سلیمانی

سلیمانی

غزہ پر اسرائیل کے وحشیانہ اور مجرمانہ فضائی حملوں کا سلسلہ دسویں روزبھی جاری ہے غزہ پر اسرائیل کی بمباری کے نتیجے میں اب تک 218 فلسطینی شہید اور 1508 زخمی ہوگئے ہیں۔ ادھر حماس کے عسکری ونگ کے کمانڈر محمد ضیف کو قتل کرنے کی اسرائیل کی کوشش ناکام ہوگئی ہے۔ اسرائیل کے خلاف فلسطینی مزاحمتی تنظیموں کی  شمشیر قدس نامی جوابی کارروائیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ حماس نے اسرائیلی شرائط کے تحت جنگ بندی کی مصری تجویز کو بھی رد کردیا ہے۔

حماس کے سیاسی شعبہ کے رکن عزت الرشق نے کہا ہے کہ حماس کی طرف سے جمعرات سے جنگ بندی پر مبنی خبریں غیر مصدقہ ہیں۔ جنگ بندی کے سلسلے میں کوششیں جاری ہیں۔

فلسطین کے اسپتال ذرائع کے مطابق مغربی پٹی میں اسرائیلی فوجیوں کے حملوں میں 26 فلسطینی شہید ہوگئے ہیں۔ جبکہ غزہ اسرائیل کی وحشیانہ اور ظالمانہ بمباری کے نتیجے میں 72 ہزار افراد بے گھر ہوگئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق اسرائیل کی طرف سے حماس کے بعض اہم رہنماؤں کو شہید کرنے کی کوششیں ناکام ہوگئی ہیں۔

واضح رہے کہ غزہ پر اسرائیل کی وحشیانہ بمباری کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے اسرائیل نے رہائشی عمارتوں کو اپنی بربریت اور جارحیت کا نشانہ بنایا ہے جبکہ فلسطین کی مزاحمتی تنظیموں نے بھی جوابی کارروائی میں صہیونیوں کے آرام و سکون کو سلب کرلیا ہے۔

اسرائیلی افواج نے اقوام متحدہ سمیت تمام عالمی رہنماں کی جانب سے کی جانے والی اپیلوں و درخواستوں کو یکسر مسترد کرتے ہوئے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں زمینی و فضائی حملوں حملوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے جس کے نتیجے میں اب تک 218 فلسطینی شہید ہوچکے ہیں جن میں بڑی تعداد میں بچے اور خواتین شامل ہیں۔

فلسطینی تنظیموں نے غزہ کے اطراف میں صہیونی علاقوں  پر راکٹ فائر کئے ہیں ۔ عرب ذرائع کے مطابق اسرائیلی افواج نے دریائے اردن کے مغربی کنارے کے علاقے میں بھی اب جارحانہ اور پر تشدد کارروائیاں شروع کردی ہیں جس کے باعث متعدد فلسطینی شہید ہوگئے ہیں۔

فلسطین کی پانچ تنظیموں اور تحریکوں نے خطوط ارسال کرکے رہبر انقلاب اسلامی کی یوم قدس کی تقریر کی قدردانی کی۔

فلسطین کی پانچ تنظیموں اور تحریکوں نے خطوط ارسال کرکے رہبر انقلاب اسلامی کی یوم قدس کی تقریر کی قدردانی کی۔

ان خطوط میں فلسطین کے عوام کی مزاحمت کی حمایت اور صیہونی حکومت کو تسلیم نہ کرنے پر مبنی اسلامی جمہوریہ ایران اور رہبر انقلاب اسلامی کے موقف کی قدردانی کی گئی ہے اور زور دیکر کہا گیا ہے کہ قدس کی آزادی تک مزاحمت جاری رہے گی اور یوم قدس پر رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب در حقیقت فلسطین کی آزادی کا روڈ میپ ہے۔

عوامی محاذ برائے آزادی فلسطین، تحریک فتح انتفاضہ، فلسطین عوامی مزاحمتی محاذ اور فلسطینی فورسز الاینس نے ان خطوط میں اسلامی جمہوریہ ایران کو اسلامی ممالک میں اتحاد و استقامت کا محور قرار دیا اور فلسطین کی امنگوں کو نئی زندگی دینے والے شہید سردار قاسم سلیمانی کو خراج عقیدت پیش کیا۔

