 سال پہلے سے کہیں زیادہ خراب ہوچکی ہے۔ یہ بہت برا فیصلہ تھا جس کی وجہ سے ہمیں کئی ٹریلین ڈالر خرچ کرنا پڑے۔ جب میں دونوں فریقوں پر نظر ڈالتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ ہمارا یہ فیصلہ کئی ملین انسانی جانوں کے ضیاع کا سبب بنا ہے اور مشرق وسطی کی حالت پہلے سے بہتر نہیں بلکہ بدتر ہوئی ہے۔
ٹرمپ نے کابل کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کے محاصرے اور اس اڈے میں موجود کثیر تعداد میں امریکیوں کی موجودگی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: طالبان اچھے جنگجو ہیں جو برسوں سے لڑے ہیں اور آپ کو اعتراف کرنا پڑے گا کہ وہ اچھے جنگجو ہیں وہ ایک ہزار برسوں سے لڑ رہے ہیں اور اب طالبان نے کابل کے ہوائی اڈے کو گھیر لیا ہے۔ تو اب کون پیش گوئی کرسکتا ہے کہ وہ محصور ہوائی اڈے میں (امریکیوں اور دیگر) محصورین کے ساتھ کیا سلوک روا رکھیں گے؟ میں پوری سچائی کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں کہ وہ بڑے زیرک ہیں اور انہیں چاہئے کہ امریکیوں کو نکلنے کی اجازت دیں۔ ہماری حالت کچھ ایسی ہے کہ شاید اس وقت 40 ہزار امریکی اور امریکیوں کے مقامی معاونین افغانستان میں موجود ہیں، اور ممکن ہے کہ انہیں یرغمال بنایا جائے۔ 40 ہزار ممکنہ یرغمالی!۔
ٹرمپ نے افغانستان سے امریکی انخلاء کے سلسلے میں سابقہ امریکی انتظامیہ کے فیصلے کو سراہتے ہوئے کہا: منصوبہ یہ تھا کہ ابتداء میں غیر فوجیوں کو نکالا جائے اور سب سے آخر میں فوجیوں کو۔ گوکہ میرا یہ بھی منصوبہ تھا کہ اپنے تمام فوجی وسائل اور ہتھیاروں کو بھی افغانستان سے نکال دوں۔ افغانستان میں ہمارا اربوں ڈالر کا اسلحہ موجود ہے جن میں بلیک ہاک (Sikorsky UH-60 Black Hawk) ہیلی کاپٹر بھی شامل ہیں، اور اب روسی ماہرین ان کا جائزہ لیں گے نیز چین اور دوسرے! بھی۔ افغانستان میں ہمارے جدید ماڈل کے ٹینک اور گولہ بارود بشمول مختلف میزائل، بھی ہیں۔ میں ان سب کو بھی افغانستان سے نکال لاؤں، کیونکہ میں جانتا تھا کہ وہ (ہماری بنائی ہوئی افغان فوج) کبھی بھی نہیں لڑے گی۔
ٹرمپ نے کہا: میں نے یہ سوال اٹھایا کہ افغانی (یعنی افغان فوجی) طالبان کے خلاف کیوں لڑ رہے ہیں۔ لیکن بہت سارے افراد نے مجھے غلط معلومات فراہم کیں اور آخرکار ہم نے افغانستان کو ترک کردیا اور انھوں نے طالبان کے خلاف لڑنا، ترک کردیا۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ دنیا بھر میں سے بڑی تنخواہیں لینے والے سپاہی تھے اور وہ تنخواہ کی خاطر طالبان کے خلاف لڑ رہے تھے اور ہم نے انہیں تنخواہ دینے کا سلسلہ بند کیا اور وہاں سے باہر نکل آئے اور انہوں لڑنے کا سلسلہ بند کردیا۔ ۔۔۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم افغان فوجیوں کو بڑی بڑی رقوم دے رہے تھے، اور حالت کچھ یوں تھی کہ گویا ہم انہيں رشوت دے رہے تھے کہ وہ لڑیں۔ ۔۔۔ یہ جو اب ہم افغانستان کو چھوڑ رہے ہیں، یہ بہت اچھی بات ہے لیکن (اس سے پہلے) کسی نے بھی جو بائیڈن کی طرح ایک المناک فوجی پسپائی کا انتظام نہیں کیا تھا اور "یہ ہمارے ملک کی تاریخ میں ہماری شرمساری کا سب سے بڑا واقعہ ہے"۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
ایران کی کامیابی اور امن و سلامتی کا راز قائد انقلاب اسلامی کی ذہانت و بصیرت
قائد انقلاب اسلامی کی دشمن شناسی اور سکیورٹی کے حوالے سے انکی دور اندیشی اور سوجھ بوجھ کے طفیل میں ایران دشمن کی بہت سی سازشوں سے محفوظ رہا ہے، یہ بات ایران کی سپاہ پاسداران کے ایرو اسپیس شعبے کے کمانڈر بریگیڈیر جنرل امیر علی حاجی زادہ نے کہی۔
