سلیمانی

سلیمانی

رہبرانقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ایک بار پھر اس بات پر زور دیا ہے کہ امریکی فوجیوں کو عراق اور شام سے نکلنا ہوگا آپ نے فرمایا امریکا نے داعش کو خود بنایا اور اس کا اعتراف بھی کیا لیکن داعش کے خلاف جنگ کے بہانے شام میں غاصبانہ طریقے سے موجود ہے -

رہبرانقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ستائیس رجب عید مبعث کے موقع پراپنے نشری خطاب میں ایرانی قوم، امت مسلمہ اور دنیا بھر کے حریت پسندوں کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ عید مبعث انصاف کے طلبگاروں کی عید ہے۔

آپ نے فرمایا کہ یہ وہ عظیم دن ہے جس دن مرسل اعظم ص کا قلب مبارک گرانبہا الہی امانت یعنی وحی کا خزانہ بنا اور عالم وجود کی سنگین ترین ذمہ داری آنحضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دوش مبارک پر ڈالی گئی ۔

رہبرانقلاب اسلامی نے فرمایا کہ توحید کے معنی صرف یہ نہیں کہ انسان دل میں یہ عقیدہ رکھے کہ خدا ایک ہے  بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ خدا کی حاکمیت کو قبول کیا جائے۔ آپ نے فرمایا کہ انسانوں کی تعلیم، انصاف کا قیام تمام انبیائے الہی کی بعثت کا اہم ترین مقصد ہے کیونکہ انسانی سماج کو انصاف کی بنیادوں پر چلایا جانا چاہئے۔

آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ایران کے اسلامی انقلاب کو بعثت کا تسلسل قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی انقلاب ایران نے عصر حاضر میں بعثت کے مضامین کی تجدید کی ہے، خداوند متعال نے امام خمینی رح کو توفیق عطا کی کہ وہ عصر حاضر میں بعثت نبوی کے راستے کو اپنے اقدامات، شجاعت اور اعلی افکار کے ذریعے جلا بخشیں۔

آپ نے فرمایا کہ اسلامی انقلاب کو بھی اپنی کامیابی کے بعد اسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا جس کا پیغمبراسلام صلی اللہ وآلہ وسلم کو کرنا پڑا تھا یعنی عالمی شرپسند اور جرائم پیشہ طاقتیں اس کے مقابلے میں صف آرا ہوگئی تھیں ۔

رہبرانقلاب اسلامی نے امریکہ اور سابق سویت یونین کی دشمنی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ہمیں اس کے علاوہ کسی اور چیز کی توقع بھی نہیں تھی اور ہمیں معلوم تھا کہ امریکہ اور سویت یونین ایسے انقلاب کو برداشت نہیں کریں گے اور اس کے خلاف صف آرا ہوجائیں گے۔

آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے دشمن کے مقابلے کے لیے بصیرت اور استقامت جیسے عناصر کی اہمیت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ میں نے ہمیشہ دو عناصر کی سفارش کی ہے ایک بصیرت اور دوسرا صبر و استقامت کا عنصر ہے، اگر یہ دو عناصر موجود ہوں گے تو دشمن ہمارا بال بھی بیکا نہیں کرسکتا ۔

آپ نے اسلامی انقلاب کے خلاف دشمن کی ریشہ دوانیوں اور سازشوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ دشمن سافٹ وار کے ذریعے دو اہداف پر کام کر رہا ہے ایک حق اور صبر کی تلقین کا سلسلہ بند ہوجائے اور دوسرے حقائق کو توڑ مروڑ کر اور حتی برعکس ظاہر کرے ۔

رہبرانقلاب اسلامی نے دشمن کی دروغگوئی اور حقائق کو الٹا دکھانے کی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ہمارا دشمن اس قدر ڈھٹائی کے ساتھ جھوٹ بولتا ہے کہ سننے والا اسے سچ سمجھنے لگتا ہے۔

آپ نے فرمایا کہ یمن کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں پچھلے چھے برسوں سے  امریکہ اور اس کا جارح عرب اتحاد  یمنی عوام اور ان کے گھروں، اسپتالوں اور اسکولوں پر بمباری کر رہا ہے ، اس جارح اتحاد نے  یمن کا اقتصادی محاصرہ کر رکھا ہے ، غذائی اشیا اور دوائیں تک نہیں پہنچانے دے رہا ، لیکن جیسے ہی یمن کے بہادر اور دلیر عوام اپنے وسائل سے استفادہ کرتے ہوئے چھے سال  سے جاری بمباری کا جواب دیتے ہیں تو پروپیگنڈہ مشینری سرگرم ہوجاتی ہے اور قتل و غارت گری کا شور مچانے لگتی ہے-

رہبر انقلاب اسلامی نے دشمن کی دروغگوئی کی ایک اور مثال کا ذکر تے ہوئے فرمایا کہ دنیا میں ایٹمی ہتھیاروں کے سب سے بڑے ذخائر رکھنے اور اسے استعمال کرنے والا ملک امریکہ جس نے ایک دن میں دو لاکھ بیس ہزار سے زائد افراد کو ایٹمی بمباری کے ذریعے قتل کرڈالا ہے، آج کہتا ہے ہم عام تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے خلاف ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اپنے مخالف  کو قتل کرکے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے والی سعودی حکومت کی حمایت کرنے والا امریکہ انسانی حقوق کی حمایت کے دعوے کرتا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے داعش اور دیگر دہشت گرد گروہوں کی تشکیل میں امریکہ کے کردار کی جانب اشارہ کرتے ہوے فرمایا کہ داعش کو خود امریکہ نے بنایا اور اس کا اعتراف بھی کیا ہے، اور داعش کے خلاف جنگ کے بہانے شام میں اڈے قائم کر رہا ہے۔ اس کے مقابلے میں ایران کی علاقائی موجودگی کے بارے میں منفی پروپییگنڈا کیا جاتا ہے اور اسے علاقے میں عدم استحکام کا سبب قرار دینے کی کوشش کی جاتی ہے حالانکہ ہم جہاں بھی موجود ہیں ان ملکوں کی قانونی حکومتوں کی درخواست پر ان کے دفاع کے لیے موجود ہیں۔

آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ  علاقے میں کہیں بھی ایرانی فوجیں موجود نہیں ہیں اگر کہیں ہمارے فوجی ہیں بھی تو وہ مشاورت کے لئے ہیں  البتہ امریکہ کسی بھی ملک کی اجازت کے بغیر داخل ہوتا ہے اور وہاں اپنے اڈے بنا لیتا ہے جیسا کہ اس نے شام میں کررکھا ہے ۔

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ امریکہ کو عراق سے جانا ہوگا اور شام سے بھی  جتنا جلد ممکن ہو امریکہ کو نکل جانا چاہیے۔

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں اسلامی جمہوریہ ایران کے سفارت خانے کے زیر اہتمام تمام مسالک کے جید علمائے کرام کی مشترکہ نشست کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں وفاقی وزیر برائے مذہبی امور نور الحق قادری، ایرانی سفیر جناب محمد علی حسینی، سربراہ اسلامی تحریک حجت الاسلام و المسلمین علامہ سید ساجد علی نقوی، سربراہ امت واحدہ پاکستان حجت الاسلام و المسلمین علامہ محمد امین شھیدی، سربراہ ایم ڈبلیو ایم حجت الاسلام و المسلمین علامہ راجہ ناصر عباس جعفری، معروف اسکالر علامہ محمد عباس وزیری سیمت دیگر علماء کرام نے شرکت کی

