سلیمانی

سلیمانی

 اسلامی جمہوریہ ایران کے وزير خارجہ محمد جواد ظریف نے اپنے ٹوئیٹرپیغام میں یوم پاکستان کی مناسبت سے پاکستانی عوام اور حکومت کو مبارکباد پیش کی ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ نے پاکستان کو ایران کا دوست، برادر اور بہرتین ہمسایہ ملک قراردیتے ہوئے کہا کہ ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ پاکستان ہمارا ہمسایہ ، برادر اور دوست ملک ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ نے پاکستانی حکومت اور عوام کے لئے خوشحالی اور ترقی کی دعا کی ۔ واضح رہے کہ 65 سال قبل پاکستان کانام اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھا گیا۔

اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے انسانی حقوق کونسل کے 46 ویں اجلاس میں ایران میں انسانی حقوق کے بارے میں قرارداد پیش کرنے پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئےکہا ہے کہ دیگر اقوام کے حقوق کو پامال کرنے والے ممالک انسانی حقوق کے مدعی نہیں ہوسکتے اور نہ ہی انھیں دیگر ممالک میں انسانی حقوق کے بارے میں قضاوت کرنے کا حق حاصل ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایران کے خلاف پیش کی گئی قرارداد کو عالمی اجماع حاصل نہیں ہے اور نہ ہی سیاسی بنیادوں پر پیش کی گئي قرارداد کی کوئی اہمیت ہے۔ سعید خطیب زادہ نے کہا کہ  دوسری اقوام  کے حقوق کو پامال کرنے والے ممالک کو انسانی حقوق کے بارے میں قضاوت کرنے اور انسانی حقوق کا مدعی ہونے کا کوئي حق نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس قرارداد کی حمایت کرنے والے ممالک دنیا میں سب سے زیادہ انسانی حقوق کو پامال کررہے ہیں لہذا ایسے ممالک کو مدعی ہونے کے بجائے دنیا میں اپنے سنگین جرائم کے بارے میں جواب دہ ہونا چاہیے۔

 کابل شھر کے مصروف تجاری مرکز میں،جہاں ہر جگہ گاڑیوں اور انسانوں کی بھیڑ رہتی ہے ، نئے تعمیر شدہ اور پرانے مکانوں کے درمیان ایک منفرد چیز ہر دیکھنے والے کی آنکھوں کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے جو ہر لحاظ سے منفرد ہے۔ ایک فیروزہ رنگ کا گنبد اور دو مینارے ، کابل کے خشک شدہ دریا کے کنارے واقع یہ مسجد کابل شھر کی سب سے پہلی مسجد ہے۔

” مسجد شاہ دو شمشیر ” ایک ایسی مسجد اور زیارت گاہ جو بدھ کے دن لوگوں سے کھچا کھچ بھر جاتی ہے۔

“شاہ دو شمشیر” مسجد ایک تاریخی جگہ ہے جس نے اپنے طور سے کابل کی عظمت کو دو چندان کیا ہے اور اس مسجد کو افغانستان کے اندرونی لڑائیوں میں کسی قسم کا نقصان نہیں پہونچا ہے۔

یہ مسجد کابل شھر کے دل میں واقع ہے اور اصل میں یہ ایک ایسی زیارت گاہ ہے جو مسجد میں تبدیل ہوئی ہے۔ آج کے دور میں کابل کے لوگ اسے مسجد کے طور پر جانتے ہیں۔

 

اس مسجد کے دروازے کے دائیں طرف ایک تختی لگائی گئی ہے جس پر یہ آیہ شریف لکھی ہوئی ہے ﴿يٰأَيُّهَا ٱلَّذِينَ آمَنُواْ ٱرْكَعُواْ وَٱسْجُدُواْ وَاعْبُدُواْ رَبَّكُمْ وَٱفْعَلُواْ ٱلْخَيْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُون﴾  سورہ حج /۷۷

 

اس مسجد کے ارد گرد کابل کے لوگوں کی آمد و رفت ہوتی ہے  اسی وجہ سے اور تاریخی ہونے کے اعتبار سے یہ مسجد کافی مشہور ہے، بہت کم ایسے سیاح ہیں جو کابل آئیں لیکن اس مسجد کی زیارت نہ کریں۔

 ” مسجد شاہ دو شمشیر” کا نام کئی مرتبہ تاریخ میں بدل گیا ہے اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے تاریخ نگاروں کے مطابق یہ جگہ ایک ایسی زیارتگاہ ہے  جھان پر پہلا عرب شھید کیا گیا ہے۔

 

پہلی مرتبہ سپاہ اسلام نے ۳۶ ھجری میں بست باستان پر حملہ کیا اور اس کے بعد کابل کا رخ کیا۔ اس سپاہ کا ایک کمانڈر  “لیث بن قیس بن عباس” تھا جو سپاہ کے ایک حصے کا سالارتھا۔

یہ سپاہ جب کابل کی عظیم دیواروں سے گزری تو کابل میں گھمسان کا رن ہوا اس جنگ میں “لیث” شھید ہوا اسے اسی جگہ پر جہاں ” مسجد شاہ دوشمشیر” ہے سپرد خاک کیا گیا۔

اس مسجد اور زیاررت گاہ کے نام رکھنے کی اصلی دلیل یہ ہے کہ جب ” لیث بن قیس” کابل میں داخل ہوا وہ جنگ میں دونوں ہاتھوں سے تلوار چلاتا تھا اسی وجہ سے اس زیارتگاہ کا نام ” شاہ دو شمشیر” رکھا گیا ہے۔

تاریخ میں شاہ دو شمشیر کی زیارت گاہ کافی نشیب و فراز سے گزری ہے ، یہ مسجد کئی مرتبہ شھید کردی گئی ہے، لیکن آخری مرتبہ ” ملکہ سوریا” افغانستان کے پہلے پادشاہ ” امان اللہ خان ” کی بیگم کے ذریعے تعمیر کی گئی۔

 ” مسجد شاہ دو شمشیر” افغانستان میں معماری کی  ثقافت کی علامت جانی جاتی ہے۔  یہ مسجد آخری صدی کی معماری کی ظرافت کی عکاس ہے۔

 

“مسجد شاہ دو شمشیر” آج کے دور میں کابل کے مکینوں کی میزبان مسجد ہے ، اس مسجد میں نماز جمعہ اور نماز عید منعقد ہوتی ہے۔

اس کے علاوہ کابل کے لوگ اپنی دینی مناسبتوں کو یہی منعقد کرتے ہیں ، اور اس کی سب سے اہم دلیل کابل کے لوگوں کےلئے اس مسجد کا مکمل تعارف ہے، یہ مسجد کابل شھر کے مرکز میں واقع ہے اس لحاظ سے کابل کا ہرشھری اس سے قریب ہے۔ی

اس زیارت گاہ کے اردگرد بہت سے سفید کبوتروں کو دیکھا جا سکتا ہے جنہوں نے اس زیارت گاہ کی خوبصورتی کو دو چندان کیا ہے۔

اس مسجد کا خوبصورت منظر اور کابل کے دریا پر واقع ہونا، اور اس زیارت گاہ کا قدیمی ہونا اور اس کا مرکزی کردار اس بات کا سبب بنا ہے کہ ہر دن اس مسجد کے  زائروں کی تعداد جو داخل اور بیرون افغانستان سے آتے ہیں ، روز بروز بڑھتی جاتی ہے۔

