سلیمانی

سلیمانی

 رہبرانقلاب اسلامی کے دفتر سے وابستہ آفیشل ویب سائٹ کے مطابق رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے " لشکر فرشتگان تاریخ ساز" کے تحت قومی کانفرنس کے نام  اپنے پیغام میں اسلامی انقلاب اور مقدس دفاع کے دوران قید و بند کی صعوبتیں برادشت کرنے، اس راہ میں جسمانی معذور ہونے خصوصا اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والی خواتین کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔

آپ نے ان خواتین کو مجاہدہ، بہادر اور سرفروش قراردیا اور اسلامی انقلاب کی قابل فخر اور بلند ترین چوٹیوں سے تعبیر کیا۔

17 ہزار شہداء، غازیوں اور جانباز خواتین کی قومی کانفرنس "لشکر فرشتگان تاریخ" کے نام رہبر انقلاب اسلامی کا پیغام شہید فاؤںڈیشن میں ولی فقیہ کے نمائںدے حجت الاسلام شکری نے پڑھ کر سنایا۔

ایرانی معروف اخبار کیہان نے پوپ فرانسس کے دورہ عراق پر ایک اداریہ لکھا ہے جس کا ترجمہ پیش کیا جاتا ہے:
1۔ دنیا کے کیتھولک عیسائیوں کے پیشوا پوپ فرانسس کا دور عراق اگرچہ بجائے خود بھی دنیا کے ذرائع ابلاغ کے لئے ایک دلچسپ خبر سمجھا جاتا تھا لیکن جس چیز نے اس دورے کو مزید اہمیت دی ہے اور اس کو بہت سے ذرائع کی پہلی خبر میں تبدیل کیا ہے، وہ یہ ہے کہ انھوں نے عالم تشیع کے مرجع عالی قدر حضرت آیت اللہ سیستانی سے ملاقات کی ہے اور یہ ملاقات کل صبح نجف اشرف میں حضرت آیت اللہ سیستانی (حفظہ اللہ تعالی) کی رہائش پر انجام پائی۔ عالمی مذہبی مراکز اور سیاسی حلقوں کا خیال تھا کہ اس ملاقات میں بہت اہم اور فیصلہ کن مسائل پر بات چیت ہوگی کیونکہ حضرت آیت اللہ سیستانی عالم تشیع کے ایک نمایاں اور عالی قدر مرجع تقلید کے طور پر، جو اسلام کے دفاع و تحفظ کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں - اور پوپ فرانسس - جو عالمی کیتھولک عیسائیوں کے پیشوا ہیں - اس ملاقات کے دو فریق تھے۔
2۔ حضرت آیت اللہ سیستانی کا چھوٹا اور سادہ سا گھر، شاید پوپ کے لئے اس ملاقات کا اولین پیغام تھا۔ ایک بزرگوار شیعہ مرجع تقلید - جن کو عراق میں بہت زیادہ طاقت اور مقبولیت حاصل ہے - ایسے حال میں ایک چھوٹے اور سادہ گھر میں رہنے پر اکتفا کرچکے ہیں، کہ اس ملک میں صدام کے افسانوی اور اشرافی محلات کافی شہرت رکھتے ہیں۔
3۔ کیتھولک عیسائیوں کے پیشوا ایسے حال میں پورے امن و سکون کے ساتھ عراق میں داخل ہوئے ہیں اور حضرت آیت اللہ سیستانی سے ملاقات کے لئے نجف اشرف چلے گئے ہیں، کہ کچھ عرصہ قبل امریکی ساختہ تکفیری دہشت گرد، مغربی-عبرانی-عربی اتحاد کی افشاء شدہ پشت پناہی سے، اس ملک کے مظلوم عوام کو خاک و خون میں تڑپاتے رہے ہیں لیکن حضرت آیت اللہ سیستانی کے فتوائے جہاد کی روشنی میں عراق کے پاک باز نوجوانوں نے الحاج قاسم سلیمانی اور الحاج ابو مہدی المہندس اور ان کے ساتھی مجاہدوں کی قیادت میں، داعش کے تکفیری دہشت گردوں کا قلع و قمع کردیا تھا اور عراق کی مقدس سرزمین اور اس ملک کے باسیوں - خواہ و شیعہ یا سنی ہوں خواہ عیسائی ہوں - کو فساد اور تباہی کے ان خونخوار جرثوموں سے نجات دلائی تھی۔
4۔ پوپ فرانسس ایسے حال میں حضرت آیت اللہ سیستانی اور عراقی عوام کے مہمان بنے ہیں اور ایسے حال میں تکریم و احترام کے ساتھ ان کی پذیرائی ہورہی ہے کہ امریکہ نے نہ صرف عراقی عوام کے بزرگوار اور جان نثار مہمان الحاج قاسم سلیمانی کی حرمت کا پاس نہیں رکھا تھا بلکہ نہایت نامردی کے ساتھ، چوری چپکے ان کے اور ان کے رفیق کار ابو مہدی المہندی - جو عراق میں تکفیری دہشت گردوں سے نمٹنے میں سب سے بڑا کردار ادا کرچکے تھے - کو عراقی سرزمین پر دہشت گردانہ حملے میں شہید کردیا تھا۔
5۔ نہ صرف عراق کے مسلم عوام، اپنے آج کے امن و سلامتی کو بزرگوار مرجعیت حضرت آیت اللہ سیستانی، الحشد الشعبی اور شہید سلیمانی و شہید ابو مہدی المہندس وغیرہ کا مرہون منت سمجھتے ہیں بلکہ عراق کے عیسائیوں کا امن و سکون اور ان عراق میں عیسائی گرجاگھروں کی بقاء ان عظیم شہیدوں کی پاک بازی اور ایثار کا ثمرہ ہے۔ حضرت آیت اللہ سیستانی کے دفتر نے پوپ کی ان کے ساتھ ملاقات کے بارے میں ایک بیان جاری کیا ہے جس میں اس نکتے کی طرف اشارہ ہؤا ہے اور وہ یوں کہ "موصوف [حضرت آیت اللہ سیستانی] نے عیسائیوں کے تحفظ پر بھی زور دیا جو دوسرے عراقی شہریوں کی طرح امن و سلامتی سے بہرہ ور ہیں اور پورے بنیادی حقوق کے ساتھ عراق میں زندگی بسر کررہے ہیں"۔ اس بیان میں کہا گیا ہے کہ حضرت آیت اللہ سیستانی نے اس ملاقات کے دوران، حالیہ برسوں میں عیسائیوں سمیت ظلم و ستم کا نشانہ بننے والے تمام عراقی باشندوں کے تحفظ کے سلسلے میں دینی مرجعیت کے کردار پر روشنی ڈالی؛ بالخصوص ان ایام میں جب دہشت گردوں نے عراق کے وسیع علاقوں پر قبضہ کرلیا تھا اور وہاں مجرمانہ اقدامات کے مرتکب ہوئے۔
