سلیمانی

سلیمانی

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے صدارتی تقرری کا حکم آٹھویں صدر کے عنوان سے سید ابراہیم رئیسی کو اعطا کردیا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے نئے صدر کی تقرری کے حکم میں اللہ تعالی کا شکر و سپاس ادا کرتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالی نے ایک بار پھر ایرانی عوام کو سخت ترین شرائط اور امتحان میں کامیاب قراردیا اور عوام نے انتخابات میں بھر پور شرکت کرکے  ایک ایسی شخصیت کو انتخاب کیا جس کا ماضی مدیریت کے حوالے سے درخشاں ہے اور جو علم و تقوی ، پرہیزگاری  اور پختہ عزم کی صفات سے مزين ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تقرری کے حکم میں فرمایا: میں ممتاز اور تجربہ کار عالم دین حجۃ الاسلام والمسلمین سید ابراہیم رئیسی کو ایران کے آٹھویں صدر کے عنوان سے منصوب کرتا ہوں اور اللہ تعالی کی بارگاہ میں ان  کی توفیقات میں اضافہ ، کامیابی اور کامرانی کے لئے دعا کرتا ہوں۔

رسول خدا حضرت محمد بن عبداللہﷺ نےحجاز اور یمن کے درمیان نجران نامی علاقےمیں مقیم عیسائیوں کو24 ذیحجہ 9 ہجری قمری کواللہ کی وحدانیت قبول کرنے کی دعوت دی جسے مباہلہ کہتے ہیں۔اور اس دن توحیدی عقیدے کا مشرکانہ عقیدے کا آمنا سامنا ہونا تھا ایکدوسرے کے عقیدے کے بارے میں خدا سے غضب کی دعا کرنی تھی اور توحیدی قافلے کو دیکھ کرہی مشرکوں نےدبے لفظوں میں اپنی شکست کا اعلان کیا ، اس طرح عقائد کا علمی اور عملی مناظرہ ہوا جس پر علم وعمل کا لا علمی وبی عملی پر غلبہ ہوا جسے اہل بصیرت عید مناتے ہیں۔کیونکہ اس کامیابی پر اللہ نے ایک آیت نازل فرمائی ہے۔
آیئے اس نورنی دن کے تاریخی منظر پر طائرانہ نظرکرکے اپنے اذہان اور عقیدے کو متبرک کرتے ہیں۔

 

نجرانی عیسائیوں کو اسلام کی دعوت

 ہجری کا نواں سال ہے، مکہ معظمہ اور طائف توفتح ہو چکا ہے ۔ یمن ،عمان اور اسکے مضافات کے علاقے بھی توحید کے دائرے میں آ چکے ہیں. حجاز اور یمن کے درمیان واقع نجران نامی ايک جگه ہے جہاں عیسائی مقیم ہیں اور شمالی افریقہ اور قیصر روم کی عیسائی حکومتیں ان نجرانی عیسائیوں کی پشت پناہی کررہے ہیں ، شاید اسی وجہ سے ان میں توحید کے پرچم تلے آنے کی سعادت حاصل کرنے کا جذبہ نظر نہیں آتا ہے لیکن ان پر رحمۃ للعالمین مہربان ہورہے ہیں ۔
حضرت رسول رحمتﷺنجرانی عیسائیوں کے بڑے پادری “ابو حارثہ” کے نام اپنا خط روانہ کرتے ہیں ،جس میں عیسائیوں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی جاتی ہے ۔ رسول رحمت ﷺ کا خط سربمہر ایک وفد کے ہمراہ نجران روانہ ہوتا ہے ۔
جب مدینہ سے آنحضرت کا نمایندہ خط لے کے نجران پہنچتا ہے جہاں وہ وہاں کےبڑے پادری ابو حارثہ کے ہاتھ آنحضرت کا خط تقدیم کرتا ہے ۔ ابوحارثہ خط کھول کر نہایت دقت کے ساتھ اس کا مطالعہ کرنے لگتا ہے اور فکر کی گہرایوں میں کھوجاتا ہے ۔ اس دوران شرحبیل جو کہ درایت اور مہارت میں مشهور تھا اسکو بلاوا بھیجتا ہے اس کے علاوہ علاقے کے دیگر معتبر اور ماہر اشخاص کو حاضر ہونے کو کہا جاتا ہے۔
سبھی اس موضوع پر بحث و گفتگو کرتے ہیں۔ اس مشاورتی مجلس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ساٹھ افراد پر مشتمل ایک ہیئت حقیقت کو سمجھنے کے لئے مدینہ روانہ کیا جاتا ہے جن کی قیادت ابوحارثہ بن علقمہ اورعبدالمسیح بن شرحبیل معروف بہ عاقب(علاقائی پادری)اوراهتم یا اہم بن نعمان معروف بہ سید (نجران کے سب سے بڑے قابل احترام بزرگ شخصیت) کر رہے تھے۔
نجران کا یہ قافلہ بڑی شان و شوکت اور فاخرانہ لباس پہنے مدینہ منورہ میں داخل ہوتا ہے۔ میر کارواں پیغمبر اسلامﷺکے گھر کا پتہ پوچھتا ہے، معلوم ہوتا کہ پیغمبر اپنی مسجد میں تشریف فرما ہیں ۔
نجران کا کارواں مسجد النبی میں داخل ہوتا ہے اور سبھوں کی نظر یں ان پر ٹک جاتی ہیں ۔پیغمبر نے نجران سے آئے افراد کي نسبت بے رخی ظاہر کرتے ہیں ، جو کہ ہر ایک کیلئے سوال بر انگیز ثابت ہوا ۔ ظاہر سی بات ہے کارواں کے لئے بھی ناگوار گذرا کہ پہلے دعوت دی اور اب بے رخی دکھا رہے ہیں ! آخر کیوں ۔
ہمیشہ کی طرح اس بار بھی علی7نے اس گتھی کو سلجھایا ۔ عیسائیو ں سے کہا کہ آپ فاخرانہ لباس، تجملات اور سونے جواہرات کے بغیر، عادی لباس میں آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہو جائیں ، آپکا استقبال ہوگا۔
اب کارواں عادی لباس میں حضرت کی خدمت میں حاضر ہوتا ہے ۔ اس وقت پیغمبر اسلام ﷺان کا گرم جوشی سے استقبال کرتے ہیں اور انہیں اپنے پاس بٹھاتے ہیں اورمیر کارواں ابوحارثہ سے گفتگو شروع ہوتی ہے :
ابوحارثہ: آپکا خط موصول ہوا ، مشتاقانہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں تاکہ آپ سے گفتگو کریں۔
پیغمبر ﷺ: جی ہاں وہ خط میں نے ہی بھیجا ہے اور دوسرے حکام کے نام بھی خط ارسال کرچکا ہوں اور سبھوں سے ایک بات کے سوا کچھ نہیں مانگا ہے وہ یہ کہ شرک اور الحاد کو چھوڑ کر خداے واحد کے فرمان کو قبول کرکے محبت اور توحید کے دین، اسلام کو قبول کریں ۔
ابوحارثہ: اگر آپ اسلام قبول کرنے کو ایک خدا پر ایمان لانے کو کہتے ہیں تو ہم پہلے سے ہی خدا پر ایمان رکھتے ہیں ۔
پیغمبر ﷺ: اگر آپ حقیقت میں خدا پر ایمان رکھتے ہیں تو عیسی7کو کیوں خدا مانتے ہو اور سور کے گوشت کھانے سے کیوں اجتناب نہیں کرتے ۔
ابوحارثہ: اس بارے میں ہمارے پاس بہت ساری دلائل ہیں؛ از جملہ یہ کہ حضرت عیسی علیہ السلام مردوں کو زندہ کرتے تھے ۔ اندھوں کو بینائی عطا کرتے تھے ، پیسان سے مبتلا بیماروں کو شفا بخشتے تھے ۔
پیغمبر 6: آپ نے عیسی 7 کے جن معجرات کو گنا وہ صحیح ہیں لیکن یہ سب خداے واحد نے انہیں ان اعزازات سے نوازا تھا اس لئے عیسی7کی عبادت کرنے کے بجائے اسکے خدا کی عبادت کرنی چاہئے ۔
پادری “ابوحارثہ”یہ جواب سن کے خاموش ہوا۔ اور اس دوران کاروان میں شریک کسی اور نے ظاہرا شرحبیل(عاقب) نے اس خاموشی کو توڑا ۔
عاقب -عیسی، خدا کا بیٹا ہے کیونکہ انکی والدہ مریم نے کسی کے ساتھ نکاح کئے بغیر انہیں جنم دیا ہے ۔
اس دوران اللہ نے اپنے حبیب کو اسکا جواب وحی میں فرمایا:
إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِندَ اللّهِ كَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَهُ مِن تُرَابٍ ثِمَّ قَالَ لَهُ كُن فَيَكُونُ{آل عمران /59}
عیسی کی مثال آدم کے مانند ہے؛کہ اسے (ماں ، باپ کے بغیر)خاک سے پیدا کیا گیا۔
اس پر اچانک خاموشی چھا گئ اور سبھی بڑے پادری “ابو حارثہ” کو تک رہیں ہیں اور وہ خود شرحبیل کے کچھ کہنے کے انتظار میں ہے اور خود شرحبیل خاموش سرجھکائے بیٹھا ہے۔
آخر کار اس رسوائی سے اپنے آپ کو بچانے کیلئے بہانہ بازی پر اتر آئے اور کہنے لگے ان باتوں سے ہم مطمئن نہیں ہوئےہیں اس لئے ضروری ہے کہ سچ کو ثابت کرنے کے لئے مباہلہ کیا جائے ۔ خدا کی بارگاہ میں دست بہ دعا ہو کے جھوٹے پر عذاب کی درخواست کریں۔
ان کا خیال تھا کہ ان باتوں سے پیغمبر ﷺ اتفاق نہیں کریں گے ۔ لیکن ان کے ہوش اُڑ گئے جب انہوں نے سنا:
فَمَنْ حَآجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاءنَا وَأَبْنَاءكُمْ وَنِسَاءنَا وَنِسَاءكُمْ وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَةُ اللّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ{آل عمران/61}
آپ کے پاس علم آجانے کے بعد بھی اگر یہ لوگ (عيسی کے بارے میں) آپ سے جھگڑا کریں تو آپ کہه دیں: آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے بیٹوں کوبلاو، ہم اپنی خواتین کو بلاتے ہیں اور تم اپنی عورتوں کو بلاو ، ہم اپنے نفسوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے نفسوں کو بلاو۔ پھر دونوں فریق اللہ سے دعا کریں کہ جو جھوٹا ہو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔
سچ اور جھوٹ کو اپنی حقانیت بیان کرنے کے لئے خطاب الہی ہوا ہے کہ وہ اپنے بیٹوں ، خواتین اور اپنے نفوس کو لے کے آئیں ؛ اسکے بعد مباہلہ کریں اور جھوٹے پر الہی لعنت طلب کریں گے ۔
حق ا و رباطل کی بے نظیر پرکھ قائم کرنی ہے۔ علم و عمل کا امتحان لینا ہے ۔ ظاہر اور باطن کا مظاہرہ کرنا ہے۔ دو آسمانی ادیان کے ماننے والوں کی حقیقت کو عیاں کرنا ہے کہ کس کا آسمان کے ساتھ ابھی رابطہ برقرار ہے اور کس نے یہ رابطہ منقطع کیا ہے ۔غرض طے یہ ہوا کہ کل سورج کے طلوع ہونے کے بعد شہر سے باہر (مدینہ کے مشرق میں واقع)صحرا میں ملتے ہیں ۔ یہ خبر سارے شہر میں پہیل گئ ۔

