سلیمانی

سلیمانی

حزب اللہ لبنان کے جنرل سیکرٹری سید حسن نصراللہ نے شہید جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کی برسی کی مناسبت سے نیوز چینل پریس ٹی وی سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا: شہید قاسم سلیمانی مکتب امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے پروردہ تھے۔ میری شہید قاسم سلیمانی سے پہلی ملاقات تقریبا بیس سال پہلے ہوئی وہ ہمیشہ دوستوں کی ملاقات کے لیے جایا کرتے تھے۔ وہ ہمیشہ جہادی موضوعات پر گفتگو کو توجہ سے سنتے تھے۔ وہ خود بھی ہمیشہ میدان جہاد میں حاضر ہوتے تھے۔ وہ اس خصوصیت کی وجہ سے میدان میں جنگ میں بہت زیادہ کامیاب جرنیل تھے۔

انہوں نے مزید کہا: شہید قاسم سلیمانی کی اچھی خصوصیات میں سے ایک ان کا حسن سلوک تھا۔ وہ ہمیشہ مجاہدین کے حامی اور ان سے محبت سے پیش آتے تھے۔ ان کے اخلاق سے یہاں کے افسران بہت متأثر تھے۔ وہ سب کی آراء اور نقطہ نظر کو سنتے تھے اور صرف ان کے دفتر میں جاکر ان سے ملاقات کرنے والوں کے نقطۂ نظر پر ہی اکتفا نہیں کیا کرتے تھے۔

حزب اللہ لبنان کے جنرل سیکرٹری نے کہا: وہ صرف کمانڈروں کی جانب سے انہیں موصول ہونے والے تحریری اسناد پر اکتفا نہیں کیا کرتے تھے بلکہ خود میدان جنگ میں جاتے اور اپنی آنکھوں سے حالات کا مشاہدہ کرتے اور مختلف سطح کے لوگوں سے گفتگو کیا کرتے تھے۔ یہ خصوصیت صرف شہید قاسم سلیمانی کی ہے۔ جو دوسرے کمانڈروں میں بہت کم پائی جاتی ہے۔البتہ ایران میں تمام بڑے کمانڈرز آٹھ سالہ دفاعی جنگ میں مجاہدین اور سپاہیوں سے ملاقات کے لیے خود جایا کرتے تھے لیکن اس طرح کا طرز عمل ایران سے باہر کہیں نظر نہیں آتا۔

انہوں نے مزید کہا: شہید قاسم سلیمانی کی ایک اور خصوصیت ان کا انتھک ہونا تھا۔ ہم سب ممکن ہے تھک جائیں اور احساس کریں کہ مشکلات نے ہمیں بہت زیادہ دباؤ میں ڈال رکھا ہے لیکن شہید قاسم سلیمانی کبھی کام اور جدوجہد سے ہاتھ نہیں کھینچتے تھے  بلکہ سختیوں اور مشکلات کے مقابلے میں ان کا صبر و استقامت بہت زیادہ تھا۔ یہ میں مبالغہ نہیں کر رہا۔ اب تک میں نے ایسا کوئی شخص نہیں دیکھا ہے کہ جو شہید قاسم سلیمانی کی طرح مشکلات کا مقابلہ کرے ۔

سید حسن نصر اللہ نے کہا وہ بہت جدوجہد کرنے والی شخصیت تھے۔

شہید قاسم سلیمانی ہمیشہ اس کوشش میں رہتے تھے کہ وقت سے بھرپور استفادہ کریں۔ شہید قاسم سلیمانی بے مثال تھے۔ وہ معمولی افراد سے بھی بہت عاجزی سے پیش آیا کرتے تھے۔ یہ مکتب قاسم سلیمانی کی ایک جھلک ہے۔

حزب اللہ لبنان کے جنرل سیکرٹری نے کہا: مکتب شہید سلیمانی یعنی خطرات سے کھیلنا۔ انہیں ہر لمحے موت کا خطرہ تھا لیکن اس کے باوجود وہ ہمیشہ فرنٹ لائن پر ہوتے تھے۔ میں ہمیشہ اس سلسلہ میں ان سے اختلاف کرتا تھا اور میری کوشش ہوتی تھی کہ انہیں فرنٹ لائن سے پیچھے لے کر آؤں لیکن ہم میں کوئی بھی انہیں فرنٹ لائن سے پیچھے نہیں لا سکا۔

سید حسن نصر اللہ نے کہا: شہید قاسم سلیمانی پر خطر اور سخت دنوں میں بھی مشکلات کو بہت زیادہ تحمل کیا کرتے تھے مثلا اسرائیل سے ۳۳ روزہ جنگ کے موقع پر وہ جنوری ۲۰۰۶ء کو تہران سے دمشق پہنچے ۔انہوں نے ہم سے رابطہ کیا اور کہا کہ وہ جنوبی لبنان آنا چاہتے ہیں۔ میں نے شہید قاسم سلیمانی سے کہا: آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں ان حالات میں یہ ممکن نہیں ہے۔ تمام پل اور سڑکیں بند ہیں۔ اسرائیلی جہاز ہر ہدف پر حملہ کر رہے تھے اور ایک مکمل جنگ کی کیفیت تھی۔ کوئی بیروت یا جنوب لبنان نہیں آ سکتا تھا لیکن شہید قاسم سلیمانی کا اصرار تھا کہ اگر آپ گاڑی نہیں بھیج سکتے تو میں تنہا آ جاؤں گا۔ ان کا بہت زیادہ اصرار ہی تھاکہ  آخر کار وہ لبنان پہنچ گئے۔

انہوں نے کہا: ۳۳ روزہ جنگ میں شہید قاسم سلیمانی نے ہماری بہت زیادہ مدد کی اور عراقی کمانڈرز ہمیں بتا رہے تھے کہ تکفیری داعشیوں کے مقابلے میں وہ ہمیشہ عراقی اور شامی فوجیوں کے ساتھ فرنٹ لائن پر موجود ہوا کرتے تھے۔ یہ شہید قاسم سلیمانی کی خصوصیات میں سے ایک اور خصوصیت ہے۔ پس ہم کہہ سکتے ہیں کہ مکتب شہید قاسم سلیمانی کا سرچشمہ مکتب امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ اور انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ ای مدظلہ العالی کی رہنمائی اور دفاع مقدس کا تجربہ ہے۔

سید حسن نصراللہ نے اسرائیل سے  ۳۳ روزہ جنگ میں شہید قاسم سلیمانی کے کردار کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا: جنگ کے ابتدائی دنوں میں شہید قاسم سلیمانی کی لبنان میں موجودگی بہت زیادہ اہم تھی۔ وہ تہران میں بیٹھ کر بھی جنگ کی اخبار کا مطالعہ کیا کر سکتے تھے یا دمشق جاکر نزدیک سے جنگ کی صورتحال کو دیکھ سکتے تھے کیونکہ ان دنوں میں دمشق اسرائیلی حملوں سے محفوظ تھا لیکن شہید قاسم سلیمانی کا اصرار تھا کہ وہ ہر صورت میں لبنان آئیں گے۔

حزب اللہ لبنان کے جنرل سیکریٹری نے کہا: جب شہید قاسم سلیمانی لبنان پہنچے تو ایک میٹنگ ہوئی۔ وہ جنگ کے ابتدائی دنوں میں لبنان پہنچے تھے۔ میٹنگ کے بعد وہ چند دنوں تک لبنان میں رہے اور پھر تہران واپس لوٹے تاکہ رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ خامنہ ای کو جنگ کے متعلق رپورٹ دے سکیں حالانکہ ان دنوں تہران واپس جانا بھی بہت خطرناک تھا۔

میں پھر کہتا ہوں کہ وہ اس بار بھی تہران یا دمشق رہ سکتے تھے لیکن ان کا اصرار تھا کہ وہ لبنان ہی لوٹ کر جائیں گے اور پھر وہ جنگ کے آخری دنوں تک لبنان میں رہے۔

حزب اللہ لبنان کے جنرل سیکرٹری نے کہا: جب شہید قاسم سلیمانی تہران سے لبنان واپس لوٹے تو اپنے ساتھ ہمارے لئے رہبر انقلاب اسلامی کا پیغام لائے تھے جو خود قاسم سلیمانی کے ہاتھوں سے لکھا ہوا تھا۔

اس پیغام کا متن اس طرح تھا کہ یہ جنگ بہت سخت اور شدید ہوگی اور اس زمانے میں آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا تھا کہ   ۳۳ روزہ جنگ خندق (احزاب) کے مشابہہ ہے۔  اور رہبر انقلاب اسلامی نے جنگ احزاب کے متعلق کچھ قرآنی آیات بھی اس پیغام میں ذکر کیں۔ انہون نے اس پیغام میں یہ پیشین گوئی بھی کی کہ یہ جنگ سخت اور شدید ہوگی جس  میں کامیابی ہماری ہوگی۔

سید حسن نصر اللہ نے کہا: ہم بہت خوش تھے کہ رہبر انقلاب اسلامی نے انتہائی یقین سے ہماری کامیابی کی نوید سنائی ہے جبکہ پوری دنیا کہہ رہی تھی کہ کیسے ممکن ہے کہ حزب اللہ امریکہ یورپ اور بعض عرب ممالک کی جانب سے اس جنگ میں اسرائیل کی حمایت کے باوجود ثابت قدمی دکھا پائے گی۔ لیکن رہبر انقلاب اسلامی نے فرما دیا تھا کہ اس جنگ میں فتح و کامرانی ہمیں نصیب ہوگی بس ہمیں ثابت قدم رہنا تھا اور خدا پر توکل کرنا تھا۔ یہ رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای کی جانب سے بہت اہم پیشن گوئی تھی اور اس سے بھی اہم یہ کہ انہوں نے فرمایا تھا کہ اس جنگ میں فتح کے بعد ہم خطے کی بہت بڑی طاقت میں تبدیل ہو جائیں گے کہ خطے میں کوئی طاقت ہمارا مقابلہ نہ کرسکے گی اور ہمیں شکست نہیں دے سکے گی۔

انہوں نے آخر میں کہا: زندگی میں مجھے خدا نے بہت ساری نعمتوں کے ساتھ ساتھ ایک نعمت شہید قاسم سلیمانی سے آشنائی کی صورت میں عطا کی۔ میں ہمیشہ آمادہ تھا کہ اپنی جان شہید قاسم سلیمانی پر فدا کردوں۔

اسلامی جمہوریہ ایران کی پارلیمنٹ کے اسپیکر کے بین الاقوامی امور کے مشیر اور شہید سلیمانی کی پہلی برسی کی انتظامی کمیٹی کے ترجمان حسین امیر عبداللہیان  نے کہا ہے کہ یورپی ممالک کو شہید قاسم سلیمانی کا احسان مند اور مدیون ہونا چاہیے۔اگر شہید سلیمانی کی فداکاری نہ ہوتی تو آج یورپ اور امریکہ میں جگہ جگہ داعشیوں کے حملے ہوتے۔

امیر عبدالہیان نے کورونا وائرس سے متعلق قومی کمیٹی کے ساتھ شہید قاسم سلیمانی کی برسی کے متعلق گفتگو ، صلاح و مشورے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے شہید سلیمانی کی برسی کے  مراسم کا بڑا حصہ آن لائن منعقد ہوگا۔

