سلیمانی

سلیمانی

حضرب امام ھادی (ع ) کی تاریخ ولادت کے بارے میں بعض مورخین نے ان کی ولادت 15 ذی الحجہ اور بعض نے 2 یا 5 رجب بتائي ھے، اسی طرح ولادت کے سال کے بارے میں بھی بعض نے 212 ھجری قمری اور بعض نے 214 ھ بیان کیا ھے(1)


رجب میں امام ھادی علیہ السلام کی پیدایش کی ایک دلیل

دعای مقدسہ ناحیہ ھے، جس میں اس جملہ کا استعمال ھوا ھے کہ: "الھم انی اسلک باالمولودین فی رجب ، محمد بن علی الثانی و ابنہ علی ابن محمد المنتجب"(2)
آپ کا نام گرامی علی اور لقب ،ھادی، نقی ۔ نجیب ،مرتضی ، ناصح ،عالم ، امین ،مؤتمن ، منتجب ، اور طیب ھیں، البتہ ھادی اور نقی معروف ترین القاب میں سے ھیں،آنحضرت کی کنیت " ابو الحسن " ھے اور یہ کنیب آنحضرت کے علاوہ دوسرے تین اماموں یعنی امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام،امام موسی ابن جعفر علیہ السلام ،امام رضا علیہ السلام کی ھے، لیکن کنیت(ابو الحسن) کا تعین اور تمیز امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے لۓ مخصوص ھے اور امام موسی بن جعفر علیہ السلام کو ابو الحسن اول ،امام رضا علیہ السلام کو ابو الحسن الثانی، اور امام علی النقی علیہ السلام کو ابو الحسن الثالث کہا جاتا ھے(3)


امام دھم کے والد گرامی کا نام

حضرت امام محمد تقی علیہ السلام اور والدہ ماجدہ کا نام سمانہ مغربیہ ھے،
امام ھادی علیہ السلام نے اپنی والدہ کے بارے میں فرمایا: میری والدہ میری نسبت عارفہ اور بھشتیوں میں سے تھی، شیطان کبھی بھی اس کے نزدیک نہیں جا سکتا اور جابروں کے مکر و فریب اس تک نہیں پہنچ سکتے، وہ اللہ کی پناہ میں ھے جو سوتا نھیں اور وہ صدیقین اور صالحین کی ماؤں کو اپنی حالت پر نھیں چھوڑتا" (4)
امام علی النقی الھادی علیہ السلام کی ولادت مدینہ منورہ کے ایک گاؤں " صریا " میں ھوئی،صریا مدینہ منورہ سے تین میل کے فاصلے پر واقع ہے کہ جسے امام موسی ابن جعفر نے آباد کیا اور کئ سالوں تک آنحضرت کی اولاد کا وطن رھا ھے


حضرت امام علی النقی علیہ سلام جو کہ ھادی اور نقی کے لقب سے معروف ہیں 3 رجب اور دوسری قول کے مطابق 25 جمادی الثانی کو سامرا میں شھید کۓ گۓ،(5)
امام علی النقی علیہ سلام نے ذیقعدہ سن 220 ھجری میں جب انکے والد گرامی" نویں امام" شھید کۓ گۓ میراث امامت کے اعتبار سے آپ امامت کے منصب پر فائز ھوۓ،
شایان ذکر ھے کہ جب امام ھادی(ع) امامت کے منصب پر فائز ھوۓ توآنحضرت کی عمر 8 سال 5 مھینے سے زیادہ نہ تھی،آپ(ع) اپنے والد کے مانند بچپن میں ہی امامت کےعظیم الھی منصب پر فائز ھوۓ،
حضرت امام علی النقی علیہ سلام کا دور امامت،6 عباسی خلیفوں( معتصم ، واثق، متوکل ،منتصر ،مستعین ، اور معتز کے ھمعصر تھا۔

 

 

امام علی النقی علیہ سلام کے ساتھ ان خلیفوں کا سلوک مختلف تھا جن میں سے کسی نے امام کے ساتھ اچھا سلوک کیا تو کسی نے حسب معمول برا ، البتہ سب کے سب خلافت کو غصب کرنے اور امامت کو چھیننے میں متفق اور ھم عقیدہ تھے،جن میں سے متوکل عباسی (دسواں عباسی خلیفہ)اھل بیت اور خاندان امامت و علوی کے نسبت سب سے زیادہ دشمنی رکھنے میں نامدار تھا اور ھر طریقے سے انکو آزار و اذیت پھچانے میں کوئی کسر باقی نھیں چھوڑی ، حد تو یہ تھی کہ ا‏ئمہ ھدی کی ھر یاد گار کو مٹانا چاھتا تھا، اماموں کی قبروں کو خراب کیا ، خاص کر قبر مطھر سید الشھدا حضرت امام حسین علیہ سلام اور اس کے اطراف کے تمام گھروں کو ویران کرنے اور وھاں کھیتی باڑی کرنے کا حکم دیا۔ (6)
متوکل نے امام کو سن 243 ھجری میں مدینہ منورہ سے نکلوا کر سامرا نقل مکانی کروائی اسطرح آنحضرت کو اپنے آبائی وطن سے دور کیا۔(7)
ان 6 عباسی خلیفوں میں سے صرف منتصر عباسی ( گیارواں عباسی خلیفہ ) نے اپنے باپ متوکل کی ھلاکت کے بعد اپنی مختصر دور خلافت میں علویوں اور خاندان امامت و رسالت کے ساتھ قدرے نیک سلوک کیا،جبکہ جو مظالم عباسی خلیفوں نے ان پر ڈھاۓ ناقابل تھا،
حضرت امام علی النقی علیہ سلام کو سامرا " عباسیوں کے دار الخلافہ" میں 11 سال ایک فوجی چھاونی میں جلا وطنی کی حالت میں رکھا گیا اور اس دوران مکمل طور پر اپنے دوستوں کے ساتھ ملاقات کرنے سے محروم رکھا گیا۔ آخر کار 3 رجب اور دوسری روایت کے مطابق 25 جمید الثانی سن 254 ھجری میں معتز عباسی کی خلافت کے دور میں خلیفہ کے بھای معتمد عباسی کے ھاتھوں زھر دے کر شھید کیا گیا،
شھادت کے وقت امام علیہ سلام کے سر ھانے انکے فرزند حضرت امام حسن عسکری علیہ سلام کے سوا کوئي نہ تھا،

حضرت امام حسن عسکری علیہ سلام  اپنے والد گرامی کی شھادت پر بہت روۓ اور گریبان چاک کیا اور آنحضرت کا خود ھی غسل دیا کفن اور دفن کیا، اور کچھ نادان اور متعصب لوگوں نے حضرت امام حسن عسکری علیہ سلام کی تنقید کی کہ انھوں نےکیوں گریبان چاک کیا؟ ، آنحضرت نے انکو جواب دیا کہ" آپ احکام خدا کے بارے میں کیا جانتے ھیں؟ حضرت موسی بن عمران علیہ سلام نے اپنے بھائی ھارون علیہ سلام کے ماتم میں گریبان چاک کیا" (8)

امام ھادی علیہ سلام کا جنازہ نھایت شان سے اٹھا، اھل بیت اطھار کے چاھنےوالوں ، فقیھوں ، قاضیوں، دبیروں اور امیروں کے علاوہ خلیفہ کے دربار کے بزرگوں نے شرکت کی اور امام کواپنے ایک حجرہ میں دفن کیا گیا،(9)
اس وقت آنحضرت کا مرقد مطھر شھر سامرا میں ھے جھاں آپ (ع) کے جوار میں آپکے فرزند حضرت امام حسن عسکری علیہ سلام ، انکی بھن حکیمہ خاتون امام جواد علیہ سلام کی بیٹی اور امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ شریف کی والدہ ماجدہ نرگس خاتون دفن ھیں،

 

 

مدارک اور ماخذ :

1 {الارشاد (شیخ مفید)، ص 635؛ کشف الغمہ ( علی ابن عیسی اریلی) ج،3، ص،23 ؛ مننتھی الامال ( شیخ عباس قمی)، ج 2 ، ص،361؛ الکافی ( شیخ کلینی) ، ج 1، ص،497؛ وقایع الایام ( شیخ عباس قمی)،ص497}
2 {مفاتیح الجنان، ماہ رجب کی چٹی دعای }
3 {منتھی الامال،ج2،ص،361؛وقایع الایام، ص 296}
4 { منتھی الامال ج2 ، ص 361 }
5 الارشاد (شیخ مفید)، ص 649؛ منتہی الآمال (شیخ عباس قمی)، ج2، ص 384.
6 منتہی الآمال، ج2، ص 383.
7_ منتہی الآمال، ج2، ، ص 377 و الارشاد، ص 646.
8_ منتھی الآمال، ج2، ص 385.
9_ نک: الارشاد، ص 635؛ کشف الغمہ (علی بن عیسی اربلی)، ج3، ص

