سلیمانی

سلیمانی

عراق میں ایک سفارتی مشن کے دوران امریکی دہشتگردانہ ٹارگٹ کلنگ میں شہید ہونے والے ایرانی سپاہ قدس کے سابق کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی، ان کے میزبان حشد الشعبی کے ڈپٹی کمانڈر ابو مہدی المہندس اور رفقاء کی پہلی برسی کے حوالے سے عراقی سرحد کے قریب واقع شامی قبائلی علاقے "البوکمال" میں ایک عالیشان تقریب منعقد کی گئی، جس میں قبائلی عمائدین سمیت عوام نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ عرب نیوز چینل المیادین کے مطابق دمشق میں ایرانی سفیر جواد ترک آبادی نے اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے تاکید کی ہے کہ جنرل قاسم سلیمانی اور رفقاء کی ٹارگٹ کلنگ کی بزدلانہ کارروائی ہرگز بے جواب نہیں رہے گی۔ انہوں نے شام کو "مزاحمتی محاذ" کی "فرنٹ لائن" قرار دیتے ہوئے تاکید کی کہ دشمن، دہشتگردوں کے ذریعے شام پر مسلط کردہ اپنی پراکسی وار میں کوئی ہدف حاصل نہیں کر پایا۔ انہوں نے عالمی حمایت یافتہ دہشتگردی کے خلاف شامی جدوجہد کو سراہا اور کہا کہ شہید جنرل قاسم سلیمانی خود بہ نفس نفیس ہر محاذ جنگ کے اگلے مورچوں پر حاضر رہے، تاکہ لوگوں کو یہ پیغام پہنچائیں کہ وہ دہشتگردی کو شکست دینے پر مبنی عوام کو دیئے گئے اپنے وعدے پر پوری طرح کاربند ہیں۔


تقریب سے خطاب کرتے ہوئے شامی قبائلی کونسلز "الفرات" اور "الجزیرہ" کے سربراہ عبدالکریم الدندل نے تاکید کی کہ شہید جنرل قاسم سلیمانی اور ابو مہدی المہندس کی ٹارگٹ کلنگ مزاحمتی جذبے کو کسی طور کم نہیں کرسکتی۔ انہوں نے کہا کہ آج عراق، شام، یمن اور لبنان میں مزاحمتی محاذ کی فتح کا سورج طلوع ہونے کو ہے۔ واضح رہے کہ شہید کمانڈرز کی پہلی برسی کے موقع پر البوکمال کے شہریوں نے اپنے گھروں کو شہید جنرل قاسم سلیمانی اور شہید ابو مہدی المہندس کی قدآدم تصاویر کے ساتھ سجا رکھا تھا۔

جب سفاکیت اپنی انتہائوں کو چھو رہی تھی، دہشت اور وحشت نے بے قصور اور نہتے عوام کا جینا دو بھر کر دیا تھا، جب خون کی ہولیاں کھیلی جا رہی تھیں، جب درندگی شام و عراق میں اپنے جوبن پر تھی، جب انبیاء کی سرزمین کو مقتل میں بدل دیا گیا تھا، جب مقدس مقامات کو بارود کے ڈھیر سے مٹی میں بدلا جا رہا تھا، جب اصحاب رسول و آئمہ کی قبور کو نبش کیا جا رہا تھا، جب اسلامی تاریخ کے ان مٹ نقوش اور آثار قدیمہ کو لوٹا جا رہا تھا، جب عالمی دہشت گرد گروہ نے نیا روپ دھار کر نئے نام کیساتھ اپنے نجس وجود کو بے گناہوں پر مسلط کرنے کیلئے عالمی استعمار، دشمن اسلام و مسلمین امریکہ و اسرائیل نے انہیں کھلا چھوڑ دیا تھا، جب اسلام کے نام پر نام نہاد فتح کئے گئے اسلامی ممالک کی سرزمینوں سے کم سن نو نو سالہ بچیوں کو مال غنیمت سمجھ کر لونڈیاں بنا کر بازاروں میں بیچنے کا کاروبار زور پکڑ چکا تھا، جب گردنیں کاٹنے، انسانوں کو زندہ جلانے، بے گناہوں کو پنجروں میں بند کرکے پانی میں ڈبونے، انسانوں کو بارود کے ہار پہنا کر ان کے چیتھڑے اڑانے اور بلڈوزروں کے ذریعے معصوم انسانوں کو بلا تمیز قیمہ بنانے کا دھندہ عروج پہ تھا۔

ایسے میں سرزمین فارس سے ایک شخص اٹھا، جس نے یہ سب برداشت نہیں کیا، جس نے حمیت و غیرت کا ایسا مطاہرہ کیا کہ رہتی دنیا تک اس کو یاد رکھا جائے گا۔ جس نے ان سفاک، ظالم، دشمنان اسلام، امریکی و صیہونی ایجنٹوں کو لگام ڈالنے کا عہد کیا، جس نے ان جانوروں کو انسانوں سے جدا کرنے کا ارادہ ظاہر کیا، جس نے یہ سب دیکھ کر اپنے اوپر آرام کو حرام قرار دیا۔ جس نے مظلوموں کی چیخ و پکار اور بے کسوں کے نالہ و فریاد پر اپنا سب کچھ لٹا دینے کا عہد کیا، جس نے یتیموں، بے آسرائوں اور ستم رسیدہ معصوم بچوں، بزرگوں، خواتین و حضرات کو ان جانوروں سے آزادی دلوانے کیلئے کمر ہمت باندھی، جس نے خداداد صلاحیت سے اپنے تن، من دھن اور ذہن و فکر سے اپنا پورا زور اور طاقت و قوت سے سب کچھ دائو پر لگایا، میدان میں اترے اور ایسا اترے کہ اپنے پسند کردہ میدان میں ہی زندگی کا آخری معرکہ بھی لڑتے ہوئے اسے ہی مقتل بنایا۔

وہ جس نے جراءت، شجاعت، دلیری، بہادری، ایثار، قربانی، احساس، درد، عمل، جہاد کے ایسے نمونے پیش کئے کہ جن لوگوں نے کربلا کو نہیں پڑھا، جن لوگوں نے میدان کربلا میں نواسہء رسول اور ان کے جانثار انصاران کے قصے تاریخ کے سنہرے اوراق پر نہیں پڑھے یا علماء کی زبانی نہیں سنے، جن کی آنکھوں میں کربلا کے بے مثال شجاعت و بہادری کے واقعات نہیں سموئے ہوئے یا جن لوگوں نے امیر المومنین علی ابن ابی طالب کے باوفا، دلیر و شجاع کمانڈر انچیف مالک اشتر کے منافقین و خوارجین، دشمنان اسلام و اہلبیت کی جنگی حکمتوں سے آشنائی نہیں، انہیں اس دور میں چودہ صدیاں پیشتر کے شجاعانہ و دلیرانہ قصے یاد آگئے۔ یہ بات میں اپنے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر مولا امام علی و امام حسن علیھم السلام کو حاج قاسم سلیمانی جیسے شجاع و باوفا ساتھی مل جاتے تو بنو امیہ کے پروردہ اسلام کو ابتدا میں ہی کبھی بھی اتنا نقصان نہ پہنچا سکتے۔

آج کی دنیا میں ایک انسان اتنے ممالک اور اس کے لائو لشکر، اسلحہ و طاقت کے سامنے ایسے پل باندھ سکتا ہے، یہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا۔ اگر شام و عراق میں لائی گئی، دنیا بھر کی بھرتی کی ہوئی، نام نہاد مجاہدین کی فوج جسے داعش کے نام سے پہچانا گیا ہے، جو جبھة النصرہ اور کئی ایک دیگر ناموں سے سرگرم عمل ہوئی، جس میں اسی سے زائد ممالک کے بھرتی کردہ دہشت گرد شامل تھے، ان کا راستہ روکنا، اسلامی و تاریخی مقدسات اور ان پاک سرزمینوں کا دفاع اور ان کے ہاتھ میں جا چکی زمینوں کو واپس لینا اتنی بڑی انویسٹمنٹ کرنے والوں کے وہم و گمان اور سوچ و فکر میں بھی نہیں ہوگا، ان کے خوابوں کو کیسے چکنا چور کیا گیا، یہ تو حاج قاسم سلیمانی کیساتھ اپنی جانوں پر کھیلنے والے ہی جانتے ہیں، ہم نے تو انہیں ایک دیو مالائی کردار اور لافانی ایثار گر کے طور پہ ویڈیوز میں دیکھا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ہم ان کے ہم زمان ہوئے ہیں اور اس پر جتنا بھی افتخار اور فخر کیا جائے کم ہے، ہم نے ان کے بارے میں اس دور کی سب سے معزز و صادق و امین رہبریت و قیادت کی زبانی سنا ہے، ہم نے ان کی المناک شہادت پر ولی امر المسلمین سید علی خامنہ ای کو گریہ کناں دیکھا ہے۔

سید مقاومت سید حسن نصر اللہ کو غم و اندوہ اور غیض و غضب میں دیکھا ہے، جنہوں نے برملا اس کا بدلہ لینے کا اعلان فرمایا۔ ہم نے تو شہید جنرل قاسم سلیمانی کی دختر زینب سلیمانی کو استعمار جہاں اور عالمی دہشت گرد امریکہ اور اس کے حواریوں کو للکارتے اور گرجتے دیکھا ہے۔ ہم نے یہ منظر دیکھا ہے کہ اہل عراق جن سے قاسم سلیمانی نے آٹھ سال تک جنگ تحمیلی (صدام کی مسلط کردہ جنگ) میں حصہ لیا تھا اور پھر ایک موقعہ ایسا آیا کہ اسی عراق کے دفاع کیلئے انہوں نے سر پہ کفن باندھ لیا اور پھر اسی قاسم سلیمانی کیلئے اہل عراق کو امریکی سفارت خانہ کی عمارت پہ نعرے لکھتے اور اس کے شعار بلند کرتے، اس کی تصویروں کو اٹھائے امام خمینی کے نعرے لگاتے دیکھا ہے۔ عراق کو امریکہ، آل سعود، اس کے گماشتوں اور داخلی دشمنوں سے بچانے کیلئے جنرل قاسم سلیمانی کی جدوجہد ایسی مثال ہے، جس کی نظیر ملنا مشکل ہے۔ وہ ایران کا قیمتی ترین فرد تھا، مگر عراق پر قربان ہوگیا، کیا عجب ہے یہ کردار۔ آج کے ایک انسان میں اتنی خوبیاں اور اتنی کشش ہوسکتی ہے، یہ شائد ہی کسی اور پر صادق آئے، جتنی خوبیاں اور کشش جنرل قاسم سلیمانی میں بہ یک وقت دیکھی جا سکتی تھی۔

ایک ہی وقت میں وہ باکمال جرنیل، جس کی حکمت عملی دشمنوں کو چند ساعتوں میں پچھاڑ دے، جو اگر خود میدان میں اتر آئے تو دشمن اپنا اسلحہ و ٹینک چھوڑ کر راہ فرار اختیار کرنے میں ہی عافیت سمجھے، جو مجاہدین کے درمیاں ہو تو کسی کو احساس نہ ہو کہ اس کیساتھ کاندھا ملا کر لڑنے والا ایک نابغہ، ایک لازوال کردار ہے، جو نماز ادا کرے تو ایسے جیسے خدا کے ساتھ محو راز و نیاز ہو اور ہتھیار اٹھائے تو اس کی للکار سے مایوسیاں فتح میں تبدیل ہو جائیں۔ جو خاک کو اوڑھنا بچھونا بنا لے اور نرم و گداز بستر کو اپنے لئے حرام قرار دے، جسے کلید کامیابی سمجھا جائے، جسے حل المشکلات سمجھا جائے، جو مایوسیوں میں امید کی آخری کرن ہو، جو روشن اور چمکتے ستارے کی مانند ہو، جو دشمنوں کیلئے شدید ترین اور اپنوں کیلئے نہایت ہی رحم دل ہو۔ جس کا عمل اس کے کردار اور افکار کی گواہی دے رہا ہو، جس میں کسی بھی قسم کی ریا، دکھاوا، نمود و نمائش یا ستائش کی تمنا نہ ہو، بلکہ اس کا مطمع و مقصد مظلوم، محکوم، ستم رسیدہ اور انسانوں کے بنائے جال اور دنیا کے نام نہاد خدائوں، فرعونوں و نمرودوں کی زنجیروں سے آزادی دلوانا ہو۔