انھوں نے کہا کہ شہید قاسم سلیمانی کی برسی کے تمام پروگرام عوامی سطح پر خود جوش منعقد ہوں گے۔ جبکہ جمعہ کے دن بعض ملکی اور غیر ملکی مہمانوں کی موجودگی میں شہید سلیمانی کی پہلی برسی کی تقریب طبی پروٹوکول کی رعایت کے ساتھ منعقد ہوگي۔ جس میں شہید سلیمانی کی تحریری یادداشت کی رونمائي کی جائےگي اور اس تحریر کا دنیا کی 7 زبانوں میں ترجمہ کیا جائےگا۔

انھوں نے کہا کہ شہید قاسم سلیمانی کے بہیمانہ اور بزدلانہ قتل میں ملوث افراد کے خلاف مقدمہ کی فائل مکمل ہوچکی ہے اور شہید قاسم سلیمانی کے قاتلوں کو قانون کے کٹہرے میں لائیں گے اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرنے  والوں کو سزا دلوانے کی جد و جہد جاری رکھیں گے۔ انھوں نے کہا کہ شہید سلیمانی کی قربانیوں اور فداکاریوں کو خطے کے عوام ہمیشہ یاد رکھیں گے۔

 

شہید قاسم سلیمانی کو ایک تجربہ حاصل ہوا جسے انھوں نے عالم گیر کر دیا، وہ تجربہ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی ایران کا تھا۔ وہ 11 مارچ 1957ء کو ایران کے شہر کرمان ایک قصبے میں پیدا ہوئے۔ کرمان میں ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں نے آب رسانی کے ادارے میں ملازمت اختیار کرلی۔ زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ فروری 1979ء میں جب وہ ابھی 22 برس کے ہونے کو تھے کہ امام خمینی کی قیادت میں ایران میں اسلامی انقلاب کامیاب ہوگیا۔ یہ انقلاب بیسویں صدی کی آخری چوتھائی کا بہت بڑا واقعہ تھا۔ مغربی ایشیاء اور خاص طور پر مڈل ایسٹ میں امریکہ کے سب سے اہم اتحادی شاہ ایران کا تختہ الٹ گیا تھا اور دینی بنیاد پر دینی قیادت میں ایک پرجوش عوامی انقلاب رونما ہوچکا تھا۔ اس واقعے نے علاقے کی رجعت پسند اور استعماری سرپرستی میں قائم حکومتوں کو لرزہ براندام کر دیا۔ یہ انقلاب دوسری جنگ عظیم کے بعد قائم ورلڈ آرڈر کے لیے ایک بڑا خطرہ قرار دیا گیا۔ اسے فوری طور پر ختم کرنے یا منحرف کرنے کے لیے تمام تر تدابیر پر غور و خوض کیا گیا اور  ایک ایک کرکے انھیں بروئے کار لایا گیا۔ داخلی اور خارجی سطح پر سازشوں کا تانا بانا بنا جا چکا تھا۔ فیصلہ کیا گیا کہ عراق میں حکمران صدام کی حکومت کو کیل کانٹے سے لیس کیا جائے اور تھپکی دے کر ایران پر بھرپور فوجی حملہ کروا دیا جائے۔

ادھر انقلاب نیا نیا تھا۔ ایران کی فوج شاہی دور کی قائم کردہ تھی۔ اس کی قیادت شاہ ایران کی وفادار تھی۔ انقلاب کی کامیابی سے صرف شاہ کو شکست نہ ہوئی تھی، یہ فوج بھی شکست کھا چکی تھی۔ اس کے کئی ایک جرنیل اور بڑے بڑے افسر ایرانی عوام کے قتل عام کے مجرم قرار پا چکے تھے۔ فوج کی صفوں میں ابھی تشویش، اضطراب اور سراسیمگی کا عالم تھا۔ امام خمینی کی چشم بصیرت نے عوامی انقلابی رضاکار فورس کی ضرورت محسوس کرلی تھی۔ وہ عوام کی مدد سے کامیاب ہوئے تھے اور سمجھتے تھے کہ عوام ہی اس انقلاب کی حفاظت کرسکتے ہیں۔ انھوں نے جوانوں کے جذبوں کو ہر شعبے میں ظہور کرنے کا موقع دیا۔ دفاعی شعبے میں انھوں نے ’’سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی‘‘ کی بنیاد رکھ دی تھی لیکن یہ بھی متشکل ہو رہی تھی۔ تربیت کا ابھی آغاز تھا۔ چھوٹے چھوٹے ہتھیار تو یہ جوان چلانا سیکھ رہے تھے لیکن بڑی دفاعی مشینری، توپیں، ٹینک وغیرہ تو سب کچھ فوج کے پاس ہی تھا اور وہی اسے چلانے کی اہلیت رکھتی تھی لیکن اس کی نفسیاتی کیفیت ہم لکھ چکے ہیں۔

ایسے میں ابھی انقلاب کی کامیابی کو تقریباً ڈیڑھ برس ہی ہوا تھا کہ عراق کی صدام حکومت نے ایران پر بھرپور فوجی یلغار کر دی۔ انقلابی قیادت ابھی داخلی مسائل سے نمٹ رہی تھی۔ عراق ایران سرحد پر عراق کی منظم اور جدید اسلحہ سے لیس فوج نے چڑھائی کر دی۔ ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہر بمباری کی زد میں تھے۔ عراقی فضائیہ بھی جنگ میں پوری طرح شریک تھی۔ اس یلغار کا ایرانیوں نے کیسے مقابلہ کیا اور کس طرح آٹھ برس میں ایرانی سینہ سپر رہے اور اپنے ملک اور انقلاب کا دفاع کرتے رہے۔ ملک کے اندر بھی ایک کے بعد دوسرا سانحہ رونما ہو رہا تھا۔ ایک دھماکے میں منتخب پارلیمنٹ کے بہتر اراکین کو شہید کر دیا گیا۔ اسی دوران میں ایک دھماکے میں ایرانی صدر محمد علی رجائی اور وزیراعظم ڈاکٹر جواد باہنر بھی شہید ہوگئے۔ سرحدوں اور شہروں میں یہ جنگ سپاہ پاسداران اور اس سے منسلک عوامی رضا کار فورس جسے بسیج ملی کہا جاتا ہے، نے مل کر لڑی۔

اس جنگ میں بہت سے قیمتی جوان اور افسر شہید ہوئے اور اسی دوران میں لاکھوں جوانوں نے دفاع کی تربیت بھی حاصل کی۔ انھوں نے دشمن کے مقاصد اور طریق واردات کو پہچانا۔ اس دوران میں جو لوگ اعلیٰ کارکردگی کی وجہ سے نمایاں ہوئے سردار قاسم سلیمانی ان میں سے گل سرسبد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مختلف محاذوں پر انھوں نے جس دلیری، ثابت قدمی، حکمت عملی اور ہوش مندی کا مظاہرہ کیا اس کی وجہ سے وہ ترقی کرتے کرتے سپاہ پاسداران کی قدس فورس کے سربراہ مقرر ہوگئے۔ قدس فورس کا مقصد علاقے کی پسماندہ اقوام کی مدد اور حمایت قرار پایا۔ اس فورس نے اپنے تجربات استعماری طاقتوں کے شکنجے میں کسی اقوام کو منتقل کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس فورس نے اپنا سب سے اہم ہدف قدس شریف کی آزادی کو قرار دیا۔ اس ہدف نے علاقے کے مسلم عوام کو یکجا کرنے اور دشمن کی شناخت کے حوالے سے متحد کر دیا۔ اسی نظریے نے ’’مقاومت‘‘ یعنی صہیونزم، استعمار اور منافقت کے مقابلے میں مزاحمت کے محاذ کو جنم دیا۔ اس طرح انقلاب اسلامی کا بنیادی نظریہ ایران کی سرحدوں سے نکل کر پورے خطے میں پھیل گیا۔ ’’مقاومت‘‘ نے استعماری مقاصد کو سمجھ کر مختلف محاذوں پر حکمت عملی ترتیب دی۔

اُدھر استعمار نے بھی مختلف ہتھکنڈے اختیار کیے۔ اس کا سب سے بڑا ہتھکنڈہ اسلام کو اسلام کی تلوار سے ذبح کرنا تھا۔ وہ انقلاب اسلامی اور اسلامی مزاحمت کے خاتمے کے لیے اسلام کا نام لینے والوں کو میدان میں لے آیا۔ دشمن کے پالتو سب سے بڑے عفریت کا نام ’’داعش‘‘ تھا۔ داعش اچانک اٹھی اور اس نے ’’دولت اسلامیہ عراق و شام‘‘ کے عنوان سے عراق اور شام کے بہت بڑے علاقے پر قبضہ کر لیا۔ عراق کی فوج جو دراصل امریکہ کی تربیت یافتہ تھی، وہ محاذ جنگ سے ایک منصوبہ بندی کے تحت پسپا ہوتی رہی، چونکہ داعش کے پیچھے خود امریکہ تھا اور عراقی فوج کی قیادت پر امریکی مفادات کے نمائندہ افسران موجود تھے۔ یہ سب کچھ راتوں رات نہیں ہوسکتا تھا۔ اس کے لیے بڑی تربیت، منصوبہ بندی اور سرمائے کی ضرورت تھی، جو اسے طاغوتی قوتوں اور ان کے آلہ کاروں نے فراہم کیا۔

داعش تو ایک عفریت کا نام ہے اور بہت سے تکفیری قاتل گروہ منظر عام پر آگئے۔ شام میں بھی مختلف شہروں اور علاقوں پر انھوں نے اپنی چھوٹی چھوٹی حکومتیں قائم کرلیں، ایک بڑا شامی علاقہ داعش کے قبضے میں آگیا۔ ان گروہوں نے فرقہ واریت کو بھی اپنا ہتھیار بنائے رکھا۔ اسرائیل اس پورے منصوبے کا اہم ترین پارٹنر تھا، چونکہ ان تمام استعماری کوششوں کا ایک بڑا ہدف اسرائیل کو مضبوط کرنا اور اس کی سرحدوں کو پھیلانا تھا۔ علاقے کے رجعت پسندوں اور طاغوتی طاقتوں کے لے پالک آمروں نے بھی اس میں اپنا حصہ ادا کیا۔ اس سب کے مقابلے میں سردار قاسم سلیمانی کا کردار بہت بنیادی رہا ہے۔ انھوں نے عراق میں عوامی رضاکار فورس کا نظریہ پیش کیا، عراق کی دینی قیادت نے عوام سے کہا کہ وہ اس رضاکار فورس کے لیے اپنا نام لکھوائیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے پندرہ لاکھ سے زیادہ افراد عراق کے دفاع کے لیے اپنا نام لکھوا چکے تھے۔ اب ان کی تربیت کا مرحلہ تھا۔ اس سب کے لیے قاسم سلیمانی اور عراق میں ان کے ساتھی تیار تھے۔

