سلیمانی

سلیمانی

 ایران کے شہر تبریز کے عوام کی جانب سے اس وقت کی آمر شہنشاہی حکومت کے خلاف 18 فروری 1978ء (29 بہمن 1356ء) کے روز کئے جانے والے تاریخی قیام کی سالگرہ کے موقع پر رہبر انقلاب آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے تبریز و آذربائیجان کی عوام سے خطاب کیا ہے۔ اس موقع پر رہبر انقلاب نے تبریزی عوام کو تاریخی قیام کی سالگرہ اور ماہ مبارک رجب کے آغاز پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے تاکید کی ہے کہ 29 بہمن 1356ء کے روز رونما ہونے والا واقعہ ایک جہادی اقدام اور تبریزی عوام کے لئے باعث افتخار امر ہے، تاہم (ایرانی علاقے) آذربائیجان کے اعزازات صرف انہی اقدامات تک محدود نہیں۔ آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے ملک میں ممتاز شخصیات کے وجود کی اہمیت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آذربائیجان کا علاقہ ممتاز شخصیات کا سرچشمہ ہے، جس نے گذشتہ 150 سال میں دنیا کو نہ صرف بے شمار عظیم فقہاء، حکماء اور سائنسدان دیئے ہیں بلکہ آذربائیجان علم و ہنر، شعر و ادب اور تبریزی ہنر کی ماہر شخصیات کا بھی اصلی مقام ہے جن کا ایک نمونہ مرحوم شہریار رحمت اللہ علیہ ہیں۔

آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ ہر آئے روز ملک کے خلاف ہونے والی نت نئی سازشوں کی اصلی وجہ یہ ہے کہ انقلاب کبھی نہیں رُکتا اور آپ دیکھ رہے ہیں کہ ملک کس قدر تیزی کے ساتھ ترقی کر رہا ہے، البتہ ان شاء اللہ ایرانی قوم، حکام اور جوانوں کی طاقت ان سازشوں کو ناکام بنا کر رکھ دے گی۔ رہبر انقلاب نے زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ انقلاب اسلامی کے ثمرات میں سے ہے، جس کو پہچاننا انتہائی ضروری ہے۔ ایرانی سپریم لیڈر نے تاکید کی دشمن اپنی ناکامیوں کو چھپانے کی خاطر نفسیاتی جنگ سے فائدہ اٹھاتا اور ہماری ناکامیوں کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے، البتہ ہماری ترقی کو ہرگز ظاہر نہیں ہونے دیتا اور جانتے بوجھتے اُنہیں دنیا سے چھپاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کاموں سے دشمن کا ہدف عوام کو مستقبل کے بارے بدبین کرنا ہے اور اس مقصد کے حصول کے لئے اُسے جھوٹ بولنے سے بھی کوئی عار نہیں۔

 

 


آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے خطاب کے آخر میں ایرانی جوہری معاہدے کی جانب اشارہ کیا اور تاکید کرتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے بطور کافی گفتگو کی جا چکی ہے، تاہم اب بھی بہت سی باتیں کہی اور وعدے دیئے جا رہے ہیں۔ رہبر انقلاب نے کہا کہ آج اس حوالے سے میں صرف یہی کہوں گا کہ ہم نے خوشنما باتیں اور وعدے بہت سنے ہیں، جن کی بعدازاں خلاف ورزی بھی کر دی جاتی ہے، تاہم اس مرتبہ صرف عمل! انہوں نے کہا  کہ جب ہم (معاہدے کے) دوسرے شرکاء کی جانب سے عمل ہوتا دیکھیں گے تو تب ہی عمل کریں گے اور اس مرتبہ اسلامی جمہوریہ ایران، حسب سابق صرف باتوں کے ذریعے قائل نہیں ہوگا

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ آج مسلمانوں کا وہ درخشاں دور ختم ہوگیا جن پر انہیں ناز تھا اور صرف اتنا ہی نہیں بلکہ کل یورپ کے گھٹتے ہوئے ماحول میں علم و حکمت کے چراغ روشن کرنے والے آج اپنے گھروں سے تاریکی کو دور کرنے کے لئے روشنی کے محتاج ہیں۔ کل جنہوں نے اپنے کرشماتی ذہنوں کو بروئے کار لاکر مغربی ممالک کو نور کی لہروں سے نہلا دیا تھا۔ آج وہی اپنے سماج کی تاریکیوں کو ختم کرنے کے لئے انہیں ممالک کے محتاج ہیں۔ جنہیں کل انہوں نے شعور کی روشنی کے ساتھ زندگی کی روشنی بھی  عطا کی تھی، کیا یہ افسوس کا مقام نہیں ہے کہ ایک زمانہ وہ بھی تھا جب اہل یورپ جہل و ظلمت بھرے معاشروں میں حیران و سرگرداں تھے اور مسلمانوں کو لالچ بھری نظروں سے دیکھتے تھے، وہ مسلمانوں کی کتب کا ترجمہ کرتے جو ان کی درسگاہوں کی زینت بنتی لیکن آج مسلم معاشرے کی ثقافتی و تعلیمی پسماندگی، اخلاقی بدحالی اور معاشی استحصال کو فراموش نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی اغیار کی طرف سے سیاسی اور فوجی یلغار کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔ بقول علاّمہ اقبال
دیروز مسلم از شرف علم سر بلند
امروز پشت مسلم و اسلامیاں خم است

اب سوال یہ ہے کہ یہ سب کیسے اور کیوں ہوا؟ اس کا علاج کیوں کر ممکن ہے؟
اس لئے کہ جو ہوا سو ہوا، اس کی وجہ ہماری غفلت رہی ہو یا اسلام سے دوری رہی ہو یا آپسی اختلافات لیکن اب اس کا علاج کیا ہے؟ آج کل کے دور میں جو حالات ہیں وہ بہت ہی سنگین صورتحال اختیار کر چکے ہیں۔ رہبر انقلاب اسلامی آیة اللہ العظمٰی خامنہ ای آج کل کے حالات کا تقابل حضرت علی (ع) کے دور حکومت سے کرتے ہوئے فرماتے ہیں، آج کے دور کے حالات وہی ہیں جو حضرت علی (ع) کے دور میں موجود تھے ہم موجودہ دور میں آپ کی نظر سے دنیا کی حقیقت اور سماج کی واقعیت کو دیکھتے ہوئے بےشمار مسائل کا حل کر سکتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ میں سمجھتا ہوں اس زمانے میں ہم ہر وقت سے زیادہ نھج البلاغہ کے محتاج ہیں۔ (1) حضرت آیة اللہ العظمٰی خامنہ ای کی اس فرمائش کو مدنظر رکھتے ہوئے کوشش کی گئی ہے کہ مسلمانوں کو درپیش بنیادی مسائل کا ایک سرسری جائزہ لیا جائے اور پھر نھج البلاغہ اور سیرت امیر الموٴمنین (ع) کی روشنی میں ان مسائل کا قابل قبول حل پیش کیا جا سکے جو آج کے مسلمانوں کو درپیش ہیں۔

مسلمانوں کے موجودہ مسائل:
(1) تعلیمی پس ماندگی اور جھالت:
یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ قوموں کے عروج و زوال میں جو چیز کلیدی حیثیت کی حامل ہے وہ ان کی تعلیم ہے۔ اور ہمارا مشاھدہ یہ بتاتا ہے کہ جس قوم نے تعلیمی میدان میں قدم آگے بڑھائے ہیں اس نے اپنی تعلیم کی روشنی میں ترقی کی منزلوں کو بھی یکے بعد دیگرے طے کیا ہے اور جو قوم جہالت کا شکار رہی ہے وہ ہمیشہ پسماندہ رہی ہے، تعلیم کی کس قدر اہمیت ہے؟ اور تعلیم قوموں کے لئے کون سا سرمایہ حیات ہے؟ اس کو بیان کرنے کی ضرورت نہیں اس لئے کہ خود قرآن مجید کی بے شمار آیات اس کے والا مقام کا پتہ دے رہی ہیں، تعلیم کی اہمیت اور اس کی افادیت کو جس قدر مکتب اسلام نے بیان کیا ہے شاید ہی کوئی ایسا دین ہو جس نے تعلیم کے سلسلے میں اس قدر تاکید کی ہو(2) لیکن افسوس جس قدر تعلیم کی تاکید اسلام کے اندر ہے اسی قدر مسلمان تعلیم سے بیگانہ ہیں۔

(2) فقر و ناداری:
تعلیمی پسماندگی اور جہالت کے علاوہ دوسرا مسلمانوں کا سب سے اہم مسئلہ فقر و ناداری ہے۔ یہ ایک ایسا مرض ہے جو دھیرے دھیرے پورے مسلم معاشرہ کے بدن میں سرایت کر رہا ہے اور اگر جلد اس کا علاج نہیں کیا گیا تو اس کے نتائج بہت ہی زیادہ سنگین ہونگے اس لئے کہ علم اقتصاد کے ماہرین کا خیال ہے کہ جس معاشرہ کی اکثریت فقیر ہو وہ معاشرہ کبھی ترقی نہیں کرسکتا۔ (3)

(3) اختلاف و افتراق:
کسی بھی قوم کی نابودی کے لئے اب اس سے زیادہ عذاب اور کیا ہوسکتا ہے کہ ایک طرف تو وہ جہالت اور غربت و افلاس کی چکی میں پس رہی ہو اور دوسری طرف آپس میں اختلاف و افتراق کا شکار ہو، وہ چیز جس نے آج مسلمانوں کو بالکل بےبس بنا دیا ہے وہ آپس کا اختلاف ہے، سچ ہے قرآن نے کتنی اچھی تعبیر استعمال کی ہے، ”اگر تمھارے اندر اختلاف رہا تو اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ضعف و سستی تمھارے اندر پیدا ہو جائے گی اور تم کسی قابل نہ رہو گے۔“ (4) مگر آج ہمارا حال یہ ہے کہ ہم نے قرآنی دستورات کو سرے سے نظر انداز کرتے ہوئے اس قدر اپنے اندر اختلاف پیدا کر لیا ہے کہ ہمارے اختلاف کی آگ میں استعمار اپنی روٹیاں سینک رہا ہے اور ہمیں دکھا دکھا کر کھا رہا ہے اور ہم فقر و ناداری میں تڑپ رہے ہیں اور یہ نہیں سمجھتے کہ یہ سب اختلاف کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ بقول سید جمال الدین اسد آبادی، ”اسلامی ممالک کو جو مرض لاحق ہے اس کی تشخیص کے لئے میں نے بہت فکر کی اور بہت سوچا آخر انجام میں نے پایا کہ مہلک ترین مرض تفرقہ ہے لیکن گویا مسلمانوں نے تنہا اس سلسلہ میں اتحاد کیا ہے کہ متحد نہ ہوں۔“(5) امام خمینی رضوان اللہ اسی تفرقہ کے سلسلے میں فرماتے ہیں: ”تفرقہ آج کے دور میں اسلام سے خیانت ہے چاہے وہ کسی بھی عنوان کے تحت ہو۔“(6)

(4) قرآنی تعلیمات سے دوری:
قرآنی تعلیمات کی فراموشی نے ہی آج مسلمانوں کو اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے کہ انہیں خود بھی نہیں معلوم واپس جانے کا راستہ کیا ہے، چنانچہ امام خمینی رضوان اللہ مسلمانوں کی مشکلات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”مسلمانوں کی سب سے بڑی مشکل اسلام اور قرآنی تعلیمات سے دوری ہے۔“ (7)

(5) بدعتوں کا رواج:
مسلم معاشرہ آج جن انگنت مسائل سے دوچار ہے ان میں ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ بدعتوں کو ہم نے اپنے پورے سماج میں یوں رچا بسا لیا ہے، گویا ہمارے لئے کوئی ایسی کتاب نازل ہی نہیں ہوئی جو ھمارے لئے آئین زندگی کی حیثیت رکھتی ھو، جو ہمارے لئے مشعل راہ ہو بلکہ جو کچھ ہے، وہ تمام کی تمام وہ چیزیں ہیں جنہیں ہمارا تقلیدی ذہن انجام دینے پر اکساتا ہے اور ہم دین سے بےخبر بنا سوچے سمجھے انہیں شریعت کا جز بنا کر انجام دیتے رہے ہیں، چنانچہ شھید مطہری اسی مشکل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”انواع تحریف میں سب سے خطرناک تحریف، دینی اسناد، آسمانی کتب، احادیث اور سیرہٴ پیمبر (ص) میں تحریف ھے۔ “8 لیکن ہمارا حال یہ ہےکہ جس جگہ بھی کسی بھی عنوان کے تحت کوئی ایسا نعرہ بلند ہوتا ہے، جو ہمیں اچھا لگتا ہو تو فوراً اسے اپنا شعار بنا لیتے ہیں، حتٰی دین میں داخل کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے اور بےجا تحلیل اور تفسیر کرکے یہ ثابت کرنے پر تلے رہتے ہیں کہ یہ چیز تو پہلے سے ہی اسلام میں موجود تھی کوئی نئی چیز نہیں جبکہ اسلام اس طرح کی چیزوں کی شدت کے ساتھ مخالفت کرتا ہے۔(9)
 
ان تمام مسائل کو دیکھنے کے بعد ہر احساس رکھنے والا انسان جو ایسے سماج اور معاشرہ سے تعلق رکھتا ہے کہ جس کے اندر لاتعداد ایسے مسائل ہیں جو سماج کو آگے بڑھنے سے روک رہے ہیں لیکن ان کا کوئی حل کہیں نظر نہیں آ رہا، حیران و سرگرداں اپنے مستقبل کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہے کہ کل کیا ہوگا؟ اور ہمارا یہ معاشرہ اور سماج یوں افسردہ و ساکت ہے، جیسے فرشتہٴ موت کے گہرے سے گہرے سانسوں نے اسے کہر آلود بنا دیا ہو، کسی جنگ کے دیوتا نے بڑھ کر اپنی خونخوار انگلیوں سے اس کی نبض تھام لی ہو، دور دور تک سناٹا چھایا ہوا ہے! ظلمت و تاریکی کے امنڈتے ہوئے بادل ماحول کو خوفناک بنانے پر تلے ہیں، ساتھ ہی ظلم و استبداد کی آندھیاں گو کہ ہر شیٴ کو متلاشی کر دینے کے درپے ہیں، ایسے میں کہیں کوئی ٹمٹماتا دیا بھی تو نہیں جس کی روشنی میں اپنی منزل کا پتہ لگایا جا سکے، لیکن اسی تاریکی و ظلمت کے مہیب سناٹے میں ایک آواز ہے جو بار بار ہمیں اپنی طرف متوجہ کر رہی ہے، گوکہ کوئی چراغ تاریخ اور زمانے کے دبیز پردوں کے پیچھے سے ہماری حالت دیکھ رہا ہو اور اپنے نور سے ہمیں ہدایت کا راستہ دکھانا چاہتا ہو۔۔۔۔“ میں تمہارے درمیان اس چراغ کی مانند ہوں کہ تاریکی میں بھی اگر کوئی اس سے قریب ہوتا ہے تو اس کے نور سے استفادہ کرتا ہے۔ اے لوگو! میری باتوں کو سنو اور یاد رکھو اور دل کے کانوں کو کھول کر سامنے لاوٴ تاکہ سمجھ سکو۔ (10) “یہ آواز کسی اور کی نہیں بلکہ اس چراغ ہدایت کی ہے کہ ظلمتوں نے مل کر جس کا گلا گھوٹنا چاہا لیکن ناکام رہیں، لیکن افسوس کا مقام اس وقت ہوگا جب اس چراغ ہدایت سے ہم کچھ حاصل نہ کرسکیں تو آئیے چلتے ہیں، در باب العلم پر اور اپنے مسائل کا حل ڈھونڈتے ہیں۔