1 – مذہب کے بارے میں تحقیق کیوں ؟

اللہ نے بہترین راستہ اختیار کرنے والوں کو بشارت دی ہے ۔

اللہ کا ارشاد گرامی ہے :

{فَبَشِّرْ عِبَادِي * الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ أُوْلَئِكَ الَّذِينَ هَدَاهُمْ اللهُ وَأُوْلَئِكَ هُمْ أُوْلُوا الاَلْبَابِ} الزمر: 17 – 18

اے پیغمبر !آپ میرے ان بندوں کو بشارت دیں کہ جو مختلف باتوں کو سنتے ہیں اور جو بات اچھی ہوتی ہے اس کا اتباع کرتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جنہیں خدا نے ہدایت دی ہے اور یہی وہ لوگ ہیں جو صاحبانِ عقل ہیں۔

 فرقہ ناجیہ کا گمراہ اور باطل فرقوں سے انتخاب :

شیعہ اور اھل سنت کے ہاں نقل شدہ معتبر روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : «وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ مِلَّةً كُلُّهُمْ فِي النَّارِ إِلَّا مِلَّةً وَاحِدَةً». میری امت ۷۳ فرقوں میں بٹ جائے گی اور ان میں ایک کے علاوہ باقی سب جہنمی ہوں گے ۔

سنن الترمذي : ج 4 ص 135 ح 2779 .

كليني کہ جو شیعوں کا بہت بڑا عالم ہیں آپ  امام باقر عليه السلام سے اپنی کتاب میں نقل کرتے ہیں کہ امت ۷۳ فرقوں میں تقسیم ہوگی : «اثْنَتَانِ وسَبْعُونَ فِرْقَةً فِي النَّارِ وفِرْقَةٌ فِي الْجَنَّةِ» ان میں سے ۷۲ فرقے جہنم میں اور ایک فرقہ جنت میں جائے گا ۔

كافي: ج8 ص224 .

لہذا رسول اللہ صلی علیہ و آلہ وسلم کے اس نورانی کلام کی رو سے ہمیں ناجی اور اھل حق فرقے کی پہچان اور اس کی پیروی کرنی چاہئے ۔

2 – شیعوں کا فرقہ ناجیہ ہونے کے بارے میں پیغمبر صلی ‌الله عليه وآله کی احادیث سے استدلال ؛

قیامت کے دن بشارت :

پیغمبر صلي الله عليه واله وسلم نے اميرالمؤمنين علي عليه السلام کی طرف اشارہ کر کے فرمایا: «وَالَّذِي نَفْسِي بِيِدِهِ إِنَّ هَذَا وشيعَتَهَ لَهُمُ الفَائِزُونَ يَوْمَ القِيَامَةِ» اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے (علي عليه السلام) اور ان کے شیعہ ہی قیامت کے دن کامیاب ہوں گے .

 فتح القدير ج 5 ص 477

حضرت علي عليه السلام کے شیعوں کو بہشت کی بشارت :

ابن مَرْدَوَيْه نے حضرت علي عليه السلام سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا : اس امت کے ۷۳ فرقے ہوں گے سب جہنم میں چلے جائیں گے سوای ایک کے «وَوَاحِدَةٌ فِي الْجَنَّةِ وَهُمْ أَنَا وَشِيْعَتِي» ایک فرقہ بہشت میں جائے گا اور وہ میں اور میرے شیعہ ہوں گے ۔   مناقب ابن مردويه ص44.

اهل بيت  نجات کی کشتی ہیں  :

حاكم نيشابوري نے رسول اكرم صلی ‌الله عليه وآله سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا : مَثَلُ أَهْلٍ بَيْتِي مَثَلُ سَفِينَةِ نُوحٍ ، مَنْ رَكِبَهَا نَجَا ، وَمَنْ تَخَلَّفَ عَنْهَا غَرِقَ» میرے اھل بیت کی مثال حضرت نوح کی کشتی کی ہے ،جو اس میں سوار ہوگا وہ نجات پائے گا، جو اس میں سوار نہیں ہوگا وہ گمراہی کے دریا میں غرق ہوگا۔

حاكم نيشابوري کہتا ہے : یہ روایت صحیح ہے اور صحیح مسلم کی شرائط کے مطابق ہے .

مستدرك ج 2 ص 343.

–قرآن و سنت سے امامت الهي اور علي عليه السلام  کی خلافت بلا فصل ہونے کے دلائل ۔

آيه ولايت:

{إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ ءَامَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَوةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَوةَ وَهُمْ رَ كِعُونَ} .

المائدة : 55.

ایمان والو بس تمہارا ولی اللہ ہے اور اس کا رسول اور وہ صاحبانِ ایمان جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوِٰ دیتے ہیں۔

  اهل سنت کے بزرگ علماء نے مجاهد سے یہ روایت نقل کی ہے {إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ} نَزَلَتْ فِي عَلي بن أبي طالب تَصَدَّقَ وَهُوَ راكِعٌ. جس وقت علی ابن ابی طالب حالت رکوع میں تھے اور آپ نے حالت رکوع میں صدقہ دیا تو یہ آیت آپ کی شان میں نازل ہوئی  تفسير الطبري ج 6 ص 390

اسی طرح  ابن ابي حاتم از عتبه بن ابي حکيم نے اسی مطالب کو نقل کیا ہے .تفسير ابن أبي حاتم ج 4 ص1162 .

ابن تيميه ان دو تفاسیر کے بارے میں کہتا ہے : تفاسيرهم متضمّنة للمنقولات التي يعتمد عليها في التفسير  طبري اور ابن ابي حاتم کی تفاسیر  ایسی تفاسیر میں سے ہیں کہ کہ جن میں ایسی احادیث اور باتیں موجود ہیں کہ جن پر قرآن کی تفسیر کے لئے اعتماد کیا جاسکتا ہے ۔

آلوسي سلفي کہتا ہے: « وغالب الأخباريّين على أنّ هذه الآية نزلت في ‌علي‌» اکثر اخباریوں کا یہ نظریہ ہے کہ یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کے بارے نازل ہوئی ہے .تفسير روح المعاني ج6ص167.

اسی طرح آلوسی کہتا ہے: «والآية عند معظم المحدثين نزلت في علي» اکثر محدثین کا یہ نظریہ ہے کہ آیت، علي بن ابي طالب کے بارے نازل ہوئی ہے .

تفسير روح المعاني ج6ص186.

آيه ابلاغ:

{يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا اُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ} المائدة: 67.

اے پیغمبر ! آپ اس حکم کو پہنچادیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا کہ اللہ کافروں کی ہدایت نہیں کرتا ہے۔

اھل سنت کے بڑے عالم ابن ابي حاتم نے ابو سعيد خُدْرِي سے نقل کیا ہے  : «نزلت هذه الآية . . . في علي بن أبي طالب» یہ آيه ابلاغ حضرت علی ابن ابی  طالب علیہ السلام کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔

تفسير ابن أبي حاتم ج 4 ص1172.

آلوسی کہ جو اھل سنت ہی بڑے علماء سے ہیں۔ انہوں نے عبد الله بن مسعود کی یہ روایت نقل کی ہے کہ ہم  رسول الله صلي الله عليه وآله کے زمانے میں  اس آیت کی اس طرح سے تلاوت کرتے تھے : «بَلِّغْ مَا اُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ إنّ عليّاً وليُّ المؤمنين وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ» یہ جو چیز آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل ہوئی ہے "علی مومنوں کے ولی ہیں " اس کو لوگوں تک پہنچائے اگر ایسا نہیں کیا تو گویا آپ نے رسالت کے کام کو نہیں پہنچایا۔

روح المعاني ج6 ص193

سيوطي ،شوكاني ، محمد رشيد رضا وغیرہ نے بھی اس حدیث کو نقل کیا ہے .

الدر المنثور ج2ص298 و فتح القدير ج 2 ص60 والمنار: ج 6ص463 .

آيه اکمال دين:

{أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمْ الاِسْلاَمَ دِيناً}. المائدة: 3

-آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا ہے اور اپنی نعمتوں کو تمام کردیا ہے اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسندیدہ بنادیا ہے.

