سلیمانی
ایران کے اسلامی انقلاب میں خواتین کا کردار
امام خمینی اس طرح کی خواتین کے بارے میں فرماتے ہیں، کیا تم نے تاریخ میں یہ مناظر دیکھے ہیں کہ آج ایران میں بچوں کو گودوں میں اٹھائے باپردہ خواتین ٹینکوں اور توپوں کے مقابلے میں طاغوتی حکومت کے خلاف میدان میں ہیں۔ دنیا کی کس تاریخ میں خواتین نے اس طرح کی قربانی اور ایثار پیش کیا ہے۔ ایران کی فہیم و بابصیرت خواتین نے ممتا کو عشق الہیٰ سے منسلک کرتے ہوئے اپنے نوجوان بچوں کو ظالم و جابر حکمرانوں کے مقابلے میں تیار کیا اور ان کو شہادت جیسے جذبے سے سرشار کیا۔ امام خمینی نے بارہا ان انقلابی خواتین کی تعریف کی ہے، آپ نے خواتین کو انقلاب کا صف اول کا دستہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ خواتین مظاہروں میں صف اول تھیں اور انہوں ںے اپنے اس اقدام سے مردوں میں بھی جوش و جذبہ پیدا کیا۔ خواتین نے اپنے بچوں کو شہادت کے لیے تیار کیا اور شہداء کے خون کی پاسداری کرتے ہوئے انقلاب کو تسلسل اور ہمیشگی عطا کی۔ امام خمینی نے ایک تاریخی جملہ ارشاد فرمایا تھا کہ ہمارا انقلاب خواتین کا مرہون منت ہے۔ آپ کے اس جملے سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ ایران کے اسلامی انقلاب میں خواتین کا کردار کتنا اہم ہے اور امام خمینی اس کردار کے کس حد تک قائل تھے۔
ایران کے انقلاب کے مختلف مراحل میں ایرانی خواتین نہ صرف مظاہروں اور احتجاج میں شرکت کرتیں بلکہ مساجد، امام بارگاہوں اور گھروں میں خواتین کے اجتماع منعقد کرکے انقلاب کے اہداف، امام خمینی کے افکار اور اسلامی حکومت کے قیام کے بارے میں خواتین کو آگاہ کرتی تھیں۔ بہت سی خواتین اور ان کے اہل خانہ شاہی حکومت کے جبر کا شکار خاندانوں اور افراد کو پناہ دیتیں اور ان کی مشکلات کو حل کرنے میں اہم کردار کرتیں۔ ایران کی مجاہد خواتین مردوں کے ساتھ شانہ بشانہ انقلابی تحریک میں سرگرم عمل رہتیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے خواتین نے انقلاب کی کامیابی کے لیے شہادت کا جام نوش کیا۔ اسلامی انقلاب کی تاریخ میں یوں تو کئی نام ہیں، لیکن ایک قبائلی عورت باختری بیگلری کا ذکر کرتے ہیں۔ تیس سالہ باختری نے اپنے دو بچوں کے ہمراہ حضرت زینب کی پیروی کرتے ہوئے شاہ کے ظلم حکومت کے خلاف آواز اٹھائی، جس کے جواب میں شاہی کارندوں نے اس پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی، اس فائرنگ میں نہ صرف محترمہ باختری شہید ہوگئیں بلکہ ان کے دو بچے بھی راہ اسلام میں قربان ہوگئے۔ لرستان کی اس شہید خاتون کو انقلاب اسلامی کی پہلی شہیدہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی اس طرح کی خواتین کے شجاعانہ کردار کے پیش نظر فرماتے تھے کہ ہماری عزیز خواتین اس بات کا باعث بنیں کہ ہمارے مردوں میں مزید جرات و شجاعت پیدا ہوگئی۔ میں خواتین کی زحمات کا قدردان ہوں اور یہ کامیابیاں ان کی مرہون منت ہیں۔ اسلامی انقلاب میں بھی ایرانی خواتین کا کردار کافی نمایاں رہا۔ خواتین نے مختلف میدانوں منجملہ سیاسی، سماجی، علمی اور ثقافتی میدانوں میں نمایاں کامیابیاں حاصل کیں۔ ایران کی خواتین اسلامی انقلاب کے برپا کرنے، اسے کامیابی سے ہمکنار کرنے اور اس انقلاب کو مستحکم کرنے میں بھی نمایاں کردار کی حامل ہیں۔ ایران کے اسلامی انقلاب میں خواتین کی بھرپور شرکت نہ صرف اسلامی انقلاب اور اسلامی حکومت کے لیے موثر اور فائدہ مند ثابت ہوئی بلکہ اس کے ساتھ ان حلقوں کے لیے بھی ایک واضح پیغام تھی، جو اسلام کے بارے میں اس غلط نظریئے کے قائل ہیں کہ اسلام خواتین کو چاردیواری کے اندر قید رکھنے کا قائل ہے۔ ایران کی خواتین کے عملی کردار نے دنیا کو بتا دیا کہ اسلام میں اسلامی تعلیمات کا خیال رکھتے ہوئے مردوں کے شانہ بشانہ اجتماعی سرگرمیاں انجام دی جا سکتی ہیں۔
ایران کے خلاف مسلط کردہ جنگ میں بھی ایرانی خواتین نے نہ صرف اپنے جوانوں اور مردوں کو میدان جنگ کی طرف جانے میں حوصلہ افزائی کی بلکہ ان کی عدم موجودگی میں بچوں کی تربیت اور گھر اور گھرانے کو چلانے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ بعض ایرانی مائوں نے اپنے دو دو اور تین تین نوجوان راہ خدا میں شہادت کے لیے پیش کیے۔ ایرانی خواتین نے اپنی اور اپنے اہل خانہ کی قربانیوں سے انقلاب کے اغراض و مقاصد اور امنگوں کو زندہ رکھا۔ ایران کے اسلامی انقلاب کے بعد ایرانی خواتین نے تعلیم و تعلم کے شعبے میں بھی نمایاں کردار ادا کیا۔ امام خمینی ایک مقام پر فرماتے ہیں کہ خواتین اسلامی مملکت کی تقدیر کو سنوارنے میں شریک ہوں۔ آپ خواتین سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں کہ آپ نے جس طرح انقلاب کی کامیابی میں اپنا کردار ادا کیا، اب انقلاب کو مضبوط و مستحکم بنانے میں بھی اپنا کردار ادا کریں، وقت کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کے مطابق اپنے عمل و کردار کو استوار کریں۔
امام خمینی اور آپ کے بعد رہبر انقلاب اسلامی کی خواتین کے حقوق اور صلاحیتوں پر خصوصی توجہ اس بات کا باعث بنی کہ خواتین مختلف شعبوں میں فعال و سرگرم ہوئیں اور اںہوں نے کارہائے نمایاں انجام دیئے۔ اس وقت تعلیم کے میدان میں ایرانی خواتین کی کارکردگی تمام اسلامی ممالک سے کہیں بہتر ہے۔ اس وقت تعلیم کے شعبے میں ایرانی خواتین کا حصہ 68 فیصد ہے۔ خواتین کی شرح خواندگی انقلاب سے پہلے 34 فیصد تھی، جو اب 80 فیصد سے تجاوز کرچکی ہے۔ عالمی ادارے یونسکو کے ایک سروے کے مطابق 2012ء میں ایرانی خواتین تعلیمی شعبے میں اپنے موثر کردار کی وجہ سے دنیا کے ان چھ ممالک کی فہرست میں شامل ہیں، جہاں عورت کو مکمل تعلیمی سہولیات میسر ہیں اور ان کا خاتون ہونا ان کے تعلیمی کیریئر میں کہیں رکاوٹ نہیں بنتا۔
رہبر انقلاب اسلامی کی طرف سے علمی سرگرمیوں میں خصوصی توجہ کی وجہ سے گذشتہ سالوں میں کئی ایرانی طالبات نے بین الاقوامی سطح پر ہونے والے علمی اور تعلیمی مقابلوں میں نمایاں پوزیشن حاصل کی ہیں۔ ایران نے انقلاب کے بعد سائنس و ٹیکنالوجی کے جن شعبوں میں بالخصوص نانو، ایٹمی، ائیروسپیس اور فزکس و کمیسٹری میں جو نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں، اس میں خواتین کا کردار بھی نمایاں ہے۔ مختلف شعبہ جات میں نئی نئی ایجادات میں بھی ایرانی خواتین مردوں کے شانہ بشانہ آگے بڑھ رہی ہیں۔ ایرانی خواتین کو تمام انسانی، سماجی، شہری اور بنیادی حقوق حاصل ہیں۔ ایرانی خواتین بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہیں اور ملازمتوں کے حصول میں بھی ان کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ ایرانی خواتین یونیورسٹیوں میں اپنی علمی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کر رہی ہیں، ریسرچ کے شعبے میں ایرانی خواتین کا کردار خطے کے تمام ممالک سے کہیں زیادہ ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی باصلاحیت، تعلیم یافتہ اور بہترین افکار و نظریات کی حامل خواتین کی موجودگی کو ایران کی اسلامی حکومت کے لیے ایک الہیٰ نعمت سے قرار دیتے ہیں۔ ایرانی خواتین اسلامی تعلیمات، قومی وقار، دینی اقدار اور ملکی ثقافت کی پاسداری کرتے ہوئے ملک و وطن کی خدمت میں مصروف ہیں۔ رہبر انقلاب اسلامی فرماتے ہیں کہ آج ایران کی پہچان اور ثقافت کا پرچم ایرانی خواتین کے ہاتھ میں ہے۔ ایرانی خواتین اپنے اسلامی پردے کی حفاظت کرتے ہوئے اور اپنی دینی و ثقافت کی پاسداری کرتے ہوئے دنیا کے لیے اپنے افکار و نظریات برآمد کرنے کا فریضہ انجام دے رہی ہیں۔ ایرانی خواتین اپنے عملی کردار میں دنیا کو بتا رہی ہیں کہ عورت مختلف شعبوں میں فعال اور سرگرم کردار ادا کرسکتی اور معاشرے کے لیے موثر اور سود مند ثابت ہوسکتی ہیں۔ آج ایران میں خواتین مختلف شعبوں میں موثر کردار ادا کر رہی ہیں۔ وہ اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر اپنی سرگرمیاں بھی انجام دے رہی ہیں اور اسلامی پردے کی بدولت مردوں کی غلط نگاہوں سے بھی محفوظ ہیں۔
ایرانی خواتین نے اپنے آپ کو اپنی سطح سے گرایا نہیں اور مردوں کی لذت کا سامان بننے کی بجائے عورت کا ایک پروقار کردار پیش کیا ہے اور بلا شک و شبہ یہی ایرانی اور اسلامی عورت کی بنیادی خصوصیات اور صفات ہیں۔ ایران کے اسلامی انقلاب کی تاریخ ثابت کرتی ہے کہ ایرانی خواتین نے اپنے آپ کو انقلاب اور انقلاب کے بعد اسلامی معاشرے کے لیے ایک موثر اور سود مند فرد کے طور پر ثابت کیا ہے اور حکومت کے مختلف شعبوں میں اپنے حقوق کو حاصل بھی کیا ہے اور اپنے فریضے کو بھی احسن طریقے سے انجام دیا ہے۔ بہرحال مکتب تشیع میں نہ صرف یہ کہ خواتین کو سیاسی دھارے سے باہر نہیں کیا جاتا بلکہ یہ مکتب خواتین کو معاشرے میں ایک بلند انسانی مقام دینے کا قائل ہے۔ امام خمینی نے اس سوال کے جواب میں کہ اسلامی انقلاب میں خواتین کا کیا کردار ہوگا، کہا تھا کہ خواتین مختلف امور میں اپنی ذمہ داریاں انجام دینے میں آزاد ہیں۔ ہم خواتین کی حقیقی آزادی کے قائل ہیں، نہ کہ شاہ کے ظاہری اقدامات کی طرح۔
خواتین عالم کیلئے مثالی شخصیت سیدہ فاطمہ زہرا (س) کی ذات ہے، علامہ ساجد نقوی
قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے دختر رسول اکرم حضرت فاطمہ زہرا ؑ کے یوم ولادت 20جماد الثانی پراپنے پیغام میں کہا ہے کہ جناب سیدہؑ کا دختر رسول ہونے کے حوالے سے احترام اور عقیدت اپنی جگہ ہے لیکن ان کا یہ پہلو سب سے منفرد اور نمایاں ہے کہ وہ عالم نسواں کے لئے قیامت تک نمونہ عمل ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ انہوں نے عمل اور اخلاق کے میدان میں اپنی زندگی کے جو اصول اور نقوش چھوڑے ہیں وہ دائمی اور ابدی ہیں کسی زمانے ‘ معاشرے یا علاقے تک مخصوص اور مختص نہیں ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ خاتون جنت سیدہ فا طمة الزہرا ؑ کی یاد اور پیغام کو زندہ رکھنے کے تین طریقے ہیں پہلا یہ کہ ان کی ذات اقدس سے عقیدت و احترام اور محبت کا اظہار کیا جائے اور ان سے مکمل وابستگی دکھائی جائے۔ دوسرا یہ کہ ان کواسلام‘ انسانیت اور طبقہ نسواں کی خدمت کرنے پر خراج عقیدت و تحسین پیش کیا جائے۔ تیسرا یہ کہ ان کے چھوڑے ہوئے قطعی وحتمی نقوش اور اصولوں کو تلاش کرکے ان کا مطالعہ کیا جائے اور ان کو آج کے دور میں نافذ کرنے اور ان کی تطبیق کرنے کے طریقے تلاش کئے جا ئیںکہ جس سے شریعت سہلہ کا تصور اجاگر ہو اور شریعت کی پابندی بھی برقرار رہے انسان شتر بے مہار نہ بنے بلکہ اسلامی احکامات کا پابند رہے جبکہ آسان شریعت کو بھی ساتھ ملا کر چلے۔
علامہ ساجد نقوی نے مزید کہا کہ موجودہ سنگین دور میں جب خواتین میں فکری انتشار پیدا ہوچکا ہے اور ترقی و جدت کے نام پر عورتوں کا ہر معاشرے میں بالخصوص یورپ اور مغربی معاشروں میں شدت سے استحصال کیا جارہا ہے ایسے حالات میں سیدہ فاطمہ زہراؑ کی سیرت اور کردار ہی واحد ذریعہ ہے جو دنیا بھر کی خواتین کو انحراف ‘استحصال‘ تعیش اور گناہوں سے بچاسکتا ہے۔ آزادی نسواں کی حدود و قیود ہر سوسائٹی نے مقرر کر رکھی ہیں سوائے ان لوگوں کے جو مادر پدر آزاد ہیں اور کسی ضابطے‘ اخلاق اور قانون کے پابند نہیں اور یہی لوگ ایسے معاشروں کی تشکیل میں مصروف ہیں جہاں عورت کو فحاشی کے لئے استعمال کیا جائے ‘ اسکی عزت و حرمت کو پامال کیا جائے اور مرد و زن کے اختلاط سے معاشروں میں بگاڑپیدا کیا جاسکے لہذا ان حالات میں امت مسلمہ خواتین کی آزادی کے ان اصولوں کی روشنی میں جدوجہد کرے جو جناب سیدہ فاطمہؑ کی زندگی سے اخذ کئے گئے ہیں کیونکہ سیدہ فاطمہ ؑ کی پرورش آغوش رسول میں ہوئی۔ خواتین کو چاہیے کہ وہ اپنے خاندانی‘ ذاتی معاملات سے لے کر اجتماعی معاملات تک ہر موقع پر سیدہؑ کی شخصیت کو مدنظر رکھیں ۔
دخترِ رسول بحثیت مادر
ہم یہ نکتہ اکثر بھول جاتے ہیں کہ جس طرح ہر بیج کے اندر ایک درخت چھپا ہوتا ہے اسی طرح ایک ماں یا عورت کے اندر پوری قوم کی زندگی پوشیدہ ہوتی ہے۔ عقل و منطق ہم سے تقاضہ کرتی ہے کہ درخت کی دیکھ بھال کے ساتھ بیج کی عزت و تعظیم کی جائے، عورت کو اس کے حقوق دئیے جائیں اور ایک ماں ہونے کے ناطے بچوں کی دیکھ بھال کا موقعہ فراہم کیا جائے. ایک ماں کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے کہ بچے کی تربیت یہ سوچ کر کرے کہ یہ بچے قوم کا مستقبل ہیں، یہ بچے قوم کا اثاثہ ہیں، اگر ماں نے بچے کی تربیت صحیح انداز میں کردی تو گویا اس نے پوری قوم کو نجات یافتہ بنا دیا اور اگر کسی ماں نے بچے کی تربیت صحیح انداز میں نہ کی تو اس نے پوری قوم کی زندگیاں چھین لیں۔
اگر بات کو خاکی عہدہ داروں سے نکال کر نوری ذوات مقدسہ تک لے جایا جائے تو 20 جمادی الثانی کے دن گھرانہ نبوت میں ایک ایسا نور چمکا کہ جس نے عالم انسانیت میں چاروں طرف روشنی بکھیر دی اور ازل سے ابد تک پیدا ہونے والی ساری مخلوق کے لئے یہ نور مربی قرار پایا۔ اس دن ہمیں ماؤں اور خواتین کا عالمی دن منانا چاہیے اگر کسی دن کو یوم مادر یا روز نسواں کہا جا سکتا ہے تو وہ صرف دختر رسول سیدہ فاطمہ زہراءسلام الله عليها کی ولادت کا دن ہے، روز مادر کیلئے اس دن سے بہتر اور کوئی دن نہیں کیونکہ آپ بحثیت مادر تربیت اولاد کیلئے رہنماء اصول ہیں۔ سیدہ زہراء(س) ماں کی حیثیت سے رہتی دنیا تک لئے ایسی لافانی مثال ہیں کہ ماں کی آغوش سے اولاد کو معراج ملتی ہے۔ ہمیں سیدہ فاطمہ زہراء سلام الله عليها کو رول ماڈل بنانا ہوگا، ان کا ایک ایک فعل ہی نہیں بلکہ حرکات و سکنات بھی مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔
سیدہ زہراء کی سیرت کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اپنے بچوں کی تربیت میں کوئی پہلو نظرانداز نہیں کیا اور اس قدر کردار کو سنوارا کہ ہر ایک نے اپنے زمانے میں تاریخ رقم کی اور معاشرے کی آلودہ اور تاریک فضاؤں کے باوجود دین کی صورت نور کے مینار کھڑے کیے، آپ کی سیرت کا حصہ ہے کہ جناب سیدہ حسنین کریمین(عليهما السلام) کو دن میں سلا دیتی تاکہ شب قدر میں رات بھر جاگ سکیں، مسجد سے واپسی پر جناب سیدہ بچوں سے رسول خدا اور علی مرتضی کے بیانات اور دینی پیغامات کے متعلق پوچھتی، افطار کے وقت یتیم، مسکین، اسیر کو کھانا دینے میں پہل کرنے کے آداب سکھاتی اور کہتیں اے بیٹا تم باپ کی طرح ہونا تاکہ حق کا دفاع کرنا، الله کی عبادت کرنا اور ان افراد سے دوستی نہ کرنا جو کینہ پرور ہوں۔ تربیت کے اس انوکھے اور انرالے انداز نے عالم انسانیت کو ماؤں اور بچوں کی تربیت کے آداب و طریق سکھا دئیے۔
جناب فاطمہ جانتی تھیں کہ مجھے اس حسین ع کی تربیت کرنا ہے کہ جو اسلام کی ضرورت کے وقت اپنی اور اپنے عزیزوں کی جان دین اسلام کے دفاع اور ظلم سے مبارزہ کرکے فدا کرسکے اور اپنے عزیزوں کے پاکیزہ خون سے اسلام کے درخت کو سیراب کرسکے، بی بی سیدہ(س) جانتی تھیں کہ انھیں ایسی خواتین زینب اور ام کلثوم تربیت کرنی ہیں جو اپنے پرجوش خطبوں اور تقریروں سے بنی امیہ کے ظلم و ستم کی حکومت کو رسوا کردیں اور انکے ناپاک ارادوں کو ناکام بنا دیں۔ جناب فاطمہ(س) گھریلو یونیورسٹی میں زینب(س) کو فداکاری، شجاعت اور یزید کے ظلم سے مرعوب نہ ہونے کا درس دے رہی تھیں تاکہ اپنی شعلہ بیانی سے دوست اور دشمن کو رلائے، بنوامیہ کے ظلم و ستم کی داستان کو کچل دینے کا درس دے رہی تھیں تاکہ ظلم سے ہمیشہ نجات ملے اور مستقبل میں مرد و زن ملکر ہر ظلم و بربریت کی داستان کو پاؤں تلے روند دیں۔ سیدہ زہراء(س) جانتی تھیں کہ متحمل مزاج فرزند امام حسن علیہ السلام جیسا تربیت کرنا ہے تاکہ اسلام کے حساس موقع پر اپنے جگر کا خون پیتا رہے اور اسلام کی خاطر جنگ پر صلح کو ترجیح دیکر عالم کائنات کو بتلا دے کہ اسلام جب تک ممکن ہو جنگ پر صلح کو ترجیح دیتا ہے۔
سیدہ زہراء(س) کی زندگی خواتین کے لئے ایسے ہی نمونہ عمل ہے جیسے ختمی مرتبت حضرت محمد صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم کا کردار و سیرت پوری انسانیت کے لئے مشعل راہ ہے۔ معصومہ عالم کا کردار ولادت سے شہادت تک اس قدر نورانی اور جاذبِ قلب و نظر ہے کہ خود رسول اکرم(ص) نے جناب فاطمہ(س) کی زندگی کو ہر دور اور ہر زمانے ميں اسوہ کامل قرار ديا ہے۔ ہمیں عملی طور پر سیدہ فاطمہ زہراء س کا پیروکار ہونا چاہیے، ہمیں اس راستے پر آگے بڑھنا چاہیے، خدا تعالی کی اطاعت کرنی چاہیے، اپنے دلوں میں روز بروز خدا تعالی کی محبت میں اضافہ کرنا چاہیے، کیا ہم نہیں کہتے کہ انہوں نے خدا کی محبت میں اتنی عبادت کی کہ پاؤں میں ورم آ گئے؟ کیا ہم نہیں کہتے کہ وہ نقاہت کے عالم میں مسجد گئیں تاکہ حق کا دفاع کرسکیں؟ کیا ایسا نہیں ہے کہ وہ تن تنہا اپنے زمانے کے بڑے سامراج کے سامنے کھڑی ہوگئیں؟ ہمیں بھی حق کا دفاع کرنا چاہیے، ہمیں بھی ان کی طرح جیساکہ ان کے شوہر امام علی علیہ السلام نے کہا کہ وہ ساتھیوں کی کم تعداد سے نہیں ڈرتی تھیں، ہمیں بھی اپنی کم تعداد کی وجہ سے سامراج اور عالمی طاقتوں سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے۔
تحریر: شاہد عباس ہادی
حضرت زہراء (س) کی حیات طیبہ کے چند لازوال پہلو (اسوه حسنه)
مؤثر اور عہد ساز انسانوں کی زندگی کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض انسانوں کی سیرت اور کردار کی اثر آفرینی مختصر لمحوں کے بعد معدوم ہو جاتی ہے اور بعض افراد کے کردار کی پختگی دوچار نسلوں تک اثر آفریں ہوتی ہے لیکن کچھ ایسے کامل افراد بھی تاریخ میں دیکھنے کو ملتے ہیں کہ جن کی شخصیت ان کی سیرت و کردار کے آئینہ میں یوں ظاہر ہوتی ہے کہ اس کی تابناکی زمان و مکان کی حدود سے گذر جاتی ہے اور ہر عہد و عصر، ہررنگ و نسل اور ہر تہذیب انسانی کے لئے برابر کے شریک ہو کر، درخشاں تابناک، اسوہ حسنہ بن جاتی ہے۔ حضرت زہرا سلام الله علیها کی حیات طیبہ بھی انفرادی اور سماجی لحاظ سے اس قدر پر فروغ اور حیرت انگیز ہے کہ اسکی تعبیر الفاظ میں نہیں کی جا سکتی ہے۔ حضرت زہرا سلام الله علیها کی نورانی شخصیت کا تأثر وقت کی سطح پر بہتا ہوا وہ دریائے ناپیدا کنار ہے جس سے ہر شخص بقدر بضاعت فیضیاب ہو سکتا ہےـ
تمام انسانی کمالات اورخصوصیات میں بینظیر اور بیمثال ہونے کے ناطے، حضرت زہرا سلام الله علیها کی ذات گرامی جویندگان راہ کمال انسانیت اور رہروان راہ وصول الی الخالق، کیلئے بہترین سرمشق اور مشعل راہ کی حثیت رکھتی ہےـ یہ وہ ہستی ہے کہ جسکی تعظیم کے لئے رسالت نے قیام فرمایا اور انکے حجت خدا ہونے کا واضح ثبوت پیش کردیا۔ یہ وہ ہستی ہے جس کی مدح میں قرآن ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر نظر آیا۔ یہ وہ ہستی ہے جسے معصومین نے اپنا اسوہ قرار دیا چنانچہ امام مہدی علیہ السلام سیرت حضرت فاطمہ سلام الله علیها کے اسوائیت کے پہلو کو اجاگر کرتے ہوئے فرماتے ہیں، "ان لی فی بنت رسول الله اسوہ حسنه"۔ بنت رسول کی زندگی میرے لئے بہترین اسوہ حسنہ ہے۔ نیز علامہ اقبال بھی اسی اسوائیت کے پہلو کو اپنے ایمان افروز اشعار میں نمایاں طور پر بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:
مزرع تسلیم را حاصل بتول
مادران را اسوہ کامل بتول
اس مختصر مضمون میں ہم حضرت زہرا سلام الله علیها کی حیات طیبہ کے مختلف پہلوؤں میں سے چند اہم اور عصر حاضر کے لئے راھگشا نمونے بقدر بضاعت نگارش میں لانے کی کوشش کرینگے، جو نہ فقط ہماری زندگی کو صبغہ اسلامی سے مزین کرینگے بلکہ بہت سارے معاشرتی مسائل اور مشکلات کے حل کے لئے رہنما اور معاون بھی ثابت ہونگے مگر یہاں ممکن ہے بعض کے ذہن میں یہ سوال ابھر آیا ہو کیا زندگی میں سرمشق اور نمونہ عمل کا ہونا، ناگزیر ہے؟ ذیل میں بطور مختصر بیان کرینگے کہ ضرورت سرمشق زندگی کے متعلق اسلامی نقطہ نگاہ کیا ہے۔
نمونہ عمل اور اس کی ضرورت:
دنیا میں کوئی بھی شخص بغیر نمونہ عمل کے زندگی نہیں گذارتا ہے، بعض دانستہ طور پر اور بعض نادانستہ طور پر کسی کو اپنا آئیڈیل بنائے ہیں اور اس مضمون میں نمونہ عمل سے مراد، عمل اور فکر کا وہ عینی اور مشہود نمونہ ہے کہ کمال انسانیت تک رسائی حاصل کرنے کیلئے جس کا اتباع کیا جاتا ہے، شہید مطہری علیہ الرحمہ (اپنی کتاب انسان کامل میں) اسکی ضرورت پر تقریبا گیارہ دلیلیں پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ انسانیت کے کمال تک رسائی حاصل کرنے کیلئے انسان کامل سے راہ کمال کا سیکھنا اور اسکا اتباع کرنا ضروری ہے، اسکے بغیر وہ اس مقام تک رسائی حاصل نہیں کر سکتا ہے، چنانچہ قرآن کریم میں رب العزت کا ارشاد ہو رہا ہے، "لقد کان لکم فی رسول الله اسوہ حسنه" ( سورہ احزاب 21 ).یعنی قرآن کریم نے اس آیت کریمہ میں مصداق اسوہ اور سرمشق کو بیان کرکے یہ بات واضح کر دی کہ اسوہ اور نمونہ عمل کی ضرورت ایک روشن اور بدیہی شئی ہے جسکا انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔
حضرت زہرا سلام الله علیها کی حیات طیبہ کن لوگوں کے لئے اسوه حسنه بن سکتی ہے؟
جہاں حضرت فاطمہ زہرا سلام الله علیها کی حیات طیبہ ان افراد کیلئے آئیڈل اور نمونہ بن سکتی ہے جو اسلامی طرز زندگی کو فالو کرنے کی تگ و دو میں رہتے ہیں جو چاہتے ہیں کہ انکی زندگی صبغہ الہی اختیار کرے، جو چاہتے ہیں کہ کمال انسانیت اور منتہای عبودیت کے اس ارفع مقام پر فائز ہوں، جہاں معبود کی ذات کے سوا سب کچھ ہیچ نظر آتا ہے، وہاں ان لوگوں کے لئے بھی سرمشق بن سکتی ہے جو اپنی معاشرتی زندگی، ازدواجی زندگی اور زندگی کے دیگر شعبوں کے معاملات کو نمٹانے کی سعی اور کوشش میں ہوتے ہیں۔ لہذا اسلامی طرز زندگی کو بطور شیوہ حیات قرار دیکر کمال انسانیت تک رسائی کا خواب تبھی شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے جب ہم کسی ایسے انسان کامل جو عظمتوں اور انسانی اقدار کی بلند و بالا چوٹیوں پر فائز ہو کو اپنا نمونہ عمل اور آئیڈیل قرار دیں گے۔ نیز اسکی سیرت و فضائل پر صرف داد دیکر انہیں وادی نسیان کی نذر کرنے کی بجائے اس پر من و عن عمل کریں گے، چونکہ انکی سیرت، کمال انسانیت تک پہنچانے کا الٰہی نسخہ ہوا کرتی ہے اور جس طرح دوائی کھائے بنا صرف ڈاکٹر کی تجویز کو داد دینے سے بیمار ٹھیک نہیں ہوتا ہے بالکل اسی طرح بطور آئیڈیل معرفی شدہ ہستیوں کی سیرت کو اپنی زندگی کا شیوہ اور طرز عمل قرار دیئے بغیر کمال انسانیت تک رسائی بھی ممکن نہیں ہے۔
مگر افسوس آج مسلمان اس قدر فرنگی ظاہری جلوؤں سے اس قدر مرعوب ہو چکے ہیں کہ اپنے معنوی رول ماڈلز کی طرز زندگی سے دور ہو گئے ہیں۔ فرنگی طرز زندگی کو اپنے لئے اعزاز سمجھنے لگے ہیں اور بعض تو اس قدر فریبندہ فرنگی کلچر کے دلدادہ ہو گئے ہیں کہ اپنے الٰہی رولز ماڈل کے متعلق زبان درازی کرتے ہوئے کہتے ہیں چودہ سو سال پہلے کی طرز زندگی کیونکر اس وقت کیلئے رول ماڈلز بن سکتی ہے؟ "زین لهم الشیطان ما کانوا یعملون" انہیں معلوم ہونا چاہیئے کہ اسلامی اور انسانی اقدار کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو موسم کے ساتھ تبدیل ہو جائے یہ زندگی کے وہ ثابت اور لاتغییر اصول ہیں جو رہتی دنیا تک برقرار رہنے والے ہیں۔ حضرت زہرا (س) کی حیات طیبہ انہی اقدار کا عملی نمونہ ہے جسے اللہ نے انسانوں کے لئے بطور رول ماڈل متعارف کروایا ہے۔
لہٰذا اس گروہ کا عقیدہ درست نہیں ہے جو آئمہ علیه السلام کو انسانوں سے مختلف مخلوق قرار دیکر کہتے ہیں نمونہ عمل قرار پانے کیلئے اسوہ اور اسوہ کی اتباع کرنے والے کی زندگی میں سنخیت کا پایا جانا ضروری ہے جبکہ ہماری زندگی اور آئمہ کی زندگی میں کوئی سنخیت نہیں پائی جاتی ہے۔ انکے وجود نوری ہیں جبکہ ہم خاکی ہیں، لہٰذا انکی زندگی ہمارے لئے قابل عمل نہیں ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو اللہ تعالی، رسول اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کو انسانوں کے لئے اسوہ حسنہ کے طور پر پیش کرتا اور نہ ہی رسول اکرم صلی الله علیه وآله وسلم معصومین علیهم السلام کی زندگی کو نجات کا ضامن قرار دیتے ہوئے انکی اتباع اور پیروی کا حکم دیتے، لہٰذا معلوم ہوا کہ یقینا قابل عمل ہے اور انسانیت کی نجات انہی ہستیوں کے اتباع میں مضمر ہے۔
حضرت زہرا سلام الله علیها کو اسوہ قرار دینے کا مطلب:
واضح رہے کہ حضرت زہرا سلام الله علیها کی فضیلتیں دو طرح کی ہیں، فضائل نفسی اور نسبی۔ فضائل نفسی، بغیر کسی نسبت کے انسان میں پائے جانے والے فضائل کو کہا جاتا ہے اور کسی سے منتسب ہونے کے نتیجے میں ملنے والے فضائل کو فضائل نسبی کہا جاتا ہے۔ (سید جواد نقوی، کتابچه ،حضرت زهرا الگو حسنه) پس حضرت زہرا اسوہ ہیں اسکا مطلب کیا ہے؟ اسکا ہر گز مطلب یہ نہیں ہے کہ سب خواتین امام کی ہمسر بنیں یا سب امام کی ماں بنیں بلکہ اسوہ بنانے کا مطلب یہ ہے کہ ان صفات اور خصوصیات میں حضرت زہرا سلام الله علیها کی پیروی کی جائے جن کی وجہ سے وہ اس قابل ہوئیں کہ امام کی ماں بنیں، ان صفات میں ان کا اتباع کیا جائے جن کے پرتو میں وہ حق و باطل کی معیار بن کر یوں ابھریں کہ زبان وحی جنبش میں آئی اور حدیث "ان اللہ لیغضب لغضبک و یرضی لرضاک" (کے ذریعے حضرت فاطمہ سلام الله علیها کے سر پر عصمت و طہارت کا لازوال سہرہ سجا دیا۔
سیرت حضرت زهرا کے چند لازوال نقوش:
جامعیت کے ناطے دین اسلام کا اپنا طرز حیات ہے اور یہ لائف پیٹرن دین و دنیا دونوں میں کامیابی کا ضامن ہے اور قدم قدم پر انسانیت کی راہنمائی کرتا ہے اور ہدایت کے لئے نمونہ عمل کا بندوبست بھی کیا ہے تاکہ انکی سیرت کے مطابق اپنی زندگیاں استوار کریں۔ انہی ہستیوں میں سے ایک اعلٰی نمونہ اور اسوہ حسنہ والی ہستی حضرت فاطمہ زہرا سلام الله علیها کی ذات گرامی ہے، جسے ہمارے لئے اعلٰی مثال اور عظیم نمونے کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ مختصر یہ کہ ان مذکورہ قابل الگو فضائل میں اسطرح حضرت زہرا سلام الله علیها کا اتباع کیا جائے کہ ہماری زندگی حضرت زہرا سلام الله علیها کی حیات طیبہ کے سانچے میں یوں ڈھل جائے کہ انکی دلی محبت اور انکی عقیدت ہمارے ہر عمل سے چھلک پڑے۔ یہاں انکے تمام فضائل کا ذکر اس مختصر مضمون میں ممکن نہیں، لہٰذا ذیل میں اختصار کے ساتھ چند اہم راھگشا نقوش زیب قرطاس کرونگاـ
1. ازدواجی زندگی:
جب اہل قلم حضرت زہرا سلام الله علیها کی ازدواجی زندگی پر قلم اٹھاتے ہیں تو حضرت زہراسلام الله علیها کی صرف گھریلو اخلاقیات ان کے مدنظر ہوتی ہیں، جس کی وجہ سے شہزادی کونین کی شادی بیاہ کی نہایت سادہ رسومات پر کماحقہ قلم نہیں اٹھایا گیا جبکہ ازدواجی زندگی شادی بیاہ اور حق مہر کو بھی شامل ہوتی ہے۔ اس مختصر مضمون میں اس مبارک رشتے کا تفصیلی بیان ممکن نہیں، تاریخ کے مطابق آپ جیسے بالغ ہوئیں آپکے لئے رشتے آنا شروع ہوئے بالآخر حضرت امام علی علیه السلام سے آپ کی شادی ہونا طے پایا تو پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کے حکم پر حضرت امام علی علیه السلام نے اپنی ذرہ بیچ کر مہر کی رقم حضور اکرم کے حوالہ کردی اور پیغمبر صلی الله علیه وآله وسلم نے اس رقم کو تین حصوں میں تقسیم کیا ایک حصہ شہزادی کی گھریلو ضروریات کے لئے مختص کیا، دوسرا حصہ شادی کے اخراجات کے لئے اور تیسرا حصہ جناب ام سلمہ کے حوالے کردیا اور فرمایا یہ رقم علی کے حوالہ کردو تاکہ علی اس رقم کے ذریعہ اپنے ولیمہ کے انتظامات کر سکیں۔ (مجلسی، بحارالانوار، ترجمه، ج، 43، ص 409 و 358)۔
