سلیمانی

سلیمانی

مہر خبررساں ایجنسی نے تاریخ اسلام کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں ، اے اللہ، اس کو دوست رکھ جو حسین (ع) کو دوست رکھے اور اسے دشمن رکھ جو حسین (ع) سے دشمنی رکھے۔

حضرت امام حسین (ع) تین شعبان المعظم سن 4 ہجری کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے آپ کی والدہ خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا ہیں، آپ کے والد حضرت علی مرتضی (ع) ہیں اور آپ کے نانا سرکار دو عالم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں۔  امام شبلنجی لکھتے ہیں کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی ولادت کے بعد سرورکائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  نے حضرت امام حسین (ع)  کی آنکھوں میں لعاب دہن لگایا اور اپنی زبان ان کے منہ میں دے کر بڑی دیرتک چسایا،اس کے بعدداہنے کان میں اذان اوربائیں کان میں اقامت کہی، پھردعائے خیرفرما کر حسین نام رکھا۔ علماء کابیان ہے کہ یہ نام اسلام سے پہلے کسی کابھی نہیں تھا ،وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ نام خودخداوندعالم کا رکھاہواہے۔ کتاب اعلام الوری طبرسی میں ہے کہ یہ نام بھی دیگرآئمہ کے ناموں کی طرح لوح محفوظ میں لکھا ہواہے۔ 

ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت نے ارشادفرمایا:  میں حسنین (ع) کودوست رکھتاہوں اورجوانہیں دوست رکھے اسے بھی قدرکی نگاہ سے دیکھتاہوں۔ ایک صحابی کابیان ہے کہ میں نے رسول کریم کواس حال میں دیکھاہے کہ وہ ایک کندھے پرامام حسن کواورایک کندھے پرامام حسین کوبٹھائے ہوئے لیے جارہے ہیں اورباری باری دونوں کامنہ چومتے جاتے ہیں ایک صحابی کابیان ہے کہ ایک دن آنحضرت نمازپڑھ رہے تہے اورحسنین آپ کی پشت پرسوارہو گئے کسی نے روکناچاہاتوحضرت نے اشارہ سے منع کردیا۔

جامع ترمذی ،نسائی اورابوداؤد نے لکھاہے کہ آنحضرت ایک دن محوخطبہ تھے کہ حسنین(ع) آگئے اورحسین(ع) کے پاؤں دامن عبامیں اس طرح الجھے کہ زمین پرگرپڑے، یہ دیکھ کر آنحضرت نے خطبہ ترک کردیااورمنبرسے اترکرانہیں آغوش میں اٹھالیااورمنبر پرتشریف لے جاکر فرمایا: ھذا حسین فعرفوہ۔

اللہ تعالی کی طرف سے ولادت امام حسین علیہ السلام کی تہنیت اور تعزیت
علامہ حسین واعظ کاشفی رقمطراز ہیں کہ امام حسین علیہ السلام کی ولادت کے بعد خلاق عالم نے جبرئیل کوحکم دیاکہ زمین پرجاکرمیرے حبیب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کومیری طرف سے حسین علیہ السلام کی ولادت پرمبارک باد دے دو اورساتھ ہی ساتھ ان کی شہادت عظمی سے بھی مطلع کرکے تعزیت ادا کردو، جناب جبرئیل علیہ السلام بحکم رب جلیل زمین پر وارد ہوئے اورانہوں نے اللہ تعالی کی طرف سے  آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ولادت اور شہادت حسینی کی تہنیت اور تعزیت پیش کی، یہ سن کرسرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا ماتھا ٹھنکا اورآپ نے پوچھا، جبرئیل علیہ السلام ماجرا کیا ہے تہنیت کے ساتھ تعزیت کی تفصیل بیان کرو، جبرئیل علیہ السلام نے عرض کی کہ مولا صلی اللہ علیہ وسلم ایک وہ دن ہوگا جس دن آپ کے چہیتے فرزند" حسین علیہ السلام "  کے گلوئے مبارک پرخنجر آبدار رکھا جائے گا اورآپ کا یہ نورنظر بے یار و مددگار میدان کربلامیں یکہ و تنہا تین دن کا بھوکا پیاسا شہید ہوگا یہ سن کرسرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم محو گریہ ہوگئے آپ کے رونے کی خبرجونہی امیرالمومنین علیہ السلام کوپہنچی وہ بھی رونے لگے اورعالم گریہ میں داخل خانہ سیدہ سلام اللہ علیہا ہوگئے ۔
جناب سیدہ سلام اللہ علیہا نے جوحضرت علی علیہ السلام کوروتا دیکھا دل بے چین ہوگیا، عرض کی ابوالحسن رونے کاسبب کیا ہے فرمایا بنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابھی جبرئیل علیہ السلام آئے ہیں اوروہ حسین علیہ السلام کی تہنیت کے ساتھ ساتھ اس کی شہادت کی بھی خبردے گئے ہیں حالات سے باخبر ہونے کے بعد فاطمہ سلام اللہ علیہا کے گریہ گلوگیر ہوگیا، آپ سلام اللہ علیہا نے آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکرعرض کی باباجان یہ کب ہوگا، فرمایا جب  نہ میں ہوں گا نہ آپ ہونگی نہ علی (ع)  ہوں گے نہ حسن (‏ع)  ہوں گے فاطمہ سلام اللہ علیہا نے پوچھا بابا میرابچہ کس خطا پرشہید ہوگا فرمایا : اسلام کی حمایت میں میرے حسین (ع) کا سر قلم کیا جائےگا۔

اسلامی جمہوریہ ایران کی سپاہ پاسداران انقلاب  اسلامی کے سربراہ میجر جنرل حسین سلامی اور سپاہ کی بحریہ کے سربراہ جنرل علی رضا تنگسیری نے سپاہ کی بحریہ کے نئے میزائل شہر کا افتتاح کرتے ہوئے کروز اور بیلسٹک میزائلوں کی رونمائی کی ہے۔ اطلاعات کے مطابق سپاہ کی بحریہ کے نئے میزائل شہر میں مختلف فاصلوں تک مار کرنے والے میزائل موجود ہیں۔ سپاہ کی بحریہ کی تحویل میں مختلف قسم کے میزائل دیئے گئے ، ان میزائلوں کو ایرانی وزارت دفاع کے ماہرین نے ملک کے اندر تیار کیا ہے ۔ ذرائع کے مطابق ایران جنگی وسائل اور پیشرفتہ میزائلوں کی مقامی سطح پر تیاری میں اپنے پاؤں پر کھڑا ہوگیا ہے۔ ایرانی بحریہ کی تحویل میں جو جنگی ساز و سامان دیا گیا ہے ان میں فائرنگ کے بعد ہدف کو تبدیل کرنے والے نئے اور پیشرفتہ میزائل بھی موجود ہیں۔

 

مسجد طور سینا ایتوپی میں پائی جانے والی ایک تاریخی مسجد ہے جس کی مخصوص ساخت آنے والوں کو اپنی طرف جلب کرتی ہے۔

مسجد طور سینا ایتوپی کی مشہورترین مسجدوں میں سے ایک ہے جو ایتوپی کے شہر (ولو) میں واقع ہے۔

مسجد طور سینا لکڑی سے بنائی گئی ہے جو 250 میٹر زمین کو احاطہ کیا ہوا ہے۔ اس مسجد کے  40 لکڑیوں کے ستون ہیں۔

سی طرح مسجد کے اطراف سر سبز و شاداب ہونے کی وجہ سے اس کی خوبصورتی میں اور بھی اضافہ ہوا ہے 

مسجد طور سینا کہ جو ایتوپی کے آثار قدیمہ کی لسٹ میں شامل ہے، اپنے مخصوص ساخت و ساز کی وجہ سے خاص اہمیت کا حامل ہے۔

ایتوپی کے مسلمان قرآن کی تعلیمات حاصل کرنے میں پوری دنیا میں مشہور ہیں ان کی ہر ہر مسجد کے ساتھ ایک مدرسہِ تعلیم قرآن ضرور موجود ہوتا ہے۔ مسجد طور سینا بھی ایک عبادتگاہ ہونے کے ساتھ تعلیم قرآن کا بہترین درسگاہ بھی ہے۔

اس مسجد میں 430 طلباء قرآن کی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔

مسجد طور سینا سن 1943ء میں بنائی گئی۔

اس مسجد کی خصوصیات میں سے ایک ییہ ہے کہ یہ بہت ہی سادی ہے اور کسی قسم کی تزئین و آرایش نہیں ہے۔

آس پاس کے مسلمانوں کو اس مسجد سے خاص لگاو ہے۔

ایتوپی کہ جو پہلے حبشہ کے نام سے مشہور تھا مسلمانوں کا مرکز رہا ہے اور یہ سر زمین بہت سارے بزرگ صحابی رسول اکرم (ص) کا پناہ گاہ رہا ہے اور اس سرزمین کا پہلا بادشاہ کہ جس نے اسلام قبول کیا تھا نجاشی ہے آج بھی نجاشی کا مزار اس سرزمین کے مسلمانوں کی زیارگاہ ہے۔ اس سرزمین سے تعلق رکھنے والے اکثر کا تعلق شافعی مذھب سے ہے اور محب اھل بیت (ع) ہیں اور صوم و صلاۃ کا پابند ہیں۔