خطيب بغدادي کہ جو اهل سنت کے بڑے علماء میں سے ہیں ،انہوں نے ابوهريره سے نقل کیا ہے : غدير خم کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے علي بن ابي طالب علیہ السلام کے ہاتھ کو پکڑ کر فرمایا : «أَلَسْتُ وَلِيَّ المُؤْمِنِين؟» کیا میں مومنوں کے ولی اور ان کا سرپرست نہیں ہوں؟ سب نے کہا جی ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم! ۔ اس وقت آپ نے فرمایا : «مَنْ كُنْتَ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ» جس کا میں مولی ہوں علی اس کا مولا ہیں  . اس کے بعد عمر بن خطاب نے کہا  : اے ابو طالب کے فرزند مبارک ہو مبارک ہو ، آپ میرے اور سارے مسلمانوں کے ولی بن گئے  اور پھر یہ آیت نازل ہوئی "آج آپ کے دین کو ہم نے کامل کیا (اس روایت کی سند معتبر ہے )

تاريخ بغداد ج8 ص284

ابن کثير کی نقل کردہ روایت کے مطابق عمر بن خطاب نے کہا : «أَصْبَحْتَ الْيَومَ وَلِيَّ كُلِّ مُؤْمِنٍ» يا علي! آج کے بعد آپ تمام مومنوں کے ولی بن گئے.

البداية والنهاية ج 7 ص350 .

سنت اور ادله امامت الهي و خلافت بلا فصل علي عليه السلام ۔

حديث ولايت:

حاكم نيشابوری کہ جو اھل سنت کے بڑے علماء میں سے ہیں،انہوں نے  پیغمبر صلي الله عليه وآله کی یہ روایت نقل کی ہے : «إنَّ عَلِيّاً مِنِّي وَأَنَا مِنْهُ وَهُوَ وَلِيُّ كُلِّ مُؤْمِنٍ بَعْدِي» علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ، علی میرے بعد تمام مومنین کے ولی ہیں ۔

یہ روایت مسلم کی شراط کے مطابق صحیح ہے اسی طرح ذھبی نے بھی اس کو صحیح قرار دیا یے .

مستدرك ج 3 ص 110

وهابي فکر والے بڑے عالم آلبانی نقل کرتا ہے کہ پیغمبر صلی الله عليه وآله نے  اميرالمؤمنين عليه السلام سے خطاب میں فرمایا : «أَنْتَ وَلِيُّ كُلِّ مُؤْمِنٍ وَمُؤْمِنَةٍ» تم میرے بعد تمام مومنین مرد اور عورتوں کے ولی ہیں. حاکم  اور ذهبي نے اس  روايت کو صحیح قرار دیا ہے  جب ان دو نے کہا ہے تو اس روایت کی سند صحیح ہے۔

السلسلة الصحيحة ، ج 5 ص263 . المستدرك ج3 ص133.

حديث الخلافة :

ابن أبي عاصم کہ جو اھل سنت کے بڑے علماء میں سے ہیں،انہوں نے پیغمبر صلی الله عليه وآله کی اس حدیث کو نقل کیا ہے کہ آپ نے اميرالمؤمنين سے خطاب میں فرمایا : «وَأنْتَ خَلِيفَتِي فِي كُلِّ مُؤْمِنٍ مِنْ بَعْدِي» آپ میرے بعد میرا جانشین اور تمام مومنوں کے ولی ہیں ۔

 كتاب السنة 551 .

 

وھابی عالم آلبانی نقل کرتا ہے : پیغمبر صلی الله عليه وآله نے اميرالمؤمنين سے خطاب میں فرمایا : «لَا يَنْبَغِي اَنْ اَذْهَبَ اِلَّا وَأَنْتَ خَلِيفَتِي» سزاوار نہیں ہے کہ میں جاوں مگر یہ کہ آپ میرا جانشین ہو ۔  الباني کہتا ہے کہ : حاکم اور ذهبي نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے ۔جس طرح سے ان دو نے اس کو صحیح قرار دیا ہے ،یہ صحیح ہے ۔

سلسلة الصحيحة ج 5 ص263 .

حديث امامت:

حاكم نيشابوري نے نقل کیا ہے کہ پیغمبر صلی الله عليه وآله نے فرمایا : مجھ پر وحی نازل ہوئی ہے کہ «علي إمام المتقين» علی متقین کے امام ہیں. اس روايت کی سند بھی صحیح ہے .

مستدرك حاكم ج3 ص133 .

خوارزمي کہ جو اهل سنت کے علماء میں سے ہے ،انہوں نے رسول اللہ  صلی ‌الله عليه وآله، سے نقل کیا ہے کہ آپ نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا : «أَنْتَ إِمَامُ كُلِّ مُؤْمنٍ وَمُؤْمِنَةٍ» آپ تمام مومن مردوں اور مومنہ عورتوں کے امام ہیں .  مناقب ص 61.

امام باقر عليه السلام نے آیت ولاية ، آیت ابلاغ  اور آیت  اكمال کے ذریعے سے امام علی علیہ السلام کی ولایت اور خلافت پر استدلال کیا ۔

كليني نے صحیح سند نقل کیا ہے کہ امام باقر عليه السلام نے فرمایا : اللہ نے رسول اكرم صلی الله عليه وآله کو ولايت علي عليه السلام کے اعلان کا حکم دیا ، سوره مائده آيه 55 ، {إِنَّما وَلِيُّكُمُ‏ اللَّهُ...} کو نازل کیا «وفَرَضَ وَلَايَةَ أُولِي الْأَمْرِ» اور اولی الامر کی ولایت کو ضروری قرار دیا۔

اسی طرح سوره مائده کی آيه 67 میں فرمایا  «يا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ ما أُنْزِلَ إِلَيْكَ‏ مِنْ رَبِّكَ» اس میں آپ کو یہ حکم دیا کہ آپ جو بات آپ پر وحی ہوئی ہے وہ آپ لوگوں تک پہنچائے اور  رسول اللہ صلی ‌الله عليه وآله نے بھی اللہ کے حکم کو عملی جامعہ پہنایا « فَقَامَ بِوَلَايَةِ عَلِيٍّ × يَوْمَ غَدِيرِ خُمٍّ» اور غدیر کے دن علي عليه السلام کی ولایت کا اعلان فرمایا اور یہ حکم دیا کہ اس حکم کو جو غائب ہیں ان تک پہنچائے .

پھر امام باقر عليه السلام نے فرمایا : اور اس آخری واجب کو کہ جو حضرت علي عليه السلام کی ولایت تھا، سوره مائده کی آیت نمبر ۳ کی نزول کے بعد کامل کیا ،{الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ‏ وأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي} آج آپ کے دین کو کامل کیا اور آپنی نعمتوں کو آپ پر کامل کیا «قَدْ أَكْمَلْتُ لَكُمُ الْفَرَائِضَ» در حقیقت سارے واجبات کو آپ پر مکمل کیا ۔كافي، ج1، ص 289 ح 4.

4 - اگر حضرت علي عليه السلام خليفه بلافصل ہوتے تو کیا ہوتا؟

علي عليه السلام كتاب اور  سنت پر عمل کرنے کا زمینہ فراہم کرتے :

اهل سنت کے علماء میں سے ابن شُبّه نُمَيري نے خليفه دوم سے نقل کیا ہے  ابن عباس نے نقل کیا ہے : إنَّ أَحْراهُمْ إنْ وَلِيَهَا أَنْ يَحْمِلَهُمْ عَلَى كِتَابِ اللّهِ وَسُنَّةِ نَبِيِّهِمْ صَاحِبُكَ، يَعِنِي عَلِيّاً. جو شخص مسلمان کو قرآن اور سنت کے مطابق عمل کرانے کے لئے سب سے زیادہ مناسب اور اھلیت رکھتا ہے ، وہ آپ کے  دوست علی ابن ابی طالب ہیں ،

تاريخ المدينة المنورة ج 3 ص 883.

لوگوں کو صراط مستقم کی طرف دعوت دینے کا باعث بنتے :

حنبلي فرقے کے بڑے امام ، احمد بن حنبل نے رسول اللہ صلی الله عليه وآله سے صحیح سند روایت نقل کیا ہے : واِن تُؤَمِّرُوا عَلِيًّا رضي الله عنه وَلاَ أُرَاكُمْ فَاعِلِينَ يَأْخُذُ بِكُمُ الطَّرِيقَ الْمُسْتَقِيمَ.

اگر علي کو  امير (المؤمنين) قرار دئے تو { اگرچہ میں جانتا ہوں ایسا نہیں کروگے  }  تو آپ سب لوگوں کو ہدایت کی راہ پر لے جاتے ۔

مسند أحمد ج 1 ص 537.

