
سلیمانی
کيا شيعہ قرآن مجيد ميں تحريف کے قائل ہيں؟
شيعوں کے مشہور علماء کا يہ عقيده ہے کہ قرآن مجيد ميں کسی بھی قسم کی تحريف نہيں ہوئی ہے اور وه قرآن جو آج ہمارے ہاتھوں ميں ہے بعينہ وہی آسمانی کتاب ہے جو پيغمبر گرامی پر نازل ہوئی تھی اور اس ميں کسی قسم کی زيادتی اور کمی نہيں ہوئی ہے اس بات کی وضاحت کے لئے ہم يہانچند شواہد کی طرف اشاره کرتے ہيں:
١۔پروردگار عالم مسلمانوں کی آسمانی کتاب کی صيانت اور حفاظت کی ضمانت ليتے ہوئے فرماتا ہے :
إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ (1)
ہم نے ہی اس قرآن کو نازل کيا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہيں.
واضح ہے کہ ساری دنيا کے شيعہ چونکہ قرآن مجيد کو اپنے افکار اور کردار کے لئے اساس قرار ديتے ہيں لہذا اس آيہ شريفہ کی عظمت کا اقرار کرتے ہوئے اس آيت ميں موجود اس پيغام پر کامل ايمان رکھتے ہيں جو اس کتاب خدا کی حفاظت سے متعلق ہے .
٢۔شيعوں کے عظيم الشأن امام حضرت علی نے جو ہميشہ پيغمبر اکرم کے ہمراه رہے اور کاتبان وحی ميں سے ايک تھے آپ سے لوگوں کو مختلف موقعوں اور مناسبتوں پر اسی قرآن کی طرف دعوت دی ہے ہم اس سلسلے ميں ان کے کلام کے کچھ حصے يہاں پيش کرتے ہيں:
”واعلموا أن ھذا القرآن ھو الناصح الذ لايغش والھاد الذ لايضلّ” (2)
جان لو کہ يہ قرآن ايسا نصيحت کرنے والا ہے جو ہرگز خيانت نہيں کرتا اور ايسا رہنمائی کرنے والا ہے جو ہرگز گمراه نہيں کرتا.
”ن للهّ سبحانہ لم يعط أحداً بمثل ھذا القرآن فنہ حبل للهّ المتين و سببہ المبين”(3)
بے شک خداوند سبحان نے کسی بھی شخص کو اس قرآن کے جيسی نصيحت عطا نہيں فرمائی ہے کہ يہی خدا کی محکم رسی اور اس کا واضح وسيلہ ہے.
”ثم أنزل عليہ الکتاب نورًا لا تطفأ مصابيحہ و سراجًا لا يخبو توقده.ومنھاجًا لا يضل نھجہ . .. و فرقانا لا يخمد برھانہ”(4)
اور پھر آپۖ پر ايسی کتاب کو نازل کيا جس کا نور کبھی خاموش نہيں ہوگااور جس کے چراغ کی لو کبھی مدھم نہيں پڑ سکتی وه ايسا راستہ ہے جس پر چلنے والا کبھی بھٹک نہيں سکتا اور ايسا حق اور باطل کا امتياز ہے جو کمزور نہيں پڑ سکتا .
شيعوں کے امام عالی شان امام حضرت امير المومنين علی بن ابی طالب کے گہربار کلام سے يہ بات اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ قرآن مجيد کی مثال ايک ايسے روشن چراغ کی ہے جو ہميشہ اپنے پيروکاروں کے لئے مشعل راه کا کام کرے گا. اور ساتھ ہی ساتھ اس ميں کوئی ايسی تبديلی نہيں ہوگی جو اس کے نور کے خاموش ہوجانے يا انسانوں کی گمراہی کا باعث ہو .
٣۔شيعہ علماء اس بات پر اتفاق نظر رکھتے ہيں کہ پيغمبر اسلام نے يہ ارشاد فرمايا ہے :
”ميں تمہارے درميان دو گراں قدر چيزيں چھوڑے جارہا ہوں ايک کتاب خدا (قرآن) ہے اور دوسرے ميرے اہل بيت ہيں جب تک تم ان دو سے متمسک رہو گے ہرگز گمراه نہيں ہوگے.”
يہ حديث اسلام کی متواتر احاديث ميں ايک ہے جسے شيعہ اور سنی دونوں فرقوں نے نقل کيا ہے.اس بيان سے يہ بات اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ شيعوں کی نظر ميں کتاب خدا ميں ہرگز کسی قسم کی تبديلی واقع نہيں ہوسکتی کيونکہ اگر قرآن مجيد ميں تحريف کا امکان ہوتا تو اس سے تمسک اختيار کر کے ہدايت حاصل کرنا اور گمراہی سے بچنا ممکن نہ ہوتااور پھر اس کے نتيجہ مينقرآن اور حديث ثقلين کے درميان ٹکراؤ ہوجاتا .
٤.شيعوں کے اماموں نے اپنی روايات ميں (جنہيں ہمارے تمام علماء اور فقہا نے نقل کيا ہے) اس حقيقت کو بيان کيا ہے کہ قرآن مجيد حق وباطل اور صحيح و غلط کے درميان فرق پيدا کرنے والا ہے لہذا ہر کلام حتی ہم تک پہنچنے والی روايات کے لئے ضروری ہے کہ انہيں قرآن مجيد کے ميزان پر تولا جائے اگر وه قرآنی آيات کے مطابق ہوں تو حق ہيں ورنہ باطل. اس سلسلے ميں شيعوں کی فقہ اور احاديث سے متعلق کتابوں ميں بہت سی روايتيں ہيں ہم يہاں ان ميں سے صرف ايک روايت کو پيش کرتے ہيں : امام صادق فرماتے ہيں:
”مالم يوافق من الحديث القرآن فھو زخرف”(5)
ہر وه کلام باطل ہے جو قرآن سے مطابقت نہ رکھتا ہو .
اس قسم کی روايات سے بھی يہ بات اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ قرآن مجيد ميں کسی بھی قسم کی تحريف نہيں کی جاسکتی اسی وجہ سے اس کتاب کی يہ خاصيت ہے کہ وه حق و باطل ميں فرق پيدا کرنے والی ہے اورہميشہ باقی رہنے والی ہے .
٥.شيعوں کے بزرگ علماء نے ہميشہ اسلام اور تشيع کی آفاقی تہذيب کی حفاظت کی ہے ان سب نے اس حقيقت کا اعتراف کيا ہے کہ قرآن مجيدميں کبھی کوئی تحريف نہيں ہوئی ہے چوں کہ ان تمام بزرگوں کے نام تحرير کرنا دشوار کام ہے لہذا ہم بطور نمونہ ان ميں سے بعض کا ذکر کرتے ہيں :
١۔جناب ابوجعفر محمد بن علی بن حسين بابويہ قمی (متوفی ٣٨١ ھ) جو ”شيخ صدوق” کے نام سے مشہور ہيں فرماتے ہيں :
” قرآن مجيد کے بارے ميں ہمارا عقيده ہے کہ وه خدا کا کلام ہے وه ايک ايسی کتاب ہے جس ميں باطل نہيں آسکتا وه پروردگار حکيم و عليم کی بارگاه سے نازل ہواہے اور اسی کی ذات اس کو نازل کرنے اور اس کی محافظت کرنے والی ہے .”(6)
٢۔جناب سيد مرتضیٰ علی بن حسين موسوی علوی (متوفی ٤٣٦ ھ)جو ”علم الہدیٰ” کے نام سے مشہور ہينفرماتے ہيں:
”پيغمبر اکرم کے بعض صحابۂ کرام جيسے عبدلله بن مسعود اور اُبیّ بن کعب وغيره نے بارہا آنحضرت کے حضور ميں قرآن مجيد کو اول سے لے کر آخر تک پڑھا ہے يہ بات اس حقيقت کی گواہی ديتی ہے کہ قرآن مجيد ترتيب کے ساتھ اور ہر طرح کی کمی يا پراگندگی کے بغير اسی زمانے ميں جمع کر کے مرتب کيا جاچکا تھا.”(7)
٣۔جناب ابوجعفر محمد بن حسن طوسی (متوفی ٤٦٠ ھ)جوکہ شيخ الطائفہ کے نام سے مشہور تھے وه فرماتے ہيں:
”قرآن مجيد ميں کمی يا زيادتی کا نظريہ کسی بھی اعتبار سے اس مقدس کتاب کے ساتھ مطابقت نہيں رکھتاکيونکہ تمام مسلمان اس بات پر اتفاق نظر رکھتے ہيں کہ قرآن مجيد ميں کسی طرح کی زيادتی واقع نہيں ہوئی ہے اسی طرح ظاہراً سارے مسلمان متفق ہيں کہ قرآن مجيدميں کسی قسم کی کمی واقع نہيں ہوئی ہے اور يہ نظريہ کہ (قرآن ميں کسی قسم کی کمی واقع نہيں ہوئی ہے) ہمارے مذہب سے زياده مناسبت رکھتا ہے جناب سيد مرتضی نے بھی اس بات کی تائيد کی ہے اور روايات کے ظاہری مفہوم سے بھی يہی بات ثابت ہوتی ہے کچھ لوگوں نے بعض ايسی روايتوں کی طرف اشاره کيا ہے جن ميں قرآن مجيد کی آيات ميں کمی يا ان کے جابجا ہوجانے کا ذکر ہے ايسی روايتيں شيعہ اور سنی دونوں ہی کے يہاں پائی جاتی ہيں۔ ليکن چونکہ يہ روايتيں خبر واحد ہيں ان سے نہ تو يقين حاصل ہوتا ہے اور نہ ہی ان پر عمل کيا جاسکتا ہے( 8) لہذا بہتر يہ ہے کہ اس قسم کی روايتوں سے روگردانی کی جائے۔”( 9 ) .