جب اسلامی انقلاب اور مقاومت کا نام لینے والا کوئی نہ تھا، جب مظلوم کی ہر آواز کو دبا دیا جاتا تھا، جب جوانوں کو سہارا دینے والا کوئی نہ تھا، جب ہر شخص تنگئ حالات کے باعث نا امیدی و مایوسی کا شکار ہوگیا تھا، ایسے پرآشوب دور میں شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی نے مزاحمت و مقاومت کا نعرہ بلند کیا، اسلامی انقلاب کی پہچان کروائی، سامراج اور عالمی طاقتوں کے زہریلے پروپیگنڈوں کے خلاف پرچم اسلام بلند کیا، امریکہ مردہ باد کے نعروں سے صیہونیوں کو ہلا کر رکھ دیا، بے سہارا نوجوانوں کا ہاتھ تھاما اور ان کو تاریکی و مایوسی کے راستوں سے نکال کر امید کی راہ دکھائی، نوجوانوں کی زندگی کو جمود سے تحرک میں تبدیل کر دیا، خداداد صلاحیتوں کی پہچان کروائی اور فرمایا "خدا کی عطا کردہ عظیم نعمتوں میں سے باصلاحیت نوجوان عظیم نعمت ہیں، جو شخص خدا کی عطا کردہ صلاحیتوں کو قوم، ملک اور اسلام کی خدمت کیلئے بروئے کار لاتا ہے وہ عدل کرتا ہے۔"

مقاومت کے دشوار اور کٹھن مراحل وہی شخص طے کرسکتا ہے، جس کی زندگی صرف خدا کیلئے ہو، جو دنیا اور اس کی لذتوں سے نکل کر شہادت کو اپنی زندگی کا محور قرار دے، یہ شہید ڈاکٹر ہی تھے، جن کی پوری زندگی خدا تعالیٰ کی رضا میں گزری، ان کی زندگی میں رضایت خدا کا ہر پہلو نظر آتا ہے، جب عالمی طاقتوں نے جوانوں کی زندگی کو مفلوج کرنا شروع کیا تو اس دور میں شہید ڈاکٹر نے ان صیہونی طاقتوں کے خلاف جہاد کا علم بلند کیا، ان کی ہر سازش کو ناکام بنا دیا، ناصرف اسلام و انسانیت کی خدمت کی بلکہ میدان جنگ میں فرنٹ لائن پر دشمن کا مقابلہ کیا۔ جب امام خمینی (رہ) نے صدائے "ھل من ناصر ینصرنا" بلند کی اور کہا جو شخص جنگ کی طاقت رکھتا ہے، وہ محاذ پر جائے تو اس فرزند زہراء نے جان ہتھیلی پر رکھ کر مظلومیت کی آواز پر لبیك کہا اور پوری طاقت سے میدان جنگ میں حاضر ہوگئے، انسانیت اور اسلام کی خدمت کرکے "من يشري نفسه إبتغاء مرضات الله" کے مصداق بن گئے۔

شہادت کا اشتیاق اس قدر تھا کہ محاذ جنگ سے واپسی پر بہشت زہراء کے مقام پر فرماتے ہیں، دل چاہتا ہے کہ ان شہداء کے ساتھ زندہ اس قبرستان میں لیٹ جاؤں۔ ہائے افسوس کہ اس قدر شہداء کی چاہت رکھنے والے شہید ڈاکٹر کا نظریہ ابھی تک صرف کاغذ کی زینت بنا۔ آج تمام تنظیمیں، جماعتیں، شخصیات خود کو ڈاکٹر شہید کے نقش قدم پر چلنے والا کہتی ہیں۔ ہر جماعت، ہر شخصیت ان کے نام کا نعرہ بلند کرتی ہے۔ کیا انہوں نے شہید کے نظریئے کو عملی جامہ پہنایا؟ آخر انہوں نے شہید کے نظریئے کی کتنی عہد سازی کی، ان افراد نے شہید ڈاکٹر کی زندگی سے کون سا درس لیا، کتنے جوانوں کو یکجا کیا؟ کتنے جوانوں کی زندگی میں تحرک پیدا کیا؟ کتنے جوانوں کا ہاتھ تھاما؟ کتنے جوانوں کو مقاومت کا راستہ دکھایا؟ کتنے جوانوں کو حوصلہ دیا؟ جذبہ پیدا کیا؟ ان کو منزل دکھائی؟

آخر ان شخصیات نے جوانوں کیلئے کیا کیا؟ بلکہ جب بھی جوانوں کی طرف سے مقاومت کا نعرہ بلند ہوتا، ان کی آواز کو دبا دیا جاتا، حوصلہ افزائی کی بجائے حوصلہ شکنی کی جاتی، جذباتیت کا طعنہ دے کر افکار و نظریات کے ٹکڑے کر دیئے جاتے۔ ہمیں شہید کے نظریئے کو عملی جامہ پہنانا چاہیئے۔ خود کو محدودیت سے نکال کر اسلام اور انسانیت کی خدمت کیلئے وقف کر دینا چاہیئے، جیسا کہ ڈاکٹر شہید کی زندگی میں یہ پہلو روزِ روشن کی طرح واضح تھے، شہید ڈاکٹر مقاومتی شخصیت تھے، شہید ایک روشن چہرہ رکھتے تھے، وہ افکار و کردار میں سچے تھے، وہ مصلحت کے نام پر دوغلے پن سے مبریٰ تھے، وہ جرأت کردار رکھتے تھے، وہ گھر، ہسپتال، تنظیم، تحریک، معاشرہ، محفل، تنہائی، عوام و خواص سب میں وہ ایک ہی محمد علی تھے۔
 
 
تحریر: شاہد عباس ہادی

انجمن شرعی شیعیان کے صدر حجۃ الاسلام والمسلمین آغا سید حسن الموسوی الصفوی نے قرآن مقدس سے کئی آیات بینات کو حذف کرنے سے متعلق زرخرید آلہ کار اور حکومتی وقف بورڈ کے چیرمین وسیم رضوی کے حالیہ بیان کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ قرآن مقدس آخری آسمانی صحیفہ اور قیامت تک نوع بشریت کے لئے وسیلہ ہدایت و نجات ہے جس میں زیر و زبر کی تبدیلی بھی ناقابال معافی جرم ہے۔

آغا صاحب نے وسیم رضوی کے نجس و فتنہ انگیز بیان کو اسلام دشمنی کی حد انتہا اور ارتدادی فکر و ذہنیت کا برملا ثبوت قرار دیا، آغا صاحب نے کہا کہ موصوف نے اعلانیہ طور پر اپنی ارتدادی فکر کا اظہار کیا ہے اور یہ علماء و مفتیان ہند کی شرعی مسؤلیت ہے کہ وہ اس معاملے میں اپنی منصبی ذمہ داریاں پورا کرکے فتویٰ صادر کریں۔

مرکزی امام بارگاہ بڈگام میں بھاری جمعہ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے  جموں و کشمیر انجمن شرعی شیعیان کے صدر نے علمائے لکھنو سے استفسار کیا کہ وہ وسیم رضوی کی حثیت اور اسکے منصب سے متعلق اپنا موقف واضح کرے کیوں کہ شخص مذکورہ مسلک اہلبیتؑ کا لبادہ اوڑھے ہوئے شیعیت کی بد ترین توہین اور تذلیل کر رہا ہے۔

آغا صاحب نے کہا کہ وسیم رضوی اور آر ایس ایس آلہ کار کئی دیگر لکھنوی مولوی متواتر اسلام اور مسلمین کے خلاف ناقابل برداشت بیان بازیوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں صورت حال کا المناک پہلو یہ ہے کہ اس حوالے سے دیگرذمہ دار علمائے دین خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں اور وہی لکھنوی علماے دین کشمیر میں آکر دینی بیداری اور شیعیان کشمیر کی فلاح و بہبود کا نعرا لگا کر یہاں اپنے اثر و نفوذ کی سعی ناکام کر رہے ہی۔

۔

جموں و کشمیر کے تمام شیعہ تنظیموں نے نام نہاد اور خود ساختہ لیڈر وسیم رضوی کی دریدہ دہنی پر شدید احتجاج کرتے ہوئے اسے تختہ دار پر چڑھانے کا مطالبہ کیا ۔

نمائندے کے مطابق شیعہ مکتب فکر کے نامور سماجی و مذہبی تنظیموں بشمول اتحاد المسلمین ،انجمن شرعی شیعیان ،شیعہ ایسوسی ایشن ،شیعہ فیڈریشن جموں ،شیعہ ڈیولپمنٹ اونڈیشن کشمیر، انجمن صدائے حسینی ،پیروان ولایت ،ادارہ امام خمینی، متحدہ مجلس علمائے امامیہ ،پاسداران ولایت، جامعہ امام رضا ،جامعہ باب العلم سمیت درجنوں تنظیموں نے اپنے الگ الگ بیانات میں وسیم رضوی کی جانب سے سپریم کورٹ میں آیات قرآنی کو حذف کرنے کی عرضی کے خلاف شدید غم و غصہ کا اظہار کیا ہے ۔

