سلیمانی

سلیمانی

امام حسن عسکری(ع) اسی سلسلہ عصمت کی ایک کڑی تھے جس کا ہر حلقہ انسانی کمالات کے جواہر سے مرصع تھا , علم وحلم , عفو وکرم , سخاو ت وایثار سب ہی اوصاف بے مثال تھے۔ عبادت کا یہ عالم تھا کہ ا س زمانے میں بھی کہ جب آپ سخت قید میں تھے معتمد نے جس سے آپ کے متعلق دریافت کیا یہی معلوم ہوا کہ آپ دن بھر روزہ رکھتے ہیں اور رات بھر نمازیں پڑھتے ہیں اور سوائے ذکر الٰہی کے کسی سے کوئی کلام نہیں فرماتے , اگرچہ آپ کو آپنے گھر پر آزادی کے سانس لینے کا موقع بہت کم ملا۔ پھر بھی جتنے عرصہ تک قیام رہا اور دور دراز سے لوگ آپ کے فیض و عطا کے تذکرے سن کر اتے تھے اور بامراد وآپس جاتے تھے۔آپ کے اخلاق واوصاف کی عظمت کا عوام وخواص سب ہی کے دلوں پر سکہ قائم تھا۔ چنانچہ جب احمد بن عبداللہ بن خاقان کے سامنے جو خلیفہ عباسی کی طرف سے شہر قم کے اوقاف وصدقات کے شعبہ کا افسر اعلیٰ تھا سادات علوی کاتذکرہ آگیا تو وہ کہنے لگا کہ مجھے کوئی حسن علیہ السّلام عسکری سے زیادہ مرتبہ اور علم و ورع , زہدو عبادت ,وقار وہیبت , حیاوعفت , شرف وعزت اور قدرومنزلت میں ممتاز اور نمایاں نہں معلوم ہوا۔ اس وقت جب امام علی نقی علیہ السّلام کا انتقال ہوا اور لوگ تجہیز وتکفین میں مشغول تھے تو بعض گھر کے ملازمین نے اثاث اللبیت وغیرہ میں سے کچھ چیزیں غائب کردیں اور انھیںخبر تک نہ تھی کہ امام علیہ السّلام کو اس کی اطلاع ہوجائے گی۔ جب تجہیز اور تکفین وغیرہ سے فراغت ہوئی تو آپ نے ان نوکروں کو بلایا اور فرمایا کہ جو کچھ پوچھتا ہوں اگر تم مجھ سے سچ سچ بیان کرو گے تو میں تمھیں معاف کردوں گا اور سزا نہ دوں گا لیکن اگر غلط بیانی سے کام لیا تو پھر میں تمھارے پاس سے سب چیزیں بر آمد بھی کرالوں گا اور سزا بھی دوں گا۔ اس کے بعد آپ نے ہر ایک سے ان اشیا ء کے متعلق جو ان کے پا س تھیں دریافت کیا اور جب انھوں نے سچ بیان کر دیا تو ان تمام چیزوں کو ان سے واپس لے کر آپ نے ان کو کسی قسم کی سزا نہ دی اور معاف فرمادیا

علمی مرکزیت
باوجود یہ کہ آپ کی عمر بہت مختصر ہوئی یعنی صرف اٹھائیس بر س مگر اس محدود اور مشکلات سے بھری ہوئی زندگی میں بھی آپ کے علمی فیوض کے دریا نے بڑے بڑے بلند پایہ علماء کو سیراب ہونے کا موقع دیا نیز زمانے کے فلاسفہ کا جو دہریت اور الحاد کی تبلیغ کر رہے تھے مقابلہ فرمایا جس میں نمایاں کامیابی حاصل ہوئی۔ان میں ایک اسحٰق کندی کاواقعہ یہ ہے کہ یہ شخص قرآن مجید کی آیات کے باہمی تناقص کے متعلق ایک کتاب لکھ رہاتھا۔ یہ خبر امام حسن عسکری(ع) کو پہنچی اور آپ موقع کے منتظر ہو گئے۔اتفاق سے ایک روز ابو اسحٰق کے کچھ شاگرد آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ نے فرمایا کہ تم میں کوئی اتنا سمجھدارآدمی نہیں جو اپنے استاد کندی کو اس فضول مشغلے سے روکے جو انھوں نے قرآن کے بارے میں شروع کر رکھا ہے , ان طلاّب نے کہا , حضور ! ہم تو ان کے شاگرد ہیں , ہم بھلا ان پر کیا اعتراض کرسکتے ہیں ؟ حضرت امام حسن عسکری(ع) نے فرمایا ! اتنا تو تم کرسکتے ہو جو کچھ باتیں میں تمھیں بتاؤں وہ تم ان کے سامنے پیش کردو , طلاب نے کہا !جی ہاں ہم اتنا کرسکتے ہیں۔ حضرت نے کچھ آیتیں قرآن کی جن کے متعلق باہمی اختلاف کا توّہم ہورہا تھا پیش فرما کر ان سے کہا کہ تم اپنے استاد سے اتنا پوچھو کہ کیا ان الفاظ کے بس یہی معنی ہیں جن کے لحاظ سے وہ تنا قص ثابت کررہے ہیں اور اگر کلام عرب کے شواہد سے دوسرے متعارف معنٰی نکل آئیں جن کے بنا پر الفاظ قرآن میں باہم کوئی اختلافات نہ رہے تو پھر انھیں کیا حق ہے کہ وہ اپنے ذہنی خود ساختہ معنی کو متکلم قرآنی کی طرف منسوب کرکے تناقص واختلاف کی عمارت کھڑی کریں , اس ذیل میں آپ نے کچھ شواہد کلامِ عرب کے بھی ان طلاّب کے ذہن نشین کرائے۔ ذہین طلاّ ب نے وہ پوری بحث اور شواہد کے حوالے محفوظ کرلیے اور اپنے استاد کے پاس جا کر ادھر اُدھر کی باتوں کے بعد یہ سوالات پیش کر دیئے۔ بہرحال وہ آدمی منصف مزاج تھا اس نے طلاّ ب کی زبانی وہ سب کچھ سنا اور کہا کہ یہ باتیں تمہاری قابلیت سے بالا تر ہیں۔ سچ سچ بتانا کہ یہ باتیں تمھیں کس نے بتائی ہیں پہلے تو ان طالب علموں نے چھپانا چاہا اور کہا کہ یہ چیزیں خود ہمارے ذہن میں آئی ہیں مگر جب اس نے سختی کے ساتھ انکار کیا کہ یہ ہو ہی نہیں سکتا تو انھوں نے بتایا کہ ہمیں ابو محمد, حسن عسکری علیہ السّلام نے یہ باتیں بتائی ہیں یہ سن کر اس نے کہا کہ سوائے اس گھرانے کے اور کہیں سے یہ معلومات حاصل ہی نہیں ہوسکتیں تھے۔پھر اس نے آگ منگوائی اور جو کچھ لکھا تھا ,نذر آتش کردیا ایسے کتنے ہی علمی اور دینی خدمات تھے جو خاموشی کے ساتھ حضرت (ع)انجام دےرہے تھے اور حکومت وقت جو اسلام کی پاسداری کی دعویدار تھی۔ اپنے عیش وطرب کے نشے میں مدہوش تھی یا پھر چونکتی تھی بھی تو ایسے مخلص حامی اسلام کو اپنی سلطنت کے لیے خطرہ محسوس کرکے ان پر کچھ پابندیاں نافذ کردیتی تھی , مگر اس کوهِ گراں کے صبرو استقال میں فرق نہ آیا

شہادت:
اتنے علمی و دینی مشاغل میں مصروف انسان کو کہیں سلطنت وقت کے ساتھ مزاحمت کا کوئی خیال پیدا ہوسکتا ہے مگر ان کابڑھتا ہو روحانی اقتدار اور علمی مرجعیت ہی تو ہمیشہ ان حضرات کو سلاطین کے لیے ناقابل ُبرداشت ثابت کرتی رہی۔ وہی اب بھی ہوااور معتمد عباسی کے بھجوائے ہوئے زہر سے 8 ربیع ھ260 الاوّل میں آپ نے شہادت پائی اور اپنے والد بزرگوار کی قبر کے پاس سامرے میں دفن ہوئے جہاں حضرت علیہ السّلام کاروضہ باوجود ناموافق ماحول کے مرجع خلائق بنا ہوا ہے۔