٤۔جناب ابوعلی طبرسی صاحب تفسير ”مجمع البيان” فرماتے ہيں:
”پوری امت اسلاميہ اس بات پر متفق ہے کہ قرآن مجيد ميں کسی بھی قسم کا اضافہ نہيں ہوا ہے ا س کے برخلاف ہمارے مذہب کے کچھ افراد اور اہل سنت کے درميان ”حشويہ” فرقہ کے ماننے والے قرآن مجيد کی آيات ميں کمی کے سلسلے ميں بعض روايتوں کو پيش کرتے ہيں ليکن جس چيز کو ہمارے مذہب نے مانا ہے جو صحيح بھی ہے وه اس نظريہ کے برخلاف ہے.”(10)
٥۔جناب علی بن طاؤس حلی (متوفی ٦٦٤ ھ) جو ”سيد بن طاؤس” کے نام سے مشہور ہيں فرماتے ہيں :
”شيعوں کی نگاه ميں قرآن مجيد ميں کسی بھی قسم کی تبديلی واقع نہيں ہوئی ہے”( 11)
٦۔ جناب شيخ زين الدين عاملی (متوفی ٨٧٧ ھ) اس آيہ کريمہ:(إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ) کی تفسير کرتے ہوئے فرماتے ہيں کہ:
”يعنی ہم قرآن مجيد کو ہر قسم کی تبديلی اور زيادتی سے محفوظ رکھيں گے.”(12)
٧۔کتاب احقاق الحق کے مؤلف سيد نور لله تستری (شہادت ١٠١٩ ھ) جو کہ شہيد ثالث کے لقب سے مشہور ہيں فرماتے ہيں: ” بعض لوگوں نے شيعوں کی طرف يہ نسبت دی ہے کہ وه قرآن ميں تبديلی کے قائل ہيں ليکن يہ سارے شيعوں کا عقيده نہيں ہے بلکہ ان ميں سے بہت تھوڑے سے افراد ايسا عقيده رکھتے ہيں اور ايسے افراد شيعوں کے درميان مقبول نہيں ہيں (13)”.
٨۔جناب محمد بن حسين (متوفی ١٠٣٠ ھ)جو”بہاء الدين عاملی ” کے نام سے مشہور ہيں فرماتے ہيں کہ:
”صحيح يہ ہے کہ قرآن مجيد ہر قسم کی کمی و زيادتی سے محفوظ ہے اور يہ کہنا کہ امير المومنين علی کا نام قرآن مجيد سے حذف کرديا گيا ہے” ايک ايسی بات ہے جو علماء کے نزديک ثابت نہيں ہے جو شخص بھی تاريخ اور روايات کا مطالعہ کرے گااس کو معلوم ہوجائے گا کہ قرآن مجيد متواتر روايات اور پيغمبر اکرمۖ کے ہزاروں اصحاب کے نقل کرنے کی وجہ سے ثابت و استوارہے اور پيغمبراکرم کے زمانے ميں ہی پورا قرآن جمع کيا جاچکا تھا.” ( 14)
٩۔کتاب وافی کے مؤلف جناب فيض کاشانی (متوفی ١٠٩١ ھ) نے آيت (إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ) کو اور اس جيسی آيتوں کو قرآن مجيد ميں عدم تحريف کی دليل قرار ديتے ہوئے يوں لکھا ہے: ”اس صورت ميں يہ کيسے ممکن ہے کہ قرآن مجيد ميں تحريف واقع ہو ساتھ ہی ساتھ تحريف پر دلالت کرنے والی روايتيں کتاب خدا کی مخالف بھی ہيں لہذا ضروری ہے کہ اس قسم کی روايات کو باطل سمجھا جائے.”( 15)
١٠ ۔جناب شيخ حر عاملی (متوفی ١١٠٤ ھ) فرماتے ہيں کہ :
”تاريخ اور روايات کی چھان بين کرنے والا شخص اس بات کو اچھی طرح سمجھ سکتا ہے کہ قرآن مجيد، متواتر روايات اور ہزاروں صحابہ کرام کے نقل کرنے سے ثابت و محفوظ رہا ہے اور يہ قرآن پيغمبر اکرم کے زمانے ميں ہی منظم صورت ميں جمع کيا جاچکا تھا.’ ‘ ( 16)
١١ ۔بزرگ محقق ”جناب کاشف الغطائ” اپنی معروف کتاب ”کشف الغطائ” ميں لکھتے ہيں:
”اس ميں شک نہيں کہ قرآن مجيد خداوندکريم کی صيانت و حفاظت کے سائے ميں ہرقسم کی کمی و تبديلی سے محفوظ رہا ہے ا س بات کی گواہی خود قرآن مجيدبھی ديتا ہے اور ہرزمانے کے علماء نے بھی يک زبان ہو کر اس کی گواہی دی ہے اس سلسلے ميں ايک مختصر سے گروه کا مخالفت کرنا قابل اعتناء نہيں ہے .”
١٢ ۔اس سلسلہ ميں انقلاب اسلامی کے رہبر حضرت آية لله العظمیٰ امام خمينی رحمة لله عليہ کا بيان بھی موجود ہے جسے ہم ايک واضح شاہد کے طور پر پيش کرتے ہيں: ہر وه شخص جو قرآن مجيد کے جمع کرنے اس کی حفاظت کرنے، اس کو حفظ کرنے ، اس کی تلاوت کرنے اور اس کے لکھنے کے بارے ميں مسلمانوں کی احتياط سے آگاہی رکھتا ہو وه قرآن کے سلسلے ميں نظريہ تحريف کے باطل ہونے کی گواہی دے گا اور وه روايات جو اس بارے ميں وارد ہوئی ہيں وه يا تو ضعيف ہيں جن کے ذريعے استدلال نہيں کيا جاسکتا يا پھر مجہول ہيں جس سے ان کے جعلی ہونے کی نشاندہی ہوتی ہے يا يہ روايتيں قرآن کی تاويل اور تفسير کے بارے ميں ہيں يا پھر کسی اور قسم کی ہيں جن کے بيان کے لئے ايک جامع کتاب تاليف کرنے کی ضرورت ہے اگر موضوع بحث سے خارج ہونے کا خدشہ نہ ہوتا تو يہاں پر ہم قرآن کی تاريخ بيان کرتے اور ساتھ ہی ساتھ يہ بھی واضح کرتے کہ ان چند صديوں ميں اس قرآن پر کيسے حالات گزرے ہيں اور اس بات کو بھی روشن کرديتے کہ جو قرآن مجيد آج ہمارے ہاتھوں ميں ہے وه بعينہ وہی آسمان سے آنے والی کتاب ہے اور وه اختلاف جو قرآن کے قاريوں کے درميان پايا جاتا ہے وه ايک جديد امر ہے جس کا اس قرآن سے کوئی تعلق نہيں ہے جسے لے کر جبرئيل امين پيغمبر کے قلب مطہر پر نازل ہوئے تھے.”( 17)
نتيجہ:مسلمانونکی اکثريت خواه وه شيعہ ہوں يا سنی اس بات کی معتقد ہے کہ يہ آسمانی کتاب بعينہ وہی قرآن ہے جو پيغمبر خدا پر نازل ہوئی تھی اور وه ہر قسم کی تحريف ، تبديلی ، کمی اور زيادتی سے محفوظ ہے. ہمارے اس بيان سے شيعوں کی طرف دی جانے والی يہ نسبت باطل ہوجاتی ہے کہ وه قرآن ميں تحريف کے قائل ہيں اگر اس تہمت کا سبب يہ ہے کہ چند ضعيف روايات ہمارے ہاں نقل ہوئی ہيں تو ہمارا جواب يہ ہوگا کہ ان ضعيف روايات کو شيعوں کے ايک مختصر فرقے ہی نے نہيں بلکہ اہل سنت کے بہت سے مفسرين نے بھی اپنے ہاں نقل کيا ہے يہاں ہم نمونے کے طور پر ان ميں سے بعض روايات کی طرف اشاره کرتے ہيں :
١۔ابوعبدلله محمد بن احمد انصاری قرطبی اپنی تفسير ميں ابوبکر انبازی سے اور نيز ابی بن کعب سے روايت کرتے ہيں کہ سوره احزاب (جس ميں تہتر آيتيں ہيں) پيغمبر کے زمانے ميں سوره بقره (جس ميں ( دو سو چھياسی آيتيں ہيں) کے برابر تھا اور اسوقت اس سوره ميں آيہ ”رجم” بھی شامل تھی .(18)
ليکن اب سوره احزاب ميں يہ آيت نہيں ہے)اور نيز اس کتاب ميں عائشہ سے نقل کرتے ہيں کہ انہوں نے کہا :
”پيغمبر کے زمانے ميں سورهٔ احزاب ميں دوسو آيتيں تھيں پھر بعد ميں جب مصحف لکھا گيا تو جتنی اب اس سوره ميں آيتيں ہيں ان سے زياده نہ مل سکيں” ( 19)
٢۔کتاب ”الاتقان” کے مؤلف نقل کرتے ہيں کہ ”اُبیّ ” کے قرآن ميں ايک سو سولہ سورے تھے کيونکہ اس ميں دو سورے حفد اور خلع بھی تھے .جب کہ ہم سب جانتے ہيں کہ قرآن مجيد کے سوروں کی تعداد ايک سو چوده ہے اور ان دو سوروں (حفد اور خلع) کا قرآن مجيد ميں نام ونشان تک نہيں ہے. ( 20)
٣۔ہبة لله بن سلامہ اپنی کتاب ”الناسخ والمنسوخ” ميں انس بن مالک سے نقل کرتے ہيں کہ وه کہتے ہيں : ”پيغمبر اکرمۖ کے زمانے ميں ہم ايک ايسا سوره پڑھتے تھے جو سورهٔ توبہ کے برابر تھا مجھے اس سوره کی صرف ايک ہی آيت ياد ہے اور وه يہ ہے: ”لوأن لابن آدم واديان من الذھب لابتغیٰ اِليھما ثالثاً ولو أن لہ ثالثاً لابتغیٰ ليھا رابعاً ولا يملأ جوف ابن آدم اِلا التراب و يتوب للهّ علیٰ مَن تاب!”