شام میں چونکہ فوج کا کمانڈ اور کنٹرول سسٹم قائم تھا، اس لیے وہاں مختلف حکمت عملی اختیار کی گئی۔ اس سے پہلے لبنان میں اسرائیل کے مقابلے میں حزب اللہ کا تجربہ بھی کیا جا چکا تھا۔ قاسم سلیمانی خود بھی اسرائیل کے مقابل حزب اللہ کے ساتھ محاذ پر نظر آئے۔ اسی طرح وہ کبھی صہیونیت کے مقابلے میں جرأت سے کھڑے شامی سپاہیوں کے ساتھ دکھائی دیے۔ انھوں نے عراقی کردستان کی حفاظت میں بھی کردار ادا کیا اور بغداد کو داعش کی یلغار سے بچانے میں بھی عراقی سپاہیوں کی تربیت اور مدد کی۔ انھوں نے داعش سمیت تمام تکفیری اور شدت پسند گروہوں کو علاقے کے عوام کے ساتھ مل کر شکست دی تو اس میں ان کے اس تجربے کا اہم کردار رہا، جو انھوں نے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی میں ایک سپاہی سے جنرل تک کے سفر کے دوران میں حاصل کیا تھا۔

تحریر: ثاقب اکبر

قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی کہتے ہیں کہ قرآن پاک سورة مائدہ میں جن بنی اسرائیل کو ارض مقدسہ میں داخل ہونے اور اس زمین کا اُن کیلئے قرار پانے کا ذکر کیا گیا ہے وہ بنی اسرائیل صدیوں پہلے نیست و نابود ہو چکے ان کا نام و نشان تک مٹ چکا اور ان کی تعلیمات بھی مسخ ہو چکیں موجودہ نام نہاد یہود اور صہیونیوں کا ان بنی اسرائیل سے کوئی تعلق نہیں ۔ استعمار کی کھلی زیادتی کا شاخسانہ اسرائیل کا وجود ناجائز، غیر قانونی اور غاصبانہ ہے اور یہی اسکی پہچان ہے، اسرائیل کے حق میں دلائل دینے والے بابائے قوم اور شاعر مشرق سے زیادہ دور اندیش نہیں۔ قرآن پاک کی سورہ ہود میں واضح ارشاد ربانی ہے کہ” ظالموں کی طرف ذرا نہ جھکنا ورنہ جہنم کی لپیٹ میں آجاﺅ گے، اور تمہیں کوئی ایسا ولی و سرپرست نہ ملے گا جو خدا سے تمہیں بچا سکے، اور تم کو کہیں سے مدد نہ پہنچے گی“
ان خیالات کا اظہار انہوں نے اسرائیل کوتسلیم کرنے کے حوالے سے آنیوالے مختلف بیانات، تبصروں اور حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ اسماعیل ھنیہ کے 30 مسلمان اور عرب ممالک کے سربراہان کے نام لکھے گئے مکتوب پر اظہار خیال کرتے ہوئے کیا۔ قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہاکہ مسئلہ فلسطین کو علاقائی یا مذہبی معاملہ بنا کر اس کی اہمیت کم کرنے اور مختلف حیلوں سے اسرائیل کو تسلیم کرنے یا اس کی حمایت کرنے والے یا گمراہ کن پیمانے مرتب کرنیوالے اس کی درندگی، انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں، عصمت دریوںاور مسلسل گھناونے مظالم کو کس پلڑے میں ڈالیں گے؟مقبوضہ بیت المقدس ، مسجد اقصیٰ میں ہونیوالی بے ہودگی ، بدتہذیبی اور بے حرمتی کے حوالے سے کیا جواز تراشیں گے؟اپنی سرزمین سے بے وطن کئے جانےوالے مظلوموں کی آہوں ، سسکیوں اور بے یارومددگار خواتین و بچوں پر ہونیوالے مظالم پر کونسا پردہ ڈالیں گے؟اسرائیلی قابض فوج کے قتل عام اور عالمی قوانین کو نظر انداز کردینے پر کون سے دلائل لائینگے؟

استعمار کی شہ پر ناجائز ریاست بنانے کےلئے انسانی حقوق کی پامالیوں کو کیسے نظر انداز کرینگے؟یہ کیسی انسانی اقدار و وقار ہے ، یہ کیسی معاشرت ہے کہ ظالم ، جابر قوت کےلئے دلائل دیئے جائیں اور علاقائی یا مذہبی معاملہ قرار دے کر پر دہ پوشی کی جائے ؟آج اسرائیل کے حق میں بیان بازی کرنیوالے اور اپنے آپ کو دور اندیش ثابت کرنیوالے کیا خود کو بابائے قوم حضرت قائد اعظم ؒ اور شاعر مشرق حضرت علامہ محمد اقبال ؒ سے بڑا دانشور یا دور اندیش تصور کرتے ہیں؟کیا پاکستان کی تشکیل ، بنیادوں اور اساس میں یہ شامل تھا کہ ہر بدمعاشی کے سامنے سرجھکائینگے؟ایک طرف ہولوکاسٹ کے صرف تذکرے پر تک پابندی مگر دوسری جانب اسرائیلی مظالم پر صدائے احتجاج بلند کرنا بھی جرم ؟یہ کیسا دہرا معیار ہے۔انہوںنے حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ اسماعیل ھنیہ کے حالیہ خط کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ کیا مسلم حکمرانوں اور سنجیدہ فکر شخصیات کی آنکھیں کھولنے اور حقائق کو جاننے کےلئے یہ خط کافی نہیں؟ کیوں انسانیت کے نام نہاد علمبردارو ں اور جمہوریت کے چمپیئنز کوفلسطینی عوام پر روا رکھے جانیوالے ریاستی ظلم ،جبر اور اسرائیلی دہشت گردی نظر نہیں آتی؟انہوںنے اپنے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہاکہ مسئلہ فلسطین و کشمیر عالمی ضمیروں پر بوجھ ہے، ہم مظلوم اقوام کے ساتھ ہیںکہ جب تک ان کو ان کا حق نہیں مل جاتا، ہم ان کی تحریک حریت کی اخلاقی ، سیاسی اور سفارتی حمایت جاری رکھیں گے ۔

رواں سال کے پہلے ہفتہ (3 جنوری) کو علی الصبح عالمی میڈیا پر ایک خبر تیزی سے پھیل گئی کہ ’’اسلامی جمہوریہ ایران کی سپاہِ قدس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی اور عراق کی حشد الشعبی کے نائب کمانڈر ابو مھدی المھندس کو بغداد میں امریکی ہیلی کاپٹرز کے حملہ میں شہید کر دیا گیا ہے۔‘‘ یہ خبر جہاں اسلام دشمن، استعماری اور استکباری حلقوں میں خوشی کا باعث تھی، وہیں دنیا بھر کے حریت پسندوں، مظلومین اور مزاحمتی طبقہ کیلئے کسی قیامت سے کم نہ تھی۔ امریکہ اپنے مکروہ عزائم کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ (جنرل سلیمانی) کو راستے سے ہٹانے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ جنرل سلیمانی اور ان کے رفقاء کی شہادت دنیا کو ایک نئے مرحلہ میں لیجانے کی طرف اشارہ کر رہی تھی اور گزرتے وقت کیساتھ یہ ثابت بھی ہوگیا۔ جنرل سلیمانی کی شہادت کے بعد دنیا بھر میں موجود ان کے پیروکاروں اور چاہنے والوں کی تعداد کا اندازہ ہوا، جسے خود امریکہ اور اس کے حواری دیکھ کر حیران رہ گئے۔

بظاہر جنرل سلیمانی ایک برادر اسلامی کے جرنیل تھے، لیکن حیران کن طور پر ان کی شہادت پر دنیا کے کونے کونے سے آوازیں بلند ہوئیں۔ امریکہ، اسرائیل اور ان کے اتحادی عرب ممالک نے اس ردعمل کو ہر ممکن طریقہ سے دبانے اور محدود رکھنے کی تاریخی کوششیں کیں، سوشل میڈیا پر ایسی قدغنیں دور حاضر میں کبھی نہیں دیکھی گئیں جیسا کہ سانحہ 3 جنوری کے بعد دیکھنے کو ملیں۔ اس کے علاوہ عالمی میڈیا کو کنٹرول کرنے کیلئے بھی بھرپور کوششیں کی گئیں، مسلم ممالک کی قیادت سے رابطے کئے گئے اور انہیں دھمکیاں بھی دی گئیں۔ لیکن 
تم نے جس خون کو مقتل میں دبانا چاہا
آج وہ کوچہ و بازار میں آ نکلا ہے
کی عملی تصویر کشی کرتے ہوئے جنرل سلیمانی، ابو مہدی المہندس اور انکے رفقاء کا پاک خون لاکھ کوششوں کے باوجود نہ چھپ سکا، نہ دب سکا۔ اگر یہ کہا جائے کہ جنرل سلیمانی دشمن پر شہادت کے بعد زیادہ قہر بن کر ٹوٹے تو غلط نہ ہوگا۔ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی جنرل سلیمانی کی ٹارگٹ کلنگ پر شدید ردعمل دیکھنے میں آیا۔

پاکستان میں اس سانحہ کے ردعمل میں احتجاجی مظاہرے، تعزیتی نشستیں، مجالس، سیمینارز، ریفرنسز اور جلسے منعقد ہوئے، جنرل سلیمانی شدید پابندیوں کے باوجود بھی پاکستان میں سوشل میڈیا پر راج کر رہے تھے۔ عالم اسلام کی کئی بڑی شخصیات کی وفات یا شہادت پر پاکستان میں اتنا شدید ردعمل نہیں دیکھا گیا، جتنا کہ حاج قاسم سلیمانی کی شہادت پر نظر آیا۔ حتیٰ کہ وہ طبقات جو کہ عالمی حالات سے بے خبر رہتے ہیں، ان ذہنوں پر بھی جنرل سلیمانی کی بادشاہی نظر آئی۔ آخر کیا وجوہات تھیں کہ ایک برادر اسلامی ملک کے جرنیل کی شہادت پر پاکستان میں بھی اس قدر شدید غم و غصہ دیکھا گیا۔؟ قاسم سلیمانی کا پاکستانیوں سے آخر کیا رشتہ یا تعلق تھا۔؟ کیوں پاکستانی حریت پسند عوام امریکہ کی اس جارحیت پر اس قدر نالاں دکھائی دیئے۔؟ حقیقت یہ ہے کہ جنرل قاسم سلیمانی کے اقدامات یا خدمات صرف اسلامی جمہوری ایران کیلئے نہیں تھیں، بلکہ وہ جن محاذوں پر دشمن سے مدمقابل تھے، اس کا مقصد دراصل اسلام کے مفادات کا تحفظ تھا، نہ کہ کسی ایک ملک کا۔

انہوں نے داعش جیسی دہشتگرد تنظیم کو شکست دیکر مقدسات اسلامی کا تحفظ کیا، عراق و شام میں اہلبیت (ع) اور صحابہ کرام کے روضہ جات اور مزارات کو دشمن کے شر سے بچایا، جنرل سلیمانی نے مسلم ممالک کو دہشتگردی سے محفوظ کیا۔ اگر داعش کا مقابلہ نہ کیا جاتا تو کوئی بعید نہ تھا کہ یہ ظالم گروہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ بھی پہنچ جاتا۔ جنرل سلیمانی نے مسلمانوں کے قبلہ اول کی آزادی کی تحریک کو مضبوط کیا، مجاہدین کو عیار دشمن کے مقابلہ میں عصر حاضر کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کا شعور دیا، خطے کے مظلوم اہلسنت شہریوں کے دفاع اور اتحاد بین المسلمین کے فروغ میں حقیقی کردار ادا کیا، انہوں نے اسلامی مزاحمتی محاذ کو مضبوط بنانے کیلئے عوامی رضاکار فورسز تشکیل دیں، محاذ جنگ کی اگلی صفوں میں رہ کر دشمن کا مقابلہ کیا۔ شہید قاسم سلیمانی نے مغربی ایشیائی خطے کی از سر نو انجینئرنگ کی، داعش کی نام نہاد خلافت کے غیر اسلامی نظریہ کو شکست دی، اسلامی مزاحمت کی جڑیں مضبوط کیں۔