بشکریہ شیعہ اسٹیڈیز ڈاٹ کام
 

اسلامی مشاورتی مجلس برائے بین الاقوامی امور کے اسپیکر کے معاون خصوصی نے کہا کہ ایران شام اور اس کی سلامتی کا بھرپور دفاع کرنے کے ساتھ ساتھ شام کی مدد کے لئے اقوام متحدہ کی تعمیری کوششوں کی بھی حمایت کرتا ہے۔
یہ بات امیر عبداللہیان نے پیر کے روز اقوام متحدہ کے سیکرٹری کے خصوصی نمائندے برائے شامی امور "گیر۔ او۔ پدرسن"  کے ساتھ ایک ملاقات کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کہی۔

انہوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران اقوام متحدہ کی کوششوں اور شام کی علاقائی سالمیت، قومی خودمختاری اور دیرپا سلامتی کی واپسی کے لئے کسی بھی کوششوں کا خیرمقدم کرتا ہے۔

انہوں نے شام کی موجودہ صورتحال میں عدم اعتماد کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بدقسمتی سے کچھ خطرناک دہشت گرد گروہ اپنے نام تبدیل کر کے اقوام متحدہ کی دہشت گردوں کی فہرست سے ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں لہذا اقوام متحدہ کو غیر جانبدارانہ طریقہ کار کو اپنانا اور دوہرے معیاروں کو ترک کرنا ہوگا۔

امیر عبداللہیان نے کہا کہ ہمیں یقین ہے کہ آئینی کمیٹی کے کام میں تمام فریق ذمہ دار ہیں اور انھیں جوابدہ ہونا چاہئے اور شامی حکومت کو قصور وار ٹھہرانا غیرجانبدارانہ پالیسی کے منافی ہے۔

انہوں نے شام کے خلاف عائد پابندیوں خاص طور پر طب ، طبی سامان اور خوراک پر پابندیوں کو ظالمانہ قرار دے کر اور انسانیت سوز پابندیوں کو ختم کرنے کے لئے کارروائی کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔

عبداللہیان نے مزید کہا کہ ایران بدستور شام اور اس کی سلامتی کا بھرپور دفاع کرنے کے ساتھ ساتھ شام کی مدد کے لئے اقوام متحدہ کی تعمیری کوششوں کی بھی حمایت کرتا ہے نیز شام کے بارے میں غیرجانبدارانہ فیصلے پر زور دیتا ہے۔

Monday, 23 November 2020 23:28

اسلام اور امن و سلامتی

اسلام وہ عظیم مذہب ہے جو امن و سلامتی، محبت اور انسانی حقوق کی پاسداری کا پیغام دیتا ہے۔ اسلام کے امن و سلامتی ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ خداوند تعالیٰ نے اپنے بھیجے ہوئے دین کیلئے نام ہی "اسلام" پسند کیا۔ اسلام اپنے لغوی معنی کے اعتبار سے محض "امن و سلامتی" ہے۔ لہذا اسلام وہ واحد مذہب ہے جو خود بھی سراپا سلامتی ہے اور دوسروں کو بھی امن و سلامتی، محبت و رواداری، اعتدال و توازن اور صبر و تحمل کی تعلیم دیتا ہے۔ اسلام نے ہمیں روحانیت، اخلاق انسانی، حقوق بشریت اور احترام انسانیت کا درس دیا ہے۔ اسلام نے ہمیں ظلم اور ظالم کے خلاف کھڑا ہونے کا حوصلہ و جذبہ دیا ہے۔ اسلام نے ہمیں مشکلات پر صبر کرنے کا درس دیا ہے۔ آج پوری دنیا امن اور انسانی حقوق کے نام پر اکٹھی ہو رہی ہے لیکن ہم فرقہ واریت، نسلی و لسانی و علاقائی تعصبات، انتہاء پسندی، دہشتگردی، جنونیت، پسماندگی اور جہالت جیسی بیماریوں سے چھٹکارہ حاصل کرنے کو تیار نہیں۔ کیونکہ ہم نے مذہب کے پیغام کو بھلا کر اپنے اوپر مذہبی ہونے کی مہر تو لگوا لی، لیکن اس مہر کے ساتھ ہم نے امن و سلامتی کی بجائے شدت پسندی کو ترجیح دی، ہم نے محبت کی بجائے نفرت کو ترجیح دی۔

یہ نفرت کہیں مذہبی تعصب کے نام پر تو کہیں علاقائی تعصب کے نام پر، یہ نفرت کہیں عزت کے نام پر تو کہیں دولت کے نام پر، غرضیکہ ہم نے مذہب کے پیغام امن و محبت کو بھلا دیا۔ دین اسلام ہمیں انسانیت کا احترام اور انسانیت سے محبت کرنا سکھاتا ہے۔ محبت کرنا کیونکہ صفت حسن ہے۔ اگر اس صفت کو انسان ٹھکرائے گا تو نفرت وجود میں آئے گی، خواہ وہ کسی ذریعے سے بھی ہو، دولت کی بناء پر ہو یا اناء پرستی کی بناء پر اور پھر یہی نفرت شدت پسندی کی طرف لے جائیگی۔ اس لئے خدا تعالیٰ نے اس صفت کا مرکز و محور اپنی ذات کو بنایا، کیونکہ خدا تعالیٰ سے محبت ہی انسان کو امن و سکون اور احترام انسانیت سکھاتی ہے۔ اسی صفت کی بناء پر انسان مکمل طور پر انسان کہلاتا ہے۔ اگر یہ صفت ختم ہو جائے تو انسانیت ختم ہوتی نظر آتی ہے۔ ہر طرف قتل و غارت اور درندگی کا بازار گرم ہوتا دکھائی دیتا ہے، لہذا اسلام کا پیغام امن و محبت کا پیغام ہے۔

وطن عزیز جو کہ اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا، اس کا اصول بھی امن و سلامتی اور محبت ہے۔ اس لئے برصغیر کو سرزمین اولیاء و سرزمین محبت کہا جاتا ہے۔ اس سرزمین پر مذہبی رواداری اور بھائی چارے کی سنہری تاریخ موجود ہے۔ مگر استعمار اور سیکولرزم کی آمد کے بعد تقسیم برصغیر کے وقت اس مذہبی رواداری اور بھائی چارے کو نفرتوں میں تبدیل کیا گیا، جس سے شدت پسندی، دہشتگردی اور قتل و غارت کی فصل پکتی رہی اور جس کا پھل مہذب معاشروں کی جدائی کی صورت میں نکلتا رہا۔ پھر اسلام کے نام پر مسلمانوں میں تکفیر کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوا، جس سے قتل و غارت بڑھتی ہوئی نظر آئی۔ استعمار اور سیکولر قوتوں کی ہمیشہ سے یہی کوشش رہی ہے کہ مذہب اسلام کو شدت پسند اور دہشتگردانہ مذہب بنایا جائے، لیکن جو چیز ان کے مقابل آئی وہ مذہب اسلام کا پیغام امن و محبت اور رسول ختمی مرتبت صلی الله علیه وآله وسلم کی ذات مبارکہ ہے۔ اس لئے اسرائیل و امریکہ جیسی عالمی طاقتیں اسلام کے نام پر دہشتگردی پھیلاتی رہیں۔

