سلیمانی
ہفتہ وحدت امت مسلمہ کیلئے ایک نعمت(1)
امسال ہفتہ وحدت کے پروگرامات اور تقریبات ایسے عالم میں انجام پا رہے ہیں کہ ایک طرف منحوس کرونا نے عالم اسلام سمیت پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے تو دوسری طرف متحدہ عرب امارات، بحرین کے بعد سوڈان جیسے اسلامی ملکوں کے سربراہ غاصب اسرائیل کے جال میں پھنس چکے ہیں۔ سعودی حکمران بھی ذہینی اور قلبی طور پر اسرائیل کی زلفوں کے اسیر ہوچکے ہیں۔ ایسے میں مسلمانوں کی وحدت کی اہمیت میں اور بھِی اضافہ ہو جاتا ہے۔ آج کل عید میلاد النبی کے ایام ہیں، دنیا بھر میں رسول گرامی حضرت محمد مصطفیٰ (ص) کی ولادت باسعادت کے جشن برپا ہیں۔ اہل سنت کے ہاں 12 ربیع الاول اور اہل تشیع کے ہاں 17 ربیع الاول کو ولادت باسعادت کے پروگرام اور تقریبات منعقد ہوتے ہیں۔ امام خمینی نے ولادت کی تاریخ کے اس اختلاف کو اتحاد و وحدت میں تبدیل کرنے کے لیے 12 سے 17 ربیع الاول کے درمیان ہفتہ وحدت منانے کا اعلان کیا۔ آج امت مسلمہ جس بحرانی دور اور مشکلات سے گزر رہی ہے اور جس طرح مسلماںوں کو لڑانے کے لیے سامراجی سازشیں زور و شور سے جاری ہیں، ماضی میں اس کی مثالیں کم ملتی ہیں۔
اسلامی ممالک کو ایک دوسرے کے مقابلے میں لانے کی سازشیں اپنے عروج پر ہیں۔ ماضی میں بھی مسلمانوں اور اسلام کو جب کبھی بھی نقصان پہنچا تو وہ مسلمانوں کے باہمی اختلاف و افتراق کا ہی نتیجہ تھا۔ آج دشمن کی طرف سے میڈیا وار اور نرم جنگ میں جس موضوع پر سب سے زیادہ کام ہو رہا ہے، وہ مسلمانوں کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کا ایجنڈا ہے۔ آج یمن، بحرین، نائیجریا، میانمار، کشمیر، افغانستان، عراق، شام اور فلسطین جیسے ممالک پر نظر دوڑائیں تو انسان کے رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ سامراجی طاقتوں نے مسلمان ریاستوں کو کس طرح کے چیلنجوں اور مصائب میں مبتلا کر رکھا ہے۔ آج امت مسلمہ اگر یکجا اور ہم آہنگ ہوتی کیا مذکورہ بحران زدہ مسلمان ممالک کے عوام کی یہ صورتحال ہوتی۔ اگر مسلمان قرآنی تعلیمات پر عمل پیرا ہوتے اور اتحاد و وحدت کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے ہوتے تو اسلام دشمن طاقتیں مسلمانوں کا بال بھی بیکا نہ کرسکتیں۔
گذشتہ سالوں میں تکفیری گروہوں کی تشکیل کا ایجنڈا بھی بنیادی طور پر اسلام کو کمزور کرنے کی بلواسطہ سازش تھی۔ القاعدہ، طالبان، داعش اور بوکو حرام جیسے گروہ بظاہر اسلام کی شناخت کے ساتھ جس طرح عالم اسلام کو تقسیم کرنے کا باعث بنے، اس طرح کا کام ماضی میں کفار و مشکرین بھی نہ کرسکے۔ ان تکفیری اور انتہاء پسند گروہوں نے اسلام کے امن و صلح پسند چہرے کو اس طرح بگاڑ کر پیش کیا کہ اب بدقسمتی سے اسلام اور دہشت گردی کا نام ساتھ ساتھ لیا جانے لگا ہے۔ قرآن نے جس اسلام کو دنیا کے سامنے پیش کیا، تکفیری گروہوں نے عملی میدان میں اس کی نفی کی۔ قرآن وحدت و یکجہتی پر تاکید کرتا ہے جبکہ تکفیری اور انتہاء پسند گروہ کلمہ گو مسلمانوں کو بھی دائراہ اسلام سے خارج کرنے پر بضد ہیں۔ قرآن توحید کی طرف دعوت دیتے ہوئے اتحاد و یکجہتی اور انسانوں پر احسان کی بات کرتا ہے، لیکن تکفیری گروہ توحید کے نام پر مسلمانوں کے گلے کاٹ رہے ہیں اور انہیں زندہ جلا کر اپنے آپ کو سچا مسلمان ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ قرآن "وعتصمو بحبل اللہ جمیعا ولا تفرقو" کی صدائیں بلند کر رہا ہے اور تکفیری اور انتہاء پسند نام نہاد مسلمان تفرقہ اور نفرت کو اسلام کا شعار اور سلوگن قرار دے کر اپنے علاوہ ہر ایک کو کانفر اور مشرک بنا رہے ہیں۔
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام اپنے ایک خطبے میں مسلمانوں کے رہبر و رہنما کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ حکومت میں حاکم کی حیثیت وہی ہے جو تسبیح میں دھاگے کی ہوتی ہے، جو سب کو ایک لڑی میں پروتا ہے۔ اگر یہ لڑی ٹوٹ جائے تو تسبیح کے تمام دانے بکھر جاتے ہیں۔ مسلمانوں کے درمیان اتحاد و وحدت کی مثال ایک ڈیم کی مانند ہے، جو بکھرے پانی کو ایک جگہ جمع کرکے ایک ایسی طاقت میں بدل دیتا ہے، جس سے توانائی اور بجلی تیار ہوسکتی ہے، بنجر اور ویران زمینیں آباد اور سرسبز و شاداب کی جا سکتی ہیں۔ اگر یہ پانی ڈیم کی بجائے وسیع و عریض زمین پر پھیل جائے اور اس کے سامنے ڈیم نہ بنایا جائے تو اتنی بڑی طاقت ضائع و ناپید ہو جائے۔ مسلمانوں کے درمیان اگر اتحاد نہ ہو، ان کی توانائیاں اور صلاحتیں بکھر جائیں اور ان سے صحیح استفادہ نہ کیا جائے تو امت مسلمہ کا عظیم پوٹینشل اور صلاحیت بغیر کسی مقصد و ہدف کے ضائع ہو جائے گی۔ مسلمانوں کے باہمی اتحاد و انسجام کی بہت برکتیں ہیں۔ مسلمان اور امت مسلمہ اتحاد و وحدت کے ذریعے عظیم انسانی الہیٰ اہداف تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔ سامراجی سازشوں کو ناکام بنا کر انسانیت کی خدمت کا عظیم الہیٰ فریضہ انجام دے سکتے ہیں۔
