سلیمانی
عصر حاضر میں قیام حسینیؑ کے استمرار کیلئے معاشرتی اور انسانی علوم میں تبدیلی کی ضرورت(1)
تحریر: پیمان محمدی[1]،
تہران یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی گریجویٹ
درحقیقت ہمیں اس کی ضرورت ہے کہ ملک کے اندر انسانی و معاشرتی علوم میں ایک بنیادی تبدیلی لائی جائے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم دوسروں کے فکری، علمی اور تحقیقی کام سے اپنے آپ کو بے نیاز سمجھیں۔ نہیں، بعض معاشرتی و انسانی علوم اہل مغرب کی ایجاد ہیں۔ انہوں نے اس میدان میں کام کیا ہے، سوچ بچار کی ہے اور مطالعہ کیا ہے، ان کے مطالعہ سے استفادہ کرنا چاہیئے۔ بات یہ ہے کہ مغربی معاشرتی و انسانی علوم کی بنیاد، غیر الہیٰ ہے، غیر توحیدی اور مادی بنیاد ہے کہ جو اسلامی اصولوں کے ساتھ سازگار نہیں ہے، دینی اصولوں کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہے۔ معاشرتی علوم اس وقت صحیح، مفید اور انسان کی درست تربیت کرنے والے ہوں گے اور فرد اور معاشرے کو نفع پہنچائیں گے، جب ان کی اساس اور بنیاد الہیٰ تفکّر اور الہیٰ نطریہ کائنات پر قائم ہو۔ آج موجودہ صورتحال میں یہ چیز معاشرتی علوم میں موجود نہیں ہے، اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے، اس پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ البتہ یہ کام ایسا نہیں ہے کہ جس میں جلدی کی جائے۔ یہ ایک طویل المدت کام ہے۔ ایک اہم کا ہے۔(ایران کے اساتذہ اور یونیورسٹی کے طلباء سے ملاقات کے موقع پر حضرت آیت اللہ خامنہ ای کے بیانات۱۱-۰۴-۱۳۹۳)
دنیا میں موجود ٹیکنالوجی، علم، اس کے نواقص اور خلاؤں کے متعلق تحقیق و بررسی کا موضوع ان موضوعات میں سے ہے کہ جس نے کئی عشروں سے یونیورسٹی کے محققین اور طلابِ علومِ دینی کو مشغول کر رکھا ہے۔ یہ موضوع خاص طور پر معاشرتی و انسانی علوم کے شعبہ میں بھی قابلِ غور رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا مغربی معاشرتی و انسانی علوم، غیر مغربی معاشروں میں قابلِ استفادہ ہیں یا نہیں۔؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بہت سے مفکرین، خاص طور پر ایران اور مصر جیسے ممالک کے دانشمندوں نے اس بارے میں بہت زیادہ گفتگو کی ہے۔ واضح طور پر اس موضوع نے تین طرح کے ردعمل ایجاد کئے ہیں:
1۔ پہلا گروہ ایسے افراد پر مشتمل ہے جو اس کے قائل ہیں کہ علم اور ٹیکناجی مغربی و غیر مغربی نہیں ہے، اصولی طور پر نہ کوئی دینی علم ہے اور نہ کوئی سیکولر یا علم ِدین کی ضد ہے۔ اس نظریہ کے مطابق علم، علم ہے اور ٹیکنالوجی، ٹیکنالوجی ہے، بطور مثال ہمارے پاس کوئی اسلامی معاشرہ شناس ہے، نہ کوئی غیر اسلامی معاشرہ شناس یا نہ ہی کوئی سائیکالوجی ہے اور نہ ہی اسلامی اقتصاد و غیر اسلامی اقتصاد ہے۔ سائیکالوجی سائکالوجی ہے، اس کا مغربی یا مشرقی ہونے سے کوئی تعلق نہیں ہے، یونیورسٹی کی زبان میں علم ارزش اور راہ و روش سے خالی ہوتا ہے۔
