سلیمانی

سلیمانی

بني امية کے سارے حکام امير المؤمنين علی ابن طالب عليه السلام کو سب وشتم کرتے تھے:

جیساکہ معتبر روایات کے مطابق خود امیر المومنین علیہ السلام نے اس چیز کی خبر دی تھی کہ  آپ کے آپ پر سب و شتم کرنے کا حکم دیا جائے گا  ۔ہم ذیل میں بعض تاریخی اسناد کی طرف اشارہ کریں گے کہ جو اس بات پر دلیل ہے کہ مولا علی علیہ السلام نے جو خبر دی  تھی وہ حقیقت پر مبنی تھی اور بعد میں جس طرح آپ نے فرمایا تھا ،ایسا ہی ہوا ۔

بنی امیہ کا جو بھی حاکم آتا وہ امير المؤمنين عليه السلام کو لعن کرتا تھا  :
۱:  حافظ ابن عساكر نے  تاريخ مدينه دمشق میں لکھا ہے  :
حدثنا خالد بن يزيد عن معاوية قال كان لا يقوم أحد من بني أمية إلا سب عليا فلم يسبه عمر فقال كثير عزة :
وليت فلم تشتم عليا ولم تخف بريا ولم تقنع سجية مجرم
وقلت فصدقت الذي قلت بالذي فعلت فأضحى راضيا كل مسلم .
تاريخ مدينه دمشق ، ج50 ، ص96 .

: جب بھی بنی امیہ کا کوئی حاکم آتا وہ علی علیہ السلام کو برا بلا کہتا ،لیکن عمر بن عبد العزيز نے ایسا نہیں کیا ۔ لہذا شاعر كثير العزة نے ان کی یوں تعریف کی  :
تم جب حاکم بنا تو نے علی کو سب و شتم نہیں کیا اور تم نہ ڈرے ۔ تو اچھا آدمی ہے۔  تو نے مجرم لوگوں کے طریقے پر عمل نہیں کیا ۔۔۔تو نے جو کہا سچ کہا اور اس کو انجام بھی دیا اسی لئے سارے مسلمان اس کام سے راضی تھے ۔

۲:   ابونعيم اصفهاني نے بھی "حلية الأولياء" میں بھی حافظ ابن عساكر کی روایت کو نقل کیا ہے :
ثنا خالد بن يزيد عن جعونة قال كان لا يقوم أحد من بني أمية إلا سب عليا فلم يسبه عمر بن عبد العزيز فقال كثير عزة :
وليت فلم تشتم عليا ولم تخف بريا ولم تتبع سجية مجرم
حلية الأولياء ، ابو نعيم ، (المتوفى: 430هـ)  ج5 ، ص356 ، ط الثانيه ، دار الكتب العلمية ، بيروت ، 1423 هـ .

 

عمر بن عبد العزيز نے اس سلسلے کوروکنا چاہا  


عمر بن عبد العزيز کے زمانے تک علي (عليه السلام)  کو برا بلا کہنے کا سلسلہ جاری رہا  :
۳:  محمد بن سعد{متوفی 230ھ} نے الطبقات الكبري میں  اور  ذهبي نے سير اعلام النبلاء میں نقل کیا ہے :
أخبرنا علي بن محمد عن لوط بن يحيى الغامدي قال كان الولاة من بني أمية قبل عمر بن عبد العزيز يشتمون عليا رحمه الله فلما ولي عمر أمسك عن ذلك .
الطبقات الكبري ، محمد بن سعد ، ج5 ، ص393 و سير اعلام النبلاء ، ج5 ، ص147 .
عمر بن عبد العزیز سے پہلے بنی امیه کے سارے حاکم ، علی ابن ابی طالب علیہ السلام  کو سب و شتم کرتے تھے ؛ لیکن جب  عمر بن عبد العزیز کی حکومت آئی تو اس نے اس کام کو انجام نہیں دیا .
۴:   ذهبي نے بھی  بني مروان کے حکام کے بارے میں  لکھا : في آل مروان نصب ظاهر سوى عمر بن عبد العزيز ... .
عمربن عبد العزيز کے علاوہ بنی مروان کے حکام علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے دشمن تھے۔  
سير اعلام النبلاء ، ج 5 ، ص113 ۔

۵:. مشہور تاریخ نگار  إسماعيل بن أبي الفداء اس سلسلے میں لکھتا ہے :
كان خلفاء بني أمية يسبون علياً رضي الله عنه من سنة إِحدى وأربعين وهي السنة التي خلع الحسن فيها نفسه من الخلافة إلى أول سنة تسع وتسعين آخر أيام سليمان بن عبد الملك فلما ولي عمر أبطل ذلك وكتب إِلى نوابه بإبطاله ... .

تاريخ أبي الفداء ، فصل في ذكر إبطال عمر بن عبد العزيز سب علي بن أبي طالب علي المنابر ، ج1 ،‌ ص287

۴۱ ہجری سے، جب حسن بن علی  علیہما السلام نے خلافت سے دوری اختیار کی ، اس وقت سے ۹۹ ہجری تک بنی امیہ کے سارے حکام  علی ابی طالب علیہ السلام کو برا بلا کہتے تھے اور یہ سلسلہ سليمان بن عبد الملك کے دور حکومت کے آخری ایام اور عمر بن عبد العزيز کے دور حکومت کے ابتدائی آیام تک جاری رہا ۔

۶: آلوسي کہ جو اہل سنت کے ایک نامور مفسر ہیں وہ آيه : «إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ ... » (النحل / 90) کی تفسير  میں لکھتا ہے :
أقامها عمر بن عبد العزيز حين آلت الخلافة إليه مقام ما كانو بنو أمية غضب الله تعالى عليهم يجعلونه في أواخر خطبهم من سب علي كرم الله تعالى وجهه ولعن كل من بغضه وسبه وكان ذلك من أعظم مآثره رضي الله تعالى عنه .
روح المعاني في تفسير القرآن العظيم والسبع المثاني ، آلوسي ، ج7 ، ص456 ، ط الأولي ، دار الكتب العلمية ، بيروت ، 1422 هـ .
  جس وقت عمر بن عبد العزيز خلیفہ بنا ان سے پہلے کے خلفاء { سب اللہ کے غیض و غضب کے مستحق قرار پائے} یہ سب اپنے خطبوں کے بعد علی علیہ السلام کو برا بلا کہتے تھے، عمر ابن ابی العزیز نے اس سے لوگوں کو منع کیا اور یہ اس کے نیک اور قابل فخر کاموں میں سے ہے ۔

۷:  ابن خلدون نے اپنی تاریخ میں نقل کیا ہے :
وكان بنو أمية يسبون عليا فكتب عمر إلى الآفاق بترك ذلك .
تاريخ ابن خلدون ، ج3 ، ص75 .
بني اميه  والے علی عليه السلام کو برا بلا کہتے تھے اور یہ سلسلہ عمر بن عبد العزيز کے دور تک باقی رہا ۔ اس نے  مختلف علاقوں میں خط لکھنے کے ذریعے اس کام سے منع کیا ۔

۸: شيخ محمد بن علي ، مشهور به ابن العمراني (متوفى: 580هـ) نے  الإنباء في تاريخ الخلفاء میں لکھتا ہے :
وكان بني امية كلهم يلعنون عليا ـ صلوات الله عليه وسلامه ـ علي المنبر ، فمذ ولي عمر بن عبد العزيز قطع تلك اللعنة .
الإنباء في تاريخ الخلفاء ، ابن العمراني ، ص51 ، ط الأولي ، دار الآفاق العربية ، مصر ، 1419 هـ .
  بني اميه  کے سارے حکام ، علي (عليه السلام) کو  ممبروں سے لعن کرتے تھے یہاں تک کہ  عمر بن عبد العزيز کا دور حکومت آیا اس نے اس چیز سے منع کیا ۔
۹:   شهاب الدين احمد بن عبد الوهاب نويري نے " نهاية الأرب في فنون الأدب "  بيعت عمر بن عبد والے فصل میں لکھا ہے  :
وكان من أول ما ابتدأ به عمر بن عبد العزيز أن ترك سب علي بن أبي طالب رضي الله عنه على المنابر، وكان يسب في أيام بني أمية إلى أن ولي عمر فترك ذلك .
نهاية الأرب في فنون الأدب ، النويري ، ج21 ، ص216 ، ط الأولي ، دار الكتب العلمية ، بيروت ، 1424 هـ .
عمر بن عبد العزيز نے پہلا کام یہ کیا کہ ممبروں سے علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو برا بلا کہنے سے منع کیا  بنی امیہ کے دور میں علي (عليه السلام) کو برا بلا کہتے تھے لیکن جب عمر بن عبد العزيز خليفه بنا تو اس نے یہ کام انجام نہیں دیا ۔
۱۰: حافظ جلال الدين سيوطي نے تاريخ الخلفاء میں لکھا  :
كان بنو أمية يسبون علي بن أبي طالب في الخطبة فلما ولي عمر ابن عبد العزيز أبطله وكتب إلى نوابه بإبطاله .
تاريخ الخلفاء ، السيوطي ، ص194 ، ط الأولي ، مصر ، دار الفجر للتراث ، 1420 هـ .
بني اميه والے  علي بن أبي طالب (عليه السلام) کو اپنے خطبوں میں برا بلا کہتے تھے لیکن جب عمر بن عبد العزیز خلیفہ بنا تو اس نے اس کام کو انجام نہیں دیا اور اپنے گونروں کو بھی اس کام کو انجام نہ دینے کا حکم دیا ۔
۱۱: مشہور تاریخ دان ابن أثير{ المتوفى: 630ھ} نے اس سلسلے میں لکھا ہے:
كان بنو أمية يسبون أمير المؤمنين علي بن أبي طالب عليه السلام إلى أن ولي عمر بن عبد العزيز فترك ذلك وكتب إلى العمال في الآفاق بتركه .
الكامل في التاريخ ، حوادث سال 99 هـ ، ج5 ، ص42 .
بني اميه والے  علي کو دشنام دیتے اور انہیں برا بلا کہتے ؛ یہاں تک کہ عمر بن عبد العزیز کی حکومت آئی تو اس نے ایسا نہیں کیا اور  اپنے گورنروں اور حکومتی نمائندوں کو اس سے منع کرنےکے لئے خط لکھا ۔
۱۲: خير الدين زركلي نے اپنی  كتاب ' 'الأعلام" میں  عمر بن عبد العزيز کے زندگی نامے  میں لکھا ہے  :
وولي الخلافة بعهد من سليمان سنة 99 ه‍ ، فبويع في مسجد دمشق . وسكن الناس في أيامه ، فمنع سب علي بن أبي طالب ( وكان من تقدمه من الأمويين يسبونه على المنابر ) .
الأعلام ، خير الدين الزركلي ، ج 5 ، ص50 .
عمر بن عبد العزيز ، 99 هـ  کو سليمان کے بعد خلیفہ بنا ، لوگوں نے دمشق کی مسجد میں اس کی بیعت کی۔ لوگ اس کے دور حکومت میں آرام اور سکون سے رہے اور انہوں نے علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو ممبروں سے سب و شتم کرنے سے منع کیا جبکہ اس سے پہلے کے بنی امیہ کے حکام کا طریقہ کار ممبروں سے انہیں برا بلا کہنا تھا ۔  

مغيرة بن شعبة اور  سبّ امير المؤمنين :


خوارزمي کہ جو اہل سنت کے مشهور تاریخ نگار ہے وہ مقتل الحسين عليه السلام میں لکھتا ہے :

ایک جلسہ کہ جو  امام حسن علیہ السلام اور معاویہ کی موجودگی میں ہوا اس میں بنی امیہ والے ایک ایک کر کے اٹھے اور جو منہ میں آیا حضرت علی علیہ السلام کے خلاف کہہ دیا، یہاں تک کہ جب مغیرہ {اللہ کی لعنت ہو اس پر } کی باری آئی تو وہ اٹھا اور اس طرح بولنا شروع کیا :
إن علياً ناصب رسول الله صلي الله عليه وسلم في حياته ، وأجلب عليه قبل موته وأراد قتله ، فعلم ذلك من أمره رسول الله ، ثم كره أن يبايع أبا بكر حتي أتي به قوداً ، ثم نازع عمر حتي همّ أن يضرب عنقه ، ثم طعن علي عثمان حتي قتله ، و قد جعل الله سلطاناً لولي المقتول في كتابه المنزل ، فمعاوية ولي المقتول بغير حق ، فلو قتلناك وأخاك كان من الحق ، فو الله ما دم ولد علي عندنا بخير من دم عثمان ، و ما كان الله ليجمع فيكم الملك مع النبوة .
مقتل الحسين ، ج1 ،‌ ص170 .
علي (عليه السلام) نے پيامبر (صلي الله عليه وآله وسلم) کی زندگی میں ان سے دشمنی کی {نعوذ باللہ }اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی میں انہیں قتل کرنا چاہا۔ رسول اللہ صلي الله عليه وآله وسلم اس سے باخبر ہوئے ۔ آپ کے بعد ابوبکر کی بیعت نہیں کی لیکن اس کو مجبور کر کے بیعت کے لئے لایا گیا اور عمر مقابلے کے لئے اٹھا اور قریب تھا عمر ان کی گردن اڑا دیتا ۔پھر بعد میں عثمان کی برائی بیان کرنا شروع کیا یہاں تک کہ لوگ اس کے خلاف اٹھے اور وہ قتل ہوا۔ اللہ نے قرآن میں ہر قتل ہونے والے کے لئے ایک ولی قرار دیا ہے تاکہ اس کے خون کا بدلہ لیا جائے ، معاویہ عثمان کے ولی اور وارث ہے لہذا تجھے {امام حسن علیہ السلام سے مخاطب ہوکر }اور تیرے بھائی کو قتل کرئے تو تم لوگ اس کے مستحق ہیں۔ اللہ کی قسم علی کے بیٹوں کے خون کی قیمت ہمارے نذدیک عثمان کے خون سے قیمتی نہیں ہے۔ اللہ نے نبوت اور بادشاہت دونوں کو تم لوگوں  میں ہی قرار نہیں دیا ہے ۔   

معاویہ کا خصوصی گورنر مغيرة بن شعبه اور سب و شتم 

۔ ابن خلدون نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے  :
كان المغيرة بن شعبة أيام امارته على الكوفة كثيرا ما يتعرض لعلى في مجالسه وخطبه ويترحم على عثمان ويدعو له .
  تاريخ ابن خلدون۔ 3/ 12 ۔   وفاة المغيرة
مغيرة بن شعبه ،كوفه میں اپنی حکومت کے دوران اپنے خطبوں اور جلسوں میں علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو برا بلا کہتے تھے اور عثمان پر رحمت پر اور اس کی مغفرت کے لئے دعا کرتا۔

ذهبي نے  سير اعلام النبلاء میں لکھا ہے  :
كان المغيرة ينال في خطبته من علي ، وأقام خطباء ينالون منه .
سر اعلام النبلاء ، ج3 ، ص31 .  یشتمون علیا
مغيره اپنے خطبوں میں  علي (عليه السلام)  کو برا بلا کہتا تھا اور خطیبوں کو حضرت علی علیہ السلام کے خلاف برا بلا کہنے کے لئے مامور کرتا تھا  ۔


مروان اور بنی مروان والے امير المؤمنين (عليه السلام) کو برا بلا کہتے :


ابن عساكر نے تاريخ مدينه دمشق میں اور  احمد بن حنبل نے العلل میں لکھا ہے  :
عن ابن عون عن عمير بن إسحاق قال كان مروان بن الحكم أميرا علينا ست سنين فكان يسب عليا كل جمعة على المنبر ثم عزل فاستعمل سعيد بن العاص سنتين فكان لا يسبه ثم عزل وأعيد مروان فكان يسبه فقيل يا حسن ألا تسمع ما يقول هذا فجعل لا يرد شيئا قال وكان حسن يجئ يوم الجمعة فيدخل في حجرة النبي ( صلى الله عليه وسلم ) فيقعد فيها فإذا قضيت الخطبة خرج فصلى ثم رجع إلى أهله .
تاريخ مدينه دمشق ، ج57 ، ص243 و العلل ، احمد بن حنبل ، ج3 ، ص176 .
عمير بن اسحاق کہتا ہے  : مروان حكم جس نے چھے سال ہم پر حکومت کی وہ ہر جمعہ کو ممبر سے علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو برا بلا کہتا تھا ۔پھر اس کو ہٹایا اور سعید بن عاص ہمارا حاکم بنا لیکن وہ علی کو برا بلا نہیں کہتا تھا لہذا اس کو ہٹا کر دوبارہ مروان کو حاکم بنایا اور اس نے پھر سے علی علیہ السلام کو بر بلا کہنا شروع ۔امام حسن مجتبي (عليه السلام) سے کسی نے کہا: کیا آپ نہیں سن رہے ہیں کہ یہ کیا کہہ رہا ہے  ؟ امام نے توجہ نہیں دی ، امام حسن علیہ السلام جمعہ کو مسجد تشریف لاتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کمرے میں  تشریف لے جاتے اور وہی بیٹھ جاتے ،خطبہ ختم ہونے کے بعد باہر آتے اور نماز پڑھتے اور گھر واپس تشریف لے جاتے.
سيوطي نے  تاريخ الخلفاء میں لکھا ہے  :
عن عمير بن إسحاق قال: كان مروان أميراً علينا فكان يسب علياً كل جمعة على المنبر وحسن يسمع فلا يرد شيئاً ثم أرسل إليه رجلا يقول له بعلي وبعلي وبعلي وبك وبك وما وجدت مثلك إلا مثل البغلة يقال لها من أبوك؟ فتقول أمي الفرس فقال له الحسن: أرجع إليه فقل له إني والله لا أمحو عنك شيئاً مما قلت بأن أسبك ولكن موعدي وموعدك الله .
تاريخ الخلفاء ، ترجمه امام حسن عليه السلام .
عمير بن بن اسحاق سے نقل ہوا ہے : ہمارا حاکم اور گورنر مروان حکم تھا وہ ہر جمعہ کو ممبر سے خطبے میں علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو برا بلا کہتا لیکن امام حسن علیہ السلام یہ سب سنتے اور کچھ نہیں فرماتے ،مروان نے کسی کو امام کے پاس بھیجا  تاکہ امام کے سامنے امام کی اور ان کے والد کی برائی کرئے،اس نے امام سے کہا تجھ جیسا گھوڑا اور خچر نہیں دیکھا {نعوذ بااللہ} اس سے پوچھا تیر باپ کون ہے ؟ اس نے کہا : گھوڑا ۔ امام حسن مجتبی علیہ السلام نے فرمایا : جاو مروان سے کہو میں تجھے جواب نہیں دوں گا، تیری طرح گالی نہیں دوں گا تاکہ تیرا گناہ کم ہوجائے۔ روز قیامت اللہ کے حضور میری اور تیری ملاقات ہوگی۔

سب جگہ ممبروں سے علی علیہ السلام پر لعن و طعن  :


ياقوت حموي { المتوفى: 626ھ} ، کہ جو اہل سنت کے مشہور تاریخ دان ہے وہ لکھتا ہے  :
لعن علي بن أبي طالب ، رضي الله عنه ، على منابر الشرق والغرب ... منابر الحرمين مكة والمدينة .
معجم البلدان ، ج3 ، ص191 .
علي (عليه السلام) پر مشرق ، مغرب اور مکہ اور مدینہ کے ممبروں سے لعن طعن کرتے تھے ۔

۷۰ ہزار ممبروں سے علی  علیہ السلام پر لعن طعن :


زمخشري ، کہ جو اہل سنت کے مشہور مفسر  اور  اديب ہیں ،لکھتے ہیں  :
إنّه كان فى أيّام بنى اميّة أكثر من سبعين ألف منبر يلعن عليها علىّ بن أبى طالب بما سنّه لهم معاوية من ذلك.
ربيع الأبرار ، ج 2 ، ص186 و النصايح الكافية ، محمد بن عقيل ، ص79 به نقل از سيوطي .
بنی امیہ کے دور میں ۷۰ ہزار ممبروں سے علی علیہ السلام پر لعن و طعن کیا جاتا تھا اور یہ معاویہ کی بنائی ہوئی سنت تھی .


علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو برا بلا کہنے کی روایات متواتر ہیں  :
شيخ محمود سعيد بن ممدوح ، امير المؤمنين عليه السلام کو سب و شتم اور ان پر لعن و طعن کے سلسلے میں روایات اور واقعات کو ذکر کرنے کے بعد لکھتا ہے :
الآثار في هذه الجريمة البشعة وأخبارها الشنيعة متواترة ، وهذه عظيمة تصغر عندها العظائم ، وجريمة تصغر عندها الجرائم وشنيعة تتلاشي أمام بشاعتها الشنائع .
غاية التبجيل ، محمود سعيد ، ص283 ، ط الأولي ، مكتبة الفقيه ، الإمارات ، 1425 هـ .
اس برے اور مجرمانہ کام کے دلايل اور  شواهد بہت زیادہ اور متواتر ہیں ،کہا جاسکتا ہے کہ یہ برا عمل اس حد تک  بڑا جرم اور برا کام ہے کہ دوسرے جرائم اور برے کام اس کے مقابل میں چھوٹا اور کم اہمیت ہے ۔

 

سب و شتم ،امیر المومنین علیہ السلام کے دشمنوں سے تقرب کا وسیلہ

اهل بيت عليهم السلام کے دشمنوں کے قریب ہونے کے لئے  اہل بیت علیہم السلام کی برائی :
قال أخبرنا مالك بن إسماعيل قال حدثنا سهل بن شعيب النهمي وكان نازلا فيهم يؤمهم عن أبيه عن المنهال يعني بن عمرو قال دخلت على علي بن حسين فقلت كيف أصبحت أصلحك الله فقال ما كنت أرى شيخا من أهل المصر مثلك لا يدري كيف أصبحنا فأما إذ لم تدر أو تعلم فسأخبرك أصبحنا في قومنا بمنزلة بني إسرائيل في آل فرعون إذ كانوا يذبحون أبناءهم ويستحيون نساءهم وأصبح شيخنا وسيدنا يُتقرب إلى عدونا بشتمه أو سبه على المنابر .
الطبقات الكبري ، محمد بن سعد ، ج 5 ، ص220 و تهذيب الكمال ، مزي ، ج 20 ، ص400 ترجمه امام علي بن الحسين و المنتخب من ذيل المذيل ، محمد بن جرير طبري ، ص120 .
منهال بن عمرو کہتا ہے : میں  علی بن الحسین ( امام سجاد علیه السلام ) کے پاس گیا اور ان سے عرض کیا  :  اللہ آپ کو سلامت رکھے ،آپ نے کیسے صبح کی {آپ کی حالت کیسی ہے} امام نے فرمایا : میرا ایسا خیال نہیں تھا کہ شہر کے کسی بزرگ اور بڑے کو ہماری حالت کا علم نہ ہو ، اب جو تجھے معلوم نہیں تو میں بتا دیتا ہوں ، ہماری حالت اپنی قوم میں ایسا ہے جیسے فرعونیوں کے پاس بنی اسرائیل کی حالت تھی  ان کے فرزندوں کو قتل کرتے تھے اور ان کی عورتوں کو زندہ رکھتے تھے اور ہمارے دشمنوں سے قریب ہونے کے لئے ہمارے سردار { علی ابن ابی طالب ع } کی شان میں  توہین کرتے ہیں اور برا بلا کہے جاتے ہیں۔  

امير المؤمنين (عليه السلام) فضائل  اور ان کو سب وشتم کرنا قابل جمع نہیں ہے:

امام محمد بن ابراهيم الوزير اليماني  بعض راویوں کی طرف سے اہل بیت کے فضائل نقل کرنے کے سلسلے میں لکھتا ہے :

روايتهم لفضائل علي عليه السلام وفضائل أهل البيت في أيام بني امية وهو عليه السلام ـ حاشا مع ذلك ـ يُلعنُ علي المنابر ولا يروي فضائله إلا من خاطر بروحه .
العواصم والقواسم في الذب عن سنة أبي القاسم ، ابن الوزير ، ج2 ،‌ ص400 ، ط الثالثة ، مؤسسه الرسالة ، بيروت ، 1415 هـ .
بنی امیہ کے دور میں علي اور اهل بيت (عليهم السلام) کے فضائل کی بات کرنا ممکن نہیں تھا ، لیکن ممبروں سے ان پر لعن و طعن کیا جاتا تھا لہذا ان کے دور میں یہ دونوں قابل جمع نہیں  تھا ۔

بني اميه والے سرزنش کے مستحق ہیں :


ڈاکٹر فرحان المالكي کہتے ہیں  :
فبنو أمية اذن يستحقون الذم لأنهم لم يغسموا ألسنتهم في البحث فقط ، وإنما تجاوزوا ذلك إلي اللعن علي المنابر وسفك الدماء ، و فرضوا هذا الظلم علي الأمة حتي جاءت الأجيال تعتقد أنهم مأجورون علي هذا !
مع سليمان العلوان في معاوية ، ص35 .
بنی امیہ والے سرزنش کے مستحق ہے ؛ کیونکہ انہوں نے صرف علی ابن ابی طالب ع کو برا بلا کہنے پر اکتفاء نہیں کیا  ؛ بلکہ ممبروں سے بھی آپ  (عليه السلام) پر لعن طعن کیا اور اہل بیت اور ان کے چاہنے والوں کے خون بہایا ہے اور اس ظلم کو سب کے لئے ضروری قرار دیا ۔ یہاں تک کہ بنی امیہ والے اپنی بعد کی نسلوں کو بھی اس کام کی وجہ سے اجر و ثواب کا مستحق قرار دیتے تھے۔

 

بنی امیہ کی حکومت امير المؤمنين عليه السلام کو بلا بلا کہنے پر ہی قائم تھی :


ابن عساكر نے امام سجاد عليه السلام سے نقل کیا ہے :
قال مروان بن الحكم ما كان في القوم أحد أدفع عن صاحبنا من صاحبكم يعني عليا عن عثمان قال قلت فما لكم تسبونه على المنبر قال لا يستقيم الأمر إلا بذلك.
تاريخ مدينة دمشق ، ج42 ، ص 438 و الصواعق المحرقة ، ابن حجر هيثمي ، ص 33 و النصائح الكافية ، محمد بن عقيل ، ص 114 از دار قطني و شرح نهج البلاغة ، ج13 ، ص220 .
مروان بن حکم نے مجھ سے کہا : لوگوں میں کوئی جتنا اپ کے صاحب { حضرت علی} سے دفاع کرنے والے تھے اتنا ہمارے صاحب {عثمان } سے دفاع کرنے والے نہ تھے ۔ میں  نے اس سے پوچھا تو پھر کیوں ممبروں سے انہیں برا بلا کہتے ہو ؟ اس نے جواب دیا : یہ نہ ہو تو حکومت ختم ہوجاتی ہے ۔

  بلاذري لکھتا ہے  :
قال مروان لعلي بن الحسين : ما كان أحد أكف عن صاحبنا من صاحبكم . قال : فلم تشتمونه على المنابر ؟ ! ! قال : لا يستقيم لنا هذا إلا بهذا ! ! .
أنساب الأشراف ، ص 184.
مروان نے علي بن الحسين علیہما السلام سے کہا  : کوئی ایسا نہیں تھا کہ جو اپ کے صاحب کی طرح ہمارے صاحب سے دفاع کرئے ؛ علی بن الحسین نے جواب میں فرمایا  : تو پھر کیوں ممبروں سے ان پر لعن طعن کرتے ہو  ؟ اس نے کہا  : اس کے بغیر ہمارا کام ہی نہیں چلتا۔

  امير المؤمنين (عليه السلام) کی برائی بیان کرتے وقت لگنت زبان:
ابن أثير اور بلاذري نے عبد الله بن عبيد الله سے نقل کیا ہے  :
وكان أبي إذا خطب فنال من علي رضي الله عنه تلجلج فقلت يا أبت إنك تمضي في خطبتك فإذا أتيت على ذكر علي عرفت منك تقصيرا ؟ قال : أو فطنت لذلك ؟ قلت : نعم . فقال يا بني إن الذين حولنا لو يعلمون من علي ما نعلم تفرقوا عنا إلى أولاده .
الكامل في التاريخ ، حوادث سال 100 هـ ، ج5 ، ص42 و انساب الأشراف ، ج8 ، ص195 .
میرا بابا جب بھی خطبہ دیتا اور اس میں علي (عليه السلام) کے خلاف بات کرتا تو اس کی زبان میں لگنت پیدا ہوجاتی ، میں نے اس سے پوچھا  :کیا وجہ ہے جب خطبے میں  علي (عليه السلام) کے خلاف کچھ کہنا چاہتا ہے تو بہت سخت انداز میں بات کرتے ہو اور زبان لڑکھڑا جاتی ہے؟ باپ نے کہا : کیا تو نے اس کو محسوس کیا ؟ کہا: ہاں ۔ پھر کہا میرے  بیٹے! جو فضائل علی ابن ابی طالب کے بارے میں ہم جانتے ہیں اگر لوگوں کو پتہ چل جائے تو ہم سے لوگ دور بھاگیں گے اور سب علی علیہ السلام کے بیٹوں کے پاس چلے جائیں گے۔ 

سب و شتم کو رواج دینے والا اصلی سیاست مدار

گزشتہ صفحات میں ہم نے بنی امیہ کے دور کے حاکموں میں رائج اس انتہائی بری سنت کی طرف اشارہ کیا ۔۔ اب ہم ذیل میں اس بری سنت اور بدعت کی کا اصلی بانی معاویہ اور اس کی حکومت ہونے پر بعض شواہد پیش کرتے ہیں ۔

 

خود معاویہ اس کا اصلی محرک تھا ۔

 صحیح مسلم، کتاب الفضائل الصحابہ، باب من فضائل علی بن ابی طالب۔
- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ، - وَتَقَارَبَا فِي اللَّفْظِ - قَالاَ حَدَّثَنَا حَاتِمٌ، - وَهُوَ ابْنُ إِسْمَاعِيلَ - عَنْ بُكَيْرِ بْنِ مِسْمَارٍ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ أَمَرَ مُعَاوِيَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ سَعْدًا فَقَالَ مَا مَنَعَكَ أَنْ تَسُبَّ أَبَا التُّرَابِ فَقَالَ أَمَّا مَا ذَكَرْتُ ثَلاَثًا قَالَهُنَّ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَلَنْ أَسُبَّهُ لأَنْ تَكُونَ لِي ۔۔۔
ترجمہ: معاویہ نے سعد کو حکم [أَمَرَ مُعَاوِيَةُ] دیتے ہوئے کہا کہ تمہیں کس چیز نے روکا ہے [مَا مَنَعَكَ] کہ تم ابو تراب [یعنی علی ابن ابی طالب] پر سب نہ کرو [سب: گالیاں دینا ، برا بھلا کہنا]۔ اس پر سعد نے کہا میں نے رسول ص سے علی کے متعلق تین ایسی باتیں سنی ہیں کہ جس کے بعد میں کبھی علی پر سب [گالیاں دینا، برا بھلا کہنا] نہیں کہہ سکتا ۔۔۔

 ابن کثیر الدمشقی۔۔۔۔۔۔وقال أبو زرعة الدمشقي‏:‏ ثنا أحمد بن خالد الذهبي أبو سعيد، ثنا محمد بن إسحاق، عن عبد الله بن أبي نجيح، عن أبيه قال‏:‏ لما حج معاوية أخذ بيد سعد بن أبي وقاص‏.‏فقال‏:‏ يا أبا إسحاق إنا قوم قد أجفانا هذا الغزو عن الحج حتى كدنا أن ننسى بعض سننه فطف نطف بطوافك‏.‏قال‏:‏ فلما فرغ أدخله دار الندوة فأجلسه معه على سريره، ثم ذكر علي بن أبي طالب فوقع فيه‏.‏فقال‏:‏ أدخلتني دارك وأجلستني على سريرك،ثم وقعت في علي تشتمه ‏؟‏والله لأن يكون في إحدى خلاله الثلاث أحب إلي من أن يكون لي ما طلعت عليه الشمس، ولأن يكون لي ما قال۔۔۔۔۔۔۔، ثم نفض رداءه ثم خرج‏.‏

ابن کثیر الدمشقی، کتاب البدایہ و النہایہ، حلد7، صفحہ341، باب فضائل علی ابن ابی طالب
ترجمہ: ابو زرعہ الدمشقی عبداللہ بن ابی نجیح کے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جب معاویہ نے حج کیا تو وہ سعد بن ابی وقاص کا ہاتھ پکڑ کر دارالندوہ میں لے گیا اور اپنے ساتھ تخت پر بٹھایا۔ پھر علی ابن ابی طالب کا ذکر کرتے ہوئے انکی عیب جوئی کی۔ اس پر سعد بن ابی وقاص نے جواب دیا: "آپ نے مجھے اپنے گھر میں داخل کیا، اپنے تخت پر بٹھایا،پھر آپ نے علی ابن ابی طالب کے حق میں بدگوئی اور سب و شتم شروع کر دیا۔خدا کی قسم، اگر مجھے علی کے تین خصائص و فضائل میں سے ایک بھی ہو تو وہ مجھے اس کائنات سے زیادہ عزیز ہو جس پر سورج طلوع ہوتا ہے۔ کاش کہ نبی اللہ ص نے میرے حق میں یہ فرمایا ہوتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھر سعد بن ابی وقاص نے اپنی چادر جھٹکی اور وہاں سے نکل گئے۔"
نوٹ:
یہ صحیح روایت ہے۔ ایک راوی احمد بن خالد پر اعتراض کرنے کی کوشش کی ہے۔ مگر یہ راوی احمد بن خالد انتہائی ثقہ ہیں اور ان کی ضعیف ثابت کرنے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی۔ انکے متعلق ائمہ رجال کے اقوال:
الذھبی: امام، محدث، ثقہ [سر اعلام النبلاء جلد 9، صفحہ 539]
امام یحیی ابن معین: ثقہ [تہذیب الکمال جلد 1، صفحہ 301]
امام ابن حبان نے ان کا اپنی کتاب "الثقات" میں شامل کیا ہے [جلد 8، صفحہ 6]
امام ابن ماجہ نے احمد بن خالد سے روایات نقل کی ہیں اور سعودیہ کے شیخ البانی نے ان احادیث کو صحیح قرار دیا ہے [سنن ابن ماجہ، جلد 2، حدیث 3188]
سنن ابن ماجہ،  

حدثنا علي بن محمد حدثنا أبو معاوية حدثنا موسى بن مسلم عن ابن سابط وهو عبد الرحمن عن سعد بن أبي وقاص قال قدم معاوية في بعض حجاته فدخل عليه سعد فذكروا عليا فنال منه فغضب سعد و قال تقول هذا لرجل سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول من كنت مولاه فعلي مولاه وسمعته يقول أنت مني بمنزلة هارون من موسى إلا أنه لا نبي بعدي وسمعته يقول لأعطين الراية اليوم رجلا يحب الله ورسوله
ترجمہ:
یعنی حج پر جاتے ہوئے سعد بن ابی وقاص کی ملاقات معاویہ سے ہوئی اور جب کچھ لوگوں نے علی کا ذکر کیا تو اس پر معاویہ نے علی کی بدگوئی کی۔ اس پر سعد بن ابی وقاص غضبناک ہو گئے اور کہا کہ تم علی کے متعلق ایسی بات کیوں کہتے ہو۔ میں نے رسول اللہ ص کو کہتے سنا ہے کہ جس جس کا میں مولا، اُس اُس کا یہ علی مولا، اور یہ کہ اے علی آپکو مجھ سے وہی نسبت ہے جو کہ ہارون ع کو موسی ع سے تھی سوائے ایک چیز کہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا، اور میں نے [رسول اللہ ص] سے یہ بھی سنا ہے کہ کل میں علم ایسے شخص کو دوں گا جو اللہ اور اور اسکے رسول سے محبت کرتا ہے۔
یہ بالکل صحیح الاسناد روایت ہے اور البانی صاحب نے اسے "سلسلة الأحاديث الصحيحة" میں ذکر کیا ہے۔

صلح میں امیر المومنین علیہ علیہ السلام کو گالی نہ دینے کی شرط

عجیب مظلومیت ۔۔۔ عجیب تاریخی حقیقت ہے کہ امام حسن علیہ السلام اس منحوس سلسلے کو روکنے کے لئے صلح نامے میں امیر المومنین کو برا بلا نہ کہنے کی شرط رکھتے ہیں لیکن یہ شرط جب قبول نہیں ہوتی تو آپ یہ شرط رکھتے ہیں کہ کم از کم ان کے حضور میں ایسا نہ کیا جائے ۔۔۔۔

: ابن عساکر نے تاریخ مدینہ الدمشق میں لکھتے ہیں:
اخبرنا أبو بكر محمد بن عبد الباقي أنا الحسن بن علي أنا محمد بن العباس أنا احمد بن معروف نا الحسين بن محمد بن سعد أنا أبو عبيد عن مجالد عن الشعبي وعن يونس بن أبي إسحاق عن أبيه وعن أبي السفر وغيرهم ۔۔۔۔۔۔۔ ولا يسب علي وهو يسمع ۔۔۔۔۔

ترجمہ: یعنی حسن بن علی نے جب معاویہ سے صلح کی تھی تو اس میں جو شرائط تھیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ "۔۔۔۔۔ اور علی ابن ابی طالب پر سب [گالیاں دینا ، برا بھلا کہنا] نہیں کیا جائے گا جب کہ وہ سن رہے ہوں۔۔۔۔۔
ابن عساکر نے یہ اس شرط کا ذکر تین روایات میں کیا ہے، جس میں سے دوسری روایت کے تمام راوی ثقہ ہیں اور یہ صحیح روایت ہے۔
 ۔۔۔ابن کثیر اپنی کتاب البدایہ و النہایہ میں لکھتے ہیں:
فاشترط أن يأخذ من بيت مال الكوفة خمسة آلاف ألف درهم، وأن يكون خراج دار أبجرد له، وأن لا يسب علي وهو يسمع
ترجمہ:[حسن] نے یہ شرائط رکھیں کہ کوفہ کے بیت المال سے پچاس لاکھ درھم کا خراج انہیں [اور انکی فوج] کے حوالے رکھا جائے اور دار ابجرد کا خراج بھی انہیں کو ملے اور یہ کہ علی ابن ابی طالب پر سب [گالیاں دینا، برا بھلا کہنا] نہ کیا جائے جبکہ وہ اسے سن سکتے ہوں۔  

 ابن كثير إسماعيل بن عمر بن كثير القرشي أبو الفداء،البداية والنهاية۔ ۔ج ۸ ص ۱۴: مكتبة المعارف - بيروت
علامہ ابن اثیر اپنی کتاب تاریخ الکاملمیں لکھتے ہیں:
وكان الذي طلب الحسن من معاوية أن يعطيه ما في بيت مال الكوفة، ومبلغه خمسة آلاف ألف، وخراج دار ابجرد من فارسن وأن لا يشتم علياً، فلم يجبه إلى الكف عن شتم علي، فطلب أن لا يشتم وهو يسمع، فأجابه إلى ذلك ثم لم يف له به أيضاً، وأما خراج دار ابجرد فإن أهل البصرة منعوه منه وقالوا: هو فيئنا لا نعطيه أحداً، وكان منعهم بأمر معاوية أيضاً.
ترجمہ:امام حسن نے امیر معاویہ سے جو امور طلب کئے تھے وہ یہ تھے کہ کوفے کے بیت المال کی تمام رقم جسکی مقدار پچاس لاکھ تھی اور فارس کے دار ابجرد کا خراج انہیں دیا جائے [تاکہ وہ اپنی فوج کا خرچ ادا کر سکیں]اور یہ کہ علی ابن ابی طالب پر سب و شتم نہ کیا جائے۔ معاویہ نے سب و شتم سے باز رہنے کو منظور نہیں کیا۔ اسپر امام حسن نے پھر طلب کیا کہ انکو ایسے وقت میں سب و شتم نہ کیا کریں

الكامل في التاريخ ،ج ۳ ص ۲۷۲: أبو الحسن علي بن أبي الكرم محمد بن محمد بن عبد الكريم الشيباني،دار النشر: دار الكتب العلمية - بيروت - 1415هـ، الطبعة: ط2، تحقيق: عبد الله القاضي

المختصر في أخبار البشر (1/ 126،  ) :

  امام الذھبی اپنی کتاب "العبر في خبر من غبر ، ج ۱ ص ۳۵" میں یہی روایت نقل کرتے ہیں کہ علی ابن ابی طالب پر سب و شتم نہ کیا جائے۔

ثم كتب إلى معاوية على أن يسلم إليه بيت المال وأن لا يسب عليًا بحضرته وأن يحمل إليه خراج فسا ودارابجرد كل سنة‏.‏

العبر في خبر من غبر۔ المؤلف : الذهبي محمد بن أحمد بن عثمان ،المحقق : أبو هاجر محمد السعيد بن بسيوني زغلول،الناشر : دار الكتب العلمية – بيروت

امام الذھبی نے سير أعلام النبلاء میں لکھا ہے ۔

ثُمَّ كَاتَبَ مُعَاوِيَةَ فِي الصُّلْحِ عَلَى أَنْ يُسِلِّمَ لَهُ ثَلاَثَ خِصَالٍ: يُسلِّمَ لَهُ بَيْتَ المَالِ فَيَقْضِي مِنْهُ دَيْنَهُ وَمَوَاعِيدَهُ وَيَتحمَّلَ مِنْهُ هُوَ وَآلُهُ، وَلاَ يُسَبَّ عَلِيٌّ وَهُوَ يَسَمَعُ،۔۔۔۔۔ سير أعلام النبلاء   (5/ 256):

یعنی جس وقت امام حسن علیہ السلام سن رہے ہو اس وقت کم از کم امیر المومنین علی علیہ السلام کو برا بلا نہ کہنا ۔۔۔۔

 

  ابن جریر طبری بھی یہ روایت نقل کرتے ہیں۔

وقد كان صالح الحسن معاوية على أن جعل له ما في بيت ماله وخرج دارا بجرد على ألا يشتم علي وهو يسمع۔۔  تاريخ الطبري (3/ 165 :

  تاريخ مدينة دمشق میں بھی یہ روایت موجود ہے ؛۔۔۔۔۔ولا يسب علي وهو يسمع

تاريخ مدينة دمشق (13/ 264۔ إبن هبة الله علي بن الحسن الشافعي ، {م 571 }،تحقيق محب الدين العمري،الناشر دار الفكر 1995،مكان النشر بيروت

 کہ امام حسن نے معاویہ سے اس شرط پر صلح کی کہ علی ابن ابی طالب پر سب و شتم نہ کیا جائے گا ایسے وقت میں جبکہ وہ اسے سن رہے ہوں۔  

 
  ابن [تاریخ ابن خلدون، جلد 2، صفحہ 648]:
فكتب إلى معاوية يذكر له النزول عن الأمر على أن يعطيه ما في بيت المال بالكوفة و مبلغه خمسة آلاف ألف و يعطيه خراج دار ابجرد من فارس و ألا يشتم عليا و هو يسمع
ترجمہ: یعنی امام حسن نے شرط رکھی کہ علی ابن ابی طالب کو گالیاں نہیں دی جائیں گی جبکہ وہ اسے سن سکتے ہوں۔


علامہ اسمعیل بن ابو الفداء اپنی تاریخ ابوالفداء جلد اول، صفحہ 648 پر لکھتے ہیں:

وكان الذي طلبه الحسن أن يعطيه ما في بيت مال الكوفة وخراج دارا بجرد من فارس وأن لا يسب علياً فلم يجبه إلى الكف عن سبّ علي فطلب الحسن أن لا يشتم علياً وهو يسمع فأجابه إِلى ذلكَ ثم لم يف له به
ترجمہ:   یعنی علی ابن ابی طالب کو گالیاں نہیں دی جائیں گی جبکہ وہ اسے سن سکتے ہوں۔
     

جناب ام سلمہ کا سخت رد و عمل :


ابن عبد ربه الأندلسي  نے العقد الفريد میں لکھا ہے:

۔  فأمسك معاوية عن لعنه حتى مات سعد. فلما مات لَعنه عَلَى المنبر، وكتب إلى عماله أن يَلعنوه على المنابر، ففعلوا. فكتبتْ أم سَلمة زوج النبيّ صلى عليه وسلم إلى معاويةإنكم تلعن اللّه ورسولَه على منابركم، وذلك أنكم تلعنون عليّ بن أبي طالب ومن أحبّه، وأنا أشهد أن اللّه  ۔ : العقد الفريد (2/ 127
"جب تک سعد زندہ رہا معاویہ نے بھی خاموشی اختیار کی جب سعد دنیا سے چلا گیا تو ممبر سے علی ابن ابی طالب پر لعن کرنا شروع کیا اور اپنے گورنروں اور حاکموں کو بھی ممبروں سے لعن کرنے کا حکم دیا ۔۔۔یہ صورت حال دیکھ کر جناب ام سلمہ نے معاویہ کو خط لکھا۔۔۔ تم لوگ[معاویہ]منبر رسول سے اللہ اور اسکے رسول پر لعن کر رہے ہو، اور یہ اسطرح کہ تم علی ابن ابی طالب پر لعن کر رہے ہو اور ہر اُس پر جو علی سے محبت کرتا ہے۔ اور میں گواہ ہوں کہ اللہ اور اسکا رسول علی سے محبت رکھتے تھے۔" مگر ام سلمہ سلام اللہ علیہا نے جو کچھ کہا کسی نے اسکی پرواہ نہ کی۔

ام المومنین حضرت ام سلمہ سلام اللہ علیہا کی سے کئی طریقوں سے امام احمد نے اپنی مسند میں نقل کی ہے۔  :
 
25523 حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ اَبِي بُكَيْرٍ، قَالَ حَدَّثَنَا اِسْرَائِيلُ، عَنْ اَبِي اِسْحَاقَ، عَنْ اَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْجَدَلِيِّ، قَالَ دَخَلْتُ عَلَى اُمِّ سَلَمَةَ فَقَالَتْ لِي اَيُسَبُّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيكُمْ قُلْتُ مَعَاذَ اللَّهِ اَوْ سُبْحَانَ اللَّهِ اَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ سَبَّ عَلِيًّا فَقَدْ سَبَّنِي‏.‏
اس روایت میں ام سلمہ سلام اللہ علیہا صحابہ کو علی ابن ابی طالب پر "سب" کرنے کو رسول اللہ ص پر "سب" کرنا قرار دے رہی ہیں۔

   
  امام حاکم نے اپنی کتاب مستدرک میں نقل کی ہے  
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ كَامِلٍ الْقَاضِي ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ سَعْدٍ الْعَوْفِيُّ ، ثنا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ ، ثنا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْجَدَلِيِّ ، قَالَ : دَخَلْتُ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا ، فَقَالَتْ لِي : أَيُسَبُّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ فِيكُمْ ؟ فَقُلْتُ : مُعَاذَ اللَّهِ ، أَوْ سُبْحَانَ اللَّهِ ، أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا ، فَقَالَتْ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : " مَنْ سَبَّ عَلِيًّا فَقَدْ سَبَّنِي " . هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الإِسْنَادِ ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ ، وَقَدْ رَوَاهُ بُكَيْرُ بْنُ عُثْمَانَ الْبَجَلِيُّ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ بِزِيَادَةِ أَلْفَاظٍ .
یہ روایت نقل کرنے کے بعد امام حاکم کہتے ہیں کہ یہ روایت "صحیح الاسناد" ہے۔

 


معاویہ کے گورنروں کا کھلے عام علی ابن ابی طالب پر سب و شتم کرنا

اور یہ سب خود معاویہ کی سیاست کا حصہ تھا اور اسی کے حکم سے ایسا کرتے تھے ،


طبری نے اپنی  تاریخ طبری جلد 4، صفحه 188 میں لکھا ہے :
أن معاویة بن أبی سفیان لما ولى المغیرة بن شعبة الکوفة فی جمادى سنة 41 دعاه فحمد الله وأثنى علیه ثم قال : ... ولست تارکا إیصاءک بخصلة لا تتحم عن شتم على وذمه والترحم على عثمان والاستغفار له والعیب على أصحاب على والاقصاء لهم وترک الاستماع منهم ...