انہوں نے قرآن مقدس سے آیات حذف کرنا ارتدادی فکر قرار دیا اور کہا کہ اس فکر کو کسی بھی صورت میں برداشت نہیں کیا جائے گا انہوں نے وسیم رضوی کو ملعون اور فتنہ پرور قرار دیتے ہوئے کہا کہ تمام مسلمانوں کا یہ مشترکہ اور پختہ عقیدہ ہے کہ قرآن پاک میں کسی طرح کی کوئی تحریف اور کمی زیادتی نہ ہوئی ہے نہ تا روز قیامت ہوگی ۔بلکہ لاکھوں وسیم رضوی جیسے فرسودہ اور بیہودہ ذہن رکھنے والے افراد بھی متحد ہوجائیں تب بھی قرآن پاک کے ایک لفظ کو حذف نہیں کرسکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ قرآن پاک اربوں کی تعداد میں مسلمانوں کے دلوں پر نقش کنندہ ہے اس کو مٹانے کی دشمن کی تمام ترغیبیں اور تدبیریں بے کار ہیں ۔انہوں نے توہین آمیز عرضی کی شدید مخالفت اور مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی گستاخی ناقابل معافی جرم ہے اس جرم کے مرتکب وسیم رضوی تختہ دار کا حقدار ہے اسے جلد از جلد یہ حق ملنا چاہئے ۔انہوں نے ملے اسلامیہ سے اپیل کی کہ وہ وسیم رضوی کو شیعہ مکتب فکر سے جوڑنے کی کوشش نہ کریں بلکہ علمائے امامیہ ہند نے اس خود ساختہ لیڈر کو پہلے ہی شیعت کے صف سے باہر کا راستہ دکھایا ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


اسلامی دنیا میں مختلف قسم کے مکاتب فکر، مسالک اور نظریات پائے جاتے ہیں۔ ہر مسلک اور مکتب فکر اپنی نظریاتی بنیادوں کی روشنی میں سماجی زندگی کے مختلف شعبوں کیلئے مطلوبہ نظام پیش کرتا ہے۔ عالم اسلام دو بڑے مسلک یعنی اہل تشیع اور اہلسنت پر مشتمل ہے۔ اس تقسیم کی بنیادی وجہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد اسلامی معاشرے کیلئے دو مختلف قسم کے سیاسی نظام متعارف کروانے پر استوار ہے۔ اہل تشیع جو مکتب اہلبیت اطہار علیہم السلام کے عنوان سے جانا جاتا ہے، نظام امامت جبکہ اہلسنت نظام خلافت کے قائل ہیں۔ نظام امامت کی بنیاد اس عقیدے پر استوار ہے کہ نبی اکرم ص نے اپنی زندگی میں اپنی وفات کے بعد امت مسلمہ کی سیاسی اور علمی سربراہی اور سرپرستی کیلئے بارہ معصوم ہستیوں کو متعارف کروا دیا تھا جن میں سے پہلی ہستی امام علی علیہ السلام اور بارہویں ہستی امام مہدی عج کی ہے۔
 
پیغمبر اکرم ص کی وفات کے بعد اسلامی معاشرے میں موجود مختلف زمینی حقائق کے باعث نظام امامت نافذ نہ ہو سکا اور معصوم ہستی کی سربراہی میں الہی حکومت تشکیل نہ پا سکی۔ امام علی علیہ السلام کی عمر کے آخری چند سالوں میں انتہائی محدود مدت کیلئے نظام امامت اسلامی معاشرے پر نافذ ہوا لیکن درپیش رکاوٹیں اور چیلنجز اس قدر شدید اور وسیع تھے کہ امت مسلمہ میں اس الہی سیاسی نظام کی جڑیں مضبوط نہ ہو پائیں۔ جب اڑھائی صدیوں تک اسلامی معاشرے میں نظام امامت کے نفاذ کیلئے مناسب زمینہ فراہم نہ ہو سکا تو خاص مصلحت الہی کے تحت غیبت صغری اور اس کے بعد غیبت کبری کا دور شروع ہو گیا۔ غیبت کبری سے مراد ایسا زمانہ ہے جس میں معصوم ہستی یعنی امام مہدی عج پردہ غیبت میں ہیں اور ظہور کیلئے خدا کے حکم کی منتظر ہے۔ غیبت کبری کے زمانے میں مسلمانوں کو امام معصوم تک رسائی حاصل نہیں ہے جبکہ دوسری طرف دین مبین اسلام آخری اور ہمیشگی دین ہے اور اس کے احکام اور قوانین قیامت تک جاری و ساری ہیں۔
 
لہذا امام مہدی عج نے مختلف احادیث کے ذریعے اپنے پیروکاروں کو بدلتے حالات کے تناظر میں درپیش مسائل سے نمٹنے کیلئے ایسے فقہاء کی جانب رجوع کرنے کا حکم دیا جو متقی، عالم، نفسانی خواہشات کی مخالفت کرنے والے اور عادل ہوں۔ مثال کے طور پر ایک خط میں امام مہدی عج نے فرمایا: "واَمّا الحَوادِثُ الواقِعَهُ فَارُجِعُوا فیها اِلى رُواهِ اَحادیثِنا فَأِنَّهُمْ حُجَّتى عَلَیْكُمْ وَاَنَا حُجَّهُ اللّهِ عَلَیْهِم" (کمال الدین و تمام النعمه، ج 2، ص 483)
ترجمہ: "نئے پیش آنے والے حالات میں ہماری احادیث کے راویوں (فقہاء) سے رجوع کرو۔ پس وہ تم پر حجت ہیں اور میں خدا کی جانب سے ان پر حجت ہوں۔"
یوں نظام مرجعیت کا آغاز ہوا اور پیروان اہلبیت علیہم السلام نے شرعی احکام کیلئے مراجع تقلید سے رجوع کرنا شروع کر دیا۔ مکتب اہلبیت اطہار علیہم السلام میں غیبت کبری کے دوران عادل، متقی اور عالم فقیہ کو نائب امام مہدی عج کی حیثیت حاصل ہے۔
 
غیبت کبری کے آغاز سے لے کر آج تک ہر دور میں ایسے بزرگ فقیہ موجود رہے ہیں جنہوں نے حالات کی مناسبت سے اپنی دینی ذمہ داریاں بھرپور طریقے سے ادا کی ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ امت مسلمہ میں مکتب اہلبیت علیہم السلام کی حقیقی تعلیمات وسعت اختیار کرتی گئیں اور اہل تشیع کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور یوں اسلامی معاشرے میں امام مہدی عج کے نائب کے طور پر شیعہ فقہاء اور مجتہدین کے اثرورسوخ میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ دین مبین اسلام درحقیقت ایک جامع نظام حیات ہے جس میں انسان کی فردی اور سماجی زندگی کے ہر پہلو کیلئے مکمل لائحہ عمل موجود ہے۔ دوسری طرف ایک انسانی معاشرے میں کوئی بھی سماجی نظام یعنی تعلیمی نظام، اقتصادی نظام، ثقافتی نظام یا سیاسی نظام نافذ کرنے کیلئے خاص قسم کے حالات کی ضرورت ہوتی ہے جو اس نظام کے نفاذ کا زمینہ فراہم کرتے ہیں۔ ان ضروری حالات میں سے ایک عوام کی جانب سے فقہاء کی اطاعت اور پذیرائی ہے جو "مقبولیت" یا محبوبیت کی راہ ہموار کرتا ہے۔
 
بیسویں صدی تک شیعہ فقہاء مختلف انداز میں سیاسی شعبے سے متعلق حقیقی اسلامی تعلیمات مسلمانوں تک پہنچاتے رہے۔ اس دوران مختلف شعبوں میں ترقی کے باعث اسلامی علوم بھی اعلی سطح تک پہنچ چکے تھے اور اسلامی معاشروں میں سیاسی شعور بھی بہت حد تک ترقی پا چکا تھا۔ ایرانی معاشرے کے تاریخی پس منظر کے باعث عوام کی اکثریت شیعہ مذہب اختیار کر چکی تھی اور اسے سرکاری مذہب کا بھی درجہ مل چکا تھا۔ ایسے حالات میں مکتب اہلبیت اطہار علیہم السلام کے سیاسی نظام کو متعارف کروانے اور نافذ کرنے کا بہترین موقع فراہم ہو چکا تھا۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فقیہ اور مجتہد عصر امام خمینی رح نے عصر غیبت کے دوران اسلامی تاریخ میں پہلی بار الہی مشروعیت کے حامل نظام ولایت فقیہ کی بنیاد رکھی اور اس نظام کے سائے تلے ایران میں اسلامی جمہوریہ تشکیل پائی۔
 