6۔ اور بالآخر اس ملاقات میں امام خمینی (رضوان اللہ تعالی علیہ) کے ساتھ پوپ جان پل دوئم کے نمائندے بشپ آنیبیل بوگنینی (Annibale Bugnini) کی یاد کو تازہ کر دیا جس کی طرف مختصر اشارہ، لطف سے خالی نہیں ہے:  
حضرت امام (رح) نے اس ملاقات میں پوپ جان پل دوئم کے لئے پیغام بھجوایا لیکن بدقسمتی سے جناب پوپ نے اس کا جواب نہیں دیا۔ امام خمینی(رح) نے ان سے پوچھا تھا کہ اگر حضرت عیسی (علیہ السلام) ہمارے درمیان ہوتے اور ایران اور ایرانی عوام پر ہونے والے امریکی مظالم کو دیکھتے، تو آپ بتایئے کہ وہ ہماری حمایت کرتے یا امریکہ کی؟ امام خمینی(رح) کے کلام کا متن کچھ یوں ہے:
"اگر عیسی مسیح (علیہ السلام) اس وقت ہمارے پاس ہوتے، تو جناب پوپ اور دیگر مذہبی راہنما کیا یہ احتمال دے سکتے تھے کہ جناب عیسی [امریکی صدر] کارٹر اور ایران کے معزول شاہ سے جا ملتے اور ہماری مظلوم ملت کو اپنے حال پر چھوڑ دیتے؟! جناب پوپ اور عیسائی علماء اور تمام مذاہب کے مذہبی راہنما، کیا یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر حضرت عیسی مسیح (علیہ السلام) آجائیں ہمارے پاس، تو وہ مظلوم کا ساتھ دیں گے یا ظالموں کی جماعت کا؟ قاعدہ یہ ہے - میں یہ بات حضرت عیسی (علیہ السلام) کے مقام و مرتبے کے لحاظ سے کہہ رہا ہوں - کہ مسیح کا عظیم مرتبہ تقاضا کرتا ہے کہ وہ ظالم پر اعتراض کریں، ظالم کو ظلم سے باز رکھیں۔ آپ بھی حضرت عیسی (علیہ السلام) کی امت کے علماء ہیں اور آپ کی قومیں بھی حضرت عیسی (علیہ السلام کی پیروکار ہیں، ان اقوام کو بھی حضرت عیسی (علیہ السلام) کی پیروی کریں۔ کیا [عیسائی] اقوام کا عقیدہ بھی یہی ہے کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) - نعوذ باللہ - ظالم کے ساتھ متفق ہیں؟! اور مظلوم کے خلاف ہیں؟! اور میں نہیں سمجھتا کہ ایک عیسائی ملے اور ایسی بات کرے"۔ (29 نومبر 1979ء)
یاد رہے کہ امام خمینی (رضوان اللہ تعالی علیہ) نے مورخہ 25 دسمبر 1979ء کو بھی عیسائی علماء کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے امریکی جرائم کے بعض نمونوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: "کیا جناب پوپ ان مسائل سے بخوبی واقف ہیں لیکن پھر بھی ہماری مذمت کرتے ہیں؟ یا کوئی انہیں غلط انداز سے رپورٹ دیتا ہے؟ اگر ان مسائل سے آگاہ ہیں تو وائے ہو ہمارے حال پر اور وائے ہو عیسائیت کے حال پر، اور وائے ہو عیسائی علماء کے حال پر، اور اگر آگاہ نہیں ہے تو وائے ہو ویٹیکن  (Vatican) پر"۔
7۔ عراق کے شریف عوام پر ڈھائے گئے امریکی مظالم اس قدر وسیع و عریض اور مکرر در مکرر ہیں کہ انہیں گنا نہیں جاسکتا اور ان مظالم کی فہرست بہت طویل ہے۔ چنانچہ توقع کی جاتی ہے کہ جناب پوپ فرانسس حضرت آیت اللہ سیستانی کے ساتھ ملاقات اور ظلم، تباہی اور فساد کے خلاف جدوجہد اور خونخوار اور لٹیری عالمی استکباری طاقتوں کے چنگل سے بنی نوع انسان کی نجات کے حوالے سے ان کی اصل فکرمندیوں اور اندیشوں سے آگہی، کے بعد خمینی کبیر (رضوان اللہ تعالی علیہ) کے بےجواب سوال کے لئے مناسب جواب تلاش کریں جبکہ یقینا جناب آیت اللہ سیستانی (حفظہ اللہ تعالی) کے کہے اور ان کہے سوالات کا جواب بھی ہے؛ کہ "اگر حضرت مسیح (علیہ السلام) ہمارے درمیان ہوتے، تو کیا وہ امریکہ اور حضرت عیسی (علیہ السلام) کی پیروی کے دعویدار دوسرے مغربی ممالک کے بےشمار جرائم پر خاموشی اور غیر جانبداری اختیار کرتے اور اپنی خاموشی سے امریکہ اور دوسری استکباری طاقتوں کی حمایت کرتے، یا نہیں، بلکہ مظلوم اقوام کے دفاع کے لئے آگے بڑھتے؟ اور ہاں جناب پوپ فرانسس، عالمی کیتھولک عیسائیوں کے پیشوا کے طور پر کس طرف جاتے؛ حضرت عیسی (علیہ السلام) کا ساتھ دیتے یا پھر ۔۔۔ ؟
 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: حسین شریعتمداری، روزنامہ کیہان کے ایڈیٹر انچیف
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

