سلیمانی

سلیمانی

Tuesday, 29 December 2020 05:07

)3(انگریزی شیعہ کون ہیں؟

 گزشتہ سے پیوستہ
رہبر انقلاب اسلامی امام سید علی خامنہ ای فرماتے ہیں:
اگر مسلمان متحد ہوں تو فلسطین کا حال وہ نہیں رہے گا جو ہم دیکھ رہے ہیں؛ آج فلسطین کی صورت حال دشوار ہے۔۔۔ دشمنان اسلام چاہتے ہیں کہ مسئلہ فلسطین کو ذہنوں سے دور کر دیں اور فراموش کروا دیں۔ وہ مغربی ایشیا ـ جو ہمارے ہی ممالک پر مشتمل اور بہت حساس اور تزویری علاقہ ہے ۔۔۔ [کے عوام اور حکومتوں] کو آپس میں لڑانا چاہتے ہیں، [چاہتے ہیں کہ] مسلمان، مسلمان کے مقابلے میں آئے، عرب عرب کے مقابلے میں، اور ایک دوسرے کو نشانہ بنائیں اور نیست و نابود کریں، تاکہ مسلم ممالک کی فوجیں ـ بالخصوص صہیوی ریاست کے پڑوسی ممالک کی فوجیں ـ روز بروز کمزور سے کمزورتر ہوجائیں؛ ان کا مقصد یہ ہے۔
آج علاقے میں دو ارادوں کے درمیان تضاد و تعارض ہے: ایک وحدت کا ارادہ اور دوسرا انتشار کا ارادہ۔ وحدت کا ارادہ مؤمنین کا ارادہ ہے؛ مسلمانوں کے اتحاد و اجتماع کا نعرہ مخلص حلقووں سے سنائی دے رہا ہے جو مسلمانوں کو باہمی اشتراکات کی طرف توجہ دینے کی دعوت دے رہا ہے۔۔۔۔ اگر مسلمین متحد ہوجائیں تو ان کی موجودہ [ناگفتہ بہ] صورت حال باقی نہیں رہے گی؛ مسلمان کو عزت ملے گی۔ آج آپ دیکھ رہے ہیں کہ مشرق بعید میں میانمار سے لے کر ـ جہاں مسلم کُشی ہے، مغربی افریقہ میں، نائیجریا وغیرہ میں مسلم کُشی؛ ہر جگہ مسلمانوں کو قتل کیا جاتا ہے، ایک جگہ بدھ مت کے پیروکاروں کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں، دوسری جگہ بوکو حرام اور داعش وغیرہ کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں۔ کچھ لوگ اس آگ کو بھڑکاتے ہیں انگریزی شیعہ اور امریکی سنی ایک جیسے ہیں، [یہ] سب ایک قینچی کے دو پھل ہیں؛ ان کی سعی [باطل] یہ ہے کہ مسلمانوں کو ایک دوسرے کے خلاف لڑا دیں؛ یہ انتشار والے ارادے کا پیغام ہے جو شیطانی ارادہ ہے؛ جبکہ وحدت کا پیغام یہ ہے کہ یہ [مسلمین] ان اختلافات کو پیچھے چھوڑیں، شانہ بشانہ کھڑے ہوجائیں اور مل کر کام کریں۔
اگر آپ آج مستکبرین اور اقوام عالم کے تنفس کی فضا پر قابضین کے موقف اور خیالات کو دیکھ لیں، تو اپ دیکھتے ہیں کہ یہ سب انتشار اور تفرقے کی طرف دعوت ہے؛ قدیم الایام سے انگریزوں کی پالیسی کو "تفرقہ ڈآلو اور آقا بنو: ("فَرِّق تَسُد") کی پالیسی کہا جاتا تھا۔ آقائی اور سیادت کرو "تفرقہ ڈالو" کے بدولت؛ جس وقت انگلستان میں کچھ طاقت تھی، ان کی پالیسی یہ تھی؛ آج بھی دنیا کے آج کی مادی طاقتوں کی یہی پالیسی ہے؛ خواہ وہ امریکہ ہے، اور خواہ پھر بھی حال ہی میں برطانیہ۔ انگریز ہمیشہ سے ہمارے علاقے میں شر اور بدی کا سرچشمہ تھے، ہمیشہ قوموں کے لئے تباہی اور بد بختی کا ذریعہ تھے۔ جو ضربیں انھوں نے اس علاقے کی ملتوں پر لگائی ہیں، شاید کم ہی اس دنیا کے کسی علاقے میں کسی طاقت کی طرف سے ان کی کوئی مثال ملتی ہو۔ برصغیر میں ـ جو آج پاکستان، ہندوستان اور بنگلادیش  کی صورت میں موجود ہے ـ اپنے انداز سے ضرب لگائی [اور] اُس طرح لوگوں کو دبائے رکھا؛ ۔۔۔ بالآخر فلسطین میں بھی انھوں نے وہ نحوست اور خباثت بھرا اقدام کیا اور مسلمانوں کو اور درحقیقت ایک قوم کو اپنے وطن سے بےدخل کرکے بےخانماں کرنا کردیا؛ ہزاروں سالہ قدیم ملک ـ بنام فلسطین ـ انگلستانیوں کی پالیسیوں کے ذریعے [نقشے سے] غائب ہوگیا۔ اس علاقے میں حالیہ دو صدیوں سے، ـ دو صدیوں اور کچھ برسوں تقریبا 1800ع‍ سے آج تک ـ جو کچھ بھی انگریزوں سے سرزد ہوا ہے شر و فساد اور دھونس دھمکی کے سوا کچھ نہیں ہے؛ اس کے باوجود وہ برطانوی اہلکار (1) آتی ہے یہاں اور کہتی ہے "ایران اس علاقے کے لئے خطرناک ہے"، ایران علاقے کے لئے [باعث] خطرہ ہے؟ ایسا کہنے کے لئے کافی بےشرمی کی ضرورت ہے کہ جو لوگ پوری تاریخ میں اس علاقے کے لئے خطرہ اور بدشگونی اور بدبختی [کا سبب] رہے ہیں، یہاں آکر ہمارے مظلوم اور عزیز ملک کو مورد الزام ٹہرا دے؛ یہ لوگ ایسے ہی ہیں۔  
جس وقت سے اس علاقے میں اسلامی بیداری کی نشانیاں دیکھی گئیں، اختلاف اور تفرقہ پھیلانے کے لئے سازشوں میں بھی شدت اور وسعت آئی؛ یہ لوگ تفرقے کو اقوام پر مسلط ہونے کا وسیلہ سمجھتے تھے۔ جب سے محسوس ہوا کہ اس علاقے میں نئی باتیں، جدید اسلامی افکار، اقوام کی استقامت اور ملتوں کے زندہ ہونے اور اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے جذبات معرض وجود میں آرہے ہیں، دشمنوں کی اختلاف انگیز اقدامات میں اضافہ ہوا؛ جب ایران میں اسلامی نظام قائم ہوا، جس نے اسلام کا پرچم اٹھایا، قرآن کو ہاتھوں پر اٹھایا اور فخر کے ساتھ کہا کہ ہم اسلام پر عمل کرتے ہیں اور اس کے پاس اقتدار بھی تھا، سیاست، وسائل اور مسلح افواج بھی تھیں اور اس نے ان سے استفادہ کیا اور انہیں روز بروز تقویت پہنچائی، ان تفرقہ آمیز اقدامات میں اضافہ ہوا۔ انھوں نے اس تفرقہ آمیز اقدام کو شدت بخشی ہے اس اسلامی تحریک کو اس اسلامی عزت سے نمٹنے کے لئے۔ اسلام ان [یعنی اپنے دشمنوں] کے لئے خطرناک تھا، جب اسلامی بیداری مسلم ملت میں آگئی؛ لیکن جس اسلام کے پاس حکومت نہیں ہے، فوج نہیں ہے، سیاسی مشینری نہیں ہے، ضروری وسائل اور اموال نہیں ہے، ایک عظیم اور مجاہد ملت نہیں ہے مختلف ہے اس اسلام سے جس کے پاس یہ سب کچھ ہے؛ اسلامی جمہوریہ کے پاس وسیع سرزمین، مجاہد ملت، جوان، حوصلہ مند اور مؤمن قوم، دنیا کی اوسط سے بہتراستعداد اور سائنس اور ترقی کی طرف پیشقدمی، موجود ہے۔ درست ہے کہ اس طرح کا ایران ان کے لئے خطرے کا باعث ہے؛ کیونکہ مسلم اقوام کے آگے ایک نمونہ عمل بنتا ہے، تو وہ اس کے دشمن ہیں۔ اگر کبھی نرمی اور لچک کا دعویٰ بھی کریں، تو وہ جھوٹا ہے؛ ان کے کام کا باطن تشدد سے عبارت ہے۔ ان مسائل کو سمجھنا چاہئے، انہیں پہچان لینا چاہئے، اس دشمن سے نمٹنے کے لئے ـ جس کے پاس نہ اخلاق ہے، نہ دین ہے، نہ انصاف ہے؛ اپنا حلیہ آراستہ کر دیتا ہے، لیکن باطنی لحاظ سے حقیقی معنوں میں ایک وحشی ہے ـ اقوام کو تیار رہنا چاہئے"۔  (2)
۔۔۔۔۔۔۔
ابو اسد
۔۔۔۔۔۔۔۔
1-۔ بحرین میں منعقدہ خلیج فارس تعاون کونسل کے اجلاس سے سابق برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے (Theresa May) کے گستاخانہ خطاب کی طرف اشارہ۔
2۔ اسلامی نظام کے اعلٰی عہدیداروں اور وحدت اسلامی کانفرنس میں شریک مہمانوں سے خطاب مورخہ 17 دسمبر 2016ع‍-۔