ایران کی دفاعی صنعت میں قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کی بصیرت و تدبیر اور پالیسیوں کا کردار عنوان کے تحت ایک ورچوئل اجلاس کو خطاب کرتے ہوئے میجر جنرل حاجی زادہ کا کہنا تھا کہ گزشتہ تین دہائیوں میں دشمن کی جانب سے ایران کے لئے بہت سی سازشیں رچی گئیں اور ایران کی راہ میں بہت سے جال بچھائے گئے، مگر وہ، قائد انقلاب اسلامی کی ذہانت و زیرکی کے باعث ان مرحلوں سے بحفاظت گزر گیا۔
انہوں نے افغانستان، عراق، شام اور لبنان کی سیاسی و عسکری صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان ممالک کو عسکری میدان میں بہت سے چیلنجوں اور مشکلوں کا سامنا ہے جو امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے ان ممالک کی افواج کو کمزور کرنے کے مقصد سے ہی کھڑی کی گئی ہیں، مگر ایران میں دشمن کا یہ منصوبہ قائد انقلاب اسلامی کی ذہانت و بصیرت کے طفیل میں ناکام رہا۔
سپاہ پاسداران کے ایرو اسپیس شعبے کے کمانڈر نے کہا کہ گزشتہ برسوں میں جس وقت عراق و شام میں داعش کے خلاف جنگ جاری تھی تو بعض کا یہ کہنا تھا کہ ایران کو اس سے دور رہنا چاہئے، مگر قائد انقلاب اسلامی نے داعش کے خلاف جنگ کی مکمل حمایت کا فیصلہ کیا اور اگر یہ فیصلہ نہ ہوا ہوتا تو آج ہم اندرون ایران داعشی عناصر سے لڑ رہے ہوتے۔
انہوں نے واضح کیا کہ آج ایران کی مسلح افواج دفاعی شعبے میں عالمی سطح پر ایک مقام رکھتی ہیں جس کا اعتراف دشمن کو بھی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسے اس بات کا ادراک ہو چکا ہے کہ اب ایران کے خلاف عسکری آپشن کے استعمال کی بات لا یعنی ہے۔
ایران کا افغانستان میں جامع اور ہمہ گیرحکومت کی تشکیل کا استقبال اور خیر مقدم کرنے کا اعلان
اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے کہا ہے کہ ایران ، افغانستان میں ہمہ گیر اور جامع حکومت کی تشکیل کا استقبال اور خیر مقدم کرےگا۔
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ایران افغان عوام کی حمایت کا سلسلہ جاری رکھےگا ، ہم افغان عوام کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ خطیب زادہ نے کہا کہ ہم افغانستان میں جامع حکومت کی تشکیل کے خواہاں ہیں جس میں افغانستان میں موجود تمام اقوام اور قبآئل کی نمائندگی ہو۔ انھوں نے کہا کہ ہم افغانستان کی صورتحال کا قریب سے جائزہ لے رہے ہیں۔ ایران افغانستان میں امن و صلح کا خواہاں ہے افغان عوام نے گذشتہ 40 برسوں میں بہت سی مشکلات کا سامنا ہے ۔افغان عوام کو درپیش مشکلات کا خآتمہ ہونا چاہیے۔ اب افغانستان کی پیشرفت اور ترقی کا دور ہے ہم افغانستان میں امن و ثبات کو افغانستان کے ہمسایہ اور خطے کے ممالک کے لئے اہم سمجھتے ہیں۔
خطیب زادہ نے کہا کہ افغانستان کی تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ افغانستان کے بحران کا راہ حل فوجی نہیں بلکہ سیاسی مذاکرات میں مضمر ہے۔ایران افغانستان میں امن و ثبات کے لئے میں اپنی کسی بھی کوشش سے دریغ نہیں کرےگا۔ ہم گذشتہ 40 برس سے افغان عوام کے ساتھ ہیں اور ان کے ساتھ رہیں گے۔
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ افغان عوام کی مال و جان، عزت و ناموس کی حفاظت اور آفغانستان کے تاریخي اور ثقافتی آثار کی حفاظت افغان عوام اور عالمی برادری کے لئے اہمیت کی حامل ہے۔
ہم افغانستان میں امن و صلح برقرار کرنے کے سلسلے میں تعاون اور مدد کے لئے آمادہ ہیں
اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی نے آسٹریا کے صدر اعظم سباسٹین کرٹس کے ساتھ ٹیلیفون پر گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم افغانستان میں امن و صلح برقرار کرنے کے سلسلے میں تعاون اور مدد کے لئے آمادہ ہیں۔