ہمارے مسائل کا حل:
1۔ تحصیل علم:
 یہی وہ راہ ہے جس پر عمل پیرا ہو کر ہم اپنی تعلیمی پس ماندگی کو دور کرسکتے ہیں اور معاشرے میں سر اٹھا کر جی سکتے ہیں، حضرت علی(ع) فرماتے ہیں:
"العلم اصل کل خیر" (11) علم ھر اچھائی کی بنیاد ہے۔ "اکتسبوا العلم یکسبکم الحیات" (12) تم علم حاصل کرو علم تمھیں زندگی عطا کرے گا۔ "ایھا الناس اعلموا انّ کمال الدین طلب العلم و العمل بہ" (13) اے لوگو! جان لو کہ دین کا کمال یہ ہے کہ علم حاصل کیا جائے اور اس پر عمل کیا جائے۔ "الحکمة ضالة المومن فخذ الحکمة و لو من اھل النفاق"(14) حکمت مومن کی گمشدہ چیز ہے، پس حکمت کو لے لو چاہے اہل نفاق سے ہی کیوں نہ ہو۔ اور خود حضرت علی (ع) کی سیرت یہ رہی ہے کہ آپ نے بےشمار شاگردوں کی تربیت کی۔ بقول ابن ابی الحدید: ”علوم کے سارے سرچشمہ آپ ہی کی ذات پر منتھی ہوتے ہیں۔" (15) آپ تعلیم و تعلم کے اس قدر شیدا تھے کہ تاریخی کتب میں ملتا ہے کہ میدان جنگ میں بھی اگر کوئی سپاہی آپ سے کوئی سوال کرتا تو آپ اسے فوراً جواب دیتے اور اس کے فکری شبہات کا ازالہ کرتے۔ (16) حتٰی اگر ایک ہی سوال آپ سے کئی بار بھی ہوتا تو بھی آپ جواب دینے میں کوئی تامل نہیں کرتے اور جس حالت میں ہوتے اسی حالت میں جواب دیتے چنانچہ جنگ جمل میں ایک سپاہی نے آپ سے خدا کی وحدانیت کے بارے میں سوال کیا تو لشکریوں نے اسے ٹوکا اور کہا یہ کون سی سوال کرنے کی جگہ ہے؟ تو امام نے جواب دیا: ”دعوہ فانّ الّذی یریدہ الا عرابی ھو الّذی نریدہ من القوم“(17)۔ ”سلونی سلونی قبل ان تفقدونی“ یہ وہ جملہ ہے جسے تاریخ کبھی بھلا نہیں پائے گی، آپ کی نظر میں تعلیم کس قدر اہمیت ہے اس کا اندازہ ان روایات سے لگایا جا سکتا ہے۔

الف:
 اے لوگو! ایک حق میرا تمہارے اوپر ہے اور ایک حق تمہارا میرے اوپر ہے۔ تمھارا حق جو میرے اوپر ہے وہ یہ کہ میں تمھیں نصیحت کروں اور تمھاری معیشت کو نظم بخشوں اور تمھیں تعلیم دوں تاکہ تم جاھل نہ رہ جاوٴ۔ (19)۔ ان روایات سے بخوبی اس بات کا اندازہ ہو جاتا ہے کہ علی کی زندگی میں تعلیم اولین درجہ کی اہمیت رکھتی ہے، نیز یہ بات بھی ثابت ہو جاتی ہے کہ حاکم کا جس طرح اپنی رعیت پر حق ہوتا ہے، اسی طرح رعیت کا حاکم پر بھی حق ہوتا ہے، جس میں ایک تعلیم ہے، علم کی اس قدر تاکید کی وجہ شاید یہ رہی ہو کہ ایک عالم انسان کا علم اسے افراط و تفریط کا شکار ہونے سے روکتا ہے کیونکہ افراط و تفریط دو ایسی آفات ہیں جو دین کو اس کی اصلی راہ سے ہٹاکر دین کی نابودی کا باعث بنتی ہیں اور افراط و تفریط وہیں ہوتی ہے جہاں جہل ہوتا ہے، "لا تری الجاھل الّا مفرطاً اٴو مفرّطا"۔ (20)

1۔ تعلیم کے لئے سب سے مفید وقت:
نہ صرف یہ کہ مولائے کائنات (ع) نے تعلیم کی افادیت کے پیش نظر اپنے حکیمانہ اقوال سے بنی نوع بشر کو تعلیم کی طرف متوجہ کیا ہے بلکہ بتایا ہے کہ تعلیم و تربیت کے لئے سب سے اچھا وقت کون سا ہو سکتا ہے چنانچہ آپ فرماتے ہیں، ”جوان کا دل ایک خالی زمین کی مانند ہے جو دانہ بھی اس میں ڈالیں وہ اسے قبول کر لیگا۔“(21) امام حسن مجتبٰی (ع) سے خطاب کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں،” میں نے تمھاری تعلیم و تربیت میں جلدی کی اس سے قبل کہ تمھارا قلب سخت ہو جائے تمھاری عقل و فکر کو دوسرے امور میں مشغول کردے۔۔“ (22) حضرت علی (ع) کے دہان مبارک سے نکلے ہوئے یہ کلمات ان تمام افراد کے لئے مشعل راہ ہیں، جو اپنے بچوں کے لئے ایک خوشگوار مستقبل کا خواب دیکھ رہے ہیں، اس سے قبل کہ ان کے بچوں کے دل سخت ہو جائیں۔ دینی معارف اور تمام وہ باتیں جو ان کے مستقبل کے لئے مفید ثابت ہو سکتی ہیں انہیں تعلیم دے دینی چاہیئے۔
 
2۔ سالم اور بھتر معیشت کے لئے جدوجہد:
آج ہمارے سماج اور معاشرے میں کچھ ایسے افراد بھی ہیں کہ جو معیشت کو بہتر بنانے کے لئے بھاگ دوڑ کو دنیاداری سے تشبیہ دیتے ہیں اور ان کا خیال یہ ے کہ اس چند روزہ زندگی کے لئے بھاگ دوڑ کرنے کا کیا مطلب ہے؟ جبکہ ہم جانتے ہیں کہ یہ دنیا فانی ہے تو جو کچھ بھی روکھی سوکھی ملے اسی پر گزر بسر کرلینا بہتر ہے اور اپنے زعم میں یہ سمجھتے ہیں کہ یہی  زھد ہے، جبکہ ان کے لئے بہترین ذریعہ معاش کا فراہم ہے، اگر وہ چاہیں تو ایک خوشحال زندگی گزار سکتے ہیں لیکن وہ اسے دنیاداری سے تعبیر کرتے ہوئے فرار اختیار کرتے ہیں ایسے لوگوں کے لئے امام (ع) ارشاد فرماتے ہیں "لیس منا من ترک الدنیا الآخرہ" ۔(23) اور حقیقی زھد کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں، "الزھد بین کلمتین من القرآن قال اللہ سبحنہ لکی لاتاٴسوا علی مافاتکم و لا تفرحوا بما آتاکم و من لم یائس علی الماضی و لم یفرح بالآتی فقد اخذ الزھد بطرفیہ" (24) بلکہ ان افراد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جنہوں نے دنیا کی نعمتوں سے بھی استفادہ کیا اور اپنی آخرت بھی سنوار لی آپ فرماتے ہیں، "ان المتقین ذھبوا بعاجل الدنیا آجل الاجل الآخرہ۔۔ سکنوا الدنیا فافضل ما سکنت و اکلوھا ما اکلت فحظوا من الدنیا بما حظی بہ المعترفون" (24) جہاں کچھ ایسے متدین افراد ہیں کہ جو زھد کے معنی کی غلط تفسیر کرتے ہوئے دنیا کی نعمتوں کو خود پر حرام کرلیتے ہیں اور نتیجةً فقر و ناداری میں زندگی بسر کرتے ہیں، وہیں کچھ ایسے بھی لوگ ہیں کہ جو اپنے لئے بڑے بڑے کاموں کی منصوبہ بندی  کا تصور ذھن میں لئے بیٹھے رہ جاتے ہیں اور معیشت کی طرف توجہ نہیں دے پاتے، کیونکہ وہ چھوٹے موٹے کاموں کو اپنے لئے بےعزتی کا سبب سمجھتے ہیں نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بڑے کام کی تلاش میں یوں ہی بیٹھے بیٹھے عمر گزر جاتی ہے اور کوئی بھی کام ہاتھ نہیں آتا ہے جبکہ یہی افراد اگر حضرت علی (ع) کی سیرت کا مطالعہ کریں تو انھیں معلوم ہوگا کہ آپ معیشت کو بہتر سے بہتر بنانے کے لئے کیا کچھ نہیں کرتے تھے۔

جب ھم حضرت علی (ع) کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں ملتا ہے کہ علی (ع) بیلچہ چلاتے اور زمین کی نعمتوں کو آشکار کرتے تھے۔(26) درخت کاری و زراعت کرتے تھے اور قناتیں اور کنوئیں کھودتے تھے۔(27) کسی نے آپ کے ہاتھوں ایک من خرمہ کی گھٹلیاں دیکھیں تو سوال کیا کہ اے امیر المومنین!(ع) ان کا کیا مصرف ہے؟ آپ نے جواب دیا خداوند متعال کے اذن سے ان گھٹلیوں سے خرمے کے درخت تیار کرونگا اور پھر آپ نے ان سے ایک نخلستان بنایا اور اسے راہ خدا میں وقف کردیا۔(28) ایک بوڑھا شخص فقیری کر رہا تھا آپ نے پوچھا کون ہے؟ جواب ملا نصرانی ہے، آپ نے حکم دیا کہ اسے بیت المال سے کچھ خرچ کے لئے دے دو۔(29) آپ کی حکومت کے دوران عمومی رفاہ کا یہ حال تھا کہ کوفے میں رہنے والا غریب سے غریب شخص بھی گیہوں کی روٹی کھاتا اور اس کے سر پر چھت کا سایہ رہتا تھا۔ (30) فقر و ناداری کے بارے میں آپ کے اقوال یقیناً ہمارے معاشرے کے لئے رہ گشا ثابت ہو سکتے ہیں۔ کہیں آپ نے فقر کو موت سے تعبیر کیا ہے تو کھیں فقر کو اپنے وطن میں غربت قرار دیا ہے۔ آپ کی نظروں میں معیشت اس قدر اہمیت کی حامل ہے کہ جہاں آپ نے اپنی وصیت میں اور دوسری باتوں کی طرف اپنے فرزندوں کو متوجہ کیا ہے، وہیں اس طرف بھی ان کو متوجہ کیا ہے کہ ان کی معیشت کبھی خراب نہ ہو۔(31)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات و حواشی:
1۔ کنگرہ بین المللی نھج البلاغہ مباحث و مقالات آیة اللہ خامنہ ای صفحہ 52
2۔ ھل یستوی الذین یعلمون و الذین لا یعلمون۔۔ زمر 9
3۔ نگاھی بہ فقر و فقر زدائی از دیدگاہ اسلام نقل از انتھونی کربلا سٹر ظھور و سقوط لیبرالیزم صفحھ 374
4۔ و اطیعوا اللہ و لا تنازعوا فتفشلوا و تذھب ریحکم۔۔۔ انفال 46
5۔ یادنامہ سید جمال الدین، ج1 مقالہ دکتر عثمان امین، ص 239
6۔ صحیفہ نور ج8 ص 43
7۔ شناخت کشورھای اسلامی، غلام رضا، ص36
8۔ آسیب شناسی فرھنگی جوامع اسلامی ص 29
9۔ اذا ظھرت البدعة فی امتی فلیظھر العالم علمہ و الاّ فعلیہ لعنة اللہ و الملائکة و الناس اجمعین، آسیب شناسی فرھنگی جوامع اسلامی نقل از سفینة البحار ج1 ص63
10۔ انما مثلی بینکم مثل السراج فی الظلمة یستضیئی بہ من ولجھا فاسمعوا ایھا الناس و عوا و احضروا آذان قلوبکم تفھموا۔ شرح نھج البلاغہ علامہ محمد تقی جعفری ج9، نھج البلاغہ ترجمہ و حواشی علامہ مفتی جعفر حسین ص 514
11۔ 12۔ 13۔ غرر الحکم، باب علم
14۔ کافی ج1، ص 35
15۔ ابن ابی الحدید شرح نھج البلاغھ
16۔ امام علی (ع) و مباحث اعتقادی، محمد دشتی ص 32
17۔ ایضا
18۔ سئل عن الخیر ما ھو فقال علیہ السلام لیس الخیر ان یکثر مالک و ولدک و لکنّ الخیر ان یکثر علمک۔ نھج البلاغھ، حکمت 94
19۔ ایھا الناس انّ لی علیکم حقا و لکم علیّ حق فامّا حقکم علیّ فالنصیحة لکم و توفیر فیئکم علیکم و تعلیمکم کی لا تجھلوا و تاٴدیبکم کیما تعلموا۔ نھج البلاغھ، خطبھ 34
20۔ نھج البلاغھ، حکمت70
21۔ و انّما قلب الحدیث کالارض الخالیة ماالقی فیھا من شیٴ قبلتھ۔ اما م علی(ع) و امور معنوی و عبادی، محمد دشتی ص 28
22۔ فبادرتک بالادب قبل ان یقسو قلبک و یشتغل لبّک لتستقبل بجدّ راٴیک من الاٴمر (وھی مدرک)
23۔ من لا یحضرہ الفقیہ ج3، ص156
24۔ نھج البلاغہ فیض الاسلام، حکم
25۔ نھج البلاغہ فیض الاسلام، مکتوب 27
26۔ کان اٴمیر الموٴمنین یضرب بالمرّ و یستخرج الاٴرضین، فروع کافی ج5، ص74
27۔ فروع کافی، ج5، ص 75
28۔ وسائل الشیعھ، ج13، ص 203
29۔ مناقب، ج1، ص 321
30۔ استعملتموہ حتیّ اذا کبر و عجز منعتموہ اٴنفقوا علیہ من بیت المال، تجلی امامت نقل از المصدر، ص 206
31۔ مااصبح بالکوفة اٴحد الاّ ناعما اٴنّ اٴدنی ھم منزلة لیاٴکل البرّ و یجلس فی الظلّ و یشرب من ماء الفرات، مناقب آل ابی طالب، ج2، ص 99
 تحریر: سید نجیب الحسن زیدی
 