 تاریخ ابو الفداء میں ہے ۔

وكان معاوية وعماله يدعون لعثمان في الخطبة يوم الجمعة ويسبون علياً ويقعون فيه
ترجمہ:
معاویہ اور اسکے گورنر جمعے کے خطبوں میں عثمان کی تعریف کرتے تھے اور علی کو گالیاں دیتے تھے۔

 

تاریخ ابو الفداء، جلد 1، صفحہ 120:


بلاذری نے  انساب الاشراف جلد 5، ص 30 پر لکھا ہے :
کتب معاویة إلی المغیرة بن شعبة : أظهر شتم علی وتنقصه ...

معاویہ نے مغیرہ کو لکھا کہ وہ علی الاعلان علی پر سب و شتم کرئے اور ان کی برائی بیان کرئے ۔
ابن تیمیہ اپنی کتاب منہاج السنہ، جلد 6، صفحہ 201 پر لکھتا ہے:
وقد كان من شيعة عثمان من يسب عليا ويجهر بذلك على المنابر
ترجمہ:عثمان کے شیعہ [طرفدار] کھلے عام مسجدوں کے منبروں سے علی ابن ابی طالب کو گالیاں دیتے تھے۔

 

 صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابہ۔۔۔۔۔۔
6382 - حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ، - يَعْنِي ابْنَ أَبِي حَازِمٍ - عَنْ أَبِي، حَازِمٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ اسْتُعْمِلَ عَلَى الْمَدِينَةِ رَجُلٌ مِنْ آلِ مَرْوَانَ - قَالَ - فَدَعَا سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ فَأَمَرَهُ أَنْ يَشْتِمَ عَلِيًّا - قَالَ - فَأَبَى سَهْلٌ فَقَالَ لَهُ أَمَّا إِذْ أَبَيْتَ فَقُلْ لَعَنَ اللَّهُ أَبَا التُّرَابِ ‏.‏ ۔۔۔۔۔۔۔ ‏
ترجمہ:
سہل روایت کرتے ہیں کہ مدینہ میں مروان کے خاندان میں سے ایک شخص حاکم ہوا اور اس نے سہل کو بلایا اورحکم دیا[فَأَمَرَهُ أَنْ يَشْتِمَ عَلِيًّا]کہ وہ علی ابن ابی طالب کو گالی دے۔ سہل نے انکار کیا۔ اس پر آوہ حاکم بولا کہ اگر تو گالی دینے سے انکار کرتا ہے تو کہہ لعنت ہو اللہ کی ابو تراب پر۔ ۔۔۔۔۔
 
اور مسند احمد بن حنبل میں ہے
«لمّا خرج معاویة من الکوفة استعمل المغیرة بن شعبة، قال: فاقام خطباء یقعون فی علی. قال: وأنا إلی جنب سعید بن زید بن عمرو بن نفیل. قال: فغضب فقام فأخذ بیدی فتبعته فقال: ألا تری إلی هذا الرجل الظالم لنفسه الذی یأمر بلعن رجل من ا هل الجنّة؟...».
ترجمہ:۔
عبد الله بن المازنی سے روایت ہے جب معاویہ نے کوفہ چھوڑا تو اس نے مغیرہ بن شعبتہ کو مقرر کیا اور مغیرہ نے ایسے خطیب مقرر کیے جو حضرت علی عہ کی توھین کرین۔

 مسند ابن حنبل جلد 3 صفحہ 185 محقق شعیب الا ارنوط نے اس روایت کو حسن لکھا ہے۔

 حجر بن عدی اور ان کے ساتھیوں کو امیر المومنین علیہ السلام پر لعن کرنے کا حکم

 

حجر بن عدی اور ان کے ساتھی کوفہ میں معاویہ کے گورنروں کی طرف سے امیر المومنین علیہ السلام  کی شان میں گستاخی پر احتجاج کرتے تھے ،انہیں گرفتار کر کے دمشق کی طرف روانہ کیا گیا۔۔۔۔اور مقام عزار پر انہیں شہید کردیا گیا ۔۔۔ شہید کرنے سے پہلے معاویہ کے نمائندے نے معاویہ کا یہ پیغام انہیں دیا کہ اگر علی ابن ابی طالب سے اظہار برائت کر لے اور ان پر لعن کرئے تو ہم تمہیں آزاد کردیں گے ،اگر ایسا نہیں کیا تو سب کو قتل کریں گے ۔۔۔۔ مولی علی علیہ السلام کے ان جیالوں نے موت کو گلے لگانے کا عزم کیا اور سب شہید ہوئے ۔

فقال لهم رسول معاوية إنا قد أمرنا أن نعرض عليكم البراءة من على واللعن له فإن فعلتم تركناكم وإن أبيتم قتلناكم وإن أمير المؤمنين يزعم أن دماءكم قد حلت له بشهادة - 

 تاريخ الطبري ،ج ۳ص ۲۲۹، المؤلف : محمد بن جرير الطبري أبو جعفر الناشر : دار الكتب العلمية – بيروت الطبعة الأولى ، 1407۔

تاريخ مدينة دمشق ، علي بن الحسن إبن هبة الله بن عبد الله الشافعي  سنة الوفاة 571 ،تحقيق محب الدين أبي سعيد عمر بن غرامة العمري ،الناشر دار الفكر ، سنة النشر 1995 ، مكان النشر بيروت، عدد الأجزاء 70

الكامل في التاريخ،3 /335،تأليف: أبو الحسن علي بن أبي الكرم الشيباني،دار النشر: دار الكتب العلمية - بيروت - 1415هـ، الطبعة: ط2، تحقيق: عبد الله القاضي۔

  تاريخ ابن خلدون [3 /12] أنساب الأشراف [2 /167]

 

امیر المومنین علیہ السلام کے شیعوں کو قتل کرنے کا حکم

 

معاویہ کا اپنے گورنروں اور کمانڈروں کو امیرا المومنین علیہ کے شیعوں پر سختی کرنے ان معمولی بہانے انہیں قتل کرنے کا حکم ،اس سلسلے میں تاریخی کتابوں میں بہت سے شواہد موجود ہیں  ہم ذیل میں بعض کی طرف مختصر اشارہ کرتے ہیں ۔

 

وكان معاوية يبعث الغارات فيقتلون من كان في طاعة علي ومن أعان على قتل عثمان—

 

 الجزء المتمم لطبقات ابن سعد [1 /61] تاريخ دمشق [59 /119] سير أعلام النبلاء [3 /137]

 

وجه معاوية الضحاك بن قيس وأمره أن يمر بأسفل واقصة وأن يغير على كل من مر به ممن هو في طاعة على....

 

   تاريخ الطبري [4 /104] تاريخ دمشق [10 /145] الكامل في التاريخ [2 /97] المنتظم [2 /127]

وبسر بن أرطأة وكان معاوية وجهه إلى اليمن والحجاز في أول سنة أربعين وأمره أن ينظر من كان في طاعة على فيوقع بهم ففعل ذلك /

 الإصابة في تمييز الصحابة [1 /289] أسد الغابة [ص 113 الاستيعاب [ص 49

وأمره ؛ اقتل كل من كان في طاعة علي إذا امتنع من بيعتنا، وخذ ما وجدت لهم من مال-   أنساب الأشراف [1 /366] تاريخ الطبري [4 /107]

دعا الناس إلى بيعة معاوية ۔۔۔، وقتل جماعة من شيعة علي.

 

 أنساب الأشراف [1 /366] المنتظم [2 /128 الكامل في التاريخ [2 /100]

 مندجہ بالا اسناد اس سلسلے کے کچھ نمونے ہیں ۔

 

 

یہی چند نمونے ہیں ۔ ان سے واضح طور پر یہ ثابت ہوتی ہے کہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام  کو برا بلا کہنے کے سلسلے کا آغاز معاویہ کے دور حکومت میں ہوا وہ خود ، اس کے گورنر اور اس کے پیروکار اس سیاست پر سختی سے عمل کرتے تھے اور یہ سلسلہ عمر ابن عبد العزیز کے دور تک یعنی سنہ ۴۰ سے ۱۰۰ ہجری تک جاری رہا ۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔

بني امية کے سارے حکام امير المؤمنين علی ابن طالب عليه السلام کو سب وشتم کرتے تھے:

جیساکہ معتبر روایات کے مطابق خود امیر المومنین علیہ السلام نے اس چیز کی خبر دی تھی کہ  آپ کے آپ پر سب و شتم کرنے کا حکم دیا جائے گا  ۔ہم ذیل میں بعض تاریخی اسناد کی طرف اشارہ کریں گے کہ جو اس بات پر دلیل ہے کہ مولا علی علیہ السلام نے جو خبر دی  تھی وہ حقیقت پر مبنی تھی اور بعد میں جس طرح آپ نے فرمایا تھا ،ایسا ہی ہوا ۔

بنی امیہ کا جو بھی حاکم آتا وہ امير المؤمنين عليه السلام کو لعن کرتا تھا  :
۱:  حافظ ابن عساكر نے  تاريخ مدينه دمشق میں لکھا ہے  :
حدثنا خالد بن يزيد عن معاوية قال كان لا يقوم أحد من بني أمية إلا سب عليا فلم يسبه عمر فقال كثير عزة :
وليت فلم تشتم عليا ولم تخف بريا ولم تقنع سجية مجرم
وقلت فصدقت الذي قلت بالذي فعلت فأضحى راضيا كل مسلم .
تاريخ مدينه دمشق ، ج50 ، ص96 .

: جب بھی بنی امیہ کا کوئی حاکم آتا وہ علی علیہ السلام کو برا بلا کہتا ،لیکن عمر بن عبد العزيز نے ایسا نہیں کیا ۔ لہذا شاعر كثير العزة نے ان کی یوں تعریف کی  :
تم جب حاکم بنا تو نے علی کو سب و شتم نہیں کیا اور تم نہ ڈرے ۔ تو اچھا آدمی ہے۔  تو نے مجرم لوگوں کے طریقے پر عمل نہیں کیا ۔۔۔تو نے جو کہا سچ کہا اور اس کو انجام بھی دیا اسی لئے سارے مسلمان اس کام سے راضی تھے ۔

۲:   ابونعيم اصفهاني نے بھی "حلية الأولياء" میں بھی حافظ ابن عساكر کی روایت کو نقل کیا ہے :
ثنا خالد بن يزيد عن جعونة قال كان لا يقوم أحد من بني أمية إلا سب عليا فلم يسبه عمر بن عبد العزيز فقال كثير عزة :
وليت فلم تشتم عليا ولم تخف بريا ولم تتبع سجية مجرم
حلية الأولياء ، ابو نعيم ، (المتوفى: 430هـ)  ج5 ، ص356 ، ط الثانيه ، دار الكتب العلمية ، بيروت ، 1423 هـ .

 

عمر بن عبد العزيز نے اس سلسلے کوروکنا چاہا  


عمر بن عبد العزيز کے زمانے تک علي (عليه السلام)  کو برا بلا کہنے کا سلسلہ جاری رہا  :
۳:  محمد بن سعد{متوفی 230ھ} نے الطبقات الكبري میں  اور  ذهبي نے سير اعلام النبلاء میں نقل کیا ہے :
أخبرنا علي بن محمد عن لوط بن يحيى الغامدي قال كان الولاة من بني أمية قبل عمر بن عبد العزيز يشتمون عليا رحمه الله فلما ولي عمر أمسك عن ذلك .
الطبقات الكبري ، محمد بن سعد ، ج5 ، ص393 و سير اعلام النبلاء ، ج5 ، ص147 .
عمر بن عبد العزیز سے پہلے بنی امیه کے سارے حاکم ، علی ابن ابی طالب علیہ السلام  کو سب و شتم کرتے تھے ؛ لیکن جب  عمر بن عبد العزیز کی حکومت آئی تو اس نے اس کام کو انجام نہیں دیا .
۴:   ذهبي نے بھی  بني مروان کے حکام کے بارے میں  لکھا : في آل مروان نصب ظاهر سوى عمر بن عبد العزيز ... .
عمربن عبد العزيز کے علاوہ بنی مروان کے حکام علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے دشمن تھے۔  
سير اعلام النبلاء ، ج 5 ، ص113 ۔

۵:. مشہور تاریخ نگار  إسماعيل بن أبي الفداء اس سلسلے میں لکھتا ہے :
كان خلفاء بني أمية يسبون علياً رضي الله عنه من سنة إِحدى وأربعين وهي السنة التي خلع الحسن فيها نفسه من الخلافة إلى أول سنة تسع وتسعين آخر أيام سليمان بن عبد الملك فلما ولي عمر أبطل ذلك وكتب إِلى نوابه بإبطاله ... .

تاريخ أبي الفداء ، فصل في ذكر إبطال عمر بن عبد العزيز سب علي بن أبي طالب علي المنابر ، ج1 ،‌ ص287

۴۱ ہجری سے، جب حسن بن علی  علیہما السلام نے خلافت سے دوری اختیار کی ، اس وقت سے ۹۹ ہجری تک بنی امیہ کے سارے حکام  علی ابی طالب علیہ السلام کو برا بلا کہتے تھے اور یہ سلسلہ سليمان بن عبد الملك کے دور حکومت کے آخری ایام اور عمر بن عبد العزيز کے دور حکومت کے ابتدائی آیام تک جاری رہا ۔

۶: آلوسي کہ جو اہل سنت کے ایک نامور مفسر ہیں وہ آيه : «إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ ... » (النحل / 90) کی تفسير  میں لکھتا ہے :
أقامها عمر بن عبد العزيز حين آلت الخلافة إليه مقام ما كانو بنو أمية غضب الله تعالى عليهم يجعلونه في أواخر خطبهم من سب علي كرم الله تعالى وجهه ولعن كل من بغضه وسبه وكان ذلك من أعظم مآثره رضي الله تعالى عنه .
روح المعاني في تفسير القرآن العظيم والسبع المثاني ، آلوسي ، ج7 ، ص456 ، ط الأولي ، دار الكتب العلمية ، بيروت ، 1422 هـ .
  جس وقت عمر بن عبد العزيز خلیفہ بنا ان سے پہلے کے خلفاء { سب اللہ کے غیض و غضب کے مستحق قرار پائے} یہ سب اپنے خطبوں کے بعد علی علیہ السلام کو برا بلا کہتے تھے، عمر ابن ابی العزیز نے اس سے لوگوں کو منع کیا اور یہ اس کے نیک اور قابل فخر کاموں میں سے ہے ۔

۷:  ابن خلدون نے اپنی تاریخ میں نقل کیا ہے :
وكان بنو أمية يسبون عليا فكتب عمر إلى الآفاق بترك ذلك .
تاريخ ابن خلدون ، ج3 ، ص75 .
بني اميه  والے علی عليه السلام کو برا بلا کہتے تھے اور یہ سلسلہ عمر بن عبد العزيز کے دور تک باقی رہا ۔ اس نے  مختلف علاقوں میں خط لکھنے کے ذریعے اس کام سے منع کیا ۔

۸: شيخ محمد بن علي ، مشهور به ابن العمراني (متوفى: 580هـ) نے  الإنباء في تاريخ الخلفاء میں لکھتا ہے :
وكان بني امية كلهم يلعنون عليا ـ صلوات الله عليه وسلامه ـ علي المنبر ، فمذ ولي عمر بن عبد العزيز قطع تلك اللعنة .
الإنباء في تاريخ الخلفاء ، ابن العمراني ، ص51 ، ط الأولي ، دار الآفاق العربية ، مصر ، 1419 هـ .
  بني اميه  کے سارے حکام ، علي (عليه السلام) کو  ممبروں سے لعن کرتے تھے یہاں تک کہ  عمر بن عبد العزيز کا دور حکومت آیا اس نے اس چیز سے منع کیا ۔
۹:   شهاب الدين احمد بن عبد الوهاب نويري نے " نهاية الأرب في فنون الأدب "  بيعت عمر بن عبد والے فصل میں لکھا ہے  :
وكان من أول ما ابتدأ به عمر بن عبد العزيز أن ترك سب علي بن أبي طالب رضي الله عنه على المنابر، وكان يسب في أيام بني أمية إلى أن ولي عمر فترك ذلك .
نهاية الأرب في فنون الأدب ، النويري ، ج21 ، ص216 ، ط الأولي ، دار الكتب العلمية ، بيروت ، 1424 هـ .
عمر بن عبد العزيز نے پہلا کام یہ کیا کہ ممبروں سے علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو برا بلا کہنے سے منع کیا  بنی امیہ کے دور میں علي (عليه السلام) کو برا بلا کہتے تھے لیکن جب عمر بن عبد العزيز خليفه بنا تو اس نے یہ کام انجام نہیں دیا ۔
۱۰: حافظ جلال الدين سيوطي نے تاريخ الخلفاء میں لکھا  :
كان بنو أمية يسبون علي بن أبي طالب في الخطبة فلما ولي عمر ابن عبد العزيز أبطله وكتب إلى نوابه بإبطاله .
تاريخ الخلفاء ، السيوطي ، ص194 ، ط الأولي ، مصر ، دار الفجر للتراث ، 1420 هـ .
بني اميه والے  علي بن أبي طالب (عليه السلام) کو اپنے خطبوں میں برا بلا کہتے تھے لیکن جب عمر بن عبد العزیز خلیفہ بنا تو اس نے اس کام کو انجام نہیں دیا اور اپنے گونروں کو بھی اس کام کو انجام نہ دینے کا حکم دیا ۔
۱۱: مشہور تاریخ دان ابن أثير{ المتوفى: 630ھ} نے اس سلسلے میں لکھا ہے:
كان بنو أمية يسبون أمير المؤمنين علي بن أبي طالب عليه السلام إلى أن ولي عمر بن عبد العزيز فترك ذلك وكتب إلى العمال في الآفاق بتركه .
الكامل في التاريخ ، حوادث سال 99 هـ ، ج5 ، ص42 .
بني اميه والے  علي کو دشنام دیتے اور انہیں برا بلا کہتے ؛ یہاں تک کہ عمر بن عبد العزیز کی حکومت آئی تو اس نے ایسا نہیں کیا اور  اپنے گورنروں اور حکومتی نمائندوں کو اس سے منع کرنےکے لئے خط لکھا ۔
۱۲: خير الدين زركلي نے اپنی  كتاب ' 'الأعلام" میں  عمر بن عبد العزيز کے زندگی نامے  میں لکھا ہے  :
وولي الخلافة بعهد من سليمان سنة 99 ه‍ ، فبويع في مسجد دمشق . وسكن الناس في أيامه ، فمنع سب علي بن أبي طالب ( وكان من تقدمه من الأمويين يسبونه على المنابر ) .
الأعلام ، خير الدين الزركلي ، ج 5 ، ص50 .
عمر بن عبد العزيز ، 99 هـ  کو سليمان کے بعد خلیفہ بنا ، لوگوں نے دمشق کی مسجد میں اس کی بیعت کی۔ لوگ اس کے دور حکومت میں آرام اور سکون سے رہے اور انہوں نے علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو ممبروں سے سب و شتم کرنے سے منع کیا جبکہ اس سے پہلے کے بنی امیہ کے حکام کا طریقہ کار ممبروں سے انہیں برا بلا کہنا تھا ۔  

مغيرة بن شعبة اور  سبّ امير المؤمنين :


خوارزمي کہ جو اہل سنت کے مشهور تاریخ نگار ہے وہ مقتل الحسين عليه السلام میں لکھتا ہے :

