سلیمانی

سلیمانی

مہر خبررساں ایجنسی کی اردو سروس  کے مطابق علامہ محمد امین شہیدی حوزہ علمیہ قم کے فارغ التحصیل اور پاکستان کے جید علمائے کرام میں سے ہیں، جن کی اتحاد بین المسلمین کے لئے  کاوشیں کسی سے پوشیدہ نہیں۔ آپ سینئر نائب صدر ملی یکجہتی کونسل پاکستان، اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کے سابق رکن، مجلس وحدت مسلمین کے بانی ممبر اور کئی برس تک مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے  ڈپٹی سیکرٹری جنرل بھی رہ چکے ہیں، اس وقت  " امت واحدہ " کے سربراہ ہیں اور پاکستان کے ہر فورم  خصوصا میڈیا پر ملت تشیع کے  حقوق کا دفاع کر تے رہتے ہیں۔ مہر نیوز ایجنسی نے ایران میں جاری صدارتی الیکشن کے متعلق آپ سے جو گفتگو کی ہے، وہ قارئین کے پیش خدمت ہے:

مہر نیوز :ایران کے حالیہ انتخابات کے حوالے سے آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟

میرا خیال ہے کہ اگر ہم انقلاب اسلامی کے بعد ایران میں ہونے والے گزشتہ چار دہائیوں کے الیکشنز کا جائزہ  لیں تو حالیہ الیکشن کو  بنی صدر کے دور کے حالات سے تشبیہ دے سکتے ہیں،  مثال کے طور پر شہید رجائی جیسی عظیم شخصیت  کی شہادت کے بعد حضرت  آیت اللہ العظمیٰ  خامنہ ای کا الیکشن میں کھڑا ہونا، اگر چہ  بعض جہات سے یہ منظر مختلف بھی ہے جیسے اس وقت انقلابی طبقہ اپنے عروج پر تھااور امام خمینی ؒ بھی حیات تھے، انقلابی ولولہ، آگاہی، جذبہ  اور بیداری اپنی عروج پر تھی،  جنگ بھی اپنی عروج پر تھی اس لئے پوری قوم متحد تھی، لہٰذا اس وقت آیت اللہ خامنہ ای کو فتنوں اوراستکباری سازشوں کے مقابلے میں  جیتنے  کے حوالے سے پوری قوم کی حمایت حاصل  رہی اور اس دور کے الیکشن میں ایران کے تمام دوسرے انتخابات کی نسبت سب سے زیادہ ووٹ کاسٹ ہوئے اور آیت اللہ خامنہ ای نے سب سے زیادہ ووٹ بھی حاصل کئے اور آج تک ان کے ریکارڈ کو کوئی نہیں توڑ سکا۔ آج کے حالات اندرونی اور بیرونی شرائط کے حوالے سے انتہائی اہم ہیں۔ایرانی صدارتی الیکشن میں مغرب کی تمام تر کوششوں کے باوجود عوام انقلاب کے شانہ بشانہ رہیں گے

 اندورنی طور پر فتنہ پرستوں کے ایک گروہ کو تیار کیا جاچکا ہے اگر آیت اللہ رئیسی جیت جاتے ہیں تو اس کے بعد انقلاب کا ایک نیا جنم اور نئی پیدائش ہوگیاور نئی نسل کو انقلاب سے دور  اور مایوس کرنے کا منطوبہ تیار ہے۔ اس سے پہلے بھی مختلف فتنے اٹھائے جاچکے ہیں اور انقلاب اسلامی کے خلاف دنیا بھر کی تمام پروپیگنڈہ مشنری پوری  آب و تاب کے ساتھ متحرک ہے ۔ اس کے علاوہ گزشتہ آٹھ سال میں  ایسی حکومت بر سر اقتدار رہی ہے جس کے ثمرات امریکی سمیٹ رہے ہیں، جبکہ  ایرانی قوم،  انقلاب اسلامی اور ولایت کے ماننے والوں کو نقصان کا سامنا کرنا پڑاہے۔ ایسے ماحول میں آیت اللہ رئیسی کا آگے آنا اور ان کے مقابلے میں کچھ مخصوص  لوگوں کا میدان میں اترنا۔۔۔ ایسا لگتا ہے کہ انقلاب اسلامی ایک بار پھر اپنے ثمرات اور برکات سے ایرانی قوم کو نوازنے کے لئے آمادہ ہے۔  اگر آیت اللہ رئیسی جیت جاتے ہیں تو اس کے بعد انقلاب کا ایک نیا جنم اور نئی پیدائش ہوگی ۔چونکہ گزشتہ آٹھ سالوں میں اور اس سے پہلے کے کچھ ادوار میں کافی حد تک لوگ انقلاب کے ثمرات سے محروم رہے،  انقلابی نظریات کو کچلنے اور کمزور کرنے کی کوششیں ہوئیں، انقلاب کے راستے کو مخدوش کرنے اور لوگوں میں شکوک وشبہات پھیلانے کے مواقع فراہم کئے گئے، عالمی اور استکباری میڈٰیا نے انقلاب کے چہرے کو مسخ کرنے کی بھرپور  کوشش کی۔ اگر قاسم سلیمانی جیسے عظیم ترین شہداء کا خون نہ گرتا تو شاید اس وقت انقلاب کے لئے اتنی آسانی سے سنبھلنا آسان نہ ہوتا۔ اب اس صورتحال میں آنے والا الیکشن بتائے گا کہ انقلاب کی عمر کیا ہے اور انشاءاللہ انقلاب اسلامی اس الیکشن کے نتیجے  میں مزید مضبوط، طاقتور اور سربلند  ہوگا اور عوامی امنگوں پر پورا اترے گا  اور دنیا کی استبدادی اور طاغوتی طاقتیں متحد اور یکجا  ہوکر انقلاب اسلامی کے خلا ف اپنی ریشہ دوانیاں جاری رکھے ہوئے ہیں  لیکن انھیں ماضي کی طرح اس بار بھی شکست اور ناکامی سے دوچار ہونا پڑے گا ۔

ایران کے تیرہویں صدارتیالیکشن میں انقلابی طبقے کا بھی امتحان ہے اور ایران کے باشعور عوام کا بھی امتحان ہے۔  مجھے یقین ہے کہ وہ اس امتحان میں کامیاب ہوں گے ۔ ان سات نمائندوں میں جو مرد میدان ہوگا اس مرد میدان کا نام آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی ہے ۔ میں اس کو اس حوالے سے بھی دیکھتا ہوں کہ بنی صدر کے بعد فتنے کے اس دور میں جس طرح سے آیت اللہ خامنہ ای نے اس ملک کو اور انقلاب کو سنبھالا تھا اور شہید رجائی کے بعد اس نا گفتہ بہ صورتحال میں ان کی صلاحیتیں نکھر کر سامنے آئی تھیں، اسی طرح سے اس انتخابات کے ذریعے لوگ  آیت اللہ رئیسی کا  تابناک چہرہ دیکھیں گے۔  گزشتہ ادوار میں ان کی قاطعیت،  عدلیہ میں کرپشن سے مقابلہ اور کرپشن میں ملوث  سیاسی اور غیر سیاسی شخصیات کا پکڑنا اور انکو منطقی انجام  تک پہنچانا اور قانون کے مطابق ان سے سلوک کرنا یہ سب آیت اللہ رئیسی کے کارناموں میں شامل ہے ۔اس حوالے سے وہ ان شاء اللہ جیت بھی جائینگے اور جیتنے کے بعد ایک نئے ولولے  اور نئی انقلابی روح کے ساتھ ایک نئی حکومت بھی  تشکیل دیں گے۔

مہر نیوز : آپکی نظر میں ایران کا صدارتی الیکشن پاکستان کے لیے کتنی اہمیت کا حامل ہے؟

ایران کے اندر جتنی طاقتور،  پائیدار، مضبوط، انقلابی، امریکہ دشمن، استعمار ستیز اور نظریاتی شخصیت کی حکومت آئے گی اس سے پاکستان کو یقینا فائدہ پہنچے گا، وہ حکومت پاکستان کے استحکام کا باعث بنے گی اور پاکستان اور ایران کے  تعلقات مزید مضبوط اور مستحکم ہوں گے ۔ حکمران جتنے خالص ہوتے ہیں ملکوں کے  تعلقات اتنے ہی خالص ہوجاتے ہیں۔ پاکستان کو بھی اس وقت امریکیوں  کے حوالے سے بڑی مشکلات کا سامنا ہے لیکن چونکہ پاکستان اقتصادی اور سیاسی طور پر کمزور ہے اس لئے ایران کی طرح کھل کر استعمار اور امریکہ کے مقابلے میں من حیث حکومت کھڑا نہیں ہوسکتا، لیکن اگر ان انتخابات میں نظریاتی، انقلابی اور ولایت فقیہ کی پیروکار حکومت آتی ہے تو اس سے میرا خیال ہے گزشتہ حکومت کی نسبت ایران اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں مزید استحکام آئے گا اور ایک نئے اور امریکہ مخالف، مغرب مخالف، علاقائی  بلاک کی تشکیل میں پیشرفت ہوگی، اسی طرح روس، ایران، چین، پاکستان اور خطے کے بعض دیگر ممالک کے اشتراک سے ایک نئے بلاک کی تشکیل کی راہ ہموار ہوگی اور یہ بلاک مزید طاقت کے ساتھ سامنے آئے گا ۔ اس الیکشن میں آیت اللہ رئیسی جیسی شخصیت کا آنا اور انکا جیتنا بڑا اہم بھی ہے اور پاکستان کے لئے  مبارک بھی ہے۔

مہر نیوز: عالمی سطح پر ایرانی صدارتی انتخابات کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟

امریکیوں کے لئے انتہائی اہم ہے کہ اس انتخابات میں رئیسی نہ جیتے

ایران کے اندر گزشتہ آٹھ سالہ حکومت میں جو بات کھل کر سامنے آئی وہ یہ ہے کہ اس حکومت نے اپنے دونوں ادوار میں امریکیوں سے اور مغربی دنیا سے اپنے رابطے کو استوار کرنے کے لئے انقلابی ویلیوز اور دینی ویلیوز کو پامال کیا اور دیگر ممالک کی طرح سے مفادات کی سیاست  کا راستہ  اپنایا اور کرپشن کے دورازے کھولے، اپنے زور بازو پر اعتماد کے بجائے مغرب پر اعتماد کو فروغ دیا جس کے  نتیجے میں بہت  نقصانات ہوئے۔ ایران کے ایٹمی پروگراموں پر پابندی لگی، اسے قدم بہ قدم پیچھے ہٹنا پڑا اور  ملک کے اندر دو نظریات کھل کر ایک دوسرے کے سامنے آئے، ایک مغرب پرستوں کا نظریہ جو حکومت کا بھی نکتہ نظر تھا اور دوسرا ان افراد کا نظریہ جو خود کو انقلاب کا امین اور محافظ سمجھتے ہیں ۔ اس حوالے سے یہ الیکشن عالمی طاقتوں کے لئے بھی اہم ہے اور عالمی سطح پہ امریکہ اور دیگر ممالک کی کچھ توقعات ہیں۔ وہ اس حوالے سے بھرپور کوشش کررہے ہیں کہ ایسی حکومت قائم ہو جو ان کی باتوں کو فورا تسلیم کرے،  کیونکہ مغرب کو ایران کے ایٹمی پروگرامز کے حوالے سے بڑی امیدیں تھیں کہ صدر روحانی کی حکومت میں انکا پروگرام رول بیک کردیا جائے گا لیکن رہبر معظم کی حکمت عملی ، فراست اور انقلابی طبقے کی بیداری نے ایسا نہیں ہونے دیا۔ اگرچہ پچھلے ادوار میں اس طرح کے پروگرام کو بہت زیادہ نقصانات کا سامنا کرنا پڑا، اب امریکہ اس معاہدے میں واپس آنا چاہتا ہے اور اس معاہدے کو دوبارہ عملی شکل دینا چاہتا ہے تو اس اعتبار سے امریکیوں کے لئے انتہائی اہم ہے کہ اس انتخابات میں رئیسی نہ جیتے بلکہ کوئی ایسا فرد آئے جو امریکی اور مغربی مفادات کو تحفظ فراہم کر سکے۔ ایرانی صدارتی الیکشن میں مغرب کی تمام تر کوششوں کے باوجود عوام انقلاب کے شانہ بشانہ رہیں گے

دوسری طرف خطے کے اندر اسلامی مزاحمتی بلاک نے اس عرصے میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی دست پروردہ دہشت گرد تنظيم داعش اور اسرائیل کو شکست دے کر اوریمنیوں  کی حمایت کرکے جس طرح کی فضاء قائم کررکھی ہے اس کے نتیجے  میں انقلابی طبقات پوری دنیا میں مضبوط ہوئے ہیں ۔ فلسطینیوں کی ۱۲ روزہ جنگ کی فتح کے نتیجے میں پوری دنیا میں مسلمانوں کا سر فخر سے بلند ہوا ہے فلسطینیوں  سمیت عرب ممالک میں موجود حریت پسندوں کا مورال بلند ہوا ہے اور یہی کیفیت شام اور عراق کی ہے  اور یہ سارے کام اس وقت انجام پائے  جب ایران خود مشکلات میں گرفتار تھا۔ فلسطینیوں کی ۱۲ روزہ جنگ کی فتح کے نتیجے میں پوری دنیا میں مسلمانوں کا سر فخر سے بلند ہوا ہے۔
اب اگر اس الیکشن میں کوئی انقلابی شخصیت آتی ہے تو اس کے نتیجے میں اسلامی مزاحمتی بلاک کو بہت زیادہ قوت ملے گی، دنیا بھر میں پھیلے ہوئے انقلابیوں  کو ایک نئی روح حاصل ہوگی اور اسرائیل کو زیادہ نقصان پہنچے گا ۔ اسی طرح خطے کے اندر جو قوتیں انقلاب کا راستہ روکنا چاہتی ہیں، وہ امام زمان (عج) کے  ظہور کو اپنے لئے سب سے بڑا چیلنج سمجھتی ہیں ان کو  رئیسی جیسی شخصیت کی کامیابی میں اپنی اور اپنے نظریات کی شکست نظر آرہی ہے، اس اعتبار سے دیکھا جائے تو خدا دشمن قوتوں کو اس انتخابات میں رئیسی جیسے شخص کی کامیابی کی صورت میں بہت بڑی ناکامی اور شکست کا سامنا ہوسکتا ہے اور یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے، جس کے اثرات  پوری دنیا پر مرتب ہونگے اور ان اثرات کو دنیا دیکھے گی۔ اگر رئیسی صاحب کامیاب ہوتے ہیں تو اس سے پورے خطے  پر اچھے اثرات مرتب ہوں گے اور خطے میں استعماری اور سامراجی طاقتوں کے شوممنصوبے ناکام ہوجائيں گے اور ان کی کمزوریاں اور ان کی تلملاہٹ کھل کر سامنے آجائے گی۔

مہر نیوز: تمام صدارتی امیدواروں کا کہنا ہے کہ ہم آئندہ دور میں ہمسایہ ممالک سے تعلقات بہتر بنانے کی بھرپور کوشش کریں گے تو آپ کی نظر میں پاک ایران تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے لیے کونسے اقدامات کی ضرورت ہے؟ ہم دیکھتے ہیں کہ اپنے ملک کے مفادات سے بالاتر ہوکر اسرائیل دشمنی میں انقلابی سب سے آگے ہیں۔

انتخابات سے پہلے ہر صدر یہ کہتا ہے کہ ہم اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات برقرار کرنے کی بھرپور کوشش کرینگے لیکن ایک انقلابی اور غیر انقلابی، ایک مغرب پرست اور ایک انقلابی اور دینی اقدار کے حامل شخص میں بڑا فرق ہوتا ہے۔  ایک انقلابی شخص کا سارا دارومدار دین کی پالیسی پر ہوتا ہے جبکہ غیرانقلابی اور مغرب سے متاثر لوگ اپنے مفادات کی بنیاد پر اپنی پالیسیاں مرتب کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ اپنے ملک کے مفادات سے بالاتر ہوکر اسرائیل دشمنی میں انقلابی سب سے آگے ہیں اگرچہ اس کا نقصان ایران کو اٹھانا پڑتا ہے اور وہی طبقہ جب کشمیر کی بات آتی ہے تو انڈیا سے اپنے تمام تر اپنے اقتصادی تعلقات کے باوجود انڈیا کے مقابلے میں کھڑا ہوجاتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں جو مغرب پرست اور دینی اقدار سے محروم لوگ ہیں وہ صرف اپنے اقدار کو دیکھتے ہیں تو اس اعتبار سے اس الیکشن کے بعد میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ اگر انقلابی طبقہ،  انقلابی اور ولایت فقیہ کا قائل طبقہ میدان میں آتا ہے تو یقینا وہ اپنے نظریات کی  بنیاد پر کشمیریوں کی حمایت کے لیے بھی کھل کر سامنے آئے گا اور فلسطینیوں کی حمایت کے لئے بھی کھل کر سامنے آئے گا ۔  اگر کشمیر کے مسئلے  پر کوئی ملک پاکستان کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے تو پاکستان اور اس ملک کے درمیان تعلقات کا بہتر ہونا عام سی بات ہے، لہذا پاک ایران تعلقات کے استحکام میں یہ موارد بہت اہم ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ اگر پاکستان کے اندر بھی کوئی آزاد منش حکومت آجائے تو وہ ایران کے ساتھ اپنے اقتصادی تعلقات کو مضبوط کرکے ایران اور پاکستان کی معیشت، در آمدات اور برآمدات کی موجودہ فضا  میں بہتری لاکر دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کے مفادات کا محافظ بناسکتی ہے، یہ کام پاکستانی حکومت اور ایرانی حکومت کی مشترکہ جدوجہد اور مشترکہ مفاہمت سے ہی ممکن ہوسکتا ہے۔ لہٰذا اس اعتبار سے بھی میرا خیال یہی ہے کہ رئیسی صاحب باقی تمام لوگوں کی نسبت بہتر طور پر یہ کام کرسکتے ہیں۔  ڈاکٹر سعید جلیلی بھی اس حوالے سے روشن فکر اور بہتر  شخصیت ہیں اور محسن رضائی صاحب بھی اس حوالے سے نظریاتی شخصیت ہیں وہ بھی بہتر طور پر کام کرسکتے ہیں۔ اگر دونوں حکومتیں درآمدات اور برآمدات، اقتصادی معاملات کی  مضبوطی، خطے میں امن و امان کی بحالی اور خطے کے ممالک کے درمیان  عداوتوں اورمخالفتوں  کو ختم کرنے کے حوالے سے باہمی طور پر مفاہمت کی طرف آئیں  تو اس سے بڑا مثبت اثر پڑے گا اور ان انتخابات میں زیادہ اس چیز کی ضرورت ہے کہ انتخابات کے بعد جوبھی برسر اقتدار آئے ، اسے اپنی توجہ  ان امور کی طرف مبذول کرنی چاہیے ۔

مہر نیوز : آپ کی نظر میں پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر عمل درآمد کیوں نہیں ہورہا اور اس منصوبے کی تکمیل کیسے ممکن ہے؟اس وقت پاک ایران پائپ گیس لائن کے حوالے سے مسئلہ ایران کا نہیں ہے، بلکہ  پاکستان کا بھی نہیں ہے، جبکہ یہ مسئلہ ان عالمی طاقتوں کا ہے 

پاک ایران پائپ لائن کے حوالے سے عرض کروں کہ یہ مسئلہ اندرونی نہیں، بلکہ ایک  بیرونی مسئلہ ہے۔  اگر گیس پائپ لائن شروع ہوجائے تو ایک طرف سے  "یو اے ای" دھمکیاں دیتا ہے تو دوسری طرف سے سعودی عرب  اور امریکہ دھمکیاں دیتے ہیں  کہ ہم تمہاری امداد بند کردیں گے۔ لہٰذا  یہ پاکستان کی مجبوری ہے کیونکہ وہ اقتصادی طور پر ایک کمزور ملک ہے اور جو ملک جتنا بھی اقتصادی حوالے سے کمزور ہوتا ہے وہ اتنا ہی دوسروں کی پالیسیوں سے متاثر ہوتا ہے۔لہٰذا  اس وقت پاک ایران پائپ گیس لائن کے حوالے سے مسئلہ ایران کا نہیں ہے، بلکہ  پاکستان کا بھی نہیں ہے، جبکہ یہ مسئلہ ان عالمی طاقتوں کا ہے جو ایران اور پاکستان کو ایک دوسرے کے قریب آنے سے روکنا چاہتی ہیں، لہذا جس طرح ایران ہمت اور جرئت  کا مظاہرہ کرتا ہے پاکستان کے اندر بھی ہماری حکومت جرئت و ہمت کا مظاہرہ کرے تو یہ صورتحال بد ل سکتی ہے اور یہ گیس پائپ لائن کا باقاعدہ آغاز ہوسکتا ہے اور اس منصوبے پر فوری کام شروع بھی کیا جاسکتا ہے لیکن جیسے ہم سب کو پتہ ہے کہ خود اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے "یو اے ای" اور سعودی عرب  کی طرف سے ہماری حکومت پر کتنا دباؤ اور پریشر تھا۔ ہمارے قارئین کو پتہ ہے کہ کوالامپور  کانفرنس میں شرکت سے روکنے کے لیے سعودیوں اور اماراتیوں نے کس طرح سے ہماری حکومت پر  دباؤ ڈالا اور پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان اس کانفرنس کے بانی ہونے کے باوجود اس کانفرنس میں نہیں گئے اور تاریخ میں یہ ذلت ہماری پیشانی پر لکھی گئی۔ لہذا معیشت کے حوالے سے ہم اتنے کمزور ہوں تو ایک ایسے گیس پائپ لائن پر سائن کرنا پاکستان کے لیے آسان نہیں ہے اس کے لیے ہمت  چاہیے اس کے لیے غلامی اور خوف کی طاقتوں کو توڑنے کی طاقت  کی ضرورت ہے اس کے لیے خطے کے عرب بادشاہوں کی طاقتوں کے حصار سے باہر نکلنے کی ضرورت ہے۔ جونہی  یہ تبدیلی پاکستا ن میں آئے گی پھر پاکستان سے مشکلات کا خاتمہ شروع ہوگا تو اس لیے پاک ایران گیس پائپ لائن کے حوالے سے جو مشکل ہے وہ خطے کے ان ممالک کی طرف سے ہے جنکے زیر اثر پاکستان  ہے ۔