ے باپ منصور کارویہ جو امام جعفر صادق علیہ السّلام کے خلاف تھا اسے معلوم تھا اس کا یہ ارادہ کہ جعفر صادق علیہ السّلام کے جانشین کو قتل کر ڈالاجائے یقیناً اس کے بیٹے ھارون کو معلوم ھوچکا ھوگا . وہ تو امام جعفر صادق علیہ السّلام کی حکیمانہ وصیت کا اخلاقی دباؤ تھا جس نے منصور کے ھاتھ باندہ دیئے تھے اور شھر بغداد کی تعمیر کی مصروفیت تھی جس نے اسے اس جانب متوجہ نہ ھونے دیا تھا ورنہ اب ھارون کے لیے ان میں سے کوئی بات مانع نہ تھی . تخت سلطنت پر بیٹھ کر اپنے اقتدار کو مضبوط رکھنے کے لیے سب سے پھلے اس کے ذھن میں تصور پیدا ھوسکتا تھا کہ اس روحانیت کے مرکز کو جو مدینہ کے محلہ بنی ھاشم میں قائم ھے توڑنے کی کوشش کی جائے مگر ایک طرف امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام کامحتاط اور خاموش طرزِ عمل اور دوسری طرف سلطنت کے اندرونی مشکلات جن کی وجہ سے نوبرس تک ھارون کو بھی کسی امام کے خلاف کھلے تشدد کا موقع نھیں ملا .


شہادت

سب سے آخر میں امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام سندی بن شاھک کے قید خانے میں رکھے گئے یہ شخص بھت ھی بے رحم اور سخت دل تھا- آخر اسی قید میں حضرت کوانگور میں زھر دیا گیا- 25رجب 183ھ میں 55 سال کی عمر میں حضرت کی شھادت ھوئی۔ بعد شھادت آپ کے جسد مبارک کے ساتھ بھی کوئی اعزاز کی صورت اختیار نھیں کی گئی بلکہ حیرتناک طریقے پر توھین آمیز الفاظ کے ساتھ اعلان کرتے ھوئے آپ کی لاش کو قبرستان کی طرف روانہ کیا گیا- مگر اب ذرا عوام میں احساس پیدا ھو گیا تھا اس لئے کچھ اشخاص نے امام کے جنازے کو لے لیا اور پھر عزت و احترام کے ساتھ مشایعت کر کے بغداد سے باھر اس مقام پر جواب کاظمین کے نام سے مشھور ھے، دفن کیا