 

اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر حسن روحانی نے اپنے ایک پیغام میں پاکستان کے وزير اعظم عمران خان کی صحتیابی کے لئے دعا کی ۔پاکستانی وزير اعظم کورونا وائرس کا شکار ہونے کے بعد قرنطینہ میں چلے گئے ہیں۔

صدر حسن روحانی نے پاکستانی عوام اور حکومت کو نوروز کی مناسبت سے مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ دنیا کو کوروناوائرس کی مہلک وباء  سے جلد از جلد نجات عطا فرمائے۔

صدر حسن روحانی نے کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے کے سلسلے میں ایکدوسرے کے تجربات سے استفادہ کرنے کے سلسلے میں بھی تاکید کی۔


23 مارچ 1940ء کو قرارداد پاکستان لاہور میں منظور ہوئی۔ اس قرارداد کو برصغیر کے مسلمانوں کی پرجوش حمایت حاصل تھی۔ پورے ہندوستان میں انگریزوں سے آزادی کی عوامی تحریک چل رہی تھی۔ ہندو مسلم انگریزوں سے آزادی کے لیے متحد تھے، تاہم مسلمان انگریزوں کے انخلا کے بعد مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل اپنے لیے علیحدہ وطن کے خواہاں تھے۔ اسی آرزو کو 23 مارچ 1940ء کو قائداعظم کی قیادت میں مسلم لیگ کے عظیم الشان تاریخی جلسے میں ’’قرارداد لاہور‘‘ کی شکل دی گئی۔ پھر سات برس تک برصغیر کے مسلمانوں نے ایک ولولہ انگیز تحریک برپا کی۔ کانگریس اور اس کے حواریوں نے اس کی شدت سے مخالفت کی، لیکن عوام کی زور دار اور بے تابانہ خواہش کے آگے کون بند باندھ سکتا تھا۔ آخرکار کانگریس اور انگریزوں کو اس کے سامنےجھکنا پڑا اور ہندوستان کے بٹوارے کا فیصلہ ہوگیا۔ ہندوستان: بھارت اور پاکستان دو ریاستوں میں تقسیم ہوگیا۔

ہندوستان انگریزوں سے فوجی طاقت سے آزاد نہیں کروایا گیا تھا اور نہ ہی پاکستان کانگریس اور انگریزوں کے مقابلے میں لشکر کشی سے حاصل کیا گیا تھا۔ یہ آزادی بھرپور عوامی تحریک کے نتیجے میں حاصل ہوئی۔ ہماری سوچی سمجھی رائے ہے کہ عوام کی پرزور حمایت اور ریاست پر اعتماد سے ہی یہ آزادی محفوظ رہ سکتی ہے اور محفوظ رکھی جا سکتی ہے۔ اس کا ایک اور ثبوت مشرقی پاکستان کا بنگلہ دیش کی صورت اختیار کر لینا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بنگلہ دیش کے قیام میں عالمی سازشوں اور بھارتی ریشہ دوانیوں نے نہایت اہم کردار ادا کیا تھا، تاہم اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ عوام کی ایک بڑی تعداد کو پاکستان سے بدظن کیا جاچکا تھا۔ عوام کی اکثریت کو پاکستان کی ریاست پر اعتماد ہوتا اور وہ اس سے پرجوش طور پر وابستہ ہوتے تو مشرقی پاکستان کو پاکستان سے جدا نہیں کیا جاسکتا تھا۔

فوجوں کی کامیابی اور ریاستوں کی بقاء و حفاظت کا دار و مدار عوام کی حمایت اور اعتماد پر ہوتا ہے۔ فوج اہم ہوتی ہے، نہایت اہم ہوتی ہے اور ہر ریاست کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن فوج کو عوام کی طرف سے حمایت اور اعتماد حاصل نہ ہو تو وہ دشمن کے مقابلے میں معرکہ سر نہیں کرسکتی۔ یہ بات پاکستان کے لیے بھی اتنی ہی سچی ہے، جتنی کسی بھی اور ریاست کے لیے۔ پاکستان کے 22 کروڑ عوام اگر اس ریاست سے محبت کرتے ہوں، اس میں ان کی جان، مال اور آبرو محفوظ ہو، انھیں ترقی کے مناسب مواقع حاصل ہوں، انھیں قانونی مساوات دکھائی دیتی ہو، اچھی حکمرانی میسر ہو اور فوج انھیں اپنی لگتی ہو تو وہ اس ریاست سے والہانہ محبت کیوں نہیں کریں گے۔ وطن کی محبت کے فطری جذبے کو عدل و انصاف کی فطری ضرورت پورا کرکے محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔ جان، مال اور عزت کی حفاظت ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ مساوی شہری حقوق کا حصول ہر شہری کی فطری آرزو ہے، اس آرزو کی تکمیل وطن سے اس کے رشتے کو پائیدار اور محکم کر دیتی ہے۔

ایک ہی ملک کے اندر علیحدگی کی تحریکیں یا کسی ملک سے وسیع پیمانے پر ہجرتیں وطن سے متعلق جذبوں کے سرد پڑ جانے یا اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھنے کی وجہ سے ظہور میں آتی ہیں۔ خود پاکستان کی تحریک اس کی شاہد ہے۔ مسلمانوں نے انگریزوں کے جانے کے بعد کے ہندوستان میں اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھا، اسی لیے تحریک پاکستان برپا ہوئی۔ کانگریس کی قیادت کو کئی ایک مواقع ملے، جن میں وہ مسلمانوں کے لیے اپنی خیر خواہی کو ثابت کرسکتی تھی۔ اس کی قیادت نے تنگ نظری، شدت پسندی اور تعصب کے ایسے ایسے مظاہرے کیے کہ مسلمانوں کو یقین ہوگیا کہ متحدہ ہندوستان میں ان کا مستقبل محفوظ نہیں ہوگا۔ آزادی کی خاطر مسلمانوں نے جو عظیم قربانیاں دیں، وہ اسی شعور اور احساس کی بدولت تھیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر 22 کروڑ عوام پاکستان کے ساتھ گہری محبت رکھتے ہوں اور اس کے لیے ہر طرح کی قربانی دینے کو تیار ہوں تو دنیا کی کوئی طاقت اس قوم کو غلام بنا سکتی ہے اور نہ اس میں دراڑیں ڈال سکتی ہے۔ پاکستانی عوام کو یہ احساس دلانا ضروری ہے یا دلائے رکھنا ضروری ہے کہ اس ملک کی فوج ان کی ہے، ان کے ارمانوں کی محافظ ہے، اس ملک کے آئین، قانون اور مفادات کی نگہبان ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ پاکستان کے عوام کی آرزوئوں کی ترجمان پارلیمان اور حکومت جو فیصلے اس ملک کے مفاد میں کرے، فوج ان کا ساتھ دے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی عوامی نمائندگان اور عوامی حکومت ہی کو طے کرنا چاہیے۔ امریکہ ہو یا چین، بھارت ہو یا ایران، سعودی عرب ہو یا امارات، بحرین ہو یا اردن، اسرائیل ہو یا فلسطین تمام امور میں فیصلے کرنے کا حق اور پالیسی طے کرنے کا حق عوام کا ہے، جسے جائز طریقے سے معرض وجود میں آنے والی پارلیمان ہی بیان کرسکتی ہے۔