لبنانی مزاحمتی فورس حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل نے عرب نیوز چینل المنار کو دیئے گئے انٹرویو میں خطے کی تازہ ترین صورتحال اور عالمی تسلط کے استکباری نظام کی نئی سازشوں کے حوالے سے مفصل گفتگو کی ہے۔ عرب نیوز چینل المنار کے بانی و چیئرمین غسان بن جدو کو انٹرویو دیتے ہوئے سربراہ حزب اللہ سید حسن نصراللہ نے حضرت عیسی علیہ السلام کے یوم ولادت کے حوالے سے عیسائی برادری کو مبارک باد اور شہید کمانڈرز جنرل قاسم سلیمانی، ابومہدی المہندس اور رفقاء کی پہلی برسی کے حوالے سے امتِ مسلمہ کو تعزیت پیش کی۔



سید مقاومت نے امریکہ کے موجودہ صدر کی جانب سے آئندہ دنوں میں کسی فوجی اقدام کے انجام دیئے جانے کے امکان سے متعلق میزبان کے سوال کے جواب میں کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ، جو بڑائی کے پاگل پن میں مبتلا ہے، سے کسی بھی قسم کے اقدام کا ارتکاب بعید نہیں جبکہ یہ تمام بیانات مزاحمتی محاذ کے خلاف امریکی و اسرائیلی نفسیاتی جنگ کا حصہ ہیں۔ سید حسن نصراللہ نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے اس مدت کے دوران برپا کئے جانے والے شور شرابے سے واضح ہو جاتا ہے کہ وہ کوئی خاص اقدام اٹھانے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ انہوں نے کہا کہ اس بات کا امکان موجود ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنی صدارت کے باقی ماندہ ایام میں کوئی فوجی اقدام اٹھا لے البتہ.. اگر وہ اقتدار منتقل کرنا چاہتا ہو (جو بعید نظر آتا ہے)!



سید حسن نصراللہ نے زور دیتے ہوئے کہا کہ حزب اللہ لبنان کے رہنماؤں اور کمانڈرز کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنانا امریکہ و اسرائیل کا مشترکہ خواب ہے جبکہ میرے خلاف ٹارگٹ کلنگ کی کارروائی کے بارے بھی اپنے ذرائع کی جانب سے کئی مرتبہ انتباہ جاری کیا جا چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت سے قبل یا بعد؛ میری ٹارگٹ کلنگ امریکی و اسرائیلی اہداف میں شامل تھی جبکہ صدارتی انتخابات سے پہلے سے اس حوالے سے ان کی کوششیں کئی گنا بڑھ چکی ہیں کیونکہ انتخابات میں کامیابی کے لئے ٹرمپ کو ایسے اقدامات کی ضرورت ہے۔ سید مقاومت نے کہا کہ حتی سعودی عرب بھی ان فریقوں میں شامل ہے جو مجھے ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنانے کی شدید آرزو رکھتے ہیں جبکہ محمد بن سلمان نے امریکہ کے ایک دورے کے دوران اس حوالے سے امریکیوں سے باقاعدہ درخواست بھی کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ موصول ہونے والی اطلاعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ سعودی عرب سالہا سال قبل، خصوصا یمن پر مسلط کی جانے والی جنگ کے بعد سے مجھے ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنانے کا آرزومند ہے۔

حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے زور دیتے ہوئے کہا کہ شہید کمانڈرز جنرل قاسم سلیمانی اور ابومہدی المہندس کی ٹارگٹ کلنگ، شہید عماد مغنیہ اور شہید محسن فخری زادہ کے خلاف ہونے والی کارروائیوں کے برعکس اسرائیل، امریکہ اور سعودی عرب کی جانب سے انجام دیا جانے والا کھلم کھلا اقدام تھا! سید حسن نصراللہ نے کہا کہ جنرل قاسم سلیمانی کی ٹارگٹ کلنگ کا اقدام صرف امریکہ کی جانب سے ہی انجام نہیں دیا گیا بلکہ اسرائیل اور سعودی عرب بھی اس میں برابر کے شریک ہیں چاہے ان کی مشارکت اس حوالے سے واشنگٹن کو قائل کرنے کی حد تک ہی کیوں نہ ہو۔ انہوں نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ شہید جنرل قاسم سلیمانی ایک انسان دوست اور کرشماتی شخصیت کے حامل تھے جبکہ جو لوگ انہیں نہیں جانتے تھے وہ بھی ان سے انتہائی حد تک متاثر ہو جاتے تھے۔

