سلیمانی
فرانسیسی صدر کے اسلام مخالف اقدامات
تحریر: عبدالحمید بیاتی
جدید سیاسی لٹریچر میں فرانس کو مغرب میں جمہوریت کا گہوارہ کہا جاتا ہے۔ اس کا مقصد درحقیقت دنیا والوں کے ذہن سے دیگر قوموں کے استعمار پر مبنی فرانس کے ماضی پر پردہ ڈالنا ہے۔ لیکن جمہوریت کے اسی گہوارے میں بعض ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں جن پر غور کرنے سے انسان اس نتیجے تک پہنچتا ہے کہ دیگر قوموں پر ناجائز تسلط اور استعمار کا جذبہ نہ صرف فرانس پر حکمفرما سیاسی نظام سے ختم نہیں ہوا بلکہ حالیہ حکمران بھی اپنے ماضی کی ڈگر پر ہی گامزن ہیں۔ یہ دعوی ثابت کرنے کیلئے بہت سے ثبوت موجود ہیں۔ لیکن ان دنوں جو چیز فرانسیسی حکمرانوں کی اس خصلت کے ظاہر ہونے کا بنیادی سبب بنی ہے وہ اسلاموفوبیا پر مبنی اقدامات ہیں۔ فرانس میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کی ایک نئی لہر نے جنم لیا ہے۔
الیزہ میں مقیم فرانسیسی حکام کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف اقدامات ایک طویل ماضی کے حامل ہیں۔ انہی اقدامات کے تسلسل کے طور پر اکتوبر کے آخر میں فرانسیسی صدر ایمونوئل میکرون نے بعض شدت پسند عناصر کے اقدامات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے بعد مسلمانوں کے خلاف ایک نیا قانون بنانے کا ارادہ کیا ہے۔ اس کے بعد فرانسیسی صدر نے میڈیا کے سامنے اعلان کیا کہ فرانس کی حکومت نے "مذہبی علیحدگی پسندی" کا مقابلہ کرنے کیلئے ایک نیا قانون تشکیل دیا ہے۔ انہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ وہ ملک سے باہر جا کر امام مسجد اور مبلغ کی تعلیم حاصل کرنے پر مبنی تعلیمی نظام کو ختم کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ فرانسیسی صدر نے دعوی کیا کہ ان کے اس فیصلے کا مقصد اپنے ملک میں اسلام کو بیرونی عناصر کے قبضے سے آزاد کروانا ہے۔
فرانس میں اس نئے قانون کی تشکیل کا آغاز اس سال کے آخر میں ایک بل کی صورت میں ہو گا جو مرکزی کابینہ میں شامل وزیروں کو پیش کیا جائے گا۔ اسی طرح اگلے سال کے شروع میں یہ بل فرانس کی پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔ اس نئے قانون میں فرانس میں موجود اسلامک سنٹرز اور اسلامک آرگنائزیشنز کی تعلیمی سرگرمیوں کو بہت زیادہ محدود کر دیا جائے گا۔ مزید برآں، اس نئے قانون کی روشنی میں امام جماعت اور مبلغین کی تعلیم حاصل کرنے والے افراد کے تعلیمی عمل پر حکومت کی نگرانی کی جائے گی۔ اسی طرح اسلامی مراکز اور تنظیموں کو ملنے والی مالی امداد کی بھی مکمل تحقیق کی جائے گی۔ فرانس میں نئے اسلام مخالف قانون کی تشکیل پر مبنی غل غپاڑے کے دوران ایک اور اہم واقعہ رونما ہوا ہے۔
اس دوران چارلی ایبدو میگزین کے دفتر پر حملہ کرنے والے افراد کے خلاف عدالتی کاروائی کا بھی آغاز ہو چکا ہے۔ یاد رہے گذشتہ برس چند مسلح افراد نے چارلی ایبدو نامی فرانسیسی مجلے کے دفتر پر ہلہ بول دیا تھا جس میں دفتر کے کئی کارکن ہلاک ہو گئے تھے۔ یہ حملہ درحقیقت اس مجلے کی جانب سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں گستاخی پر مبنی کارٹون شائع کرنے کا ردعمل تھا۔ چارلی ایبدو میگزین نے اتنی بار رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں گستاخانہ خاکے شائع کئے ہیں کہ اب وہ اس بارے میں بدنام ہو چکا ہے۔ پانچ سال پہلے جب اس مجلے نے پہلی بار یہ گستاخانہ عمل انجام دیا تو دنیا بھر میں اس کے خلاف شدید ردعمل ظاہر ہوا تھا۔ لیکن آزادی اظہار کی آر میں یہ مجلہ مسلسل اسلامی مقدسات کی توہین کرتا آیا ہے۔
حال ہی میں فرانس میں ایک ٹیچر نے کلاس میں چارلی ایبدو کے گستاخانہ خاکے کلاس میں تمام طلبہ کو دکھائے۔ اس کا یہ عمل مسلمان شہریوں میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑ جانے کا باعث بنا۔ فرانس کے مسلمان شہریوں نے اسکول انتظامیہ سے اس گستاخ ٹیچر کو نکال باہر کرنے اور اس کے خلاف عدالتی کاروائی کا مطالبہ کیا لیکن اس جائز مطالبے پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ اس کے بعد اچانک ایک مسلمان جوان نے چھریوں کے وار کر کے اس گستاخ شخص کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اس واقعے کے فرانسیسی حکمرانوں سمیت تمام مغربی میڈیا نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف شدید پروپیگنڈے اور نفسیاتی جنگ کا آغاز کر دیا۔ فرانسیسی صدر ایمونوئل میکرون نے بھی ہلاک شدہ گستاخ رسول ص کے ساتھ اظہار ہمدردی کرتے ہوئے نئے قانون کی تشکیل کا اعلان کیا۔