 

شیعہ کے اصطلاحی معانی میں سے ایک خاندان نبوت و رسالت کے ساتھ محبت و دوستی ہے اور آیات و روایات میں اس بات کی زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ بےشمار احادیث ایسی ہیں جن میں  حضرت علی علیہ السلام کی محبت کو واجب و لازم قرار دیا گیا ہے، یہاں تک کہ حضرت علی علیہ السلام سے محبت و دوستی کو ایمان اور ان سے دشمنی و عداوت کو نفاق کا معیار قرار دیا گیا ہے۔ سیوطی آیت کریمہ "وَلَتَعْرِفَنَّ هُمْ فىِ لَحْن ِالْقَوْل" اور آپ انداز کلام سے ہی انہیں ضرور پہچان لیں گے، کی تفسیر میں ابن مردودیہ اور ابن عساکر سے نقل کرتے ہیں کہ آیت کریمہ میں لحن القول سے مراد علی ابن ابی طالب کی نسبت دشمنی اور کینہ رکھنا ہے۔(1) اسی طرح ایک اور روایت جسے ابن مردودیہ نے نقل کیا ہے، "ما کنا نعرف المنافقین علی عهد رسول الله(ص) الا ببغضهم علی ابن ابی طالب(ع)" ۔(2) پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں منافقین کو ہم علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے دشمنی اور عداوت کرنے کے ذریعے پہچانتے تھے۔

نسائی (متوفی 303ھ) نے خصائص امیرالمومنین میں ایک باب کا عنوان مومن اور منافق کے درمیان فرق کو قرار دیا ہے اور پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے تین  حدیثیں نقل کرتے ہیں، جن میں آپ ؐفرماتے ہیں، امیر المومنین سے مومن کے علاوہ کوئی اور محبت نہیں کرتا (اسی طرح) منافق کے علاوہ کوئی اور ان سے دشمنی نہیں کرتا ہے۔(3) خطیب خوارزمی نے اپنی کتاب المناقب کی چھٹی فصل میں وہ حدیثیں پیش کی ہیں جن میں حضرت علی علیہ السلام اور اہلبیت علیہم السلام کے ساتھ محبت کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں تقریبا تیس حدیثیں نقل کی ہیں۔(4) جن کے مضامین اس طرح  کے ہیں:
1۔ انی افترضت محبة علی ابن ابی طالب علی خلقی عامة۔ حضرت علی علیہ السلام کی محبت سب پر واجب ہے۔
2۔ لو اجتمع الناس علی حب علی ابن ابی طالب لما خلق الله النار۔ اگر تمام انسان علی ابن ابی طالب علیہ السلامکی محبت پر متفق ہو جاتے، تو خداوند جہنم کو خلق نہ کرتا۔
3۔ اگر کوئی حضرت نوح علیہ السلام کی اس عمر کے برابر (جو انہوں نے اپنی قوم کے درمیان گزاری) عبادت کرے اور کوہ احد کے برابر سونا خدا کی راہ میں خرچ کرے اور ہزار مرتبہ حج بیت اللہ کرے اور صفا و مروہ  کے درمیان خدا کی راہ میں قتل ہو جائے لیکن (حضرت) علی علیہ السلام سے محبت نہ رکھتا ہو تو وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہو گا۔

4۔ (من احب علیا فقد احبنی و من ابغض علیا فقد ابغضنی) جس نے علی علیہ السلام سے محبت کی گویا اس نے رسول اکرمصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کی ہے اور جس نے علی علیہ السلام سے دشمنی کی گویا اس نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دشمنی کی ہے۔
5۔ (ان ملک الموت یترحم علی محبی علی ابن ابی طالب کما یترحم الانبیاء) ملک الموت جس طرح انبیاء پر رحم کرتا ہے اس طرح علی علیہ السلام کے چاہنے والوں پر بھی رحم کرتا ہے۔
6۔ (من زعم انه امن بی و بما جئت به و هو یبغض علیا فهو کاذب لیس بمومن) جو شخص پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور قرآن مجید پر ایمان رکھتا ہو مگر علی ابن ابی طالبعلیہ السلام سے دشمنی رکھتا ہو تو وہ شخص جھوٹا ہے اور مومن نہیں ہے۔
 اسی طرح شبلنجی شافعی  نے نور الابصار میں ان حدیثوں کو نقل کیا ہے:
1۔ مسلم نے حضرت علی علیہ اسلام سے نقل کیا ہے، (والذی فلق الحبة و برا النسمة انه لعهد النبی الامی بانه لا یحبنی الا مومن و لا یبغضنی الا منافق) خدا کی قسم جس نے دانے کو شگافتہ کیا اور ذی روح چیزیں پیدا کیں یہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وعدہ ہے کہ مومن کے سوا مجھ سے کوئی محبت نہیں کرتا اور منافق کے سوا کوئی مجھ سے بغض نہیں کرتا۔
2۔ ترمذی ابوسعید خدری سے نقل کرتے ہیں، (کنا نعرف المنافقین ببغضهم علیا)۔ (5) ہم منافقین کو علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے دشمنی اور عدوات کرنے کے ذریعے پہچانتے تھے۔

حضرت علی علیہ السلام کی محبت کے واجب ہونے پر بےشمار حدیثیں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل ہوئی ہیں۔(6) کہ ان سب کو یہاں بیان کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ لہٰذا مذکورہ احادیث کی روشنی میں حقیقی مسلمان وہ ہے جو حضرت علی علیہ السلام کی محبت کو واجب و لازم سمجھے گرچہ خواہشات نفسانی میں گرفتار افراد حضرت علی علیہ السلام سے دشمنی و عداوت  رکھتے تھے اور کبھی اسے آشکار کرتے تھے اسی وجہ سے حضرت علی علیہ السلام سے محبت، ایمان اور ان سے عداوت اور دشمنی کو نفاق کا معیار سمجھا گیا۔ اس صورتحال میں پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعض اصحاب امیر المومنین علیہ السلام سے دوسروں کی بہ نسبت زیادہ محبت کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فرامین پر توجہ کرتے ہوئے حضرت علی علیہ السلام کے گفتار و کردار کو اپنے لئے اسوہ و نمونہ قرار دیتے تھے۔ گذشتہ احادیث سے حضرت علی علیہ السلام کی افضلیت بھی واضح ہو جاتی ہے، کیونکہ پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   کے نزدیک آپ  سب سے زیادہ عزیز تھے، کیونکہ پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی خواہشات نفسانی کی بنا پر کسی سے محبت نہیں کرتے بلکہ عقل و حکمت اس چیز کا تقاضا کرتی تھی۔

ان کے علاوہ آپ ؑکی افضلیت کے بارے میں بہت زیادہ احادیث موجود ہیں۔ آیت مباہلہ سے بھی یہ مطلب واضح ہو جاتا ہے۔ (7) کیونکہ اس آیت میں حضرت علی علیہ السلام کو نفس پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرار دیا گیا ہے، حالانکہ پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   انسانوں میں سب سے زیادہ افضل تھے لہٰذا نفس پیغمبر کو بھی ان شرائط و خصوصیات کا حامل ہونا چاہیئے۔ محمد بن عائشہ سے پوچھا گیا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب میں سب سے افضل کون ہے؟ انہوں نے جواب دیا، ابوبکر، عمر، عثمان، طلحہ اور زبیر۔ ان سے دوبارہ سوال ہوا پھر علی ابن ابی طالب کس درجہ پر فائز ہیں؟ انہوں نے جواب دیا، تم لوگوں نے اصحاب کے بارے میں سوال کیا تھا نہ اس شخص کے بارے میں جو نفس پیغمبر تھے۔ اس کے بعد آیت مباہلہ  کی تلاوت کی اس کے بعد کہا، پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب کس طرح اس شخص کے مانند ہو سکتے ہیں جو نفس پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔(8) اسی طرح احمد ابن حنبل کے بیٹے عبداللہ نے اپنے باپ سے پوچھا خلفاء کی افضلیت کے بارے میں آپ کا کیا نظریہ ہے؟ اس نے جواب دیا، ابو بکر، عمر اور عثمان اسی ترتیب کے ساتھ افضلیت رکھتے ہیں۔ عبداللہ نے دوبارہ پوچھا پھر علی ابن ابی طالب علیہ السلام کس درجے پر فائز ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ اے بیٹے، علی ابن ابی طالب کا تعلق ایسے خاندان سے ہے کہ کسی کو ان کے ساتھ مقایسہ نہیں کیا جا  سکتا ۔(9)

پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلمنے حضرت زہراء سلام اللہ علیہاسے فرمایا تھا؟ تمھارا شوہر میری امت میں سب سے بہتر ہے، اس نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا اور علم و حلم کے اعتبار سے وہ دوسروں پر برتری رکھتا ہے۔ "ان زوجک خیر امتی اقدمه اسلاما و اکثرهم علما و افضلهم حلما"(10) اسی طرح جب ایک پرندے کا بھنا گوشت آپ ؐکو پیش کیاگیا تو آپ ؐنے خدا وند متعال سے درخواست کی کہ اپنی مخلوقات میں سے سب سے زیادہ عزیز فرد کو میرے ساتھ کھانے میں شریک قرار دے اسی وقت حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے۔ (11) جابر بن عبداللہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کرتے ہیں، "انه اولکم ایمانا معی، واوفاکم بعهد الله تعالی و اقومکم بامر الله و اعدکم فی الرعیة و اقسمکم بالسویة و اعظمکم عند الله فریة" حضرت علی علیہ السلام سب سے پہلے ایمان لانے میں اور خداوند متعال کے عہد کو پورا کرنے میں سب سے زیادہ وفادار اور احکام الٰہی کے اجراء میں سب سے زیادہ پایدار اور لوگوں کی نسبت سب سے زیادہ عادل ہے اور وہ بیت المال کی تقسیم میں سب سے زیادہ مساوات سےکام لیتا ہے اور خداوند متعال کی نظر میں ان کا مقام سب سے زیادہ برتر ہے۔

جابر اس کے بعد کہتے ہیں کہ آیت شریفہ "إِنَّ الَّذِينَ ءَامَنُواْ وَ عَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ أُوْلَئكَ هُمْ خَيرْ الْبرَيَّة" حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے اور جب بھی حضرت علی علیہ السلام وارد ہوتے تو سبھی کہتے تھے "قد جاءخیر البریة" (12) اس سلسلے میں اور بھی حدیثیں موجود ہیں لیکن یہاں سب کو بیان نہیں کر سکتے۔
خلاصہ یہ کہ پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جہاں توحید اور نبوت کے مسائل پیش کرتے تھے وہی امامت کے مسئلے کو بھی بیان کرتے تھے اور اپنے عمل و بیان سے حضرت علی علیہ السلام کی شخصیت کو سب پر ظاہر کر دیتے تھے، اسی بنا پر اس زمانے میں ایک گروہ حضرت علی علیہ السلام کے فضائل و کمالات کا شیفتہ ہوا تھا اور مسلمانوں کے درمیان وہ شیعہ علی علیہ السلام کے نام سے پہچانا جاتا تھا اور پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ہمیشہ اس گروہ کی ستایش کرتے رہتے تھے اور انہیں قیامت کے دن کامیاب و کامران ہونے کی بشارت دیتے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔ الدر المنثور، ج7 ،ص 443۔
2۔ الدر المنثور، ج7 ،ص 443۔
3۔ خصائص امیر المومنین علی ابن ابی طالبعلیہ السلام،ص 155 – 157 ۔
4۔ المناقب ،خوارزمی، ص 64 – 79۔
5۔ نور الابصار ،ص 160،منشورات الرضی قم۔
6۔ الریاض النضرۃ  ،محب الدین طبری ،و قادتناکیف نعرفھم ،ج1 ،آیۃ اللہ میلانی ۔
7۔ آل عمران 61۔
8۔ البیہقی ،المحاسن ج1 ص 39،الامام الصادق و المذاہب الاربعۃ ،ج1 ،ص 574۔
9۔ طبقات الحنابلۃ ،ج2 ،ص 120 الامام الصادق و المذاہب الاربعۃ ،ج1،ص 575۔
10۔ خطیب خوارزمی ،المناقب ،فصل نہم ،حدیث  111 ،ص 106۔
11۔ خطیب خوارزمی ،المناقب ،فصل نہم ،حدیث  111 ،ص 106۔
12۔ خطیب خوارزمی ،المناقب حدیث 120 ،ص 111 – 112۔
تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی
Sunday, 14 February 2021 21:03

انگریزی شیعہ کون ہیں؟ (4)