صدر رئیسی نے ایران اور آسٹریا کے درمیان 500 سالہ تعلقات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران اور آسٹریا کے درمیان طویل تعلقات دونوں ممالک کا گرانقدر سرمایہ ہے جس کی حفاظت ضروری ہے۔
صدر رئیسی نے افغانستان کی موجودہ صورتحال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر افغانتسان کی موجودہ تاریخ کا غور سےمطالعہ کیا جائے تو واضح ہو جائے گا کہ امریکہ نے جس دن سے افغانستان میں مداخلت شروع کی ، اس دن سے افغان عوام نے ایک دن بھی آرام اور سکون سے بسر نہیں کیا۔ انھوں نے کہا کہ امریکی فوج کے افغانستان سے انخلا کے بعد افغان گروہوں کو باہمی مذاکرات کے ذریعہ معاملات کو حل کرنا چاہیے اور افغانستان میں ہمہ گیر اور جامع حکومت کی تشکیل کے سلسلے میں تلاش و کوشش کرنی چاہیے۔ صدر رئیسی نے کہا کہ ایران ظالمانہ پابندیوں کے باوجود گذشتہ 40 برس سے افغان قوم اور افغان مہاجرین کی مدد اور حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔ آسٹریا کے صدر اعظم نے دونوں ممالک کے تعلقات کو فروغ دینے پر تاکید کرتے ہوئے کہا کہ ایران کی طرف سے افغان مہاجرین کی میزبانی اور مدد قابل قدر اور تعریف ہے۔
ٹونی بلیئر نےافغانستان سے امریکہ کے انخلا کو احمقانہ اقدام قراردیدیا
برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر نے افغانستان سے امریکہ کے انخلا کو احمقانہ اقدام قراردیدیتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان سے امریکی انخلا کسی بڑی حکمت عملی کی بنیاد پر نہیں ہوا بلکہ سیاسی بنیاد پر ہوا ہے۔ ٹونی بلیئر نے اپنے انسٹیٹیوٹ کی ویب سائٹ پر مضمون شائع کیا جس میں اس نے لکھا کہ " افغانستان اور افغان عوام کو تنہا چھوڑنا تباہ کُن، خطرناک اور غیر ضروری عمل تھا۔"
ٹونی بلیئر نے لکھا کہ یہ غیرضروری عمل نہ تو افغانستان کے مفاد میں ہے اور نہ ہی ہمارے مفاد میں۔
اُنہوں نے لکھا کہ افغانستان سے انخلا محض مستقل جنگی ختم کرنے کے احمقانہ سیاسی نعرے کی پیروی میں کیا گیا۔
سابق برطانوی وزیراعظم نے اپنے مضمون میں یہ بھی لکھا کہ2001ء میں امریکہ کی قیادت کا افغانستان پر حملہ خطرناک اور غیرضروری عمل تھا۔
ہم منطقی مذاکرات کی میز سے فرار نہیں کریں گے
اسلامی جمہوریہ ایران کے نامزد وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے کہا ہے کہ ہم منطقی مذاکرات کی میز سے فرار نہیں کریں گے اور وزارت خارجہ کو مشترکہ ایٹمی معاہدے سے گرہ بھی نہیں لگائیں گے۔ اطلاعات کے مطابق ایرانی پارلیمنٹ میں تیرہویں حکومت کے وزراء کو اعتماد کا ووٹ دینے کے سلسلے میں بحث اور تحقیق کا سلسلہ جاری ہے ۔ ایران کے نامزد وزیر خارجہ نے وزارت خارجہ میں اپنے منصوبوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ سفارتکاری اور میدانی طاقت دو مضبوط بازو ہیں جن کے ذریعہ قومی اور ملکی مفادات کو تحفظ فراہم کیا جاسکتا ہے۔ ہم عاشورا کے ماننے والے ہیں اور ہم اسلامی ، انقلابی، انسانی اور اخلاقی اقدار کا عالمی سطح پر بھر پور دفاع کریں کریں گے۔
امیر عبداللہیان نے کہا کہ ہم ظالمانہ پابندیوں کو ختم کرانے کے سلسلے میں اپنی تمام توانائیوں اور صلاحیتوں سے استفادہ کریں گے اور اس سلسلے میں ملکی اور قومی مفادات کے تحفظ کے سلسلے میں منطقی اور مفید مذاکرات انجام دیں گے ۔
امیر عبداللہیان نے کہا کہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانا ایرانی کی ترجیحی پالیسیوں کا حصہ ہے ہم تمام علاقائی ممالک کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھانے کے لئے آمادہ ہیں۔