سربراہ حزب اللہ لبنان نے شہید جنرل قاسم سلیمانی کے لئے اپنے احساسات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مجھے ان کی بہت یاد آتی ہے، میں کئی مواقع پر، سخت دنوں میں، مشکل اور بہت زیادہ مسائل سے روبرو ہوتے ہوئے اور خوشی و غمی کے مواقع پر اُنہیں اپنے ساتھ محسوس کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ میں ان کی شہادت سے قبل ان کے لئے بہت پریشان رہتا تھا جبکہ اس حوالے سے میں نے انہیں بارہا خبردار بھی کیا تھا۔ انہوں نے شہید قاسم سلیمانی کی شخصیت کو گہرائی تک پہچاننے اور دوسروں کو ان سے متعارف کروانے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ شہید ابومہدی المہندس جنرل قاسم سلیمانی کے انتہائی قریبی دوستوں میں سے ایک تھے جبکہ اگر جنرل قاسم سلیمانی تنہاء شہید ہو جاتے تو ان کی شہادت کا سب سے زیادہ اثر لینے والی شخصیت یقینا شہید ابومہدی المہندس ہی ہوتے کیونکہ وہ ان کے انتہائی قریبی تھے۔ انہوں نے مزاحمتی محاذ میں شہید ابومہدی المہندس کے کردار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ عراقی وزارت عظمی کے لئے نامزد کئے گئے افراد میں سے ایک تھے تاہم انہوں نے میدانی جدوجہد کو حکومت پر ترجیح دی۔

سید مقاومت نے قدس شریف کی آزادی کے لئے انجام دیئے جانے والے شہید جنرل قاسم سلیمانی کے اقدامات کے بارے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ انہوں نے فلسطینی مزاحمتی محاذ کی کھل کر حمایت کی اور غاصب صیہونی دشمن کے مقابلے میں تمام فلسطینی مزاحمتی گروہوں کو باہم متحد کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے شہید قاسم سلیمانی کے کردار کا اہم پہلو؛ فلسطینی مزاحمتی گروپس کو اسلحہ پہنچانا اور انہیں میزائل و راکٹس کی تیاری کے لئے ضروری ٹیکنالوجی فراہم کرنا تھا۔ انہوں نے اسرائیل کے ساتھ جنگ کے دوران حزب اللہ لبنان کو روسی اینٹی ٹینک میزائل "کورنٹ" (9M133 Kornet) کی فراہمی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ شامی وزارت دفاع نے اپنے خرچ پر یہ میزائل روس سے خریدے جبکہ غاصب صیہونیوں کے ساتھ جنگ کے دوران جنرل قاسم سلیمانی کے توسط سے حزب اللہ لبنان نے ان میزائلوں سے استفادہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ شہید جنرل قاسم سلیمانی غزہ کے مزاحمتی محاذ کو بھی یہی میزائل دلوانے کے خواہاں تھے جبکہ انہوں نے فلسطینی مزاحمتی محاذ کو مسلح کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔
 
 
 

سردار قاسم سلیمانی کی شخصیت اگرچہ کروڑوں انسانوں کے دلوں میں اتر چکی ہے اور انھیں بجا طور پر ’’سردار دلہا‘‘ یعنی دلوں کا سردار کہا جاتا ہے، تاہم ہماری رائے یہ ہے کہ ابھی تک دنیا سردار قاسم سلیمانی کو دریافت کرنے کے مرحلے میں ہے۔ ایک عظیم عبقری اور روحانی شخصیت کے پرت رفتہ رفتہ ہی کھلتے ہیں اور پھر قرنوں پر پھیلتے چلے جاتے ہیں۔ قاسم سلیمانی بھی ایسی ہی ایک شخصیت ہیں۔ شہید آیت اللہ سیدباقر الصدرؒ نے امام خمینیؒ کے بارے میں فرمایا تھا: ’’امام خمینی نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ علیؑ ایک شخص نہ تھے، جو تاریخ میں آئے اور چلے گئے بلکہ ایک شخصیت تھے جو آج بھی زندہ ہے۔‘‘ دنیا میں جب بھی بڑی شخصیات ظہور کرتی ہیں تو ان کے دمِ مسیحائی سے اور بھی بہت سے بڑے انسان ظاہر ہوتے ہیں۔ امام خمینیؒ کے ساتھ اور ان کی تحریک کے نتیجے میں جس درجے کی بڑی شخصیات سامنے آئی ہیں، وہ عصر حاضر میں ہمارے اس دعوے کی دلیل ہیں۔ یہ سلسلہ ان کی قیادت میں آنے والے انقلاب کی پیش رفت کے ساتھ ساتھ جاری ہے۔

ہم ماضی میں بھی ایسی بہت سی مثالیں پیش کرسکتے ہیں، تاہم اسلام کی خصوصیت یہ ہے کہ اسے بالآخر وعدہ الٰہی کے مطابق پوری دنیا پر غالب آکر رہنا ہے، اس لیے بھی اس کی جامع تعلیمات کے نتائج مختلف صدیوں میں نکلتے رہے ہیں اور عالمی سطح کی بڑی شخصیات سامنے آتی رہی ہیں۔ آپ کے اہل بیت اطہارؑ اور عظیم المرتبت صحابہؓ کے بعد بھی اسلامی تاریخ میں نوابغ کی کمی نہیں رہی۔ البتہ جامع شخصیات کبھی کبھی سامنے آتی ہیں۔ سردار قاسم سلیمانی بہت جہت دار روشن دماغ، عمیق روح، عصری علوم سے آگاہ اور انسان دوست شخصیت ہونے کے اعتبار سے رفتہ رفتہ معرض شناخت میں آرہے ہیں۔ جہاد، استقامت، شہامت، منصوبہ بندی اور دشمن شناسی میں وہ پوری تاریخ کے کم نظیر جرنیلوں میں شمار کیے جاسکتے ہیں۔ شوق شہادت ان کے پورے وجود سے آشکار تھا، ان کی زندگی کے واقعات سے ایسا لگتا ہے کہ ان کا دل اس شوق سے کبھی بھی خالی نہیں رہا اور اس شوق کے بغیر وہ کسی معرکے میں نہیں اترے۔

شاید ان افراد کو شمار نہیں کیا جاسکتا، جن سے انھوں نے اپنی اس تمنا کے پورا ہو جانے کے لیے ’’التماس دعا‘‘ نہ کہا ہو۔ انھوں نے کسی بڑی ہستی کی ضریح کو بوسہ دیتے ہوئے اپنی اس تمنا کے اظہار میں کبھی کوتاہی نہیں کی۔ آخری دنوں میں تو ایسا لگتا تھا کہ وہ یہی آرزو لیے کبھی کسی بڑی شخصیت کے پاس جاتے ہیں اور دعا کی التجا کرتے ہیں اور کبھی کسی دربار پر حاضر ہو کر مقام شہادت تک پہنچنے کے لیے فریاد کناں ہوتے ہیں۔ یہ آرزو اتنی پختہ، گہری، سچی اور عظیم تو تھی کہ آپ کو جو شہادت کا درجہء رفیعہ حاصل ہوا، وہ اپنی مثال آپ بن گیا۔ دنیا کے سب سے بڑے شیطان نے آپ کے قتل کا حکم صادر کیا اور پھر اس کا اعلان بھی کیا۔ چھوٹے چھوٹے شیطانوں کا کسی مجاہد کو قتل کرنے کا فیصلہ تو ہوتا ہی رہتا ہے، لیکن مجاہد کی عظمت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ دور حاضر کی سب سے بڑی طاغوتی قوت کا طاقتور ترین آدمی یہ اعلان کرتا ہے کہ قاسم سلیمانی کے قتل کا حکم میں نے دیا تھا۔