جنرل قاسم سلیمانی ایک ایسا ہی کردار تھے، وہ ایک ایسے ہی نگینہ تھے، جنہوں نے خود کو ولایت کی انگوٹھی میں جڑ لیا تھا اور ولی امر امسلمین کی آرزوئوں اور تمنائوں کی تکمیل کیلئے خود کو وقف کر لیا تھا بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ولی امر المسلمین کی ڈھارس و امید کا نام قاسم سلیمانی ہی تھا۔ شہید قاسم سلیمانی اور ان کے باوفا ساتھی، جنہوں نے ان کیساتھ اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، بالاخص ابو مہدی المہندس نے اپنے لازوال اور لافانی کردار سے ایک مکتب کو زندگی بخشی ہے۔ یہ مکتب، مکتب مقاومت ہے، یہ مکتب مکتب حریت ہے، یہ مکتب مکتب استقلال ہے، یہ مکتب مکتب ایثار ہے، یہ مکتب مکتب آزادی ہے، یہ مکتب مکتب شجاعت ہے، یہ مکتب مکتب شہادت ہے۔ عراق و ایران میں ان کی نماز جنازہ کے اجتماعات اور انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے بلا تفریق کروڑوں لوگوں، جوانوں، بچوں، بوڑھوں اور خواتین کا باہر نکلنا ان کی جرات مندانہ شہادت اور ان کے قاتل دشمن کیلئے موت کے پیغام سے کم نہ تھا، جس نے اس کے ارادوں پہ اوس ڈال دی تھی۔

"شہید قاسم سلیمانی اعلی درجے کی عقل مندی اور ذہانت کے مالک تھے۔ وہ بہت عرصہ پہلے سے ایک خاص مسلک کی جانب جھکاو رکھنے والے مذہبی نوعیت کے حامل ایسے گروہ کی پیدائش کی پیشن گوئی کر چکے تھے جو اسلامی مزاحمت کے خلاف سرگرم عمل ہو گا۔ وہ میرے پاس آئے اور بعض ممالک کا نام لینے کے بعد کہنے لگے کہ میں عالم اسلام میں جس صورتحال کا مشاہدہ کر رہا ہوں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک نیا گروہ تشکیل پا رہا ہے۔ کچھ ہی عرصے بعد تکفیری دہشت گرد گروہ داعش منظرعام پر آ گیا۔ وہ بہت عقل مند اور ذہین انسان تھے۔ وہ ان امور کو چلانے میں بہت زیادہ عقل مندی کا مظاہرہ کرتے تھے جو مختلف ممالک سے مربوط ہوتے تھے۔ میں اسے مکمل طور پر محسوس کرتا تھا۔" یہ امام خامنہ ای مدظلہ العالی کی اس تقریر کا حصہ ہے جو انہوں نے اس سال کے آغاز میں شہید قاسم سلیمانی کی شہادت کی تقریبات منعقد کرنے والی کمیٹی سے ملاقات کے دوران کی تھی۔ اس بارے میں چند اہم نکات درج ذیل ہیں:
 
1)۔ "ولایت کی پیروی" ایک ایسی اصطلاح ہے جو انقلابی طبقے میں جانی پہچانی ہے اور یہ اصطلاح کسی انسان میں ایک واضح خصوصیت بیان کرنے کیلئے استعمال کی جاتی ہے۔ اس کا معنی بھی انتہائی وسیع ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ خصوصیت کسی فرد یا گروہ کی شخصیت جانچنے کیلئے ایک اہم معیار بھی ہے۔ لیکن اپنی تمام تر اہمیت کے ساتھ ولایت کی پیروی ایک ذاتی خصوصیت ہے جو دنیا اور آخرت میں اس کے حامل شخص کی نجات کا باعث بنتی ہے۔ جیسا کہ کسی شخص میں اس خصوصیت کا فقدان دنیا میں اس کی گمراہی اور آخرت میں نقصان کا باعث بنتا ہے۔ البتہ یہ خصوصیت سماجی سطح پر اثرات کی بھی حامل ہے جن میں سے ایک ولایت کے سائے تلے معاشرے کی وحدت اور اتحاد ہے۔ اس وضاحت کی روشنی میں معاشرے میں بڑی تعداد ولایت کے پیروکاروں پر مشتمل ہے اور یہ تعداد ہمارے معاشرے میں کروڑوں تک ہے لیکن ایک مذہبی معاشرے کیلئے یہ تعداد کافی نہیں ہے۔ ولایت کو ایک زیادہ مضبوط سہارے کی ضرورت ہے جسے "ولایت افزائی" کا نام دیا جا سکتا ہے۔ ولایت افزائی کا مطلب یہ ہے کہ ولایت کا پیروکار ایسا طرز عمل اپنائے جس کے نتیجے میں معاشرے کے دیگر افراد کیلئے ولایت کا راستہ روشن اور واضح ہو جائے۔
 
اسی بنیاد پر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور امام علی علیہ السلام کے زمانے میں کفار، مشرکین، منافقین اور کرپٹ افراد بعض مخصوص افراد کو زیادہ نشانہ بناتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ پیغمبر اکرم ص اور امام علی علیہ السلام کو سیاست کے میدان سے نکال باہر کرنے کیلئے ان افراد کا خاتمہ ضروری ہے۔ دوسری طرف پیغمبر اکرم ص اور امام علی علیہ السلام بھی ان افراد کے بارے میں پریشان رہتے تھے اور جب وہ شہید ہوتے تو شدید غمگین اور دکھی ہو جاتے تھے۔ ایسے افراد کی ایک مثال سید الشہداء حضرت حمزہ ابن عبدالمطلب اور جعفر ابن ابیطالب تھے۔ دوسری مثال امام علی علیہ السلام کے زمانے میں عمار یاسر اور مالک اشتر جیسی شخصیات کے روپ میں نظر آتی ہے۔ جعفر طیار، حمزہ ابن عبدالطلب، مالک اشتر اور عمار یاسر کا کردار کیا تھا؟ ان کا کردار ولایت افزائی پر مشتمل تھا۔ یعنی ان کے اندر ایسا ہنر اور کمالات پائے جاتے تھے جس کی وجہ سے وہ حساس مواقع پر پیغمبر اکرم ص اور امام علی علیہ السلام کا سہارا بن جاتے اور اسلامی حکومت کو آگے بڑھانے میں ان کی خاص مدد کرتے تھے۔ ایسی مدد جو ان کے علاوہ کوئی اور کرنے پر قادر نہیں ہوتا تھا۔
 
2)۔ شہید قاسم سلیمانی انقلاب اسلامی کے بعد تمام عرصہ خاص طور پر قدس فورس کی سربراہی پر مشتمل 23 برس میں ایسے ہی تھے۔ گذشتہ ایک عشرے کے دوران جب بہت سی قوتوں نے ولایت کی راہ میں روڑے اٹکائے اور بعض شخصیات نے اپنا دامن صاف رکھنے کیلئے خاموشی اختیار کر رکھی تھی جبکہ بعض صرف اپنا دین بچانے کی حد تک ولایت کی حمایت کا اظہار کر رہے تھے، شہید قاسم سلیمانی نے وہی کردار ادا کیا جو پیغمبر اکرم ص کیلئے حضرت حمزہ ابن عبدالمطلب اور حضرت جعفر طیار نے ادا کیا تھا اور امام علی علیہ السلام کیلئے حضرت عمار یاسر اور حضرت مالک اشتر نے نبھایا تھا۔ انہوں نے تمام خطرے مول لیتے ہوئے ولایت کا راستہ ہموار کرنے کیلئے اپنے پورے وجود کی توانائیاں صرف کر دیں اور اسلامی انقلاب کی راہ میں موجود رکاوٹیں دور کیں۔ تقریبا پانچ چھ سال پہلے جب ان سے یہ کہا گیا کہ: "آج آپ اور قدس فورس انقلاب اور ولایت کا راستہ درست ہونے کی حجت بن چکے ہیں اور اگر آپ اور قدس فورس کی کامیابیاں نہ ہوتیں تو نظام اتنی آسانی سے عدم افادیت پر مبنی لگائی جانے والی تہمت سے نجات حاصل نہ کر سکتا۔ لہذا اگرچہ آپ ملک سے باہر سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں لیکن آپ کی سرگرمیوں کے اثرات ملک کے اندر انقلاب اور رہبر معظم انقلاب کے سامنے راستہ ہموار ہونے کی صورت میں ظاہر ہو رہا ہے۔" تو وہ یہ بات سن کر سر نیچے جھکا لیتے کیونکہ اپنی اور اپنے کاموں کی تعریف سننا پسند نہیں کرتے تھے۔
 
3)۔ گذشتہ ایک عشرے کے دوران خطے میں بہت سی تبدیلیاں اور واقعات رونما ہوئے ہیں جن میں مختلف قسم کی قوتیں کارفرما رہی ہیں۔ ان میں سے ایک اہم میدان عراق کا تھا۔ عراق میں ایک ڈکٹیٹر حکومت برسراقتدار تھی جو 15 برس تک (1975ء سے 1990ء تک) جنگ کرتی رہی اور تیس سال تک ایران اور اہل تشیع سے دشمنی کی پالیسی پر گامزن رہی۔ اس حکومت کی سرنگونی کے بعد ان عراقی جماعتوں، گروہوں اور حلقوں کو آزادی فراہم ہوئی جو ایک طویل عرصے سے شدید گھٹے ہوئے ماحول میں تھے یا جیلوں میں قید تھے یا جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔ ان میں سے ہر جماعت، گروہ یا طبقہ اپنے اپنے سیاسی، قومی یا خاندانی تعصب کی بنیاد پر ایک علیحدہ راستے پر گامزن تھا۔ ان گروہوں میں انتہائی شدید اختلافات موجود تھے اور ایکدوسرے کے خلاف نبرد آزما تھے۔ اس کی ایک مثال صدام حسین کی سرنگونی کے فوراً بعد رونما ہونے والا وہ واقعہ ہے جس میں نجف کے معروف شیعہ مرجع تقلید سید عبدالمجید خوئی کے بیٹے کو قتل کر کے اس کی لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کئے گئے اور انہیں نجف شہر کے چاروں کونوں میں لٹکا دیا گیا۔
 
واضح ہے کہ ایسا ماحول کس قدر وحشت ناک تھا جس کے نتیجے میں نجف کے شیعہ مراجع تقلید شدید خوفزدہ ہو گئے اور اجتماعی امور میں مداخلت سے پرہیز کرنے لگے۔ دوسری طرف اس شدید بحرانی صورتحال میں سب کی نظریں مراجع تقلید پر لگی تھیں اور وہ مراجع تقلید کی جانب سے موثر قدم اٹھانے کی توقع کر رہے تھے۔ مراجع تقلید یہ کہہ کر ان مسائل میں مداخلت کرنے سے باز رہتے تھے کہ شدت پسندی میں مصروف عناصر ہماری اطاعت کرنے پر تیار نہیں ہیں اور ان کے بعض سربراہان جو بظاہر عالم دین بھی ہیں لیکن مراجع تقلید کی بات ماننے سے انکار کرتے ہیں۔ دوسری طرف صدام حسین سے وابستہ بعث پارٹی کے عناصر سابق عراقی جنرل عزت ابراہیم الدوری اور ابو مصعب الزرقاوی کی سربراہی میں منظم ہو چکے تھے اور ملک میں جگہ جگہ دہشت گردانہ اقدامات انجام دینے میں مصروف تھے۔ اس مبہم اور تاریک فضا میں امریکی حکام دونوں طرف موجود انارکی اور بدنظمی کو بہانہ بنا کر عراق پر ایک امریکی جرنیل پال بریمر کی سربراہی میں مکمل فوجی حکومت لاگو کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔
 