یہاں یہ اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ عالمی سطح پر شدید مخالفت اور مذمت کے باوجود فرانسیسی حکمران نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں گستاخی کے اس سلسلے کا سدباب کیوں نہیں کرتے؟ اس کا ممکنہ جواب یہ ہے کہ فرانسیسی حکمران جان بوجھ کر ایسی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں۔ وہ اپنے ملک میں عوام کی جانب سے دین مبین اسلام کی جانب تیزی سے بڑھتے ہوئے رجحانات اور معاشرے میں اسلامی تعلیمات کے پھیلاو سے شدید خوفزدہ ہیں۔ لہذا مغربی حکام خاص طور پر فرانسیسی حکمرانوں کی جانب سے اسلامی مقدسات کی توہین کی حوصلہ افزائی کا ایک مقصد مسلمانوں کو شدت پسندانہ اقدامات پر اکسا کر ایسے اقدامات کے ذریعے اسلام اور مسلمانوں کا چہرہ بدنام کرنا ہے۔ دوسرا مقصد معاشرے میں اسلام کے تیزی سے جاری پھیلاو کو روکنا ہے۔
نو ربیع الاول عصر مہدوی کا آغاز
ربیع الاول کا مہینہ اسلامی سال کا تیسرا مہینہ ہے اور اس مہینے کی اہمیت روز روشن کی طرح واضح ہے، جہاں اس مہینے کی سترہ تاریخ کو اللّه تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے رحمت للعالمین حضرت محمّد صلی اللّه علیہ وآلہ وسلم کو اس دنیا میں بھیج ہم پر اپنی نعمتوں کی بارش کر دی، وہاں 9 ربیع الاول کی تاریخ حضرت امام مہدی عجل اللہ تعالٰی فرجہ الشریف کی امامت کے آغاز کا دن ہے، حضرت ولی عصر عجل اللہ تعالٰی کی امامت کا آغاز دنیا کے مظلوموں کی امید ہے، وہ آئیں گے اور دنیا کو انصاف سے پُر کردیں گے جو ظلم و جور سے پر ہو چکی ہے۔ ربیع الاول کی نویں تاریخ نہ صرف امام عصر (ع) کی امامت کا پہلا دن ہے بلکہ شیعہ تاریخ کے ایک اہم دور کے آغاز کا دن بھی ہے۔ شیعہ اس دن کو عید کے طور پر مناتے ہیں اور عبادت کرنے کیساتھ ساتھ خوشی مناتے ہیں۔ یہ خدا کا وعدہ ہے کہ وہ اپنی زمین کو کسی بھی دور زمانہ میں حجت سے خالی نہیں رکھے گا۔ فقہی اور روایی منابع میں موجود دستاویزات سے بھی یہ بات ثابت ہے کہ امام حسن عسکری کی شہادت کے بعد لوگ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے آخری خلیفہ کے لئے جب کافی پریشان تھے تو امام مہدی عجل اللہ تعالٰی فرجہ الشریف نے لوگوں کے سامنے ظاہر ہو کر اپنے چچا کو ہٹا کر اپنے والد گرامی کی نمازہ جنازہ پڑھائی۔
بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رح) حضرت مہدی عجل اللہ تعالٰی فرجہ الشریف کی امامت کے آغاز کے بارے میں فرماتے ہیں کہ "ربیع الاول کی نویں تاریخ حضرت مہدی عجل اللہ تعالٰی فرجہ الشریف کی امامت کے آغاز کا دن ہے، حضرت مہدی علیہ السلام کی امامت کا آغاز دنیا کے مظلوموں کی امید ہے، وہ آئیں گے۔ رہبر کبیر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق ہر مسلمان کا ایک اہم فریضہ یہ ہے کہ حضرت مہدی (ع) کے ظہور کے منتظر رہیں۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ اس توقع کا صلہ کیا ہے اور انتظار کرنے والوں کے لئے ثمرات کیا ہیں؟ امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کا انتظار کرنے والوں کے لیے یہی کافی ہے کہ ان کا نام امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے صحابیوں میں لکھا جائے گا"۔ امام زمانہ زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف سرچشمئہ ولایت کا وہ گوہر نایاب ہیں کہ جنکے وجود کا عقیدہ، ایمان کی تکمیل کا سبب بنتا ہے۔ آج ہر ایک چاہنے والے کی زبان پر انکا کا ذکر جاری و ساری ہے، ہماری دعاؤں میں انکا کا تذکرہ ہے، مناجات میں امام کی یاد ہے لیکن اسکے ساتھ ساتھ ہمارے لئے انکی معرفت و شناخت اور خصوصیات سے باخبر ہونا بھی ضروری ہے۔