جب کہ ہم سب جانتے ہيں کہ اس قسم کی آيت قرآن ميں موجود نہيں ہے اوريہ جملے قرآنی بلاغت سے بھی مغايرت رکھتے ہيں.
٤۔.جلال الدين سيوطی اپنی تفسير در المنثور ميں عمر بن خطاب سے روايت کرتے ہيں کہ سوره احزاب سوره بقره کے برابر تھا اور آيہ ”رجم” بھی اس ميں موجود تھی ( 21)
لہذا شيعہ اور سنی دونوں فرقوں کے کچھ افراد نے قرآن ميں تحريف کے بارے ميں ايسی ضعيف روايتوں کو نقل کيا ہے جنہيں مسلمانوں کی اکثريت نے خواه وه شيعہ ہوں يا سنی قبول نہيں کيا ہے . بلکہ قرآن کی آيتوں، عالم اسلام کی صحيح اور متواتر روايتوں ،اجماع، ہزاروں اصحاب پيغمبرۖ کے نظريات اور دنيا کے تمام مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قرآن مجيد ميں کسی بھی قسم کی تحريف ، تبديلی ، کمی يازيادتی نہ آج تک ہوئی ہے اور نہ ہی رہتی دنيا تک ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1) سوره حجر آيت : ٩
2) نہج البلاغہ (صبحی صالح) خطبہ نمبر ١٧٦
3) گذشتہ حوالہ
4) نہج البلاغہ (صبحی صالح) خطبہ نمبر ١٩
5) اصول کافی جلد ١ کتاب فضل العلم باب الاخذ بالسنة و شواہد الکتاب روايت نمبر ٤
6) الاعتقادات ص ٩
7) مجمع البيان جلد ١ ص ١٠ ميں سيد مرتضیٰ کی کتاب ”المسائل الطر ابليسيات”سے نقل کرتے ہوئے
8) ايسی روايت جو حد تواتر تک نہ پہنچتی ہو اور اس کے صدق کا يقين بھی نہ کيا جاسکتا ہووه خبر واحد کہلاتی ہے.(مترجم)
9) تفسير تبيان جلد ١ ص ٣
10) تفسير مجمع البيان جلد ١ ص ١
11) سعد السعود ص ١١٤٤
12) اظہار الحق ج ٢ ص ١٣٠
13) آلاء الرحمن ص ٢٥
14) آلاء الرحمن ص ٢٥
15) تفسير صافی جلد ١ ص1 ٥
16) آلاء الرحمن ص ٢٥
17) تہذيب الاصول ، جعفر سبحانی(دروس امام خمينی قدس سره )جلد ٢ص ٩٦
18) تفسير قرطبی جز ١٤ ص ١١٣ سوره احزاب کی تفسير کی ابتداء ميں
19) گذشتہ حوالہ
20) اتقان جلد ١ ص ٦٧
21) تفسير درالمنثور جلد ٥ ص ١٨٠ سوره احزاب کی تفسير کی ابتداء ميں
اسرائیل کا مستقبل
صیہونی اخبار ہاریٹز کی رپورٹ کے مطابق ایک تجزیہ کار بن آلوف نے کہا کہ غزہ کی حالیہ جنگ اسرائیل کیلئے تاریخ کی سب سے بدترین شکست ہے۔ اس صیہونی کا اعتراف کرنا حماس اور محور مقاومت کی عظمت و ہیبت میں اضافہ کرتا ہے۔ محور مقاومت کی سیسہ پلائی ہوئی دیوار نے ثابت کر دیا کہ وہ ہر دشمن اسلام کے خلاف طاقتور ہیں۔ پہلے جب اسرائیل سے جنگ ہوا کرتی تھی تو کئی سالوں تک جاری رہتی تھی، جس میں دشمن منافقوں سے خوب فائدہ اٹھاتا تھا، مگر اب محور مقاومت اور اسلام پرور مملکت ایران کی بدولت 33 روز جنگ ہوتی ہے، 33 روزہ جنگ کے بعد 22 اور اسکے بعد اب 11 دن کی مسلسل استقامت کے نتیجے میں صیہونیت کو شکست دی اور اسلام مخالف ہر طاقت کو پیغام دیا کہ تم جس میدان میں آجاؤ، تمہاری شکست یقینی ہے۔
دشمن نے شام و عراق کو ٹکڑے کرنا چاہا، مگر راہیان اسلام و مدافعان حرم نے جان کی پرواہ کئے بغیر خونخوار لشکروں کو شکست دی، دشمن نے یمن کا میدان ڈھونڈا مگر عشقِ رسول و اولادِ رسول میں لبریز جوانوں نے الله اكبر کے نعرے بلند کرتے ہوئے آل یہود کی ناک زمین پر رگڑ دی، دشمن نے فلسطین پر قابض ہونے کی تیاری کی، مگر بوڑھوں سے لیکر بچوں تک ہر طبقے نے ہاتھوں میں پتھر لیکر دشمن کو دھول چٹا دی۔ دشمن اسلام کو چاہیئے کہ ماضی کی تاریک راتوں کو یاد کرے، ہوش کے ناخن لے، فلسطین سے بستر بوریا اٹھائے اور اپنی راہ لے۔ کیا غزہ حماس کے پیادہ جنگجوؤں کی کامیابی کے بعد تم کو عبرت نہیں ملی؟ کیا تم اس بدترین شکست کے بعد سوریا اور عراق کی طرف آنے کی کبھی جرأت کرسکتے ہو؟
دشمن جانتا ہے کہ مقاومت کا اسلحہ اور میزائل چند منٹوں میں اسرائیل کو تباہ کر دیں گے، حزب الله جس نے تمہیں عبرت کا نشان بنایا اور تم کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے، یہ الہیٰ لشکر اب ہزار گنا مضبوط اور طاقتور ہے، معرکہ سیف القدس میں حزب الله نے شرکت نہ کرکے تمہارے لئے خطرناک پیغام دیا ہے کہ اگلی بار کوئی حماقت ہوئی تو تمہیں صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے گا، یہ وہ پیشنگوئی ہے جس کے متعلق تمہاری ہی کتابوں میں ذکر کر دیا گیا ہے، تمہارے ہی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے اسرائیل کا وجود بمشکل پانچ سال تک ہو، لہذا تمہارا کوئی وجود نہ تھا اور نہ رہے گا۔
یہی وجہ ہے اسرائیل کے نجس وجود کے ساتھ امریکہ، نام نہاد عرب ممالک اور تمام اسلام مخالف طاقتیں مسلسل زوال کی طرف گامزن ہیں، شرپسندی سے خون خرابہ تو ہوسکتا ہے مگر اپنے ناپاک مقاصد میں ہرگز کامیاب نہیں ہوسکتے، کیونکہ شیطانی طاقتوں کا ہر راستہ زوال پذیر ہے، شیطان پرست گروہ کبھی اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہوسکتے جبکہ اسلامی جمہوریہ ایران اور محور مقاومت عظمت و بلندی کی راہ پر ہیں، جس کا راستہ الہیٰ ہے اور اس راستے کو کبھی زوال نہیں۔ الہیٰ لشکر ہمہ وقت شیطانی طاقتوں کا سر کچلنے کیلئے تیار ہیں۔