نظام ولایت فقیہ کی مشروعیت الہی بنیادوں پر استوار ہے۔ اس نظام کی سربراہی ولی فقیہ کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ ولی فقیہ ایسا مجتہد ہے جس میں دین مبین اسلام کی گہری سوجھ بوجھ کے ساتھ ساتھ اجتہاد، تقوی، سیاسی بصیرت، علم، مدیریت، زمانے کے حالات سے بھرپور آگاہی اور اعلی درجے کی معنویت جیسی خصوصیات پائی جاتی ہوں۔ یہ خصوصیات بھی امام مہدی عج اور دیگر ائمہ علیہم السلام کی احادیث میں اسلامی حکمران کی ضروری شرائط کے طور پر بیان کی گئی ہیں۔ نظام ولایت فقیہہ ایسے حالات میں ابھر کر سامنے آیا جب مغربی دنیا میں دین کا فاتحہ پڑھ دیا گیا تھا اور سماجی نظامات سے دین کو حذف کر کے سیکولر نظامات متعارف کروا دیے گئے تھے۔ یوں یہ نظام خداوند متعال کی جانب سے پوری عالم بشریت کیلئے ایک قیمتی تحفہ ہونے کے ساتھ ساتھ ان پر اتمام حجت بھی ثابت ہوا ہے۔
 
 تحریر: سید محمد ضیغم عباس ہمدانی
 

روس کے نوریلسک شہر میں مسجد نورد کمال کی تعمیر کا آغاز ۱۹۹۵ عیسوی میں ہوا ، یہ مسجد ۱۹ اگست ۱۹۹۸ عیسوی کو تیار ہوئی ۔

دنیا کے انتھائے  شمال میں مسجد نورد کمال سے آگے کوئی اور مسجد واقع نہیں ہے ۔ پوری مسجد میں فرش بچھادیا گیا ہے جو لوگوں کے ذریعے مسجد کے لیے ہدیہ کیا گیا ہے ، نوریلسک شھر کی آبادی دو لاکھ افراد  پر مشتمل ہے  جس کی ایک چوتھائی آبادی مسلمان ہے جو علاقائی اور غیر علاقائی ہے ۔ قطب شمالی کے دائرے سے تین سو کلومیٹر کی دوری پر ۱۹۵۳ میں یہ شھر ، روس کے جغرافیائی نقشہ پر ظاہر ہوا ، آج کل یہ شھر قطب شمالی میں آبادی کے لحاظ سے دوسرا بڑا شھر ہے ، یہ شھر روس کے بڑے صنعتی  شھروں میں شمار کیا جاتا ہے جس میں نوریلسک نیکل کی کان کمپنی موجود ہے، آج کل نوریلسک نیکل کمپنی کا دنیا کی نیکل اور پلاٹیں کی پیداوار میں بیس فیصد حصہ ہے۔ وہاں پر تانبا ، کوبالٹ، اور دوسری قیمتی دھاتیں نکلتی ہیں ، یہ بات اتفاقی نہیں ہے کہ نوریلسک شھر کو کارخانوں کا شھر کہتے ہیں ،البتہ مسلماںوں کی روحانی ضروریات نوریلسک کے قیام کے ابتدائی سالوں میں مشکلات سے دوچار تھیں۔

۱۹۹۶ عیسوی میں ارتھوڈکس گرجاگر تعمیر ہوا اس کے دوسال بعد نوردکمال کی زمردی مسجد شھر کی زینت بنی۔

عبد اللہ حضرت گالموف ، روس کے اسلامک یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ، مسجد نوریلسک کے امام کہتے ہیں:  اکثر مسلمان دنیا کے مختلف علاقوں سے یہاں ہجرت کرکے آئے ہیں ، قفقاز سے بہت سے لوگ یہاں آئے ہیں جن میں تاتار ، باشقیر اور آذربائیجانی ہیں ، عام طور پر وہ کام کے سلسلے میں یہاں آئے ہیں مرکزی ایشیا کے مہاجر ، داغستان ، تاتار اور آذربائیجانیوں کی تعداد ۴ ہزار سے زیادہ ہے یہ آبادی مختلف مذاھب سے تشکیل پائی ہے اور شیعہ ، سنی اتحاد و اتفاق سے اس  مسجد میں نماز ادا کرتے ہیں۔

مسجد کے امام کہتے ہیں ، ہماری سماجی زبان ایک ہی ہے ہم ایک گھرانے جیسے رہتے ہیں اور آپس میں بہت نزدیک ہیں۔

مسجد کے دروازے رات دیر گئے تک ہر ایک کے لئے کھلے چھوڑ دیئے جاتے ہیں۔

قرآن کی مقدس آیات لکڑی کے دروازوں پر کندہ کی  گئی  ہیں ، مسجد کے خوبصورت فرش نے اس مسجد کو شھر کے فن تعمیر کا زیور قرار دیا ہے۔

دنیا کی سب سے شمالی مسجد کے فن تعمیر میں اھم  خصوصیات ہیں ، مسجد کی شکل ستارہ جیسی اور اس کامینار چوکور اور اس کی لمبائی ۳۰ میٹر ہے عام طور پر مساجد کے منارے گول ہوتے ہیں لیکن نوریلسک مسجد کا مینار مربع شکل کا ہے جس کی وجہ شمال کی شدید سردی ہے سال کے دو تہائی حصے میں اس شہر کا درجہ حرارت صفر کے نیچے رہتا ہے اور جاڑے میں اس شہر کا درجہ حرارت منفی ۵۵ ڈگری تک پہنچتا ہے اگر اس مسجد کے  مینار گول بنائے جاتے تو اس کی دیوار منجمد ہوجا تی اور شمالی ھواؤں کی نسبت رد عمل دکھاتی  ، مسجد کی چھت اور مینار ڈھال کے طریقے پر بنائی گئی ہیں۔

مسجد کا شبستان گول اور دائرہ کی شکل کا ہے مسجد دو مںزلہ ہے جس میں پہلی منزل مدرسے کے طورپر استعمال ہوتی ہے اور اس میں اصول اسلام ، نماز کے قوانین ، ماہ مبارک میں روزوں کے احکام کے درس دیئے جاتے ہیں.

 

ہر اتوار کو مسلمان ایک ھفتے کے کام کاج کرنے کے بعد “ذکر” کرنے کے لئے مسجد میں جمع ہوتے ہیں یہ مسجد نوریلسک کی بہت سی عمارتوں کی طرح شمع جیسے ستونوں کی بنیادوں پر بنی ہے کیونکہ زمین کی سطح سے کم گہرائی پر برف جمی ہوتی ہے اوراس کی گہرائی  ۳۰۰ سے ۵۰۰  میٹر تک ہوتی ہے لہذا عمارتوں کی بنیادوں کو مستحکم کرنے کے لیے شمع کے مانند ستونوں کا استعمال کیا جاتا ہے ، بنیادوں کو زمین کی گہرائی میں ڈالا جاتا ہے دوسرے الفاظ میں یہ کہا جائے کہ جمی برفیلی پتھروں میں انہیں منجمد کیا جاتا ہے۔

 

نوریلسک میں ہمشہ برف جمی رہنے کی وجہ سے وہا

 

نوریلسک شہر کے دنیا کے باقی شہروں کے ساتھ ایک بڑا فرق یہ ہے کہ وہاں پر قطبی راتیں اور قطبی دن ہوتی ہیں ، یعنی چھ مہینے کا دن اور چھ مہینے کی رات ہوتی ہے ا

ں بھیڑوں کا پالنا ممکن نہیں ہے اس لئے وہ بقر عید پر بھیڑ کی قربانی کے بدلے شمالی ہرن کو قربان کرتے ہیں۔

ور شدید ہوائیں چلتی ہیں جو بہت سرد ہوتے ہیں ، یہ اس علاقے کے مسلماںوں کا ایمان ہی ہے  جو اس مسجد کو گرمی بخشتا ہے تا کہ اتحاد و اخوت کے ساتھ ایک ہی صف میں خالق واحد کے مقابلے میں تعظیم کرکے اسلام کی عظمت کو سلام پیش کریں۔

حضرت امیر (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ اللہ کے عذاب سے بچاؤ کے دو وسیلے اللہ نے قرار دیئے تھے۔ ایک وسیلہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا وجود مقدس تھا اور دوسرا وسیلہ استغفار ہے جو ہمیشہ کے لئے سب کے لئے موجود ہے، تو اس کا دامن تھامے رہو۔
ایک دن اللہ نے شیطان کو اپنی درگاہ سے نکال باہر کیا، شیطان رجیم نے قسم اٹھا کر کہا: میں تیرے مخلص بندوں کے سوا باقی سب کو گمراہ کروں گا۔ اہل بیت (علیہم السلام) کی روایات کے مطابق شیطان کی گمراہی سے تحفظ کے لئے بہت زیادہ استغفار کرنا چاہئے۔ استغفار یا "استغفراللہ" یا "اللہم اغفر لی" جیسے اقوال کو دہرانا یا بخشش و مغفرت کا باعث بننے والے افعال کو انجام دینا۔
استغفار "غَفَرَ" سے ماخوذ ہے جیسا کہ الحمد للہ میں حمد حَمَدَ سے اور تکبیر میں اکبر "کَبُرَ" سے ماخوذ ہے۔ (1)