ابو سعید خدری کی رسول گرامی اسلام سے روایت ہے کہ آپ امام زمانہ عجل اللہ تعالٰی فرجہ الشریف کے بارے میں فرماتے ہیں، "عن ابی سعید الخدری قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ ابشرکم بالمھدی یبعث فی امتی علی اختلاف من الناس و زلزال فیملا الارض قسطا و عدلا کما ملئت ظلما و جورا یرضی عنہ ساکن السماء و ساکن الارض یقسم المال صحاحا فقال لہ رجل وما صحاحا قال السویة بین الناس"۔ ابو سعید خدری روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا، میں تمہیں مہدی کی بشارت دیتا ہوں کہ وہ اس وقت میری امت میں آئیں گے جب امت کے افراد آپس میں اختلاف کر رہے ہوں گے اور لڑکھڑا رہے ہوں گے تو آپ (عج) زمین کو اسی طرح انصاف و عدالت سے پر کریں گے جیسے کہ وہ ظلم و ستم سے پر ہو چکی ہوگی، ان سے آسمان و زمین والے راضی ہوں گے وہ مال کو صحیح تقسیم کریں گے۔ ایک اور جگہ پیغمبر (ص) نے فرمایا کہ "میرے فرزند امام مہدی (عج) میرے ہم نام ہیں اور آپ کی کنیت بھی میری کنیت ہے اور صورت و سیرت میں دوسروں سے بہت زیادہ مجھ سے مشابہت رکھتے ہیں۔ آپ (ع) کے لیے لمبی غیبت (غیبت کبری) ہے، جس میں بہت سے لوگ گمراہ ہو جائیں گے اور تھوڑے سے لوگ باقی رہیں گے اور اس کے بعد میرے یہ فرزند چمکتے ستارے کی مانند طلوع کریں گے اور زمین کو عدل و انصاف سے پر کر دیں گے جس طرح کہ یہ ظلم و ستم سے بھر چکی ہو گی"۔
9 ربیع الاول کا مقدس اور مبارک دن حضرت ولی اللہ الاعظم، امام مبین، بقیۃ اللہ فی الارضین، موعود الانبیاء و المرسلین کی ولایت و امامت کے آغاز کا دن ہونے کیساتھ ظلم و استکبار اور استضعاف سے رہائی اور نجات و کا دن بھی ہے۔ منتظرین پر لازم ہے کہ اس روز کو عقیدت و احترام کے ساتھ منائیں اور اس کی تعظیم کو اپنے لیے فخر و اعزاز سمجھیں۔ یہ حقیقت ہے کہ اس روز سے ہجری تاریخ کے اندر عصر مہدوی کا آغاز ہوتا ہے۔ گویا نو ربیع الاول کو عید منانے کا حقیقی فلسفہ آغاز ولایت امام زمانہ (ع) ہے، اسی روز سے مولائے عصر والزمان (عج) کی ولایت و امامت کا آغاز ہوا ہے، اسی لئے نو ربیع الاول یوم اللہ ہے۔ ربیع الاول رسول اللہ (ص) اور امام صادق علیہ السلام کی ولادت کا مہینہ ہے۔ بعض روایات کے مطابق رسول اللہ (ص) کی ہجرت مدینہ کا مہینہ بھی یہی ہے، اسی مہینے رسول اللہ (ص) کی ولادت ہوئی، گویا دین خاتم کا آغاز بھی اسی مہینے سے ہوا اور یہ وہ مہینہ ہے کہ جس کی 8 تاریخ کو امام حسن عسکری علیہ السلام عباسی بادشاہ کے ہاتھوں شہید ہوئے، تو 9 ربیع الاول کی رات امام زمانہ کی امامت و ولایت کا آغاز ہوا۔
امام زمان (عج) کے دور ولایت و امامت کے آغاز کی کیفیت کچھ اسطرح سے ہے کہ عباسی سلاطین نے امام صادق سے امام عسکری علیہما السلام تک (چھ اماموں) کو شہید کر دیا تھا۔ معتصم عباسی نے امام عسکری علیہ السلام کو شہید کرنے کے بعد امام عصر (عج) کا تعاقب بھی شروع کیا۔ کئی لوگ امام (ع) کے گھر میں تعینات کئے اور انہیں ہدایت کی کہ فرزند عسکری (ع) کو ڈھونڈ لائیں۔ بے رحم دشمنی کا ثبوت دیتے ہوئے سلسلہ امامت کی آخری کڑی کو ختم کرنے کا منصوبہ بنایا لیکن قدرت نے انہیں محفوظ کر لیا۔
وحدت ضروری ہے
تحریر: سویرا بتول
ہفتہ وحدت، 12 ربیع الاول سے 17 ربیع الاول کے درمیانی فاصلے کو کہا جاتا ہے۔ یہ دونوں تاریخیں مسلمانوں کے یہاں پیغمبر اکرمﷺ کی تاریخ ولادت کے حوالے سے مشہور ہیں، اہل سنت 12 ربیع الاول کو جبکہ اہلِ تشيع 17 ربیع الاول کو خاتم النبینﷺ کی ولادت واقع ہونے کے قائل ہیں۔ امام خمینی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: "ولادتیں مختلف ہوتی ہیں، ایک ولادت خیر و برکت کا مبداء ہے، ظلم کو نابود کرنے کا ذریعہ، بت کدوں کو ڈھانے اور آتش کدوں کو خاموش کرنے کی بنیاد ہے ۔۔۔۔ جیسے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت با سعادت۔۔۔۔ اس زمانہ میں دو قوتیں تھیں؛ ظالم حکومت اور دوسری آتش پرست روحانی طاقتیں۔۔۔۔ پیغمبر اسلامﷺ کی ولادت ان دونوں قوتوں کی شکست کا سرچشمہ بنی۔"
خیمہ افلاک کا استادہ اسی نام سے ہے
نبضِ ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے
ام المومنین حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ: "رسولِ خداﷺ نے جبریلؑ امین سے نقل کیا کہ میں نے زمین کے مغارب و مشارق کو دیکھا ہے مگر کسی شخص کو محمد مصطفیٰﷺ سے افضل نہیں دیکھا اور کسی کی اولاد کو میں نے نہیں دیکھا جو بنی ہاشم سے افضل ہو۔" کوئی انہیں انسانوں کے درمیان رہتے بستے دیکھ کر اور جامہ بشری میں پا کر اپنا سا بشر قرار دے دے، لیکن ہمارے لیے آپﷺ پیکرِ بشریت کا مثالیہ تھا، سراپا عصمت، مجسم صدق و صفا، جن کی ہر بات قابل ِتقلید اور ہر عمل دلیل ایمان تھا۔ امام خمینی ؒ نے مسلمانوں کو رسول اکرمﷺ کا جشنِ ولادت 12 سے 17 ربیع الاول پورا ہفتہ منانے کا حکم دیا۔ جو وحدت کی عظیم مثال ہے۔ جو لوگ شیعہ و سنی کے درمیان اختلافات کو ہوا دیتے ہیں، وہ نہ شیعہ ہیں نہ سنی بلکہ یا تو نادان ہیں یا دشمن کے آلہ کار ہیں۔