تحریر: شاہد عباس ہادی
قدس پر جارحیت "پورے خطے کی جنگ" جبکہ اسرائیل کا خاتمہ حتمی ہے، سید حسن نصراللہ
جنوبی لبنان سے غاصب صیہونیوں کی ذلت آمیز شکست کی 21ویں سالگرہ کی مناسبت سے لبنانی مزاحمتی تحریک حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے قوم سے خطاب کیا ہے۔ سید حسن نصراللہ نے اپنے خطاب میں اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ اس وقت لبنانی مزاحمتی محاذ اپنی تاریخ کی بہترین حالت میں ہے، اطلاع دی کہ رمضان المبارک کے بعد سے ان کے منظر عام پر نہ آنے کی وجہ ان کی علالت تھی۔ سید مقاومت نے اپنے خطاب کے آغاز میں لبنان سے اسرائیل کی تاریخی شکست کی سالگرہ پر مبارکباد پیش کی اور کہا کہ غزہ میں پیش آنے والے واقعات کے آغاز سے لے کر حالیہ حوادث تک میں لبنان اور اس سے باہر موجود بھائیوں کے ساتھ رابطے میں رہتے ہوئے تمام حالات کا جائزہ لے رہا تھا جبکہ اب ہم ماہ مئی میں 2 عظیم کامیابیوں؛ 25 مئی 2000ء کے روز لبنان میں اور 21 مئی 2021ء کے روز غزہ میں (غاصب صیہونی رژیم کی شکست کے حوالے سے) حاصل ہونے والی فتوحات پر جشن منایا کریں گے۔ حزب اللہ لبنان کے سربراہ نے جنوبی لبنان کی آزادی میں موثر کردار ادا کرنے پر شہدائے مزاحمت کے سردار جنرل قاسم سلیمانی سمیت لبنانی، فلسطینی و عرب ممالک کے شہداء کو خراج تحسین پیش کیا اور تاکید کی کہ فلسطینی مزاحمتی محاذ کے کمانڈروں نے غزہ کے حالیہ معرکے میں خوب جوہر دکھائے ہیں۔
سربراہ حزب اللہ لبنان نے سال 2000ء میں غاصب صیہونی رژیم کے خلاف حاصل ہونے والی تاریخی فتح کی جانب اشارہ کیا اور کہا کہ سال 2000ء میں لبنانی قوم و مزاحمتی محاذ کی جانب سے حاصل کی جانے والی کامیابی درحقیقت لبنانی عوامی تحریکوں اور قومی جماعتوں کی فداکاری کا نتیجہ تھا جبکہ سال 2000ء کی فتح کا اہم ترین محرک اس وقت کے لبنانی صدر "امیل لحود"، چیئرمین پارلیمنٹ "نبیہ بری" اور وزیراعظم "سلیم الحص" سمیت لبنانی حکام کا سرکاری و دوٹوک موقف تھا۔ سید حسن نصراللہ نے تاکید کی کہ سال 2000ء کی فتح ایک تاریخی و تزویراتی کامیابی تھی اور یہی وجہ ہے کہ دشمن صیہونی حکام نے اس تزویراتی شکست کے برے نتائج
پر خبردار بھی کیا ہے، جبکہ اس کامیابی نے مسئلۂ فلسطین اور اس کے متعلقہ معرکوں کے حوالے سے دوستوں کے ساتھ ساتھ دشمن فریقوں کو بھی مختلف تزویراتی رستوں پر گامزن کر دیا ہے۔
عرب چینل المنار کے مطابق اپنے خطاب میں سید حسن نصراللہ نے تاکید کی ہے کہ قدس کو لاحق خطرہ فلسطینی مزاحمتی محاذ کی عسکری کمان کی جانب سے تاریخی و دوٹوک موقف کے اختیار کئے جانے کا محرک بنا ہے جبکہ غزہ کی حالیہ جنگ کی اصلی وجہ صیہونی دشمن کی حماقت، اس کی جانب سے مزاحمتی محاذ کو کمزور سمجھنا اور (صیہونی) دشمن کے حساب کتاب کی غلطی تھی۔ سید مقاومت نے زور دیتے ہوئے کہا کہ غاصب صیہونی رژیم کا خیال تھا کہ قدس کو یہودی بنائے جانے کے اس کے گھناؤنے منصوبے پر سامنے آمنے والا ردعمل "بیان" سے بڑھ کر نہیں ہوگا جبکہ دشمن کے حساب کتاب کی سب سے اہم غلطی یہ تھی کہ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ غزہ اس قسم کا کوئی تاریخی فیصلہ بھی اٹھا سکتا ہے، درحالیکہ غزہ نے اپنے اس فیصلے اور قدس میں انجام پانے والے قابض صیہونی رژیم کے گھناؤنے اقدامات پر اپنے دندان شکن جواب سے دوست و دشمن دونوں کو ہی چونکا کر رکھ دیا ہے!
حزب اللہ کے سربراہ نے کہا کہ غزہ نے جو کچھ حالیہ معرکے میں پیش کیا ہے، وہ نہ صرف ایک تاریخی قدم بلکہ اسرائیلی دشمن کے ساتھ جہاد کی پوری تاریخ میں ایک منفرد اقدام تھا، جبکہ "سیف القدس" مزاحمتی آپریشن کے سبب آنے والی اہم ترین تاریخی تبدیلی یہ تھی کہ غزہ نے صرف اور صرف قدس اور اس کے رہائشیوں کی خاطر اس جنگ میں قدم رکھا تھا، نہ کہ خود غزہ کے دفاع کے لئے! انہوں نے کہا کہ غزہ کے رہائشی اور اس کا مزاحمتی محاذ قدس و مسجد اقصیٰ کے دفاع میں اپنی جان نثار کر دینے کو تیار تھے اور یہی وجہ ہے کہ "سیف القدس" مزاحمتی آپریشن نے ایک ایسی حقیقت کو عیاں کر دیا ہے کہ جسے غاصب صیہونیوں کو سمجھ لینا اور اس کی بنیاد پر اپنے حساب کتاب کا ازسرنو جائزہ لینا چاہیئے۔ انہوں نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ صیہونیوں کو یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیئے
کہ قدس، اس کے مقدس مقامات اور مسجد اقصیٰ کے خلاف جارحیت، ان کی کسی بھی دوسری شرارت سے مختلف ہے، جبکہ (قدس شریف اور اس کے مقدس مقامات کے خلاف) اس جارحیت کا تعلق صرف غزہ تک ہی محدود نہیں رہے گا، کیونکہ اگر قدس شریف میں اسلامی و عیسائی مقدس مقامات کو خطرہ لاحق ہوا تو کوئی ریڈلائن باقی نہیں رہے گی!