گزشتہ سے پیوستہ

مذکورہ دلائل اور جوابات کے علاوہ مسئلۂ ولایت فقیہ اور اسلامی حکومت کے قیام کے لئے متعدد نقلی (قرآنی اور روائی) دلائل نقل ہوئے ہيں جن کی کثرت اور اعتبار کے سامنے پرچموں والی روایت استقامت نہیں کرسکتی۔ نقلی دلائل نیز بعض عقلی دلائل مذکورہ بالا سطور میں بیان ہوئے ہیں اور یہاں ایک عقلی اور ایک نقلی دلیل پر اکتفا کرتے ہیں:
1۔ عقلی دلیل: انسان کو اپنی معاشرتی حیات نیز فردی اور معنوی ارتقائی ضروریات کے تقاضوں کے مطابق، ایک طرف سے انفرادی اور اجتماعی پہلؤوں میں اللہ کے بھیجے ہوئے ایسے قانون کی ضرورت ہے جو ضعف، نقص، خطا اور نسیان (فراموشی) سے محفوظ ہو اور دوسری طرف سے اس کو ایک دینی حکومت اور عالم و عادل حاکم کی ضرورت ہے جو قانون کو مکمل طور پر نافذ کرے۔ کیونکہ الہی قانون انسانی حیات کے انفرادی اور اجتماعی پہلؤوں میں ان دو کے بغیر، یا ان دو میں سے ایک کے بغیر، قابل نفاذ نہیں ہے۔ اور اگر ان دو کی غیرموجودگی، معاشرتی پہلو میں لاقانونیت، انارکی اور تباہی کا سبب بنتی ہے اور کوئی بھی عقلمند انسان اس لاقانونیت اور تباہی پر رضامند نہیں ہوسکتا؛ یہ برہان، جو ایک عقلی دلیل ہے، جس میں انبیاء کا زمانہ بھی شامل ہوتا ہے، جس کا نتیجہ نبوت کی ضرورت ہے اور رسول خاتم(ص) کے زمانے کے بعد کا زمانہ بھی، جس کا ثمرہ امامت ہے؛ اس دلیل میں امام معصوم(ع) کی غیبت [غیر موجودگی] کا زمانہ بھی شامل ہے جس کا نتیجہ ولایت فقیہ کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔ (21)
2- نقلی دلیل: بہت ساری آیات کریمہ اور احادیث شریفہ ولایت فقیہ پر دلالت کرتی ہیں اور ہم یہاں صرف ایک روایت کی طرف اشارہ کرتے ہیں: امام زمانہ علیہ السلام نے اسحاق بن یعقوب کے بھجوائے گئے سوال کے جواب میں مرقوم فرمایا: "اور پیش آمدہ واقعات و حوادث میں ہماری حدیثوں کے راویوں [فقہاء] کی طرف رجوع کرو کیونکہ وہ تمہارے اوپر میری حجت ہیں اور میں ان کے اوپر خدا کی حجت ہوں"۔ (22)
نتیجہ یہ کہ اولاً خود مذکورہ روایت میں قرینہ پایا جاتا ہے کہ امام(ع) کے ظہور سے اٹھنے والے باطل یا ضلالت کے پرچموں کا تعلق طاغوتوں، طاغوتی حکومتوں اور جھوٹے مدعیوں سے ہے اور ثانیاً یہ روایت خاص حالات اور خاص موضوع کے بارے میں ہے اور اگر اس کو مطلق مانا جائے تو تقریبا اسلام کا سب کجھ معطل ہوکر رہ جائے گا اور پھر اس کے مقابلے میں متعدد آیات قرآنی اور احادیث شریفہ موجود ہیں جو غیبت کے زمانے میں حکومت کے قیام اور امام(ع) کے لئے ماحول سازی کو واجب قرار دیتی ہیں بصورت دیگر اسلام ایک مردہ مذہب میں تبدیل ہوگا، ظہور مؤخر ہوگا، طاغوت چھا جائیں گے اور اسلام کا نام و نشان مٹ جائے گا۔
امام خمینی (قدس سرہ) باطل کے پرچموں کی عکاسی کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"آج مسلم معاشرے کا حال یہ ہے کہ جعلی مقدسین اسلام اور مسلمین کے اثر و رسوخ کا راستہ روک رہے ہیں؛ اور اسلام کا نام لے کر اسلام پر ضرب لگا رہے ہیں۔ اس جماعت کی جڑیں معاشرے کے علماء کے حلقوں کے اندر پائی جاتی ہیں۔ ۔۔۔ ایسے افراد ہیں جو مقدس نمائی کے جذبات سے سرشار ہیں، اور اپنے بھیانک افکار کو معاشرے میں رائج کررہے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جو اگر کسی کو دیکھ لیں جو کہہ رہا ہے کہ "آؤ، زندہ ہوجاؤ، آؤ اجازت نہ دو کہ ہم دوسروں کے پرچم تلے زندگی بسر کریں؛ امریکہ اور برطانیہ کو ہمارے اوپر سب کچھ ٹھونسنے کی اجازت نہ دو، اسرائیل کو اجازت نہ دو کہ اسرائیل مسلمانوں کو اس انداز سے مفلوج کردے" تو یہ اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ اس جماعت کو ابتداء ہی سے نصیحت کرکے بیدار کرنا چاہئے اور ان سے کہنا چاہئے کہ "کیا تم خطروں کو نہیں دیکھ رہے ہو، کیا نہیں دیکھ رہے ہو کہ اسرائیلی مار رہے ہیں، قتل کررہے ہیں اور نیست و نابود کررہے ہیں اور برطانیہ اور امریکہ ان کی مدد و حمایت کررہے ہیں اور تم بیٹھ کر تماشا دیکھ رہے ہو"۔ (23)
بڑی عجیب بات ہے کہ انگریزی شیعہ نہ صرف ان امریکی اور برطانوی پرچموں کو دیکھ رہے ہیں بلکہ باطل کے ان پرچموں کے منحوس سائے میں بیٹھ کر حق و حقیقت کے واحد پرچمِ ولایت پر وار کررہے ہیں؛ جبکہ اس پرچم نے آج تک پرچم علمدار کربلا(ع) کا کردار ادا کیا ہے اور امریکہ اور صہیونی ریاست کو مغربی ایشیا اور شمالی افریقہ پر قبضہ کرنے سے روکے رکھا ہے، مشاہد مشرفہ اور مزارات مقدسہ کے تحفظ کا کامیابی کے ساتھ دفاع کیا ہے، اور محاذ مزاحمت کی شکل میں مغرب، یہودی ریاست اور ان کے علاقائی گماشتوں کو اپنے عزائم پورے کرنے میں کامیاب نہیں ہونے دیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابو اسد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
21۔ جوادي آملي، عبدالله، ولايت فقيه، قم،‌ نشر اسراء، 1378ش، ص151ـ152۔
22۔ "وَأَمَّا الْحَوَادِثُ الْوَاقِعَةُ فَارْجِعُوا فِيهَا إِلَى رُوَاةِ حَدِيثِنَا فَإِنَّهُمْ حُجَّتِي عَلَيْكُمْ وَأَنَا حُجَّةُ اللَّه‏ علیهم"۔ (صدوق، کمال الدین، ج2، ص483)
23۔ امام خمینی، ولایت فقیہ، ص145۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق حسین شاہ مرادی کا کہنا ہے کہ ایران کی طرف سے امریکی اور برطانوی ویکسین کی در آمد پر پابندی کی اصل وجہ یہ ہے کہ امریکی اور برطانوی دواساز کمپنیاں عوام کی اطلاع کے بغیر ان پر غیر قانونی تجربات کرتی رہتی ہیں۔

1 : امریکی دوا ساز کمپنی فائزر نے 1996 میں نائجیریا کے لوگوں پرگردن توڑ بخار کی دوا کا تجربہ ان کی اطلاع کے بغیر انجام دیا ، حتی اس سلسلے میں فائزر نے نائجیریا کی حکومت سے بھی اجازت نہیں لی۔اور اس آزمائش کے دوران 11 بچے ہلاک ہوگئے جبکہ 200 بچے بینائی اور سماعت کی صلاحیت سے محروم ہوگئے۔

2 : ایم کے اولٹرا پروگرام جو امریکی سی آئی اے کی جانب سے ذہن کنٹرول کرنے کے منصوبہ سے معروف ہے یہ ایک مخفی منصوبہ تھا۔ اس منصوبہ میں امریکہ اور کینیڈا کے شہریوں پر انکی اطلاع کے بغیر تجربات کئے گئے جو غیر قانونی تھے۔

3 : سن 1966 میں ہنری بیچر نے اپنے ایک مقالہ میں شواہد کے ساتھ انکشاف کیا کہ  امریکی ریسرچ اور تحقیقات کے ادارے غیر قانونی طور پر سرطان کے  زندہ سیل بیماروں کے بدن میں منتقل کرتے ہیں۔ اس نے کہا کہ اس قسم کے غیر قانونی تجربات امریکہ ميں عام طور پر رائج ہیں۔

4 : بیسویں صدی میں امریکی ماہرین نے ایک دوا ڈپوپروورا کا زیمبابوے کی خواتین پر تجربہ کیا اور بعد میں پتہ چلا کہ یہ دوا آبادی کو کنٹرول کرنے کے لئے استعمال کی جاتی ہے اور سن 1981 میں زیمبابوے کی حکومت نے اس دوا کو ممنوع قراردیدیا۔

5 : سن 1994 میں امریکی دوا ساز کمپنیوں نے ایڈز کی دوا " اے زیڈ ٹی " کا افریقہ کی 17000 خواتین پر تجربہ کیا اور اجازت کے بغیر اصل دوا کے بجائے پلاسیبو کھلائی گئی جس کے نتیجے میں 1000 بچے ایڈز میں مبتلا پیدا ہوئے۔

6 : برطانیہ کے قومی آرکائیو کی خفیہ اسناد کے شائ‏ع ہونے کے بعد معلوم ہوا کہ سن 30 اور 40 کی دہائیوں ميں برطانوی فوج نے اپنے ہی فوجیوں پر مسٹرڈ گیس کا استعمال کیا تاکہ یہ جان لیں کہ اس کا تخریبی اثر بھارتیوں پر زیادہ ہوتا ہےیا برطانوی شہریوں پر۔ سن 1950 میں ڈونلڈ میڈسن 200 ملی گرام سارین کے ذریعہ ہلاک ہوگیا تھا اسے کہا گيا تھا کہ  یہ دوا سردی سے بچانے کی دوا ہے۔

7 : سن 1946 سے 1948 تک امریکی ماہرین  نے گوئٹمالا کی حکومت کے تعاون سے گوئٹمالا کے 1500 بیماروں پر تجربات کئے اور انھیں سفلیس اور سوزاک کی بیماریوں میں مبتلا کردیا۔ اور انھیں ایک دوسرے کے ساتھ جنسی تعلق پر مجبور کرتے تھے تاکہ بیماری منتقل ہو اور امریکی دوا سازوں کے اس مجرمانہ قعل پر کئي سال بعد  سابق صدر اوبامہ اور ہیلری کلنٹن نے معذرت خواہی کی تھی۔

مذکورہ بالا تجربات اور دیگر بہت سے امور اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ امریکی اور برطانوی دواساز کمپنیاں قابل اعتماد نہیں ہیں اور ان کی ویکسینوں پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ لہذا عقل اور منطق کا تقاضا یہی ہے کہ اپنے ملک میں تیار کردہ دواؤں اور ویکسینوں سے استفادہ کرنا چاہیے۔

فاتح بدر و حنین، علمدار لشکر اسلام، داماد رسول اسلام، مہاجرین و انصار کے امام اباالحسنین حضرت علی کرم اللہ وجہ 13 رجب المرجب کو خانہ کعبہ میں پیدا ہوئے۔ یہ آپ کے فضائل میں سے ہے کہ آپ کی ولادت باسعادت خانہ کعبہ میں ہوئی۔ علمائے سیرت نے اسے آپ کے خواص میں سے شمار کیا ہے کہ یہ فضیلت آپ کے علاوہ اور کسی کو نصیب نہیں ہوئی بقول شاعر
کسے را میسر نہ شد ایں سعادت
با کعبہ ولادت با مسجد شہادت
کسی کو میسر نہ ہوئی یہ سعادت
کعبہ میں ولادت، مسجد میں شہادت

آپ کے والد کا نام حضرت ابوطالب اور والدہ کا نام حضرت فاطمہ بنت اسد رضی اللہ تعالٰی عنھا تھا، جو آپ ﷺ پر ایمان لانے والی ابتدائی خواتین میں سے  تھیں۔ آپ کے القابات میں ساقی کوثر، یداللہ، حیدر کرار، نفس رسول اللہ، امیرالمومنین، مرتضٰی اور اسد زیادہ معروف ہیں۔ آپ کی مشہور کنیت ابو تراب اور ابوالحسن ہے۔ آپ کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ آپ خاندان ہاشم کے پہلے فرد ہیں، جن کے والد اور والدہ دونوں ہاشمی تھے۔

حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ انتہائی کم عمری میں ہی آپ ﷺ کی پرورش میں آگئے۔ آپ کی تربیت آغوش نبوی ﷺ میں ہوئی۔ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کا مشہور قول ہے کہ میں رسول (صلی الله علیه و آله وسلم) کے پیچھے پیچھے اس طرح سے چلتا تھا، جس طرح سے اونٹنی کا بچہ اونٹنی کے پیچھے پیچھے چلتا ہے اور اپنے بچپنے سے لیکر آخر وقت تک رسول کے ہمراہ رہا۔ اسی تربیت پیغمبر کا اثر ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی شخصیت کمالات کا مجموعہ نظر آتی ہے۔ ہم ان کی صفات حسنہ کے بعض گوشوں کو بیان کریں گے۔

علم 
آپ کی شخصیت جامع العلوم ہے، ایسا کیوں نہ ہو خود حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں نبی اکرام ﷺ نے مجھے علم کے ایک ہزار ابواب تعلیم دیئے اور میں نے ہر باب سے مزید ہزار باب اپنی جستجو سے پیدا کئے۔ آپ پوری زندگی سائے کی طرح نبی اکرم ﷺ کے ساتھ ساتھ رہے۔ فرمایا کرتے تھے کہ مجھ سے قرآن کی آیات اور ان کی تفسیر کے بارے میں پوچھ لو، کیونکہ میں جانتا ہوں کہ کونسی آیت جنگ میں نازل ہوئی، کونسی سفر میں اور کونسی حضر میں نازل ہوئی۔ اسی لیے قرآن کریم کی تفسیری روایات کا بڑا حصہ آپ سے منقول ہے۔ تمام صحابہ کرام میں صرف آپ کے بارے میں یہ ملتا ہے کہ آپ نے مسجد کوفہ میں فرمایا تھا جو چاہو مجھ سے پوچھ لو، یقیناً مکتب رسالت سے تعلیم پانے والا ہی یہ دعویٰ کرسکتا ہے۔ علم صرف و نحو کے آپ موجد ہیں، قرآن کے اعراب آپ کے شاگرد نے لگائے۔ بعض روایات میں ملتا ہے کہ آپ نے قرآن کا ایک نسخہ تحریر فرمایا تھا، جس میں شان نزول بھی ساتھ  تحریر کر دیا تھا۔ اسے مصحف امام علی  رضی اللہ تعالٰی عنہ کہا جاتا ہے۔ اس طرح یہ قرآن کی پہلی تفسیر تھی، جو ہم تک نہیں پہنچی۔ علم فصاحت و بلاغت کے آپ امام تھے۔ آپ کے خطبات پر مشتمل کتاب نہج البلاغہ آپ کی بلاغت کی اعلٰی مثال ہے، جس کے بارے میں اہل فن نے کہا کہ خالق کے کلام سے نیچے اور مخلوق کے کلام سے بلند ہے۔ 

شجاعت
آپ کی شجاعت کا ذکر ہو تو دنیائے عرب و عجم کے بڑے بڑے نام آپ کا نام سن کر کانپ جاتے ہیں۔ شجاعت پر تو آپ کی حکمرانی ہے۔ ہر عظیم مجاہد نے آپ کو اپنا آیئڈیل قرار دیا ہے۔ آپ بے خطر جنگ کے شعلوں میں کود جاتے۔ آپ کی تلوار نے استحکام اسلام میں بنیادی کردار ادا کیا۔ آپ کی جنگ اللہ کے لیے ہوتی تھی۔ اسی لئے ایک موقع پر جب آپ دشمن کے سپاہی کو گرا کر اسے قتل کرنے لگے تو اس نے آپ کے چہرہ پر تھوک دیا۔ آپ اس سے چند لمحوں کے لیے دور ہٹ گئے۔ تھوڑی دیر بعد اسے قتل کیا۔ جب پوچھا گیا تو بتایا کہ میں اسے اللہ کے لئے قتل کر رہا تھا، جب اس نے گستاخی کی تو مجھے غصہ آگیا، اب اگر اسے قتل کرتا تو اس میں میرا غصہ شامل ہو جاتا، میرا یہ عمل خالص خدا کے لئے نہ رہتا، اس لیے میں نے اسے چھوڑ دیا اور جب غصہ اتر گیا تو قتل کیا۔ جنگ بدر ہو یا احد کا میدان، جنگ خندق ہو یا حنین و خیبر کا میداں کارزار ہو، ہر جنگ  میں حضرت علی کی تلوار دشمنان اسلام کے لئے خوف کی علامت تھی۔ تمام جنگوں میں دشمن کے بڑے بڑے سورمے حضرت علی کی تلوار سے کٹ کر واصل جہنم ہوئے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی تلوار ہر مظلوم کی مدد گار تھی۔
 