 

مباہلے کا اہتمام

 24 ذیحجہ 9ہجری آ پہنچا۔مدینہ منورہ کے اطراف و اکناف میں رہنے والےلوگ مباہلہ شروع ہونے سے پہلے ہی اس جگہ پر پہنچ گئے ۔ نجران کے نمایندے آپس میں کہتے تھے کہ ؛ اگر آج محمد ﷺاپنے سرداروں اور سپاہیوں کے ساتھ میدان میں حاضر ہوتے ہیں ، تو معلوم ہوگا کہ وہ حق پر نہیں ہے اور اگر وہ اپنے عزیزوں کو لے آتا ہے تو وہ اپنے دعوے کا سچا ہے۔
سبھوں کی نظریں شہر کے دروازے پر ٹکی ہیں ؛ دور سے مبہم سایہ نظر آنے لگا جس سے ناظرین کی حیرت میں اضافہ ہوا ، جو کچھ دیکھ رہے تھے اسکا تصور بھی نہیں کرتے تھے ۔ پیغمبر خدا ﷺ ایک ہاتھ سے حسن بن علی 8 کا ہاتھ پکٹرے اور دوسرے ہاتھ سےحسین بن علی 8کو آغوش میں لئے بڑ رہے ہیں ۔ آنحضرت کے پیچھے پیچھے انکی دختر گرامی حضرت فاطمۃ زہرا 3 چل رہی ہیں اور ان سب کے پیچھے امیر المومنین علی7ہیں۔
صحرا میں ہمہمہ اور ولولے کی صدائیں بلند ہونے لگیں کوئی کہہ رہا ہے دیکھو، پیغمبرﷺ اپنے سب سے عزیزوں کو لےآیا ہے۔دوسرا کہہ رہا ہے اپنے دعوے پر اسے اتنا یقین ہے کہ ان کو ساتھ لایا ہے ۔
اس بیچ جب بڑے پادری ابو حارثہ کی نظریں پنجتن پاک : پر پڑی تو کہنے لگا : ہاے رے افسوس اگر اس نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اسی لمحے میں ہم اس صحرا میں قہر الہی میں گرفتار ہو جائیں گے ۔دوسرے نے کہا؛تو پھراس کا سد باب کیا ہے؟
جواب ملا اس(پیغمبر خداﷺ) کےساتھ صلح کریں گے اور کہیں گے کہ ہم جزیہ دیں گے تاکہ آپ ہم سے راضی رہیں۔ اور ایسا ہی کیا گیا۔ اس طرح حق کی باطل پر فتح ہوئی ۔
مباہلہ پیغمبر کی حقانیت اور امامت کی تصدیق کا نام ہے ۔ مباہلہ پیغمبر خدا 6کےاہل بیت: کا اسلام پر آنے والے ہر آنچ پر قربان ہونے کیلئے الہی منشور کا نام ہے ۔تاریخ میں ہم اس مباہلے کی تفسیر کبھی امام علی ، کبھی امام حسن کبھی امام حسین بن علی ، کبھی امام علی بن ، کبھی امام محمد ، کبھی امام جعفر صادق ، کبھی امام موسی کاظم، کبھی امام علی بن موسی رضا ، کبھی امام محمد تقی، کبھی امام علی نقی ، کبھی امام حسن عسکری: کی شہادت اور کبھی امام مھدی 7 کی غیبت سے ملاحظہ کرتے ہیں۔ جس سے غدیر خم میں کافروں کی اسلام کی نسبت نا امیدی کی نوید کو سنتے ہیں ۔
( الیوم ییس الذین کفروا من دینکم فلا تخشوہم واخشون)[ مائدہ/1]۔
جی ہاں مباہلہ اور غدیر ہمیں اسلامی قیادت کی نشاندہی کررہے ہیں۔جسے امامت و لایت کہتے ہیں۔ اور یہی ولایت ہےجو کہاسلام کی بقا کیلئے ہر قسم کی قربانی پیش کرتے نظر آتے ہیں لیکن اسلام پر آنچ آنے نہیں دیتے ہیں ۔
آج امامت اورولایت کی آخری کڑی پردہ غیب میں ہیں اور انکی نیابت حضرت آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای مدظلہ العالی کررہے ہیں جن کی اتباع سے ہی حقیقی اسلام کی ترجمانی ممکن ہے ۔ جس طرح لبنان کے روحانی سنی عالم دین شیخ احمد الزین نے تقریب مذاہب اسلامی کی خبررساں ایجنسی کے ساتھ گفتگو میں کہا ہے کہ:” شریعت ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ ہم ولی فقیہ اور رهبر کے حامی اور تابع ہوں اسلئے ہماری صلاح اسی میں ہے کہ ہم امام خامنہ ای کے نسبت اپنےایمان اور محبت کا اظہار کریں” ایسے جذبے کا اظہار وقت کی ضرورت ہے تاکہ دور حاضر میں حق کے لبادے میں جھوٹوں کا پردہ فاش ہوسکے اور اسلام میں فوج ، فوج داخل ہونے کا سلسلہ وسیع تر ہوجائے اور مباہلہ کے جانشین بقیۃ اللہ اعظم امام مہدی عجل اللہ تعالی فرج الشریف کو خداوند اذن فرج عنایت کرکے ہر جگہ امن و امان ، صدق و صداقت اور حق و انصاف کا پرچم بلند ہو جائے ۔
اللہ کی بارگاہ میں دست بہ دعا ہیں کہ ہمیں مباہلہ میں فتح پانے والے اسلام پر عمل کرنے اور پیغمبر خداﷺکی تعلیمات کو عام کرنے والے ائمہ معصومین: کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائیں ۔ آمین

 