بعثت رسول مکرم اسلام(ص) کے موقع پر پیغمبر گرامی اسلام حضرت محمد مصطفیٰ(ص) کی عظمت و منزلت  کو خراج عقیدت  پیش کرنے کے لئے امام رضاعلیہ السلام  کے  صحن جامع رضوی کو آپ (ص) کے مبارک نام سے مزیّن کیا جائے گا۔ تاکہ دین مبین محمدی(ص) کی تبلیغ و ترویج کے ہدف سے ثقافتی و دینی پروگراموں کے انعقاد کے لئے نیا پلیٹ فارم مہیا کرایا جاسکے 
آستان قدس رضوی گذشتہ برسوں کے دوران بھی  قومی اور بین الاقوامی سیمینار کے انعقاداور یورپ  کے حق پسند اور حقیقت  کے متلاشی  لوگوں کے ساتھ ثقافتی تعلقات کی توسیع  کے ذریعے اس سلسلے میں  بہت سے اہم کام انجام دے چکا ہے اور اب حرم مطہر رضوی کے ایک اہم صحن کو پیغمبر گرامی اسلام(ص) کے مبارک نام سے مزیّن کرنے کے بعد اپنی سرگرمیوں کا دائرہ مزید وسیع کرے گا۔ 

ماضی میں زائرین و مجاورین کی جانب سے بہت ساری درخواستیں موصول ہوئی تھیں کہ حرم مطہر رضوی کے کسی ایک صحن کا نام پیغمبر گرامی اسلام(ص) کے مبارک نام سے مزیّن کیا جائے۔اسی سلسلے میں آستان قدس رضوی نے باقاعدہ طور پر اس موضوع کو اپنے پروگرا م میں شامل کیا اور ماہرین کی رائے لینے کے بعد فیصلہ کیا کہ شب عید مبعث کے موقع پر صحن جامع رضوی کا نام پیغمبر گرامی اسلام(ص) رکھ دیا جائے گا۔ یہ تبدیلی فقط نام تک محدود نہیں ہو گی بلکہ صحن پیغمبر اعظم(ص) کو دین مبین محمدی(ص) کی ترویج کا مرکز و محور بنایا جائے گا۔ 

مستقبل میں زائرین و مجاورین کے تمام بڑے اجتماعات اسی صحن میں منعقد کئے جائیں گے جو کہ پیغمبر اعظم(ص) کے نام سے مزیّن ہورہا ہے    یہ اقدام ہیغمبر گرامی اسلام(ص) کے نام اور تعلیمات کی ترویج کے لئے اہم قدم ثابت ہو گا۔ واضح رہے کورونا وائرس سے قبل حرم مطہر رضوی میں سالانہ تین کروڑ زائرین زیارت سے مشرف ہوتے رہے  ہیں جن میں چالیس لاکھ غیرملکی زائرین ہوا کرتے تھے  یہ سبھی زائرین  ک  دنیا کے دور دراز ممالک میں اسلامی جمہوریہ ایران کے  ثقافتی اور مذہبی سفیر ہیں۔ 

پیغمبر اعظم کے نام  منسوب ہونے والے اس صحن کا رقبہ ۱۱۷۵۸۴ مربع میٹر ہے جس کی تعمیر کا کام ۱۹۸۷ میں شروع ہوا اور ۲۰۰۲ میں اختتام پذیر ہوا، یہ صحن جو کہ ضریح امام رضا علیہ السلام کے جنوب میں واقع ہے اور  اس کے چھ بلند و بالا مینار تین ایوان جن کے نام باب الہادیؑ،باب الکاظمؑ اور ایوان ولی عصر(عج) ہیں۔

آنحضرت (صعلم)کی سیرت طیبہ قرآنی تعلیمات کی روشنی میں تمام کلمہ گو مسلمانوں کے لئے اسوہ حسنہ اور واجب الاتباع ہے