یہ تاثر درست نہیں کہ پاکستان ایک کلائنٹ ریاست (Client State) ہے، دوسری ریاستوں یا عالمی طاقتوں کے ایما پر فیصلے کرتی ہے۔ ماضی میں افغانستان کے بارے میں کیے گئے فیصلوں اور امریکی ایما پر جنگی حکمت عملی پر خود موجودہ وزیراعظم عمران خان بارہا تنقید کرچکے ہیں۔ اپنے عوام کو اعتماد میں نہ لے کر ان امور میں کیے گئے فیصلے ریاست کے استحکام پر اثرا نداز ہوتے ہیں۔ ماضی کے فیصلوں کے برے اثرات سے ہم ابھی تک نہیں نکل سکے۔ یہی حال عالمی اداروں سے لیے گئے قرضوں کی دلدل کا ہے۔ اس میں سے نکلنے کے لیے ہم ایک پائوں اٹھاتے ہیں تو دوسرا زیادہ دھنس جاتا ہے۔ ایف اے ٹی ایف جیسے عالمی اداروں جنھیں استعماری جال ہی کہنا چاہیے، نے ہمیں الگ جکڑ رکھا ہے۔ ایسے میں پاکستان آزادانہ فیصلے کرنے کی صلاحیت سے محروم نظر آتا ہے۔

جو ریاست آزادانہ فیصلے نہ کرسکے، اسے کس طرح سے اور کس معنی میں آزاد کہا جا سکتا ہے۔ ہم پاکستان کے عوام کو اعتماد میں لے کر ان زنجیروں کو توڑ سکتے ہیں۔ قرض کی زنجیر اور غلط خارجہ پالیسی کی رسی ہے، جس نے ہمیں ایک طرف سے کھینچا تو ہم کوالالمپور کانفرنس میں نہیں جا پائے۔ کیا اسی کو آزاد ریاست کہتے ہیں۔؟ آزادی کا ایک نیا شعور اور ولولہ پیدا کرکے اور ایثار و قربانی کے لیے قوم کو آمادہ کرکے ہم اس غلامی کے بندھن کو توڑ سکتے ہیں۔ عالمی سامراجی جال ہمیں ہمیشہ الجھائے رکھے گا۔ استعماری قرضوں کے بارے میں ہمیں جرات مندانہ فیصلے کرنے ہوں گے۔ سود کی ادائیگی کو ترک کرکے اصل زر کی واپسی کا اصول اختیار کرنا پڑے گا۔ اس کے لیے عوام کو ایثار اور امتحان کے لیے آمادہ کرنا ضروری ہوگا۔

یہ عوام آزادی کے موقع پر جتنی بڑی قربانی دے چکے ہیں، وہ تاریخ میں اپنی مثال آپ ہے۔ یہی عوام آج بھی عظیم قوم میں ڈھلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ انقلابی جذبے میں تعمیر کی بھی بے پناہ صلاحیت ہوتی ہے۔ 22 کروڑ عوام میں پیدا ہونے والی بیداری دنیا میں نئے معجزات رقم کرسکتی ہے۔ ہمارے چھوٹے چھوٹے مسائل اس بیداری کی وجہ سے ختم ہوسکتے ہیں۔ اس سارے عمل میں عوامی رضاکار فورس کی شدید ضرورت ہوگی۔ بڑے پیمانے پر عوام کی ابتدائی فوجی تربیت کا اہتمام کرنا پڑے گا، چونکہ حالیہ تاریخ کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ استعماری سازشوں کے مقابلے کے لیے باقاعدہ افواج کو ناگزیر طور پر عوامی رضاکاروں اور انقلابی تربیت یافتہ محافظین وطن کی ضرورت پڑتی ہے۔ اللہ تعالیٰ پاکستان کی حفاظت فرمائے اور اسے ایک مثالی فلاحی اور مضبوط مملکت بنانے میں ہماری راہنمائی فرمائے۔

تحریر: سید ثاقب اکبر

 شعبان کا مہینا عظمتوں اور برکتوں والا مہینا ہے۔جس میں انسان اگر چاہے تو وہ اپنے چھوٹے اور بڑے گناہوں کی بخشش کروا سکتا ہے۔ لکین شرط یہ ہے کہ انسان اپنے پرودگار کی عبادت کرے اور اپنے گناہوں کی بخشش کی طلب کرے۔ اور جو اعمال اس مہینے میں بتائے گئے ہیں ان اعمالوں کو سرانجام دے۔

شعبان مہینے کی فضیلت روایات کی روشنی میں: 

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
رجب خدا کا مہینہ ہے، شعبان میرا مہینہ ہے، اور رمضان میرے امت کا مہینہ ہے۔
ایک اور جگہ پر ارشاد فرمایا:
شعبان میرا مہینہ ہے اور خدا رحم کرے اس پر جو اس مہینے میں میری مدد کرے۔ 
امام علی علیہ السلام نے فرمایا:
شعبان کا مہینہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا مہینہ ہے۔  

شعبان کے مہینے میں روز رکھنے کا ثواب اور اجر:

شعبان وہ عظیم مہینہ ہے جو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منسوب ہے۔ حضور اس مہینے میں روزے رکھتے اور اس مہینے کے روزوں کو ماہ رمضان کے روزوں سے متصل فرماتے تھے۔ اس بارے میں آنحضرت کا فرمان ہے کہ شعبان میرا مہینہ ہے اور جو شخص اس مہینے میں ایک روزہ رکھے تو جنت اس کے لیے واجب ہو جاتی ہے۔

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جب ماہ شعبان کا چاند نموردارہوتا تو امام زین العابدین علیہ السلام تمام اصحاب کو جمع کرتے اور فرماتے : اے میرے اصحاب ! جانتے ہو کہ یہ کونسا مہینہ ہے؟ یہ شعبان کا مہینہ ہے اور حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ شعبان میرا مہینہ ہے۔ پس اپنے نبی کی محبت اور خداکی قربت کے لیے اس مہینے میں روزے رکھو۔ اس خدا کی قسم کہ جس کے قبضہ قدرت میں علی بن الحسین کی جان ہے، میں نے اپنے پدربزرگوار حسین بن علی علیہما السلام سے سنا۔ وہ فرماتے تھے میں اپنے والدگرامی امیرالمومنین علیہ السلام سے سنا کہ جو شخص محبت رسول اور تقرب خدا کے لیے شعبان میں روزہ رکھے توخدائے تعالیٰ اسے اپنا تقرب عطا کرے گا قیامت کے دن اس کو عزت وحرمت ملے گی اور جنت اس کے لیے واجب ہو جائے گی۔

 

شیخ نے صفوان جمال سے روایت کی ہے کہ امام جعفرصادق علیہ السلام نے فرمایا: اپنے قریبی لوگوں کو ماہ شعبان میں روزے رکھنے پر آمادہ کرو! میں نے عرض کیا، اس کی فضیلت کیا ہے؟ فرمایا حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ جب شعبان کا چاند دیکھتے تو آپ کے حکم سے ایک منادی یہ ندا کرتا:
” اے اہل مدینہ ! میں رسول خدا کا نمائندہ ہوں اور ان کا فرمان ہے کہ شعبان میرا مہینہ ہے خدا کی رحمت ہو اس پر جو اس مہینے میں میری مدد کرے یعنی روزہ رکھے۔
صفوان کہتے ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے تھے جب سے منادی رسول نے یہ ندا دی ہے، اس کے بعد شعبان کا روزہ مجھ سے قضا نہیں ہوا اور جب تک زندگی کا چراغ گل نہیں ہو جاتا یہ روزہ مجھ سے ترک نہ ہوگا۔ نیز فرمایا کہ شعبان و رمضان دومہینوں کے روزے توبہ اور بخشش کا موجب ہیں۔