دشمن اپنے سازشی منصوبوں کو مسلمانوں پر آزما رہا ہے اور اتحاد وحدت کے لئے کی جانے والی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کے لئے مختلف راستوں سے اپنے حملے جاری رکھے ہوئے ہے۔ امام خمینی کے افکار و نظریات کی روشنی میں حقیقی اور محمدی اسلام میں جامعیت، جذابیت اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کی تمام تر صفات موجود ہیں۔ اگر حققیی اسلام کو معاشرے کے سامنے پیش کیا جائے تو اختلافات کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی اور وحدت اسلامی کے احیاء کا ہدف آسانی سے پورا کیا جا سکتا ہے۔ اگر حقیقی محمدی اسلام کو اس کی حقیقی اقدار و روایات کے ساتھ پیش کیا جائے تو امت مسلمہ اور عالم اسلام کو عزت و عظمت کو بحال کیا جا سکتا ہے۔
قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں عشقِ محمدﷺ سے اجالا کر دے
اربعین حسینی کے موقع پہ وحدتِ اسلامی کی بہترین مثال قائم ہوئی، جس میں ہمارے اہلِ سنت برادران نے نہ صرف سبیلیں لگائیں بلکہ نماز کے بڑے بڑے اجتماعات میں بھرپور شرکت کرکے یہ بات ثابت کی کہ یہ ملک حسینیوں کا ہے اور یہاں تکفیریت کی کوئی جگہ نہیں اور شیعہ سنی اتحاد کی عظیم مثال قائم کی۔ وہی ہمارا اخلاقی اور شرعی فریضہ ہے کہ جشنِ عید میلاد النبیﷺ کے جلوسوں میں ناصرف بھرپور شرکت کریں بلکہ ایک دوسرے کو پھولوں کے ہار پہناۓ، اتحاد اور وحدت کو فروغ دیں، تاکہ امن و محبت کی فضا کو برقرار رکھا جاۓ اور حکمِ الہیٰ کہ خدا کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور تفرقہ میں مت پڑو کو عملی جامہ پہنائیں۔
اپنی ملت پہ قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی
فرانس میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کھلی دہشتگردی ہے
انہوں نے کہا کہ تمام مذاہب کے ماننے والے محسن انسانیت کا احترام کرتے ہیں کیونکہ انکی ذات کا پیغام تمام انسایت کا اولین منشور ہے۔ ملت تشیع کا ماضی عشق رسول سے سرخ ہے، ہم عاشق رسول شہید علی رضا تقوی کی قربانی کو فراموش نہیں کر سکتے جنہوں نے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کیخلاف احتجاج میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ رسول اکرمۖ کی شان میں گستاخی ناقابل برداشت ہے، فرانسیسی صدر کو مسلم برادری سے معافی مانگنی چاہئے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ مشرق وسطی میں اٹھنے والی اسلامی بیداری سے مغرب خوفزدہ ہے، داعش کے نام پر اسلام کو بدنام کیا گیا اور ایک بار پھر گستاخانہ خاکے شائع کرکے مسلمانوں کی غیرت کو للکارا جا رہا ہے، سیکولر طاقتیں اسلام کیخلاف متحد ہیں، عالمی اسلامی طاقتوں کو متحد ہوکر سیکولر طاقتوں کا مقابلہ کرنا ہوگا۔
صنعاء ایئرپورٹ کی بندش روزانہ 25 مریضوں کی جان لے لیتی ہے، خالد الشایف
یمنی دارالحکومت صنعاء کی بین الاقوامی ایئرپورٹ کے ڈائریکٹر خالد بن احمد الشایف نے اعلان کیا ہے کہ جارح سعودی فوجی اتحاد کی جانب سے صنعاء ایئرپورٹ کی بندش کے باعث روزانہ 25 یمنی مریض جانبحق ہو جاتے ہیں۔ خالد الشایف نے عرب نیوز چینل المسیرہ کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے تاکید کی ہے کہ عالمی برادری یمنی مریضوں کی بیرون ملک منتقلی کے لئے طبی فلائی اوور کے قیام اور یمن میں دواؤں کی درآمد میں سنجیدہ نہیں ہے۔ ڈائریکٹر صنعاء ایئرپورٹ نے کہا کہ تاحال 30 ہزار سے زائد یمنی مریض علاج معالجے کے لئے بیرون جانے کے منتظر ہیں کیونکہ 3 لاکھ 50 ہزار سے زائد یمنی مریض ایسے ہیں جن کا ملک کے اندر علاج ناممکن ہے تاہم جارح سعوی فوجی اتحاد کی جانب سے ملک کے سخت ترین محاصرے کے باعث ان میں سے 25 مریض ہر روز جانبحق ہو جاتے ہیں۔
خالد الشایف نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ عالمی ادارۂ صحت اور اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر برائے انسانی امور کی جانب سے تقریبا 8 ماہ قبل یمنی مریضوں کے لئے میڈیکل فلائی اوور بنانے کا اعلان کیا گیا تھا جبکہ تب سے لے کر آج تک اس نظام کے تحت علاج معالجے کے لئے بیرون ملک جانے والے یمنی مریضوں کی تعداد انتہائی کم ہے۔ واضح رہے کہ صنعاء کی جانب سے اقوام متحدہ و سلامتی کونسل سے بارہا مطالبہ کیا جا چکا ہے کہ وہ طے شدہ میڈیکل فلائی اوور کے قیام کی خاطر یمن کے ہوائی محاصرے میں نرمی کے لئے جارح سعودی فوجی اتحاد پر دباؤ ڈالے کیونکہ یمنی بین الاقوامی ایئرپورٹ کی بندش، یمن کا ہوائی محاصرہ، یمنی شہریوں کو علاج معالجے کے لئے بیرون ملک نہ جانے دینا اور یمن کے اندر دواؤں سمیت کسی بھی قسم کے طبی سازوسامان کی درآمد پر پابندی انسانی حقوق کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی قوانین کی بھی کھلی خلاف ورزی ہے۔
