سلیمانی

سلیمانی

 فلسطینی مزاحمتی تحریک جہاد اسلامی کے سیکرٹری جنرل زیاد النخالہ نے تاکید کی ہے کہ خطے کی مظلوم اقوام کی حقیقی مدد کے میدان میں ایران امت مسلمہ کے لیئے عملی نمونے کی حیثیت رکھتا ہے۔ الجہاد الاسلامی فی فلسطین کے سربراہ نے عرب نیوز چینل المسیرہ کے ساتھ بات چیت میں ایران و یمن کے ساتھ فلسطین کے گہرے تعلقات اور بعض عرب ممالک کی جانب سے غاصب و بچوں کی قاتل صیہونی رژیم کے ساتھ دوستانہ تعلقات پر سیر حاصل گفتگو کی اور مظلوم یمنی عوام پر ہونے والے سعودی حملوں کو ناجائز قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ حملے یمنی شہریوں کے خلاف سعودی شاہی رژیم کی کھلی جارحیت ہیں۔ انہوں نے یمن کے ساتھ استوار فلسطین کے دوستانہ تعلقات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مزاحمت اور پائیداری کے حوالے سے یمن فلسطین کا جڑواں بھائی ہے جس نے ہمیشہ سے مسئلہ فلسطین کی نہ صرف زبان بلکہ عمل سے بھی بھرپور مدد کی ہے۔

زیاد النخالہ نے اپنے انٹرویو کے دوران فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی پر مبنی بہادر یمنی عوام کے ملین مارچوں کو سراہا اور ان مظاہروں کو فلسطینی عوام کے لئے انتہائی پرافتخار قرار دیتے ہوئے کہا کہ یمن نے نہ صرف خود سعودی محاصرے میں رہتے ہوئے صیہونی محاصرے کی شکار فلسطینی قوم کی ہر موقع پر مدد کی ہے بلکہ اس ملک نے بے شمار بے گھر فلسطینی شہریوں کو بھی اپنے ملک میں پناہ دے رکھی ہے جن کے ساتھ یمنیوں جیسا ہی سلوک کیا جاتا ہے۔ جہاد اسلامی کے سربراہ نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ہم یمن میں موجود فلسطینی عوام کے مسائل سے مسلسل خبردار رہتے ہیں جس کے سبب ہم نے فلسطینیوں کے بارے یمنی حکام کے احساس ذمہ داری کو بطور احسن درک کیا ہے۔ انہوں نے عرب ممالک کو مخاطب کرتے ہوئے تاکید کی کہ وہ جارح سعودی اتحاد کو یمن ملنے والی شکست سے عبرت حاصل کرتے ہوئے معصوم یمنی عوام کے خلاف جارحیت سے ہاتھ اٹھا لیں۔ زیاد النخالہ نے زور دیتے ہوئے کہا کہ فلسطینی عوام کو توقع تھی کہ سعودی فوجی اتحاد غاصب صیہونی جارحیت کے مقابلے میں فلسطینی عوام کو تحفظ فراہم کرے گا نہ یہ کہ عالمی استعماری قوتوں کے اشارے پر مسلم یمنی عوام کے خلاف جارحیت شروع کر کے صیہونی بمباری تلے فلسطینی عوام کو تنہا چھوڑ دے گا۔

الجہاد الاسلامی فی فلسطین کے سربراہ نے اپنے انٹرویو کے آخری حصے میں مسئلہ فلسطین کو حاصل بھرپور ایرانی حمایت کی جانب اشارہ کیا اور کہا کہ اس وقت ایران کو درپیش تمام مسائل کی اصلی وجہ ایران کی جانب سے فلسطین کی کھلی حمایت اور صیہونی سازشوں کی کھلی مخالفت ہے۔ زیاد النخالہ نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ مظلوم فلسطینی قوم کی بڑھ چڑھ کر حمایت میں ایران امت مسلمہ کے لئے علی نمونہ ہے، کہا کہ رضا شاہ پہلوی کے دور میں بعض عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ ساتھ ایران کی بھی مکمل اطاعت کیا کرتے تھے جس سے ظاہر ہے کہ اس وقت ایران سے ان کی کھلی دشمنی کی اصلی وجہ اسلامی انقلاب کے بعد صیہونی مخالف ایرانی سیاست ہے۔ انہوں نے سعودی عرب کی ایران مخالف پالیسی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ سعودی شاہی رژیم بے گناہ یمنی شہریوں پر برسائے جانے والے بموں کے عوض عالمی دہشتگرد امریکہ کو اسلامی بیت المال سے اربوں ڈالر ادا کرتا ہے لیکن مظلوم فلسطینی عوام کی مدد کے لئے معمولی سی رقم بھی ادا کرنے کے حق میں نہیں۔

جاہليت سے مالا مال عالمي استکبار بہت بڑي غلطي ميں ہے کہ جو يہ خيال کرتا ہے کہ ايک عورت کي قدرو قيمت اور بلند مقام اِس ميں ہے کہ وہ خود کو مردوں کيلئے زينت و آرائش کرے تاکہ آوارہ لوگ اسے ديکھيں، اُس سے ہر قسم کي لذت حاصل کريں اور اُس کي تعريف کريں۔ مغرب کي انحطاط شدہ اورمنحرف ثقافت کي جانب سے ’’آزادي نِسواں‘‘ کے عنوان سے جو چيز سامنے آئي ہے اُس کي بنياد اِس چيز پر قائم ہے کہ عورت کو مردوں کي (حيواني اور شہوتي) نگاہوں کا مرکز بنائيں تاکہ وہ اُس سے جنسي لذت حاصل کرسکيں اور عورت ، مردوں کي جنسي خواہشات کي تکميل کيلئے ايک آلہ و وسيلہ بن جائے، کيا اِسي کو ’’آزادي نسواں‘‘ کہا جاتا ہے؟

 