مہر نیوز : عالمی طاقتوں کی  اکثریت اپنے ملکوں میں شفاف انتخابات نہیں کرا سکتیں، وہ ایرانی صدارتی الیکشن پر حساس کیوں ہوجاتی ہیں؟

ایرانی عوام کو اپنے سسٹم اور اپنے نظام پر اعتماد ہےایرانی عوام نے گزشتہ چالیس سالوں میں تمام تر کٹھن حالات، بین الاقوامی پابندیوں، آٹھ سالہ مسلط کردہ جنگ  میں استعماری حملوں اورہتھکنڈوں کے باوجود اپنی حکومت  اور اپنے رہبر پر اعتماد کا مظاہرہ کرکے انقلاب کو کمزور ہونے سے بچایا۔ اس کے ساتھ انہوں نے فلسطینی اور عراقی مظلوموں  کا ساتھ دیا، یمن اور کشمیر کے مظلوموں کی حمایت کی، شام کے عوام کا ساتھ دیا اور داعش دہشت گردوں کو انہی بہادر عوام اور جوانوں نے شکست سے دوچار کیا۔لہٰذا اسلامی  انقلاب کی ویلیوز ہیں جن پر ایرانی عوام کو بھرپور اعتماد ہے اور یہی وجہ ہے کہ گزشتہ پارلیمنٹ کے الیکشن میں انہوں نے مغرب پرست عناصر کو اس طرح سے باہر کیا جس طرح سے گھی میں سے مکھی کو نکالا جاتا ہے۔یہ ایرانی عوام کے  شعو ر کا امتحان بھی تھا اور اس امتحان میں ایرانی عوام کامیاب بھی ہوئے ۔ لہذا میں یہ سمجھتا ہوں کہ ایرانی عوام کو اپنے سسٹم اور اپنے نظام پر اعتماد ہے، مغرب کی تمام تر سازشوں کے باوجود انہوں نے کبھی دھوکہ نہیں کھایا اور اب تک اپنے  دینی رہبر و راہنما پر مکمل اعتماد کر کے  اپنے اعلی اہدا کی سمت  ثابت قدمی کے ساتھ گامزن ہیں ، لہٰذا حالیہ  انتخابات میں بھی مغرب کی تمام تر کوششوں کے باوجود عوام انقلاب کے شانہ بشانہ رہیں گے اور اپنے اس انقلاب کو منطقی نتیجے تک پہنچانے کے لیے تیار رہیں گے۔ 

مہر نیوز :ایرانی صدراتی الیکشن پر وہ ممالک بھی تنقید کرتے نظر آتے ہیں جن میں  صدیوں سے الیکشن کا کوئی نظام ہی نہیں، اس بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟ایرانی صدارتی الیکشن میں مغرب کی تمام تر کوششوں کے باوجود عوام انقلاب کے شانہ بشانہ رہیں گے

ایرانی صدارتی انتخابات پر عرب ممالک کے بڑے بڑے اعتراضات دیکھ کر ہنسی آتی ہے، جہاں بادشاہت ہے۔ جولوگ سراپا ننگے ہیں وہ لباس والوں پر اعتراض کرتے ہیں۔ ایران میں پچھلے چالیس سالوں سے  آئین کے تحت کوئی الیکشن ملتوی نہیں ہوا۔  نجی سطح سے لے کر اوپر کی سطح تک کے فیصلے عوام کی امنگوں کے مطابق  ہوئے اور عوام نے بھرپور شرکت کی ۔  جنگ کے سخت ترین حالات میں پارلیمنٹ کو بم سے اڑانے کے باوجود، اسی طرح  صدر، وزیر اعظم، چیف جسٹس، ائمہ جمعہ سمیت بڑی بڑی شخصیات کو شہید کرنے کے باوجود الیکشن میں ایک دن کی بھی تاخیر نہیں ہوئی اب ایسے نظام پر سعودی، اماراتی  یا کویتی  اگر اعتراض کریں اور الیکشن پر انگلی اٹھائیں جہاں پر استبداد اور ڈکٹیٹر شپ ہے اور امریکیوں کے بٹھائے ہوئے گماشتے حکومت کر رہے ہیں  تو ایسی باتوں پر ہنسی آتی ہے، کیونکہ یہ باتیں ساری دنیا میں کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔  لوگ اب سمجھنے لگے ہیں لہذا ان کے اعتراضات نقش  بر آب ثابت ہوں گے اور اس الیکشن یا وہاں کے  عوام پر کسی طرح کا اثر ان شاءاللہ نہیں پڑے گا۔

مہر نیوز :آپ اسلامی جمہوریہ ایران میں صدارتی انتخابات اور دوسرے ملکوں میں انتخابات کو کیسے دیکھتے ہیں؟

اسلامی جمہوریہ  ایران میں صدراتی انتخابات کے جو معیارات ہیں یا اس کے لیے جو اصول وضع کیے گئے ہیں، اس لحاظ سے اگر ایران کےانتخابات دنیا کے جدید ترین اور ترقی یافتہ ملکوں کے صدارتی انتخابات سے بہت آگے نہیں تو  پیچھےہرگز نہیں ہیں۔اگر آپ الیکشن کے لیے وضع شدہ قوانین  اور صدارتی امیدواروں کے شرائط  اور انکی صلاحیتوں کے حوالے سے دیکھیں  تو آپ کو یہ لگے گا کہ دنیا کے ترقی یافتہ  ممالک سے ایران کے صدارتی انتخاب کا نظام زیادہ بہتر اور مضبوط  ہے اور بعض جہات سے دنیا کا کوئی ملک اس نظام کا مقابلہ کر ہی نہیں سکتا۔  اگر امریکہ کے اندر انتخابات ہوتے ہیں تو صدارتی امیدوار مختلف سرمایہ داروں سے پیسے لیتا ہے اور انتخابات میں بے دریغ پیسہ خرچ کرتا ہے ۔ جب وہ صدر بن جاتا ہے تو وہی سرمایہ دار اس صدر کے اختیارات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کرپشن کرتے ہیں اور اپنا پیٹ بھرتے ہیں،  لیکن ایران کے اندر ایسے سارے دروازے بند کررکھے ہے لہذا صدارتی امیدواروں کو خود ریاست سپورٹ  کرتی ہے، ریاست کے چینلز سپورٹ کرتے ہے اور برابری کی سطح پہ ایک گمنام ترین فرد اور ایک مشہور ترین فرد میں کوئی  فرق نہیں رکھاجاتا۔ دونوں کو برابر ٹائم دے کر مناظروں کی صورت میں سوالات کی صورت میں برابری کی سطح پر تشہیر کی جاتی ہے۔ جس سے پوری دنیا کو یہ پیغام  پہنچتا ہے کہ اسی کو  عدل اور انصاف کی حکمرانی کہا جاتا ہے۔ لہٰذا  اس اعتبار سے ایرانی صدارتی الیکشن باقی ممالک کے صدارتی انتخابات سے بہت زیادہ بہتر  و منصفانہ اور مقبول عام ہے۔

مہر نیوز : ایرانی عوام کے لئے کوئی خاص پیغام؟

ایرانی عوام کے لئے پیغام یہی ہے کہ: پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ۔  رہبری اور ولایت فقیہ ہی ایران کی سربلندی کی بنیاد ہے۔ جب تک قوم اس نظرئیے  اور اس منصب سے وفادار رہے گی تب تک دنیا بھر کی طاقتیں مل کر بھی اس انقلاب کا کچھ نہیں بگاڑ  سکتیں۔ ایرانی قوم نے ماضی میں یہ ثابت کیا ہے اور اس کے بعد بھی انشاءاللہ یہ ثابت کردکھانے کی طاقت رکھتی ہے کہ وہ ولایت کی پیروکار ہے، ولایت فقیہ کو  مانتی ہے اور اسلامی نظام کی بقا اور حمایت میں کھڑی ہے۔  یہی ایرانی قوم کا طرہ امتیاز ہے اور اگر اس نے اس امیتاز کی حفاظت کی تو  پوری دنیا میں یہ قوم سربلند اور سرافراز رہےگی۔

مہر نیوز : آئندہ آنے والے صدر کے لیے کوئی پیغام؟میں یہ سمجھتا ہوں کہ ایرانی صدر جہاں اپنے ملک اور اپنے قوم کے لیے درد مند ہو  وہاں پر وہ امت مسلمہ کے درمیان یکجہتی کے لیے بھی بھرپور جدوجہد کرے

آئندہ آنے والے صدر کے لیے میرا پیغام یہ ہے کہ گزشتہ چالیس برسوں میں مختلف صدور آئے اور چلے گئے، لیکن جن صدور نے ولایت فقیہ سے اپنا تعلق مراد اورمرید والا بنایا وہ ہمیشہ سرخروبھی رہے اور کامیاب بھی رہے اور اس کی کامیابی میں اضافہ بھی ہوتا رہا ہے۔ اس کے مقابلے میں  جن صدور نے اقتدار میں آنے کے بعد اپنے آُپ کو مقتدر سمجھ کر ولایت کے آگے کھڑے ہونے کی اور سینہ تاننے کی کوشش کی وہ بھلا جتنے بھی انقلابی تھے ذلت نے انہیں  کہیں کا رہنے نہیں دیا، جس کی متعدد مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔  میں یہ سمجھتا ہوں کہ ایرانی صدر جہاں اپنے ملک اور اپنی قوم کے لیے درد مند ہو  وہاں پر وہ امت مسلمہ کے درمیان اتحاد و یکجہتی کے لیے بھی بھرپور جدوجہد کرے، وہ اسلام کی بالادستی اور دین کے بنیادی اقدار اور ویلیوز کی بھی حفاظت کرے  اور ساتھ ساتھ ولی فقیہ کا بھی مکمل تابع اور پیرو کار رہے ۔ اگر ایسا ہوا تو کوئی مائی کا لال اس ملک اور اس نظام کو نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔

اسلامی جمہوریہ ایران میں 18 جون کو صدارتی انتخابات منعقد ہورہے ہیں ۔ ایران میں ہر چار سال بعد صدر کا انتخاب براہ راست عوام کے ووٹوں سے کیا جاتا ہے۔ ایران کے الیکش کمیشن کے ترجمان سید اسماعیل موسوی نے کہا ہے کہ ایران میں 59 ملین 3 لاکھ 10 ہزار اور 307 افراد ووٹنگ میں حصہ لینے کے اہل ہیں۔ ایران کے تیرہویں صدارتی انتخابات میں ملک بھر میں 72 ہزار پولنگ اسٹیشن قائم کئے جارہے ہیں۔

ایران کے تیرہویں صدارتی انتخابات میں صدارتی عہدے تک پہنچنے کے لئے 7 امیدوار میدان میں موجود ہیں۔ ان اُمیدواروں میں موجودہ چیف جسٹس ابراہیم رئیسی، سابق جوہری مذاکرات کار سعید جلیلی، پاسدارانِ انقلاب کے سابق سربراہ محسن رضائی، ایران کے مرکزی بینک کے سربراہ عبدالناصر ہمتی، ایرانی پارلیمنٹ کے ڈپٹی اسپیکر سید امیر حسین قاضی زادہ ہاشمی، سابق نائب صدر مہر علی زادہ اور پارلیمنٹ ممبر علی رضا زاکانی شامل ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے حضرت امام خمینی (رہ) کی 32 ویں برسی کے موقع پر اپنے خطاب میں انتخابات کی اہمیت کی طرف اشارہ  کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ "حضرت امام خمینی (رہ) نے بہت سے اہم اقدامات انجام دیئے جن میں اسلامی جمہوری نظریہ پر مبنی انتخابات شامل ہیں جو ان کی سب سے اہم خلاقیت ، جدت اور نوآوری ہے ، یہی دینی  اور مذہبی جمہوریت ہے۔ امام خمینی (رہ) کے اس یادگار اقدام کی دور حاضر اور مستقبل میں حفاظت اور نگہبانی ضروری ہے۔"

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: " اسلامی جمہوری نظام کے مخالفین دو قسم کے ہیں، ایک لیبرل نظریہ کے حامی ہیں جن کا یہ کہنا ہے کہ دین اور مذہب  کا جمہوریت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ جبکہ دوسرا نظریہ داعشی نظریہ ہے یہ لوگ دینی حاکمیت کے قائل ہیں لیکن عوام اور جمہوریت کے خلاف ہیں۔ حضرت امام خمینی (رہ) نے اللہ تعالی کی ذات پر ایمان و توکل اور عوام پر یقین رکھتے ہوئے اسلامی جمہوریت کا نظریہ پیش کیا اور گہری دینی معرفت کے ساتھ  اپنے اس نظریہ پر قائم رہے یہاں تک کہ اسے عملی جامہ پہنا دیا۔"

 

ادھر ایران کی پارلیمنٹ کے اسپیکر محمد باقر قالیباف کا کہنا ہے کہ ایرانی عوام نے گذشتہ 4 دہائيوں سے انتخابات میں شرکت کرکے ثابت کردیا ہے کہ ایران اسلامیت اور جمہوریت کا گہوارہ ہے ایران میں جمہوریت کی جڑیں مضبوط ہوگئی ہیں اور ایران میں سیاسی قیادت کے انتخاب میں عوام کا بنیادی اور اساسی کردار ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی پارلیمنٹ کے اسپیکر محمد باقر قالیباف نے اپنے ایک ٹوئیٹر بیان میں صدارتی انتخابات کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایرانی عوام کی انتخابات میں بھر پور شرکت ایران کے تمام حامیوں اور طرفداروں کے لئے مفید اور مؤثرثابت ہوگي۔

انھوں نے کہا کہ انتخاب عوام کا حق ہے اور انتخابات میں شرکت ہر ایرانی کی قومی اور شرعی ذمہ داری ہے۔ اسلامی جمہوری نظام عوام کا اور عوام کے لئے ہے۔صدارتی انتخابات میں عوام کی وسیع پیمانے پر شرکت ملکی ترقی اور پیشرفت کے لئے اہم اور مفید ثابت ہوگی ۔

ایران میں تیرہویں صدارتی انتخابات 18 جون کومنعقد  ہوں گے۔ایرانی صدر حسن روحانی 2 مرتبہ صدارتی عہدہ سنبھالنے کے بعد سبکدوش ہو جائیں گے، ایران میں مسلسل 3 مرتبہ صدر بننے کی قانون میں اجازت نہیں ہے۔ ایرانی قانون کی شق 66  کے مطابق  امیدواروں کی طرف سے تبلیغات کا سلسلہ الیکشن کمیشن کی جانب سے ناموں کے اعلان کے بعد سے شروع ہوجاتا ہے جبکہ صدارتی تبلیغات کا سلسلہ ووٹنگ سے 24 گھنٹہ پہلے ختم ہوجاتا ہے۔

سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق ایران کے 13 ویں صدارتی انتخابات ایک انتہائی حساس علاقائی اور بین الاقوامی صورتحال میں منعقد ہورہے ہیں۔ اسی وجہ سے یہ انتخابات ایک طرف ایرانی عوام کے لئے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں تو دوسری جانب ہمسایہ ممالک کے عوام کے لئے بھی اہم ہیں.  صدارتی انتخابات میں ایرانی عوام کی بھرپور شرکت اہمیت کی حامل ہے۔ ایرانی عوام صدارتی انتخابات میں بھر پور شرکت کرکے انقلاب اسلامی کے دشمنوں کی تمام گھناؤنی سازشوں کو خاک میں ملا دیں گے اور اسلامیت و جمہوریت کی بقا کا شاندار مظاہرہ کریں گے۔

مہر خبررساں ایجنسی کی اردو سروس

معروف صہیونی اخبار یدیعوت آحارنوٹ میں فوجی امور کے ماہر رون بن یشای نے ایک مقالہ شائع کیا ہے جس میں فلسطینیوں کے مقابلے میں تل ابیب کی سکیورٹی حکمت عملی کو مکمل طور پر شکست خوردہ قرار دیا گیا ہے۔ اس مقالے میں تاکید کی گئی ہے کہ صہیونی فوج کے غلط فیصلوں نے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ رون بن یشای نے اپنے مقالے میں مزید لکھا کہ فلسطینیوں کے مقابلے میں ہماری حکمت عملی مختلف سطح پر مکمل ناکامی کا شکار ہو چکی ہے جن میں سے اہم ترین سطح فیصلہ سازی کی سطح ہے۔ اہم فیصلوں کے وقت "گریٹر اسرائیل" نامی آرزو اور دائیں بازو کے شدت پسند سیاسی رہنماوں کی آراء کو قومی سلامتی پر ترجیح دی جاتی ہے جس کے باعث اسٹریٹجک امور پس پشت ڈال دیے جاتے ہیں۔
 
یہ فوجی ماہر اپنے مقالے میں لکھتا ہے کہ اسرائیل کی مختلف حکومتوں نے اپنے سکیورٹی اور فوجی فیصلوں میں بہت بڑی بڑی غلطیاں کی ہیں جن کے باعث اسرائیلی شہریوں کو بھاری جانی اور مالی نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل فلسطینیوں میں پائے جانے والے مذہبی رجحانات کو درست انداز میں درک کرنے سے قاصر ہے جس کے باعث اسرائیلی حکام مشرقی بیت المقدس میں بھی نظم و نسق برقرار نہیں رکھ پا رہے۔ رون بن یشای نے لکھا کہ ہماری حکومتیں شدت پسند یہودیوں کو مسجد اقصی میں بدامنی اور بدنظمی پھیلانے سے بھی اسی وجہ سے نہیں روک پائیں۔ اسی وجہ سے ہمیں بہت زیادہ نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔ انہوں نے اس حقیقت کا بھی اعتراف کیا کہ 2014ء کے بعد غزہ میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس اسلحہ کے ذخائر کے لحاظ سے بہت زیادہ ترقی کر کے طاقتور ہو چکی ہے۔
 
رون بن یشای نے اپنے مقالے میں لکھا کہ اسرائیلی حکام نے فلسطین اتھارٹی اور محمود عباس کے ساتھ بہت ہی تحقیر آمیز اور بے ادبانہ رویہ اختیار کیا اگرچہ محمود عباس مقبوضہ فلسطین میں مسلح کاروائیوں کی مخالفت کرتے تھے اور ہماری سکیورٹی فورسز کے ساتھ تعاون بھی کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ محمود عباس ہمارے ساتھ پرامن طریقے سے زندگی بسر کرنے کیلئے تیار ہیں لیکن حماس ہمارے وجود کو تسلیم نہیں کرتی اور یہودی ریاست کو مسترد کرتی ہے۔ یدیعوت آحارنوٹ میں لکھتے ہوئے اس فوجی تجزیہ کار کا کہنا تھا کہ صہیونی سیاست دانوں اور موساد اور دیگر حساس اداروں کے درمیان بھی شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔ حالیہ جنگ میں ہمارے سیاست دان فتح کے دعوے کر رہے ہیں جبکہ سکیورٹی حکام انہیں تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔

امام جعفر صادقؑ مسلمانوں کے چھٹے امام ہیں، شیعہ و سنی سب کے ہاں آپ کا عظیم مقام ہے۔ جناب ابو حنیفہ آپ کو مسلمانوں میں سب سے زیادہ علم و معرفت کا حامل سمجھتے تھے۔ وہ آپؑ کو مسلمانوں میں سب سے زیادہ دین شناس اور علم و معرفت کا حامل قرار دیتے تھے۔ ابن ابی الحدید المعتزلی کا کہنا ہے کہ جناب ابو حنیفہ، احمد بن حنبل اور شافعی مستقیم یا غیر مستقیم امام صادقؑ کے شاگرد رہے ہیں. اسی بنا پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ حقیقت میں دینِ اسلام نے ایک ہی جڑ سے نشو و نما پائی ہے۔ آپ کی امامت کے دوران چونکہ بنی امیہ اپنے زوال کے ایام سے گزر رہے تھے، اسلئے آپ کو دوسرے آئمہ کی نسبت زیادہ علمی امور کی انجام دہی کا موقع ملا۔ آپ کے شاگردوں اور راویوں کی تعداد 4000 ہزار تک بتائی گئی ہیں۔