انھوں نے کہا کہ افغانستان کے امور پر ہماری گہری نظر ہے، افغانستان ہمارا ہمسایہ ملک ہے ہم نے ہمیشہ افغان عوام کی حمایت کی ہے ہم افغان عوام کو تنہا نہیں چھوڑیں گے اور ہم بین الافغانی مذاکرات اور افغانستان میں پائدار امن کے قیام کے سلسلے میں کسی بھی کوشش سے دریغ نہیں کریں گے۔
انھوں نے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ تمام مسلمان عربستان کونزول وحی کی سرزمین سمجھتے ہیں اور ہم سعودی عرب کے ساتھ تعلقات اور تعاون کو علاقائی مسلمانوں اور خطے کے استحکام کے لئے کافی اہم سمجھتے ہیں
چین نے امریکہ کو افغانستان کی موجودہ صورتحال کا ذمہ دار قراردیدیا
مہر خبررساں ایجنسی نے جیو نیوز کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ افغانستان کے لیے چین کے خصوصی نمائندے ژیاؤ یانگ نے امریکہ کو افغانستان کی موجودہ صورت حال کا ذمہ دار قرار دے دیاہے۔ چینی نمائندہ خصوصی نے کہا کہ افغانستان کی صورت حال کا ذمہ دار امریکہ ہے۔
افغانستان کے لیے چین کے خصوصی نمائندے ژیاؤ یانگ نے کہا کہ امریکہ نے سیاسی حل نکالے بغیر افغانستان کو چھوڑ دیا، طاقت کے استعمال اور اندرونی معاملات میں مداخلت سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ سنگین ہوتے ہیں۔ چین کے نمائندہ خصوصی نے کہا کہ توقع ہے طالبان سب قومیتوں کو ملا کر قابلِ قبول حکومت بنائیں گے، ایسٹ ترکستان اسلامی موومنٹ کو پناہ دینے جیسی غلطی نہیں دہرائیں گے
ایران کی دوسری کشتی بھی لبنان پہنچنے والی ہے/ امریکی سفارتخانہ کی اسلامی مزاحمت کے خلاف سازش جاری
حزب اللہ لبنان کے سربراہ سید حسن نصر اللہ نے اسلامی مزاحمت کے ایک کمانڈر کی یاد میں منعقد تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ لبنان میں امریکہ اور سعودی عرب کے تخریبی کردار کا سلسلہ جاری ہے۔
سید حسن نصر اللہ نے لبنان کی اسلامی مزاحمت کے کمانڈر حاج عباس الیتامی کی شہادت کی یاد میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں شہید حاج عباس کو قریب سے جانتا ہوں ۔ شہید عباس الیتامی 17 سال کی عمر میں اسلامی مزاحمت کے ساتھ منسلک ہوئے۔ شہید حاج عباس بہت ہی دلیر اور بہادر انسان تھے۔
حزب اللہ کے سربراہ نے کہا کہ امریکہ وہابی تکفیریوں کا حامی ہے اور وہابی تکفیری امریکہ کے حامی ہیں۔ امریکہ لبنان میں اعلانیہ طور پر تکفیریوں کی حمایت کررہا ہے اور تکفیری دہشت گردوں کے خلاف لبنانی حکومت کو کارروائی کرنے سے بھی روک رہا ہے۔ لبنان میں امریکی سفارتخانہ دہشت گردوں کی بھر پور حمایت کررہا ہے۔
سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ لبنان میں امریکی اور سعودی عرب کے سفارتخانے داخلی جنگ بھڑکانے کی تلاش و کوشش کررہے ہیں۔ وہ اسلامی مزاحمت کے خلاف دہشت گردوں کی بھر پور مدد کررہے ہیں لیکن اس کے باوجود انھیں لبنان میں شکست اور ناکامی کا سامنا ہے۔
سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ امریکہ نے لبنان کے اقتصاد اور معیشت کو نشانہ بنا رکھا ہے۔ لبنان کے داخلی امور میں امریکی سفارتخانہ کی مداخلت نمایاں ہے۔
انھوں نے کہا کہ ایران کی طرف سے دوسری کشتی بھی لبنان پہنچنے والی ہے تیسری کشتی بھی لبنان آئے گی اور جب تک لبنان کو ضرورت ہوگی ایران سے کشتیوں کی آمد کا سلسلہ جاری رہےگا۔ ایران نے ہمیشہ مشکل وقت میں لبنانی عوام اور حکومت کی مدد کی ہے ۔ ایران کی مدد کسی خاص گروہ یا حزب سے مخصوص نہیں ، ایران کی مدد لبنانی قوم سے مختص ہے ایران کی مدد سے لبنانی قوم کو فائدہ پہنچےگا۔
محبت اور وفاداری ازدواجی زندگی کے دو اہم اصول از رہبر انقلاب
وفاداری کرو تاکہ قابل اعتماد بنو !