کبھی انہی طاقتوں نے وہابیت کو استعمال کیا تو کبھی داعش جیسی درندہ صفت تنظیمیں بنائی۔ پھر یہی طاقتیں چند شدت پسند افراد کے ذریعے قتل و غارت اور دہشتگردی کروا کر اسلام کو شدت پسندی سے ملحق کرنے کی کوشش کرتی رہیں۔ انہی کے ذیل میں میکرون جیسے لوگ بھی نظر آنے لگے، جنہوں نے برملا اسلام کو شدت پسند کہا اور اس کے بعد یہ طاقتیں رسول ختمی مرتبت صلی الله عليه وآله وسلم کی بھی توہین کرتی نظر آنے لگیں۔ اب یہ صیہونی طاقتیں اسلام کے خلاف دلائل اکٹھے کرکے اقوام عالم کو اسلام سے متنفر کر رہی ہیں، لیکن اس کے باوجود یہ طاقتیں اپنی ناکامیوں کا رونا رو رہی ہیں، کیونکہ دنیا کا کوئی بھی مذہب جس میں امن، محبت اور روحانیت شامل ہو، اس کو ختم نہیں کیا جاسکتا، جبکہ مذہب اسلام واحد مذہب ہے، جس میں سب سے زیادہ امن، محبت اور روحانیت موجود ہے۔ اگر ہم اسلامی تعلیمات کو کسی بھی جہت اور پہلو سے دیکھیں تو ہمیں ہر جگہ فراوانی کے ساتھ محبت، رحمت، شفقت، نرمی، احسان اور عفو و درگزر کا عنصر ہی غالب نظر آتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ عفو و درگزر، محبت، رحمت، امن و سلامتی ہی سارا دین ہے۔

بلاشبہ اتنی محبت، اتنی رحمت اسلام کے علاوہ کسی مذہب میں نہیں۔ افسوس ہم لوگوں نے اسلام کی تعلیمات پر عمل کرنا تو دور، ان تعلیمات کا مطالعہ کرنا بھی چھوڑ دیا۔ پھر بات وہی ہے کہ ہم نے اپنے اوپر مذہب اسلام کی مہر تو لگوا لی، لیکن اسلام کی تعلیمات سے روگردانی کرتے رہے۔ اس لئے ہمارا معاشرہ شدت پسندی سے قتل و غارت کی طرف بڑھتا رہا اور عالمی طاقتیں بھی محبت بھرے اسلام کے ساتھ کھل کر سازش کرتی رہیں۔ اب وقت ہے کہ ہم ظلم، نفرت، شدت پسندی، فرقہ واریت، نسلی و علاقائی تعصبات اور بے اعتدالیوں سے اپنا ہاتھ روک لیں اور امن و محبت کو فروغ دیں۔ جب جہالت و زر یکجا ہو جائے تو اہل علم و شعور کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔ اسلامی تعلیمات کو محبت اور امن کے ساتھ فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ مذہبی رواداری اور بھائی چارہ  قائم کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ عالمی طاقتیں ہمیشہ کیلئے ختم ہو جائیں اور ایک بہترین صالح معاشرہ قائم ہوسکے۔

تحریر: شاہد عباس ہادی 

مسئلہ کشمیر پر دوسروں کو سننے اور سمجھنے کے حوالے سے تین پروگرام ہوچکے ہیں۔ سپورٹ کشمیر انٹرنیشنل فورم اور صدائے کشمیر فورم کے پہلے آنلائن سیشن سے گفتگو کرتے ہوئے مجلس وحدت مسلیمن کے سیکرٹری برائے امورِ خارجہ ڈاکٹر شفقت حسین شیرازی (ایران) نے کہا کہ  ایک مسلمان اور پاکستانی ہونے کے ناطے ہم اس مسئلے سے لاتعلق نہیں رہ سکتے۔ انہوں نے کہا کہ اس مسئلے کے ساتھ دینی تعلق کے علاوہ ہمارا جغرافیائی، علاقائی اور آئندہ نسلوں کی سلامتی اور ترقی کا تعلق بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومتیں جو مرضی ہے کرتی رہیں، ہمیں انسانی، اسلامی اور عوامی سطح پر اس مسئلے کے حل کیلئے آواز اٹھاتے رہنا چاہیئے۔  یہ اتنا بڑا مسئلہ ہے کہ ہم ساری ذمہ داری حکمرانوں پر ڈال کر اپنی جان نہیں چھڑوا سکتے۔

اس سیشن سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان جمہوری اتحاد پارٹی کے چیئرمین ڈاکٹر حفیظ الرحمان (پاکستان) نے اس مسئلے پر اپنی پارٹی کا موقف بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہٹ دھرمی اور ضد کا جواب بھی اگر ہٹ دھرمی اور ضد سے دیا جائے گا تو اس سے مسئلہ مزید پیچیدہ ہی ہوتا چلا جائے گا۔ انہوں مسئلہ کشمیر کے سارے فریقوں کو لچک دکھانے کا احساس دلایا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان، کشمیری اور ہندوستانی مساوی طور پر اس مسئلے کو اپنا ایک اہم مسئلہ تسلیم کریں اور اس کو حل کرنے کیلئے ہر طرف سے ممکنہ نرمی دکھائی جانی چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے بچپن سے اب تک عالمِ اسلام اور خصوصاً اس منطقے کی جو حالت دیکھی ہے، اگر ہم وہی اپنی آئندہ نسلوں کو منتقل کرنا چاہتے ہیں تو یہ انتہائی کم فہمی اور زیادتی ہے۔

سپورٹ کشمیر انٹرنیشنل فورم اور صدائے کشمیر فورم کا دوسرا آنلائن سیشن 12 نومبر2020ء کو ہوا۔ اس سے خطاب کرتے ہوئے معروف محقق اور کالم نگار محترم طاہر یسین طاہر (پاکستان) نے کہا کہ مسلمانوں کی بدقسمتی یہ ہے کہ انہیں اپنے حقیقی مسائل کی خبر ہی نہیں۔ اس موقع پر انہوں نے مسلمانوں میں پائی جانے والی نرگسیت، خود پسندی اور پدرم سلطان بود جیسی کیفیت کی طرف بھی اشارہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک تو ہمیں خواہ مخواہ کی خود پسندی اور انانیت سے پیچھا چھڑانا چاہیئے۔ اب ان باتوں کا کوئی فائدہ نہیں کہ مسلمانوں کا ماضی بہت شاندار تھا بلکہ اب یہ دیکھنا ہوگا کہ ہم نے اپنے ماضی اور اسلاف سے علم و فن میں کتنی میراث پائی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اقوام کی قدر و منزلت ان کے علم و فن کے مطابق ہے۔ انہوں نے کہا کہ اغیار کی اندھی تقلید سے مسلمانوں کے سیاسی و اقتصادی مسائل حل ہونے والے نہیں۔

اس موقع پر انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کی مظلومیت کی انتہاء یہ ہے کہ آج کے جدید عہد میں وہاں میڈیا پر پابندیاں لگا کر انسانوں پر بدترین ظلم کیا جا رہا ہے اور اس سے بھی بڑا ظلم یہ ہے کہ مظلومین کو دہشت گرد کہا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ مظلومیت اس وقت اپنی انتہاء کو پہنچ جاتی ہے کہ جب جہانِ اسلام کے قدآور ممالک بھی کشمیریوں کے بجائے ہندوستان کے ساتھ کندھا ملا کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر سے بھی بڑا مسئلہ اقتصادی لالچ اور انسانی بے حسی کا مسئلہ ہے۔ ان کے مطابق ہمیں مادی و اقتصادی لالچ کے بجائے انسانی اقدار کو اجاگر کرنا چاہیئے اور عالمی برادری میں موجود بے حسی کے خاتمے کے حوالے سے سوچ بچار کرنی چاہیئے۔ اس موقع پر انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ آج چین میں بھی مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے، ہمیں اس سے بھی آگاہ رہنا چاہیئے۔