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے سات مئی 2021 کو یوم قدس پر دو حصوں فارسی اور عربی پر مشتمل اپنی تقریر میں مزاحمتی فورسز کی قوت و توانائی میں قابل لحاظ اضافے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں طاقت کا توازن دنیائے اسلام کے حق میں تبدیل ہو چکا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا تھا کہ صیہونی حکومت رو بزوال و نابودی ہے اور اس غاصب حکومت سے مقابلے کا منطقی طریقہ اس وقت تک مزاحمت جاری رکھنا ہے جب تک وہ فلسطین کے مستقبل کا تعین کرنے والے سیاسی نظام کی تشکیل کے لئے فلسطینی علاقوں کے اندر اور باہر ریفرنڈم کرانے پر مجبور نہ ہو جائے۔

قابل ذکر ہے کہ تحریک حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے بھی 10 مئی 2021 کو رہبر انقلاب اسلامی کے نام اپنے پیغام میں فلسطین کے تعلق سے اسلامی جمہوریہ ایران کے موقف کی قدردانی کی تھی اور قدس کے رہائشیوں کی حمایت میں اور غاصب صیہونی حکومت کے جرائم کو رکوانے کے لئے عالم اسلام کے دو ٹوک موقف کی ضرورت پر زور دیا تھا۔

فلسطینی تنظیم حماس کے سیاسی شعبہ کے سربراہ اور فلسطین کے سابق وزير اعظم اسماعیل ہنیہ نے رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے نام اپنے دوسرے خط میں فلسطین کی تازہ ترین صورتحال کے بارے میں رپورٹ پیش کی ہے۔

اسماعیل ہنیہ نے اپنے خط میں غزہ پر اسرائیل کے جنگی طیاروں کے وحشیانہ حملوں میں جانی اور مالی نقصانات ، محلہ شیخ جراح، مسجد الاقصی اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں کی تازہ ترین صورتحال بیان کی ہے۔ حماس کے سیاسی شعبہ کے سربراہ نے فلسطینی عوام اور مقدسات اسلامی کے خلاف اسرائیل حملوں کی شدت  کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلامی مزاحمتی تنظیموں نے بھی گذشتہ ایک ہفتہ میں اسرائیل کو منہ توڑ جواب دیا ہے اور اس کے بعد بھی اسرائيل کو دنداں شکن جواب دیا جائےگا۔ اسماعیل ہنیہ نے کہا کہ اسرائیل فلسطینی عوام کے خلاف ممنوعہ ہتھیاروں کا استعمال کرکے جنگی جرائم کا ارتکاب کررہا ہے۔ حماس کے سربراہ نے عالمی رہنماؤں کے ساتھ اپنی گفتگو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلامی اور عربی ممالک کو  اسرائیل کے خلاف عملی اقدامات انجام دینے چاہییں اور اسرائیل کی غاصب حکومت کے ساتھ سفارتی تعلقات کو ختم کردینا چاہیے۔ اسماعیل ہنیہ نے اس سے قبل بھی رہبر معظم انقلاب اسلامی کے نام اپنے خط میں کہا تھا کہ مسجد الاقصی کی بے حرمتی اور فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیل کے مجرمانہ اقدامات کا حماس نے منہ توڑ اور دنداں شکن جواب دینے کا عزم کررکھا ہے اور اسرائیل کے وحشیانہ حملوں کے متوقف ہونے تک جوابی اور دفاعی حملوں کا سلسلہ جاری رہےگا۔ اس سے قبل فلسطین کی پانچ مزاحمتی تنظیموں نے بھی علیحدہ علیحدہ خطوط میں فلسطین کی حمایت پر رہبر معظم انقلاب اسلامی کا شکریہ ادا کیا۔

 
گذشتہ چند دنوں سے غزہ کی پٹی میں شروع ہونے والی جنگ، 2014ء کے بعد اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم اور غزہ میں مقیم فلسطینی گروہوں کے درمیان شدید ترین فوجی جھڑپ قرار دی جا رہی ہے۔ اس جنگ میں رونما ہونے والے واقعات کا بغور جائزہ لینے سے چند ایسے نئے حقائق کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے جن کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ یہ نئے حقائق صرف غاصب صہیونی رژیم کے مقابلے میں اسلامی مزاحمتی گروہوں کی فوجی طاقت میں خاطرخواہ اضافے تک ہی محدود نہیں ہیں۔ اگرچہ یہ حقیقت اپنی جگہ پر بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے لیکن بعض ایسے نئے حقائق ابھر کر سامنے آئے ہیں جنہیں ماضی کی نسبت بے مثال قرار دیا جا سکتا ہے۔ مقبوضہ فلسطین پر اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کے 73 ویں سال ان نئے حقائق کا ظہور خاص اہمیت رکھتا ہے۔
 