شہید قاسم سلیمانی کی وجہ سے ہی اسرائیل جارحیت، تسلط پسندی اور قبضے پر مبنی پالیسی چھوڑ کر دفاعی پالیسی اپنانے پر مجبور ہوا، شہید کے مسئلہ فلسطین سے متعلق اسٹریٹجک کردار نے امام خمینی (رہ) کے نظریئے (مذاکرات کی بجائے مسلح جدوجہد) کو عملی جامہ پہنایا، لبنان میں عوامی مزاحمتی قوت حزب اللہ کو مضبوط کرنے میں قاسم سلیمانی کا کردار کسی سے پوشیدہ نہیں۔ یہی وہ وجوہات ہیں کہ جس کی بنا پر ایک عام حریت پسند پاکستانی شہری بھی جنرل سلیمانی کا گرویدہ دکھائی دیتا ہے۔ جنرل سلیمانی نے اپنی زندگی میں جو کیا، وہ صرف اور صرف خدا کی رضا اور اسلام کی تحفظ کی خاطر تھا۔ اگر یوں کہا جائے کہ جنرل قاسم سلیمانی تعلیمات محمد (ص) و آل محمد (ع) کے مطابق ایک مجسم مجاہد اسلام کی جیتی جاگتی تصویر تھے، تو غلط نہ ہوگا۔ اسی بناء پر قاسم سلیمانی سے پاکستانی عوام کا رشتہ ایک روحانی تعلق پر مبنی تھا، جو سرحدوں کا محتاج نہیں ہوتا۔
 
 
 
Thursday, 31 December 2020 11:43

شہدائے بغداد کو سلام

 مدت سے ایک فکر نے ذہن کو جکڑ رکھا کہ فلسفہ شہادت کیا ہے؟ لوگوں کو یہ عالی مرتبہ کیسے مل جاتا ہے؟ وہ کون سے اعمال ہیں جو ان کو اس مقام تک پہنچاتے ہیں؟ جیسے ہر کسی کا جینا ایک سا نہیں ہوتا، اسی طرح ہر کسی کا مرنا بھی ایک سا نہیں ہوسکتا۔ بعض لوگوں کے لیے بستر پر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنا عیب ہے، ان کی آنکھوں کی چمک بتاتی ہے کہ قدرت نے ان کی قسمت میں شہادت لکھ دی ہے۔ یہ موت اختتام زندگی ہے، اللہ کو یہ پسند نہ تھا کہ جو زندگی بھر اس کے راستے کی جدوجہد کرتا رہا اور اس کے نام کی سربلندی کے لیے جان تک دے دے، اسے عام مردوں کی طرح ہی قرار دے دیا جائے۔ آواز قدرت آئی: وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ "اور خبردار راہ خدا میں قتل ہونے والوں کو مردہ خیال نہ کرنا، وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کے یہاں رزق پا رہے ہیں۔"

اللہ اکبر، شہید جان دے کر بھی زندہ ہوتا ہے اور اس رزاق سے رزق پاتا ہے، جس کے علاوہ کوئی رزق دینے والا نہیں ہے۔ انسان  کے حواس کی طاقت نہیں ہے کہ وہ شہید کی زندگی اور اس کے رزق کا ادراک کرسکے۔ کامیابی اور ناکامی کے کچھ پیمانے انسانوں کے تخلیق کردہ ہیں، جو ظاہری زندگی کے اصولوں پر مبنی ہیں، یہ بھی اتنے درست نہیں ہیں کہ انہیں ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کر لیا جائے۔ شہادت کے پیمانے بالکل مختلف ہیں، یہاں الہیٰ قانون کے تحت وہ ابدی کامیابی حاصل ہوتی ہے، جو بے نظیر و بے مثال ہے۔ اسی لیے شہید کو نہ تو غسل دیا جاتا ہے اور نہ ہی کفن دیا جاتا ہے بلکہ اسے اسی حالت میں پرودگار کے دربار میں روانہ کیا جاتا ہے، جس لباس و حالت میں اس نے جان آفرین کے سپرد کی ہوتی ہے۔

بہت سے لوگ اپنے ملک کے مفادات کے لیے جان قربان کرتے ہیں، ان کو خراج تحسین پیش کرنا اور ان کے ایام کو منانا اس ملک و قوم کی ذمہ داری ہوتی ہے، جس کے لیے انہوں قربانی دی ہوتی ہے۔ کچھ شخصیات ملکوں سے ماوراء ہو کر انسانیت کی خدمت کرتی ہیں اور تمام خطرات کے باوجود دوسروں کو بچانے کے لیے میدان عمل میں آجاتے ہیں۔ شہید جنرل قاسم سلیمانی انہی خصوصیات کے حامل تھے، کج فکر لوگوں نے انہیں ایک  فرقہ سے منسوب کرنے کی کوشش کی، تاکہ ان کی شخصیت کو متنازع بنایا جا سکے۔ مظلوم فلسطینی بھائیوں کی مسلسل حمایت امریکہ و اسرائیل کی دشمنی کی بنیاد تھی، یہی وجہ ہے کہ ان کے جنازے میں  شریک فلسطین کے وزیراعظم اسماعیل ہنیہ نے انہیں شہید قدس قرار دیا۔ یہ ان لوگوں کے منہ پر طمانچہ تھا، جو انہیں فرقہ کی آنکھ سے دیکھ رہے تھے، فلسطین کے وزیر کا بیان آگیا کہ کس طرح ایران کی شدید اقتصادی مشکلات کے باوجود انہوں نے فلسطین کی انسانی بنیادوں پر مدد کی تھی۔

عراق کے یوناتھن بیٹکولیا کہتے ہیں کہ جب داعش نے تین سو ایسوری مسیحیوں کو  اغوا کر لیا تو مجھے کوئی اور راستہ نہیں نظر آیا، میں نے جنرل قاسم سلیمانی سے مدد کی درخواست کی۔ انہوں نے ہماری مدد کی، ہمارے دو سو پچھتر لوگ بچا لیے گئے، باقیوں کو داعشیوں نے پہلے ہی قتل کر دیا تھا۔ یقیناً موصل کے چرچ کو صاف کرتے اور ٹوٹی صلیبیں جوڑتے وہ مسیحی بھی جنرل قاسم سلیمانی کے شکرگزار ہوں گے، جس کی کوششوں کی وجہ سے داعش جیسے خونخوار گروہ کو شکست ہوئی۔ داعش دمشق پر قبضہ کرنے ہی والی تھی اور اس سے وابستہ گروہ بار بار  دارالحکومت پر حملہ آور ہو رہے تھے۔ ایسے میں روضہ مبارک حضرت زینب بنت علی ؑ  کو خطرہ درپیش ہوگیا۔ داعش کا سابقہ یہ تھا کہ وہ مزارات کی توہین کرچکی تھی، یہاں تک کہ قبریں اکھاڑ کر میتیں نکال چکی تھی۔ ایسے میں پوری دنیا کے مسلمان بالعموم اور شیعہ بالخصوص مضطرب ہوگئے کہ کہیں جنت البقیع کی طرح دمشق کے مزارات کو بھی گرا نہ دیا  جائے۔

اسی طرح داعش سامرا و کاظمین کے قریب پہنچ چکی تھی، اندر بھی منافقین موجود تھے، کربلا سے بھی ان کی مسافت زیادہ نہیں تھی، مگر جیسے ہی مرجعیت کا فتویٰ آیا، جنرل قاسم سلیمانی و ابو مہدی مہندس نے بہترین پلاننگ کی کہ داعش عراق سے قصہ پارینہ بن گئی اور آج دمشق میں روضہ سیدہ زینبؑ محفوظ ہے۔ دنیا بھر سے زائرین کی آمد کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ کچھ لوگوں نے اس جنگ کو فرقہ واریت کی آنکھ سے دیکھنے کی کوشش کی، جو ظلم ہے۔ داعش نے شیعہ پر تو مظالم کے پہاڑ توڑے ہی تھے، جیسے موصل میں دو ہزار کیڈٹس کو ذبح کر دیا گیا، اہلسنت بھی داعشیوں کے مظالم کا شکار ہوئے، موصل جیسا ہنستا بستا شہر ان بھیڑیوں نے خاک کا ڈھیر بنا دیا۔ جنرل قاسم سلیمانی کی کوششوں سے حاصل ہونے والی یہ کامیابیاں دراصل عراق کے مظلوم انسانوں کی کامیابیاں تھیں۔ داعش کا خاتمہ سنی، شیعہ، مسیحی، ایزدی کے دشمن ہی نہیں، انسانیت کے دشمنوں کا خاتمہ ہے۔

جنرل قاسم سلیمانی نے کرد علاقے اردبیل کو داعش کے ہاتھوں  میں جانے سے بچایا۔ داعش اس سے محض دو گھنٹے دور تھی کہ جنرل قاسم سلیمانی ان کی مدد کو آئے اور داعش کو شکست دی۔ یہ اس بات کی بھی تردید ہے کہ یہ کوئی نسلی جنگ تھی، جنرل قاسم سلیمانی نے رنگ، نسل اور مذہب دیکھے بغیر انسانوں کی مدد کی۔ ایران کے وزیر خارجہ نے چند دن پہلے افغانستان کے طلوع ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں قیام امن کے لیے بون کانفرنس میں جنرل قاسم سلیمانی کا بنیادی کردار تھا، انہوں نے افغانستان میں جمہوریت کی تجویز دی تھی۔ شہدائے بغداد کو سلام ،کیونکہ ان کی کوششوں سے ہی آج داعش کا خطرہ ٹلا، ورنہ پورا خطہ بالعموم اور مسلمان ممالک بالخصوص آج اس فتنے کے اثر میں ہوتے اور ان میں آگ لگی ہوتی۔

تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

ابو مھدی مہندس کی زندگی کا سرسری مطالعہ انسان کو اس جانب متوجہ کرتا ہے کہ کامیاب انسان وہی ہے جو اپنی زندگی کسی بڑے ہدف کے لیے مخصوص کر دے۔ کیا شہادت ہی مطلوب و مقصود مومن ہوتا ہے یا ہدف کچھ اور ہوتا ہے اور اس کا صلہ اور ہدیہ شہادت کی صورت میں ملتا ہے۔ شہید ابو مہدی مہندس کے انٹرویو، ان پر بنائی جانے والے دستاویزی پروگرام اور ان کا رہن سہن اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ شہادت کے لیے بے چین تھے۔ وہ اس ابدی سعادت کی تلاش میں رہتے تھے۔ ہم شہید ابو مھدی کی زندگی پر کچھ لکھنے کی بجائے شہادت کے بارے میں ان کے افکار و نظریات پر مختصر روشنی ڈالتے ہیں۔ شہید ابو مہدی مہندس ایک جگہ شہادت سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں۔