جو لوگ حقيقت سے جاہل اور غافل مغربي معاشرے اور گمراہ تہذيب و تمدن ميں اس بات کا دعويٰ کرتے ہيں کہ وہ انساني حقوق کے طرفدار ہيں تو درحقيقت يہ لوگ عورت پر ظلم کرنے والوں کے زمرے ميں شمار ہوتے ہيں ۔

 

آپ عورت کو ايک بلند مرتبہ و مقام کے حامل انسان کي حيثيت سے ديکھئے تاکہ معلوم ہو کہ اُس کا کمال ، حق اور اس کي آزادي کيا ہے؟آپ عورت کوعظيم انسانوں کے سائے ميں پرورش پانے والے اور اصلاح معاشرہ کيلئے ايک مفيد عنصر کي حيثيت سے ديکھے تاکہ يہ معلوم ہو کہ اُس کا حق کيا ہے اور وہ کس قسم کي آزادي کي خواہاں ہے ( اور کون سي آزادي اُس کے انساني مقام ومنصب سے ميل کھاتي ہے)۔

 

آپ عورت کو ايک گھرانے اور خاندان کي تشکيل دينے والے بنيادي عنصر کي حيثيت سے اپني توجہ کا مرکز قرار ديں۔ درست ہے کہ ايک مکمل گھرانہ مرد اور عورت دونوں سے تشکيل پاتا ہے اور يہ دونوں موجود خاندان کي بنياديں رکھنے اور اُس کي بقا ميں موثر ہيں، ليکن ايک گھرانے کي آسائش اور آرام و سکون عورت کي برکت اور صنفِ نازک کے نرم و لطيف مزاج کي وجہ ہي سے قائم رہتا ہے-

 

اس زاويے سے عورت کو ديکھئے تاکہ يہ مشخص ہو کہ وہ کس طرح کمال حاصل کرسکتي ہے اور اُس کے حقوق کن امور سے وابستہ ہيں۔

 

اہل يورپ نے جديد ٹيکنالوجي کو حاصل کرنا شروع کيا اور انيسويں صدي کے اوائل ميں مغربي سرمايہ داروں نے جب بڑے بڑے کارخانے لگائے اور جب اُنہيں کم تنخواہ والے سستے مزدوروں کي ضرورت ہوئي تو انہوں نے ’’آزادي نسواں‘‘ کا راگ الاپنا شروع کرديا تاکہ اِس طرح خواتين کو گھروں سے نکال کر کارخانوں کي طرف کھينچ کر لے جائيں، ايک سستے مزدور کي حيثيت سے اُس کي طاقت سے فائدہ اٹھائيں، اپني جيبوں کو پُرکريں اور عورت کو اُس کے بلند مقام و مرتبے سے تنزُّل ديں۔ مغرب ميں آج جو کچھ ’’آزادي نسواں‘‘ کے نام پر بيان کيا جارہا ہے ، اُس کے پيچھے يہي داستان کار فرماہے ،يہي وجہ ہے کہ مغربي ثقافت ميں عورت پر جو ظلم و ستم ہوا ہے اور مغربي تمدن و ادب ميں عورت کے متعلق جو غلط افکار و نظريات رائج ہيں اُن کي تاريخ ميں مثال نہيں ملتي۔

ے شک دور حاضر میں مسلمانوں کے درمیان اتحاد کی اشد ضرورت ہے۔ ہم تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ اپنے جزئی اختلافات کو ہوا نہ دیکر کلی مشترکات کی بنیاد پر متحد رہیں، انھیں مشترکات میں سے ایک مہدی موعود کا انتظار ہے۔ مقالہ ھذا میں اسی بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ کس طرح ہم آپ کے انتظار کی بنیاد پر متحد ہوسکتے ہیں۔