Tuesday, 03 August 2021 07:54

اعمال روز عید مباہلہ

چوبیسویں ذی الحجہ کا دن مشہور روایت کے مطابق24 ذی الحجہ عید مباہلہ کا دن ہے اس دن حضرت رسول نے نصارٰی نجران سے مباہلہ کیا تھا واقعہ یوں ہے کہ حضرت رسول نے اپنی عبا اوڑھی ،پھر امیرالمؤمنین -،جناب فاطمہ (س)اور حضرت حسن و حسین (ع)کو اپنی عبا میںلے لیا ۔تب فرمایا کہ یا اللہ ! ہر نبی کے اہلبیت (ع)ہوتے ہیں اور یہ میرے اہلبیت(ع) ہیں ۔ پس ان سے ہر قسم کی ظاہری و باطنی برائی کو دور رکھ اور ان کو اس طرح پاک رکھ جیسے پاک رکھنے کا حق ہے ،اس وقت جبرائیل امین(ع) آیت تطہیر لے کر نازل ہوئے اس کے بعد حضرت رسول خدا نے ان چار ہستیوں کو اپنے ساتھ لیا اور مباہلہ کے لئے نکلے ،نصاریٰ نجران نے آپ کو اس شان سے آتے دیکھا ،اور علامات عذاب کا مشاہدہ کیا تو مباہلہ سے دست بردار ہو کر مصالحت کر لی اور جزیہ دینے پر آمادہ ہو گئے ۔
آج ہی کے دن امیرالمؤمنین - نے حالت نماز میں سائل کو انگوٹھی عطا فرمائی ۔اور آپ کی شان میں آیہ مبارکہ ’’اِنَّمَاْ وَلَیُّکُمُ اﷲِ...‘‘ نازل فرمائی۔
خلاصہ کلام یہ کہ یوم مباہلہ بڑی عظمت اور اہمیت کا حامل ہے اور اس میں چند ایک اعمال ہیں ۔
﴿۱﴾غسل ۔
﴿۲﴾روزہ۔
﴿۳﴾دورکعت نماز کہ جس کا وقت، ترتیب اور ثواب عید غدیر کی نماز کی مثل ہے ،البتہ اس میں آیۃالکرسی کو ھُمْ فِیْھَا خَالِدُوْنَ تک پڑھے ۔
﴿۴﴾ دعائے مباہلہ:یہ ماہ رمضان کی دعائے سحر کے مشابہ ہے اور اسکو شیخ و سید دونوں نے نقل فرمایا ہے چونکہ ان دونوں بزرگوں کے نقل کردہ کلمات دعا میں کچھ اختلاف ہے ،لہذا یہاں ہم اسے شیخ کی کتاب مصباح کی روایت کے مطابق تحریر کر رہے ہیں ،شیخ کا کہنا ہے کہ امام جعفر صادق - نے دعائے مباہلہ کی بہت زیادہ فضیلت بیان فرمائی ہے اور وہ دعا یہ ہے :
اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ مِنْ بَهائِکَ بٲَبْهاه وَکُلُّ بَهائِکَ بَهیٌّ، اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ بِبَهائِکَ
اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیرے روشن ترین نور میں سے اور تیرا ہر نور درخشاں ہے اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تیرے
کُلِّه اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ مِنْ جَلالِکَ بِٲَجَلِّه وَکُلُّ جَلالِکَ جَلِیلٌ،
تمام نور کے واسطے اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیرے بہت بڑے جلوے میں سے اور تیرا ہر جلوہ بہت بڑا جلوا ہے
اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ بِجَلالِکَ کُلِّه اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ مِنْ جَمالِکَ بِٲَجْمَلِه وَکُلُّ
اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیرے تمام جلوہ کے واسطے اے معبود ! طلب کرتا ہوں تجھ سے تیرے بہترین جمال میں سے
جَمالِکَ جَمِیلٌ، اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ بَجَمالِکَ کُلِّه ۔ اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَدْعُوکَ کَما ٲَمَرْتَنِی
اور تیرا ہر جمال پسندیدہ و بہترین ہے اے معبود ! میں سوال کرتا ہوں تیرے پورے جمال کے واسطے اے معبود! میں پکارتا ہوں تجھے
فَاسْتَجِبْ لِی کَما وَعَدْتَنِی ۔ اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَ لُکَ مِنْ عَظَمَتِکَ
جیسا کہ تو نے حکم کیا پس میری دعا قبول کر جیسا کہ تو نے وعدہ کیا ہے اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیری بڑی بزرگی میں
بِٲَعْظَمِها وَکُلُّ عَظَمَتِکَ عَظِیمَۃٌ، اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ بِعَظَمَتِکَ کُلِّها ۔ اَللّٰهمَّ إنِّی
سے اور تیری ہر بزرگی ہی بڑی ہے اے معبود ! میں سوال کرتا ہوںتجھ سے تیری پوری بزرگی کے واسطے اے معبود! میں سوال کرتا
ٲَسْٲَلُکَ مِنْ نُورِکَ بِٲَنْوَرِه وَکُلُّ نُورِکَ نَیِّرٌ، اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَ لُکَ بِنُورِکَ کُلِّه ۔
ہوں تجھ سے تیرے روشن نور میں سے اور تیرا ہر نور روشن ہے اے معبود ! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیرے پوری نور کے واسطے
اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ مِنْ رَحْمَتِکَ بِٲَوسَعِها وَکُلُّ رَحْمَتِکَ واسِعَة، اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ
اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیری وسیع تر رحمت میں سے اور تیری ساری رحمت وسیع ہے اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے
بِرَحْمَتِکَ کُلِّها۔ اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَدْعُوکَ کَما ٲَمَرْتَنِی فَاسْتَجِبْ لِی کَما وَعَدْتَنِی ۔
تیری پوری رحمت کے واسطے اے معبود! میں دعا کرتا ہوں تجھ سے جیسے تو نے حکم کیا پس میری دعا قبول کر جیسے کہ تو نے وعدہ کیا ہے
اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ مِنْ کَمالِکَ بِٲَکْمَلِه وَکُلُّ کَمالِکَ کامِلٌ، اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ
اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیرے کامل ترین کمال میں سے اور تیرا ہر کمال ہی کامل ہے اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے
بِکَمالِکَ کُلِّه ۔ اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ مِنْ کَلِماتِکَ بِٲَ تَمِّها وَکُلُّ کَلِماتِکَ تامَّة،
تیرے پورے کمال کے واسطے اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیرے سالم ترین کلمات میں سے اور تیرے سب کلمات ہی سالم تر ہیں
اَللّٰھُمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ بِکَلِماتِکَ کُلِّھا اَللّٰھُمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ مِنْ ٲَسْمائِکَ
اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیرے پورے کلمات کے واسطے اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیرے بہت بڑے
بِٲَکْبَرِها وَ کُلُّ ٲَسْمائِکَ کَبِیرَة، اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ بِٲَسْمائِکَ کُلِّها اَللّٰهمَّ
ناموں میں سے اور تیرے سارے ہی نام بڑے ہیں اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیرے تمام تر ناموں کے واسطے اے معبود
إنِّی ٲَدْعُوکَ کَما ٲَمَرْتَنِی فَاسْتَجِبْ لِی کَما وَعَدْتَنِی ۔ اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ مِنْ
میں دعا کرتا ہوں تجھ سے جیسے تو نے حکم کیا پس قبول کر میری دعا جیسے تو نے وعدہ کیا اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے
عِزَّتِکَ بِٲَعَزِّها وَکُلُّ عِزَّتِکَ عَزِیزَة، اَللّٰھُمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ بِعِزَّتِکَ کُلِّها ۔
تیری بہت بڑی عزت میں سے اور تیری ہر عزت بہت بڑی ہے اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیری تمام تر عزت کے واسطے
اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ مِنْ مَشِیئَتِکَ بِٲَمْضاها وَکُلُّ مَشِیئَتِکَ ماضِیَة، اَللّٰهمَّ إنِّی
اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیرے ارادے میں سے جو نافذ ہونے والا ہے اور تیرا ہر ارادہ نافذ ہونے والا ہے اے معبود! میں
ٲَسْٲَلُکَ بِمَشِیئَتِکَ کُلِّها۔ اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ بِقُدْرَتِکَ الَّتِی اسْتَطَلْتَ
سوال کرتا ہوں تجھ سے تیرے پورے ارادے کے واسطے اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیری قدر ت کا جس سے تو ہر چیز پر
بِھا عَلَی کُلِّ شَیْئٍ وَکُلُّ قُدْرَتِکَ مُسْتَطِیلَۃٌ، اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ بِقُدْرَتِکَ کُلِّها ۔
قبضہ و غلبہ رکھتا ہے اور تیری ہر قدر ت قابض اور غالب ہے اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیری تمام تر قدرت کے واسطے
اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَدْعُوکَ کَما ٲَمَرْتَنِی فَاسْتَجِبْ لِی کَما وَعَدْتَنِی ۔ اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ
اے معبود! میں دعا کرتا ہوں تجھ سے جیسے تو نے حکم کیا پس قبول کر میری دعا جیسے کہ تو نے وعدہ کیا ہے اے معبود! میں سوال کرتا ہوں
مِنْ عِلْمِکَ بِٲَ نْفَذِه وَکُلُّ عِلْمِکَ نافِذٌ، اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ بِعِلْمِکَ
تجھ سے تیرے بہت جاری ہونے والے علم میں سے اور تیرا ہر علم جاری ہے اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیرے تمام تر علم
کُلِّه ۔ اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ مِنْ قَوْ لِکَ بِٲَرْضاُه وَکُلُّ قَوْلِکَ رَضِیٌّ، اَللّٰهمَّ إنِّی
کے واسطے اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیرے بڑے خوش آیند قول میں سے اور تیرا ہر قول خوش آیند ہے اے معبود! میں
ٲَسْٲَلُکَ بِقَوْلِکَ کُلِّہِ ۔ اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ مِنْ مَسائِلِکَ بِٲَحَبِّها وَکُلُّها إلَیْکَ
سوال کرتا ہوں تجھ سے تیرے پورے قول کے واسطے اے معبود! میں طلب کرتا ہوں تجھ سے تیرے محبوب ترین سوالوں میں سے اور
حَبِیبَة، اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ بِمَسائِلِکَ کُلِّها۔ اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَدْعُوکَ
وہ سبھی تیرے نزدیک محبوب ہیں اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیرے سبھی سوالوں کے واسطے اے معبود! میں دعا کرتا ہوں
کَما ٲَمَرْتَنِی فَاسْتَجِبْ لِی کَما وَعَدْتَنِی ۔ اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ مِنْ شَرَفِکَ بِٲَشْرَفِه
تجھ سے جیسے تو نے حکم کیا پس قبول کر میری دعا جیسے کہ تو نے وعدہ کیا ہے اے معبود طلب کرتا ہوں تجھ سے تیری سب سے بڑی بزرگی
وَکُلُّ شَرَفِکَ شَرِیفٌ، اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ بِشَرَفِکَ کُلِّه۔ اَللّٰهمَّ
میں سے اور تیری ہر بزرگی ہی سب سے بڑی ہے اے معبود !میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیری ساری بزرگی کے واسطے اے معبود !
إنِّی ٲَسْٲَلُکَ مِنْ سُلْطانِکَ بِٲَدْوَمِه وَکُلُّ سُلْطانِکَ دائِمٌ، اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ
میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیری سب سے دائمی سلطانی میں سے اور تیری ہر سلطانی ہی دائمی ہے اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ
بِسُلْطانِکَ کُلِّه ۔ اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ مِنْ مُلْکِکَ بِٲَ فْخَرِه وَکُلُّ مُلْکِکَ
سے تیری تمام تر سلطانی کے واسطے اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیری سب سے بڑی حکومت میں سے اور تیری تمام تر
فاخِرٌ، اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ بِمُلْکِکَ کُلِّه ۔ اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَدْعُوکَ کَما ٲَمَرْتَنِی
حکومت بڑی ہے اے معبود ! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیری ساری حکومت کے واسطے اے معبود! میں دعا کرتا ہوں تجھ سے جیسے تو
فَاسْتَجِبْ لِی کَما وَعَدْتَنِی ۔ اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَ لُکَ مِنْ عَلائِکَ بِٲَعْلاه وَکُلُّ
نے حکم کیا پس قبول کر میری دعا جیسے کہ تو نے وعدہ کیا ہے اے معبود! طلب کرتا ہوں تجھ سے تیری سب سے بڑی بلندی میں سے اور تیری ہر
عَلائِکَ عالٍ، اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ بِعَلائِکَ کُلِّه ۔ اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ مِنْ
بلندی بہت بڑی ہے اے معبود ! سوال کرتا ہوں تجھ سے تیری تمام تر بلندی کے واسطے اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیری
آیاتِکَ بِٲَعْجَبِها وَکُلُّ آیاتِکَ عَجِیبَة، اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ بِآیاتِکَ کُلِّها
سب سے عجیب تر نشانیوں میں سے اور تیری سبھی آیات عجیب ہیں اے اللہ! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیری تمام تر آیتوں کے
اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ مِنْ مَنِّکَ بِٲَقْدَمِه وَکُلُّ مَنِّکَ قَدِیمٌ، اَللّٰهمَّ إنِّی
واسطے اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیرے سب سے قدیم احسان میں سے اور تیرا ہر احسان قدیم ہے اے معبود! میں سوال
ٲَسْٲَلُکَ بِمَنِّکَ کُلِّه ۔ اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَدْعُوکَ کَما ٲَمَرْتَنِی فَاسْتَجِبْ لِی کَما
کرتا ہوں تجھ سے تیرے سارے احسان کے واسطے اے معبود! میں دعا کرتا ہوں تجھ سے جیسے تو نے حکم کیا پس قبول کر میری دعا جیسے
وَعَدْتَنِی ۔ اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ بِما ٲَ نْتَ فَیه مِنَ الشَّٲنِ وَالْجَبَرُوتِ
کہ تو نے وعدہ کیا ہے اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے اس کے واسطے جس میں تیری شان اور تیرا غلبہ ظاہر و عیاں ہے
اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ بِکُلِّ شَٲْنٍ وَکُلِّ جَبَرُوتٍ ۔ اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ بِما
اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیری ہر شان اور تیرے ہر غلبے کے واسطے اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے اس نام کے
تُجِیبُنِی بِه حِینَ ٲَسْٲَلُکَ یَا اﷲُ یَا لاَ إله إلاَّ ٲَنْتَ ٲَسْٲَلُکَ بِبَهائِ لا إله
واسطے جس سے تو جواب دیتا ہے جب میں تجھ سے مانگتا ہوں اے اللہ اے وہ کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں میں سوال کرتا ہوں لاالہ الا
إلاَّ ٲَنْتَ، یَا لا إلہَ إلاَّ ٲَ نْتَ ٲَسْٲَلُکَ بِجَلالِ لاَ إله إلاَّ ٲَنْتَ، یَا لاَ إله
انت کے نور کے واسطے اے وہ کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں میں سوال کرتا ہوں تجھ سے لاالہ الا انت کے جلال کے واسطے اے وہ کہ
إلاَّ ٲَ نْتَ ٲَسْٲَلُکَ بِلا إله إلاَّ ٲَنْتَ ۔ اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَدْعُوکَ کَما ٲَمَرْتَنِی
تیرے سوا کوئی معبود نہیں میں تجھ سے سوال کرتا ہوں لاالہ الا انت کے واسطے اے معبود میں دعا کرتا ہوں تجھ سے جیسے تو نے حکم کیا
فَاسْتَجِبْ لِی کَما وَعَدْتَنِی ۔ اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَ لُکَ مِنْ رِزْقِکَ بِٲَعَمِّه
پس قبول کر میری دعا جیسے تو نے وعدہ کیا ہے اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیرے وسیع تر رزق میں سے
وَکُلُّ رِزْقِکَ عامٌّ، اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ بِرِزْقِکَ کُلِّه ۔ اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ
اور تیرا ہر رزق وسیع ہے اے معبود میں سوال کرتا ہوں تیرے تمام رزق کے واسطے اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے
مِنْ عَطائِکَ بِٲَهنَاه وَکُلُّ عَطائِکَ هنِیئٌ، اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ بِعَطائِکَ
تیری خوشگوار عطا میں سے اور تیری ہر عطا خوشگوار ہے اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیری تمام عطا کے واسطے
کُلِّه ۔ اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ مِنْ خَیْرِکَ بِٲَعْجَلِه وَکُلُّ خَیْرِکَ عاجِلٌ، اَللّٰهمَّ
اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیری بھلائی میں سے جلد ملنے والی کااور تیری ہر بھلائی جلد ملنے والی ہے اے معبود! میں سوال
إنِّی ٲَسْٲَلُکَ بِخَیْرِکَ کُلِّه ۔ اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ بِٲَ فْضَلِه
کرتا ہوں تجھ سے تیری ساری بھلائی کے واسطے اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیرے فضل میں سے بہت بڑا فضل کا اور تیرا
وَکُلُّ فَضْلِکَ فاضِلٌ، اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ بِفَضْلِکَ کُلِّه ۔ اَللّٰهمَّ إنِّی
ہر فضل بہت بڑا ہے اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیری سارے فضل کے واسطے اے معبود! میں دعا کرتا ہوں
ٲَدْعُوکَ کَما ٲَمَرْتَنِی فَاسْتَجِبْ لِی کَما وَعَدْتَنِی ۔ اَللّٰهمَّ صَلِّ عَلَی
تجھ سے جیسے تو نے حکم کیا پس قبول کر میری دعا جیسے کہ تو نے وعدہ کیا ہے اے معبود! محمد(ص) و آل(ع) محمد(ص) پر رحمت نازل فرما
مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَابْعَثْنِی عَلَی الْاََیمانِ بِکَ وَالتَّصْدِیقِ برَسُولِکَ عَلَیْه وَآلِه اَلسَّلَامُ
اور اٹھا کھڑا کر مجھے جبکہ تجھ پر میرا ایمان ہو تیرے رسول کی تصدیق کروںان پر اور ان کی آل (ع)پر سلام ہو
وَالْوِلایَة لِعَلِیِّ بْنِ ٲَبِی طالِبٍ وَالْبَرائَة مِنْ عَدُوِّه وَالائتِمامِ بِالْاََئِمَّة مِنْ آلِ مُحَمَّدٍ
اور تصدیق کروں علی (ع)ابن ابی طالب(ع) کی ولایت کی دورر ہوں ان کے دشمنوں سے اور ائمہ(ع) کی پیروکاری کا کہ جو آل محمد(ص) میں سے ہیں
عَلَیْهمُ اَلسَّلَامُ، فَ إنِّی قَدْ رَضیْتُ بِذلِکَ یَا رَبِّ ۔ اَللّٰهمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ عَبْدِکَ
ان سب پر سلام ہو پس میں راضی ہوں اس بات پر اے پروردگار اے معبود!حضرت محمد(ص) پر رحمت فرما جو تیرے بندے اور تیرے
وَرَسُولِکَ فِی الْاََوَّلِینَ، وَصَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ فِی الْاَخِرِینَ، وَصَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ فِی
رسول(ص) ہیں پہلے لوگوں میں اور حضرت محمد(ص) پر رحمت فرما پچھلے لوگوں میں حضرت محمد(ص) پر رحمت فرما
الْمَلاََ الْاََعْلیٰ، وَصَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ فِی الْمُرْسَلِینَ ۔ اَللّٰهمَّ ٲَعْطِ مُحَمَّداً الْوَسِیلَه
افلاک اور عرش برین میں اور حضرت محمد(ص) پر رحمت فرما پیغمبروں میں اے معبود! حضرت محمد(ص) کو عطا فرما ذریعہ
وَالشَّرَفَ وَالْفَضِیلَة وَالدَّرَجَة الْکَبِیرَة اَللّٰهمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَقَنِّعْنِی
بلندی بڑائی اور بلند سے بلند تر مقام اے معبود! محمد(ص) و آل(ع) محمد(ص) پر رحمت فرما اور مجھے قانع کر
بِما رَزَقْتَنِی، وَبارِکْ لَی فِیما آتَیْتَنِی، وَاحْفَظْنِی فِی غَیْبَتِی وَکُلِّ غائِبٍ هوَ لِی ۔
اس رزق پر جو تو نے دیا برکت دے اس میں جو تو نے مجھے دیامیری حفاظت کر میری غیبت میں اور اس میں جو مجھ سے غائب ہے
اَللّٰهمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَابْعَثْنِی عَلَی الْاِیمانِ بِکَ وَالتَّصْدِیقِ بِرَسُولِکَ
اے معبود! محمد(ص) وآل(ع) محمد(ص) پر رحمت نازل فرما اور مجھے اٹھا جبکہ میرا تجھ پر ایمان ہو اور تیرے رسول(ص) کی تصدیق کروں
اَللّٰهمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وٲَسْٲَلُکَ خَیْرَ الْخَیْرِ رِضْوانَکَ وَالْجَنَّة وَٲَعُوذُ
اے معبود!محمد(ص) و آل محمد(ص) پر رحمت نازل فرما اور میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیری بہتر سے بہتر خوشنودی اور جنت کااور پناہ لیتا ہوں
بِکَ مِنْ شَرِّ الشَّرِّ سَخَطِکَ وَالنَّارِ اَللّٰهمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَاحْفَظْنِی
تیرے سخت سے سخت غضب اور جہنم سے اے معبود! محمد(ص) و آل(ع) محمد(ص) پر رحمت نازل فرما اور میری حفاظت کر
مِنْ کُلِّ مُصِیبَة وَمِنْ کُلِّ بَلِیَّة وَمِنْ کُلِّ عُقُوبَة وَمِنْ کُلِّ فِتْنَة وَمِنْ کُلِّ بَلائٍ وَمِنْ کُلِّ
ہر ایک مصیبت سے ہر ایک مشکل سے ہر ایک سزا سے ہر ایک الجھن سے ہرایک تنگی سے ہر ایک
شَرٍّ وَمِنْ کُلِّ مَکْرُوه وَمِنْ کُلِّ مُصِیبَة وَمِنْ کُلِّ آفَة نَزَلَتْ ٲَو تَنْزِلُ مِنَ السَّمائِ إلَی
برائی سے ہر ایک ناپسند امر سے ہر ایک کھٹنائی سے اورہر ایک آفت سے جو نازل ہوئی یا نازل ہو آسمان سے زمین کی
الْاََرْضِ فِی هذِه السَّاعَة وَفِی هذِه اللَّیْلَة، وَفِی هذَا الْیَوْمِ، وَفِی هذَا الشَّهرِ وَفِی
طرف اس موجودہ گھڑی میں آج کی رات میں آج کے دن میں اور اس مہینہ میں اور اس رواں
هذِه  السَّنَة اَللّٰهمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَاقْسِمْ لِی مِنْ کُلِّ سُرُورٍ وَمِنْ کُلِّ
سال میں اے معبود! رحمت نازل فرما محمد(ص) و آل محمد (ص)پر اور نصیب کر مجھے ہر ایک راحت ہر ایک
بَهجَة، وَمِنْ کُلِّ اسْتِقامَة، وَمِنْ کُلِّ فَرَجٍ، وَمِنْ کُلِّ عافِیَة، وَمِنْ کُلِّ سَلامَة، وَمِنْ
مسرت ہر طرح کی ثابت قدمی ہر ایک کشادگی ہر ایک آرام ہر طرح کی سلامتی ہر طرح
کُلِّ کَرامَة وَمِنْ کُلِّ رِزْقٍ واسِعٍ حَلالٍ طَیِّبٍ وَمِنْ کُلِّ نِعْمَة وَمِنْ کُلِّ سعَة نَزَلَتْ ٲَو
کی عزت اور ہر قسم کی روزی وسیع حلال پاکیزہ ہر طرح کی نعمت اور ہر ایک وسعت جو نازل ہوئی یا
تَنْزِلُ مِنَ السَّمائِ إلَی الْاََرْضِ فِی هذِه السَّاعَة، وَفِی هذِه اللَّیْلَة، وَفِی هذَا الْیَوْمِ،
نازل ہو آسمان سے زمین کی طرف اس موجودہ گھڑی میں آج کی رات میں آج کے دن
وَفِی هذَا الشَّهرِ وَفِی هذِه السَّنَۃِ اَللّٰهمَّ إنْ کانَتْ ذُ نُوبِی قَدْ ٲَخْلَقَتْ وَجْهی عِنْدَکَ
اس مہینے میں اور اس رواں سال میں اے معبود !اگر میرے گناہوں نے تیرے سامنے میرا چہرا پژمردہ کردیا وہ میرے اور تیرے
وَحالَتْ بَیْنِی وَبَیْنَکَ وَغَیَّرَتْ حالِی عِنْدَکَ فَإنِّی ٲَسْٲَلُکَ بِنُورِ وَجْهکَ الَّذِی لاَ یُطْفٲُ
درمیان حائل ہو گئے اور تیرے سامنے میرا حال خراب کر دیا ہے تو میں سوالی ہوں تیرے نور ذات کے واسطے جو بجھتا نہیں
وَبِوَجْه مُحَمَّدٍ حَبِیبِکَ الْمُصْطَفی، وَبِوَجْه وَ لِیِّکَ عَلِیٍّ الْمُرْتَضی، وَبِحَقِّ ٲَولِیائِکَ
اور محمد(ص) کی عزت کے واسطے جو تیرے چنے ہوئے دوست ہیں اور تیرے ولی علی مرتضی (ع)کی عزت کے واسطے اور تیرے اولیائ
الَّذِینَ انْتَجَبْتَهمْ ٲَنْ تُصَلِّیَ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَٲَنْ تَغْفِرَ لِی مَا مَضیٰ مِنْ
کے وسیلے سے جن کو تو نے پسند کیا ہے یہ کہ تو محمد(ص) و آل محمد(ص) پر رحمت نازل فرما اور یہ کہ میں جو گناہ پہلے کر چکا ہوں وہ
ذُنُوبِی، وَٲَنْ تَعْصِمَنِی فَیما بَقِیَ مِنْ عُمْرِی، وَٲَعُوذُ بِکَ اَللّٰهمَّ ٲَنْ ٲَعُودَ فِی شَیْئٍ
معاف کر دے اور باقی زندگی میں گناہوں سے مجھے محفوظ رکھ اور تیری پناہ لیتا ہوں اے اللہ اس سے کہ تیری نافرمانی کے کسی
مِنْ مَعاصِیکَ ٲَبَداً مَا ٲَبْقَیْتَنِی، حَتَّی تَتَوَفَّانِی وَٲَنَا لَکَ مُطِیعٌ وَٲَنْتَ عَنِّی راضٍ،
کام کیطرف پلٹوں جب تک تو مجھے زندہ رکھے یہاں تک کہ مجھے موت دے تو میں تیرا اطاعت گزار اور تو مجھ سے راضی ہو اور یہ کہ تو
وَٲَنْ تَخْتِمَ لِی عَمَلِی بِٲَحْسَنِه وَتَجْعَلَ لِی ثَوابَه الْجَنَّة وَٲَنْ تَفْعَلَ بِی مَا ٲَنْتَ ٲَهلُه
میرے اعمال نامے کو نیکی پر ختم کرے اور اس کے ثواب میں مجھے جنت عطا کرے نیز میرے ساتھ وہ سلوک کر جو تیرے شایاں
یَا ٲَهلَ التَّقْوی وَیَا ٲَهلَ الْمَغْفِرَة صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَارْحَمْنِی بِرَحْمَتِکَ
ہے اے بچانے والے اے پردہ پوشی کرنے والے محمد(ص) و آل محمد(ص) پر رحمت نازل فرما اور مجھ پر رحم فرما اپنی رحمت سے
یَا ٲَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ ۔
اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے ۔