اہل سنّت بھائیوں کے منابع سےپیغمبر اعظم  ﷺکی سیرت طیبہ اور وحدت
یہاں ہم اختصار کی بنا پر صرف رسول اکرم  کی سیرت طیبہ سے وحدت کے چند نمونے پیش کرتے ہیں تاکہ ہمیں یہ معلوم ہو جاے کہ انھوں نے وحدت کی راہ میں کیا کیا قربانیاں دی ہیں اور ہم جو ان کے نقش قدم پر چلنے کا دعویٰ کرتے ہیں ؛ وحدت کی راہ میں کیا قدم اٹھائے ہیں ۔
آنحضرت  ۖکی سیرت طیبہ قرآنی تعلیمات کی روشنی میں تمام کلمہ گو مسلمانوں کے لئے اسوہ حسنہ اور واجب الاتباع ہے۔ اگر آپ  ان کی الٰہی سیرت اٹھا کر دیکھیں تو ان کی زندگی کے ہر قدم پر وحدت  کے سینکڑوں نمونے نظر آتے ہیں جو نہ صرف ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہے بلکہ تمام بشر یت کے لئے تا قیام قیامت نمونہ عمل ہے ۔آپ  ﷺکی پاک سیرت میں وحدت واتحاد کے ایسےانمول  نمونے پائے جاتے ہیں جس کی مثال سابقہ امتوں میں نہیں ملتی۔
حد یہ ہے کہ آپ  ﷺے مدینہ تشریف لانے کے فورا بعد  چند اہم اور بنیادی اقدامات انجام دىے، ان میں سے    اىک  قدم مختلف گروہوں ، امتوں اور قوموں کے درمیان وحدت اور اتحاد و اتفاق ایجاد کرنا تھا جو اپنی جگہ بے سابقہ ہے ہم یہاں چند نمونے  ذکرکرتے  ہیں ۔
ا۔امت واحدہ کی تشکیل میں تاریخی دستاویز
اسلام کا نورانی پیام مدینہ آنے کے بعد اس شہر میں مختلف مکاتب سے وابستہ لوگ بسنے لگے تھے ۔ نو مسلموں کے ساتھ ساتھ  یہودی بھی چند قوموں کی شکل میں رہتے تھے ۔ بت پرست اور مشرک اقوام بھی آباد تھیں ۔جب سرور کائنات مدینہ تشریف لائے تو آپ  ﷺنے یہ احساس کیا کہ اس شہر کی اجتماعی زندگی ٹھیک نہیں ہے ، نا منظم ہے اور ہر گروہ دوسرے گروہ کے ساتھ دشمنی رکھتا ہے ،مختلف قبیلوں کے درمیان سخت قسم کے اختلافات اور تنازعے پائے جاتے ہیں ؛ سب سے بڑے دو قبیلے اوس وخزرج کے درمیان دیرینہ خونی دشمنی پائی جاتی ہے اور وہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں ؛ اب اس حالت میں ہر لمحہ ممکن تھا کہ کوئی نا گوار واقعہ پیش آے ۔
چنانچہ پیغمبر اکرم  ﷺے مدینہ میں رہنے والے تمام  گروہوں کے درمیان باہمی تعاون اور یکجہتی کی وہ عظیم دستاویز پیش کی  جو بعد میں اسلام کی سب سے پہلی اور سب سے بڑی دستاویز کہلائی ؛ اور مورخین کے مطابق یہ قرارداد آپ  ﷺنے اپنے پہلے خطبے کے فورا بعدپاس کی۔
رسالت مآب  ﷺنے اس قرار داد میں مدینہ شہر میں رہنے والے مختلف گروہوں کے حقوق معین کےا اور یہ قرارداد مسالمت آمیز زندگی گزارنے اور ہر طرح کے ہنگامے اور اختلافات کے جنم لینے اور ان کے درمیان نظم وعدالت کو بر قرار رکھنے کی ضامن بنی ۔اس تاریخی قرارداد کے چند اہم نکات یہ تھے :
(1)       مسلمان اور یہود ایک امت ہیں
(2)       مسلمان اور یہود اپنے دین کی پیروی میں آزاد ہیں
(3)       اس عہد نامہ پر دستخط کرنے والوں کی ذمہ داری ہے کہ سب مل کر شہر مدینہ کا دفاع کریں
(4)       مدینہ ایک مقدس شہر ہے جس میں ہر طرح کا خون  خرابہ حرام ہو گا
(5)       اس عہد نامہ پر دستخط کرنے والوںمیں اختلاف پیدا   ہونے کی صورت میں حل وفصل کرنے والے محمد  ﷺہوں گے ۔ اس قرارداد کی تفصیلات  اس طرح بیان کرسکتے ہیں۔
اس تاریخی قرارداد سے دو اہم نکتے ہمارے ذہن میں آتے ہیں جو کسی قوم یا جماعت کے درمیان اتحاد برقرار رکھنے اور یکجہتی پیدا  کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔
(1)مذہبی آزادی :  امت مسلمہ کے درمیان اتحاد اور یکجہتی پیدا کرنے کے لئے اہم ترین چیز مذہبی آزادی ہے خواہ اسلامی فرقوں کے درمیان ہو یا اس سے بھی زیادہ وسیع سطح پر مختلف ادیان کے درمیان ہو کہ جس کا خوبصورت ترین نمونہ پیغمبر اکرم  ۖکی سیرت طیبہ میں ہمیں نظر آتا ہے ۔
چونکہ ایک دین میں مختلف فکری مذاہب ، شریعت کے فکری اور عملی احکام میں علماء کے اجتہادات اور قرآن وسنت سے استنباط کی وجہ سے وجود میں آتے ہیں کہ جس کی ہم سب اجازت دیتے ہیں ،اب اس صورت میں ایک مسلمان کو کامل طور پر یہ اختیار حاصل ہونا چاہئے  کہ وہ اپنی مرضی سے ان اسلامی فرقوں اور مذاہب میں سے اپنی نظر میں جو سب سے افضل ہو اور بروز قیامت پروردگار عالم کے حضور میں جواب گو ہو ؛ اسی مذہب کی پیروی کرے اور کسی کو یہ حق نہیں ہو گا کہ اسے کسی خاص مذہب کے انتخاب پر برا بھلا کہے یا اس کی مذمت کرے ؛ اسی طرح کسی کو یہ حق نہیں پہنچتاکہ وہ کسی دوسرے شخص کوکسی خاص مذہب کے انتخاب پر مجبور کرے چونکہ مذہب کا انتخاب ایمان اور قلبی اطمینان کے حصول کے ساتھ وابستہ ہے جو صرف اور صرف حجت اور دلیل کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔
اور اسی طرح ہر مذہب کو اپنی آراء و نظریات خواہ عقیدتی میدان میں ہو یا فقہی اور عملی میدان میں ؛ پیش کرنے اور اس پر دلیل قائم کرنے کا پورا حق حاصل ہے اور یہ اس وقت تک مطلوب ہے جب تک بے فائدہ جدل ودشمنی اور ایک دوسرے کی اہانت کى سبب   نه بنے ۔
(2) قومی انسجام :پہلے بھی عرض کیا کہ وحدت انسانیت اور اسلامیت کی بقا ء کا ضامن ہے یہ کسی خاص قوم یا کسی خاص زمان ومکان تک محدود نہیں بلکہ انسانی معاشرے کی بقاء کے لئے ایک دائمی اصل ہے ۔جس طرح اسلام اور مسلمانوں کی بقا ء وتحفظ اور ترقی وتمدن کے لئے اسلامی اتحاد کی ضرورت ہے ، اسی طرح کسی قوم وملک کی بقاء  کے لئے  اسکی ترقی و تمدن کے لئے بھی اس ملک کے اندر بسنے والے مختلف گروہوں قوموں اور مختلف طبقات اور مختلف مکاتب فکرسے تعلق رکھنے والے لوگوں کے درمیان قومی اور ملی انسجام واتحاد شہ رگ کی مانند ہے ۔
اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ استعماری اور طاغوتی ایجنڈے  اسلامی مالک میں نہ صرف مسلم فرقوں ،گروہوں کو آپس میں لڑوانے کے پیچھے ہیں بلکہ مختلف قوموںاور نژادوںکو قومیت اور نژادیت کی بنیاد پر  ایک دوسرے سے جدا کر کے ایک دوسرے کے مقابلے میں لانے کی  بھر پور کوشش میں ہیں ۔
چنانچہ پیغمبر اکرم  ﷺنے بھی اسی اہم نکتے کو مد نظر رکھتے  ہوئے ایک معاشرتی اور اجتماعی زندگی کی تشکیل اور اسلامی حکومت  کی بنیاد رکھنے سے پہلے ہی مدینہ شہر کے رہنے والے مختلف مکاتب فکر سے وابستہ لوگوں کے درمیان قومی اور ملی اتحاد واتفاق کی قرار داد پاس کی کہ جس عہد نامے میں مسلمانوںاور یہودیوں کو ایک ملت قرار دیا  گیا ، ان سب کی جان و مال کو محترم شمار کیا گیا اور سب پر مدینہ شہر کے دفاع کی ذمہ داری ڈالی گئی اس طرح مدینہ کی اجتماعی زندگی میں رونق آ گئی اور سب کے حقوق محفوظ ہوگئے۔
٢۔ انصارومہاجرین کے درمیان ا خوت کامعاہدہ
پیغمبر اعظم  ﷺے ہجرت کے بعد اتحاد کی راہ میں جو دوسرا قدم اٹھایا وہ مہاجرین اور انصار کے درمیان رشتہ اخوت اور بھائی چارگی بر قرار کرنا تھا ۔
چونکہ اسلام سے پہلے دور جاہلیت میں دو بڑے گروہوں میں پیشہ اور نسل کے لحاظ میں تفاوت کے سبب کشمکش پائی جاتی تھی ؛ کیونکہ انصار جنوب عرب (یمن )سے ہجرت کر کے آئے تھے اور نسب کے اعتبار سے ان کا تعلق قحطان سے تھا جبکہ مہاجرین شمالی حصے سے  آئے تھے اور ان کا تعلق عدنانی نسل سے تھا اور دوسری طرف انصار کا مشغلہ کاشتکاری و باغبانی تھا ؛ جبکہ مہاجرین اور اہل مکہ تجارت کرتے تھے اور کاشکاری کو ایک پست پیشہ سمجھتے تھے ؛ اس سے قطع نظر یہ دونوں  گروہ الگ ماحول کے پروردہ تھے ؛ لیکن اب نوراسلام کی بدولت آپس میں بھائی بھائی ہو گئے تھے (٢)
لیکن ان دونوں گروہوں میں گزشتہ افکار و خیالات اور کلچر کے اثرات ابھی بھی بعض لوگوں کے ذہنوںمیں رہ گئے تھے اور ہر لحظہ یہ اندیشہ تھا کہ کہیں قدیمی عصبیت بھڑک نہ اٹھے ،اب ان اختلافات کے ہوتے ہوئے ایک عالم گیر الٰہی حکومت کی بنیاد ڈالنا نا ممکن تھا اور مکتب اسلام کو دوسرے مکاتب فکر اور مشرکین کے مقابلے میں مضبوط بنانے کے لئے آپ  ﷺنے اپنی حکمت با لغہ سے ان کے درمیان( تآخوا فی اللہ اخوین) کا نعرہ بلند کر کے اخوت اور بھائی چارگی کا رشتہ برقرار کیا اور ہر مہاجر و انصار میں سے ایک کو دوسرے کا بھائی بنایا اور علی علیہ السلام کو اپنا بھائی بنا یا اور فرمایا : انت اخی فی  الدنیا والآخرة… ( ٣) جس کے نتیجے میں مسلمانوں کے درمیان اخوت و برادری اور وحدت ویکجہتی کی ایک نئی لہر دوڑ اٹھی ایک دوسرے کے درمیان سالہا سال پرانی دشمنی دوستی اور اخوت میں تبدیل ہو گئی کہ جس کی کوئی نظیر سابقہ امتوں میں نہیں ملتی ۔
اتحاد ووحدت کی راہ میں اس جیسے سینکڑوں نمونے آپ  ﷺکی با برکت زندگی میں دیکھنے میں آتے ہیں اور آپ  ۖاپنے آخری دم تک لوگوں کو اتفاق و وحدت کے ساتھ زندگی گزارنے کی دعوت دیتے رہے اور فرمایا کرتے تھے  ايها الناس علکمت بالجماعة واياکم والفرقة (٤) لوگو! خبردار تفرقہ بازی  اور گروہ بندی سے بچو اور ہمیشہ متحد ہو کے رہو،اسی طرح کسی اور مقام پر آپ  ﷺفرماتے ہیں کہ تم میں سے کون ایسا عقلمند ہے جو اتحاد اور انسجام کی ضرورت کا احساس نہ کرے ؟ لیکن اسکے باوجود یہ سننے میں آتا ہے کہ بعض تنگ نظر جاہل ومقدس مآب اور متعصب افراد مختلف اسلامی فرقوں اور گروہوں کے درمیان وحدت برقرارکرنے کو پسند نہیں کرتے اورکھلم کھلا وحدت کی ضرورت کا انکا ر کرتے ہیں یقینا اس کی  علت سیرت رسول اعظم  ۖسے لا علمی و دوری اور اپنے من گھڑت عقائد وافکار پر اصرارکر نے کے سواکچھ نہیں ہے ۔
خدایا ! ہم سب کو سرور کائنات کی سیرت طیبہ پر چلنے کی توفیق عطا فرما  آمین !