اس موقع پر ولی امر مسلمین امام خامنہ ای مدظلہ العالی کی ہدایات یہ تھیں کہ ایک تو امریکی حکمرانوں کو عراق میں اپنی پوزیشن مضبوط بنانے کی اجازت نہیں دینی چاہئے کیونکہ عراق پر امریکیوں کا فوجی قبضہ نہ تو عراق کے فائدے میں ہے اور نہ ہی اس میں خطے کے ممالک کا فائدہ ہے جبکہ اسلامی جمہوریہ ایران کے اہداف سے بھی ٹکراو رکھتا ہے۔ دوسرا یہ کہ عراق میں عوام کی جانب سے منتخب شدہ جمہوری حکومت برسراقتدار ہونی چاہئے۔ یہ دو اسٹریٹجک اہداف تھے جن کے حصول کیلئے روڈمیپ تشکیل دیا گیا اور اس روڈمیپ کے تحت ایک طرف آیت اللہ العظمی سید علی سیستانی نے اپنا کردار ادا کیا اور دوسری طرف عراق میں سرگرم مختلف موثر گروہوں کے درمیان اتحاد قائم کرنے کی کوششوں کا آغاز کر دیا گیا۔ ہم اس وقت کی شدید بحرانی صورتحال، مراجع تقلید کی جانب سے سیاسی امور میں مداخلت کرنے سے متعلق شدید اور حق بجانب تحفظات اور رہبر معظم انقلاب کی جانب سے انتہائی اسٹریٹجک ہدایات کی روشنی میں اس حقیقت کو درک کر سکتے ہیں کہ شہید قاسم سلیمانی کے کاندھوں پر کتنی بھاری ذمہ داری عائد کر دی گئی تھی اور کیسے انہیں "ناممکنات" کے میدان میں موجود گرہوں کو ایک ایک کر کے کھولنا تھا اور انہیں ممکنات میں تبدیل کرنا تھا۔
 
عراق کے مسئلے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ دشمن اپنی پوری طاقت سے میدان میں اتر چکا تھا۔ امریکہ نے عراق میں تین لاکھ فوجی بھیجے تھے جبکہ امریکی حکمرانوں کے اپنے بقول کھربوں ڈالر اخراجات کئے گئے تھے اور ہزاروں ٹن جنگی سازوسامان عراق میں لایا گیا تھا۔ مزید برآں، علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر مختلف قسم کی حمایتیں حاصل کی گئی تھیں۔ اسی طرح نائن الیون کا ڈرامہ رچا کر دنیا بھر میں ایک رعب اور وحشت پر مبنی ماحول فراہم کیا گیا تھا۔ یوں نہ صرف امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کے اندر بلکہ پوری دنیا میں امریکی مسلح افواج کے اہداف اور اقدامات کے حق میں رائے عامہ ہموار کی گئی تھی۔ دشمن کی ان تمام صلاحیتوں اور توانائیوں کے مقابلے میں شہید قاسم سلیمانی تھے۔ وہ ایسے مقام پر بھی فائز نہیں تھے کہ ان کے پاس حکومتی اختیارات اور وسیع پیمانے پر بجٹ ہوتا۔ ایرانی حکومت کی صورتحال بھی ایسی نہیں تھی کہ وہ شہید قاسم سلیمانی کی ہر ممکنہ مدد کر سکتی۔ ایسی صورتحال میں شہید قاسم سلیمانی کو ایک انتہائی عظیم اور دشوار کام انجام دینا تھا اور انہوں نے یہ کام انجام کر دکھایا۔
 
عراق میں شہید قاسم سلیمانی کی یہ سرگذشت محض 2003ء سے 2007ء تک محدود نہیں بلکہ انہوں نے 2014ء سے 2017ء کے درمیان ایک بار پھر عراق میں ایسا ہی دوسرا کارنامہ انجام دیا۔ اس بار عراق شدید خطرناک قسم کی علاقائی اور بین الاقوامی سازش کی لپیٹ میں آ چکا تھا جو تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کے روپ میں ظاہر ہوئی تھی۔ ایک بار پھر انہیں بھرپور مالی اور فوجی وسائل سے لیس دشمن کا سامنا تھا جبکہ وہ خود انتہائی محدود تعداد میں انسانی قوت اور مالی وسائل سے برخوردار تھے۔ مزید برآں، شہید قاسم سلیمانی کو ایک وقت میں چار محاذوں یعنی عراق، شام، لبنان اور یمن میں دشمن سے نبرد آزما ہونا تھا۔ ان تمام محاذوں پر یہی صورتحال غالب تھی اور سب کی امیدیں شہید قاسم سلیمانی کی خداداد صلاحیتوں سے وابستہ تھیں۔ ان تمام محاذوں پر شہید قاسم سلیمانی کو وہاں کی حکومتوں سے مذاکرات انجام دینے کے ساتھ ساتھ معلومات کا تبادلہ بھی انجام دینا تھا اور ان کی غلطیوں کا ازالہ کرنے کی بھی کوشش کرنی تھی۔ یہ ایسے امور نہیں تھے جو ایک ملاقات یا دو ملاقاتوں میں طے پا جاتے لہذا بعض امور کیلئے کئی سالہ مذاکرات درکار تھے۔
 
ان تمام محاذوں پر شہید قاسم سلیمانی کا سروکار ان ممالک کے شہریوں سے بھی تھا اور وہ مقامی افراد میں "مزاحمت کی طاقت" پیدا کرنا چاہتے تھے۔ اسی طرح شہید قاسم سلیمانی کو ایسی سیاسی جماعتوں اور گروہوں سے بھی رابطہ برقرار کرنا تھا جو بہت سے ایشوز میں شہید کی پالیسی اور اصولوں سے اختلاف رکھتے تھے۔ شہید قاسم سلیمانی نے ان جماعتوں اور گروہوں کو اپنے ساتھ لے کر چلنا تھا جبکہ اکثر اوقات ان کے پاس براہ راست ہدایات جاری کرنے کا اختیار بھی حاصل نہیں تھا۔ البتہ بعض اوقات ایسا کرتے تھے اور مطلوبہ نتائج بھی حاصل کر لیتے تھے لیکن اکثر اوقات صرف قانع کرنے کی حد تک کوشش انجام دیتے تھے۔ ایسے مواقع پر وہ عقل مندی سے عمل کرتے اور درپیش رکاوٹوں کو ایک ایک کر کے دور کرتے اور خطے کی اقوام کو درپیش مسائل دور کر کے ان کا راستہ ہموار کرتے تھے۔ شہید قاسم سلیمانی عمل کے میدان میں ایک ماہر اور لائق کمانڈر ہونے کے ساتھ ساتھ اعلی درجے کے اسٹریٹجسٹ بھی تھے۔ وہ ایک سپر اسٹریٹجسٹ تھے اور دنیا کے فوجی اور سیاسی حلقے اس حقیقت کا اعتراف کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
تحریر: ڈاکٹر سعداللہ زارعی
 
 
 

 شہید قاسم سلیمانی کی شخصیت کا اندازہ پورے عالم کو بعد از شہادت ہوا, جب اس مظلومانہ شہادت کو جگہ جگہ دادِ تحسین سے نوازا گیا اور شہید کی حمایت میں پورے عالمِ اسلام میں بِلا تفریق مذہب و ملت آواز اُٹھائی گئی, خصوصاً پاکستان سے علامہ عارف واحدی صاحب کی قیادت میں ملی یکجہتی کونسل کا وفد تعزیت پیش کرنے کے لئے ایرانی قیادت کے پاس گیا اس بات کا عیاں ثبوت ہے کہ جنرل قاسم سلیمانی شہید محض ایرانی جرنیل نہیں تھے بلکہ اُمتِ مُسلمہ کے نڈر ,بہادر , شجاع , اور دردِ دل رکھنے والے محافظ تھے,

شہید قاسم سلیمانی کی شہادت سے دُشمنِ اسلام کا چہرہ بے نقاب ہوا, اُمتِ مسلمہ کو ایک دفعہ پھر بیدار کیا, اپنی جان کا نذرانہ دے کر شہید اور شہادت کے عظیم مقام کو متعارف کرایا اور واضح دلیل پیش کی کہ شہید اللّہ تعالٰی کی راہ میں جانثاری کرکے اسلام کا تحفظ کرتا ہے۔
دُشمن نے اسلامی معاشرے میں شگاف و اختلاف پیدا کرنے کے لئے متعدد حربے آزمائے لیکن آج شہید قاسم سلیمانی کی شہادت ایک ایسی بے مثال حقیقت پیدا کر چکی ہے جو تمام مسلمانوں کے اتحاد کا تقاضہ کرتی ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ اُمتِ مُسلمہ کے یہ بلند پرچم اور یہ ہمہ گیر آواز ایک نئی شئ ہے، اس کا آئین، اس کے نعرے اور اس کا عمل اسلام کے مطابق ہے اور فطری طور پر دنیا بھر میں مسلمانوں کے دل وحدت کے لئے دھڑکتے ہیں۔ مگر دلوں کا دھڑکنا عام اسلامی رعیت کی حد تک ہے مگر عرب دنیا کے حکمران خطہ میں سنجیدگی اور دلجمعی کے ساتھ احکام اسلامی کے نفاذ کی خاطر کوشاں نہیں ہیں۔ میری مراد قومیں نہیں ہیں، مسلمان قومیں تو خیر ہر جگہ ہی اسلام کے عشق میں غلطاں اور اسلام کی ہر خدمت کے لئے آمادہ ہیں۔ میری مراد وہ پالیسیاں، وہ نظام اور وہ حکومتیں ہیں جنہوں نے اپنا کام اسلام کے نام سے شروع تو کیا تھا لیکن جب انہیں عالمی سطح پر حملوں کا سامنا کرنا پڑا تو انہوں نے پسپائی اختیار کر لی۔ چاہیے تو یہ تھا کہ عرب دُنیا کے حکمران جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کو نظر انداز کرنے کی بجائے سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے اور تمام مسلکی, گروہی, سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے متحدہ اُمتِ اسلامیہ کے پلیٹ فارم کو تقویت دیتے, مگر اس کے برعکس عرب حکمرانوں نے بےدردی سے شہید کی شہادت کو فراموش کیا اور پے در پے شہید سلیمانی کے قاتلوں کی بیعت کا نعرہ لگا کر اسلام کے ساتھ عجیب مذاق کیا, یہ مذاق صرف ایران کے ساتھ نہیں ہوا بلکہ عالمِ اسلام کے ساتھ ہوا ہے, ایرانی قیادت تو انقلابِ اسلامی سے لیکر آج تک اُمتِ مسلمہ کی وحدت اور اتحاد کی داعی ہے, دُشمنِ اسلام اگر آج ایران اور پاکستان کے خلاف بر سرِ پیکار ہے تو اس کو اچھی طرح معلوم ہے کہ اگر پاکستان اور ایران مضبوط ہوگئے تو عالمِ اسلام خود بخود تقویت پکڑ لے گا۔
ایران اور پاکستان کی کامیابی اور پورے عالم اسلام میں اِن کی نئی فکر کی ترویج کے بعد ہمہ گیر اسلامی موج کا مقابلہ کرنے کے لئے سامراج نے ایک حربہ یہ اپنایا کہ اس نے ایک طرف تو ایران کے اسلامی انقلاب کو ایک شیعہ تحریک یعنی ایک عام اسلامی تحریک نہیں ایک فرقہ وارانہ تحریک ظاہر کرنے کی کوشش کی اور دوسری طرف پاکستان میں شیعہ سنی اختلاف اور شقاق کو ہوا دینے پر توجہ مرکوز کی۔ اِن دونوں اسلامی ممالک نے شروع دن سے ہی اس شیطانی سازش کو محسوس کرتے ہوئے ہمیشہ اسلامی فرقوں کے درمیان اتفاق و یکجہتی پر زور دیا اور یہ کوشش کی ہے کہ اس فنتہ انگیزی کو دبائیں، اللہ کے فضل و کرم سے پاکستان اور ایران کو بڑی کامیابیاں بھی ملیں جن میں او آئی سی کی تشکیل ہے۔ جس میں کشمیر و فلسطین کی آزادی کی تحریک کو سنجیدہ لینا پاکستان کی بدولت ہے, دوسری طرف اسلامی جمہوریہ ایران نے اوائل انقلاب سے آج تک مسلمان ممالک کو اتحاد کی دعوت دی ہے۔ ایران نے اسلامی حکومتوں کے ساتھ دوستانہ اور برادرانہ تعلقات قائم کرنے کی اگر بلا وقفہ کوششیں کی ہیں تو اس کی وجہ یہ ہرگز نہیں کہ ایران کی حکومت یا عوام کو اس ہمراہی کی احتیاج اور ضرورت ہے۔ نہیں، یہ کوششیں صرف اس لئے تھیں کہ اس رابطے سے پورے عالم اسلام کو فائدہ پہنچے۔