ایک جلسہ کہ جو  امام حسن علیہ السلام اور معاویہ کی موجودگی میں ہوا اس میں بنی امیہ والے ایک ایک کر کے اٹھے اور جو منہ میں آیا حضرت علی علیہ السلام کے خلاف کہہ دیا، یہاں تک کہ جب مغیرہ {اللہ کی لعنت ہو اس پر } کی باری آئی تو وہ اٹھا اور اس طرح بولنا شروع کیا :
إن علياً ناصب رسول الله صلي الله عليه وسلم في حياته ، وأجلب عليه قبل موته وأراد قتله ، فعلم ذلك من أمره رسول الله ، ثم كره أن يبايع أبا بكر حتي أتي به قوداً ، ثم نازع عمر حتي همّ أن يضرب عنقه ، ثم طعن علي عثمان حتي قتله ، و قد جعل الله سلطاناً لولي المقتول في كتابه المنزل ، فمعاوية ولي المقتول بغير حق ، فلو قتلناك وأخاك كان من الحق ، فو الله ما دم ولد علي عندنا بخير من دم عثمان ، و ما كان الله ليجمع فيكم الملك مع النبوة .
مقتل الحسين ، ج1 ،‌ ص170 .
علي (عليه السلام) نے پيامبر (صلي الله عليه وآله وسلم) کی زندگی میں ان سے دشمنی کی {نعوذ باللہ }اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی میں انہیں قتل کرنا چاہا۔ رسول اللہ صلي الله عليه وآله وسلم اس سے باخبر ہوئے ۔ آپ کے بعد ابوبکر کی بیعت نہیں کی لیکن اس کو مجبور کر کے بیعت کے لئے لایا گیا اور عمر مقابلے کے لئے اٹھا اور قریب تھا عمر ان کی گردن اڑا دیتا ۔پھر بعد میں عثمان کی برائی بیان کرنا شروع کیا یہاں تک کہ لوگ اس کے خلاف اٹھے اور وہ قتل ہوا۔ اللہ نے قرآن میں ہر قتل ہونے والے کے لئے ایک ولی قرار دیا ہے تاکہ اس کے خون کا بدلہ لیا جائے ، معاویہ عثمان کے ولی اور وارث ہے لہذا تجھے {امام حسن علیہ السلام سے مخاطب ہوکر }اور تیرے بھائی کو قتل کرئے تو تم لوگ اس کے مستحق ہیں۔ اللہ کی قسم علی کے بیٹوں کے خون کی قیمت ہمارے نذدیک عثمان کے خون سے قیمتی نہیں ہے۔ اللہ نے نبوت اور بادشاہت دونوں کو تم لوگوں  میں ہی قرار نہیں دیا ہے ۔   

معاویہ کا خصوصی گورنر مغيرة بن شعبه اور سب و شتم 

۔ ابن خلدون نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے  :
كان المغيرة بن شعبة أيام امارته على الكوفة كثيرا ما يتعرض لعلى في مجالسه وخطبه ويترحم على عثمان ويدعو له .
  تاريخ ابن خلدون۔ 3/ 12 ۔   وفاة المغيرة
مغيرة بن شعبه ،كوفه میں اپنی حکومت کے دوران اپنے خطبوں اور جلسوں میں علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو برا بلا کہتے تھے اور عثمان پر رحمت پر اور اس کی مغفرت کے لئے دعا کرتا۔

ذهبي نے  سير اعلام النبلاء میں لکھا ہے  :
كان المغيرة ينال في خطبته من علي ، وأقام خطباء ينالون منه .
سر اعلام النبلاء ، ج3 ، ص31 .  یشتمون علیا
مغيره اپنے خطبوں میں  علي (عليه السلام)  کو برا بلا کہتا تھا اور خطیبوں کو حضرت علی علیہ السلام کے خلاف برا بلا کہنے کے لئے مامور کرتا تھا  ۔


مروان اور بنی مروان والے امير المؤمنين (عليه السلام) کو برا بلا کہتے :


ابن عساكر نے تاريخ مدينه دمشق میں اور  احمد بن حنبل نے العلل میں لکھا ہے  :
عن ابن عون عن عمير بن إسحاق قال كان مروان بن الحكم أميرا علينا ست سنين فكان يسب عليا كل جمعة على المنبر ثم عزل فاستعمل سعيد بن العاص سنتين فكان لا يسبه ثم عزل وأعيد مروان فكان يسبه فقيل يا حسن ألا تسمع ما يقول هذا فجعل لا يرد شيئا قال وكان حسن يجئ يوم الجمعة فيدخل في حجرة النبي ( صلى الله عليه وسلم ) فيقعد فيها فإذا قضيت الخطبة خرج فصلى ثم رجع إلى أهله .
تاريخ مدينه دمشق ، ج57 ، ص243 و العلل ، احمد بن حنبل ، ج3 ، ص176 .
عمير بن اسحاق کہتا ہے  : مروان حكم جس نے چھے سال ہم پر حکومت کی وہ ہر جمعہ کو ممبر سے علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو برا بلا کہتا تھا ۔پھر اس کو ہٹایا اور سعید بن عاص ہمارا حاکم بنا لیکن وہ علی کو برا بلا نہیں کہتا تھا لہذا اس کو ہٹا کر دوبارہ مروان کو حاکم بنایا اور اس نے پھر سے علی علیہ السلام کو بر بلا کہنا شروع ۔امام حسن مجتبي (عليه السلام) سے کسی نے کہا: کیا آپ نہیں سن رہے ہیں کہ یہ کیا کہہ رہا ہے  ؟ امام نے توجہ نہیں دی ، امام حسن علیہ السلام جمعہ کو مسجد تشریف لاتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کمرے میں  تشریف لے جاتے اور وہی بیٹھ جاتے ،خطبہ ختم ہونے کے بعد باہر آتے اور نماز پڑھتے اور گھر واپس تشریف لے جاتے.
سيوطي نے  تاريخ الخلفاء میں لکھا ہے  :
عن عمير بن إسحاق قال: كان مروان أميراً علينا فكان يسب علياً كل جمعة على المنبر وحسن يسمع فلا يرد شيئاً ثم أرسل إليه رجلا يقول له بعلي وبعلي وبعلي وبك وبك وما وجدت مثلك إلا مثل البغلة يقال لها من أبوك؟ فتقول أمي الفرس فقال له الحسن: أرجع إليه فقل له إني والله لا أمحو عنك شيئاً مما قلت بأن أسبك ولكن موعدي وموعدك الله .
تاريخ الخلفاء ، ترجمه امام حسن عليه السلام .
عمير بن بن اسحاق سے نقل ہوا ہے : ہمارا حاکم اور گورنر مروان حکم تھا وہ ہر جمعہ کو ممبر سے خطبے میں علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو برا بلا کہتا لیکن امام حسن علیہ السلام یہ سب سنتے اور کچھ نہیں فرماتے ،مروان نے کسی کو امام کے پاس بھیجا  تاکہ امام کے سامنے امام کی اور ان کے والد کی برائی کرئے،اس نے امام سے کہا تجھ جیسا گھوڑا اور خچر نہیں دیکھا {نعوذ بااللہ} اس سے پوچھا تیر باپ کون ہے ؟ اس نے کہا : گھوڑا ۔ امام حسن مجتبی علیہ السلام نے فرمایا : جاو مروان سے کہو میں تجھے جواب نہیں دوں گا، تیری طرح گالی نہیں دوں گا تاکہ تیرا گناہ کم ہوجائے۔ روز قیامت اللہ کے حضور میری اور تیری ملاقات ہوگی۔

سب جگہ ممبروں سے علی علیہ السلام پر لعن و طعن  :


ياقوت حموي { المتوفى: 626ھ} ، کہ جو اہل سنت کے مشہور تاریخ دان ہے وہ لکھتا ہے  :
لعن علي بن أبي طالب ، رضي الله عنه ، على منابر الشرق والغرب ... منابر الحرمين مكة والمدينة .
معجم البلدان ، ج3 ، ص191 .
علي (عليه السلام) پر مشرق ، مغرب اور مکہ اور مدینہ کے ممبروں سے لعن طعن کرتے تھے ۔

۷۰ ہزار ممبروں سے علی  علیہ السلام پر لعن طعن :


زمخشري ، کہ جو اہل سنت کے مشہور مفسر  اور  اديب ہیں ،لکھتے ہیں  :
إنّه كان فى أيّام بنى اميّة أكثر من سبعين ألف منبر يلعن عليها علىّ بن أبى طالب بما سنّه لهم معاوية من ذلك.
ربيع الأبرار ، ج 2 ، ص186 و النصايح الكافية ، محمد بن عقيل ، ص79 به نقل از سيوطي .
بنی امیہ کے دور میں ۷۰ ہزار ممبروں سے علی علیہ السلام پر لعن و طعن کیا جاتا تھا اور یہ معاویہ کی بنائی ہوئی سنت تھی .


علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو برا بلا کہنے کی روایات متواتر ہیں  :
شيخ محمود سعيد بن ممدوح ، امير المؤمنين عليه السلام کو سب و شتم اور ان پر لعن و طعن کے سلسلے میں روایات اور واقعات کو ذکر کرنے کے بعد لکھتا ہے :
الآثار في هذه الجريمة البشعة وأخبارها الشنيعة متواترة ، وهذه عظيمة تصغر عندها العظائم ، وجريمة تصغر عندها الجرائم وشنيعة تتلاشي أمام بشاعتها الشنائع .
غاية التبجيل ، محمود سعيد ، ص283 ، ط الأولي ، مكتبة الفقيه ، الإمارات ، 1425 هـ .
اس برے اور مجرمانہ کام کے دلايل اور  شواهد بہت زیادہ اور متواتر ہیں ،کہا جاسکتا ہے کہ یہ برا عمل اس حد تک  بڑا جرم اور برا کام ہے کہ دوسرے جرائم اور برے کام اس کے مقابل میں چھوٹا اور کم اہمیت ہے ۔

 

سب و شتم ،امیر المومنین علیہ السلام کے دشمنوں سے تقرب کا وسیلہ

اهل بيت عليهم السلام کے دشمنوں کے قریب ہونے کے لئے  اہل بیت علیہم السلام کی برائی :
قال أخبرنا مالك بن إسماعيل قال حدثنا سهل بن شعيب النهمي وكان نازلا فيهم يؤمهم عن أبيه عن المنهال يعني بن عمرو قال دخلت على علي بن حسين فقلت كيف أصبحت أصلحك الله فقال ما كنت أرى شيخا من أهل المصر مثلك لا يدري كيف أصبحنا فأما إذ لم تدر أو تعلم فسأخبرك أصبحنا في قومنا بمنزلة بني إسرائيل في آل فرعون إذ كانوا يذبحون أبناءهم ويستحيون نساءهم وأصبح شيخنا وسيدنا يُتقرب إلى عدونا بشتمه أو سبه على المنابر .
الطبقات الكبري ، محمد بن سعد ، ج 5 ، ص220 و تهذيب الكمال ، مزي ، ج 20 ، ص400 ترجمه امام علي بن الحسين و المنتخب من ذيل المذيل ، محمد بن جرير طبري ، ص120 .
منهال بن عمرو کہتا ہے : میں  علی بن الحسین ( امام سجاد علیه السلام ) کے پاس گیا اور ان سے عرض کیا  :  اللہ آپ کو سلامت رکھے ،آپ نے کیسے صبح کی {آپ کی حالت کیسی ہے} امام نے فرمایا : میرا ایسا خیال نہیں تھا کہ شہر کے کسی بزرگ اور بڑے کو ہماری حالت کا علم نہ ہو ، اب جو تجھے معلوم نہیں تو میں بتا دیتا ہوں ، ہماری حالت اپنی قوم میں ایسا ہے جیسے فرعونیوں کے پاس بنی اسرائیل کی حالت تھی  ان کے فرزندوں کو قتل کرتے تھے اور ان کی عورتوں کو زندہ رکھتے تھے اور ہمارے دشمنوں سے قریب ہونے کے لئے ہمارے سردار { علی ابن ابی طالب ع } کی شان میں  توہین کرتے ہیں اور برا بلا کہے جاتے ہیں۔  

امير المؤمنين (عليه السلام) فضائل  اور ان کو سب وشتم کرنا قابل جمع نہیں ہے:

امام محمد بن ابراهيم الوزير اليماني  بعض راویوں کی طرف سے اہل بیت کے فضائل نقل کرنے کے سلسلے میں لکھتا ہے :

روايتهم لفضائل علي عليه السلام وفضائل أهل البيت في أيام بني امية وهو عليه السلام ـ حاشا مع ذلك ـ يُلعنُ علي المنابر ولا يروي فضائله إلا من خاطر بروحه .
العواصم والقواسم في الذب عن سنة أبي القاسم ، ابن الوزير ، ج2 ،‌ ص400 ، ط الثالثة ، مؤسسه الرسالة ، بيروت ، 1415 هـ .
بنی امیہ کے دور میں علي اور اهل بيت (عليهم السلام) کے فضائل کی بات کرنا ممکن نہیں تھا ، لیکن ممبروں سے ان پر لعن و طعن کیا جاتا تھا لہذا ان کے دور میں یہ دونوں قابل جمع نہیں  تھا ۔

بني اميه والے سرزنش کے مستحق ہیں :


ڈاکٹر فرحان المالكي کہتے ہیں  :
فبنو أمية اذن يستحقون الذم لأنهم لم يغسموا ألسنتهم في البحث فقط ، وإنما تجاوزوا ذلك إلي اللعن علي المنابر وسفك الدماء ، و فرضوا هذا الظلم علي الأمة حتي جاءت الأجيال تعتقد أنهم مأجورون علي هذا !
مع سليمان العلوان في معاوية ، ص35 .
بنی امیہ والے سرزنش کے مستحق ہے ؛ کیونکہ انہوں نے صرف علی ابن ابی طالب ع کو برا بلا کہنے پر اکتفاء نہیں کیا  ؛ بلکہ ممبروں سے بھی آپ  (عليه السلام) پر لعن طعن کیا اور اہل بیت اور ان کے چاہنے والوں کے خون بہایا ہے اور اس ظلم کو سب کے لئے ضروری قرار دیا ۔ یہاں تک کہ بنی امیہ والے اپنی بعد کی نسلوں کو بھی اس کام کی وجہ سے اجر و ثواب کا مستحق قرار دیتے تھے۔

 

بنی امیہ کی حکومت امير المؤمنين عليه السلام کو بلا بلا کہنے پر ہی قائم تھی :


ابن عساكر نے امام سجاد عليه السلام سے نقل کیا ہے :
قال مروان بن الحكم ما كان في القوم أحد أدفع عن صاحبنا من صاحبكم يعني عليا عن عثمان قال قلت فما لكم تسبونه على المنبر قال لا يستقيم الأمر إلا بذلك.
تاريخ مدينة دمشق ، ج42 ، ص 438 و الصواعق المحرقة ، ابن حجر هيثمي ، ص 33 و النصائح الكافية ، محمد بن عقيل ، ص 114 از دار قطني و شرح نهج البلاغة ، ج13 ، ص220 .
مروان بن حکم نے مجھ سے کہا : لوگوں میں کوئی جتنا اپ کے صاحب { حضرت علی} سے دفاع کرنے والے تھے اتنا ہمارے صاحب {عثمان } سے دفاع کرنے والے نہ تھے ۔ میں  نے اس سے پوچھا تو پھر کیوں ممبروں سے انہیں برا بلا کہتے ہو ؟ اس نے جواب دیا : یہ نہ ہو تو حکومت ختم ہوجاتی ہے ۔

  بلاذري لکھتا ہے  :
قال مروان لعلي بن الحسين : ما كان أحد أكف عن صاحبنا من صاحبكم . قال : فلم تشتمونه على المنابر ؟ ! ! قال : لا يستقيم لنا هذا إلا بهذا ! ! .
أنساب الأشراف ، ص 184.
مروان نے علي بن الحسين علیہما السلام سے کہا  : کوئی ایسا نہیں تھا کہ جو اپ کے صاحب کی طرح ہمارے صاحب سے دفاع کرئے ؛ علی بن الحسین نے جواب میں فرمایا  : تو پھر کیوں ممبروں سے ان پر لعن طعن کرتے ہو  ؟ اس نے کہا  : اس کے بغیر ہمارا کام ہی نہیں چلتا۔

  امير المؤمنين (عليه السلام) کی برائی بیان کرتے وقت لگنت زبان:
ابن أثير اور بلاذري نے عبد الله بن عبيد الله سے نقل کیا ہے  :
وكان أبي إذا خطب فنال من علي رضي الله عنه تلجلج فقلت يا أبت إنك تمضي في خطبتك فإذا أتيت على ذكر علي عرفت منك تقصيرا ؟ قال : أو فطنت لذلك ؟ قلت : نعم . فقال يا بني إن الذين حولنا لو يعلمون من علي ما نعلم تفرقوا عنا إلى أولاده .
الكامل في التاريخ ، حوادث سال 100 هـ ، ج5 ، ص42 و انساب الأشراف ، ج8 ، ص195 .
میرا بابا جب بھی خطبہ دیتا اور اس میں علي (عليه السلام) کے خلاف بات کرتا تو اس کی زبان میں لگنت پیدا ہوجاتی ، میں نے اس سے پوچھا  :کیا وجہ ہے جب خطبے میں  علي (عليه السلام) کے خلاف کچھ کہنا چاہتا ہے تو بہت سخت انداز میں بات کرتے ہو اور زبان لڑکھڑا جاتی ہے؟ باپ نے کہا : کیا تو نے اس کو محسوس کیا ؟ کہا: ہاں ۔ پھر کہا میرے  بیٹے! جو فضائل علی ابن ابی طالب کے بارے میں ہم جانتے ہیں اگر لوگوں کو پتہ چل جائے تو ہم سے لوگ دور بھاگیں گے اور سب علی علیہ السلام کے بیٹوں کے پاس چلے جائیں گے۔ 

سب و شتم کو رواج دینے والا اصلی سیاست مدار

گزشتہ صفحات میں ہم نے بنی امیہ کے دور کے حاکموں میں رائج اس انتہائی بری سنت کی طرف اشارہ کیا ۔۔ اب ہم ذیل میں اس بری سنت اور بدعت کی کا اصلی بانی معاویہ اور اس کی حکومت ہونے پر بعض شواہد پیش کرتے ہیں ۔

 

خود معاویہ اس کا اصلی محرک تھا ۔

 صحیح مسلم، کتاب الفضائل الصحابہ، باب من فضائل علی بن ابی طالب۔
- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ، - وَتَقَارَبَا فِي اللَّفْظِ - قَالاَ حَدَّثَنَا حَاتِمٌ، - وَهُوَ ابْنُ إِسْمَاعِيلَ - عَنْ بُكَيْرِ بْنِ مِسْمَارٍ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ أَمَرَ مُعَاوِيَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ سَعْدًا فَقَالَ مَا مَنَعَكَ أَنْ تَسُبَّ أَبَا التُّرَابِ فَقَالَ أَمَّا مَا ذَكَرْتُ ثَلاَثًا قَالَهُنَّ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَلَنْ أَسُبَّهُ لأَنْ تَكُونَ لِي ۔۔۔
ترجمہ: معاویہ نے سعد کو حکم [أَمَرَ مُعَاوِيَةُ] دیتے ہوئے کہا کہ تمہیں کس چیز نے روکا ہے [مَا مَنَعَكَ] کہ تم ابو تراب [یعنی علی ابن ابی طالب] پر سب نہ کرو [سب: گالیاں دینا ، برا بھلا کہنا]۔ اس پر سعد نے کہا میں نے رسول ص سے علی کے متعلق تین ایسی باتیں سنی ہیں کہ جس کے بعد میں کبھی علی پر سب [گالیاں دینا، برا بھلا کہنا] نہیں کہہ سکتا ۔۔۔

 ابن کثیر الدمشقی۔۔۔۔۔۔وقال أبو زرعة الدمشقي‏:‏ ثنا أحمد بن خالد الذهبي أبو سعيد، ثنا محمد بن إسحاق، عن عبد الله بن أبي نجيح، عن أبيه قال‏:‏ لما حج معاوية أخذ بيد سعد بن أبي وقاص‏.‏فقال‏:‏ يا أبا إسحاق إنا قوم قد أجفانا هذا الغزو عن الحج حتى كدنا أن ننسى بعض سننه فطف نطف بطوافك‏.‏قال‏:‏ فلما فرغ أدخله دار الندوة فأجلسه معه على سريره، ثم ذكر علي بن أبي طالب فوقع فيه‏.‏فقال‏:‏ أدخلتني دارك وأجلستني على سريرك،ثم وقعت في علي تشتمه ‏؟‏والله لأن يكون في إحدى خلاله الثلاث أحب إلي من أن يكون لي ما طلعت عليه الشمس، ولأن يكون لي ما قال۔۔۔۔۔۔۔، ثم نفض رداءه ثم خرج‏.‏

ابن کثیر الدمشقی، کتاب البدایہ و النہایہ، حلد7، صفحہ341، باب فضائل علی ابن ابی طالب
ترجمہ: ابو زرعہ الدمشقی عبداللہ بن ابی نجیح کے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جب معاویہ نے حج کیا تو وہ سعد بن ابی وقاص کا ہاتھ پکڑ کر دارالندوہ میں لے گیا اور اپنے ساتھ تخت پر بٹھایا۔ پھر علی ابن ابی طالب کا ذکر کرتے ہوئے انکی عیب جوئی کی۔ اس پر سعد بن ابی وقاص نے جواب دیا: "آپ نے مجھے اپنے گھر میں داخل کیا، اپنے تخت پر بٹھایا،پھر آپ نے علی ابن ابی طالب کے حق میں بدگوئی اور سب و شتم شروع کر دیا۔خدا کی قسم، اگر مجھے علی کے تین خصائص و فضائل میں سے ایک بھی ہو تو وہ مجھے اس کائنات سے زیادہ عزیز ہو جس پر سورج طلوع ہوتا ہے۔ کاش کہ نبی اللہ ص نے میرے حق میں یہ فرمایا ہوتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھر سعد بن ابی وقاص نے اپنی چادر جھٹکی اور وہاں سے نکل گئے۔"
نوٹ:
یہ صحیح روایت ہے۔ ایک راوی احمد بن خالد پر اعتراض کرنے کی کوشش کی ہے۔ مگر یہ راوی احمد بن خالد انتہائی ثقہ ہیں اور ان کی ضعیف ثابت کرنے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی۔ انکے متعلق ائمہ رجال کے اقوال:
الذھبی: امام، محدث، ثقہ [سر اعلام النبلاء جلد 9، صفحہ 539]
امام یحیی ابن معین: ثقہ [تہذیب الکمال جلد 1، صفحہ 301]
امام ابن حبان نے ان کا اپنی کتاب "الثقات" میں شامل کیا ہے [جلد 8، صفحہ 6]
امام ابن ماجہ نے احمد بن خالد سے روایات نقل کی ہیں اور سعودیہ کے شیخ البانی نے ان احادیث کو صحیح قرار دیا ہے [سنن ابن ماجہ، جلد 2، حدیث 3188]
سنن ابن ماجہ،  