سید مقاومت نے اپنے خطاب کے دوران غاصب صیہونیوں کو مخاطب کرتے ہوئے تاکید کی کہ قدس اور مسجد اقصیٰ کے خلاف جارحیت کا مطلب پورے خطے کی جنگ ہے! سید حسن نصراللہ نے کہا کہ جب اسرائیلی دشمن نے جان لیا کہ وہ اس دفاعی مساوات سے روبرو ہے تو پھر وہ یہ بھی جان لے گا کہ مستقبل میں اٹھایا جانے والا ہر اقدام اس (غیر قانونی) رژیم کے زوال پر ہی منتج ہوگا۔ سربراہ حزب اللہ لبنان نے زور دیتے ہوئے کہا کہ سیف القدس مزاحمتی آپریشن کے دوران پوری دنیا نے یہ محسوس کیا ہے کہ وہ ایک ایسی "متحد فلسطینی قوم" کے روبرو کھڑی ہے، جو پوری کی پوری واحد ہدف کے حصول لئے جدوجہد میں مصروف ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیف القدس مزاحمتی آپریشن نے نہ صرف عالمی سطح پر مسئلۂ فلسطین کو دوبارہ اجاگر کرکے پوری دنیا کے میڈیا کو اس کی کوریج پر مجبور کر دیا ہے بلکہ اس معرکے نے یہ ثابت کرتے ہوئے کہ مقبوضہ سرزمینوں کو واپس لینے کا واحد رستہ "مزاحمت" ہے، مزاحمتی ثقافت میں نئی روح بھی پھونک دی ہے۔
سید مقاومت نے سیف القدس مزاحمتی آپریشن کے اثرات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے تاکید کی کہ سیف القدس آپریشن کے بعد ہم یہ بات بآسانی کہہ سکتے ہیں کہ "صدی کی ڈیل" زوال پذیر ہوچکی ہے جبکہ اس مزاحمتی آپریشن کا ایک اور نتیجہ اسرائیل کے اپارتھائیڈ نظام حکومت سمیت اس کا گھناؤنا چہرہ عیاں کرنا بھی ہے، جبکہ خطے کی رائے عامہ کو حقیقی دشمن کی جانب موڑ دینا اس مزاحمتی آپریشن کا ایک اور اہم نتیجہ ہے۔ سید حسن نصراللہ نے تاکید کی کہ سیف القدس مزاحمتی آپریشن کے سبب پورے فلسطینی دفاعی نظام میں غزہ کی پٹی کی اہمیت دوبالا ہوگئی ہے، جو اس معرکے کے باعث وجود
میں آنے والی ایک بہت بڑی تبدیلی ہے جبکہ غزہ میں مزاحمتی محاذ کو حاصل ہونے والی حالیہ کامیابیوں میں سے ایک؛ پہلے سے اعلان کردہ وقت پر بڑی تعداد میں میزائل فائر کرنے کی صلاحیت ہے، درحالیکہ حالیہ معرکہ؛ تعداد، کیفیت اور میزائلوں کے رینج کے اعتبار سے مزاحمتی محاذ کی مختلف نئی صلاحیتوں کو بھی منظر عام پر لے آیا ہے۔
سید حسن نصراللہ نے اپنے خطاب میں تاکید کی کہ فلسطین میں موجود کوئی ایک صیہونی بھی جب غیر محفوظ ہونے کا احساس کرے گا تو اس کا کم از کم کام یہ ہوگا کہ وہ فلسطین کو ترک کر دے، جبکہ سیف القدس آپریشن کے اہم ترین نتائج میں سے ایک غاصب صیہونی رژیم کے امن و امان کا درہم برہم ہو جانا ہے، جو ایک تاریخی و اہم فوجی کامیابی ہے۔ سید مقاومت نے کہا کہ ہم ایک ایسی رژیم کے بارے میں بات کر رہے ہیں، جو سر تا پا مکمل طور پر مسلح اور اس انتہائی کم رقبے کی حامل "غزہ کی پٹی" کے مقابلے میں انتہائی طاقتور فضائیہ کی حامل ہے، جو گذشتہ 15 سال خود اسی رژیم کے مکمل محاصرے میں موجود ہے جبکہ غزہ میں ایک ایسا مزاحمتی محاذ موجود ہے، جس نے اپنا اسلحہ یا تو خفیہ طریقے سے وہاں پہنچایا ہے یا مقبوضہ فلسطین (اسرائیل) سے خریدا اور یا خود بنایا ہے.. لہذا ہم کوئی 2 بڑے ممالک کے بارے بات نہیں کر رہے، ہم غزہ کے مزاحمتی محاذ کے مقابلے میں "سر تا پا مسلح رژیم" کے بارے بات کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حالیہ معرکے نے مقبوضہ فلسطین (اسرائیل) کے بارے "غیر ملکی سرمایہ کاری کے لئے پرامن مقام" کے سابقہ تصور کو بھی توڑ ڈالا ہے جبکہ اس مزاحمتی آپریشن کے دوسرے نتائج میں ایک اور اہم نتیجہ؛ سال 1948ء کی مقبوضہ سرزمینوں کے رہائشیوں کی جانب سے غاصب صیہونی رژیم کے خلاف جدوجہد میں بھرپور شرکت تھی، درحالیکہ (صیہونی) دشمن اس امر کو "اپنے وجود کے لئے خطرہ" گردانتا ہے۔ سید مقاومت نے تاکید کی کہ اس معرکے کا ایک اور اہم نتیجہ مزاحمتی محاذ کی جانب سے فائر کئے جانے والے راکٹوں کے مقابلے میں غاصب صیہونی رژیم کی کھلی شکست
تھی، جو اس غاصب رژیم کی انٹیلیجنس ناکامی کو ظاہر کرتی ہے، درحالیکہ اگر "آئرن ڈوم" کہلانے والا دفاعی نظام کامیاب ہو جاتا تو (بنجمن) نیتن یاہو ہر جگہ اس پر فخر کرتا نظر آتا۔ سید حسن نصراللہ نے کہا کہ اس مزاحمتی آپریشن کی ایک اور کامیابی مزاحمتی محاذ کے ان میزائلوں کے زرادخانوں کو نشانہ بنانے میں اسرائیلی ناکامی ہے، جو تاحال فائر نہیں کئے گئے جبکہ غزہ اور 1948ء کی مقبوضہ سرزمینوں کے ردعمل کا قبل از وقت اندازہ لگانے میں صیہونی شکست بھی اس آپریشن کی ایک اور اہم کامیابی ہے۔
انہوں نے تاکید کی کہ حالیہ معرکے میں غاصب صیہونی رژیم کی شکست کی واضح ترین علامت غزہ کے خلاف صیہونی دشمن کا زمینی جنگ میں داخل نہ ہونا ہے، جس سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ خود کو "خطے کی طاقتور ترین" کہلوانے والی فوج "زمینی جنگ" سے بری طرح ہراساں ہے جبکہ یہ کوئی عام نہیں بلکہ ایک تزویراتی شکست ہے، تاہم اس سے بڑھ کر یہ کہ دشمن اپنی فتح کے بارے کوئی تصور دینے کی طاقت بھی نہیں رکھتا۔ بعد ازاں خطاب کے دوران انہوں نے سیف القدس مزاحمتی آپریشن سے حاصل ہونے والے دوسرے نتائج کے حوالے سے اس جنگ میں کسی بھی تزویراتی ہدف کے حصول، مزاحمتی محاذ کی اصلی عسکری کمان کے مقامات کی تشخیص، (حماس کے عسکری ونگ کے کمانڈر) برادر محمد الضیف سمیت مزاحمتی کمانڈروں کی ٹارگٹ کلنگ اور مزاحمتی محاذ کی حقیقی طاقت کا اندازہ لگانے میں غاصب صیہونی رژیم کی کھلی شکست کا ذکر کیا۔
سربراہ حزب اللہ لبنان نے اپنے خطاب کے دوران اعلان کرتے ہوئے کہا کہ آج لبنانی مزاحمتی محاذ فوجی سازوسامان اور اپنی تیاری کے حوالے سے تاریخ کے کسی بھی دوسرے وقت کی نسبت سب سے زیادہ تیار ہے۔ سید حسن نصراللہ نے صیہونیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ لبنان کے بارے حساب کتاب میں ایسی کوئی غلطی نہ کرنا، جو تم نے غزہ میں کی ہے اور جان لو کہ ہماری صورتحال یکسر مختلف ہے اور اس وقت لبنانی مزاحمتی محاذ انتہائی طاقتور ہوچکا ہے۔ انہوں نے شہید قدس "محمد طحان" کو یاد کرتے
ہوئے کہا کہ یہ شہید آج کی اس نسل کا نمائندہ ہے، جو بغیر کسی اسلحے کے تمام سرحدیں و دیواریں عبور کرنے کو بالکل تیار ہے جبکہ مزاحمتی محاذ ہی فلسطینی قوم کی کامیابی کا اصلی راز ہے۔
سید حسن نصراللہ نے مسئلۂ فلسطین کو حاصل عراقی عوامی حمایت، عراق کے موجودہ حالات اور مرجع عالیقدر آیت اللہ سید علی سیستانی کے بیان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کے ہر کونے میں موجود ہر دوست و دشمن کو چاہیئے کہ وہ مسئلۂ فلسطین کے بارے آیت اللہ سید علی سیستانی کے بیان پر توجہ دے۔ سید مقاومت نے مسئلۂ فلسطین کے بارے یمنی عوام کی حمایت کی جانب بھی اشارہ کیا اور کہا کہ فلسطینی عوام کے ساتھ یمنی قوم اور ان کے رہبر "سید عبدالملک الحوثی" کی یکجہتی کے تصور سے شکرانے کے آنسو بہہ نکلتے ہیں جبکہ یمنی قوم مزاحمتی محاذ کے لئے ایک بڑی قوت کی حیثیت رکھتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب میں یہ بات سنتا ہوں کہ جناب عبدالملک جو خود اپنے پورے ملک کے ہمراہ سخت ترین سرحدی محاصرے میں ہیں، یہ کہتے ہیں کہ ہم فلسطین کے ساتھ اپنے تمام وسائل تقسیم کرنے پر تیار ہیں، تو میں واقعا بہت متاثر ہو جاتا ہوں۔