جسد ملت میں فرقہ پرستی اور تفرقہ پروری کا زہر اس حد تک سرایت کرچکا ہے کہ نہ صرف اس کے خطرناک مضمرات کا کما حقہ احساس و ادراک ہر شخص کے لئَے ضروری ہے بلکہ اس کے تدارک اور ازالہ کے لئَے مؤثر منصوبہ بندی کی بھی اشد ضرورت ہے۔
ہمارے گردوپیش تیزی سے جو حالات رونما ہورہے ہیں، انکی نزاکت اور سنگینی اس امر کی متقاضی ہے کہ ہم نوشتہ دیوار پڑهیں اور اپنے درمیان سے نفرت، بغض ، نفاق اور انتشار و افتراق کا خاتمه کر کے باہمی محبت و مودت، اخوت و یگانگی، یک جہتی اور اتحاد بین المسلمین کو فروغ دینے کی ہر ممکنہ کوشش کریں کیونکہ اسی میں ہماری بقاء اور فلاح و نجات مضمر ہے۔
چنانچہ ارشاد خداوندی ہے، “وَ لا تَكُونُوا كَالَّذينَ تَفَرَّقُوا وَ اخْتَلَفُوا مِنْ بَعْدِ ما جاءَهُمُ الْبَيِّناتُ وَ أُولئِكَ لَهُمْ عَذابٌ عَظيمٌ” اور خبردار ان لوگوں کی طرح نہ ہوجائو کہ جنهوں نے تفرقہ ایجاد کیا اور واضح نشانیوں کے آجانے کے بعد بھی اختلاف کیا، ان کے لئے عذاب عظیم ہے. [۱]
اس آیت میں خداوند عالم مسلمانوں کو حکم دے رہا ہے کہ ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائو جنھوں نے اپنے دین کو فرقہ فرقہ میں بانٹ دیا، اس سے مراد یہودی اور عیسائی ہیں [مجمع البیان ج۲ ص۸۰۷] آپس میں اختلاف کرانا یہودیوں اور عیسائیوں کا پرانا طریقہ ہے کہ یہودی، جناب موسی کے بعد ۷۱ فرقوں میں ہوگئے اور عیسائی، جناب عیسی کے بعد ۷۲ میں، قیامت یہ ہے کہ مسلمان اتنی ہدایت کے باوجود ۷۳ فرقوں میں تقسیم ہوگئے، تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ جن اسباب کی بناء پر یہودیوں پر عالمگیر تباہی کے سائے مسلط کردیئے گئے تھے اگر وہی اسباب امت مسلمہ میں جمع ہوگئے تو پھر یہ بات یقینی ہے کہ ویسی ہی بلکہ اس سے بھی بڑھ کر تباہی امت مسلمہ کا مقدر بن سکتی ہے۔
حقیقت امر یہ ہے کہ دور حاضر میں یہود و نصاری اپنے مذہب کے  کلی اختلافات  کے باوجود متحد ہیں لیکن مسلمان اپنے مذہب کے کلی مشترکات  کے باوجودبھی متفرق ہیں۔
اگر تاریخ ادیان کا بغور مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ مسلمانوں کے اتحاد کے لئے بہت سے محور موجود ہیں جیسے وحدانیت خدا، رسالت، کعبہ، قبلہ اور  انھیں میں ایک انتظار مہدی موعود ہےجن پر تمام مسلمان متحد ہوسکتے ہیں ۔
 عقیدہ مہدویت مسلمانوں کے درمیان  صدر اسلام سے مشہور ہے اور پیغمبر اکرم نے متعدد مرتبہ امام مہدی (عج) کے وجود کی خبر دی ہے اور امام مہدی کی حکومت ، اسم ،کنّیت کو بھی بیان فرمایا ہے ، اسکے علاوہ آپ کے انتظار کی فضیلت ، اصحاب کی خصوصیات اور آخری زمانے کی حالت کو مشخص فرمایا ہے، جس کے لئے آپ اسی سائٹ پر دوسرے مقالات کا مطالعہ فرما سکتے ہیں مقالہ کی تنگی کی بناء پر انھیں یہاں ذکر نہیں کیا جاسکتا ہے۔[۲]
 لیکن قابل غور بات یہ  ہے کہ مہدویت کا عقیدہ تمام مسلمانوں کے درمیان موجود ہے، ممکن ہے کوئی جزوی فرق ہو (اور جزوی فرق بھی امام زمانہؑ کی پیدائش کے متعلق ہے جسے بہت سے علماء اہل سنت قبول کرتے ہیں کہ امام کی پیدائش ہو چکی ہے ،[۳])لیکن عقل کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ ایک انسان عاقل، کلی کو چھوڑ کر جزوی پر جھگڑا کرے، جبکہ مسلمانوں کے قسم خوردہ دشمن اپنے مسیح کے انتظار اور ان کے لئے زمین ہموار کرنے کے لئے کلی اختلافات کو چھوڑ کر جزوی پر اتحاد کئے ہوئے  ہیں ۔مثلا  دنیا میں ۱۹ اور۲۰ صدی میں یهود او ر مسیحي، دونوں اپنی دیرینه دشمنی کے باوجود اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ منجی“مسیحا ”کے ظهور کے لئے سیاسی سطح پر زمین ہموار کرنے اور سیاسي پشتپناہی کے طور پر ایک مشترکه حکومت جو صھونیزم کی بنیاد پر قائم ہو، وجود میں لائی جاۓ– اور اس سیاسی طرز فکر کے نتیجہ  میں اسرائیلی غاصب حکومت فلسطینیون کے آبائی سر زمین پر وجود میں لائی گئی  اور اسی نظریہ کے پیچھے آمریکا و یورپی ممالک کے سینکڑون کنیسا اور مسیحی تنظیموں نے اسرائیل کے جارحانه مظالم اور غاصب حکومت کی حمایت بھی کی.
سن ۱۹۸۰ ء میں انٹرنیشل  ام. بی. سی .اف .”کرچچن “قدس میں تاسیس هوئی جسکا اصلی هدف کچھ اس طرح  بتایا گیاہے  “هم إسرائیلیوں سے زیاده صھونیزیم کے پابند هیں اور قدس وہ شہر هے جس پر اﷲ تعالی نے اپنا خاص کرم کیا هے اور اسے تا ابد اسرائیلیوں کے لیے مخصوص کر رکھا هے– اس کرچچن سفارت کے اراکین کا یه عقیده هے،اگر اسرائیل نهیں  هے تو “جناب مسیح” کی بازگشت کا کوئی امکان نہیں  هے چنانچه اسرائیل کا وجود مسیح منجي عالم کےلیے ضروری هے ۔[۴]
تو جب یھود اور نصاری عقیده انتظار کے سیاسي پهلو کے پرتو میں اپنی دیرینه دشمنیوں کو بھولا کر اسلام اور مسلمین کے خلاف ایک غاصب حکومت وجود میں لا سکتے  هیں، تو کیاهم مسلمانوں کو نهیں چاہئے کہ خود ساخته اور بناوٹی  اختلافات کو بالائے طاق رکھکر اور ایک پلٹ فارم پر جمع هو کر اس آفاقی الهی نظام کے لیے ماحول سازی کریں۔
  ایسے نظام کو عالمي سطح پر وجود میں  لانے کیلیے، انتظار کے سیاسي پهلو پر کام کرنے کی اشد ضرورت هے تاکه خود بخود إصلاحی تحریک شروع هو جاۓ اور رفته رفته پوری دنیا کو اپنے لپیٹ میں لے لے، إسلامی جمهوري ایران کا انقلاب، اس حقیقت پر ایک واضح  دلیل هے که جسے امام خمینی(رحمۃ اللہ علیہ) اور ایراني قوم نے انتظار کے سیاسي پهلو پر عمل کرتے هوۓ اُس آفاقي الهي نظام کے مقدمے کے طور پر اسلامی قوانین پر مبنی، اسلامي جمهوریت کو وجود میں لائے  هیں اور اُمید هے که دنیا کے دوسرے مسلمان بھی بیدار هو جائیں اور اس بابرکت إصلاحی قدم سے قدم ملاتے ہوئے، عصر ظھور کے لیے ماحول فراهم کرنے میں شریک بنیں، انشاء اﷲ وعده  إلهي کا تحقق نزدیک هو گا –