مؤلف: تبیان ڈاٹ نیٹ

آپ کا اسمِ گرامی موسیٰ اور لقب کاظم ہے ۔ آپکی والدۂ گرامی اپنے زمانے کی با عظمت خاتون جناب حمیدہ خاتون تھیں آپکے والدِ گرامی امام جعفر صادق تھے آپ کی ولادت ۱۲۸ھ میں مدینہ کے نزدیک ابواء نامی قریہ میں ہوئی آپ نے مختلف حکاّم دنیاکے دور میں زندگی بسر کی آپ کا دور حالات کے اعتبار سے نہایت مصائب اور شدید مشکلات اور خفقان کا دور تھاہرآنے والے بادشاہ کیامام پرسخت نظر تھی لیکن یہ آپ کا کمالِ امامت تھا کہ آپ انبوہ مصائب کے دورمیں قدم قدم پر لوگوں کو درس علم وہدایت عطافرماتے رہے ، اتنے نامناسب حالات میں آپ نے اس دانشگاہ کی جوآپ کے پدر بزرگوارکی قائم کردہ تھی پاسداری اور حفاظت فرمائی آپ کا مقصد امت کی ہدایت اورنشرعلوم آل محمد تھا جس کی آپ نے قدم قدم پر ترویج کی اور حکومت وقت توبہرحال امامت کی محتاج ہے ۔
چنانچہ تاریخ میں ملتا ہے کہ ایک مرتبہ مہدی جو اپنے زمانے کا حاکم تھا مدینہ آیا اور امام مو سیٰ کاظم سے مسٔلۂ تحریم شراب پر بحث کرنے لگا وہ اپنے ذہنِ ناقص میں خیال کرتا تھا کہ معاذاللہ اس طرح امام کی رسوائی کی جائے لیکن شاید وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ یہ وارث باب مدینتہ العلم ہیں چنانچہ امام سے سوال کرتا ہے کہ آپ حرمتِ شراب کی قران سے دلیل دیجیے ٔ امام نے فرمایا ’’خداوند سورۂ اعراف میں فرماتا ہے اے حبیب !کہہ دو کہ میرے خدا نے کارِ بد چہ ظاہر چہ مخفی و اثم و ستم بنا حق حرام قرار دیا ہے اور یہا ں اثم سے مراد شراب ہے ‘‘ امام یہ کہہ کر خاموش نہیں ہوتے ہیں بلکہ فرماتے ہیں خدا وند نیز سورۂ بقر میں فرماتا ہے اے میرے حبیب !لوگ تم سے شراب اور قمار کے بارے میں سوال کرتے ہیں کہہ دو کہ یہ دونوں بہت عظیم گناہ ہے اسی وجہ سے شراب قرآن میں صریحاً حرام قرار دی گئی ہے مہدی، امام کے اس عالما نہ جواب سے بہت متأثر ہوا اور بے اختیارکہنے لگا ایسا عالمانہ جواب سوائے خانوادۂ عصمت و طہارت کے کوئی نہیں دے سکتا یہی سبب تھا کہ لوگوں کے قلوب پر امام کی حکومت تھی اگر چہ لوگوں کے جسموں پر حکمران حاکم تھے ۔ہارون کے حالات میں ملتا ہے کہ ایک مرتبہ قبرِ رسول اللہ پر کھڑ ے ہو کر کہتا ہے اے خدا کے رسول آپ پر سلام اے پسرِ عمّو آپ پر سلام ۔وہ یہ چاہتا تھا کہ میرے اس عمل سے لوگ یہ پہچان لیں کہ خلیفہ سرور کائنات کا چچازاد بھائی ہے ۔اسی ہنگام امام کاظم قبر پیغمبر کے نزدیک آئے اورفرمایا’’اے اﷲکے رسول! آپ پرسلام‘‘اے پدر بزرگوار! آپ پرسلام‘‘ ہارون امام کے اس عمل سے بہت غضبناک ہوا۔فوراً امام کی طرف رخ کر کے کہتا ہے ’’آپ فرزند رسول ہونے کادعوہ کیسے کرسکتے ہیں ؟جب کہ آپ علی مرتضیٰ کے فرزندہیں ۔امام نے فرمایاتونے قرآن کریم میں سورۂ انعام کی آیت نہیں پڑ ھی جس میں خدا فرماتا ہے ’’قبیلۂ ابراہیم سے داؤد، سلیمان، ایوب، یوسف، موسیٰ، ہارون، زکریا، یحییٰ، عیسیٰ، اورالیاس یہ سب کے سب ہمارے نیک اورصالح بندے تھے ہم نے ان کی ہدایت کی اس آیت میں اللہ نے حضرت عیسیٰ کو گزشتہ انبیاء کا فرزند قرار دیا ہے ۔حالانکہ عیسیٰ بغیرباپ کے پیدا ہوئے تھے ۔حضرت مریم کی طرف سے پیامبران سابق کی طرف نسبت دی ہے اس آیۂ کریمہ کی روسے بیٹی کابیٹا فرزندشمار ہوتا ہے ۔ اس دلیل کے تحت میں اپنی ماں فاطمہ کے واسطہ سے فرزند نبی ہوں ۔اس کے بعدامام فرماتے ہیں کہ اے ہارون!یہ بتاکہ اگر اسی وقت پیغمبردنیا میں آجائیں اور اپنے لئے تیری بیٹی کا سوال فرمائیں تو تو اپنی بیٹی پیغمبرکی زوجیت میں دے گایا نہیں ؟ہارون برجستہ جواب دیتا ہے نہ صرف یہ کہ میں اپنی بیٹی کوپیامبر کی زوجیت میں دونگا بلکہ اس کارنامے پرتمام عرب و عجم پر افتخار کرونگا امام فرماتے ہیں کہ تو اس رشتے پر تو سارے عرب و عجم پر فخر کریگا لیکن پیامبر ہماری بیٹی کے بارے میں یہ سوال نہیں کر سکتے اسلئے کہ ہماری بیٹیاں پیامبر کی بیٹیاں ہیں اور باپ پر بیٹی حرام ہے امام کے اس استدلال سے حاکم وقت نہایت پشیمان ہوا ۔امام موسیٰ کاظم نے علم امامت کی بنیاد پر بڑ ے بڑ ے مغروراورمتکبربادشا ہوں سے اپنا علمی سکّہ منوالیا امام قد م قدم پرلوگوں کی ہدایت کے اسباب فراہم کرتے رہے ۔چنانچہ جب ہارون نے علی بن یقطین کو اپناوزیربنانا چاہا اورعلی بن یقطین نے امام موسیٰ کاظم سے مشورہ کیا تو آپ نے اجازت دیدی امام کا ہدف یہ تھا کہ اس طریقہ سے جان و مال و حقوق شیعیان محفوظ رہیں ۔امام نے علی بن یقطین سے فرمایا تو ہمارے شیعوں کی جان و مال کو ہارون کے شر سے بچانا ہم تیری تین چیزوں کی ضمانت لیتے ہیں کہ اگرتونے اس عہد کو پورا کیا توہم ضامن ہیں ۔تم تلوارسے ہرگز قتل نہیں کئے جاؤگے ۔ہرگزمفلس نہ ہو گے ۔ تمہیں کبھی قید نہیں کیا جائے گا۔علی بن یقطین نے ہمیشہ امام کے شیعوں کو حکومت کے شرسے بچایا اورامام کاوعدہ بھی پورا ہوا۔نہ ہارون، پسر یقطین کوقتل کرسکا۔نہ وہ تنگدست ہوا۔نہ قید ہوا۔لوگوں نے بہت چاہاکہ فرزند یقطین کو قتل کرادیاجائے لیکن ضمانتِ امامت، علی بن یقطین کے سرپرسایہ فگن تھی ۔ چنانچہ تاریخ میں ملتا ہے کہ ایک مرتبہ ہارون نے علی بن یقطین کو لباس فاخرہ دیا علی بن یقطین نے اس لباس کو امام موسیٰ کاظم کی خدمت میں پیش کر دیامولا یہ آپ کی شایانِ شان ہے ۔امام نے اس لباس کو واپس کر دیا اے علی ابن یقطین اس لباس کو محفوظ رکھو یہ برے وقت میں تمہارے کام آئے گا ادھر دشمنوں نے بادشاہ سے شکایت کی کہ علی ابن یقطین امام کاظم کی امامت کا معتقد ہے یہ ان کو خمس کی رقم روانہ کرتا ہے یہاں تک کہ جو لباس فاخرہ تو نے علی ابن یقطین کو عنایت کیا تھا وہ بھی اس نے امام کاظم کو دے دیا ہے ۔بادشاہ سخت غضب ناک ہوا اور علی ابن یقطین کے قتل پر آمادہ ہو گیا فورا ًعلی ابن یقطین کو طلب کیا اور کہا وہ لباس کہاں ہے جو میں نے تمہیں عنایت کیا تھا ؟علی ابن یقطین نے غلام کو بھیج کر لباس، ہارون کے سامنے پیش کر دیا ہارون بہت زیادہ خجالت زدہ ہو ا یہ ہے تدبیر امامت اور علم امامت۔ خدا ہم سب کو علوم ومعارفِ آل محمد سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے
 