ابو نعيم اصفهاني کہ جو اهل سنت کے بڑے علماء میں سے ہے انہوں نے  رسول اللہ  صلی الله عليه وآله سے نقل کیا ہے : «إِنْ تَسْتَخْلِفُوا عَلِيّاً وَمَا أَرَاكُمْ فَاعِلِينَ تَجِدُوهُ هَادِياً مَهْدِيّاً ، يَحْمِلُكُمْ عَلَى الْمَحَجَّةِ الْبَيْضَاءِ». آگر علی کو اپنا خلیفہ قرار دئے آگرچہ میں جانتا ہو تم لوگ ایسا نہیں کرو گے، تو تم لوگ ان کو ہدایت کرنے والے اور اھل ہدایت پاتے یہ  تم لوگوں کو روشن اور سیدھے راستے پر چلاتے ۔

حلية الأولياء ج 1 ص 64.

اسلامی اتحاد کا موجب بنتے :

حاكم نيشابوري نے رسول اللہ صلی الله عليه وآله سے نقل کیا ہے کہ علي عليه السلام سے فرمایا : «أَنْتَ تُبَيِّنُ لِأُمَّتِي مَا اخْتَلَفُوا فِيهِ بَعْدِي». تم ای علی میرے بعد، جو فتنہ اور اختلاف ہوگا، تم اس کو صاف اور روشن کرو گے.

 آپ میرے بعد میری امت کو اس چیز کو بیان کریں گے جس میں وہ لوگ اختلاف کرئے ۔ یہ روایت صحیح اور صحیح بخاری اور مسلم کی شرائط کے مطابق صحیح ہے ۔

المستدرك: ج 3 ص 122.

ایک اور حدیث میں آپ نے فرمایا : «وَأَهْلُ بَيْتِي أَمَانٌ لِأُمَّتِي مِنَ الْاِخْتِلافِ» میرے اھل بيت امت کے لئے اختلافات سے آمن اور  امنیت  کا باعث ہے اور جو بھی قبیلہ ان سے اختلاف کرئے وہ شیطان کے گروہ سے ہے۔

یہ حدیث بھی صحیح ہے ۔

مستدرك ج 3 ص 149.

لوگوں کی دنیوی زندگی میں آسائش اور رفاہ کا باعث :

حضرت صديقه طاهره سلام اللہ علیہا نے اپنے مشہور خطبے میں ارشاد فرمایا : «يَالَلّهِ لَوْ تَكَافَؤُا عَلِي زِمَامٍ نَبَذَهُ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وآله ...لَفُتِحَتْ عَلَيْهِمْ بَرِكَاتٌ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ» اللہ کی قسم ! اگر زمام خلافت کو اسی کے حوالے کرتے جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے معین فرمایا تھا تو زمین اور آسمان کی برکتوں کے دروازے ان پر کھل جاتے .

بلاغات النساء، ص24 .

سلمان نے فرمایا : «لَوْ بَايَعُوا عَلِيّاً لَأَكَلُوا مِنْ فَوقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ» اگر علی کی بیعت کرتے تو آسمان اور زمین کی برکتوں سے استفادہ کرتے ۔

أنساب الأشراف ج 2 ص 274. مصنف ابن أبي شيبة ج 7 ص 443.

حضرت امير عليه السلام نے فرمایا : «وَلَو أَنَّ الْأُمَّةَ مُنْذُ قَبَضَ اللهُ نَبِيَّهُ، اِتَّبَعُونِي وَأَطَاعُونِي لَأَكَلُوا مِنْ فَوقِهِمْ وَمِنْ تَحْتَ أَرْجُلِهِم رَغَداً إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ». اگر امت پیغمبر صلی الله عليه وآله کی رحلت کے وقت میری اتباع اور اطاعت کرتے تو زمین اور آسمان کی نعمتوں سے فائدہ اٹھاتے اور قیامت تک خوش اور آسائش کے ساتھ زندگی گزارتے۔ .

كتاب سليم بن قيس ج 1 ص 658 و احتجاج طبرسي ج 1 ص 223.

اخروی زندگی میں سعادت کے ضامن :

عبد الرزاق صنعاني نے عبد الله بن مسعود کے توسط سے  رسول اكرم صلی الله عليه وآله سے نقل کیا ہے : «أَمَا وَالَّذِي نَفْسِي بيده، لَئِنْ أَطَاعُوهُ لَيَدْخُلَنَّ الْجَنَّةَ أَجْمَعِينَ أَكْتَعِينَ». اگر لوگ میرے بعد علي عليه السلام کی اطاعت کرئے تو سب کے سب ایک ساتھ جنت میں داخل ہوجاتے ۔

المصنف، ج 11، ص 317.

 اسلامی جمہوریہ ایران کی بحری جنگی کشتی سہند روس کی بندگاہ "سینٹ پیٹرزبرگ" پہنچ گئی ہے، جہاں وہ روس میں منعقد ہونے والی بحری پریڈ میں شرکت کرےگی۔

۔ یہ پریڈ روسی بحریہ کی تشکیل کی سالگرہ کی مناسبت سے منعقد کی جارہی ہے۔ ایران کی دوسری بحری کشتی مکران  پریڈ کی جگہ سے 25 میل کی دوری پر مستقر رہےگی۔ کیونکہ پریڈ کی جگہ پانی کی گہرائی کم ہے۔

پاکستان کے زیرانتظآم آزاد کشمیرمیں انتخابات کے لیے پولنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ اطلاعات کے مطابق آزاد کشمیر میں قانون ساز اسمبلی کی 45 نشستوں کے لیے 32 لاکھ سے زائد ووٹرز حق رائے دہی استعمال کر رہے ہیں جب کہ انتخابات میں 742 امیدوار حصہ لے رہے ہیں، پی ٹی آئی، ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان سخت مقابلے کی توقع ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی نے المنار کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ حزب اللہ لبنان کی اجرائی کونسل کے سربراہ سید ہاشم صفی الدین  نے کہا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران ، لبنان پر اسرائیل کی مسلط کردہ  33 روزہ جنگ میں لبنانی  مزاحمت کا سب سے بڑا حامی تھا۔ اطلاعات کے مطابق حزب اللہ کی اجرائی کونسل کے سربراہ نے کہا کہ ایران نے 33 روزہ جنگ میں لبنانی مزاحمت کی حمایت میں اہم کردار ادا کیا۔ انھوں نے کہا کہ شہید میجر جنرل سلیمانی نے 33 روزہ جنگ میں لبنان کی بھر پور حمایت کی ۔ انھوں نے اس جنگ میں اسرائیلیوں کو شکست دینے کے سلسلے میں شاندار کردار ادا کیا ۔ سید ہاشم صفی الدین نے کہا کہ جب میں نے حاج قاسم سلیمانی کو ٹیلیفون کیا تو انھوں نے جواب دیا کہ میں لبنانی عوام کے ساتھ ہوں اور ان کا یہ جملہ میرے لئے بہت ہی مؤثر تھا۔ سید ہاشم صفی الدین نے کہا کہ حاج قاسم نے کہا کہ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے لبنانی مزاحمت کی حمایت کے سلسلے میں تمام امکانات اور وسائل سے استفادہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس طرح 33 روزہ جنگ میں اسلامی جمہوریہ ایران نے اسرائیل کو شکست سے دوچار کرنے میں بنیادی اور اساسی کردار ادا کیا۔

افغانستان امن و سلامتی کے جس بحران سے دوچار ہے، اس کے بارے میں کسی طرح کی پیشنگوئی ایک مشکل امر ہے۔ افغانستان میں سرگرم عمل اندرونی اور بیرونی کھلاڑیوں یا آج کی اصطلاح میں اسٹیک ہولڈروں نے صورت حال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ اس وقت افغانستان کے بارے میں تجزیہ کا اہم منبع فریقین کے بیانات ہیں۔ دوسری طرف بیانات میں محسوس تبدیلی خود ایک معمہ ہے۔ افغانستان کے اس وقت کے بڑے اور طاقتور فریق طالبان اپنے ماضی کے بیانیئے میں گرفتار ہیں، مرکزی قیادت اور مقامی قیادت میں موقف اور حکمت عملی کے حوالے سے نمایاں فرق محسوس ہو رہا ہے۔ تجزیہ نگار بھی مجبور ہیں کہ ان بدلتے روئیوں اور بیانیوں میں حقیقیت کو تلاش کرے۔ مثال کے طور پر روس کا موقف ایک طرف یہ ہے کہ طالبان ایران اور ہندوستان کو ساتھ لیکر چلیں تو دوسری طرف افغانستان میں روسی مندوب زامیر کوپوولوف نے کہا ہے کہ غیر ملکی افواج کے انخلا کے آخری مراحل میں پہنچنے کے ساتھ ہی بڑے پیمانے پر حملہ کرنے والی طالبان بیس برسوں کے بعد کسی بھی تصفیہ تک پہنچنے کے لیے تیار ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں موقف ہی میں نہیں ان کے خیالات کے بدلنے کی بات کر رہا ہوں۔ میں محسوس کرتا اور دیکھ رہا ہوں کہ وہ سیاسی تصفیہ کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ بیس سالوں کے بعد بہت سے طالبان رہنماء یقیناً جنگ سے تھک چکے ہیں۔ انہیں احساس ہے کہ موجودہ تعطل سے نکلنے کے لیے سیاسی حل تلاش کرنا ضروری ہے۔ اسی دوران انہوں نے زور دے کر کہا طالبان کے چھوٹے گروہ مگر زیادہ "انتہاء پسند" جنگجو لڑائی روکنے کے لیے راضی نہیں ہیں۔ دوسری جانب طالبان کا کہنا ہے کہ وہ اقتدار پر قبضہ نہیں کرنا چاہتے، لیکن وہ اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ جب تک کابل میں نئی حکومت کی تشکیل نہیں ہو جاتی اور صدر اشرف غنی کا عہدہ ختم نہیں ہو جاتا، تب تک افغانستان میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔

طالبان کے  مرکزی ترجمان سہیل شاہین نے ایک انٹرویو میں طالبان کے موقف کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب اشرف غنی کی حکومت ختم ہوگی اور دونوں فریقین کے درمیان قابل قبول گفتگو کے بعد نئی حکومت تشکیل پائے گی، تب وہ مسلحانہ جدوجہد روکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ ہم اقتدار پر قبضے میں یقین نہيں رکھتے، کیونکہ ماضی میں افغانستان میں اکیلے حکومت کرنے والے گروہ کی حکومت نہیں چل سکی، اسی لئے ہم اس کا اعادہ نہیں کرنا چاہتے۔ طالبان کے مرکزی ترجمان کا بیان اپنی جگہ، تاہم طالبان کے زیر قبضہ اضلاع سے بار بار ایسی مستند رپورٹس موصول ہوتی رہی ہیں کہ انہوں نے خواتین پر سخت پابندیاں عائد کر دی ہیں، حتیٰ کہ اسکولوں میں آگ لگا دی۔ ایک لرزہ خیز ویڈیو سامنے بھی آئی ہے، جس میں یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ شمالی افغانستان میں طالبان نے گرفتار کیے گئے کمانڈوز کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔

طالبان کے مرکزی ترجمان سہیل شاہین نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ کچھ طالبان کمانڈروں نے جابرانہ اور سخت رویئے کے خلاف قیادت کے احکامات کو نظرانداز کیا ہے اور ان میں سے متعدد کو طالبان کے ایک فوجی ٹریبونل کے سامنے پیش بھی کیا گیا ہے اور انہیں سزا دی گئی ہے، تاہم انہوں نے سزاؤں کی تفصیلات فراہم نہیں کیں۔ یاد رہے کہ افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا، چین کا لداخ میں گھسنا، بھارت کے طالبان کے ساتھ ناکام رابطے، طالبان کا ترکی کو کابل میں اپنی موجودگی کو محدود رکھنے کا مشورہ، پاکستان کا اپنی سرحدوں پر باڑ لگا کر مزید گشت بڑھانا، دوحا مذاکرات کا جاری رہنا، امریکہ کا پاکستان، ازبکستان و افغانستان پر مشتمل نیا ورکنگ گروپ تشکیل دینا اور روس کا اس سارے عمل میں خاموش کردار ادا کرنا خطے میں جاری نئی کشیدگی کا ایک واضح پیغام ہے۔ امریکہ خطے بالخصوص افغانستان کو اپنے مخالفین بالخصوص ایران و چین کو پلیٹ میں رکھ کر ہرگز نہیں پیش کرے گا، امریکہ کا بی پلان یقینی ہوگا، اب دیکھنا یہ ہے کہ اس کے خدوخال کب سامنے آتے ہیں۔ امریکہ شکست خوردہ ہے، لیکن وہ اتنی آسانی سے خطے میں موجود اپنے مفادات کو نظرانداز نہیں کرسکتا۔

تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

ارنا کی رپورٹ کے مطابق کراچی میں تعینات ایرانی قونصل جنرل حسن نوریان نے کراچی میں ڈی جی پی ایم ایس اے ریئر ایڈمرل محمد شعیب سے ہونے والی ملاقات میں ان سے سمندری سلامتی کے شعبے میں تعاون پر تبادلہ خیال اور اس کا جائزہ لیا۔

اس ملاقات میں انہوں نے میری ٹائم سیکورٹی کے شعبے میں تعاون بڑھانے پر بھی زور دیا۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے قونصل جنرل نے دوطرفہ تعاون ، امداد و نجات، سمندری تحفظ اور ماہی گیروں کی کشتیوں اور ان کے عملے کی واپسی جیسے امور پر تاکید کی۔

اس ملاقات میں، پاکستان کی میری ٹائم سیکورٹی ایجنسی اور ایران کی بارڈر سیکورٹی فورس کے درمیان مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کیے جانے پر زور دیا گیا جس کا مسودہ سفارتی ذرائع سے پہلے ہی تیار کیا جاچکا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے 23 جولائی بروز جمعہ ایرانی کورونا کی ویکسین کی دوسری ڈوز لگوا کر ساری غلط فہمیوں پر لگام لگا دی۔ انقلاب اسلامی کے دشمنوں نے ملکی ساختہ کورونا ویکسین کے خلاف جم کر پروپیگینڈے کئے اور عوام کو اس سے دور رہنے اور نہ لگوانے کا صلاح و مشورہ تک دے ڈالا لیکن رہبر انقلاب اسلامی نے ایک بار پھر اپنے اقدام سے دشمنوں کی ساری سازشوں پر پانی پھیر دیا۔

قرآن میں جس قربانی کو پچھلوں پر چھوڑا گیا ہے اور ارشاد ہوتا ہے : وَ تَرَکۡنَا عَلَیۡہِ فِی الۡاٰخِرِیۡنَ یعنی "ہم نے اس کو پچھلوں پر چھوڑ دیا" یقیناً وہ امام حسین علیہ السلام کی کربلا میں دی جانے والی عظیم قربانی ہے، جس کو ذبحِ عظیم کا نام دیا گیا ہے۔ یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جو خواب دیکھا تھا، مقتل میں مولا حسین علیہ السلام نے اس خواب کی تعبیر بیان کی ہے۔ حضرت اسماعیل ؑکی گردن سے جو ‏چھری رہ گئی تھی، وہ حسینؑ کے یوسف پسر کی گردن پر رواں ہوئی۔ حسینؑ کی قربانی بلاشبہ صراط مستقیم کی اعلیٰ مثال ہے، جس کی اولین اور آخرین میں مثال  لانا ناممکن ہے۔ بقول محسن نقوی
کس کی ہجرت کے تسلسل سے شریعت ہے رواں
قافلہ آج تلک شہر بدر کس کا ہے
اِس مضمون کو لکھنے کا مقصد مولا حسین اور جناب ابراہیم علیہ السلام کی قربانی میں مماثلت بیان کرنا ہے۔ حضرت ابراہیمؑ کی قربانی تین انسانی کرداروں پر مشتمل ہے، ایک حضرت ابراہیمؑ خود، دوسرا حضرت اسماعیلؑ اور تیسرا حضرت ابراہیمؑ کی زوجہ حضرت ہاجرہ جو جناب اسماعیل علیہ السلام کی والدہ ہیں، جبکہ مولا حسینؑ کی قربانی کئی جانثاروں پر مشتمل ہے، مگر ہم یہاں تین کا تین کے ساتھ ہی تقابل کریں گے۔

جناب ابراہیم اور مولا حسین علیہ السلام
حضرت ابراہیمؑ بھی باپ تھے اور مولا حسینؑ بھی باپ تھے، دونوں اپنے مقصد میں بے مثل اور لا شریک ہیں، دونوں کا ہدف رضائے الہیٰ تھا اور دونوں نے اس مقصد کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کیا۔ ایک جذبہ صداقت سے سرشار ہو کر آگ میں کود گیا اور آگ کو گلزار بنا دیا تو دوسرا بے خطر خدا کے عشق میں اپنے وطن کو چھوڑ کر بے آب و گیاہ صحرا میں اپنے خاندان سمیت بھوکہ پیاسا شہید ہوگیا، جبکہ جب بیٹوں کو قربان کرنے کا وقت آیا تو ایک نے اپنی آنکھوں پر پٹی باندھی جبکہ دوسرے نے اپنے پسر کو یوں میدان میں بھیجا جیسے رسول اعظم ؐ سج دھج کے جنگوں میں جایا کرتے تھے، تاکہ لوگوں کو معلوم ہو کہ یہ شبیہ پیغمبرؑ ہیں۔ حرف آخر جب حسینؑ کا یوسف پسر کربلا میں قربان ہوا تو مولا حسین نے خدا کی بارگاہ میں فرمایا کہ خدایا میری قربانی کو قبول فرما۔