﴿۵﴾دورکعت نماز اور ستر مرتبہ استغفار کے بعد شیخ و سید کی نقل کردہ وہ دعا پڑھے ،جس کا آغاز الحمد للہ رب العالمین سے ہوتا ہے ،ہر مومن اور مومنہ حضرت امیر-کی پیروی کرتے ہوئے صدقہ و خیرات کرے نیز حضرت کی زیارت پڑھے اور اس روز زیارت جامعہ کا پڑھنا زیادہ مناسب ہے ۔

 

کیا اہل سنت کے کسی مفسر نے مولی کا اولی معنی کیا ہے؟

 

جواب:

نہ صرف اہل لغت نے لفظ «مولي» کا  «أولي» معنی کیا ہے ، بلکہ اہل سنت کے مفسرین اور بزرگوں میں جنہوں نے قرآن کریم آیات کی تفسیر اور تشریح میں  خدمات انجام دیے ہیں ،انہوں نے بھی اسی حقیقت کو بیان کیا ہے۔

 ہم ذیل میں ان میں سے پندرہ شخصیات کے ناموں کا ذکر کرتے ہیں ۔

1. محمد بن اسماعيل بخاري (متوفاي 256هـ(

انہوں نے سوره حديد کی تفسیر میں نقل کیا ہے  :

قال مُجَاهِدٌ ... «مَوْلَاكُمْ» أَوْلَي بِكُمْ .[1]

مجاهد نے کہا ہے  : (مولاكم) کا معنی (اولي) اور برتری ہے  .