 

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ نے عورت کے ساتھ سختی سے پیش آنے سے منع فرمایا ہے اور خولہ بنی اسود کے ایک جواب میں جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ سے سوال کیا گیا کہ عورت کے حقوق کیا ہیں ؟ فرمایا جو خود کھائے تمہیں بھی کھلائے اور تمہیں لباس فراہم کرے اور نہ تمہارے اوپر چلائے ۔

جبکہ دوسری روایت میں فرمایا : میری امت کے اچھے مرد وہ ہیں جو اپنے اہل کی توہین نہیں کرتے ، ان سے انس رکھتے ہیں اور ان پر ظلم نہیں کرتے ۔

اسی طرح گھریلو مشاکل کے حلول کا سب سے بڑا طریقہ صبر و استقامت ہے کیونکہ بے احترامی و سزاواری سے جھگڑا مزید طول پکڑتا ہے اور حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ جس نے اپنی اہلیہ سے ایک لفظ کو برداشت کیا اللہ تعالیٰ اس سے جہنم کی آگ کو دور کرے گا اور جنت واجب کرے گا۔

اور اسی طرح زوجہ کی بے اخلاقی پر صبر کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ نے فرمایا جس نے اپنی زوجہ کی اذیت پر صبر کیا اسے اللہ تعالیٰ حضرت ایوب علیہ السلام کے صبر کے برابراجر عطاء فرمائے گا ۔

تحریر: سید محمد رضوی، 

ہفتے کے دن دنیا کے 1/2 ارب کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا اور ویٹکن کے سربراہ پوپ فرانسس نے نجف اشرف ميں عالم تشیع کے گرانقدر مرجع دینی آيت الله العظمیٰ سیستانی مدظلہ سے ملاقات کی۔ 45 منٹ دورانئے کی اس ملاقات میں دونوں مذہبی پیشواؤں نے عالم انسانیت کو درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے دینی رہنماؤں کو اپنا کردار ادا کرنے پر زور دیا۔ پوپ فرانسس جو عراق کے دورے پر ہیں، پرانے نجف میں آیت‌ الله العظمیٰ سیستانی سے ملاقات کے لئے ان کے گھر آئے تھے۔ اس ملاقات کی ایک اہمیت وہ پرامن ماحول ہے، جو شیعہ مرجعیت کی بدولت فراہم ہوا اور پوپ کے دورہ عراق کو عملی جامہ پہنایا جاسکا ہے۔ داعش کے خلاف جہاد پر مبنی آیت الله العظمیٰ سیستانی کے فتوے اور آیت الله العظمیٰ خامنہ ای کے عملی اقدام کے ذریعے داعش کے دہشتگرد گروپ کا قلع قمع کیا گیا، جس نے عراق اور شام کے وسیع علاقوں پر قبضہ کرکے انسانیت سوز مظالم کا بازار گرم کر رکھا تھا۔

مرجعیت کی سرپرستی میں قائم ہونے والی عوامی رضاکار فورسز الحشد الشعبی میں شیعہ سنی مسلمانوں کے شانہ بشانہ مسیحی دستوں نے بھی اپنے ملک اور عزت و ناموس کے دفاع میں حصہ لیا تھا۔ پوپ فرانسس نے بھی اپنے دورے میں حشد الشعبی کے مسيحی رضا کاروں کی قدردانی کرتے ہوئے ان کو تحفے دیئے ہیں۔ نجف اشرف کی دینی مرجعیت اور آسمانی ادیان کے پیروؤں کے درمیان مفاہمت کی تاریخ پرانی ہے، چنانچہ 14 ويں صدی کے مرجع اعظم آیت‌ الله العظمیٰ محسن الحکیم (رہ) نے اہل کتاب کی ذاتی طہارت پر مبنی فتویٰ جاری کیا تھا۔ مسیحی دنیا خاص طور پر عالم عرب کے مسیحیوں میں اس فتوے کے دور رس اثرات مرتب ہوئے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ آیت الله العظمیٰ حکیم (رہ) کی وفات پر مسیحیوں کے وفود نے فاتحہ خوانی اور تعزیتی مجالس میں شرکت کی تھی، جو 40 دنوں تک نجف اشرف ميں جاری رہیں، ان میں ان کے اعلیٰ پائے کے اساقفہ اور پیشوا بھی شامل تھے۔