حدثنا علي بن محمد حدثنا أبو معاوية حدثنا موسى بن مسلم عن ابن سابط وهو عبد الرحمن عن سعد بن أبي وقاص قال قدم معاوية في بعض حجاته فدخل عليه سعد فذكروا عليا فنال منه فغضب سعد و قال تقول هذا لرجل سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول من كنت مولاه فعلي مولاه وسمعته يقول أنت مني بمنزلة هارون من موسى إلا أنه لا نبي بعدي وسمعته يقول لأعطين الراية اليوم رجلا يحب الله ورسوله
ترجمہ:
یعنی حج پر جاتے ہوئے سعد بن ابی وقاص کی ملاقات معاویہ سے ہوئی اور جب کچھ لوگوں نے علی کا ذکر کیا تو اس پر معاویہ نے علی کی بدگوئی کی۔ اس پر سعد بن ابی وقاص غضبناک ہو گئے اور کہا کہ تم علی کے متعلق ایسی بات کیوں کہتے ہو۔ میں نے رسول اللہ ص کو کہتے سنا ہے کہ جس جس کا میں مولا، اُس اُس کا یہ علی مولا، اور یہ کہ اے علی آپکو مجھ سے وہی نسبت ہے جو کہ ہارون ع کو موسی ع سے تھی سوائے ایک چیز کہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا، اور میں نے [رسول اللہ ص] سے یہ بھی سنا ہے کہ کل میں علم ایسے شخص کو دوں گا جو اللہ اور اور اسکے رسول سے محبت کرتا ہے۔
یہ بالکل صحیح الاسناد روایت ہے اور البانی صاحب نے اسے "سلسلة الأحاديث الصحيحة" میں ذکر کیا ہے۔

صلح میں امیر المومنین علیہ علیہ السلام کو گالی نہ دینے کی شرط

عجیب مظلومیت ۔۔۔ عجیب تاریخی حقیقت ہے کہ امام حسن علیہ السلام اس منحوس سلسلے کو روکنے کے لئے صلح نامے میں امیر المومنین کو برا بلا نہ کہنے کی شرط رکھتے ہیں لیکن یہ شرط جب قبول نہیں ہوتی تو آپ یہ شرط رکھتے ہیں کہ کم از کم ان کے حضور میں ایسا نہ کیا جائے ۔۔۔۔

: ابن عساکر نے تاریخ مدینہ الدمشق میں لکھتے ہیں:
اخبرنا أبو بكر محمد بن عبد الباقي أنا الحسن بن علي أنا محمد بن العباس أنا احمد بن معروف نا الحسين بن محمد بن سعد أنا أبو عبيد عن مجالد عن الشعبي وعن يونس بن أبي إسحاق عن أبيه وعن أبي السفر وغيرهم ۔۔۔۔۔۔۔ ولا يسب علي وهو يسمع ۔۔۔۔۔

ترجمہ: یعنی حسن بن علی نے جب معاویہ سے صلح کی تھی تو اس میں جو شرائط تھیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ "۔۔۔۔۔ اور علی ابن ابی طالب پر سب [گالیاں دینا ، برا بھلا کہنا] نہیں کیا جائے گا جب کہ وہ سن رہے ہوں۔۔۔۔۔
ابن عساکر نے یہ اس شرط کا ذکر تین روایات میں کیا ہے، جس میں سے دوسری روایت کے تمام راوی ثقہ ہیں اور یہ صحیح روایت ہے۔
 ۔۔۔ابن کثیر اپنی کتاب البدایہ و النہایہ میں لکھتے ہیں:
فاشترط أن يأخذ من بيت مال الكوفة خمسة آلاف ألف درهم، وأن يكون خراج دار أبجرد له، وأن لا يسب علي وهو يسمع
ترجمہ:[حسن] نے یہ شرائط رکھیں کہ کوفہ کے بیت المال سے پچاس لاکھ درھم کا خراج انہیں [اور انکی فوج] کے حوالے رکھا جائے اور دار ابجرد کا خراج بھی انہیں کو ملے اور یہ کہ علی ابن ابی طالب پر سب [گالیاں دینا، برا بھلا کہنا] نہ کیا جائے جبکہ وہ اسے سن سکتے ہوں۔  

 ابن كثير إسماعيل بن عمر بن كثير القرشي أبو الفداء،البداية والنهاية۔ ۔ج ۸ ص ۱۴: مكتبة المعارف - بيروت
علامہ ابن اثیر اپنی کتاب تاریخ الکاملمیں لکھتے ہیں:
وكان الذي طلب الحسن من معاوية أن يعطيه ما في بيت مال الكوفة، ومبلغه خمسة آلاف ألف، وخراج دار ابجرد من فارسن وأن لا يشتم علياً، فلم يجبه إلى الكف عن شتم علي، فطلب أن لا يشتم وهو يسمع، فأجابه إلى ذلك ثم لم يف له به أيضاً، وأما خراج دار ابجرد فإن أهل البصرة منعوه منه وقالوا: هو فيئنا لا نعطيه أحداً، وكان منعهم بأمر معاوية أيضاً.
ترجمہ:امام حسن نے امیر معاویہ سے جو امور طلب کئے تھے وہ یہ تھے کہ کوفے کے بیت المال کی تمام رقم جسکی مقدار پچاس لاکھ تھی اور فارس کے دار ابجرد کا خراج انہیں دیا جائے [تاکہ وہ اپنی فوج کا خرچ ادا کر سکیں]اور یہ کہ علی ابن ابی طالب پر سب و شتم نہ کیا جائے۔ معاویہ نے سب و شتم سے باز رہنے کو منظور نہیں کیا۔ اسپر امام حسن نے پھر طلب کیا کہ انکو ایسے وقت میں سب و شتم نہ کیا کریں

الكامل في التاريخ ،ج ۳ ص ۲۷۲: أبو الحسن علي بن أبي الكرم محمد بن محمد بن عبد الكريم الشيباني،دار النشر: دار الكتب العلمية - بيروت - 1415هـ، الطبعة: ط2، تحقيق: عبد الله القاضي

المختصر في أخبار البشر (1/ 126،  ) :

  امام الذھبی اپنی کتاب "العبر في خبر من غبر ، ج ۱ ص ۳۵" میں یہی روایت نقل کرتے ہیں کہ علی ابن ابی طالب پر سب و شتم نہ کیا جائے۔

ثم كتب إلى معاوية على أن يسلم إليه بيت المال وأن لا يسب عليًا بحضرته وأن يحمل إليه خراج فسا ودارابجرد كل سنة‏.‏

العبر في خبر من غبر۔ المؤلف : الذهبي محمد بن أحمد بن عثمان ،المحقق : أبو هاجر محمد السعيد بن بسيوني زغلول،الناشر : دار الكتب العلمية – بيروت

امام الذھبی نے سير أعلام النبلاء میں لکھا ہے ۔

ثُمَّ كَاتَبَ مُعَاوِيَةَ فِي الصُّلْحِ عَلَى أَنْ يُسِلِّمَ لَهُ ثَلاَثَ خِصَالٍ: يُسلِّمَ لَهُ بَيْتَ المَالِ فَيَقْضِي مِنْهُ دَيْنَهُ وَمَوَاعِيدَهُ وَيَتحمَّلَ مِنْهُ هُوَ وَآلُهُ، وَلاَ يُسَبَّ عَلِيٌّ وَهُوَ يَسَمَعُ،۔۔۔۔۔ سير أعلام النبلاء   (5/ 256):

یعنی جس وقت امام حسن علیہ السلام سن رہے ہو اس وقت کم از کم امیر المومنین علی علیہ السلام کو برا بلا نہ کہنا ۔۔۔۔

 

  ابن جریر طبری بھی یہ روایت نقل کرتے ہیں۔

وقد كان صالح الحسن معاوية على أن جعل له ما في بيت ماله وخرج دارا بجرد على ألا يشتم علي وهو يسمع۔۔  تاريخ الطبري (3/ 165 :

  تاريخ مدينة دمشق میں بھی یہ روایت موجود ہے ؛۔۔۔۔۔ولا يسب علي وهو يسمع

تاريخ مدينة دمشق (13/ 264۔ إبن هبة الله علي بن الحسن الشافعي ، {م 571 }،تحقيق محب الدين العمري،الناشر دار الفكر 1995،مكان النشر بيروت

 کہ امام حسن نے معاویہ سے اس شرط پر صلح کی کہ علی ابن ابی طالب پر سب و شتم نہ کیا جائے گا ایسے وقت میں جبکہ وہ اسے سن رہے ہوں۔  

 
  ابن [تاریخ ابن خلدون، جلد 2، صفحہ 648]:
فكتب إلى معاوية يذكر له النزول عن الأمر على أن يعطيه ما في بيت المال بالكوفة و مبلغه خمسة آلاف ألف و يعطيه خراج دار ابجرد من فارس و ألا يشتم عليا و هو يسمع
ترجمہ: یعنی امام حسن نے شرط رکھی کہ علی ابن ابی طالب کو گالیاں نہیں دی جائیں گی جبکہ وہ اسے سن سکتے ہوں۔


علامہ اسمعیل بن ابو الفداء اپنی تاریخ ابوالفداء جلد اول، صفحہ 648 پر لکھتے ہیں:

وكان الذي طلبه الحسن أن يعطيه ما في بيت مال الكوفة وخراج دارا بجرد من فارس وأن لا يسب علياً فلم يجبه إلى الكف عن سبّ علي فطلب الحسن أن لا يشتم علياً وهو يسمع فأجابه إِلى ذلكَ ثم لم يف له به
ترجمہ:   یعنی علی ابن ابی طالب کو گالیاں نہیں دی جائیں گی جبکہ وہ اسے سن سکتے ہوں۔
     

جناب ام سلمہ کا سخت رد و عمل :


ابن عبد ربه الأندلسي  نے العقد الفريد میں لکھا ہے:

۔  فأمسك معاوية عن لعنه حتى مات سعد. فلما مات لَعنه عَلَى المنبر، وكتب إلى عماله أن يَلعنوه على المنابر، ففعلوا. فكتبتْ أم سَلمة زوج النبيّ صلى عليه وسلم إلى معاويةإنكم تلعن اللّه ورسولَه على منابركم، وذلك أنكم تلعنون عليّ بن أبي طالب ومن أحبّه، وأنا أشهد أن اللّه  ۔ : العقد الفريد (2/ 127
"جب تک سعد زندہ رہا معاویہ نے بھی خاموشی اختیار کی جب سعد دنیا سے چلا گیا تو ممبر سے علی ابن ابی طالب پر لعن کرنا شروع کیا اور اپنے گورنروں اور حاکموں کو بھی ممبروں سے لعن کرنے کا حکم دیا ۔۔۔یہ صورت حال دیکھ کر جناب ام سلمہ نے معاویہ کو خط لکھا۔۔۔ تم لوگ[معاویہ]منبر رسول سے اللہ اور اسکے رسول پر لعن کر رہے ہو، اور یہ اسطرح کہ تم علی ابن ابی طالب پر لعن کر رہے ہو اور ہر اُس پر جو علی سے محبت کرتا ہے۔ اور میں گواہ ہوں کہ اللہ اور اسکا رسول علی سے محبت رکھتے تھے۔" مگر ام سلمہ سلام اللہ علیہا نے جو کچھ کہا کسی نے اسکی پرواہ نہ کی۔

ام المومنین حضرت ام سلمہ سلام اللہ علیہا کی سے کئی طریقوں سے امام احمد نے اپنی مسند میں نقل کی ہے۔  :
 
25523 حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ اَبِي بُكَيْرٍ، قَالَ حَدَّثَنَا اِسْرَائِيلُ، عَنْ اَبِي اِسْحَاقَ، عَنْ اَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْجَدَلِيِّ، قَالَ دَخَلْتُ عَلَى اُمِّ سَلَمَةَ فَقَالَتْ لِي اَيُسَبُّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيكُمْ قُلْتُ مَعَاذَ اللَّهِ اَوْ سُبْحَانَ اللَّهِ اَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ سَبَّ عَلِيًّا فَقَدْ سَبَّنِي‏.‏
اس روایت میں ام سلمہ سلام اللہ علیہا صحابہ کو علی ابن ابی طالب پر "سب" کرنے کو رسول اللہ ص پر "سب" کرنا قرار دے رہی ہیں۔

   
  امام حاکم نے اپنی کتاب مستدرک میں نقل کی ہے  
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ كَامِلٍ الْقَاضِي ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ سَعْدٍ الْعَوْفِيُّ ، ثنا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ ، ثنا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْجَدَلِيِّ ، قَالَ : دَخَلْتُ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا ، فَقَالَتْ لِي : أَيُسَبُّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ فِيكُمْ ؟ فَقُلْتُ : مُعَاذَ اللَّهِ ، أَوْ سُبْحَانَ اللَّهِ ، أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا ، فَقَالَتْ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : " مَنْ سَبَّ عَلِيًّا فَقَدْ سَبَّنِي " . هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الإِسْنَادِ ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ ، وَقَدْ رَوَاهُ بُكَيْرُ بْنُ عُثْمَانَ الْبَجَلِيُّ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ بِزِيَادَةِ أَلْفَاظٍ .
یہ روایت نقل کرنے کے بعد امام حاکم کہتے ہیں کہ یہ روایت "صحیح الاسناد" ہے۔

 


معاویہ کے گورنروں کا کھلے عام علی ابن ابی طالب پر سب و شتم کرنا

اور یہ سب خود معاویہ کی سیاست کا حصہ تھا اور اسی کے حکم سے ایسا کرتے تھے ،


طبری نے اپنی  تاریخ طبری جلد 4، صفحه 188 میں لکھا ہے :
أن معاویة بن أبی سفیان لما ولى المغیرة بن شعبة الکوفة فی جمادى سنة 41 دعاه فحمد الله وأثنى علیه ثم قال : ... ولست تارکا إیصاءک بخصلة لا تتحم عن شتم على وذمه والترحم على عثمان والاستغفار له والعیب على أصحاب على والاقصاء لهم وترک الاستماع منهم ...

 تاریخ ابو الفداء میں ہے ۔

وكان معاوية وعماله يدعون لعثمان في الخطبة يوم الجمعة ويسبون علياً ويقعون فيه
ترجمہ:
معاویہ اور اسکے گورنر جمعے کے خطبوں میں عثمان کی تعریف کرتے تھے اور علی کو گالیاں دیتے تھے۔

 

تاریخ ابو الفداء، جلد 1، صفحہ 120:


بلاذری نے  انساب الاشراف جلد 5، ص 30 پر لکھا ہے :
کتب معاویة إلی المغیرة بن شعبة : أظهر شتم علی وتنقصه ...

معاویہ نے مغیرہ کو لکھا کہ وہ علی الاعلان علی پر سب و شتم کرئے اور ان کی برائی بیان کرئے ۔
ابن تیمیہ اپنی کتاب منہاج السنہ، جلد 6، صفحہ 201 پر لکھتا ہے:
وقد كان من شيعة عثمان من يسب عليا ويجهر بذلك على المنابر
ترجمہ:عثمان کے شیعہ [طرفدار] کھلے عام مسجدوں کے منبروں سے علی ابن ابی طالب کو گالیاں دیتے تھے۔

 

 صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابہ۔۔۔۔۔۔
6382 - حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ، - يَعْنِي ابْنَ أَبِي حَازِمٍ - عَنْ أَبِي، حَازِمٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ اسْتُعْمِلَ عَلَى الْمَدِينَةِ رَجُلٌ مِنْ آلِ مَرْوَانَ - قَالَ - فَدَعَا سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ فَأَمَرَهُ أَنْ يَشْتِمَ عَلِيًّا - قَالَ - فَأَبَى سَهْلٌ فَقَالَ لَهُ أَمَّا إِذْ أَبَيْتَ فَقُلْ لَعَنَ اللَّهُ أَبَا التُّرَابِ ‏.‏ ۔۔۔۔۔۔۔ ‏
ترجمہ:
سہل روایت کرتے ہیں کہ مدینہ میں مروان کے خاندان میں سے ایک شخص حاکم ہوا اور اس نے سہل کو بلایا اورحکم دیا[فَأَمَرَهُ أَنْ يَشْتِمَ عَلِيًّا]کہ وہ علی ابن ابی طالب کو گالی دے۔ سہل نے انکار کیا۔ اس پر آوہ حاکم بولا کہ اگر تو گالی دینے سے انکار کرتا ہے تو کہہ لعنت ہو اللہ کی ابو تراب پر۔ ۔۔۔۔۔
 
اور مسند احمد بن حنبل میں ہے
«لمّا خرج معاویة من الکوفة استعمل المغیرة بن شعبة، قال: فاقام خطباء یقعون فی علی. قال: وأنا إلی جنب سعید بن زید بن عمرو بن نفیل. قال: فغضب فقام فأخذ بیدی فتبعته فقال: ألا تری إلی هذا الرجل الظالم لنفسه الذی یأمر بلعن رجل من ا هل الجنّة؟...».
ترجمہ:۔
عبد الله بن المازنی سے روایت ہے جب معاویہ نے کوفہ چھوڑا تو اس نے مغیرہ بن شعبتہ کو مقرر کیا اور مغیرہ نے ایسے خطیب مقرر کیے جو حضرت علی عہ کی توھین کرین۔

 مسند ابن حنبل جلد 3 صفحہ 185 محقق شعیب الا ارنوط نے اس روایت کو حسن لکھا ہے۔

 حجر بن عدی اور ان کے ساتھیوں کو امیر المومنین علیہ السلام پر لعن کرنے کا حکم

 

حجر بن عدی اور ان کے ساتھی کوفہ میں معاویہ کے گورنروں کی طرف سے امیر المومنین علیہ السلام  کی شان میں گستاخی پر احتجاج کرتے تھے ،انہیں گرفتار کر کے دمشق کی طرف روانہ کیا گیا۔۔۔۔اور مقام عزار پر انہیں شہید کردیا گیا ۔۔۔ شہید کرنے سے پہلے معاویہ کے نمائندے نے معاویہ کا یہ پیغام انہیں دیا کہ اگر علی ابن ابی طالب سے اظہار برائت کر لے اور ان پر لعن کرئے تو ہم تمہیں آزاد کردیں گے ،اگر ایسا نہیں کیا تو سب کو قتل کریں گے ۔۔۔۔ مولی علی علیہ السلام کے ان جیالوں نے موت کو گلے لگانے کا عزم کیا اور سب شہید ہوئے ۔

فقال لهم رسول معاوية إنا قد أمرنا أن نعرض عليكم البراءة من على واللعن له فإن فعلتم تركناكم وإن أبيتم قتلناكم وإن أمير المؤمنين يزعم أن دماءكم قد حلت له بشهادة - 

 تاريخ الطبري ،ج ۳ص ۲۲۹، المؤلف : محمد بن جرير الطبري أبو جعفر الناشر : دار الكتب العلمية – بيروت الطبعة الأولى ، 1407۔

تاريخ مدينة دمشق ، علي بن الحسن إبن هبة الله بن عبد الله الشافعي  سنة الوفاة 571 ،تحقيق محب الدين أبي سعيد عمر بن غرامة العمري ،الناشر دار الفكر ، سنة النشر 1995 ، مكان النشر بيروت، عدد الأجزاء 70

الكامل في التاريخ،3 /335،تأليف: أبو الحسن علي بن أبي الكرم الشيباني،دار النشر: دار الكتب العلمية - بيروت - 1415هـ، الطبعة: ط2، تحقيق: عبد الله القاضي۔

  تاريخ ابن خلدون [3 /12] أنساب الأشراف [2 /167]

 

امیر المومنین علیہ السلام کے شیعوں کو قتل کرنے کا حکم

 

معاویہ کا اپنے گورنروں اور کمانڈروں کو امیرا المومنین علیہ کے شیعوں پر سختی کرنے ان معمولی بہانے انہیں قتل کرنے کا حکم ،اس سلسلے میں تاریخی کتابوں میں بہت سے شواہد موجود ہیں  ہم ذیل میں بعض کی طرف مختصر اشارہ کرتے ہیں ۔

 

وكان معاوية يبعث الغارات فيقتلون من كان في طاعة علي ومن أعان على قتل عثمان—

 

 الجزء المتمم لطبقات ابن سعد [1 /61] تاريخ دمشق [59 /119] سير أعلام النبلاء [3 /137]

 

وجه معاوية الضحاك بن قيس وأمره أن يمر بأسفل واقصة وأن يغير على كل من مر به ممن هو في طاعة على....

 

   تاريخ الطبري [4 /104] تاريخ دمشق [10 /145] الكامل في التاريخ [2 /97] المنتظم [2 /127]

وبسر بن أرطأة وكان معاوية وجهه إلى اليمن والحجاز في أول سنة أربعين وأمره أن ينظر من كان في طاعة على فيوقع بهم ففعل ذلك /

 الإصابة في تمييز الصحابة [1 /289] أسد الغابة [ص 113 الاستيعاب [ص 49

وأمره ؛ اقتل كل من كان في طاعة علي إذا امتنع من بيعتنا، وخذ ما وجدت لهم من مال-   أنساب الأشراف [1 /366] تاريخ الطبري [4 /107]

دعا الناس إلى بيعة معاوية ۔۔۔، وقتل جماعة من شيعة علي.