اہل بیتؑ سے منسوب احادیث میں سے اکثر احادیث امام صادقؑ سے نقل ہوئی ہیں۔ اسی بنا پر شیعہ مذہب کو مذہب جعفریہ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ آپؑ نے امام علیؑ کا مرقد جو اس وقت تک مخفی تھا، مشخص فرمایا اور اپنے پیروکاروں کو دکھایا۔ حدیثی منابع کے مطابق آپ نے امام کاظمؑ کو اپنے بعد بعنوان امام اپنے اصحاب کے سامنے متعارف کروایا۔ امام صادقؑ کے دور امامت میں بنی امیہ اپنی اقتدار اور بقا کی جنگ لڑ رہی تھے، اسی بنا پر لوگوں کو کسی حد تک مذہبی آزادی نصیب ہوئی، جس سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے امام عالی مقام نے مختلف موضوعات پر علمی مباحث کا سلسلہ شروع فرمایا۔ اس علمی اور مذہبی آزادی جو آپ سے پہلے والے اماموں کو کمتر نصیب ہوئی تھی کی وجہ سے علم دانش کے متلاشی آپ کے علمی جلسات میں آزادی سے شرکت کرنے لگے۔ یوں فقہ، کلام اور دیگر مختلف موضوعات پر آپ سے بہت زیادہ احادیث نقل ہوئیں۔ ابن‌ حَجَر ہیثمی کے بقول لوگ آپ سے علم و معرفت کے خزانے دریافت کرتے تھے اور ہر جگہ آپ ہی کا چرچا تھا۔

ابو بحر جاحظ لکھتے ہیں کہ ان کی فقہ اور علم پوری دنیا میں پھیل چکا تھا۔ حسن بن علی وَشّاء لکھتے ہیں کہ انہوں نے 900 لوگوں کو دیکھا جو مسجد کوفہ میں امام صادقؑ سے حدیث نقل کرتے تھے۔ امام صادقؑ کے متعلق لکھی گئی کتابوں کی تعداد 800 تک بتائی جاتی ہے، جن میں سے ایک اخبار الصادق مع ابی حنیفہ و اخبار الصادق مع المنصور ہے جسے محمد بن وہبان دبیلی نے چوتھی صدی ہجری میں لکھا، اس سلسلے کی قدیمی کتابوں میں سے ہیں۔ "آپ سے متعلق بعض دوسری کتابوں میں زندگانی امام صادق جعفر بن محمدؑ مصنف سید جعفر شہیدی، الامام الصادقؑ و المذاہب الاربعۃ، مصنف اسد حیدر، پیشوائے صادق، مصنف سید علی خامنہ ای اور موسوعۃ الإمام الصادق، مصنف باقر شریف قَرَشی کا نام لیا جا سکتا ہے"۔ سنہ 1378 ہجری میں الأزہر یونیورسٹی مصر کے چانسلر شیخ محمود شلتوت نے مذہب جعفریہ کو سرکاری طور پر قبول کرنے اور اس کی تعلیمات پر عمل کرنے کو بھی جائز قرار دیا۔

تألیفات امام صادق:
امام صادقؑ کا اپنے اصحاب کے نام خط۔، یہ خط امامؑ کی ان سفارشات پر مشتمل ہے جو آپ نے زندگی کے مختلف شعبوں کے حوالے سے اپنے پیروکاروں کیلئے ارشاد فرمایا ہے۔ یہ خط کتاب کافی میں بھی آیا ہے۔ رسالہ شرایع الدین بہ روایت اَعمَش۔ یہ رسالہ اصول دین اور فروع دین کے متعلق ہے جسے ابن بابویہ نے نقل کیا ہے۔ قرآن کی تفسیر سے متعلق ایک خط کا ایک حصہ "الرسالۃ الأہوازیہ" یہ خط آپ نے اہواز کے گورنر نجاشی کو تحریر فرمایا تھا, جس کا متن شہید ثانی کی کتاب کشف الریبہ میں آیا ہے۔ توحید المُفَضَّل یا کتاب فکِّر۔ یہ رسالہ خدا شناسی سے متعلق امامؑ کے ارشادات کا خلاصہ ہے جسے آپ نے مُفَضَّل بن عمر کیلئے ارشاد فرمایا تھا اور اس کتاب میں "فَکِّر یا مُفَضَّل" (اے مفضل غور و فکر کرو) کی تکرار کی وجہ سے قدیم زمانے میں یہ کتاب "کتاب فَکِّر" کے نام سے بھی مشہور تھی۔

"رسالہ اَہلیلَجہ" اس رسالے میں امام صادقؑ نے کسی ہندوستانی ڈاکٹر کے ساتھ خدا کے وجود کو ثابت کرنے کی غرض سے گفتگو فرمائی ہے۔ نجاشی نے اس کتاب کو "بِدءُالخَلق و الحَثُّ عَلَی الاِعتبار" کے نام سے یاد کیا ہے۔ تفسیر امام صادقؑ کے نام سے مشہور کتاب، تفسیر النُعمانی بھی آپ کی احادیث پر مشتمل ہے۔ بعض کتابیں ایسی ہیں جو آپؑ کے شاگردوں نے آپ کے ارشادات سے اقتباس کرتے ہوئے تحریر کی ہیں۔ من جملہ ان کتابوں میں سے بعض جو شایع ہوئی ہیں درج ذیل ہیں: "الجعفریات" یا "الاَشعَثیات" مصنف محمد بن محمد بن اشعث۔ "نثر الدُرَر" اس کتاب کے متن کو ابن شُعبہ حَرّانی نے تحف العقولمیں نقل کیا ہے۔ "الحِکَم الجعفریہ" امامؑ کے مختصر کلام کا مجموعہ جس کے راوی سلمان بن ایوب ہیں اور اس کا متن کتاب فرائِدُ السَمَطَین میں جوینی نے نقل کیا ہے۔

شاگرد اور روات:
بعض علما نے اپنی کتب میں تقریبا 3200 راویوں کا ذکر کیا ہے جنہوں نے امام صادقؑ سے حدیث نقل کی ہیں۔ کتاب الارشاد میں آپ کے راویوں کی تعداد 4000 تک نقل کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ امام صادقؑ کے راویوں سے متعلق ابن‌ عقدہ کی ایک کتاب تھی جس میں انہوں نے بھی ان کی تعداد 4000 بتائی ہیں۔ اصول اربع مائہ کے اکثر مصنفین امام صادق کے شاگرد تھے۔ اسی طرح دوسرے آئمہ کی نسبت آپ کے شاگردوں کی تعداد بھی سب سے زیادہ ہیں۔ جو آئمہ معصومین کے اصحاب میں سب سے زیادہ مورد اعتماد راویوں میں شمار ہوتے ہیں۔ آپ کے بعض مشہور شاگردوں کے نام درج ذیل ہیں: "زُرارَۃ بن اَعین، بُرَید بن معاویہ، جَمیل بن دَرّاج، عبداللہ بن مُسکان، عبداللہ بن بُکَیر، حَمّاد بن عثمان، حماد بن عیسی، اَبان بن عثمان، عبداللہ بن سنان، ابو بصیر، ہشام بن سالم، ہشام بن حَکَم وغیرہ شامل ہیں۔ امام صادقؑ کے شاگردوں کے مناظرے پر مبنی حدیث جسے کَشّی نے نقل کی ہے، سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی شاگرد مختلف علمی شعبوں میں تخصص رکھتے تھے۔ اس حدیث کے مطابق حُمران بن اَعیَن علوم قرآنی میں، اَبان بن تَغلِب ادبیات عرب میں، زُرارہ فقہ میں اور مومن الطاق اور ہِشام بن سالم علم کلام میں تخصص رکھتے تھے۔ اسی طرح علم کلام میں تخصص رکھنے والے آپ کے دیگر شاگردوں میں حُمران بن اَعیَن، قیس ماصِر اور ہشام بن حَکَم کا نام لیا جا سکتا ہے۔

مناظرات اور علمی گفتگو:
حدیثی منابع میں امام صادقؑ اور دوسرے مذاہب کے متکلمین نیز بعض ملحدین کے درمیان مختلف مناظرات اور علمی گفتگو نقل ہوئی ہیں۔ ان مناظرات میں سے بعض میں امام علیہ السلام کے شاگردوں نے اپنے متعلقہ شعبوں میں آپ کی موجودگی میں دوسروں کے ساتھ مناظرہ کئے ہیں۔ ان مناظروں میں امام عالی مقام مناظرے کی نگرانی فرماتے اور کبھی کبھار ضرورت پڑنے پر خود بھی بحث میں حصہ لیتے تھے۔ مثلا ایک شامی جو آپ کے شاگردوں کے ساتھ مناظرہ کرنے کا خواہاں تھا، امام نے ہشام بن سالم جو علم کلام میں تخصص رکھتا تھا سے اس شامی کے ساتھ مناظرہ کرنے کا حکم دیا۔ اسی طرح ایک اور شخص جو خود امامؑ سے مناظرہ کرنا چاہتا تھا، آپ نے فرمایا پہلے جس موضوع پر بھی گفتگو کرنا چاہتا ہے آپ کے شاگردوں سے مناظرہ کرنے کا کہا اور ان پر غالب آنے کی صورت میں اپنے ساتھ مناظرہ کرنے کا حکم فرمایا۔ اس شخص نے قرآن سے متعلق حُمران بن اَعیَن کے ساتھ ادبیات عربی سے متعلق اَبان بن تَغلِب کے ساتھ فقہ میں زُرارہ اور کلام میں مؤمن طاق اور ہِشام بن سالم کے ساتھ مناظرہ کیا اور ہر میدان میں وہ مغلوب ہوا۔