عالم مسیحیت اور عالم اسلام کے دو عظیم رہنماؤں کی حالیہ ملاقات بھی دنیا کے معروضی حالات کے تناظر میں، خاص طور پر انسانیت دشمن عناصر، ظالم طاقتوں اور تکفیری و دہشتگردانہ سوچ رکھنے والوں کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملانے میں ممد و معاون ثابت ہوگی۔ ملاقات کے دوران پوپ فرانسس نے عراق کے مذہبی و نسلی گروہوں کے درمیان یکجہتی کے قیام اور دہشتگردوں کے مقابلے میں ان کے تحفظ کے حوالے سے آیت الله سیستانی کے کردار کو سراہا۔ ملاقات میں اقوام عالم اور مختلف ادیان و مذاہب کے پیروؤں کے درمیان امن و بھائی چارے کی فضا قائم رکھنے پر زور دیا گیا۔ اسی طرح اس دور میں عالم انسانیت کو درپیش بڑے چیلنجز اور ان چیلنجز پر قابو پانے کے لئے الله تعالیٰ اور اس کی طرف سے آنے والے رسولوں پر ایمان اور عظیم اخلاقی اقدار پر عمل کی اہمیت کے حوالے سے گفتگو کی گئی۔

اس تاریخی ملاقات کے حوالے سے آیت الله العظمیٰ سیستانی کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ سید سیستانی نے دنیا کے مختلف ممالک میں  لوگوں پر ہونے والے ظلم و جبر، غربت و افلاس اور دینی و نظریاتی شدت پسندی، بنیادی آزادیوں سے محرومی اور اجتماعی عدالت کے فقدان پر روشنی ڈالی۔ اسی طرح آپ نے مشرق وسطیٰ میں جنگ، پرتشدد کارروائیوں، اقتصادی پابندیوں اور ہجرت پر مجبوری جیسے مسائل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مقبوضہ فلسطین کے مظلوم عوام کا ذکر کیا۔ آیت الله العظمی سیستانی نے ان مسائل اور چیلنجوں سے نبردآزما ہونے کے لئے دینی رہنماؤں اور روحانی پیشواؤں کے کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان سے یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ ان مسائل کے حل کے لئے متعلقہ اشخاص و حلقوں، خاص طور پر بڑی طاقتوں پر زور دیں گے کہ وہ عقل و منطق اور حکمت کو جنگ و جدال پر ترجیح دیں اور اپنے ذاتی مفادات کی خاطر دیگر اقوام کی باعزت اور آزادانہ زندگی کے حقوق کو پامال کرنے اور اپنے مفادات کو توسیع دینے سے گریز کریں۔

آپ نے پرامن بقائے باہمی اور انسانی ہمدردی کے اقدار کو معاشروں میں فروغ دینے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا: یہ سب کچھ تب ہوگا جب مختلف ادیان و مذاہب اور مکاتب فکر کے ماننے والے باہمی احترام کا رشتہ برقرار رکھیں اور ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھیں۔ بیان کے مطابق ملاقات میں سید سیستانی نے عراق کے حیثیت اور اس کی عظیم تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے مختلف ادیان و مذاہب سے تعلق رکھنے والی عراقی اقوام کی خصوصیات کی جانب بھی اشارہ کیا۔ مرجع عالی قدر نے اس امید کا بھی اظہار کیا کہ ان شاء الله عراق موجودہ مشکل حالات سے بہت جلد سرخرو ہوکر نکلے گا۔ آپ نے فرمایا کہ مرجعیت اس بات پر زور دیتی ہے کہ عراق کے مسیحی بھی دیگر تمام عراقی شہریوں کی طرح امن و سلامتی اور تمام آئینی و دستوری آزادیوں کے ساتھ زندگی گزاریں۔

اس سلسلے میں گذشتہ سالوں میں ان ادیان و مذاہب کے پیروؤں کو داعش کے ظلم و ستم سے بچانے کے لئے مرجعیت کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات کی جانب بھی اشارہ کیا گیا۔ خاص طور پر اس دور کا ذکر کیا گیا، جب عراق کے مخلتف صوبوں کے بڑے حصوں پر دہشتگردوں نے قبضہ کیا تھا اور ایسی مجرمانہ کارروائیاں کی گئیں، جن سے جبین انسانیت شرم سے جھگ جاتی ہے۔ بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ آیت‌ الله العظمی سیستانی نے پوپ فرانسس اور کیتھولک کلیسا کے ماننے والوں اور تمام عالم بشریت کے لئے خير سگالی و سعادت کا اظہار کیا اور ملاقات کے لئے سفر کی تھکاوٹ برداشت کرتے ہوئے نجف اشرف تشریف لانے پر  پوپ فرانسس کا شکریہ ادا کیا۔

تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

غاصب صہیونی حکومت مدتوں سے ایران کے خلاف مختلف بے بنیاد پروپیگنڈے کرتی چلی آرہی ہے، لیکن آج تک نہ اس میں کوئی سچ ثابت ہوا اور نہ ہی اسے اس سازش میں کسی قسم کی کامیابی نصیب ہوئی۔ 25 فروری کو ایک مال بردار بحری جہاز جو صہیونی حکومت کا تھا لیکن اس پر برطانوی پرچم نصب تھا، یہ مشکوک بحری جہاز عمان سی میں مخصوص ہدف کے لیے موجود تھا، تاہم دھماکے کا شکار ہوگیا۔ غاصب صہیونی حکومت اس بحری جہاز کی اصل ملکیت کو خفیہ رکھ کر اسے مخصوص اہداف و مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتی تھی، لیکن دھماکے کے بعد مجبور ہوگئی کہ حقیقت کا اعتراف کرے۔ صہیونی ٹی وی نے ایک بریکنگ نیوز میں اعلان کیا کہ "ایم وی بلیوس زی" نامی بحری جہاد اسرائیلی خفیہ تنظیم کے سربراہ یو سی کوہن کے قریبی دوست کی ملکیت ہے۔ غاصب صہیونی حکومت کے وزیراعظم نیتن یاہو نے بھی بغیر کسی تحقیق اور ثبوت کے ایران پر اس دھماکے کا الزام تھونپ دیا۔