موجودہ صدی کے اتحاد و وحدت کے عظیم داعی بانی انقلاب حضرت امام خمینی اسلامی وحدت پر تاکید کرتے ہوئے اسلامی وحدت کو طاقت و اقتدار کا منبع قرار دیتے تھے۔ آپ اسلامی وحدت کو عالم اسلام کی ایک امنگ اور ارمان قرار دیتے تھے۔ آپ نے مسلمانوں کے درمیان اتحاد و وحدت کے خواب کو شرمندہ تعبیر بنانے کے لیے متعدد اقدامات کیے اور مسلمانوں کو ایک مشترکہ نقطے پر جمع ہونے کی دعوت دی۔ آپ نے اپنے نظریات میں اس بات کو پیش کیا ہے کہ حکومت اسلامی کی تشکیل بھی مسلمانوں کے درمیان اتحاد و وحدت کا بہترین وسیلہ ہے۔ امام خ٘مینی نے انقلاب اسلامی کی کامیابی کے فوراً بعد جب آپ پر شدید قسم کا اندرونی و بیرونی دبائو تھا، آپ نے تمام تحفظات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے برملا ارشاد فرمایا کہ ہم اہل سنت مسلمانوں کے ساتھ ایک ہیں، ہم سب بھائی اور اخوت اسلامی کے بندھن میں بندھے ہوئے ہیں۔ اگر کوئی مسلمانوں کے درمیان اختلافات کی بات کرے گا تو وہ جاہل ہے یا مسلمانوں کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کے سامراجی ایجنڈے پر کاربند ہے، شیعہ اور سنی کا کوئی مسئلہ نہیں ہم سب بھائی بھائی ہیں۔
امام خمینی نے انقلاب کے چند دن بعد کردستان کے علاقے کے عوام کے نام جن میں اکثریت اہل سنت کی تھی، فرمایا تھا کہ بعض بیرونی ایجنٹ جب یہ دیکھتے ہیں کہ ان کے بیرونی آقائون کے مفادات خطرے سے دوچار ہیں تو وہ اہلسنت بھائیوں کو اکساتے ہیں اور شیعہ سنی جو بھائی بھائی ہیں، ان کے درمیان فتنہ و فساد کو بھڑکاتے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران میں تمام سنی و شیعہ آپس میں بھائی بھائی ہیں اور سب کے برابر اور مساوی حقوق ہیں۔ جو کوئی بھی سنی شیعہ اختلافات کی بات کرتا ہے، وہ ایران اور اسلام کا دشمن ہے۔ میں کرد برادران سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اس طرح کے غیر اسلامی پروپیگنڈے کو جڑ سے ختم کر دیں۔
ہفتہ وحدت باعث رحمت
تمام عالم اسلام کو ماہ مبارک ربیع الاول کی مبارک ساعتوں کی مبارکباد پیش خدمت ہے۔ ماہ مبارک ربیع الاول کی آمد کیساتھ ہی تمام مسلمانوں میں مسرت کی لہر دوڑ جاتی ہے اور ایک نیا جذبہ پیدا ہو جاتا ہے۔اور مسلمانوں کے درمیاں مبارک بادی اور ذکر پاک رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محافل کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اور ہر جگہ مسلمان اپنی زبانوں کو درود پاک سے معطر کرتے نظر آتے ہیں۔ سڑکوں اور گلیوں کو رنگ برنگی جھنڈیوں ،درود و سلام والے بینرز اور برقی قمقموں سے آراستہ کیا جاتا ہے۔ کیوں نہ ہو اس ماہ مبارک میں ختمی مرتبت، سرکار دو جہاں، رحمت اللعالمین حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد ہوئی۔ جو کہ ہماری امت کیلئے خدا کی بہترین عطا اور بخشش کا ذریعہ ہے۔ ہفتہ وحدت، 12 ربیع الاول سے 17 ربیع الاول کے درمیانی فاصلے کو کہا جاتا ہے۔ یہ دونوں تاریخیں مسلمانوں کے یہاں پیغمبر اکرمؐ کی تاریخ ولادت کے حوالے سے مشہور ہیں۔ اہلسنت برادران 12 ربیع الاول جبکہ اہل تشیع 17 ربیع الاول کو حضورؐ کا میلاد مناتے ہیں۔
بانی اانقلاب اسلامی حضرت امام خمینیؒ نے 27 نومبر 1981ء کو عالم اسلام کا ایک تاریخی اور وحدت سے بھرپور قدم اٹھایا اور 12 سے 17 دونوں تاریخوں کو ملا کر پورے ہفتے کو ہفتہ وحدت کا نام دے دیا تاکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت با سعادت کی برکت اور طفیل سے اہل تشیّع اور اہلسنت برادران آپس کے اختلافات حتٰی کی حضور اکرم کی تاریخ ولادت کے اختلاف کو بھی بھلا کر وحدت اور اتحاد کا مظاہرہ کر سکیں۔ وحدت اسلامی کے اس عملی اقدام نے مسلمانوں کے درمیان پیار و محبت، بھائی چارے اور وحدت کی نئی روح پھونک دی۔ مسلمان نبی کریم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت پاک پر ثابت قدم رہنے کا عہد کرتے ہیں۔ یوں رحمت اللعالمین کی ذات مبارکہ جو ایثار و قربانی، صبرو رضا اور بھائی چارے کا پیکر ہیں، نئے جوش و جذبے کیساتھ وحدت کا مثالی مرکز بن گئی ہے۔ اسی طرح ہفتہ وحدت کے بعد اسلامی دنیا میں اتحاد اور ہم بستگی کے لئے زمینہ ہموار کرنے اور علما اور دانشوروں کے مابین ہم فکری ایجاد کرنے کیلئے ہر سال ایران میں عظیم الشان بین الاقوامی وحدت اسلامی کانفرنس کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں ساری دنیا سے مسلمانوں کے تمام مکتبہ فکر کے علما اور دانشور شرکت کرتے ہیں اور فرقہ اور مسالک سے بے نیاز ہو کر اپنے دلوں میں محبت اور بھائی چارے کا جذبہ لے کر واپس لوٹتے ہیں۔