شہادت خداوند عالم کے ہاں سب سے عظیم درجہ ہے، یہی وجہ ہے کہ حق و صداقت اور توحید و قرآن و ایمان لانے والے شہادت کے متمنی رہتے ہیں۔ قرآن پاک کی سورہ آل عمران کی آیت 169 سے 171 میں ارشاد ہوتا ہے "جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوگئے، انہیں مردہ مت کہو بلکہ وہ زندہ ہیں اور خدا کے ہاں رزق پاتے ہیں۔ وہ خدا کی طرف سے ملنے والے فضل و کرم سے خوش ہیں اور جو ابھی تک ان سے ملحق نہیں ہوسکے ہیں، ان کے بارے میں یہ خوش خبری رکھتے ہیں کہ ان کے واسطے بھی نہ کوئی خوف ہے اور نہ حزن۔ وہ اپنے پروردگار کی نعمت، اس کے فضل اور اس کے وعدے سے خوش ہیں کہ وہ صاحبان ایمان کے اجر کو ضائع نہِیں کرتا۔"

معروف ایرانی مجتھد آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی ان آیات کی تفسیر کے ذیل میں لکھتے ہیں کہ اس آیت میں موت و حیات کے مفہوم اس برزخی موت و حیات سے ہیں جو ہر مرنے والے کو درپیش رہے گا۔ برزخی زندگی میں جسمانی و مادی زندگی ہوگی اور اس میں شہداء کو استثناء حاصل نہیں ہے اور بہت سے دوسرے انسان بھی برزخی زندگی گزاریں گے، لیکن شہداء کی اس زندگی میں بے شمار نعمتیں ہوں گی، ان معنوی و روحانی نعمات کا ادرارک ممکن نہیں۔ قرآن شہداء کی ان نعمات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ شہداء خدا کے ہاں سے رزق پاتے ہیں۔ شہید کے بڑے عمیق اور گہرے معانی ہیں۔ شہید لفظ کا مطلب حاضر، ناظر، گواہ، گواہی دینے والا اور سچی اور صداقت پر مبنی خبر دینے والا بھی ہے۔ کہیں کہیں شہید کا مطلب آئیڈیل اور مثالی نمونے کے طور پر بھی آیا ہے۔ شہید اپنی قربانی اور فداکاری کی وجہ سے زندہ و جاوید ہو جاتا ہے۔

زندہ قومیں اپنے شہداء اور ان لوگوں کو جنہوں نے حریت و آزادی کے لیے ایثار و قربانی کا مظاہرہ کیا ہے، ہمیشہ یاد رکھتی ہے۔ اسلام کی نگاہ میں ہر مرنے والا شہید نہِیں ہوتا بلکہ اس کو شہید کا مرتبہ عطا ہوتا ہے، جو کسی مقدس اور پاکیزہ ہدف کو حاصل کرنے کے لیے اپنی جان کی قربانی پیش کرتا ہے۔ مفکر اسلام شہید مطہری فرماتے ہیں کہ شہید تین خصوصیات کا حامل ہوتا ہے۔ نمبر ایک، وہ ایک مقدس اور پاکیزہ ہدف کے لیے جان قربان کرتا ہے۔ نمبر دو، وہ شہادت کے ذریعے زندہ و جاوید ہو جاتا ہے۔ نمبر تین، وہ اپنے ماحول کو پاک و پاکیزہ کرتا ہے۔ ایک متقی مومن جب شہادت کے مرتبے پر فائز ہوتا ہے تو وہ لوگوں کے دلوں کو خدا کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ شہید کی شہادت کی روشنی سے دل منور ہوتے ہیں اور یہ روشنی اردگرد کے ماحول کو پاکیزہ اور مقدس بنا دیتی ہے۔ شہید مردہ دلوں کو زندہ کرتا ہے اور انہیں خدا کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ وہ برزخیوں کے لیے بھی آرام و ریحاں کا باعث بنتا ہے۔

شہید عزیز دشت بزرگ اپنے وصیت نامے میں لکھتے ہیں کہ کیا وہ وقت نہیں آن پہنچا ہے کہ انسان ماضی کے واقعات اور گذشتہ دور کے افراد کی زندگیوں کا ماحصل دیکھ کر عبرت حاصل کرے اور کیا یہ عبرت انسان کو خدا پر ایمان لانے کی دعوت نہیں دیتی۔ کیا خداوند عالم نے قرآن پاک میں نہیں فرمایا ہے کہ قرآن کو نصحیت حاصل کرنے کے لیے آسان بنا دیا گیا ہے اور کیا تم نصحیت قبول کرنے والے نہِیں ہو۔ قرآن کے احکامات کی روشنی میں سابقہ امتوں کی تاریخ کا مطالعہ ضروری ہے، تاکہ انسان اس سے عبرت حاصل کرسکے۔ وہ خامیاں اور ناکامیاں جو سابقہ امتوں کے حصہ میں آئیں، ان سے محفوظ رہنے کے لیے بھی تاریخ کا مطالعہ ضروری ہے۔ ابدی سعادت اور ہمیشہ رہنے والی خوش قسمتی کے حصول کے لیے حق و صداقت کی راہ پر چلنا اشد ضروری ہے۔ دنیا کا یہ تمام مال و اسباب یہیں رہ جائے گا۔ انسان اچھے اعمال لے کر اس دنیا سے جائے گا۔ انسان کا بدن فانی ہے، اس فانی شے کو راہ خدا میں قربان کر دینا چاہیئے۔ اگر عدل و انصاف اور حقیقت کے حصول کے لیے جان قربان ہو جائے تو اس کا صلہ نہایت خوبصورت اور قیمتی ہے۔

شہید قلب تاریخ ہے، جس طرح خون خشک اور مردہ رگوں کو زندگی اور حیات بخشتا ہے، شہید بھی تاریخ کی رگوں میں خون بن کر دوڑتا ہے۔ شہید کے خون کا سب سے بڑا معجزہ یہ ہے کہ وہ تاریخ کی خشک رگوں میں ایمان و معرفت کی موج پیدا کرتا ہے۔ اسلامی روایات میں شہید کے بارے مِیں متعدد اور منفرد روایات موجود ہیں، جس سے شہید کی عظمت اور بزرگی کا احساس ہوتا ہے۔ رسول اکرم سے حدیث ہے "ہر نیکی سے بڑھ کر ایک دوسری نیکی موجود ہے لیکن جو راہ خدا میں شہادت پا لیتا ہے، اس سے بڑھ کر کسی نیکی کا تصور بھی نہیں ہے۔" ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ مجاہدین راہ خدا بہشت والوں کے لیے رہبر و رہنماء ہیں۔ اگر ہم تاریخ اسلام کے اوراق کی ورق گردانی کریں تو پتہ چلتا ہے کہ اسلام کے عظیم کارنامے انجام دینے والے شہداء ہیں اور خدا اور خلق خدا کے عظیم قربانیاں دینے والے شہداء ہیں۔

شہید ابو مہدی مہندس کا شمار عالمی اسلامی تحریکوں کے ان نمایاں ان تھک مجاہدوں میں ہوتا ہے، جن کی زندگی جدوجہد اور کوشش و محنت سے آراستہ ہے۔ عراق کے شہر بصرہ کے قدیمی علاقے میں آنکھ کھولنے والے اس مرد مجاہد نے زندگی کے بہت سے نشیب و فراز کو اپنی ہمت، کوشش، بصیرت اور خلوص سے عبور کیا۔ شہید ابو مہدی مہندس کا اصل نام بقول ان کے جمال جعفر محمد علی آل ابراہیم تھا۔ بصرہ کالج سے سول انجیئرنگ میں ڈگری حاصل کی اور اسٹیل ملز کے کارخانے میں ملازمت کرکے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا، لیکن یہاں تک پہنچنے سے پہلے وہ اپنے علاقے اور تعلیمی ادارے میں ایک متحرک، مخلص، دیندار اور منصوبہ ساز نوجوان کی حیثیت سے معروف ہوچکے تھے۔ شہید ابو مہدی مہندس نے آمریت کے خلاف جدوجہد کا آغاز ثقافتی میدان سے کیا، لیکن شہید کی زندگی میں عسکریت، سیاست اور تربیتی شعبوں میں کام کرنے کے کئی مرحلے بھی آئے۔ شہید نے ہر شعبہ میں انتہائی خلوص سے اپنی ذمہ داری ادا کی۔

عراقی عوامی مزاحمتی فورس البدر کے سیکرٹری جنرل اور سینیٹ میں الفتح اتحاد کے سربراہ ہادی العامری نے اسلامی مزاحمتی محاذ کے شہید کمانڈروں جنرل قاسم سلیمانی و ابو مہدی المہندس کی پہلی برسی کے حوالے سے صوبہ صلاح الدین میں منعقد ہونے والی ایک کانفرنس سے خطاب میں تاکید کی ہے کہ ایرانی سپاہ قدس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی نے داعش کے قبضے سے عراقی آزادی پر خود کو قربان کر دیا ہے۔ عراقی ای مجلے المعلومہ کے مطابق البدر کے سیکرٹری جنرل نے صوبہ صلاح الدین میں منعقد ہونے والی ایک کانفرنس سے خطاب میں کہا ہے کہ شہید جنرل قاسم سلیمانی نے عراق کی آزادی کے لئے بہت زیادہ کاوشیں کی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ شہید قاسم سلیمانی ہم سے بھی بڑھ کر عراق کے لئے فکرمند تھے اور یہی وجہ تھی کہ وہ ہمیں بھی عراق کی آزادی کے لئے دعوت دیا کرتے تھے۔ ہادی العامری نے کہا کہ وہ عراقی آزادی کے ہم سے بڑھ کر خواہشمند تھے، لہذا انہوں نے عراق کے لئے خود کو خطرے میں ڈال دیا، ہمیشہ ہراول دستے میں موجود رہے اور عراقی آزادی کے رستے میں ہی شہادت پر بھی فائز ہوئے۔ انہوں نے اپنے خطاب کے آخر میں کہا کہ اگر دشمن ہمیں شہادت سے ڈرانا چاہتا ہے تو سن لے کہ ہم شہادت کے رستے سے ہی دشمن پر فتحیاب ہوتے ہیں!