حوالہ جات
(1)-ابن هشام : السیرة النبوی :ج 2 ص 147-150 مطبع المصطفی الباقی قاهره ۔
(2)-۔ابن هشام : السیره النبویة ؛ج 2 ص 150 اور مجلسی : بحار الانوار ج 19 ص۔
(3)- ابن هشام،ص 130۔: السیره النبویة ؛ج2 ص 150اور عسقلانی : الاصابة؛ج2 ص 507طبع  بیروت دار ا التراث العربی 1328ق.بحارالانوار ج :8 ص :1 ۔
(4)۔محمد تقی هندی : کنز العمال ؛ج 1 ص 206حدیث نمبر 1028۔

کلمۂ رحمت اور اسکی مشتقات پورے قرآن میں تقریباً  ۳۳۸ مرتبہ ذکر ہوئی ہیں جس میں سے ۷۹ بار کلمہ  رحمۃ مستقل طور پر ذکر ہوا ہے اور ۳۶ مرتبہ ضمائر مثلاً رحمتی، رحمتہ،رحمتک،رحمتنا کے ساتھ ذکر ہوا ہے۔
خداوند اس رحمت کے سلسلے میں کبھی مصیبت والوں کو خطاب فرماتا ہے  اولئک علیهم صلوات من ربّهم و رحمة (بقرة:۱۵۷)تو کہیں سختیاں دیکھنے والوں کو فرماتا ہے  واذا اذقنا النّاس رحمة من بعد ضرّاء مسّتهم (یونس:۲۱)ایک جگہ پہ تورات کے بارے میں ذکر ہوتا ہے   ومن قبله کتا ب موسی اماماً و رحمة (انعام:هود:۱۷) تو کہیں قرآن کے بارے  میں ارشاد فرماتا ہے  فقد جائکم بیّنة من ربکم و هدیً و رحمة (انعام:۱۵۷)کبھی احسان کرنے والوں کے حق میں مہربانی ،عنایت اور بخشش کے سلسلے میں ارشاد فرماتا ہے انّ رحمة الله قریب من المحسنین (اعراف:۵۶)تو کہیں اس رحمت سے محروم ہونے  والوں کیلئے بتاتا ہے  أهؤلاء الذین اقسمتم لا ینالهم الله رحمة (اعراف:۴۹)کسی جگہ خدا کی رحمت کے امیدواروں کا ایڈریس دیتا ہے اولئک یرجون رحمة الله والله غفور رحیم (بقرة:۱۲۸)تو کسی مقام پر اپنی مغفرت و رحمت کی تعریف کرتا ہے لمغفرۃ من الله و رحمة خیر ممّا یجمعون(  ) کہیں بیویوں کو سکون اور آرام کا باعث اور اپنی خلقت کا کمال قرار دے کر اس  میں رحمت قرار دینے کے بارے میں فرماتا ہے ان خلق لکم من انفسکم ازاواجاًلتسکنوا الیها و جعل بینکم مودّة ورحمة (روم:۲۱)تو کہیں پیمبر کی پیروی کی صورت میں دلوں میں راٗفت اور رحمت ایجاد کر کے فرماتا ہے وجعلنا فی قلو ب الذین اتبعوہ رأفة ورحمة (حدید :۲۷)کہیں موسی سے خطاب ہوتا ہے و ماکنت بجانب الطوراذنادینا ولکن رحمۃ من ربّک( قصص:۴۶)
لیکن جب رسول گرامی اسلام ؐکے بارے میں ارشاد ہوتا ہے  تو یہ آیت دوسری آیتوں سے مختلف ، وسیع تر اور عظیم تر نظر آتی ہے،اور خدا وند تمام عالمین کیلئے ان کی ذات مقدّسہ کو رحمت کے طور پہ تعارف کرواتا ہے وما ارسلناک الّا رحمۃ للعالمین (انبیاء:۱۰۷)
مختلف آیات سے اور خاص طور پر اس آیہ شریفہ سے معلوم ہوتا ہے کہ پیمبر گرامیؐکی ذات  تمام امتوں کیلئے نور،ہادی ،مبشر،بشیر و نذیر ،کاظمین الغیظ وعافین عن النّاس اور عالم انسانیت کیلئے مشعل  راہ ہے ۔پیمبرؐ بشریت کو ہدایت  کی جانب لے جانے والا ہے۔حبیب خدا اور خدا کی طرف سے لوگوں کو شفا اور جلا بخشنے والا ہے ،وہ حق کا طالب، بشریت کیلئے سعادت اور کمال کا طالب اور امت  کے گناہوں کیلئے خدا کی بارگاہ میں بخشش کا طالب ہے۔
ابھی پیامبر گرامیؐتشریف نہیں لائے،حضرت عیسی(ع)انجیل میں احمدؐ کے آنے کی بشارت دے گئے، مسیحیت بھی ان کی منتظر ہے اور یہودیت بھی حتی معاشرے کا ہر فرد ان کا منتظر ہے جو سعادت ابدی تک ان کو پہنچائے ،ایسا کوئی منجی بشریت آنے والا ہے جس کی سب کو ضرورت  اور انتظار ہے خاص طور پر جب کہ زما نہ بھی جا ہلیت کا ہے کہ جھان پر طرف خوف ودہشت کاما حول،ظالم و ستمگر طبقہ اژدھا کی طرح منہ کھولی ہو ئے ہے اور فقیرو ں ،غریبوں،حاجت مندوں اور ضعیفوں کو ہر آن نگلنے کی کوشش میں مصروف ہے ،ہرطرف غلامی کادوردورہ ہے لٹر کیوں کو اپنے لئے عیب،ذلت اور شرمندگی کا با عث سمجھکر زندہ درگور کیا جاتا ہے ۔
 اچانک ہی حضرت عبد المطلب کے گھر میں ایک نور کا طلوع ہو تاہے جو انکے اور حضرت ابوطالب کی سرپرستی میں پروان چڑھتا ہے ،پرورش پاتاہے ،ابھی کسی کوان کے بارے میں کوئی خبر نہیں ،لیکن خداوند متعال حدیث قدسی میں ارشاد فرماتا ہے  یا محمّد لولاک لما خلقت الافلاک ہاں یہ کوئی ایسی شخصیت ہے جسکی خاطر سب کچھ خلق کیا گیا ہے ،یہ آسمان ،زمین ،سیارے ،ستارے چاند، سورج  بلکہ تمام موجودات ،حیوانات ،جمادات ونباتات و․․․ اسی عظیم ہستی کیلئے خلق ہوئے ہیں۔
پیامبرؐکو مبعوث ہونے کے بعد جو کہ اب ایک رہنما، ہادی ،نبی ،رسول اور امام ہیں وحی ہوتی ہے وماارسلناک الّارحمةللعالمین، اے پیمبر ؐ ہم نے تمھیں نہیں بھیجا مگر عالمین کیلئے رحمت بنا کر۔ ہم عالم کون ومکان میں (کہ جسکو عالم تکوین بھی کہتے ہیں )مشاہدہ کرتے ہیں،پیامبر گرامیؐقطعاً دنیا والوں کیلئے بلکہ ہر ایک شئی کیلئے باعث رحمت ہیں کیونکہ کائنات کا ذرّہ ذرّہ انکی خاطر اور ان ہی کے صدقے میں خلق ہوا ہے اور جو بھی اس کائنات اور عالم افلاک سے فیض حاصل کرتا ہے،ان ہی کے صدقے میں․․․․․․․اور اب عالم تشریع میں دیکھا جائے ،اگر دین نہ ہو تو یہ انسانی معاشرہ اور سماج جنگل کی مانند ہو جائے گا، جہاں پر دین نہ ہو تو وہاں پر ڈکیتی ،چوری،ظلم وستم کا دور دورہ ہو جاتا ہے، لیکن جب دین آجائے تو یہ چیزیں ختم کرکے انسان کو ایک کمال کی منزل تک پہنچانے کی کوشش کرتا ہے ۔ تاریخ گواہ ہے ،مختلف متعدد  انبیاء آئے ،انسان کی ہدایت اور اسکو کمال تک پہنچانے کیلئے، لیکن ہر ایک پیامبر اپنی جگہ مطمئن ہے کہ اس کے بعد کسی کو آنا ہے یہاں تک کہ حضرت عیسی(ع) ۔ اب حضر ت عیسی آئے توا نھیں بھی معلوم ہے کہ عقل کل ،پیامبر خاتمؐآنے والے ہیں ۔جب وہ آئیں گے تو دین خاتم بھی لائیں گے جو کہ کامل ترین اور بہترین آئین ہوگا  اور حضرت محمّد عربی ؐجب پیامبر خاتم بن کر آئے تو دین کامل بھی لائے تبھی خدا وند نے فرمایا  انّ الدّین عند الله الاسلام  یا غدیر خم کے مقام پر فرمایا  الیوم اکملت لکم دینکم ․․․ جسکا مطلب یہ ہوا کہ کامل ترین اور محبوب ترین دین خدا کے نزدیک اسلام ہے ۔اور  یہ اسلام سب عالمین کیلئے ہے ،اگر سب عالمین کیلئے ہے تو پھر پیامبر ؐعالم تشریع میں بھی دنیا والوں کیلئے (رحمۃ للعالمین )رحمت ہیں ۔پس پیامبر اور ان کا لایا ہوا یہ آئین بھی دنیا والوں کیلئے رحمت ہے ،مایہ ناز و افتخار ہے، آرام اور اطمئنان کا باعث ہے ،سعادت اور کمال ابدی کا موجب ہے ،تر قی اور سکون کا سبب ہے ،طلم وستم اور ظالمین  ومستکبرین سے نجات کا باعث ہے۔جو چیز ایسی ہو وہ رحمت نہیں تو اور کیا ہے ۔