اقوام متحدہ میں ایران کے مستقل نمائندے مجید تخت روانچی نے اس تناظر میں یو این او کے سیکرٹری جنرل کے نام خط اور سلامتی کونسل کے نام مراسلے میں ایران کے خلاف اس الزام کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے سختی سے مسترد کیا ہے۔ تخت روانچی نے اس خط میں تاکید کی ہے کہ حملے کے انداز اور طریقہ کار سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ان مشکوک عناصر کا کام ہے، جو اشتعال انگیز اور شیطانی پالیسیوں سے اپنے ناجائز مفادات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ غاصب صہیونی حکومت اس وقت مختلف داخلی اور خارجی بحرانوں کا سامنا کر رہی ہے۔ لہذا اس کا قوی امکان ہے کہ وہ بحری جہاز پر حملے کا ذمہ دار ایران کا ٹھہرا کر نہ صرف مظلوم بننا چاہتی ہے بلکہ ملکی اور عالمی رائے عامہ کی توجہ منحرف کرنے کی بھی خواہاں ہے۔ غاصب صہیونی حکومت بحری جہاز کے اس دھماکے کو بہانہ بنا کر خطے میں سلامتی کا بحران پیدا کر رہی ہے، حالانکہ قرائن اس بات کے شاہد ہیں کہ یہ دھماکہ موساد کی منصوبہ بندی سے انجام پایا ہے۔

غاصب صہیونی حکومت کی اس سازش کو دو زاویوں سے تجزیہ کیا جا سکتا ہے۔ پہلا زاویہ تو وہی ہے جس کی طرف اقوام متحدہ میں موجود ایران کے مستقل مندوب تخت روانچی نے کہا ہے، یعنی اپنے آپ کو مظلوم بنا کر حقیقی مسائل سے رائے عامہ کی توجہ کو منحرف کرنا ہے۔ اس واقعہ کا دوسرا زاویہ یہ ہوسکتا ہے کہ اس وقت خطے میں مقاومت کے اسلامی ممالک کو مسلسل کامیابیاں نصیب ہو رہی ہیں اور خطے میں عدم استحکام کی خواہمشند مغربی، غبری اور عربی ممالک پر مشتمل شیطانی مثلث کو ناکامیاں مل رہی ہیں۔ شام و عراق کے بعد اب یمن میں اس شیطانی مثلث کو جس بحران کا سامنا ہے، اس نے امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب کو سخت ترین چیلنج سے دوچار کر دیا ہے۔ غاصب اسرائیل اور اس کے حامی بحری جہاز پر حملے یا کسی اور بہانے سے خلیج فارس کو سلامتی کے بحران سے دوچار کرکے اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ اس حقیقت کو نظرانداز کر رہے ہیں کہ اسلامی مقاومت اب عوامی اور عوام میں وسیع اثرو نفوذ کی حامل ہو چکی ہے۔

دوسری جانب غاصب صہیونی حکومت اس وقت اپنی شناخت کے بحران سے بھی دوچار ہے۔ تین مسلسل انتخابات کے باوجود کوئی جماعت حکومت تشکیل دینے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔ اسی طرح نیتن یاہو پر مالی بدعنوانی کے حوالے سے عدالت میں مقدمہ چل رہا ہے، جس میں اس کی سزا یقینی ہے۔ غاصب اسرائیل اپنے سیاسی نیز اپنی شناخت کے بحران سے توجہ ہٹانے کے لیے ایران پر بے بنیاد الزامات لگا کر خلیج فارس میں کشیدگی پھیلانے کے درپے ہے، تاکہ اس بحرانی کیفیت سے سوئے استفادہ کرسکے۔ علاقے کی صورتحال پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ سعودی عرب کی روز افزاں گرتی ساکھ اور اقتصادی و سیاسی بحران خطے میں بعض نئی تبدیلیوں کا باعث بن سکتا ہے۔ نئی امریکی انتظامیہ سعودی عرب کے کیرٹ یعنی گاجر کی بجائے اسٹک یعنی چھڑی سے ہانکنا چاہتی ہے۔ اس صورتحال کے خطے کے ان عرب ممالک پر بھی اثرات مرتب ہوں گے، جو سعودی عرب کی پیروی میں مقاومت کے اسلامی بلاک کے خلاف سخت موقف اپنائے ہوئے ہیں۔

عراق و شام سے امریکی فوج کے انخلاء کے پالیسی بظاہر جو بائیڈن انتظامیہ کے لیے قابل قبول نہیں، لیکن عراق میں مقامی مزاحمتی گروہ جس طرح میدان عمل میں فعال نظر آتے ہیں، وہ امریکہ کے وجود کو اتنی آسانی سے برداشت نہیں کریں گے۔ غاصب اسرائیل نے ہمیشہ خطے میں منفی ماحول کو پروان چڑھایا ہے، وہ ایران پر حملے اور امریکہ کو ایران کے مقابلے میں لانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتا رہتا ہے، لیکن ایران کی استقامت اور مضبوط دفاع سامراجی منصوبوں کے راستے میں حائل ہو جاتا ہے۔ غاصب اسرائیل نے مال بردار بحری جہاز کے دھماکے کو ایک بار پھر کشیدگی کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن ایران نے اپنے شفاف موقف سے عالمی برادری کو آگاہ کر دیا ہے۔ اب اگر اسرائیل کی طرف سے کوئی اشتعال انگیز کارروائی ہوتی ہے تو ایران اس کا منہ توڑ جواب دینے میں حق بجانب ہوگا اور یہ بھی طے شدہ ہے کہ ایران اپنے دفاع کے معاملے میں کوئی سجمھوتہ نہیں کرتا۔