اسلامی اتحاد و یکجہتی کے ثمرات کے لئے اور مسلمانوں کی فتح و کامرانی اور عزت و وقار کی خاطر افکارِ خمینی کو جنرل قاسم سلیمانی نے اُجاگر کرنے کی انتھک محنت و کوشش کی کہ مسلمان قوموں کو چاہئے کہ اپنی طاقت و توانائی کو، جو در حقیقت اِن کے ایمان اور اسلامی ممالک کے باہمی اتحاد کی طاقت ہے، پہچانیں اور اس پر بھروسہ کریں۔ اسلامی ممالک اگر ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دیں تو ایک ایسی طاقت معرض وجود میں آ جائے گی کہ دُشمن اس کے سامنے کھڑے ہونے کی جرأت نہیں کر پائے گا اور اسلامی مُلکوں سے تُحکمانہ انداز میں بات نہیں کر سکے گا۔ اگر مُسلمان ایک دوسرے کا ہاتھ تھام لیں اور اپنے اندر اپنائیت کا جذبہ پیدا کر لیں، اِن
 کے عقائد میں اختلاف ہو تب بھی وہ دُشمن کے آلہ کار نہ بنیں تو عالم اسلام کی سربلندی بالکل یقینی ہوگی۔ کیونکہ قومیں جہاں کہیں بھی میدانِ عمل میں اُتر تی ہیں، وہ اپنی اِس موجودگی کو جاری رکھتی ہیں اگر مسلمان راہ خدا میں پیش آنے والی مشکلات کو برداشت کریں تو امریکا ہو یا امریکا جیسا کوئی دوسرا مُلک اِن کے خلاف اپنی من مانی نہیں کر سکیں گے، فتح مسلمانوں کا مقدر ہوگی۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ عالم اسلام اگر مسلم امہ کی حرکت کو فتح و کامرانی کی سمت صحیح انداز سے جاری رکھنا چاہتا ہے تو کچھ ذمہ داریاں تو اسے قبول کرنی ہی پڑیں گی۔ اِن ذمہ داریوں میں سب سے پہلا نمبر اتحاد کا ہے ۔ ورنہ جنرل قاسم سلیمانی جیسے مُخلص جرنیل کے بے مثال کردار اور باعزت شہادت کو رائیگاں کرنے والے ذلت و رسوائی, تباہی اور بربادی کو ہمیشہ کے لئے اپنا مقدر بنائیں گے۔
:

 گذشتہ کئی سالوں سے امریکہ اور اس کے مغربی اتحادی ممالک خطے اور دنیا میں ایک ابھرتی ہوئی نئی طاقت کے بارے میں خبردار کرتے آئے ہیں اور اپنی خارجہ پالیسی میں اس نئی طاقت کو کنٹرول کرنے کیلئے تمام تر ہتھکنڈےبروئے کار لائے ہوئے ہیں۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے شہید قاسم سلیمانی کے اہلخانہ اور شہید قاسم سلیمانی کی شخصیت متعارف کروانے کیلئے تشکیل پانے والی فاونڈیشن کے اراکین سے ملاقات کے دوران انہیں قومی اور امت مسلمہ کا ہیرو قرار دیا اور کہا: "شہید قاسم سلیمانی ایران اور ایرانیوں کی اقدار کا مجسم نمونہ ہیں۔ ان کی شہادت اسلامی دنیا میں مزاحمت کی تشکیل اور فروغ کا پیش خیمہ ہے۔" دشمن بہت اچھی طرح اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ شہید قاسم سلیمانی خطے اور دنیا میں ایرانی قوم کی تسلیم شدہ طاقت میں فیصلہ کن کردار کے حامل تھے۔ آج ایران کی نظریاتی طاقت دنیا کی تمام جغرافیائی اور فکری حدود پار کر چکی ہے۔

دشمن کہتا ہے کہ آج ایران دنیا کی سب سے بڑی غیر جوہری طاقت ہے۔ اس طاقت کے پیچھے ایسے مجاہدین کا عزم راسخ پایا جاتا ہے، جن کی شخصیت اور سوچ میں ایک طاقتور مکتب فکر جلوہ گر ہے اور اس مکتب فکر نے انہیں اسلامی دنیا کے سب سے بڑے عرفاء اور فلسفیوں کی صف میں لا کھڑا کیا ہے۔ ان کے بقول ایمان کے ساتھ دفاع کیلئے اسلحہ ضروری تو ہے لیکن کافی نہیں ہے۔ ایران میں غیر مساوی جنگ کیلئے جو اسلحہ تیار کیا گیا، ان کے پیچھے شہید قاسم سلیمانی اور شہید محسن حججی جیسے افراد موجود تھے، جنہوں نے دشمن سے ہر قسم کی پہل کرنے اور حتیٰ روک تھام کی خاطر جنگ کا موقع سلب کر لیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ایران میں "ٹریگر میکانزم" ہر دن، ہر گھنٹہ اور حتی ہر لمحہ کیلئے فعال ہے۔ لہذا حتی خواب میں بھی ایران سے فوجی ٹکراو کا تصور ان کیلئے اذیت کا باعث ہے۔

ان کے برعکس جو یہ کہتے ہیں کہ دشمن نے خطے میں جارحانہ پوزیشن اختیار کر رکھی ہے، ایران اور دنیا کے فوجی تھنک ٹینکس کی ذہانت آمیز تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ دشمن کی پوزیشن "دفاعی" ہے اور وہ خطے سے فرار کرنے میں مصروف ہے۔ دشمن نے اس طاقت کے بانیوں کو نشانہ بنا رکھا ہے۔ لہذا شہید محسن فخری زادہ اور دیگر شہید ہونے والے جوہری سائنسدانوں کو سائنسدان اور اس طاقت کے بانیوں اور شہید قاسم سلیمانی کو اس طاقت کے محافظوں اور اس کی ضمانت فراہم کرنے والوں کے طور پر نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ایک طرف پینٹاگون کے جرنیل اور نیٹو کے سربراہان ایرانی قوم کی طاقت سے کانپ رہے ہیں جبکہ دوسری طرف بعض احمق سیاست دان دشمن کی جانب سے جنگ کے خطرے کا ڈھونگ رچانے میں مصروف ہیں۔ اگرچہ شہید قاسم سلیمانی کی شہادت کو ایک سال کا عرصہ بیت چکا ہے، لیکن ان کا نام ایران اور دنیا کی سیاست کے آسمان پر چمک رہا ہے۔

آج دنیا کے سیاسی تحقیقاتی اداروں اور فوجی یونیورسٹیوں نے اپنی توجہ اس نکتے پر مرکوز کر رکھی ہے کہ ایران کی تسلیم شدہ فوجی طاقت کیونکر تشکیل پائی اور اس طاقت کے تشکیل پانے میں شہید قاسم سلیمانی نے کیا مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ ایسی شخصیت جس نے اپنی عمر کے چالیس سال مختلف جنگوں میں گزارے۔ ایران عراق آٹھ سالہ جنگ سے لے کر اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کے خلاف جہاد کی فرنٹ لائن تک اور وہاں سے لے کر عراق اور شام میں تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کے خلاف جنگ تک۔ ایران، عراق، اسلامی مزاحمت کے تمام حصوں اور دنیا کے پانچ براعظموں میں ان کی شہادت کے حیرت انگیز اثرات عظیم اور بے مثال عوامی اجتماعات کی صورت میں ظاہر ہوئے۔ دنیا کے فوجی ماہرین حیرت زدہ ہیں کہ شہید قاسم سلیمانی نے کیسے خالی ہاتھ جوانی کے عالم میں ایک ڈویژن کے کمانڈر کی حیثیت سے اپنے کام کا آغاز کیا اور آخرکار سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس فورس کے سربراہ کی حیثیت سے دنیا کے سب سے زیادہ شرپسند عناصر کے مقابلے میں جان ہتھیلی پر رکھے دسیوں ڈویژنز کی کمان کی اور فتح حاصل کی۔

شہید قاسم سلیمانی کی شخصیت کے فکری اور شخصیتی پہلو اب تک سب کیلئے غیر واضح ہیں۔ ہمیں ان کے "ذہن" میں جا کر وہاں سے ان کے "دل" تک جانا ہوگا اور دیکھنا ہوگا کہ وہاں کیا گزر رہی ہے؟ انہوں نے اپنے سیاسی، الہیٰ اور فوجی وصیت نامے میں خود ہمارا یہ کام آسان کر دیا ہے۔ لہذا ان کے وصیت نامے کا جائزہ لے کر کچھ حد تک ان حقائق کو پانا ممکن ہے اور ان کی "سوچ کی دنیا" اور "عالمی سوچ" کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اپنے وصیت نامے کی روشنی میں شہید قاسم سلیمانی انبیاء الہیٰ، ائمہ معصومین علیہم السلام، امام خمینی رہ اور امام خامنہ ای مدظلہ العالی کو انسانی تاریخ میں ایک الہیٰ سلسلہ سمجھتے ہیں اور انہیں "دنیا اور عالم خلقت کی جان" کہتے ہیں۔ شہید قاسم سلیمانی دعویٰ کرتے ہیں کہ انہیں اس سلسلے کے سپاہی ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ وہ انسانی تاریخ میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ
علیہا اور ان کی پاکیزہ نسل کو ایک الہیٰ اور نجات بخش راستے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔

شہید قاسم سلیمانی اپنے وصیت نامے میں اس تہذیب کو "اسلام کا حقیقی عطر" جانتے ہیں، جو اہلبیت اطہار علیہم السلام نے قرآن کریم سے تمسک کے ذریعے تشکیل دی ہے۔ وہ روحانیت، نور اور سکون کی تلاش میں تھے اور اس تلاش کے دوران انبیاء اور اولیاء الہیٰ کے سلسلے تک پہنچ گئے۔ وہ کہتے ہیں: "اس راستے میں میرا اصلی سرمایہ سید الشہداء امام حسین علیہ السلام اور اہلبیت اطہار علیہم السلام پر گریہ و زاری، مظلوم اور غریب افراد کا دفاع کرنا، وہ دو ہاتھ جو میں نے ہمیشہ خدا کی بارگاہ میں دعا کیلئے اٹھائے ہیں اور وہ دو پاوں ہیں، جن کے ذریعے میں نے انبیاء الہیٰ کے اہداف کی خاطر ایک شہر سے دوسرے شہر، ایک صحرا سے دوسرے صحرا اور ایک بیابان سے دوسرے بیابان تک کا سفر کیا ہے۔ شہید قاسم سلیمانی اپنے اس روحانی سفر کے دوران "ولایت" جیسے تابناک گوہر تک پہنچے تھے اور اپنے وصیت نامے میں جگہ جگہ ایرانی قوم، اپنے ساتھیوں اور مجاہدین فی سبیل اللہ، دنیا کی اقوام، علماء اور مراجع عالی قدر اور سیاست دانوں پر اس بات کی تاکید کرتے ہیں کہ نظریہ ولایت فقیہ اور ولی فقیہ کا ایمانی دفاع ہی آخرت کی نجات، ملک کی نجات اور عالم بشریت کی نجات کا واحد راستہ ہے۔

شہید قاسم سلیمانی اسلامی جمہوریہ ایران کو اسلام اور تشیع کی سرحد اور ایران کو امام حسین علیہ السلام کا قلعہ قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران حرم ہے، اگر یہ حرم باقی رہ جائے تو دوسرے حرم بھی بچ جائیں گے۔ اگر یہ حرم باقی نہ رہا تو حرم ابراہیمی (ع) اور حرم محمدی (ص) بھی باقی نہیں بچیں گے۔ وہ اپنے وصیت نامے میں لکھتے ہیں: "اسلامی جمہوریہ ایران سے امریکہ کی دشمنی کی بنیاد اس خیمے کو آگ لگانا ہے۔" وہ اس کے بعد تین بار خدا کی قسم اٹھا کر لکھتے ہیں: "اگر اس خیمے کو نقصان پہنچا تو قرآن کو نقصان پہنچے گا، بیت اللہ الحرام اور مدینہ منورہ، نجف، کربلا، کاظمین، سامرا اور مشہد کو بھی نقصان پہنچے گا۔" یہ بات کسی حوزہ علمیہ کے عالم کی زبان سے نہیں کہی جا رہی بلکہ والفجر 8، طریق القدس، فتح المبین، بیت المقدس اور سینکڑوں دیگر آپریشنز میں شامل سینیئر سپاہی کی زبان سے کہی گئی ہے۔ یہ سپاہی کہتا ہے کہ ان آپریشنز میں زمین اور آسمان سے بم، گولیاں، مارٹر گولے اور میزائل برستے تھے اور ہم اپنے دل اور بدن کو خدا کے سپرد کر دیتے تھے اور ایران اور اسلام کا دفاع کرتے تھے۔