2۔ دانشوروں کا دوسرا گروہ اس بات کا قائل ہے کہ مغرب کی ہر چیز منفی و محکوم نہیں ہے، ان کی مفید علمی پیش رفت اور ٹیکنالوجی سے استفادہ کرسکتے ہیں اور مضر و نقصان دہ ترقی سے دور رہیں۔ اس نظریہ کے مطابق مغرب، اچھے مغرب اور برے مغرب کو شامل ہے، اچھے مغرب سے فائدہ اٹھانے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ البتہ اس نظریئے کے مقدمات پہلے نظریئے کے مقدمات کے مشابہ ہیں۔ اس گروہ کا اہم اور مشترک مقدمہ یہ ہے کہ بطور کلی ایجاد شدہ علم اور ٹیکنالوجی کی ماہیت اور بطور خاص معاشرتی و انسانی علوم، علمی معرفت اور مغربی سیکولر دانشوروں کے نظریہ کے زیر اثر قرار نہیں پاتے۔
3۔ تیسرا گروہ ان افراد پر مشتمل ہے کہ جو مغربی معاشرتی و انسانی علوم کو ان کی علمی معرفت[2] اور ان کے غیر توحیدی نظریئے کا نتیجہ سمجھتے ہیں اور ضروری موارد کے علاوہ اس کا استعمال جائز نہیں سمجھتے ہیں۔ دانشوروں کا آخری گروہ انجینئرنگ علوم کی مثال دیتا ہے کہ ناکارہ چیز کا نتیجہ بیکار اور باطل ہوتا ہے۔ [3]۔ یہ گروہ اس بات کا قائل ہے کہ اسلامی تہذیب و تمدن کے لیے ضروری ہے کہ معاشرے بھی اسلامی ہوں، ان کے درمیان ہونے والی گفتگو بھی اسلامی ہو اور اسی طرح وہ نظریات جو ملک کو ادارہ کرنے میں استعمال ہوتے ہیں، وہ بھی اسلامی ہونے چاہئیں۔
اس حصے میں مذکورہ بالا نظریات کی جانچ پرکھ اور ان پر تنقید کرنے سے پہلے ایک نکتے کا ذکر کرنا ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ ان میں سے بعض افکار و نظریات کو قبول کرنے سے نہ تو ان تمام دوسرے نظریات کی نفی ہوتی ہے اور نہ ہی ان کی خلاف ورزی۔ مثال کے طور پر جب ایران میں اعلیٰ تعلیم[4] میں اضافہ ہوا اور آخری بیس سالوں میں پوسٹ گریجویٹ (ماسٹرز اور پی اچ ڈی) کورسز کے فارغ التحصیل افراد کی تعداد بڑھی تو ضرورت اس بات کا باعث بنی کہ اس ملک (ایران) میں مغربی معاشرتی و انسانی علوم سے آگاہی اور ان کی تعلیم حاصل کرنے اور مغربی دانشوروں کی آواز سننے میں اضافہ ہو۔(دوسرا نظریہ)۔ جب یہ تعلیمی دورانیہ مرحلہ تکمیل کو پہنچا اور اساتذہ اور یونیورسٹی اسٹوڈنٹس نے انسانی و اجتماعی علوم کے میدان میں مہارت، خلاقیت اور علمی ایجادات پر دسترسی حاصل کر لی تو پھر یہ توقع ہے کہ افراد کا یہ گروہ اسلامی اور داخلی انسانی و معاشرتی علوم کی تولید کے لیے قدم اٹھائے۔(تیسرا نظریہ)۔
اسی بنا پر ضروری نہیں ہے کہ کسی ایک نظریئے کو ہر حال میں قبول کریں، بلکہ اسٹوڈنٹس، اساتید اور ملک کے طلباء کی توانائی، مہارت اور پختگی کو مدنظر رکھتے ہوئے ممکن ہے کہ دوسرے اور تیسرے نظریئے میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں اور تکامل کے مراحل طے کرنے اور قدرت حاصل کرنے کے بعد تیسرے نظریئے کی طرف رجحان پیدا کرسکتے ہیں۔ یہ موضوع ایک ٹیکنیکل پارٹ بنانے کے مشابہ ہے۔ ممکن ہے کہ ایک ملک کے اندر ٹیکنیکل پارٹس ایجاد کرنے کی صلاحیت موجود نہ ہو، لہذا وہ پہلے اسے درآمد کرے گا، ایک مدت گزارنے کے بعد جب پیداوار کی صلاحیت پیدا کرلی تو اس پارٹ کی ریورس انجینئرنگ کرے گا اور اسے بنا لے گا۔ ممکن ہے کہ مکمل مہارت حاصل کرنے اور تحقیق و ترقی[5] کرنے کے بعد بہتر پارٹس ڈیزائن کرکے انہیں مارکیٹ میں لے آئے اور آخرکار اس میدان میں معروف برآمد کرنے والے میں تبدیل ہو جائے۔ انسانی و معاشرتی علوم کا شعبہ بھی اسی طرح سے ہے۔ ممکن ہے کہ ایک معاشرہ وقتی طور پر مجبوری کے تحت مغربی نظریات سے استفادہ کرے اور پھر قدرت حاصل کرنے کے بعد خود توحیدی و الہیٰ نظریات پیش کرنے کی جانب رخ کرے۔
گفتگو کے اس حصے میں، قرآن اور روایات اہل بیتؑ کی نگاہ سے پہلے نظریئے کی جانچ پرکھ اور اس پر تنقید کریں گے۔ یہ نظریہ اس بات کا قائل ہے کہ علم، علم ہے اور ٹیکنالوجی، ٹیکنالوجی۔ یہ نظریہ ایک مغربی معاشرے اور ایک مغربی و سیکولر دانشور کے تولید شدہ انسانی و معاشرتی علوم اور ایک عابد و الہیٰ مفکر کے تولید شدہ علوم کے درمیان کسی فرق کا قائل نہیں ہے۔ شاید تھوڑا سا صرف نظر کرتے ہوئے کسی حد تک قدرتی، ٹکنیکل اور انجینئرنگ علوم کے بارے میں اس استدلال کو قبول کیا جا سکتا ہے، مگر انسانی و معاشرتی علوم کے بارے میں ایسا نہیں ہے۔
سب سے پہلے روایاتِ اہل بیتؑ کی بنا پر انسان اور اور معاشروں کی تقدیر و سرنوشت سے مربوط علم کو دو حصوں یعنی صحیح و غیر صحیح علم میں تقسیم کرسکتے ہیں اور صحیح علم کا منبع صرف اہل بیتؑ ہی سے حاصل ہوسکتا ہے۔ البتہ دوسری درجہ بندیاں جیسا کہ مفید اور غیر مفید علم، علم و فضل وغیرہ بھی کلام اہل بیتؑ میں موجود ہیں کہ ہر ایک کے بارے میں دقیق تحقیق و بررسی کسی اور موقع کی متقاضی ہے۔ امام باقرؑ فرماتے ہیں: ”شَرِّقاً و غرِّباً فَلا تَجِدَانَ عِلماً صَحِیحاً اِلّا شَیئاً خَرَجَ مِن عِندِنَا اَھْلَ الْبَیْتِ“[6]۔ "مشرق جائیں اور مغرب جائیں، آپ صحیح علم حاصل نہیں کرسکتے سوائے اس چیز کے جو ہم اہل بیتؑ سے صادر ہوئی ہو۔" یہ روایت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ کم از کم انسانی معاشرے اور انسان سے مربوط علوم کہ جن کا واسطہ انسان کی دنیوی و اخروی تقدیر سے ہے، کا منبع ضروری ہے کہ اہل بیت ؑ کی گفتگو پر مبنی ہو۔ اس بنا پر روایات کے مطابق معصومین ؑ کی تعلیمات پہلے نظریئے کے منافی اور معارض ہیں۔
قرآن سورہ مبارکہ نساء میں فرماتا ہے: وَ لَنْ یَّجعَلَ اللہُ لِلْکَافِرِیْنَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ سَبِیْلاً۔ "اللہ ہرگز کافروں کو مؤمنوں پر غالب نہیں آنے دے گا۔"[7]۔ یہ آیت ”نفی سبیل“ کے نام سے مشہور ہے کہ جو عملی طور پر مؤمنین کو سختی سے منع کرتی ہے کہ وہ کافروں کے تسلط اور غلبے کو قبول نہ کریں۔ بعض اسلامی ممالک جیسا کہ ایران میں یہ آیت قانون اساسی کی بعض شقوں جیسے شق نمبر ۱۵۲ و ۱۵۳ کی تشکیل کا منبع ہے۔ البتہ اس کی کوئی وجہ نہیں بنتی کہ ہم اس آیت کو مؤمنین پر کفار کے معاشی اور فوجی غلبے میں محدود کریں اور ثقافتی غلبے یعنی اصطلاحاً نرم تسلط کو اس سے مستثنیٰ کریں۔ آیت اللہ العظمیٰ خمینی ؒ اس آیت کے حالات اور وسعت کو کسی خاص میدان میں محدود نہیں سمجھتے اور قرآن کے مشہور مفسر علامہ طباطائی بھی اسے کسی خاص زمانے میں محدود نہیں جانتے۔ امام خمینیؒ اپنی کتاب البیع میں فرماتے ہیں: بل یمکن ان یکون لہ وجہ سیاسی، ھو عطف نظر المسلمین الی لزوم الخروج عن سلطۃ الکفار بأیّۃ وسیلۃ ممکنۃ؛ ممکن ہے اس آیت ”آیت نفی سبیل“ پر کوئی سیاسی وجہ استوار ہو، منتہی اس آیت کا اس طرف بھی رجحان ہے کہ جس طرح سے بھی ہوسکے، مسلمان کفار کے غلبے اور تسلط سے آزاد ہوں۔[8]