ابن حجر عسقلاني نے بخاري کی شرح میں لکھا ہے  :

قوله مولاكم أولي بكم قال الفراء في قوله تعالي «مأواكم النار هي مولاكم» يعني أولي بكم وكذا قال أبو عبيدة وفي بعض نسخ البخاري هو أولي بكم وكذا هو في كلام أبي عبيدة .[2]

فراء نے آيه شريفه : (ماواكم النار هي مولاكم) کی تشریح میں کہا ہے  : مولي کا معنی تم پر اولي اور برتر ہونا ہے، ابوعبيده نے بھی یہی کہا ہے بخاری کے بعض نسخوں میں «  أولي بكم » یعنی تم لوگوں پر برتر کا لفظ آیا ہے ،اسی طرح ابوعبيده کا کلام بھی ۔۔

عيني  نے عمدة القاري میں مولی کا معنی اولی اور برتر کہا ہے  :

مَوْلاكُمْ أوْلَي بِكُمْ . أشار به إلي قوله تعالي : «مأواكم النار هي مولاكم»[3]أي : ( أولي بكم ) كذا قاله الفراء وأبو عبيدة وفي بعض النسخ : مولاكم هو أولي بكم ، وكذا وقع في كلام أبي عبيدة .[4]

2. أبو عبد الرحمن سلمي (متوفاي 412هـ) :

قرن پنجم هجري کے مشہور عالم سلمی نے «هي مولاكم» کی تفسیر میں یہی لکھا ہے  :

«مأواكم النار هي مولاكم» أي أولي الأشياء بكم واقربها إليكم .[5]

تم لوگوں کا ٹھکانہ آگ ہے  ؛ ینعی تم لوگوں کے لئے زیادہ سزاوار اور تم لوگوں سے زیادہ نذدیک  .

3 . أبو القاسم القشيري (متوفاي 465هـ) :

أبو القاسم قشيري نے بھی «هي مولاكم» کی تفسیر میں مولی کا معنی اولی بکم کیا ہے : و «هي مولاكم» أي هي أوْلَي بكم .[6]

4 . علي بن احمد واحدي (متوفاي 468هـ) :

اهل سنت کے ہی مشهور مفسر ،واحدي نے اس سلسلے میں لکھا ہے :

مأواكم النار ( منزلكم النار ) هي مولاكم ( أولي بكم )[7]

تم لوگوں کا ٹھکانہ یعنی آگ تم لوگوں سے برتر اور تم لوگوں کے مناسب تر ہے .

5 . محمد بن فتوح حميدي (متوفاي 488هـ) :

حميدي کہ جو اہل سنت کے محدث ، مفسر  اور صاحب كتاب " الجمع بين الصحيحين" بھی ہے وہ  كلمه مولي کے بارے میں کہتا ہے :

ومنه قوله «ذلك بأن الله مولي الذين آمنوا » أي وليهم والقائم بأمورهم والمولي الأولي بك ودليله قوله « مأواكم النار هي مولاكم » أي هي أولي بكم .[8]

لفظ مولي جہاں اولي کے معنی میں آیا ہے ان میں سے ایک یہ والی آیت ہے « ذلك بأن الله مولي الذين آمنوا » ؛ یعنی اللہ تم لوگوں کے کاموں کو سرپرست اور تم لوگوں کے امور کو قوام بخشنے والا ہے ، اس معنی پر دلیل یہ والی آیت ہے"« مأواكم النار هي مولاكم »  یعنی آگ تم لوگوں  سے برتر اور تم لوگوں کے مناسب ہے ۔

6 . ابن عطيه اندلسي (متوفاي 546هـ) :

ابن عطيه اندلسي ، مفسر اور  نامور سني اديب ہیں انہوں نے اپنی تفسیر میں کہا ہے  :

وقوله «هي مولاكم» قال المفسرون: معناه هي اولي بكم .[9]

مفسروں نے (هي مولاكم) کے بارے میں کہا ہے : اس کا معنی اولی بکم یعنی تم لوگوں سے برتر کہا ہے ۔

7 . بيضاوي (متوفاي 685هـ) :

عبد الله بن عمر بيضاوي نے «هي مولاكم» کی تفسیر میں یہی معنی کیا ہے  :

«هي مولاكم» هي أولي بكم كقول لبيد : فغدت كلا الفرجين تحسب * أنه مولي المخافة خلفها وأمامها .[10]

8 . أبو عبد الله قرطبي (متوفاي 671هـ) :

قرطبي ، کہ جو  اهل سنت کے مایہ ناز مفسر ہیں اور آپ ان لوگوں میں سے ہے جنہوں نے مولی کا معنی«اولي» کیا ہے اور واضح طور پر کہا ہے کہ یہ لفظ اولی اور لوگوں کے امور کی سرپرستی کے معنی میں استعمال ہوا ہے اور پھر بعد میں یہ کسی چیز کے ہمراہ کے معنی میں استعمال ہوا ہے

 ( هي مولاكم ) أي أولي بكم والمولي من يتولي مصالح الإ

نسان ثم استعمل فيمن كان ملازما للشيء .[11]

9. نسفي (متوفاي 710هـ) :

، اهل سنت کے مفسر مشهور نسفي کہ جو " عقائد النسفيه " کے مصنف بھی ہے اور یہ کتاب اہل سنت کے مدارس کے کورس میں شامل ہے ،انہوں نے اپنی تفسیر میں «مولي» کی تفسیر اولی کے ذریعے کی ہے :

«هي مولاكم» هي أولي بكم .[12]

10 . علاء الدين خازن (متوفاي 725هـ) :

انہوں نے بھی «هي مولاكم» کی تفسیر میں لکھا ہے :

«هي مولاكم» أي وليكم وقيل هي أولي بكم .[13]

یہ تم لوگوں کا مولی ہے یعنی تم لوگوں کا سرپرست ہے ،یہاں اولي اور  برتر کا معنی بھی کیا ہے ۔

11 . سعد الدين تفتازاني (متوفاي791هـ) :

تفتازاني ، اديب ، مفسر و  اہل سنت کا مایہ ناز متكلم  ہے ،انہوں نے بھی  «مولي» کا معنی «اولي» کیا ہے اور یہ اعتراف کیا ہے کہ یہی معنی علم لغت کے بزرگوں کے نذدیک رائج معنی ہے ؛

ولفظ المولي قد يراد به المعتق والمعتق والحليف والجار وابن العم والناصر والأولي بالتصرف قال الله تعالي : «مأواكم النار هي مولاكم» أي أولي بكم . ذكره أبو عبيدة وقال النبي صلي الله عليه وسلم أيما امرأة نكحت نفسها بغير إذن مولاها أي الأولي بها والمالك لتدبير أمرها ومثله في الشعر كثير وبالجملة استعمال المولي بمعني المتولي والمالك للأمر والأولي بالتصرف شائع في كلام العرب منقول عن كثير من أئمة اللغة .[14]

12 . فيروز آبادي ، متوفاي 817هـ) :

اهل سنت کے معروف لغت شناس اور مفسر ،فيروز آبادي نے اس آیت «هي مولاكم» کی تفسیر میں لکھا ہے  :

«هي مولاكم» أولي بكم النار .[15]

 13 . ابن عادل حنبلي (متوفاي880هـ) :

انہوں نے بھی «هي مولاكم» کے بارے میں لکھا ہے  :

وقوله : «هِيَ مَوْلاَكُمْ» يجوز أن يكون مصدراً أي : ولايتكم , أي : ذات ولايتكم .[16]

یہ جائز ہے کہ یہاں مولاکم مصدر اور تم پر ولایت اور سرپرستی کے معنی میں ہو.

14 . جلال الدين محمد بن احمد المحلي (متوفاي 854هـ) :

جلال الدين المحلي ، نے تفسير جلالين کہ جس کو انہوں نے اور جلال الدين سيوطي نے مشترک تالیف کی ۔اس میں بھی یہی معنی نقل ہوا ہے ۔

«مأواكم النار هي مولاكم» أولي بكم .[17]

15 . محمد علي شوكاني (متوفاي 1250هـ) :

شوکانی نے بھی اصلی معنی یہی اولی بالتصرف اور سرپرستی کو قرار دیا ہے۔

«هي مولاكم» أي هي أولي بكم والمولي في الأصل من يتولي مصالح الإنسان ثم استعمل فيمن يلازمه .[18]

جیساکہ آلوسي نے اپنی کتاب میں دوسری جگہ تصریح کی ہے کہ: كلبي ، زجاج ، فراء اور أبو عبيده کہ جو علم لغت کے سب سے ماہر افراد ہیں ،انہوں نے بھی لفظ  «مولي» کا معنی «اولي» کو قرار دیا ہے  :

وقال الكلبي والزجاج والفراء وأبو عبيدة : أي أولي بكم كما في قول لبيد يصف بقرة وحشية نفرت من صوت الصائد : فغدت كلا الفرجين تحسب أنه مولي المخافة خلفها وأمامها أي فغدت كلا جانبيها الخلف والإمام تحسب أنه أولي بأن يكون فيه الخوف .[19]

مذھبی تعصب دیکھیں :

ہم ذیل میں آلوسي کی طرف سے حديث غدير پر اعتراض کو نقل کرتے ہیں تاکہ یہ پتہ چلے کہ مذھبی تعصب کیا سے کیا کرتا ہے اور آلوسی جیسا عالم کس طرح دہرا معیار اپنا لیتا ہے :

ولايخفي أن أول الغلط في هذا الاستدلال جعلهم المولي بمعني الأولي وقد أنكر ذلك أهل العربية قاطبة بل قالوا : لم يجيء مفعل بمعني أفعل أصلا ولم يُجَوِّز ذلك إلا أبو زيد اللغوي ... .[20]

کسی پر یہ بات مخفی نہیں ہے کہ اس {شیعہ موقف پر }استدلال میں پہلی غلطی یہ ہے کہ یہاں مولی کو اولی کے معنی میں قرار دیا ہے جبکہ سارے اہل لغت نے اس معنی کو قبول نہیں کیا ہے ،بلکہ اہل لغت نے یہ کہا ہے کہ مفعل ،افعل کے معنی میں کہیں بھی نہی آیا ہے ،سوای ابوزید کے کسی لغت شناس نے اس کو صحیح نہیں کہا ہے ۔

نتيجه :

اگر  لغت ، تفسير ، تاريخی علمی آثار ، اہل سنت اور اہل عرب کے بزرگوں کے آراء کو دیکھا جائے تو آلوسی جیسے لوگوں کا یہ ادعا بلکل باطل ہے۔

   واضح ہے کہ مکتب خلفاء کی طرف سے حدیث غدیر کو قبول نہ کنے کی بنیادی مشکل اور مسئلہ یہی لفظ مولی کا اولی والا معنی ہے ۔

جیساکہ مشاہدہ کیا کہ لفظ «مولي» کو  «اولي» کے معنی میں استعمال کرنے میں نہ صرف کوئی رکاوٹ نہیں بلکہ بہت سے علماء نے اس کا یہی معنی ہی لیا ہے اور بہت سے اہل لغت اور اہل تفسیر و تاریخ نے دوسری ہجری سے آج تک  اسی معنی پر تصریح کی ہے ۔

[1]. البخاري الجعفي ، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله (متوفاي256هـ) ، صحيح البخاري ، ج 4 ص 1358 ، تحقيق د. مصطفي ديب البغا ، ناشر : دار ابن كثير ، اليمامة - بيروت ، الطبعة : الثالثة ، 1407 - 1987 .