زہد و تقویٰ
آپ کے تقویٰ کو ملاحظہ کیا جائے تو دنیا بھر کے اہل تقویٰ آپ کے در اقدس کو سلام کرتے نطر آتے ہیں۔ دنیا میں سیر و سلوک کے جتنے سلسلے ہیں، صوفیہ کی جتنی تحریکیں ہیں، خود کو حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ آپ کثرت سے عبادت خدا انجام دیا کرتے تھے۔ شب و روز میں ایک ہزار رکعتیں نماز ادا کرتے۔ آپ نے سورج کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا تھا کہ اے سورج میں نے ہمیشہ تمہیں طلوع ہوتے دیکھا ہے، مگر تو  نے مجھے کبھی سوئے ہوئے نہیں پایا۔ آپ کے پوتے حضرت امام زین العابدینؒ جن کی کثرت عبادت ضرب المثل کی حیثیت رکھتی ہے، جو پوری پوری رات قیام و قعود میں گذار دیتے تھے، ان سے کسی نے کہا آپ اللہ کی بہت زیادہ بندگی کرتے ہیں، آپ نے کہا کہ وہ صحیفہ لے آو جس پر میرے دادا علی کی عبادت کا تذکرہ ہے، جب اسے لا کر پڑھا تو فرمایا کون میرے دادا کی عبادت جتنی عبادت کرسکتا ہے۔ آپ دنیا سے بے رغبتی اختیار کرتے تھے، فرماتے تھے اے دنیا میرے غیر کو دھوکہ دے، میں تجھے تین طلاقیں دے چکا ہوں، آپ جو کی روٹی کھاتے اور کثرت سے روزے رکھتے تھے۔

سخاوت
آپ کی سخاوت پورے مدینہ میں معروف تھی، آپ باغ لگاتے، جب وہ تیار ہوجاتے تو انہوں اللہ کی راہ میں وقف کر دیتے۔ آپ کنویں کھودتے مکمل ہونے پر اللہ کی راہ میں وقف کر دیتے۔ اپنے حصے کا مال غنیمت خدا کی راہ میں خرچ کر دیتے، کھانے کے وقت کو فقیر آ جاتا تو اپنا کھانا اسے دے دیتے، کمتر پر گزارہ کرتے۔
عدل
آپ ﷺ کی حدیث مبارکہ ہے کہ تم میں سب سے بڑا قاضی علی رضی اللہ تعالٰی عنہ ہے، آپ مشکل سے مشکل فیصلے پلک جھپکنے میں کر دیتے، عدالت کے معاملہ میں کسی قسم کی رعایت نہیں کرتے تھے۔ آپ کا مشہور قول ہے کہ حکومت ظلم سے تو قائم رہ سکتی ہے مگر بغیر عدل کے قائم نہیں رہ سکتی۔ آپ ظالم کو ایک لمحے کی چھوٹ نہیں دیتے تھے۔ آپ کے دور میں ایک مسیحی خاتون کی پازیب یا گلوبند لوٹ لیا گیا، آپ نے فرمایا اگر کوئی مسلمان اس خبر کو سن کر مر جائے تو حق مرا، یہ اتنا بڑا واقعہ ہے کہ اسلامی حکومت میں خاتون کے زیور لوٹ لئے گئے۔ جارج جرداق لبنان کے ایک مسیحی مفکر ہیں، انہوں نے کتاب لکھی "انسانی عدالت کی آواز امام علی رضی اللہ تعالٰی عنہ" اس میں لکھتے ہیں علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو ان کی کثرت عدالت کی وجہ سے قتل کیا گیا۔ آپ کا مشہور قول ہے ظالم کے دشمن اور مظلوم کے مدد گار بنو، ایک بار ایک یہودی کے ساتھ آپ کا نزاع ہوگیا، دونوں قاضی کے پاس گئے، پہلے قاضی صاحب نے دوسرے آدمی کو اس کے نام سے بلایا، پھر آپ کو آپ کی کنیت سے، جو کہ عزت و عظمت کی علامت تھی، یا اباالحسن کہہ کر بلایا، تو آپ نے قاضی سے کہا کہ آپ نے انصاف نہیں کیا، مجھے کنیت سے بلایا اور دوسرے فریق کو نام سے پکارا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ اس حد تک عدل کا خیال رکھا کرتے تھے، اسی لیے عرب کہتے ہیں
قضية ولا أبا حسن لها
کوئی مشکل فیصلہ ہو اور ابالحسن نہ ہوں یعنی خدا ایسا وقت نہ لائے کہ علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نہ ہوں اور مشکل فیصلہ ہو۔

محنت میں عظمت ہے
حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی سیرت کا یہ انتہائی اہم پہلو ہے کہ آپ محنت و مزدوری کا کام جسے آج کل معمولی اور حقیر سمجھا جاتا ہے، اپنے ہاتھوں سے انجام دیا کرتے تھے۔ آپ یہودی کے باغ میں مزدوری کرتے تھے۔ آپ نے مدینہ کے اردگرد کجھور کے کئی باغ لگائے ان کو خود پانی دیتے تھے، ان کی خود دیکھ بھال کرتے تھے۔
حسن سلوک
آپ تمام لوگوں سے حسن سلوک کے ساتھ پیش آتے تھے، بالخصوص معاشرے کے پسے ہوئے طبقات کے ساتھ آپ کا رویہ مشفقانہ ہوتا تھا۔ آپ اپنے غلام قنبر کے ساتھ بازار گئے اور دو عدد کپڑے کے سوٹ خریدے، ان میں سے اچھا اور مہنگا سوٹ اپنے غلام کو دے دیا، اس نے کہا یا امیرالمومنین اچھا سوٹ آپ لے لیجئے، مجھے دوسرا سوٹ دیجئے، میرے لیے وہ بہتر ہے۔ آپ نے فرمایا نہیں، یہ اچھا سوٹ تم پہنو کیونکہ تم جوان ہو، تمہیں اس کی ضرورت ہے۔ دوسرا کم قیمت سوٹ میں پہنوں گا، میں بوڑھا ہوں، مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

طرز حکومت
آپ کا طرز حکومت عدل و انصاف پر مبنی تھا۔ آپ نے انتشار کا شکار مسلم معاشرے کو پھر سے جوڑنے کی بھرپور کوششیں کیں۔ آپ نے  اپنی حکومتی پالیسی کا اظہار اپنے خط میں فرمایا۔ یہ خط عہد نامہ مالک اشتر کے نام سے مشہور ہوا۔ اس میں حضرت نے اصول حکمرانی بیان فرمائے۔ پاکستان کے ایک سابق وزیراعظم نے اس خط کو اپنی حکومت کے لیے نمونہ عمل قرار دیا تھا۔ آپ کے طرز حکمرانی کو اقوام متحدہ نے عرب ممالک کے لئے نمونہ عمل قرار دیا، جس میں کسی قسم کا طبقاتی نظام نہ تھا، وسائل پر ہر شہری کا برابر کا حق تھا،  اقلیتوں کو تمام بنیادی حقوق حاصل تھے۔ آپکے دوران حکومت میں زیادہ تر اندرونی جنگوں کا سامنا رہا، مگر اس کے باوجود معاشرے کے پسماندہ طبقات کا خیال رکھا، ان کو تمام حقوق فراہم کئے۔
 
 
تحریر: ندیم عباس 
پی ایچ ڈی اسکالر نمل یونیورسٹی اسلام آباد
 

رسول گرامی اسلام کا ارشاد ہے کہ "رجب" جنت میں ایک نہر کا نام ہے، جو دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھی ہے۔ جو شخص اس ماہِ مبارک میں ایک دن کا روزہ رکھے گا تو وہ ضرور اس نہر سے پانی پئے گا۔ رجب، شعبان، رمضان کے مہینے بڑی فضیلت والے ہیں، ان کی فضیلت میں بہت سی روایات وارد ہوئی ہیں۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے کہ "رجب اللہ تعالی کا مہینہ ہے اور کوئی مہینہ بھی اس کے احترام اور فضیلت کو نہیں پہنچ سکتا۔ اس مہینہ میں کفار سے لڑائی حرام ہے، پھر فرمایا شعبان میرا مہینہ اور رمضان میری امت کا مہینہ ہے، جو شخص اس ماہ میں ایک دن روزہ رکھے گا، وہ اللہ تعالی کی بہت بڑی خوشنودی کا مستحق ہوگا اور خدا کا غضب اس سے دور رہے گا، اور جہنم کے دروازوں میں سے ایک دروازہ اس پر بند کر دیا جائے گا"۔ 

حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام سے نقل ہے کہ جو شخص اس ماہ میں ایک دن روزہ رکھے گا تو جہنم کی آگ اس سے ایک سال کے راستہ کے برابر دور ہو جائے گی، اور جو تین دن کے روزے رکھے تو اس پر جنت واجب ہو جائے گی۔ امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، "رجب کا مہینہ میری امت کے لئے استغفار کا مہینہ ہے، پس اس مہینے میں گناہوں کی معافی مانگو کیونکہ خداوند عالم بہت بخشنے والا اور مہربان ہے، اور رجب کو اصبّ بھی کہتے ہیں کیونکہ اللہ کی رحمت اس مہینہ میں میری امت پر زیادہ ہے، اور اس ماہ کا ذکر "اَستَغفراللہَ وَاَسئَلُہُ التَّوبۃَ" ہے۔ 

ابن بابویہ نے معتبر سند سے سالم سے روایت کی ہے کہ میں ماہ رجب کے آخر میں امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا، جب آپ کی نگاہ مجھ پر پڑی تو آپ نے سوال کیا، کیا اس مہینے کا روزہ رکھا ہے، میں نے کہا خدا کی قسم نہیں، تو آپ نے فرمایا کہ تجھ سے اتنا ثواب فوت ہو گیا کہ جس کے اندازہ کو صرف خداوندعالم جانتا ہے، کیونکہ خدا کے نزدیک یہ ماہ بہت محترم ہے۔ میں نے عرض کی اے فرزند رسول، اگر میں اس کے باقی دنوں میں روزہ رکھ لوں تو ثواب پا لوں گا، آپ نے فرمایا، اے سالم جو اس کے آخری دن کا روزہ رکھ لے تو خداوندعالم اسے سکرات موت کی سختی اور موت کے بعد والے خوف اور قبر کے عذاب سے محفوظ رکھے گا اور جو شخص آخری دو دن کے روزے رکھے تو وہ پل صراط سے آسانی سے گزرے گا اور جو کوئی اس کے آخری تین دن کے روزے رکھے تو وہ روز قیامت کے بہت بڑے خوف، اور اس دن کی سختی سے محفوظ رہے گا اور جہنم سے برائت ہو گی، اور جو روزہ رکھنے پر قادر نہ ہوتو وہ ہر دن سو مرتبہ اس تسبیح کو پڑھے تاکہ وہ اس دن کے روزہ کے ثواب کو پا لے، وہ تسبیح یہ ہے" سبحان الاِلَہَ للہِ الجلیلِ سبحانَ مَن لاَ یَنبغیِ التَّسبیح اِلّا لَہُ سُبحانَ الاَعَزِّ الاکرمِ، سبحانَ َمن لَبِسَ العِزّ وَھوَ لَہُ اَھلُ۔1 

اس ماہ کی برکتوں میں اس وقت مزید اضافہ ہوگیا جب ہمارے پانچویں امام، امام محمد باقر علیہ السلام اس دنیا میں تشریف لائے، ہمارے پانچويں پيشوا امام محمد باقر (ع) جمعہ كے دن پہلى رجب 57ھ ق كو شہر مدينہ ميں پيدا ہوئے۔ 2۔ آپ كا نام محمد، كنيت ابوجعفر اور مشہورترين لقب باقر ہے۔ روايت میں نقل ہے كہ رسول اکرم صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم نے انہیں اس لقب سے ملقب فرمايا تھا۔ امام محمد باقر (ع) ماں اور باپ دونوں طرف سے فاطمى اور علوى تھے، اس لئے كہ ان كے والد امام زين العابدين امام حسين (ع) كے فرزند تھے، اور ان كى والدہ گرامى ''ام عبداللہ'' امام مجتبى (ع) كى بيٹى تھيں۔ آپ نے امام زين العابدين (ع) جيسے باپ كى پرمہر آغوش ميں پرورش پائی اور بافضيلت و باتقوا ماں كى گود میں پلے بڑھے۔ وہ ماں جو عالمہ اور مقدسہ تھيں، امام جعفر صادق عليہ اسلام سے منقول ہے كہ '' ميرى جدّہ ايسى صديقہ تھيں كہ اولاد امام حسن مجتبى (ع) ميں كوئی عورت انكى فضيلت كے پايہ كو نہ پہنچ سكی۔ 3

امام محمد باقر (ع) كى عمر چار سال سے بھی كم تھى كہ جب كربلا كا خونين واقعہ پيش آيا۔ آپ (ع) اپنے جد حضرت اباعبداللہ الحسين (ع) كے پاس موجود تھے۔ واقعہ كربلا كے بعد 34 برس آپ (ع) نے اپنے والد بزرگوار كے ساتھ زندگى گذاری، آپ جوانى ہى كے زمانہ سے علم و دانش، فضيلت و تقوٰى ميں مشہور تھے یہاں تک کہ آپکو مسلمانوں كی علمى مشكلات كے حل كا مرجع سمجھا جانے لگا۔ جہاں كہيں بھى ہاشميين، علويين اور فاطميين كے فضائل اور بلندى كا ذكر ہوتا، آپ (ع) كو ان تمام مقدسات، شجاعت اور بزرگى كا لوگ تنہا وارث جانتے تھے۔ آپ (ع) كى شرافت اور بزرگى کا اندازہ پيغمبر (ص) کی اس حدیث سے لگایا جا سکتا ہے جو آپ نے اپنے ايک بزرگ صحابی، جابر ابن عبداللہ انصارى (رض) سے فرمائی، '' اے جابر تم زندہ رہو گے اور ميرے فرزند محمد ابن على ابن الحسين (ع) كہ جن كا نام تورات ميں ''باقر'' ہے سے ملاقات كرو گے۔ ملاقات ہونے پر ميرا سلام اسے پہنچا دينا''۔ پيغمبر (ص) رحلت فرما گئے۔ جابر (رض) نے ايک طويل عمر پائی۔
 