کائنات کے عظیم ترین شخص کی با عظمت بیٹی کی شادی کی سادگی دیکھیں کہ ایک ذرہ سے پوری شادی کا اہتمام ہوا جبکہ پیغمبر صلی الله علیه وآله وسلم عالم اسلام کے لیڈر تھے، چاہتے تو شاندار طریقے سے بجا لاسکتے مگر امت کی آسانی اور فضولیات سے بچنے کی خاطر جس سادگی کے ساتھ اس مقدس رشتے کو جوڑ دیا گیا اس کی تعبیر الفاظ میں نہیں کی جاسکتی ہے۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج کل کی شادیاں نہ فقط اسلامی نہیں رہی بلکہ ان شادیوں نے تو سیرت فاطمہ الزہرا کا جنازہ ہی نکال دیا ہے اور سنت سے اجنبی ہو کر رہ گئیں ہیں اور جہاں نت نئی خرافات اور رسومات نے شادی کا اسلامی اور زہرائی چہرہ مسخ کردیا ہے وہیں لایحتاج اور دیکھا دیکھی فضول خرچیوں کی وجہ سے شادی ایک عذاب بن گئی ہے۔ اس طرح بنت رسول صلی الله علیه وآله وسلم کی سیرت کو پائمال کرکے ہم نہ فقط رسول اللہ کی تکلیف کا ذریعہ بن رہے ہیں بلکہ سنت رسول کی کمزوری اور غیر اخلاقی امور کے فروغ کا باعث بھی بن رہے ہیں۔
شادی بیاہ کے سلسلے میں سیرت و سنت سے دور ہونے کی وجہ سے لاکھوں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بے نکاح گھوم رہے ہیں، جسکے نتیجے میں جتنے فسادات اور فحاشیاں جنم لے رہی ہیں وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ سچ یہ ہے کہ دنیا کے پوچ جلوے اور ظاہری رعنائیوں کے انہماک نے اکثر و بیشتر مسلمانوں کو روح اسلام سے ایک قلم دور کردیا ہے جسکے نتیجے میں وہ قرآن و سنت کو پس پشت ڈال کر بھاگے جارہے ہیں، "فَما لِهؤُلاءِ الْقَوْمِ لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثاً"ـ اسی ضمن میں حضرت زہرا سلام الله علیها کے ایثار کا ایک نمونہ بھی پیش کروں تاریخ کے مطابق حضرت زہرا نے شادی کی رات سائل کے سوال پر اپنی شادی کا جوڑا جو کہ دلہن کے لئے بہت اہم ہوتا ہے، بخش دیا۔ حضرت زہراسلام الله علیها نے شادی کی رات ہی شادی کا جوڑا سائل کو دیکر اپنے پیرو کاروں کو یہ پیغام دیا کہ شادی کی رات خاص کر محتاجوں اور ضرورتمندوں کا خیال رکھا جائے۔ اگر آج مسلمان اسی شادی بیاہ اور ایثار فاطمہ الزہرا سلام الله علیها کو بطور نمونہ اپنی زندگی میں اتارنے کی کوشش کریں اور سینکڑوں فضول خرچیوں کی بجائے فقیروں اور مسکینوں پر خرچ کرنے کو اپنا شیوہ بنائیں تو اسلامی معاشرے کی تقدیر بدل جائے گی۔ یقینا اس معاشرے میں کوئی فقیر رہے گا نہ کوئی مسکین بلکہ نتیجتا معاشرے سے بہت سارے فسادات اور غیر اخلاقی امور کا خاتمہ ہوگا۔
۲ـ قرآن کی تلاوت:
دنیا کا ہر وہ شخص جو اسلامی طرز زندگی گزارنا چاہتا ہے، قرآن کریم اس کے لئے ایک ایسا لائحہ عمل ہے، جس کے پرتو میں وہ اسلامی طرز زندگی گزارنے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ جس کے لئے تلاوت قرآن ضروری ہے، اسی ضرورت کے پیش نظر قرآن كريم ميں غالبا ايک آيت ميں كسي حكم كے متعلق دو بار اشاره نہيں ہوا ہے۔ بلكه ايک آيت ميں ايک ہي حكم بيان ہوا ہے، ليكن جب، تلاوت كا تذكره آتا ہے تو قرآن كريم كا يه انداز بدل جاتا ہے اور ایک ہی آيت ميں دوبار تلاوت قرآن كا مطالبه كرتا ہوا نظر آتا ہے، "فَاقرَؤا ما تَيَسَّرَ مِنَ القُرآن" "فَاقرَؤا ما تَيَسَّرَ مِنه" (مدثر، 20) اس آيت ميں پروردگار نے نصيحت والے انداز ميں قرآن كريم كی قرائت كا مطالبه كركے يه واضح كرديا كه تلاوت اور قرائت قرآن كتنی اهميت كی حامل ہے۔ حضرت زہرا اور قرآن جیسے موضوعات میں اکثر و بیشتر انکے فضائل بیان کئے جاتے ہیں مگر حضرت زہرا کی زندگی میں قرآن کی اہمیت جیسے موضوعات پر بہت کم قلم اٹھایا جاتا ہے۔
یہاں مختصر انداز بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت فاطمہ الزہراسلام الله علیها کی زندگی مجسمہ قرآن تھی، انکی زندگی کا محور قرآن تھا اس قدر حضرت زہرا سلام الله علیها کو قرائت قرآن سے محبت اور عقیدت تھی کہ فرمایا، "حُبّب اِلَیَّ مِنْ دنیاکُم ثلاثُ: تلاوة کتاب الله والنّظر فی وجه رسول الله والانفاق فی سبیل الله" ( بحارالانوار، ج ۷۹ ص ۲۷،) تمہاری دنیا سے تین چیزیں مجھے پسند ہیں، اللہ کی کتاب کی تلاوت کرنا، رسول کے چہرہ انور کی زیارت کرنا اور اللہ کی راہ میں انفاق کرنا۔ شہزادی کونین کو تلاوت قرآن سے اسقدر شغف تھا کہ اپنے آخری آیام میں حضرت امام علی علیہ السلام سے وصیت کرتے ہوئے کثرت سے تلاوت قرآن کرنے کی درخواست کی اور فرمایا، "وَ أَجْلِسْ عِنْدَ رَأسی قِبَالَةَ وَجْهی فَأَکْثَر مِن تَلاوةِ القُرآنِ وَ الدُّعاءِ فَإنَّها سَاعَةٌ یحْتاجُ اْلَمیتُ فیها إلی أُنسِ الأحیاءِ" (محمد دشتی، نہج الحیاہ ج ، صیام ص،۲۹۵) غرض یہ کہ حضرت زہراسلام الله علیها کی زندگی کا کوئی لمحہ بغیر قرآن کے نہیں گزرتا ہے چنانچہ علامہ اقبال نے اس بیش بہا سیرت کو کیا خوب شعر کے انداز میں پیش کیا ہے۔
آن ادب پرودہ صبر و رضا
آسیا گردان و لب قرآن سرا
ليكن افسوس كے ساتھ كہنا پڑتا ہے كه اکثر مسلمانوں كے پاس قرآن كيلئے تھوڑا ٹائم نہيں ہے، یه ايک حقيقت ہے كه ہم نے قرآن كے سلسلے ميں بہت كوتاهی كی ہے ہمارے كاندھوں پر قرآنی حوالے سے تمام ذمه دارياں ہيں كيا ہم اپنے آپ میں مطمئن ہيں كه ہم نے قرآني حوالے سے تمام ذمه داريوں كو پورا كرديا ہے۔ كمپيوٹر، انگلش language وغيره سيكھنے ميں هم كئی مہينے صرف كر ديتے ہيں، فضول باتوں ميں كئی گھنٹے ضائع كرديتے ہيں، كيا هم اپنی مقدس كتاب كو سمجھنے كيلئے تھوڑا سا وقت صرف نہيں كرسكتے ہيں؟! هم اپنے بچوں كی مروجه تعليم كا كتنا خيال ركھتے ہيں، كتنا پيسه خرچ كرتے ہيں؟ كيا ہميں اپنے بچوں كی قرآنی تعليم كے حوالے سے اتني فكر هے جتنی انكی دوسری تعليم كے حوالے سے ہے.!؟ كيا ہم اپنے بچوں كی قرآنی تعليم كو اتنی اهميت ديتے ہيں، جتني اهميت انكی دوسري تعليمات كو ديتے ہيں۔
اگر هم سے پوچھا جائے كه تم نے وحي كے بار ے ميں كيا كيا؟ تو كيا جواب ديں گے۔ "و قال الرسول يا ربي ان قومي اتخدوا هذا القرآن مهجورا" کتنا غم انگیز ہے انکی زندگی جو سینکڑوں صفحات پر مشتمل ناولز وغیرہ تو پڑھ لیتے ہیں مگر قرآن کا ایک صفحہ پڑھنا گوارا نہیں کرتے ہیں۔ کس قدر ماتم کیا جائے انکی فکر پر جو شب قدر تو مناتے ہے مگر وہ مقدس کتاب جس کی وجہ سے شب قدر کو فضیلت ملی ہے اس سے غافل ہیں.۔ اللہ نے قرآن اس لئے نازل کیا ہے تاکہ ہماری زندگی انسانیت کے اعلٰی سانچے میں ڈھل جائے مگر ہم اسی مقدس کتاب سے دور ہیں، جو ہمیں مادی اور معنوی مشکلات سے نکلنے کا سیدھا راستہ بتانے والی ہے۔ چنانچہ رہبر انقلاب کا فرمانا ہے کہ عالم اسلام کو درپیش چیلنجز کا علاج قرآن کریم کی تعلیمات کے سامنے تسلیم ہونے میں ہی ہے۔
3. اخلاص:
اخلاص کے لغوی معنی پاک اور صاف ہونے اور خالص ہونے کے ہیں، راغب اصفہانی کہتے ہیں کہ اخلاص سے مراد غیر اللہ سے دل کو پاک کرلینا ہے۔ (راغب اصفہانی، مفردات، ۱۵۵) پس اخلاص کا مطلب کسی بھی نیک عمل میں محض رضائے خداوندی کو مدنظر رکھنا ہے، جو دنیاوی اغراض اور نفسانی خواہشات سے دوری کے نتیجے میں حاصل ہوتا ہے۔ شہزادی کونین کے لازوال نقوش میں سے ایک عمل اخلاص ہے جو انکے وجود مبارک میں کوٹ کوٹ کر بھرا تھا، آپ اخلاص کے اس مقام پر فائز تھیں کہ رسول نے فرمایا، "ان اللہ لیغضب لغضبک۔۔۔۔" یعنی اگر کوئی دیکھنا چاہے کہ اللہ اس سے راضی ہے کہ نہیں تو شہزادی کونین کی طرف دیکھے کہ وہ ان سے راضی ہیں یا نہیں، بی بی کو اللہ تعالی کی رضایت کے سوا اور کچھ نہیں سوجھتا تھا، چنانچہ کسی دن پیغبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم نے فرمایا: جبرئیل آپکی حاجت روائی کے لئے حاضر ہے کوئی حاجت ہو تو بیان کریں، پوری ہو گی تو جواب میں فرمایا: "لا حاجَةَ لِی غَیرُ النَّظَرِ اِلی وَجهِهِ الکَرِیمِ؛" (ریاحین الشریعہ، ج۱ ص، ۱۰۵) سوائے جمال الٰہی کے دیدار کے اور کوئی آروز نہیں۔ سبحان اللہ اس درجہ معنویت اور رضایت الٰہی کی طلب کہ رب سے رب ہی کے سوا اور کوئی تقاضا نہیں کرتیں ہیں۔