استغفار اور زندگی میں اس کے قابل قدر اثرات / منافقین پر استغفار کا کوئی اثر نہیں ہوتا
کیا استغفار "توبہ" ہی ہے؟
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ استغفار اور توبہ میں کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ استغفار اور توبہ ایک ہی اور توبہ درحقیقت استغفار پر تاکید کے لئے ہے۔
لیکن کچھ دوسروں کے ہاں ان دو میں فرق ہے؛ اس لئے کہ استغفار توبہ پر مقدم ہے: "استغفر اللہ ربی و اتوب الیہ یا استغفر اللہ و اتوب الیہ"۔ اور استغفار کے توبہ پر تقدم کے معنی یہ ہیں کہ انسان اپنے آپ کو گناہوں سے پاک کرے اور بعدازاں اپنے آپ کو اللہ کے اوصاف سے آراستہ کرے۔ استغفار درحقیقت گناہ کے راستے پر گامزن ہونے کے بعد رک جانا اور توقف کرنا اور اپنے آپ کو پاک صاف کرنا ہے اور توبہ اللہ وجودِ بےانتہا کی طرف پلٹ آنے اور واپس ہونے کے معنی میں ہے؛
استغفار دھولینے کے مترادف ہے اور توبہ کمالات کے حصول کے مترادف ہے، ایک آلودہ شخص اپنے گندے لباس کو اتارتا ہے اور دھوتا نہاتا ہے اور پھر پاکیزہ لباس زیب تن کرتا ہے۔ یا زمین کو جھاڑو لگا کر صاف کرتا ہے اور پھر اس کے اوپر پاکیزہ اور صاف بچھونا بچھاتا ہے۔
توبہ کا حکم قرآن کریم میں سورہ ہود کی آیات 3 اور 52 میں آیا ہے۔ "واَنِ استَغفِروا رَبَّکُم ثُمَّ توبوا اِلَیهِ؛ اور یہ کہ بخشش کے طلبگار ہو اپنے پروردگار سے، پھر اس کی بارگاہ میں توبہ کرو (پلٹ آؤ)۔ (2)
دو دلیلیں توبہ اور استغفار کے درمیان مغایرت کو ثابت کرتی ہیں:
1۔ توبہ استغفار پر معطوف ہے اور ثمّ فاصلے اور ترتیب کے لئے ہے۔
2۔ ہر بولنے والے کے کلام سے نئے معنی مراد ہوتے ہیں۔
اس حساب سے، استغفار اور توبہ کا فرق یہ ہے کہ توبہ سے مراد اپنے برے اعمال سے اللہ کی طرف بازگشت اور پلٹنا مقصود ہے، جبکہ استغفار مغفرت اور بخشش کی درخواست ہے۔ البتہ اس بات میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے کہ کیا استغفار توبہ کے اوپر قائم ہے یا نہیں۔ (3)
استغفار اور توبہ کی اہمیت
اسلامی شریعت میں، استغفار بہترین عبادت اور بہترین دعا ہے، اور اس کی کثرت کی بہت سفارش ہوئی ہے اور اس کا سب سے اہم اظہار اس جملے سے ہوتا ہے: "استغفر اللہ"۔ (4) استغفار کی اہمیت کی انتہا یہ ہے کہ معصومین (علیہم السلام) سے منقولہ دعائیں مختلف عبارات اور الفاظ کی صورت میں، استغفار پر مشتمل ہیں۔  
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور دوسرے انبیاء (علیہم السلام) نے استغفار کی تلقین کی ہے اور عام لوگوں کو اس کا حکم دیا ہے؛ چنانچہ آٹھ آیات کریمہ میں استغفار کی ترغیب دلائی گئی ہے؛ تقریبا 30 آیات میں انبیاء کے استغفار کا تذکرہ آیا ہے اور پانچ آیات میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو استغفار کا حکم دیا گیا ہے۔ (5)
فرشتے مؤمنین (6) اور اہل زمین (7) کے لئے استغفار کرتے ہیں۔
گناہوں کی بخشش کی درخواست [یعنی استغفار]، پرہیزگاروں کی صفت ہے۔ (8)
"قُلْ أَؤُنَبِّئُكُم بِخَيْرٍ مِّن ذَلِكُمْ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا عِندَ رَبِّهِمْ جَنَّاتٌ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَأَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللّهِ وَاللّهُ بَصِيرٌ بِالْعِبَادِ * الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا إِنَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ؛ کہئے کہ کیا میں تمہیں اس سے بہتر چیز بتاؤں؟ جنہوں نے پرہیز گاری سے کام لیا، ان کے لئے ان کے پروردگار کے یہاں وہ بہشت ہے جس کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے اور پاک و پاکیزہ بیویاں اور اللہ کی بہت بڑی خوشنودی؛ اور اللہ خوب دیکھنے والا ہے بندوں کا * [ایسے بندے] جن کا قول یہ ہے کہ [اے] ہمارے پروردگار! بلاشبہ ہم ایمان لائے، اب تو ہمارے گناہوں کو بخش دے اور بچا ہمیں آتش دوزخ کے عذاب سے"۔ (9)
بعض آیات کریمہ میں (10) استغفار کی ترغیب دلائی گئی ہے اور بعض دوسری آیات میں استغفار ترک کرنے والوں کو ڈانٹ پلائی گئی ہے اور استغفار کی ضرورت کو سب کے لئے واضح کیا گیا ہے:
"أَفَلاَ يَتُوبُونَ إِلَى اللّهِ وَيَسْتَغْفِرُونَهُ وَاللّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ؛ تو یہ لوگ توبہ کیوں نہیں کرتے اللہ کی بارگاہ میں، اور اس سے مغفرت کیوں نہیں مانگتے، جبکہ اللہ تو بخشنے والا ہے بڑا مہربان ہے"۔ (11)
وجہ یہ ہے کہ ایک طرف عام لوگ غفلت، نادانی، حیوانی جبلتوں اور نفسانی خواہشوں کی سرکشی ہر وقت گناہ میں مبتلا ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں چنانچہ اللہ تعالی کے ساتھ راز و نیاز اور استغفار اور اس کی ضرورت، ان کی جان و روح و نفس کی صفائی، ستھرائی کے لئے، بدیہیات میں سے ہے، اور دوسری طرف سے کوئی بھی اللہ کے حقوق کی ادائیگی کا حق ادا نہیں کرسکتا، بلکہ ہر شخص اپنی معرفت کی سطح کے تناسب سے، اس مہم کو سر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ چنانچہ حتی حقیقی زاہد اور پارسا انسان بھی اپنی عبادات و اعمال سے شرمندگی کا اظہار کرتے ہیں اور اپنے آپ کو بارگاہ الہی میں ملزم ہی نہیں بلکہ گنہگار سمجھتے ہیں اور استغفار کی ضرورت کا ادراک کرلیتے ہیں۔ (12)
استغفار کی قسمیں
استغفار یا تو قول ہے جیسے "استغفر اللہ" یا پھر وہ فعل و عمل ہے جو انسان کی مغفرت کا باعث بنے۔
اگرچہ استغفار بذات خود مستحب ہے لیکن کبھی یہ بعض عوارض، واقعات اور روئیدادوں کی وجہ سے واجب یا حرام ہوجاتا ہے؛ چنانچہ حکم کے لحاظ سے استغفار کی تین قسمیں ہیں:
استغفارِ واجب
استغفار مُحرِم [یعنی احرام حج پہنے ہوئے حاجی] پر کفارۂ واجب کے طور پر، واجب ہے مثلا حاجی پر احرام کی حالت میں "فسوق و جدال" حرام ہے: "وَلاَ فُسُوقَ وَلاَ جِدَالَ فِي الْحَجِّ؛ حج میں نہ نا فرمانی [اور گناہ] ہے، اور نہ جھگڑا"۔ (13) چنانچہ اگر حج میں کوئی تین بار سے کم فسوق اور گناہ کا ارتکاب کرے تو اس کا کفارہ استغفار ہے اور واجب۔ (14) یا کفارے کے متبادل کے طور پر، ان لوگوں کے لئے جو کفارہ دینے (یعنی غلام آزاد کرنے، 60 روزے رکھے، 60 افراد کو کھانا کھلانے یا 60 افراد کو لباس پہنانے) سے عاجز ہوں۔ (15)
مستحب استغفار
جیسا کہ کہا گیا استغفار بہترین دعا اور عبادت ہے چنانچہ تمام حالات میں بالعموم (16) اور ذیل کے مواقع پر بالخصوص مستحب ہے:
- نماز کے دو سجدوں کے درمیان؛ (17)
- نماز کی تیسری اور چوتھی رکعتوں میں تسبیحات اربعہ کے بعد؛ (18)
- نماز بالخصوص نماز وتر کی قنوت میں؛ (19)
- سحر کے اوقات میں؛ (20)
- جنازے کی مشایعت، تدفین اور زیارتِ قبر کے دوران میت کے لئے استغفار؛ (21)  
- نمازِ استسقا یا نمازِ باران میں؛ (22)
- ماہ مبارک رمضان میں؛ (23)  