تفسیروں میں ملتا ہے ،آنحضرت ؐکی ولادت کے دن ابو لہب چچا ہونے کی بنا پر خوشحال ہوا تھا،اب جب بھی ہر سال پیامبر ؐکی ولادت کا دن ہوتا ہے تو ابولہب کو اس خوشحالی کے صلے میں عذاب سے رخصت دی جاتی ہے ،اس دن ابو لہب بھی جو کہ ان کا سرسخت ترین دشمن تھا ،ان کی ذات واجود رحمت کے صدقے میں عذاب سے نجات پاتا ہے ،یہ رحمت صرف ان کے روز ولادت کی ہے ، خود ان کی ذات اقدس کیا ہوگی کہ جن کے بارے میں خدا فرماتا ہے کہ وہ تمہارے لئے رؤوف ،رحیم اور رحمۃ للعالمین  ہیں۔ اگر ہم لوگ ان کی ذات اقدس کو اپنا محور قرار دیں ،اپنا مرکزی نقطہ قرار دیں اور سب مل کر پہلے ان کی ذات  کے بارے میں دقیق مطالعہ کریں اور پھر ان کی فرمایشات پر حقیقی طور پر عمل کریں۔ تو پھر       خود بخود یہ ذات اقدس ہمارے لئے باعث وحدت ہوجائے گی ، ہم سب کا ہدف اور مقصد ایک ہی قرار پائے گا اور جب کمزور اور ناتوان لوگ ایک ہی پرچم کے نیچے جمع ہوجائینگے توظالم اور مستکبرین کے ایوانوں میں لرزہ طاری ہوجائیگا۔
تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ جب رحمۃ للعالمین آئے تو اس وقت قومیں مردہ تھیں ،ان کے ضمیر مردہ تھے،ظالم سامراج کے خلاف ان کے اندر آواز اٹھانے کی ہمت نہیں تھی،ان کے پاس کوئی تمدّن  وتہذیب نہ تھی،کسی قسم کا اتّحاد نہ تھا،سب قبیلے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے، قومی اور نسلی امتیاز برقرار تھا،منافقت،حسد کینہ توزی کا لوگوں کے سینوں میں لاوا ابل رہا تھا،معاملات اور امانات میں خیانت برتی جاتی تھی،عفت وناموس کا کوئی پاس و لحاظ نہ تھا ، بت پرستی،انسان پرستی اورجہالت اور بے غیرتی کا دور رائج تھا۔لییکن اب جو رحمۃ للعالمین بن کر ،پیام وحی لے کر رسول اسلام ؐتشریف لائے جو کہ پہلے سے امین اور صادق کے لقب سے لوگوں میں مشہور تھے۔ان کا یہ پرنور و رحمت کا پیام  باعث بنا کہ مردہ قومیں بیدار ہو گئیں،ان کے ضمیر جاگ گئے،ایک دوسروں کے درمیان خون کی پیاس کی جگہ صیغۂ اخوتّ وبرادری نے لے لی،اب حقیقی انسانی تہذیب وجود میں آئی،وہ لوگ اتّحاد کے علمبردار بن گئے،ہر قسم کے امتیاز کی جگہ تقوی اور پرہیزگاری نے لے لی ،رذائل کی جگہ فضائل نے پر کی ،خیانت کی بجائے آج کا یہ انسان ایک دورے کی امانات،عفت اور ناموس کا محافظ بن گیا،بت پرستی وغیرہ کی جگہ خفا پرستی آگئی،جہالت کی جگہ علم کی روشنائی نے لے لی ، اب ہرانسان (منافقین کے بغیر)اس فکر میں تھا کہ کمال ،سعادت اور حقیقت ابدی تک رسائی حاصل کی جائے ۔اسی تلاش کے نتیجے میں کوئی سلمان بن گیا تو کوئی بوذر،کوئی مقداد تو کوئی عمّار․․․
اور پھر نبی اکرمؐ ایک محدود ومخصوص زمانے کے لئے رحمت بن کر نہیں آئے تھے بلکہ خاتم النّبیین بن کر آئے تھے جس کی بنا ء پر وہ  خاتم النّبیین ہونے کے ساتھ ساتھ روز قیامت تک رحمۃ للعالمین بھی ہیں۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے ،اگر ایسا ہے تو آج کا مسلمان کیوں اس رحمت سے مستفید نہیں ہوتا؟آج کا مسلمان کیوں عملی طور پر دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا بن کر رہ گیا ہے ؟کیوں آج کے زمانے میں صرف امت مسلمہ ہی پسماندہ رہ گئی ہے؟؟؟!!! 
 یقیناً اس کا سبب یہی  ہے ہم نے رسول گرامی ؐکی تعلیمات ،فرمایشات اور احکامات پر عمل کرنا چھوڑ دیا۔ قرآن رسول اسلام ؐکو ہمارے لئے اسوۂ حسنہ اور بہترین نمونہ اور مطلوب ترین آئیڈیل قرار دیتا ہے لیکن ہم مغربی تہذیب کے شیدائی اور پیروکار ہوگئے ہیں ۔ہم مغرب زدہ ہوکر رہ گئے ہیں ،ہم نے ھی دین کو مغربیوں کی طرح افیون قرار دیدیا ہے یا یہ دین ہمارے لئے زندگیوں میں برائے نام اور صرف زبان تک محدود ہوکر رہ گیا ہے ۔ اگر آج ہم اس رحمت عظمی کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوتے،رحمۃ للعالمین کو اپنے لئے اسوۂ حسنہ قرار دیتے تو عالم استکبار اور ظالم سامراج کی جرات بھی نہ ہوتی کہ اسلام اور مسلمین کو امن ،آزادی اور آشتی کا مذہب ہے ،دہشت گردی کا الزام دیتا ۔آج امریکہ،برطانیہ اور خاص طورپوری دنیا کے بدن پر کینسر کے پھوڑے یعنی اسرئیل کی ہمت نہ ہوتی کہ مسلمانوں کی عزت اور غیرت کو للکارتایا ان پر حملہ کرتا۔آج دنیا میں ۵۵ سے زیادہ مسلمان ممالک ہیں۔اقتصاد کی شہ رگ یعنی تیل اور گیس بھی مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے، لیکن صرف پیامبر گرامی ؐکی ذات اقدس کو آئیڈیل بنانے کی ضرورت ہے،اگر یہ کمی پوری ہوجائے ساری دنیا مسلمانوں کے قدموں میں گر جائے،آج اس اسوہ کا تقریباً ،کسی حد تک ایک نمونہ ایران اسلام اور انقلاب اسلامی ہے،یہی انقلاب اسلامی ایران ہے کہ جس نے ظلم وستم کے ایوانوں کو لرزہ براندام کر رکھا ہے ۔ایران اسلامی ہی کی بدولت آج چھوٹے چھوٹے اور کمزور ملکوں میں جرات پیدا ہوگئی ہے کہ وہ امریکہ جیسی سپر طاقت کے سامنے کھڑے ہو جائیں اور اسے للکاریں، دھمکیاں دیں ،جیسے پیامبر ؐکی اسلامی حکومت ،قیصر وکسریٰ کیلئے خطرہ بن گئی تھی،اسی طرح آج یہ ایران اسلامی بھی خطرہ بن کر رہ گیا ہے۔اگر آج افغانستان اور عراق کو فتح کیا جا رہا ہے تو کیوں ؟وہ تو ان کی اپنی ہی منتخب حکومتیں تھیں کیونکہ وہ حکومتیں اب انکے کام کی نہ رہیں،سوچا ،ان کو ہٹا کر اپنی من پسند کی حکومتیں لائی جائیں تا کہ وہاں پر فوجی اڈے قائم کئے جائیں،تاجیکستان ،گرجستان،ترکی وغیرہ اور خلیجی ممالک میں بھی فوجی اڈے قائم کئے گئے ہیں تاکہ اس اسلامی حکومت کو چاروں طرف سے گھیر کر اس کا خاتمہ کیا جاسکے ،اسکو نابود کیا جا سکے لیکن یہ مصرعہ مشہور ہے   ؂
وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے
اور پھر خدادئے جبّار کا فیصلہ ہے  والله متمّ نوره ولو کره الکافرون اور اسی خدائے عزیز کا فرمان ہے جاء الحق وزهق الباطل انّ الباطل کان زهوقاً․
ہاں یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب ہم رحمۃ للعالمین کو قرآن کے دستور کے مطابق اپنے لئے اسوۂ حسنہ اور آئیڈیل قرار دیں،اخلاق محمدیؐسے سسرشار اور آراستہ ہوجائیں،کردار محمدیؐاور ان کی بعثت اوررسالت کے صحیح اہداف اور مقا صد کو سمجھیں ،خاتم الانبیاء ؐاور ان کے اوصیاء کو رحمت الہی سمجھ کر ان کی فرمایشات پر عمل کریں۔تبھی ہماری دنیا بھی آباد ہو جائے گی اور آخرت بھی اللّهم اجعل محیای محیا محمّد وآل محمّد ومماتی ممات محمّد وآل محمّد علیهم السلام۔آمین۔ 