اس روایت کے مطابق حضرت فاطمہ الزہرا سلام الله علیها کی اس خصوصیت میں ان لوگوں کے لئے ایک اہم درس ہے جو رب سے سوائے رب کے سب کچھ تقاضا کرتے ہیں۔ حضرت زہرا (س) اخلاص کے اعلٰی مرتبہ پر فائز تھیں، اسی اخلاص کامل و اکمل کے نتیجے میں اللہ نے آپ کو بیشمار فضائل سے نوازا چنانچہ رسول خدا فرماتے ہیں: زہرا کی اخلاص کا نتیجہ تھا کہ وہ اس بلند و بالا مقام پر فائز ہوئیں اور وہ رسول گرامی کی وارثت اور نسل رسول اللہ کو ادامہ دینے والی صفت جو انہیں کمال اخلاص کے نتیجے میں ملے، "لخصلتین خصّها اللّه بهما، إنّها ورثت رسول اللّه صلی اللّه علیه و آله وسلم، و نسل رسول اللّه صلی اللّه علیه و آله و سلم منها و لم یخصّها بذلک إلّا بفضل إخلاص عرفه من نیّتها مجلسی،" بحار الانوار، ۴۳/۳۷)
یہ ایک اصل ہے جسے ہم اپنا الگو قرار دے سکتے ہیں اور اپنے تمام فعالیتوں کو کوششوں کا نہائی مقصد اللہ قرار دیں تاکہ ہماری زندگی صبغہ الٰہی اختیار کرے تو اللہ ہمیں بےشمار نعمتوں سے نوازے گا اور دنیا اور آخرت میں سعادت اور کامیابی کا سامان فراہم کرے گا۔ اختصار کی خاطر اسی پر اکتفا کرتے ہوئے دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالٰی ہم سب کو شہزادی کونین کی معرفت کے ساتھ انکی سیرت پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
تحریر: بشیر مقدسی
آیت الله محمدتقی مصباح یزدی ایک عھد ساز شخصیت
رہبر معظم انقلاب کا آیت اللہ مصباح یزدی کی وفات پر تعزیتی پیغام
بسم الله الرّحمن الرّحیم
عالم ربانی ،حکیم ،مجاہد اور فقیہ آیت اللہ الحاج شیخ محمد تقی مصباح یزدی کی نہایت ہی افسوس اور الم ناک رحلت کی خبر موصول ہوئی۔یہ سانحہ حوزہ ہائے علمیہ اور علوم اسلامی کے شعبے کے لئے بہت بڑا نقصان ہے۔
مرحوم ایک ممتاز مفکر ، لائق مدیر ہونے کے ساتھ حق گوئی میں نڈر اور صراط مستقیم پر ثابت قدم تھے۔
دینی افکار کو زندہ رکھنے کیلئے حقائق پر مبنی لا تعداد کتابیں تصنیف کرنا، ممتاز و مؤثر طلباء کی تربیت اور جہاں جہاں مرحوم کی ضرورت محسوس ہوئی ان تمام شعبوں میں انقلابی موجودگی ، واقعتاً بے نظیر ہیں۔
تقویٰ اور پارسائی، جوانی سے لے کر زندگی کے آخر تک مرحوم کی نمایاں خصوصیت رہے ہیں اور معرفت توحیدی میں سلوک کی توفیق ،ان کی طویل مدتی جدوجہد کا ایک عظیم الہی ثواب ہے۔
میں خود اپنے اس دیرینہ برادر عزیز کا سوگوار ہوں ، خانوادہ محترم،صالح فرزندوں اور ان کے باقی پسماندگان کے ساتھ اس عظیم استاد کے شاگردوں، عقیدت مندوں اور حوزہ ہائے علمیہ سے اظہار تعزیت کرتے ہوئے مرحوم و مغفور کی بلندی درجات ،مغفرت اور رحمت الہی کے لئے دعا گو ہوں۔
سیّدعلی خامنهای
عہد حاضر کی کربلا کے سپہ سالار، شہید قدس، سالار زندہ، تجھے سلام
بہت نایاب ہوتی ہیں ایسی شخصیات کہ جو اپنی زندگی کے ہر پہلو سے اتنی مکمل ہوں کہ انہیں بیان کرنے کیلئے ذخیرہ الفاظ کم پڑ جائے۔ خطاب و مراتب کے سابقے، لاحقے ان کے سامنے پست محسوس ہوں اور ان کی مثال یا نعم البدل ڈھونڈے سے بھی نہ ملے۔ انہی نایاب شخصیات میں سے ایک شخصیت شہید حاج قاسم سلیمانی کی ہے کہ جو ہر پہلو سے اتنی مکمل اور کامیاب ہے کہ عصر حاضر میں ڈھونڈے سے بھی اس کی مثال نہیں ملتی۔ مستقبل سے متعلق یقین کی حد تک کہا جا سکتا ہے کہ ان کا نعم البدل صدیوں میں بھی میسر ہو تو عالم اسلام کیلئے انعام الہیٰ شمار ہوگا جبکہ عہد ماضی میں کھوج کریں تو فقط کربلا والوں میں ایسی شخصیات ملتی ہی کہ سالار زندہ قاسم سلیمانی کو جن کی مثال قرار دیا جا سکے۔
3 جنوری 2020ء عصر حاضر کے شیطانی لشکر (امریکہ) نے اپنے بزدلانہ اور مخفی حملے میں کربلائے وقت کے سپہ سالار حاج قاسم سلیمانی کو بغداد میں شہید کیا۔ جائے شہادت کی ابتدائی تصاویر میں تن سے جدا ہوئے ہاتھ کو دیکھ کر جو پہلی شخصیت ذہن میں آئی وہ سالار کربلا حضرت عباس علمدار (ع) کی تھی۔ دونوں شخصیات کے میدان جنگ کے حالات اور شہادت کے واقعات میں بھی ربط دکھائی دیتا ہے۔ حضرت عباس علمدار (ع) جس لشکر کے سپہ سالار تھے، وہ لشکر کسی خاص ریاست، ملک یا خطہ زمین سے متعلق نہیں تھا بلکہ اہل اسلام کا وہ نمائندہ قافلہ تھا کہ جو آل رسول (ع) اصحاب رسول پہ مشتمل تھا۔ تاریخ اسے حسینی لشکر کے نام سے یاد رکھتی ہے جبکہ اس لشکر میں مختلف قبائل، اقوام اور خطہ زمین سے تعلق رکھنے والے حسینی موجود تھے۔
کئی عزیز از جاں سپاہی حضرت عباس علمدار کی نظروں کے سامنے بیدردی سے شہید ہوئے مگر اس سپہ سالار کے عزم میں نہ کوئی کمی آئی اور نہ ہی دشمن کی تعداد و ہیبت سے مرعوب ہوئے بلکہ ظاہری طاقت کے اعتبار سے کئی گنا بڑے یزیدی لشکر پہ حضرت عباس کا رعب طاری تھا۔ تاریخ کربلا گواہ ہے کہ شہدائے کربلا کی لاشوں پہ مختلف عزیز و اقارب کے گریہ و نوحے ملتے ہیں، مگر کسی شہید کی لاش پر حضرت عباس کا کوئی گریہ یا نوحہ نہیں ملتا۔ سامنے لاکھوں کے لشکر کو چیر کر فرات کے کنارے پر حسینی پرچم نصب کرکے تمام یزیدی لشکر پر اپنے غلبے کا ثبوت پیش کرنے والے حضرت عباس علمدار (ع) کو جب دشمن نے اپنے بزدلانہ مخفی حملے میں نشانہ بنایا تو سالار کربلا کا جسم اطہر خاک کربلا پہ ٹکڑوں کی صورت بکھرا پڑا تھا۔
سالار زندہ حاج قاسم سلیمانی بھی ایسے لشکر کے سپہ سالار تھے کہ جو کسی خاص علاقے، قوم، ملک سے متعلق نہیں بلکہ عالم اسلام کی محافظت کی غرض سے ہر میدان میں ہمہ وقت موجود ہے۔ یہ عالم اسلام کا وہ نمائندہ لشکر ہے کہ جو قبلہ اول، بیت المقدس سمیت پورے عالم اسلام کو یہود و نصاریٰ کے پنجہ استبداد سے محفوظ رکھنے کیلئے دنیا بھر میں مصروف جنگ ہے۔ کہیں اس لشکر کا سامنا براہ راست شیطان بزرگ امریکہ سے ہے۔ (ایران، عراق، شام)۔ کہیں یہ لشکر عالم اسلام اور اہل اسلام کے سینوں میں خنجر کی مانند پیوست ناجائز اور غیر قانونی قوت اسرائیل سے حزب اللہ کی صورت برسرپیکار ہے۔ کہیں اس لشکر کا سامنا اسلام کے نام پہ امریکہ و اسرائیل ساختہ دہشتگرد تنظیموں (داعش، جبہة النصرہ،جنداللہ وغیرہ) سے اور کہیں یہ لشکر یہود و نصاریٰ کے ہم نوالہ، ہم پیالہ اور نمک خواروں سے اپنی سرزمین کے تحفظ کی جنگ میں مصروف ہے۔ جس طرح اہل یمن 34 ملکی جنگی اتحاد کے جارحانہ دہشتگردانہ زمینی و فضائی حملوں کا سامنا کرنے پہ مجبور ہیں۔