ایرانی حکومت کے ترجمان علی ربیعی ویانا میں ایران اور گروپ 1+4 کے درمیان مذاکرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ویانا میں ایران اور امریکہ کے درمیان مذاکرات انجام پذير نہیں ہوں گے۔

انھوں نے کہا کہ ویانا اجلاس میں مشترکہ ایٹمی معاہدے میں واپس آنے اور اس پر عمل کرنے کے بارے میں تبادلہ خیال کیا جائےگا، لیکن اس اجلاس میں امریکہ اور ایران کے درمیان براہ راست یا غیر مستقیم مذاکرات کا کوئی پروگرام نہیں ہے۔ ربیعی نے کہا کہ مشترکہ ایٹمی معاہدے میں واپس آنے کے لئے ضروری ہے کہ امریکہ تمام غیر قانونی پابندیوں کو ختم کردے اور بین الاقوامی قوانین کا احترام کرتے ہوئے مشترکہ ایٹمی معاہدے میں واپس آجائے۔ انھوں نے کہا کہ ویانا اجلاس میںم شترکہ ایٹمی معاہدے پر عمل کے سلسلے میں تبادلہ خیال کیا جائےگا۔ ایران اور امریکہ کے نمائندوں کے درمیان کسی قسم کے مذاکرات نہیں ہوں گے۔

پاکستان کے سینیٹر اور سینیٹ کی بین الاقوامی امور کی کمیٹی کے سربراہ مشاہد حسین سید نے ایران اور چین کے درمیان 25 سالہ معاہدے کو خطے کے لئے بہت ہی مفید اوراہم قراردیا ہے۔ مشاہد حسین سید نے سحر ٹی وی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دنیا میں تیزی کے ساتھ تبدیلی رونما ہورہی ہے اور قدرت و طاقت کا توازن مغرب سے مشرق کی طرف منتقل ہورہا ہے۔ مشاہد حسین سید نے ایران اور چین کے درمیان 25 سالہ معاہدے کو خطے کے لئے مفید اور اہم قراردیتے ہوئے کہا کہ ایران اور چین کے پاکستان کے ساتھ دیرینہ،  گہرے اور دوستانہ تعلقات ہیں اور چین اور ایران کے درمیان معاہدے پر پاکستان کوخوشی ہے ۔ مشاہد حسین سید نے امریکہ کی طرف سے چین کا مقابلہ کرنے کے سلسلے میں اس قسم کے خصوصی اقتصادی متبادل منصوبے کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ اندرونی اور بیرونی سطح  اضمحلال کا شکار ہے اور اس کے پاس نہ چين جیسی پالیسی ہے اور نہ ہی چین جیسے وسائل اور امکانات ہیں اور بیشک 21 ویں صدی ایشیاء کی صدی قرار پائے گي ۔

ایٹمی معاہدے کے مشترکہ کمیشن کا اٹھارواں اجلاس جمعہ دو اپریل کو یورپی یونین کے فارن ایکشن روس کے نائب سربراہ "انرکا مورا" کی صدارت میں یورپی یونین کے خارجہ امور کے سربراہ جوزف بوریل اور ایران، چین، فرانس، جرمنی، روس اور برطانیہ کے نائب وزرائے خارجہ اور وزارت خارجہ کے سیاسی امور کے ڈائریکٹروں کی شرکت سے آنلائن منعقد ہوا۔ اس اجلاس کے اختتام پر ایک بیان جاری کیا گیا، جس میں کہا گیا ہے کہ ایٹمی معاہدے میں امریکا کی مکمل واپسی کے موضوع پر معاہدے کے فریقوں نے صلاح مشورہ اور بات چیت پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ اس سلسلے میں ایران کے ایک باخبر ذریعے نے بین الاقوامی ایٹمی معاہدے کے بارے میں رہبر انقلاب اسلامی کے آٹھ جنوری کے خطاب اور اس خطاب میں آپ کی تاکیدات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران امریکہ کی جانب سے ایک ساتھ پابندیاں اٹھائے جانے اور اس بارے میں سچائی سامنے آنے کے بعد ہی اپنے ایٹمی وعدوں پر دوبارہ عمل کرنا شروع کرے گا۔

ایران کے اس باخبر ذریعے اور اعلیٰ عہدیدار نے کہا ہے کہ بین الاقوامی ایٹمی معاہدے کے مشترکہ کمیشن کا کوئی بھی ایسا فیصلہ جو ایران کے خلاف امریکی پابندیاں رفتہ رفتہ ختم اور امریکہ کے ساتھ بالواسطہ طور پر مذاکرات پر مبنی ہوگا، قبول نہیں کیا جائے گا۔ ایران کے خلاف رفتہ رفتہ امریکی پابندیاں ہٹائے جانے سے متعلق ایٹمی معاہدے کے مشترکہ کمیشن کے بیان پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے تہران نے صراحت کے ساتھ اعلان کیا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران ایسا کوئی منصوبہ قبول نہیں کرے گا، جس میں امریکی پابندیاں رفتہ رفتہ ہٹائے جانے کی بات رکھی جائے گی اور نہ ہی ایران امریکا سے کسی طرح کے مذاکرات انجام دے گا۔ دوسری جانب ایران کے نائب وزیر خارجہ نے امریکی پابندیوں کی منسوخی کو ایٹمی سمجھوتے کی بحالی کے لئے پہلا قدم قرار دیا ہے۔ ایران کے نائب وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے جو اس اجلاس میں ایرانی وفد کی سربراہی کر رہے تھے، ایک بار پھر ایران کے اصولی موقف کی وضاحت کی اور امریکی پابندیوں کی منسوخی کو ایٹمی سمجھوتے کی بحالی کی سمت پہلا قدم قرار دیا۔