احمد بن علی طبرسی نے اپنی کتاب الاحتجاج میں امام صادقؑ کے مناظرات کو جمع کیا ہے ان میں سے بعض یہ ہیں:
ایک منکر خدا کے ساتھ خدا کے وجود پر مناظرہ۔
 ابوشاکر دَیصانی کے ساتھ خدا کے وجود پر مناظرہ۔
ابن ابی العوجاء کے ساتھ خدا کے وجود پر مناظرہ۔
ابن ابی العوجاء کے ساتھ عالَم کے حدوث پر مناظرہ۔
خدا کے منکر ایک شخص کے ساتھ خدا کے وجود اور بعض دیگر مسائل پر طولانی مناظرہ‌۔
امام ابوحنیفہ کے ساتھ حکم شرعی کے استنباط کے طریقے خاص کر قیاس سے متعلق مناظرہ۔
معتزلہ کے بعض علماء کے ساتھ حاکم کے انتخاب کا طریقہ کار اور بعض دوسرے فقہی مسائل پر مناظرہ۔
حضرت امام صادق علیہ السلام نے علوم دینیہ تک ہی نشر و اشاعت کو محدود نہیں رکھا بلکہ دیگر علوم مثلا ریاضیات و فلسفہ و علوم افلاک اور کیمسٹری جیسے علوم کے لئے بنیادیں ڈالیں اور آپ کے مشہور شاگردوں میں کیمیادان جابر بن حیان بھی شامل ہے۔

شہادت:
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کو منصور کے حکم پر زہر دی گئی جس کے باعث امام علیہ السلام کی شہادت واقع ہوئی۔۔ضرورت اس امر کی ہےکہ امام جعفر صادق علیہ السلام کی تاسی (سنت) میں ہم بھی تمام علوم کے حصول کے لیے اپنی تمام تر کوششوں کو بروئے کار لائیں تاکہ ہم ہر شعبہ ہائے زندگی سے متعلق افراد کی ہر ممکنہ خدمت کر سکیں۔۔سلام ہو آپ پر اے منبعِ علم و معرفت کہ آپ سے علم و معرفت کے چشمے  پھوٹتے ہیں۔
 
 تحریر: ذہین کاظمی
 

مہر خبررساں ایجنسی کے نامہ نگار کی رپورٹ کے مطابق سازمان تبلغات اسلامی کے سربراہ حجۃ الاسلام والمسلمین محمد قمی نے حضرت امام خمینی(رہ)  کے مکتب میں تربیت یافتہ افراد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ مکتب امام خمینی (رہ) کے تربیت یافتہ افراد کی توجہ ہمیشہ معاشرے اور سماج کے دوسرے افراد پر ہوتی ہے ۔ مکتب امام خمینی (رہ)  میں "عوام " پر توجہ بنیادی اصولوں میں شامل ہے۔

سازمان تبلیغات اسلامی کے سربراہ نے قزوین میں ایک پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے حضرت امام خمینی (رہ) کے مکتب پر توجہ دینے میں غفلت اور کوتاہی کی ہے ۔ شہید حاج قاسم سلیمانی کا مکتب درحقیقت حضرت امام خمینی (رہ) کے مکتب کا ثمرہ ہے۔

حجۃ الاسلام قمی نے حضرت امام خمینی (رہ) کے مکتب کے فروغ کے سلسلے میں تاکید کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہم نے حضرت امام خمینی (رہ) کے مکتب کے فروغ میں کوتاہی کی تو آئندہ آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔

سازمان تبلیغات کے سربراہ نے مکتب امام خمینی (رہ) میں خواتین کے اہم کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ حضرت امام خمینی (رہ) نے خواتین کو " تحریک کا رہبر " قراردیا ہے اور حضرت امام خمینی(رہ)  کا یہ جملہ معاشرے اور سماج میں خواتین کے کردار کے سلسلے میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔

جب ہم دنیا کے کامیاب انسانوں کی زندگی کا جائزہ لیتے ہیں تو ان کی کامیابی کے پیچھے اور چاہے جو بھی اسباب ہوں لیکن ان کا پختہ یقین، جہد مسلسل، نیک نیتی اور خلوص دل کے ساتھ اعلٰی مقصد ضرور رہا ہے، آج تک روئے زمین پر جتنے بھی انقلابات بقائے انسانیت کو مدنظر رکھ کر رونماء ہوئے ہیں، ان سب کی بنیادیں بھی انہی باتوں پر قائم تھیں اور ان میں روح پھونکنے والے بھی یہی سنہرے اصول تھے، ان اعلٰی انسانی اور سنہری اصولوں کو عمل میں ڈھالنے والا یقین کا مجسمہ، ارادوں کا ہمالیہ، جہاد کا اسلامی نمونہ، عمل کا پیکر، انقلاب کا پیغامبر، دریائے آگہی کا شناور، عوام کے دلوں کا رہبر، تاج شکن اور بیسویں صدی کا مردِ آہن، سرزمین ایران سے اُٹھا اور تاریخ عالم میں انقلاب کا ایک نیا اور سنہری باب اپنی فکر و فراست اور عزم و حوصلے کے قلم سے لکھ گیا، انقلاب تغیر و تبدیلی فطرت کا اصول ہے، گردش لیل و نہار، تبدیلی گرم و سرد اور بہار و خزان وغیرہ سب فطری انقلابات ہیں، جو قدرت کے ذریعے آتے رہتے ہیں۔

روئے زمین پر ساری دلکشی انقلاب اور تحریک سے قائم ہے، اگر جمود و ٹھہراؤ آجائے تو کائنات کی سب دلکشی ختم ہو جائے اور انسان اکتا جائے گا، لیکن انسانوں کے ذریعے آنے والے انقلاب کی نوعیت اس سے بالکل مختلف ہوتی ہے، ان انقلابات میں مشکل ترین وہ انقلاب ہے، جو ظالم و جابر تخت شاہی کے خلاف آتا ہے، جو تخت رعونت کو منہدم کرتا ہے، جو اقتدار کو اپنے تیز دھارے میں بہا دیتا ہے، جو ایک شہریار کو بے دیار کر دیتا ہے، جو مسند شاہی کو تیز آندھی میں اڑا دیتا ہے اور جو رنگ شہنشاہی کو روند کر غریب، مجبور، مایوس، محروم، معذور، مزدور، بے گھر، بے زر، بے بس، بے کس، مفلس، نادار، لاچار اور جملہ مستضعفین کو ان کا جائزہ حق دلواتا ہے، ایسے انقلاب کے پیروں کی آہنی زنجیر ہے، جور و جفا کے لئے دار و رسن ہے اور کبر و نخوت کے لئے سر پہ لٹکی ہوئی تلوار ہے اور ایسا ہی انقلاب تاریخ ساز ہوتا ہے۔

لیکن ایسے انقلاب لانے میں جس فولادی عزم و ہمت اور قوت ایمانی و ارادے کی ضرورت ہوتی ہے، وہ بھی عطیہ پروردگار ہوتا ہے۔ قدرت نے امام خمینی (رہ) کو تمام ان اعلٰی صفات اور اوصاف سے آراستہ کیا تھا، جو ایک تاریخ ساز انقلاب کے رہنماء میں ہونے چاہیئے، تاریخ کا یہ انوکھا انقلاب ہے، جو بانی انقلاب کی آواز پر سرزمین ایران پر آیا، جبکہ بانی انقلاب سرزمین انقلاب سے سینکڑوں میل دور قید و بند کی زندگی گزار رہا تھا، جس کی آواز میں یہ اثر تھا بلکہ اعجازی قوت تھی کہ وہ ایران کی سرحدوں میں ہزاروں میل دور سے آ کر داخل ہو رہی تھی اور ذہنوں کو جھنجھوڑ کر انقلابی بنا رہی تھی، دلوں میں نہ صرف حرارت پیدا کر رہی تھی بلکہ شعلے بھڑکا رہی تھی اور قوم کو ہر قربانی کے لئے تیار کر دیا تھا، وہ انقلابی آواز جب شاہی جاہ و حشم سے ٹکرائی تو اسے خاک میں ملا دیا، تاج شاہی کا جو جھوٹا شاہی بھرم تھا، اسے ختم کر دیا، بغض و نفاق، ظلم و ستم، حق تلفی، بے دینی، ایمان فروشی، گمراہی اور جور و جفا کا خاتمہ کر دیا، تسبیح فتح پا گئی اور رنگ شاہی پائے فقیہ پر جھک گیا۔

اس انقلاب کے لئے امام خمینی (رہ) نے اپنی تمام زندگی وقف کر دی تھی۔ وہ آزادی انسان کے طلبگار تھے، خود بیدار تھے اور قوم کو بھی بیدار کر دیا اور انہوں نے پورے عالم اسلام کو بیدار کر دیا، تاریخ کا وہ سورما، ایران کا وہ شجاع و شیر دل اور انقلاب کے اس بانی کی آہٹ سے قصر باطل میں زلزلہ آگیا تھا، دربار شاہی درہم برہم ہوگیا تھا، جس نے خود آگہی کو شعور بخشا، جس نے غیرت کی روح پھونکی، ملت کو سربلندی کا راز بتایا، کبر و نخوت کا تختہ پلٹا، قصر شاہی میں ایسا شگاف ڈالا کہ ظلم کانپ اٹھا، حقیقت یہ ہے کہ رعب سے جس کے ہر اک دشمن کا چہرہ زرد تھا، شاہِ مرداں کا نمائندہ تھا، ایسا مرد تھا اس جواں ہمت، مجسمہ فکر و فراست، پیکر ہدایت، انقلاب کی علامت، سرزمین ایران کی ضرورت و قسمت اور انقلاب کی عظیم ترین طاقت پر ہر انقلاب انگیز کے لاکھوں سلام، اس مرد آہن پر کائنات کے ہر آہنی عزم کا سلام اور تاریخ کے تمام آہنی عزم والوں کے سلام ہی سلام، اسلام نے توحید کے بعد جس بات پر سب سے زیادہ زور دیا ہے وہ اتحاد بین المسلمین ہے۔

اتحاد ہمارے زمانے کی اشد ضرورت اور پوری تاریخ بشریت میں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف اس وقت تفرقہ اور اختلاف دشمن کا سب سے اہم اور سب سے زیادہ موثر حربہ اور اسلحہ رہا ہے، جب سے مغرب نے مسلمانوں کے اختلافات سے فائدہ اُٹھا کر مسلمانوں پر اپنا قبضہ مضبوط کر لیا ہے، تب سے اسلامی مفکرین کی طرف سے مغرب جیسے طاقت اور مکار دشمن سے نجات پانے اور اس پر غلبہ حاصل کرنے کا واحد ذریعہ اتحاد امت کو قرار دیا ہے۔ دشمنان اسلام کی ان شرارتوں کی اصل وجہ یہ ہے کہ انہوں نے ایک طرف سے دیکھا کہ امت مسلمہ بیداری ہو رہی ہے، دوسری طرف سے ان کو معلوم ہے کہ مسلمانوں کے پاس ترقی کرنے اور دنیا کی سب سے بڑی طاقت بننے کی پوری صلاحیت اور وسائل موجود ہیں، کیونکہ پوری دنیا کے وسط میں 57 ممالک پر مشتمل عظیم علاقہ عالم اسلام کے قبضے میں ہیں، آج دنیا امت مسلمہ کے اُٹھتے ہوئے قدموں کو دیکھ رہی ہے۔