یوسفِ اہلبیت حضرت علی اکبر اور پسر خلیل اللہ جناب اسماعیل
حضرت اسماعیل بھی اطاعت خدا میں بے مثال اور لا شریک ہیں۔ جب والد نے سوال کیا کہ بیٹا میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں آپ کو خدا کی بارگاہ میں قربان کر رہا ہوں تو بیٹے نے بھی اشتیاق خدا میں والد کو اجازت دی کہ بابا جس طرح آپ کا خدا راضی ہوتا ہے، اسی طرح کریں، جبکہ دوسری طرف حسین کا یوسف پسر ہے۔ روایات میں آتا ہے کہ مکہ سے کربلا کے لیے جب مولا حسین روانہ ہوئے تو ایک مقام پر مولا حسین کی آنکھ لگ گئی اور مولا حسین کا سر شہزادہ علی اکبر کی گود میں تھا۔ مولا حسین نے خواب دیکھا اور جب خواب سے بیدار ہوئے تو  انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا۔ حضرت علی اکبر نے  مولا حسین سے خواب کا احوال دریافت کیا تو مظلوم کربلا نے اپنے پسر کو تمام احوال بتایا۔ ہمشکل پیغمبر نے اپنے والد سے پوچھا کہ بابا کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ تو امام نے فرمایا کہ بیٹا ہم حق پر ہیں، جس پر حضرت علی اکبر نے فرمایا کہ جب ہم حق پر ہیں تو اس بات سے کیا ڈرنا کہ ہم موت پر جا پڑیں یا موت ہم پر آپڑے۔

روایات میں آتا ہے کہ  حضرت علی اکبر ہر لحاظ سے رسول مکرمؑ کی شبیہ تھے، جب مدینے والوں کو رسول اکرم کی زیارت کا اشتیاق پیدا ہوتا تو وہ جناب علی اکبر کی زیارت کرتے اور حضرت علی اکبر اور جناب عباس جب ایک ساتھ چلتے تو یوں معلوم ہوتا کہ اپنے وقت کے محمد اور علی ایک ساتھ چل رہے ہیں۔ یہی نہیں روز عاشور حضرت علی اکبر نے جب موت کی اجازت طلب کی اور میدان میں گئے تو امام حسین علیہ السلام نے آسمان کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ خالق گواہ رہنا میں نے تیری راہ میں اسے قربان کیا ہے، جو مکمل شبیہ رسول ؐ ہے۔ اپنے مضمون کی طرف واپس آتے ہیں، جب جناب اسماعیل کو نبی خدا نے قربانی کی غرض سے لٹایا تو انھوں نے اپنی آنکھوں پر پٹی باندھی، جبکہ مولا حسین جب علی اکبر کی لاش پر پہنچے تو انہوں نے علی اکبر کو سینے سے لگایا اور جوان بیٹے کے سینے سے برچھی نکالی۔

ام لیلیٰ اور جناب ہاجرہ ؑ
مقاتل کی تاریخ میں یہ بات لکھی گئی ہے کہ جب حضرت ابراہیم اپنے پسر کو قربانی کے لئے لیکر جا رہے تھے تو اس وقت جناب ہاجرہ کو بتایا نہیں تھا۔ حضرت اسماعیل کی والدہ ماجدہ کا صبر یہ تھا کہ جس وقت فرزند کا سنا کہ ان کی گردن پر چھری رکھی گئی ہے تو بس یہ تصور ہی ان کے لیے اتنا دردناک تھا کہ یہ بیٹے کو گود میں سلا کر گردن کو چومتی رہتیں اور روتی رہتیں کہ اللہ کا شکر ہے کہ چھری چلی نہ تھی، اگر چل جاتی تو ماں کا جگر پھٹ جاتا۔ اس واقعے کا اتنا صدمہ ہوا کہ جناب  اسماعیلؑ کی والدہ ماجدہ دنیا سے رحلت فرما گئیں۔ دوسری طرف جناب لیلیٰ ہیں، جن سے پوری زندگی بیٹے نے ایک ہی سوال کیا کہ ماں مجھے موت کی اجازت دیں۔ ماں نے نہ صرف بیٹے کو موت کی اجازت دی بلکہ فرمایا کہ اگر بابا پاک کی نصرت میں ذرہ برابر بھی کمی آئی تو ماں نہیں بنوں گی۔

روایات میں ہے کہ کربلا کی ہر ماں کی طرح علی اکبر کی ماں کو بھی پکا یقین تھا کہ اس کا بیٹا میدان سے زندہ واپس نہیں آئے گا۔ یہی نہیں والدہ علی اکبر نے ناصرف صبر کی مثال چھوڑی ہے بلکہ یہ وہی ماں تھی جو شام تک سنتی گی کہ "وہ ماں زندہ تو نہ ہوگی جس کا علی اکبر جیسا یوسف بیٹا کربلا میں مارا گیا ہو۔" آخر میں مضمون پڑھنے والے قارئین سے اتنی درخواست ہے کہ وہ قربانی کرتے وقت جہاں یاد ابراہیم منا رہے ہیں، وہاں یاد حسین بھی منائیں، کیونکہ حسین محسن انسانیت ہیں، جن کے سبب اسلام شاد باد اور کفر نامراد ہے اور سب کو یہ پیغام دیں کہ ہم ہیں حسینی ہمارا حسین ہے۔

تحریر: مہر عدنان حیدر

 واقعہ کربلا کا آغاز یزید کی اعلان جانشینی سے ہی ہوگیا تھا۔ معاویہ نے اپنی موت کے بعد یزید کو تخت خلافت کے لیے منتخب کردیا تھا۔ یزید کرسی خلافت پر متمکن ہوتے ہی مطالبہ بیعت کرنے لگا ۔ لوگوں نے اس کی اطاعت قبول کرنا شروع کردی لیکن کردار کے سچے اور اسلام کے محافظ نے اس کی بیعت سے صریحی انکارکردیا۔ اس نے اما م حسین علیہ السلام کے انکار بیعت پر قتل کا حکم صادر کیا ہوا تھا۔ اس لیے اندرونی خطرات اور بیرونی حالات سے موافقت کرکے آپ نے جانب مکہ ہجرت فرمادی اور وہاں چار ماہ سے زائد قیام کیا ۔ اس مدت میں آپ نے متعدد بیانات سے بنی امیہ کے تشدد اور اسلام کی محافظت کی جانب لوگوں کوبلایا ۔آپ  ایک بڑے فتنہ سے بچنے کے لیے لوگوں کوبیدارکرہے تھے۔اسی دوران اہل کوفہ نے آپ کے حمایت میں خطوط ارسال کرنا شروع کردیا ۔ خطوط کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہوتا رہا ۔ مکہ کے نامساعد حالات اور کوفہ کی ظاہرانہ حمایت سبب بنی کہ آپ جوابی خطوط کے طور پر اپنے قابل اعتماد شخص جناب مسلم بن عقیل کو جانب کوفہ روانہ کردیں۔ 

مسلم بن عقیل ، حضرت عقیل کے فرزند تھے ۔ جناب عقیل ، حضرت ابوطالب کے فرزند ۔ امام علی علیہ السلام ، حضرت ابوطالب کے فرزند ۔امام حسین علیہ السلام ، حضرت علی علیہ السلام کے فرزند ۔ اس اعتبار سے جناب عقیل اورامیر المومنین کے والد محترم ، حضرت ابوطالب ہوئے ۔ اب رشتہ داری کے منظر سے دیکھاجائے توجناب عقیل ، امام حسین علیہ السلام کے چچا زاد بھائی قرار پاتے ہیں۔آپ کی پرورش نے خاندان اہل بیت میں ہوئی ۔ آپ نے امام علی علیہ السلام، امام حسن علیہ السلام ، امام حسین علیہ السلام سے بہت کچھ کسب فیض کیا۔ امام علی علیہ السلام کے دوران خلافت ، جنگ صفین میں شریک جنگ رہے ۔امام حسن علیہ السلام ، امام حسین علیہ السلام اور عبد اللہ بن جعفر کے ساتھ لشکر میمنہ میں دشمنوں سے نبردآزما رہے۔ امام حسن علیہ السلا م کے زمانہ میں بھی امام کے خاص اصحاب میںشمار کئے جاتے تھے ۔ امام دوم کی شہادت کے بعد امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ راہی مکہ ہوگئے ۔