آپ ايک دن امام زين العابدين (ع) كے گھر تشريف لائے اور امام محمد باقر (ع) كو جو اس وقت چھوٹے سے تھے ديكھا، جابر نے اس بچے سے كہا، ذرا آگے آئيے امام (ع) آگے آ گئے، جابر نے كہا، ذرا مڑ جايئے امام مڑ گئے، جابر نے ان كے جسم اور چلنے كا انداز ديكھا اس كے بعد كہا، رب كعبہ كى قسم، يہ ہو بہو آئينہ پيغمبر (ص) ہيں، پھر انہوں نے امام زين العابدين (ع) سے پوچھا'' يہ بچہ كون ہے؟ آپ نے فرمايا، ميرے بعد امام ميرا بيٹا محمد باقر (ع) ہے، جابر اپنی جگہ سے اٹھے اور آپ نے امام كے قدموں كا بوسہ ليا اور كہا، اے فرزند پيغمبر (ص) ميں آپ پر نثار، آپ اپنے جد رسول خدا كا سلام و درود قبول فرمائيں انہوں نے آپ كو سلام كہلو ايا ہے۔ شعور کی منزل دیکھئے کہ اس کم سنی کے باوجود امام محمد باقر (ع) كى آنكھيں ڈبڈبا گئيں اور آپ (ع) نے فرمايا، جب تک آسمان اور زمين باقى ہے اس وقت تک ميرا سلام و درود ہو، ميرے جد پيغمبر (ص) خدا پر اور تم پر بھى سلام ہو اے جابر، تم نے ان كا سلام مجھ تک پہنچايا۔

اخلاق و عادات كے اعتبار سے حضرت امام محمد باقر (ع)، متواضع، سخی، مہربان اور صابر تھے اور جيسا كہ جابر نے كہا تھا ہو بہو اسلام كے عظيم الشان پيغمبر (ص) كا آئينہ تھے۔ آپکی مہربانی اور عفو گذشت کا یہ عالم تھا کہ شام كا ايک شخص مدينہ ميں ٹھہرا ہوا تھا اور امام (ع) كے پاس بہت آتا رہتا تھا اور كہتا تھا كہ تم سے زيادہ روئے زمين پر اور كسى كے بارے ميں ميرے دل ميں بغض و كينہ نہيں ہے، تمہارا اور تمہارے خاندان سے زيادہ ميں كسى كا دشمن نہيں ہوں، اگر تم يہ ديكھتے ہو كہ ميں تمہارے گھر آتا جاتا ہوں تو يہ اس لئے ہے كہ تم ايک بہترین سخنور ہو، اس كی تمامتر بےادبیوں کے باوجود باوجود امام (ع) اس كے ساتھ حسن سلوک سے پيش آتے تھے اور اس سے بڑى نرمى سے بات كرتے تھے، كچھ دنوں كے بعد وہ شخص بيمار ہوا اس نے وصيت كى كہ جب ميں مرجاؤں تو امام محمد باقر (ع) ميرى نماز جنازہ پڑھائيں، جب اس كے متعلقين نے اسے مردہ ديكھا تو امام (ع) كے پاس پہنچ كر عرض كى كہ وہ شامى مرگيا اور اس نے وصيت كى ہے كہ آپ اس كى نماز جنازہ پڑھائيں۔ امام نے فرمايا، وہ مرا نہيں ہے جلدى نہ كرو يہاں تک كہ ميں پہنچ جاؤں، اس كے بعد آپ اٹھے اور آپ نے دو ركعت نماز پڑھى اور ہاتھوں كو دعا كے لئے بلند كيا اور تھوڑى دير تک سجدہ میں رہے، پھر شامى كے گھر گئے اور بيمار كے سرہانے بيٹھ گئے، اس كو اٹھا كر بٹھايا، اس كى پشت كو ديوار كا سہارا ديا اور شربت منگوا كر اس كے منہ ميں ڈالا اور اس كے متعلقين سے فرمايا كہ اس كو ٹھنڈى غذائيں دى جائيں اور خود واپس چلے گئے، ابھى تھوڑى دير نہ گذرى تھى كہ شامى كو شفا مل گئي وہ امام (ع) كے پاس آيا اور عرض كرنے لگا،''ميں گواہى ديتا ہوں كہ آپ، لوگوں پر خدا كى حجت ہيں''۔5

دوسرے تمام آئمہ كى طرح امام محمد باقر (ع) كا علم بھى چشمہ وحى سے فيضان حاصل كرتا تھا، آپ علم لدنی کے مالک تھے، جابر بن عبداللہ آپ كے پاس آتے اور آپ كے علم سے بہرہ ور ہوتے اور بار بار عرض كرتے تھے كہ ''اے علوم كو شگافتہ كرنے والے ميں گواہى ديتا ہوں كہ آپ بچپن ہى ميں علم خدا سے مالا مال ہيں۔ 6 اہلسنت كے علماء ميں سے ايک بزرگوار عبداللہ ابن عطاء مكى فرماتے تھے كہ ميں نے امام محمد باقر (ع) كے سامنے اہل علم كو جس طرح حقير اور چھوٹا پايا ہے ويسا كسى كے سامنے نہيں پایا۔ حكم بن عتيبہ لوگوں كے نزديک جن كا علمى مقام بہت بلند تھا، امام محمد باقر (ع) كے سامنے ان كى حالت يہ ہوتى تھى كہ جيسے ايک شاگرد استاد كے سامنے''۔ 7 آپ كا علمى مقام ايسا تھا كہ جابر بن يزيد جعفى ان سے روايت كرتے وقت كہتے تھے ''وصى اوصياء اور وارث علوم انبياء محمد بن على بن الحسين نے ايسا كہا ہے ...''۔ 8 

یوں تو سارے ایام خداوند متعال کے ہیں اور خدا ہی کی مخلوق ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے بعض مہینوں اور ایام کو خاص فضیلت اور شرافت دی گئی ہے۔ ماہ رجب، شعبان اور رمضان کی فضیلت کے بارے میں بہت زیادہ روایات وارد  ہوئی ہیں، حتیٰ کہ ماہ رجب کے بارے میں یہاں تک ملتا ہے کہ کوئی بھی مہینہ حرمت، فضیلت اور شرافت کے لحاظ سے اس مہینے کے برابر نہیں ہوسکتا۔ یہ مہینہ ان چار مہینوں میں سے ہے، جن میں کافروں سے بھی جنگ کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ ?پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا "رَجَبٌ شَهْرُ اللَّهِ، وَشَعْبَانُ شَهْرِي، وَ رَمَضَانُ شَهْرُ أُمَّتِي»؛"(1) "رجب خدا کا مہینہ، شعبان میرا اور رمضان میری امت کا مہینہ ہے۔" جس نے اس مہینے میں ایک دن روزہ رکھا، یہ خدا کی خوشنودی کا سبب بنتا ہے اور اس سے عذاب الہیٰ دور ہوتا ہے اور جہنم کے دروازے اس کے لئے بند ہوتے ہیں۔

?امام کاظم علیہ السلام سے روایت ہے: "رَجَبٌ نَهَرٌ فِي اَلْجَنَّةِ أَشَدُّ بَيَاضاً مِنَ اَللَّبَنِ وَ أَحْلَى مِنَ اَلْعَسَلِ مَنْ صَامَ يَوْماً مِنْ رَجَبٍ سَقَاهُ اَللَّهُ عَزَّوَجَلَّ مِنْ ذَلِكَ اَلنَّهَرِ." رجب جنت کی ایک نہر کا نام ہے، جو دودھ سے زیادہ سفید شہد سے زیادہ میٹھی ہے، جس نے اس مہینے میں ایک دن روزہ رکھا، اللہ تعالیٰ اس کو اس نہر سے سیراب کرے گا۔"(2) ?پیغمبر کی ایک اور روایت ہے، جس میں آپ فرماتے ہیں: اِنّ فِی الجَنَّتِہ قَصرَاً لایَدخُلُہ اِلّا صَوّامُ رَجَب، "جنت میں ایک محل ہے، اس میں رجب میں روزہ رکھنے والوں کےعلاوہ کوئی داخل نہیں ہوسکتا۔"(3) ? امام کاظم علیہ السلام سے مروی ہے کہ رَجَب شَہرٌ عَظِیمٌ یُضَاعَفُ فِيہ الحَسَنَاتُ وَیَمحُوا فَيہ السَّیِّئاتِ "رجب ایک بہت عظیم مہینہ ہے کہ خداوند عالم اس میں نیکیوں کو دگنا اور گناہوں کو محو کر دیتا ہے۔" ?پیغمبر صلی الله عليه وآلہ وسلم فرماتے ہیں: رَجَبٌ شَهرُ اللّه ِالأصَبُّ يَصُبُّ اللّه ُ فِيهِ الرَّحمَةَ عَلى عِبادِهِ؛ "رجب خدا کی رحمتوں کی بارش برسنے کا مہینہ ہے، خداوند اس مہینے میں اپنی رحمتیں برساتا ہے۔"(4)

? مرحوم شیخ صدوق نے کتاب فضائل الاشہر الثلاثہ میں روایت نقل کرتے ہیں: "مَنْ صَامَ يَوْماً مِنْ رَجَبٍ فِي أَوَّلِهِ أَوْ فِي‏ وَسَطِهِ أَوْ فِي آخِرِهِ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَ مَا تَأَخَّرَ وَ مَنْ صَامَ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ مِنْ رَجَبٍ فِي أَوَّلِهِ وَ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ فِي وَسَطِهِ وَ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ فِي آخِرِهِ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَ مَا تَأَخَّرَ وَ مَنْ أَحْيَا لَيْلَةً مِنْ لَيَالِي رَجَبٍ أَعْتَقَهُ اللَّهُ مِنَ النَّارِ وَ قَبِلَ شَفَاعَتَهُ فِي سَبْعِينَ أَلْفَ رَجُلٍ مِنَ الْمُذْنِبِينَ وَ مَنْ تَصَدَّقَ بِصَدَقَةٍ فِي رَجَبٍ ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللَّهِ أَكْرَمَهُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِي الْجَنَّةِ مِنَ الثَّوَابِ مَا لَا عَيْنٌ رَأَتْ وَ لَا أُذُنٌ سَمِعَتْ وَ لَا خَطَرَ عَلَى قَلْبِ بَشَرٍ" "جس نے رجب کے شروع میں ایک دن روزہ رکھا یا درمیان میں ایک دن رکھا یا آخر میں روزہ رکھا، اس کے گذشتہ اور آئندہ کے گناہوں کو بخش دیا جائے گا اور جس نے رجب کے شروع اور درمیان اور آخر میں تین تین دن روزہ رکھا، اس کے گذشتہ اور آئندہ کے سارے گناہ بخش دیئے جائیں گے اور جس نے اس مہینے کی کسی رات میں احیاء کیا (یعنی  پوری رات خدا کی عبادت میں مصروف رہا) خدا اسے جہنم کی آگ سے آزاد کر دے گا اور ستر ہزار گناہگاروں کی  شفاعت قبول کرے گا، جس نے رجب میں رضائے خدا کی خاطر صدقہ دیا، خدا اس کو جنت میں اس قدر عزت دے گا، جو نہ کسی آنکھ نے دیکھی ہوگی نہ کسی کان نے سنی ہوگی، نہ کسی انسان کے دل میں خیال آیا ہوگا۔"(5)

 ☀️امام صادق (ع) سے منقول ہے کہ رجب میری امت کے لیے استغفار کا مہینہ ہے۔۔
پس اس مہینے میں مغفرت طلب کریں، خدا مہربان اور مغفرت کرنے والا ہے اور رجب کو اصبّ کہا گیا ہے کیونکہ اس مہینے میں اللہ کی طرف سے رحمتیں بکثرت نازل ہوتی ہیں۔ پس بہت زیادہ استغفراللہ و اسئلہ التوبہ پڑھا کرو(6) *?رجب کی فضیلت امام  رضا علیہ السلام کی نظر میں*  حسن ابن علی ابن فضال امام رضا سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: "جس نے رجب کی پہلی کو ثواب اور جزا کے لئے  روزہ رکھا اس پر جنت واجب ہے اور جس نے مہینے کے درمیان میں روزہ رکھا، اللہ ربیعہ اور مصر کے برابر (جو کہ دو بڑے بڑے قبیلے تھے) شفاعت کرائے گا، جس نے آخر رجب میں ایک دن روزہ رکھا، خدا اس کو اہل بہشت میں سے قرار دیتا ہے اور اس کے والدین، اولاد، بہن بھائیوں، چچاوں، پھوپھیوں ماموں، خالاوں، دوستو اور ہمسایوں تک کی شفاعت قبول کرتا ہے، اگرچہ ان میں کوئی جہنم کا مستحق ہی کیوں نہ ہو۔"(7)

❄️رسول خدا سے منقول ہے: «إِنَّ اللَّهَ تَبَارَکَ وَ تَعَالَى نَصَبَ فِی السَّمَاءِ السَّابِعَهِ مَلَکاً یُقَالُ لَهُ الدَّاعِی فَإِذَا دَخَلَ شَهْرُ رَجَبٍ یُنَادِی ذَلِکَ الْمَلَکُ کُلَّ لَیْلَهٍ مِنْهُ إِلَى الصَّبَاحِ طُوبَى لِلذَّاکِرِینَ طُوبَى لِلطَّائِعِینَ وَ یَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى أَنَا جَلِیسُ مَنْ جَالَسَنِی وَ مُطِیعُ مَنْ أَطَاعَنِی وَ غَافِرُ مَنِ تَغْفَرَنِی الشَّهْرُ شَهْرِی وَ الْعَبْدُ عَبْدِی وَ الرَّحْمَهُ رَحْمَتِی فَمَنْ دَعَانِی فِی هَذَا الشَّهْرِ أَجَبْتُهُ وَ مَنْ سَأَلَنِی أَعْطَیْتُهُ وَ مَنِ اسْتَهْدَانِی هَدَیْتُهُ وَ جَعَلْتُ هَذَا الشَّهْرَ حَبْلًا بَیْنِی وَ بَیْنَ عِبَادِی فَمَنِ اعْتَصَمَ بِهِ وَصَلَ إِلَیَّ.»(8) "اللہ تعالیٰ نے ساتویں آسمان میں ایک فرشتہ مقرر فرمایا ہے کہ جس کو داعی کہا جاتا ہے، جب ماہ رجب کا مہینہ آتا ہے تو وہ فرشتہ رات کے شروع سے لے کر صبح تک ندا دیتا رہتا ہے، خوش قسمت ہیں خدا کو یاد کرنے والے، خوش قسمت ہیں اطاعت کرنے والے، اللہ فرماتا ہے میں اس کا ہمنشین ہوں، جو میرا ہمنشین ہے، میں اس کا مطیع ہوں جو میرا مطیع  ہے۔ میں اس کی مغفرت کرنے والا ہوں، جو مغفرت کا تقاضا کرتا ہے۔ مہینہ میرا مہینہ ہے، رحمت میری رحمت ہے، جس نے مجھے اس مہینے میں پکارا میں قبول کروں گا اور جس نے مجھ سے کوئی چیز طلب کی، اسے عطاء کروں گا اور جو مجھ سے ہدایت طلب کرے، میں اس کی ہدایت کرونگا۔ اللہ نے رجب کے مہینے کو اپنے اور بندوں کے درمیان رسی اور وسیلہ قرار دیا ہے، جس نے بھی اس رسی کو مضبوطی سے پکڑا وہ مجھ تک پہنچ جائے گا۔۔"

?مرحوم شیخ صدوق سے ایک اور روایت نقل ہوئی ہے: "إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ نَادَى مُنَادٍ مِنْ بُطْنَانِ الْعَرْشِ أَيْنَ الرَّجَبِيُّونَ فَيَقُومُ أُنَاسٌ يُضِي‏ءُ وُجُوهُهُمْ لِأَهْلِ الْجَمْعِ عَلَى رُءُوسِهِمْ تِيجَانُ الْمُلْكِ مُكَلَّلَةً بِالدُّرِّ وَ الْيَاقُوتِ مَعَ كُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ أَلْفُ مَلَكٍ عَنْ يَمِينِهِ وَ أَلْفُ مَلَكٍ عَنْ يَسَارِهِ يَقُولُونَ هَنِيئاً لَكَ كَرَامَةُ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ يَا عَبْدَ اللَّهِ فَيَأْتِي النِّدَاءُ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ جَلَّ جَلَالُهُ عِبَادِي وَ إِمَائِي وَ عِزَّتِي وَ جَلَالِي لَأُكْرِمَنَّ مَثْوَاكُمْ وَ لَأُجْزِلَنَّ عَطَاكُمْ [عَطَايَاكُمْ‏] وَ لَأُوتِيَنَّكُمْ مِنَ الْجَنَّةِ غُرَفاً تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهارُ خالِدِينَ فِيها نِعْمَ أَجْرُ الْعامِلِينَ إِنَّكُمْ تَطَوَّعْتُمْ بِالصَّوْمِ لِي فِي شَهْرٍ عَظَّمْتُ حُرْمَتَهُ وَ أَوْجَبْتُ حَقَّهُ مَلَائِكَتِي أَدْخِلُوا عِبَادِي وَ إِمَائِي الْجَنَّةَ ثُمَّ قَالَ جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ ع هَذَا لِمَنْ صَامَ مِنْ رَجَبٍ شَيْئاً وَ لَوْ يَوْماً وَاحِداً فِي [مِنْ‏] أَوَّلِهِ أَوْ وَسَطِهِ أَوْ آخِرِهِ."