حضرت امام علی ابن موسیٰ الرضا علیہ السلام کی شخصیت اور عہد امامت
پیغمبراکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پیکر صلح و رحمت
قرآن کریم، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو بندوں کے لئے رحمت اور خلق عظیم کے نام سے یاد کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ اگر سب لوگ تمہارے پاس جمع ہوگئے ہیںتو یہ آپ کے نرم و ملائم اور فصیح و بلیغ کلام کی وجہ سے ہے اور اگر اس طرح نہ ہوتا تو یہ سب آپ سے دور ہوجاتے ۔ اسی طرح قرآن کریم آپ کے سینہ کی کشادگی اور شرح صدر کے متعلق اس طرح تعریف کرتا ہے ، ان کے لئے بہت سخت ہے کہ تمہیں کوئی مشکل پیش آئے ۔ اور دوسری آیت میں فرماتا ہے : شاید تم چاہتے ہو کہ ان کی ہدایت کی خاطر اپنی جان کو فدا کردو ۔ گذشتہ زمانے میں تحریف ایک ایسا وسیلہ تھا جس سے جاہل اور مغرض افراد استفادہ کرتے ہوئے فائدہ اٹھاتے تھے اور اس کو بار بار بیان کرکے کوشش کرتے تھے کہ تحریف کے موضوع کوایک حقیقت اور واقعیت میں بدل دیں ۔ صدیوں سے خصوصا جنگ صلیبی کے زمانہ سے مغرب میں یہ کوشش کی جاتی تھی کہ پیغمبراکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی شخصیت کو مخدوش کردیں اور آپ کو جنگ طلب اور صلح سے بہت دور معرفی کریں، اور یہ کام ابھی تک مغرب میں جاری ہے یہ لوگ دوسرے مذاہب کے افکار و مقدسات کو تسامع اورتساہل سے بیان کرتے ہیں اورخود کو سکولاریزم کے عنوان سے پہچنواتے ہیں ، ابھی تک ان کے تہذیب و تمدن کے گذشتہ آثار ختم نہیں ہوئے ہیں اس کے باوجود یہ لوگ پیغمبروں کے درمیان فرق کے قائل ہیںجب کہ پیغمبروں کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے اور خداوندعالم نے ان سب کو ایک ہدف کیلئے اور انسانوں کی اصلاح و ہدایت کیلئے بھیجا ہے ، یہ لوگ ایک پیغمبر کو صلح و ثبات والا بیان کرتے ہیںاور دوسرے پیغمبر کو کسی اور طر ح سے پہچنواتے ہیں ۔ یہ لوگ ہمیشہ نفاق و اختلاف کا بیج بوتے رہتے ہیں اور یہی نہیں بلکہ انبیاء میں بھی اختلاف بتاتے ہیں اور ہر روز ایک نیا فتنہ پیغمبر خاتم کیلئے ایجاد کرتے ہیں ، اس محبوب اور مظلوم پیغمبر کی توہین کرتے ہیں، اور کروڑوں مسلمانوں کے دل کو زخمی کرتے ہیں، لیکن ان تمام باتوں کے باوجود قرآن کی شہادت اور آنحضرت کے اقرار اور آپ کی مشہود سیرت عملی ، ہمارے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو اخلاق، صلح، دوستی، برادری، رحمت اور محبت کا پیغمبر بتاتی ہے اور آپ کی مشقت بار زندگی اس بات کی گواہ ہے ۔ یہاں پر مختصر طور پر مندرجہ بالا خصوصیات کی وضاحت کریں گے: ١۔بندوں کے لئے رحمت اور خلق عظیم قرآن کریم، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو بندوں کے لئے رحمت اور خلق عظیم کے نام سے یاد کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ اگر سب لوگ تمہارے پاس جمع ہوگئے ہیںتو یہ آپ کے نرم و ملائم اور فصیح و بلیغ کلام کی وجہ سے ہے اور اگر اس طرح نہ ہوتا تو یہ سب آپ سے دور ہوجاتے ۔ اسی طرح قرآن کریم آپ کے سینہ کی کشادگی اور شرح صدر کے متعلق اس طرح تعریف کرتا ہے ، ان کے لئے بہت سخت ہے کہ تمہیں کوئی مشکل پیش آئے ۔ اور دوسری آیت میں فرماتا ہے : شاید تم چاہتے ہو کہ ان کی ہدایت کی خاطر اپنی جان کو فدا کردو ۔ ٢۔ گذشتہ انبیاء کی رسالت کو کامل کرنے اوراخلاقی کمالات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے مبعوث ہوا پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اپنی بعثت کے ہدف کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں گذشتہ انبیاء کی رسالت کو کامل کرنے اوراخلاقی کمالات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے مبعوث ہوا ہوں، لہذا آپ نے گذشتہ انبیاء کی رسالت کو جاری رکھا ، پورا قرآن کریم ،گذشتہ انبیاء کے اعتقاد اور ان کے احترام سے بھرا ہوا ہے اور گذشتہ انبیاء کی کتب اور ان کی رسالت کا بھی قرآن کریم میں تذکرہ ملتاہے ۔ ٣- صلح و آرامش کو اپنا ہدف قرار دینا ۔ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے اپنی زندگی میں اپنی عملی سیرت کے ذریعہ ()اور جنگجو و سرکش قوم کے درمیان زندگی بسر کرکے ایسی امت بنائی جو اپنے کینہ اور حسد کو بھول گئی اور انہوں نے اپنی قدرت و طاقت یعنی فتح مکہ کے وقت بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی پیروی کرتے ہوئے صلح و آرامش کو اپنا ہدف قرار دیا ، بعض جگہوں پر ایمان لانے والے اپنے زمانہ جاہلیت کے قصہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)سے بیان کرتے تھے اور آپ ان حادثات کو بیان کرنے سے منع کرتے تھے یا دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ آپ ان کی وحشی گری اور بے رحمی کی باتوں کو برداشت نہیں کرپاتے تھے ، آپ نے اپنے بیٹے ابراہیم کی موت اور اپنے چچا حضرت حمزہ(ع) کی شہادت پر گریہ و عزاداری کرکے اس معاشرہ میں ایک قسم کے عاطفہ، رحم اور احساسات کو جگایا، آپ جاہلی معاشرہ پر اپنے اثرات چھوڑرہے تھے ، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے مہاجر و انصار اور دوسرے مسلمانوں کے درمیان جو ارتباط و عاطفہ پیدا کیا وہ ان لوگوں کیلئے ایک بہترین پیغام تھاجو اپنے جاہلیت کے زمانہ کے بغض و حسد کو زمانہ اسلام میں بھی قائم کرنے کی کوشش کرتے تھے ۔ ٤۔ مسلمانوں کے درمیان عقد اخوت قائم کرنا اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ظہور اسلام کے بعد عرب کے قوانین و احکام میں ایک عمیق تبدیلی پیدا ہوگئی ، اور یہ تبدیلی، اسلام کے جدید قوانین و احکام اور رسوم جاہلی کے آداب ، افکاراورعقاید سے مستقم تعارض ہونے کی وجہ سے آئی تھی ،ان میں سے بعض احکام کو اسلام نے تاسیس کیا اور بعض احکام کی تائید کی اور ان کے اندر اصلاحات اور تبدیلیاں انجام دیں، اور جاہلیت کے تمام مظاہر کو ان سے حذف کردیا جیسے حج کے احکام سے شرک کے مظاہر کو حذف کردیا گیا ۔ بعض افراد ہمارے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے عقد اخوت کو جاہلی کے عہدو پیمان ''حلف'' سے تعبیر کرتے ہیں ، وہ لوگ اس بات کی طرف توجہ نہیں کرتے کہ ہمارے پیغمبر اکرم نے جو کام انجام دیا ہے وہ زمانہ جاہلی کے عہد و پیمان ''حلف'' کے برخلاف ہے ، ہمارے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے عہد و پیمان میں بندہ اور مولی ، ضعیف و قوی ، ثروتمند و فقیر کا رابطہ مساوی سمجھا جاتا تھا اور اپنے آپ سے زیادہ دوسروں کو نزدیک سمجھتے تھے یہاں تک کہ ایک دوسرے کو وصیت کرتے تھے لہذا آپ نے فرمایا : '' لا حلف فی الاسلام''۔ ٥۔ قوم اور قبیلہ کے عقیدے کو ختم کرنا زمانہ جاہلیت کی عداوت، دشمنی، بغض اور حسد ان کے دلوں میں باقی رہ گیا تھا خاص طورسے انصار کے دل ، بھرے ہوئے تھے ، یہ ایسی حقیقت ہے جس کی قرآن کریم نے بھی تصریح کی ہے(جس وقت تم لوگ آپس میں دشمن تھے)اور یہ دشمنی ظاہری نہیں تھی جو ایک آدمی یا چند افراد کے وسیلے سے ختم ہوجاتی بلکہ یہ اجتماعی مشکل اس قدرعمیق تھی کہ خداوند عالم نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)سے فرمایا: اگر تم زمین کی تمام قیمت کو ان پر صرف کردیتے تو یہ کام انجام نہ پاتا ۔ اور خداوند عالم نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے اس عمل کو اس کی اہمیت و ارزش کی وجہ سے اپنی طرف نسبت دی ہے اور یہ کوئی سیاسی یا کسی خاص زمانہ کیلئے کام نہیں تھا جس کوالفاظ یا نعروں میں خلاصہ کردیا جائے اور اسی طرح قوم وقبیلہ کے عقیدہ کا معیار اس طر ح ہوگیا کہ مختلف قوم و قبیلہ کے لوگ اس زمانہ میں ایک مسلمان امت ''المومنون اخوة'' کے زمرہ میں آگئے لہذا جو کاروان مدینہ آئے انہوں نے آپ کے اس اقدام کا بہت زیادہ ااستقبال کیا اور انہوں نے اسلام کو قبول کرلیا ، اسی طرح پیغمبراکرم کے دوسرے بہت سے اقدامات ہیں جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے زندہ و جاوید معجزے ہیں اور یہ سب آپ کے اخلاق حسنہ ، رحمت، محبت، صلح اور برادری و بھائی چارگی کی وجہ سے وجو د میں آیا تھا ۔ |
حسنین کے فضائل صحیحین کی روشنی میں
انسان کی مشکلات کا ایک اہم راز
ابنا۔ خداوند عالم نے انسان کو صاحب اختیار بنا کر خلق کیا اور ساتھ ہی انبیاء، ائمہ اور قرآن جیسی کتاب بھیج کر ہدایت کا بھی انتظام کیا۔ اب اسے اچھائی یا برائی کرنے کا اختیار ہے، اگر اچھا کرے گا تو اس کا نتیجہ اچھا اور خوبصورت ہو گا اور اگر برا کرے گا تو اس کا نتیجہ برا ہو گا۔ ہمارے اعمال اچھے ہوتے ہیں تو دنیا بھی خوبصورت ہوتی ہے اور آؒخرت بھی۔ اور اگر ہمارے کام برے ہو جاتے ہیں تو دنیا بھی سخت ہو جاتی ہے اور آخرت بھی برباد ہو جاتی ہے۔