- استغفار کو ترک کرنے یا بعض آداب اور سنتیں ترک کرنے اور اپنے سر اور چہرے کو پیٹنے کے کفارے کے طور پر استغفار۔ (24)
حرام استغفار
- قرآن کریم کی رو سے مشرکین اور کفار و منافقین کے لئے استغفار حرام ہے۔ (25)
- خداوند متعال نے مؤمنین کو مشرکین کے لئے استغفار کرنے سے باز رکھا ہے۔ خواہ وہ اپنے اور رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں۔ (26)
- مشرکین کے لئے استغفار بےاثر ہے اور اللہ شرک کو کبھی نہیں بخشتا۔ (27)
- مشرکین کے لئے استغفار ایک بیہودہ عمل اور مہمل کام ہے۔ (28)
- اور پھر مشرکین کے لئے استغفار درحقیقت ان کے ساتھ محبت اور رشتے کا اظہار ہے جس سے منع کیا گیا ہے۔ (29)
منافقین کے لئے استغفار بےاثر ہے
- ارشاد ربانی ہے کہ "کیا خواہ آپ ان کے لئے استغفار کریں یا نہ کریں؛ خدا ہرگز انہیں نہیں بخشے گا۔ (30)
- نیز ارشاد ہوتا ہے کہ خواہ آپ کے لئے استغفار کریں یا نہ کریں، حتی کہ آپ اگر ان کے لئے 70 مرتبہ بھی استغفار کریں، خدا ہرگز انہيں بخشے گا۔ (31)  
عدد "ستر مرتبہ" مبالغے اور فراوانی کے لئے، اس حکم میں مذکور ہے۔ (32)  
قرآن کریم میں استغفار
قرآن کریم میں مغفرت طلبی یا استغفار 68 مرتبہ مذکور ہے: 43 مرتبہ استفعال کی مختلف اشکال میں آیا ہے؛ 17 مرتبہ " إغفر" کی صورت میں، تین مرتبہ "یغفر" کی صورت میں، دو مرتبہ "تغفر" کی صورت میں اور ایک مرتبہ "مغفرۃ" کی صورت میں۔ (33)
قرآن کریم میں استغفار کا حکم "حطۃ" کی صورت میں آیا ہے اور منقول ہے کہ خداوند متعال نے بنی اسرائیل کو استغفار کا حکم دیا تاکہ وہ اللہ کی مغفرت سے بہرہ ور ہوسکیں۔ (34)
آثار استغفار
بہت سی آیات کریمہ اور احادیث شریفہ میں استغفار کے بےانتہا تعمیری اور قابل قدر اثرات کو بیان کیا گیا ہے؛ استغفار معاشرے کی اصلاح، اللہ کی برکتوں کے نزول اور دنیاوی اور اخروی عذاب سے بچاؤ کا ذریعہ ہے۔ (35)
عذآب الہی سے بچاؤ کا وسیلہ
خداوند غفور نے ارشاد فرمایا: "۔۔۔ وَمَا كَانَ اللّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ؛ جب تک کہ لوگ استغفار کریں گے اللہ ان پر عذاب نہیں اتارے گا۔ (36)
اس آیت کے آغاز پر ارشاد ہؤا ہے کہ "وَمَا كَانَ اللّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنتَ فِيهِمْ؛ اور اللہ ان پر عذاب نازل کرے گا جب تک کہ آپ (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ) ان کے درمیان ہونگے۔
مفسرین نے اس آیت کے لئے ایک خاص شان نزول اور کئی احتمالات کا تذکرہ کیا ہے لیکن یہ آیت اس قانونِ عام پر مشتمل ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا لوگوں کے درمیان موجود ہونا اور لوگوں کا استغفار، دونوں شدید بلاؤں اور ناقابل برداشت مصائب کے سامنے ان کی سلامتی اور امن و امان کا سبب ہیں اور وہ شدید فطری اور غیر فطری سزاؤں: تباہ کن سیلابوں، زلزلوں اور جنگوں میں ان کی نجات کا ذریعہ ہیں۔ (37)
وَحَكَى عَنْهُ أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ الْبَاقِرُ [عليه السلام] أَنَّهُ قَالَ كَانَ فِى الْأَرْضِ أَمَانَانِ مِنْ عَذَابِ اللَّهِ وَقَدْ رُفِعَ أَحَدُهُمَا فَدُونَكُمُ الْآخَرَ فَتَمَسَّكُوا بِهِ أَمَّا الْأَمَانُ الَّذِى رُفِعَ فَهُوَ رَسُولُ اللَّهِ (ص) وَأَمَّا الْأَمَانُ الْبَاقِى فَالِاسْتِغْفَارُ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى وَما كانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ فِيهِمْ وَما كانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ؛ امام محمد باقر (علیہ السلام) امام امیرالمؤمنین علی (علیہ السلام) سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: "دو چیزیں زمین میں عذاب سے امان کا سرمایہ تھیں: ان میں سے ایک کو اٹھا لیا گیا، پس دوسری چیز کا دامن تھامے رکھو۔ جو سرمایۂ امان اٹھایا گیا ہے وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) تھے؛ اور جو امان باقی ہے وہ استغفار ہے؛ کہ خداوند متعال نے فرمایا: "میں ان پر عذاب نازل نہیں کروں گا جب تک کہ آپ ان کے درمیان ہونگے، اور ان پر عذاب نازل نہیں کرے گا جب تک کہ وہ استغفار کرتے رہا کریں گے"۔ (38)
گناہوں کی بخشش
سورہ نوح (39) میں حضرت نوح (علیہ السلام) کے استغفار کا حکم دینے کے بعد، اللہ تعالی کے "بہت زیادہ بخشنے والا" کی صفت آئی ہے: "فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّاراً؛ (تو میں نے کہا کہ اپنے پروردگار سے مغفرت مانگو، بلاشبہ «وہ بڑا بخشنے والا» ہے)"۔ "غفار" کا وصف غفور، رحیم (40) اور ودود (41) کی مانند، اللہ کے اہم وعدے اور اللہ کی عظیم بشارت یعنی بندوں کے گناہوں کی مغفرت اور ان پر نزولِ رحمت کی طرف اشارہ ہے۔ (42) ایک حدیث میں گناہوں سے استغفار انسان کی روح و جان پر لگے ہوئے گناہ کے زنگ کو دور کرتا ہے اور روح و قلب کو روحانی تابندگی بخشتا ہے۔ (43)
رزق و اولاد میں اضافہ
سورہ نوح کی آیات 11 اور 12 میں موسلادھار بارشیں برسنے اور خشک سالی سے نجات، فقر و تنگ دستی کے خاتمے اور رزق و آمدنی اور مال و اولاد میں اضافے کی طرف اشارہ ہؤا ہے: "يُرْسِلِ السَّمَاء عَلَيْكُم مِّدْرَاراً * وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَيَجْعَل لَّكُمْ جَنَّاتٍ وَيَجْعَل لَّكُمْ أَنْهَاراً؛ وہ بھیجتا ہے بادل کو تم پر برستا ہوا * اور تمہیں مدد پہنچاتا ہے مال اور اولاد کے ساتھ اور قرار دیتا ہے تمہارے لئے باغ اور قرار دیتا ہے تمہارے لئے نہریں"۔
جیسا کہ ہم نے دیکھا سورہ نوح کی بارہویں آیت میں لاولد ہونے کے مسئلے کے دور ہونے یا اولاد کی کثرت کو استغفار کا ثمرہ قرار دیا گیا ہے۔
خوشحالی اور طویل العمری
حقیقی استغفار اچھی اور خوبصورت، خوشحال، پرامن و پرسکون اور عزت و آبرو سے بھرپور زندگی کے حصول کا سبب ہے۔ (44) جیسا کہ سورہ نوح کی آیت 12 میں ارشا ہؤا ہے اور سورہ ہود کی آیت 3 میں استغفار کے اس ثمرے اور اس خوبصورت مادی دنیا کو متاع حسن قرار دیا گیا ہے: "وَأَنِ اسْتَغْفِرُواْ رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُواْ إِلَيْهِ يُمَتِّعْكُم مَّتَاعاً حَسَناً؛ اور یہ کہ تم اپنے پروردگار سے طلب مغفرت کرو اور اس کی بارگاہ سے رجوع (توبہ) کرے، تاکہ وہ (اللہ) تمہیں متاع حسن (اچھا فائدہ) پہنچائے"۔
بعض مفسرین متاع حسن کو طویل العمری، قناعت و کفایت شعاری جیسی عظیم نعمت، لوگوں سے بےنیازی اور خداوند متعال کی طرف توجہ اور رجوع جیسی عزت و عظمت قرار دیتے ہیں جو اللہ سے بخشش طلب کرنے کا ثمرہ ہے۔ (45)
منقول ہے کہ کچھ لوگ جو خشک سالی، غربت اور تنگ دستی، بچوں کے نہ ہونے سے شکایت کررہے تھے اور حسن بصری سے اپنے مسائل کا حل چاہتے تھے تو اس نے انہیں استغفار کی سفارش کی اور سورہ نوح کی آیات 11 اور 12 کا حوالہ دیا۔  (46)