1)۔ پہلی حقیقت امریکی کانگریس سے غاصب صہیونی رژیم کے خلاف مظلوم فلسطینی قوم کے حق میں اٹھنے والی آواز پر مشتمل ہے۔ امریکی حکومت کی جانب سے غاصب صہیونی رژیم کی غیر مشروط اور بھرپور حمایت کے خلاف خود امریکہ کے اندر سے صدائے احتجاج بلند ہونا خاص اہمیت رکھتا ہے۔ اگرچہ معروف تھیوریشن نوآم چامسکی یا ریاست ویرمانٹ کے سینیٹر برنی سینڈرز جیسی اہم شخصیات کی جانب سے اٹھنی والی یہ آواز نئی بات نہیں لیکن کیپیٹل ہل (امریکہ میں قانون سازی کی علامت) میں کانگریس کے ایک رکن کی جانب سے فلسطینیوں کے حقوق کیلئے اٹھنے والی آواز بے سابقہ ہے۔ رشیدہ طلیب اور ایلہان عمر ڈیموکریٹک پارٹی سے وابستہ کانگریس کی دو رکن خواتین ہیں جنہوں نے پہلی بار امریکی ایوان نمائندگان میں فلسطینی عوام کے حق میں آواز اٹھائی ہے اور غزہ پر اسرائیلی جارحیت کو "دہشت گردی" قرار دیا ہے۔
 
2)۔ دوسری حقیقت مقبوضہ فلسطین کے اندر مقیم فلسطینی مسلمان شہریوں کا قیام اور شدت پسند صہیونیوں کے خلاف ان کے صف آرا ہونے پر مبنی ہے۔ اس ٹکراو کی شدت کے باعث غاصب صہیونی رژیم تاریخ میں پہلی بار "اللاد" نامی شہر میں ایمرجنسی نافذ کرنے پر مجبور ہو گئی ہے۔ اس شہر کے میئر نے اعتراف کیا ہے کہ یہ شہر کنٹرول سے باہر ہو چکا ہے اور شہر کے گلی کوچے فلسطینی مسلمانوں اور یہودی آبادکاروں کے درمیان سول وار یا خانہ جنگی کی صورتحال کی تصویر پیش کر رہے ہیں۔ اس نے صہیونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو سے اس شہر میں فوج تعینات کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ غاصب صہیونی رژیم اب تک مقبوضہ فلسطین میں ان مسلمان شہریوں کی موجودگی کو یہودی آبادکاروں اور مقامی عرب باشندوں کے درمیان دوستانہ تعلقات کے پرچار کیلئے استعمال کرتی آئی ہے۔
 
اس میں خاص بات یہ ہے کہ ان مسلمان عرب باشندوں کا غاصب صہیونی رژیم اور مسلمان فلسطینی شہریوں میں ٹکراو کے آغاز میں کوئی کردار نہیں تھا لیکن جب اس ٹکراو کی شدت میں اضافہ ہوا تو یہ باشندے بھی ان کی حمایت میں گھروں سے باہر نکل آئے۔ مقبوضہ فلسطین کے مختلف شہروں جیسے اللاد، عکا اور حیفا میں مقامی باشندوں اور یہودی آبادکاروں کے درمیان جھڑپوں نے ثابت کر دیا ہے کہ ان شہروں کے مسلمان فلسطینی باشندے اب محض تماشائی نہیں رہے اور غاصب صہیونی رژیم کے خلاف کھل کر میدان میں اتر آئے ہیں۔ اس صورتحال سے مجبور ہو کر صہیونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کو اعلانیہ طور پر اس حقیقت کا اعتراف کرنا پڑا کہ "وہ دو محاذون پر لڑنے پر مجبور ہو چکا ہے۔" یہ غاصب صہیونی رژیم اور اسلامی مزاحمتی محاذ کے درمیان ٹکراو میں اہم اور تاریخی تبدیلی قرار دی جا رہی ہے جس کے دور رس نتائج برآمد ہوں گے۔
 