دوسرے سیشن کے دوسرے مقرر جناب عبدالمناف غِلزئی (جرمنی) مدیر مجلہ پیغامِ نجات نے کہا کہ دینِ اسلام کو قبول کرنے کے بعد ہر مسلمان کو اپنے مسائل حل کرنے کیلئے قرآن و سنت کی طرف رجوع کرنا چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کی پیچیدگی کی اہم وجہ یہ ہے کہ ہم مسلمان ہونے کے باوجود اس مسئلے کو  غیر مسلموں کی نگاہ سے ہی دیکھتے ہیں اور اسی طرح اس کا حل بھی چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حقیقی معنوں سے دین اسلام کی بالادستی کی قبولیت اور نفاذ میں ہی ہمارے سارے مسائل کا حل ہے۔ اگر ہم اپنے اوپر اور اپنی سوچ کے اوپر دینِ اسلام کے نفاذ کی بات نہیں کرتے تو یہ مسائل حل ہونے والے نہیں۔ ان کی گفتگو کا خلاصہ یہی ہے کہ دینِ اسلام سے بڑھ کر ہمارے دکھوں کی دوا کسی اور کے پاس نہیں، لہذا ہم جتنے اسلامی تر ہوتے جائیں گے، اتنے ہی ہمارے مسائل حل ہوتے جائیں گے۔ اس سلسلے کا تیسرا سیشن 19 نومبر 2020ء کو ہوا، جس کی روداد عنقریب اگلی قسط میں بیان کی جائے گی۔

تحریر: نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق افغانستان کی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان رواں ہفتہ پاکستان کا دورہ کریں گے۔ افغان وزارت خآرجہ کے مطابق گذشتہ ماہ افغان صدر اشرف غنی اور پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے درمیان ٹیلیفون گفتگو ہوئی تھی جس کی بنیاد پر پاکستان کے وزیر اعظم رواں ہفتہ افغانستان کاد ورہ کریں گے۔

اس سفر میں دوطرفہ تعلقات ، دہشت گردی کی روک تھام اور افغانستان میں قیام امن کے سلسلے میں تبادلہ خیال کیا جائےگا ۔ ذرائع‏ کے مطابق افغان حکومت اور طالبان کے درمیان قطر میں امریکی سرپرستی میں ہونے والے معاہدے کے باوجود افغانستان میں طالبان کے حملے جاری ہیں۔

گلگت بلتستان میں شدید سردی کے باوجود انتخابات میں ووٹنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ اطلاعات کے مطابق گلگلت اور بلتستان کے اکثر علاقوں میں آج شدید سردی ہے، بارش اور بالائی علاقوں میں برف باری ہوئی ہے، نظامِ زندگی متاثر ہے تاہم موسم خراب ہونے کے باوجود بڑی تعداد میں ووٹرز ووٹ کاسٹ کرنے پولنگ اسٹیشنز پہنچ رہے ہیں۔

گلگت بلتستان میں برفباری اور موسم شدید سرد ہونے کے باوجود پولنگ اسٹیشنز کے باہر ووٹرز کا رش ہے جبکہ شدید سردی کے باوجود خواتین بھی بڑی تعداد میں صبح سویرے ہی ووٹ ڈالنے پہنچ گئیں۔

غذر کی بالائی تحصیل پھنڈر میں بھی برفباری ہوئی ہے جس کے باعث متعدد علاقوں کی رابطہ سڑکیں متاثر ہیں، نقطۂ انجماد سے نیچے درجۂ حرارت ہونے کے باوجود گلگت بلتستان کے باسی ووٹ ڈالنے کے لیے پرعزم ہیں۔

گلگت بلتستان اسمبلی کے انتخابات کے سلسلے میں 23 نشستوں پر ووٹ ڈالنے کا عمل جاری ہے، پولنگ کا عمل بغیر وقفے کے شام 5 بجے تک جاری رہے گا۔

شام 5 بجے کے بعد جو ووٹرز پولنگ اسٹیشنز میں ہوں گے وہ اپنا ووٹ کاسٹ کر سکیں گے۔

گلگت بلتستان کے 3 ڈویژن 10 اضلاع پر مشتمل ہیں، گلگت ڈویژن میں گلگت، ہنزہ، نگر اور غذر کے اضلاع شامل ہیں، بلتستان ڈویژن اسکردو، گانچھے، شگر اور کھرمنگ کے اضلاع پر مشتمل ہے جبکہ دیامر استور ڈویژن میں 2 اضلاع دیامر اور استور شامل ہیں۔

گلگت بلتستان میں رجسٹرڈ ووٹرز کی مجموعی تعداد 7 لاکھ 45 ہزار 361 ہے، جن میں سے مرد ووٹرز کی تعداد 4 لاکھ 5 ہزار 63 ہےجبکہ خواتین ووٹرز کی تعداد 3 لاکھ 39 ہزار 998 ہے۔

یہاں ایک لاکھ 26 ہزار 997 ووٹرز پہلی بار اپنے حقِ رائے دہی کا استعمال کر رہے ہیں۔

گلگت بلتستان میں پولنگ اسٹیشنز کی مجموعی تعداد 1 ہزار 260 ہے جن میں سے مردوں کے پولنگ اسٹیشنز 503 ہیں، خواتین کے پولنگ اسٹیشنر 395 ہیں، جبکہ مشترکہ پولنگ اسٹیشنر 362 ہیں۔

ان 1 ہزار 260 پولنگ اسٹیشنز میں سے 297 پولنگ اسٹیشنز کو حساس، جبکہ 280 کو انتہائی حساس قرار دیا گیا ہے۔

الیکشن کے دوران سیکیورٹی کے لیے 13 ہزار 481 اہلکار تعینات کیئے گئے ہیں جن میں پولیس، رینجرز اور جی بی اسکاوئٹس شامل ہیں جبکہ دیگر صوبوں کی 5 ہزار 700 اہلکاروں پر مشتمل اضافی پولیس نفری بھی الیکشن ڈیوٹی کے لیے تعینات کی گئی ہے۔سینٹرل پولیس آفس گلگت میں کنٹرول روم قائم کیا گیا ہے۔

عراق کے ایک حقوقداں طارق حرب نے اعلان کیا ہے کہ بغداد ایئر پورٹ پر شہید میجر جنرل سلیمانی اور شہید ابو مہدی مہندس پر امریکہ کا بزدلانہ اور مجرمانہ حملہ عراقی حاکمیت اور اقوام متحدہ کے منشور کی کھلی خلاف ورزی تھا۔

طارق حرب نے کہا کہ قومی حاکمیت کی حفاظت کے لئے ہر ملک کا بنیادی آئين اس کا سب سے اعلی قانونی مرجع ہوتا ہے اور اس قانون کی کسی بھی قسم کی خلاف ورزی ، ملکوں کی حاکمیت کی خلاف ورزی شمار ہوتی ہے۔

اس نے کہا کہ اقوام متحدہ کا منشور دنیا کے لئے بنیادی آئین کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کی خلاف ورزی عالمی قوانین کی خلاف ورزی شمار ہوتی ہے۔ طارق حرب نے کہا کہ بغداد ايئر پورٹ پر شہید سلیمانی اور شہید ابو مہدی مہندس پر امریکہ کا مجرمانہ حملہ اقوام متحدہ کے قوانین کی کھلی خلاف ورزی تھا۔ طارق حرب نے کہا کہ امریکہ کے مجرمانہ اور ظالمانہ حملے کے خلاف کارروائی ضروری ہے۔ اس سے قبل عراقی پارلیمنٹ کے سکیورٹی اور دفاعی امور کے رکن ابناس المکصوصی نے عراقی وزير اعظم مصطفی الکاظمی سے کہا تھا کہ وہ شہید قاسم سلیمانی اور شہید ابو مہدی مہندس کے بارے میں تحقیقات عراقی پارلیمنٹ میں پیش کریں۔

مسائل کسی کو پسند نہیں، اس کے باوجود انسانی زندگی اور مسائل ایک ساتھ چلتے ہیں۔ انسانی زندگی کی بقا کا انحصار مسائل کی درست شناخت اور ان کے حل پر ہے۔ جسے مسائل  کی درست شناخت نہیں، وہ مسائل کے حل کیلئے کوئی ٹھوس حل بھی نہیں تجویز کر سکتا۔ یعنی بیماری کی صحیح تشخیص کے بعد ہی اس کا علاج کیا جا سکتا ہے۔ جہانِ اسلام کے فراموش شدہ موضوعات کی یاد آوری، ان مسائل کی صحیح تشخیص اور ان کے حل کیلئے تجاویز کے حوالے سے سپورٹ کشمیر انٹرنیشنل فورم کی آن لائن نشستیں میرے جیسے طالب علم کیلئے بہت مفید ہیں۔ یہ نشستیں ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہیں کہ اس انسان کی حالت کیسے بہتر ہو سکتی ہے کہ جسے اپنی بیماری کا  کچھ پتہ ہی نہ ہو اور وہ مختلف دوائیاں استعمال کرتا چلا جائے۔