ہمارے کاموں کی نوعیت سے ہماری دنیوی زندگی اور آخرت کی نوعیت مشخص ہوتی ہے، انہیں میں سے ایک اہم مسئلہ ہمارے والدین اور ان کے ساتھ ہماری طرف سے کیا جانے والا برتاؤ ہے، ہمارا برتاؤ ہمارے والدین کے ساتھ ہماری زندگی کے سارے نشیب و فراز کو معین کرتا ہے جیسا جیسا کرتے جاتے ہیں ویسا ویسا صلہ ملتا رہتا ہے، حتیٰ والدین کے ساتھ ہماری زندگی کا ہر گذرا لمحہ دوسرے آنے والے لمحے کے لیے سرنوشت ساز ہوتا ہے۔ اسی سلسلے کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک داستان تحریر کرتے چلیں، ایران کے ایک شہر میں کچھ جوانوں کو پھانسی دیئے جانے کا حکم صادر ہو چکا تھا، ان میں سے ایک جوان کے رشتہ دار شیخ رجب علی خیاط (ایک عارف شخصیت) کی خدمت میں آئے تاکہ شیخ دعا کریں اور کوئی چارہ کار بتائیں، شیخ نے بلا فاصلہ کہا: اس جوان کے اس مصیبت میں گرفتار ہونے کی وجہ اس کی ماں ہے، میں جتنی بھی دعا کر لوں مجھے معلوم ہے کہ کوئی نتیجہ نکلنے والا نہیں۔ لہذا اس کی ماں کے پاس جاؤ۔
کچھ لوگ اس کی ماں کے پاس گئے اور پوچھا کہ آپ اپنے اس جوان بیٹے سے ناراض ہیں؟ ماں نے اس طرح روداد سناتے ہوئے کہا کہ ہاں میں ناراض ہوں۔ کہنے لگی جب میرے بیٹے نے نئی نئی شادی کی، ایک دن جب میں دسترخوان اٹھا رہی تھی کچھ برتن اپنی بہو کے ہاتھ میں پکڑائے کہ انہیں باورچی خانے میں لے جائے۔ میرے بیٹے نے وہ دسترخوان اور برتن اپنی بیوی کے ہاتھ سے لیے اور مجھے کہنے لگا کہ میں آپ کے لیے نوکرانی نہیں لایا ہوں۔ میرے دل پر بہت چوٹ لگی اور مجھے بہت ناگوار گزرا۔ آخرکار ماں راضی ہوتی ہے اور خود اپنے جوان بیٹے کی رہائی کے لیے دعا کرتی ہے اگلے دن اس کا بیٹا آزاد ہو جاتا ہے۔
آج ہم پریشان ہیں دعائیں مانگتے ہیں صدقہ دیتے ہیں، نمازیں پڑھتے ہیں، ہمیں اس کا اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ یہ مار کہاں سے پڑ رہی ہے یا بلکہ کبھی ہم جانتے بوجھتے اس دلدل میں پھستے جاتے ہیں۔ یقین کریں والدین کی ناراضگی دونوں جہاں کو برباد کر دیتی ہے ہمارے والدین کی خوشی ان کی رضایت ہی ہے جو ہمیں طوفانوں سے بچا سکتی ہے۔ مال و دولت چاہیے، اولاد چاہیے زندگی کا سکون چاہیے، بیماریوں سے شفا چاہیے تو والدین کو خوش رکھیں۔ ہم کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ ہم والدین کے سامنے اونچی آواز میں چیخ پکار کریں اور ہمیں دنیا میں عزت مل جائے۔
افسوس اب تو کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بچے خود کو پڑھا لکھا سمجھتے ہیں اور والدین کو نابلد۔ اور اپنی مرضی والدین پر اس نام سے تھونپتے ہیں کہ آپ کو کیا پتا ہے ہم پڑھے لکھے ہیں ہم جانتے ہیں۔ لیکن واللہ جتنا ہم کتابیں پڑھ کر سیکھتے ہیں ہمارے والدین تجربوں اور زندگی کی تلخیوں سے سیکھ چکے ہوتے ہیں۔ صرف اب وہ جان بوجھ کر اظہار نہیں کرتے بلکہ انہیں اظہار کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رہتی۔ وہ تنگ آ کر صرف سنتے ہیں اور ایسا ظاہر کرتے ہیں جیسا کہ وہ کچھ نہیں جانتے، جب کہ وہ اپنے بچوں کی رگ رگ سے واقف ہوتے ہیں حتیٰ یہ بھی جان رہے ہوتے ہیں کہ وہ کیا سوچ رہے ہیں ان کے دماغ میں کیا چل رہا ہے، ہمیں اپنے والدین کے سامنے زیادہ ہوشیار بننے کی ضرورت نہیں بلکہ ان سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔
کبھی کبھی ہم کچھ کہہ کے اور کچھ کر کے نکل جاتے ہیں ظاہرا وہ ایک لفظ، ایک جملہ ایک اشارہ اور ایک چہرے کا رنگ ہوتا ہے، جو والدین کے دل کو ایک سیکنڈ میں جھلسا کر رکھ دیتا ہے شاید والدین اپنی محبت کی بنا پر بھول جائیں اور اکثر بھول ہی جاتے ہیں لیکن وہی ایک جملہ وہی لمحہ ہماری ساری زندگی میں آگ لگا دیتا ہے اور اسے اجاڑ دیتا ہے۔ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ والدین کبھی بھی اولاد کا برا نہیں چاہتے۔ یہ ہماری سوچ ہوتی ہے اور جوانی کا غرور، جو ہماری رفتار و کردار کو آلودہ کر دیتے ہیں۔ آج ہم جہاں پر بھی نظر ڈالتے ہیں جس کو دیکھتے ہیں صرف پریشان حال دیکھتے ہیں۔ ہر طرف آہ و بکا ہے! ہمیں پلٹ کر دیکھنے کی ضرورت ہے کہ یہ کیا ہے؟ ہم کیا کر رہے ہیں؟ اور یہ کیا ہو رہا ہے؟