مکہ میں امام نے اپنا سفیر بنا کر کوفہ روانہ کردیا۔ نصف ماہ رمضان ۶۰ھ کو مخفیانہ طور سے جانب مدینہ کوچ کرگئے اور قیس بن مسہر صیداوی ، عبدالرحمان بن کدن ارحبی اور عمارہ بن عبید سلولی کو اپنا ہم سفر بنایا ۔ مدینہ پہونچنے پر مسجد نبی میں دو رکعت نماز ادا کی ۔ نصف شب میں اپنے اقرباکے یہاں گئے اور ان سے رخصت آخر لیا۔(تاریخ طبری، ابو جعفر، ج ؍ ۵، ص؍ ۳۵۴) ۔سا تھ ہی قیس عیلان قبیلہ کی دو فر د کو بطور رہنمائے سفر ساتھ لیا ۔ رات ہی کو کوفہ کی راہ پکڑلی ۔ شدت پیاس کے سبب راستہ میں ہی دونوںرہنمائے سفر کا انتقال ہوگیا۔اس لیے آپ اور آپ کے ہمراہیوںکے لیے کوفہ تک رسائی بہت مشکل ہوگئی ۔ آپ نے قیس بن مسہر کے وسیلہ امام کو راہ کے مشکلات سے آگاہ کیا۔ امام نے منفی جواب دیا اورسفر جاری کرنے کی ہدایت دی۔آپ ۵؍ شوال کو داخل شہر ہوئے اور مختار ثقفی کے گھر میں قیا م کیا۔ 

آپ کی آمد کی خوشحال خبر سنتے ہی شیعان اہل بیت کی آمد ورفت کا سلسلہ شروع ہوگیا اورمسلم بن مسیب کے گھر میں نائب امام کی بیعت کا تانتا بندھ گیا۔ آپ نے امام حسین علیہ السلام کے متن خط کو پڑھا ۔لوگ امام کے شوق دیدار میں گریہ کناں ہوگئے ۔ اس وقت عباس ابن ابی شبیب شاکری بلند ہوئے اور حمد الٰہی بجالانے کے بعد کہا: میں لوگوں کی جانب سے کچھ نہیں کہتا اور مجھے علم نہیں کہ ان کے دل میں کیا ہے لیکن میں اپنے باطن سے آگاہ کررہا ہوں ۔ اللہ کی قسم! جس وقت بھی مجھے آواز دیں گے ، حاضر خدمت رہوں گااور تادم حیات آپ کی رکاب میں دشمنوں سے جنگ کرتا رہوں گا اور سوائے انعام حق کے کسی شے کا طالب نہیں رہوں گا۔ اس کے بعد حبیب ابن مظاہراور سعید بن عبد اللہ حنفی بلند ہوئے اور عابس کی باتوں پر تائید لبیک کہا ۔ پھر لوگوں نے بیعت شروع کی۔ (الفتوح ، ابن عاصم ، ج؍ ۵ ، ص ؍ ۴۰۔تاریخ طبری، ابوجعفر ، ج ؍ ۵، ص ؍ ۳۵۵)

ابتدا میں بیعت کرنے والوں کی تعداد بارہ ہزار تھی لیکن بہت تیزی سے تعدا د میں اضافہ ہوا اور اٹھارہ ہزار تک پہونچ گئی ۔ اسی کے بعد آپ نے امام حسین علیہ السلام کو خط لکھا اور کوفہ آنے کی دعوت دی۔ (البدایہ والنہایہ، ابن کثیر ، ج ؍ ۸، ص ؍۱۶۳)جب حاکم کوفہ نعمان بن بشیر کو اس بات کا علم ہوا تووہ مسجد گیااور لوگوں کو فتنہ، خون ریزی اور یزید کی مخالفت سے منع کیا مگر بنی امیہ کے بہی خواہوں کو یہ بات ’نرمی کا برتاؤ‘معلوم ہوئی ۔ سو عبد اللہ بن مسلم بن سعید حضرمی بلند ہوا اور اس نے کمزوری کا الزام لگا کر یزید کو ایک خط لکھا اور سارے حالات سے باخبر کردیا۔ یزید نے معاویہ کے غلام سرجون سے مشور ہ لے کر عبید اللہ بن زیاد کو کوفہ روانہ کردیا اور کوفہ کی حکومت اس کے ہاتھ میں دے رکھی۔ اسی طرح اس کو فرمان دیا کہ مسلم کو ایک’ گمشدہ مہرہ‘ کی مانند تلاش کرو اور جس وقت بھی ہاتھ آجائے ، اسے قتل کردو اور اس کے سر کو یزید کے پاس بھیج دو۔ (مناقب آل ابوطالب، ابن شہر آشوب ، ج ؍ ۳، ص ؍ ۲۴۲)

۔۔۔عبیداللہ ابن زیاد جب کوفہ کے قریب پہنچا تو انتظار کیا تاکہ فضا میں تاریکی چھاجائے۔ اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ اس حالت میں شہر میں داخل ہوا کہ اس کے سر پر سیاہ عمامہ تھا اور منھ پر تالے لٹکے ہوئے تھے۔ اُس راہ سے داخل ہوا جہاں سے اہل حجاز آتے ہیں ۔یہ چال اس لیے تھی تاکہ لوگوں کوچکمہ دے سکے کہ وہ حسین بن علی ہے۔ اہالیان کوفہ امام حسین علیہ السلام کے منتظر تھے ۔ خیال کیا کہ یہ حضرت امام حسین ؑ ہی ہیں ۔ خوشیاں منانے لگے اور سلام کا تسلسل بندھ گیا اور وہ کہتے :اے فرزند رسول! مرحبا! ہم آپ کے حامی و مددگارہیں اور ہماری تعداد چالیس ہزار سے زائدہے۔ لوگ اس کے گھوڑے کے گرد ریلا لگائے ہوئے تھے ۔اسی دوران عبید اللہ مجبور ہوا کہ کچھ بولے ۔ زبان کھولنا تھا کہ ایک شخص نے اس کی آواز پہچان لی اور کہا: خدائے کعبہ کی قسم! یہ ابن زیاد ہے۔ ۔۔۔بہرکیف، دیر سے ہی سہی سارا پردہ فاش ہوگیا کہ ابن زیاد کوفہ کا حاکم مقرر ہوچکا ہے۔ اس نے آتے ہی حالات پر مکمل دہشت پھیلادی اور حکومتی ہرکارے کو جاسوسی پر مقرر کردیا۔ اس وجہ سے جناب مسلم کو رات ہی میں سالم بن مسیب کے یہاں سے نقل مکانی کرکے ہانی بن عروہ کے مکان جانا پڑا۔ ظاہر ہے کہ اب لوگوں نے آپ کے یہاں بیعت شروع کردی۔

  مسلم بن عقیل کا عزم تھا کہ ابن زیاد کے خلاف قیام کریں لیکن ہانی نے کہا: جلد ی نہ کریں ۔ (الفتوح ، ابن اعثم، ج ؍۵، ص ؍ ۴۱)جناب مسلم نے دوبارہ عباس بن ابی شبیب کے ذریعہ امام کے نام خط لکھا اور کہا: نامہ بر جھوٹ نہیں بول رہا ہے ۔ اٹھارہ ہزار لوگوں نے میرے ہاتھوں پر بیعت کی ہے ۔ جس وقت بھی میرا خط ملے ،تیزی سے میری طرف آجائیں ۔ تمام لوگ آپ کے ساتھ ہیں اور قلبی طور پر بھی خاندان معاویہ سے کوئی رغبت و دلچسپی نہیں رکھتے ہیں ۔ (تاریخ طبری، ابو جعفر، ج ؍ ۵، ص ؍ ۳۷۵)یہ خط آپ کی شہادت سے ۲۸؍ روز پہلے ، ذی قعدہ کے آخری ایام میں امام حسین علیہ السلام تک پہنچا ۔ (البدایہ والنہایہ، ابن کثیر ، ج ؍ ۸، ص ؍ ۱۷۰)