"جب قیامت ہوگی تو عرش سے ایک منادی ندا دے گا، رجبیون (اہل رجب )کہاں ہیں۔؟؟ اس وقت کچھ لوگ اٹھیں گے، جن کے چہرے چمک رہے ہونگے۔ ان کے سروں پر بادشاہوں کی طرح گوہر و موتی اور یاقوت کے تاج ہونگے، ان میں سے ہر ایک کی دائیں طرف ہزار فرشتے اور بائیں طرف ہزار فرشتے ہونگے اور وہ کہہ رہے ہوں گے، اے خدا کے بندے کرامت خدا تیرے لئے مبارک ہو۔ اس کے بعد خدا کی طرف سے ندا آئے گی، اے میرے بندے اور میری کنیزوا، میری عزت و جلالت کی قسم، تمہارے مقام کو بہت محترم اور اور تمہاری جزا کو بہت فراوان قرار دونگا، جنت کے کچھ ایسے گھر تمہارے نام کر دونگا، جن کے نیچے نہریں جاری ہونگیں، جس میں ہمیشہ رہوگے، یہ نیک عمل کرنے والوں کے لئے بہترین اجر ہے، تم نے روزے کے ذریعے اس مہینے میں میری  اطاعت کی ہے، جس کی حرمت کو میں نے بہت عظیم بنایا ہے، میں نے اپنے فرشتوں پر واجب قرار دیا کہ ان میں میرے بندوں اور کنیزوں کو جنت میں داخل کریں۔ اس کےبعد امام صادق علیہ السلام  نے فرمایا، یہ اس کے لئے ہے، جس نے ماہ رجب میں ایک دن روزہ رکھا، چاہے اول رجب کو یا درمیان میں یا مہینے کے  آخر میں۔۔۔"(9)  

?ماہ رجب کے اعمال*
ماہ رجب کے بہت سے اعمال وارد ہوئے ہیں، ان سب کو اس مختصر تحریر میں لانا ممکن نہیں۔ مفاتیح الجنان اور دیگر دعاوں کی کتابوں میں موجود ہیں، ہم اختصار کے ساتھ چند کا ذکر کرتے ہیں۔ اس مقدس مہینے میں۔۔
(1) زیادہ سے زیادہ "استغفراللہ واسئلہ التوبہ" پڑھنا۔
(2) سو 100 بار "سبحان لا الہ الجلیل سبحان من لاینبغی۔۔۔۔۔"تا آخر۔
(3) رجب کے دنوں کی خاص دعاؤں کا پڑھنا، جو کہ مفاتیح الجنان میں تفصیل کے ساتھ ذکر ہوئی ہیں۔
(4)ہر روز ستر بار صبح کے وقت اور دن کے آخر میں 70 بار "استغفراللہ و اتوب الیہ" پڑھنا، جب تمام کرے تو ہاتھوں کو بلند کرکے یہ دعا پڑھے "اللھم غفرلی و تب علی۔۔۔۔۔"(مفاتیح)
(5) ہر شب و روز تین مرتبہ حمد تین مرتبہ سورہ آیت الکرسی تین مرتبہ قل یا ایھاالکافرون تین مرتبہ توحید تین مرتبہ علق تین مرتبہ سورہ ناس پڑھنا۔
(6) ہر شب ہزار بار لا الہ الا اللہ
(7) ہر شب دو رکعت نماز پڑھی جائے، ہر رکعت میں حمد ایک بار سورہ کافرون تین بار، نماز کے بعد لا الہ الا اللہ ۔۔۔ (باقی مفاتیح کی طرف مراجعہ فرمائیں)
(8) ہر فریضہ نماز کے بعد اس معروف دعا کو پڑھنے کی بڑی تاکید ہوئی ہے « ۔۔يَا مَنْ أَرْجُوهُ لِكُلِّ خَيْرٍ وَ آمَنُ سَخَطَهُ عِنْدَ (مِنْ) كُلِّ شَرٍّ يَا مَنْ يُعْطِي الْكَثِيرَ بِالْقَلِيلِ يَا مَنْ يُعْطِي مَنْ سَأَلَهُ‏۔۔۔(تاآخر۔۔مفاتیح ) »
(9) ایام البیض کے تیسرے دن یعنی پندرہ رجب کو معروف اور مجرب عمل عمل ام داود۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*حوالہ جات*
(1) وسائل الشیعة، ج‏۱۰، ص۴۹۳
(2) من لایحضره الفقیه ج2 ص92
(3) بحارج97 ص47
(4) وسائل الشیعة، ج‏۱۰، ص۴۹۳
(5) عیون اخبار رضا ج2 ص71
(6) فضائل الاشھرالاثلاثہ، ص 38، حدیث 15
(7) مفاتیح الجنان، ص 228
(8) عیون اخبار رضا شیخ صدوق ج1، ص226
(9) مستدرک الوسائل ج7، ص535
(10) شیخ صدوق، فضائل الأشهر الثلاثة، صفحه 31

تحریر: محمد علی شریفی

فروری ۱۹۷۹ء میں ایران میں انقلاب اسلامی ظہور پذیر ہوا تو اسے "اِنفجارِ نور" اور  "طلوعِ فجر" سے تعبیر کیا گیا اور انقلاب کی کامیابی کے انتہائی ایام کو "دہ فجر" قرار دیا گیا۔ اسی حوالے سے سورہ مبارکہ فجر کی ابتدائی آیات زبان زدعام تھیں:
وَالفَجر ! وَلِیَال عَشر
"قسم ہے فجر کی اور دس راتوں کی۔۔۔"
حضرت امام خمینی (رہ) نے جب پندرہ سالہ طویل جلا وطنی کے بعد اعجاز آمیز انداز سے تہران کی سرزمین پر قدم رکھا تو اس وقت ۱۱ فروری ۱۹۷۹ء ( بہمن ۱۳۵۷ھ ش) تک دس دنوں اور راتوں میں انقلاب کا آخری معرکہ لڑا گیا، ۱۱فروری کو شاہی طاغوت کے سراسیمہ سپاہیوں نے آخر کار ہتھیار ڈال دئیے اور تاریخ عالم میں ایک خوبصورت تازہ نورانی صبح طلوع ہوئی، واقعتاً نور پھوٹ پڑا۔ ایک ایسا نور جس نے سیاہ اور سفید چہروں میں تمیز پیدا کر دی۔ جس نے حق و باطل کی پہچان کیلئے فرقان کا کام کیا۔ جس نے چودہ سو سال پہلے کی فتح مکہ کی یادیں تازہ کر دیں اور فلک پیر نے ایک مرتبہ پھر مسجود ملائکہ کے ہاتھوں "اِنِّی اَعلَمُ مَا لاَ تعَلَمُون" کی صداقتوں کا ظہور ہوتے دیکھا۔ فضائیں ایک مرتبہ پھر ان نعروں سے گونج اٹھیں:
جَآءَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا ۔(بنی اسرائیل۔۸۱)
حق آگیا اور باطل بھاگ گیا اور باطل تو ہے ہی بھاگ جانے والا۔ 

ایک دور ایسا آیا کہ جب انسانوں نے روحانی اقدار کو فراموش کر دیا تھا۔ معنوی پیمانوں سے رفتار زماں کی پیمائش قصہ پارینہ ہو چکی تھی۔ جب مادی اقدار کا غلغلہ تھا۔ شرق و غرب مادی افکار کے اقدار میں یوں جکڑے ہوئے تھے کہ فکر و عمل سب گویا اسی کی تمناؤں کے سانچے میں ڈھل چکے تھے۔ دین و سیاست کی جدائی گویا ہمیشہ کیلئے مسلّم ہو چکی تھی۔ اہل دین کے ہاتھوں کی گرفت بھی امید کی رسی پر ڈھیلی پڑ چکی تھی۔ ایک طرف سرمایہ داری کا زور تھا تو دوسری طرف اشتراکیت کا شور۔ چھوٹی حکومتوں کے زمام دار، مشرقی اشتراکیت کی طرف امید کی نظروں سے دیکھتے تھے یا مغربی سرمایہ داری سے توقع باندھے ہوئے تھے۔ کلیسا کے اہل منصب تو کب سے اپنے پر سمیٹے مذہبی آشیانوں میں اپنے تئیں ہمیشہ کے لئے"صبر و شکر" کے دھیمے ترانے گنگنا رہے تھے۔ ایسے میں سرزمین ایران پر تکبیر کے ترانے گونج اٹھے۔ ان نعروں کی گونج میں طاغوت شرق و غرب کی بےہنگم صدائیں ماند پڑ گئیں۔ امام خمینی (رہ) واقعتا عظیم آیت الٰہی کی حیثیت سے سیاست عالم کی مسند پر جلوہ افروز ہوئے۔ اس پیرسال رہبر کی آواز نے ابلیسی طاقتوں کے ایوان لرزا دیئے اور ایک مرتبہ سب اہرمنی قوتوں کے ہوش گم ہو گئے۔ 

آہستہ آہستہ سب شیطانوں نے اپنی چندھیا جانے والی آنکھوں کو ملنا شروع کیا اور جو سنگ ان کے پاس بچے تھے انہیں پھر سے سمیٹنا شروع کیا۔ انہوں نے اس انوکھے شگوفے کو پوری قوت سے مسل دینے کا فیصلہ کیا۔ ان کے انسانی حقوق، جمہوریت اور آزادی کی فریب کار نعروں کی حقیقت تو پہلے ہی طشت از بام ہو چکی تھی۔ وہ ایرانی قوم کی اس جرأت اظہار اور طلب حریت پر چیں بہ چیں تھے۔ ایرانی قوم کے انسانی و جمہوری حقوق کی ان کی نظر میں کیا وقعت ہو سکتی تھی۔ انہوں نے شاہوں، آمروں اور مطلق العنان حکمرانوں کے ساتھ مل کر سازش کی اور ابھی انقلاب تازہ بتازہ ہی تھا اور ایرانی افواج کو منّظم کرنے کیلئے ابھی منصوبے ہی بن رہے تھے کہ اس پر جنگ ٹھوس دی گئی۔اس جنگ میں وحشت و بربریت کے سب ہتھیار آزمائے گئے۔ ویرانیوں، تباہیوں اور بردباریوں کی بارش کر دی گئی۔ سامراجیوں نے ایران کے اندر موجود اپنے ایجنٹوں کو بھی حرکت دی۔ انقلاب کی اعلیٰ درجے کی قیادت کو نشانہ بنایا گیا۔ صدر، وزیراعظم، چیف جسٹس، اراکین پارلیمنٹ، وزراء اور فوجی قیادت کس کس کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا۔ آخر کار حضرت امام خمینی (رہ) کی رہائش گاہ پر فضائی حملے کا منصوبہ بنایا گیا جو طبس کے صحراؤں میں ناکام و نامراد ہو گیا۔ 

لیکن اللہ کا ارادہ ہمیشہ اٹل ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس انقلاب کو غالب کرنے کا ارادہ کر رکھا تھا۔ دشمن رسوا ہوئے اور انقلاب اپنی عظیم قیادت کی رہنمائی میں ان تمام امتحانات سے سرخرو نکلا۔ اقتصادی پابندیاں بھی بڑھتے ہوئے انقلاب کے قدم نہ روک سکیں۔ "لاشرقیہ ولا غربیہ، اسلامیہ جمہوریہ" کے ایمان افروز نعرے اسی طرح گونجتے رہے۔ ہر مشکل سے یہ انقلابی قوم اور بھی مضبوط ہو کر نکلی۔ ہر پابندی نے اس انقلاب کو اور بھی استحکام بخشا۔ اس قوم نے گویا اس پیغام پر پوری طرح عمل کرکے دکھایا۔
صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے پا بہ گل بھی ہے
انہی پابندیوں میں حاصل آزادی کو تو کر لے 

انقلاب کی قیادت نے لوگوں کو شعور بخشا کہ اگر حریت و آزادی عزیز ہے تو خود انحصاری کی منزل کو حاصل کرنا ہو گا۔ یہ پیغام لوگوں کے دلوں میں اتر گیا۔ پوری قوم تعمیروترقی کے جہاد کیلئے اٹھ کھڑ ی ہوئی اور پھر اپنے وطن کی تعمیر کے حوالے سے بھی اس قوم سے عجیب معجزات نے ظہور کیا۔ آج انقلاب کی کامیابی کو چونتیس برس گزر چکے ہیں۔ ایرانی قوم آج مصیبتوں اور آزمائشوں کے ایک کٹھن دور سے نکل چکی ہے۔ دنیا کے سامنے آج یہ قوم سرخرو کھڑی ہے اور دنیا کی پسماندہ قوموں کو آزادی و کامرانی کا پیغام دے رہی ہے۔ آج بھی ایرن لا شرقیہ لا غربیہ کی پالیسی پر گامزن ہے۔ آج بھی ایران کے فیصلے ایران میں ہوتے ہیں بلکہ صدور انقلاب کا عمل بھی ایک خوبصورت انداز سے جاری ہے۔ یہ انقلاب فوج کے ذریعے نہیں آیا تھا اور اس کا صدور بھی فوج کے ذریعے، کبھی انقلابی قیادت کا مطمع نظر نہ تھا۔ انقلاب کی عظیم قیادت نے اپنے فکر و عمل سے اس انقلاب کا پیغام ساری نوع انسانی تک پہنچایا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران ہی نے عالمی تہذیبوں کے درمیان مکالمے کی جو تجویز پیش کی تھی وہ بھی ایرانی قیادت کے صدور انقلاب کی حکمت عملی ہی کا اک اظہار تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلامی انقلاب درحقیقت عالمی انسانی انقلاب ہی کی تمہید ہے ایک ایسا انقلاب جو انسانوں کی نہ فقط عرب و عجم میں تفریق کا قائل نہیں بلکہ مشرق و مغرب کی تہذیبوں کے مابین مکالمے کے ذریعے ہم آہنگی کی فضا استوار کر نے کا عزم رکھتا ہے۔