اس سپہ سالار کی جنگی ڈاکٹرائن ملاحظہ فرمائیں کہ ہر میدان میں اس کا پالا اپنے سے کئی گنا بڑے لشکر سے ہے۔ جو ہتھیاروں، جنگی ساز و سامان، حربی آلات، افرادی قوت اور جدید جنگی ٹیکنالوجی سے لیس ہے مگر پھر بھی اس سپہ سالار کی تدابیر سے عاجز ہے۔ شہید قدس، سالار زندہ حاج قاسم سلیمانی گرم جنگی محاذ پر اگلے مورچوں پہ رہ کر اپنے جوانوں کے شانہ بشانہ دشمن کے خلاف لڑتے۔ مشکل سے مشکل محاذ پر ان کی موجودگی فتح کی علامت سمجھی جاتی تھی۔ اس دوران ان کے عزیز از جان کئی پیارے ساتھی ان کی آنکھوں کے سامنے شہید ہوئے، کئی ساتھیوں نے ان کے ہاتھوں میں جام شہادت نوش کیا، مگر کسی شہادت نے انہیں کبھی مغموم نہیں کیا بلکہ ان کے نزدیک شہادت ایک ایسا رتبہ تھا کہ جو ہر مجاہد کو میسر رتبے سے بھی کئی درجہ اعلٰی و ارفع تھا۔
وہ خود شہادت کے شیدائی تھے، شہداء کا تذکرہ اس شوق و محبوبیت سے کرتے کہ ان کی ایک ایک گفتگو گھنٹوں پہ محیط ہوتی۔ شہید حسین ہمدانی کی یاد میں منعقدہ تقریب سے انہوں نے تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ خطاب کیا۔ اس خطاب میں انہوں نے شہید ہمدانی کی شخصیت و کردار اور میدان جنگ کے حالات و شہادت پہ گفتگو کی۔ اس گفتگو میں حاج قاسم سلیمانی کہتے ہیں کہ ''شہادت کے دن وہ بہت ہی ہشاش بشاش تھے اور ہنس رہے تھے، بہت زیادہ۔ انہوں نے مجھے ہنستے ہوئے کہا کہ آو ہم دونوں ایک ساتھ ایک تصویر بنواتے ہیں، شاید یہ تمہارے ساتھ میری آخری تصویر ہو۔ وہ ایسی طبیعت کے مالک نہیں تھے کہ کسی چیز پر اصرار کریں یا کسی سے اپنی یا کسی اور شخص کی تصویر بنانا چاہیں۔ ان کی اس حالت کو دیکھ کر میرے ذہن میں یہ اشعار آئے''
رقص و جولان بر سر میدان می کنند
وہ میدان میں رقص کرتے ہیں اور جھومتے ہیں
رقص اندر خون خود مردان می کنند
مرد اپنے خون میں رقص کرتے ہیں
چون رہند از دست خود دستی زنند
جب وہ اپنے نفس سے آزاد ہوتے ہیں تو تالیاں بجاتے ہیں
چون جہند از نقص خود رقصی کنند
جب وہ اپنے نقائص سے آزاد ہوتے ہیں تو رقص کرتے ہیں
یہ حالت ایک بہت ہی خوبصورت حالت ہے جو قطرہ سمندر سے متصل ہو جاتا ہے قطرہ نہیں رہتا سمندر بن جاتا ہے، میں نے یہ تالیاں اور رقص اس شہید میں دیکھا ہے، یہ پرواز کی حالت، یہ اشتیاق کی حالت، یہ عروج کی حالت۔'' شہادت کا ایسا والہانہ اصرار سالار زندہ شہید حاج قاسم سلیمانی کی گفتگو کے سوا کہیں نہیں ملتا۔
کئی سو گنا بڑے طاقتور دشمن کے سامنے پوری تمکنت کے ساتھ قیام سالار زندہ قاسم سلیمانی کا خاصہ تھا۔ ان کی حربی تدبیروں کے سامنے یہ طاقتور دشمن کس طرح ڈھیر ہوتے رہے، اس کا اندازہ ان دو تاریخی واقعات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ 33 روزہ جنگ میں اسرائیل دنیا کے جدید ترین ''مرکاوا ٹینکس'' کے ساتھ جنوبی لبنان میں داخل ہوا۔ اسرائیلی افواج کی پیشقدمی اتنی تیز اور جارحانہ تھی کہ دنیا بھر کے جنگی تجزیہ کار لبنان کو نئی صہیونی کالونی قرار دیئے بیٹھے تھے، مگر یک لخت قاسم سلیمانی حکمت عملی نے پانسہ پلٹ دیا۔ وہی مرکاوا ٹینکس کہ جو اپنے عملے کو ایٹمی اثرات سے بھی محفوظ رکھنے کی استعداد رکھتا ہے، لبنان کے صحراؤں میں مٹی کے ڈھیر بن گئے۔ داعش جنونی وحشی دہشتگردانہ قوت کے طور پر یک لخت ابھری اور برق رفتاری سے سرحدی حد بندیوں کو روندتی ہوئی آگے بڑھتی چلی گئی۔ آگے کیوں نہ بڑھتی شیطان بزرگ امریکہ اور ناجائز صہیونی قوت اسرائیل کی فضائی، خلائی اور تکنیکی مدد اسے حاصل تھی۔
عرب دنیا بالخصوص سعودی عرب، عرب امارات ،بحرین وغیرہ کی مالی مدد حاصل تھی۔ دنیا بھر سے دہشتگردانہ، جنگجوانہ افرادی کمک یہاں تک یورپ، عرب، ایشیا، افریقہ سمیت پوری دنیا سے یہاں پہنچائی گئی، یہاں تک کہ اس مقصد کیلئے کئی ممالک بالخصوص پاکستان ، افغانستان میں جیلیں توڑ کر دہشتگردوں کو نکال کے عراق و شام میں پہنچایا گیا۔ عالمی میڈیا تجزیے پیش کر رہا تھا کہ کتنے عرصے میں حرمین شریفین داعش کے زیرانتظام ہوں گے۔ صدر بشارد الاسد نے شام سے فرار ہونے کیلئے اپنا ذاتی طیارہ منگوا لیا ہے۔ بغداد آج کل میں داعش کے سامنے سرنگوں ہونے والا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ ان حالات میں قاسم سلیمانی ڈاکٹرائن وارد ہوتی ہے اور اسلامی دنیا پہ قبضے کا شرانگیز خواب دیکھنے والی داعش عراق و شام میں قصہ پارینہ بن کر رہ جاتی ہے۔
سالار زندہ، سرباز، شہید قدس، حاج قاسم سلیمانی کس حد تک اسلامی دنیا کے دفاع و تحفظ کیلئے اہمیت، حیثیت اور افادیت رکھتے تھے۔ اس کا اندازہ لگانے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ ان کی شہادت کے پہلے ہی برس میں اہم اسلامی ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہے۔ ایک ڈاکومنٹری میں داعش کے خلاف لڑنے والے رضاکارانہ فورس کے ایک کمانڈر سوال کے جواب میں بتاتے ہیں کہ ہم اپنے سب سے کمزور مورچوں پہ یہ خبر پھیلا دیتے تھے کہ جنرل قاسم سلیمانی آرہے ہیں، بس اس کے بعد ہمارے جوانوں میں کوئی خاص روحانی طاقت آجاتی جبکہ یہی خبر دشمن پہ موت بن کر گرتی تھی۔ وہ دنیا کے ہر خطہ میں شیطان بزرگ اور اس کے مذموم عزائم کے خلاف اپنا ناقابل شکست لشکر ترتیب دینے کا ہنر جانتے تھے۔
مقاومت سے ان کی وابستگی کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ جس طرح کربلاء والوں سے متمسک اہل ایمان اپنے گھروں پہ علم عباس علمدار لہراتے ہیں۔ اسی طرح سرخ اسلام سے پیوستہ ہر فرد، مقاومتی گروہ، لشکر سالار زندہ ، سرباز شہید قدس حاج قاسم سلیمانی سے فکری، روحانی اور حربی وابستگی کو لازمی جانتا ہے۔ اپنی ایک گفتگو میں سالار زندہ قاسم سلیمانی فرماتے ہیں کہ ''اپنی شخصیات کو کھو دینے کے بعد ہمیں ان کی قدر و منزلت اور ان کے اعلٰی مقام ہونے کا احساس ہوتا ہے، شہید ہمدانی، شہید خرازی، شہید کاظمی، حسن باکری جو کہ ہماری جنگ کا بہشتی تھا، علی ہاشمی وغیرہ جیسے افراد ہر پانچ سو سال میں ایک بار پیدا ہوتے ہیں۔'' ہم عہد حاضر کی کربلاء کے اس سپہ سالار، شہید قدس، سالار زندہ، حاج قاسم سلیمانی، ان کے رفقا اور ان کے وہ ساتھی کہ جو کربلائے حاضر میں اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر چکے کو سلام پیش کرتے ہیں۔
جنرل سلیمانی کے بعد خطہ کا مستقبل
گذشتہ ایک دہائی کے دوران عالمی حالات میں بڑی تیزی کیساتھ تبدیلیاں رونماء ہوئی ہیں، خاص طور پر مشرق وسطیٰ میں امریکہ، اسرائیل اور اس کے اتحادی عرب ممالک نے اپنے اپنے مخصوص مفادات کی خاطر ایک دوسرے کو مکمل سپورٹ کرتے ہوئے بالادستی اور تسلط کی روش اختیار کی۔ عراق اور افغانستان پر قبضہ کے باوجود مزاحمتی گروہوں کی جانب سے شکست کے بعد امریکہ کے پاس خطہ سے نکلنے کے علاوہ کوئی آپشن موجود نہیں تھا، خطہ میں اپنی موجودگی کو قائم رکھنے کی خاطر امریکہ نے داعش کے ذریعے عراق اور شام پر حملہ کروایا، جس میں سعودی عرب سمیت بعض مسلم ممالک کی مدد شامل تھی، جبکہ دوسری طرف صیہونی ریاست ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کے خواب کو عملی جامہ پہنانے کیلئے سرحدوں کو توسیع دینے کی خاطر اس منصوبہ میں شامل رہی۔
دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی خاطر داعش کو بظاہر امریکہ بھی خطرہ قرار دے رہا تھا اور سابق امریکی صدر باراک اوبامہ نے اس دہشتگرد تنظیم کے خاتمے کیلئے اربوں ڈالرز اور 25 سال کے عرصہ کا تخمینہ لگایا۔ یہاں امریکہ ایک مرتبہ پھر اتحادی ممالک کے ہمراہ ’’ڈبل گیم‘‘ کھیل رہا تھا۔ اس تمام تر صورتحال میں ایران اور اس کی اتحادی مقاومتی قوتوں نے حالات کی نزاکت، دشمن کی خطرناک منصوبہ بندی اور خطہ پر تسلط کے مزموم ارادوں کو بھانپتے ہوئے بروقت میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا اور شام و عراق میں کئی ممالک سے جمع کئے گئے دہشتگردوں (داعش) کا راستہ روکنے کیلئے کثیر الجہتی حکمت عملی ترتیب دی گئی۔ اس تمام تر جنگی حکمت عملی اور منصوبہ بندی کی باگ دوڑ اسلامی جمہوریہ ایران کے انقلابی گارڈز سپاہ پاسداران کی ذیلی بریگیڈ سپاہ قدس کے کمانڈر حاج جنرل قاسم سلیمانی کے ہاتھ میں تھی۔
جب کوئی بیرونی حملہ آور آپ کے گھر یا شہر پر حملہ آور ہو تو آپ کو اپنے دفاع کا بھرپور حق حاصل ہے کہ آپ اپنی سرحدوں کو محفوظ بنانے کیلئے ہر قسم کی دفاعی حکمت عملی اپنائیں اور یہی کام مقاومتی بلاک نے کیا۔ داعش کے اس فتنہ میں چین اور روس بھی امریکی رویہ سے نالاں تھے۔ اس سارے کھیل میں امریکہ کا مقصد طاقت کے توازن کا ایشیاء میں شفٹ سے روکنا، خطہ میں اپنے کمزور ہوتے اتحادیوں کو قدرت مند بنانا، چین، روس اور ایران کو کنٹرول کرنا، گریٹر اسرائیل کی راہ ہموار کرنا اور مسلمانوں کا قتل عام تھا۔ تاہم جنرل قاسم سلیمانی نے خطہ کے مختلف ممالک کے دورہ جات کئے اور وہاں مسلح گروہوں کو داعش اور جارح طاقتوں کو کیخلاف منظم کیا۔ شہید سلیمانی وہ واحد سپاہ سالار تھے، جو اگلے مورچوں پر خود لڑنے میں خوشی محسوس کرتے تھے۔
جنرل سلیمانی کی جنگی حکمت عملی کا مقصد خطہ سے بیرونی طاقتوں کا انخلا، دہشتگردی کا خاتمہ اور بلاتفریق مسلک و مذہب بے گناہ انسانی جانوں کا تحفظ تھا، جس میں گزرتے وقت کیساتھ ساتھ وہ کامیابی سے آگے بڑھتے رہے، کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ جو منصوبہ امریکہ جیسے عیار دشمن نے انتہائی خطیر بجٹ، جدید اسلحہ، افرادی قوت اور کئی اتحادی ممالک کے مکمل تعاون کیساتھ ترتیب دیا تھا، اسے اتنے کم عرصہ میں خاک میں ملا دیا جائے گا۔ یہ سب کچھ عالم اسلام کے اس شجاع، بہادر، بابصیرت، متقی، سمجھدار، ہوشیار کمانڈر حاج جنرل قاسم سلیمانی کیوجہ سے ہی ممکن ہوا۔ جو کامیابیاں قاسم سلیمانی دشمن کیخلاف حاصل کرچکے تھے، ان کو دیکھا جائے تو ایسے انمول ہیروں کو دشمن جلد اپنے راستے سے ہٹا دیتے ہیں، لیکن خدا نے ایسے مجاہدوں سے جس طرح اور جب تک کام لینا ہو، وہ لیتا ہے۔
امریکہ نے جنرل قاسم سلیمانی کو متعدد مرتبہ قتل کرنے کی کوشش کی، تاہم ناکام رہا۔ آخر کار گذشتہ سال 3 جنوری کی علی الصبح جنرل قاسم سلیمانی کو ان کے قریبی ساتھی ابو مہدی المہندس اور دیگر رفقاء کے ہمراہ بغداد ائیرپورٹ پر ایک بزدلانہ حملہ میں شہید کر دیا گیا۔ اب یہاں موضوع بحث یہ ہے کہ جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد اس خطہ کا کیا مستقبل ہوگا۔؟ یہاں اگر یوں کہا جائے کہ جنرل قاسم سلیمانی اپنے کام سے زیادہ کر گئے تو غلط نہ ہوگا، عراق کی بات کی جائے تو وہاں حشد الشعبی، کتائب حزب اللہ جیسی دیگر مزاحمتی گروہوں اور تنظیموں کو اس حد تک مضبوط کر دیا گیا ہے کہ وہ آج امریکہ کو دھمکیاں دیتی نظر آتی ہیں۔ اس کے علاوہ عراق سیاسی لحاظ سے بھی ماضی کے مقابلہ میں بہت منظم ہوچکا ہے۔ لبنان میں حزب اللہ اسرائیل سمیت خطہ کی نادیدہ قوتوں کیخلاف کسی موت کے پیغام سے کم نہیں۔
یمن پر حملہ آور سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کیلئے وہاں موجود حوثی قبائل اور انصار اللہ درد سر بنے ہوئے ہیں، درحقیقت آل سعود کو وہاں شکست ہوچکی ہے، جس کا صرف اعلان ہونا باقی ہے۔ شام کی بات کی جائے وہاں بشار الاسد کی حکومت اور فوج آج ایک مستحکم پوزیشن میں ہے، افغانستان میں طالبان اور دیگر مزاحمتی گروہوں نے امریکہ کو بیدخل ہونے پر مجبور کر دیا۔ طاقت کا توازن چین کی طرف منتقل ہونا شروع ہوگیا ہے۔ اسی طرح مقاومتی بلاک کے بانی اسلامی جمہوریہ ایران کو گو کہ جنرل سلیمانی اور محسن فخری زادے جیسے سپوتوں سے محروم ہونا پڑا، مگر عالمی امن کی خاطر ایران کی یہ انمول قربانیاں ضرور رنگ لائیں گی۔ جنرل قاسم سلیمانی نے شہادت کے باوجود خطہ کا مستقبل پرامن بنا دیا ہے، تاہم ان کے جانشین جنرل اسماعیل قآنی، ایرانی حکومت، مقاومتی و مزاحمتی تنظیموں کے کندھوں پر اب بھی بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ ولی امر مسلمین سید علی خامنہ ای کی قیادت میں مظلومین جہاں کی آواز بنتے ہوئے استعماری و استکباری طاقتوں کے عزائم ہمیشہ کیلئے خاک میں ملانے کیلئے ’’سلیمانی سفر‘‘ کو جاری رکھیں۔
شیخ صفیالدین: حاج قاسم کے مکتب کا تکرار مشکل ہے
شیخ صفیالدین نے لبنان کے ریڈیو النور سے بیان میں کہا: شخصیت، ثقافت، تربیت اور ان جیسا روش اسلام ناب محمدی(ص) اور مکتب امام خمینی(ره) کا اعلی نمونہ تھا اور سلیمانی جب شہدا کے بارے میں بات کرتے تو انکے آنسو نکل جاتے۔
حزبالله لبنان کے سپریم کونسل کے رکن نے حاجی قاسم کو مالک اشتر کی ولایت سے عشق سے متاثر قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کے مکتب سازی جیسا کردار کا دوبارہ ملنا مشکل ہے۔
انکا کہنا تھا کہ وہ علم و عمل کے تمام میدان میں بے نظیر کمانڈر تھے اور جب تمام میدان میں امریکہ ان سے شکست کھانے پر مجبور ہوا تو انکو راستے سے ہٹا دیا۔
شیخ صفیالدین نے کہا کہ اسرائیل بھی حزبالله سے شکست کے بعد حکمت عملی تبدیل کرنے پر مجبور ہوا ہے۔
انکا کہنا تھا کہ اسرائیل سے تعلقات کو نارملایزیشن کا عمل قرار دیا جاتا ہے تاہم لبنان اس فضاء سے دور ہے۔
صفیالدین نے کہا کہ ساحل کی تقسیم بندی کی سازش کا اصل مقصد حزبالله کو نشانہ بنانا ہے اور اس پر عمل ممکن نہیں
حوزہ علمیہ قم کےممتاز عالم دین آیت اللہ مصباح یزدی کا انتقال ہوگیا
اسلامی جمہوریہ ایران کے ممتاز عالم دین اورحضرت امام خمینی (رہ) تعلیمی اور تحقیقی سینٹر کے سربراہ، خبرگان کونسل میں صوبہ خراسان رضوی سے عوام کے نمائندے اور جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم کے رکن آیت اللہ مصباح یزدی کا انتقال ہوگیا ہے۔ آیت اللہ مصباح یزدی نے اسلامی علوم اور معارف کے سلسلے میں متعدد آثار یادگار کے طور پر چھوڑے ہیں۔ جن میں تفسیر، فلسفہ اسلامی ، قرآنی اخلاق اور اسلام کا سیاسی نظریہ شامل ہیں۔ مرحوم آیت اللہ مصباح یزدی طویل عرصہ سے بیمار تھے انھیں چند روز قبل تہران کے ایک اسپتال میں داخل کیا گیا تھا جہاں آج کچھ عرصہ قبل ان کا انتقال ہوگيا ہے۔ اللہ تعالی مرحوم پر اپنی رحمت واسعہ نازل فرمائے۔