اسماعیل بن عبدالخالق سے روایت ہے کہ میں امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر تھا جب کہ روزہ شعبان کا ذکر ہوا۔ اس وقت حضرت نے فرمایا: ماہ شعبان کے روزے رکھنے کی بہت زیادہ فضیلت ہے۔

اعمال ماہ شعبان (اعمال مشترک)
1۔ روزہ رکھنا۔
2۔ صلوات بھیجنا۔
3۔ صدقہ دینا۔
4۔ مناجات شعبانیہ کا پڑھنا
5۔ روزانہ 70 مرتبہ اَسْتَغْفِرُاللهَ وَ اَسْئَلُهُ التَّوْبَةَ کہنا۔
6۔ روزانہ 70 مرتبہ اَسْتَغْفِرُاللهَ الَّذى لااِلهَ اِلاّ هُوَ الرَّحْمنُ الرَّحیمُ الْحَىُّ الْقَیّوُمُ وَ اَتُوبُ اِلَیْهِ کہنا۔
7۔ اس مہینے میں ہزار دفعہ لا اِلهَ اِلا اللهُ وَلا نَعْبُدُ اِلاّ اِیّاهُ مُخْلِصینَ لَهُ الدّینَ وَ لَوُ کَرِهَ الْمُشْرِکُونَ کہنا۔
8۔ اس مہینے کی ہر جمعرات کو دو رکعت نماز پڑھنا جس کی ہر رکعت میں سورہ حمد کے بعد 100 مرتبہ سورہ توحید اور سلام کے بعد 100 مرتبہ صلوات بھیجنا۔
9۔ ظہر کے وقت اور نصف شب، صلوات شعبانیہ کا پڑھنا جو امام سجاد(ع) سے منقول ہے اور وہ یہ ہے:
اَللّهُمََّ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ و َآلِ مُحَمَّدٍ شَجَرَةِ النُّبُوَّةِ وَ مَوْضِعِ الرِّسالَةِ وَ مُخْتَلَفِ الْمَلاَّئِکَةِ وَ مَعْدِنِ الْعِلْمِ وَ اَهْلِ بَیْتِ الْوَحْىِ. اَللّهُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ و َآلِ مُحَمَّدٍ الْفُلْکِ الْجارِیَةِ فِى اللُّجَجِ الْغامِرَةِ یَامَنُ مَنْ رَکِبَها وَ یَغْرَقُ مَنْ تَرَکَهَا الْمُتَقَدِّمُ لَهُمْ مارِقٌ وَالْمُتَاَخِّرُ عَنْهُمْ زاهِقٌ وَاللاّزِمُ لَهُمْ لاحِقٌ. اَللّهُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ الْکَهْفِ الْحَصینِ وَ غِیاثِ الْمُضْطَرِّ الْمُسْتَکینِ وَ مَلْجَاءِ الْهارِبینَ وَ عِصْمَةِ الْمُعْتَصِمینَ. اَللّهُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ صَلوةً کَثیرَةً تَکُونُ لَهُمْ رِضاً وَ لِحَقِّ مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ اَداَّءً وَ قَضاَّءً بِحَوْلٍ مِنْکَ وَ قُوَّةٍ یا رَبَّ الْعالَمینَ. اَللّهُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ الطَّیِّبینَ الاْبْرارِ الاْخْیارِ الَّذینَ اَوْجَبْتَ حُقُوقَهُمْ وَ فَرَضْتَ طاعَتَهُمْ وَ وِلایَتَهُمْ. اَللّهُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ وَاعْمُرْ قَلْبى بِطاعَتِکَ وَلا تُخْزِنى بِمَعْصِیَتِکَ وَارْزُقْنى مُواساةَ مَنْ قَتَّرْتَ عَلَیْهِ مِنْ رِزْقِکَ بِما وَسَّعْتَ عَلَىَّ مِنْ فَضْلِکَ وَ نَشَرْتَ عَلَىَّ مِنْ عَدْلِکَ وَ اَحْیَیْتَنى تَحْتَ ظِلِّکَ وَ هذا شَهْرُ نَبِیِّکَ سَیِّدِ رُسُلِکَ شَعْبانُ الَّذى حَفَفْتَهُ مِنْکَ بِالرَّحْمَةِ وَالرِّضْوانِ الَّذى کانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَ آلِه وَ سَلَّمَ یَدْاَبُ فى صِیامِهِ وَ قِیامِهِ فى لَیالیهِ وَ اَیّامِهِ بُخُوعاً لَکَ فى اِکْرامِهِ وَاِعْظامِهِ اِلى مَحَلِّ حِمامِهِ. اَللّهُمَّ فَاَعِنّا عَلَى الاِْسْتِنانِ بِسُنَّتِهِ فیهِ وَ نَیْلِ الشَّفاعَةِ لَدَیْهِ اَللّهُمَّ وَاجْعَلْهُ لى شَفیعاً مُشَفَّعاً وَ طَریقاً اِلَیْکَ مَهیَعاً وَاجْعَلْنى لَهُ مُتَّبِعاً حَتّى اَلْقاکَ یَوْمَ الْقِیمَةِ عَنّى راضِیاً وَ عَنْ ذُنُوبى غاضِیاً قَدْ اَوْجَبْتَ لى مِنْکَ الرَّحْمَةَ وَالرِّضْوانَ وَ اَنْزَلْتَنى دارَ الْقَرارِ وَ مَحَلَّ الاْخْیارِ.

 

آغا سید عبدالحسین بڈگامی "آغا سعحب" نے کشمیر نیوز بیورو چینل پر ایک شیعہ سنی علمی مباحثے میں پوچھے گئے سوال کہ؛ اگر ایک شیعہ غلطی کرے کیا وہ تمام شیعوں کی غلطی ہوگی ؟ کے جواب میں کہا:جہاں تک شیعہ ہونے کا تعلق ہے وہ امامت کا قائل ہےاور ایک شیعہ کی طرف سے اپنی انفرادی حیثیت سے تشیع کا ترجمان ہونے کی کوئی حیثیت یا سند نہیں رکھتا ہے مگر یہ کہ وہ ثابت کردے کہ جو وہ کہہ رہا ہے وہ اس کے امام کا قول ہے ۔

آغا سعحب نے آگے اسکی وضاحت کرتے ہوئے کہا:اسوقت ہمارا عقیدہ جو ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے دور کا امام اللہ کے حکم سے پردہ غیب میں ہیں ، اللہ سبحان و تعالی کے حکم سے ہی ظہور کریں گے اور اس غیبت کے زمانے میں ان کی جگہ ان کے نائبین قیادت سنبھالے ہوئے ہیں، جسے ہم مرجع تقلید،مجتہد جامع الشرایط  کہتے ہیں اور اسوقت ہمارے مجتہد جامع الشرایط حضرت امام خامنہ ای ہیں، حضرت امام سید سیستانی ہیں،اگر وہ کچھ کہتے ہیں وہ شیعہ کی بات ہے اگر میں کچھ کہتا ہوں ، میں ایک دینی طالبعلم ہوں،شیعہ گھر میں پیدا ہوا ہوں، میری بات شیعہ کی بات نہیں ہے!اگر تشیع کی ترجمانی کی بات کریں گے۔حقیقت امر یہی ہے۔