ولایت کا دفاع، ولایت فقیہ کے مقام اور اہمیت کا دفاع اور ولی فقیہ کی حمایت اس شہید کی زندگی کا نچوڑ ہے، جو 33 روزہ جنگ میں صہیونیوں کے مقابلے میں فرنٹ لائن پر موجود تھا اور شام اور عراق میں وحشی اور خونخوار ترین تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کے خلاف نبرد آزما رہا اور اگلی صفوں میں فوجی آپریشنز کی کمان سنبھالے رکھی اور خطے کے قارونوں کے خلاف برسرپیکار یمنی مجاہدین کی بھی حمایت کی۔ انہوں نے تحقیقاتی اداروں کے کمرے میں بیٹھ کر نہیں بلکہ ایک واچ ٹاور سے ایرانی قوم، خطے کی اقوام، دنیا کے لوگوں اور اہم شخصیات کو مخاطب قرار دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے جنازے میں سب شریک تھے، تاکہ اس بات کا اعلان کر سکیں کہ ہم تیرا پیغام سننے اور تیرے مکتب میں شامل ہونے کیلئے حاضر ہیں۔ شہید قاسم سلیمانی کے جنازے میں شریک افراد کی آنسو بھری آنکھیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ انہوں نے شہید کے پیغام کو پا لیا ہے۔ وہ پیغام جسے رہبر معظم انقلاب امام خامنہ ای نے "مکتب" قرار دیا ہے۔

شہید قاسم سلیمانی کے مکتب کا مرکز و محور ولایت فقیہ اور ولی فقیہ کی ذات ہے۔ اسی طرح اس مکتب کی دیگر تعلیمات اسلامی انقلاب، اسلامی نظام اور اسلامی جمہوریہ ایران سے متعلق ہیں۔ ہمارے سامنے ایک جامع مکتب، مکمل فکری نظام اور حتی عملی نظام موجود ہے۔ اس مکتب میں شہید قاسم سلیمانی کا عمل ان کی باتوں سے زیادہ دکھائی دیتا ہے اور اس مکتب کی کشش کا راز بھی اسی نکتے میں پوشیدہ ہے۔ شہید قاسم سلیمانی ایک قومی ہیرو اور امت مسلمہ کا پہلوان اور مجاہد فی سبیل اللہ ہونے کے ناطے ولایت فقیہ سے متعلق ان علمی اور نظریاتی نتائج تک پہنچے ہیں۔ وہ گذشتہ چالیس سال کے دوران اپنی مجاہدانہ سرگرمیاں پوشیدہ رکھنے کی تگ و دو کرتے رہے، لیکن خدا نے انہیں ایران اور دنیا کے سیاسی آسمان پر سورج کی طرح چمکانے کا ارادہ کر لیا اور وہ بھی خدا کے ارادے پر راضی ہوگئے۔ وہ خود دکھاوے کے خواہشمند نہیں تھے۔ شہید قاسم سلیمانی کے دوست اور مجاہد ساتھی جان لیں کہ انہیں ان کی شخصیت پوری دنیا میں متعارف کروانا ہوگی اور آزادی و نجات کی اس شمع کو دنیا بھر میں روشن رکھنا ہوگا۔

 

Friday, 01 January 2021 10:20

اسے سب یاد رکھیں گے

صرف دوستوں کو نہیں، وہ دشمنوں کو بھی یاد رہے گا۔ دوست اس کے کردار کی عظمت کا تذکرہ کریں گے تو دشمن اس کے کردار سے پیدا ہونے والی پریشانیوں کا اظہار کرتے رہیں گے، وہ بغض سے بھرے ہوئے کچھ لوگوں کو بھی یاد رہے گا۔ وہ سادہ سا آدمی تھا، اسے محلات سے رغبت نہیں تھی، نہ ہی دولت سے الفت تھی۔

اسے عہدوں کی چاہت نہیں تھی نہ اشرفیوں کا لالچ تھا، وہ آخری وقت تک اپنے مشن پر ڈٹا رہا، دشمن کی آنکھوں میں کھٹکتا رہا۔ جب تک وہ زندگی کے کردار میں تھا، اس وقت تک اسرائیل نہ پَر پھیلا سکا، نہ اُس کے پائوں بڑھے۔ اس شخص کے ہوتے ہوئے امریکی منصوبے خاک میں ملتے رہے، اسرائیل خوفزدہ رہا

اس نے مشرق وسطیٰ میں دشمن کی ساری چالوں کو روند کر رکھ دیا تھا، وہ دشمن کے ارادوں پر پانی پھیر دیتا، ان کے ارادے خاک میں ملاتا، ان کے خواب چکنا چور کر کے رکھ دیتا۔ وہ دشمن کی تمام تر منصوبہ بندیوں کو ریت کی دیوار بنا دیتا۔ دوست اس پر ناز کرتے تھے، وہ دوستوں کا نگران ہی نہیں نگہبان بھی تھا، اس نے زندگی بھر مظلوموں کی مدد کی، وہ حق پر رہا اور حق پر رہنے والوں کی مدد کرتا رہا۔

بلا کا ہوشیار، ہر وقت متحرک اور چوکس رہتا تھا، وہ صرف فارسی بولنے والوں ہی کا نہیں بلکہ پوری عرب دنیا کا ہیرو تھا۔ اس کے عاشق، چاہنے والے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں، اس سے محبت کا اظہار کرتے ہیں۔

سو عاشقو، دوستو، دشمنو! اس شخص کا نام قاسم سلیمانی شہید ہے۔ مجھے آج اس کے بارے میں یہ سب باتیں اس لئے یاد آ رہی ہیں کہ گزشتہ سال تین جنوری کو بغداد ایئرپورٹ کے باہر اسے ابو مہدی المہندس سمیت شہید کر دیا گیا تھا، اس کی شہادت نے اس کے چاہنے والوں کو غمزدہ کیا، پورا خطۂ عرب غم میں ڈوب گیا مگر اس کے دشمنوں کے لئے یہ چین کا لمحہ بن گیا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ہم نے قاسم سلیمانی کو شہید کر کے اپنے منصوبوں کی راہ میں کھڑی سب سے بڑی رکاوٹ کو ہٹا دیا ہے۔

پرسوں اتوار کے دن تین جنوری ہے۔ اس روز قاسم سلیمانی کے چاہنے والے اسے محبت سے یاد کریں گے اور اس کے دشمن اسے ’’بڑی رکاوٹ‘‘ کے طور پر یاد کریں گے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ اسے صرف دوست یاد کریں بلکہ اسے سب یاد کریں گے۔ وہ عاشقوں، دوستوں اور دشمنوں میں زندہ رہے گا۔ یہی فلسفۂ شہادت بھی ہے کہ شہید زندہ رہتا ہے۔

قاسم سلیمانی خفیہ آپریشنوں کا بہترین کمانڈر تھا، اس نے امریکی سامراج کو مشرق وسطیٰ میں ناکوں چنے چبوائے۔ امریکیوں اور اسرائیلیوں کے منصوبوں پر پانی پھیرنے والے قاسم سلیمانی نے خطۂ عرب میں مسلمانوں کے انقلابی گروپوں کی بہت مدد کی، اسی مدد سے وہ گروپ کھڑے رہے، لڑتے رہے، دشمنوں کے قدموں کو روکتے رہے۔

وہ ایرانی ضرور تھا مگر اس سے بڑھ کر کہیں زیادہ عرب نوجوانوں کا ہیرو تھا، اس نے امریکی منصوبوں کے خلاف منصوبہ بندیوں میں شیعہ سنی کا خیال نہیں کیا، جدوجہد میں مصروف کئی سنی گروپوں نے اس کی مدد سے دشمن کو زیر کیا۔ وہ ایک سچا مسلمان تھا، ایسا مومن جسے مظلوم سے محبت اور ظالم سے نفرت تھی۔

صرف نفرت نہیں بلکہ دشمنی تھی۔ شام، لبنان، فلسطین اور یمن کے بچے اسے سایہ تصور کرتے تھے۔ عراقی، لبنانی اور فلسطینی نوجوان اسے مددگار سمجھتے تھے جبکہ ان ملکوں میں بسنے والی عورتیں اور بزرگ اسے ایک بہادر مسلمان کمانڈر کے طور پر دیکھتے تھے۔

ایران میں تو اس کی ہر دلعزیزی عام تھی۔ گیارہ مارچ 1957ء کو کرمان میں پیدا ہونے والے قاسم سلیمانی نے قدس فورس کے سپہ سالار اعلیٰ کے طور پر کئی یادگار کارنامے سرانجام دیئے۔ ایرانی رہبر معظم سید علی خامنہ ای کی طرف سے ’’شہید زندہ‘‘ کا خطاب پانے والے قاسم سلیمانی کی پوری زندگی عسکری جدوجہد سے بھری پڑی ہے۔

اس کے حصے میں کئی جنگیں آئیں، وہ ایک پُرعزم مسلمان مجاہد کے طور پر ان جنگوں میں سرخرو ہوا۔ اس نے لبنان میں حزب اللہ کی مدد کی اور جنوبی لبنان سے اسرائیل کو پسپا کیا۔ اس نے صدام حسین کے بعد عراق کی سیاسی و سفارتی فضا کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔

اس نے عراق اور شام میں داعش کو شکست دی۔ داعش سے مقابلے کے دنوں میں ایرانی حکومت نے قاسم سلیمانی کی عسکری کامیابیوں کی تصاویر شائع کیں تو لوگ ان کا ’’چہرہ‘‘ پہچاننا شروع ہوئے ورنہ اس سے پہلے لوگ صرف اس کے نام سے واقف تھے۔ امریکی حکمران اسے امریکی فوجیوں کا قاتل سمجھتے تھے، امریکیوں کے نزدیک اس پورے خطے میں امریکی فوجیوں کو سب سے زیادہ نقصان قاسم سلیمانی نے پہنچایا۔

خواتین و حضرات! قاسم سلیمانی شہید کی قوت کو نہ بھولنا کہ اسے گئے ہوئے ابھی چند ماہ ہوئے تھے کہ اسرائیل نے پَر پھیلانا شروع کر دیئے، ابھی اسے شہید ہوئے ایک سال بھی مکمل نہیں ہوا کہ بہت سے عرب ملکوں نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا ہے۔

کئی ملکوں نے کاروبار کے لئے اسرائیل کو چن لیا ہے، کئی ملک اسرائیل کے دفاعی اتحادی بن گئے ہیں، پاکستان اور ایران، اسرائیل کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ صرف انکاری نہیں بلکہ اسے غاصب اور ظالم سمجھتے ہیں۔

دونوں ملکوں کو دبائو کا سامنا ہے مگر دونوں نے دبائو کو گھاس نہیں ڈالی۔ قاسم سلیمانی کو پاکستان سے بھی خاص محبت تھی، ایک پاکستانی جرنیل، قاسم سلیمانی کی یہ بات سن کر حیران رہ گیا جب اس نے کہا کہ ’’اگر پاکستان پر حملہ ہوا تو ہم خون دیں گے‘‘۔

اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی تھی کہ قاسم سلیمانی کی کچھ ٹریننگ ارضِ پاک پر ہوئی تھی۔ تین جنوری کا دن ہمارے سامنے ایک سوال ضرور رکھتا ہے کہ آج اگر قاسم سلیمانی زندہ ہوتا تو کیا اسرائیل اس طرح پَرپھیلا سکتا تھا؟ امریکی منصوبے پر عملدرآمد شروع ہو سکتا تھا؟ یہ اہم سوال عربوں اور مسلمانوں کو قاسم سلیمانی شہید کا کردار فراموش نہیں کرنے دیتا۔ بقول اقبالؒ ؎