مانا کہ ساری دوائیاں مفید ہوتی ہیں لیکن ساری دوائیاں سارے مریضوں کو نہیں کھلائی جاتیں۔ اسی طرح سیاسی و اقتصادی  نیز سماجی و معاشرتی مسائل بھی جسمانی بیماریوں کی طرح مختلف اقسام کے ہوتے ہیں اور ان کے حل کیلئے بھی متخصص ماہرین اور تجربہ کار دانشمندوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ کوئی بھی شخص سماجی و سیاسی اور اقتصادی مسائل کا متخصص اور ماہر اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک وہ کسی مسئلے کے تمام پہلوؤں سے آگاہ نہیں ہوتا۔ آگاہی کا یہ سفر اشتراکِ فکر، مکالمے اور مباحثے سے انجام پاتا ہے۔  ہمارے ہاں اشتراکِ فکر اور مکالمے  و مباحثے کیلئے جس وسعتِ قلبی کی اشد ضرورت ہے وہ خال خال ہی نظر آتی ہے۔ ہمارے ہاں مسائل کے حل کیلئے مشترکہ راہوں کی تلاش، مل کر سوچنے کی ریت، اجتماعی فعالیت، تنقید سے مثبت پہلو نکالنا، خامیوں کو اصلاح کے ساتھ دور کرنا اور فراخدلی کے ساتھ دوسرے کو اپنے پہلو میں جگہ دینا یہ سب کچھ نہ ہونے کے برابر ہے۔

اجتماعی سوچ اور آفاقی شعور کی کمی اور فقدان کے باعث ہمارے ہاں انانیت اور انفرادیت کا دور دورہ ہے۔ ظاہر ہے ایسے میں اجتماعی مفادات کو انفرادی فیصلوں پر قربان کر دینے میں بھی کوئی قباحت محسوس نہیں کی جاتی۔ یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ جہاں پر اجتماعی مفادات کو انفرادی تجزیات اور شخصی آرا کی بھینٹ چڑھا دینا معمول ہو وہاں نئے افکار کی تولید اور نئے زاویوں کی تلاش نہیں کی جا سکتی۔ ہم وہ لوگ ہیں جو نوآوری اور اختلاف رائے کا دروازہ بند کر کے اندھی تقلید کے اندھے کنویں میں چھلانگ لگا چکے ہیں۔ ہمیں نہ ہی تو مخالفت کرنے کے آداب آتے ہیں اور نہ ہی مخالفت کو برداشت کرنے کا ہنر ہمارے پاس  ہے۔ پس ہمارا معاشرہ خصوصاً مشرقی معاشرہ ان دو بنیادی خوبیوں سے یکسر طور پر عاری ہے۔ یہ انٹرنیشنل فورم ہمیں متوجہ کرتا ہے کہ ہم ہر صبح کو ٹرک کی ایک نئی بتی کے پیچھے  کیوں دوڑنے لگتے ہیں۔ اس دوڑ میں بھی ہمیں اپنی انفرادیت اور انا کا خاص طور پر خیال رہتا ہے۔

چنانچہ اس بھیڑ چال میں بھی ہم دوسروں کو پیچھے چھوڑنا چاہتے ہیں۔ اب اس بھاگم بھاگ میں ہم یہ بھی بھول چکے ہیں کہ ہم اصل میں کون ہیں؟ کہاں سے آئے ہیں ؟ کہاں کو دوڑ رہے ہیں؟ ہمارے پاؤں کیوں زخمی ہیں؟ ہمارے گریبان کیوں پھٹے ہوئے ہیں؟ ہم نے آستینیں کیوں چڑھا رکھی ہیں؟ ہماری بھنویں کیوں تنی ہوئی ہیں؟ ہماری ہر صبح و شام کا آغاز ایک نئی دوڑ اور ایک نئی لڑائی سے کیوں ہوتا ہے؟ ہم آخر کس قبیلے کے لوگ ہیں کہ جنہوں نے اپنے ہی دین کو بدنام کر دیا ہے؟ ہم آخر کس قماش کے انسان ہیں کہ جنہوں نے اپنے ہی بچوں کا حال اور مستقبل تاریک کر دیا ہے؟ ہم نے اپنے ہی ہاتھوں سے دنیا بھر میں اتنے مسلمانوں کو قتل کیا ہے کہ جہانِ اسلام میں  بیواؤں اور یتیموں کی  گنتی کسی کے بس میں نہیں۔ کہنے کو تو ہم قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں لیکن ہمارے وسائل ہمارے کسی کام کے نہیں، ہمارے ہاں کپڑے سینے والی ایک سوئی کے اوپر بھی میڈ اِن جاپان لکھا ہوتا ہے۔

ہم آج بھی غیروں کیلئے بیساکھی کا کام دیتے ہیں اور ہم دل و جان راضی ہیں کہ کل کو ہماری نسلیں بھی اغیار کے شکم کا ایندھن بنیں۔ اب مسلمانوں کے سامنے دو ہی راستے ہیں یا تو اسی بھیڑچال میں دوڑتے چلے جائیں، اپنے سوا باقی سب کو غلط، باقی سب کا منہ بند، باقی سب کی تکفیر، باقی سب باطل، باقی سب واجب القتل، باقی سب گمراہ  اور یا پھر اختلافِ رائے کا دروازہ کھولیں، سطحی اور عامیانہ باتوں کی بجائے تعلیم، تحقیقات اور مطالعات کی طرف آئیں، میں، انا اور انفرادیت کے بجائے، مکالمے، اصلاح، مدد اور تکمیل کا آغاز کریں اور  سب سے بڑھ کر  اپنے اندر دوسروں کو سننے اور سمجھنے  کا حوصلہ پیدا کریں۔  دوسروں  کو  سننے اور سمجھنے کے حوالے سے ۔۔۔۔

رتحریر: نذر حافیر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے اتوار یکم نومبر کو گلگت بلتستان کی آزادی پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے جی بی کو عبوری صوبائی حیثیت اور آئینی حقوق دینے کے فیصلے کا اعلان کیا۔ وزیراعظم پاکستان کا واضح لفظوں میں کہنا تھا کہ یہ فیصلہ اقوامِ متحدہ اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کو مدِنظر رکھ کر کیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا واقعی اس فیصلے سے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور کیا واقعی مسئلہ کشمیر کے حل میں یہ اقدام موثر ہوگا؟ پاکستان کے پاس اس اقدام کے علاوہ کیا آپشن ہے۔؟ تاریخی طور پر گلگت بلتستان ریاست جموں و کشمیر کا حصہ تھا۔ لیکن 1948ء میں مقامی لوگوں کی مدد سے یہ پاکستان کے زیر کنٹرول آگیا۔ تقریباً 15 لاکھ آبادی کا یہ خطہ اپنے دیو مالائی حُسن، برف پوش پہاڑوں، خوبصورت وادیوں اور پھلوں سے لدے باغوں کی وجہ سے کسی جنت سے کم نہیں۔ حُسن کے ساتھ اس علاقے کی جعرافیائی اہمیت بھی بہت زیادہ ہے۔ اس کی سرحدیں چین، انڈیا، تاجکستان اور پاکستان سے ملتی ہیں، جن میں سے تین ملک ایٹمی طاقت ہیں۔