 

 أنساب الأشراف [1 /366] المنتظم [2 /128 الكامل في التاريخ [2 /100]

 مندجہ بالا اسناد اس سلسلے کے کچھ نمونے ہیں ۔

 

 

یہی چند نمونے ہیں ۔ ان سے واضح طور پر یہ ثابت ہوتی ہے کہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام  کو برا بلا کہنے کے سلسلے کا آغاز معاویہ کے دور حکومت میں ہوا وہ خود ، اس کے گورنر اور اس کے پیروکار اس سیاست پر سختی سے عمل کرتے تھے اور یہ سلسلہ عمر ابن عبد العزیز کے دور تک یعنی سنہ ۴۰ سے ۱۰۰ ہجری تک جاری رہا ۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔

جمعہ) صبح ،رہبر معظم آیت اللہ سید خامنہ ای کو ایران کی کوو ایران برکت ویکسین کی پہلی خوراک موصول ہوئی۔

افغانستان میں ایک بار پھر طالبان اپنی فتوحات کے جھنڈے گاڑتے نظر آرہے ہیں، کئی اضلاع میں داخل ہونے کے مناظر، عام لوگوں کیساتھ سرکاری فورسز کے لوگوں کو ہتھیار ڈالتے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کرتے اپنے سفید جھنڈے جن پہ کلمہ لکھا گیا ہے، کو  لہراتے فتوحات کے منظر سامنے لائے جا رہے ہیں۔ یہ فتوحات کے منظر دکھانا جنگوں میں پروپیگنڈا ویڈیوز اور میڈیا کا استعمال ہی تو ہے۔ ایسے ہی کچھ مناظر سرکاری افواج کی طرف سے بھی ایک ویڈیو میں دکھائے گئے ہیں کہ سینکڑوں طالبان اپنے ہتھیار ڈالتے اپنے پرچم کو رکھ کر افغانستان کا قومی پرچم اٹھاتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہ تو جنگوں میں چلتا رہتا ہے، فتوحات کے دعوے اور دشمن کی شکست کے اعلانات دونوں اطراف سے جاری رہتے ہیں، اس لئے کہ جنگوں میں سچ چھپ جاتا ہے اور پروپیگنڈا سامنے آجاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ طالبان نے ملک کے بڑے حصے پر اپنا قبضہ کر لیا ہے اور وہ مسلسل آگے بڑھ بھی رہے ہیں۔ اب یہ خطرہ سب ہی محسوس کرنے لگے ہیں کہ ِافغانستان کی بگڑتی ہوئی صورتحال خانہ جنگی کا الارم ہے، جبکہ طالبان کا کہنا ہے کہ امریکہ کے پاس گھڑی ہے اور ہمارے پاس وقت ہے۔

طالبان کے پچھلے ایک ڈیڑھ ہفتہ میں پچاس اضلاع سمیت تاجکستان۔افغان بارڈر اور ضلع کرم سے متصل پاک۔افغان بارڈر پر قبضے سے اس بات میں اب وزن بھی پیدا ہوگیا ہے۔ طالبان نے مختلف افغان اضلاع کو روندتے ہوئے لگ بھگ چوبیس گھنٹوں میں چوبیس اضلاع پر قبضہ کرنے کا دعویٰ کیا تھا اور جوز جان کے قچہ ضلع میں بھی افغان فورسز نے طالبان کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے، یوں جنرل رشید دوستم کا آبائی شہر بغیر گولی چلائے طالبان کے قبضے میں چلا گیا، اب یہ کوئی اتفاق تو نہی ہوسکتا۔ اس لئے کہ رشید دوستم وار لارڈ اور افغانستان کا ایک پرانا منجھا ہوا کھلاڑی ہے، مگر قطر اور طالبان کے ساتھ ایک مبینہ ڈیل کی وجہ سے تاجک اور ازبک علاقوں میں جہاں پہلے طالبان کا جانا ممکن نہیں تھا، اب طالبان کو ڈھیل دے دی گئی ہے اور بادغیث، کندوز اور تاجکستان کی سرحدی چوکی تک طالبان نہایت آسانی سے قبضہ کرتے جا رہے ہیں اور لوگ جوق در جوق طالبان کی صفوں میں شامل ہو رہے ہیں۔

ذرائع کے مطابق بعض قبائلی سرداروں اور صوبوں کے گورنر بھی طالبان کے ساتھ ملے ہوئے ہیں اور خرید و فروخت کے معاملات قطر میں طے پائے ہیں۔ اب جبکہ طالبان کا تقریباً آدھے افغانستان پر کنٹرول ہے، یہ علاقے طالبان نے لڑتے ہوئے اور اضلاع کو روندتے ہوئے قبضہ میں لئے ہیں۔ ادھر طالبان ترجمان سہیل شاہین امریکہ کو دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دے رہے ہیں، طالبان نے پاکستان اور ترکی کو خمیازہ بھگتنے کی دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ مسلمان ممالک کابل ہوائی اڈے یا دوسری کسی ڈیل سے دور رہیں اور ہمارے (طالبان) کے ساتھ مل کر افغانستان میں اسلامی حکومت کے قیام میں مدد کریں۔ یاد رہے کہ چند دن قبل یہ خبر میڈیا پر نشر ہوئی تھی کہ امریکہ نے کابل ایئر پورٹ کی سکیورٹی کا ٹھیکہ ترکی کو دیا ہے، جبکہ ترکی نے اس معاملے میں پاکستان سے مدد لینے کا کہا تھا۔

صورتحال کی اس سنگینی میں افغانستان کی موجودہ سرکار جس میں صدر عبدالغنی اور عبد اللہ عبد اللہ بھی شامل ہیں، دو روز سے امریکہ کے دورے پر پہنچے ہیں، جہاں وہ اعلیٰ امریکی عہدیداران سمیت صدر امریکہ جو بائیڈن سے ملے ہیں۔ وہ افغانستان کے مستقبل کے بارے میں ملاقاتیں بھی کر رہے ہیں۔ ان ملاقاتوں کا نتیجہ کیا نکلتا ہے، یہ تو جلد ہی سامنے آجائے گا، مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ فیصلے میدان میں ہی ہونگے اور میدان اس وقت طالبان کے ہاتھ میں جا چکا ہے، بیس سال تک امریکہ افغانستان میں اپنے دو ہزار سے زیادہ فوجی مروا کر اور اتنا بھاری مالی نقصان کرکے اگر بھاگ رہا ہے تو اسے یہ سمجھ آچکی ہے کہ اب مزید نقصان نہیں کروانا، ایک رائے یہ بھی ہے کہ یہ سب امریکہ کی اپنی پلاننگ کا حصہ ہے کہ افغانستان کو آگ و خون کی وادی میں دھکیل کر خود باہر ہو جائے، اس مقصد کیلئے اس نے اپنی حکمت عملی تبدیل کی اور طالبان سے مذاکرات کا ڈرامہ رچایا۔

انہیں قطر میں دفتر کی اجازت دی، ان کے اہم ترین افراد سے پابندیاں اٹھائیں اور انہیں دنیا بھر میں گھومنے کا اجازت نامہ دیا۔ اس دوران طالبان نے بھرپور سفارت کاری سے روس، ترکی، چین، ایران، پاکستان، ہندوستان سے اچھے تعلقات بنا لئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ افغانستان میں امریکہ کی ایک اتحادی حکومت کے ہوتے ہوئے قطر میں طالبان کے دفتر کو ان کے سفارت خانہ کی حیثیت دی گئی تھی، اسی طرح امریکہ نے دوحہ مذاکرات اور ڈیل کے نتیجہ میں ہزاروں طالبان کو جیلوں سے رہا کروایا اور ان کے حوصلوں کو تقویت بخشی، اب بھی جب طالبان مختلف اضلاع میں وارد ہو رہے ہیں تو ان کا ٹارگٹ نہ امریکی بیس ہیں نہ امریکی فوجی قافلے یا مراکز۔ جس سے واضح پیغام ملتا ہے کہ امریکہ کو طالبان کی موجودہ پیش رفت کی مکمل مدد و حمایت حاصل ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ امریکہ افغانستان کی سیاسی قیادت کو اپنے پاس بلا کر کیا نسخہ کیمیا دیتا ہے۔

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے بھی ایک انٹرویو میں طالبان کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں پر کہا ہے کہ اگر طالبان نے کابل پر قبضہ کر لیا تو ہم اپنی سرحدیں بند کر دیں گے اور افغانستان میں صرف منتخب حکومت جسے عوام کی حمایت حاصل ہوگی، کو ہی تسلیم کریں گے یاد رہے کہ ماضی میں جب طالبان کابل پر 1995ء میں قابض ہوئے تھے تو سب سے پہلے پاکستان نے طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا تھا، جس نے پختونوں کے علاوہ دیگر اکائیوں کے خلاف مظالم کی ایک نئی تاریخ لکھی تھی، جسے اہل مزار شریف، بامیان، بلخ اور شمالی علاقوں کے عوام کبھی نہیں بھلا پائیں گے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اب کی بار ایک طرف تو طالبان جن علاقوں میں پیش رفت کر رہے ہیں، وہاں عوام کو اپنا بظاہر اچھا طرز عمل دکھا رہے ہیں اور سرکاری افواج کے اہلکاروں کو ہتھیار ڈالنے پر عام معافی دے رہے ہیں، جبکہ اس کے باوجود بہت سے علاقوں میں عوامی سطح پر لشکر تشکیل پا رہے ہیں اور طالبان سے مقابلے اپنے شہر ان کے حوالے نہ دینے کیلئے جنگی حکمت عملی ترتیب دی جا رہی ہے، بلکہ تخار، بلخ، مزار شریف اور دیگر ایریاز میں طالبان کو مزاحمت کے ذریعے بھاگنے پر مجبور کر دیا گیا۔

ان ایریاز میں سب سے زیادہ اہل تشیع کی آبادیاں ہیں، جو ہزارہ قبائل پر مشتمل ہیں، کچھ عرصہ پہلے انہی ہزارہ قبائل نے داعش کے پے در پے حملوں سے تنگ آکر ہتھیار اٹھا لئے تھے تو موجودہ عبد الغنی حکومت نے ان پر امریکی جہازوں کے ذریعے بمبارمنٹ کی تھی اور ہتھیار اٹھانے والے کمانڈرز کو گرفتار کیا تھا، آج یہی کمانڈرز اور عوام افغانستان کی عزت، حمیت اور غیرت کی علامت کے طور پر دیکھے جا رہے ہیں اور صدر غنی اپنے آقا امریکہ کی گود میں جا بیٹھا ہے، دیکھیں اسے وہاں سے کیا ہڈی ملتی ہے۔ طالبان اگرچہ بار بار اعلان کر رہے ہیں کہ اہل تشیع سمیت سب افغان ہیں اور شیعہ علاقوں میں شیعوں کو ہی کمان دی جائیگی اور سب کی جان و مال محفوط ہوگا، مگر جن لوگوں کے رہبر کو مذاکرات کیلئے بلا کر انتہائی بے دردی سے شہید کیا گیا، جن کے گھروں کو تہس نہس کیا گیا، جن کی بیٹیوں کو کنیزی میں لیا گیا، جن کے اموال کو جلا دیا گیا، جن کی عزتوں کو پائمال کیا گیا، ان کو آپ پر کیسے اعتماد ہوگا۔ یہ لوگ تو آپ کا سفاک چہرہ ماضی میں اور پھر شام و عراق میں دیکھ چکے ہیں، ان کیلئے تو مزاحمت ہی عزت کا راستہ ہے، جسے انہوں نے چن لیا ہے، ان کے سامنے اب عراق کی مثال ہے، ان کے سامنے شام کی مثال ہے، جہاں عوام مزاحمت سے ہی ملک و ریاست کو بچانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔افغانستان میں ایک بار پھر طالبان اپنی فتوحات کے جھنڈے گاڑتے نظر آرہے ہیں، کئی اضلاع میں داخل ہونے کے مناظر، عام لوگوں کیساتھ سرکاری فورسز کے لوگوں کو ہتھیار ڈالتے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کرتے اپنے سفید جھنڈے جن پہ کلمہ لکھا گیا ہے، کو  لہراتے فتوحات کے منظر سامنے لائے جا رہے ہیں۔ یہ فتوحات کے منظر دکھانا جنگوں میں پروپیگنڈا ویڈیوز اور میڈیا کا استعمال ہی تو ہے۔ ایسے ہی کچھ مناظر سرکاری افواج کی طرف سے بھی ایک ویڈیو میں دکھائے گئے ہیں کہ سینکڑوں طالبان اپنے ہتھیار ڈالتے اپنے پرچم کو رکھ کر افغانستان کا قومی پرچم اٹھاتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہ تو جنگوں میں چلتا رہتا ہے، فتوحات کے دعوے اور دشمن کی شکست کے اعلانات دونوں اطراف سے جاری رہتے ہیں، اس لئے کہ جنگوں میں سچ چھپ جاتا ہے اور پروپیگنڈا سامنے آجاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ طالبان نے ملک کے بڑے حصے پر اپنا قبضہ کر لیا ہے اور وہ مسلسل آگے بڑھ بھی رہے ہیں۔ اب یہ خطرہ سب ہی محسوس کرنے لگے ہیں کہ ِافغانستان کی بگڑتی ہوئی صورتحال خانہ جنگی کا الارم ہے، جبکہ طالبان کا کہنا ہے کہ امریکہ کے پاس گھڑی ہے اور ہمارے پاس وقت ہے۔

طالبان کے پچھلے ایک ڈیڑھ ہفتہ میں پچاس اضلاع سمیت تاجکستان۔افغان بارڈر اور ضلع کرم سے متصل پاک۔افغان بارڈر پر قبضے سے اس بات میں اب وزن بھی پیدا ہوگیا ہے۔ طالبان نے مختلف افغان اضلاع کو روندتے ہوئے لگ بھگ چوبیس گھنٹوں میں چوبیس اضلاع پر قبضہ کرنے کا دعویٰ کیا تھا اور جوز جان کے قچہ ضلع میں بھی افغان فورسز نے طالبان کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے، یوں جنرل رشید دوستم کا آبائی شہر بغیر گولی چلائے طالبان کے قبضے میں چلا گیا، اب یہ کوئی اتفاق تو نہی ہوسکتا۔ اس لئے کہ رشید دوستم وار لارڈ اور افغانستان کا ایک پرانا منجھا ہوا کھلاڑی ہے، مگر قطر اور طالبان کے ساتھ ایک مبینہ ڈیل کی وجہ سے تاجک اور ازبک علاقوں میں جہاں پہلے طالبان کا جانا ممکن نہیں تھا، اب طالبان کو ڈھیل دے دی گئی ہے اور بادغیث، کندوز اور تاجکستان کی سرحدی چوکی تک طالبان نہایت آسانی سے قبضہ کرتے جا رہے ہیں اور لوگ جوق در جوق طالبان کی صفوں میں شامل ہو رہے ہیں۔

ذرائع کے مطابق بعض قبائلی سرداروں اور صوبوں کے گورنر بھی طالبان کے ساتھ ملے ہوئے ہیں اور خرید و فروخت کے معاملات قطر میں طے پائے ہیں۔ اب جبکہ طالبان کا تقریباً آدھے افغانستان پر کنٹرول ہے، یہ علاقے طالبان نے لڑتے ہوئے اور اضلاع کو روندتے ہوئے قبضہ میں لئے ہیں۔ ادھر طالبان ترجمان سہیل شاہین امریکہ کو دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دے رہے ہیں، طالبان نے پاکستان اور ترکی کو خمیازہ بھگتنے کی دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ مسلمان ممالک کابل ہوائی اڈے یا دوسری کسی ڈیل سے دور رہیں اور ہمارے (طالبان) کے ساتھ مل کر افغانستان میں اسلامی حکومت کے قیام میں مدد کریں۔ یاد رہے کہ چند دن قبل یہ خبر میڈیا پر نشر ہوئی تھی کہ امریکہ نے کابل ایئر پورٹ کی سکیورٹی کا ٹھیکہ ترکی کو دیا ہے، جبکہ ترکی نے اس معاملے میں پاکستان سے مدد لینے کا کہا تھا۔

صورتحال کی اس سنگینی میں افغانستان کی موجودہ سرکار جس میں صدر عبدالغنی اور عبد اللہ عبد اللہ بھی شامل ہیں، دو روز سے امریکہ کے دورے پر پہنچے ہیں، جہاں وہ اعلیٰ امریکی عہدیداران سمیت صدر امریکہ جو بائیڈن سے ملے ہیں۔ وہ افغانستان کے مستقبل کے بارے میں ملاقاتیں بھی کر رہے ہیں۔ ان ملاقاتوں کا نتیجہ کیا نکلتا ہے، یہ تو جلد ہی سامنے آجائے گا، مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ فیصلے میدان میں ہی ہونگے اور میدان اس وقت طالبان کے ہاتھ میں جا چکا ہے، بیس سال تک امریکہ افغانستان میں اپنے دو ہزار سے زیادہ فوجی مروا کر اور اتنا بھاری مالی نقصان کرکے اگر بھاگ رہا ہے تو اسے یہ سمجھ آچکی ہے کہ اب مزید نقصان نہیں کروانا، ایک رائے یہ بھی ہے کہ یہ سب امریکہ کی اپنی پلاننگ کا حصہ ہے کہ افغانستان کو آگ و خون کی وادی میں دھکیل کر خود باہر ہو جائے، اس مقصد کیلئے اس نے اپنی حکمت عملی تبدیل کی اور طالبان سے مذاکرات کا ڈرامہ رچایا۔

انہیں قطر میں دفتر کی اجازت دی، ان کے اہم ترین افراد سے پابندیاں اٹھائیں اور انہیں دنیا بھر میں گھومنے کا اجازت نامہ دیا۔ اس دوران طالبان نے بھرپور سفارت کاری سے روس، ترکی، چین، ایران، پاکستان، ہندوستان سے اچھے تعلقات بنا لئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ افغانستان میں امریکہ کی ایک اتحادی حکومت کے ہوتے ہوئے قطر میں طالبان کے دفتر کو ان کے سفارت خانہ کی حیثیت دی گئی تھی، اسی طرح امریکہ نے دوحہ مذاکرات اور ڈیل کے نتیجہ میں ہزاروں طالبان کو جیلوں سے رہا کروایا اور ان کے حوصلوں کو تقویت بخشی، اب بھی جب طالبان مختلف اضلاع میں وارد ہو رہے ہیں تو ان کا ٹارگٹ نہ امریکی بیس ہیں نہ امریکی فوجی قافلے یا مراکز۔ جس سے واضح پیغام ملتا ہے کہ امریکہ کو طالبان کی موجودہ پیش رفت کی مکمل مدد و حمایت حاصل ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ امریکہ افغانستان کی سیاسی قیادت کو اپنے پاس بلا کر کیا نسخہ کیمیا دیتا ہے۔

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے بھی ایک انٹرویو میں طالبان کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں پر کہا ہے کہ اگر طالبان نے کابل پر قبضہ کر لیا تو ہم اپنی سرحدیں بند کر دیں گے اور افغانستان میں صرف منتخب حکومت جسے عوام کی حمایت حاصل ہوگی، کو ہی تسلیم کریں گے یاد رہے کہ ماضی میں جب طالبان کابل پر 1995ء میں قابض ہوئے تھے تو سب سے پہلے پاکستان نے طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا تھا، جس نے پختونوں کے علاوہ دیگر اکائیوں کے خلاف مظالم کی ایک نئی تاریخ لکھی تھی، جسے اہل مزار شریف، بامیان، بلخ اور شمالی علاقوں کے عوام کبھی نہیں بھلا پائیں گے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اب کی بار ایک طرف تو طالبان جن علاقوں میں پیش رفت کر رہے ہیں، وہاں عوام کو اپنا بظاہر اچھا طرز عمل دکھا رہے ہیں اور سرکاری افواج کے اہلکاروں کو ہتھیار ڈالنے پر عام معافی دے رہے ہیں، جبکہ اس کے باوجود بہت سے علاقوں میں عوامی سطح پر لشکر تشکیل پا رہے ہیں اور طالبان سے مقابلے اپنے شہر ان کے حوالے نہ دینے کیلئے جنگی حکمت عملی ترتیب دی جا رہی ہے، بلکہ تخار، بلخ، مزار شریف اور دیگر ایریاز میں طالبان کو مزاحمت کے ذریعے بھاگنے پر مجبور کر دیا گیا۔

ان ایریاز میں سب سے زیادہ اہل تشیع کی آبادیاں ہیں، جو ہزارہ قبائل پر مشتمل ہیں، کچھ عرصہ پہلے انہی ہزارہ قبائل نے داعش کے پے در پے حملوں سے تنگ آکر ہتھیار اٹھا لئے تھے تو موجودہ عبد الغنی حکومت نے ان پر امریکی جہازوں کے ذریعے بمبارمنٹ کی تھی اور ہتھیار اٹھانے والے کمانڈرز کو گرفتار کیا تھا، آج یہی کمانڈرز اور عوام افغانستان کی عزت، حمیت اور غیرت کی علامت کے طور پر دیکھے جا رہے ہیں اور صدر غنی اپنے آقا امریکہ کی گود میں جا بیٹھا ہے، دیکھیں اسے وہاں سے کیا ہڈی ملتی ہے۔ طالبان اگرچہ بار بار اعلان کر رہے ہیں کہ اہل تشیع سمیت سب افغان ہیں اور شیعہ علاقوں میں شیعوں کو ہی کمان دی جائیگی اور سب کی جان و مال محفوط ہوگا، مگر جن لوگوں کے رہبر کو مذاکرات کیلئے بلا کر انتہائی بے دردی سے شہید کیا گیا، جن کے گھروں کو تہس نہس کیا گیا، جن کی بیٹیوں کو کنیزی میں لیا گیا، جن کے اموال کو جلا دیا گیا، جن کی عزتوں کو پائمال کیا گیا، ان کو آپ پر کیسے اعتماد ہوگا۔ یہ لوگ تو آپ کا سفاک چہرہ ماضی میں اور پھر شام و عراق میں دیکھ چکے ہیں، ان کیلئے تو مزاحمت ہی عزت کا راستہ ہے، جسے انہوں نے چن لیا ہے، ان کے سامنے اب عراق کی مثال ہے، ان کے سامنے شام کی مثال ہے، جہاں عوام مزاحمت سے ہی ملک و ریاست کو بچانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

تحریر: ارشاد حسین ناصر

Thursday, 24 June 2021 13:40

خواہشات کا علاج

انسانی خو اہشات اس کیلئے جس مقدار میں مفید ہیں اس کے مطا بق انکے اندر قدرت اور طاقت بھی پا ئی جاتی ہے چنانچہ اگر یہ غلط راستے پر لگ جائیں تو پھر یہ اپنی طاقت کے اعتبار سے ہی انسانی زندگی کو تہہ وبالا کر کے رکھ دیتی ہیں ۔۔۔انسانی نفس کے اندر اسکے یہ دونوں (مثبت اورمفید منفی اورمضر )پہلو بالکل طے شدہ ہیں اور اس میں کسی شک وشبہ کی گنجا ئش نہیں ہے کیونکہ خواہشات ہی دراصل انسان کی زندگی کے پہیوںکو گردش دینے والی قوت ہیں اور اگر خداوندعالم نے انسان کے

نفس میں جنسیات ،مال ،خود ی (حب ذات )،کھا نے پینے اور اپنے دفاع کی محبت نہ رکھی ہوتی تو قافلۂ انسانی ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتاتھا ۔لہٰذا خواہشات کے اندر جتنے فا ئد ے ہیں انکے اندر اتنی ہی طاقت موجود ہے اور انکے اندر جتنی طاقت پائی جاتی ہے انکے بہک جانے کی صورت میں انکے نقصانات بھی اسی کے مطابق ہونگے جیسا کہ مولا ئے کا ئنات نے ارشاد فرمایا ہے:

۶۸

 

 

(الغضب مفسد للالباب ومبعد عن الصواب )( ۱ )

''غصہ عقلوں کو برباد اور راہ حق سے دور کر دینے والی چیز ہے ''

آپ نے یہ بھی فرما یا ہے :

(أکثرمصارع العقول تحت بریق المطامع )( ۲ )

''عقلوں کی اکثر قتل گاہیں طمع کی جگہوںکی چمک دمک کے آس پاس ہیں''

 

خواہشات کی پیروی پر روک اور انکی آزادی کے درمیان

یہی وجہ ہے کہ خواہشات کو ایکدم کچل کر رکھ دینا بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ خواہش انسانی زندگی کیلئے ایک مفید طاقت ہے جس کے سہار ے کا روان حیات انسانی رواں دواںہے اور اس کو معطل اور نا کارہ بنا دینا یا اسکی مذمت کرنا اور اسکی اہمیت کا اعتراف نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی شخصیت کے ایک بڑے حصہ کا انکار کردیا جائے اور اسکو نقل و حرکت میں رکھنے والی اصل طاقت کو نا کار ہ قرار دیدیا جائے ۔