رنگ ہو یا خشت و سنگ، چنگ ہو یا حرف و صوت

معجزئہ فن کی ہے خون جگر سے نمود

رسول اعظم کا فرمان ہے کہ لولا علی لما کان لفاطمة کفو۔ علی سید الاولیا ء ، علی ۔نفس رسول علی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کے بھا ئی نورِ علی رسول اعظم کے نور میں شریک ۔ علی مدینة العلم ، علی منبرسلو نی کے داعی ، فاطمہ کے کفو صرف علی ہیں۔ اس سے واضح ہو ا کہ فاطمہ زہر ا کس قدر عظمت کی مالک ہیں۔ اے انسان عورت زوجہ کی شکل میں اب تیری مشیر ،تیر ے گھر کی ملکہ ،تیری غم گسار ،تیری عزت کا نشان ،تیرے بچوں کی ماں،تیرے بچوں کی مربی ،اس کی عزت کر۔ اس کی عظمت کا قائل ہو جا۔ اسی میں تیری عزت وعظمت ہے ۔ عورت (والدہ) والدین ( ماں باپ ) کی اہمیت قرآن مجید میں بیان کی گئی ہے اس میں بھی باپ کیساتھ عورت ( ماں) کا ذکر کیا گیا ہے تاکہ یہ بتا یا جاسکے ماں عورت ہونے کی وجہ سے درجہ میں کم نہیں ہے بلکہ بعض روایات میں ماں کی عظمت بہتر انداز میں ذکر کی گئی ہے ارشاد ہے کہ الجنة تحت اقدام الامہات ۔ جنت ما ں کے قدمو ں کے نیچے ہے ۔ نیزارشاد رب العزت ہے: وَإِذْ أَخَذْنَا مِیثَاقَ بَنِی إِسْرَائِیلَ لاَتَعْبُدُونَ إِلاَّ اللہ وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا “او ر جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا ( اور کہا ) کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو او راپنے والدین پر احسان کرو ۔” ( سورہ بقرہ : ۸۳) پھر ارشاد رب العزت ہے : کُتِبَ عَلَیْکُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَکُمُ الْمَوْتُ إِنْ تَرَکَ خَیْرَاًن الْوَصِیَّةُ لِلْوَالِدَیْنِ وَالْأَقْرَبِیْنَ بِالْمَعْرُوْفِ۔ “تمہارے لیے یہ لکھ دیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آئے او روہ کچھ مال چھوڑے جا رہا ہو تو اسے چاہیے کہ والدین اور رشتہ دارو ں کے لیے مناسب طور پروصیت کرے۔” سورہ بقرہ: ۱۸۰ نیزارشاد رب العزت ہے : وَوَصَّیْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حُسْنًا وَإِنْ جَاہَدَاکَ لِتُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْسَ لَکَ بِہ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْہُمَا “او رہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کاحکم دیا ہے اگر تیرے ماں باپ میرے ساتھ شرک پر مجبور کریں جس کا تجھے کو ئی علم نہ ہو توان دونوں کا کہنا نہ ماننا۔” (سورہ عنکبوت : ۸) اللہ تبارک وتعالیٰ نے بعض آیات میں اپنی عبادت اورشرک نہ کرنے کے فوراً بعد والدین کے ساتھ اچھے برتاؤ کا حکم دیا ہے ۔ جیساکہ ارشاد رب العزت ہے: وَاعْبُدُوا اللہ وَلَاتُشْرِکُوْا بِہ شَیْئًا وَّبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا۔ “او رتم لوگ اللہ ہی کی بندگی کرو او رکسی کو اسکا شریک قرار نہ دو او رماں باپ کے ساتھ احسان کرو۔” (سورہ نساء ۳۶اللہ نے دس حقوق انسانی کا تذکرہ کرتے ہوئے پہلے اپنے ساتھ شرک نہ کرنے اور والدین سے اچھائی کرنے کا حکم دیا ہے ۔ ارشاد رب العزت ہے: قُلْ تَعَالَوْا أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّکُمْ عَلَیْکُمْ أَلاَّ تُشْرِکُوْا بِہ شَیْئًا وَّبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا۔ “کہہ دیجئے آو ٴمیں تمہیں وہ چیزیں بتا دوں جو تمہارے رب نے تم پر حرام کر دی ہیں وہ یہ ہیں کہ تم لوگ کسی کو اللہ کا شریک نہ بناؤ اور والدین پر احسان کرو۔” (انعام: ۱۵۱) مزید ارشاد رب العزت ہے: وَقَضٰی رَبُّکَ أَلاَّ تَعْبُدُوْا إِلاَّ إِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا إِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ أَحَدُہُمَا أَوْ کِلَاہُمَا فَلَا تَقُلْ لَّہُمَا أُفٍّ وَّلَاتَنْہَرْہُمَا وَقُلْ لَّہُمَا قَوْلًا کَرِیْمًا وَاخْفِضْ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیَانِیْ صَغِیرًا۔ “اورتمہارے کے پروردگار کا فیصلہ ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بوڑھے ہو جائیں تو خبر دار ان سے اف تک نہ کہنا اور انہیں جھڑکنا بھی نہیں بلکہ ان سے عزت و تکریم سے بات کرنا اور ان کیلئے خاکساری کے ساتھ کاندھوں کو جھکا دینا اور ان کے حق میں دعا کرتے رہنا کہ پروردگارا ان دونوں پر اسی طرح رحمت نازل فرما جس طرح کہ انہوں نے بچپنے میں مجھے پالا ہے۔” ( بنی اسرائیل :۲۳تا ۲۴) ماں باپ کی عظمت کا کیا کہنا اللہ کا فیصلہ ہے کہ میری عبادت کرواور پھر والدین کے ساتھ احسان کرو۔ پھر اف کہنے تک کی اجازت نہیں ہے بہرحال اس حکم میں ماں بھی شریک ہے جیساکہ انبیاء اور اولیاء بھی اپنی دعاوٴں میں باپ کے ساتھ ماں کا تذکرہ بھی کرتے ہیں ۔ جیساکہ حضرت نوح کے متعلق ارشاد رب العزت ہے: رَبِّ اغْفِرْ لِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَیْتِیَ مُؤْمِنًا وَّلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ۔ “پروردگار! مجھے اور میرے والدین ، اور جو ایمان کی حالت میں میرے گھر میں داخل ہو ، اور تمام مومن مردوں اور عورتوں کو معاف فرما ۔” (نوح :۲۸) اس دعا میں ماں اور ہر مومن عورت کا تذکرہ موجود ہے ۔ اسی طرح حضرت ابراہیم کے متعلق ارشاد رب العزت ہے: رَبَّنَا اغْفِرْ لِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْحِسَابُ۔ پروردگار! مجھے ، میرے والدین اور ایمان والوں کو بروز حساب مغفرت سے نواز۔”(ابراہیم :۴۱) حضرت سلیمان بھی اپنے معصوم اورنبی باپ کے ساتھ اپنی والدہ کو بھی دعا میں شریک کر رہے ہیں جیساکہ ارشاد رب العزت ہے: رَبِّ أَوْزِعْنِیْ أَنْ أَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِیْ أَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلٰی وَالِدَیَّ۔ “پروردگار! مجھے توفیق دے کہ میں تیری ان نعمتوں کا شکر بجا لاؤں جن سے تو نے مجھے اور میرے والدین (ماں باپ) کو نوازا ہے ۔”( احقاف :۱۵) اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ – کو ان پر ان کی والدہ پرکیے گئے احسان کا تذکرہ فرمارہا ہے: إِذْ قَالَ اللہ یَاعِیَسٰی ابْنَ مَرْیَمَ اذْکُرْ نِعْمَتِیْ عَلَیْکَ وَعَلی وَالِدَتِکَ ۔ “جب حضرت عیسیٰ بن مریم سے اللہ نے فرمایا:یاد کیجئے میری اس نعمت کو جو میں نے آپ اور آپ کی والدہ کو عطا کی۔” (مائدہ :۱۱۰) حضرت عیسیٰ اللہ سے اپنی ماں کے ساتھ نیکی کی خواہش کر رہے ہیں۔ وَبَرًّا بِوَالِدَاٰتِیْ وَلَمْ یَجْعَلْنِیْ جَبَّارًا شَقِیًّا۔ ( اللہ نے) مجھے اپنی والدہ کے ساتھ بہتر سلوک کرنے والا قرار دیا اورمجھے سرکش اور شقی نہیں بنایا۔” (مریم :۳۲الٰہی کتاب قرآن مجید کی رو سے ، عورت اور مرد میں خلقت،اعمال، کردار،اخلاق ، نیکی ، بدی، جزا و سزا، انعام و اکرام ، حیات طیبہ ، وغیرہ میں سے کسی لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے۔ البتہ اللہ نے معیار ِتفاضل ، معیار ِ بہتری اور معیارِبلندی صرف تقویٰ اور خوف خدا کو قرار دیا ہے۔ اے انسانعورت تیری طرح کی اورتیرے ہی جیسی انسان ہے۔وہ بیٹی بن کرتجھ پر رحمت برساتی ہے۔بیوی بن کر تیرے دین اور ایمان کی تکمیل کرتی ہے اور ماں بن کر تجھے جنت کا تحفہ پیش کرتی ہے۔ جب بیٹی بنے تو خوش ہو جا کہ تجھ پر رحمت خدا کا نزول ہوا ہے۔جب وہ زوجہ نہیں بنی تھی تو،تو اکیلا تھا لیکن اب تجھے دوست، شریک کار ،ساتھی،اور مشیر مل گیاہے ۔جب ماں بنی تو ،تو اس کے پاوٴں پکڑ کر خدمت کر کیونکہ تجھے جنت کا وسیلہ مل گیا ہے۔ خدایا تو ہم سب کو حقیقی مسلم اور موٴمن بننے کی توفیق عطا فرما۔ احکام و حقوق میں مرد و عورت کا اشتراک ارشاد رب العزت : وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْہِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ” اور عورتوں کو بھی دستور کے مطابق ویسے ہی حقوق حاصل ہیں جیسے مردوں کے حقوق ان پر ہیں۔” ( سورہ بقرہ آیت ۲۲۸) مدینہ سے بعض مسلمان مکہ آئے۔ مخفیانہ حضور کے دست مبارک پر بیعت کی ان میں دو عورتیں تھیں۔ نسیبہ بنت کعب ۔ اسماء بنت عمرو ابن عدی۔ فتح مکہ کے وقت عورتوں سے باقاعدہ علٰیحدہ بیعت لی گئی۔ ارشاد رب العزت ہے: یَاأَیُّہَا النَّبِیُّ إِذَا جَائَکَ الْمُؤْمِنَاتُ یُبَایِعْنَکَ عَلٰی أَنْ لَّایُشْرِکْنَ بِاللہ شَیْئًا وَّلَایَسْرِقْنَ وَلَایَزْنِینَ وَلاَیَقْتُلْنَ أَوْلاَدَہُنَّ وَلاَیَأْتِیْنَ بِبُہْتَانٍ یَّفْتَرِیْنَہ بَیْنَ أَیْدِیْہِنَّ وَأَرْجُلِہِنَّ وَلاَیَعْصِیْنَکَ فِیْ مَعْرُوْفٍ فَبَایِعْہُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَہُنَّ اللہ إِنَّ اللہ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ۔ “اے نبی جب مومنہ عورتیں اس بات پر آپ سے بیعت کرنے آئیں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرئیں گی اور نہ چوری کریں گی اور نہ زنا کا ارتکاب بنائیں گی اور نہ اپنی اولاد کو قتل کریں گی اور نہ اپنے ہاتھ پاؤں کے آگے کوئی بہتان (غیر قانونی اولاد) گھڑ کر (شوہر کے ذمے ڈالنے) لائیں گی اور نیک کاموں میں آپ کی نافرمانی نہیں کریں گی۔ تو ان سے بیعت لے لیں۔ اور ان کے لئے اللہ سے مغفرت طلب کریں۔ اللہ یقینا بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔ (سورہ ممتحنہ : ۱۲) اسلام کی نظر میں عورت کی پہچان ۔ اس عنوان سے ہے کہ اجتماعیت کا تکامل اسی وجہ سے ہے خواہ عورت بیٹی ہو ، زوجہ ہو یا ماں۔ اسلامی قانون میں عورتیں ، کسب معاش ، تجارت ، عبادت و وظائف میں مردوں کے مساوی ہیں۔ ارشاد رب العزت ہے: وََلَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللہ بِہِ بَعْضَکُمْ عَلٰی بَعْضٍ لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبُوْا وَلِلنِّسَاءِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبْنَ وَاسْأَلُوا اللہ مِنْ فَضْلِہ إِنَّ اللہ کَانَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا ۔ “اور جس چیز میں اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اس کی تمنا نہ کیا کرو۔ مردوں کو اپنی کمائی کا صلہ اور عورتوں کو اپنی کمائی کا صلہ مل جائے گا اور اللہ سے اس کا فضل و کرم مانگتے رہو یقینا اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھتا ہے۔” ( النساء :۳۲) آسمان و زمین کی خلقت ،لیل و نہار کی آمد ، رات و دن عبادت خدا، خلقت عام میں تفکر، دعاؤں کا طلب کرنا، معارف اسلامی کی معرفت اور عملی عقیدہ ان سب امور میں۔ مرد و عورت شریک۔ ثواب و جزاء کے حق دار، کسب معارف، حمل امانت الٰہی میں سب برابر ہیں۔ ارشاد رب العزت ہے : یَوْمَ تَرَی الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ یَسْعٰی نُوْرُہُمْ بَیْنَ أَیْدِیْہِمْ وَبِأَیْمَانِہِمْ بُشْرَاکُمُ الْیَوْمَ جَنَّاتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْأَنْہَارُ خَالِدِیْنَ فِیہَا ذٰلِکَ ہُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ ۔