انسان نے اپنی علمی پیشرفت کی وجہ سے اخلاق، روحانیت اور روح دین کو فراموش کر دیا ہے، بشریت کی علم و دانش میں ترقی اور کائنات کے حقائق پر انسان کی نگاہ نوامت مسلمہ کی حرکت کے لئے بہترین زمین فراہم کرسکتی ہے، اسلامی تعلیمات و معارف آج امت مسلمہ کے اختیار میں ہیں، پہلا نکتہ دنیائے اسلام کی بیداری ہے، آج سے سو سال قبل دنیائے اسلام کے مصلح افراد دنیائے اسلام کے مغرب و مشرق کے مختلف ممالک میں غریبانہ ماحول و فضا میں جو باتیں کرتے تھے، وہ آج لوگوں کی زبانوں پر شعار کی صورت میں موجود ہیں، یعنی اسلام کی طرف واپسی، احیاء قرآن، امت واحدہ کا تصور اور دنیائے اسلام کی عزت و قدرت۔ آپ ایک ایک اسلامی ملک پر نگاہ کیجیئے خصوصاً نوجوانوں، تعلیم یافتہ افراد اور روشن فکروں کے درمیان یہ شعار زندہ ہیں، البتہ اسلامی جمہوری ایران میں اسلام کی کامیابی اور بالادستی اس سلسلے میں ایک بہت بڑی مثال ہے۔

ایرانی عوام نے اپنی ایثار و فداکاری، استقامت اور عزتِ اسلامی کے پرچم کو اپنے ہاتھ میں لینے کے ذریعے سے تمام مسلمان اقوام میں ایک نئی روح پھونک دی ہے اور انہیں ان کے مستقبل سے امیدوار بنا دیا ہے، آپ اس امید کے نتائج کو دنیائے اسلام کے گوشے گوشے میں ملاحظہ کرسکتے ہیں اور یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے۔ یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ مشرق و سطیٰ خصوصاً مسئلہ فلسطین اور اس خطے کے دیگر مسائل مثلاً عراق، شام و لبنان کے مسائل میں امریکہ کی استکباری قوت اپنے تمام تر مادی وسائل کے ساتھ میدان میں آئے اور شکست کھا گئے، یہی ایک زندہ حقیقت ہے۔ حضرت آیت اللہ امام خمینی (رہ) نے عملی میدان میں کرکے دکھایا اور تمام عالم اسلام یعنی تمام دنیائے اسلام کے لئے اپنے عزم و حوصلے کے قلم سے لکھ دیا کہ تمام دنیا کی مسلمان حکومتوں اور مسلمانوں کو ایک دوسرے کے نزدیک آنا چاہیئے اور ایک دوسرے کی مدد کرنا چاہیئے، اس لئے اسلام کسی ملت یا کسی مذہب کے خلاف نہیں ہے بلکہ ظلم اور استکبار و استبداد کے خلاف ہے۔

تحریر: جاوید عباس رضوی

اسلامی انقلاب کے ثمرات میں سے ایک ثمرہ اسلامی تہذیب ہے، جس نے اپنے ہمراہ ایک نئی لغت کو مسلمانانِ ایران اور دیگر مسلمان عوام کے لیے بطور تحفہ پیش کیا۔ اس لغت نے جو اسلامی انقلاب کی بے نیاز تہذیب کی عکاس ہے، دنیا کے لوگوں کو حقیقی اور غیر حقیقی اسلام کی پہنچان عطا کی۔ ان لغات اور اصلاحات میں سے ایک "اسلام نابِ محمدی" کی اصطلاح و لغت ہے، جو امام خمینی کی یادگار ہے۔ اسلامی انقلاب کے رہبر گرامی بھی اس بارے میں فرماتے ہیں:

"اسلام ناب کی حقیقت ایک جذاب حقیقت ہے، جو خود غرضی اور کینہ ورزی سے آلودہ نہ ہونے والے دلوں کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ یہ وہی حقیقت ہے جسے امام خمینی اور انقلاب نے دوبارہ دنیا والوں کے سامنے پیش کیا اور تشنہ دلوں اور تلاش کرنے والی آنکھوں کے سامنے بیان کیا۔ مکتبِ انقلاب میں جس کی بنیاد ہمارے امام نے رکھی، سفیانی اور مروانی اسلام کی بساط کو لپیٹ دیا گیا ہے۔ وہ اسلام جو فقط نام کا ہو، صرف ظاہری عبادتوں تک محدود ہو، جو دولتمندوں اور سلاطین کی خدمت کیلۓ مخصوص کر دیا گیا ہو، بہ الفاظ دیگر وہ اسلام جو باطل طاقتوں کے ہاتھوں میں ایک آلہ ہو جائے اور دنیا کی قوموں کے لیے ایک آفت، ایسا اسلام انقلاب کے مکتب سے سمیٹ لیا گیا اور اس کی جگہ وہ اسلام رائج کیا گیا، جو اسلام قرآنی اور محمدی ہے، عقیدہ جہاد ہے، وہ اسلام جو ظالم کا دشمن اور مظلوم کا مددگار ہے۔ وہ اسلام جو دنیا کے فرعونوں کے مقابلے پر ہے، خلاصہ یہ ہے کہ وہ اسلام جو دنیا کے جباروں اور متکبروں کو گرانے والا اور اس کی جگہ مستضعفین کی حکومت قائم کرنے والا ہے، اسے رائج کیا گیا۔"

آپ وہ روح اللہ تھے، جو موسیٰ عصاید بیضا کے ساتھ اور مصطفوی فرمان کے ساتھ مظلوموں کی نجات کے لیے کمربستہ ہوگئے، آپ نے زمانے کے فرعونوں کو ہلا کر رکھ دیا اور مظلوم طبقے اور مستضعفین کے دلوں میں امید کی کرن روشن کر دی۔ آپ نے انسانوں کو کرامت اور مومنین کو عزت عطا کی۔ مسلمانوں کو قوت و شوکت اور بے روح مادی دنیا کو معنویت عطا کی۔ عالم اسلام کو حرکت اور مجاہدین فی سبیل اللہ کو بہادری اور جذبہ شہادت عطا کیا۔ آپ نے بتوں کو پاش پاش کر دیا اور شرک آلود عقائد کو مٹایا۔ امام خمینی کی شخصیت اور آپ کی حیات اسلام ناب محمدی کا مجسمہ اور اسلامی انقلاب کی عملی صورت تھی۔ امام خمینیؒ نے اسلام کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے وہی انقلاب کا راستہ اختیار کیا، جو رسول اللہﷺ نے اختیار کیا تھا۔

آپؒ مناجات، تہجد اور مخلصانہ انکساری کے لحاظ سے "عسی ان یبعثک ربک مقاما محمود" کی منزل پر فائز تھے۔ آپ نے اپنی زندگی کے ایام اور لحظات جہاد بالنفس میں گزارے، اس طرح آپ نے ان قرآنی آیات کو عملی اور مجسم کر دیا، جو مخلصین، متقین اور صالحین کی صفات کو بیان کرتی ہیں، آپ نے اسلامی معاشرے کی تشکیل کے ذریعے نہ صرف معاشرے کی زندگی کے ماحول میں قرآن کو عملی کیا بلکہ خود اپنی ذات اور اپنی زندگی میں بھی قرآن کو عملی زینت بخشی۔ آپ نے پوری دنیا کو سمجھا دیا کہ کامل انسان ہونا، علیؑ ابن ِابی طالب کے حقیقی شیعہ کے طور پر زندگی گزارنا، ایک افسانہ نہیں بلکہ ممکن چیز ہے۔

امام خمینی کی ترقی اور کامیابی کا اصلی راز استکباری طاقتوں کے ساتھ مقابلہ ہے۔ انہوں نے دشمن کو پہنچان لیا اور پوری قدرت اور استقامت کے ساتھ دشمن کے مقابلے میں کھڑے ہوگئے اور ان پر ذرہ برابر اعتماد نہ کیا۔ امام خمینی عوام کیساتھ خطاب فرماتے اور آپ معتقد تھے کہ اگر دنیا کے عظیم تحولات اور تبدیلیاں عوام کے ہاتھوں انجام پائیں تو پھر یہ تحولات ناقابلِ شکست ہیں، عوام دنیا میں تحول ایجاد کرسکتی ہے اور اپنے ماحول کو بدل سکتی ہے۔ اپنی فردی زندگی میں دین پر عمل کرنا اور دین کی عملی پابندی کرنا، اسی طرح نفس کے شیطانی غلبہ اور نفسانی وسوسوں کے مقابلے میں جہاد کرنا، یہ دو ایسے عظیم مطلب اور مبارزہ کے دو میدان ہیں، جن کو امام خمینیؒ ایک دوسرے سے جدا نہیں کرتے تھے۔

اجتماعی اور سیاسی میدان میں شیطان بزرگ اور تمام شیطانی طاقتوں کے مقابلے میں جہاد کرتے تھے اور انسان کے باطنی میدان کے حوالے سے جہاد بالنفس کرتے تھے۔ امام خمینی کی معنوی قدرت و طاقت، آپ کی روحانی شجاعت اس قدر تھی کہ جس مسئلہ میں اسلام اور مسلمین کے لیے ڈٹ کر فیصلہ کرتے تھے، پوری دنیا آپ کے اس فیصلے پر حیران ہو جاتی تھی۔ یہ شجاعت میدانِ جنگ کی شجاعت سے بھی بالاتر ہے۔ یہ اخلاقی اور روحی شجاعت ہے، جسے بہت کم بزرگانِ عالم اپنے اعمال اور رفتار میں اپنا سکتے ہیں۔ امام خمینی نے اسلام کو عزت بخشی اور دنیا میں قرآن کا پرچم بلند کیا۔ اُس زمانے میں جب تمام سیاسی طاقتیں دین کو مٹانے کی کوشش میں مصروف تھیں، آپ نے ایسے نظام کو قائم کیا، جس کی بنیاد معنویت اور اخلاقی اقدار پر تھی۔

راہِ خمینی کی ان خصوصیات کی جانب توجہ کرتے ہوئے جو ذکر کی گئی ہیں، بلاشک و تردد دور حاضر کو "زمانہ خمینی" کا نام دیا جانا چاہیئے۔ ہم صراحت کے ساتھ یہ پورے عالم کی اقوام کے سامنے یہ اعلان کرتے ہیں کہ دشمن کا یہ نعرہ جسے وہ مختلف طریقوں سے دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے کہ امام خمینی کا دور ختم ہوگیا، یہ محض ایک استکباری پروپیگنڈہ اور دھوکہ ہے۔ امریکہ اور اس کے ساتھیوں کے برخلاف امام خمینی اپنی ملت اور معاشرے میں موجود ہیں۔ امام خمینی کا دور باقی ہے اور باقی رہے گا۔ ان کی راہ ہماری راہ، اِن کا ہدف ہمارا ہدف اور اِن کی رہنمائی ہمارے لیے روشن چراغ ہے