ابن زیاد نے اپنے غلام’ معقل‘کو لوگوں کے درمیان اتار دیا۔وہ مسجد کوفہ گیا اور مسلم بن عقیل کے قریبی فرد مسلم بن عوسجہ سے آشنائی حاصل کرلی اور رفتہ رفتہ دوستوں کی نشست میں شناسائی حاصل کرنے لگا ۔ اس نے ابو ثمامہ صائدی کواموال کی جمع آوری اور اسلحہ کی خریداری کے لیے تین ہزار درہم بھی دیئے ۔ اس طرح وہ مسلسل ان خبروں کو ابن زیادتک منتقل کرتا رہا۔ (ارشاد، شیخ مفید، ج ؍ ۲ ، ص ؍ ۴۸)ادھر دوسری سمت ’مالک بن یربوع‘ نے ’عبداللہ بن یقطر‘سے لیے خط کو ابن زیاد کے سامنے پیش کیا ۔ اس خط میں جناب مسلم نے لوگوں کی بیعت کے احوال لکھے تھے اور امام کو جلد آنے کی دعوت بھی دی تھی۔ اس کے بعد ہی ابن زیاد نے ہانی کو دارالامارہ بلوا لیا ۔ اس نے ہانی سے کہا: اپنے گھر میں مسلم کو پناہ دی ہوئی ہے اور اس کے لیے اسلحہ اور لوگوں کو جمع کررہے ہو۔اس پر گمان ہے کہ یہ سب ہم سے مخفی رہے۔(مناقب آل ابی طالب ، ابن شہر آشوب م ج ؍ ۳، ص ؍ ۲۴۳)ہانی بن عروہ نے جواب دیا: اپنے خاندان کو اٹھاؤ اور شام چلے جاؤ۔ وہیں زندگی بسر کرنا ۔ چوں کہ تجھ اور یزید سے بہتر کی یہاں آمد ہوچکی ہے۔ اس جواب کو سن کر ابن زیاد سیخ پا ہوگیا اور آپ کو زد وکوب کرنے لگا۔ اس کے بعد زندان کے حوالہ کردیا۔ 

یہ المناک خبر جناب مسلم کے لیے ناقابل برداشت تھی ۔ آپ چارہزارشیعوں کے ساتھ اٹھے اور دارالامارہ کی جانب بڑھ گئے ۔عبد اللہ بن حازم نے ’یا منصور امۃ‘کا نعرہ لگایا ۔اسی نعرہ کے ساتھ لوگ دارالامارہ کی جانب بڑھنے لگے ۔ابن زیاد کو مسلم کی آمد کی خبر مل گئی۔ وہ مسجد کوفہ میں لوگوں کو اطاعت یزید کی جانب ورغلا رہا تھا۔ جیسے ہی اس نے یہ خبر سنی ، تیزی سے دارالامارہ کی جانب دوڑا اورمحل میں خود کو قید کرلیا۔ محل کے اندر تیس سپاہی ، بیس بزرگان کوفہ اور ابن زیاد کا خاندان موجود تھا۔ (تاریخ طبری، ابوجعفر، ج ؍ ۵، ص ؍ ۳۴۸۔۳۶۹،البدایہ والنہایہ ، ابن کثیر، ج؍ ۸، ص ؍ ۱۶۶، الامامہ والسیاسہ ، ابن قتیبہ ، ج ؍ ۲ ، ص ؍۸)

مسلم نے قصر دارالامارہ کا محاصرہ کرلیا تھا ۔ عبید اللہ بالائے محل پر چلا آیاتھا۔ لوگ اس کو دیکھتے اور اس پر پتھر پھینکتے اوراس کے باپ کو زیادہ برا کہتے۔ اس نے جناب مسلم کو گھیرنے کی سازش رچی۔’ کثیر بن شہاب حارثی ‘کو’ باب الرومیین‘ سے باہر نکالااور یہ اپنے ہمراہیوں کے ساتھ مل کر جناب مسلم کے ساتھیوں کے درمیان رخنہ انداز ی کرنے لگے ۔ انہیں حاکم وقت کی سلاخوں سے خوف دلانے لگے ۔دوسری جانب محمد بن اشعث اپنے ہرکاروں کو لیے پرچم امان بلند کئے ہوئے تھا اور لوگوں کو جنگ نہ کرنے کی دعوت دے رہا تھا۔ اس طرح دونوں جانب سے مجمع کو بٹور لیا گیا اور خوف نے جناب مسلم کے ہمراہیوںکو گھر میں ہی قید کرلیا۔کتنوں کو حاکم وقت نے زنجیر بھی پہنائی ۔ رات کے وقت چار ہزار سپاہیوں میں سے صرف تین سو افراد بچے اور نماز بعد صرف تیس آدمی۔ مسلم بن عقیل مسجد سے باہر نکلے ۔ ایک کوچہ تک تو دس آدمی ساتھ رہے ۔ اس کے بعد سب کی سب ندارد ۔ 

اب جناب مسلم کوفہ کی گلیوں میں گردش لگاتے محلہ بنی جبلہ میں پہنچے ۔ ایک گھر کے سامنے کھڑے ہوئے اورطلب آب کیا۔ طوعہ نامی ایک ضعیف عورت گھر سے نکلی اور اس نے تشنگی بجھائی ۔ آپ وہیں کھڑے رہے۔ سوالات وجوابات کے تبادلہ نے سارا ماجرا بیان کردیا۔ اب آپ طوعہ کے گھر میں ٹھہر گئے۔ اس ضعیفہ کا لڑکا’ بلال‘جب گھر آیا تو اسے آپ کے قیام کی خبر لگ گئی ۔ماں کی حکم عدولی کرتے ہوئے اس نے صبح کو عبدالرحمن بن اشعث کے سامنے سارے راز اگل دیئے ۔ عبد الرحمن نے بھی قصر دارلامارہ میں بیٹھے اپنے باپ کو بتادیا ۔اس کے بعد یہ خبر ابن زیاد کو معلوم ہوگئی ۔ اس نے ، مختلف روایات کی بناپر ، ساٹھ ، ستر یا تین سو سپاہیوں کو محمد ابن اشعث کے ہمراہ طوعہ کے گھرروانہ کردیا۔گھوڑوں اور فوجیوں کی آواز نے بتادیا کہ آپ کی گرفتاری کا ارادہ ہے۔ آپ نے اپنے گھوڑے کو آماد ہ کیا۔ لجام کسی ، زرہ زیب تن کی ،سر پر عمامہ رکھا اور ہاتھ میں تلوار لیے راہ خدا میں جہاد کے لیے نکل پڑے۔ لشکر گھر میں داخل ہوگیا۔آپ کو مجبوراً گھر میں ہی دفاع کرنا پڑااور آپ نے زور بازو سے ان کو گھر سے باہر نکل پھینکا۔ جب جنگ شدت پر آئی تو آپ کئی ایک کو واصل جہنم کرچکے تھے ۔ اب سپاہیوں کے حوصلے پست ہوچکے تھے۔ ابن اشعث نے مزید فوج کا مطالبہ کرلیا ۔ ابن زیاد کے ہواس، باختہ ہوگئے کہ میں نے صرف ایک آدمی کی گرفتاری کے لیے اتنوں کو بھیجا ہے۔ اس نے امان نامہ کی تجویز پیش کی۔ جناب مسلم نے صریحی انکار کردیا۔ جب سارے حربے ناکام ہوگئے تو سب نے مل کر ایک ساتھ حملہ کردیا اور ابن زیاد کے بہی خواہوں نے آپ کو گرفتا رکرلیا۔ اس وقت آپ کی آنکھوں سے موتی کی لڑیا جد اہورہی تھیں ۔ موت کے خوف سے نہیں بلکہ امام حسین علیہ السلام اور آپ کے خاندان کے کوفہ آنے کے سبب۔

ابن زیاد نے آپ کے قتل کی ذمہ داری ابن حمران کو دی ہوئی تھی ۔ یہ وہی شخص تھا جس کو آپ نے (کاری) ضرب لگائی تھی۔ بُکیر ، جناب مسلم بن عقیل کو بالائے محل لے گیا ۔آپ کے سر کو تن سے جدا کردیااور جسم کو قصر کے باہر گرادیا۔ آپ کے سر کو ہانی بن عروہ کے سر کے ساتھ شام بھیج دیاگیا ۔ یزید نے حکم دیا کہ دمشق کے بارہ دروازوں میں سے کسی ایک دروازے پر لٹکادیں ۔ (الفتوح ، ابن عاثم ، ج ؍ ۵، ص ؍ ۶۲)آپ کے جسم کو بازار قصاب میں زمین پر کھینچا جا تارہا۔ تین دن بعد نماز جنازہ ادا ہوئی اور دارالامارہ کے قریب دفن کردیا گیا۔ تاریخ نے بتایا کہ ابن زیاد چاہتا تھا کہ شیعوں پر نگاہ رکھے ، اس لیے اپنے محل کے قریب قبر بنوائی یایہ انہیں ماتم اور سوگ و عزا سے دور رکھے ۔ اس لیے دفن کے لیے اس جگہ کا اہتمام کیا۔ ماہ شعبان سن ۶۵ھ میں مختار ثقفی کے حکم سے آپ کی قبر پر عمارت تعمیر ہوئی اور سنگ مرمر سے اس کا گنبد مزین کیاگیا۔ اس کے بعد مختلف عہد میں اس کی جدید تعمیرات ہوتی رہی ہیںاور اس وقت کوفہ میں آپ کا عالی شان روضہ دشمنوں کے منھ پر طمانچہ ہے۔

تحریر: عظمت علی