(نمل16) اور پھر سلیمان داؤد کے وارث ہوئے اور انہوں نے کہا کہ لوگو مجھے پرندوں کی باتوں کا علم دیا گیا ہے اور ہر فضیلت کا ایک حصہ عطا کیا گیا ہے اور یہ خدا کا کھلا ہوا فضل و کرم ہے 

حضرت فاطمہ زہراعلیہا السلام صنف نسواں میں اسلام کی تنہا صاحب عصمت خاتون ہیں کہ جس کی عصمت قرآن اور حدیث کی روشنی میں ثابت ہے اور ان کی پُر افتخار زندگی اس بات پر دوسری دلیل ہے۔
حضرت زہرا علیہا السلام کے دنیا میں آنے کا اہتمام جنت کی پاک غذا سے ہوا۔ رحم مادر ہی میں ماں کے لئے ایک بہترین ساتھی اور مونس شمار ہوتی تھی۔ اور دوران ولادت جن باعظمت مخدرات عصمت کو غیب سے بھیجا گیا تھا، ان سے گفتگو کی اور آپ کی محدود  حیات طیبہ میں عقل کو حیران کر دینے والی سینکڑوں کرامات ظاہر   ہوئیں  یہ تمام باتیں اس باعظمت خاتون کی عصمت کی حکایت کرتی  ہیں۔

جی ہاں ! حضرت فاطمہ علیہا السلام عالم اسلام کی خواتین کے لیے اسوہ اور نمونہ کے طور پر پہچانی جاتی  ہیں  دوسری عورتوں کےلیے ضروری ہے کہ ان کی پاک سیرت کو اپنے لئے نمونہ عمل قرار دیں۔ تربیت،  اخلاق اور خود سازی کے عملی میدان میں ان کی پیروی کریں۔ عبادت کے طریقے اور روش، شوہرداری، بچوں کی پرورش اور لوگوں کے حقوق کے بارے میں ان کو آئیڈیل بنایا جائیں۔ان تمام  کرداروں  کو نبھانا چاہیے جن کو  انہوں نےنبھایا ہے  اور اس طرح برتاؤ  کرنا چاہئے جس طرح انہوں نے کیا ہے۔
راقم اس بات پر عقیدہ رکھتاہے کہ گھر اور مشترک گھریلو زندگی کسی کا اخلاق، رفتار، ایمان تقوی اور عدالت وغیرہ پرکھنے کی بہترین جگہ  شمار ہوتی ہیں حضرت زہرا علیہا السلام  اپنے باپ کے ساتھ اور باپ کے گھر میں بہترین امتحان دےچکی ہیں۔اور اس طرح ’’فداھا ابوھا‘‘ اور ’’امُّ ابیھا‘‘ جیسے دسیوں القابات پیغمبر اسلام صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کی  زبان مبارک سے حاصل کر کئے  اور شوہر کے گھر میں اس طرح پیش آئیں کہ امیر المؤمنین علیہ السلام  فرماتے ہیں ’’فاطمہ علیہا السلام نے  اپنی پوری زندگی میں کوئی  ایسا چھوٹا کام بھی انجام نہیں دیا جس سے میں ناراض ہو جاؤں  اور کبھی میری نافرمانی نہیں کی بلکہ اپنے  اخلاق  اور  نیک سلوک سے میرے غم اور پریشانیوں کو دور کیا۔

عصمت حضرت فاطمہ علیہا السلام  پر قرآن پاک کی گواہی
  خداوند عالم سورہ احزاب میں فرماتا ہے کہ: إِنَّما يُريدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهيراً (1)
بیشک خداوند عالم چاہتا ہے کہ تمام پلیدی اور گناہ کو آپ اہل بیت سے دور رکھے اور مکمل طور پر پاک و منزہ قرار دے جو پاک رکھنے کا حق ہے۔
یہ آیہ شریفہ شہادت دیتی ہے کہ اہل بیت علیہم السلام، پاک اور معصوم ہیں اور کوئی گناہ نہیں کرتے ہیں ’’الرجس‘‘ جو آیت میں آیا ہے، تمام گناہان صغیرہ اور کبیرہ کو شامل کرتا  ہے جس سے اہل بیت دور ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس آیہ شریفہ میں اہل بیت سے مراد کون ہیں؟
اہل سنت کی معتبر روایات اور پیغمبر اسلام صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کی  ازواج کے اظہارات اور اعترافات اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ اہل بیت سے مراد پنجتن آل عبا ہیں ان ہستیوں میں سے ایک حضرت زہرا علیہا السلام کی ذات مبارک ہے۔ پس اسی بناء پر فاطمہ زہرا علیہا السلام  قرآن مجید کی  گواہی کے مطابق صاحب عصمت ہیں۔

حضرت فاطمہ علیہا السلام  کی عصمت پر امیر المؤمنینؑ کا استدلال
جب پیغمبر اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کی رحلت کے بعد خلیفۂ اول نے فدک کو غصب کیا تو حضرت فاطمہ علیہا السلام نے اس کے ساتھ احتجاج  اور مناظرہ کیا ۔ امیر المؤمنین علیہ السلامبھی حضرت زہرا علیہا السلام کے خطبہ اور احتجاج کے بعد مسجد گئے اور  جناب ابو بکر سے سوال کیا:
حضرت علی علیہ السلام : اے ابوبکر بتاؤ ، پتہ تو چلے کیا  تم نے قرآن پڑھا ہے؟
جناب ابو بکر: جی ہا ں قرآن کو  پڑھا ہے۔
حضرت علی علیہ السلام: آیہ تطہیر’’ إِنَّما يُريدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهيراً (2) پڑھواور بتاؤ کہ یہ آیت ہمارے حق میں نازل ہوئی ہے یا دوسروں کے؟
جناب ابوبکر: یہ آیت آپ کے حق میں نازل ہوئی ہے۔
حضرت علی علیہ السلام  : اگر کوئی حضرت فاطمہ علیہا السلام کے خلاف گواہی دے کہ انہوں نے خلاف شریعت کوئی عمل انجام دیا ہے تو تم اس وقت کیا کروگے؟ اس شخص کی گواہی کو قبول کروگے یا نہیں؟
 جناب ابو بکر: جی ہاں، میں اس آدمی کی گواہی کو قبول کروں گا اور  حضرت فاطمہ علیہا السلام پر دوسرے لوگوں کی طرح حد جاری کروں گا۔ 
حضرت علی علیہ السلام : اس صورت میں تم خدا کے ہاں کافر قرار پاوگے۔
 حناب ابوبکر: کیوں؟
حضرت علی علیہ السلام : کیونکہ اس فرض کی بناء پر تم نے خدا کی گواہی کو  جوخدا نے حضرت فاطمہ علیہا السلام کی طہارت پر دی ہے،  رد کیا ہے اور لوگوں کی گواہی کو مقدم کیا ہے۔اسی طرح تم نے خدا اور رسول کی گوہی کو اس مورد میں نظر انداز کیا ہے اور فدک کو فاطمہ زہرا علیہا السلام سے چھین لیا ہے۔
اے ابو بکر! کیا فدک فاطمہ زہرا علیہا السلام کے ہاتھ میں نہیں تھا ؟  جو چیز ان کی ملکیت میں ہے تم کیوں اور کیسے خود ان سے اس کے متعلق  شاہد اور گواہ مانگتے ہو؟چونکہ لوگ امیرالمؤمنین علیہ السلام اور ابو بکر کی گفتگو سن رہے تھے، ایک دوسرے کو دیکھنے لگے اور کہا:  ’’صَدَّقَ وَاللّہ عَلِی ابن اَبِی طَالِب‘‘ خدا کی قسم، علی ابن ابی طالب علیہ السلام  نے سچ کہا ہے(3)
قابل توجہ بات یہ ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے آیہ تطہیر سے عصمت فاطمہ زہرا علیہا السلام پر استدلال کیا اور مہاجرین اور انصار نے بھی اسے قبول کیا اور اس کی تائید کی۔

حضرت فاطمہ علیہا السلام  کی عصمت فریقین کی روایت میں
امام باقر علیہ السلام نے اس آیہ مجیدہ ’’ إِنَّما يُريدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهيراً (4)
کے بارے میں فرمایا: یہ آیت رسول اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم، علی ابن ابی طالب، فاطمہ زہراعلیہا السلام ، امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ یہ واقعہ رسول اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کی زوجہ امّ سلمہ کے گھر میں ہوا کہ ایک دن رسول اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم  نے علی ابن ابی طالب علیہ السلام ، ، فاطمہ زہراعلیہا السلام ، امام حسن علیہ السلام  اور امام حسین علیہ السلام کو بلایا پھر خیبر سے لائی ہوئی چادر کو ان کے اوپر ڈال دیا اور خود بھی اس کے اندر داخل ہوئے اور فرمایا: اللهم هولاء اهل بيتى و عدتنى فيهم ما وعدتنى، اللهم اذہب عنهم الرجس و طهرہم تطهيرا، فقالت و أنا معهم يا رسول‏اللہ قال: أبشرى يا ام‏سلمہ فانك الى خير (5)
اے اللّہ یہ میرے اہل بیت ہیں جن کے بارے میں تو نے مجھے وعدہ دیا ہے۔ اے اللّہ ان سے ہر قسم کی رجس و پلیدی کو دور فرما اور انہیں پاک اور منزہ قرار دے، اس موقع پر حضرت امّ سلمہ نے کہا: اے رسول خدا میں بھی ان کے ساتھ ہوں؟
 آپ صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا:  اے امّ سلمہ تمہارے لئے بشارت ہو  تم خیر پر ہو۔
( لیکن تم اہل بیت  علیہم السلام میں سے نہیں ہو)

حضرت فاطمہ علیہا السلام  کا گذشتہ انبیاءؑ سے افضل ہونا  
اس بات میں کوئی شک نہیں ہےکہ رسول خدا صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم تمام مخلوقات میں سب سے افضل ہیں اگر ان کا نور نہ ہوتا اور ان کی ہستی نہ ہوتی تو بدون شک خدا کسی بھی مخلوق کو خلق نہ کرتا۔(6)
دوسری طرف سے اہل سنت  اور  اہل تشیع  کی احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پنجتن پاک  کا نور ایک تھا  اور خدا کے ہاں ایک نور شمار ہوتا ہے (7)
اگرچہ پیغمبر اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کی برتری دوسروں پر مسلّم ہے۔
ایک حدیث میں نبی اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم فرماتےہیں : دنیا کی  ابتداء اور انتہاء کے تمام انسانوں میں ، میں سب سے افضل ہوں اور میرے بعد علی علیہ السلام مخلوقات میں سب سے افضل ہیں ہم میں جو پہلے والے ہیں وہ آخر والے کی  طرح ہیں اور جو آخر والے ہیں وہ پہلے والے کی طرح ہیں (8)
اور تیسری طرف سے رسول خدا صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کی روایت میں  ہم پڑھتے ہیں کہ آپ صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا: میرے اور علی کے بعد زمین پر سب سےافضل حسن اور حسین ہیں اور ان کی مادر گرامی فاطمہ پوری دنیا کی عورتوں میں سب سے افضل ہیں۔(9)    
ہم اہل بیت اطہار کی روایتوں میں پڑھتے ہیں کہ خداوند متعال نے انبیاء کو ایک دوسرے پر فضیلت دی ہے اور ان کو بھی کمال اور فضیلت کے لحاظ سے برابر خلق نہیں کیا ہے بلکہ ان میں سے کچھ اولوالعزم مشہور ہیں اور وہ باقی تمام انبیاء سے افضل ہیں لیکن اہل بیت اطہار کو خداوند عالمین نے اولوالعزم پیغمبروں سےبھی برتر و افضل قرار دیا ہے۔(10)    
امام صادق علیہ السلام کی ایک روایت میں آیا ہے کہ گذشتہ تمام انبیاء فقط اس لئے بھیجے گئے تھے تاکہ ہمارے حقوق کو پہچانیں اوردوسرے تمام مخلوقات عالم سے ہمیں افضل اور برتر جانیں۔(11)
اگر مذکورہ روایتوں کو مد نظر رکھے بغیر بھی غور و فکر کریں، تو ہم اس نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں کہ تمام انبیاء الہی معصوم تھے۔ اور علی علیہ السلام ، فاطمہعلیہا السلام ، حسن علیہ السلام اور حسین علیہ السلام ، رسول اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّمکے علاوہ تمام انبیاء سے افضل تھے۔ پس اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ پنجتن پاک تمام فضائل و کمالاتِ انبیاء مِن جُملہ درجۂ عصمت میں ان پر  فضیلت رکھتے ہیں۔