سید عباس عراقچی نے کہا کہ ایران پابندیاں منسوخ ہوتے ہی ان تمام اقدامات کو روک دے گا، جو اس نے پابندیوں کی تلافی کے طور پر شروع کئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایٹمی سمجھوتے میں امریکہ کے واپس آنے کے لئے کسی گفتگو یا مذاکرات کی ضرورت نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ امریکہ جس طرح سمجھوتے سے باہر نکلا ہے، اسی طرح وہ ایٹمی سمجھوتے میں واپس آسکتا ہے اور جس طرح اس نے ایران کے خلاف غیر قانونی پابندیاں لگائی ہیں، اسی طرح انہیں ختم کرسکتا ہے۔ ایران کے ایٹمی توانائی کے ادارے کے سربراہ علی اکبر صالحی نے بھی جوہری معاہدے میں تعطل کے دور ہونے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب جوہری معاہدے میں گفتگو تکنیکی مرحلے میں داخل ہوگئی ہے اور ماضی جیسی صورتحال اب نہیں رہی، جس سے دکھائی دیتا ہے کہ تعطل دور ہونے والا ہے اور یہ ایک خوش آئند بات ہے۔ چنانچہ سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ، ایران کے خلاف پابندیوں اور زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے کی اپنی شکست خوردہ پالیسیوں سے دستبردار ہونے پر تیار ہے۔؟؟

ایٹمی معاہدے کے مشترکہ کمیشن کے بارے میں ایران کے ردعمل کو دو زاویوں سے پرکھا جا سکتا ہے۔ پہلا زاویہ یہ ہے کہ ایران ایٹمی معاہدے کا حصہ ہے اور یہ معاہدہ ایک بین الاقوامی اور چند فریقی معاہدہ ہے، لہذا اس میں شریک تمام اراکین کے حقوق مساوی ہیں۔ اس معاہدہ کی دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس معاہدے کی عالمی ادارے سلامتی کونسل نے بھی قرار داد نمبر 2231 میں تائید کی ہے۔ ایران کی خواہش ہے کہ یہ معاہدہ جو اب ایک بند گلی میں پہنچ گیا ہے، اسے نتیجہ خیز بنائے۔ امریکہ نے ایک یکطرفہ فیصلہ کرکے اپنے آپ کو اس معاہدے سے نکال لیا ہے اور اس معاہدے کی روشنی میں ایران پر جو پابندیاں ختم ہوگئی تھیں، نہ صرف انہیں دوبارہ بحال کر دیا ہے بلکہ نئی پابندیاں عائد کرکے دوسرے ممالک پر بھی دبائو بڑھا رہا ہے۔

ایران نے عالمی جوہری معاہدے سے ہٹ کر کچھ اقدامات رضاکارانہ بنیادوں پر انجام دیئے تھے۔ اس عالمی معاہدے کی شق 26 اور 36 معاہدے کے شریک فریقوں کو اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ اگر کوئی فریق معاہدہ کی تمام شقوں پر عمل درآمد نہ کر رہا ہو تو وہ بعض شقوں پر عمل درآمد روک سکتا ہے۔ ایران نے بھی انہی شقوں کی روشنی میں معاہدے کی بعض شقوں پر عملدرآمد روک دیا ہے۔ بہرحال امریکہ نے معاہدے سے خارج ہو کر اور ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کرکے معاہدے کی خلاف ورزی کا ارتکاب کیا ہے اور اس کا واحد اور منطقی حل یہی ہے کہ وہ معاہدے میں واپس آجائے اور معاہدے کی تمام شقوں پر عمل کرے۔ اسی لیے تو رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے فرمایا ہے کہ ایران اس وقت ایٹمی معاہدے کی شقوں پر عمل کرے گا، جب امریکہ تمام پابندیوں کے خاتمے کو نہ صرف کاغذ پر بلکہ عملی طور پر ختم کرے گا نیز ان پابندیوں کے خاتمے کو ایران کے سامنے باقاعدہ جائزے اور تحقیق کے لیے پیش کیا جائے گا۔
 
 
 

سید حسن نصراللہ نے بدھ کی شام شیخ القاضی احمد الزین کی برسی کے پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت استقامت کا محاذ اپنی تاریخ کے سب سے دشوار اور خطرناک مرحلے کو پیچھے چھوڑ چکا ہے اور اس نے خطروں کے مقابلے میں سنجیدہ اقدامات انجام دیے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ استقامتی محاذ نے اپنی صلاحیتوں کی تقویت کی ہے اور اسرائيلی، استقامت کے محاذ کی بڑھتی ہوئي طاقت سے سخت ہراساں ہیں اور جنگ کی دھمکی دے رہے ہیں جبکہ وہ جنگ سے سخت خوفزدہ ہیں۔

حزب اللہ لبنان کے سیکٹریٹری جنرل نے یمن میں امن مذاکرات کے بارے میں کہا کہ فریبی میڈیا، سعودی عرب کو مظلوم دکھانے کی کوشش کر رہا ہے اور یہ ظاہر کر رہا ہے کہ آل سعود امن کے خواہاں ہیں اور انصاراللہ امن کی پیشکش کو مسترد کر رہا ہے لیکن یمن میں جنگ کے بارے میں سعودی عرب کی نئي تجویز، یمن کے خلاف نئي میڈیا وار کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یمن کے لوگ سیاست اور عقلمندی میں کافی آگے ہیں اور انھیں سیاسی فریب نہیں دیا جا سکتا۔ سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ یمن کے محاصرے کے خاتمے کے بغیر فائر بندی کا مطلب یہ ہے کہ جارح افواج اس بات کی کوشش کر رہی ہیں کہ جو چیز وہ جنگ کے میدان میں حاصل کرنے میں ناکام رہی ہیں اسے سماجی دباؤ کے ذریعے حاصل کر لیں۔

حزب اللہ لبنان کے سیکریٹری جنرل نے کہا کہ یمن کے خلاف جنگ کا شیعہ سنی فرقوں سے کوئي تعلق نہیں ہے بلکہ یہ جنگ امریکہ کی خدمت اور خطے میں اس کی سازشوں کے تناظر میں شروع کی گئی ہے اور امریکی و صیہونی محاذ کے ترکش میں باقی بچا آخری تیرخطے میں فتنہ انگیزی اور یہاں جاری جنگوں کو فرقہ وارانہ رنگ دینا ہے۔