 

عراقی علماء کونسل کے صدر شیخ خالد الملا نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ امریکہ نہیں چاہتا ہے کہ عراق پھر سے ایک خودمختار ریاست بن جائے، مزید کہا کہ پوپ فرانسس کے دورے پر سنی سیاسی ناراضگی بلاجواز ہے۔

انہوں نے مزید کہاکہ پوپ فرانسس سے ملاقات سنی دیوان وقف کی ہم آہنگی سے انجام پائی۔

شیخ الملا نے اس بات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہ آیت اللہ سیستانی کے بر وقت اور لاثانی مؤقف کی وجہ سے ویٹیکن نے ان کی قدردانی کی،کہاکہ پوپ فرانسس کے سفر میں سب سے اہم بات حضرت آیت اللہ سیستانی سے ان کی ملاقات تھی۔

عراقی علماء کونسل کے سربراہ نے اس بات پر زور دیاکہ اگر آیت اللہ سیستانی کے جہاد کفائی کا فتوی اور امریکہ کے توسط سے قتل ہونے والے ابو مہدی المہندس سمیت ہمارے اسلامی جمہوریہ ایران کے بھائیوں کی شہادت اور قربانیاں نہ ہوتیں،تو پوپ فرانسس موصل کا سفر نہیں کرسکتے تھے۔

انسانی حقوق یا فرائض کا کوئی ضابطہ یا آئین موجود نہ تھا۔ اغواء، قتل و غارت اور اپنی لڑکیوں کو زندہ در گور کرنا معمول زندگی تھا۔ ذرا سی بات پر تلواریں نکل آتیں اور خون کی ندیاں بہا دی جاتیں۔ انسانیت ہر لحاظ سے تباہی و بربادی کے کنارے پر کھڑی تھی۔ ان حالات میں رحمت حق جوش میں آئی اور حضور اکرم (ص) مبعوث بہ رسالت ہوئے۔ دنیا چشم زدن میں گہوارہ امن و امان بن گئی۔ راہزن رہنماء بن گئے۔ جاہل شتربان اور صحرا نشین جہان بان و جہان آراء بن گئے اور سرکش لوگ معلم دین و اخلاق بن گئے۔ تاریخ انسانیت کا یہ عظیم واقعہ دنیا میں ایک بڑے انقلاب کا باعث بنا اور اس نے پوری تاریخ انسانیت پر اثرات چھوڑ دیئے۔ دنیا میں انبیاء مبعوث ہوئے ہیں، انبیائے اولوالعزم مبعوث ہوئے ہیں اور بہت سے بڑے بڑے واقعات رونما ہوئے ہیں، لیکن رسول اکرم (ص) کی بعثت سے بڑھ کر کوئی واقعہ نہیں ہے اور اس سے بڑے واقعہ کے رونما ہونے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ اس عالم میں خداوند متعال کی ذات کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عظیم ہستی کوئی نہیں ہے اور آپ کی بعثت سے بڑا واقعہ بھی کوئی نہیں ہے۔ ایک ایسی بعثت کہ جو رسول خاتم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت ہے اور عالم امکان کی عظیم ترین شخصیت اور عظیم ترین الٰہی قوانین کی بعثت ہے۔
حضرت علی علیہ السلام بعثت انبیاء کےبارے میں فرماتے ہیں :اس نے پیغمبروں کو بھیجا، تاکہ اس کے بندے توحید اور صفات خدا کے بارے میں جو کچھ نہیں جانتے، سیکھ لیں اور انکار و عناد سے اجتناب کے بعد خدا کی واحدانیت، ربوبیت اور خالقیت پر ایمان لائیں۔ آپ فلسفہ نبوت کے بارے میں بعض نکات کی طرف اشارہ  فرماتے ہیں۔
1۔ خدا اور انسان کے درمیان ہونے والے عہد و پیمان کی تجدید: آپؑ فرماتے ہیں :{لیستادوا میثاق فطرته} تاکہ وہاں سے فطرت کی امانت کو واپس لیں۔
2۔ خداوند متعال کی نعمتوں کی یاد آوری:{و یذکروهم منسی نعمته} انہیں اللہ کی بھولی ہوئی نعمت یاد دلائیں۔
3۔ خداوند متعال کے پیغام کو لوگوں تک پہنچانا، تاکہ اس کے ذریعہ اتمام حجت ہوسکے، {ویحتجوا علیهم بالتبلیغ} تاکہ وہ تبلیغ کے ذریعے ان پر اتمام حجت کریں۔
4۔ لوگوں کی عقلوں کو ابھارنا اور انہیں باور کرانا : {و یثیروا لهم دفائن العقول} تاکہ وہ ان کی عقل کے دفینوں کو باہر لائیں۔
5۔ خداوند متعال کی حکمت اور قدرت کی نشانیوں کا مشاہدہ کرانا: تاکہ وہ انہیں قدرت الٰہی کی نشانیاں دکھلائیں، ان کے سروں کے اوپر موجود بلند چھت اور ان کے زیر قدم گہوارے کے ذریعے۔۔۔۔}
6۔ انبیاء کے ذریعے قابل ہدایت افراد پر اتمام حجت کرنا:  اللہ نے انبیاء کو اپنے بندوں پر اپنی حجت بنا دیا، تاکہ بندوں کو یہ بہانہ نہ ملے کہ ان کے عذر کا خاتمہ نہیں کیا گیا ہے۔
قرآن کریم اتمام حجت کے علاوہ مندرجہ ذیل امور کو بھی انبیاء کی بعثت کے اہداف میں شمار کرتا ہے:
1۔ لوگوں کو توحید کی طرف دعوت دینا اور طاغوت سے دور رکھنا: یقیناً ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا ہے، تاکہ تم لوگ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے اجتناب کرو۔
2۔ انسانی معاشرے میں عدل و انصاف نافذ کرنا: بےشک ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل کے ساتھ بھیجا ہے اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان کو نازل کیا ہے، تاکہ لوگ انصاف کے ساتھ قیام کریں۔
3۔ انسانوں کی تعلیم و تربیت: اس خدا نے مکہ والوں میں ایک رسول بھیجا ہے، جو انہی میں سے تھا، تاکہ وہ ان کے سامنے آیات کی تلاوت کرے، ان کے نفوس کو پاکیزہ بنائے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے۔
4۔ باہمی اختلاف کی صورت میں فیصلہ کرنا: (فطری لحاظ سے) سارے انسان ایک قوم تھے۔ پھر اللہ نے بشارت دینے والے اور ڈرانے والے انبیاء بھیجے اور ان کے ساتھ برحق کتاب نازل کی، تاکہ وہ لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ کریں۔
مذکورہ بالا مطالب سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ نبوت انسان کی فردی، اجتماعی، مادی اور معنوی زندگی سے مربوط ہے اور انبیاء کی ہدایت بھی انسان کی زندگی کی تمام جہات کو شامل ہے۔ اگرچہ عقل و حس بھی انسان کی ہدایت میں کردار ادا کرتی ہیں، لیکن حقیقت میں جس طرح انسان عملی و عقلی ہدایت کا محتاج ہے، اسی طرح وحی پر مبنی ہدایت کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور ان دونوں ہدایتوں کا سرچشمہ ذات الٰہی ہے، جو انسانوں پر حجت ہے۔ 