تحریر: سویرا بتول۔

 اسلامی جمہوریہ ایران کی پارلیمنٹ کے نمائندوں نے ایران اور افغانستان کے درمیان معاہدے کے مسودے کو منظور کرکے  ایران اور افغانستان کے درمیان ریلوے رابطے کو قانونی حیثیت دیدی ہے۔ اطلاعات کے مطابق ایران اور افغانستان کے درمیان ریل  رابطے کے مسودے کے حق میں 178 نمائندوں نے ووٹ دیا جبکہ 2 نے مخالفت کی اور 2 نمائندوں نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ مہر کی رپورٹ کے مطابق خواف و ہرات ریلوے لائن کا افتتاح گذشتہ سال ایران کے صدر حسن روحانی اور افغانستان کے صدر اشرف غنی نے کیا تھا۔

پاکستانی ذرائع کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی عراق کے تین روزہ دورے پر ہیں جہاں انھوں نے نجف اشرف میں حضرت علی علیہ السلام کے روضہ مبارک کی زيارت کا شرف حاصل کیا اور نماز ادا کی۔ اطلاعات کے مطابق پاکستانی وزیر خارجہ نے اس سے قبل عراق کے وزیر خارجہ اور دیگر اعلی  عراقی حکام کے ساتھ  دو طرفہ تعلقات ، علاقائي  اور عالمی امور کے بارے میں تبادلہ خیال کیا۔  پاکستانی وزیر خآرجہ نے مسجد کوفہ اور دیگر تاریخی مقدس مقامات کی بھی زیارت کی ، جن میں حضرت مسلم بن عقیل (ع) اور حضرت ہانی بن عروہ (ع) کے مزارات بھی شامل ہیں۔ پاکستانی وزیر خارجہ نے نجف اشرف میں ممتاز عالم دین آیت اللہ بشیر نجفی سے بھی ملاقات  اور گفتگو کی۔

Sunday, 30 May 2021 10:10

راستگوئي

جھوٹ بولنا ايک انتہائي برى صفت ہے اور گناہان کبيرہ ميں ہے دنيا کى تمام قوميں اور ملتيں ، جھوٹ بولنے کى مذمت کرتى ہيں اور جھوٹ بولنے والے کو پست اورگھٹيا قرار ديتى ہيں جھوٹ بولنے والے شخص کا دنيا والوں کى نظر ميں کوئي عزت واعتبار نہيں ہوتا ايک شريف اور اچھا شخص جھوٹ نہيں بولتا اسلام نے بھى اس برى صفت کى مذمت کى ہے اور اسے گناہ کبيرہ اور حرام قرار ديا ہے امام محمد باقر عليہ السلام فرماتے ہيں: ( ”جھوٹ خرابى ايمان کى بنياد ہے ” حضرت صادق عليہ السلام فرماتے ہيں:

کہ حضرت عيسى عليہ السلام نے فرمايا جو زيادہ جھوٹ بولتا ہے اس کى کوئي عزت ( نہيں ہوتى)

حضرت على عليہ السلام فرماتے ہيں: ( کوى کام جھوٹ سے بڑھ کے گھٹيا نہيں الله کے سب نبيوں اور سب دينى رہنماؤ ں نے لوگوں کو سچائي کى دعوت دى ہے سچ ايک فطرى اور طبيعى چيز ہے اور انسان کى سرشت کا حصہ ہے سب سچ اور سچّے کو پسند کرتے ہيں اور جھوٹے سے نفرت کرتے ہيں يہاں تک کہ جھوٹ بولنے والا شخص بھى ايسا ہى ہے اگر بچے کو اس کے حال پہ چھوڑدياجائےتو فطرى طور پر اس کى تربيت ايسى ہوگى کہ وہ سچا ہوگا يہ تو خارجى عوامل اور اسباب ہيں کہ جو اسے خداداد فطرت سے منحرف کرديتے ہيں اور اسے دروغ گوئي کى طرف لے جاتے ہيں جھوٹ بولنا ايک ننھے بچے سے اصلاً ميں نہيں کھاتا بعد از آن اسسے منحرف ہوجائے اور جھوٹ بولنے کا عادى بن جائے تو بڑے ہوکر يہ عادت ترک کرنا اس کيلئے دشوار ہوگا اور زيادہ امکان يہى ہے کہ وہ اس سے دستبر دار نہيں ہوگا پھر اس پر نہ کوئي آيت اثر کرے گى نہ روايت اور نہ وعظ ونصيحت ماں باپ کى ذمہ دارى ہے کہ وہ بچپن ہى سے اس بات کى فکر کريں کہ ان کى اولاد سچى ہو جھوٹ کے علل و اسباب کوروکيں اور سچائي کو جو ان کى سرشت ميں شامل ہے اس کى پرورش کريں سچائي کى تربيت کو نظر انداز نہيں کرنا چاہيے اور نہ اسے بڑے ہونے پرٹال دينا چاہيے جو ماں باپ اپنى اولاد کى تربيت کے خواہشمند ہيں اور احساسذمہ دارى رکھتے ہيں توانہيں چاہيے کہ

 

مندرجہ ذيل امور کى طرف توجہ فرمائيں

1بچے کى تربيت پر اثر انداز ہونے واى ايک نہايت اہم چيز خاندان کا ماحول ہے خاندان کے ماحول ميں بچہ پروان چڑھتاہے اور وہ ماں باپ سے اور ساتھ رہنے والوں سے اخلاق سيکھتا ہے اور ان کى پيروى کرتا ہے اگر گھر کا ماحول سچائي اور درستى پر بنى ہو ، ماں باپ اور ديگر افراد صداقت اور سچائي سے ايک دوسرے کے ساتھ پيش آنے والے ہوں تو ان کے بچے بھى يہى سيکھيں گے اس کے برعکس اگر گھر کا ماحول ہى جھوٹ اور دروغ گوئي پر بنى ہو، ماں باپ ايک دوسرے سے اپنى اولاد سے اور ديگر افراد سے جھوٹ بولتے ہوں بے گناہ بچے جو ايسے ماحول ميں پرورش پائيں گے يہى برى عادت ماں باپ سے سيکھيں گے اور دروغ گو بن جائيںگے جن بچوں کے کان جھوٹ سے آشنا ہو گئے ہوں اور جو ہر روز ماں باپ سے دروغ گوئي کے مظاہر ديکھتے ہوں ان سے کيسے توقع کى جا سکتى ہے کہ وہ سچّے اور صادق پروا ن چڑھيں ايسے ماحول ميں يہ صلاحيت نہيں ہے کہ وہ جھوٹے اور فريبى شخص کے علاوہ کچھ تريت کرے ايسا زہر يلا ماحول ہى ہے کہ جو ايک حساس اور اثرات قبول کرنے والے بچے کى فطرت کو سچائي سے منحرف کرديتا ہے اور دروغ گوئي کا عادى بنا ديتا ہے بعض نادان ماں باپ نہ صرف يہ کہ خود جھوٹ بولتے ہيں بلکہ اپنے بچوں کو بھى جھوٹ بولنے کى تلقين کرتے ہيں باپ گھر پہ ہے ليکن بچے کو کہتا ہے فلان شخص سے کہو ابو گھر پہ نہيں ہيں بچہ جو ٹھيک ٹھاک تھا اور اس نے گھر کا کام نہيں کيا باپ اس سے کہتاہے استاد سے کہنا ميں بيمار تھا ايسے سينکڑوں جھوٹ ہيں جن کا بعض گھروں ميں ہر روز تکرار ہوتا ہے ايسے نادان ماں باپ اپنے بچوں سے بہت بڑى خيانت کے مرتکب ہوتے ہيں جھوٹ بولنا گناہ ہے ليکن جھوٹ سکھانا اس سے کہيں بڑا گناہ ے جھوٹے ماں باپ جھوٹ بولنے کى سزاکى علاوہ بھى بہت بڑى سزاپائيں گے اور وہ ہے جھوٹ بولنے کى تربيت دينا ماں باپ کہ جو خاندان کے سرپرست ہوتے ہيں وہ جھوٹ بوليں تو يہ کوئي معمولى گناہ نہيں ہے بلکہ ہمت بڑا گرناہ ہے اس کے ساتھ بہت بڑا گناہ نمسلک ہے اور وہ ہے بچوں کو جھوٹ سکھانا ايسے ماں باپ نہ صرف گناہ کبيرہ کے مرتکب ہوتے ہيں اور انہيں اس کى سزا ملے گى بلکہ وہ اپنے معصوم بچوں کے ساتھ بھى ايک بہت بڑى خيانت کے مرتکب ہوتے ہيں جب کہ يہ بچے ان کے پاس الله کى امانت ہيں اور يہ خيانت ان کى معاشرے کے ساتھ بھى ہے ايسے ماں باپ ہى ہيں جو ايک جھوٹے اور فريب کار معاشرے کو وجود ديتے ہيں لہذا جو ماں باپ چاہتے ہيں ان کے بچے سچے ہوں ان کے پاس اس کے علاوہ کوئي چارہ نہيں کہ وہ خود راست گوئي اختيار کريں اور اپنى اولاد کے ليے بہترين ماحول فراہم کريں اور ان کے ليے نمونہ عمل بنيں رسل لکھتا ہے ”اگر آپ چاہتے ہيں کہ بچے جھوٹ بولنا نہ سيکھيں تو اس کے علاوہ کوئي چارہ نہيں کہ بڑے پور ى توجہ سے ہميشہ بچوں کے سامنے سچائي ( اختيار کريں ”)


 
 اے کاش رسل کہتا کہ بچوں کے سامنے بھى اور ہر کسى کے سامنے بھى سچائي اختيار کريں کيونکہ بچوں کى پاک فطرت ہر جھوٹ سے متاثر ہوتى ہے يہاں تک کہ مخفى جھوٹ بھى جلد ان کے سامنے آشکار ہوجاتے ہيں امام صادق عليہ السلام فرماتے ہيں: ”لوگوں کو بغير زبان کے اچھائي کى طرف دعوت ديں لوگ آپ سے تقوى ، محنت، نماز ، نيکى ديکھيں اور اس ( طرح اس ان کے ليے ايک نمونہ عمل مہيا ہوجائے ” )