دوسری طرف اہل سنت کی روایتوں کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر علی ابن ابی طالب علیہ السلام نہ ہوتے تو فاطمہ زہرا علیہا السلام کے لئےاس جہاں میں کوئی ہم رتبہ اور کفو نہ ملتا۔
بڑے بڑے علماء، دانشور اور محققین نے ’’حدیث کفو‘‘ سے استفادہ کیا ہے  کہ حضرت علی علیہ السلام اور حضرت فاطمہعلیہا السلام رسول اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کے علاوہ تمام انسانوں سے افضل ہیں۔پس اس صورت میں بھی فاطمہعلیہا السلام  کی عصمت ثابت ہوتی ہے کیونکہ اس حدیث سے تمسک کرنے کی صورت میں فاطمہ زہرا علیہا السلام ، حضرت علی علیہ السلام کے ہم رتبہ اور مساوی ہیں! پس کسی عاقل شخص کے لئے یہ کیسے ممکن ہے کہ دو برابر اور مساوی چیزوں کے ایک دوسرے پر مقدم اور برتری کے قائل ہو جائے۔
    
فاطمہ زہراعلیہا السلام  کی عصمت پر ملائکہ کی گواہی
بہت ساری روایتوں سے معلوم ہوتاہے کہ جبرئیل امین اور دوسرے تمام فرشتے حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام پر نازل ہوتے تھے اور ان سے گفتگو کرتے تھے۔ اور اس گفتگو کے درمیان میں اس خاتون عصمت کے فضائل اور مناقب میں کچھ ایسے مطالب کہتے تھے جس سے ان کی عصمت ثابت ہو جاتی ہے۔ ہم ان میں سے صرف دو مورد کی طرف اشارہ کرتے ہیں رسول اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : قال رسول‏ اللَّه صلى اللَّه عليه و آله: «... ابنتى فاطمه، و انها لسيده نسا العالمين فقيل: يا رسول‏اللَّه! اهى سيده نسا عالمها؟ فقال: ذاك لمريم بنت عمران، فاما ابنتى فاطمه فهى سيده نسا العالمين من الاولين و الاخرين و انها لتقوم فى محرايها فيسلم عليها سبعون الف ملك من الملائكه المقربين و ينادونها بمانادت به الملائكه مريم فيقولون يا فاطمه! ان اللَّه اصطفيك و طهرك و اصطفيك على نسا العالمين(12)
میری بیٹی فاطمہ علیہا السلام  دونوں جہاں کے عورتوں کی سردار ہیں۔
 پوچھا گیا: اے رسول خدا صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم اپنے زمانے کی عورتوں کی سردار ہیں ؟
فرمایا:یہ خصوصیت مریم بنت عمران کی ہے لیکن میری بیٹی فاطمہ علیہا السلام  دونوں جہاں کی اولین اور آخرین ، تمام عورتوں کی سردار ہیں اور وہ جب محراب عبادت میں کھڑی ہوتی ہیں تو ستّر ہزار مقرب فرشتے ان پر درود و سلام بھیجتے ہیں اور ان سے گفتگو کرتے تھے جس طرح حضرت مریم علیہا السلام سے گفتگو کرتے تھےاللّہ تعالی نے تمہیں منتخب کیا ہے اور پاک و منزہ قرار دیا ہے اور تمہیں دونوں جہاں کی تمام خواتین پر فضیلت اور برتری عطا کی ہے۔
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: انما سميت فاطمه محدثه لان الملائكه كانت تهبط من السما فتناديها كما تنادى مريم بنت عمران فتقول: يا فاطمه! ان اللَّه اصطفيك و طهرك و اصطفيك على نسا العالمين. فتحدثهم و يحدثونها فقالت ذات ليله: اليست المفضله على نسا العالمين مريم بنت عمران؟ فقالوا: ان مريم كانت سيده نسا عالمها و ان اللَّه عزوجل جعلك سيده نسا، عالمك و عالمها و سيده نسا الاولين و الاخرين(13)
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ فاطمہ علیہا السلام  کو ’’محدثہ‘‘ کہا جاتاہے کیونکہ ان کے پاس آسمان سے ملائکہ نازل ہوتے تھے اور ان سے گفتگو کرتے تھے جس طرح حضرت مریم علیہا السلام  سے گفتگو کرتے تھے اور ملائکہ حضرت فاطمہ علیہا السلام سے مخاطب ہو کر کہتے تھے کہ اے فاطمہ علیہا السلام ! بیشک اللّہ تعالی نے تمہیں منتخب کیا ہے اور پاک و صاف قرار دیا ہے اور تمہیں دونوں جہانوں کی عورتوں سے افضل قرار دیا ہے۔ حضرت فاطمہعلیہا السلام  بھی ان سے گفتگو کرتی تھی اور ان کی گفتگو سنتی تھی۔ ایک دن حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام نے ملائکہ سے کہا: کیا مریم بنت عمران تمام جہاں کی عورتوں سے افضل نہیں ہے؟
ملائکہ نے جواب دیا: حضرت مریم اعلیہا السلام اپنے زمانے کی عورتوں کی سردار تھی، لیکن آپ   اول و آخر تمام عورتوں کی سردار ہیں یہاں تک کہ خود حضرت مریم علیہا السلام کے زمانے کی عورتوں کی بھی سردار ہیں۔
ان احادیث کو  بطور نمونہ منتخب کیا گیا ہے جن میں فاطمہ زہرا علیہا السلام کو جہاں عالَم کی تمام عورتوں کی سردار، خداوند عالَم کی منتخب اور ملائکہ و جبرئیل امین کی ہمنشین و ہم صحبت ہونا بیان کیا گیا ہے۔ اس طرح کی احادیث کو دیکھنے کے بعد کیا کسی کے لئے ممکن ہے کہ وہ  عصمت زہرا علیہا السلام کے بارے میں  تردید کرئے؟
 
حضرت فاطمہ زہراعلیہا السلام  کی عصمت پر اشکال اور اس کا جواب
بعض لوگ  کہتے ہیں کہ آیہ تطہیر عصمت پر دلالت نہیں کرتی ہے کیونکہ اس آیت سے پہلے والی آیات اور بعد والی آیات، رسول اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کی زوجات کے بارے میں نازل ہوئی ہیں اور ان سے مخاطب ہیں۔ پس سیاق و سباق کی دلالت کی بناء پر، کہا جا سکتا ہے کہ آیہ مذکورہ بھی رسول اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کی زوجات کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور وہ مخاطب ہیں اس بناء پر اگر یہ آیت عصمت پر دلالت کرتی ہے تو اس بات کا قائل ہونا پڑے گا کہ ازواج رسول بھی معصوم تھیں حالانکہ  نہ کسی نے ان کو معصوم سمجھا ہے اور نہ ایسا کہا جا سکتا ہے پس نتیجتا ہم اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ یہ آیت سرے سے ہی عصمت پر دلالت نہیں کرتی ہے نہ روجات رسول صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم  کے  بارے میں اور نہ ہی اہل بیت کی عصمت پر۔
جواب: سید عبد الحسین شرف الدین نے اس مذکورہ اشکال کو نقل کیا ہے اور چند طریقوں سے اس اشکال کا جواب دیا ہے
اول: احتمال مذکورہ نص  کے مقابلے میں اجتہاد  ہے کیونکہ ساری روایتوں میں جن کی تعداد تواتر کی حد تک ہے ،  آیا ہے کہ آیہ تطہیر صرف، علی ابن ابی طالب علیہ السلام ، فاطمہ زہرا علیہا السلام ، امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے اور انہی ہستیوں سے مختص ہے یہاں تک کہ امّ سلمہ اس چادر میں داخل ہونا چاہی تو رسول اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم  نے سختی سے منع فرمایا۔
دوم: دوسری دلیل یہ ہے کہ اگر آیہ تطہیر رسول اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کی زوجات کے بارے میں نازل ہوئی ہوتی تو ضروری تھا کہ ضمیر جمع مونث کی صورت میں ہوتی اور آیت یوں ہوتی:  إِنَّما يُريدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهيراً ‘‘ نہ جمع مذکر کی صورت میں۔پس یہ آیت اہل بیت کی شان میں نازل ہوئی ہے۔
سوم: تیسری دلیل یہ ہے کہ فصیح عربی بولنے والوں کے ہاں یہ رواج ہے کہ اپنی گفتگو کے درمیان جملۂ معترضہ لاتے ہیں اس بناء پر کوئی مانع نہیں ہے کہ اللّہ تعالی   آیت تطہیر کو ان آیتوں کے درمیان قرار دےجو زوجات رسول صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کے بارے میں نازل ہوئی ہیں تاکہ اس کی اہمیت کو واضح کرے۔ اور اس نکتہ کی طرف بھی اشارہ ہے کہ اہل بیت پیغمبر صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم معصوم ہیں لہذا کئی اس سے تعرض نہیں کرسکتا، چاہے وہ زوجات پیغمبر صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم ہی کیوں نہ ہو۔
چہارم: چوتھی دلیل یہ ہے کہ بیشک قرآن مجید میں کوئی تحریف نہیں ہوئی ہے اور اس آسمانی کتاب کی آیتوں میں بھی کوئی کمی و بیشی نہیں ہوئی ہے لیکن یہ بات مسلّم نہیں ہے کہ قرآن مجید کی آیات اور سورے جس ترتیب سے نازل ہوئیں ہیں اسی طرح جمع اور تدوین ہوئیں ہوں، پس یہ احتمال بعید نہیں ہے کہ آیت تطہیر صرف اہل بیت کی شان میں الگ نازل ہوئی ہو لیکن تدوین اور قرآن مجید کی جمع آوری کےموقع پر اس آیت کو زوجات پیغیبر صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کے بارے میں نازل ہونے والی آیتوں کے ساتھ ملایا ہو۔(15)
دلیل دوم: رسول اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت فاطمہ علیہا السلام  سے فرمایا: اے میری بیٹی! تیری ناراضگی خدا کی ناراضگی اور تیری خوشنودی خدا کی  خوشنودی ہے۔(16)
اس حدیث کو فریقین قبول کرتے ہیں اور اپنی اپنی کتابوںمیں ذکر کیا ہے۔ اس حدیث کے مطابق جس جس پر حضرت فاطمہ علیہا السلام  ناراض ہوگی خدا بھی اس سے ناراض ہو گا۔ اور جس جس  پر فاطمہ علیہا السلام راضی ہو گی خدا بھی خوشنود اور راضی ہوگا۔ اور یہ بات بھی مسلّم ہے کہ رضایت اور غضبِ خدا سچ اور حق ہونے کی بناء پر ہے خداوند عالم ہرگز کسی غلط اور خلاف حق پر خوش اور راضی نہیں ہوتا   اگرچہ دوسرے لوگ اس کام سے راضی ہو جائیں اور اسی طرح کسی اچھے کام اور حق پر ہرگز ناراض نہیں ہوتا  اگر چہ وہ کام دوسروں کےہاں باعث غضب ہو۔ان دو مطالب کا لازمہ یہ ہے کہ فاطمہ زہراعلیہا السلام  ہر قسم کے گناہ اور خطا سے معصوم ہیں کیونکہ معصوم کی رضایت اور غضب شریعت کے عین مطابق ہوتے ہیں اور کسی بھی وقت رضائے خدا  کے خلاف راضی نہیں ہوتا ہے ایسی صورت میں ہی کہا جا سکتا ہے کہ اگر فاطمہ علیہا السلام  ناراض ہو جائے تو خدا ناراض ہوگا اور اگر فاطمہ علیہا السلام راضی اور خوش ہو تو خدا خوشنود ہو گا۔ لیکن اگر ان سے گناہ اور خطا سرزد ہونے کا امکان ہوتا  تو ہرگز بطور کلی ایسا نہیں کہا جا سکتا تھا کہ فاطمہ کی ناراضگی خدا کی  ناراضگی اور فاطمہ علیہا السلامکی خوشی خدا کی خوشی ہوگی۔ اس مطلب کو ہم مثال کے ذریعے واضح کرتے ہیں:
اگر ہم فرض کریں کہ فاطمہ علیہا السلام معصوم نہیں ہیں اور ان سے گناہ و خطا  کا امکان ہے اس صورت میں امکان ہے وہ  خطا  یا غریزہ نفسانی کی وجہ سے خلاف حق کسی سے کوئی مطالبہ کرےا ور اس طرح ان کے درمیان نزاع ہو جائے اور طرف مقابل قبول بھی نہ کرے  بلکہ اُنہیں غلطی پر قرار دے۔اس بناء پر حضرت فاطمہ علیہا السلام ناراض ہو جائے اور اپنی عدم رضایت کا اظہار بھی کر لے، کیا ایسی صورت میں  کہا جا سکتا ہے کیونکہ فاطمہ علیہا السلام ناراض ہوئی ہیں پس خدا بھی ناراض ہوا ہے اگر چہ حق طرف مقابل کا ہی کیوں نہ ہوہرگز  ایسی نسبت خداکی طرف نہیں دی جاسکتی۔ بس اس حدیث سےبھی حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام کی عصمت ثابت کی جا سکتی ہے
رسول اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کہ فاطمہ علیہا السلام میرے جسم کا ٹکڑا ہیں جس نے اسے ناراض کیا اس نے  مجھے ناراض کیا۔(17)
یہ حدیث بھی اہل تشیع اور اہل تسنّن دونوں نے نقل کی ہے اور تمام مسلمان حتی عمر اور ابوبکر بھی اس حدیث کی صحت کے قائل ہیں مذکورہ حدیث کی طرح اس حدیث سے بھی حضرت فاطمہ زہراعلیہا السلام کی عصمت پر دلالت ملتی ہےکیونکہ رسول اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم گناہ  اور  خطا  سے معصوم ہیں لہذا  یسے کام پر ناراض ہوتے ہیں جس سے خدا ناراض ہوتا ہے اور اسی طرح ایسے کام سے راضی ہوتے ہیں جس سے خدا راضی ہوتاہے۔ پس اس صورت میں یہ کہا جاسکتاہے کہ فاطمہ زہرا علیہا السلام کی  ناراضگی رسول اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کی ناراضگی ہے اور رسول کی ناراضگی خدا کی ناراضگی ہے  یہ اسی صورت میں درست ہو سکتا ہے جب فاطمہ علیہا السلام عصمت کی منزلت پر ہو۔اور احتمال گناہ و خطا ممکن نہ ہو۔ حضرت فاطمہ علیہا السلام کی عصمت پر دلالت کرنے  والی احادیث میں سے ایک یہ بھی ہے کہ امام جعفر صادق نے فرمایا: فاطمہ علیہا السلام کو اس لئے فاطمہ نام رکھا گیا ہے کہ کوئی بدی اور شر ان کے وجود مبارک میں امکان پذیر نہیں ہے۔