بعید نہیں کہ وہ جو وائٹ ہائوس سے چمٹا رہنا چاہتا ہے اور اس سے باہر نہ آنے کے لیے سو سو حیلے کرتا پھرتا ہے، اس پر اسلام کے اسی بطل جلیل کی شہادت نے خوف طاری کر رکھا ہو، جس کا وہ اظہار نہیں کرپا رہا اور ابھی وائٹ ہائوس میں مزید پناہ گزین رہنا چاہتا ہے اور امریکی صدر کو حاصل اختیارات اور سکیورٹی اپنی حفاظت کے لیے ضروری سمجھتا ہے۔ اگر ہم تک ایران کے روحانی پیشوا جنھیں بجا طور پر ’’مرشد دلہا‘‘ کہا جاسکتا ہے کا خطبہ پہنچ گیا ہے، جو انھوں نے ’’سردار دلہا‘‘ کی پہلی برسی کی مناسبت سے ایک پروگرام میں دیا ہے تو ہم سے پہلے یقیناً وائٹ ہائوس کے پناہ گزین تک پہنچ چکا ہوگا، جس میں انھوں نے واضح پیغام دیا ہے کہ جس شخص نے سردار قاسم سلیمانی کے قتل کا حکم دیا ہے، اس سے بدلہ لیا جائے گا۔

تحریر: ثاقب اکبر

موت فنا ہے اور شہادت بقاء، مگر یہ انسان پر ہے کہ وہ اپنی زندگی کا نتیجہ فنا کی صورت حاصل کرنے کا خواہاں ہے یا بقاء کی صورت۔ ان دو صورتوں کے علاوہ تیسری کوئی صورت نہیں، کلام سیدنا علی علیہ السلام میں یہ بات موجود ہے کہ ہر شخص اسی چیز کا سامنا کرنے والا ہے، جس سے وہ راہ فرار اختیار کئے ہوئے ہے اور جہاں زندگی کا سفر کھینچ کر لے جاتا ہے، وہی حیات کی آخری منزل ہوتی ہے۔ اگر کوئی موت سے بھاگے بھی تو موت کے قریب ہوگا، کیونکہ موت اس کے سامنے ہے، بھاگا تو اس چیز سے جاتا ہے جو انسان کا تعاقب کر رہی ہو۔ مگر موت تو سامنے سے آنے والی ہے، یعنی موت سے بھاگنا اسے پا لینا ہے۔ انسان موت کے چھپے ہوئے رازوں کی جستجو میں کتنا ہی زمانہ گزار لے، مگر پھر بھی مشیت الٰہی یہی رہی ہے کہ اس کی تفصیلات بے نقاب نہ ہوئیں۔

قرآن کریم میں سورہ جمعہ میں خدا فرماتا ہے "فتمنوالموت ان کنتم صادقین" (اے حبیب ان لوگوں سے کہہ دیجئے کہ اگر دعویٰ ایمان میں سچے ہیں تو موت کی تمنا کریں) معلوم ہوا جو دعویٰ ایمان کی صداقت منوانا چاہے اسے موت کی تمنا کرنی چاہیئے۔ موت کی تمنا یہ نہیں کہ بستر مرگ پر اس حال میں کہ جب جینے کو جی نا چاہے، بیٹھے آخری سسکیوں کا انتظار کیا جائے بلکہ موت کی تمنا یہ ہے کہ عین جوانی ہو، ہر چیز شباب پر ہو، شہوات و لذات جیسے درندے منہ کھولے انسان کی طرف لپکنے کیلئے تیار ہوں اور انسان اس عالم میں اپنے نفس کی خار دار تاروں کو عبور کرکے اپنے حقیقی پروردگار کی راہ پر چلتا ہوا یہ جملہ دہرا رہا ہو کہ خدایا میرے لئے بستر پہ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنا ننگ ہے، عار ہے، شرمندگی ہے اور بے نام و نشان موت ہے جبکہ میری زندگی کا ہدف خود کو قربان کرکے ہمیشہ کیلئے زندہ رہنا ہے۔

وہ اسی جذبہ ایثار و فداکاری کی خاطر دل سے ہوا ہوس کو پرے پھینک کر موت کی تمنا میں بیابانوں اور جنگلوں میں پھرتا رہا اور صدا دیتا رہا، آو مجھ سے نبرد آزما ہو جاؤ اور اس اس راہ پر مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ میری جان چلی جائے، مگر میں کائنات کے کسی انسان پہ ظلم برداشت نہیں کروں گا، کیونکہ میں مظلوموں کا وارث ہوں۔ جو اپنی جان کو امانت خدا سمجھے اور اس جان کو مظلوموں اور محروموں کے حقوق کی بالادستی کیلئے وسیلہ سمجھے، اس کے لئے موت کو گلے لگانا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ بقول علامہ (رہ)
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن 
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی

جس کی زندگی ایثار و فداکاری کا مجموعہ ہو اور اس کی ذات اس مقصدیت کے گرد گھومتی ہو، اس کے لئے سر کٹوانا افتخار ہے۔ جان بچانا باعث ننگ و عار ہے اور جس کی ذات کا محور و مرکز شہادت ہو، اس کو مال دنیا و جاہ طلبی سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ احمد ندیم قاسمی کا یہ شعر "سردار دل ھا" قاسم سلیمانی کی مقصدیت کا ترجمان ہے:
تیرگی چاہے ستاروں کی سفارش لائے
رات سے ہم کو سروکار نہیں ہو سکتا

شوق شہادت میں اسلامی مقاومت کا علمبردار اپنے دشمن کو اس وقت شکست دے چکا تھا، جب اسے اس کے ناپاک عزائم میں ناکام کرکے اس کی ناک کو خاک پر رگڑ کر مشرق وسطیٰ کی فتح کا سہرا سر پہ سجایا اور دشمن کی گردن میں ذلت کا ایسا طوق ڈالا کہ وہ اس خطے سے دم دبا کر بھاگنے پر مجبور ہوگیا۔ قدس فورس کی کمانڈ کرنے والے اس عظیم شہید نے بیت المقدس اور مظلوم فلسطینیوں کے حقوق کی جنگ اس انداز میں لڑی کہ چشم فلک نے امریکہ اور صہیونی طاقتوں کی پسپائی کا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا۔

جنرل قاسم سلیمانی پورے علاقہ میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک معروف، مضبوط، قوی اور بہادر کمانڈر تھے، جن کی شہادت امریکی حکومت کے لئے دنیا بھر میں ذلت اور رسوائی کا موجب بن گئی۔ امریکہ جنگ کے میدان میں اس عظیم شہید کا مقابلہ نہیں کرسکا،

لہذا اس نے اس عظيم کمانڈر کو رات کی تاریکی میں چھپ کر بزدلانہ اور مجرمانہ حملے ميں شہید کیا اور امریکہ کے اس مجرمانہ اقدام سے اس کا بھیانک چہرہ دنیا کے سامنے مزید نمایاں اور رسوا ہوگیا۔