تحریر: ثاقب اکبر 

یہ سوال بڑے زور و شور سے کیا جاتا ہے کہ انقلاب اسلامی ایران نے کیا دیا ہے؟  انقلاب اسلامی ایران سے کیا فائدہ ہوا؟ یہ سوال سنی، شیعہ مسلمان معاشروں میں دہرایا جاتا ہے۔ ایران و پاکستان سمیت دنیا بھر میں آباد انسانوں کی ایک بڑی تعداد کو یہ نہیں معلوم کہ سال 1979ء سے پہلے کی دنیا کیا تھی، اس دنیا میں ایران کی حیثیت کیا تھی اور جسے بھی اس سوال کا جواب چاہیئے وہ 1979ء سے پہلے اور بعد کی دنیا کا موازنہ کرلے۔ البتہ اس سوال کا جواب ایک منطقی اور عادلانہ دوسرے سوال کے جواب میں پوشیدہ ہے۔ وہ یہ کہ اس ایرانی اسلامی انقلاب کے مخالفین و دشمن ممالک نے دنیا کو یا انسانوں کو کیا دیا ہے!؟ یہ سوال منطقی اور عادلانہ اس لیے ہے کہ امریکی یورپی زایونسٹ بلاک اور اس کے اتحادی عرب حکمرانوں کے پاس تو وسائل ہی وسائل تھے اور تاحال ہیں۔ ان کے پاس تو سب کچھ کر گذرنے کی طاقت و صلاحیت بھی تھی اور تاحال ایسا ہی ہے تو سوال یہ بھی بنتا ہے کہ ان کے کتے بلی بھی شاہانہ ٹھاٹھ میں رہے، جبکہ صومالیہ کے بچے قحط میں مرگئے! ایسا کیوںا؟ ان کے اتحادی عرب حکمران امریکا و یورپ میں عیاشی کرتے رہے اور فلسطینی پناہ گزینوں میں بھی امن و سکون سے نہ رہ سکے!، ایسا کیوں؟ سوال تو یہ بنتا ہے کہ ان کے ہوتے ہوئے فلسطین و کشمیر پر اتنا طویل عرصہ قبضہ کیسے رہا!؟ اور اب تک کیوں ہے!؟ اور یہ کس کے ساتھ ہیں!؟

اس سوال کا جواب صرف وہ انسان دے سکتے ہیں کہ جن میں عقل و عدل دونوں ہی بیک وقت موجود ہو اور یہیں سے انقلاب اسلامی ایران کی اہمیت و افادیت اور مثبت اثرات کو سمجھنے کا آغاز کیا جاسکتا ہے۔ انقلاب اسلامی نے دنیا کے مظلوم و مستضعف انسانوں کو ایک قابل اعتماد حامی اور مددگار ملک اور ریاست دی ہے، یہ ایک عام فائدہ ہے، جو عالم انسانیت کے لیے ہے۔ انقلاب اسلامی ایران نے دنیا کے وسائل کی لوٹ مار میں مصروف بڑی طاقتوں کے خلاف ایک نظریاتی محاذ قائم کیا۔ اس انقلاب نے دنیا کے مظلوم و محکوم انسانوں پر جاری ظلم و ستم کے خلاف بیداری کی تحریک کو جنم دیا۔ اس انقلاب کی نظریاتی بیداری تحریک کے نتیجے میں دنیا پر امریکی و یورپی زایونسٹ بلاک اور خائن و منافق عرب نما مسلمان نما حکمرانوں کی اصلیت ظاہر ہوئی۔ یہ عالمی سطح کے فوائد ہیں، جو انقلاب اسلامی کی وجہ سے ہر مظلوم و محکوم انسان کو پہنچے۔ انقلاب اسلامی ایران کے قائدین کے افکار علمی اور واقعیت پر مبنی رہے۔ یعنی کسی بھی اسلامی ملک، ریاست اور عالم دین کی جانب سے جدید دنیا کے عالمی سیاسی منظرنامے میں پہلی مرتبہ عالمانہ، عاقلانہ و عادلانہ موقف یا انگریزی میں کہیں تو انٹیلیکچول اپوزیشن کا یہ نمونہ انقلاب اسلامی نے ہی پیش کیا۔ اس سے پہلے غیر منطقی جذباتیت کا دور دورہ تھا۔

اس انقلاب پر ایک اعتراض فرقہ و مسلک کی بنیاد پر کرنے والوں کی خدمت میں مودبانہ عرض ہے کہ زمینی حقائق منہ بولتا ثبوت ہیں کہ ایران نہ تو زبان پرست ہے اور نہ ہی فرقہ پرست، بلکہ ایران قرآن و اہلبیت نبوۃﷺ سے متمسک ایسی شیعہ اسلامی ریاست ہے کہ اس کے اہم ترین ریاستی اداروں میں اہل سنت کی بھرپور نمائندگی موجود ہے۔ حتیٰ کہ مجلس خبرگان رہبری میں بھی اہل سنت علمائے اسلام موجود ہیں۔ ایران نے سنی علمائے کرام کو یہ آئینی و قانونی حیثیت دے کر پوری دنیا کے مسلمان ممالک کے سیاسی نظام کی شفافیت پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ڈال دیا ہے۔ خیمہ ولایت میں طلوع فجر کے بعد سنی و صوفی مسلمانوں کی یہ شان و شوکت صرف اور صرف ایران میں ہے۔ ورنہ دیگر ممالک میں تو تکفیریت اور ناصبیت کے آگے سب سرنگوں ہوچکے ہیں اور حکمران طبقہ تو امریکی زایونسٹ بلاک کا اعلانیہ جزو لاینفک ہیں۔ انقلابی اسلامی ایران کے مخالفین سے ایک سوال یہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ کیا صحابہ کرام کی سیاست یہ تھی، جو سعودی بادشاہ سلمان یا آل سعود، اس کے مولوی اور ان کے اتحادی دوست ممالک کے حکمران کر رہے ہیں!؟ اور مغربی بلاک کے بزعم خویش جمہوری چیمپیئن بتائیں کہ ان کے اتحادی مسلمان و عرب ممالک میں جمہوریت کیوں نہیں۔ بحرین کی شیعہ اکثریت پر امریکی اتحادی آل خلیفہ حاکم کیوں؟ اور  ایران و عراق کے شیعہ شراکت اقتدار و جمہوریت کے باوجود معتوب کیوں!؟

مزید یہ کہ جس کسی کو ایران میں انقلاب اسلامی کے حوالے سے شکوک و شبہات ہیں، اس کے لیے آج کی دنیا بھی کھلی کتاب کی مانند ہے، موازنہ کیا جاسکتا ہے۔!  عرب، عجم، مسلمان و غیر مسلم، سبھی اپنے اپنے ممالک کے حکمران طبقے اور اپنے معاشروں کی موجودہ حالت کو دیکھ لیں اور ایران سے موازنہ کر لیں۔ پوری دنیا کی سیاست و اقتصاد امریکی و یورپی زایونسٹ بلاک کے کنٹرول میں ہے۔ فوجی لحاظ سے بھی بالادست ہیں۔ ان پر کوئی پابندی نہیں ہے اور بالفرض کوئی ملک ان پر پابندی لگا بھی دے، تب بھی ان کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا، کیونکہ ڈالر اور یورو دونوں ہی کی حیثیت بین الاقوامی تجارت اور مالیاتی نظام میں مستحکم ہے۔ اقوام متحدہ میں ان کے پاس تین ویٹو پاور ہیں اور بقیہ دو بھی فلسطین، یمن، کشمیر سمیت کسی بھی ایشو پر مسلمانوں کے ساتھ نہیں کھڑے ہوتے۔ جدید ترین سہولیات سے مالا مال امریکی یورپی زایونسٹ بلاک کہ سعودی عرب، امارات و بحرین سمیت بہت سے ممالک انکا اٹوٹ انگ ہیں، پچھلے بیالیس سال سے انہوں نے انسانیت، مسلمانوں یا عربوں کو کیا فائدہ پہنچایا ہے!؟ انقلاب اسلامی ایران کے بعد کی کارکردگی کا موازنہ کر لیں، نتیجہ ظاہر ہے۔!

امریکی یورپی زایونسٹ بلاک سے اور ان کے اتحادی سعودی و اماراتی و بحرینی شیوخ و شاہ سے اور ان کے حامی بتائیں ناں، انہوں نے پچھلے بیالس سال کیا کرتے گذارے۔ کیا فلسطین و کشمیر آزاد کروا دیئے!؟ کیا عوام کی نمائندہ حکومتیں قائم کر دیں!؟ کیا برابر کے شہری حقوق دے دیئے۔ نہیں، بلکہ اس کے برعکس انہوں نے لیبیا کو تباہ کر ڈالا، یہ یمن پر بلاوجہ کی فوجی یلغار کر رہے ہیں۔ کل ایک صومالیہ کے ڈھانچے نما بچوں کی مظلومیت پر ہم روتے تھے اور آج پورے عالم اسلام و عرب کو انہوں نے صومالیہ بنا ڈالا ہے۔ سوائے نفرت پھیلانے والے تکفیری و ناصبی مولویوں اور سوائے تباہی پھیلائے والے تکفیری ناصبی دہشت گردوں کے، انہوں نے دنیا کو دیا کیا ہے!؟ بہت معذرت کے ساتھ کہ یہ پورا ٹولہ خود ہی مجسم گستاخ ہے۔ ان کا اپنا وجود صحابہ کی گستاخی اور بے حرمتی ہے۔ ان کا کردار صحابہ کی توہین ہے۔ عراق میں، شام میں، لبنان میں، پاکستان و افغانستان میں، یعنی ہر اہم مسلمان ملک یا عرب سرزمین پر یہ دہشت گردی کرتے رہے ہیں۔ کیا جوزف بائیڈن، اوبامہ، ٹرمپ، بش، کلنٹن، نیتن یاہو، آل سعود، آل نھیان، آل خلیفہ جیسے حکمرانوں کے یہ ٹاؤٹ صحابہ کے لیے قابل قبول ہوسکتے ہیں!؟  اور ان مغربی ممالک کے عوام اپنے حکمرانوں سے پوچھیں کہ نائن الیون سمیت بڑے دہشت گرد حملے کرنے والے تکفیری سعودی و اتحادی دہشت گردوں کی کھیپ تیار کرنے والے سعودی و اتحادی حکمران امریکا، نیٹو، یورپی یونین کے آج تک لاڈلے کیوں!؟

کس غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔! حقیقت کا سامنا کریں۔ ہر آزاد انسان، عادل انسان موازنہ کر لے کہ اتنے سارے طاقتور ممالک پر مشتمل یہ پورا بلاک ایک طرف اور تنہا ایران ایک طرف، ایران نے فلسطین کے مظلوموں کی بے لوث مدد کی ہے! ایران عرب تو نہیں ہے، ایران فلسطینیوں کا ہم مسلک تو نہیں ہے۔! یمن اور شام کا عرب بھی ایران کا ہم مسلک نہیں ہے۔ عدل و عقل کا تقاضہ یہی ہے کہ اس حقیقت کا اعتراف کریں کہ ایران کی برابری ممکن نہیں ہے، کیوں! کیونکہ ایران نے پوری دنیا کے مظلوموں کی دفاعی جنگ لڑی ہے اور خاص طور پر عراق کے کرد، ایزدی، مسیحی، آشوری انسانوں کو بھی دہشت گردی کے شر سے نجات دلائی۔ حتیٰ کہ شام و فلسطین و لبنان کے مسیحی بھی اس حقیقت کے معترف ہیں۔ ایران نے مقبوضہ بیت المقدس کی آزادی کے لیے قدس فورس بنا کر اپنا جنرل قاسم سلیمانی شہادت کے لیے پیش کیا ہے!؟ شہید بیت المقدس سلیمانی بھی سلمان فارسی کی قوم نے ہی دیا ہے۔

ان خائن عرب حکمرانوں اور ان کے درباریوں کی عربی عصبیت بھی صرف ہم عجمی مسلمانوں کے لیے ہے۔ یہ خائن عرب شاہ و شیوخ اور ان کے درباری ایک طرف ملت سلمان فارسیؓ کو آج بھی مجوس کہتے ہیں، در حال یہ کہ یہ عرب شاہ و شیوخ و درباری خود ہی عرب فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کے مددگار اور اور سہولت کار ہیں۔ یہ خود ہی یمن و شام و عراق و لیبیا کے عربوں کے خلاف بھی اعلانیہ براہ راست یا پراکسی جنگوں میں بھی مصروف ہیں۔ انہوں نے تو اسلام و مسلمین کو بدنام کرکے رکھ دیا۔ پوری دنیا میں نفرت و دہشت و وحشیانہ درندگی کی علامت کون ہے، سوائے ان کے اپنے مسلک کے!؟!؟ اور جب جب ان کو اسرائیل کی مدد کرنا ہوتی ہے تو یہ پاکستان میں صحابہ کا جھنڈا اٹھا لیتے ہیں، کم سے کم پچھلے بیالس برس سے تو یہی تماشا ہو رہا ہے۔ کم سے کم اب تو ان کے ہاتھوں استعمال ہونے والے مسلمان نما انسانوں کو اللہ کے عذاب و قہر سے ڈر جانا چاہیئے۔ کب تک یہ اوٹ پٹانگ سوال دوسروں سے کرتے رہیں گے۔ یہ اپنا محاسبہ تو کریں، ان کے کریڈٹ میں ہے کیا!؟ ایران اور اس کی قدس فورس تو وہی کر رہی ہے، جو کبھی پاکستانی فضائی افواج کے مایہ ناز افسر ستار علوی جیسے بہادر سپوت کیا کرتے تھے۔ آج اسرائیل کے خلاف ستار علوی جیسوں کا کردار ایران ادا کر رہا ہے، جبکہ ستار علوی کے پاکستان میں حق نواز جھنگوی لعنت اللہ علیہ کا لشکر بزرگان دین کے مزارات کو، مسلمانوں کی مساجد کو خودکش بمبار کے ذریعے دھماکوں سے اڑا رہا ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ پوچھا جا رہا ہے کہ ایران کے انقلاب سے کیا فائدہ ہوا۔! یہ ہے بیالیس سال کی مختصر روداد۔  لو کرلو گل!!!
 
 تحریر: محمد سلمان مہدی