سید حسن نصراللہ نے کہا کہ صیہونی - امریکی محاذ بدستور نیل سے فرات تک کے خواب کو عملی جامہ پہنانا چاہتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ مسئلہ فلسطین کی حقانیت واضح اور ناقابل انکار ہے۔

حزب اللہ لبنان کے سربراہ نے کہا کہ ہر انصاف پسند کو ایران کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ انھوں  نے کہا کہ  شام کی جنگ  کو دس سال کا عرصہ گزرنے کے بعد شامی عوام کے سامنے اس عالمی جنگ کے حقائق روز بروز مزید کھل کر سامنے آرہے ہیں۔


پاکستان کے شھر لاھور میں سنھری مسجد  کو اسلامی دنیا کی سب سے بہترین مساجد میں شمار کیا جاتا ہے۔

یہ خوبصورت مسجد لوگوں کے درمیان سنھری مسجد کے نام سے مشھور ہے، اور لاھور کے مشھور  “کشمیری بازار ” کے وسط میں واقع ہے۔

 

یہ مسجد ۱۷۵۳ میں نواب میر سید خان جو کہ ادب، دین اور ھنر کے دلدادہ تھے نے  تعمیر کی ہے ، مسجد کی چھت پر تین سھنرے گںبد سجائے گئے ہیں اور اسی وجہ سے اس مسجد کا نام سنھری مسجد رکھا گیا ہے۔

  

اس مسجد کے چاروں طرف  ۵۴ میٹربلند  چار مینار ہیں۔ جہاں سے پرانے زمانے میں جنگ کے ایام میں دیدہ بانی کا انجام دیا جاتا تھا، اس مسجد کی اندرونی   دیواریں اور چھت کندہ کاری کے ذریعے  پھولوں اور خوبصورت پودوں سے سجائے  گئے ہیں۔

 

 پنجاب میں  سکھوں کے دور حکومت میں اس مسجد کو گوردوارہ میں تبدیل کیا گیا ، اور اس کے اطراف میں واقع بازار پر بھی سکھوں نے اپنا قبضہ جمایا۔

 

 اس کے بعد دوبارہ مسجد کو  واپس حاصل کیا ۔ لیکن اس کے اردگرد بازاروں پر سکھوں کا قبضہ جاری رہا ۔ البتہ حاکم نے اس شرط پر مسجد واپس کی کہ مسجد سے اذان کی آواز باہر سنائی نہ دی جائے۔

ھندوستان پر انگریزوں کی حکومت نے اس مسجد اور اس کے اردگرد بازاروں  کو مسلمانوں کو واپس دیںے اور اس مسجد کی مناروں سے اذان کہنے کی اجازت دی تاکہ وہ مسلمانوں سے نزدیک ہوجائیں۔

اس مسجد کی بہترین معماری کے علاوہ ایک اور خصوصیت  صوفیہ حضرات کے مختلف محافل  کا انعقاد ہے ، جو محافل بہت سے لوگوں کو اپنی جانب جذب کرتی ہے 

امام زمانہ (عج) کے ظہور کے بعد جو مثالی معاشرہ قائم ہوگا اسکی تہذیبی خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں
1)علم و آگاہی میں ترقی: حضرت امام مہدی (عج)کے زمانہ حکومت میں انسان علم و دانش کا اس قدر پیاسا ہو جائے گا کہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں”مہدی (عج) کے زمانہ حکومت میں آپ سب کو علم و حکمت عطا کیا جائے گا، حتی کہ گھر میں بیٹھی خواتین اس قدر عالمہ ہو جائیں گی کہ کتاب الہی اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی روشنی میں فیصلے کریں گی”(1)

2)الہی توحیدی تصور کائنات کا عالمی سطح تک پھیل جانا: عصر ظہور کی ایک اور خصوصیت، توحیدی اصول اور وحدانیت خدا پر ایمان کا پوری دنیا میں پھیل جانا ہے۔ اس بارے میں امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں: “خدا کی قسم (امام مہدی (عج) اور ان کے ساتھی اس قدر جہاد کریں گے کہ سب خدا کی توحید کا اقرار کر لیں گے اور کوئی شخص خدا کا شریک نہیں ٹھہرائے گا” اسی طرح ایک اور حدیث میں امام علی رضا علیہ السلام، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں: “خداوند متعال نے فرمایا ہے: میری عزت اور جلال کی قسم، اس قدر اس (امام مہدی عج) کی مدد کروں گا کہ دنیا کے تمام انسان میری وحدانیت پر گواہی دینے لگیں گے۔”

3) دینی اور اسلامی اصولوں کا عالمگیر ہو جانا: امیرالمومنین امام علی علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں: “حضرت مہدی (عج) کے ظہور کے بعد انسانوں میں عبادت، شرعی احکام کی پیروی، دین داری اور نماز جماعت کی طرف رغبت بڑھ جائے گی اور کوئی ایسا انسان نہ ہو گا جس کے دل میں اہلبیت پیغمبر علیھم السلام سے کینہ یا دشمنی پائے جائے۔”

 

4)دنیا بھر میں اخلاقی اصولوں کا عام ہو جانا:  عصر ظہور کی ایک اور خصوصیت، مہدوی معاشرے میں اخلاقی اصولوں کا عام ہو جانا ہے۔ امیرالمومنین امام علی علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں: “جب ہمارا قائم (امام مہدی عج) قیام کرے گا تو انسانوں کے دلوں سے ایکدوسرے کی دشمنی اور کینہ ختم ہو جائے گا (3)اسی طرح احادیث و روایات میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ جب امام مہدی (عج) کا ظہور ہو گا تو خداوند متعال اپنے بندوں کو اس قدر مال عطا کرے گا کہ وہ بے نیاز ہو جائیں گے اور جب امام مہدی(عج) یہ اعلان فرمائیں گے کہ محتاج اور ضرورت مند افراد آ جائیں تاکہ ان کی مدد کی جا سکے تو کوئی بھی نہیں آئے گا۔ لہذ ضرورت اس امر کی ہے کہ صبغۃ اللہ یعنی الہی سوسایٹی کے عملی قیام کے لئے ہم سب اپنی فردی واجتماعی ذمہداریوں کی طرف متوجہ ہوجائیں اور الہی حکومت کے قیام کے لے کوشش کریں۔