3)۔ حالیہ غزہ جنگ کے دوران رونما ہونے والی تیسری نئی حقیقت غاصب صہیونی رژیم کی ایک عدالت کی جانب سے مشرقی بیت المقدس میں واقع محلے "شیخ جراح" کے انخلاء کا حکم جاری کئے جانے پر مشتمل ہے۔ درحقیقت حالیہ ٹکراو اور جھڑپوں کی بنیادی وجہ ہی یہ عدالتی حکم اور اس کی بنیاد پر صہیونی فورسز کی جانب سے شیخ جراح محلے پر دھاوا بول دینا قرار پایا ہے۔ صہیونی فورسز نے اس محلے سے مسلمان فلسطینی شہریوں کو نکال باہر کرنے کیلئے گرینڈ آپریشن کا آغاز کیا جس کے خلاف مقامی افراد اٹھ کھڑے ہوئے اور مزاحمت کا مظاہرہ کرنے لگے۔ جب اس ٹکراو میں اچھی خاصی شدت پیدا ہوئی تو غزہ میں موجود اسلامی مزاحمتی گروہوں نے بھی مقامی فلسطینیوں کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے غاصب صہیونی رژیم کو یہ آپریشن روک دینے کا الٹی میٹم دے دیا۔
 
مقامی فلسطینی شہریوں کو جبری طور پر اپنے آبائی گھر چھوڑ کر جلاوطنی پر مجبور کرنا گذشتہ 73 برس سے غاصب صہیونی رژیم کا معمول بن چکا ہے۔ اگرچہ صہیونی رژیم کا یہ اقدام ہمیشہ مسلمان فلسطینی شہریوں کی جانب سے مزاحمت سے روبرو رہا ہے لیکن حالیہ مزاحمت اس قدر بے مثال اور شدید ہے کہ غاصب صہیونی رژیم اس کے سامنے پسپائی اختیار کرنے پر مجبور ہو گئی ہے۔ صہیونی رژیم کے اٹارنی جنرل نے انٹیلی جنس اور فوجی اداروں کی خفیہ رپورٹ کی بنیاد پر عدالت سے اس حکم کو ملتوی کر دینے کی درخواست کی ہے۔ اگرچہ اس حکم کو صرف ملتوی کیا گیا ہے لیکن صہیونی رژیم کی اس حد تک پسپائی بھی فلسطین کی تاریخ میں بے مثال ہے۔ یہ اسلامی مزاحمت کی بہت بڑی فتح ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ غاصب صہیونی رژیم صرف مزاحمت اور مسلح جدوجہد کی زبان سمجھتی ہے۔

تحریر: محمود حکیمی

Monday, 17 May 2021 19:31

قرآن اور اتحاد

بسم اللہ الرحمن الرحیم
    اگرقرآن کا بغور مطالعہ کیاجائے تو قدم قدم پر مسلمانوں کی اتحاد و یکجہتی کی دعوت دی گئی ہے، اور افتراق و انتشار سے منع کیا گیا ہے: «وَ أَطِيعُوا اللَّهَ وَ رَسُولَهُ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَ تَذْهَبَ رِيحُكُمْ وَ اصْبِرُوا إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِين[سورۂ انفال، آیت:۴۶] اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں اختلاف نہ کرو کہ کمزور پڑ جاؤ اور تمھاری ہوا بگڑ جائے اور صبر کرو کہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے»۔
     اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جس نے اتحاد و اتفاق اور اجتماعیت کا مثبت تصور امت مسلمہ کے سامنے پیش کیا اور مسلمانوں کے باہمی اتحاد و اتفاق پر ہمیشہ زور دیا ہے یہی وجہ ہے کہ دوسری قوموں اور مذاہب کے ماننے والوں کے مقابلہ میں مسلمانوں کے اندر کافی حد تک اتحاد و اتفاق کا جذبہ کار فرما نظر آتا ہے اور یہ حقیقت بھی ہے کہ امت مسلمہ کے اندر اتحاد و اتفاق اوراجتماعیت کے جذبہ کو بڑھانے کیلئے اسلامی عبادات خاص طور پر نماز کیلئے جماعت کی تاکید کی گئی اور جمعہ و عیدین میں مسلمانوں کے اجتماع کا خاص اہتمام کیا گیا تاکہ ملت اسلامیہ کا باہمی اتحاد و اتفاق اور مرکزیت قائم رہے۔اگر تاریخ ادیان کا بغور مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ مسلمانوں کے اتحاد کے لئے بہت سے محور موجود ہیں جیسے وحدانیت خدا، رسالت، کعبہ، قبلہ اور انھیں میں ایک ماہ مبارک رمضان کا مہینہ ہے جن پر تمام مسلمان متحد ہوسکتے ہیں۔