استغفار کے لئے بہترین مقام اور بہترین وقت
استغفار ایک خاص وقت اور مقام، یا کسی خاص صورت حال تک محدود نہیں ہے؛ لیکن زمان و مکان کے لحاظ سے مختلف حالات اور مواقع میں اس کا اپنا خاص کردار ہے اور ان حالات و مواقع میں استغفار اللہ کے ہاں درجۂ قبولیت پر فائز ہوتا ہے؛ چنانچہ رات کا وقت اللہ کے فیوضات کے نازل ہونے کے لئے بہترین موقع ہے: "إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْر؛ ہم نے اسے شب قدر میں نازل کیا ہے"۔ (47) اور عبد کے عروج کے لئے بھی: "سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلاً؛ پاک ہے وہ جس نے اپنے بندے کو رات کے وقت اپنے بندے کو سیر کرائی"۔ (48)
خدائے متعال سورہ آل عمران کی آیات 15 تا 17 میں ارشاد فرماتا ہے: "وَاللّهُ بَصِيرٌ بِالْعِبَادِ * الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا إِنَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ * الصَّابِرِينَ وَالصَّادِقِينَ وَالْقَانِتِينَ وَالْمُنفِقِينَ وَالْمُسْتَغْفِرِينَ بِالأَسْحَارِ؛ اور اللہ خوب دیکھنے والا ہے بندوں کا * جن کا قول یہ ہے کہ [اے] ہمارے پروردگار! بلاشبہ ہم ایما ن لائے، اب تو ہمارے گناہوں کو بخش دے اور بچا ہمیں آتش دوزخ کے عذاب سے * جو صبر کرنے والے ہیں اور راست باز ہیں اور اطاعت گذار ہیں اور خیرات کرنے والے ہیں اور راتوں کو پچھلے پہر مغفرت کی دعائیں کرنے والے ہیں"۔
اور سورہ ذاریات کی آیات 16 تا 18 میں ارشاد فرماتا ہے: "إِنَّهُمْ كَانُوا قَبْلَ ذَلِكَ مُحْسِنِينَ * كَانُوا قَلِيلاً مِّنَ اللَّيْلِ مَا يَهْجَعُونَ * وَبِالْأَسْحَارِ هُمْ يَسْتَغْفِرُونَ؛ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ اس سے پہلے (کے دور حیات میں بھی) نیکوکار رہے تھے * وہ رات کو بہت کم سوتے تھے * اور [رات کے] پچھلے پہروں کو وہ طلب مغفرت کرتے تھے"۔
"وَالْمُسْتَغْفِرِينَ بِالأَسْحَارِ" اور "وَبِالْأَسْحَارِ هُمْ يَسْتَغْفِرُونَ" میں صراحت کے ساتھ سحر کے وقت کو استغفار کے لئے منتخب کیا گيا ہے اور سورہ یوسف کی آیت 98 میں ارشاد ہوتا ہے کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے اپنے گنہگار بیٹوں سے فرمایا: "سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّيَ؛ میں عنقریب تمہارے لئے اپنے پروردگار سے مغفرت کی التجا (استغفار) کروں گا"۔ اور مفسرین کی اکثریت کے مطابق سحر کے وقت کا استغفار دوسرے تمام اوقات پر ترجیح رکھتا ہے۔
سورہ یوسف کی مذکورہ بالا آیت کے مطابق، جب یعقوب (علیہ السلام) کے خطاکار بیٹوں نے ان سے درخواست کی کہ وہ ان (اپنے والد) کے حق میں اور بھائی یوسف (علیہ السلام) کے حق میں جن گناہوں کے مرتکب ہوئے، ان کی بخشے جانے کے لئے، ان کے لئے استغفار کریں تو یعقوب (علیہ السلام) نے فرمایا: میں مستقبل "میں تمہارے لئے اپنے رب سے استغفار (طلب مغفرت) کروں گا"۔ اس آیت کے سلسلے میں مذکورہ زیادہ تر احادیث میں بیان ہؤا ہے کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے قول "میں عنقریب تمہارے لئے استغفار کروں گا"، میں، (سوفَ یا) "عنقریب" سے "سحر کے اوفات میں استغفار" مقصود تھا۔ (49)
بعض مفسرین کے اقوال کے مطابق "شب جمعہ"، (50) ماہ رجب المرجب کی تیرہویں سے پندرہویں کی شب، (51) اور نماز شب یا تہجد کے اوقات (52) کو استغفار اور بخشش طلب کرنے کے لئے بہترین اوقات ہیں۔
کیا ہمارا استغفار قبول ہوگا؟
بے شک مشرکین، کفار اور منافقین کا استغفار قبول نہيں ہوگا اور اگر کوئی اور بھی ان کے لئے استغفار کرے تو ہرگز قبول نہیں ہوگا لیکن ان کے سوا تمام مؤمنین کا استغفار متعینہ شرائط کے ساتھ، اور توبہ و استغفار کے ساتھ اخلاص اور طلب مغفرت پر ترک گناہ کی صورت میں، قبول ہوگا کیونکہ:
1۔ بعض آیات کریمہ خداوند متعال کی بارگاہ میں استغفار کی قبولیت پر تصریح ہوئی ہے: "وَمَن يَعْمَلْ سُوءاً أَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهُ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللّهَ يَجِدِ اللّهَ غَفُوراً رَّحِيماً؛ اور جو برائی کرے، یا اپنے اوپر ظلم کرے، پھر اللہ سے استغفار (اور بخشش طلب) کرے تو وہ اللہ کو بڑا بخشنے والا پائے گا، نہایت مہربان"۔  نیز ارشاد ہوتا ہے: "وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُواْ فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُواْ أَنْفُسَهُمْ ذَكَرُواْ اللّهَ فَاسْتَغْفَرُواْ لِذُنُوبِهِمْ وَمَن يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلاَّ اللّهُ وَلَمْ يُصِرُّواْ عَلَى مَا فَعَلُواْ وَهُمْ يَعْلَمُونَ؛ اور وہ کہ جب کوئی بڑا برا کام کر ڈالتے ہیں یا اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں تو اللہ کو یاد کرکے اپنے گناہوں پر استغفار کرتے ہیں اور اللہ کے سوا ہے کون جو گناہوں کو معاف کرے جبکہ وہ اپنے کئے ہوئے [برے اعمال] پر جان کر اصرار نہیں کرتے"۔ (53) "فَاسْتَغْفِرُوهُ ثُمَّ تُوبُواْ إِلَيْهِ إِنَّ رَبِّي قَرِيبٌ مُّجِيبٌ؛ تو اس سے مغفرت طلب کرو، پھر اس کی طرف پلٹ آؤ، یقینا میرا پروردگار نزدیک ہے، دعاؤں کا قبول کرنے والا"۔ (54)
نیز سورہ غافر کی آیت 60 میں خداوند متعال قبولیت کا معدہ دیا ہے: "ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ؛ مجھ سے دعا کرو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا"؛ اور استغفار بہترین دعاؤں میں سے ایک ہے؛ (55) چنانچہ بطور اتم و اکمل اس الہی وعدے کے زمرے میں آتا ہے اور بےشک استغفار کی قبولیت کا یہ الہی وعدہ بجائے خود مؤمنین کو استغفار کی طرف راغب کرتا ہے۔
2۔ چونکہ قرآن کی متعدد آیات استغفار کا فرمان دیتی ہیں، (56) لہذا بعید ہے کہ اللہ استغفار کو قبول نہ کرے۔
3۔ اللہ کی بہت سی صفات بشمول "غفور، غافر، غفار، عفوّ، تواب" وغیرہ خود اللہ کی بخشش کا وعدہ دے رہی ہیں اور اللہ کی "بخشش" وہی ہے جس کی التجا "استغفار" میں ہوتی ہے۔
آخری نکتہ:
بہرصورت زبانی استغفار کے لئے عملی استغفار یعنی ترکِ گناہ شرط اور ترک گناہ پر استوار رہنا ہے؛ "وَلَمْ يُصِرُّواْ عَلَى مَا فَعَلُواْ"۔ (57)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
1۔ محمد حسن النجفی، جواہر الکلام فی شرح شرایع الاسلام، ج7، ص33۔
2۔ سورہ ہود، آیت 3۔
3۔ شہید ثانی، مسالک الافہام فی شرح شرائع الاسلام، ج9، ص535؛ محمد حسن النجفی، جواہر الکلام ج33، ص163؛ رسائل فقہیۃ (شیخ انصاری)، ص56۔
4۔ السید ہاشم البَحرانی، تفسیر البرہان، ج‌5، ص‌64‌ـ‌65؛ عبدعلی بن جمعہ الحویزی (یا الہویزی)، تفسیر نور الثقلین، ج‌5، ص‌38۔
5۔ محمود روحانی، المعجم الاحصائی لالفاظ القرآن الکریم، ج‌3، ص‌1058، «غفر»۔
6۔ سورہ غافر، آیت 7۔  
7۔ سورہ شوری، آیت 5۔  
8۔ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ج‌2، ص‌463۔   
9۔ سورہ آل‌عمران، آیت 16-15۔
10۔ محمدفواد عبدالباقی، المعجم المفہرس لالفاظ القرآن الکریم، ص‌634، «غفر»۔
11۔ سورہ مائدہ، آیت 74۔   
12۔ نہج البلاغہ، خطبہ 193۔
13۔ سورہ بقرہ، آیت 197۔
14۔ شیخ حر عاملی، وسائل الشیعۃ، ج7، ص180۔   
15۔ السید محمد کاظم الطباطبائی الیزدی، العروۃ الوثقی، ج1، ص683۔
16۔ محمد حسن النجفی، جواہر الکلام، ج4، ص323۔   
17۔ وہی مؤلف، جواہر الکلام، ج12، ص131۔   
18۔ شیخ حر عاملی، وسائل الشیعۃ، ج10، ص304۔   
19۔ محمد حسن النجفی، جواہر الکلام ج33، ص193۔   
20۔ مناسک مراجع، م372 و مناسک مراجع، م377۔
21۔ محمد حسن النجفی، جواہر الکلام ج33، ص295؛ و ص160-163، ج12، ص34-47۔
22۔ وہی مؤلف، جواہر الکلام ج12، ص88۔   
23۔ وہی مؤلف، جواہر الکلام ج22، ص72۔   
24۔ سید ابوالقاسم الخوئی، مصباح الفقاہۃ ج1، ص519-522۔   
25۔ سورہ توبہ، آیت  113؛ محمد حسن النجفی، جواہر الکلام ج12، ص47-51۔
26۔ سورہ توبہ، آیت 113۔   
27۔ سورہ نساء، آیت 48؛ سورہ نساء، آیت 116۔   
28۔ سید محمد حسین الطباطبائی، تفسیر المیزان، ج‌9، ص‌351۔   
29۔ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ج‌8، ص‌155۔
30۔ سورہ منافقون، آیت 6۔   
31۔ سورہ توبہ، آیت 80۔   
32۔ فخر الدين الرازى، التفسیر الکبیر، ج‌16، ص‌148؛ سید محمد حسین طباطبائی، تفسیر المیزان، ج‌9، ص‌351‌‌-352۔
33۔ محمدفواد عبدالباقی، المعجم المفہرس لالفاظ القرآن الکریم، ص‌634، «غفر»۔
33۔ سورہ بقرہ، آیت 58؛ سورہ اعراف، آیت 161۔
34۔ محمد حسن النجفی، جواہر الکلام ج12، ص132؛ سورہ نوح، آیت 10-12؛ سورہ ہود، آیت 52۔
35۔ سورہ انفال، آیت 33۔   
36۔ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ج‌7، ص‌154‌‌155۔   
37۔ نہج البلاغہ، حکمت 88۔
38۔ سورہ نوح، آیت 10۔   
39۔ سورہ نساء، آیت 110۔   
40۔ سورہ ہود، آیت 90۔   
41۔ محمد بن جرير طبرى، تفسیر جامع البیان، ج‌4، ج‌5، ص‌371۔
42۔ ابن فہد الحلی، احمد بن محمد، عدۃ الداعی و نجاح الساعی، ص‌265۔
43۔ فضل بن حسن الطبرسی، تفسیر مجمع البیان، ج‌10، ص‌543؛ فخرالدین الرازی، التفسیر الکبیر، ج‌30، ص‌137؛ سید محمد حسین الطباطبائی، تفسیر المیزان، ج‌10، ص‌300۔   
44۔ محمد بن احمد انصاری قرطبی، الجامع لأحكام القرآن (تفسیر القرطبی)، ج‌9، ص‌4۔   
45۔ فضل بن حسن بن فضل الطبرسی، تفسیر مجمع البیان، ج‌10، ص‌543۔
46۔ سورہ قدر، آیت 1۔   
47۔ سورہ اسراء، آیت 1۔   
48۔ فضل بن حسن بن فضل الطبرسی، تفسیر مجمع البیان، ج‌5، ص‌403؛ محمد بن احمد انصاری قرطبی، الجامع لأحكام القرآن (تفسیر القرطبی)، ج‌9، ص‌262؛ تفسیر الصافی، ج‌3، ص‌46۔   
49۔ محمد بن جرير طبرى، تفسیر جامع البیان، ج‌8، ج‌13، ص85؛ ج‌5، ص‌403؛ فخر الدين الرازى، التفسیر الکبیر، ج‌18، ص‌209؛ محمد بن احمد انصاری قرطبی، الجامع لأحكام القرآن (تفسیر القرطبی)، ج‌9، ص‌262۔   
50۔ وہی ماخذ، ج‌9، ص‌262؛  سید محمود الآلوسی البغدادی، تفسیر روح المعانی، ج‌8، ج‌13، ص‌79؛
51۔ عبد الرحمان بن ابی بکر بن محمد السیوطی، تفسیر الدر المنثور فی التفسیر الماثور، ج‌4، ص‌585۔
52۔ سورہ نساء، آیت 110۔   
53۔ سورہ آل‌عمران، آیت 135۔   
54۔ سورہ ہود، آیت 61۔   
55۔ السید ہاشم البَحرانی، تفسیر البرہان، ج‌5، ص‌65؛ عبدعلی بن جمعہ الحویزی، تفسیر نور الثقلین، ج‌5، ص‌38۔   
56۔ محمدفواد عبدالباقی، المعجم المفہرس لالفاظ القرآن الکریم، ص‌634، «غفر»۔
57۔ سورہ آل عمران، 135
۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔
110