آج دنیا جوں جوں عالم اسلام سے دشمنی کیلئے انتہائی اقدامات کر رہی ہے۔ الٹا اسلام دشمنوں کو منہ کی کھانی پڑی ہے اور اللہ کے فضل و کرم سے مسلمانوں میں روز بروز دشمنوں کی سازشوں کے حوالے سے شعور پیدا ہو رہا ہے۔ بہرحال بارہ سے سترہ ربیع الاول تک جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادت کے ایام ہیں، عالم اسلام کے اتحاد و یکجہتی پر زیادہ توجہ دی جانی چاہئے۔ یہ مستحکم حصار اور مضبوط قلعہ اگر تعمیر کر لیا جائے تو کوئی بھی طاقت اسلامی ملکوں اور قوموں کی حدود میں قدم رکھنے کی جرأت نہیں کرسکے گی۔ آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای فرماتے ہیں کہ ہم یہ نہیں کہتے کہ دنیا کے اہلسنت حضرات آکر شیعہ ہو جائیں، یا دنیا کے شیعہ اپنے عقیدے سے دست بردار ہو جائیں۔ البتہ کوئی سنی یا کوئی دوسرا شخص تحقیق اور مطالعہ کرے اور پھر اس کے نتیجے میں وہ جو کوئی بھی عقیدہ اپنائے وہ اپنے عقیدے اور اپنی تحقیق کے مطابق عمل کر سکتا ہے۔ یہ اس کے اپنے اور اللہ تعالٰی کے بیچ کا معاملہ ہے۔ ہفتۂ وحدت میں اور اتحاد کے پیغام کے طور پر ہمارا یہ کہنا ہے کہ مسلمانوں کو ایک دوسرے کے قریب آکر اتحاد قائم کرنا چاہئے، ایک دوسرے سے دشمنی نہیں برتنا چاہئے۔ اس کیلئے محور کتاب خدا، سنت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور شریعت اسلامیہ کو قرار دیا جائے۔ اس بات میں کوئی برائی نہیں۔ یہ تو ایسی بات ہے جسے ہر منصف مزاج اور عاقل انسان قبول کرے گا۔
قرآن پاک کہتا ہے کہ "و اعتصموا بحبل اللہ جمیعا و لا تفرقوا" یعنی اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنا ہر مسلمان کا فرض ہے، لیکن قرآن نے اسی پر ہی اکتفا نہیں کیا کہ ہر مسلمان اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لے بلکہ حکم دیتا ہے کہ تمام مسلمان اجتماعی شکل میں اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑیں۔ "جمیعا" یعنی سب کے سب ایک ساتھ مضبوطی سے پکڑیں۔ چنانچہ یہ اجتماعیت اور یہ معیت دوسرا اہم فرض ہے۔ معلوم ہوا کہ مسلمانوں کو اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کے ساتھ ہی ساتھ اس کا بھی خیال رکھنا ہے کہ یہ عمل دوسرے مسلمانوں کے ساتھ اور ایک دوسرے کے شانہ بشانہ اجتماعی طور پر انجام دیا جانا ہے۔ اس اعتصام کی صحیح شناخت حاصل کر کے اس عمل کو انجام دینا چاہئے۔ اتحاد کا معنی و مفہوم بہت آسان اور واضح ہے، اس سے مراد ہے مسلمان فرقوں کا باہمی تعاون اور آپس میں ٹکراؤ اور تنازعے سے گریز۔ اتحاد بین المسلمین سے مراد یہ ہے کہ ایک دوسرے کی نفی نہ کریں، ایک دوسرے کیخلاف دشمن کی مدد نہ کریں اور نہ آپس میں ایک دوسرے پر ظالمانہ انداز میں تسلط قائم کریں۔ مسلمان قوموں کے درمیان اتحاد کا مفہوم یہ ہے کہ عالم اسلام سے متعلق مسائل کے سلسلے میں ایک ساتھ حرکت کریں، ایک دوسرے کی مدد کریں اور ان قوموں کے درمیان پائے جانیوالے ایک دوسرے کے سرمائے اور دولت کو ایک دوسرے کیخلاف استعمال نہ ہونے دیں۔
اس کا عملی مظاہرہ حال ہی میں دیکھنے میں آیا۔ جب گذشتہ دنوں ملک دشمن عناصر نے ملک عزیز پاکستان میں فرقہ واریت جیسی آگ بھڑکا کر ایک ہی شجر پیوستہ سے وابستہ دین اسلام کے مختلف فرقوں میں فساد پھیلانے اور دین اسلام اور ملک عزیز پاکستان کی جڑیں کاٹنے کی کوشش کی۔لیکن ہر مسلک کے دور اندیش، معاملہ فہم اور دشمنوں کی سازش سمجھنے والے علما اور شخصیات نے چاہے وہ شیعہ ہوں یا سنی، اتحاد و یگانیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سب کو بتا دیا کہ ھم آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ ہم صدیوں سے محلوں تک میں ساتھ رہتے آئے ہیں اس لئے ہمارے بیچ کوئی اختلاف نہیں۔ ہم محرم کا جلوس بھی نکالیں تو کوئی سینہ زنی کر رہا ہوتا ہے اور کوئی سبیل لگائے ہوتا ہے۔ اور ہمارے عقیدے کے مطابق حسینیت دین اسلام کی جان ہے جس نے خون دے کر نانا کے دین کو بچایا۔ اسے چھوڑ کر یزید پلید کی تعریف کرنیوالا دین خدا کا پیروکار نہیں ہو سکتا بلکہ شیطان کا پیروکار کہلائے گا۔ اور وہ اسلام کا خیرخواہ کیسے ہو سکتا ہے۔ سوائے اس کے کہ اسلام کیساتھ ساتھ اس طاقتور اسلامی ملک عزیز پاکستان کے حالات کو خراب کرنے اور اسے کمزور کرنے کی کوشش کرے۔