علامہ طباطبائیؒ تفسیر المیزان میں تاکید فرماتے ہیں کہ یہ حکم کسی خاص زمانے میں محدود نہیں ہے۔ اس آیت میں یہ جو فرمایا ہے کہ خداوند متعال ہرگز کافروں کو مؤمنین پر فوقیت نہیں دیتا ہے اور نہ ہی ان پر مسلط کرتا ہے، اس کا معنی یہ ہے کہ آج سے حکم مؤمنین کے فائدے اور کفار کے نقصان میں ہے اور ہمیشہ کے لیے ایسا ہی ہوگا۔[9] اس مقدمے کے پیش نظر، جب انسانی و معاشرتی علوم کا نقشہ، مؤمنین پر تسلط اور فوقیت حاصل کرنے اور انہیں مغربی تہذیب و تمدن میں ڈھالنے کی غرض سے تیار کیا جائے، تو یہ ”سبیل“ کا مصداق ہے اور آیت شریفہ ”نفی سبیل“ کے مطابق فقہی اعتبار سے اس سے اجتناب کرنا واجب ہے۔ اس اجتناب کی ایک غرض انسانی و معاشرتی علوم میں ایسے نظریات کی طرف رجوع نہ کرنا یا ان پر بھروسہ نہ کرنا ہے اور اس کی اہم ترین وجہ، مغربی نظریات کی جگہ ایسے نظریات کا نقشہ تیار کرنا، انہیں وسعت دینا اور پیش کرنا ہے کہ جن کی بنیاد الہیٰ و توحیدی اصولوں کے مطابق ہو؛ جسے ”معاشرتی و انسانی علوم میں انقلاب و تحول“ کے عنوان سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ہم اگلے پہرے میں مختصر شواہد کی طرف اشارہ کریں گے کہ جو مغرب میں معاشرتی و انسانی علوم کی جہت کو واضح کریں گے۔
منابع
زیادہ سے زیادہ دباؤ کی امریکی پالیسی کو زیادہ سے زیادہ امریکی رسوائی میں بدل دینگے، آیت اللہ خامنہ ای
رہبر انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ بعض لوگ عقل کا نام تو لیتے ہیں لیکن اس سے ان کی مراد خوف، مفعولیت اور دشمن کے مقابلے سے گریز ہوتا ہے درحالیکہ فرار کرنے اور ڈرنے
ایرانی سپریم لیڈر نے ملکی معیشت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ملک کو درپیش اقتصادی مسائل میں ہم امریکہ کے خباثت آمیز کردار اور اس کی پابندیوں، جو درحقیقت جرم ہیں، کے بُرے اثرات کو نظر انداز نہیں کرتے البتہ ہم اپنا قیام اور مزاحمت جاری رکھیں گے اور اللہ تعالی کے لطف و کرم سے امریکہ کے زیادہ سے زیادہ دباؤ (کی پالیسی) کو امریکہ کی زیادہ سے زیادہ رسوائی اور پشیمانی میں بدل دیں گے۔ انہوں نے ملکی معیشت کو درپیش مسائل پر امریکی صدر کے اظہار خوشی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ (ایرانی قوم کے خلاف) ایسے جرائم کے ارتکاب
آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے خطاب میں اس بات پر دوبارہ تاکید کرتے ہوئے کہ ملک کی تمام مشکلات کا حل ملک کے اندر موجود ہے، کہا کہ اگرچہ ہماری بہت سی مشکلات کا تعلق بیرون ملک امور کے ساتھ ہے تاہم ان کا علاج ملک کے اندر اور صحیح حساب کتاب پر ہے لہذا ہمیں ان مسائل کا حل ملک سے باہر نہیں ڈھونڈنا چاہئے کیونکہ ملک کے باہر سے ہم نے کوئی بھلائی نہیں دیکھی البتہ امریکی قوم پر مسلط اراذل و اوباشوں کی ہرزہ سرائیاں کسی کی توجہ نہ بٹائے! انہوں نے اپنے خطاب کے آخر میں کرونا وائرس کے حوالے سے احتیاطی تدابیر پر عوامی عملدرآمد کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ جیسا کہ اربعین امام حسین (ع) کے حوالے سے لوگ سرحدوں کی جانب نہیں گئے اور انہوں نے محرم الحرام کے دوران بھی پوری احتیاطی تدابیر پر مکمل عملدرآمد کیا ہے، اب بھی زندگی کے بنیادی مسائل میں پوری احتیاطی تدابیر پر مکمل عملدرآمد کیا جائے تاکہ اس منحوس بیماری سے پیچھا چھڑوایا جا سکے۔
کربلا انسانی اقدار کی تجلی گاہ
تحریر: محمد علی شریفی
امام حسین علیہ السلام نے اپنی لازوال اور عظیم قربانی کے ذریعے اہل ایمان کو یہ درس دیا کہ جب بھی دین و مکتب کی بنیادیں خطرے میں پڑ جائیں تو اس کی حفاظت کے لئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہیئے۔ جب امام عالی مقام نے دیکھا کہ اسلامی معاشرے کی زمامِ حکومت، یزید جیسے فاسق و فاجر حاکم کے ہاتھوں میں آگئی ہے جو تمام احکام الٰہی اور شریعت کے اصولوں کو اپنے پاؤں تلے روند رہا تھا، اس صورتحال کو دیکھ کر امام حسین علیہ السلام یزید کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور لوگوں کو بھی اس تحریک میں شامل ہونے کی دعوت دینا شروع کی۔ اس راہ میں اپنی جان، مال، ناموس، عزیزوں اور قریبی اصحاب کی قربانی پیش کی۔
امام عالی مقام نے پوری تاریخ بشریت کے لئے پیغام دیا کہ جب بھی یزید جیسا شخص تمہارا حاکم بنا تو سکوت اختیار نہ کرنا اور اس کی بیعت کرنے سے انکار کرنا۔ امام کی زبان حال یہ بتا رہی تھی کہ اگر دین محمدی میرے قتل کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا تو اے تلوارو آؤ مجھ حسین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دو۔ اسی لئے امام تمام انسانیت کے لئے اسوہ اور نمونہ بنے کہ جب بھی کوئی طاغوت، اسلامی اور انسانی اقدار کو پامال کرنا چاہے تو انقلاب حسینی سے درس لے۔ جیسا کہ گاندھی سے لیکر دنیا کے مختلف مسلم اور غیر مسلم دانشوروں اور اہم شخصیات اس کا برملا اظہار کر چکی ہیں۔ تاکہ انسانی اور اسلامی اقدار کے خلاف ہونے والی حرکتوں کو روک سکیں۔ کربلا کے جس پہلو کی طرف بھی انسان نگاہ کرے اس پہلو سے بہتر زندگی گزارنے کا اصول ملتا ہے ہم اس تحریر میں چند ایک کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
درس حُرّیت:
تحریک عاشورا کا ایک ابدی پیغام یہ ہے کہ انسان جس عقیدے کا بھی حامل ہو، کوشش کرے کہ آزاد زندگی گزارے اور ذلت سے دور رہے، کسی بھی ستمگر اور ظالم کے آگے سر نہ جھکائے۔ عاشوراء کے دن جب امام نے دیکھا دشمن خیموں کی طرف حملہ کر رہا ہے تو آپ نے فرمایا: "وَیحَکمْ یا شیعَةَ آلِ اَبی سُفیان! اِنْ لَمْ یکنْ لَکمْ دینٌ وَ کنْتُمْ لا تَخافُونَ المَعادَ فَکونُوا اَحرارا فی دُنیاکم" وائے ہو تم پر اے آل ابی سفیان کے پیرو کارو! اگر تمہارا کوئی دین نہیں اور قیامت سے نہیں ڈرتے ہو تو، اپنی اس دنیا میں آزاد مرد بن کر رہو۔۔(1) ایک اور جگہ آپ فرماتے ہیں، "مَوْتٌ في عِزٍّ خَيْرٌ مِنْ حَياةٍ فِي ذُلٍّ" عزت کی موت ذلت کی زندگی سے بہتر ہے۔ (2) آیت اللہ جوادی آملی فرماتے ہیں، کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں حضرت سید الشہداء کا غم منانے سے بے نیاز ہوں، چاہے شیعہ ہو یا سنی یہودی ہو یا عیسائی یا زرتشتی۔ اس لئے کہ حسین ابن علی علیہ السلام نے اپنے قول اور فعل، خطبوں اور خطوط کے ذریعے مختلف دروس کو پیش کیا۔
کچھ لوگوں سے کہا اگر مسلمان نہیں ہو تو حریت پسند بنو اور آزاد طلبی کا مطلب یہ ہے کہ نہ کسی پر قبضہ کی چاہت ہو نہ تم پر کوئی غلبہ پاسکے! "اِنْ لَمْ یکنْ لَکمْ دینٌ وَ کنْتُمْ لا تَخافُونَ المَعادَ فَکونُوا اَحراراً فی دُنیاکُم"۔ درس آزادی اس بات کی علامت ہے کہ انسانیت کا پہلو ابھی محفوظ ہے اور اگر کوئی خدا کو نہیں مانتا نہ ہی قیامت پر اعتقاد رکھتا ہے تو کربلا عالم بشریت کے لئے معلمِ درس حرّیت ہے۔ لہٰذا کوئی بھی کربلا سے درس حاصل کرنے کے سلسلے میں بےنیاز نہیں ملے گا اور کوئی بھی عالم اور دانشور عاشورا کی ہدایات سے بے نیاز نہیں ہو سکتا یہاں تک کہ زاہد و عابد جو اللہ کی راہ میں نکلا ہے، حکماء اور متکلمین جو خدا کی راہ کو طے کرچکے ہیں، عرفاء جو اس راہ کی بلندیوں تک پہنچ چکے ہیں، یہ سب کے سب بھی پیغام حسینی کے حقیقی سننے والوں میں سے ہیں ۔۔۔(3) آپ نے عاشورا کے دن عمر ابن سعد کے لشکر سے مخاطب ہو کر فرمایا: "ألا وَ إنَّ الدَّعيَّ ابنَ الدَّعيِّ قَد رَكَّزَ بَينَ اثنَتينِ بَينَ السُلَّهِ وَالذِلَّةِ وَ هَيهاتَ مِنّا الذِلَّةُ يَأبى اللّه ُ ذلك لَنا وَرَسولُهُ" اس نابکار اور اس نابکار کے بیٹے نے مجھے دوراہے پر لا کھڑا کر دیا ہے (مجھے ذلت اور چمکتی ہوئی ننگی تلوار کے درمیان قرار دیا ہے) ذلت ہم سے کوسوں دور ہے۔ (4)
امر باالمعروف و نہی عن المنکر کا احیاء:
امام حسین اس حقیقت کو بیان کرنے جا رہے تھے کہ یزید کی حاکمیت انسانی اور اسلامی معاشرے کے لئے سب سے بڑا منکر ہے، ایسے حالات میں ایک با تقوا حریت پسند انسان کا وظیفہ اور ذمہ داری ہے کہ امر بہ معروف و نہی از منکر کرے۔ کوفہ کے عمائدین کے نام امام نے جو خط لکھا اس میں اسی بات کی طرف اشارہ فرمایا۔ "أَیُّهَا النّاسُ؛ إِنَّ رَسُولَ اللّهِ (صلى الله علیه وآله) قالَ: مَنْ رَأى سُلْطاناً جائِراً مُسْتَحِلاًّ لِحُرُمِ اللهِ، ناکِثاً لِعَهْدِ اللهِ، مُخالِفاً لِسُنَّةِ رَسُولِ اللهِ، یَعْمَلُ فِی عِبادِاللهِ بِالاِثْمِ وَ الْعُدْوانِ فَلَمْ یُغَیِّرْ عَلَیْهِ بِفِعْل، وَلاَ قَوْل، کانَ حَقّاً عَلَى اللهِ أَنْ یُدْخِلَهُ مَدْخَلَهُ"۔ اے لوگو! رسول خدا نے فرمایا! جب کوئی مسلمان ایک سلطان جائر اور ظالم حاکم کو دیکھے جو حلال الٰہی کو حرام اور حرام الٰہی کو حلال قرار دیتا ہے اور الٰہی عہدوں کو توڑ دیتا ہے، سنت پیغمبر کی مخالفت کرتا ہے ایسے میں وہ اپنے عمل یا گفتار کے ذریعے نہ روکے تو خدا کے لئے سزاوار ہے کہ ایسے فرد کو اسی ظالم کے ساتھ جہنم میں ڈال دے۔ (5)