Wednesday, 10 March 2021 12:44

جناب ام فروہ

تاریخ اسلام کی باعظمت خواتین میں سے ایک باشرف خاتون جناب فاطمہ بھی ہیں جو ام فروہ کے لقب سے مشہور اور حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی زوجہ اور فرزند رسول الله صلي الله عليه و آله وسلم ، امام جعفر صادق علیہ السلام کی مادر گرامی ہیں آپ نے ان دو امام ہمام سے بہت زيادہ علوم اور فضائل و کمالات حاصل کئے ۔

بغداد کے مشہور و معروف مورخ و دانشور علی بن حسین مسعودی سے روایت ہے کہ ام فروہ اپنے زمانے کی تمام عورتوں سے فضل و کمال اور تقوی و پرہیزگاری میں ممتاز تھیں ۔

اس عظیم المرتبت خاتون کی تاريخ ولادت اور امام محمد باقر علیہ السلام سے شادی کی تاريخ کا صحیح علم نہیں ہے لیکن اس مقدس شادی کے نتیجے میں دو عظیم فرزند حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اور عبد اللہ پیدا ہوئے ۔

فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ہمیشہ اپنی مادرگرامی کے حسن عمل اور تقوی و پرہیزگاری کا ذکر فرمایا کرتے تھے آپ اپنی والدہ ماجدہ کی عظمت ایمان اور کمال معنویت کے بارے میں فرماتے ہیں : میری والدہ ماجدہ صاحب ایمان خواتین میں سے ہیں جو تقوی و پرہیزگاری سے مملو ، بہترین روش و اسلوب سے آراستہ اور نیک خاتون تھیں اور خداوندمتعال بھی نیک لوگوں کو بہت زیادہ دوست رکھتا ہے ۔

امام علیہ السلام نے اس مختصر مگر جامع قول کو سورہ نحل کی آیت ایک سو اٹھائیس سے اخذ کیا اور اپنی مادرگرامی کے نیک و پسندیدہ اوصاف کوبیان کیا ہے ۔

 

اس با فضیلت خاتون نے معرفت اور تقوی، انسانی و اخلاقی فضائل و کمالات کے بلند مقامات پر فائز ہونے کے علاوہ حضرت امام محمد باقر اور امام جعفر صادق علیہم السلام سے بے شمار حدیثیں بھی نقل کی ہیں اور ان کا شمار راویان حدیث میں ہوتا ہے۔

جناب ام فروہ ایک عقلمند و بادرایت اور با وفا خاتون تھیں روایت میں ہے کہ نوے ہجری قمری میں مدینے میں خطرناک چیچک کی بیماری پھیل گئی اور بعض بچے اس بیماری میں مبتلا ہوگئے اگر چہ فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی عمر مبارک سات برس تھی اور سات برس سے دس برس تک کے بچوں کو چیچک کی بیماری بہت ہی کم ہوتی تھی لیکن اس کے باوجود ام فروہ امام علیہ السلام سمیت اپنے تمام بچوں کو لے کر مدینے سے باہر چلی گئیں تاکہ چیچک جیسی مہلک بیماری آپ کے بچوں میں سرایت نہ کرجائے۔

قابل ذکر ہے کہ گذشتہ زمانے میں اس مہلک بیماری سے بچنے کے لئے لوگ اپنے گھربار کو چھوڑ کر ہجرت کرلیا کرتے تھے تاکہ یہ بیماری انہیں اپنی لپیٹ میں نہ لےلے۔

جناب ام فروہ اپنے بچوں کو لے کر مدینے سے کچھ فاصلے پر طنفسہ نامی علاقے میں چلی گئیں لیکن کچھ ہی دنوں بعد انہیں احساس ہوا کہ خود وہ اس بیماری میں مبتلا ہوگئیں ہیں یہ عظیم خاتون بجائے اس کے کہ اپنی فکر کرتیں انہوں نے اپنے بچوں کی حفاظت کے لئے درخواست کی کہ بچوں کو طنفسہ سے ایسی جگہ لے جائیں جہاں یہ بیماری نہ ہو۔ لہذا امام جعفر صادق علیہ السلام سمیت تمام بچوں کو وہاں سے ایک دیہات میں منتقل کردیا گیا ۔

 

ادھر مدینے میں امام محمد باقر علیہ السلام کو خبر دی گئی کہ آپ کی شریکہ حیات ام فروہ چیچک کی بیماری میں مبتلا ہیں چونکہ یہ خطرناک بیماری تھی اور اس زمانے میں اس کا علاج نہ تھا ۔امام محمد باقر علیہ السلام نے درس ختم کیا تاکہ اپنی شریکہ حیات کی عیادت کے لئے طنفسہ جائیں امام علیہ السلام نے طنفسہ جانے سے پہلے اپنے جد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر پر آئے اور ام فروہ کی شفا یابی کے لئے دعا فرمائی۔

جب ام فروہ نے اپنے شوہر نامدار کو دیکھا تو کہا کہ آپ یہاں کیوں تشریف لائے ہیں کیا آپ کو یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ میں چیچک جیسی خطرناک بیماری میں مبتلا ہوں کیا آپ نہیں جانتے کہ چیچک جیسی مہلک بیماری میں مبتلا افراد کی عیادت کے لئے نہیں جایا کرتے کیونکہ ممکن ہے وہ بیماری عیادت کرنے والے میں بھی سرایت کر جائے ۔

المختصر یہ کہ فرزند رسول امام محمد باقر علیہ السلام کی دعا سے جناب ام فروہ کو شفا نصیب ہوئی اور بیماری کا ذرہ برابر بھی اثر ان میں نہ رہا ان کی صحت یابی ایک نادر واقعہ تھا کیونکہ چیچک جیسی مہلک و خطرناک بیماری عمر رسیدہ کو بہت ہی کم ہوتی ہے اور اگر سرایت کرجائے تو مریض شفا یاب نہیں ہوتا ۔اور اس طرح سے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی دعا سے کہ جو عظمت و فضیلت کے عظیم منارہ تھے ام فروہ کو شفا نصیب ہوئی ام فروہ صحت یابی کے بعد مدینے واپس آگئیں لیکن چونکہ چیچک کی وبا ابھی تک مدینے میں تھی اس لئے اپنے ساتھ بچوں کو مدینہ نہیں لا‏ئيں-

 

جناب ام فروہ کی تاریخ ولادت معلوم نہیں ہے لیکن اس عظیم و بہادر خاتون کی قبر مدینے میں ہے ۔

 ترک شہر آدانا کی مرکزی مسجد سابانجی (Sabancı Central Mosque) ملک کی بڑی مسجدوں میں شمار ہوتا ہے ۵۲۶۰۰ مربع میٹر پر واقع ہے اور سیاحوں کے لیے اہم دیدنی مرکز میں شامل ہے . یہ مسجد سال 1998 کی قایم کی گیی ہے۔

(107 انبیا) اور ہم نے آپ کو عالمین کے لئے صرف رحمت بناکر بھیجا ہے