کربلا کے بعد دو ہی فرقے رہ گئے ہیں حسینیت اور یزیدیت اور پھر اس سال کے چہلم امام حسین علیہ السلام کے بعد تو ان دشمنان اسلام کے ہوش اُڑ چکے ہیں کہ جب حسین ؑکے غلاموں نے۔" کُلُّ یَوْمٍ عاشُورَا و کُلُّ اَرْضٍ کَرْبَلا "کے مصداق ہر سال کی طرح کربلا میں منعقد ہونیوالے چہلم حسینی اور چہلم واک میں اس سال شرکت نہ کر سکنے پر زمین کے ہر خطے کو کربلا بنا دیا اور روز اربعین ہر جگہ چہلم واک کرکے جلوس اور مجالس برپا کرکے کربلا سے حسینیت کے ذکر کو پوری دنیا تک پھیلا کر یہ ثابت کیا کہ اگر روضہ حسین ؑ پر اس سال نہ پہنچے تو کیا ہوا سر زمین کا ہر خطہ کربلا ہے۔ اور اس سال کے ان جلوسوں میں برادران اہلسنت کے علما اور شخصیات نے وحدت کا بھرپور مظاہرہ کیا اور دشمنوں کو بتا دیا کہ جس طرح امام حسین ؑ نے اپنے نانا کے دین کو بچانے کی خاطر اپنا گھر بار لٹا کر ہر قسم کی قربانیں دیں ہیں۔ ہم بھی مقصد حسینیت کیلئے ایک ہیں۔
شیعہ ہوں یا سنی ہم سب بھائی بھائی ہیں اور حسین علیہ السلام کسی ایک فرقے کے امام یا پیشوا نہیں ہیں بلکہ تمام مسلمانوں کے آقا و جنت کے سردار ہیں۔ کیونکہ وہ اللہ کے نبی کے نواسے ہیں جن کا کلمہ پڑھے بغیر مسلمان نہیں ہو سکتے تو ان کی دشمنی کرنیوالا اور انھیں اذیت دینے والا کیسے مسلمان ہو سکتا ہے۔ مجھے اس بات پر فخر ہے کہ علمائے اہلسنت اور نامور شخصیات نے دشمنوں کے ناپاک ارادوں کو ناکام بناتے ہوئے ارض پاکستان کی سالمیت اور دین اسلام کی خدمت کیلئے مختلف سیمینارز اور کانفرنسز برپا کرکے اور اپنی تقاریر، بیانات، انٹرویوز اور سوشل میڈیا کے ذریعے اہم کردار ادا کرتے ہوئے۔ سادہ لوح عوام کو بھٹکنے، انھیں متحد کرنے اور دشمن کی سازش کا شکار ہونے سے بچانے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ جس کی وجہ سے آج دشمن کو منہ کی کھانی پڑی اور دشمن کا خواب پورا ہونے کی بجائے امت میں مزید اتحاد و اتفاق پیدا ہوا۔ اور یہ سب کچھ میرے ملک عزیز پاکستان کے محب وطن اور اسلام کے حقیقی پیروکار علما اور شخصیات کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔ جس کیلئے ہم انھیں سلام پیش کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ آئندہ بھی اسی طرح دشمن کی سازشوں کو ناکام بناتے رہیں گے۔
مغرب تکفیری دہشتگردوں کی حمایت اور انہیں استعمال کرنے سے ہاتھ اٹھا لے، سید حسن نصراللہ
لبنانی مزاحمتی تحریک حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے عید میلاد النبیؐ اور جشن ولادت حضرت امام جعفر الصادقؑ کے حوالے سے خطاب کرتے ہوئے پوری امتِ مسلمہ کو مبارکباد دی اور تازہ ترین سیاسی حالات پر گفتگو کی۔ سید حسن نصراللہ نے قرآن کریم کو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا معجزہ اور آپؐ کی کامیابی کو اس زمانے کے عرب معاشرے میں "انسانیت" کی کامیابی قرار دیا اور کہا کہ حضرت پیغمبر اکرمؐ نے عبادت، انسانی و اخلاقی اقدار اور اس وقت کے عرب معاشرے کے نظم و ضبط کے حوالے سے (بت پرستی کو توحید پرستی میں بدل کر) عظیم کامیابیاں حاصل کیں۔ انہوں نے حضرت پیغمبر اسلام (ص) کی عظیم انسانی شخصیت اور ان کی جانب سے لائی جانے والی اعلی انسانی و اخلاقی اقدار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مسلمان نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی توہین کو کسی طور برداشت نہیں کر سکتے۔ سید مقاومت نے فرانسیسی شر پسند عناصر و حکومت کی جانب سے ہونے والے توہین آمیز اقدامات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ فرانس سے متعلق تازہ ترین مسائل کی اصلی وجہ اس ملک کے حکام ہیں جبکہ ہم اس مسئلے کا حل چاہتے
ہیں اور اس میں شدت کے خواہاں نہیں۔
سید مقاومت نے فرانس کے شہر نائیس (Nice) میں ہونے والے حادثے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اسلام اور اسلامی جماعتوں کی جانب سے ایسے اقدامات، چاہے وہ ماضی میں رونما ہوئے ہوں یا مستقبل میں رونما ہونا ہوں، کی مذمت کی گئی ہے جبکہ ایسا ہر اقدام مسترد اور غیر قابل قبول ہے۔ سید حسن نصراللہ نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ فرانسیسی حکام سمیت کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ ایسے اقدامات کو دین یا دین کے پیروکاروں کے ساتھ منسوب کر دیں جبکہ ایسی کوئی بھی حرکت نہ صرف غلط بلکہ غیر اخلاقی و غیر قانونی بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے مواقع پر صرف اُسی شخص کو اس (دہشتگردانہ) اقدام کا ذمہ دار قرار دیا جانا چاہئے جس نے وہ کام انجام دیا ہے چاہے اس کا محرک دینی ہی کیوں نہ ہو۔ سید حسن نصراللہ نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی عیسائی ایسا کام کر بیٹھے تو کیا وہ دہشتگردانہ اقدام عیسائیت یا نعوذباللہ حضرت عیسی مسیحؐ کے ساتھ منسوب کیا جائے گا؟