 

 

شہید سلیمانی کا مکتب اور علاقائی و بین الأقوامی تنظیمیں:
زمانہ جاہلیت سے خون ریزی، قتل و غارت، فسادات، عورتوں اور بچوں کا زندہ درگور کرنا، ظالم اور طاقتور کو فوقیت دینا جیسی غیر منظم روایات موجود تھیں۔ بعثت رسول صلى الله عليه وآله وسلم کے بعد یہ غیر منظم اور غیر انسانی روایات، اسلامی روایات میں تبدیل ہوگئیں۔ جس میں عورتوں اور بچوں کے حقوق کی پاسداری، قتل و غارت کی بجائے امن و سلامتی، بے گناہ انسان کے قتل کی قیمت پوری انسانیت کا قتل جیسے منظم الہیٰ قوانین شامل ہوئے۔ اس الہیٰ انقلاب سے ظالم و شیطان صفت قوتیں نابود ہوئیں، اس لیے وہ اسلامی نظام کی دشمن بن گئیں اور اس کے خلاف سازشی میدان میں آج تک برسر پیکار ہیں۔ اس الہیٰ انقلاب کے سلسلے کی ایک کڑی اسلامی انقلاب ایران تک پہنچی۔ اس الہیٰ انقلاب کو روکنے کیلئے کئی ممالک کی فوج اسلامی انقلاب پر حملہ کرنے پہنچی اور ان ممالک کے گروہوں نے اسلامی انقلاب کے گرد گھیرا تنگ کیا، ان کی حمایتی حکومتوں پر حملہ کرکے اس کو تنہا کرنا چاہا۔ مگر اس دوران شہید قاسم سلیمانی ان اسلام دشمن قوتوں کیلئے مایوسی، خوف اور رعب کی علامت بن آئے۔ مکتب شہید قاسم سلیمانی وہی اسلام کا مکتب ہے، جسے رسول خدا (ص) نے اپنی بے پناہ قربانیوں سے پروان چڑھایا اور شاید یہی وجہ ہے کہ صیہونیت اور اسلام دشمن قوتیں اپنے ہر منصوبے میں ناکام نظر آئیں۔ شہید قاسم سلیمانی اسلام اور رسول خدا (ص) کی ذات گرامی سے بے پناہ محبت کرنے والے تھے۔ انہوں نے جو کچھ حاصل کیا، اسلام اور رسول گرامی کی ذات سے حاصل کیا۔
 
فیلسوف مکتب کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں "مکتب ایک ایسی مجموعی تھیوری اور ہم آہنگ، جامع اور منظم منصوبے کا نام ہے، جس کا اصل ہدف انسان کا کمال اور اجتماعی سعادت کا حصول ہے۔" شہید قاسم سلیمانی کا مکتب تمام افراد کے وظائف اور فرائض کے تعین کا منبع اور اجتماعی سعادت کا حصول ہے۔ شہید سلیمانی کے اندر اسلامی و اخلاقی اقدار جلوہ گر تھیں۔ مکتب شہید سلیمانی کی خصوصیات میں تقرب خدا و الہیت، مسلسل استقامت، عوامی ہونا، دشمن شناسی اور شہادت سے عشق شامل ہیں۔ جو کوئی بھی شہید سے مکتب کو قبول کرتا ہے، اسے چاہیئے کہ وہ اس مکتب کی خصوصیات کو بھی قبول کرے۔ شہید سلیمانی کے مکتب اور نظریئے کا تعلق صرف ایران سے نہیں بلکہ ان کا نظریہ عالمی و جہانی ہے۔ جس طرح انہوں نے مظلومیت کی آواز کو دنیا کے گوش و کنار تک پہنچایا ہے اور مظلومیت کی حمایت کی ہے، اس طرح کوئی رہنماء، سربراہ یا عالم آج تک نہیں کرسکا۔ پوری دنیا میں جہاں جہاں حریت، آزادی اور غیرتِ دینی کی تحریکیں ہیں یا جہاں کہیں استعمار کی ریشہ دوانیوں کو قلع قمع کرنے کی آرزو موجود ہے، وہاں وہاں شہید قاسم سلیمانی کے نقشِ پا کو ہم دیکھ سکتے ہیں۔

شہید سلیمانی نے نہ صرف داعش کا قلع قمع کیا بلکہ عراق سے لے کر لبنان، فلسطین، شام اور یمن تک مظلوم و پابرہنہ عوام کی مظلومیت کو مزاحمتی تنظیموں میں تبدیل کر دیا۔ اس کے علاوہ ایران، پاکستان، افغانستان اور نائجیریا جیسے ممالک میں بھی مظلومین کے حامی تنظیموں کی ایک لہر دوڑتی نظر آئی۔ حشد الشعبی، تحریک انصار الله، حزب الله، کتائب حزب الله، سرايا القدس، حماس جیسی عالمی تنظیمیں اسلام دشمن قوتوں کے خلاف سرگرم ہوئیں اور ظالم کے خلاف یک زباں ہو کر قیام کیا۔ تحریک حماس فلسطین کے سربراہ کہتے ہیں "شہید قاسم سلیمانی نے فلسطینیوں کو یہ حوصلہ عطا کیا کہ وہ پتھروں کے بجائے راکٹوں سے اسرائیل کا مقابلہ کریں۔" شہید قاسم سلیمانی فلسطینیوں کے حقیقی ہمدرد تھے، جنھوں نے عملی طور پر فلسطینیوں کے اندر مزاحمتی جذبے میں اضافہ کیا اور انھوں نے گرانقدر فوجی تجربات فلسطینی مجاہدین کو منتقل کئے۔ ظلم و استبداد کی ناک رگڑنا محض اسلحہ، ذہانت، تدبیر اور طاقت کے ذریعے ہی ممکن نہیں ہوتا، اس میں اسلام اور رسول خدا (ص) کے مکتب کا مظہر بننا ضروری ہوتا ہے، جو کہ شہید قاسم سلیمانی کی شخصیت میں نمایاں تھا۔

شہید قاسم سلیمانی کے فکری و نظریاتی پہلو اب تک اکثر و بیشتر کیلئے غیر واضح ہے۔ ہمیں شہید کے ذہن سے گزر کر دل تک جانا ہوگا اور دیکھنا ہوگا کہ شہید کس قدر اسلام کی چاہت رکھنے والے اور مظلومیت کو انصاف دلانے والے تھے۔ شہید نے اپنے دل کی آواز دینی و الہیٰ وصیت نامے میں بیان کر دی۔ شہید قاسم سلیمانی انبیاء الہیٰ اور بالخصوص رسول خدا (ص) کے الہیٰ طریق کو باقی رکھے ہوئے تھے، جس کا مقصد دینی و الہیٰ معاشرے کا قیام تھا، تاکہ امن و سلامتی قائم ہو۔ اسی لئے شہید قاسم سلیمانی اسلام دشمن قوتوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں "ہماری زندگی میں وہ صبح نہیں آئی، جب ہم نے امریکی و اسرائیلی اور اسلام دشمن قوتوں کے خلاف قیام کے بارے نہ سوچا ہو، ہم نے اس کے متعلق لحظہ بھر کی غفلت نہیں برتی۔ وہ وقت آنے والا ہے، جب استعمار نابود اور دین اسلام کو غلبہ عطا ہوگا۔" بے شک آج کا دور دین کے غلبے کا ہے، جس میں استعمار اور طاغوتی طاقتیں ہر گزرتے دنوں کے ساتھ واضح اور شفاف طور پر کمزور سے کمزور تر ہو رہی ہیں۔ ہم نے امریکی ائیربیس پر حملے کے بعد مشاہدہ کر لیا کہ امریکی و اسرائیلی طاقتیں نابود ہو کر رہیں گی۔

اسلامی معاشروں میں اتحاد پیدا کرنے میں انکا کردار:
عین اس وقت جب اسلام دشمن قوتیں اپنی ناکامیوں کے بعد ایک نئی اور دیرینہ سازش میں مصروف تھیں، اسی لمحہ میں شہید سلیمانی جیسے شجاع اور بہادر لیڈر نے ان قوتوں کی سازشوں کو جانچ لیا کہ یہ قوتیں اسلامی اتحاد کو توڑنے جا رہی ہیں۔ لہذا شہید قاسم سلیمانی عالمی و علاقائی سطح پر اسلامی اتحاد میں اس قدر مصروف ہوگئے کہ اپنی ذات کو بھی نظر انداز کر دیا، کیونکہ اتحاد اسلامی مسلمانوں کی سب سے اہم ضرورت ہے، اگر مسلمانوں میں اتحاد و اتفاق ہے تو کوئی طاقت، چاہے وہ امریکی ہو یا غیر امریکی، مسلمانوں پر غالب نہیں آسکتی۔ شہید ایک جگہ فرماتے ہیں "اگر ہم عالمی استکبار کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں شیعہ، سنی، کرد، عرب، فارس سب کو متحد کرنا ہوگا، تاکہ یہ توفیق مسلمانوں کو حاصل ہوسکے۔"

شہید سلیمانی اسلامی اتحاد کے سب سے بڑے داعی تھے۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی امت مسلمہ کے اتحاد و اتفاق کی خاطر صرف کر دی اور اسی وجہ سے انہیں شہید کیا گیا، مگر شہادت نصیب ہونے کے بعد دنیا بھر میں اسلامی اتحاد کی ایسی فضا قائم ہوئی، جس کی مثال طول تاریخ میں نہیں ملتی۔ میری نظر میں شہید سلیمانی کو شہید وحدت کہنا زیادہ مناسب اور بہتر رہے گا۔ شہادت کے فوراً بعد مذہبی و سیاسی پارٹیاں اسلام دشمن قوتوں کے خلاف متحد ہوگئیں، چاہے وہ عراق کی تنظیمیں ہوں یا پاکستان کی، چاہے وہ فسلطینی رہنماء ہوں یا یمن کے اعلیٰ سیاسی کارکن، چاہے شام کی سیاسی پارٹیاں ہوں یا لبنان کی مقاومتی تحریکیں، غرضیکہ اتحاد کی فضا کبھی اس قدر قائم نہیں ہوئی، جس طرح شہید سلیمانی کی شہادت کے بعد ہوئی۔ 