سید مقاومت نے اپنی آنکھوں میں امڈے آنسو پیتے ہوئے کہا کہ میں انہیں کہتا ہوں کہ آپ تو خود سخت ترین سرحدی محاصرے میں ہیں! انہوں نے اپنے خطاب کے آخر میں زور دیتے ہوئے کہا کہ صیہونی رژیم کا زوال انتہائی نزدیک اور اس کا خاتمہ حتمی ہے جبکہ اس حوالے سے صرف اور صرف وقت اہم ہے۔ حزب اللہ لبنان کے سربراہ نے کہا کہ آج کا اہم ترین موضوع خطے کے مختلف مقامات پر وجود میں آنے والی وہ مزاحمت، استقامت اور قیام ہے کہ جس نے آج فلسطین میں اہم کامیابی حاصل کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج اسلامی جمہوریہ ایران پائیدار و استوار ہے جبکہ جیسا کہ "جان بولٹن" چاہتا تھا، ویسا بالکل نہیں ہوا.. جبکہ اسلامی جمہوریہ ایران کو اب جنگ کی دھمکی بھی نہیں دی جا سکتی، درحالیکہ وہ اس وقت عائد پابندیوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے صدارتی انتخابات میں مصروف ہے۔
ہمارے دل آپ کی مجاہدت اورجدوجہد کے ساتھ ہیں / آپ نہائی فتح کو مشاہدہ کریں گے
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فلسطینی مزاحمتی تنظیموں کے رہنماؤں اسماعیل ہنیہ اور زیاد النخالہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ہمارے دل آپ کی مجاہدت اورجدوجہد کے ساتھ ہیں۔آپ کی دائمی کامیابی کے لئے ہماری دعاؤں کا سلسلہ جاری ہے۔ ان شاء اللہ ، آپ نہائی فتح اور کامیابی کو مشاہدہ کریں گے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فلسطینی تنظیم حماس کے سیاسی شعبہ کے سربراہ اسماعیل ہنیہ اور جہاد اسلامی کے سکریٹری زیادہ النخالہ کے خطوط کے جواب میں غاصب صہیونی حکومت کے خلاف جد و جہد کو کفر اور ظلم کے خلاف استقامت قراردیتے ہوئے فرمایا: ہمارے دل آپ کی مجاہدت اورجدوجہد کے ساتھ ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسماعیل ہنیہ اور زیاد النخالہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: آپ کا جہاد اللہ تعالی کی مرضی اور خوشنودی کے مطابق ہے ۔ اللہ تعالی اپنے وعدوں میں سچا ہے اور وہ آپ کو نہائی کامیابی عطا فرمائے گا ۔ آپ کا جہاد اورآپ کی جد وجہد قرآن مجید کی اس آیہ " اِن تَنصُروا اللهَ یَنصُرکُم وَ یُثَبِّت اَقدامَکُم " کا مصداق ہے۔ آپ صہیونیوں کے ناپاک وجود سے فلسطین کو پاک ہوتے ہوئے مشاہدہ کریں گے۔ ہماری دعائیں مسلسل آپ کی جد وجہد کے ساتھ ہیں۔
سعودی عرب نے سال 2021 کے حج کے لیے شرائط کا اعلان کردیا
مہر خبررساں ایجنسی نے العربیہ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ سعودی عرب نے سال 2021 کے حج کے لیے کورونا وائرس کے پیشِ نظر احتیاطی تدابیر اور شرائط کا اعلان کردیا ہے ، جس کے تحت 18 سال سے زائد عمر کے 60 ہزار ملکی اور غیر ملکی عازمین حج کی سعادت حاصل کرسکیں گے۔
سعودی وزارت صحت کی جانب سے 9 صفحات پر مشتمل دستاویز جاری کی گئی ہے جس میں حج کے حوالے سے مختلف شرائط کا ذکر کیا گیا جسے حرمین شریفین سے منسلک آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ پر شیئر کیا گیا ہے۔
مذکورہ نکات کے مطابق عازمینِ حج کا صحت مند ہونا ضروری ہے اور انہیں حج کا سفر کرنے سے 6 ماہ قبل تک کسی بیماری کی وجہ سے ہسپتال میں داخل نہ ہونا پڑا ہو جبکہ اس بات کا ثبوت دینا بھی لازمی ہے۔
اس کے علاوہ عازمین حج کے لیے ویکسینز کی دونوں خوراکیں لگوانا اور بطور ثبوت اپنے ملک کی وزارت صحت یا حکام سے جاری کردہ ویکسینیشن کارڈ فراہم کرنا ضروری ہوگا۔
حج پالیسی میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سعودی مملکت کی وزارت صحت کی جانب سے منظور کردہ ویکسین کی فہرست میں شامل ویکسین ہی لگوانا لازم ہے۔
واضح رہے کہ سعودی حکومت نے سعودی عرب میں آنے والے مسافروں کے لیے صرف فائزر، ایسٹرا زینیکا اور موڈرنا اور جانسن اینڈ جانسن ویکسین کی منظوری دی ہے۔
ساتھ ہی یہ شرط بھی رکھی گئی ہے کہ عازمین کو 2 خوراکوں والی ویکسین کی پہلی خوراک یکم شوال اور دوسری خوراک سعودی عرب پہنچنے سے 14 روز پہلے لگ چکی ہو۔
اس کے باجود غیر ملکی عازمین کو سعودی عرب پہنچنے کے بعد 3 روز کے لیے قرنطینہ کرنا ہوگا جبکہ سماجی فاصلہ رکھنے، ماسک پہننے سمیت دیگر احتیاطی تدابیر اپنانے کی شرط عازمین حج کے لیے برقرار رہے گی۔
غزہ جنگ میں اسرائیلی کی شکست کے بعد مقبوضہ فلسطین میں خوشی کی لہر دوڑ گئی
اسرائیلی وزیر اعظم نے غزہ جنگ میں یکطرفہ جنگ بندی کا اعلان کرکے اپنی شکست و ناکامی کا اعتراف کیا ہے جس کے بعد غزہ اور مقبوضہ فلسطین میں فلسطینی شہریوں میں شادی اور خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔
فلسطینی عوام کو اللہ تعالی نے ان چند دنوں کے امتحان میں سرافرازی اور کامیابی عطا کی
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنے پیغام میں بارہ روزہ جنگ میں فلسطینی عوام کو کامیابی پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے فرمایا: فلسطینی عوام کو اللہ تعالی نے ان چند دنوں کے امتحان میں سرافرازی اور کامیابی عطا فرمائي ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فلسطین کے غیور، طاقتور، شجاع اور بہادر عوام اور جوانوں کو سلام پیش کرتے ہوئے اسرائیل کا مقابلہ کرنے والی تمام فلسطینی مزاحمتی تنظیموں کو مبارکباد پیش کی ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے پیغام میں فلسطین کے مجاہدین اور مؤمنین کی عظیم کامیابی اور سرافرازی پر اللہ تعالی کا شکر ادا کیا۔ اللہ تعالی کی بارگاہ میں راہ حق میں شہداء پیش کرنے والے خاندانوں کے لئے صبر و تحمل کی دعا کرتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالی شہداء پر رحمت اور بخشش مرحمت اور زخمیوں کو جلد از جلد شفا عنایت فرمائے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اسرائیل کی درندہ صفت اور غاصب حکومت نے مظلوم فلسطینیوں پر بیشمار جرائم اور مظالم کا ارتکاب کیا ہے، جو اسرائیل کی ناتوانی اور ناکامی کا مظہر ہے۔ فلسطینی جوانوں نے غاصب صہیونی حکومت کا شجاعانہ اور دلیرانہ انداز میں مقابلہ کیا اور اسے ایک بار پھر تاریخي شکست سے دوچار کردیا۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فلسطینی عوام پر زوردیا کہ وہ اسرائیل کا مقابلہ کرنے کے سلسلے میں اپنی آمادگی کا سلسلہ جاری رکھیں کیونکہ بیت المقدس اور فلسطین کی آزادی تک غاصب صہیونی حکومت کے خلاف نبرد کا سلسلہ جاری رہےگا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: فلسطینی عوام کی حمایت اور مدد اسلامی ممالک اور امت مسلمہ کی دینی، مذہبی اور اخلاقی ذمہ داری ہے مسلم ممالک کو ہر لحاظ سے فلسطینیوں کی بھر پور حمایت کرنی چاہیے کیونکہ فلسطینی غاصب صہیونی حکومت کا فرنٹ لائن پر مقابلہ کررہے ہیں اور فلسطینیوں کی حمایت کے سلسلے میں مسلمانوں کو اپنی حکومتوں سے بھر پور مطالبہ کرنا چاہیے ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اسرائیل کے سفاک ،ظالم و جابر، بے رحم اور بچوں کے قاتل وزير اعظم نیتن یاہوکے خلاف جنگی جرائم کے تحت عالمی عدالت میں کارروائی ہونی چاہیے اور اسرائيل کے سفاک وزیراعظم کو کیفر کردار تک پہنچانا چاہیے۔ تمام فلسطینیوں کو ان کی اسقتامت اور شجاعت پر انھیں مبارکباد پیش کرتے ہیں اور فلسطین و بیت المقدس کی نبرد میں ہم اپنے فلسطینی بھائیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔
سیف القدس پیکار میں اسرائیل کو ایک اور تاریخی شکست کا سامنا کرنا پڑا
حزب اللہ لبنان نے اپنے ایک بیان میں فلسطینی مزاحمتی تنظیموں کو 11 روزہ سیف القدس پیکار میں اسرائيل پر کامیابی اور فتح کے سلسلے میں مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ سیف القدس پیکار میں اسرائیل کو ایک اور شکست ہوئی ہے۔ اسرائیل مکڑی کے جالے سے بھی کمزور ہے۔
حزب اللہ لبنان نے اپنے بیان میں اسرائيل پر فلسطینی مزاحمتی تنظیموں کی 11 روزہ جنگ میں کامیابی کو تاریخی کامیابی قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ فلسطینی تنظیموں نے 11 روزہ سیف القدس جنگ میں طاقت کا توازن بدل دیا ہے۔ فلسطینی تنظیم حماس ، جہاد اسلامی اور دیگر تنظیموں نے ثابت کردیا ہے کہ اسرائیل کا گھر مکڑي کے گھر سے بھی زیادہ کمزور ہے۔فلسطین اوربیت المقدس کی کامیابی قریب پہنچ گئی ہے۔ واضح رہے کہ اسرائیل نے آج صبح 2 بجے سے یکطرفہ طور پر جنگ بندی قبول کرتے ہوئے شیخ جراح علاقہ سے خارج ہونے کا اعلان کردیا ہے جنگ بندی کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔
ایران نے فلسطین اورغزہ کے مسلمانوں کی حمایت میں ہر قسم کی مدد فراہم کی
مہر خبررساں ایجنسی فلسطین الیوم کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ فلسطینی تنظیم جماس کے سیاسی شعبہ کے سربراہ اور سابق وزیر اعظم اسماعیل ہنیہ نے غزہ جنگ میں فلسطینیوں کی بھر پوراور بے لوث حمایت کرنے پر اسلامی جمہوریہ ایران کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران نے فلسطینیوں اور غزہ کے عوام کو ہر لحاظ سے مدد فراہم کی اور کسی بھی قسم کی مدد سے دریغ نہیں کیا۔
اسماعیل ہنیہ نے سیف القدس جنگ میں فلسطینیوں کی کامیابی کو اسٹراٹیجک کامیابی قراردیتے ہوئے کہا کہ قدس اور مسجد الاقصی ہماری ریڈ لائنیں ہیں ۔ سیف القدس دفاعی جنگ میں اسلامی مزاحمت کے کمانڈروں نے اسرائيلی فوج کوایک بار پھر ذلت آمیز شکست سے دوچار کیا ، میں حماس کے عسکری ونگ کے کمانڈر محمد ضیف اور دیگر کمانڈروں کواس اسٹراٹیجک کامیابی پر سلام پیش کرتا ہوں۔ انھوں نے کہا کہ سیف القدس جنگ میں کامیابی کسی گروہ کی کامیابی نہیں بلکہ پوری ملت فلسطین کی کامیابی ہے اور ہم اس عظیم کامیابی پر فلسطینی قوم اور تمام مسلمانوں کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔
انبیاء، ائمہ اور اولیاء کے قبور کے انہدام وہابی دلائل کی چھان بین
قبروں کو مسمار کرنے کے لئے وہابیت کی اہم دلیل:
قبروں کو مسمار کرنے کے لئے وہابیوں کی ایک اہم دلیل وہ روایت ہے جس میں رسول اللہ صَلَّى اللہ عَلَيْہ وَ آلِہ وَسَلَّمَ نے حضرت علی عَلَیہ السَّلَام کو مدینہ کی قبروں کو مسمار کرنے کی ذمہ داری سونپا تھا ۔
«عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي جَنَازَةٍ فَقَالَ: " أَيُّكُمْ يَنْطَلِقُ إِلَى الْمَدِينَةِ فَلا يَدَعُ بِهَا وَثَنًا إِلا كَسَرَهُ، وَلا قَبْرًا إِلا سَوَّاهُ، وَلا صُورَةً إِلا لَطَّخَهَا؟»
علی (علیہ السلام) سے روایت ہے : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کسی جنازہ کی تشییع میں شریک تھے کہ فرمایا : تم میں سے کون ہے جو مدینہ جا کے تمام بتوں کو توڑ سکتا ہے ، تمام قبروں کو ہموار ، اور تمام تصویروں کو مٹا سکتا ہے؟
مسند الإمام أحمد بن حنبل، اسم المؤلف: أحمد بن حنبل أبو عبدالله الشيباني، دار النشر: مؤسسة قرطبة – مصر؛ ج 1، ص 87، ح 657
اس روایت کی سند سے قطع نظر، اس کے الفاظ کو بھی اگر ملحوظ نظر رکھا جائے تو بھی وہابیوں کا دعوا ثابت نہیں ہوتا کیوں کہ روایت کے الفاظ ہیں : «ولا قبرا إلا سواه» یہ نہیں کہا : «ولا قبرا إلا خربته» یا «ولا قبرا إلا هدمته» لہذا روایت میں خراب کرنے یا مسمار کرنے کا حکم نہیں ،بلکہ حکم «تسویة القبر» ہے؛ یعنی قبروں کو ہموار کرنے کا حکم ہے کیونکہ جاہلیت کے دور میں قبروں کو اونٹ کے کوبڑ کی طرح بنایا کرتے تھے لہذا رسول اللہ صَلَّى اللہ عَلَيْہ وَ آلِہ وَسَلَّمَ نے جاہلیت کے آثار کو مٹانے کے لئے یہ حکم دیا تھا۔ اس کے باجود وہابیوں کے مطابق اس روایت کی رو سے جو بھی قبروں کو اونچا بنائے منجملہ «ابوحنیفہ» کی قبر اور اس کے لئے گنبد و بارگاہ بنائے وہ کافر ہوگا ۔ وہابی لوگ اس روایت سے بہت استدلال کرتے جب کہ مزہ کی بات یہ ہے کہ ان کا معروف اور معتبر عالم «شعیب أرنؤوط» اس روایت کے ذیل میں لکھتا ہے: «إسناده ضعیف» اس کی سند ضعیف ہے۔
روایت کی سند کے بارے میں بحث :
«شعیب أرنؤوط» کے ساتھ ، نہایت معتبر وہابی عالم «ألبانی» جس کے اعتبار کی حیثیت یہ ہے کہ وہابیوں میں اسے بخاری ثانی کہا جاتا ہے، وہ بھی کتاب «ارواء الغلیل» جلد سوم صفحہ 206 میں یہی بحث پیش کرتے ہوئے کہتا ہے کہ :«ورجاله ثقات رجال الشیخین غیر أبی المودع أو أبی محمد, فهو مجهول کما قال فی " التقریب " وغیره» حالانکہ اس کے رجال، شیخین کی نظر میں ثقہ ہیں لیکن أبی المودع یا أبی محمد تو بالکل مجہول ہیں جیسا کہ کتاب " التقریب " میں یا دوسری کتابوں میں مذکور ہے.
إرواء الغلیل فی تخریج أحادیث منار السبیل، المؤلف: محمد ناصر الدین الألبانی، الناشر: المکتب الإسلامی – بیروت، الطبعة: الثانیة - 1405، ج 3، ص 210، ح 759
ظاہر سی بات ہے مجہول کی روایت، ضعیف ہوا کرتی ہے ۔
تیسرا نکتہ یہ کہ کتاب «صحیح مسلم» میں روایت ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے آخری سفر میں مکہ و مدینہ کے درمیان اپنی والدہ بزرگوار کے مرقد پہ حاضر ہوئے، خود بھی گریہ فرمایا اور آپ کے گرد سب لوگوں نے بھی گریہ کیا : «زَارَ النبی قَبْرَ أُمِّهِ فَبَکی وَأَبْکی من حَوْلَهُ» سوال یہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تمام قبروں کو مسمار کرنے کا حکم دیدیا تھا تو آپ کی والدہ کی قبر کی پہچان کیسے ہوئی ؟!