گلگت بلتستان، چین پاکستان اقتصادی راہداری کا دروازہ ہے۔ پاکستان حکومت کا گلگت بلتستان کو اس کی عوام کے دیرینہ مطالبے کے تحت عبوری صوبہ قرار دینا اسی اقتصادی راہداری کے منصوبے کو محفوظ بنانے کے لیے ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عبوری کس لیے جبکہ بھارت اس کے مقابلے میں مقبوضہ وادی کو اپنی ریاست میں ضم کرنے کا قانون پاس کرچکا ہے اور اس نے اس سلسلے میں مقبوضہ وادی میں اقدامات کو بھی تیز کر دیا ہے۔ بھارت کا مقبوضہ وادی میں فوجیں رکھنے اور اس کو اپنی ریاست کا حصہ قرار دینے کا قانون اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے منافی ہے۔ 14-15 اگست 1947ء کو برطانیہ سے آزادی کے بعد دو خود مختار ریاستیں پاکستان اور بھارت وجود میں آئیں، چھوٹی آزاد ریاستوں کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ اپنے عوام کی منشا کے مطابق کسی بھی ملک میں شامل ہونے کا فیصلہ کر سکتی ہیں۔ کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت تھی، مگر اس کے ہندو راجہ نے وقت پر کوئی فیصلہ نہیں کیا۔

اکتوبر 1947ء میں کشمیر میں جاری داخلی خانہ جنگی میں پاکستان سے قبائلی لشکر بھی شامل ہوگئے۔ 26 اکتوبر 1947ء کو ہندو مہاراجہ نے بھارت سے مدد چاہتے ہوئے کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق کی دستاویز پر دستخط کر دیئے، تاہم یہ الحاق مشروط تھا کہ جیسے ہی حالات معمول پر آئیں گے، کشمیر میں رائے شماری ہوگی۔ 27 اکتوبر 1947ء کو کشمیر میں جاری بغاوت کو کچلنے کے لیے بھارت نے اپنی فوجیں ہوائی جہازوں کے ذریعے سری نگر میں اتار دیں۔ کشمیر کے بہت سے علاقے مسلمانوں نے آزاد کروا لیے اور مزید ہزیمت سے بچنے کے لیے  یکم جنوری 1948ء کو بھارت نے مسئلہ کشمیر پر اقوام ِ متحدہ سے مدد مانگ لی۔ 5 فروری 1948ء کو اقوام متحدہ نے ایک قرارداد کے ذریعے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا، تاکہ وہاں رائے شماری کرائی جا سکے۔ یکم جنوری 1949 کو اقوامِ متحدہ نے جنگ بندی کراتے ہوئے دونوں ممالک کی فوجوں کو جنگ بندی لائن کا احترام کرنے کا پابند کیا اور وہاں رائے شماری کرانے کا اعلان کیا۔

اکتوبر 1950ء میں شیخ عبداللہ کی جماعت نیشنل کانفرنس نے جموں و کشمیر میں انتخابات کا مطالبہ کیا، تاکہ ریاستی اسمبلی کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کرے۔ 30 مارچ 1951ء اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے کشمیر میں انتخابی عمل کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ اسمبلی رائے شماری کا متبادل نہیں ہے اور نہ ہی کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کرسکتی ہے، ساتھ ہی ایک نمائندہ مقرر کرنے اور کشمیر کو غیر فوجی علاقہ قرار دینے کا اعلان کیا، مگر اس پر عمل درآمد نہ ہوسکا۔ 17-20 اگست 1953ء کو بھارت اور پاکستان کے وزرائے اعظم کے درمیان دہلی میں ملاقات ہوئی، جس میں اپریل 1954ء کے آخر تک وہ کشمیر میں رائے شماری کے لیے ایڈمنسٹریٹر تعینات کرنے پر متفق ہوگئے، تاہم جیسے ہی پاکستان اور امریکہ کے درمیان اسٹریٹجک تعلقات گہرے ہوئے تو بھارت نے اس مسئلے کو بھی سرد جنگ کا حصہ قرار دیتے ہوئے رائے شماری سے انکار کر دیا۔

مارچ 1965ء کو  بھارتی پارلیمنٹ نے ایک بل پاس کیا، جس کے تحت کشمیر کو بھارت کو صوبہ قرار دیتے ہوئے بھارت کو وہاں گورنر تعینات کرنے، کشمیر میں حکومت کو برطرف کرنے اور اسے آئین سازی سے روکنے کے اختیار حاصل ہوگئے۔ 10 جنوری 1966ء کو بھارت اور پاکستان کے مابین تاشقند معاہدے پر دستخط ہوگئے، جس کے تحت دونوں ممالک اپنی اپنی افواج کو جنگ سے پہلے والی پوزیشنوں پر لانے پر متفق ہوگئے۔ جولائی 1972ء کو پاکستان اور بھارت کے درمیان شملہ معاہدہ ہوا، جس میں اقوام ِ متحدہ کی فائر بندی لائن کو لائن آف کنٹرول قرار دیا گیا، مزید یہ کہ اس معاہدے کی رو سے فریقین اس مسئلے کو دو طرفہ مذاکرات سے حل کریں گے۔ مارچ 1993ء میں سیاسی، سماجی اور مذہبی گروپوں پر مشتمل آل پارٹیز حریت کانفرنس نے حق خود اختیاری کا مطالبہ کیا۔ اگست 2019ء کو بھارتی حکومت نے آئین میں سے آرٹیکل 370 کو ختم کر دیا، جو کہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دیتا تھا۔ اس طرح کشمیر کو بھارتی یونین میں ضم کر دیا گیا۔

اس دوران میں مقبوضہ وادی میں اپنے کنٹرول کو مستحکم کرنے کے لیے بھارت نے متعدد سیاسی اور عسکری اقدامات کیے۔ مقبوضہ وادی میں پارلیمنٹ کا قیام وہاں انتخابات کا انعقاد، کٹھ پتلی حکمرانوں کی تعیناتی، آبادی کی منتقلی، جبر و تشدد، گرفتاریاں، ماورائے عدالت قتل، خواتین کی بے حرمتی کونسا ایسا حربہ ہے جو بھارتی ریاست نے مسئلہ کشمیر کو دبانے کے لیے نہیں اپنایا۔ اس کے مقابلے میں پاکستان نے آزاد کشمیر کے انتظامات کو چلانے کے لیے وہاں کے عوام کی مرضی کے مطابق کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کا اعلان کیا، جبکہ گلگت اور بلتستان کے علاقہ میں سٹیٹ سبجیکٹ رول اور اسی طرح کے قوانین کے تحت نظام چلایا جاتا رہا۔ گلگت بلتستان کی مقامی آبادی کا ہمیشہ سے ہی مطالبہ رہا کہ پاکستان باقاعدہ طور پر گلگت بلتستان کے ساتھ الحاق کرکے اسے مستقل طور پر پاکستان میں ضم کر لے، چونکہ اس خطے کے عوام نے ڈوگرہ افواج سے باقاعدہ جنگ لڑ کر اس علاقے کو آزاد کروایا تھا۔

کشمیری گلگت بلتستان کے اس مطالبہ کو تسلیم نہیں کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ گلگت بلتستان متنازع علاقے کا حصہ ہے اور اسے اس وقت تک ایسا ہی رہنا چاہیئے، جب تک کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ نہیں ہو جاتا، حالانکہ کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں گلگت بلتستان کو نمائندگی حاصل نہیں ہے۔ کشمیری سمجھتے ہیں کہ مستقبل میں کسی بھی استصواب رائے میں کشمیر کی آزادی کی آواز اسی صورت زیادہ موثر ہوگی، جب اس میں گلگت بلتستان کے عوام کی حمایت بھی شامل ہو۔ شاید اسی لیے پاکستان ماضی میں مقامی آبادی کے پُرزور مطالبے کے باوجود گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کو بدلنے سے کتراتا رہا ہے۔ آج جبکہ حکومت پاکستان نے ملک کی سلامتی اور مفادات کے مدنظر یہ فیصلہ کیا ہے کہ گلگت بلتستان کو صوبے کا درجہ دیا جائے اور مقامی لوگوں کے تحفظات کا ازالہ ہو، ساتھ ہی یہ کوشش کی گئی ہے کہ عبوری کے لفظ سے کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کے موقف کو عالمی سطح پر کم سے کم نقصان پہنچے۔