کیا عصمت کا مطلب معصوم گناہ کرنے کے قابل نہیں؟ اگر ایسا فرض کرلیا جائے کہ معصوم سے گناہ کرنے کی قدرت سلب کر لی گئی ہے تو اس صورت میں گناہوں کا ترک ہونا معصوم کے نزدیک قابل فخر نہ ہوتی ۔

عصمت کسی ذات سے گناہوں کے ارتکاب کو سلب نہیں کرتی چاہے ہم اسکی تفسیر اس طرح بھی کریں کے تقویٰ کے درجہ کمال پر فائض ہے یا گناہوں اور نافرمانی کے عذاب کا قطعی علم ہونے کے باعث ، یا اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی عظمت اور محبت کو درک کرتا ہو پس اس کے باوجود بھی اپنے افعال میں ادائیگی پر قدرت رکھتا ہو اور ترک کرنے کی قوت رکھتا ہو ۔

حسی لحاظ سے اس بات کو اس طرح تشریح کر سکتے ہیں کہ بے شک انسان میں عقل موجود ہے اور اسی کو استعمال کرتے ہوئے بجلی کی تاروں کو ننگے ہاتھ نہیں لگائے گا اور اسی طرح کسی معتدی مرض میں مبتلا شخص سے دوری اختیار کرے گا یہاں تک کہ وہ ان دونوں افعال پر قادر ہے ٹھیک اسی طرح اللہ تعالیٰ نے افعال سے اجتناب کی قدرت کو رکھا ہے ۔

اسی دلیل پر کہ اللہ تعالیٰ سے محبت و عظمت اور تقویٰ کے اعلیٰ درجہ پر فائز ہونے کے ساتھ ساتھ گناہوں سے بیزارئ قطعی کرنے اور ان سے اجتناب کرتا ہے .

قرآن کریم کی نظر میں

"اور ہم نے ان کو مقبول بنایا اور ہم نے ان کو راہ راست کی ہدایت کی یہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت ہے اس پر چلاتا ہے جس کو چاہے انے بندوں میں سے اور اگر یہ لوگ شرک کرتے تو البتہ ضائع ہوجاتا جو کچھ انہوں نے کیا تھا "

اگر قدرت فعل بد سلب کی گئی ہوتی تو "اگر یہ لوگ شرک کرتے " کیوں ذکر کیا جاتا۔

اس کے ساتھ آیت بلاغ

"اے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ! ان تک پہنچا دو جو تم پر نازل کیا گیا ہے اور اگر نہ پہنچایا"

یہاں بھی قابل ذکر دلیل موجود ہے کہ "اگر نہ پہنچایا " کیونکہ اگر قدرت سلب کی گئی ہوتی یہ کلام عبث ہوتا

مہر خبررساں ایجنسی نے الجزیرہ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ عراق میں امریکہ کی دہشت گرد فوج کے خلاف کارروائی کا سلسلہ جاری ہے عراقی مزاحمت کاروں نے عین الاسد میں امریکی فوجی اڈے پر 14 راکٹ داغے ہیں جن کے نتیجے میں متعدد امریکی فوجی ہلاک اور زخمی ہوگئے ہیں۔

اطلاعات کے مطابق 107 میلی میٹر14 کاٹیوشا راکٹوں سے عین الاسد میں امریکی فوجی اڈے کو نشانہ بنایا گیا یہ راکٹ 40 کلو میٹر تک اپنے ہدف کو آسانی سے نشانہ بنا سکتے ہیں۔ عراقی مزاحمتی گروہ کا کہنا ہے کہ عراق اور شام کی سرحد پر امریکہ کے ہوائی حملے کے جواب میں عین السد میں امریکی فوجی اڈے کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق امریکی فوج ایک بار پھر خطے میں داعش کو دوبارہ فعال کرنے کی کوشش کررہی ہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ  نے یمن کے بارے میں امریکی وزیر خارجہ کے الزامات کو رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یمن پر سعودی عرب کی مسلط کردہ 6 سالہ جنگ میں امریکہ نےسعودی عرب  کی بھر پور حمایت کی ہے اور وہ سعودی عرب کے جارح اتحاد میں شامل ہے لہذا امریکہ کو یمن کے نہتے عربوں پر ہونے والے سنگين جرائم کے بارے میں جواب دینا چاہیے۔

ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ یمنی عوام کے دشمنوں نے گذشتہ 6 برسوں میں سنگین جرائم کا ارتکاب کیا ہے یمن کے نہتے عربوں پر ہونے والے مظالم اور جرائم میں امریکہ اور سعودی عرب برابر کے شریک ہیں، جنھوں نے یمن کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ و برباد کردیا ، یمن کی شہری آبادی پر وحشیانہ بمباری کرکے سیکڑوں مساجد ، اسپتال ، گھروں اور آثار قدیمہ کو نیست و نابود کیا ۔  خطیب زادہ نے کہا کہ امریکہ کو یمن کے بارے میں دوسروں پر الزام تراشی کے بجائے اپنے سنگین جرائم کے بارے میں جواب دینا چاہیے۔

انھوں نے کہا کہ یمن کے بارے میں ایران کا مؤقف پہلے سے ہی واضح ہے کہ یمن کے مسائل کا حل فوجی یلغار کے ذریعہ ممکن نہیں بلکہ اس کا حل سیاسی مذاکرات کے ذریعہ ہی ممکن ہے اور ایران آج بھی اپنے مؤقف پر باقی ہے۔