ایمان والو اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو اللہ بھی تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم بنادے گا

کل مجھ سے میرے دوست نے سوال کیا کہ بھائی اسرائیل اور فلسطین کی جنگ کب شروع ہوگی۔ شاید اس کا خیال یہ تھا کہ جس طرح عام حالات میں ہم سنتے ہیں کہ فلاں ملک نے فلاں ملک کے خلاف اعلان جنگ کیا ہے، شاید اب بھی اسی قسم کا کوئی اعلان ہوگا اور فوجوں کو ایک دوسرے کے خلاف علاقوں میں اتارا جائے گا۔ دراصل حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جنگ بہت پہلے سے جاری ہے اور اب تو بڑے زور سے جاری ہے، کیونکہ کوئی بھی ملک کسی دوسرے ملک پر بغیر جنگی حالات کے ہزاروں کے قریب راکٹ فائر نہیں کرتا اور دوسری طرف کوئی بھی ملک چند منٹوں میں سینکڑوں میزائل فائر نہیں کرتا۔

 اس کا دوسرا سوال یہ تھا کہ فلسطین مسلمانوں کی سرزمین ہے تو مسلمانوں نے فلسطین کا ساتھ کیوں نہیں دیا اور اسرائیل کے ساتھ جنگ کیوں نہیں کی، جس کا شاید میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا، فقط یہ کہنے کے کہ بھائی حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی حکومت کا نظریہ تب تک حقیقی نہیں ہوتا، جب تک اسے اس ملک کی عوام قبول نہ کرے۔ عموماً دیکھنے میں آیا ہے کہ عام طور پر حکومت کا نظریہ اور ہوتا ہے اور عوام کا نظریہ اور ہوتا ہے۔ جو نظریہ حکومت کا ہوتا ہے، وہ نظریہ وقتی اور عارضی ہوتا ہے اور جو نظریہ عوامی ہوتا ہے، وہ نظریہ حقیقی اور اصلی ہوتا ہے۔ اس لیے میرا یقین ہے کہ روئے زمین پر جہاں بھی مسلمان بستے ہیں، چاہے وہ امیر ہیں یا غریب، ان کا دل دوسرے مسلمانوں کے ساتھ حرکت کرتا ہے۔

ان کا دل ہر مظلوم کے ساتھ دھڑکتا ہے اور ان کا دل کشمیر اور فلسطین کے ساتھ دھڑکتا ہے، جبکہ دنیا میں جہاں بھی صاحبان اقتدار یا اقتدار میں حصہ دار ہیں، ان کا دل فقط اور فقط اپنی کرسی کے ساتھ ہی حرکت کرتا ہے۔ جب ان کا اقتدار خطرے میں ہو تو یہ وہ بھی کرتے ہیں، جو کرنے کے قابل بھی نہیں ہوتا۔ ان کے پاس اقتدار ہو تو یہ فرعون بن جاتے ہیں اور وہ یہ بھی نہیں کرسکتے کہ مظلوم کی حمایت میں آواز بلند کرسکیں۔ آواز بلند کرتے بھی ہیں تو بالکل کھوکھلی۔ ان کی آواز سے نہ تو کسی دوست کو کوئی فرق پڑتا ہے اور نہ دشمن ناراض ہوتا ہے، بلکہ یہ مصحلت آمیز حمایت ہوتی ہے، جبکہ یہ حمایت نہیں ہوتی۔

قدس کے شہیدوں کے نام
بلاشبہ جب قدس کی تاریخ رقم کی جائے گی تو ان برگوں کا تذکرہ ضرور کیا جائے گا، جنہوں نے گلوں کو خاروں سے نجات دی ہے اور دے رہے ہیں۔ ان میں سے بہت سے اپنی حیات گلشن کی آبیاری اور راہ نجات میں راہ حیات صرف کرچکے ہے اور بہت سے کر رہے ہیں۔ ان شاء اللہ یہ مظلوم لوگ بہت جلد اپنا مقصد حاصل کر لیں گے۔ ان شاء اللہ بہت جلد اس افق پر ایک ایسا چاند اور خورشید نمودار ہوگا، جس میں فلسطین  آزاد ہوگا اور ظالمین کا کہیں بھی وجود نہ ہوگا اور ہر طرف سے مستضعفین جہاں وارث جہاں ہوں گے، کیونکہ یہ وعدہ خدا ہے، جو ایک دن لازمی وفا ہوگا اور وہ لوگ جو زمین میں کمزور کر دیئے گئے ہیں اور ان پر ظلم کیا گیا ہے، ایک دن ہنسی خوشی اپنے چمن کو شادمان ہو کر لوٹیں گے اور ان ویرانوں کو پھر سے آباد کریں گے، جو ان سے چھین لیے گئے ہیں۔ یقیناً یہ دن ظالمین، مجرمین اور مفسدین کے لیے سخت ترین دن ہوگا۔ یقیناً یہ فیصلے کا دن ہوگا اور یقیناً فیصلے کا دن بہت قریب ہوگا۔