سربراہ حزب اللہ لبنان نے فرانسیسی حکام کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی دہشتگردی یا اسلامی فاشزم (Islamofascism) کے بارے بات کرنے کا فرانسیسی حکام کو
کوئی حق حاصل نہیں۔ انہوں نے دنیا بھر میں ہونے والے امریکی جرائم کی جانب اشارہ کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ کیا ان تمام جرائم کو عیسائیت کے ساتھ منسوب کیا جا سکتا ہے؟ اور کیا یہ کہنا درست ہے کہ امریکی دہشتگردی عیسائی دہشتگردی ہے؟ انہوں نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں گستاخی پر مبنی بعضی یورپی بیانات کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ کہتے ہیں کہ خود مسلمان اپنے بعض اعمال و بیانات کے ذریعے اپنے پیغمبرؐ کی توہین کرتے ہیں جبکہ بعض مسلمانوں کی جانب سے اسلام کے ساتھ بُرا کرنے سے کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہوتا کہ وہ اس دین کی توہین کرے۔ سید حسن نصراللہ نے خطے سمیت پوری دنیا میں موجود تکفیری سوچ کو حاصل مغربی حمایت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مغربی ممالک نے اس تکفیری و دہشتگردانہ سوچ کی کھل کر حمایت کی ہے جو صرف فکری اختلاف پر ہی قتل و غارت کا بازار گرم کرنے پر اتر آتی ہے۔ انہوں نے مغربی حکام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تم امریکی اور فرانسیسی حکام نے ان دہشتگردوں کی براہ راست مدد کی ہے!
سید حسن نصراللہ نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ مغربی ممالک دہشتگردی و تکفیریت کی حمایت
اور اس کا استعمال بند کر دیں۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ایسے بے شمار شواہد موجود ہیں جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ جس آزادی اظہار رائے کا فرانسیسی حکام دم بھرتے ہیں اور اس کے دفاع کے مدعی ہیں، انہوں نے رسولؐ مقبول اسلام کی توہین سے کم حساس مسائل پر اسی آزادی اظہار رائے کا بارہا گلا گھونٹا ہے۔ حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے یورپی ممالک کو خبردار کرتے ہوئے تاکید کی کہ ان (دہشتگردوں) کی حمایت سے ہاتھ اٹھا لو کیونکہ یہ بالآخر تمہاری طرف ہی پلٹ کر واپس آئیں گے اور جو کچھ تم شام، عراق اور دوسرے ممالک میں ان کے ذریعے انجام دے چکے ہو، وہ سب کچھ بالآخر تمہاری طرف ہی پلٹنے والا ہے! سید مقاومت نے آزادی اظہار رائے کے فرانسیسی ڈھونگ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ فرانس کے معروف فلسفی، لکھاری اور یونیورسٹی استاد راجر گارودی (Roger Garaudy) کو ہولوکاسٹ سے اٹھائے جانے والے غلط فائدے کے بارے علمی تحریر پر جیل میں جانا پڑا؛ صرف اور صرف اس لئے کہ جب بھی کوئی موقف اسرائیل کے خلاف ہو تو فرانس کے اندر آزادیِ اظہار رائے کو ختم کر دیا جاتا ہے جبکہ اس یورپی ملک کے اندر اس جیسی متعدد مثالیں موجود ہیں۔
سید مقاومت
نے معروف فرانسیسی فلسفی و لکھاری کے علمی کاموں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ راجر گارودی کو ہی دیکھ لیجئے، اس کا قصور؛ ہولوکاسٹ کے بارے ایک تحقیقاتی کتاب کی تصنیف تھا جس کے اندر راجر گارودی نے صرف اور صرف علمی تحقیقاتی کام انجام دیا تھا، نہ ہی کسی کی تضحیک کی تھی اور نہ ہی کسی کی توہین! بلکہ اس نے یورپ کے اندر مشہور ایک موضوع کا صرف علمی جائزہ لیا تھا! سید حسن نصراللہ نے یہ سوال اٹھاتے ہوئے کہ کیوں اظہار رائے کی آزادی کو صرف اور صرف یہودی دشمنی (Anti-Semitism) میں ہی روکا جاتا ہے؟ آزادی اظہار رائے پر مبنی مغربی سوچ پر نظر ثانی کی دعوت دی۔ انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ کوئی مسلمان اپنے پیارے نبیؐ کی توہین برداشت نہیں کرے گا، مغربی ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ توہین آمیز اقدامات کی روک تھام کریں اور اس جیسے مسائل کو جڑ سے ختم کر دیں۔ انہوں نے یورپی حکام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ عدل و انصاف سے کام لو اور آزادیِ اظہار رائے کو بالکل ویسے ہی جیسے تم غیر مسلموں کے لئے روا رکھتے ہو، مسلمانوں کے لئے بھی روا رکھو!