محبت کرنا وہ امر ہے کہ اس (مشترکہ زندگی کی) راہ کی ابتدا میں خداوندِ عالم نے آپ کو جس کا حکم دیا ہے اور یہ وہ سرمایہ ہے کہ جسے خداند مہربان، مشترکہ ازدواجی زندگی کی ابتدا میں لڑکے لڑکی کو ہدیہ کرتا ہے اور یوں ازدوجی سفر کے راہی آپس میں محبت کرتے ہیں۔ لہٰذا اِس کی حفاظت کرنی چاہیے۔ آپ کی زوجہ یا شوہر کی آپ سے محبت ،آپ کے عمل سے وابستہ ہے۔
اگر آپ کی خواہش ہے کہ آپ کے شریک حیات کی محبت آپ کے لئے باقی رہے تو آپ اس سے محبت آمیز برتاو کریں۔یہاں معلوم ہوتا ہے کہ انسان کیا کام انجام دے تاکہ اس کی محبت رنگ لائے؟ پس آپ کو چاہیے کہ زندگی کے ہر لمحے میں وفاداری کا ثبوت دیں۔
سامنے والے کو اپنی امانت داری کا یقین دلائیں، اپنی سچائی اور خلوصِ نیت کو اس پر واضح کریں، سامنے والے سے بے جا توقعات نہ رکھیں، اس سے تعاون اور اظہارِ محبت کریں۔ یہی وہ چیزیں ہیں کہ جو محبت کی ایجاد کا باعث بنتی ہیں اور یہ دونوں کی ذمہ داری ہے۔ محبت اور تعاون کو زندگی میں ہر حال میں موجود ہونا چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ بے جا قسم کی اُمیدیں وابستہ رکھنے اور بات بات پر کیڑے نکالنے سے آپ کی زندگی اجیرن ہو جائے۔
بے اعتمادی کو گھر میں اپنے منحوس قدم نہ رکھنے دیں
اعتماد وہ چیز نہیں ہے جو کسی کے کہنے سے ہو جائے کہ آو تم مجھ پر اعتماد کرو اور میں تم پر اعتماد کرتا ہوں ،ایسا ہر گز نہیں ہے! اعتماد وہ چیز ہے جو ایک دوسرے کو دینا اور اس کا یقین کرنا چاہیے یعنی اچھے عمل، اخلاق و آداب کی رعایت کرنے اور شرعی حدود اور اسلامی اقدار کا خیال رکھنے سے۔
اگر گھر کی فضا میں بے اعتمادی کے سیاہ بادل چھا جائیں تو گھر، محبت کے اجالے سے محروم ہو جاتا ہے۔ لہٰذا یہ آپ کا وظیفہ ہے کہ آپ بے اعتمادی کو گھر میں اپنے منحوس قدم نہ رکھنے دیں۔ بے وفائی بدن میں پوشیدہ سرطان کی مانند محبت کو کھا کر ختم کر یتی ہے۔
محبت اور عتماد کی حفاظت کریں
اگر میاں یا بیوی یہ احساس کرے کہ اس کی بیوی یا شوہر اس سے جھو ٹ بول رہا ہے تو زندگی میں اس احساس کے آتے ہی سچی محبت رخصت ہو جائے گی۔
یہی وہ چیز ہے کہ جو محبت کی بنیادوں کو کمزور بنا تی ہے۔اگر آپ چاہتے ہیں کہ محبت کی فضا قائم رہے تو اپنے درمیان اعتماد کی حفاظت کریں اور اگر آپ کی خواہش ہے کہ آپ کی پیار بھری زندگی پائیدار ہو تو محبت کو کسی بھی صورت میں اپنے درمیان سے جانے نہ دیں۔
کتاب: طُلوعِ عشق از رہبر معظم سید علی خامنہ ای؛ سے اقتباس