بین الاقوامی امور کے تجزیہ نگار اور اسلامی مبلغ آغا سعحب نے شیعہ ترجمانی کی وضاحت کرتے ہوئےخود سوال کرتے ہوئے کہ ایسا کیوں ہے؟ کا جواب دیتے ہوئے کہا:وہ اسلئے کہ اس کی دلیل قرآن میں ہے وہ یوں کہ جب عیسائی آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم اور قرآن پر اعتراض کرنے کے لئے آئے اس پر آنحضرت نے فرمایا کہ ٹھیک ہے اس کا فیصلہ اللہ پر چھوڑتے ہیں ہم مباہلہ کرتے ہیں،جو کوئی جھوٹا ہو، اس کے بارے میں دعا بد کریں گے کہ جھوٹے پر اللہ کی لعنت ہو۔ قرآن اس بات کی گواہی دے رہا ہے اور تاریخ نے اس حادثے کو نقل کیا ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم امت لے کے مباہلے میں حاضر نہیں ہوئے[میں کیوں کہہ رہا ہوں کہ اگر میں کچھ کہتا ہوں میرا تعلق شیعہ گھرانے سے ہے، میں شیعہ طالبعلم ہوں لیکن پھر بھی میں تشیع کا ترجمان نہیں ہوں، مگر یہ کہ میں مستند طور مجتہد جامع الشرایط کے قول کو نقل کر سکوں ، امام کے قول نقل کر سکوں] یہ مباہلے کے میدان کا پیغام ہے مباہلے میں خود رسول رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نکلتے ہیں، کس کو ساتھ لے کے نکلتے ہیں؟ ساتھ لے کے نکلتے ہیں حضرت علی علیہ السلام کو۔اور کسے ساتھ لے کے نکلتے ہیں ؟ساتھ لے کے نکلتے ہیں حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا کو۔اور کسے ساتھ لے کے نکلتے ہیں؟ساتھ لے کے نکلتے ہیں حضرت حسن علیہ السلام کو۔اور کسے ساتھ لے کے نکلتے ہیں ؟ساتھ لے کے نکلتے ہیں حضرت حسین علیہ السلام کو۔ صرف پنجتن پاک میدان مباہلے میں نکلتے ہیں ،  اس کا مطلب کیا ہے ؟اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اسلام پر قہر الہی ٹوٹ پڑنی ہے تو پہلے پنجتن پاک پر گرے پھر جا کے امت پر نوبت آئے گی، اگر اسلام پر رحمت برسنی ہے پہلے پنجتن پاک پر برسے پھر امت پر۔ یعنی لیڈر ایسا ہونا چاہئے کہ بلاوں کا خود سپر بن جائے پھر پیچھے چلنے والوں کی نوبت آنی چاہئے، جب کہ ہم پہلے امت کو آگے دھکیل دیتے ہیں پیچھے سے امامت چمکاتے ہیں۔

آغا سید عبدالحسین بڈگامی "آغا سعحب" نے تشیع کی ترجمانی کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا: تشیع کے اعتبار سے ترجمانی کرنا ایک پہلو ہے اور شیعہ عوامی رد عمل دوسرا پہلو ہے، جیسا کہ مذکورہ مرتد شخص کے چھوٹے بھائی کا رد عمل سامنے آیا اس نے کہا کہ"وہ اسکا بڑھا بھائی جس نے قرآن میں تحریف کا دعوی کیا قرآن کیا جانے وہ تو نماز بھی نہیں پڑھتا ہے اور قرآن کی توہین کرنے کے پیش نظر اسے ہم نے گھروالوں عزل کردیا ہے ، میں نے بھی عزل کردیا ، میری بہنوں نے بھی عزل کردیا  اور میری ماں نے بھی عزل کردیا ہے اس کے ساتھ اب کوئی رشتہ نہیں رہا ہے"۔ یعنی شیعہ گھرانے نے اسی بات کا اعلان کردیا کہ جسے میں بیان کرنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ ایسی فکر کہ قرآن میں تحریف کی گئی ہے، قرآن میں سورہ حمد سے لے کر سورہ ناس تک کسی قسم کی تحریف ہوئی ہے،ایسا عقیدہ رکھنے والے کے لئے شیعہ گھر میں بھی رہنے کی جگہ نہیں ہے،وہ مرتد ہے۔ہم ایسے گھرانے کو مرحبا کہتے ہیں کہ جنہوں نے اسطرح دینداری کا مظاہرہ کردیا۔