نتیجہ: مندرجہ بالا وہ چار اہم خصوصیات ہیں جو امام زمانہ (عج) کے ظہور کے بعد معاشرے میں تہذیبی وثقافتی طور پر نظر آینگی لہذا امام کا انتظار کرنے والے لوگوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے معاشرے میں ان خصوصیات کو پیدا کرنے کے لے کوشش کریں تاکہ الھی معاشرے کا عملی قیام ممکن ہو۔

……………………………………

1:  بحار الانوار جلد 52، صفحہ 352

2:  بحار الانوارجلد 52، صفحہ 356

3:۔ بحار الانوارجلد 52صفحہ 316

مہدی موعود(عج) کا عقیدہ تمام مذاہب اسلامی کے نزدیک مسلم ہے۔ اس عقیدے کی بنیاد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول متواتر احادیث ہیں، جن کے مطابق قیامت سے پہلے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاندان سے ایک فرد قیام کرے گا، جو آپ ؐکا ہم نام ہوگا اور اس کا لقب مہدی ہوگا، جو اسلامی قوانین کے مطابق عالمی سطح پر عدل و انصاف کی حکومت قائم کریں گے۔ امام مہدی (عج) کی ولادت باسعادت کا عقیدہ صرف شیعہ حضرات ہی نہیں رکھتے بلکہ اہل سنت کے بہت سے مشہور علماء نے بھی اپنی کتابوں میں آپ (عج) کی ولادت باسعادت سے متعلق تفصیلات تحریر فرمائی ہیں، جیسے: ابن حجر ہیثمی (الصواعق المحرقہ) سید جمال الدین(روضۃ الاحباب) ابن صباغ مالکی (الفصول المہمۃ) سبط ابن جوزی(تذکرۃ الخواص )۔۔۔۔۔ وغیرہ۔ امام زمانہ (عج) کی غیبت کے منکرین کا اعتراض ہے کہ امام غائب کا کوئی فائدہ نہیں ہے، کیونکہ لوگوں کی ہدایت کے لئے امام کا ان کے درمیان موجود ہونا ضروری ہے، تاکہ امام تک لوگوں کی رسائی ہو۔

ہم یہاں منکرین غیبت امام زمانہ (عج) کے اعتراض کا اجمالا جواب دینے کی کوشش کریں گے۔
۱۔ امام زمانہ(عج) کی غیبت اور آپ (عج) کا شیعوں کے امور میں تصرف نہ کرنے کے درمیان کوئی ملازمہ نہیں ہے۔ قرآن کریم انسان کے اولیاء خدا سے بہرہ مند ہونے کی داستان کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذریعے نقل کرتا ہے۔ بنابریں عصر غیبت میں بھی امام زمانہ(عج) کا لوگوں کے ساتھ خاص طریقے سے رابطہ قائم کرنے اور ان افراد کا آپ (عج) کے فرامین پر عمل کرنے اور آپ (عج) کے وجود سے کسب فیض کرنے میں کوئی چیز مانع نہیں ہے۔ امام زمانہ (عج) کا لوگوں کے امور میں تصرف نہ کرنے کا ذمہ دار امام نہیں بلکہ خود عوام ہیں، جو آپ (عج) کی رہبری قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ محقق طوسی (رہ) تجرید الاعتقاد میں لکھتے ہیں: (وجوده لطف و تصرفه لطف آخر و عدمه منا) "امام کا وجود بھی لطف اور امام کا تصرف کرنا ایک اور لطف اور ان کا ظاہر نہ ہونا ہماری وجہ سے ہے۔" {یعنی امام زمانہ(عج) بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی حضرت خضر علیہ السلام کی طرح ہیں، انہیں بھی کوئی نہیں پہچانتا تھا، لیکن پھر بھی وہ امت کے لئے فائدہ مند ہیں}

۲۔ امام (عج) کے پیروکاروں کا امام (عج) کے وجود سے کسب فیض کرنے کے لئے ضروری نہیں کہ آپ (عج) تک تمام لوگوں کی رسائی ممکن ہو بلکہ اگر ایک خاص گروہ جو آپ (عج) کے ساتھ رابطہ قائم کرسکتا ہو اور وہ آپ (عج) کے وجود سے فیض حاصل کرے تو دوسرے لوگ بھی ان افراد کے ذریعے آپ (عج) کے وجود کے تمام آثار و برکات سے بہرہ مند ہوسکتے ہیں۔ یہ مطلب شیعوں کے بعض نیک اور شائستہ افراد کی آپ (عج) کے ساتھ ملاقات کے ذریعے حاصل ہوچکا ہے۔

۳۔ امام اور پیغمبر کے لئے حتی ان کے ظہور کے وقت بھی ضروری نہیں کہ وہ لوگوں کی ہدایت براہ راست اور بلا واسطہ انجام دیں بلکہ اکثر اوقات وہ اپنے نمائندوں کے ذریعے سے یہ کام انجام دیتے تھے۔ ائمہ معصومین علیہم السلام اپنے دور میں دوسرے شہروں کے لئے اپنے نمائندے معین فرماتے تھے، جو لوگوں کی ہدایت اور رہبری کا کام انجام دیتے تھے اور یہ روش صرف رہبران الہیٰ کے ساتھ مخصوص نہیں تھی بلکہ طول تاریخ میں انسانوں کے درمیان یہ طریقہ رائج تھا۔ اسی وجہ سے امام زمانہ (عج) بھی اپنے نمائندوں کے ذریعے لوگوں کی رہبری کرتے ہیں، جیسا کہ غیبت صغریٰ کے زمانے میں آپ (عج) نواب اربعہ (نیابت خاصہ) کے ذریعے اور غیبت کبریٰ کے زمانے میں عظیم المرتبت عادل فقہاء و مجتہدین (نیابت عامہ) کے ذریعے لوگوں کی رہبری کرتے ہیں۔