یہاں یہ سوال قابل ذکر ہے کہ عبوری صوبے کی حیثیت کیا پاکستان کے دیگر صوبوں جیسی ہوگی یا کچھ فرق ہوگا۔ کل یعنی اتوار کا روز گلگت بلتستان کی تاریخ میں اہم ہے، جب اس خطے میں پہلی صوبائی اسمبلی کے لیے انتخابات منعقد ہونے جا رہے ہیں۔ ان انتخابات میں جو قوت بھی برسر اقتدار آتی ہے، اہم مسئلہ یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر کا کیا ہوگا۔؟ یہاں یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا موجودہ حیثیت کو ہی اس مسئلہ کا عملی حل سمجھا جائے، یعنی مقبوضہ وادی پر بھارت کا تسلط ہو اور آزاد کشمیر ایک نیم خود مختار ریاست کے طور پر کام کرے نیز گلگت بلتستان پاکستان میں ضم ہو کر اس کا صوبہ قرار پائیں۔ میرے خیال میں یہ سب عارضی حل ہیں، مسئلہ کشمیر کا حقیقی حل استصواب رائے ہی ہے۔ اگر مقبوضہ وادی میں آبادی کا حق ہے کہ وہ پاکستان یا بھارت سے اپنے الحاق کا فیصلہ کریں، اسی طرح آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام کا بھی حق ہے کہ وہ اپنے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کریں۔

آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام نے یہ فیصلہ عوامی انتخابات میں شرکت اور عملی سیاست کا حصہ بن کر دے دیا ہے۔ رہا سوال مقبوضہ وادی کا تو اقوام عالم کے سامنے عیاں ہے کہ وہاں ظلم و استبداد اور کرفیو کے سائے میں حکومتیں قائم کی گئیں جبکہ وہاں کی اکثریت آزادی مانگ رہی ہے۔ ہمیں اس وقت کے لیے کوشش کرنی ہے کہ مقبوضہ وادی کے لوگ بھی بزور بازو اپنی آزادی بھارت سے چھین لیں۔ جہاں تک اقوام متحدہ کی قراردادوں کا سوال ہے تو وہ ریکارڈ کے طور پر رکھنے کے لیے بہترین ہیں، ان سے بہرحال پاکستان

کے موقف کو ہی اخلاقی برتری حاصل ہوتی ہے۔ یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ بھارت ایل او سی کی خلاف ورزی کے ذریعے گلگت بلتستان کے عوامی انتخابات اور اس میں عوام کی بھرپور اور پرجوش شمولیت کو نہیں چھپا سکتا۔

تحریر: سید اسد عباس

《1》?آپ (ص) چلتے وقت آرام اور وقار کے ساتھ چلتے تھے۔
《2》?راہ چلتے وقت اپنے قدموں کو متکبروں کی طرح زمین پر نہیں رکھتے تھے۔
《3》?آپ کی نگاہ ہمیشہ نیچی ہوتی تھی۔
《4》?جس سے بھی ملتے سلام کرنے میں پہل کرتے۔۔ کوئی بھی آپ پر سلام کرنے میں سبقت نہیں لے سکا۔
《5》?جب کسی سے ہاتھ ملاتے تو اپنے ہاتھ کو دوسرے سے پہلے نہیں کھینچتے تھے۔
《6》?آپ کا لوگوں کے ساتھ برتاو اس طرح سے تھا کہ ہر شخص خود کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس سب سے زیادہ عزت والا خیال کرتا تھا۔
《7》?جب بھی کسی کی طرف نگاہ کرتے تھے تو حکمرانوں کی طرح ٹیڑھی نظر سے نہیں دیکھتے تھے۔
《8》?لوگوں کی طرف ہرگز نظر جما کر نہیں دیکھتے تھے۔
《9》?جب اشارہ فرماتے تو ہاتھ سے اشارہ کرتے تھے، نہ آبروں اور آنکھوں سے۔
《10》?طولانی سکوت کے مالک تھے، ضرورت کے بغیر لبوں کو جنبش تک نہیں دیتے تھے۔

《11》? جب بھی کسی سے گفتگو کرتے تو اس کی باتوں کو غور سےسنتے تھے۔
《12》?کسی سے بات کرتے وقت مکمل طور پر اس کی طرف رخ کرکے کھڑے ہو جاتے تھے۔
《13》?جب بھی کسی کے ساتھ بیٹھ جاتے؛ جب تک سامنے والا کھڑا نہیں ہوتا بیٹھے رہتے تھے۔
《14》?آپ کا اٹھنا بیٹھنا کسی بھی مجلس میں یاد خدا کے ساتھ ہوتا تھا۔
《15》?کسی بھی مجلس میں جب تشریف لاتے تو دروازے کے پاس آخر میں بیٹھ جاتے تھے، نہ صدر مجلس میں۔
《16》?مجلس میں اپنے لئے کوئی جگہ مخصوص نہیں کرتے تھے اور دوسروں کو بھی اس سے منع فرماتے تھے۔
《17》?لوگوں کی موجودگی میں ٹیک نہیں لگاتے تھے۔
《18》?اکثر روبہ قبلہ ہوکر بیٹھ جاتے تھے۔
《19》?جب بھی آپ کے سامنے کوئی ناپسندہ کام پیش آتا تو اس سے صرف نظر کرتے تھے۔
 《20》?اگر کسی سے کوئی خطا سرزد ہوتی تو اسے دوسروں میں برملا نہیں کرتے تھے۔

《21》?اگر کسی سے گفتگو میں لغزش اور خطا ہو جاتی تو باز پرس (پکڑ) نہیں کرتے تھے۔
《22》? کسی سے بالکل بحث و جھگڑا نہیں کرتے تھے۔
《23》?باطل اور بےہودہ باتوں کے علاوہ کسی کی بات کو قطع نہیں کرتے تھے۔
《24》?سوال کے جواب کو کئی بار تکرار کیا کرتے تھے، تاکہ سننے والے کو جواب مشتبہ نہ ہو جائے۔
《25》?جب کسی سے کوئی غلط بات سنتے تو یہ نہیں فرماتے تھے کہ فلانی کیوں اس طرح کی بات کرتا ہے، بلکہ فرماتے تھے کہ کچھ لوگوں کو کیا ہوتا ہے کہ اس طرح کی بات کرتے ہیں۔؟؟
《26》?فقیروں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا زیادہ تھا اور ان کے ساتھ کھانا کھایا کرتے تھے۔
《27》?غلاموں کی دعوت کو قبول کرتے تھے۔
《28》?ہدیہ قبول کرتے تھے، اگرچہ ایک گھونٹ دودھ ہی کیوں نہ ہو۔
《29》?ہر چیز سے پہلے صلہ رحمی انجام دیتے تھے۔
《30》?اپنے رشتہ داروں کے ساتھ احسان کیا کرتے تھے، دوسروں پر ترجیح دیئے بغیر۔

《31》?آپ کی گفتگو گہری، جامع معانی اور مختصر الفاظ کے ساتھ ہوتی تھی۔
《32》?جو چیز لوگوں کے دین و دنیا کے نفع میں ہوتی، وہ کہہ دیا کرتے تھے اور تکرار کے ساتھ فرماتے تھے کہ جو حاضرین مجھ سے سن لیتے ہیں، وہ غیر حاضر افراد تک پہنچائیں۔
《33》?جب بھی کوئی معذرت کرتا، اسے معاف فرماتے تھے۔
《34》?کبھی کسی کو حقیر نہیں سمجھتے تھے۔
《35》?کبھی کسی کو گالی نہیں دی اور نہ ہی ناشائستہ ناموں کے ذریعے پکارتے تھے۔
《36》?کبھی اپنے رشتہ داروں اور عزیزوں پر نفرین نہیں کی۔
《37》?لوگوں کے عیب تلاش نہیں کرتے تھے۔
《38》?لوگوں کے شر سے بچ کے رہتے تھے، لیکن ان سے کنارہ کشی بھی اختیار نہیں کرتے تھے۔ سب کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آتے تھے۔
《39》?ہرگز نہ لوگوں کی مذمت کرتے اور نہ ہی بہت زیادہ تعریف کرتے تھے۔
《40》?لوگوں کی جسارت پر صبر فرماتے تھے اور بدی کے بدلے نیکی سے جواب دیتے تھے۔