نیوز نور کے بانی چیف ایڈیٹر آغا سعحب نے لکھنو کے مرتد شخص جس نے ہندوستانی سپریم کورٹ میں قرآن کے تحریف ہونے کا مقدمہ دائر کیا ہے کے منصوبے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ؛اب اگر اس مرتد کی بات کریں جو کہ اس کھیل کا حصہ بنا ، وہ کام قرآن کے خلاف مقدمہ دائر کرنا دشمن کے منصوبے کا ایک حصہ تھا، ابھی تک اسلام دشمن طاقتوں نے ایک طریقہ کار یہی اپنایا ہوا تھا کہ مسلمانوں کے جذباتوں سے کھیلنا، سنی شیعہ مسلمانوں کے درمیان اختلاف کو نشانہ بنانا۔ یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ سنی شیعہ مسلمانوں کے درمیان بعض مسائل میں اختلافات رہے ہیں،90 فیصد سے زائد مسائل میں ہمارے سنی شیعہ درمیان اتفاق ملتا ہے اور 10 فیصد سے کم مسائل میں ہمارے درمیان اختلاف ہیں اور وہ اختلافات بھی علمی ہیں ، ہمارے درمیان گالی گلوچ والے اختلاف نہیں ہیں بلکہ ہمارے درمیان علمی اختلاف ہے جیسے کہ شیعوں کا عقیدہ ہے کہ امامت اصول دین میں شامل ہے جبکہ اہلسنت کا عقیدہ ہے کہ امامت فروع دین میں ہے ۔ کیا یہ بات گالی گلوچ والی بات ہے؟ ۔اس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ تشیع کی بات ایسے ہی قواعد و ضوابط کے مطابق ہونی چاہئے۔ اور مذکورہ شخص جو اسلام دشمن طاقتوں کے منصوبوں کے خاکوں میں رنگ بھرنے کی کوشش میں لگ گیا ہے اس نے بھی اسی 10 فیصد سے کم اختلافی مسائل کی آڈ میں منصوبہ بنایا ہے اور یہ نئی بات نہیں ہے ایسا کھیل پوری تاریخ میں اسلام کے خلاف کھیلا جاتا رہا ہے جس سے سنی شیعہ مسلمان مشتعل ہو جاتے تھے اور آپس میں دست بہ گریباں ہو جاتے تھے اور ایک دوسرے کی توہین کرتے تھے، جس میں جسقدر طاقت ہوتی وہ اسقدر طرف کو کچلتا وغیرہ۔۔۔ الحمدللہ اب وہ زمانہ نہیں رہا ہے۔ اس بار مسلمانوں نے دکھایا کہ ہم میں سیاسی سوجھ بوجھ بڑ گئی ہے، ہمیں اب دشمن کی سیاست کاری اور منصوبہ بندی سمجھ میں آتی ہے اور اب سنی شیعہ مسلمانوں کے علمی اختلافات کو توہین آمیز اختلاف ثابت نہیں کیا سکتا ہے۔
آغا سعحب سے قرآن کے خلاف عدلیہ میں مقدمہ دائر کرنے سے عدلیہ کا رد عمل کے بارے میں جب پوچھا گیا تو انہوں نے جواب میں کہا کہ؛چونکہ ہندوستانی عدالت عظمی کو قرآن کے بارے میں فیصلہ دینا ہے اسلئےپوچھا جا سکتا ہے کہ قرآن کی اس بات کو کہ؛" میں نےسب کچھ تمہارے لئے پیدا کیا"، " میں نے سب کچھ تمہارے لئے تمہارے تابع کردیا"، کس سے نسبت دے گا ، کیا یہ بات انسان کر سکتا ہے کہ یہ زمین و زمان تمہارے لئے بنایا اور آپ کو اپنے لئے بنایا ہوں۔ سپریم کورٹ اس بارے میں کیا فیصلہ دے گا؟ کیا یہ انسانی کلام ہے یہ تو "میٹا فیزیکس" کو "فیزیکس" میں بیان کیا گیا ہے ۔ہر زمانے میں قرآن اپنے معجزات کو ابھارتا رہا ہے آپ ملاحظہ کریں بسم اللہ الرحمن الرحیم کا ترجمہ مفتی کرے تو اسے اس میں فقہ نظر آتا ہے ، کمسٹری سائنسداں ترجمہ کرے تو اسے کمسٹری نظر آتی ہے اور فیزیکس کا سائنسداں ترجمہ کرے اسے فیزیکس نظر آتی ہے، آپ ملاحظہ کریں جس مفسر نے بھی جو جس علم کی مہارت رکھتا ہے اسے اسی علم کے لئے علمی خزانے ملتے ہیں،ایسا کس کلام میں اثر ہے کہ 1400 سالوں سے ایک ایک حرف کی تفسیر ہوتی ہے اور نئی نئی باتیں اجاگر ہو جاتی ہیں۔ ایسی کتاب کے ساتھ سپریم کورٹ کیا فیصلہ لیتی ہے۔ اس قرآن نے تو 1400 سال پہلے اپنا مقدمہ دائر کررکھا ہے کہ سورہ بقرہ کی آیت 23 اور 24 کے ذریعہ کہ؛" اگر کسی کو شک ہے کہ قرآن اللہ کی بات نہیں ہے تو اللہ کو چھوڑ کر سب جن اور انسان مل بیٹھ کر ایک آیت لے کے دیکھائيں اگر اپنے دعوے میں سچے ہیں"۔یعنی سپریم کورٹ کو اس چلینج کا جواب دینا ہے، کیا ایسی گھتی کو سپریم کورٹ کے ٹیبل پر رکھی گئی جس سے صرف سپریم کورٹ کا وقت ضایع ہوگا، جس سے سپریم کورٹ کے لئے آئے دن نئے مقدموں کا انبار لگنا شروع ہوگا،نئے نئے مسائل پیدا ہوں گے، سپریم کورٹ کی اینرجی ضایع ہوگی،سپریم کورٹ کی فکر مخدوش ہوگی،سپریم کورٹ کا پٹنشل ضایع ہوگا، اس موضوع کو حل کرنے کے لئے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ شخص نے سپریم کورٹ کے خلاف بہت بڑا جرم کیا ہے ! اس وقت ہندوستانی سپریم کورٹ کا اعتبار داو پر لگایا گیا ہےکہ وہ اپنے اعتبار کو کس طرح بچا سکتا ہے۔ کیا انڈین سپریم کورٹ میں یہ ثقت یہ صلاحیت ، یہ توانمندی ہے کہ وہ قرآن کو توڑ سکتا ہے؟ کیا وہ قرآن کو ثابت کرسکتا ہے کہ یہ کسی کی تالیف کردہ کتاب ہے ؟ کیا وہ ثابت کرکے دے سکتا ہے کہ قرآن میں ترمیم کرنے کی گنجائش ہے؟ قرآن کو چلینج کرنے کے لئے کوئی رکاوٹ نہیں ہے چلینج کوئی بھی کر سکتا ہے تب جب وہ اس کی صلاحیت رکھتا ہو، کیونکہ اللہ سبحان و تعالی اپنی طرف سے بھی چلینج کرتا ہے کہ آو میدان میں آو اور ثابت کردکھاو ، اس پر کوئی پابندی نہیں ہے اگر ثابت کر سکتے ہو اور اپنے دعوے کے سچے ہو ۔ چودہ سو سالوں سے کوشش ہوتی رہی ہے ، عربی ادب کے ماہرین کوشش کرتے رہے ہیں۔چونکہ اللہ سبحان و تعالی کی طرف سے آسان نسخہ رکھا گیا ہے کہ اگر رسول رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غلط ثابت کرنا ہے اس کے لئے ایک معمولی سا کام کرنا ہے ایک چھوٹی سی آیت قرآن کے مقابلے میں لے کے آنا ہے ۔دشمنوں نے سوچا یہ تو کوئی بڑی بات نہیں ہے اسطرح ایک آیت لانے کیلئے دن رات کوششیں  کرتے رہے لیکن ناکام ہوئے، ایسا نہیں کہ مذکورہ شخص نے کوئی نئی کوشش کی ہے 1400 سالوں سے دن رات کوشش ہوتی رہی ہے کہ ایک آیت بناتے ہیں اور قرآن کے چلینج کو ناکام ثابت کرتے ہیں، جوکہ نہیں کر سکیں ہیں، جب 1400 سالوں سے کوئی ایک قرآن کے چلینج کو ناکام ثابت نہ کر سکا ہے کیا ہندوستانی عدلیہ اب اسے ناکام کر دکھائے گی؟ جبکہ آیندہ 1400 کروڑ سالوں تک بھی کوئی قرآن کے چلینج کو ناکام ثابت نہیں کر سکتا ہے تو جب ایسا کرنا ممکن نہیں ہےتو ایسے میں مذکورہ شخص کو عدالت کا مذاق بنانے کے لئے کتنی سنگین سزا معین ہونی چاہئے جو ہر کسی کے لئے عبرت بن جائے ، جس سے عدالت کا احترام برقرار رہے ، جس عدالت کا اعتبار نہ صرف ہندوستان میں برقرار رہے بلکہ پوری دنیا میں محفوظ رہ سکے۔

اسلامی مبلغ آغا سید عبدالحسین بڈگامی "آغا سعحب" سےموجودہ صورتحال کے پیش نظر مسلمانوں کے صفوں میں اتحاد بنائے رکھنے کیلئے کیا کچھ کرنا ضروری ہے؟ کے جواب میں کہا کہ ؛جب تک ہم یہ نہیں سونچیں گے ، یہ سمجھنے کی صلاحیت پیدا نہیں کریں گےکہ میرے کردار سے ، گفتار سے، رفتار سے کس کو فائدہ ہوگا۔ اگر اسلام کا فائدہ ہو گا؟ تو ٹھیک ہے ، اگر اسلام کے دشمنوں کو ہوگا ؟  تو کیا ٹھیک ہے کیا ٹھیک نہیں ہے یہ سوچنا ہے۔اسلئے ہمیں چاہئے کہ جسطرح میں نے پہلے بھی اشارہ کیا کہ جو سنی شیعہ مسلمانوں کے درمیان دس فیصد سے کم اختلافات ہیں وہاں پر ہمیں سرخ لکیر کو پہچاننا ہوگا، شیعہ سنی سے کہے گا کہ یہ سرخ لکیر ہے اسے پار نہیں کرنا، خطرہ ہے، سنی شیعہ سے کہے کہ یہ سرخ لکیر ہے اسے پار نہیں کرنا، خطرہ ہے، اگر ہم پہلے اس خطرے کو نا سمجھیں تب تک ہم دشمن کے منصوبوں کا شکار ہوتے رہیں گے ۔ اس حوالے سے میں عراق کی مثال عرض کرتا ہوں عراق میں جب شیعہ سنی فساد کرانے کی کوشش کی گئی تو حضرت آیت اللہ العظمی سید سیستانی نے فرمایا کہ: شیعوں کو چاہئے کہ وہ سنیوں کو اپنا بھائی نہ کہیں بلکہ اپنی جان کہیں،یہی لائن ہے اتحاد کی۔ شیعہ کو یہ نہیں کہنا ہے شیعہ تم سنی ہو جاو،نہیں، شیعہ کو چاہئے سنی کو اپنا بھائی نہیں بلکہ اپنی جان کہے ، یہ سمجھنا ہے ، ان ظرافتوں کو سمجھنا ہے ۔ہم نے نہ ایکدوسرے کے عقائد کو چھیڑنا ہے اور نہ اپنے عقیدے کو چھوڑنا ہے۔یہ سرخ لکیر سمجھ کر ہی ہم اس قابل بن جائيں گے کہ دشمن، جب بھی مسلمانوں کے خلاف منصوبہ تیار کرے گا اس کو شکست فاش حاصل ہو گی، جو ابھی الحمدللہ اس موضوع قرآن کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کو لے کر بھی، مسلمانوں نے دکھایا کہ جہاں قرآن کی بات ہوگی اور قرآن پر ہم ایک ہیں، اس پر کوئی اختلاف نہیں ہے معلوم ہوا کہ اگر ہم قرآن کی طرف بڑھ جائيں گے وہاں پر ہم متحد ہیں اگر اس کے فروعات میں جائيں گے وہاں پر اختلاف ہے۔ ہمیں جمع کرنے والا قرآن ہے اس لئے ہمیں قرآن سمجھنے کی ضرورت ہے جب ہم سمجھیں گے تبھی جاکے ہم اس پر عمل کر سکیں گے جب ہم قرآن پر عمل کر سکیں گے تب ہم متحد ہونگے تب ہم صحیح مسلمان ہونگے۔

آغا سعحب نے آخر میں اپنے پیغام میں کہا کہ ؛قرآن خود ہی کہتا ہے کہ اگر آپ کو بلندیوں کو چھونا ہے تو آپ متقی بنیں،اللہ کے نزدیک وہی بلند مرتبہ ہے جس کا تقوی جتنا زیادہ  ہو، تقوی یعنی وہ اپنے آپ کو ہر کام میں اللہ سبحان و تعالی کو حاضر و ناظر جانے،قرآن کہتا ہے کہ کیا نہیں سمجھتے ہو کہ اللہ تمہے دیکھ رہا ہے، اس پر یقین حاصل ہو جائے اور جب مسلمان ایسا مسلمان بنا تو پھر وہ قرآن سے فائدہ اٹھا سکتا ہے، قرآن نے فرمایا ہے کہ ؛ یہ کتاب ہدایت کا نسخہ ہے ۔ کن کے لئے ؟ متقین کے لئے۔اگر ہمیں متقین بننا ہے ، یعنی افضل انسان بننا ہے اور جسے قرآن کہتا ہے درمیانی امت ، ہم مسلمانوں کو انسانیت کا میزان بننا ہےیہ تبھی ممکن ہے جب ہم قرآن کو سمجھیں اور اس پر عمل کریں گے۔

Sunday, 21 March 2021 19:58

ملیشیا کی کرسٹل مسجد

ملیشیا کی کرسٹل (شیشہ ) کی بنی مسجد ، دنیا کی خوبصورت مسجدوں میں سے ایک ہے کہ جس کا ہر حصہ کریسٹل یعنی شیشہ سے بنا ہوا ہے ، یہ مسجد ماڈرن ٹیکنولوجی سے بنی ہوئی ہے۔

میزان زین العابدین ” جو ۲۰۰۶ میں ترنگانو ، ریاست کا بادشاہ تھا اس نے یہ مسجد بنانے کا حکم دیا ، کرسٹل مسجد بنانے کا آغاز ۲۰۰۶ میں ہوا اور فروری ۲۰۰۸ میں اس کا افتتاح کیا گیا۔

یہ مسجد خالص کرسٹل سے بنی ہوئی ہے ، جو جنوب مشرقی ایشیاء میں جکارتا کی “استقلال جامع مسجد”  کے بعد  دوسری بڑی مسجد ہے اور  ملیشیاء کی  خوبصورت مسجدوں میں شمار کی جاتی ہے۔
 

یہ مسجد ریاست تیرینگانو  کے تین ھزار آبادی والے  شھرکوالا تیرینگانو میں پوتراجیا کی  مصنوعی جھیل کے کنارے “وان من” اسلامی ثقافتی باغ میں واقع ہے۔
 

کرسٹل مسجد کی اندرونی معماری بے نظیر ہے اور اس میں پچیس ھزار لوگ نماز ادا کرسکتے ہیں یہ مسجد ریاست ترنگانو میں سیاحوں کے لئے دلکش  جگہ شمار ہوتی ہے۔

اس مسجد کی شیشہ والی دیواروں نے اس کی ظرافت اور شفافیت کو دوبالا کیا ہے۔ اگر چہ ہلکے مواد جیسے شیشہ کے استعمال نے اس کو ناپایدار اور قابل شکست  جیسا بنایا ہے لیکن اس کا اندرونی ڈیزائن بہت مضبوط اور طاقتور ہے۔
 