تحریر: مرتجز حسین بلوچ

امریکا اقوام عالم میں ایک عرصے تک ناقابل تسخیر فوجی طاقت تھا، سوویت یونین کے خاتمے کے بعد تو یہ تاثر مزید گہرا ہوگیا۔ جاپان کے ہیروشیما سے لے کر سوویت یونین کے ٹکڑوں تک سب میں امریکا کا ہاتھ رہا۔ ہر ملک جس پر امریکہ نے چڑھائی کی، اس کا مقدر تباہی اور بربادی ٹھہرا۔ فوجی قوت کے علاوہ معاشی میدان میں بھی امریکہ نے دنیا کو بہت پیچھے چھوڑ دیا۔ یہ بات تو بدیہی ہے کہ دنیا میں جس قوم کے پاس مضبوط معیشت اور دفاع ہوں، وہ عالمی سیاست اور سفارت کے میدان میں بھلا کیسے پیچھے رہ سکتا ہے۔ گذشتہ کئی دہائیوں سے امریکا عالمی سطح پر کچھ ایسے ہی مقام کا حامل ہے۔ اقوام عالم اقوام متحدہ میں بیٹھ کر امریکا کا منہ دیکھتے ہیں کہ مائی باپ جو موقف اختیار کریں، اسی موقف کی تائید کی جائے۔ کئی اقوام اپنے مسائل کے حل کے لیے امریکی اداروں، نمائندگان اور عہدیداروں کے تلوے چاٹتی نظر آتی ہیں۔ امریکہ بہادر کا جب جی چاہتا ہے، ان پر ایک نظر کرم فرماتا ہے اور مسئلہ سے متعلق ایک آدھا بیان داغ دیتا ہے، جسے سن کر مسئلہ سے دوچار قوم کے قائدین اور عوام پھولے نہیں سماتے۔ پریشانی بہرحال دوسرے کو بھی لاحق ہوتی ہے، جسے امریکا سفارتکاری کے ذریعے دور کر دیتا ہے۔ یوں دونوں فریق خوش ہو جاتے ہیں اور بادشاہ سلامت کا اقتدار مزید مستحکم ہو جاتا ہے۔ گذشتہ کئی عشروں سے امریکا ہی ہے جو دنیا میں فیصلہ سازی کرتا ہے اور اس کے حواری نیز دیگر اقوام ان فیصلوں پر عمل کرنے کی پابند ہیں۔

ایسے میں ایران میں ایک ایسا مرد قلندر اٹھا، جس نے نہ صرف امریکا کو نہ کہا بلکہ اسے ’’شیطان بزرگ‘‘ کا نام دیا اور دنیا کے مسائل کا حقیقی سبب امریکا کو قرار دیا۔ یہ بات کرنا اور اس پر قائم رہنا کوئی آسان کام نہ تھا۔ روس جو سوویت یونین کا ایک حصہ تھا، اس کے لیے امریکی اجارہ داری کو تسلیم کرنا آسان نہ تھا، تاہم اسے بھی جرات نہ ہوئی کہ وہ امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے نہ کہے اور اس نہ پر قائم رہے۔ یہ امام خمینی ؒ کا ہی حوصلہ تھا کہ وہ اپنے بیان پر نہ فقط قائم رہے بلکہ اس بیان کے سبب امریکہ کی جانب سے آنے والی مشکلات کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کیا۔ اپنے فرزند کی شہادت سے لے کر ملت ایران کے لاکھوں فرزندوں کی شہادت، معاشی پابندیوں، سفارتی بائیکاٹ، اقتصادی، تعلیمی، پیداواری تعطل کو برداشت کیا لیکن اپنے موقف سے سر مو انحراف نہ کیا۔ امام خمینی ؒ کی رحلت کے بعد ملت ایران نے امام راحل ؒ کے نقش قدم کو حرز جاں بنایا اور امام کی قائم کردہ حکومتی پالیسیوں کو دوام بخشا، جس میں یقیناً ایران کی موجودہ قیادت کی بصیرت اور اخلاص کا ایک بڑا کردار ہے۔

اس میں شک نہیں کہ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد امریکا کے سامنے کوئی ایسا قابل ذکر دشمن نہ تھا، جو امریکی طاقت اور تسلط کو چیلنج کرے، ہاں اسلام ایک مکتب کے طور پر اس کی آنکھ میں ضرور کھٹکا۔ اسلام بحیثیت مکتب مغرب کی نگاہ میں روز اول سے چبھتا ہے، لیکن عالم اسلام کی موجودہ صورتحال مغرب کے لیے کوئی ایسا خطرہ نہیں کہ جس سے وہ پریشان ہوں۔ خلافت عثمانیہ عالم اسلام کی ایک طاقت تھی جسے مغرب نے ایک صدی قبل ختم کر دیا۔ نئی ریاستوں کی تشکیل کے باوجود مغرب مسلمان معاشروں کو زیر نظر رکھے ہوئے ہے اور وہاں ثقافتی نیز تعلیمی میدان میں مسلسل مصروف عمل ہے۔ اس کے باوجود اسلام اور اس کی تعلیمات میں یہ طاقت ہے کہ اس کے بطن سے ایسے بطل جلیل پیدا ہوتے ہیں جو کسی بھی وقت مغرب کی بساط کو یکسر پلٹنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ مغرب اچھی طرح سے جانتا ہے کہ 1400 سال قبل دنیا میں ابھرنے والی واحد سپر پاور کے پاس آج بھی وہ نسخہ کیمیاء موجود ہے، جو عالمی انقلاب برپا کرسکتا ہے۔ اسی نسخہ کیمیاء کے اثرات کو زائل کرنے کے لیے مغربی ممالک ہمارے ملکوں میں مصروف عمل ہیں۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ امریکہ نے جن مسلمان مجاہدین کو سوویت یونین کے خاتمے کے لیے استعمال کیا تھا، اسے خوف پیدا ہوا یا اس کے ذہن میں منصوبہ آیا کہ یہی جتھے خود امریکہ کے لیے بھی وبال جان بن سکتے ہیں، لہذا وہ اپنے ہی استعمال کیے ہوئے مجاہدین کے پیچھے پڑ گیا۔ مرحوم جنرل حمید گل (ر) اکثر کہا کرتے تھے ’’افغانستان بہانہ ہے پاکستان نشانہ ہے‘‘ ان کے اس جملے کو اگر زیادہ جامع بنایا جائے تو کچھ یوں ہوگا کہ ’’شدت پسندی بہانہ ہے اسلام اصل نشانہ ہے۔‘‘ امریکہ نے القاعدہ کا نام لے کر افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، افغانستان کے بعد اس نے عراق کا رخ کیا، عراق کا حاکم صدام حسین بھی امریکہ کا استعمال شدہ مہرہ تھا، جسے ایران کے خاتمے کے لیے استعمال کیا گیا۔ صدام کا جرم وہی کیمیائی ہتھیار تھے جو خود مغربی ممالک نے عراق کو ایران کے خلاف لڑی جانے والی 8 سالہ جنگ کا پانسہ پلٹنے کے لیے دئیے تھے۔ عراق میں حکومت کا تحتہ الٹنے کے بعد امریکا اور اس کے حواریوں نے لیبیا اور شام کا رخ کیا۔

وہ اس وہم کا شکار تھے کہ جیسے انھوں نے افغانستان اور عراق میں اپنی مرضی سے اقوام عالم کو ہانکا اور ان معاشروں کو جانی و مالی نقصان پہنچا کر اپنے قبیح ارادوں کی تکمیل کی، ویسے ہی لیبیا اور شام میں بھی انھیں جلد کامیابی حاصل ہوگی۔ لیبیا میں تو کرنل قذافی کے اقتدار کا خاتمہ ہوگیا، تاہم شام کی جنگ طول کھینچنے لگی۔ شام کا محاذ شام کی سرحدوں سے نکل کر عراق تک پھیل گیا۔ ساتھ کے ساتھ اس محاذ پر مغرب کی نقابیں الٹنی شروع ہوئیں۔ القاعدہ اور داعش کے دشمن ان کی ذیلی تنظیموں کو تربیت، اسلحہ، ٹارگٹ اور دیگر سہولیات دیتے نظر آئے۔ وہی لوگ جن کو افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف استعمال کیا گیا تھا، مختلف ناموں کے ساتھ شام میں بشار الاسد کی حکومت اور عراق میں منتخب حکومت کے خلاف برسر پیکار نظر آئے۔