انبیاء و اولیا کے قبور کی تعمیر، قرآن کی نظر میں :
پہلی آیہ: آیہ 36 سورہ مبارکہ نور:
«ثعلبی» نقل کرتا ہے : پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله وسلم ایک مرتبہ اس آیت کی تلاوت فرما رہے تھے کہ ایک شخص اٹھ کے پوچھتا ہے : یا رسول اللہ صلی الله علیه و آله وسلم! یہ کون سا گھر مراد ہے ؟ پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله وسلم نے فرمایا : انبیاء کا گھر مراد ہے ۔ پھر ابوبکر نے اٹھ کے پوچھا : یا رسول اللہ صلی الله علیه و آله وسلم! علی و زہرا کا گھر بھی انبیاء کے گھر کے برابر ہے ؟! حضرت نے فرمایا: ہاں بلکہ انبیاء کے گھر سے افضل ہے .
الکشف والبیان؛ المؤلف: أبو إسحاق أحمد بن محمد بن إبراهیم الثعلبی النیسابوری، دار النشر: دار إحیاء التراث العربی - بیروت - لبنان - 1422 هـ - 2002 م، الطبعة: الأولی، تحقیق: الإمام أبی محمد بن عاشور، ج 7، ص 107
اسی طرح «جلال الدین سیوطی» کی کتاب «تفسیر در المنثور» میں، نیز «ألوسی» کی کتاب « تفسیر روح المعانی» میں بھی یہ روایت نقل ہوئی ہے ۔
ملاحظہ کیجئے رفعت سے مراد کیا ؟! خداوند عالم سورہ بقرہ آیہ 127 میں ارشاد فرماتا ہے :
(وَ إِذْ یرْفَعُ إِبْراهِیمُ الْقَواعِدَ مِنَ الْبَیتِ وَ إِسْماعِیلُ رَبَّنا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّک أَنْتَ السَّمِیعُ الْعَلِیم) اس آیہ شریفہ میں (یرْفَعُ) کس معنی میں ہے؟! ظاہر سی بات ہے عمارت کو اٹھانے ، بلند کرنے اور اونچا کرنے کے معنی میں ہے؛ اسی سے حرم، گنبد، ضریح اور بارگاہ بنانے کا اشارہ بھی ملتا ہے جس طرح حضرت ابراہیم نے خانہ خدا کی عمارت کو اونچا کیا.
«ابن جوزی» کہتا ہے:
«والثانی أن تبنی قاله مجاهد وقتادة» دوسرا نظریہ یہ ہے کہ قبور پر عمارت تعمیر کی جا سکتی ہے جیسا کہ مجاہد اور قتادہ قائل ہیں ۔
زاد المسیر فی علم التفسیر، اسم المؤلف: عبد الرحمن بن علی بن محمد الجوزی، دار النشر: المکتب الإسلامی - بیروت - 1404، الطبعة: الثالثة، ج 6، ص 46، النور: (36)
اسی طرح کتاب «تفسیر بحر المحیط» میں «ابو حیان أندلسی» بھی یہی روایت نقل کرتے ہیں : «وإذنه تعالی وأمره بأن (تُرْفَعَ) أی یعظم قدرها قاله الحسن والضحاک» خداوند عالم نے اذن اور حکم دیا ہے کہ ان کی تکریم و تعظیم ہو اور اسے حسن بصری اور ضحاک نے کہا ہے «وقال ابن عباس ومجاهد: تبنی وتعلی» او ر ابن عباس و مجاہد کا کہنا ہے کہ : ان کے قبور پر عمارت تعمیر ہو اور وہ دوسرے گھروں سے اونچی ہو ۔
تفسیر البحر المحیط، اسم المؤلف: محمد بن یوسف الشهیر بأبی حیان الأندلسی، دار النشر: دار الکتب العلمیة - لبنان/ بیروت - 1422 هـ -2001 م، الطبعة: الأولی، تحقیق: الشیخ عادل أحمد عبد الموجود - الشیخ علی محمد معوض، ج 6، ص 421، باب النور: (36)
دوسری آیت: آیہ 23 سورہ مبارکہ کہف: (فَقالُوا ابْنُوا عَلَیهِمْ بُنْیاناً رَبُّهُمْ أَعْلَمُ بِهِمْ قالَ الَّذِینَ غَلَبُوا عَلی أَمْرِهِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَیهِمْ مَسْجِداً إِذْ یتَنازَعُونَ بَینَهُمْ أَمْرَهُم)
اگر قبروں پہ مسجد بنانا کفر اور بدعت کا مصداق ہوتا تو خداوند عالم اس سورہ میں اس جگہ ضرور مذمت کرتا جبکہ خداوند عالم نہ صرف مذمت نہیں کر رہا ہے بلکہ تائید کر رہا ہے!
«زمخشری» کتاب «الکشاف» میں کہتا ہے : «{ لَنَتَّخِذَنَّ } علی باب الکهف {مَّسْجِدًا} یصلی فیه المسلمون ویتبرکون بمکانهم» مراد یہ ہے کہ ہم اصحاب کہف کی قبر پر مسجد بنائیں گے تا کہ مومنین یہاں نماز پڑھیں ، اور اصحاب کہف کے اس مقدس مقام سے برکتیں حاصل کریں ۔
الکشاف عن حقائق التنزیل وعیون الأقاویل فی وجوه التأویل، أبو القاسم محمود بن عمر الزمخشری الخوارزمی، تحقیق عبد الرزاق المهدی، الناشر دار إحیاء التراث العربی، عدد الأجزاء 4، ج 2، ص 665
«طبری» کتاب «تفسیر طبری» جلد 15 میں لکھتے ہیں: «وقال المسلمون نحن أحق بهم هم منا نبنی علیهم مسجدا نصلی فیه ونعبد الله فیه» مومنوں نے کہا کہ ہم دوسروں سے زیادہ حق رکھتے ہیں ، ہم اصحاب کہف کی قبر پہ مسجد بنائیں گے، اور وہاں نماز پڑھیں گے اور خدا کی عبادت کریں گے ۔
«ابن جوزی» متوفای 597 کتاب «زاد المسیر» میں کہتے ہیں : «فقال المسلمون نبنی علیهم مسجدا لأنهم علی دیننا» مومنین نے کہا کہ ہم اصحاب کہف کی قبر پر مسجد بنائیں گے کیونکہ وہ لوگ ہمارے دین پر تھے ۔
قبور پر تعمیر سیرت صحابه :
اہل سنت کی برجستہ شخصیت اور بزرگ عالم دین «سمہودی» اپنی کتاب «وفاء الوفا» کی دوسری جلد صفحہ 109 میں رقم طراز ہیں : «وکان بیت عائشة رضی الله عنها أحد الأربعة المذکورة. لکن سیأتی من روایة ابن سعد أنه لم یکن علیه حائط زمن النبی صلّی الله علیه وسلّم، وأن أول من بنی علیه جدارا عمر بن الخطاب» رسول اسلام صلّی الله علیه و آلہ و سلّم کے زمانے میں عائشہ کے حجرہ اور مسجد میں دیوار نہیں تھی، اس پر سب سے پہلے عمر نے دیوار بنائی ۔
یعنی قبر رسول صلی الله علیه و آله وسلم اور عائشہ کے حجرہ کے درمیان عمر نے دیوار بنائی ۔ اب اگر قبر پر کسی طرح کی تعمیر حرام ہوتی تو قبر کو تو مسمار کر دینا چاہئے تھا ، اس پر دیوار بنانے کا کیا مطلب ؟ اور دیوار کو بھی کسی اور نے نہیں خلیفہ دوم نے بنوایا!
کتاب «البدایة و النهایة» میں بیان ہوا ہے . «فأدخل فیه الحجرة النبویة حجرة عائشة فدخل القبر فی المسجد» پھر نبی کا حجرہ، عائشہ کا حجرہ، نبی کی قبر، مسجد میں داخل کر لی گئی ۔
البداية والنهاية ، اسم المؤلف: إسماعيل بن عمر بن كثير القرشي أبو الفداء ، دار النشر : مكتبة المعارف – بيروت؛ ج9، ص 75
دوسری روایت اسی کتاب «وفاء الوفاء» میں یہی «سمہودی» جناب «فاطمہ بنت اسد» کے بارہ میں نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں : «فلما توفیت خرج رسول الله صلی الله علیه وسلم، فأمر بقبرها فحفر فی موضع المسجد الذی یقال له الیوم قبر فاطمة» جب فاطمہ بنت اسد کا انتقال ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا اس مکان میں جہاں مسجد تھی کھود کر ان کے لئے قبر تیار کی جائے ۔