اسی طرح خواہشات اور ہوس کی لگام کو بالکل ڈھیلا چھوڑ دینا اور انکے ہر مطالبہ کی تکمیل کرنا اور ان کی ہر بات میںہاں سے ہاں ملا نا بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ اگر ان کی رسی ڈھیلی چھو ڑدی جائے تو

____________________

(۱)غرر الحکم ج۱ص۶۷ ۔

(۲)غررالحکم ج۱ص۱۹۸۔

۶۹

 

 

یہ فائد ہ مند ہو نے کے بجائے انسان کیلئے مضر بن جاتے ہیں ۔

لہٰذا ہمیں یہ اعتراف کر نا پڑیگا کہ شرعی اعتبار سے خواہشات کی محدود تکمیل کی بہت اہمیت ہے اور جس طرح انکو بالکل آزاد چھوڑ دینا صحیح نہیں ہے اسی طرح ہر بات میں انکی تکمیل بھی صحیح نہیں ہے ۔

اسی معیار پر اسلام نے خواہشات کے بارے میں اپنے احکام بنائے ہیں یعنی پہلے وہ خواہشات کو انسان کیلئے ضروری سمجھتا ہے اور اسے فضول چیز قرار نہیں دیتا جیسا کہ قرآن کریم میں پروردگار عالم کاارشاد ہے :

( زُیّن للناسِ حبُّ الشهواتِ من النسائِ والبنینَ والقناطیرِالمقنطرةِمن الذهبِ والفضة ِوالخیلِ المسوّمةِ والأنعام والحرثِ ) ( ۱ )

''لوگوں کے لئے خواہشات دنیا ،عورتیں،اولاد،سونے چاندی کے ڈھیر،تندرست گھوڑے یا چوپائے کھیتیاںسب مزین اور آراستہ کردی گئیں ہیں ''

دوسری آیت میں ارشاد ہے :

( ٔلمالُ والبنونَ زینة الحیاةِ الدنیا ) ( ۲ )

''مال اور اولاد، زندگانی دنیا کی زنیت ہیں ''

ان آیات میں نہ صرف یہ کہ خواہشات کی مذمت نہیں ہے بلکہ اسکو زینت اور جمال زندگانی قرار دیا گیاہے اور اسی اہم نکتہ سے خواہشات کے بار ے میں اسلام کا واضح نظر یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے ۔

دوسر ے مرحلہ پر اس نے ہمیں اپنی خواہشات کو پورا کر نے اور دنیاوی لذتوں سے بہرہ مند ہونے کا حکم دیا ہے :

____________________

(۱)آل عمر ان آیت۱۴۔

(۲) سورئہ کہف آیت۴۶ ۔

۷۰

 

 

( کلوا من طیبات مارزقناکم ) ( ۱ )

''تم ہمارے پاکیزہ رزق کو کھائو ''

یایہ ارشاد الٰہی ہے :

( ولا تنس نصیبک من الدنیا ) ( ۲ )

''اور دنیا میں اپنا حصہ بھول نہ جائو''

اور اسی طرح یہ بھی ارشاد ہے :

( قل من حرّم زینة ﷲ التی أخرج لعبادهِ والطیبات من الرزق ) ( ۳ )

''پیغمبر آپ ان سے پوچھئے کہ کس نے اس زینت کو جس کو خدا نے اپنے بندوں کیلئے پیدا کیا ہے اور پاکیزہ رزق کو حرام کردیا ہے''

خواہشات کے بارے میں اسلام نے یہ دوسرا نظریہ پیش کیا ہے جس کے اندر نہ اپنی خواہشات کی تکمیل کی کھلی چھوٹ ہے کہ جس کا جس طرح دل چاہے وہ اپنی خواہشات کی پیاس بجھاتا رہے اور کسی قاعد ہ وقانون کے بغیر سر جھکا کر انھیں کے پیچھے چلتا رہے ۔

امام جعفر صادق نے فرما یا ہے :

(لاتدع النفس وهواها فن هواها رداها )( ۴ )

''اپنے نفس کو اسکے خواہشات کے اوپر نہ چھو ڑدو کیونکہ اسکے خواہشات میں اسکی پستی اور

____________________

(۱)سورئہ طہ آیت۸۱ ۔

(۲)سورئہ قصص آیت۷۷ ۔

(۳)سورئہ اعراف آیت ۳۲ ۔

(۴)اصول کافی ج۲ص۳۳۶۔

۷۱

 

 

ذلت ہے ''

ان تمام پا بند یوں اور سختیوں کے باوجود اسلام نے انسانی خواہشات کی تسلی کیلئے ایک نظام بنا کر خود بھی اس کے بیحد موا قع فراہم کئے ہیں جیسے اسلام نے جنسیات کو حرام قرار نہیں دیا ہے اور نہ اس سے منع کیا ہے اور نہ ہی اسے کوئی بر ایا پست کام کہا ہے بلکہ خود اسکی طرف رغبت دلا ئی ہے اور اسکی تاکید کی ہے البتہ اسکے لئے کچھ شرعی قواعد و ضوابط بھی بنائے ہیں اسی طرح مال سے محبت کرنے کونہ اسلام منع کر تاہے اور نہ اسے بر اکہتا ہے بلکہ یہ تمام انسانو ں کیلئے مباح ہے البتہ اسکے لئے بھی کچھ قو اعد وقوانین مرتب کردئے گئے ہیں تا کہ مالی یا جنسی خواہشات وغیرہ کی تسلی کیلئے ہر شخص کے سامنے مواقع موجود رہیں اور کوئی شخص بھی بے راہ رو ی کا شکار نہ ہو نے پا ئے یہ خواہشات کے بارے میں اسلامی نظر یہ کا تیسر ا نکتہ ہے۔

 ونزوئلا کے صدرنکلس میڈورو نے اپنے ٹوئیٹر پیج پراعلان کیا ہے کہ انھوں نے ایران کے نو منتخب  صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی کے ساتھ ٹیلیفون پر دوطرفہ اور عالمی مسائل کے بارے میں تبادلہ خیال کیا ہے۔ ونزوئلا کے صدر نے ٹوئیٹر پر کہا ہے کہ میں نے ایران کے نئے صدر سید ابراہیم رئیسی کے ساتھ ٹیلیفون پر گفتگو کی۔ ونزوئلا کے صدر نے کہا کہ ہم نے دونوں ممالک کے درمیان باہمی تعاون کو مزید فروغ دینے پر اتفاق کیا ہے انھوں نے کہا کہ ہم نے سامراجی طاقتوں کے خلاف مشترکہ جد و جہد جاری رکھنے پر بھی اتفاق کیا ہے۔ ونزئلا کے صدر نے اس سے قبل اپنے ایک ٹوئیٹر پیغام میں ایران کے نئے صدر کو مبارکباد بھی پیش کی تھی۔

 اکیڈمی آف میڈیکل سائنسز کے سربراہ ڈاکٹر مرندی نے آئندہ دنوں میں رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای کو ایرانی کورونا ویکسین کا پہلا ٹیکہ لگانے کا اعلان کیا ہے۔

اکیڈمی آف میڈیکل سائنسز کے سربراہ نے کہا کہ رہبر معظم انقلاب اسلامی نےکورونا وائرس سے بچاؤ کے سلسلے میں ویکسین لگانے کے لئے دو شرطیں رکھی تھیں، پہلی شرط یہ تھی کہ باری آنے پر انھیں ویکسین لگائي جائے اور دوسری شرط یہ تھی کہ وہ ایران کی تیار کردہ ویکسین لگوائیں گے۔

ڈاکٹر علی رضا مرندی نے مزید کہا کہ کورونا وائرس کی ایرانی ویکسین کوو ایران برکت کے استعمال کی منظوری وزارت صحت سے مل چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ رہبرمعظم انقلاب کی ایرانی ویکسین لگوانے پر خاص تاکید ہے، یہ ویکسین ایران کے نوجوان سائنسدانوں کی محنتوں کا نتیجہ ہے ۔ انھوں نے کہا کہ گذشتہ دو ماہ میں 80 سال سے زائد عمر کے افراد کو کوروناو یکسین لگائی جاچکی ہے اور رہبر معظم انقلاب اسلامی آئندہ دنوں میں ایران کی تیار کردہ کوو برکت ویکسین لگوائیں گے واضح رہے کہ روس، امریکہ ، چين ، ہندوستان اور برطانیہ کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران دنیا کا چھٹا اور مغربی ایشیا کا پہلا ملک ہے جس نے کورونا وائرس کی ویکسین بنانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔

امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے اپنی ایک رپورٹ میں  فاش کیا ہے کہ ترکی کے شہر استنبول میں سعودی صحافی جمال خاشقجی کے بہیمانہ قتل میں ملوث سعودی اہلکاروں نے امریکہ میں فوجی تربیت حاصل کی تھی۔ جمال خاشقجی کو سعودی عرب کے ولیعہد محمد بن سلمان کے حکم پر 2018 میں ترکی کے شہر استنبول میں سعودی قونصلخانہ میں بہیمانہ طور پر قتل کردیا گیا تھا اور اس کی لاش کو ابھی تک اس کے ورثاء کے حوالے نہیں کیا گیا۔ سعودی عرب کے اہلکاروں نے خاشقجی کو قتل کرنے سے ایک سال قبل امریکہ میں فوجی تربیت حاصل کی تھی۔ امریکی خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹ کے مطابق خاشقجی کے قتل کا حکم سعودی عرب کے ولیعہد محمد بن سلمان نے دیا تھا۔ امریکہ نے ہمیشہ  اسرائيل اور سعودی عرب کے سنگین جرائم پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی اور کوشش کررہا ہے۔

 امریکہ نے اظہار بیان کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مزاحمتی محاذ کی انٹرنیٹ سائٹوں العالم، یمن کی المسیرہ، پریس ٹی وی، کتائب حزب اللہ عراق، بحرین کی اللولوء ، فلسطین الیوم اورالکوثر کو بند کردیا ہے۔

اطلاعات کے مطابق امریکی وزارت انصاف نے سامراجی اہداف کے تحت گذشتہ برس کے اواخر سے مزاحمتی تنظیموں کی سائٹوں کو بند کرنے کا آغاز کیا تھا تاکہ عراق، یمن ، فلسطین ، بحرین  اور دیگر علاقوں کے مظلوموں کی آواز دنیا تک نہ پہنچ سکے۔ امریکی حکومت کا یہ اقدام اظہار خیال اور اظہار بیان کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اور ذرائع ابلاغ پر دہشت گردانہ حملہ ہے۔

Wednesday, 23 June 2021 07:28

کفرانِ نعمت

کفرانِ نعمت (احسانِ فراموشی) گناہِ کبیرہ ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں اس کے لیے عذاب کا وعدہ کیا گیا ہے اور اسے چند مقامات پر کفر بھی کہا گیا ہے اور اسے پچھلی قوموں پر عذاب نازل ہونے کا سبب بھی بتایا گیا ہے۔
خدا سورة ابراہیم میں فرماتا ہے: "اور اے بنی اسرائیل اس بات کو یاد کرو جب تمہارے پروردگار نے تم کو خبردار کیا تھا کہ اگر میری نعمتوں (ایمان اور نیک اعمال کی بدولت فرعون اور دوسروں کے شر سے نجات) پر شکر ادا کرو گے تو میں تمہاری نعمتوں میں اضافہ کر دوں گا اور اگر ناشکراپن کرو گے تو بلاشبہ میرا عذاب (ناشکروں یا احسان فراموشوں پر) سخت ہو گا۔" (آیت۷)
خدا سورة البقرہ میں فرماتا ہے: "سو مجھے یاد کرو تاکہ میں تمہیں یاد کروں، میری نعمتوں کا شکر ادا کرو اور کافر نہ ہو۔" (آیت ۱۵۲)

قومِ سبا احسان فراموشی کرتی ہے عذاب بھگتی ہے خداسورة سبا کے باشندوں کے بارے میں یوں فرماتا ہے: "سبا کے قبیلے کے لیے (جو یمن میں تھا) لوگوں کے گھر (ان کی قوت وطاقت، خدا کی نعمتوں کی فراوانی اور ان کی ناشکری پر سخت عذاب اور سزاؤں) کی نشانی تھے اور وہ نشانی یہ ہے کہ اس قبیلے کے دو باغ تھے جو راہ چلنے والے کے دائیں بائیں یا ان کے گھروں کے دونوں طرف واقع تھے (اور کہتے ہیں کہ ان میں سانپ، بچھو، مچھر، چیچڑی اور جوں وغیرہ کی قسم سے کوئی ستانے والا کیڑا نہیں تھا اور اگر کوئی ان درختوں کے نیچے خالی ٹوکری رکھ آتا تھا تو وہ ٹوکری پھلوں سے بھر جاتی تھی) پیغمبروں نے ان سے کہا: "خدا کا رزق کھاؤ اور اس کی نعمت کا شکر ادا کرو، تمہارا شہر خوش حال ہے اور اور تمہارا خدا معاف کرنے والا اور مہربان ہے۔" انہوں نے سرکشی کی اور ناشکرا پن دکھایا (اور کہنے لگے ہم نہیں سمجھتے کہ خدا نے ہمیں کوئی نعمت بخشی ہے اور اگر یہ نعمتیں اسی کی دی ہوئی ہیں تو اس سے کہیے کہ وہ واپس لے لے)۔ چنانچہ ہم نے ان کے لیے عرم کا سیلاب بھیجا (بتایا گیا ہے کہ عرم ایک پشتے کا نام ہے جو سبا کی ملکہ بلقیس نے دو پہاڑوں کے بیچ میں پتھر اور تارکول سے بنوایا تھا جہاں بارش کا پانی اکٹھا ہوتا تھا۔ اس میں ایک کے اوپر ایک تین دروازے بنوائے تھے اور نیچے ایک بڑی سی جھیل تھی جس میں سے نکلنے والی نہروں کی تعداد کے مطابق بارہ موریاں بنوائی تھیں۔ جب بارش ہوتی تھی اس بند کے پیچھے پانی اکٹھا ہو جاتا تھا اس وقت اوپر کا دروازہ کھول دیتے تھے تاکہ پانی اس جھیل میں آ جائے اگر پانی کم ہوتا تھا تو درمیانی دروازہ کھول دیتے تھے اور اگر اور کم ہوتا تھا نچلا دروازہ اور جب پانی جھیل میں اکٹھا ہو جاتا تھا تو اسے نہروں میں بانٹ دیتے تھے۔ وقت یوں ہی گذرتا رہا یہاں تک کہ بلقیس کا انتقال ہو گیا۔ یہ لوگ باغی ہو گئے اور حد سے گذر گئے تو خدا نے ان پر بڑے بڑے چوہے مسلط کر دئیے جنہوں نے بند میں چھید کر دئیے۔ پانی میں طغیانی آ گئی جس نے اس پشتے کو منہدم کر دیا۔ کچھ لوگ ہلاک ہو گئے اور کچھ ادھر اُدھر بھاگ گئے اور ان کی بھگدڑ اور بے بسی عرب میں ضرب المثل بن گئی) اور ان دونوں باغوں کو ہم نے دو ایسے باغوں میں تبدیل کر دیا جن کے پھل کڑوے اور بدذائقہ تھے اور درختوں کو شورہ کھا گیا تھا جن میں سے کچھ درخت بیری کے تھے یہ سزائیں ان لوگوں کی احسان فراموشی اور ناشکرے پن کی تھیں اور کیا ہم ناشکروں کے سوا بھی کسی کو سزا دیتے ہیں؟" (آیات ۱۵ تا ۱۷)



نعمت نقمت ہو جا تی ہے

خدا سورة نحل میں فرماتا ہے: "خدا نے ایک گاؤں کی مثال بیان کی ہے جس کے باسی امن اور اطمینان سے رہتے تھے ۔ہر طرف سے ان کے پاس بافراغت روزی چلی آتی تھی (خشکی اور تری دونوں سے) پھر انہوں نے خدا کی نعمتوں کی ناشکری کی تو خدا نے بھوک اور خوف کو ان کا اور اوڑھنا (لباس) بنا کر ان کے کرتوتوں کا انہیں مزا چکھا دیا۔" (آیت ۱۱۲) لباس کا ذکر عذاب کے ان کو گھیر لینے کی مناسبت سے کیا گیا ہے یعنی جس طرح لباس پہننے والے کو ڈھانک لیتا ہے اسی طرح عذاب نے انہیں چاروں طرف سے گھیر لیا۔ بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ اس آیت کے گاؤں سے شہر مکہ مراد ہے جس کے باشندے سات سال تک کال اور بھوک میں مبتلا رہے تھے اور مجبوری اور بھوک سے ان کی یہ حالت ہو گئی تھی کہ جلی ہوئی ہڈیاں، مردار گوشت اور خون کھاتے تھے۔


ناشکرا پن ایک قسم کا کفر ہے

ٍ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) ناشکرے پن کو کفر میں ہی شمار کرتے ہیں کیونکہ خداوند عالم سلیمان کی بات دہراتا ہے کہ خدا نے جو کچھ مجھے بخشا ہے اپنے فضل سے بخشا ہے تاکہ مجھے آزمائے کہ میں شکر گذار ہوں یا ناشکرا۔ جو کوئی شکر ادا کرتا ہے وہ اپنے ہی لیے شکر ادا کرتا ہے (کیونکہ اس سے اس کی نعمت بڑھتی ہے) اور جو کوئی ناشکرا پن کرے تو کرے حقیقت یہ ہے کہ میرا خدا شکرگذاری سے بے نیاز اور کریم ہے۔ اس نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں تمہاری نعمت میں اضافہ کر دوں گا اور جو ناشکرا پن کرو گے تو پھر بلاشبہ میرا عذاب بھی سخت ہو گا اور خدا یہ بھی فرماتا ہے کہ تم مجھے یاد کرو گے تو میں تمہیں یاد رکھوں گا۔ میرا شکر کرتے رہو ار میری ناشکری نہ کرو۔ (اصول کافی کتاب الایمان والکفر باب وجوہ الکفر)
امام کی گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ خد نے ان تینوں گناہوں میں ناشکرے پن کرکفر کہا ہے۔ ان آیتوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ناشکرے پن کے تین بڑے نتیجے نکلتے ہیں اس طرح کہ اس نے نعمت ختم ہو جاتی ہے ،اس کی وجہ سے سخت اور دردناک عذاب آتا ہے اور خدا ناشکرے کو اس کے حال پر چھوڑ دیتا ہے۔

 


ناشکرا پن اور اہل بیت علیھم السلام کی روایات

اس بارے میں بہت سی روایتیں ہیں لیکن صرف چند کے بیان پر اکتفاء کیا جاتا ہے:
پیغمبر اکرم فرماتے ہیں "ہر گناہ کے مقابلے میں ناشکرے پن کی سزا ناشکرے کو بہت جلد مل جاتی ہے۔" (وسائل الشیعہ باب ۸ ص۵۱۷)
آپ یہ بھی فرماتے ہیں "تین گناہ ایسے ہیں جن کا ارتکاب کرنے والے آخرت سے پہلے اپنی سزا کو پہنچیں گے ۔ والدین کی نافرمانی، لوگوں پر ظلم اور احسان فراموشی"۔ (وسائل الشیعہ)
ٍ آپیہ بھی فرماتے ہیں: "خدا کا سب سے پیارا بندہ وہ ہے جو خدا کی دی ہوئی نعمتوں کا شکر ادا کرتا ہے اور خدا کا سب سے زیادہ دشمن وہ ہے جو خدا کی نعمتوں کی ناشکری کرتا ہے۔" (مستدرک ص ۳۱۶)
حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) اپنی وصیت میں فرماتے ہیں: "کسی نعمت کی ناشکری نہ کرو کیونکہ حقیقت میں ناشکرا پن سب سے بڑا اور گھٹیا قسم کا کفر ہے۔" (مستدرک ص ۳۹۶)


کفرانِ نعمت کے معنی

کفرانِ نعمت کے معنی نعمت کو چھپانا ہیں اور اس کی تین قسمیں ہوتی ہیں:


(۱) نعمت سے ناواقفیت:

یہ سب سے بُری اور شدید قسم ہے اور اس کی دو صورتیں ہوتی ہیں ایک نعمت سے ناواقفیت یا بے خبری ہے یعنی نہ سمجھنے کی وجہ سے نعمت کو نہیں پہچانتا، اس کی پرواہ نہیں کرتا یعنی اسے نظر انداز کر دیتا ہے اور اس کے ہونے نہ ہونے کو یکساں جانتا ہے۔ دوسرے نعمت بخشنے والے سے ناواقفیت یا بے خبری ہے یعنی دراصل اپنے پروردگار ہی کو نہیں پہچانتا یا یہ نہیں جانتا کہ اس کی ایک صفت نعمت بخشنا بھی ہے۔ چنانچہ یہ نہیں سمجھتا کہ نعمت صرف اسی کی طرف سے آتی ہے بلکہ یہ سمجھتا ہے کہ اس کے علاوہ کسی اور کی طرف سے آتی ہے۔ غرض یہ ہے کہ نعمت سے خبری ہو یا نعمت دینے والے سے دونوں بے خبریاں کفرانِ نعمت یعنی احسان فراموشی ہیں اور صاف سزاؤں کی مستحق ہیں کیونکہ کفرانِ نعمت کے لیے عذاب کا وعدہ کیا گیا ہے اور یہ گناہِ کبیرہ ہے۔


(۲) حالت کے لحاظ سے کفر:

یہ اس طرح ہے کہ عاقل انسان کو اس نعمت کے ملنے پر خوش اور مسرور ہونا چاہیئے جو خدا اسے بخشتا ہے یہ سوچ کر کہ اللہ نے اس پر مہربانی کی اور اسے یاد رکھا اور وہ اس کے مسلسل فضل وکرم کا امیداوار ہے۔ (سورة یونس آیت ۵۸) اب اگر اس کے برعکس وہ اپنے پروردگار سے بدگمان رہے۔ اس کے فضل وکرم سے کوئی امید نہ رکھے یا اس سے خوش نہ ہو بلکہ اس سے بے تعلق اور نا امید ہو جائے تو یہ کیفیت یا حالت خدا کی نعمتوں کی ناشکری ہے۔


(۳) اعضائے جسم سے کفر:

یعنی عملی کفر اس طرح کہ دل میں گناہ کی نیّت کرے اور زبان سے شکایت اور بُرائی کرے یعنی نعمتوں کا ذکر اور زبان سے ان کا شکر ادا کرنے کے بجائے سب کو نظر انداز کر دے (سورة الضحٰی آیت ۱۱) اور اپنی آرزوؤں کے پورا نہ ہونے کی شکایت کرتے ہوئے خدا کے کاموں کی بُرائی کرے اور خدا کی نعمت کو وہاں صَرف کرے جس کے لیے وہ پیدا نہیں کی گئی اور اپنے اعضاء سے وہ کام لے جس سے خدا نے منع فرمایا ہے اور جو اس کی رحمت سے دُور کرنے والا ہے۔
حضرت امام سجاد (علیہ السلام) (ایسے گناہ جو نعمتوں کو تبدیل کر دیتے ہیں) کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "انہیں میں ناشکرا پن یعنی کفرانِ نعمت بھی شامل ہے۔" (معانی الاخبار)
پیغمبر اکرم بھی فرماتے ہیں "مومن کے لیے فشار قبر (قبر کا مردے کو بھینچنا) ان نعمتوں کا کفارہ ہوتا ہے جو اس نے ضائع کر دی ہیں۔" (بحار الانوار جلد ۳)
شکر نعمت کے واجب ہونے کے متعلق بہت سی آیتیں اور حدیثیں ملتی ہیں اور شکر کی حقیقت اور اس کی قسموں کی اس قدر تفصیل موجود ہے جس کے بیان کرنے کی یہاں گنجائش نہیں ہے۔ اس کے لیے اصول کافی اور دوسری اخلاقی کتابیں ملاحظہ فرمائیے۔

 


اگر شکر نہ کرے تو انسان جانور سے بھی گھٹیا ہے

حضرت امام سجاد (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "خاص تعریف اس خدا کے لیے ہے جو اگر اپنے بندوں کو ان نعمتوں کا شکر عطا نہ کرنا نہ بتاتا جو اس نے گاتار اور کھلم کھلا عنایت فرمائی ہیں تو اس میں شک نہیں کہ وہ ان نعمتوں کو لے کر ان کا شکرادا کیے بغیر انہیں اپنے کام میں لے آتے اور اگر وہ ایسا کرتے تو انسانیت کے دائرے سے نکل کر جنگلی جانوروں اور چوپایوں کی حد میں پہنچ جاتے جیسا کہ قرآن میں خدا فرماتا ہے: کفار حیوانات کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گھٹیا اور گمراہ ہیں۔" (دعائے اوّل صحیفہٴ سجادیہ)
غرض یہ ہے کہ نعمت کا شکر ادا نہ کرنے والا انسان دراصل آدمیت سے ہی خارج ہے پھر ایسے شخص کے متعلق ایمان، صحیح معارف اور نیک اعمال کی بدولت حاصل ہونے والی انسانی سعادتوں اور برکتوں کا تو ذکر ہی کیا ہو سکتا ہے جو اس کی ہمیشہ رہنے والی زندگی کے لیے ہوں گی۔


واسطوں اور ذریعوں سے انکار (کفران)

چونکہ خدا نے دُنیا کو اپنی حکمت ومصلحت سے دارالاسباب قرار دیا ہے اور اپنے بندوں تک ہر نعمت پہنچانے کا کوئی نہ کوئی واسطہ، سبب یا ذریعہ مقرر فرمایا ہے جس کی بدولت وہ نعمت بندوں تک پہنچتی ہے اس لیے عقل اور شرع کی رو سے واسطوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیئے بلکہ ان کا بھی احسان ماننا چاہیئے البتہ یہ نہیں کہ اس واسطے ہی کو مستقل طور پر اور حقیقت میں اپنا منعم (نعمت بخشنے والا) سمجھے بلکہ اس کا احترام ضرور کرے کیونکہ وہ نعمت کا ذریعہ ہے اور اپنی زبان اور اپنی حالت و کیفیت سے خدا کا شکر ادا کرے کہ فلاں شخص نے مجھے تیری فلاں نعمت پہنچائی ہے۔ یہاں چند روایتوں پر اکتفاء کیا جاتا ہے۔
حضرت امام سجاد (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "بلاشبہ خدا ہر شکرگذار بندے سے پسند فرماتا ہے اور قیامت میں اپنے ایک بندے سے پوچھے گا (دنیا میں) تو نے فلاں شخص کا (جو میری نعمت کا ذریعہ تھا) شکریہ ادا نہیں کیا اس لیے میرا بھی شکر ادا نہیں کیا۔" پھر امام نے فرمایا: "تم میں خدا کا سب سے زیادہ شکر گذار بندہ وہ ہے جو ان لوگوں کو بھی شکریہ ادا کرتا ہے جن کے واسطے سے خدا کی نعمتیں ملتی ہیں۔" (وسائل الشیعہ)
حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "حقیقت میں خدا کا شکر ادا کرنا اس شخص کا شکریہ ادا کرنا ہے جس کے ذریعے سے تمہیں خدا کی نعمت ملی۔" (وسائل الشیعہ)
حضرت امام رضا (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "جو شخص ان لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا جن کے واسطے سے اسے نعمت الہٰی ملی ہے اس نے گویا خدا کا شکر ہی ادا نہیں کیا۔" (وسائل الشیعہ)
رسول خدا فرماتے ہیں: "قیامت میں بندے کو حساب کتاب کے مقام پر لائیں گے اور خدا حکم دے گا کہ اسے دوزخ میں لے جاؤ تو وہ کہے گا۔ اے پروردگار! مجھے دوزخ میں لے جانے کا حکم کس لیے دیتا ہے جبکہ میں قرآن کی تلاوت کرتا رہا ہوں؟ خدا فرمائے گا: اس لیے کہ میں نے تجھے نعمت بخشی اور تُو نے شکر نہیں کیا۔ وہ کہے گا: اے خدا! تو نے مجھے فلاں نعمت دی تھی تو میں نے یوں شکر کیا، اور فلاں نعمت بخشی تو میں نے یوں شکرگذاری کی۔ اس طرح وہ خدا کی نعمتیں اور اپنی شکرگذاریاں گنائے گا۔ خدا فرمائے گا تُو نے سب کچھ سچ کہا لیکن یہ بات بھی تو ہے کہ میں جن لوگوں کے واسطے سے تجھے نعمتیں بھیجیں تو نے ان کا شکریہ ادا نہیں کیا۔ میں نے اپنی ذات کی قسم کھائی ہے کہ میں نے جس بندے کو اپنی نعمت عطا فرمائی ہے اس کا شکر اس وقت تک قبول نہیں کروں گا جب تک کہ وہ اس شخص کا شکریہ ادا نہ کرے جس کے وسیلے سے نعمت اس تک پہنچی ہے۔ (وسائل الشیعہ باب ۸ ص ۵۱۶)
پچھلی گفتگو میں حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) کی ایک حدیث نقل کی گئی تھی جس میں آپ فرماتے ہیں: "اس شخص پر خدا کی لعنت ہو جس کے ساتھ کوئی بھلائی کی جائے اور وہ اس کا شکریہ ادا نہ کرے اور اس کی ناشکری گذاری (احسان فراموشی) کی وجہ سے نیکی کرنے والا پھر دوسروں کے ساتھ بھلائی نہ کرے۔" (۱)


نیکی کے واسطے شکریے کى حقیقت

پیغمبر اکرم فرماتے ہیں: "جب تجھے اپنے مومن بھائی سے کوئی نعمت یا نیکی حاصل ہو تو اتنا ہی کہہ دینا کافی ہے کہ خدا آپ کو جزائے خیر (اچھا صلہ) عطا کرے اور اگر تیرا ذکر اس محفل میں کیا جائے جس میں تو موجود نہ ہو تو کہہ دے کہ خدا انہیں جزائے خیر عطا فرمائے تو نے گویا اس طرح اس کی تلافی کر دی یعنی حساب برابر کر دیا۔"
(وسائل الشیعہ۔ مستدرک)
آپ نے یہ بھی فرمایا ہے: "جس نے تمہیں خدا کی قسم دلا کر تم سے کچھ مانگا اور جس سے تمہیں بھلائی اور نعمت ملی اس کی تلافی کر دو یعنی تم بھی اس کی طرح اس کے ساتھ بھلائی کرو اور اگر تمہارے پاس وہ چیز نہ ہو جس سے تم تلافی کر سکتے ہو تو اس کے لیے اس طرح دعا کرو جس سے وہ جان جائے کہ تم نے تلافی کر دی ہے۔" (وسائل الشیعہ۔ مستدرک)
غرض ہر احسان کا بدلہ احسان سے چکانا چاہیئے جیسا کہ خدا سورة رحمن میں فرماتا ہے: "کیا بھلائی کا بدلہ بھی بھلائی کے سوا کچھ ہو سکتا ہے؟" (آیت ۶۰) لیکن یہ پیشِ نظر رہے کہ بھلائی کی ابتداء کرنے والا افضل ہوتا ہے۔
روایتوں میں صاف صاف بتایا گیا ہے کہ اس ظلم کے تحت احسان کرنے والوں میں کوئی فرق نہیں ہے یعنی مومن ہو یا کافر عبادت گذار ہو یا گناہگار غرضیکہ کوئی ہو اور اس نے کیسی ہی بھلائی کی ہو اس کی تلافی کرنا چاہیئے۔


ولایت سب سے اعلیٰ نعمت ہے

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کسی شخص کے بارے میں خدا کی دنیاوی اور آخرت کی، صوری اور معنوی نعمتیں گنی نہیں جا سکتیں جیسا کہ قرآن مجید میں خدا یاد دلاتا ہے: "اگر تم خدا کی نعمتوں کو گننا بھی چاہو تو گن نہیں سکو گے۔" (سورة ابراہیم آیت ۳۴ ) ان نعمتوں میں سے ہر نعمت کی ناشکری، جن معنوں میں ذکر کیا گیا ، گناہِ کبیرہ اور عذاب کی سزاوار ہے۔ لیکن یہ بھی جان لینا چاہیئے کہ نعمت جتنی اہم اور بڑی اور اس کا اثر جتنا زیادہ ہو گا اس کی ناشکری کی سزا بھی اتنی ہی زیادہ ہو گی اور اس کا گناہ بھی اتنا ہی بڑا ہو گا۔
ہر نعمت سے اعلیٰ اور اہم آلِ محمد علیھم السلام کی ولایت ہے (دیکھئے بحار الانوار جلد۷) اور اس نعمت کی ناشکری ہر گناہ سے سخت ہے اور اس کی ناشکری ان کی ولایت کا نہ ماننا یا ان حضرات کو بھول جانا اور یاد نہ کرنا، ان سے محبت نہ رکھنا اور ان کے اقوال اور اوامر ونواہی کے ماننے سے منہ موڑنا غرض ان کے منصب کی پرواہ نہ کرنا اور ان کی ولایت کی نعمت سے فیض حاصل نہ کرنا ہے۔
(۱) دیکھئے وسائل کتاب امر بمعروف جسکے باب ۸ میں اس موضوع پر ۱۶ حدیثیں، باب ۷ میں ۱۱ حدیثیں اور مستدرک میں ۱۴ حدیثیں اور باب ۷ میں ۹ حدیثیں بیان ہوئیں ہیں۔
تفسیر صافی اور برہان وغیرہ کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید کی ایمان سے متعلق زیادہ تر آیتوں کا اشارہ ولایت پر ایمان رکھنے سے ہے اور اسی طرح کفر کے موضوع سے متعلق آیتیں زیادہ تر ولایت کے انکار سے متعلق ہیں۔ مثال کے لیے دو ایک آیتوں کا ذکر کیا جاتا ہے:
خداوندعالم سورة ابراہیم میں فرماتا ہے: "کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہوں نے خدا کی نعمت کی ناشکری کی اور اپنی قوم کو جہنم میں جھونک دیا۔" (آیت ۲۴)
یہ بات بہت سی روایتوں میں آئی ہے کہ نعمت معصوم اور پاک اہل بیت علیھم السلام ہیں اور کفر بنی امیہ اور آلِ محمد کے دشمن ہیں۔
خدا سورةتکاثر میں فرماتاہے : "قیامت میں تم سے نعمت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔"(آیت ۸)
بہت سی روایتوں میں یہ بات ملتی ہے کہ اس بات میں لفظ نعیم (نعمت) سے جس کے بارے میں پوچھا جائے گا آلِ محمد کی ولایت مراد ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ نعمت کی اصل اور حقیقت وہی ولایت کی نعمت ہے کیونکہ ہر نعمت کی فیض رسانی اسی پر منحصر ہے۔

 

قرآنی علوم ومعارف سے سرشار عورت جس نے ایمان و تقوی اور فضائل و کمالات کے اعلی مراتب حاصل کئے ہیں اور اسی طرح انبیاء علیہم السلام کی تاریخ اور توحید کا پیغام نشرکرنے میں ایک عظیم مقام پر فائز ہے وہ جلیل القدر خاتون خلیل خدا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شریک حیات حضرت سارہ ہیں آپ حضرت آدم علیہ السلام کے دنیا میں تشریف لانے کے تینتیس سو اکسٹھ سال بعد اور پیغمبر اسلام (ص) کی ہجرت سے اٹھائیس سو پچپن سال پہلے عراق کے شہر بابل میں پیدا ہوئیں آپ کے والد ماجد لاہج تھے اور والدہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خالہ تھیں ۔ آپ نے ابھی زندگی کی چھتیسویں بہار ہی میں قدم رکھا تھا کہ آپ کی شادی حضرت ابراہیم سے ہوگئی اور آپ عمر کے آخری لمحہ تک ان کی مطیع و قرمانبردار رہیں۔ جناب سارہ اپنے زمانے کی مالدار خاتون اور بہت سی زمینوں اور مویشی اور جانوروں کی مالک تھیں مگر شادی کے بعد آپ نے اپنی تمام دولت وثروت حضرت ابراہیم کی خدمت میں پیش کردی تاکہ وہ دین کی نشرو اشاعت میں صرف کریں ۔

حناب سارہ نے بچپن سے ہی یہ مشاہدہ کیاتھا کہ ان کے خالہ زاد بھائی ابراہیم ، اگر چہ جہالت و گمراہی سے پر اور بت پرست معاشرے میں پیدا ہوئے تھے اوران کے ولی و سرپرست آزر خود ایک بت پرست تھے لیکن انہوں نے سن شعور ہی سے باطل خداؤں سے منھ موڑ رکھا تھا اور قوی ومستحکم دلیلوں کے ذریعے سورج ، چاند ستاروں اور ہرطرح کے خداؤں کی خدائی کو باطل قرار دیدیا تھا اور اپنے چچا آزر سے بحث و مناظرہ کرکے انہیں بت پرستی سے منع کیا تھا اس شرک و کفر کے ماحول میں جس چیز نے جناب سارہ کو اپنی طرف جذب کیا وہ انسانی اور توحیدی فضائل و کمالات تھے لہذا آپ نے ہزاروں پریشانی و مشکلات کے باوجود اپنے بھائی لوط کے ہمراہ سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نبوت کی تصدیق اور ان کی پیروی کی ۔

جناب سارہ بے شمار معنوی اور اخلاقی فضائل و کمالات کی حامل خاتون تھیں اور قضائے الہی پر صبر و تحمل کے ساتھ راضي رہنا ان کی اہم خصوصیت تھی اور خدا پر اعتماد وبھروسہ ، عبادت و ریاضت میں خلوص اس خداپرست خاتون کی دوسری صفتیں تھیں اگر چہ آپ شادی سے پہلے ایک بہت ہی مالدار خاتون تھیں لیکن حضرت ابراہیم سے شادی کے بعد بے پناہ مصائب و آلام برداشت کئے اور اس راہ میں نہایت صبر وتحمل اور خدا پر مکمل اعتماد کے ساتھ زندگی میں پیش آنے والی مشکلات کو سر کیا اور اخلاص کے ساتھ عبادت و بندگی میں منزل کمال پر فائز ہوئیں جناب سارہ کے اخلاقی صفات خصوصا مصائب وآلام میں صبر و تحمل ، اپنی تمام دولت و ثروت کو اپنے شوہر کی خدمت میں پیش کرنا پیغمبر اسلام (ص) کی شریک حیات حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کہ جو تمام مصیبت و آلام میں پیغمبر اسلام کے ہمراہ رہیں، کے ایثار و قربانی اور ان کے جذبہ خلوص کی یاد تازہ کر دیتا ہے۔

 "

بے شک خدا پر ایمان ، انسان کے قلب کو قوت وطاقت فراہم کرتا ہے تاکہ انسان مشکلات و پریشانی کے عالم میں حلیم و بردبار رہے۔

جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو نار نمرودی میں ڈالاگیا تو اس وقت جناب سارہ موجود تھیں اور آپ کی سلامتی کے لئے بارگاہ پروردگار میں دعائیں کی تھی اور آگ خدا کے حکم سے گلزار ہوگئ اور دشمنوں کی تمام سازشیں ناکام ہوگئیں اور اس واقعے کے بعد بت پرستوں نے حضرت ابراہیم ، سارہ اور لوط کو شہر سے باہر نکال دیا اور وہ لوگ شام کی جانب چلے گئے جناب سارہ نے دربدری اور سفر کی صعوبتوں کو برداشت کیا تا کہ ابراہیم کے ذریعے دین کا پیغام زیادہ عام ہوسکے اور مدتوں شام میں رہے اور اس دوران حضرت ابراہیم لوگوں کو خدا کے دین کی دعوت دیتے رہے۔

ایمان و اخلاق کی پیکر حضرت سارہ عفت و پاکدامنی میں بے نظیر تھیں آپ نہایت جمیل تھیں عام طور پر صاحبان حسن وجمال اپنے فانی حسن پر بہت زیادہ اتراتے ہیں لیکن جناب سارہ ایمان و تقوی کی دولت سے مالا مال ہونے کی بناء پر ہمیشہ پورے حجاب میں رہتی تھیں اور غیر افراد کے ساتھ کبھی بھی نشست و برخواست نہیں کرتی تھیں

جناب سارہ ایثار وقربانی کی پیکر اور عفو و درگذر کرنے والی خاتون تھیں شادی کے چند سال بعد جب انہیں یہ احساس ہوا کہ وہ ماں نہیں بن سکتیں اور حضرت ابراہیم کے یہاں ایک بچے کا وجود ضروری ہے تاکہ نسل رسالت کا سلسلہ جاری رہے توآپ نے اپنی کنیز خاص ہاجرہ کہ جو ایک متقی و پرہیزگار خاتون تھیں انہیں حضرت ابراہیم سے شادی کرنے کے لئے آمادہ کیا اور اس طرح پروردگار عالم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اسماعیل جیسا بیٹا عطافرمایا ۔

 

جناب سارہ بہترین شریک حیات ہونے کے ساتھ ساتھ ہر ہر منزل پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یاور و مددگار تھیں یہی وجہ ہے کہ خداوندعالم نے ان کے ایثار اور جذبہ قربانی ، صبر و اطمینان اور اعتماد کے نتیجے میں ایسی عمر میں کہ جس میں عورتوں میں بچہ جننے کی صلاحیت نہیں ہوتی جناب سارہ کو اسحاق جیسا فرزند عطا کیا اور یہ ایک معجزہ الہی تھا ورنہ علمی اعتبار سے بھی اسے کوئی قبول نہیں کرسکتا کہ ایک عورت نوے سال کی عمر میں ماں بن سکتی ہے ۔

حضرت ابراہیم اور جناب سارہ بہت زیادہ مہمان نواز تھے جناب سارہ کی ہمیشہ یہی کوشش رہتی تھی کہ تمام نیک امور بالخصوص مہمان نوازی میں حضرت ابراہیم کے شانہ بشانہ رہیں۔ ایک دن حضرت ابراہیم اور سارہ کے یہاں مہمان آئے لیکن یہ عام مہمان نہیں بلکہ فرشتے تھے جو انسانی شکل میں حضرت سارہ اور حضرت ابراہیم کے مہمان ہوئے تھے ۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فورا ہی مہمانوں کی خاطر و تواضع کے لئے اسباب فراہم کئے اور بہترین بھنا ہوا بچھڑے کا گوشت لائے سارہ نے بھی کھانا تیار کرنے میں اپنے شوہر نامدار کا ہاتھ بٹایا اور خوشی خوشی مہمانوں کے سامنے کھانا پیش کیا لیکن مہمانوں کا ابراہیم کے گھر آنے کا مقصد ، انہیں بشارت و خوشخبری سنانا تھا ۔

وہ لوگ بڑھاپے کے عالم میں خداوند عالم کے فضل وکرم سے صاحب اولاد ہوئے ایسا فرزند جس کا سارہ مدتوں سے انتظار کررہی تھیں اور اس طرح فرشتوں نے جناب سارہ کو ایک عظیم فرزند اسحاق کی خوشخبری سنائی سارہ نے جیسے ہی ماں بننے کی خبر سنی تو کہا : ” اب میرے یہاں بچہ پیدا ہوگا جب کہ میں بوڑھی ہوں اور میرے شوہر بھی بوڑھے ہو چکے ہیں یہ تو بالکل عجیب سی بات ہے ۔ فرشتوں نے کہا کہ کیا تمہیں حکم الہی میں تعجب ہورہا ہے اللہ کی رحمت اور برکت تمہارے گھر والوں پر ہے وہ قابل حمد اور صاحب مجد و کرامت ہے ۔

 

اور پھر پروردگار عالم نے حضرت سارہ کو ایک عظیم فرزند اسحاق کی شکل میں عطا فرمایا حضرت اسحاق جناب یعقوب علیہ السلام کے والد ماجد ہیں اور حضرت یعقوب علیہ السلام انبیاء بنی اسرائیل ، حضرت موسی ، داؤد ، سلیمان ، زکریا ، عیسی، یحیی اور دوسرے انبیاء علیہم السلام کے جد امجد ہیں ۔

دین اسلام نے جنسیت کو لوگوں کی عظمت و برتری شمار نہیں کیا ہے بلکہ عورتوں اور مردوں کے لئے خدا سے قربت کا بہترین ذریعہ تقوی اور پرہیزگاری کو قرار دیا ہے ۔ دین اسلام کی نظر میں مومن انسان اپنے نیک اعمال اور فضائل و کمالات کے ذریعے خدا سے قربت حاصل کرتاہے اسی لئے پروردگار عالم نے انسان کو چاہے وہ مرد ہوں یا عورت ، روئے زمین پر اپنا جانشین وخلیفہ بنانے کا مستحق و سزاوار قراردیا ہے ۔

جناب سارہ نے بھی بے انتہا کوشش و محنت کرکے آرام و سائش سے دوری اور مادیت سے کنارہ کشی اختیار کی تھی اور خدا کی عبادت وبندگی میں اس درجہ کمال پر پہنچ چکی تھیں کہ پروردگارعالم نے ان کے عزت واحترام اور تعظیم کے لئے فرشتوں کو بھیجا اور ان سے خطاب کیا بالآخر عظمت و رفعت کی پیکراور توحید پروردگار کی حامی جناب سارہ اپنی بابرکت ودرخشاں زندگی اور حضرت ابراہیم کی رسالت وولایت کی حفاظت کرتے ہوئے ایک سو بیس سال کی عمر میں راہی ملک ارم ہوگئیں۔

سلام ہو اس حامی خدا اور خلیل خدا پر ۔