۴۔ شیعہ عقائد کے مطابق امام معصوم کا وجود لطف الہیٰ ہے اور اس سے مراد یہ ہے کہ امام انسان کو اطاعت و عبادت سے نزدیک اور گناہ و مفاسد سے دور کرتے ہیں۔ بے شک یہ اعتقاد (کہ امام معصوم ان کے درمیان موجود ہیں، گرچہ لوگ انہیں نہیں دیکھتے یا انہیں نہیں پہچانتے، لیکن وہ لوگوں کو دیکھتے ہیں اور انہیں پہچانتے ہیں اور ان کے اچھے اور برے کاموں سے بھی واقف ہیں، نیز آپ (عج) کسی وقت بھی ظہور کرسکتے ہیں، کیونکہ آپ (عج) کے ظہور کا وقت معلوم نہیں ہے) انسان کی ہدایت و تربیت میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔

۵۔ امامت کے اہداف میں سے ایک ہدف امام معصوم کا لوگوں کی باطنی ہدایت ہے۔ امام لائق اور پاکیزہ دل رکھنے والے افراد کو اپنی طرف جذب کرکے انہیں کمال تک پہنچاتے ہیں۔ واضح ہے کہ انسان کے اس طرح ہدایت سے ہمکنار ہونے کے لئے ضروری نہیں کہ وہ امام کے ساتھ ظاہری رابطہ برقرار کرے۔

گذشتہ بیانات کی روشنی میں امام زمانہ (عج) کو بادل کے پیچھے پنہان روشن آفتاب سے تشبیہ دینے کا مقصد بھی واضح ہو جاتا ہے۔ اگرچہ بادل کے پیچھے پنہان سورج سے انسان مکمل طور بہرہ مند نہیں ہوتا ہے،لیکن اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں ہے کہ اس سے انسان کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا ہے۔ بہرحال امام زمانہ (عج) کے وجود کے آثار و برکات سے بہرہ مند نہ ہونے کا سبب انسانوں کی طرف سے خاص حالات کا فراہم نہ کرنا ہے، جس کی وجہ سے لوگ اس عظیم نعمت کے فوائد سے محروم ہیں اور اس محرومیت کا سبب وہ خود ہیں نہ کہ خداوند متعال اور امام، کیونکہ خداوند متعال اور امام کی طرف سے اس سلسلے میں کوئی مشکل در پیش نہیں ہے۔

خواجہ نصیر الدین طوسی (رہ) آپ (عج) کی غیبت کے بارے میں لکھتے ہیں: (واما السبب غیبته فلایجوز ان یکون من الله سبحانه و لا منه کما عرفت فیکون من المکلفین و هو الخوف الغالب و عدم التمکین و الظهوریجب عند زوال السبب) لیکن یہ جائز نہیں کہ امام زمانہ (عج) کی غیبت خدا کی طرف سے یا خود آپ (عج) کی طرف سے ہو، جیسا کہ آپ جان چکے ہیں۔ پس اس کی وجہ خود عوام (لوگ) ہیں، کیونکہ ان کے اوپر خوف کا غلبہ ہے اور ان کے سامنے سر تسلیم خم نہ کرنا ہی اس کا سبب ہے اور جب بھی رکاوٹیں ختم ہو جائیں گی تو ظہور واجب ہو جائے گا۔ گذشتہ بیانات امام زمانہ(عج) کے وجود کے تشریعی و تربیتی آثار تھے، لیکن حجت الہیٰ کے تکوینی آثار و برکات نظام خلقت اور کائنات کا باقی ہونا ہے۔ یعنی ان کی وجہ سے زمین و آسمان قائم ہیں۔ اسی طرح حجت خدواندی اور انسان کامل کے بغیر کائنات بے معنی ہے۔

اسی بنا پر روایات میں موجود ہے کہ زمین کبھی بھی حجت خدا سے خالی نہیں ہوسکتی، کیونکہ اگر ایک لحظہ کے لئے بھی زمین حجت خدا سے خالی ہو تو وہ اپنے اہل سمیت نابود ہو جائے گی۔(لو لا الحجة لساخت الارض باهلها) یہاں سے اس عبارت کا مطلب بھی سمجھ میں آتا ہے جو کہ بعض دعاوں میں موجود ہے:(بیمنه رزق الوری و بوجوده ثبتت الارض و السماء) "امام زمانہ(عج) کے وجود کی برکت سے ہی موجودات رزق پا رہه ہیں اور آسمان و زمین برقرار ہیں۔" امام اور حجت خدا واسطہ فیض الہیٰ ہیں، خدا اور بندگان کے درمیان واسطہ ہیں، جن برکات و فیوض الہیٰ کو براہ راست حاصل کرنے کی صلاحیت لوگوں میں نہیں پائی جاتی، امام ان فیوض و برکات کو خدا سے لے کر بندوں تک پہنچانے کا ذریعہ و وسیلہ ہیں۔ لہذا امام زمانہ(عج) کی طولانی عمر اور ظہور سے صدیوں قبل آپ(عج) کی ولادت کا ایک فائدہ یہ ہے کہ اس طویل مدت میں کبھی بندگان خدا الطاف الہیٰ سے محروم نہ رہیں اور امام کے وجود کی جو برکات ہیں، وہ مسلسل لوگوں تک پہنچتی رہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
1۔ تجرید لاعتقاد، بحث امامت
2۔ کمال الدین، شیخ صدوق، باب 45۔ حدیث 4، ص485
3۔ الرسائل، سید مرتضیٰ، ج2، ص297 – 298
4۔ اصول کافی، ج1، کتاب الحجۃ باب ان الحجۃ لا تقوم للہ علی خلقہ
5۔ اصول کافی، ج1، کتاب الحجۃ باب ان الحجۃ لا تقوم للہ علی خلقہ
6۔ نوید امن و امان، آیۃ اللہ صافی گلپایگانی، ص 148
 
 
تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی