سلیمانی

سلیمانی

سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے کمانڈر ان چیف نے چار ہزار شہداء مقدس دفاع کے وجود کو یزد کے عوام کے ولایت مداری کی واضح علامت سمجھا اور کہا کہ دشمن اپنی خواب میں بھی ملت ایران کے ساتھ جنگ کے بارے میں نہیں سوچ سکتا چونکہ اس نے اس ملت کی مزاحمت کو دیکھا ہے اور اس کو علم ہے کہ دشمن پر غلبہ کیلئے یہ تیار اور آمادہ ہیں۔
 
سردار حسین سلامی نےصوبہ یزد کے شہداء کی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یزد دارالعلوم اور دارالفقہ ہے اور یہ شہر ایسے جوانوں کا مسکن ہے جو ہمیشہ قوم کو پیش آنے والے امتحانات میں سرخرو رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یزد اسلامی فنون لطیفہ اور فن تعمیر کی سرزمین ہے جسے دار الفنون بھی کہا جاسکتا ہے۔ یزد روحانیت، اخلاقیات اور جذبات کی سرزمین ہے اور یہ 4000 شہداء اس بات کو ظاہر کرنے کے لئے کافی ہیں کہ اس سرزمین نے اسلام، اہل بیت اور ولایت کی خاطر ہمیشہ قربانی دی اور راستے کے ساتھ وفاداری کی اور اہل یزد ایران، ایران کی عزت و اقتدار اور استقلال وطن کے محافظ ہیں۔
 
 
 
مریکہ یک قطبی دنیا کا علمبردار ہے، جس میں ہر طرف امریکی ورلڈ آرڈر ہی چلے۔ جو امریکی نظام کے سامنے آئے اس پر پابندیوں کی بھرمار کر دی جائے۔ روس اور چائینہ سمیت ہر ملک جو امریکی نظام کو چیلنج کرتا ہے، اس پر امریکی پابندیاں عائد ہیں۔ امریکہ نے دنیا  کا اقتصادی نظام اس طرح سے ڈیزائن کیا ہے کہ بقول خواجہ آصف ہر ڈالر نے رات امریکہ میں جا کر سونا ہوتا ہے۔ ڈالر پر قائم یہ نظام امریکی مفادات کے تحفظ میں کام کرتا ہے، یہ ہر اس معیشت کو نقصان پہنچاتا ہے، جو امریکی نظام کو چیلنج کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس کے ذریعے ملکوں کو بلیک میل کیا جاتا ہے اور اسی کے ذریعے اپنی خارجہ پالیسی کو عملی جامہ پہنایا جاتا ہے۔ کہیں لالچ سے کام چلایا جاتا ہے، آسان شرائط پر قرضے دیئے جاتے ہیں یا قرضے ری شیڈول کر دیئے جاتے ہیں۔

اب دنیا نے اس کو چیلنج کرنا شروع کر دیا ہے، انسانیت اس سے تنگ آچکی ہے۔ ہر قوم کا اپنا طرز زندگی ہوتا ہے، وہ اس کے مطابق اپنے مسائل کو حل کرنا چاہتی ہے، امریکی نظام اس کی اجازت نہیں دیتا۔ وہ ہر ایک سے یہ تقاضا کرتا ہے، اس کے نظام میں ڈھل جاو تو ٹھیک ہے، ورنہ سخت دنوں کے لیے تیار ہو جاو۔ امریکہ کے اس نظام کو  بھی آزاد اقوام نے چیلنج کرنا شروع کر دیا ہے اور آج کی دنیا بھی چالیس سال پہلے والی دنیا نہیں ہے۔ ایشیا میں دنیا کی بڑی معیشتیں پنپ رہی ہیں اور بڑی تیزی سے وسائل پیدا کر رہی ہے۔ اب تو صورتحال یہ ہے کہ آزاد تجارت کے نعرے لگانے والے  ٹیکسوں کی بھرمار کر رہے ہیں اور چیزوں کی درآمد و برآمد میں مسائل پیدا کر رہے ہیں۔ آزاد تجارت کا نعرہ تب تک درست تھا، جب تک غریب ممالک کے وسائل کا خون چوس رہا تھا، جب اس کے مقابل چینی معیشت نے مسابقت دکھانی شروع کی اور وسائل کا رخ چین کا طرف ہونے لگا تو مسائل گھڑے کئے جانے لگے ہیں اور ان کے خلاف بی بی سی، سی این این اور فوکس نیوز پر ہر تیسرے دن کوئی فرضی کہانی آئی ہوتی ہے۔

چینی وزیر خارجہ وانگ ای اور ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے ایک تاریخی معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ یہ معاہدہ خطے میں تجارت و معیشت سے لے کر سکیورٹی تک کی صورتحال تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی ایران کی طرف سے معاہدے کے لیے ایرانی پارلیمنٹ کے سابق سپیکر علی لاریجانی کو اپنے نمائندے کے طور پر نامزد کیا گیا تھا۔ پہلے یہ معاہدہ دس سال کے لیے کیا جانا تھا، مگر اب اس کی مدت کو پچیس سال تک بڑھا دیا گیا۔ اس معاہدے کی بنیاد چائنہ کے صدر  کے 2016ء کے دورہ ایران کے موقع پر رکھی گئی، پھر فائیو پلس طاقتوں کے ساتھ معاہدے اور دیگر وجوہات سے یہ پس منظر میں چلا گیا، مگر ایرانی اور چینی قیادت اس پر مسلسل کام کر رہی تھی۔ اب اس معاہدے کا اعلان کیا گیا ہے اور دنیا بھر میں یہ موضوع بحث بن چکا ہے۔

اس معاہدے میں فوجی تربیت و مشقیں، ہتھیاروں کی تیاری اور اس سے متعلق تحقیقات میں تعاون، خفیہ معلومات کا تبادلہ، انسانی سگلنگ، ائرپورٹ، ہائی سپیڈ ٹرین، سب ویز، فری ٹریڈ زونز اور فائیو جی نیٹ ورک کا قیام شامل ہے۔ فائیو جی اور انٹرنیٹ کی چائییز نظام میں منتقلی سے سائبر سے متعلقہ معاملات میں مغرب پر انحصار ختم ہوگا۔ آج کی دنیا میں اصل جنگ سائبر کی دنیا میں لڑی جا رہی ہے اور مغرب اس پر اپنی اجارہ داری قائم کیے ہوئے ہیں۔ ایسے میں بہت ضروری ہوگیا ہے کہ  ایشیائی ممالک اس میں بھی خود انحصاری کی طرف بڑھیں۔ امریکی اخبار نیو یارک پوائنٹ کا تجزیہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے:
the partnership would create new and potentially dangerous flash points in the deteriorating relationship between China and the United States اس شراکت داری سے چین اور امریکہ کے درمیان بگڑتے ہوئے تعلقات میں نئے اور ممکنہ طور پر خطرناک فلیش پوائنٹ کا اضافہ ہوگیا ہے۔

امریکہ خطے میں اپنی کٹھ پتلیوں کے ذریعے خطے کے وسائل کی لوٹ مار جاری رکھنا چاہتا ہے۔ امریکہ کو اب یہ بات سمجھ لینی چاہیئے کہ دھمکیاں اور پابندیاں قوموں کی دشمنیاں ہی لاتی ہیں، ان سے کبھی بھی خیر برآمد نہیں ہوتی۔ امریکی اداروں میں پسماندہ ممالک میں مداخلت کرکے من پسند افراد کو نوازنے کی غلط  روایت موجود ہے، جس کا خمیازہ ان ممالک کو بھگتنا پڑتا ہے۔ امریکہ کو اب یہ بات سمجھ لینی چاہیئے کہ یہ تعاون اور باہمی مفادات کے تحفظ کا دور ہے، یہ نہیں ہوسکتا کہ آپ اپنے مفادات کا تحفظ کریں اور دیگر اقوام کے ساتھ تیسرے درجے کا سلوک جاری رکھیں۔ معاشی دباو کی پالیسی کے نتائج آپ کے سامنے ہیں، اس نے آپ کے دوستوں میں کمی کی ہے اور دشمنوں میں اضافہ کیا ہے۔

چینی وزیر خارجہ  ایران آنے سے پہلے سعودی عربیہ اور ترکی کا دورہ کرچکے ہیں اور ایران کے بعد عرب امارات، بحرین اور عمان کے لیے روانہ ہوں گے۔ یہ چائینہ کی اقتصادی سفارتکاری کے جارحانہ اظہار کا موقع ہے۔ چائنہ بڑی تیزی سے خظے میں اقتصادی رابطے کے لیے انفراسٹکچر پر کام کر رہا ہے۔ ون بیلٹ منصوبے میں چائینہ خلیجی ممالک کو شامل کرنا چاہتا ہے۔ چائینہ کے وزیر خارجہ نے پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ چائینہ کے خطے کے ممالک اور ایران میں بات چیت کرا سکتا ہے۔ اس معاہدے سے چار سو ارب ڈالر کی انویسمنٹ آئے گی، جہاں ایران کے داخلی مالی مسائل درست ہوں گے، وہیں یہ معاہدہ مڈل ایسٹ میں طاقت کے توازن کو تبدیل کرنے جا رہا ہے۔ یہ معاہدہ امریکی مقاصد پر کاری ضرب ہے، امریکہ یہ چاہتا تھا کہ ایران تنہائی کاشکار ہو جائے اور مالی مجبوریاں اسے امریکہ کے پاس لوٹنے پر مجبور کر دیں، مگر اس کے برعکس ہوا ہے، ایران مالی طور پر مزید مستحکم ہونے جا رہا ہے۔
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس
 
 
 

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے  صوبہ یزد کے چار ہزار شہداء کی یاد میں منعقدہ کانفرنس کمیٹی کے اراکین سے ملاقات کی۔ اس اجلاس میں آیت اللہ خامنہ ای نے شہدائے یزد کانفرنس کے خوبصورت اور نئے انداز میں منصوبہ بندی جیسے پروگراموں کی تعریف کی جن میں شہداء کے نام پر پودے لگانا، جہیز کا اہتمام، مفت علاج، روزگار معاش اور ثقافتی پیکیج تیار کرنا اور قرآن خوانی وغیرہ جیسے پروگرامز شامل ہیں۔ آپ نے کہا کہ اہل یزد نے دفاع مقدس کےدوران بھی پانی کی کھدائی کے فن کا استعمال کرتے ہوئے زیرزمین نہروں کی کھدائی کرنا یا متعدد سلائی مرکز بنانا اور مجاہدین کو لباس مہیا کرنے میں خواتین کی شرکت وغیرہ جیسے نئے نئے منصوبہ انجام دیئے ہیں۔
 
رہبر انقلاب نے شہدا کے پیغام کو زندہ رکھنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ شہدا عالم برزخ میں ایک خاص زندگی کے حامل ہیں اور ان کے راستے پر چلنے والوں کے لئے ان کا اہم پیغام خوف اور نا امیدی سے محفوظ رہنے کی بشارت ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای نے اس پُر امید پیغام کو دنیا طلب لوگوں کے فتنوں کا مقابلہ سمجھا اور مزید کہا کہ شہداء کے میدان جہاد میں حاضر ہونے کا مقصد جو خود شہدا کے وصیت ناموں میں ذکر ہوا ہے انقلاب کی حمایت، امام خمینی کی حمایت کا اعلان، حجاب، دشمن کی شرارت کا خاتمہ اور نظام کو اس کے اہداف کے حصول کے نزدیک کرنا تھا کہ ہمیں اس بات کی طرف متوجہ رہنا چاہئے کہ کچھ لوگوں کے ذریعہ ان نظریات کی تردید یا تحریف نہ ہو۔
 
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے نوجوانوں کو انقلاب کے راستے سے مایوس کرنے یا انہیں پیچھے ہٹانے کے لئے دشمن کی مستقل منصوبہ بندی کا ذکر کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ اس بات کی اجازت نہیں دینی چاہئے کہ دشمن اپنے فتنہ کیلئے نوجوانوں کو متاثر کر سکتے اور ان کو اپنا آلہ کار بنائے۔ آیت اللہ خامنہ ای نے شہداء کے والدین اور ہمسران کی یادداشتوں کو محفوظ کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس خاندان اور خاندان کی خصوصیات جنہوں نے اپنے اعلی حوصلہ افزائی اور ایمان کے ساتھ اپنے بچوں کی اس انداز میں پرورش کی اسے محفوظ کیا جانا چاہئے۔
 
آخر میں رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسلامی جمہوریہ کے سائے میں کام کرنے والے ایسے لوگوں پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ جو شہدا اور مجاہدین کی مجاہدت اور کی برکت سے اسلامی جمہوریہ کے زیر سایہ سلامتی اور آزادی کے ساتھ زندگی گذار رہے ہیں لیکن ان پاک شہدا کے مقاصد کے برخلاف فعالیت کر رہے ہیں۔ آپ نے کہا کہ ایسی کوششوں اور سازشوں کا مقابلہ کرنے کیلئے شہداء کے راستے پر اور حق کی خاطر (ہمیں بھی) اپنی کوششوں، فعالیت اور کام کو دو برابر کرنے کی ضرورت ہے۔

پندرہ شعبان کو اسلامی تاریخ میں منفرد حیثیت حاصل ہے۔ اہل اسلام کے مختلف فرقے اور مسالک اس دن کو اپنے اپنے عنوان سے مناتے ہیں۔ شب برات ہو یا شب نیمہ شعبان اس رات اور پندرہ شعبان کے دن کا انسانیت سے گہرا تعلق ہے۔ دنیا کا ہر آسمانی دین ایک نجات دہندہ کا منتظر ہے۔ عالم اسلام میں شیعہ مسلمان اس دن کو امام مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کے روز ولادت باسعادت کے عنوان سے مناتے ہیں۔ علمائے تشیع نے پندرہ شعبان کی رات اور دن کے لیے مختلف اعمال تعلیم کئے ہیں، لیکن عالم اسلام میں اسلامی حکومت تشکیل دینے والی عظیم الشان شخصیت یعنی بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینیؒ نے اس دن کو محروموں اور مستضعفوں کے عالمی دن کے طور پر منانے کا اعلان کیا تھا۔ بانی انقلاب اسلامی کے اس فرمان کو مختلف حلقوں میں شایان شان طریقے سے پذیرائی ملی تھی۔

لیکن آج کے دور میں اس کی اہمیت میں دو چند اضافہ ہوگیا ہے۔ عالمی سامراجی طاقتوں نے دنیا کو تیسری دنیا، ترقی پذیر، ترقی یافتہ اور غریب و محروم ممالک میں تقسیم کر رکھا ہے۔ نام نہاد سپرپاورز انسانیت کے استحصال میں مصروف ہیں۔ طاقت اور اقتصاد کے بل بوتے پر مخالفین پر پابندیاں عائد کی جاتی ہیں۔ ڈکٹیشن قبول نہ کرنے والے ممالک کو دیوار سے لگانے کے لیے ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے ہیں، یہ سلسلہ عرصے سے جاری ہے۔ کرونا وائرس کے حالیہ حملے نے اس دنیا اور اس میں بڑی طاقت ہونے کا چرچا کرنے والی ریاستوں کے مکروہ اور کریہیہ چہرے سے مزید پردہ اتار دیا ہے۔ آج دنیا محروموں اور مستکبروں کے دو بلاکوں میں تقسیم ہونے کی طرف جا رہی ہے۔

آج مستضعف اور محروم انسان سے جینے کا حق چھینا جا رہا ہے۔ اس صورت حال میں محرومین اور مستضعفین کو بلاتفریق مذہب، دین، قوم، ملت، رنگ، نسل اور علاقے کے ایک پلیٹ فارم پر متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ جب تک تمام محروم اور مستضعف یک زبان ہو کر وقت کے طاغوتوں، مستکبروں اور سامراجی طاقتوں کے خلاف آواز نہیں اٹھائیں گے، عدل و انصاف کا سورج طلوع نہیں ہوگا۔ پندرہ شعبان کو یوم مستضعفین جہاں یعنی محروموں کا عالمی دن قرار دینے کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ عالم انسانیت کو جس نجات دہندہ کی ضرورت اور انتظار ہے، اس کا ظہور قریب ہے، اگرچہ مخالفین اس کے برعکس کہتے ہیں۔

Saturday, 27 March 2021 20:17

امام مھدی علیہ السلام


"وَ نُرِيدُ أَنْ نَمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَ نَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَ نَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ"(سورہ قصص آیت نمبر5) اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ جن لوگوں کو زمین میں کمزور بنا دیا گیا ہے ان پر احسان کریں اور انہیں لوگوں کا پیشوا بنائیں اور زمین کا وارث قرار دیدیں۔ ذرا تصور کریں کہ ہم  اپنی پوری زندگی کسی ایسی جگہ پر بسر کرتے ہیں جہاں سورج ہمیشہ بادلوں کے پیچھے رہتا ہے۔ آپ کے والدین اور دادا دادی بھی یہاں رہتے تھے، اور ان کے والدین اور دادا دادی بھی اسی طرح رہتے تھے۔ آپ کے پاس مناسب رزق ہے اور جو کام آپ کو کرنا سکھایا گیا ہے وہ آپ کرتے رہتے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ سورج اس حقیقت کی وجہ سے ہے کہ آپ زندہ رہتے ہیں۔ امام قائم منتظر مہدی جن کے ساتھ عالم کی امیدیں وابستہ ہیں، انہی کے وجود سے دنیا باقی ہے۔

انہی کی برکت سے مخلوق روزی پا رہی ہے اور ان کے وجود سے زمین و آسمان قائم ہیں اور انہی کے ذریعے خدا زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا جب کہ وہ ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی۔ آپ کو نظریہ توحید کی تعلیم دی گئی ہے اور اگرچہ آپ کے ارد گرد اللہ کے وجود کا کافی ثبوت موجود ہے، آپ کی خواہش ہے کہ ایسے شخص کو دیکھیں اور سنیں جو جس پر شک کیا ہے۔ روح میں بےچینی اور غم ہے کہ اللہ کی حجت غائب ہے، کیوںکہ امام بادل کے پیچھے سورج کی مانند ہیں۔ ہم ان کے ظہور کے منتظر ہیں کیونکہ یہ حتمی ثبوت حجت ہیں۔ اس دنیا کو ڈیزائن کے ذریعہ تخلیق کیا گیا ہے اور واقعتا اس کا مقصد پورا ہوگا۔ توحید غالب آئے گی اور اللہ کا وعدہ پورا ہوگا۔ امام حسن عسکری علیہ السلام کا نکاح روم کے شہنشاہ کی بیٹی  حضرت نرجس سلام اللہ علیھا سے ہوا۔

امام مہدی علیہ السلام کی پیدائش جمعہ 15 شعبان 255 ہجری  کو سامرہ میں ہوئی۔ سیدہ حکیمہ (دسویں امام کی بہن) بیان کرتی ہیں کہ وہ 14 شعبان کو افطاری کے بعد اپنے بھتیجے (گیارہویں امام) کے گھر گئی تھیں اور انہیں بتایا گیا کہ وہ ان کے گھر میں ہی رہیں کیونکہ ان کے ہاں بچے کی ولادت متوقع ہے۔ سیدہ حکیمہ نے رات قیام کیا اور انہیں امام حسن عسکری علیہ السلام نے بتایا تھا کہ سورہ قدر کی تلاوت کریں۔ فجر کے وقت سیدہ حکیمہ نے یہ سن کر حیران ہو گئیں کہ سیدہ نرجس کے شکم سے سورۃ القدر کی تلاوت ہو رہی تھی۔ امام مہدی پندرہ شعبان کی فجر  کو اس دنیا میں تشریف لائے۔ سیدہ حکیمہ بچے کو لے کر امام حسن عسکری (ع) کے پاس آئیں۔

شیر خوار بچے نے تلاوت کی: "بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيم وَ نُرِيدُ أَنْ نَمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَ نَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَ نَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ"(سورہ قصص آیت نمبر5)۔ اللہ کے نام سے جو سب سے زیادہ مہربان اور رحم کرنے والا ہے اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ جن لوگوں کو زمین میں کمزور بنا دیا گیا ہے ان پر احسان کریں اور انہیں لوگوں کا پیشوا بنائیں اور زمین کا وارث قرار دیدیں۔ امام حسن عسکری علیہ السلام  نے امام مہدی کی ولادت کی خبر کو  ان کی حفاظت کے لئے عام نہیں کیا۔ صرف کچھ قابل اعتماد پیروکاروں کو بتایا۔ جن میں ابو ہاشم الجعفری احمد بن اسحاق، سیدہ حکیمہ، سیدہ خدیجہ (ایک اور خالہ)۔ ابو دیوان نے گیارہویں امام سے پوچھا کہ آپ  کے بعد کون امام ہوگا؟ اچانک ایک پردہ اٹھا اور اس نے ایک چمکدار چہرے والے ایک چھوٹے بچے نے جس کی عمر تین سے چار سال تھی کو دیکھا۔ امام حسن عسکری (ع) نے بھی منتخب مومنین کو قم سے دعوت دی اور 12ویں امام کی ولادت کا بتایا۔

امام حسن عسکری کی شہادت:
8 ربیع الاول کو امام مہدی (ع) نے اپنے والد بزرگوار کی جنازہ نماز پڑھوائی۔ امام مہدی (ع) اپنے والد کے ایک خادم کے پاس پہنچے جس کا نام ادیان تھا اور اس سے ایک خط مانگا جو اس کے پاس آپ کے والد گرامی کی جانب سے تھا۔ گیارہویں امام نے ادیان کو ایک خط کیساتھ بغداد بھیجا تھا اور اس کو جواب کے ساتھ واپس آنے کو کہا تھا اور کہا کہ اگر اس دوران وہ فوت ہو جائیں تو یہ خط ان کی نماز جنازہ پڑھانے والے کے حوالے کر دینا ہے۔ تو وہ کون ہوگا وہ ہی ان کا جانشین اور وقت کا امام ہوگا۔
 
غیبت صغری کا آغاز:
یہ وہ وقت ہے جب امام غیبت صغری میں چلے گئے اور نمائندے مقرر کیے (نائب، سفیر ......)۔ امام کا لوگوں کی درخواستوں کو جواب بذریعہ لفظ یا دستخط شدہ نوٹ "توقیع" کے نام سے جانا جاتا ہے جس سے امام  کی ہینڈ رائٹنگ مشہور تھی۔
1۔ امام کے پہلے نمائندے  عثمان بن سعید عمری تھے۔
2۔ امام کے دوسرے نمائندے محمد بن عثمان سعید عمری تھے۔
3۔ امام کے تیسرے نمائندے حسین بن روح نوبختی تھے۔
4۔ امام کے چوتھے نمائندے علی بن محمد سمری تھے۔

عثمان بن سعید وہ امام کا پہلا نمائندہ تھا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ گیارہ برس کے سن سے نویں امام، امام علی نقی (ع) کے گھر میں خادم تھے، امام کا ان پر اعتماد تھا۔ وہ دسویں اور گیارہویں امام کے ساتھ ریے اور اسی اعتماد کو قائم رکھا۔ امام نے لوگوں کو بتایا کہ ان کے بعد لوگ امام کو نہیں دیکھ سکیں گے اور انہیں عثمان کی اطاعت کرنی ہو گی۔ گیارہویں امام کی شہادت کے بعد عثمان بغداد چلے گئے اور مکھن بیچنے والے کے بھیس میں، انہوں نے امام کے لئے خمس کو جمع کیا۔ عثمان بن سعید امام نے 18 ماہ تک 11ویں امام کی خدمت کی اور امام کی طرف سے ان کی وفات کے قریب ایک خط موصول ہوا جس میں کہا گیا تھا کہ وہ اپنے بیٹے محمد بن عثمان کو امام کا اگلا نمائندہ مقرر کرے اور اسے بتائے کہ اس کے والد کی طرح ان کا بیٹا خوش قسمت ہے۔
 
محمد بن عثمان سعید عمری:
محمد بن عثمان بھی اپنے والد کے نقش قدم پر چلے اور مکھن بیچنے والے کی حیثیت سے کاروبار جاری رکھا۔ اس وقت کے حکمران المتعمد نے امام کی تلاش شروع کی اور امام سے معمولی سی مشابہت رکھنے والے لاتعداد معتقدین کو شہید کروا دیا۔ دعائے سمات محمد بن عثمان کے ذریعہ پہنچی ہے۔ جیسا کہ امام نے ہدایت کی انہوں نے حسین بن روح نوبختی کو امام کا نائب مقرر کیا۔ محمد بن عثمان کی وفات 305 ہجری میں ہوئی۔ ان کی وفات کے بعد حسین بن روح کو اگلا نمائندہ مقرر کیا۔ انہیں مشرقی بغداد (خلیلانی میں) میں دفن کیا گیا ہے۔
 
حسین بن روح نوبختی:
اس کی کنیت ابوالقاسم تھی، وہ نوبختی خاندان سے تھے، ان کی ملنسار طبیعت  کیوجہ سے انہوں نے بہت عزت حاصل کی۔ وہ اپنی سرگرمیاں برقرار رکھنے میں کامیاب رہے۔ ہم امام کو بھیجنے  والے 'عریضہ' کے ذریعے ان سے خطاب کرتے ہیں۔ انہوں نے وفاداری سے خدمت کی یہاں تک کہ شعبان 326ء میں وفات پائی۔ انہوں نے علی بن محمد سمری کی تقرری کا انکشاف کیا۔

علی بن محمد سمری:
انہوں نے صرف تین سال خدمات انجام دیں۔ اپنی موت سے ایک ہفتہ پہلے ان کو مام کی طرف سے ایک خط موصول ہوا، جس میں آپ کو ان کے بعد آنے والی بات بتائی گئی کہ ان کے بعد امام کا کوئی نمائندہ نہیں ہوگا۔ سمری کی نیابت کا دور حکومت وقت کی کڑی نگرانی اور سخت دباؤ کا شکار رہا، جس نے انہیں اس وکالتی نظام میں وسیع سرگرمیوں سے باز رکھا۔ علی بن محمد سمری کے نام امام زمانہؑ کی توقیع، جس میں آپ نے ان کی موت کی خبر دینے کے ساتھ ساتھ نیابت خاصہ کے دور کے اختتام اور غیبت کبری کے آغاز کی خبر دی جو امام زمانہؑ کے آخری نائب خاص کی زندگی کے اہم واقعات میں سے ہیں۔ انہوں نے 15 شعبان 329 ہجری میں وفات پائی۔
 
غیبت کبری:
غیبت کبری کے دوران امام نے اپنے پیروکار کی رہنمائی کی۔ اسحاق بن یعقوب، شیخ مفید وغیرہ کے ذریعہ متعدد خطوط لکھے گئے ہیں۔ امام جعفرصادق (ع) سے اطلاع ملتی ہے کہ پوری دنیا میں 30 افراد سے باقاعدگی سے ملتے ہیں۔ وہ لازمی طور پر مجتہدین نہیں ہیں بلکہ وہ عام مومنین ہیں۔ امام مہدی (ع) کی سیرت میں پڑھا ہے کہ امام تین مواقع پر مومنین سے ملاقات کرتے ہیں۔
1۔ مشکلات کے وقت
2۔ حج کے موقع پر
3۔ ان مومنین کی نماز جنازہ میں شرکت کرتے ہیں جن کے اوپر شرعی ذمہ داریاں پینڈنگ میں نہ ہوں جیسے، نماز، روزہ اور خمس۔ میرا اپنے آپ سے سوال ہے کہ کیا میں نے اپنے آپ کو اس لائق بنایا ہے کہ امام میرے جنازہ میں بھی شریک ہوں؟
 
ظہور:
تو کیا ہوگا؟ اپنے آپ کو ایک ایسے دور کی طرف لے جائیں جب دنیا میں بدامنی اور انارکی پیدا ہو، ایسا دور جہاں اسلام پر دو جہتی حملہ ہو گا۔
اول۔ مشرق وسطی (پیش گوئی شدہ سفیان) کے اندر راستباز لیکن بے رحم ہونے والے شخص سے، جو فلسطین سے شام ، فلسطین اور اردن پر حملہ کرے گا اور اپنا کنٹرول حاصل کرے گا۔ اور دمشق  کو اپنے اقتدار کی نشست بنائے گا۔ اور وہاں سے عراق اور اس کے بعد مدینہ اور مکہ پر اپنی نظریں جما کر رکھے گا۔
دوم۔ دجال جس کا مطلب ہے دھوکہ دہی کرنے والا یا مسلط کرنے والا اور جیسا کہ سید محمد اصدر نے اپنی کتاب تاریخ الغیبت الکبری میں کہا ہے کہ شاید ایک ایسے نظریئے کی نمائندگی ہے جس کو ایک لفظی شخص کی بجائے بہت سارے ممالک نے تسلیم کیا ہو گا، جو مسلمان کو دھوکہ دینے کی کوشش کرے گا۔ دنیا کو یہ ماننا ہوگا کہ ان کی معیشتیں اس پر بھروسہ کرتی ہیں یا اس کے مرہون منت ہیں۔  وہ حرمین کو  تباہ کرے گا ۔

سوم: بغداد پر مغرب کی فوج کا قبضہ ہوگا اور یہ شہر انتشار کی حالت میں ہوگا۔
چہارم سعودی عرب میں اقتدار کا خلا ہوگا۔
پنجم: انسان کو  انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذریعہ بےمثال طاقت اور موقع ملیں گے۔ اتنے کہ دنیا میں کہیں بھی کیا گیا اعلان سب اپنی زبان میں اور اسی وقت سن لیں گے۔ اسی وقت، امام حسن علیہ السلام کی اولاد کے تحت ایران سے آنے والی ایک فوج، جسے احادیث میں سید حسنانی کے نام سے جانا جاتا ہے کو متحرک کیا جائے گا وہ اسلام پر حملوں کا مقابلہ کریں اور یہ فوج بصرہ کے راستے عراق میں داخل ہوگی۔ 313 رہنما (جن میں 50 خواتین بھی شامل ہیں) ایک دوسرے کے ساتھ روحانی علم کا تبادلہ کریں گے ، اور ہر جگہ دوسرے افراد کو بااختیار اور متحد کریں گے۔ امام علی (ع  نہج البلاغہ  کے (خطبہ 149) میں فرماتے ہیں، اس کے بعد ایک قوم پر اس طرح سیقل کی جائیگی جس طرح لوہار تلوار کی دہار کو سیقل (تیز) کرتا ہے۔۔ ان لوگوں کی آنکھوں کو قرآن کے ذریعے روشن کیا جائیگا۔ ان کے کانوں میں مسلسل تفسیر کو پہنچایا جائیگا۔ انہیں صبح و شام مسلسل حکمت کے جاموں سے سیراب کیا جائیگا۔
 
ظہور 2 مراحل میں ہو گا:
پہلا مرحلہ:
اس کی ابتداء ذوالحجہ کے مہینے میں ہوگی جب 40 مجاہدین ظہور کی نزاکت کا احساس کریں گے اور حج سے گھر واپس نہیں آئیں گے۔ وہ حرم جائیں گے اور کعبہ کے نزدیک امام کے ساتھ سامعین کے لئے اللہ سے التجا کریں گے۔ ان میں سے ایک کو امام بلائیں گے اور اس گروپ کی نمائندگی کرنے کو کہا جائے گا۔ اس نمائندے کے توسط سے انہیں ملاقات کی دعوت دی جائے گی، امام ان میں سے کسی ایک کو  اپنے نزدیک ظہور کا اعلان خانہ کعبہ کے دروازے پر کرنے  کو کہیں گے۔ اعلان کرنے والا مارا جائے گا۔ وہ نفس زکیہ ہوگا جس کا خون کعبہ کو چھوئے گا جس کا ذکر بہت ساری پیشگوئیوں میں کیا گیا ہے۔ (بحار انوار جلد 13)

دوسرا مرحلہ:
15 دن کے بعد جب امام زمانہ رسول اکرم (ص) کی عبا پہن کر، کعبتہ اللہ کی دیوار کیساتھ، جو عاشور کا دن ہو گا امام زمانہ دنیا کو خطاب کریں گے جو دنیا کے تمام افراد اپنی اپنی زبانوں میں سنیں گے، امام کہیں گے۔ یا ایھا العالم! اے جہاں  کے رہائشی یا باسیو، سورہ ھود کی آیت نمبر 86 پڑییں گے کہ "بَقِيَّتہ اللَّهِ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ " اللہ کی طرف کا ذخیرہ تمہارے حق میں بہت بہتر ہے اگر تم صاحبِ ایمان ہو۔ کوئی اعلان کرنے والا کہے گا کہ سورہ اسرا کی آیت نمبر 81 "وَ قُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَ زَهَقَ الْبَاطِلُ ۚ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا" اور کہہ دیجئے کہ حق آ گیا اور باطل فنا ہو گیا کہ باطل بہرحال فنا ہونے والا ہے۔
.
امام اپنا تعارف کروائیں گے  "انا بقیتہ اللہ" 313 افراد کا نیٹ ورک پہلے ہی امام کے ہاتھ پر بعیت کیلئے آچکا ہے۔ امام مہدی (ع) ان سے وہی عھد لیں گے جو امیر المومنین علی ابن ابی طالب (ص) اپنے سپاہیوں سے لیا تھا۔ 25 شرائط میں وہی عہد جو اس نے دیا تھا
1۔ چوری نہ کریں
2۔ زنا نہ کرنں
3۔ کسی مسلمان کو گالی نہیں دینا
4۔ غیر قانونی طور پر کسی کا قتل نہیں کرنا
5۔ کسی کی عزت کی خلاف ورزی نہیں کرنا
6۔ کسی کی رہائش گاہ پر حملہ نہ کرنا
7۔ کسی کو تکلیف نہیں پہنچانا
8۔ سونے، چاندی، گندم اور جو کو جمع نہ کرنا
9۔ کسی یتیم کی جائداد غصب نہ کرنا
10۔ جھوٹی گواہی نہ دیں
11۔ مسجد کو ترک نہ کریں
12۔ شراب یا نشہ نہیں پینا
13۔ ریشم یا سنہری دھاگے کا لباس نہ پہنیں
14۔ سونے کا بیلٹ نہ پہنیں
15۔ ڈکیتی نہیں کرنی
16۔ مسافروں پر حملہ نہ کریں
17۔ ہم جنس پرستی میں ملوث نہ ہوں
18۔ کھانے کے ذخیرہ کو ضائع نہ کریں
19۔ تھوڑے پر راضی رہیں
20۔ خوشبو اور عطر استعمال کریں
21۔ ناپاکی  سے دور رہیں
22۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کریں
23۔ آسان لباس پہنیں
24۔ مٹی کے تکیے پر آرام کرو
26۔ 1للہ کے راستہ میں جہاد کرو جس طرح اس کا حق ہے
 
امام (ع) اس بات کا عہد لیں گے کہ جو وعدہ کریں کہ:
وہ ان کے ساتھ رہیں گےا
وہ ان کی طرح لباس پہنیں گے
وہ ان جیسی سواری رکھیں گے۔
وہ ان کی مرضی کے مطابق کام کریں گے
وہ تھوڑی پہ راضی رہیں گے۔
وہ اللہ کی مدد سے دنیا کو مساوات اور انصاف سے بھریں گے۔
وہ اللہ کی عبادت کریں گے جیسا کہ اس کا حق ہے
ان کو بغیر انٹرمیڈیٹ براہ راست رسائی دی جائیگی
ان کی برادریوں یا نیٹ ورکس کو برقرار رکھیں گے باخبر اور متحرک ہوکر انہیں امام کے پاس بلایا۔

سفیانی اپنی میڈیا مشین کو عملی جامہ پہنائیں گے۔ امام کا سب سے پہلا مقابلہ مکہ مکرمہ میں ہوگا، وہ ایک گورنر مقرر کرے گا اور مدینہ کی طرف جائیں گے جس کو تباہ کیا جائیگا۔ امام مدینہ کو اس کی سابقہ عظمت میں بحال کروائیںگے اور آگے بڑہیں گے۔ امام کوفہ کی طرف جائیں گے جہاں سید حسنانی کی فوج سے ملیں گے۔ امام دجال کی فریب کاری اور فوج کا مقابلہ فلسطین میں کرنے کے بعد، وہ آگے بڑھیں گے اور شام جائیں گے شام سفیانی کے تعاقب میں۔ وہ فرار ہو جائے گا۔ وہاں جب اس کی پوری فوج کو بائیدہ کے قریب مدینہ، مکہ جاتے ہوئے صحرا میں بے حد نقصانات اٹھانا پڑیں گے۔ شام کے ساتھ عراق کی سرحد پر، امام حضرت عیسٰی علیہ السلام کے لئے انتظار کریں گے، فجر سے پہلے اور امام نماز فجر کی امامت کروائیں گے۔ پھر لڑائی میں مصروف ہونگے۔

امام کی فوج فاتح ہوگی لیکن سفیانی یروشلم فرار ہوگا، امام اس کا تعاقب کریں گے اور اس کو حضرت عیسیٰ (ع) کے ہاتھوں شکست ہوگی۔ امام مسجد اقصٰی کو دوبارہ تعمیر کریں گے جس کو تباہ کر دیا گیا تھا۔ امام کے زیر اقتدار مشرق وسطٰی کے ساتھ کوفہ میں حکومت قائم کریں گے عراق کی تعمیر نو کریں گے۔ امام کا انقلاب دانشورانہ اور عاقلانہ ہوگا۔ فہد بن یاسر نے امام باقر (س) کو یہ کہتے سنا، "جب ہمارے قائم اٹھ کھڑے ہوں گے تو وہ زیادہ مشکلات کا سامنا کریں گے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایام جاہلیت میں بھی برداشت نہیں کی ہونگی۔ امام نے بیان کیا جب پیغمبر نے اپنے مشن کا اعلان کیا تو اس زمانے میں لوگ پتھروں اور لکڑی کی پوجا کرتے تھے۔ جب امام اٹھ کھڑے ہونگے تو لوگ قانون کی ترجمانی اللہ کی اس کی تفسیر کے خلاف کریں گے اور اس پر بحث کریں۔ امام ان کے درمیان قرآن کے ذریعے اس طرح انصاف کریں گے کہ انصاف ان کے گھروں میں اس طرح داخل ہوگا جیسے گرمی اور سردی داخل ہوتی ہے۔

امام اپنے مددگار/ آزاد کنندگان کو مشرق اور مغرب میں بھیجیں گے، جس طرح ہمارے 5ویں اور چھٹے اماموں نے کہا ہے، وہ اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے جب تک کہ اللہ کی رضا حاصل نہ ہو جائے۔ دوسرے الفاظ میں، جب تک ساری زمین پر اللہ کا پیغام پہچائیں۔ وحدانیت، توحید۔ امام علی (ع) کا 20 قول ہے کہ امام مھدی کی حکومت میں کیا ہوگا؟ ایک عالمی حکومت تشکیل دی جائے گی، جو مطلق طاقت ہوگی اور وہ خود مختاری کی نئی وضاحت کرے گی۔ شہید مطہری نے اپنی کتاب ‘The awaited savior’ نجات دہندہ میں کہا ہے جب ایسا ہوگا:

1۔ راستبازی، فضیلت، امن، انصاف، آزادی اور سچائی کی حتمی فتح ہوگی۔ انا پرستی ، ظلم، دھوکہ دہی کا خاتمہ ہوگا۔
2۔ عالمی حکومت کا قیام۔
3۔ پوری زمین پر کوئی علاقہ ضائع نہیں رہے گا۔
4۔ انسان کی ذات اپنی مکمل معقولیت کے ساتھ معراج پر ہو گی، غیر مناسب معاشرتی پابندیاں ہونگی ہی نہیں۔
5۔ زمین اپنے خزانہ تحائف کا زیادہ سے زیادہ استعمال کریگی۔
6۔ دولت اور املاک کی تقسیم تمام انسانوں کے درمیان برابری کی بنیاد پر ہوگی۔
7۔ سود، نشہ آور اشیا، غداری، چوری کا استعمال اور قتل اور مکمل گمشدگی، غیر معمولی پیچیدہ، بددیانتی اور ناجائز خواہشات جیسی تمام برائیوں کا مکمل خاتمہ۔
8۔ امن، دوستی، تعاون اور احسان کی بحالی ہوگی اور جنگ کا خاتمہ
9۔ انسان اور فطرت کے مابین مکمل ہم آہنگی ہوگی۔
ترجمہ و ترتیب: سعید علی پٹھان
 
 

تقریباً دس سال پہلے اسلامی جمہوریہ ایران نے غیر قانونی طور پر اپنی حدود میں داخل ہونے پر امریکہ کا جدید ترین ڈرون طیارہ آر کیو 170 کامیابی سے ہیک کرکے نیچے اتار لیا اور اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔ اس وقت یہ واقعہ خبر کی دنیا میں ایک بم بن کر پھٹا اور عالمی میڈیا میں تہلکہ خیز ثابت ہوا۔ اس واقعے نے امریکہ کے کھوکھلے دبدبے اور طاقت کی قلعی کھول دی۔ اس کے بعد امریکہ کی جھوٹی طاقت کے سامنے ایران کی مسلسل استقامت اور پائیداری سیاسی، فوجی اور سفارتی میدان میں امریکہ کی تحقیر کے ایسے سلسلے کا باعث بنی، جو اب تک جاری ہے۔ ایران کے اس جرات مندانہ اقدام نے امریکہ کے خلاف دیگر اقوام کو بھی جرات بخشی اور انہوں نے بھی اپنے جائز حقوق کے دفاع کیلئے امریکہ کے خلاف شجاعانہ اقدامات کا آغاز کر دیا۔

مثال کے طور پر حال ہی میں یمن کی مسلح افواج کے ترجمان بریگیڈیئر بحییٰ سریع نے اعلان کیا ہے کہ یمن کے فضائی دفاع نے امریکہ کا ڈرون طیارہ ایم کیو 9 مار گرایا ہے۔ یاد رہے یہ ڈرون طیارہ سعودی عرب کی سربراہی میں عرب اتحاد کی تحویل میں تھا اور ان کیلئے یمن کی فضائی حدود میں جاسوسی کرنے میں مصروف تھا۔ تحریر حاضر میں ہم نے گذشتہ چند سالوں کے دوران خطے کی حریت پسند اقوام کی جانب سے امریکہ کے خلاف چند ایسے بڑے جرات مندانہ اقدامات کا ذکر کیا ہے، جن کی مثال ماضی بعید میں بہت کم ملتی ہے لیکن اب روزمرہ کا معمول بنتے جا رہے ہیں۔

1)۔ امریکی ڈرون گلوبل ہاک کی تباہی
 20 جون 2019ء کی صبح امریکہ کا ایک اور جدید ڈرون طیارہ "گلوبل ہاک" خلیج فارس میں ایرانی حدود میں داخل ہوا، جس پر ایران نے اسے نشانہ بنا کر مار گرایا۔ اس وقت امریکی خبر رساں ادارے سی این این نے ایک رپورٹ شائع کی، جس کا عنوان تھا "جو کچھ امریکہ کے 110 ملین ڈالر قیمتی ڈرون کو مار گرانا ایران کے بارے میں کہتا ہے۔" اس رپورٹ میں کہا گیا: "گرد و غبار چھٹ جانے کے بعد یہ بات واضح ہوئی ہے کہ گذشتہ ہفتے ہمیں زمین سے 22 ہزار پائی کے فاصلے پر ایک نہ بھولنے والا سبق سکھایا گیا ہے۔" امریکی میڈیا نے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی ایران کی جانب سے ایران ساختہ "تین خرداد" نامی میزائل ایئر ڈیفنس سسٹم کے ذریعے امریکہ کے ڈرون طیارے گلوبل ہاک آر کیو 4 اے کو مار گرائے جانے کو اہم قرار دیا اور واضح کیا کہ یہ فضا میں پینٹاگون کے جاسوسی پرندے کی تباہی کا پہلا واقعہ ہے۔

امریکی میڈیا نے اس حقیقت کا اعتراف کیا کہ فضا میں گلوبل ہاک نامی ڈرون طیارے کو کامیابی سے نشانہ بنا کر تباہ کر دینا، فوجی شعبے میں ایران کی اعلیٰ صلاحیتوں اور ترقی کا واضح ثبوت ہے۔ دفاع کے شعبے میں شائع ہونے والے امریکی ماہانہ میگزین جینز ڈیفنس کے چیف ایڈیٹر جیریمی بینی نے ایران کے فضائی دفاعی نظام کے بارے میں لکھا: "یہ (ایرانی فضائی دفاعی نظام) بہت موثر ہے۔ یہ حادثہ (گلوبل ہاک کی تباہی) ظاہر کرتا ہے کہ جب ایرانی کسی کام پر سرمایہ لگاتے ہیں تو اس کے نتائج بھی حاصل ہوتے ہیں۔" جیریمی بینی نے مزید کہا: "ہم اس سے پہلے ایران کے بیلسٹک میزائلوں کے بارے میں یہ جانتے تھے، لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایران کا فضائی دفاعی نظام بھی ایسا ہی ہے۔"
 
2)۔ عین الاسد امریکی فوجی اڈے پر میزائل حملہ
8 جنوری 2020ء اسلامی جمہوریہ ایران اور خطے کی تاریخ میں ایک انتہائی اہم دن ہے۔ اس دن ایران نے امریکہ کی جانب سے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کی ٹارگٹ کلنگ کا بدلہ لیتے ہوئے "فاتح 313" نامی تیرہ بیلسٹک میزائل بغداد کے قریب واقع امریکہ کے فوجی اڈے عین الاسد پر داغ دیئے۔ عین الاسد عراق اور خطے میں امریکہ کی مرکزی کمان کا حامل انتہائی اہم فوجی اڈہ تھا۔ ایران کی اس جوابی کارروائی کا نتیجہ نہ صرف خطے بلکہ عالمی سطح پر امریکہ کے کھوکھلے رعب اور دبدبے کی حقیقت واضح ہو جانے کی صورت میں ظاہر ہوا۔ ایران کی یہ جوابی کارروائی ایسے وقت انجام پائی جب امریکہ کے تمام فوجی اڈے ہائی الرٹ تھے اور ایران نے انتقامی کارروائی کی دھمکی دے رکھی تھی۔

یاد رہے 3 جنوری 2020ء کے دن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے براہ راست حکم پر امریکی ڈرون طیارے نے جنرل قاسم سلیمانی اور حشد الشعبی کے نائب کمانڈر ابو مہدی المہندس کی گاڑی کو میزائل حملے کا نشانہ بنایا، جس میں دونوں موقع پر ہی شہید ہوگئے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے امریکہ کو ان شہداء کا انتقام لینے کی کھلی دھمکی دی اور چند دن بعد ہی بغداد سے 170 کلومیٹر فاصلے پر واقع عین الاسد امریکی فوجی اڈے کو میزائل حملوں سے نشانہ بنایا گیا۔ ہائی الرٹ کے باوجود امریکی حتی ایک میزائل کو بھی فضا میں تباہ نہ کرسکے اور تمام میزائل ٹھیک نشانے پر لگے اور بڑے پیمانے پر تباہی پھیلائی۔ اس حملے نے ایک طرف ایران کی بھرپور میزائل طاقت کو ثابت کر دیا اور دوسری طرف امریکہ کے غبارے سے ہوا نکال دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایران اور چین کے وزرائے خارجہ نے پچیس سالہ اسٹرٹیجک جامع تعاون کے معاہدے پر دستخط کر دیئے ہیں۔ 2015ء میں اس نوعیت کے معاہدے کا عندیہ دیا گیا تھا۔ 2019ء میں ایرانی وزیر خارجہ نے اپنے تمام متعلقہ اداروں سے گفت و شنید کے بعد ایک جامع دستاویز تیار کرکے چین کے حوالے کی تھی۔ طویل المدت معاہدے کے بارے ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے بتایا ہے کہ ایران اور چین کا تعاون اب اسٹریٹیجک سطح پر پہنچ چکا ہے اور پچیس سالہ حالیہ معاہدہ اس میں مزید گہرائی کا باعث بنے گا۔

ایران اور چین کے درمیان تعلقات کو دو زاویوں سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ایران اور چین کے درمیان تین بڑی سطحوں یعنی سیاسی اقتصادی تعاون، سکیورٹی دفاعی اور جیوپولیٹیکل اسٹریٹیجک سطح پر تعلقات ہیں، جس کے لیے دونوں ملکوں کے درمیان پچیس سالہ تعاون کی جامع دستاویز پر دستخط ہونے سے صورتحال مزید واضح ہو جائیگی۔ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کا دوسرا زاویہ علاقائی اور عالمی مسائل پر سفارتی کوششیں ہیں، جس میں دونوں ممالک بہت سے مسائل پر مشترکہ موقف رکھتے ہیں۔

ایران اور چین علاقائی سلامتی بالخصوص خلیج فارس اور آبنائے ہرمز کی سکیورٹی پر یکساں موقف کے حامل ہیں۔ جس میں مزید پیشرفت کے لیے چینی وزیر خارجہ کا حالیہ دورہ تہران مزید موثر اور فائدہ مند ثابت ہوگا۔ البتہ پچیس سالہ اسٹریٹیجک جامع تعاون کے معاہدے نے امریکی ایوانوں میں ہلچل مچا دی ہے اور ایران کو عالمی سیاست میں تنہا کرنے والے اداروں میں صف ماتم بچھ گئی ہے۔
 
 
 

سعودی عرب نے 25 مارچ سن 2015 کو یمن کے نہتے عرب مسلمانوں کے خلاف بربریت اور جارحیت کا آغاز کیا سعودی عرب کو یمن پر جنگ مسلط کرنے کے سلسلے میں امریکہ نے ہری جھنڈی دکھائی۔ سعودی عرب نے یمن پر مسلط کردہ جنگ کو" عزم کے طوفان " کے نام سے موسوم کیا ، اور یمن کو دو ہفتوں کے اندر اندر فتح کرنے کا عزم ظاہر کیا لیکن دو ہفتوں کے بجائے یمن پر سعودی عرب کی مسلط کردہ جنگ آج ساتویں سال میں داخل ہوگئی ہے اور سعودی عرب اپنے کسی بھی شوم ہدف میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے۔ سعودی عرب نے یمن پر ظالمانہ جنگ مسلط کرکے سنگين جرائم کا ارتکاب کیا جن میں شہری آبادی ، مسجدوں، مدرسوں، اسپتالوں ، تاریخی عمارتوں پر سعودی عرب کی وحشیانہ بمباری تاریخ میں باقی رہےگی۔

سعودی عرب نے یمن پر مسلط کردہ ظالمانہ جنگ میں اپنے امریکی اور مغربی آقاؤں کے اشاروں پر اسلامی بیداری کی لہر کو روکنے کی بھر پور کوشش کی۔ لیکن اسے گذشتہ چھ برسوں میں تاریخی شکست کا سامنا ہے اور اسلامی مزاحمتی تنظیمیں خطے میں مزید مستحکم ہوگئی ہیں اب علاقائی عوام میں اسرائیل اور سعودی عرب کے وحشیانہ جرائم کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ پیدا ہوگیا ہے ۔ سعودی عرب نے یمن پر اسی طرح  مجرمانہ جرائم کا ارتکاب کیا جس طرح اسرائیل اس سے قبل فلسطین میں کرچکا ہے۔ سعودی عرب نے بڑی بے رحمی اور بے دردی کے ساتھ  یمن میں نہتے عرب مسلمانوں کا قتل عام کیا جن میں بچے عورتیں اور بزرگوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔

یمن پر سعودی عرب ، امارات  اور ان کے اتحادی ممالک کی مشترکہ اور متحدہ یلغار سے ثابت ہوگیا کہ یہ دونوں عرب ریاستیں خطے امریکی اور اسرائیلی آلہ کار ہیں اور ان کا کام امریکہ کے اشارے پر اسلامی ممالک میں  عدم استحکام پیدا کرنا اور دہشت گردی کو فروغ دینا ہے۔ اس سلسلے میں یمن کی اسلامی تنظیم انصار اللہ کے ترجمان محمد عبدالسلام کا کہنا ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات خطے میں امریکی اور اسرائیلی مزدور اور نوکر ہیں۔ محمد عبدالسلام نے متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان معاہدے پر دستخط کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ سعودی عرب اور امارات خطے میں امریکی اور اسرائیل پروجیکٹ کے سلسلے کی اہم کڑی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ سعودی عرب صدی ڈیل کو عملی جامہ پہنانے کا اصلی ٹھیکیدار ہے اور امارات کے بعد اب سعودی عرب کے اسرائیل کے ساتھ خفیہ تعلقات بھی طشت از بام ہوجائیں گے۔ اس نے کہا کہ سعودی عرب اور امارات اس دور کے یزید امریکہ کے اتحادی ہیں اور وہ معاویہ اور یزید کے راستے پر گامزن ہیں۔

عالمی ذرائع ابلاغ  نے یمن کی صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے کہا ہے کہ یمنی کے نہتے عرب مسلمانوں کو سعودی عرب کی مسلط کردہ جنگ اور محاصرے کی وجہ سے اب قحط ، طبی مشکلات اور کورونا وائرس کا بھی سامنا ہے۔ برطانوی اخبا ر اینڈپینڈٹ  کے مطابق سعودی عرب کی امریکہ اور اسرائیل نواز آل سعود حکومت نے یمن کے نہتے عربوں پر گذشتہ 6 برس سے وحشیانہ اور ظالمانہ جرائم کا ارتکاب کیا ہے،  یمنی شہریوں کو اب سعودیہ کی مجرمانہ جنگ کے ساتھ قحط اور کورونا وائرس کا بھی سامنا ہے۔

برطانوی اخبار کے جائزے کے مطابق یمن کی آدھی آبادی کا انحصار غیر ملکی غذائی اشیاء پر ہے کورونا وباء کے پھیلنے کے بعد یمن کی صورتحال مزید پیچيدہ اور بحران سے دوچار ہوگئی ہے۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق رواں سال کے اختتام تک 2 ملین 400 سے زائد یمنی بچوں کے قحط میں مبتلا ہونے کا خدشہ ہے۔ بین الاقوامی امدادی اہلکاروں کا کہنا ہے کہ یمنی عوام کو غذائی قلت کا سامنا ہے۔

ذرائع کے مطابق یمن میں سعودی عرب کے فوجی اتحاد کو عالمی اور انسانی قوانین کی سنگين خلاف ورزیوں کے ارتکاب میں مقدمات کا سامنا کرنا پڑےگا۔ ادھراقوامِ متحدہ نے بھی انسانی حقوق کی ہولناک خلاف ورزیوں کی مذمت کی ہے۔ سعودی عرب کے فوجی اتحاد نے یمن پر مسلط کردہ جنگ میں تمام بین الاقوامی ، انسانی اور اسلامی قوانین کو بری طرح پامال کیا۔ سعودی عرب نے گذشتہ 6 برسوں میں 45 ہزار سے زائد یمنی شہریوں کو اپنی بربریت کا نشانہ بنایا جن میں بڑی تعداد میں بچے اور خواتین شامل ہیں۔ سعودی عرب کے مجرمانہ ہوائي حملوں کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ ادھر یمنی فوج اور قبائل نے بھی جدید میزائلوں سے سعودی عرب کے اندر فوجی اور اقتصادی ٹھکانوں کو نشانہ بنانا شروع کردیا ہے جس کے بعد سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کی چیخیں نکل رہی ہیں۔ یمنی فورسز اور قبائل نے جدہ میں سعودی تیل کی کمپنی آرامکو ، ملک خالد ايئر پورٹ ، ابہا ایئر پورٹ ، دارالحکومت ریاض میں سعودی عرب کے فوجی اور  اقتصادی ٹھکانوں کو نشانہ بنا نا شروع کردیا ہے جس کے بعد سعودی عرب پر لرزہ طاری ہوگیا ہے۔ عرب ذرائع کے مطابق یمن پر مسلط کردہ ظالمانہ جنگ میں سعودی عرب کی شکست یقینی ہے۔ سعودی اتحاد میں شامل دس سے زائد ممالک  کے خلاف یمن کے نہتے عربوں کی شاندار استقامت کو تاریخ میں سنہرے حروف سے یاد رکھا جائےگا۔

شبیہ پیغمبر حضرت علی اکبر علیہ السلام

اس کائنات میں انسان جہاں تک نظر دوڑائے اسے ہر طرف ایک ہی معطی کے گوناگوں عطیات دیکھنے کو ملیں گی جو اُس وحدہ لا شریک ذات کے بے نیاز وجود کی ناقابل انکار آیات ہیں۔وہ وحدہ لا شریک ذات اس کائنات کی مالک اور خالق ہے اس نے ہی انسان کو اپنا خلیفہ بنا کر اس دنیا میں بھیجا اورایسابھی نہیں ہے کہ اس نے انسان کو ایسی وسعتوں بھری کائنات میں نعمتِ حیات دے کر بھیج دیا ہو کہ وہ حیران و پریشان رہےاورحقائق و دقائق کی معرفت حاصل نہ کرسکے اور انہی حالات میں موت کے حملے کا شکار ہوکر حیات سے ہاتھ دھوبیٹھے اس طرح نہیں ہے بلکہ وہ ذات بابرکات خود علیم و قدیر وحی و حکیم ہےاس کا انسان کو اس دنیا میں بھیجنے کےمخصوص اہداف تھے۔ وہ بذاتہ نور ہے اپنی مخلوقات کو ظلمات و توہمات میں سر گرداں نہیں دیکھنا چاہتی اس وجہ سے اس ذات خالق و احد نے انسان کی ہدایت کے لئے انبیا ءو اوصیاء کا عظیم سلسلہ مقرر فرمایا تاکہ انسان ان ذوات مقدسہ کی پیروی کر کے کمال و تکامل کے مراحل طے کرکے ان منازل پر فائز نظر آئے جو انسان کامل کا مقام ہے۔شیطان نے اگر انسان کو خد وند متعال کی راہ سے بھٹکانے کا سہرا اپنے سر لیا ہے لیکن وہیں پر ایک اعتراف عجز بھی اس کے دامن گیر ہواہےاور وہ یہ کہ خدا ونداتیرے مخلص بندوں پر میرا بس نہ چل پائے گا اور ان کو تیری عبادات کے زمرے سے نکال باہر لانا میرے لیے ممکن نہیں ہوگا۔ہر ذی شعور انسان پر واجب ہے کہ وہ ان خاص خدا شناس ہستیوں کی معرفت حاصل کرے ۔۔۔۔وہ کون ہیں؟’معطی انعام‘‘کی خاص عنایات و عطیات پانے والی باعثِ تخلیق کائنات ہستیاںجن کے چودہ انوار پانچ میں جمع ہوئے اور پنجتن کی وحدت ذاتِ رسالت قرار پائی صلی اللہ علیہ وعلیہم اجمعین۔ان انوار الہٰی کی مقدس ذوات کی معرفت و تعریفات کی کما حقہ شائستگی خالق کائنات کے علاوہ کون رکھتا ہے۔یہی ہیں جنہوں نے خود خداوند حیات و ممات کے عشق میں اس کے قسم خوردہ دشمن کو ایسا نامراد و ناکام کردیا کہ سب ملائکہ و انبیاء فراتِ حیرت میں غرقاب ہونے لگے۔تاریخ اسلام میں ایک ایسا بھی دور نظر آتا ہے جس میں بعد از رحلت سید المرسلین ﷺ تمام انبیا ءکی محنتوں پر پانی پھیرا جارہا تھا ، خدا کے حرام کو حلال اور حلال کو حرام کیا جا رہا تھا،دینی حدوں کو مسمار کیا جا رہا تھااس شیطانی ٹولے کی سوچ یہ تھی کہ نام تو دین کا رہے لیکن کام دین کا نہ رہے ۔دشمنانِ دین خدا یکجا ہوکر دولت و ثروت اور حکومت وامارات کے سبزباغات دکھا کر بندگان خدا کو اغوا کرتے جارہے تھے طوفانِ طغیان اپنے پورے زور و شور سے شجر اسلام کو آناً فاناً جڑوں سے اُکھاڑ پھینکنا چاہتا تھا لیکن اس وقت انہی ذوات مقدسہ میں سے ایک ہستی جن کااسم گرامی ‘ حسین ‘‘ہے
حسین ،کون حسین؟’حسین‘‘ روئے زمین پر حبیب خدا کا یکتا و تنہا نواسہ،’حسین‘‘بقاءدین کا مقدس ہدف رکھنے والا ،’حسین‘‘جس نےشجر دین مبین کو ظلم وستم کی ناقابل وصف تیز آندھیوں میں استحکام بخشا’حسین ‘‘جس نے دین مبین اسلام کے گرتے شجر کو سہارا دیا اور ایسا سہاراکہ قیامت تک کسی شیطانی ٹولے میں ہمت نہیں کہ اس کی طرف دست درازی کر سکے۔اس راہِ عشق کی پرخطر راہوں کے بے باک راہی امام حسین ؑکا ساتھ دینے کے لئے ایک مختصر مگر پختہ عزائم کے مالک افراد کا قافلہ بھی ہمراہی کررہا تھا۔کچھ اعوان و انصار بھی اپنے زمانے کے امام علیہ السلام کا ساتھ دینے کیلئے آمادہ ہوگئے تھےاور کچھ خوش نصیب ایسے بھی تھے جن کو وقت کے شہنشاہ نے بلوا یا تھا۔ان حالات میں دین کی حفاظت کا ذمہ دوش نواسہ رسولﷺ پہ تھا وگرنہ دشمن تو اس در پے تھا کہ شجر دین مبین اسلام کی جڑیں کاٹ دی جائیں !اس وقت اسلام در حسین علیہ السلام پہ سوالی بن کر آیا تھا اور یہ وہ در تھا جہاں سے دشمن بھی خالی ہاتھ نہیں جاتا۔امام حسین علیہ السلام نے رسول خدا ﷺ ، جناب فاطمہ زہرا اور امام علی مرتضیٰ علیہم السلام کی گود میں پرورش پائی تھی آپ کسی طرح بھی اسلام کو نابود ہوتا نہیں دیکھ سکتےتھے۔
 
۶۰ ہجری میں معاویہ کے اپنےناخلف و نامراد بیٹے یزید کو مسندخلافت پہ بٹھایاگیا اس نے امام حسین علیہ السلام سے بیعت کا مطالبہ کیا تو زمانے کے ولی نے فرمایا ‘مثلی لا یبایع مثلہ ‘‘( میرے جیسا یزید جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا)۔ تنگی حالات کی وجہ سے آپ نے ۲۸ رجب کو اپنے کریم نانا کا شہر چھوڑا مختلف منازل طے کرنے کے بعد ۲محرم الحرام ۶۱ ہجری آپ کو سرزمین نینوا پر ڈیرے لگانے پہ مجبور کر دیا گیا ۔ سال نو کے پہلے نو دن گزر گئے اور آل رسولعلیہم السلام کرب و بلا کے تپتے صحرا میں محصور ہے ایک رات کی مہلت لی گئی وہ بھی رب کی عبادت میں گزر گئی۔۔۔۔۔(۱۰)محرم کا دن تاریخی ہی نہیں بلکہ تاریخ ساز دن تھاجب تما م اعوان و انصاراپنے وعدےوفا کر چکے اب شجر دین کو ہاشمی خون کی ضرورت تھی تو سب سے پہلے حسینی کہکشاں کے مقدس ستارے جناب علی اکبر علیہ السلام نے طلوع میدان ہونے کی خواہش کی اگرچہ جناب اکبر جیسے جوان بیٹے کو اذن جہاد دینا؛ مولا کے لئے بہت مشکل تھا لیکن راہ عشق خدا میں یہ قربانی دینا قبول کیا افراد اہلبیت نے اپنے امام زمان علیہ السلام کی خوشنودی کےلئے اور بقا ء و حفظ دین میں اعلیٰ کردار ادا کیا اور آخر میں نواسہ رسولﷺ، دلبند بتول سلام اللہ علیہا اور فرزند امام علی علیہ السلام نے اپنی قربانی کا نذرانہ پیش کر کے دین مبین اسلام کو حیات جاوداں بخشی۔عاصی !وقت کے مصطفیٰ،یوسف زہراؑ،قطب عالم امکاں، حجت خدا امام زمانہ عجل اللہ شریف کے در پہ سوالی ہے کہ یہ در عطاؤں کا در ہے، یہاں پہ مقدر سنورتے ہیں ، مجھ جیسے عاصیوں کا آپ پہ بھرم ہے۔آپ کی چوکھٹ پر ایک سوالی ہے۔جو ہے،جیسا ہے آپ کا ہی نام لیوا اور موالی ہے۔اے سرزمین کرب و بلا میں ناحق بہائے جانے والے مقدس خون کے وارث،ہم پہ نگاہ کرم کیجیے؛ عاصی کربلا کے جوان جناب علی اکبر علیہ السلام کے فضائل و اوصاف حمیدہ کے بارے میں گدائی کر رہا ہے!
طلوع ستارہ کہکشاں حسینیرسول اکرم ﷺ کی مو لا حسین علیہ السلام کےساتھ محبت زبان زد عام و خاص ہے۔مشہور و معروف حدیث نبوی ہے:’حسین منی وانا من الحسین‘‘‘یعنی حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں۔حضرت امام حسین علیہ السلام بچپن ہی سے آغوش رسالت سے اس قدر مانوس تھے کہ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ’حسین رسول خدا کی زندگی میں انہیں بابا کہہ کرپکارتے تھے اور مجھے اباالحسن کہتے تھے۔جب رسول خدا ﷺ ظاہراًاس دنیا کو چھوڑ گئےتو پھر مجھے بابا کہنے لگے‘‘(۱)فراق جد میں نواسۂ رسول بہت مغموم و محزون رہاکرتےتھےکہ خداوند حکیم نے نواسۂ رسولﷺ کے گھر شبیہ رسول کو بھیج کر پھر سے وہ یادیں تازہ فرمادیں۔کہکشاں حسینی کا یہ عظیم ستارہ شعبان المعظم کی ۱۱ تاریخ کو صحن حسینی میں طلوع ہوا البتہ تاریخ میں سال ِطلوع کے بارے میں اختلاف ہے مشہور قول کے مطابق سال طلوع ۴۳ ہجری ہے(۲)
والد بزرگوارشہزادے کے والد بزرگوار محسن اسلام حضرت امام حسین ابن علی ابن ابیطالب علیہم السلام ہیں جو کسی تعارف کے محتاج نہیں جن کے بھائی امام حسن مجتبیٰ و ابوالفضل العباس علیہماالسلام۔۔۔، ہمشیرہ جناب عقیلۂ بنی ہاشم حضرت زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا،جن کی مادر گرامی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور نانا بزرگوار حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ ہیں۔المختصر یہ خاندان فضائل و مناقب کاسرچشمہ تھا۔
 
والدہ ماجدہشہزادے کی والدہ ماجدہ حضرت لیلیٰ بنت ابی مرہ بن عروہ بن مسعود ثقفی ہیں۔آپ کے نانا عروہ بن مسعود ثقفی قریش میں عظیم المرتبت شخصیت تھے وہ قریش مکہ کی طرف سے حضرت پیغمبر اکرم ﷺکی خدمت میں صلح نامۂ حدیبیہ کی موافقت کے لیے بھیجے گئے۔عروہ اہل طائف تھے اور انہوں نے ۹ ھ میں اسلام قبول کیا پھر اپنی قوم کی ہدایت اور دین اسلام کی تبلیغ کے لیے ان کی طرف گئے لیکن اسی قوم کے ہاتھوں نماز سے پہلے اذان کہتے ہوتے تیر ستم سے مرتبۂ شہادت پرفائز ہوئے۔پیغمبر خدا ان کی شہادت پر بہت افسردہ ہوئے اور اس شہید کے بارے میں فرمایا:لیس مثلہ فی قومہ الا کمثل صاحب یاسین فی قومہ(۳)یعنی عروہ صاحب یاسین کی مثل ہیں جو اپنی قوم کے لیے ہدایت کا فریضہ انجام دیتے تھے(اور اسی راہ میں شہید ہوئے)۔ابن جزری نے اسد الغابہ میں بروایت ابن عباس جناب رسول اکرم ﷺ کا یہ ارشاد نقل کیا ہےکہ آپ ﷺ نے فر مایا:اربعۃ سادۃ فی الاسلام بشر بن ھلال العبدی وعدی بن حاتم و سراقہ بن مالک المدنجحی و عروہ بن مسعود ثقفیاسلام میں چار سردار ہیں بشر بن ہلال العبدی، عدی بن حاتم، سراقہ بن مالک المدنجحی اور عروہ بن مسعود ثقفی
سن مبارکشہزادے کے سال ولادت میں اختلاف کی وجہ سے سن مبارک میں بھی اختلاف ہے اور یہ اختلاف تاریخ و مؤرخین کے اس باب میں شدت ضعف پر دلیل ہے کیونکہ اس بارے میں متعلقہ کتب میں اقوال عجیب و غریب ہیں۔ ان مختلف اور متعدد اقوال کی وجہ سے انسان حیران و پریشان ہوکررہ جاتا ہے لیکن کچھ تحقیق اور دقت سےمعلوم ہوتا ہے کہ اہم اختلاف دو تین اقوال میں ہے بہرحال بحمد اللہ قول مشہور ہمیں اس تعدد و کثرت سے وحدت پر لاتا ہےیہ قول دلالت کرتا ہے کہ شہزادۂ کربلا حضرت علی اکبر علیہ السلام کا سن مبارک ۶۱ ہجری کربلا میں ۱۸ برس کا تھا۔حضرت علی اکبرعلیہ السلام کے سن مبارک میں مشہور قول درست ہےاورظاہراً تمام اسلامی ممالک میں بھی یہی قول شہرت کا حامل ہےبالخصوص برصغیر میں جناب علی اکبر علیہ السلام (نثر و نظم میں) مشہور و معروف قول یہی ہے۔مقتل کی تمام کتب میں موجود ہے کہ جب حضرت امام حسین علیہ السلام اپنے فرزند دلبند کو میدان کی طرف روانہ کرنے لگے تو بارگاہ خدا میں یوں گویاہوئے:اللھم اشھد علی ھؤلاء القوم فقد برز الیھم غلام اشبہ الناس خلقا و خلقا و منطقا برسولک صلی اللہ علیہ وآلہ۔۔۔۔۔’بارالہٰا! گواہ رہنا اس قوم ستمگر سے جنگ کرنے کے لیے ایسا جوان جارہا ہے جو خلقت و اطوار،رفتار و گفتار میں تمام لوگوں سے زیادہ تیرے رسولﷺکے ساتھ شباہت رکھتا ہے۔۔۔۔۔‘‘(۴)لسان امامت سے ادا کیا ہوا لفظِ مبارک’غلام ‘‘یعنی جوان،نوخیز،اسی مطلب پر دلالت کررہا ہےکہ شہزادہ سن کے اعتبار سے ابھی سنِ جوانی سے متجاوز نہیں ہوا تھا،جہاں تک تأویلات و توجیہات کا تعلق ہے تو اصل کلام اور اول کلام کو حقیقت پر ہی حمل کیا جاتا ہے اور یہاں پر کوئی قرینہ صارفہ بھی نہیں کہ حقیقت کی بجائے مجاز کی نوبت آئے لہٰذا غلام سے مراد یہی تازہ جوان ہی ہے جو کہ اقوال میں سے ۱۸ سال سن کے ساتھ زیادہ موافقت و مطابقت رکھتا ہے۔بزرگ محقق علماء جیسے شیخ مفید،شیخ طوسی وسید ابن طاؤوس رحمہم اللہ تعالیٰ نے اپنے اپنے آثار میں حضرت علی اکبر علیہ السلامکا سن مبارک کربلا میں اٹھارہ سال قلمبند فرمایا ہے۔(۵)مؤلف خورشید جواناننے اس قول کے قبول کرنے کو‘‘ تاریخی احتیاط’ سے تعبیر کیا ہےاگرچہ ان کےاپنے دلائل کا ماحصل اس قول کے خلاف ہے لیکن اس بات کے قائل نظر آتے ہیں کہ بزرگ ومحقق شخصیات نے جس قول کو اختیار کیا ہےتو یقیناً ایسے بزرگان علم کے دلائل پختہ اور قوی تر ہوں گے کہ انہوں نے ۱۸ سال والا قول اختیار کیا ہے لہٰذا احتیاط تاریخی اس امر کی مقتضی ہے کہ ان کے قول کی مخالفت نہ کی جائے اور اسی مشہور قول کو قبول کرلیا جائے کیونکہ ہوسکتا ہےکہ ان بزرگان کے پاس موجود دلائل ہمارے قیل و قال سے مافوق ہوں۔اس محقق مؤلف نے اس بحث کے آخر میں اضافہ کیا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ لقب’اکبر‘‘چھوٹے شہزادے علی اصغر علیہ السلام کے لقب ‘اصغر‘‘سے قیاس کرتے ہوئے ملا ہو۔(۶)
 
محقق تفریشی نے بھی اپنے استدلال میں سابق الذکر بزرگان کے قول کی تائید کی ہے لہٰذا ان کے نزدیک بھی شہزادے کا سن مبارک ۱۸ سال ہے۔(۷)اس قول کی تائید میں کتاب مستطاب’ثمرات الاعواد‘‘کے مؤلف بزرگوار یوں رقمطراز ہیں:’حضرت علی اکبر علیہ السلام اپنی جدہ مظلومہ حضرت فاطمہ زہراسلام اللہ علیہا کے ساتھ اس لحاظ سے شباہت رکھتے ہیں کہ ان دونوں کی عمریں کم تھیں اور دونوں ہی اٹھارہ سالگی میں شہادت کی سعادت پر فائز ہوئے۔‘‘(۸)حضرت امام حسین علیہ السلام کے کلمات وارشادات پر مبنی کتاب’موسوعۃ کلمات الامام الحسین علیہ السلام‘‘میں شہادت اہل البیت علیہم السلام کے تحت بحث کی ابتدا میں اعیان الشیعہ سے منقول قول میں بھی شہزادے کے۱۸ سال والےقول کو ٹھکرایا نہیں گیابلکہ ان کے مطابق حضرت علی اکبر علیہ السلام کا سن مبارک ۱۸ سال،۱۹ سال یا ۲۵ سال ہے اور وہ آل ابو طالب کے پہلے شہید ہیں(۹)کتاب شریف مصابیح الہدیٰ میں حضرت علی اکبر علیہ السلام کا سن مبارک ۱۹ سال نقل ہوا ہے اسی کتاب اور نیز تمام کتب مقاتل میں شہزادے کے مبارزطلبی کے اشعار موجود و محفوظ ہیں۔شہزادے نے جب پہلی مرتبہ قوم اشقیاء پر حملہ کیا تو شہزادے کا رجز یہ تھا:(۱۰)أناعلیبنالحسینبنعلینحنوبیتاللہاولیٰبالنبیتاللہلایحکمفیناابنالدعیاضرببالسیفأحامیعنأبضربغلامھاشمیقرشییہاں ہماری شاہد بحث شہزادے کے رجز کا آخری مصرعہ ہے جس میں خود فرمارہے ہیں کہ ‘‘میری ضرب، ہاشمی قرشی جوان کی ضرب ہے’اس کلمۂ غلام سے بھی شہزادے کا جوانسال ہوناظاہر ہوتاہےشبیہ پیغمبرﷺ جناب علی اکبر ؑمیدان کربلا میں بروز عاشورہ امام حسین علیہ السلام سے ان کے کڑیل جوان بیٹےنے اذن جہاد مانگا تومولا نے اشکبار آنکھوں کے ساتھ اجازت دی اور لسان عصمت و طہارت سے یہ الفاظ جاری ہوئے :اللھماشھد،فقدبرزالیھمغلاماشبہالناسخلقاوخلقاومنطقابرسولکصلیاللہعلیہوآلہ،وکنااذااشتقناالینبیکنظرناالیہ
‘خداوندا!گواہ رہنا،ان کی طرف ایسا جوان جارہا ہے جو خلق ،خلق اور منطق میں تمام لوگوں میں سے تیرے رسول ﷺسے زیادہ شباہت رکھتا ہے۔۔۔ہمیں جب بھی تیرے نبی کی زیارت کا اشتیاق ہوتا تو ہم اس جوان کو دیکھ لیتے تھے‘‘۔(۱۱)شباہت ایسی چیز ہے کہ جس کی موجودگی میں دیکھنے والے کو مشبّہ پر مشبہ بہ کا گمان ہونے لگتا ہے اب یہ وجہ شباہت جس قدر زیادہ ہوگی اتناہی یہ منظر شدید اورواقعی لگے گا ۔ پھر جب شباہت کا یہ عالم ہو کہ ایک معصوم امام جناب حسین علیہ السلام کو اپنے نانا کی یادستائے اور اس تشنگی کو زیارت علی اکبر علیہ السلام سے سیراب فرمائیں تو اندازہ کیجیئے کہ جناب علی اکبر علیہ السلام رسول معظم ﷺ سے کس قدر شباہت رکھتے تھے۔ اما م کے فرمان کے مطابق شہزادہ حبیب خداﷺ سے تین قسم کی شباہتیں رکھتے تھے۔خلقی،خُلقی،منطقی۱۔شباہت خلقی سے مراد قد و قامت اور صورتاً مشابہ ہونا ۔ جناب علی اکبر علیہ السلامقد وقامت اور شکل و صورت میں رسولِ خدا ﷺکے ساتھ شباہت رکھتے تھے۔ معروف ہے کہ حضرت ابوالفضل العباس علیہ السلام اور شہزادہ علی اکبر علیہ السلام جب مدینے کی گلیوں میں نکلتے تھے تو لوگ فقط ان کے دیدار کی خاطرجمع ہو جاتےتھے۔ جناب علی اکبر ؑ اس قدر خوبرو تھے کہ ان کو دیکھ کر زمانے کو رسول خدا یاد آ جاتے تھے۔
 
زائر رسول ﷺکا بیہوش ہوناجناب علی اکبر علیہ السلامکے زمانے میں ایک عرب شخص حبیب خداﷺ کی زیارت کا بہت مشتاق تھا۔ اسی اشتیاق میں گریہ کناں رہتا تھااسے بتلایا گیاکہ پریشان ہونےکی ضرورت نہیں اگرچہ رسولِ خدا ﷺ اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں لیکن شہزادۂ حسینی جناب علی اکبرعلیہ السلام ہوبہو شکل و صورت میں پیغمبر لگتے ہیں ۔ جاؤ جا کر مدینہ میں شہزادے کی زیارت کرلو،رسولِ خدا کی زیارت ہوجائے گی۔وہ عرب شخص امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا،ماجرا عرض کیا۔مولا امام حسین علیہ السلام نے شہزادے کو آوازدی ۔جناب علی اکبر تشریف لائے،جب بابا کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تواس عرب شخص نے جناب علی اکبر علیہ السلام کو دیکھا تو اسے ایسا محسوس کیا کہ میں رسول معظم ﷺ کی زیارت کر رہا ہوں اورتاب نہ لاتے وہ عرب ہوئے بے ہوش ہوگیا(۱۲)(اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس شخص نے اس سے پہلے رسول اکرم ﷺ کی زیارت کی ہوئی تھی)۲۔ شباہت خُلقی سے مراد یہ کہ کسی سے اخلاق میں مشابہ ہونا۔ جناب علی اکبر علیہ السلام کی نسبت ایک معصوم امام کی زبانی خلق عظیم کے مالک سے دی جارہی ہے اور رسول معظم ﷺ کے اخلاق کی اوج کی تصدیق ذات کردگار کے کلام سے ہوتی ہے۔انک لعلیٰ خُلق عظیم(۱۳)’ آپ بے شک عظیم اخلاق کی بلند ترین منزل پر فائز ہیں‘‘اسی خلق وخو کی ہوبہو عکاسی آ پ کو جناب علی اکبر علیہ السلام کے اخلاق میں ملے گی ۔اس عظیم اخلاق کی جھلک شہزادے میں اس قدر نمایاں تھی کہ شہزادے کے سلام کرنے سے لوگوں کو پیغمبر کا سلام کرنا یاد آجاتا تھا۔ غرباء و فقراء و مساکین کے ساتھ حسن سلوک سے رفتار نبوی کی یادیں تازہ ہوجاتی تھیں۔کتب تاریخ میں موجود ہے کہ ہمشکل پیغمبر شہزادہ علی اکبر علیہ السلام نے مدینہ میںغریبوں اور مسکینوں کے لیے ایک بہت بڑا مہمان خانہ بنا رکھا تھا جس میں ہر روزوشب کھانے کھلانےکا انتظام کیا کرتے تھے اور تمام لوگ شہزادۂ کرم کے دستر خوان سے استفادہ کرتے تھے۔(۱۴)حضرت امام حسین علیہ السلام نے اس وجود نازنین کو وداع کے وقت بارگاہ احدیت میں راز و نیاز اور اور مناجات میں اس انداز سے پیش کیا کہ اے پروردگار ! تیرے حبیب کا سا اخلاق رکھنے والا یہ جوان تیرے دین کی حفاظت کے لیے اس بدبخت قوم کے سامنے بھیج رہا ہوں لیکناس صورت وسیرت پیغمبر ﷺکے آئینہ دار شہزادے کو دیکھ کر بھی ان کی قساوت و شقاوت میں کمی نہیں آرہی۔۳۔شباہت منطقی سے مراد گفتار میں کسی کے مشابہ ہونا۔لسانِ عصمت میں منطق علی اکبر علیہ السلام کو منطق رسول خدا ﷺسے تعبیر فرمایاگیااورقرآن کریم منطق نبوی کے بارے میں یوں گویا ہے:وما ینطق عن الھویٰ ان ھو الا وحی یوحیٰ(۱۵)’یعنی رسول خدا ہواوہوس سے کوئی کلام نہیں کرتے ان کا کلام تو صرف وحی الہٰی ہوتا ہے‘‘امام حسین علیہ السلام کو جب بھی اپنے نانا کی آواز سننے کا شوق ہوتا آ پ جناب علی اکبر علیہ السلام سے کہتے کہ بیٹا اذان و اقامت کہو اور پھر راز ونیاز اور عبادات و مناجات میں مشغول ہو جاتے اسی وجہ سے ۱۰ محرم الحرام کی صبح کو بھی جناب علی اکبر علیہ السلام سے اذان دلوائی گئی تا کہ لہجہ رسولﷺ سن کر شاید ان قسی اور شقی لوگوں کے دلوں پہ اثر پڑےلیکن۔۔۔۔!!!!!!!!!!کردار ورفتارو گفتار میں جناب علی اکبر علیہ السلام رسول معظم ﷺ کے اتنے مشابہ تھے کہ ان کو دیکھ کر لوگ رسول اکرم ﷺ کو یاد کرتے تھے۔
 
معاویہ لعینکی زبانی جناب علی اکبر علیہ السلام کی تعریفابو الفرج اصفہانی مغیرہ سے روایت کرتا ہے ایک دن معاویہ نے اپنے ہم درباریوں سے پوچھا من احق بھذا الامر؟ تم لوگوں کے نزدیک اس خلافت کا حق دار کون ہے؟سب نے کہا!انت۔ہمارے نزدیک اس منصب کے لائق صرف آپ ہیں، معاویہ کہنے لگالا،اس طرح نہیں ہے جس طرح تم لوگ سوچتے ہو بلکہاولی الناس بهذالامر علی بن الحسین بن علی جده رسول الله وفیه شجاعه بنی‏هاشم و سخاه بنی امیه و زهو ثقیف.اس منصب کےسب سے زیادہ سزاوار علی بن حسین ہیں جن کے جد رسول خداﷺ ہیں جنہوں نے کی شجاعت و دلیریبنی ہاشم سے ، سخاوت بنی امیہ سے اور زیبائی اور فخر و مباہات ثقیف سے پائی ہے(۱۶)
شہزادہ علی اکبر علیہ السلام کےکمال ایمان و ایقان کا ایک واقعہجناب علی اکبر علیہ السلام کا سینہ معرفت خداوندی سے پرتھا جس نے جنت کے سرداروں سے تعلیم و تربیت حاصل کی تو ایسی ہستی کاعلم و ایقان بھی اوج ثریا پہ ہوگا آپ کی دینی و سیاسی بصیرت کا علم سفر کربلا سے عیاں ہوتا ہے جیسا کہ سفر کربلا میں ایک واقعہ ملتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی منزل قصر بنی مقاتل پر آنکھ لگ گئی جیسے ہی آپ نیند سے بیدار ہوئے تو فوراً کلمہ استر جاعانا لله و انا الیه راجعون پڑھا ۔ آپ نے تین مرتبہ اس جملے کو دوہرایا اور خداوند متعال کی حمد کی۔ جناب علی اکبر علیہ السلام نے آپ سے کلمہ استرجاع کی وجہ پوچھی تو امام حسین علیہ السلام نے فرمایا کہ بیٹا! میں نے خواب میں ایک گھوڑا سوار کو دیکھا ہے جو کہہ رہا تھا کہ یہ قافلہ موت کی جانب رواں دواں ہے۔ اس پر شہزادے نے پوچھا : بابا کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟آپ ؑ نے فرمایا کیوں نہیں ہم حق پر ہیں۔تو شہزادے نے فرمایا : فاننا اذن لا نبالى ان نموت محقین پھر ہمیں موت کی کیا پرواہ ہے؟ شہزادے کا یہ مخلصانہ جواب سن کر سید الشہداء نے ان کو دعائے خیر دی جزاک اللہ من ولد خیر ما جزی ولداً عن والدہ(۱۷)
شجاعت شہزادہ علی اکبر علیہ السلامجناب علی اکبر علیہ السلامفرزند علی علیہ السلام کے پروردہ تھے آپ کو شجاعت اپنے دادا مولا علی مر تضیٰعلیہ السلام شیر خدا سے ورثے میں ملی تھی۔علامہ مجلسی نقل فرماتے ہیں:بروز عاشورہ آپ جس طرف رخ فرماتے لو گوں کو خاک ہلاکت میں ملاتے جاتے تھے۔فلم یزل یقاتل حتّٰی ضجّ النّاس من کثرۃ مَن قتل منھم و روی اَنّہ قتل علی عطشہ ماۃوعشرین رجلاً ثم رجع الی ابیہ فلم یزل یقاتل حتٰی قتل تمام الما تینآپ نے اسقدر شجاعت علوی کا مظاہرہ کیا کہ مقتولین کی کثرت پر لوگ گریہ و شیون کرنے لگے اور روایت میں ہے کہ علی اکبر نے پیاس کی شدت کے باوجود ایک سو بیس افراد کو تہ تیغ کیا۔پیاس کی وجہ سے آپ والد گرامی کی طرف گئے پھر دوبارہ میدان میں اترے اور اس قدر جنگ کی کہ مرنے والوں کی تعداد دوسو تک پہنچ گئی۔(۱۸)
حوالہ جات:(۱)موسوعۃ کلمات الامام الحسین علیہ السلام ص۴۰(۲)فضائل ،مصائب و کرامات حضرت علی اکبر علیہ السلام ص۳۱،خورشید جوانان ص۲۰(۳)خورشید جوانان ص۳۲ از اصابہ ج۴ص۱۷۷(۴)سحاب رحمت ص۴۵۸(۵)خورشید جوانان ص۲۹(۶)ایضاً ص۳۰ (۷)ایضاً ص۲۸(۸)ایضاً از ثمرات الاعواد ص۲۲۸(۱۰)مصابیح الہدیٰ ص۲۱۶(۱۱)سوگنامہ ٔ کربلا متن لھوف سید ابن طاووس ص۲۰۸(۱۲)فضائل ،مصائب وکرامات حضرت علی اکبر علیہ السلام تألیف عباس عزیزی ص۳۴(۱۳)سورہ ٔقلم آیت ۴ (۱۴)خورشید جوانان ص۴۱(۱۵)موسوعۃ کلمات امام الحسین علیہ السلام(۱۶)حیاۃالامام امالحسین،ج ۳،ص ۲۴۵.(۱۷) بحار الأنوار،ج ۴۵،ص .۴۳۔ نفس المہموم ص ۱۰۸ (۱۸)ایضاً


 

11 شعبان المعظم وہ تاریخ ہے جب امام حسین علیہ السلام کی آغوش مبارک میں علی اکبر جیسا فرزند آیا، جس نے دنیا میں محض اٹھارہ بہاریں گزاریں اور اپنی پوری زندگی اپنے بابا کے مقصد پر یوں قربان کر دی کہ آج کے جوانوں کے لئے نمونہ بن گیا اور اسی بنیاد پر آج کی تاریخ کو اسلامی دنیا میں علی اکبر علیہ السلام سے منسوب کرتے ہوئے “یوم جوان” کے نام سے جانا جاتا ہے۔
 یوں تو ہر دن ہی جوانوں کا ہے کہ ان کے وجود میں حرکت ہوتی ہے، شادابی و فرحت سے انکا وجود سرشار ہوتا ہے اور ہر آنے والے دن کو وہ اپنی توانائیوں کی بنیاد پر یادگار بنا دیتے ہیں لیکن آج کی تاریخ اس لئے اہم ہے کہ اس جوان کی ولادت سے منسوب جس نے اپنی جوانی کو آئینہ بندگی بنا دیا ایسا آئینہ جو رہتی دنیا تک لوگوں کو منزل کی نشاندہی کرتا رہے گا ،
چنانچہ روز جوان جہاں جوانوں کی اہمیت کو بیان کرتا ہے، وہیں علی اکبر جیسے جوان کی یاد بھی دلاتا ہے جس نے اپنی جوانی دین پر لٹا دی اور ہر شریف النفس جوان کے دل کی دھڑکن بن گیا، اور یہی وجہ ہے کہ آج ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ شام میں حق و باطل کے درمیان سجے معرکہ میں جوانوں کا جوش و ولولہ کیا ہے؟ ان جوانوں کےعزم و انکی  ہمت کو ہمارا سلام،جو کرونا جیسی خطرناک وبا کے دوران بھی دشمن کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں  ۔
علی اکبر علیہ السلام کی راہ پر چلتے ہوئے اپنی جوانی کو راہ اسلام پر لٹا دینے والے ان جوانوں کو سلام، جنہوں نے دنیا کی زرق برق کو ترک کر کے دفاع حرم زینب سلام اللہ علیہا کو اپنی زندگی کا نصب العین بنا لیا، یہی وجہ ہے کہ شہداء حرم بی بی زینب سلام اللہ علیہا کی ایک بڑی تعداد ہمیں ان جوانوں پر مشتمل نظر آتی ہے جنکا سن جناب علی اکبر علیہ السلام کے برابر ہے  یقینا کل اگر جناب علی اکبر علیہ السلام نے حقانیت کی راہ پر مر مٹ کر امر ہو جانے کا سبق نہ دیا ہوتا تو آج یہ روح پرور سماں نہ ہوتا، جو ہم شام وعراق کے میدانہائے جنگ میں دیکھتے آئے ہیں ۔اور کرونا جیسی عالمی وبا کے دوران مختلف علاقوں میں ان جوانوں کے متحرک کردار کی صورت دیکھ رہے ہیں جو ہر منزل پر آواز دے رہے ہیں کہ انسانیت کی خدمت کرنے کا طریقہ ہم نے علی اکبر سے سیکھا ہے لہذا ہمیں موت کا خوف نہیں ہمارے لئے یہی کافی ہے کہ ہم راہ حق پر گامزن ہیں ۔۔۔
 ہمارا کروڑوں سلام و درود حسین ابن علی علیہ السلام کے اس جوان بیٹے علی اکبر (ع) پر جس نے “اولسنا علی الحق” کہہ کر ہمارے جوانوں کو سمجھا دیا کہ تم اگر حق پر ہو تو پرواہ نہیں ہونی چاہیئے کہ تم موت پر جا پڑو یا موت تم پر آ جائے۔ آج جہاں ایک طرف جوانوں سے منسوب اس دن میں ذکر و یاد علی اکبر سزاوار ہے، وہیں بہت مناسب ہے کہ ہم اپنے سماج اور معاشرہ میں غور کریں کہ جوانوں کے مسائل کیا ہیں اور انکی دشواریاں کیا ہیں؟
جوانوں کے مسائل اور انکو در پیش چیلنجز:
یقینا موجودہ دور میں ہمارے جوانوں کے ساتھ بڑی دشواریاں ہیں، انہیں نہیں معلوم وہ کس طرف جائیں کہیں جھوٹے عرفان کا بازار سجا نظر آتا ہے تو کہیں تصوف و طریقت کی باتیں ہیں، کیا ایسے میں ضروری نہیں کہ ہم اپنی جوان نسل پر ایک ذرا توجہ دیں کہ وہ کہاں جا رہی ہے؟ 
کیا یہ بات قابل غور نہیں کہ آج ہمارے جوان سرگردان و حیران ہیں، کہیں وہ کسی پیر سے اپنے مسائل کا حل ڈھونڈتے نظر آتے ہیں، کہیں کسی خود ساختہ صوفی و عارف کے جال میں پھنسے نظر آتے ہیں اور ان سب سے بچ بھی جائیں تو مغربی تہذیب کا غول پیکر دیو انہیں نگل لینے کے درپے نظر آتا ہے، 
وہ دور جو کامیابی کا دور ہوتا ہے اگر اس دور میں کوئی جوان منحرف ہو جائے تو پوری زندگی تباہ ہو جاتی ہے، اس لئے کہ جوانی زندگی کا ایک ایسا مرحلہ ہے کہ جس میں انسان کے پاس قوت، قدرت اور نشاط و فرحت سبھی۔ چیزوں کی فراوانی ہوتی ہے، 
خودجوانی کوطاقت اور اُمید کا سرچشمہ بیان کیا گیا ہے۔ 
جوان کے اندر جذبہ و ارادہ ہوتا ہے، سب کچھ کر گزرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے، بھرپور توانائیوں اور جرات کے ساتھ زندگی کی مشکلات کا سامنا کر نے کا ہنر ہوتا ہے۔ 
اب ایسے میں تمام تر توانائیاں اگر صحیح سمت و صحیح ڈائریکشن نہ ملنے کی بنا پر تباہی کی طرف چلی جائیں اور جوانی کا جوش و جذبہ تعمیر کی بجائے تخریب پر لگ جائے تو انسان اندازہ لگا سکتا ہے کہ کتنی خرابی معاشرہ میں پھیل سکتی ہے۔
مقام افسوس:
کیا یہ مقام افسوس نہیں کہ جن جوانوں کا نمونہ عمل و آئیڈیل جناب علی اکبر و جناب قاسم کو ہونا چاہیئے تھا وہ جوان آج اپنا آئیڈل مغربی سراب میں تلاش کر رہے ہیں، یہ مغرب کی تقلید کو اپنے لئے ٖباعث فخر سمجھتے ہیں جبکہ مغرب کی کھوکھلی تہذیب کا اژدھا جو بھی سامنے آئے اسے نگل رہا ہے، اقدار ہوں تو وہ نہیں بچتے، رشتوں کا تقدس ہو تو وہ نہیں بچتا، انسانی شرافت و کرامت کی تو بات ہی کیا، آج ہماری نئی نسل جس مغرب کے پیچھے بھاگ رہی ہے وہاں کے سمجھدار باسی تو خود اپنے رہن سہن سے پریشان ہیں۔ آج روز روشن کی طرح یہ بات بالکل واضح ہے کہ مغرب نے صرف اور صرف معاشي ترقي پر دھيان ديا اور اپني نوجوان نسل اور معاشرے کو معاشرتي اور اخلاقي لحاظ سے پوري طرح سے تباہ و برباد کرکے رکھ ديا۔ مغربي معاشرہ تمام اخلاقي اقدار اور انساني سعادت مندی کے آثار کھو چکا ہے، ماديت کی چکا چوند نے آنکھوں پر پردہ ڈال ديا ہے ليکن افسوس ہماري نوجوان نسل اب اسي فرسودہ تہذيب و ثقافت کو روشن خيالي، ترقي پسندي اور عظمت سمجھنے لگي ہے جبکہ مغربي تہذيب کا جس نے بھی ذرا گہرائی سے مطالعہ کیا ہو وہ اقبال کی صورت کہتا 
نظر آئیگا:
اٹھا کر پھينک دو باہر گلي ميں نئي تہذيب کے انڈے ہيں گندے
یہ جو آپ روز مغرب کے سلسلہ میں سنتے رہتے ہیں، فلاں جوان نے خودکشی کی اور اپنی خودکشی کے مناظر کو فیس بک پر لائیو ٹیلی کاسٹ کیا، یا پھر ایک جوان نے اپنے سارے بہن بھائیوں کو ایک ہال میں کھڑا کر کے گولیوں سے بھون دیا اور خود کو بھی مار لیا، یا پھر کسی جوان نے اپنے اسلحے سے اپنے کلاس روم کے بچوں کو خاک و خون میں غلطاں کر دیا، یہ مغربی تہذیب کے کھوکھلے پن کی وہ علامتیں ہیں جن کے لئے
 اقبال بہت پہلے کہہ گئےتھے:

تمہاري تہذيب اپنے خنجر سے آپ ہي خودکشي کریگي۔جو شاخ نازک پر آشيانہ بنے گا ناپائیدار ہو گا
کیا یہ حیف و افسوس کی جگہ نہیں کہ وہ تہذیب جو خودکشی کے دہانے پر ہو ہمارے یہاں اس کی تقلید ہو رہی ہے؟۔۔۔ اور ہمارا جوان مغربی کلچر کے پیچھے پاگلوں کی طرح گھوم رہا ہے۔؟
 آج ہمارے تعليمي نصاب، پرنٹ اور اليکٹرانک ميڈيا پر غير ديني عناصر اثر انداز ہيں اور وہ غلط، فاسد اور اخلاق سوز مفاہيم اور مناطر کو اس قدر دلچسپ، جاذب النظر اور قابل تقليد بنا کر پيش کرتے ہيں کہ نئي نسل کو ان کي تقليد کے بارے ميں کہنے کي ضرورت ہي نہيں رہتي بلکہ وہ خود اس غير اسلامي مغربي ثقافت اور تہذيب کو پسند کرنے لگتي ہے اور اسي کو جديد، دلچسپ، قابل عمل اور اعلٰي تہذيب و ثقافت سمجھ کر تقليد کرتي ہے۔ نئي نسل کو اس ثقافتي يرغمالي سے بچانا يقينا تمام صاحبان دين و دانش اور وارثان انبياء عليہم السلام کي اولين ذمہ داري ہے۔ ان غير ديني عناصر کو جديد اور موثر ذرائع سے ہي شکست دے کر آئندہ نسل کو بچايا جا سکتا ہے۔ اس کے لئے ہر ايک کو اپني بساط کے مطابق قيام کرنا چاہيئے۔ ضررت اس امر کي ہے کہ مسلم ممالک ميں حکومتي سطح پر ايسے اقدامات اٹھائے جائيں جو نہ صرف اسلامي معاشرے کو مغربي ثقافت کي يلغار سے محفوظ رکھيں بلکہ نوجوان نسل کي بہتري کے ليۓ صحت مند سرگرمياں فراہم کي جائيں اور اسلامي ماحول ميں رہتے ہوئے ايک مسلمان نوجوان کو تفريح کے تمام مواقع فراہم کئے جائيں، آج جبکہ عریانیت چہار سو اپنے جالوں کو بچھائے، جوان نسل کو کھوکھلا کرنے کے درپہ ہے اور مغربی کلچر بری طرح انہیں تباہ کر رہا ہے ہم سب کے لئے ضروری ہے کہ اپنے جوانوں اور بچوں کی تربیّت قرآن و سنّت کے سائے میں کریں، انہیں اسلامی معارف سکھائیں تاکہ ہماری یہ نئی نسل مستقبل میں کچھ کر سکنے کے قابل ہو سکے۔
 لہذٰا ملّت اسلامیہ کے فرد فرد کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ امّت مسلمہ کے روشن مستقبل کی خاطر اپنی سب سے زیادہ توجہ نئی نسل کی تعلیم و تربیّت پر مرکوز کریں  کہ امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں، “جوان کا دل خالی زمین کی مانند ہے۔ آپ اس میں جو بات بھی ڈالیں وہ قبول کرے گا، پس اُسے ادب سکھائیں، اس سے پہلے کہ اس کا دل سخت ہو جائے”۔ {نہج البلاغہ خط ۳۱}۔ اس لئے کہ ایک نیک، صالح، قرآنی معاشرے کا قیام پاکیزہ اور دیندار جوانوں کے بغیر ممکن نہیں۔ ہمیں چاہیئے کہ نکاح سے لے کر ولادت تک اور ولادت سے لے کر بلوغ تک کے مراحل میں لمحہ بہ لمحہ قرآن و سنّت کا دامن تھامے رکھیں تاکہ ہمارا مستقبل تیرہ و تار ہونے سے بچ سکے۔
ایک نوجوان قلمکار نے کیا ہی خوب بات کہی ہے: “اسلام آباو اجداد کی اندھی تقلید سے پھیلنے والا جامد نظام حیات نہیں، بلکہ تحقیق و تجربے کی بنیاد پر پھیلتی ہوئی ارتقاءِ انسانیت کی علمی و فکری، تہذیبی و ثقافتی اور سیاسی و اجتماعی تحریک کا نام ہے۔ اس ہمہ جہتی تحریک کی نشوونما میں جہاں انبیاء کرام کے علم و فضل، آئمہ اہلبیت {ع} کے عرفان امامت اور علماء کرام کی جدوجہد کا عمل دخل ہے، وہیں پر اسلامی جوانوں کے خون کے نذرانے بھی تاریخ اسلام کے ماتھے کا جھومر ہیں۔  دنیاوی معاملات کی انجام دہی آج جوانوں کی توانائیوں پر منحصر ہے ۔بڑے بڑے کارخانوں اور فکٹریوں میں جوان ہی کام کرتے نظر آتے ہیں انہیں پر بڑی بڑی کمپنیاں سرمایہ کاری کرتی ہیں کسی بوڑھے پر کوئی انوسومنٹ نہیں کرتا جبکہ اسلام میں بھی جوانی ہی کی عبادت کو بہترین عبادت کہا گیا ہے۔ بقول معروف “در جوانی توبہ کردن شیوہ پیغمبری است”  جوانی میں توبہ و خدا کی طرف بازگشت کو شیوہ پیغمبرانہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
کل اور آج کے زمانے کا فرق:
کچھ  لوگ بجائے اس کے کہ جوانوں کی رہنمائی کریں انکو درپیش چیلنجز کا جواب دیں یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ ہم تو اپنی جوانی کے دور میں اتنے آزاد خیال نہ تھے، ہم نے بھی جوانی کا دور دیکھا ہے ہم تو ایسے لا ابالی نہ تھے، ہم تو اتنے غیر ذمہ دار نہ تھے، آج کے جوانوں سے تو اللہ کی توبہ، اس طرح کی باتیں جو ہمارے بزرگ کرتے ہیں تو انہیں ذرا اپنا دور بھی دیکھنا چاہیئے، انکے دور میں اور آج کے دور میں بہت فرق ہے، کل نہ سوشل میڈیا پہ گونا گوں قسم کے مسائل تھے اور نہ اس کا وجود، کل نہ اتنے ٹی وی چینلز تھے اور نہ نیٹ کی آج جیسی سہولت، کل ضروری باتوں کو جاننے کے لئے ایک ہی طریقہ تھا کہ کسی ماہر کے پاس جایا جائے، آج ہر فلیڈ اور ہر میدان کی بیسک و بنیادی معلومات سے دقیق مفاہیم تک چھوٹے سے موبائل اسکرین پر نیٹ کے ذریعہ دسستیاب ہیں، کل خود کو گناہوں سے بچانا آسان تھا کہ اپنے آپ کو ایسی جگہوں پر لے جانا پڑتا تھا جہاں انسان گناہ کر سکے، آج ہر قسم کے گناہ کے لئے محض انسان کو تنہائی کی ضرورت ہے اور وہ انٹرنیٹ کے ذریعہ کہیں بھی پہنچ سکتا ہے اور بڑے سے بڑے گناہ کی منصوبہ بندی کر سکتا ہے۔ کل گناہ کار و مجرم لوگوں کے علاقوں کو بدنام شمار کیا جاتا تھا اور ایسے علاقوں میں جانے والوں کی روک تھام کی جا سکتی تھی، آج برقی لہروں نے ہر قسم کے حصار جرم کو توڑ دیا ہے نہ کوئی جغرافیہ ہے نہ کوئی سرحد ہے، انسان کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا موبائل ہے اور وہ جہاں چاہے جا سکتا ہے اوپر سے ایسے مجرم و خطرناک قسم کے موذی لوگ موجود ہیں جو سیدھے سادے جوانوں کے لئے جال بچھائے بیٹھے ہیں کہ انکے جال میں کوئی پھنسے، تو اپنے شکار کو من چاہے انداز میں حلال کریں۔ اس تمام صورتحال کو سمجھتے ہوئے ہمارے ماں باپ اور بزرگوں کے لئے ضروری ہے کہ اپنے جوانوں کو لاحق خطرات کو باریکی کے ساتھ دیکھیں اور متوجہ ہوں کہ انکی دنیا بہت مختلف ہے اور وہ جس دنیا میں رہ رہے ہیں اس سے ہم بہت دور ہیں اور ہم اندازہ بھی نہیں لگا سکتے کہ آج کے دور کے جوان کو کتنے چلینجز کا سامنا ہے، لہذٰا صبر و تحمل اور بردباری سے کام لیتے ہوئے جوانوں کو تھوڑا وقت دینے کی ضرورت ہے، انکے مسائل کو درک کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے ماں باپ کی ذمہ داری ہے کہ اپنی جوان نسل کی صحیح رہنمائی کی جائے تاکہ یہ لوگ زندگی میں کامیاب و سربلند ہو سکیں اور کیا ہی بہتر ہو کہ رہنمائی اپنے تجربات کے ساتھ دین کے ان اصولوں کی روشنی میں ہو جو جاوداں ہیں اور جنکی پیروی کرنے سے نہ صرف انسان سکون حاصل کرتا ہے بلکہ سربلندی کو کامیابی کو بھی اپنا مقدر بنا لیتا ہے۔ امید کہ جناب علی اکبر علیہ السلام کی ولادت کی مناسبت ایک بہانہ بن جائے اور ہم اپنی زندگی کی روزمرہ کی مصروفیات سے تھوڑا وقت نکال کر اپنی جوان نسل کے مسائل پر بھی غور کریں گے کہ یہی ہمارا مستقبل ہیں اور ہماری زندگی کی کامیابی ان کی کامیابی سے جڑی ہے

 تحریر: سید نجیب الحسن زیدی