دور نہ تھا کہ جلد ہی افغانستان، لیبیا کی مانند شام اور عراق بھی ایک مرتبہ پھر روند دیئے جائیں، لیکن اس محاذ پر امریکا کا سامنا فرزند خمینی شہید قاسم سلیمانی سے ہوا۔ شہید قاسم سلیمانی نے ہمسایہ ممالک میں پیدا ہونے والی صورتحال کو بہت جلد درک کیا اور اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے میدان عمل میں کود پڑے۔ شام اور عراق میں جتنی جلدی شہید قاسم سلیمانی نے مقاومت کو جنم دیا، یہ مقاومتی اور فوجی دنیا کی تاریخ کے معجزات میں سے ایک ہے۔ قاسم سلیمانی نے عراق اور شام میں دشمن کی پیش قدمی کو نہ صرف روکا بلکہ اسے ہزیمت سے دوچار کیا۔ قاسم سلیمانی زندہ رہتے تو یقیناً مقاومت نے انتہائی سرعت کے ساتھ دیگر خطوں میں بھی پھیلنا تھا۔ وہ مقاومت کی ایسی کلید تھے، جس کا توڑ مغرب اور اس کے اتحادیوں کے پاس نہ تھا۔ یہ وہ شیر نر تھا، جس نے نہ صرف امریکا اور اس کے اتحادیوں کے ارادوں کو شام اور عراق کی سرزمین پر دھول چٹائی بلکہ امریکا کے ناقابل تسخیر ہونے کے تاثر کو بھی زائل کر دیا۔

جنرل قاسم سلیمانی نے ثابت کیا کہ اگر مسلمان ارادہ کرلے تو دنیا کی کوئی طاقت اس کا راستہ نہیں روک سکتی۔ شہید کی شہادت اس کی فتح کا اعلان ہے، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ امریکہ اور اس کے حواری اپنی مادی ترقی، فوجی قوت، سفارتی برتری اور سیاسی تسلط کے باوجود اس قابل نہ تھے کہ اسلام کے اس بطل جلیل سے مقابلہ کرسکتے۔ وہ اپنے وسائل اور گھمنڈ کے ساتھ اس فرزند خمینی ؒ کے سامنے بے بس ہوگئے، ان کے پاس اس کے سوا کوئی راہ نہ بچی کہ وہ اپنی شکست کو تسلیم کرتے ہوئے قاسم سلیمانی کی سانسوں کی لڑی توڑ دیں۔ جنرل قاسم سلیمانی نے جاتے جاتے دشمن کے چہرے سے قانون پسندی، عالمی انسانی حقوق اور سفارتی وضع داری کی نقابیں بھی نوچ ڈالیں۔ قاسم سلیمانی کا خون شہید کو تو سرخرو کر ہی گیا، ساتھ ساتھ امریکہ اور اس کے حواریوں کے چہروں پر ذلت کی جو سیاہی مل گیا، اس کا ادراک اہل مغرب کو بہت جلد ہونے والا ہے۔۔۔ انتقام جاری ہے۔

تحریر: سید اسد عباس

انسانی زندگی میں عبدیت اور حریت کا مزاج بھی عجب ہے۔ جہاں انسان اپنے عبدی ماحول میں اطمینان محسوس کرتا ہے، وہاں حریت کے ماحول میں زندگی بسر کرنے میں نہ صرف زیادہ اطمیان محسوس کرتا ہے بلکہ فتح اور فخر و مباہات کے ساتھ خود کو کامیاب لوگوں میں شمار کرتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ عارضی اور ابدی زندگی کی کامیابی جہاں بہترین عبدیت کے مرہون ِاحسان ہوتی ہے، وہاں ان دونوں زندگیوں کی کامیابیوں کو تکمیل کی انتہا اور بام ِعروج تک پہنچانے کے لیے حریت کا مقام بھی اپنے مقام پر مستند اور مسلّم ہے۔ ایک بہترین عبد تو بہترین حُر بن سکتا ہے، مگر ہر عبد کبھی حُر نہیں بن سکتا۔ اگرچہ عبودیت اور حریت دونوں ہی معبود ِبرحق و حقیقی کی اعلیٰ نعمات ہیں لیکن خود معبود نے یہ نعمات ہر عبد میں یکجا نہیں فرمائیں۔ یہ اس کا فیصلہ ہے کہ کس انسان کو عبد ہونے کا شرف عطا فرما دے اور کس انسان کو عبد کے ساتھ حُر ہونے کی فضیلت بھی بخش دے۔

اسلامی تاریخ میں لمحہ موجود تک ہمیں بے شمار عابد بھی مل جائیں گے اور بے شمار زاہد بھی، با وصف بندے بھی مل جائیں گے اور باکردار شخصیات بھی، لیکن حریت پسندوں اور شہداء کی تعداد نسبتاً کم نظر آئے گی۔ انسان کی معراج ہی یہی ہے کہ اس کی دنیوی زندگی عبودیت اور حریت کے سائے میں بسر ہو اور اس کی موت کا وقوع شہادت کے ذریعے ہو جائے۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاء و رسل سے لے کر ایک عام دین دار حتیٰ کہ عاصی انسان بھی خود کو ایک عبد اور حُر کی شکل میں زندہ اور ایک شہید کی صورت مرنے کی دعا اور خواہش رکھتا ہے۔ تاریخ نے ایسے لاکھوں انسانوں کا ذکر اپنے اندر سمویا ہے کہ جن کی زندگی تو عبدیت و حریت میں بسر ہوئی مگر موت کے وقت انہیں شہادت نصیب نہیں ہوئی بلکہ طبعی موت کے راستے مالک ِحقیقی تک پہنچے۔

ان عرائض کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ وہ انسان خوش بختی کے آخری مقام پر فائز ہوتا ہے، جو اپنی زندگی عبدیت و حریت کے سائے میں گزار کر زندگی کا اختتام شہادت پر کرے۔ انہیں محدود و مخصوص و گنے چُنے اور خوش بخت لوگوں میں شہید قاسم سلیمانی، شہید ابو مہدی مہندس اور شہید محسن فخری زادہ شامل ہیں۔ شہید قاسم سلیمانی نے پہلے عبدیت کے راستے دین اور احکام ِدین پر عمل کرنے کو اپنی عادت بنایا۔ امام خمینی اور دیگر روحانی شخصیات سے علمی و فکر و اصلاحی و روحانی استفادہ کیا، اعلیٰ و شفاف کردار کے ذریعے اپنی شخصیت تعمیر فرمائی۔ ریاضت و اوراد و وظائف اور عبادت کے ذریعے اپنی عبدیت کو مضبوط و راسخ کیا۔ سیرتِ امامِ حسین (ع) اور قیادتِ امام راحل کی روشنی اور انقلابِ اسلامی کی موجودگی سے بھرپور استفادہ لیتے ہوئے خود کو حُرّیت پسندی کا عادی و عامل بنایا۔ جب اتنے اعلیٰ مدارج اور مراحل طے کر لئے جائیں تو شہادت خود منتظر رہتی ہے کہ وہ عبد ِحُر کب میری آغوش میں آتا ہے۔؟