سید حسن نصراللہ نے شیخ الازہر کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان؛ جس میں مطالبہ
کیا گیا تھا کہ بین الاقوامی قوانین کے اندر انبیائے الہی کی توہین کی مذمت اور اُسے جرم قرار دیا جائے، کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ شیخ الازہر کی پیشکش کو عملی جامہ پہنا کر توہین آمیز اقدامات کے تسلسل اور اشتعال انگیز کارروائیوں کو روکا جا سکتا ہے۔ حزب اللہ لبنان کے سربراہ نے اپنے خطاب میں یمنیوں کے ملین مارچز کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اپنے اوپر مسلط کئی سالہ وحشتناک جنگ، سخت ترین سرحدی محاصرے اور بھوک کے باوجود حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جشن میلاد کے موقع پر سڑکوں پر نکل کر آپؐ کا دفاع کیا ہے! انہوں نے کہا کہ یمنیوں نے اپنے اوپر مسلط کی گئی بھیانک مشکلات کو حضرت نبی اکرم (ص) سے دفاع نہ کرنے کا بہانہ نہیں بنایا اور اسی طرح وہ فلسطینی امنگوں کا بھی بھرپور دفاع کرتے ہیں جس کے باعث ان سب پر حجت تمام ہو چکی ہے جنہوں نے اس مسئلے میں تاحال خاموشی سے کام لیا ہے! انہوں نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ یمن پر مسلط کردہ وحشتناک جنگ کو ختم کرنے کے لئے عرب دنیا کے اندر ایک عظیم تحریک اٹھنا چاہئے جبکہ یہ اس حوالے سے انجام دیا جانے والا کم از کم کام ہو گا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی کا فرانسیسی جوانوں کے نام اہم پیغام
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرانسیسی صدر کی طرف سے پیغمبر اسلام (ص) کی شان میں گستاخی کی مذمت کرتے ہوئے فرانسیسی جوانوں کے نام اہم پیغام جاری کیا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرانسیسی جواںوں کے نام اپنے پیغام میں فرانسیسی صدر میکرون سے دو سوال پوچھنے کی سفارش کرتے ہوئے کہا ہے کہ فرانسیسی صدر سے پوچھیں کہ کیا آزادی اظءار کا مطلب توہین، بے ادبی اور بے احترامی ہے اور اس نے توہین آمیز خاکوں کی کیوں حمایت کی ہے ؟ اور توہین بھی پیغمبر اسلام (ص) جیسی عظيم اور درخشاں ہستی اور اسلامی مقدسات کی ، کیا فرانسیسی صدر کا احمقانہ اقدام فرانسیسی قوم کے شعور کی توہین نہیں جس نے اسے صدر منتخب کیا ہے؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ ہولوکاسٹ میں شک و تردید کیوں جرم ہے؟ اگر کوئی شخص ہولوکاسٹ کے بارے میں کوئی بات تحریر کرے تو کیا اسے جیل بھیجنا چاہیے اور پیغمبر اسلام (ص) کی توہین آزادی اظہار ہے؟
تہران میں فرانسیسی سفارتخانہ کے سامنے احتجاجی مظاہرہ
اسلامی جمہوریہ ایران کے دارالحکومت تہران میں مظاہرین نے فرانسیسی سفارتخانہ کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئے پیغمبر اسلام (ص) کی شان میں فرانسیسی حکام کی گستاخی کی شدید مذمت کی ہے۔
پاکستانی وزير اعظم کا اسلامی ممالک کے رہنماؤں کو خط/ اتحاد کی درخواست
پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے اسلامی ممالک کے رہنماؤں اور امت مسلمہ سے توہین رسالت اور اسلاموفوبیا کے خلاف متحد ہونے کی درخواست کی ہے۔ پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے تمام مسلمان ممالک کے سربراہان کو خط لکھا ہے جس میں وزیراعظم نے اسلامی ممالک کے رہنماؤں اور امت مسلمہ سے توہین رسالت اور اسلاموفوبیا کے خلاف متحد ہونے کی درخواست کرتے ہوئے کہا ہے کہ وقت آگیا ہے کہ مسلم دنیا کے رہنماء متحد ہوکر پوری دنیا کو ایک پیغام دیں۔
وزیراعظم عمران خان نے خط میں کہا کہ اسلام اور ہمارے آخری نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر حملے بند ہونے چاہئیں، آج ہم اپنی امت میں بڑھتی ہوئی تشویش اور بے چینی کا سامنا کر رہے ہیں، مغربی دنیا میں ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفی (ص) پر طنز اسلامو فوبیا کی بڑھتی ہوئی لہر نظر آرہی ہے۔
عمران نے خط میں مزید کہا کہ قیادت کی سطح پر حالیہ بیانات اور قرآن پاک کی بے حرمتی کے واقعات اس بڑھتے ہوئے اسلامو فوبیا کے عکاس ہیں لہذا ہمیں مغربی دنیا کو اس سلسلے میں واضح پیغام دینا چاہیےکہ ہر مذہب کے اقدار کا اپنا الگ نظام ہے۔
لَقَد جاءَكُم رَسولٌ مِن أَنفُسِكُم عَزيزٌ عَلَيهِ ما عَنِتُّم حَريصٌ عَلَيكُم بِالمُؤمِنينَ رَءوفٌ رَحيمٌ﴿﴾
(توبه129) یقینا تمہارے پاس وہ پیغمبر آیا ہے جو تم ہی میں سے ہے اور اس پر تمہاری ہر مصیبت شاق ہوتی ہے وہ تمہاری ہدایت کے بارے میں حرص رکھتا ہے اور مومنین کے حال پر شفیق اور مہربان ہے
آمد مصطفیٰ ؐ مرحبا مرحبا
تحریر: سید اسد عباس