امریکی و صیہونی منصوبوں کی ناکامی میں شہید سلیمانی کا کردار:
اسلام دشمن قوتیں آئے روز دین اسلام کے خلاف وحشیانہ اور شیطانی پروپیگنڈے استعمال کرتی رہی ہیں۔ ہر صاحب عقل جو مکتب اسلام و قرآن کا پیرو ہوتا ہے، وہ ان صیہونی طاقتوں کے شیطانی جال کو پہلی نظر میں پرکھ لیتا ہے۔ ہم ایک نظر صیہونی طاقتوں کے منصوبوں اور نتائج کی طرف دوڑاتے ہیں: فلسطینیوں کو کمزور کرنا اور فلسطین پر غاصب رہنا، جس کا نتیجہ زبردست فلسطینی مقاومت کی صورت نکلا، عراق کو سعودی یا پہلوی بادشاہت طرز کا ملک بنانا، اس کا نتیجہ بھی شہید سلیمانی کے کردار کے باعث عراق کی مضبوطی کی صورت نکلا، لبنانی مقاومت اور حزب الله کو غیر مسلح کرنا اور ان پر اسرائیل کو مسلط کرنا، اس کا نتیجہ بھی یہ نکلا کہ حزب الله روز بروز طاقتور ہوتی گئی اور پھر یہ تنظیم لبنان میں قلب اور دائیں ہاتھ کی حیثیت اختیار کرگئی۔

اس کے علاوہ امریکی و اسرائیلی منصوبوں میں سے انسانیت کا قتل کرنا، جوانوں کی زندگی کو مفلوج کرنا، فحاشی و جنسی لذت کی ترویج کرنا، دینی معنویت و روحانیت کا سر قلم کرنا، موسیقی و نشہ آور اشیاء کے استعمال کو رائج کرنا، اعلیٰ انسانی و اخلاقی اقدار کو ناپید کرنا، مکتب اسلام میں اختلاف، تفرقہ اور نفرت ایجاد کرنا وغیرہ شامل ہیں، جس کیلئے صیہونی طاقتوں نے مختلف تنظیمیں اور گروہ تشکیل دیئے۔ داعش جیسی وحشیانہ تنظیم بھی بنائی گئی، جس نے سرعام انسانیت کے قتل میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ شہید سلیمانی نے ایسی وحشتناک تنظیم کو نہ صرف شکست دی بلکہ کلی طور پر کھوکھلا کر دیا۔ یمن کی مظلوم عوام کے خلاف جنگ مسلط کی گئی تو شہید قاسم سلیمانی مظلومین کی حمایت و ہمدردی کیلئے تیار نظر آئے۔ اسی طرح کشمیر میں مظلوم کشمیریوں پر ظلم روا رکھا گیا تو شہید سلیمانی مظلوم کشمیریوں کی مزاحمت کے حامی رہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کے شہادت پر مقبوضہ کشمیر میں کئی ایک مقامات پر ان کی تصاویر اٹھا کر عوام نے مظاہرے کئے۔

اگر بوسنیا کے ان مسلمانوں کی بات کی جائے، جن پر ظلم و ستم روا رکھا گیا تھا تو تاریخ یہ بتاتی ہے کہ یہی شہید قاسم سلیمانی مسلمانوں کے دفاع کے لئے اور ان کی عزت و ناموس کی رکھوالی کی خاطر سب سے پہلے بوسنیا میں پہنچے اور دشمن قوتوں کے مقابلہ میں مسلمان ملتوں کا دفاع کیا۔ جب استقامتی محاذ پر صیہونی طاقتوں کو اس قدر شکست ہوئی اور انہوں نے اس معجزہ کا مشاہدہ کیا تو حیرت زدہ اور بوکھلاہٹ کا شکار نظر آئے۔ پھر نئے نئے منصوبے تیار کئے گئے، کئی نئے محاذ اور جرائم کھولے گئے، انہوں نے ایک نیا روپ اختیار کیا اور نئی سازش رچائی، جس کا مقصد چند شرپسند عناصر افراد یا گروہوں کے ذریعے مذہبی و عقیدتی اختلافات کو ہوا دے کر مکتب اسلام کے ٹکڑے ٹکڑے کرنا تھا، لیکن شہید سلیمانی نے نہ صرف علاقائی شکست سے دوچار کیا بلکہ عالمی سطح پر بھی شہید نے ان قوتوں کو ناکامی دی اور ان دشمن قوتوں کو پیغام دیا کہ مکتب اسلام کے خلاف جتنی بھی سازش کر لو، ہم ہر محاذ پر تیار رہیں گے۔ اس کے علاوہ صیہونیت نے جتنی سازشیں کیں، شہید سلیمانی ان کے راستے کی رکاوٹ بنے۔

اگر شہید قاسم سلیمانی امریکی و صیہونی طاقتوں کی استکباری سازشوں کیلئے دردناک ترین شخص نہ ہوتے تو امریکہ ان کی براہ راست و کھلم کھلا ٹارگٹ کلنگ کا فیصلہ کبھی نہ کرتا۔ امریکہ جو کہ اپنی دہشت گردانہ عزائم کی ایک سو سالہ تاریخ سے طویل تاریخ رکھتا ہے، ہمیشہ مظلوموں کو دہشت گرد قرار دینا ہی امریکہ کا شیوا رہا ہے۔ امریکہ یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ دنیا میں امریکی منصوبوں کی ناکامی کے پیچھے اگر کسی کا ہاتھ تھا تو وہ یہی مجاہد اسلام قاسم سلیمانی تھے۔ اسی وجہ سے رہبر معظم سید علی خامنہ ای شہید سلیمانی کے متعلق فرماتے ہیں: "شہید قاسم سلیمانی نے اُن تمام منصوبوں کے سامنے کہ جس کا اہتمام پیسوں، امریکی وسیع پروپیگنڈہ مشینری، امریکی طاقتور سیاسی پالیسیوں اور امریکی زور زبردستی کے ذریعے کیا ہوا تھا، ڈٹ کر دکھا دیا اور مغربی ایشیا کے اس خطے میں (ان تمام منصوبوں کو) ناکام بنا کر دکھا دیا۔"

مجلس وحدت مسلمین پاکستان سندھ کے سیکرٹری جنرل علامہ باقر عباس زیدی نے کہا ہے کہ شہید حاج قاسم سلیمانی اور ابو مہدی المہندس آج بھی دنیا بھر کی مظلوم اقوام کے دلوں پر حکومت کر رہے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے سندھ کے ضلع ٹنڈو محمد خان میں تنظیمی کارکنوں اور ذمہ داروں سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس دوران ان کے ہمراہ ایم ڈبلیو ایم سندھ کے سیکرٹری تنظیم سازی مولانا علی انور جعفری اور سیکرٹری یوتھ اسد عباس بھی موجود تھے۔ علامہ باقر زیدی نے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ صہیونی قوتیں مسئلہ فلسطین کو عالم اسلام اور مسلمان اقوام کے اذہان سے نکال دینا چاہتے ہیں اس کام کے لئے پہلے فرقہ واریت کا بیج بویا گیا اور اب صحافتی برادری میں موجود کالی بھیڑوں کو پانچ سو ملین ڈالر کی رقوم تقسیم کی جانے کی اطلاعات ہیں۔

علامہ باقر زیدی نے کہا کہ صہیونزم کو شام، عراق، لبنان اور فلسطین میں بدترین شکست کا سامنا ہوا ہے۔ علامہ باقر زیدی نے مجاہد اسلام اور شہید القدس جنرل قاسم سلیمانی کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ قاسم سلیمانی ایک ایسی عظیم شخصیت تھے کہ جنہوں نے اپنے مقدس وجود سے شام و عراق کے مقدس مقامات کی حفاظت کی اور عالمی استعمار اور صہیونزم کے ناپاک ارادوں کو دفن کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ اور اسرائیل جب ان سے مقابلہ میں شکست کھا گئے تو پھر ایک دہشتگردانہ کارروائی میں ان کو شہید کر دیا، لیکن قاسم سلیمانی اور ابو مہدی المہندس آج بھی دنیا بھر کی مظلوم اقوام کے دلوں پر حکومت کر رہے ہیں۔

علامہ باقر زیدی کا کہنا تھا کہ شہید قاسم سلیمانی نے فلسطین میں مزاحمت کو مضبوط کیا، لبنان شام اور عراق سمیت ہر اس سرزمین پر مزاحمت کو کھڑا کیا، جہاں شیطان بزرگ امریکہ تسلط قائم کرنا چاہتا تھا۔ علامہ باقر زیدی نے خطے کی بدلتی ہوئی صورتحال پر بات کرتے ہوئے کہا کہ آج دشمن کی کوشش ہے کہ شام سے شروع ہونے والے داعش کے منصوبہ کی شکست کے بعد اب پاکستان سے اس ناپاک منصوبہ کو شروع کریں، ہمیں ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے اور دشمن کی سازشوں کو باہمی اتحاد سے ہی ناکام بنایا جا سکتا ہے۔

اصول دین کی گواہی
 أشهد أن لا إله إلا الله و أشهد أن محمداً رسول الله و أشهد أن امير المؤمنين علي بن أبي طالب و أولاده المعصومين إثني عشرأئمتنا و معصوميننا حجج ألله 
میں گواہی دیتا ہوں کہ قیامت حق ہے، قرآن حق ہے، جنت حق ہے دوزخ حق ہے، سوال اور جواب حق ہے، معاد، عدل، امامت اور نبوت حق ہے۔

اے اللہ! آپ کے دین کے دفاع میں بھاگتا، گِرتا اور گر کر اٹھتا رہا۔

اے اللہ! میرے ہاتھوں کی دولت تیرے دین کی راہ میں اسلحہ اٹھانا ہے۔

اے اللہ! میری آنکھوں کی دولت مظلوم کے دفاع میں نکلنے والے آنسو ہیں۔

اے اللہ! تیری ذات کا شکر ہے کہ تو نے مجھے اولادِ فاطمہ  پر گریہ کرنے کی توفیق دے دی ۔

علما سے خطاب:

رہبر معظم انقلاب امام خامنہ ای کو مظلوم اور تنہا دیکھ رہا ہوں۔ انہیں آپ کے ساتھ دینے کی ضرورت ہے۔

اے اللہ! تیری ذات کا شکر ہے کہ تو نے مجھے امام خمینی  کا سپاہی بنا دیا۔

اے اللہ! تیری ذات کا شکر ہے کہ تو نے مجھے امام خامنہ ای کے بتائے ہوئے اسلام کے  حکیمانہ راستے پر گامزن کیا۔

امام خمینی رح نے اسلام کو ایران کا پشت پناہ قرار دیا ہے۔

شہدا کے بچوں کو احترام اور ادب کی نگاہ سے دیکھیے۔

سیاستدانوں سے خطاب:

انتخاباتی  مناظروں میں دین اور انقلاب کی تضعیف کا باعث مت بنیں۔

سیاسی مسائل میں ولایت فقیہ کو دیگر امور پر ترجیح دیں۔

میری خواہش ہے کرمان ہمیشہ ولایت فقیہ کے ساتھ کھڑا ہو۔

میں مشیت اور مصلحت الہی کی بنا آج آپ لوگوں سے جدا ہورہا ہوں۔

اسلام اور ملک کے دفاع کیلئے مسلح افواج کا احترام کریں۔

اپنے بچوں کو شہدا کے ناموں اور تصویروں سے آشنا کریں۔

ولایت فقیہ کی حرمت کو مقدسات کی حرمت سمجھیں۔

اگر اسلامی جمہوریہ ایران کے خیمے کو کوئی خطرہ لاحق ہوا  تو خانہ کعبہ اور قرآن خطرے میں پڑ جائیں گے ۔

اسلام کی نجات کی خاطر ولایت فقیہ کے خیمے کو مت چھوڑیں۔

آج ایران حسین ابن علی (ع) کا قلعہ  ہے۔

دشمنوں کا دباؤ آپ کے درمیان تفرقہ ایجاد نہ کر پائے۔

اے اللہ! کئی سال گزر گئے ہیں اور میں شہدا کے قافلے میں شامل نہیں ہوسکا۔

اے اللہ! مجھے اپنے دیدار کے قابل پاکیزہ قبول کر لیجیے۔

اے اللہ! میں آپ کے دین کے دفاع کی خاطر خود ہنسا اور دوسروں کو ہنسایا، خود رویا اور دوسروں کو رلایا۔

اے اللہ! مجھے اپنی طرف آنے والے قافلے سے متصل فرما۔

میں گواہی دیتا ہوں کہ قیامت حق ہے، قرآن حق ہے، جنت حق ہے دوزخ حق ہے، سوال اور جواب حق ہے، معاد، عدل، امامت اور نبوت حق ہے۔