[2] . العسقلاني الشافعي ، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852هـ) ، فتح الباري شرح صحيح البخاري ، ج 8 ، ص 628 ، تحقيق : محب الدين الخطيب ، ناشر : دار المعرفة - بيروت .

[3] . الحديد : 51

[4] . العيني ، بدر الدين محمود بن أحمد (متوفاي855هـ) ، عمدة القاري شرح صحيح البخاري ، ج 19 ، ص 628 ، ناشر : دار إحياء التراث العربي - بيروت .

[5] . السلمي ، أبو عبد الرحمن محمد بن الحسين بن موسي الأزدي (متوفاي412هـ) ، تفسير السلمي وهو حقائق التفسير ، ج 2 ، ص 309 ، تحقيق : سيد عمران ، ناشر : دار الكتب العلمية - لبنان/ بيروت، الطبعة : الأولي ، 1421هـ - 2001م.

[6] . القشيري النيسابوري الشافعي ، أبو القاسم عبد الكريم بن هوازن بن عبد الملك، تفسير القشيري المسمي لطائف الإشارات ، ج 3 ، ص 380 ، ، تحقيق : عبد اللطيف حسن عبد الرحمن ، ناشر : دار الكتب العلمية - بيروت /لبنان ، الطبعة : الأولي ، 1420هـ ـ 2000م .

[7] . الواحدي ، علي بن أحمد أبو الحسن (متوفاي468هـ) ، الوجيز في تفسير الكتاب العزيز ، ج 2 ، ص 1068 ، اسم المؤلف: تحقيق : صفوان عدنان داوودي ، ناشر : دار القلم , الدار الشامية - دمشق , بيروت ، الطبعة : الأولي ، 1415هـ .

[8] . الحميدي الأزدي ، محمد بن أبي نصر فتوح بن عبد الله بن فتوح بن حميد بن بن يصل (متوفاي488هـ) ، تفسير غريب ما في الصحيحين البخاري ومسلم ، ج 1 ، ص 322 ، تحقيق : الدكتورة : زبيدة محمد سعيد عبد العزيز ، ناشر : مكتبة السنة - القاهرة - مصر ، الطبعة : الأولي ، 1415هـ - 1995م .

[9] . الأندلسي ، أبو محمد عبد الحق بن غالب بن عطية ، المحرر الوجيز في تفسير الكتاب العزيز ، ج 5 ، ص 263 ، تحقيق : عبد السلام عبد الشافي محمد ، ناشر : دار الكتب العلمية - لبنان ، الطبعة : الاولي ، 1413هـ- 1993م .

[10] . البيضاوي ، ناصر الدين أبو الخير عبدالله بن عمر بن محمد (متوفاي685هـ) ، أنوار التنزيل وأسرار التأويل (تفسير البيضاوي) ، ج 5 ، ص 300 ، ناشر : دار الفكر - بيروت .

[11] . الأنصاري القرطبي ، أبو عبد الله محمد بن أحمد (متوفاي671 ، الجامع لأحكام القرآن ، ج 17 ، ص 248 ، ناشر : دار الشعب - القاهرة .

[12] . النسفي ، أبي البركات عبد الله ابن أحمد بن محمود (متوفاي710 هـ)، تفسير النسفي ، ج 4 ، ص 217 .

[13] . البغدادي الشهير بالخازن ، علاء الدين علي بن محمد بن إبراهيم (متوفاي725هـ )، تفسير الخازن المسمي لباب التأويل في معاني التنزيل ، ج 7 ، ص 217 ، اسم المؤلف: ناشر : دار الفكر - بيروت / لبنان - 1399هـ ـ 1979م .

[14] . التفتازاني ، سعد الدين مسعود بن عمر بن عبد الله (متوفاي791هـ) ، شرح المقاصد في علم الكلام ، ج 2 ، ص 290 ، اسم المؤلف: ناشر : دار المعارف النعمانية - باكستان ، الطبعة : الأولي ، 1401هـ - 1981م .

[15] . الفيروز آبادي (متوفاي817 هـ)، تنوير المقباس من تفسير ابن عباس ، ج 1 ، ص 457 ـ 458 ، ناشر : دار الكتب العلمية - لبنان .

[16] . ابن عادل الدمشقي الحنبلي ، أبو حفص عمر بن علي (متوفايبعد 880 هـ) ، اللباب في علوم الكتاب ، ج 18 ، ص 628 ، تحقيق : الشيخ عادل أحمد عبد الموجود والشيخ علي محمد معوض ، ناشر : دار الكتب العلمية - بيروت / لبنان ، الطبعة : الأولي ، 1419 هـ ـ 1998م

[17] . محمد بن أحمد المحلي الشافعي + عبدالرحمن بن أبي بكر السيوطي (متوفاي911 هـ)، تفسير الجلالين ، ج 1 ، ص 628 ، ناشر : دار الحديث ، الطبعة : الأولي ، القاهرة .

[18] . الشوكاني ، محمد بن علي بن محمد (متوفاي1255هـ) ، فتح القدير الجامع بين فني الرواية والدراية من علم التفسير ، ج 5 ، ص 171 ، ناشر : دار الفكر - بيروت .

[19] . الآلوسي البغدادي ، العلامة أبي الفضل شهاب الدين السيد محمود (متوفاي1270هـ) ، روح المعاني في تفسير القرآن العظيم والسبع المثاني ، ج 27 ، ص 178 ، ناشر : دار إحياء التراث العربي - بيروت .

[20] . الآلوسي البغدادي ، العلامة أبي الفضل شهاب الدين السيد محمود (متوفاي1270هـ) ، روح المعاني في تفسير القرآن العظيم والسبع المثاني ، ج 6 ، ص 195 ، ناشر : دار إحياء التراث العربي - بيروت .

 

 

شب کے نصف پہر وہ اچانک خواب سے بیدار ہو جایا کرتی تھی۔ دنیا کے سامنے بظاہر خوش نظر آنے والے لڑکی اندر ہی اندر کیسے کیسے طوفاں اٹھائے ہوئے تھی، کوئی نہ جانتا تھا۔ اکثر چند جملے اس کے ذہن میں بازگشت کرتے رہتے اور وہ شب بھر سو نہ پاتی، ایسا اضطراب تھا جسے وہ آج تک کوئی نام نہ دے سکی۔ وہ جب تھوڑی دیر زیر لب مسکراتی یا زندگی کو چند لمحے محسوس کرنے کی کوشش کرتی تو ایک عظیم ہستی کے جملے اُس کے ذہن میں ٹکڑاتے *ہمیشہ اس فکر میں رہو کہ خدا نے تم سے کوئی بڑا کام لینا ہے، اگر یہ سوچ تمہارے قلب اور ذہن میں رہے گی تو تھکاوٹ، کاہلی اور نکماپن تمہارے قریب نہیں بھٹکے گا، نیز اس بات کا  احساس اپنے اندر قوی کر لو کہ تمہیں کوئی دیکھ رہا ہے اور تمہاے ایک ایک لمحے کا مشاہدہ کر رہا ہے*

وہ یہ بات اچھے سے جانتی تھی کہ بغیر ہدف کے زندگی گزارنا موت ہے، بس یہ خیال آتے ہی وہ اپنی حقیقی مادرِ جان جنابِ سیدہ فاطمہ زہراء سلام علیہا کا عطا کردہ انمول تحفہ یعنی سیاہ چادر اٹھاتی اور پھر سے خود کو کسی الہیٰ کام میں مصروف کر لیتی۔ وہ ہمیشہ خود کو یہ باور کروانے کی کوشش کرتی کہ رب نے یقیناً اُس سے بڑا کام لینا ہے، اسی لیے بچپن میں وہ ایک دفعہ موت کے کنویں سے واپس پلٹ آئی تھی اور جوانی میں بھی ایک بار پھر موت کو بہت قریب سے دیکھا تھا، یقینا یہ رب کی طرف سے اشارہ تھا کہ وہ عام موت نہیں مر سکتی۔ ہر انسان کی زندگی میں کوئی نہ کوئی خوف ہر لمحہ مسلط رہتا ہے، اُسے بس عام موت مرنے سے خوف آتا تھا۔ شہید قائد کا یہ جملہ کہ *شہادت ہمارا ورثہ ہے، جو ہماری ماؤں نے ہمیں دودھ میں پلایا ہے* ہر وقت اس کے ذہن سے ٹکڑاتا اور وہ صدق دل سے رب سے مناجات کرتی کہ رب اُسے جلد قبول کرے اور اُس کے نفس کی بہترین قیمت لگائے۔

عشاق شہداء کی وادی میں قدم رکھنے کے بعد اسے احساس ہوا کہ یہاں معاملہ کتنا سخت ہے۔ حق الناس کے ساتھ ساتھ حق النفس کی طرف بھی ہر لحظہ متوجہ رہنے کی ضرورت ہے۔ ایک شہیدہ کے حوالے سے ملتا ہے کہ وہ اپنی ڈائری کے ہر صفحے پہ لکھا کرتیں تھیں کہ *خدا دیکھ رہا ہے* سننے میں یہ جملہ کتنا مختصر ہے، مگر انسان ہر لمحہ اس جملے کو ذہن میں رکھے تو بہت سے امور کی انجام دہی سے خود کو روک لے۔ وہ جانتی تھی کہ اس وادی عشق میں ایسے ایسے نیک طینیت اور روشن چہروں والے جوان موجود ہیں، جو نہ صرف خدا کے مقربین میں سے ہیں بلکہ خدا اُن کا اس قدر عاشق ہے کہ انہیں اُن کی شہادت کی تاریخ تک سے آگاہ کر رکھا ہے۔

وہ اکثر گھنٹوں سوچتی کہ بہشتِ زہراء کا منظر کتنا پرکیف ہوتا ہوگا، جب شہداء سید الشہداء کے ہمراہ مومنین کی حاجت روائی کرتے ہوں گے اور اس سے بڑھ کر فرزندِ زہراء کی قربت نصیب ہونا کتنا بڑا اعزاز ہے۔ شہادت کے مقام و مرتبے کو سمجھنا بہت مشکل ہے۔ مقامِ شہادت اللہ کی بارگاہ میں اتنا عظیم اور بلند ہے کہ برزخ میں داخل ہونے سے قبل اس مقام کو درک نہیں کیا جا سکتا۔ شہید مرتضیٰ آوینی کہا کرتے تھے کہ *نمازِ عشق دو رکعت ہے، پہلی رکعت دنیا میں اور دوسری رکعت جنت میں، لیکن اس کے لیے خون سے وضو کرنا پڑتا ہے۔* وہ کئی سالوں سے منتظر ہے کہ اپنے لہو سے نماز عشق ادا کرے اور اپنے حقیقی محبوب سے جاملے، مگر یہ راہ اس قدر آساں نہیں۔