شہید قاسم سلیمانی نے باسٹھ سالہ مختصر زندگی میں متعدد اور مختلف اہداف پر کام کیا۔ بیش جہاتی انسان نے جہاں انقلابِ اسلامی کی داخلی حفاظت کے لیے کام کیا، وہاں انقلابِ اسلامی کو خارجی حملوں سے محفوظ رکھنے کے لیے بھی لاجواب حکمت عملی اختیار کی۔ انہوں نے جہاں ایران میں موجود انقلابیوں کے حوصلے کا سامان کیا، وہاں ایران سے باہر ہر انقلابی کے لیے مشعل عمل بنے۔ شہید سلیمانی نے جہاں اپنے ملک کے حساس اثاثوں کو دشمن کی دسترس سے دور رکھا، وہاں امامینِ معصومین (ع) کے روضہ ہائے مبارک کی صورت مقاماتِ مقدّسہ کو ہر جارح کے نجس ہاتھ سے دور رکھنے کے لیے عملی اقدامات اٹھائے۔ جہاں ایران کی سرزمین کو امریکہ و اسرائیل کی جارحیت سے محفوظ رکھا، وہاں شام و عراق کو بھی ان نجس ممالک کے وجود سے پاک کرنے میں زندگی صرف کر دی۔ جہاں اپنی دھرتی سے مجاہدینِ خلق اور جنداللہ جیسی استعماری کٹھ پتلیوں کو ناکام کیا، وہاں القاعدہ اور داعش جیسے خطرناک اور رسوائے زمانہ اسلام دشمن گروہوں کی نابودی اور رسوائی کا زبردست انتظام کیا۔

شہید قاسم سلیمانی دورِ حاضر میں حُریت کی علامت اور آزادی کا نشان ہیں۔ وقت کے یزید کو نہ صرف للکارنے بلکہ ہر میدان میں شکست سے دوچار کرنے کا اعزاز صرف اور صرف قاسم سلیمانی کے حصے میں آیا ہے۔ چاہے وہ ایران کا محاذ ہو یا عراق کا۔ یمن کی تحریک ہو یا بحرین کی۔ عراق کا میدان ہو یا شام کا۔ کشمیر کی تحریک ہو یا فلسطین کی، ہر مقام اور ہر مرحلے پر قاسم سلیمانی صف ِاول میں نظر آئے گا۔ سیرتِ حسین (ع) پر عامل انسان کا ایسا رعب و دبدبہ استعمار و استکبار پر طاری ہوا کہ انہوں نے راستے سے ہٹانے کے لیے سازشوں کے شدید سخت جال نہایت تیزی سے بننا شروع کیے۔ تین بار بڑے حملوں کے باوجود شہید سلیمانی اور ان کے جانثار دوست محفوظ رہے، تاکہ خدا نے جو امور ان کے ذمہ کر دیئے تھے، انہیں مکمل کیا جا سکے۔ 

خیال کیا جا رہا تھا کہ قاسم سلیمانی کو راستے سے ہٹا کر اب امریکہ و اسرائیل سکھ کا سانس لیں گے اور اگلی طویل مدت تک ایسی کوئی غلطی نہیں کریں گے، کیونکہ ان کا سب سے بڑا دشمن اور ان کے راستے کا بڑا کانٹا نکل گیا ہے، لیکن محسن فخری زادہ کی شہادت نے ثابت کر دیا ہے کہ دونوں استعماری طاقتیں ابھی تک بوکھلائی ہوئی ہیں، انہیں دنیا کا ہر آزادی پسند بالخصوص ایران کے ہر حریت پسند انسان میں قاسم سلیمانی نظر آتا ہے، تبھی وہ جارحیت سے باز نہیں آتے، لیکن امریکہ و اسرائیل کو یاد رکھنا چاہیئے کہ جب تک دنیا میں ایک بھی حریت پسند زندہ ہے، ان دونوں کے خلاف مزاحمت اور مقاومت جاری رہے گی۔ چاہے غدار مسلمانوں بالخصوص بعض عرب ممالک کی سازشیں جاری رہیں۔

اسرائیل کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھائی جاتی رہیں۔ فلسطینیوں کے خون سے غداری کی جاتی رہے۔ قبلہ اول کا سودا کیا جاتا رہے۔ صیہونی ریاست کے استحکام کے لیے اسرائیل کی حمایت کی جاتی رہے، لیکن قاسم سلیمانی کے جانباز اور ہم فکر ہر دور میں ان دو فتنوں کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ دنیا کے ہر انسان کو بالعموم اور ہر مسلمان کو بالخصوص قاسم سلیمانی اور ان کے رفقاء کا شکر گزار ہونا چاہیئے کہ جنہوں نے انہیں داعش جیسے فتنوں سے نجات دلائی۔ آج اگر داعش کو لگام نہ ڈالی جاتی تو داعش کا وجود دیگر ممالک کی

طرح پاکستان میں بھی نجاست پھیلا رہا ہوتا۔

تحریر: علامہ محمد رمضان توقیر
مرکزی نائب صدر شیعہ علماء کونسل پاکستان

بدھ کو سپاہ قدس کے شہید کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی برسی کے لیے قائم کمیٹی کے ارکان اور اس شہید والا مقام کے اہل خانہ سے ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا، شہید جنرل قاسم سلیمانی کے قتل اور قتل کا حکم دینے والوں کو اپنے کیے کی سزا بھگتنا ہوگی اور جب بھی ممکن ہوا انتقام ہر حال میں لیا جائے گا اور یہ حتمی فیصلہ ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے شہید قاسم سلیمانی کو ایرانی عوام اور امت مسلمہ کا عظیم ہیرو قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ وہ عوامی شخصیت کے مالک تھے لہذا ان کی یاد بھی عوامی سطح پر منائی جانا چاہیے اور اس کےلئے پوری عوامی گنجائشوں اور ثقافتی کوششوں اور جدت ترازی سے کام لینے کی ضرورت ہے۔

آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کو ایک تاریخی سانحہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ وہ اپنی شہادت کے بعد ایرانی قوم اور امت مسلمہ کے ہیرو میں تبدیل ہوگئے۔

آپ نے شجاعت و استقامت، ذہانت و درایت اور ایثار و انسان دوستی کو شہید قاسم سلیمانی کی اہم خصوصیات قرار دیا اور فرمایا کہ وہ روحانیت، اخلاص اور آخرت پر یقین رکھنے والے انسان تھے اور انہوں نے کبھی بھی ریا کاری کا مظاہرہ نہیں کیا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ شہید قاسم سلیمانی نے اپنی زندگی میں بھی عالمی سامراج کو شکست دی اور شہادت کے بعد بھی اسے شکست سے دوچار کیا۔ آپ نے فرمایا کہ عراق اور ایران میں شہید قاسم سلیمانی اور شہید ابو مہدی المہندس کے بے مثال اور ناقابل فراموش جلوس جنازہ اور ان دنوں شہدا کی یاد میں ہونے والے اجتماعات نے سامراجی محاذ کے سافٹ وار جرنیلوں کو حیران کر دیا اور امریکیوں کے منہ پر پہلا زور دار طمانچہ رسید کیا۔

آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے عین الاسد کی امریکی فوجی چھاؤنی پر میزائیل حملوں کے ذریعے رسید کیے جانے والے دوسرے طمانچے کا ذکر کر تے ہوئے فرمایا کہ سخت انتقام سے مراد عالمی سامراج کی ظاہری طاقت پر غلبہ پانا ہے جس کے لیے انقلابی جوانوں اور مومن دانشوروں کے عزم کی جبکہ علاقے سے امریکیوں کو نکال باہر کرنے کے لیے قوموں کے عزم و اردے اور استقامتی پالیسیوں کو  آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے ایک بار پھر اغیار پر اعتماد نہ کرنے کی ضرورت پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ میرا قطعی مشورہ ہے کہ دشمن پر ہرگز اعتماد نہ کیا جائے۔ آپ نے فرمایا کہ آپ دیکھ چکے ہیں کہ ٹرمپ کے امریکہ اور اوباما کے امریکہ میں کوئی فرق نہیں ، امریکہ کی ایران دشمنی صرف ٹرمپ سے مختص نہیں جو اس کے چلے جانے سے ختم ہوجائے گی۔

آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے یورپی ملکوں کو ناقابل اعتماد قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ تین یورپی ملکوں (برطانیہ، فرانس، جرمنی) نے بھی ایٹمی معاہدے کے حوالے سے انتہائی بے عملی، لیت و لعل، دوغلے پن اور منافقت کا مظاہرہ کیا ہے۔

 ایران کے ادارہ اوقاف کے قرآنی امور کے سربراہ قرہ شیخلو نے پیغمبر اسلام (ص) کی بعثت کی مناسبت سے قرآن مجید کے بین الاقوامی مقابلوں کے انعقاد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ  رواں برس قرآن مجید کے بین الاقوامی مقابلوں کا حضوری اور غیر حضوری دونوں طریقوں سے انعقاد کیا جائےگا۔

قرہ شیخلو نے کہا کہ کورونا وائرس کے نتیجے میں ملک بھر میں قرآن کریم کے مقابلے آن لائن منعقد کئے گئے ، اورقرآن مجید کے 37 ویں بین الاقوامی مقابلوں کا انعقاد حضوری اور غیر حضوری دونوں طریقوں سے کیا جائےگا۔ انھوں نے کہا کہ ملک بھر میں قرآن مجید کے 43 ویں مقابلوں میں کامیاب ہونے والے قراء اور حفاظ قرآن مجید کے  37 ویں بین الاقوامی مقابلوں میں ایران کی نمائندگی کریں گے۔

ایران کے وزیر خارجہ ڈاکٹر محمد جواد ظریف نے آذربائیجان میں ترک صدر رجب طیب اردوغان کی جانب سے ایرانی علاقے "آذربائیجان" کی جدائی سے متعلق ایک متنازعہ نظم کے پڑھے جانے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ کسی بھی فریق کو ہمارے پیارے آذربائیجان کے بارے بات کرنے کا حق حاصل نہیں۔ محمد جواد ظریف نے اس حوالے سے ٹوئٹر پر جاری ہونے والے اپنے پیغام میں لکھا ہے کہ کسی نے صدر اردوغان کو یہ نہیں بتایا تھا کہ ان کی جانب سے باکو میں "غلط طریقے سے پڑھی جانے والی" نظم؛ اَرس کے شمالی علاقوں کی مادرِ وطن ایران سے جبری جدائی سے متعلق ہے! انہوں نے لکھا کہ کیا انہیں نہیں پتہ چلا کہ وہ خود آذربائیجان کی خود مختاری کے خلاف ہی بات کر رہے ہیں؟ محمد جواد ظریف نے اپنے پیغام کے آخر میں لکھا کہ کسی کو ہمارے پیارے آذربائیجان کے بارے بات کرنے کا حق حاصل نہیں!

ایرانی ملکی ایئر ڈیفنس فورس کے ڈپٹی کمانڈر بریگیڈیئر جنرل قادر رحیم زادہ نے ایئر ڈیفنس آپریشنز کمانڈ سنٹر کے دورے کے دوران تاکید کی ہے کہ ملکی فضائی حدود ہماری ریڈ لائن ہے اور جیسا کہ قبل ازیں بھی دشمن تجربہ کر چکا ہے؛ ملکی ہوائی حدود کی چھوٹے سے چھوٹی خلاف ورزی کا بھی شدید اور "آتشیں" جواب دیا جائے گا۔ بریگیڈیئر جنرل قادر رحیم زادہ نے خطے کے باہر سے آئی فورسز کی خطے کے اندر ہوائی سرگرمیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ خطے کی اور باہر سے آئی تمام فورسز کی ہوائی سرگرمیوں کا ملکی "فضائی دفاعی نیٹورک" کی جانب سے مکمل طور پر لمحہ بہ لمحہ جائزہ لیا جا رہا ہے خصوصا ان امریکی B-52 بمبار طیاروں کی تمام سرگرمیوں کی بھی انتہائی قریب سے نگرانی کی جا رہی ہے جو خلیج فارس کے جنوبی علاقے کے اندر ملکی حدود سے 150 کلومیٹر پر پائے گئے ہیں۔

ایرانی فضائی دفاعی فورسز کے ڈپٹی کمانڈر نے خطے کے اندر ایران کے تزویراتی جغرافیائی محل وقوع اور ایرانی اسلامی جمہوری نظام حکومت کے ساتھ برتی جانی والی مسلسل دشمنی پر تاکید کرتے ہوئے کہا کہ ملکی ایئرڈیفنس فورس، پورے ملک میں موجود اپنے باہم متصل نیٹورک کے ذریعے پائلٹ کے ساتھ یا بغیر پائلٹ پرواز کرنے والے ہر طیارے کا لمحہ بہ لمحہ جائزہ لیتی اور اس کی مکمل نگرانی کرتی ہے جبکہ دشمن کے اہداف اور اس کے طرز عمل کا جائزہ لیتے ہوئے حالات کے مناسب دفاعی منصوبہ تشکیل دے کر اس پر فورا عملدرآمد شروع کر دیتی ہے۔

بریگیڈیئر جنرل قادر رحیم زادہ نے خطے کے اُن ممالک کی جانب اشارہ کرتے ہوئے جو اپنی سکیورٹی کی خاطر خطے کے باہر سے آئی طاقتوں سے تعاون لے رہے ہیں جس کے باعث گذشتہ ہفتے خلیج فارس کے جنوبی علاقوں اور "پروازی معلومات کے علاقے" (Flight Information Region-FIR) سے باہر کئی ایک ہوائی سرگرمیاں انجام پائی ہیں، کہا کہ ہم ہمسایہ ممالک کے اندر انجام پانے والی ان تمام سرگرمیوں سے نہ صرف مکمل طور پر آگاہ ہیں بلکہ ملکی ہوائی دفاعی فورس کے انفارمیشن اینڈ آپریشن سنٹرز میں ان تمام سرگرمیوں کی لمحہ بہ لمحہ انتہائی کڑی نگرانی بھی کر رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے بیان کے آخر میں ملکی ایئر ڈیفنس آپریشنز کمانڈ سنٹر کی قابلیت اور ہمہ وقت تیاری کو انتہائی قابل اعتماد قرار دیا اور کہا کہ ملکی "خاتم الانبیاء (ص)" ایئر ڈیفنس بیس کے حوالے سے یہ بات ہمارے لئے انتہائی قابل فخر ہے کہ اس بیس پر تعینات ممتاز و پرعزم جوان، ملکی ہوائی دفاع کی ذمہ داری کے ناطے فوج و سپاہ پاسداران کے شانہ بشانہ مسلح افواج کا ایک طاقتور بازو اور ملک و قوم کے لئے گہرے اطمینان و سکون کا باعث ہیں۔