حضرت زہرا علیہا السلام کی عصمت پر رسول اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کی گواہی
 رسول اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کی بہت ساری احادیث جسے اہل سنت اور شیعہ دونوں نے نقل کیا ہے۔ نبی اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم نے  فاطمہ علیہا السلامکو اپنا ٹکڑا کہا اور فرمایا: جو فاطمہ علیہا السلام کو دوست رکھتا ہے اس نے مجھے دوست رکھا  اس کا دشمن، میرا  اور خدا کا دشمن ہے۔   
ایک اور حدیث میں فرمایا: فاطمہ علیہا السلام میرا ٹکڑا ہے، جو اسے تکلیف دے، اس نے مجھے تکلیف دی اور جس نے اس کو ناراض کیا  اس نے مجھے اور خدا کو ناراض کیا۔
خلاصہ کچھ احادیث میں  جو اہل سنت کی معتبر کتابوں میں پڑھنے کو ملتے  ہیں کہ خدا کی خوشی اور ناراضگی  کا معیار فاطمہ علیہا السلام ہے۔ اس کے علاوہ  شیعہ اور سنی کی احادیث کی کتابوں میں  دسیوں احادیث میں یہی مفہوم اور معنی موجود ہے ہم نے 26 ویں فصل میں ( حضرت زہراعلیہا السلام کی دشمنوں کی عاقبت) کچھ احادیث  کو منابع کے ساتھ ذکر کیا ہے۔
 وہ احادیث جو حضرت زہرا علیہا السلام کے معصومہ   ہونے پر دلالت کرتی ہیں یہ کہ اگر فاطمہ علیہا السلام معصوم نہ ہو تو کیسے  پیغمبر خدا صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم نے بغیر کسی شرط اور قید کے فاطمہ علیہا السلام کی خوشنودی کو خدا کی خوشنودی اور فاطمہ علیہا السلام کی ناراضگی کو خدا کی ناراضگی قرار دیا؟ کیا غیر معصوم لوگوں کی خوشی اور ناراضگی کو خدا کی خوشی اور ناراضگی( کا معیار)  قرار دیا جا سکتا ہے؟
 ابن ابی الحدید اس اعتراف  کے بعد کہ آیہ تطہیر فاطمہ علیہا السلام کی عصمت پر دلالت کرتی ہے، لکھتا ہے:  
قوله عليه السلام: فاطمة بضعة منى، من آذاها فقد آذانى، و من آذانى فقد آذى اللَّه عز و جل يدل على عصمتها، لانها، لوكانت ممن تقارف الذنوب لم يكن من يوذيها موذيا له على كل حال... (18)
فاطمہ علیہا السلام کے بارے میں نبی اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا: جس نے اسے (فاطمہ علیہا السلام ) کو دکھ دیا اس نے مجھے دکھ دیا اور جس نے مجھے اذیت دی اس نے خدا کو اذیت دی، یہ فاطمہ علیہا السلام کی عصمت پر دلیل ہے، کیوں کہ اگر فاطمہ علیہا السلام معصوم نہ ہوتی تو فاطمہ علیہا السلام کا دکھ ہر حال میں پیغمبراسلام صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کا دکھ حساب نہ ہوتا۔
بس نتیجہ یہ ہوا کہ نبی اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم  کے فرامین  فاطمہ علیہا السلام  کی عصمت پر واضح  دلیل ہیں جسے شیعہ اور اہل سنت کے دانشوربھی مانتے ہیں  مسلمان شعراء  بھی کلام  خدا اور نبی اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کو اپنے نظم میں لے آئے ہیں:
وان مريم احصنت فرجها        جاءت بعيسى كبدر الدجى
فقد احصنت فاطم  بعدها      و جاءت بسبطى نبى الهدى (19)
حضرت مریم علیہا السلام اپنی عصمت اور پاکدامنی کے ساتھ حضرت عیسی علیہ السلام کو لے آئی جو سورج کی طرح چمکتا اور منور رہے۔  اور حضرت زہراعلیہا السلام نے بھی عصمت اور پاکی کے ساتھ زندگی کی اور دو  انوار کو جو نبی اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کے آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں نبی کے حوالہ کیا۔
اسی طرح امام صادق علیہ السلامسے پوچھا گیا کہ فاطمہ علیہا السلام کو کس نے غسل دیا؟
حضرت نے  فاطمہ علیہا السلام  کی عصمت کی گواہی دیتے ہوئے فرمایا:
غسلها اميرالمؤمنين لانها كانت صديقة، و لم يكن ليغسلها الا صديق(20)
حضرت علی علیہ السلام نے فاطمہ علیہا السلام کو غسل دیا، کیونکہ  فاطمہ علیہا السلام معصوم تھی اور معصوم کو معصوم کے علاوہ کوئی اور غسل نہیں دے سکتا۔ جیسے ہی سائل نے تعجب کیا تو امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: حضرت مریم علیہا السلام کے بارے میں بھی اسی طرح ہے کہ اس کو حضرت عیسی علیہ السلام کے علاوہ کسی اور نے غسل نہیں دیا ہے۔ ہم اس فصل کے آخر میں تمام باتوں، احادیث اہل بیت، آیہ تطہیر، امیر المؤمنین علیہ السلام کی دلائل اور اہل سنت کے بزرگ دانشمندوں کے اعتراف کی روشنی میں یہ نتیجہ لیتے ہیں کہ فاطمہ علیہا السلام  دوسرے تمام معصومین کی طرح معصوم تھی۔ اور وہ رسول خدا صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم اور امیر المؤمنین علیہ السلام کے علاوہ تمام پیغمبروں اور ائمہ  سے افضل ہیں۔
-----------------
منابع:
(1 و2) احزاب/ 33.
(3) ۔احتجاجات طبرسى، چاپ نجف، ج 1، ص 122- 123
(4) احزاب/ 33.
(5) نورالثقلين، ج 4، ص 270
(6) لولاك كما خلقت الافلاك و لو لا على لما خلقتك و لولا فاطمه لما خلقتكما. (عوالم، ج 11 ص 25 و 26).
(7)حضرت کہتے ہی:رسول اکرم ہمارےگھر تشریف لائے میں سو رہا تھا رسول اکرم اپنی بیٹی فاطمہ سے گفتگو کے بعد فرمایا:اے بیٹی میں اور تم حسن  اور حسین اور یہ علی ایک جگہ اور ایک ہی مقام پر ہونگے۔ (فرائد السمطين، ج 2، ص 28 ش 367)
(8) بحار، ج 26، ص 316، ح 79: انا سيد الاولين و الاخرين و انت يا على! سيدالخلائق بعدى، اولنا كاخرنا و آخرنا كاولنا.
(9) بحار 26، ص 272 و، ح 14: الحسن و الحسين خير اهل‏الارض بعدى و بعد ابيها و امهما افضل نسا اهل‏الارض.
 (10) بحارالانوار، ج 26، ص 199، ح 11، عن الصادق (ع): ان اللَّه فضل انلى العزم من الرسل بالعلم على الانبيا و ورثنا علمهم و فضلنا عليهم فى فضلهم...
(11) اصول كافى، ج 1، ص 437، ح 4: ما من نبى جا قط الا بمعرفه حقنا و تفضيلنا على من سوانا.
(12) عوالم، ج 11، ص 99.
 (13) بحار، ج 43، ص 78، ح 65.
(14) احزاب 33
(15)ـ كتاب الكلمة الغراء فى تفضيل الزهراء تأليف سيد عبدالحسين شرف‏الدين ص 212.
(16)ـ قال رسول‏اللَّه صلّى اللَّه عليه و آله: يا فاطمة ان اللَّه يغضب لغضبك و يرضى لرضاك- ينابيع المودة ص 203 مجمع الزوائد ج 9 ص 203.
(17)ـ قال رسول‏اللَّه: فاطمة بعضة مني فمن اغضبها اغضبنى- صحيح بخارى ج 2 ص 302.
(18)ـ كشف‏الغمه ج 2 ص 89.
(19)ـ شرح نهج‏البلاغة، ج 16، ص 273.
(20)ـ بحارالانوار، ج 43، ص 50.
(21)ـ بحارالانوار، ج 43، ص 184- عوالم، ج 11، ص 260- جلاءالعيون، ج 1، ص 2