شہداء جہاد اصغر سے قبل جہاد اکبر میں کامیاب ہوئے۔ جہاد اکبر یعنی اپنے نفس سے جہاد کرنا۔ ہم جہاد اصغر کے لیے آمادہ ہیں مگر کوئی بھی جہاد بالنفس کی طرف مائل نہیں۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جب تک اپنے دل کو دنیا کی تمام وابستگیوں سے خالی نہیں کریں گے، اُس وقت تک شہادت جیسی سعادت کو حاصل نہیں کرسکتے۔ عشق حقیقی کی راہ پر گامزن یہ لڑکی نہیں معلوم کب لقائے الہیٰ کا جام پیے، مگر اِس سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ خدا کے لیے جینا خدا کے لیے مرنے سے کہی زیادہ مشکل ہے۔ ہم سب خدا کے لیے مرنے پر تیار ہیں مگر کیا کوئی خدا کے لیے جینے پر بھی آمادہ ہے۔؟
زندگی کا سفر کاٹنا ہے اگر، آگ پر رقص کرنے کا فن سیکھ لو 
جسم چاہے جلے، روح پھلے پھولے، جینا چاہو تو مرنے کا فن سیکھ لو

 اسلامی جمہوریہ ایران کی سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے سربراہ میجر جنرل حسین سلامی نے آج تہران کے تختی اسٹیڈیم میں کورونا ویکسینیشن سینٹر کے دورے کے دوران ایرانی کورونا  ویکسین کا پہلا ٹیکہ لگوا لیا ہے۔

اطلاعات کے مطابق میجر جنرل حسین سلامی نے آج سپاہ کے اعلی کمانڈروں کے ہمراہ تہران میں تختی اسٹیڈيم میں سپاہ کی بری فوج کی طرف سے عوامی ویکسینیشن مرکز کا دورہ کرتے ہوئے کہا کہ عوام ہمارے ولی نعمت ہیں اور ہمارا مقصد یہ ہے کہ جو کچھ ہمارے جسم و جان میں ہے وہ ہم عوام کی خدمت میں پیش کریں۔ انھوں نے کہا کہ سپاہ کے تمام اہلکار کا کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے اور ویکسین لگوانے کے سلسلے میں وزارت صحت کے عملے کے ساتھ  بھر پور تعاون جاری ہے۔

عراقی پارلیمنٹ کے نمائندے عدی الخدران نے خطے میں امریکہ کی طرف سے دہشت گردوں کی حمایت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ تکفیری دہشت گردوں کو پیشرفتہ ہتھیار فراہم کررہا ہے۔

عراقی پارلیمنٹ کے نمائندے نے کہا کہ امریکہ نے عراق اور خطے کے اسلامی ممالک میں عدم استحکام پیدا کرنے اور علاقہ کی جغرافیائی صورتحال کو تبدیل کرنے کے لئے داعش جیسے دہشت گرد گروہوں کو تشکیل دیا۔ امریکہ تکفیری دہشت گردوں کو پیشرفتہ ہتھیار فراہم کررہا ہے۔ عدی الخدران نے کہا کہ عراق کے بعض صوبوں میں داعش دہشت گردوں کی فعالیت امریکی منصوبے کے مطابق ہے۔ انھوں نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تکفیری اور وہابی دہشت گردوں کے پاس پیشرفتہ ہتھیار کہاں سے آرہے ہیں؟۔ انھوں نے کہا کہ امریکہ آج بھی عراق میں دہشت گردوں کی پشتپناہی اور انھیں پیشرفتہ ہتھیار فراہم کررہا ہے۔

حضرت امام موسیٰ كاظم علیہ السلام ، رسول مقبول حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم كے ساتویں جانشین اور ہمارے ساتویں امام ہیں ۔سلسلہ عصمت كی نویں كڑی ہیں.

آپ کے والد گرامی حضرت امام جعفر صادق علیه السلام اور مادر گرامی حضرت بی بی حمیده  خاتون هیں جو مکتب جعفری کے تربیت یافته هونے کے ناطے طهارت باطنی اور پاکیزگی روح کے اعلا درجات تک پهنچ گئی تھیں که امام جعفر صادق علیه السلام نے ان کے بارے میں فرمایا : «حمیدة مصفاة من الادناس کسبیکة الذهب ما زالت الاملاک تحرسها حتی ادیت الی کرامة من الله لی والحجة من بعدی » . [1]

حمیده خالص سونے کی مانند آلودگیوں سے پاک هیں مجھ تک پهنچنے تک فرشتے همیشه ان کی حفاظت کرتے تھے یه الله کی کرم هے مجھ پر اور میرے بعد والی حجت پر .

 امام محمد باقر علیہ السلام جناب حمیدہ خاتون كے متعلق ارشاد فرماتے ہیں: آپ دنیا میں حمیدہ اور آخرت میں محمودہ ہیں ۔

ولادت با سعادت  :

ابوبصیر کهتا هے که هم حضرت امام صادق علیه السلام کے ساتھ حج په جا رهے تھے جب ابواء کے مقام پر پهنچے تو آپ نے همارے لئے ناشتے کا اهتمام کیا  هم ناشته کرنے میں مصروف تھے اتنے میں حضرت امام صادق علیه السلام کی زوجه کی طرف سے ایک شخص خبر لے کرآیا که ان کی حالت خراب هو گئی هے اور درد زه شروع هو چکا هے چونکه آپ نے فرمایا تھا جلدی اس بارے میں خبر دوں اس لئے حاضر هوا هوں.آپ علیه السلام اسی وقت کھڑے هو گئے اور اس شخص کے ساتھ زوجه کے پاس چلے گئے تھوڑی دیر بعد واپس آگئے آپ کو شاد مان دیکھ کر هم نے مبارکباد کها اور زوجه کی صحت کے بارے میں پوچھا تو فرمایا : الله تعالی نے حمیده کو سلامتی  عطا کی هے اور مجھے ایک بیٹا دیا هے جو مخلوقات میں سب سے بهتر هے میری زوجه نے اس بچه کے بارے میں ایک مطلب مجھے بیان کیا اور گمان کررهی تھی که مجھے معلوم نهیں هے لیکن میں اس بارے میں ان سے زیاده جانتا هوں.

میں (ابو بصیر) نے اس مطلب کے بارے میں پوچھا تو فرمایا :" حمیده کهه رهی تھی که جب یه بچه پیدا هوا تو هاتھوں کو زمین پر رکھا اور سر آسمان کی طرف بلند کیا " تو میں نے حمیده  سے کها یه رسول خدا (ص) اور آپ کے بعد والے وصی کی نشانی هے .[2]

اس طرح حضرت ابو الحسن موسی کاظم علیه السلام هفتم صفر المظفر سنه 128ھ (بمطابق ۱۰نومبر ۷۴۵ء) بروز هفته سر زمین ابواء (مکه اور مدینه کے درمیان ) میں پیدا هوئے .[3] ولادت كے فوراً بعد ہی آپ نے اپنے ہاتھوں كو زمین پر ٹیك كر آسمان كی طرف رخ كركے كلمہ شہادتین زبان پر جاری فرمایا۔ یہ عمل آپ نے بالكل اسی طرح انجام دیا جس طرح آپ (ع) كے جد بزرگوار حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انجام دیا تھا۔آپ كے داہنے بازو پر یہ كلمہ ” تمت كلمۃ ربك صدقا وعدلا “ لكھا ہوا تھا۔

حضرت امام موسی بن جعفر علیه السلام کے القاب :

آپ کا نام موسی  کنیت :ابو الحسن اول، ابو الحسن ماضی، ابو ابراهیم، ابو علی، ابو اسماعیل اورآپ کے القاب :کاظم، عبدصالح، نفس زکیه، زین المجتهدین، وفی، صابر، امین اور زاهر هے. ابن شهرآشوب کهتے هیں :چونکه آپ اخلاق کریمه کے ساتھ چمک گئے اس لئے «زاهر» اور چونکه غصوں کو پی لیتے تھے اس لئے  «کاظم » مشهور هو گئے .[4]

 ولادت سے امامت تک :

حضرت امام موسی کاظم علیه السلام اپنے اجداد طاهرین کے مانند ولادت کے وقت سے هی خاندان اهلبیت (علیهم السلام ) میں ایک خورشید تابنده کی طرح چمک رهے تھےدوران بچگی سے هی آثار امامت آپ میں نمایاں تھیں حضرت امام جعفر صادق علیه السلام نے آپ کی ولادت کے بعد شیعوں کو حضرت امام موسی کاظم علیه السلام کی امامت کے متعلق آگاه فرمایا اور اس طرح فرمایا : «فعلقوا بابنی هذا المولود... فهو والله صاحبکم من بعدی ».میرے اس فرزند کے ساتھ لٹک جاو ...الله کی قسم یه میرے بعد تمهارے صاحب (امام )هیں. [5]

یعقوب بن سراج کهتا هے که "- ایک مرتبه -میں حضرت امام جعفر صادق علیه السلام کے پاس گیا تو دیکھا که آپ اپنے فرزند موسی کے گهوارے کے پاس کھڑے هیں اور آپ کا فرزند گهواره میں هے امام علیه السلام نے تھوڑی دیر ان کے ساتھ راز وگفتگوکی اور گفتگو تمام هونے کے بعد میں قریب گیا تو مجھ سے فرمایا : اپنے مولا کے پاس جا کر سلام کرو . میں نےگهواره کے نزدیک  جا کر سلام  کیا  تو موسی بن جعفر علیه السلام نے جبکه گهوارے میں تھا  اچھےانداز میں میرے سلام کا جواب دیا اور فرمایا " جا کر اپنی بیٹی کیلئے کل جو نام (حمیرا )انتخاب کیا هےتبدیل کرو  پھر میرے پاس آجاؤ  چونکه الله تعالی ایسا نام پسند نهیں کرتا  "تو میں جاکر ان کا نام تبدیل کر دیا .[6]

حضرت امام موسی کاظم اهلسنت علماء کی نظر میں:

إبن حجر الهیتمی، الصواعق المحرقة میں کهتا هے: امام موسی کاظم علیہ السلام  اپنے زمانے کے لوگوں میں بہت بڑے عابد تھے [7] أبو الفرج کهتا هے : ان کی عبادت ان کی کوشش ان کی محنت کی وجہ سے ان کو (عبد صالح ) کہا جاتا تھا ۔ [8]
ذھبی لکھتا ہے : « قد کان موسی من أجواد الحکماء و من العباد الأتقیاء» (حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام سخاوت مند حکماء اور خدا کے پرہیزگار بندوں میں سے تھے) ۔ [9] تاریخ یعقوبی میں آیا ہے :« کان موسی بن جعفر من اشد الناس عبادة »

حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام اپنے زمانے کے عابد ترین شخص تھے ۔[10]
جمال الدین محمد بن طلحہ شافعی (مطالب السوال) کتاب میں اس طرح لکھتے ہیں : ان کی عبادت مشهور اور خدا کی اطاعت و عبادت میں محتاط اور ملازم تھے ۔ شب کو سجدے میں اور صبح کو قیام کی صورت مین گزارتے تھے روز کو صدقہ اور روزے سے تمام کرتے تھے ۔ [11]
شفیق بلخی کہتا ہے : سنه ۱۴۹ ھ قمری میں حج کے انجام کے لئے نکلا اور قادسیہ پہنچا وہاں میں نے بہت بڑی جمعیت کو دیکھا جو حج انجام دینے کے لئے جانے کو آمادہ تھے جس میں ایک خوبصورت گندمی رنگ کے جوان کو دیکھا جو کمزور تھا اپنے لباس کے اوپر پشمی لباس پہنے ہوئے تھا اور اپنے پاؤں میں نعلین پہنے کنارے بیٹھا ہوا تھا میں نے اپنے آپ سے کہا یہ جوان صوفیوں میں سے ہے وہ چاہتا هے کہ لوگ راستہ بھر اس کو اپنے سر پر بٹھاے رہیں ۔
اس کے نزدیک گیا جیسے ہی اس کی نگاہ مجھ پر پڑی انھوں نے فرمایا کہ «شقیق! اجْتَنِبُوا کَثِیراً مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ» مجھ کو وہیں پر چھوڑ دیا اور اپنے راستے پر چلنے لگے ، اپنے راستے ہو لئے میں نے اپنے آپ سے کہا یہ بہت بڑی بات ہے اتنا بڑا کام انجام دیا وہ میرے دل کے اندر کی خبر دے رہا ہے اور میرا نام بھی جانتا ہے یہ بہت ہی نیک اور صالح ، خدا کا بندہ ہے میں خود اس کے پاس پہنچوں گا اور اس سے عذر خواهی کروں گا جتنی بھی جلدی کر سکا کہ ان تک پہنچ جاؤں مگر نہیں پہنچ سکا وہ میری نظروں سے غائب ہو گئے تھے ۔ جب میں واقصہ پہنچا تو دیکھا وہ نماز پڑھنے میں مشغول ہیں ان کے جسم کے تمام اعضاء و جوارح لرز رہے تھے اور آنکھوں سے اشک جاری تھا ۔ میں نے خود سے کہا یہ وہی شخص ہے میں جاتا ہوں اور ان سے معافی مانگتا ہوں ۔ میں کھڑا رہا تاکہ ان کی نماز تمام ہو جائے میں ان کی طرف گیا ۔ جیسے ہی انھوں نے مجھے دیکھا فرمانے لگے شفیق ! اس آیت کو پڑھو: وَ إِنِّی لَغَفَّارٌ لِمَنْ تابَ وَ آمَنَ وَ عَمِلَ صالِحاً ثُمَّ اهْتَدى»‏ پھر مجھے چھوڑ کر وہ اپنے راستے ہو لئے ۔
میں نے اپنے آپ سے کہا یہ جوان کوئی بہت بزرگ اور صوفی ہے ۔ یہ دوسری مرتبہ ہے کہ اس نے میرے دل کے اندر کی خبر دی ہے ۔ جب منزل زبالہ پہنچے ، تو دیکھا کہ کنواں کے کنارے ہاتھ میں کوزہ لئے کھڑے ہیں ۔ وہ چاہتے ہیں کہ کنویں سے پانی نکالیں ۔ کوزہ ہاتھ سے چھوٹ کر کنویں میں گر جاتا ہے وہ حضرت آسمان کی طرف سر اٹھا کر کہتے ہیں :
انت ربى اذا ظمئت الى الماء و قوتى اذا اردت الطعاما انت
خدایا اس کوزے کے علاوہ میرے پاس کوزہ نہیں ہے اس کو میرے پاس واپس کر دے ۔
اس وقت میں نے دیکھا کنویں کا پانی اوپر آیا ہاتھ بڑھا کر کوزے کو پانی سے بھر کر باهر نکالا ۔ وضو کیا اور چار رکعت نماز پڑھی ۔ اس کے بعد ریت کے ٹیلے کے پیچھے گئے ، اور اس ریت کو ہاتھوں سے کوزے میں ڈالا اور کوزے کو ہلا کر پی جاتے تھے ۔ میں ان کے پاس گیا اور سلام عرض کی انھوں نے میرے سلام کا جواب دیا ۔ میں نے ان کی خدمت میں عرض کی خدا نے جو آپ کو زیادہ غذا عنایت کی ہے مجھ کو بھی اس سے مستفید فرمائیں ۔ انھوں نے فرمایا : شفیق مسلسل خدا کے ظاهری و باطنی نعمتیں ہمارے شامل حال ہیں ۔ خدا کے لئے حسن ظن رکھو کوزے میری طرف بڑھایا میں نے کوزے کاپانی پیا دیکھا اس میں خوشبو دار میٹھا شربت ہے ۔ خدا کی قسم میں نے کبھی اس سے لذیذ اور خوشبوتر نہیں کھایا تھا اور نہں پیا تھا ۔ سیر بھی ہو گیا اور پیاس بھی ختم ہو گئی ۔ یہاں تک کہ کچھ روز تک بھوک ہی نہیں لگی اور نہ پانی پینے کی ضرورت محسوس ہوئی ۔ اس کے بعد ان کو نہیں دیکھا یہاں تک کہ مکہ پہنچ گیا ۔ اتفاق سے ایک رات میں نے ان کو دیکھا آدھی رات ہے اور وہ نماز پڑھنے میں مشغول ہیں ۔ اور تمام خشوع و خضوع کے ساتھ آنکھوں سے آنسو جاری ہے ۔ اس طرح وہ صبح تک تھے ۔ یہاں تک کہ اذان صبح ہوئی ، اور نماز کے لئے بیٹھے اور تسبیح خدا کرنی شروع کر دی اس کے بعد اپنی جگہ سے اٹھے اور نماز صبح پڑھی ۔ سات مرتبہ خانہ خدا کا طواف کیا اور مسجد حرام کی طرف سے باهر چلے گئے ۔ میں ان کے آگے بڑھا ۔ تو دیکھا کہ ضرورت مند اور محتاج ان کے پاس حلقہ کئے ہوئے جمع ہیں ۔ اور بہت سارے غلام ان کی خدمت میں تیار ہیں ۔ اور ان کے حکم کے منتظر ہیں ۔ ان تمام چیزوں کو اس کے خلاف دیکھ رہا ہوں جو پہلے دیکھ چکا تھا ۔ نزدیک اور دور سے لوگ پہنچ کر ان کو سلام کر رہے ہیں ۔ ایک آدمی جو ان سے بہت قریب تھا میں نے پوچھا کہ یہ کون صاحب ہیں اس نے کہا : یہ موسی بن جعفر بن محمد بن علی بن الحسین بن علی ابن ابی طالب علیہم السلام ہیں ۔ تب میں نے کہا : تب تو اس طرح کے تعجب اور حیرت انگیز کام ان بزرگوار سے ہی ہونگے ۔ [12]

 

 


[1] -) اصول کافی، ج 1 ص 477.

[2] - اصول کافی، ج 1 ص 385، حدیث 1، باب موالید ائمه و المحاسن ص 314.

[3] -  129 هجری بھی نقل هوا هے کافی ج 1 ص 476، بحار الانوار ج 48 ص 2، ارشاد مفید ص 269، کشف الغمه ج 2، ص 212 و اعلام الوری ص 286، و 310،

[4] - مناقب ابن شهرآشوب، ج 2 ص 382، کشف الغمة، ج 2 ص 212، الارشاد مفید ص 270 و فصول المهمة، ص 214.

[5] - محاسن برقی، ج 2، ص 314.

[6] - اصول کافی، ج 1، ص 310.

[7] - ابو عباس أحمد بن محمد بن محمد بن علی إبن حجر الهیتمی؛ الصواعق المحرقة، ج2، ص590-593؛ تحقیق : عبدالرحمن بن عبدالله الترکی وکامل محمد الخراط ، مؤسسة الرسالة – بیروت، اول ، 1997م.

[8] - عبد الرحمن بن علی بن محمد أبو الفرج؛ صفة الصفوة؛ تحقیق : محمود فاخوری - د.محمد رواس قلعه جی، دار المعرفة – بیروت ، دوم ، 1399ق – 1979م.

[9] - ذهبی؛ میزان الاعتدال ، ج 4 ، ص 204؛ بیروت ، دار المعرفة ، { بی تا }.

[10] - احمد بن ابی یعقوب ؛ تاریخ الیعقوبی ، ج2 ، ص414 ، قم ، مؤسسه و نشر فرهنگ اهلبیت .

[11] - نقل از مسند الامام الکاظم ، ج1، ص 6 . عطاردی ، عزیز الله ، مسند الامام الکاظم ، اول ، مشهد ، 1409ق .

[12] - عبد الرحمن بن علی بن محمد أبو الفرج؛ صفة الصفوة؛ تحقیق : محمود فاخوری - د.محمد رواس قلعه جی، دار المعرفة – بیروت

تحریر :مصطفی علی فخری

(۱)
” قال الامام موسیٰ الکاظم علیه السلام:لیس منا من لم یحاسب نفسه کل یوم “ ( ۱)
ترجمہ:
حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام فرماتے ھیں :
” جو شخص ھر روز اپنے نفس کا محاسبہ نہ کرے وہ ھم میںسے نھیں ھے “۔

(۲)
قال الامام موسیٰ الکاظم علیه السلام:” ایاک ان تمنع فی طاعت الله، فتنفق مثلیه فی معصیة الله “(۲)
ترجمہ ۔
حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام فرماتے ھیں :
” اطاعت خدا میں مال خرچ کرنے سے پرھیز نہ کرو ، ورنہ دو برابر خدا کی معصیت میں خرچ ھو جائے گا “۔

(۳)
قال الامام موسیٰ الکاظم علیه السلام:” ان الزرع ینبت فی السهل و لا ینبت فی الصفا فکذالک الحکمة تعمر فی قلب المتواضع و لا تعمر فی قلب المتکبر الجبار !“ (۳)
ترجمہ ۔
حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام فرماتے ھیں :
” جس طریقے سے زراعت نرم زمین میں ھوتی ھے نہ کہ سخت زمین میں، اسی طرح سے علم و حکمت متواضع انسان کے دل میں پروان چڑھتے ھیںنہ کہ متکبر و جبار کے “۔

(۴)
قال الامام موسیٰ الکاظم علیه السلام:الموٴمن مثل کفتی المیزان کلما زید فی ایمانه زید فی بلائه “(۴)
ترجمہ:
حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام فرماتے ھیں :
” مومن ترازو کے دو پلڑوں کے مانند ھے جتنا ایمان میں اضافہ ھو گا اتنا بلا و مصیبت میں بھی اضافہ ھو گا “۔

(۵)
قال الامام موسیٰ الکاظم علیه السلام:المصیبة للصابر واحدة و للجازع اثنتان “(۵)
ترجمہ ۔
حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام فرماتے ھیں :
”صبر کرنے والوں کے لئے ایک مصیبت ھے لیکن جزع وفزع کرنے والوں کے لئے دو مصیبتیں ھیں “۔


حوالہ:

۱۔اقوال الائمہ ج۱ ص۲۱۶
۲۔ تحف العقول ص ۳۰۵
۳۔تحف العقول ص ۲۹۶
۴۔ تحف العقول ص۸۴۴
۵۔ تحف العقول ص ۷۵۴

 

 نائیجریا کے عدالت عظمیٰ نے نا‏ئجیریا کی اسلامی تحریک کے سربراہ شیخ ابراہیم زکزاکی اور انکی اہلیہ زینب کو 6 سال کی سخت ترین اسیری کے بعد آج تمام مقدمات  باعزت بری کرنے کا حکم دے دیا ہے۔

یاد رہے کہ نائجیریا کی حکومت شیخ زکزاکی کے 6 بیٹوں سمیت سینکڑوں شیعوں کو شہید کرچکی ہے۔ واضح رہے کہ شیخ زکزاکی کی صاحبزادی سہیلہ زکزاکی  نے اس سے قبل مہر خبررساں ایجنسی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے اپنے والدین کی آزادی کے بارے میں امید کا اظہار کیا تھا۔