 نیویارک پوسٹ نے تشویش، ناراضگی اور سراسیمگی سے بھرپور تجزیئے میں لکھا: ایرانی ہر روز دنیا کے مختلف حصوں میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے میں مصروف ہیں۔

وہ عراق، شام، لبنان، بحرین، یمن، وینزوئلا، اور کئی افریقی، یورپی، ایشیائی اور امریکی ممالک میں موجود ہیں اور ان ممالک میں ان کا گہرا اثر و رسوخ ہے۔

ایران نے دنیا کو ثابت کرکے دکھایا کہ امریکہ نامی بڑی طاقت اور امریکی تسلط اختتام پذکر ہوچکا ہے؛ اور وہ امریکیوں کی آنکھوں کے سامنے، اپنے بحری جہازوں کو جہاں بھی چاہے بھیجتا رہے گا؛ اور کوئی بھی ان کے راستے میں رکاوٹ نہيں ڈآل سکے گا۔

ایران نے برطانیہ اور فرانس کی بحری سلطنت کا مکمل خاتمہ کیا اور آج ایران ہی ہے جو آس پاس کے علاقے میں بحری سلامتی کے مقدرات کا تعین کرتا ہے۔

شام، ایران کی عالمی طاقت کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی کوئی بھی طاقت شام اور بشار اسد کے مقدر کا تعین کرے اور یہ ملک اپنے مقدرات کا فیصلہ خود ہی کرے گا۔ ایران نے شام میں دسوں ممالک کا مقابلہ کیا اور انہیں ان کے مقاصد تک نہیں پہنچنے دیا؛ اور یہ بات سب کو سمجھا دی کہ علاقے میں کوئی بھی چیز نہیں بدلے گی جب تک ایران نہیں چاہے گا۔

ایران نے ثابت کرکے دکھایا کہ وہ دور قصۂ پارینہ بن چکا ہے جب امریکہ اپنے طیارہ بردار جہازوں کو روانہ کرکے حکومتوں کو تبدیل کردیتا تھا اور اقوام کے مقدرات کا تعین کرتا تھا؛ اور آج ایران جیسا طاقتور ملک اس کے مد مقابل آ کھڑا ہؤا ہے۔

ایران نے ثابت کرکے دکھایا کہ امریکہ مزید بڑی طاقت (Superpower) نہیں ہے۔

دنیا میں کوئی بھی طاقت اور کوئی بھی فوج نہیں ہے جو ایران کے ساتھ لڑنے بھڑنے کی خواہاں ہو؛ کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ ہر جنگ کا آغاز باعث بنتا ہے کہ ایران اپنے مقاصد تک پہنچ جائے اور اسرائیل کو براہ راست نشانہ بنائے اور ایسی جنگ سے پوری دنیا کو نقصان پہنچے گا۔ ایرانی ہی ہونگے جو جنگ کے دورانیے اور محاذ کی وسعتوں کا تعین کریں گے۔

دنیا کے تمام مسائل اور واقعات سے ثابت ہے کہ ایران عنقریب تمام نیابتی (پراکسی) جنگوں میں ہی نہیں بلکہ اقتصادی جنگوں میں بھی، کامیاب ہوگا اور ایران کا اثر و نفوذ عنقریب وسیع سے وسیع تر ہوگا۔

واضح رہے کہ نیابتی جنگیں استکباری ممالک کی طرف کی جدید جنگوں کے زمرے میں آتی ہے اور دنیا بھر میں کہیں بھی ایران کی طرف سے کوئی نیابتی جنگ نہیں ہورہی ہے۔ ایران جن ملکوں میں تحریک مزاحمت کی حمایت کررہا ہے، وہاں تحریک مزاحمت کی رکن تنظیمیں اپنے ممالک کی آزادی اور خودمختاری کے لئے لڑ رہی ہیں اور ایران ان کی حمایت کررہا ہے چنانچہ یہ مغربی-عبرانی-عربی سازشی محاذ کی تشہیری ایجنڈے کا حصہ ہے کہ ایران کی طرف سے کہیں کوئی نیابتی جنگ لڑی جارہی ہے۔

سورس: تیمورا میڈیا گروپ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: فرحت حسین مہدوی