اور پھر رہا حقوق کا مسئلہ، ایسا تو ضروری نہیں کہ جب ہم ایک کے حق کا خیال رکھیں تو دوسرے کا لازمی پامال کریں، مثلا اگر ہمیں اپنی بیوی کے حق کا خیال ہے کہ یقینا ہونا چاہیے لیکن ضروری تو نہیں کہ ماں کو اذیت کریں، یا اگر ماں کے حق کا لحاظ ہے کہ یقینا یقینا ہونا چاہیے لیکن اس کا لازمہ بیوی کو اذیت پہنچانا نہیں ہے۔ سمجھدار تو وہ ہے جو مسائل کو نزاکت کے ساتھ حل کر سکے۔ مثلا اس واقعہ کے اندر یہ جوان اگر چاہ رہا تھا کہ بیوی کے حق کا لحاظ رکھے (گر چہ ان باتوں سے کسی کا حق ضائع نہیں ہوتا دوسرے کی مدد انسانی تقاضا ہے وہ کوئی بھی ہو سکتا ہے ساس سسر، پڑوسی ہمسفر وغیرہ) تو بہت ہی خوبصورت طریقے کے ساتھ اپنی ماں کے سامنے بچھ جاتا اور کہہ سکتا تھا کہ اماں جان! اپنی خدمت کی سعادت مجھے بخشیں، مجھے اپنی خدمت سے کیوں محروم کر رہی ہیں؟ اس طرح سے وہ اپنی بیوی کے حق کو بھی بچا سکتا تھا اور ماں کی عظمت اور منزلت کو بھی، آپ دیکھیں کتنے خوبصورت نتائج ہو سکتے تھے، ماں کا دل بھی باغ باغ ہو جاتا، خدا بھی خوش ہو جاتا، دنیا اور آخرت معطر ہو جاتی اور بیوی کی تربیت بھی ہو جاتی اور ساتھ ہی ساس اور بہو میں ماں اور بیٹی والی محبت پیدا ہو جاتی۔ خداوند عالم ہماری اصلاح فرمائے، اور اپنے والدین کی قدر و قیمت سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
شہید انسانیت حسین(ع)
تحریر: محمد حسن جمالی
انسان نہیں تها، اللہ تعالیٰ نے اسے خلق کیا، مادی اور معنوی نعمتوں سے نوازا، زندگی کا مقصد سمجهایا، ہدایت اور ضلالت کے راستے دکهائے۔ انسان کی ہدایت کا مکمل انتظام کیا، اس کی راہنمائی کے لئے رسول ظاہری کو بهیجنے کے ساتھ رسول باطنی کو بهی مامور کیا۔ انسان کو راہ راست کی ہدایت کرکے صراط مستقیم پر گامزن رکهنے کے لئے اللہ تعالیٰ کا ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کا بهیجنا اس حقیقت کی طرف واضح اشارہ کرتا ہے کہ انسان ایک مجبور مخلوق نہیں بلکہ اللہ نے انسان کو خود مختار بنایا ہے۔ اگر انسان مجبور ہوتا تو اسے ہادی کی ضرورت ہی نہ ہوتی، درنتیجہ نبیوں و رسولوں کی آمد لغو ہو جاتی اور اس سے خدا کا عبث و بے ہودہ فعل انجام دینا لازم آتا ہے، جبکہ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بے ہودہ و لغو کام انجام دینے سے منزہ ہے۔
انسان کے خود مختار ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے ہدایت اور ضلالت کے راستے بالکل واضح اور نمایاں کرکے انسان کو دکهائے ہیں لیکن راستے کے انتخاب کا حق انسان کو عطا کیا ہے۔ انسان کی اپنی مرضی ہے، چاہے تو ہدایت کا راستہ انتخاب کرکے اس پر چلے یا گمراہی کی راہ اپنا کر اس پر سفر کرے۔ البتہ خدا کا یہ وعدہ ہے جو پورا ہو کر رہے گا کہ روز قیامت ہدایت کی راہ پر چلنے والوں کو جزا اور ضلالت کا راستہ انتخاب کرکے اس پر زندگی گزارنے والوں کو سزا دی جائے گی۔ اسی اختیار کی قدرت سے سوء استفادہ کرتے ہوئے آج دنیا میں انسانوں کی اکثریت ضلالت کے راستے پر گامزن ہے۔ وہ نہ جینے کے سلیقے سے واقف ہے اور نہ مرنے کے طریقے سے آشنا۔ اکثر انسانوں کی نظر میں حیوانوں کی طرح کهانا، پینا اور خواہشتات نفسانی کی تکمیل کرکے تولید نسل کرنا زندگی ہے۔ ان کی نگاہ میں دوسروں پر ظلم کرنا، دوسروں کی جان، مال، عزت اور آبرو سے کهیل کر اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرنا لذت بخش زندگی ہے۔
نواسہ رسول حضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنے عمل کے ذریعے تا ابد بشریت کو جینے اور مرنے کا سلیقہ سکها دیا۔ دنیا میں جی کر مرنے سے تو ہر کوئی آشنا ہے، ہر انسان کو اس بات کا علم ہے کہ دنیا میں آنکھ کهولنے کے بعد ایک مدت تک انسان نے زندہ رہنا ہے، جینا ہے، زندگی کی نعمت سے لطف اندوز ہونا ہے، پهر انجام موت ہے اور مرنا ایک اٹل حقیقت ہے۔ موت سے نہ کوئی بچا ہے اور نہ بچے گا، اس سے فرار کرنا کسی کے لئے ممکن نہیں۔ مظلوم کربلا ابی عبداللہ الحسین علیہ السلام نے دنیائے انسانیت کو نہ فقط حقیقی معنوں میں حیات اور موت کا مفہوم سمجهایا بلکہ نواسہ رسول نے آدم کی آولاد کو مر کر جینا بهی سکها دیا ہے۔ آپ نے مرنے سے پہلے کی زندگی کا تصور یوں پیش کیا ہے کہ اگر لوگ حق سے متصل رہ کر عزت سے زندگی بسر کر رہے ہوں تو واقعی معنوں میں وہ زندہ ہیں، لیکن اگر وہ حق سے منہ موڑ کر باطل کی آغوش میں ذلت سے زندگی کے لمحات گزار رہے ہوں تو ایسی زندگی زندگی نہیں موت ہے۔