《41》?مریضوں کی عیادت کیا کرتے تھے، گرچہ مدینے کی دورترین جگہ پر ہوں۔
《42》?اصحاب کی خبر گیری کرتے تھے اور ہمیشہ ان کے احوال جاننا چاہتے تھے۔
《43》?اصحاب کو بہترین نام سے پکارتے تھے۔
《44》?اپنے کاموں سے متعلق اصحاب سے کثرت سے مشورہ کرتے تھے اور اس بات پر تاکید فرماتے تھے۔
《45》?اصحاب کے ساتھ دائرہ کی شکل میں بیٹھ جاتے تھے، اگر کوئی ناواقف آتا تو پتہ نہیں چلتا تھا کہ پیغمبر ان میں سے کون ہیں۔
《46》?اصحاب کے درمیان انس و محبت پیدا کرتے تھے۔
《47》?عہد و پیمان میں انتہائی باوفا انسان تھے۔
《48》?جب بھی کسی فقیر کو کوئی چیز دینا چاہتے تو اپنے ہاتھ سے دیتے تھے، کسی کے حوالے نہیں کرتے تھے۔
《49》?جب نماز کی حالت میں کوئی آپ کے پاس آتا تو نماز کو مختصر کرتے تھے۔
《50》?جب آپ نماز میں ہوتے اور کوئی بچہ گریہ کرتا تو اپنی نماز کو مختصر کیا کرتے تھے۔

《51》?آپ کے پاس عزیز ترین انسان وہ تھا، جس کی خیر سب سے زیادہ دوسروں تک پہنچتی۔
《52》?کوئی بھی آپ سے ناامید نہیں ہوتا تھا، ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ ان لوگوں کی حاجت مجھ تک پہنچائیں، جو اپنی حاجت مجھ تک نہیں پہنچا سکتے۔
《53》?جب بھی کوئی آپ سے حاجت طلب کرتا تھا تو حتی المقدور اس کی حاجت کو پورا کر دیتے تھے، ورنہ خوش زبانی اور نیک وعدہ دے کر راضی کرتے تھے۔
《54》?کسی کی درخواست کو رد نہیں فرناتے تھے، جب تک گناہ کے لئے نہ ہو۔
《55》?بزرگوں کا بہت احترام کرتے تھے اور بچوں کے ساتھ نہایت مہربان تھے۔
《56》?غریبوں کا بہت خیال رکھتے تھے۔
《57》?شرپسندوں کے ساتھ نیکی کرکے ان کے دل جیت کر اپنی طرف جذب کرتے تھے۔
《58》?ہمیشہ لبوں پر تبسم اور ساتھ ساتھ دل میں بےانتہا خوف خدا ہوتا تھا۔
《59》?جب خوش ہوتے تھے تو آنکھیں بند کرتے تھے اور بہت زیادہ خوشحالی کا اظہار نہیں فرماتے تھے۔
《60》?آپ کا اکثر ہنسنا تبسم تھا اور ہنسنے کی آواز بلند نہیں ہوتی تھی۔

《61》?مزاح کرتے تھے لیکن ہنسی مزاح کے بہانے بےہودہ باتیں نہیں کرتے تھے۔
《62》?برے ناموں کو تبدیل کرکے اچھے نام رکھتے تھے۔
《63》?آپ کی برداشت ہمیشہ غصے پر سبقت لیتی تھی۔
《64》?دنیوی کام نہ ہونے پر ناراحت نہیں ہوتے تھے اور نہ ہی مغموم ہوتے تھے۔
《65》?خدا کی خاطر اس طرح غضبناک ہوتے تھے کہ گویا کسی کو نہیں جانتے۔
《66》?اپنی خاطر کبھی کسی سے انتقام نہیں لیا، مگر یہ کہ حریم حق پامال کرے۔
《67》?آپ کے نزدیک جھوٹ سے زیادہ منفور ترین خصلت کوئی چیز نہیں تھی۔
《68》?خوشحالی اور غضب دونوں وقت یاد خدا کے علاوہ زبان پر کچھ نہیں ہوتا تھا۔
《69》?ہرگز اپنے لیے درھم و دینار جمع نہیں کیا۔
《70》?اپنےغلاموں سے زیادہ کھانے پینے کی اشیاء نہیں رکھتے تھے۔

《71》?زمین پر بیٹھتے تھے اور زمین پر کھانا کھاتے تھے۔
《72》?اور زمین پر ہی سوتے تھے۔
《73》? اپنی جوتی اور کپڑوں پر خود پیوند لگاتے تھے۔
《74》?اپنے ہاتھوں سے دودھ دوھوتے تھے اور اونٹ کے پیروں کو خود باندھتے تھے۔
《75》?جو بھی سواری مہیا ہوتی سوار ہوتے تھے۔
《76》?جہاں بھی تشریف لے جاتے، اپنی عبا کو بچھونا اور فرش کے طور پر استعمال کرتے تھے۔
《77》?اکثر آپ کا لباس سفید ہوتا تھا۔
《78》?جب نیا لباس خریدتے تو پرانا کسی مسکین کو بخش دیتے تھے۔
《79》?قیمتی لباس روز جمعہ کے لئے مخصوص تھا۔
《80》?جوتی اور لباس پہنتے وقت دائیں سے شروع کرتے تھے۔

《81》?پریشان بالوں کو ناپسند کرتے تھے۔
《82》?بدبو سے بہت نفرت کرتے تھے۔
《83》?ہمیشہ خوشبو لگاتے تھے اور آپ سب سے زیادہ خوشبو کی خرید پر خرچ کرتے تھے۔
《84》?ہمیشہ باوضو ہوتے تھے اور وضو کرتے وقت مسواک کیا کرتے تھے۔
《85》?ہر ماہ کی 13، 14 اور  15تاریخ کو روزہ رکھتے تھے۔
《86》?ہرگز کبھی کسی نعمت کی مذمت نہیں کی۔
《87》?خدا کی چھوٹی سی نعمت کو بھی بڑا گردانتے تھے۔
《88》?نہ کبھی کسی غذا کی تعریف کی اور نہ ہی برائی کی۔
《89》?کھانے میں کسی بھی چیز کو حاضر کرتے تو تناول فرماتے تھے۔
《90》?سفرہ (دسترخوان) سے اپنے سامنے سے تناول فرماتے تھے۔

《91》?کھانے کے موقع پر سب سے پہلے حاضر ہوتے تھے اور سب سے آخر میں ہاتھ کھینچتے تھے۔
《92》?جب تک بھوک نہیں لگتی تھی، کھانا میل نہیں فرماتے تھے اور کچھ لقمے کھانے کی خواہش ہوتے ہوئے ترک کر دیتے تھے۔
《93》?آپ نے کبھی دو قسم کے کھانے کو اپنے معدے میں جمع نہیں کیا۔
《94》?کھانے کے دوران کبھی ڈکار نہیں لیا۔
《95》?جب تک ممکن تھا، اکیلے کھانا تناول نہیں فرمایا۔
《96》?کھانے کے بعد ہاتھوں کو دھوتے تھے اور پیٹ کے بل لیٹا کرتے تھے۔
《97》?پانی پیتے وقت تین گھونٹ میں پیتے تھے، پہلے بسم اللہ اور آخر میں الحمدللہ پڑھتے تھے۔
《98》?پردہ نشین دوشیزاوں سے بھی زیادہ باحیاء تھے۔
《99》?جب گھر میں داخل ہونا چاہتے تھے تو تین بار اجازت لیتے تھے۔
《100》?گھر کے داخلی اوقات کو تین حصوں میں تقسیم کرتے تھے:
 الف: ایک حصہ خدا کی عبادت کے لئے۔
 ب: ایک حصہ گھر والوں کے لئے۔
 ج: ایک حصہ اپنے لئے اور اپنے حصے کا وقت لوگوں کو بھی دیتے تھے۔
□•••□•••□•••□•••□•••□•••□•••□
حوالہ جات
کتاب منتھی الامال، محدث قمی
کتاب مکارم الاخلاق، مرحوم طبرسی
پیشکش!! الھدی اسلامی تحقیقاتی مرکز
✨✨✨✨✨✨✨✨✨

ترجمہ و ترتیب: محمد علی شریفی