افضل الاناس، خیر البشر، ختم الرسل، رحمت دو جہاں، ہادی انس و جاں، داور بے کساں، منجی بشر، احمد، محمد، مصطفیٰ، طہ، یس، مزمل جس کا خود خالق کائنات ثناء خواں ہے، اس کی بھلا کوئی انسان کیا تعریف و توصیف بیان کرے۔ ہماری زبان اور قلم میں وہ سکت ہی نہیں کہ اس ہستی کے وصف کو بیان کرسکیں۔ ممدوح خدا ہونا ہی وہ وصف ہے کہ پوری انسانیت اس ہستی کے گن گاتی رہی۔ ماہ ربیع الاول کائنات کی اس بہار کی آمد کا مہینہ ہے۔ یہ اس گل سرسبد کے کھلنے کا موسم ہے، جس کی خوشبو نے طول تاریخ میں اقوام عالم کو پاکیزگی اور لطافت سے معطر کر دیا۔ یہ اس نور کے ظہور کی گھڑی ہے، جس نے دنیا کے گوش و کنار کو توحید کی کرنوں سے روشن کر دیا۔ اہل ایمان کے دل اس مبارک گھڑی میں خوش کیوں نہ ہوں۔؟ کیوں نہ اس بدر کے طلوع کا جشن منائیں اور خوشی کے عالم میں گنگناتے پھریں:
طَلَعَ الْبَدرُ عَلَیْنَا
مِنْ ثَنِیّاتِ الْودَاعٖ
وَجَبَ الشّْکرُ عَلَیْنا
مَا دَعَا لِلّٰہِ دَاعٖ
ہم پر وداع کی گھاٹیوں سے چودھویں رات کا چاند طلوع ہوگیا۔ ہم پر (خدا کا) شکر لازم ہے، جب تک اللہ کو پکارنے (دعا کرنے) والا کوئی بھی اْسے پکارتا رہے۔
کوئی ناہنجار اگر اپنی لاعلمی، جہالت اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے اس بدر منیر کی جانب رخ کرکے بے وقوفانہ طرز عمل اختیار کرے، ان کی توہین کرے تو اس کے متعلقین کو ضرور ایسے شخص کے ذہن کا علاج کروانا چاہیئے، جیسا کہ ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے فرانس کے صدر میکرون کو کہا۔ میکرون کے حالات زندگی اور اپنی ہی استانی سے برس ہا برس کا معاشقہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ ذہنی طور پر کس سطح کا انسان ہے۔ ایسا شخص اگر ختمی مرتبت، اسلام یا مسلمانوں کے بارے میں اظہار نفرت اور رذالت کرے تو ہمیں قطعاً افسوس نہیں ہونا چاہیئے۔ افسوس تو یورپ اور مغرب کے ان (گنی پگز) نما انسانوں پر ہے، جو لاعلمی میں چاند کو سیاہ کہنے اور کرنے کی ناکام کوششیں کر رہے ہیں۔ اگر اہل مغرب رسالت ماب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بارے توہین کا ارتکاب کرنے سے پہلے اپنے ہی فلاسفہ، اہل علم اور دانشوروں کے اس ہستی کے بارے بیانات کو پڑھ لیتے تو شاید اس اتھاہ پستی میں نہ گرتے۔
ان کا مسئلہ نبی کریم ؐ ہیں یا مسلمان، اسلام ہے یا خود ان کی اپنی کوئی مشکل، اس سے قطع نظر کسی بھی دین کے مقدسات کی توہین انسانیت کو زیب نہیں دیتی۔ میکرون کو ذہنی مریض کہنے پر فرانسیسی حکومت کی بے چینی اور حکومتی سطح پر اس کا اظہار اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ مسلمہ مقدسات کی توہین کوئی بھی گوارا نہیں کرتا۔ اگر میکرون فقط فرانس کا صدر ہونے کے سبب لائق احترام ہے تو کروڑوں انسانوں کا محبوب، جس کا قرب اور نسبت پانے کی آرزو میں اس پر جان وار دینا ان کے پیروکار اپنے لیے سبب افتخار سمجھتے ہیں، ان کے بارے میں نامناسب الفاظ کا استعمال، ان کے توہین پر مبنی کارٹون بنانا کیسے روا ہے۔ مسلمان کسی انسان کو بے خطا قتل کرنا جائز نہیں سمجھتا، تاہم ہٹ دھرمی اس حد تک بڑھ جائے کہ مسلسل ناانصافی کی جائے، آزادی اظہار کے باوجود ایک موضوع پر بات کرنا جرم ہو جبکہ دوسرا موضوع جو ایک دین کے مقدسات میں بھی شامل ہے، اس کو اچھالا جائے تو سراسر بدنیتی اور مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکانے کی مذموم کوشش ہے جس کا ردعمل بدیہی ہے۔
اگر یورپ کو اپنے معاشرے میں امن و چین چاہیئے تو اسے مقدسات دین کی توہین کے مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا ہوگا۔ ہولوکاسٹ کی مانند تمام ادیان کے مقدسات کی توہین کو بھی قانون کے لیے قابل گرفت بنانا ہوگا۔ اگر ہولوکاسٹ پر گفتگو، تحقیق اور اشاعت پر پابندی سے آزادی اظہار کو کوئی گزند نہیں پہنچتا تو کسی بھی مذہب کے مقدسات کی توہین سے بھی ایسا نہیں ہونا چاہیئے۔ ہمارا مطالبہ تحقیق و تنقید پر پابندی نہیں بلکہ فقط توہین سے اجتناب ہے، جو کہ لاکھوں انسانوں کی دل آزاری کا باعث بنتا ہے۔ اگر یورپ اور مغربی ممالک نے اس مسئلے پر سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کیا تو ان کے معاشرے میں ایسی صورتحال جنم لے گی، جس سے نمٹنا ان کے بس میں نہیں ہوگا۔
اقوام مشرق اور مسلمانوں کو بھی اس سلسلے میں سنجیدہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ فرانس کے بہت سے مفادات مسلمان ممالک سے وابستہ ہیں، امریکہ اور کینڈا کے بعد مسلم ممالک کو اسلحہ سپلائی کرنے والوں میں فرانس کا نام آتا ہے۔ یقیناً اسے بھی اسلامی ممالک کے ساتھ تجارت کی ضرورت ہے۔ ایسے میں فرانس و دیگر یورپی ممالک کو یہ باور کروانے کی ضرورت ہے کہ مسلمان کسی صورت بھی اپنے نبی کریم ؐ کی توہین برداشت نہیں کرسکتے نیز ان ممالک کو یہ بھی باور کروانے کی ضرورت ہے کہ مسلمان شہریوں کے ساتھ روا رکھا جانے والا معاندانہ رویہ باہمی تعلقات کو بگاڑنے کا کام کرے گا۔ اس موقع پر علامہ محمد اقبال کا شعر مسلم حکمرانوں کو یاد کروانے کی ضرورت ہے، جس میں علامہ نے عشق رسولؐ کو دلوں پر حکمرانی کا نسخہ بتایا ہے:
کی محمد ؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
ہفتہ وحدت اور ہفتہ عشق رسول (ص)
ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینیؒ نے سنی شیعہ مسلمانوں کے درمیان اتحاد و وحدت کو مزید پختہ کرنے کے لیے اپنی الہٰی بصیرت سے کام لیتے ہوئے بارہ سے سترہ ربیع الاول تک ہفتہ وحدت منانے کا اعلان کیا تھا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اہلسنت مسلمانوں کے ہاں پیغمبر اکرم محمدؑ مصطفیٰ کا یوم ولادت باسعادت بارہ ربیع الاول، جبکہ شیعہ مسلمان سترہ ربیع الاول کو یوم ولادت باسعادت کا جشن مناتے ہیں۔ گذشتہ چالیس اکتالیس برسوں سے اس ہفتہ کی مناسبت سے دنیا بھر میں اتحاد و وحدت کو فروغ دینے کے لیے تقاریب منعقد ہوتی ہیں اور 12 سے 17 ربیع الاول کے درمیان سنی شیعہ مل کر مختلف پروگرام منعقد کرتے ہیں۔
اس حوالے سے مختلف ممالک بالخصوص ایران میں ہونے والی عالمی وحدت کانفرنس کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ہفتہ اگر اس کے صحیح اہداف و مقاصد کے تحت منایا جائے تو سارا سال مسلمان آپس میں اتحاد و وحدت کی فضا کو قائم رکھ سکتے ہیں۔ عصر حاضر بالخصوص موجودہ ایام میں امت مسلمہ کے درمیان اتحاد و یکجہتی کی اشد ضرورت ہے۔ اسلام دشمن طاقتیں بالخصوص امریکہ، اسرائیل اور اس کے بعض عرب اتحادی اس بات کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں کہ مسلمانوں کے مشترکہ مسئلہ فلسطین کو بھی مسلمانوں کے درمیان نفاق اور تفرقہ کے لیے استعمال کریں۔ متحدہ عرب امارات، بحرین اور سوڈان کے بعد سعودی عرب بھی بہت جلد اسرائیل کو تسلیم کرنے جیسے جرم کا ارتکاب کرنے والا ہے۔
ایسے عالم میں مسلمانوں کو پہلے سے زیادہ اتحاد و وحدت کی ضرورت ہے، تاکہ مسئلہ فلسطین اور قبلہ اول کا مسئلہ سرد خانے میں پھینک دیا جائے۔ ہفتہ وحدت تو عالمی سطح پر منایا ہی جائے گا، تاہم حکومت پاکستان نے بارہ سے اٹھارہ ربیع الاول کے ایام میں ہفتہ عشق رسولؑ منانے کا اعلان کیا ہے۔ ہفتہ عشق رسولؑ بھی تمام مسلمانوں کو رسولؑ گرامی ذات اقدس پر متحد کرنے کی کوشش ثابت ہوسکتا ہے، لہٰذا ہفتہ وحدت اور ہفتہ عشق رسولؑ کو اس شان و شوکت اور آگہی و بصیرت سے منایا جائے کہ عشق رسولؑ، عالم اسلام کے درمیان اخوت و برادری کا پیغام بنے اور مسلمان "واعتصمو بحبل اللہ جمیعا ولا تفرقو" کی بھی تصویر بن جائیں۔
شہید فتحی شقاقی، اسرائيل کا مقابلہ کرنے میں بیدارامت کا مصداق تھے
فلسطینی تنظیم جہاد اسلامی کے بانی و مؤسس اور پہلے سکریٹری جنرل شہید فتحی شقاقی کی شہادت کی آج پچیسویں سالگرہ ہے شہید فتحی شقاقی کو اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد نے جزیرہ مالٹا میں 26 اکتوبر 1995 میں شہید کردیا تھا۔
ڈاکٹر شہید فتحی شقاقی حضرت امام خمینی (رہ) اور انقلاب اسلامی ایران سے بہت زيادہ متاثر تھے انھوں نے اسی بنا پر" امام خمینی (رہ) ایک متبادل راہ حل " نامی کتاب تحریر کی ۔ شہید فتحی شقاقی نے انقلاب اسلامی ایران کے کامیابی کے پانچ سال بعد سن 1984 ء میں فلسطینی تنظيم جہاد اسلامی کو تشکیل دیا۔
اسلام کی ظرف باز گشت اور مشکلات کا حل :
شہید فتحی شقاقی انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی کے نتیجے میں اس بات تک پہنچ گئے کہ حقیقی اسلام کی طرف بازگشت اور دینی و شرعی ذمہ داریوں پر عمل دنیائے اسلام کی مشکلات اور خاص طور پر مسئلہ فلسطین کا بنیادی اور اساسی راہ حل ہے۔ انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی کے بعد مسئلہ فلسطین میں نئی روح پیدا ہوگئی اور انقلاب اسلامی ایران کو فلسطینی تنظیموں نے اپنا نمونہ عمل بنا لیا۔
شہید فتحی شقاقی نے انقلاب اسلامی ایران کو مشعل راہ بنایا:
شہید فتحی شقاقی نے جہاد اسلامی تنظیم تشکیل دے کر بائیں بازو کی تنظیموں کے افکار کو اسلامی فکر میں تبدیل کیا اور اسی تبدیلی کے نتیجے میں مسئلہ فلسطین ایک بار پھر ابھر کو دنیا کے سامنے آگیا۔ جہاد اسلامی کی تشکیل سے پہلے فلسطین کی فتح تنظيم کی اسرائیل کے خلاف جد وجہد جاری تھی ، لیکن فلسطینیوں میں باہمی اختلاف بھی شدید تھا اور اس اختلاف کو کافی حد تک دور کرنے میں شہید فتحی شقاقی نے اہم کردار ادا کیا اور ثابت کردیا کہ دین اسلام کا دنیائے اسلام کی مشکلات کو حل کرنے کے سلسلے میں بنیادی اور اساسی کردار ہے اور سازشی مذاکرات کے بجائے مزاحمتی تحریک ہی مسئلہ فلسطین کا اصلی راہ حل ہے ۔ مزاحمتی تحریک میں شہید فتحی شقاقی نے نئی روح پھونک کر بتا دیا کہ وہ اسرائیل کے مقابلے میں بیدار امت کا مصداق ہیں۔