تحریر: مہر عدنان حیدر

اسرائیلی افواج نے اقوام متحدہ سمیت تمام عالمی رہنماں کی جانب سے کی جانے والی اپیلوں و درخواستوں کو یکسر مسترد کرتے ہوئے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں زمینی و فضائی حملوں حملوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے جس کے نتیجے میں اب تک 200 سے زائد فلسطینی شہید ہوگئے ہیں جن میں 58 بچے اور 34 خواتین شامل ہیں۔

غزہ اور غرب اردن پر اسرائیل کے تازہ ترین حملوں میں مزید 54 شہید ہوگئے ہیں ۔شہدا میں سے 21 کا تعلق غرب اردن اور 33 کا غزہ کے علاقے سے ہے۔ کل شہدا کی تعداد 200  سے زائد ہو گئی ہے۔

عرب ذرائع کے مطابق اسرائیلی افواج نے دریائے اردن کے مغربی کنارے کے علاقے میں بھی اب جارحانہ اور پر تشدد کارروائیاں شروع کردی ہیں جس کے باعث 21 فلسطینی شہید ہوگئے ہیں۔اسرائیلی افواج نے غزہ کی پٹی کے شمالی علاقے میں بھی گولہ باری کی ہے اورغزہ پر پوری رات فضائی حملے کیے ہیں جن کے نتیجے میں مزید 33 فلسطینی شہید ہوگئے ہیں۔

ذرائع کے مطابق شہر میں اسرائیلی افواج کے فضائی حملوں میں تباہ شدہ عمارات کے ملبے کوہٹایا جارہا ہے اور اس کو کھود کر دبے ہوئے زخمیوں و لاشوں کو نکالا جارہا ہے۔اس ضمن میں امدادی کارکنان کا کہنا ہے کہ اسرائیل افواج کی جانب سے کی جانے والی فضائی بمباری میں شہید ہونے والوں کی تعداد میں مزید اضافے کے خدشات موجود ہیں۔فلسطین اتھارٹی کی وزارت صحت کے مطابق پیر سے جاری فضائی حملوں میں اب تک صرف غزہ میں 200 سے زائد  افراد شہید اور سینکڑوں زخمی ہوچکے ہیں۔ شہدا میں 58 کم سن بچے اور 34 خواتین بھی شامل ہیں۔

 اسلامی جمہوریہ ایران کی پارلیمنٹ کے اسپیکر نے غزہ پر اسرائیلی جارحیت کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ اور مسجد الاقصی پر حملہ دنیائے اسلام پر حملہ ہے۔

اطلاعات کے مطابق ایرانی پارلیمنٹ کے اسپیکر محمد باقر قالیباف اور تیونس کی پارلیمنٹ کے اسپیکر راشد الخریجی الغنوشی نے ٹیلیفون پر گفتگو میں مسئلہ فلسطین کے بارے میں تبادلہ خیال کیا ۔ ایرانی اسپیکر نے اسرائیل کی درندگی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل صرف طاقت کی زبان سمجھتا ہے اور اسرائیل کے خلاف امت مسلمہ اور اسلامی ممالک کو متحد ہوکر کارروائی کرنی چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ مسجد الاقصی اور غزہ پر اسرائیل کا حملہ در حقیقت عالم اسلام پر حملہ ہے۔

اس گفتگو میں الغنوشی نے بھی فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم اور وحشیانہ حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ  اسرائیل نے اس سال مسلمانوں پر عید فطر کو تلخ کردیا ہے تیونس کی پارلیمنٹ کے اسپیکر نے اسلامی ممالک پر زوردیا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کرکے فلسطینیوں کی عملی حمایت کا ثبوت دیں۔

الغنوشی نے فلسطین کے بارے میں ایران کے کردار کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی عوام ایران کی حمایت کو کبھی فراموش نہیں کریں۔ الغنوشی نے ایران اور تیونس کے درمیان تعلقات کو فروغ دینے پر بھی زوردیا۔