کرسٹل مسجد اپنے اطراف کے  ماحول، باغ، پانی کے فواروں کے ساتھ بہترین طریقے سے بنائی گئی ہے اور اس کے ساتھ ھم آھنگ ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے نئے شمسی سال کے آغاز میں اپنے خطاب میں پیداوار کے شعبہ میں رکاٹوں اور موانع کو برطرف کرنے پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: اگر عوام میں خریدنے کی قدرت بڑھ جائے تو اس سے پیداوار میں مدد مل سکتی ہے۔ رہبر معظم ہر سال نئے سال کے آغاز میںم شہد مقدس کا سفر کرتے تھے اور حرم رضوی میں زائرین اور مجاورین کے اجتماع سے خطاب کرتے تھے لیکن کورونا وائرس اور طبی دستورات کی رعایت کی وجہ سے گذشتہ سال کی طرح اس سال بھی یہ سفر انجام پذير نہیں ہوسکا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے نئے سال کے پہلے دن عوام سے ٹی وی چینلوں پر براہ راست خطاب میں نئے سال کے شعار کو بھی پیداوار کا شعار قراردیتے ہوئےفرمایا: نئے سال میں پیداوار ساتھ  پشتپناہی اور موانع کو برطرف کرنے پر زوردیا گیا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: پیداوار سے نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کے مواقع ملیں گے بے روزگاری کا خاتمہ ہوگا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایران کے خلاف امریکہ کے اقتصادی محاصرے کو اقتصادی دہشت گردی اور ظالمانہ اقدام قراردیتے ہوئے فرمایا: طبی اور غذائی اشیاء پر پابندی سنگين جرم ہے ، امریکہ دنیا میں سنگین جرائم کا ارتکاب کرتا ہے۔  ہم نے امریکہ کی پابدنیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے لیکن بعض ممالک میں ایسا کرنے کی قدرت نہیں ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے دشمن کی اقتصادی پابندیوں کے فوائد کی طرف بھی اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : ایران نے امریکی پابندیوں کو فرصت میں تبدیل کردیا ہے اور ایران بہت سے شعبوں میں اپنے پاؤں پر کھڑا ہوگیا  ہے ہمارے جوانوں نے ملک کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے سلسلے میں اہم کردار ادا کیا ہے ہم بہت سے شعبوں میں غیر ملکی محصولات کی درآمد کے سلسلے میں بے نیاز ہوگئے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے صدارتی انتخابات کو اہمیت کا حامل قراردیتے ہوئے فرمایا: صدارتی انتخابات کے بیرونی اور اندرونی اثرات ہیں داخلی سطح پر تازہ نفس کابینہ کی تشکیل اہمیت کی حامل ہے جبکہ بیرونی سطح پر بھی قوہ مجریہ قومی اقتدار کا مظہر ہے۔ امریکہ ، اسرائیل اور ان سے وابستہ خفیہ ایجنسیوں نے ایران کے صدارتی انتخابات میں مداخلت کا سلسلہ ابھی سے سوشل میڈیا پر شروع کردیا ہے جبکہ ہمیں بھی سوشل میڈيا پر دشمن کی ریشہ دوانیوں اور سازشوں کا مقابلہ کرنے کے سلسلے میں آگے بڑھنا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ایران کے خلاف امریکہ کی زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی ناکام ہوگئی، ایران کو کمزور کرنے کے لئے یہ پالیسی امریکہ کے سابق احمق صدر نے وضع کی تھی ۔ اس نے امریکہ کو بھی عالمی سطح پر رسوا کیا اور خود بھی صدارتی انتخابات میں شکست سے دوچار ہوگیا جبکہ ایران آج بھی استقامت کے ساتھ کھڑا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ہم نے مشترکہ ایٹمی معاہدے میں جلد بازی اور عجلت سے کام لیا ، ہم نے عملی اقدامات انجام دیئے جبکہ امریکہ اور یورپ کے وعدے صرف کاغذ تک محدود رہے ۔ ہم نے اپنے وعدوں پر عمل کیا اور انھوں نے اپنے وعدوں پر عمل نہیں کیا ۔

ایران کے ساتھ امریکہ کی رفتار غلطی اور اشتباہ پر مبنی ہے امریکہ خطے کے مسائل میں بھی غلط راستے پر گامزن ہے ، امریکہ کی طرف سے اسرائیل کی حمایت، امریکہ کی شام میں فوجی موجودگی ، یمن پر مسلط کردہ جنگ میں  امریکہ کی طرف سے سعودی عرب کی حمایت بھی امریکہ کے غلط اور اشتباہی اقدامات کا حصہ ہے۔ امریکہ کو علاقائی اور عالمی سطح پر شکست سے دوچار ہونا پڑے گا اور ایران قدرت اور طاقت کے ساتھ اپنے اعلی اہداف کی سمت رواں دواں رہےگا۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق عید نوروز ایران اور اس کے ہمسایہ ممالک افغانستان، آذربائیجان،تاجیکستان، ازبکستان افغانستان، پاکستان ، کشمیر اور ہندوستان میں قومی جوش و ولولہ کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ ایران کا نیا سال عید نوروز سے شروع ہوتا ہے۔ نوروز ایران کا اہم قومی تہوار ہے۔

. نیا سال شروع ہونے سے پہلے ہی لوگ اپنے گھروں کی صفائی شروع کر دیتے ہیں ۔ اس موقع پر لوگ نئی چیزیں خریدنے کا بھی شوق رکھتےہیں ۔عید نوروز فقط ایران تک محدود نہیں بلکہ جہاں جہاں تک  فارسی زبان کے اثرات ہیں وہاں وہاں نوروز کا جشن منایا جاتا ہے ۔  اسلامی تاریخ کے لحاظ سے نوروز ہی کا دن ہے جب پہلی بار دنیا میں سورج طلوع ہوا، درختوں پر شگوفے چٹخنے لگے،حضرت آدم علیہ السلام زمین پراترے، حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کوہ جودی پراتری اور طوفان نوح ختم ہوا،حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بتوں کو توڑا اور نبی آخرالزمان حضرت محمد مصطفی " صلی علیہ وآلہ وسلم " پر وحی کے نزول کا آغاز ہوا۔حضرت علی (ع) کو ولایت کے منصب پر نصب کیا گیا
ایران سمیت بہت سارے ممالک میں نوروز کو سرکاری طور پر منایا جاتاہے ،افعانستان،البانیا، آذربائیجان، جارجیا، کوسوو، قرقیزستان، ازبکستان ،عراق، قزاقستان، تاجیکستان، ترکمانستان، عراقی کردستان وغیرہ میں نوروز کے دن سرکاری چھٹی ہوتی ہے-
نوروز کے موقع پر مختلف دعائیہ اور سماجی تقاریب کا انعقاد کیا جاتا ہے اور مخصوص پکوان تیار کیے جاتے ہیں، ایران میں یہ تہوار 13 دن تک منایا جاتا ہے جبکہ افغانستان میں نوروز کی تقریبات کے آغازکا سرکاری اعلان مزارشریف سے کیا جاتا ہے۔
وسط ایشیائی ممالک میں بھی نوروز کو تہوار کی طرح منایا جاتا ہے جبکہ پاکستان، کشمیر اور بھارت کے کچھ علاقوں میں نوروز کے دن خصوصی دعاؤں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ غسل اور پاک و صاف لباس پہنا جاتا ہے۔
پاکستان کے شمالی علاقوں گلگت بلتستان اور چترال میں جشن نوروز ثقافتی اور مذہبی عقیدت واحترام سے منایا جا تا ہے.
ہندوستان میں مغلوں کے دور حکومت میں نوروزکا تہوار سرکاری طورپر منایا جاتا تھا نامور تاریخ دان ڈاکٹر مبارک علی لکھتے ہیں چونکہ عرب کے تہوار ثقافتی طورپر اتنے رنگین اوردلکش نہیں تھےجبکہ ایران کے مسلمان بادشاہ اپنی روایات کو بطورورثہ اپنے ساتھ ہندوستان لائے انہوں نے ان تہواروں اور رسومات کو جاری رکھا اس لئے مسلمان بادشاہوں کے دربار میں نوروز کا تہوار بڑی شان وشوکت کے ساتھ منایا جاتا تھا۔