اور اسی خط میں ارشاد فرماتے ہیں آگاہ رہو یقینا یہ (یزید کے) پیروکاروں نے شیطان کی پیروی کی ہے اور اس کی بات کو اپنے اوپر واجب قرار دیا ہے، فساد کو رواج دیا ہے، احکام الٰہی کی تعطیل کی ہے حلال الٰہی کو حرام اور حرام کو حلال کر دیا ہے۔ میں فرزند رسول خدا سب سے زیادہ حقدار ہوں کہ ان حالات پر اعتراض کروں۔ اور آپ نے مدینے سے نکلتے وقت اپنے بھائی محمد ابن حنفیہ کے نام لکھے گئے وصیت نامے میں بھی واضح طور پر فرمایا: "أُُرِیدُ أنْ آَمُرَ باالمَعرُوفِ وَ أنهَی عَنِ المُنکَرِ وَ اَسِیرَ بِسیرَةِ جَدِّی وَ أبِی۔۔۔" (6)۔ میں چاہتا ہوں امر بہ معروف و نہی از منکر کروں اور اپنے جد کی سیرت پہ عمل کروں۔
صبر و تحمل اور برداشت:
اس عظیم قربانی کے موقع پر جگہ جگہ صبر و تحمل و برداشت ان عظیم ہستیوں میں دیکھنے میں آئے۔ جب آپ مکہ سے عراق کی طرف عازم سفر ہوئے تو ایک خطبہ ارشاد فرمایا اس میں فرماتے ہیں ۔۔۔۔۔ "رِضَى اللّهِ رِضانا اَهْلَ الْبَیْتِ، نَصْبِرُ عَلى بَلائِهِ وَ یُوَفّینا اَجْرَ الصّابِرینَ۔" خدا کی رضا ہم اہلبیت کی رضا ہے۔ خدا کی طرف سے ہونے والے امتحانوں کے موقع پر ہم صبر کریں گے اور خدا صابرین کی جزا ہمیں دے گا۔ (7) راستے میں جب کسی منزل پر پہنچے تو آپ نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا اے لوگو ! تم میں سے جو بھی تیر و تلوار کی تیز دھار کو برداشت کرسکتا ہو وہ رہے اور جو نہ کر سکتے ہوں وہ لوگ واپس چلے جائیں۔ روز عاشورا امام حسین نے دشمن کے ساتھ سخت جنگ کے وقت فرمایا، "صَبْراً بَنِى الْكِرامِ، فَمَا الْمَوْتُ إِلّاٰ قَنْطَرَةٌ تَعْبُرُ بِكُمْ عَنِ الْبُؤْسِ وَ الضَّرّاءِ إِلَى الْجِنانِ الْواسِعَةِ وَ النَّعيمِ الدّائِمَةِ۔۔" اے بزرگ زادو! صبر کرو موت نہیں ہے مگر ایک پل کی مانند جو تمہیں مشکلوں اور سختیوں سے وسیع جنت اور ابدی نعمتوں کی طرف پہنچا دیتی ہے۔ (8)
وفاداری:
عہد و پیمان پر وفا اور عمل امام حسین اور آپ کے باوفا ساتھیوں کی خصوصیات میں سے ہے، شب عاشور آپ اپنے باوفا اصحاب کے بارے میں فرماتے ہیں میرے اصحاب سے زیادہ باوفا اور سچا اصحاب کسی کو نہیں ملا۔ آپ کی دین سے وفاداری کے بارے میں زیارت اربعین میں ایک جملہ ملتا ہے، "اَشهدُ انّکَ قد بَلّغتَ و نَصحتَ و وَفَیتَ واوفیت۔."(9)۔ میں گواہی دیتا ہوں تونے اس عہد کی وفا کی جو خدا کے ساتھ کیا تھا، کربلا میں وفاداری کی ایک اور لازوال مثال حضرت عباس علمدار کا اس امان نامے کو ٹھکرانا ہے جو آپ کے لیے شمر ملعون لایا تھا لہٰذا آپکی زیارت میں آیا ہے "اَشْهَدُ لَقَدْ نَصَحْتَ للَّهِِ وَلِرَسُولِهِ وَلِأَخيک، فَنِعْمَ الْأَخُ الْمُواسى"، گواہی دیتا ہوں تونے خدا اور رسول کے لئے خیرخواہی کی اور اپنے بھائی کے لئے کتنا ہمدرد تھے۔۔۔(10)۔
نماز کی اہمیت کا خیال:
کربلا اور عاشورا کا ایک اور نمایاں درس نماز کا پابند ہونا اور اس کی پاسداری ہے امام حسین نے اقامہ نماز کی ترویج اور اس کے اہتمام کے لیے بے مثال اہتمام کیا۔ 9 محرم کو عمر سعد نے جب جنگ شروع کرنا چاہی تو آپ نے اپنے بھائی حضرت عباس کو بھیجا تا کہ ایک رات کی مہلت مانگیں تاکہ اس رات کو دعا اور نماز میں گزاریں۔ "أنّی کنتُ قد أحبّ الصّلاة له و تلاوةَ کتابه و کثرة الدّعاء و الاستغفار" میں نماز اور تلاوت قرآن و کثرت دعا و استغفار کو پسند کرتا ہوں۔(11) عاشورا کی ظہر کو جب ابو ثمامہ صائدی نے امام کو وقت نماز کی یاد دلائی تو امام نے ان کے حق میں دعا فرمائی۔ "قالَ: ذَكَرتَ الصَّلاةَ، جَعَلَكَ اللّهُ مِنَ المُصَلّينَ الذَّاكِرينَ" تونے نماز کی یاد دلائی، اللہ تمہیں ان نمازیوں میں سے قرار دے جو نماز کو یاد رکھتے ہیں۔
اور اس طرح سے دشمن کی تلواروں کے سائے میں نماز ادا کی۔ امام حسین نے یزید کے سیاہ ترین دور میں کہ جس میں اسلامی اقدار، پامال ہو رہی تھیں، شہادت کو سینے سے لگا کر اسلامی معاشرے کے اندر پھر سے شہادت کے حیات بخش کلچر کو زندہ کیا اور شہادت سے عشق کو معاشرے کے اندر کلچرل بنایا، جب امام نے سب کو خبر دی کہ کل شہید ہو جائیں گے تو حضرت قاسم ابن حسن کو یہ فکر لاحق ہوئی کہیں کم سنی کی وجہ سے میں شہادت سے محروم نہ رہ جاؤں اور امام سے سوال کیا، چچا جان آیا میرا نام بھی شہید ہونے والوں میں شامل ہے یا نہیں؟؟ امام نے قاسم سے امتحان لینے کے لئے پوچھا موت کو کیسے پاتے ہو؟ فرمایا "اَحْلَی مِنَ العَسَلِ" موت شہد سے زیادہ میٹھی لگتی ہے۔
صداقت اور سخاوت:
تحریک کربلا کے شروع سے لے کر آخر تک صداقت اور سخاوت موجزن تھی۔۔؟ اس کی واضح مثال امام کی حر سے ملاقات ہے، جب شراف کے مقام پر امام کی ملاقات حر اور اس کے سپاہیوں سے ہوئی اور انہوں نے آپ کا راستہ روکا، یہ لوگ آپ کی جان کے درپے تھے جب آپ نے دیکھا یہ لوگ پیاسے ہیں اپنے ساتھیوں کو حکم دیا ان سب کو پانی پلا دیں یہاں تک کہ پیاس سے نڈھال پیچھے رہ جانے والے ایک سپاہی کو آپ نے اپنے دست مبارک سے پانی پلایا۔
ادب و شرافت:
عاشورا کا ایک اور لازوال درس ادب اور شرافت و بزرگواری ہے۔ یہی خصوصيت امام کے ساتھیوں میں سے ہر ایک میں نمایاں طور پر دکھائی دی، کربلا کے اس سفر میں اس کی واضح مثال جب حر اپنی غلطی کی طرف متوجہ ہوئے اور توبہ کی، وہ انتہائی مؤدبانہ انداز میں امام کی خدمت میں آتے ہیں، اسی طرح حضرت عباس ہمیشہ امام کو میرے آقا میرے مولا کہہ کر یاد کرتے تھے۔ جب ہم جناب سیدہ زینب (س) کی رفتار کو دیکھتے ہیں ادب اور بزرگواری کی آخری منزل کو چھوتی ہوئی نظر آتی ہے انہوں نے اپنے دونوں فرزندوں کو اپنے بھائی کی عظیم تحریک کے لئے ہدیہ کر کے اسلام پر فدا کر دیا، آپ نہ صرف اپنے بچوں کے جنازے کی منتقلی کے وقت خیمے سے باہر نہ آئیں بلکہ کربلا سے شام تک ایک بار بھی اپنے بچوں پر گریہ نہیں کیا اور ہمیشہ سالار شہیدان کی مظلومیت بیان کرتی رہیں۔
ظلم سے مقابلہ:
امام نے اپنے قیام کے ذریعے انسانوں کو ظلم سے مقابلہ، ظلم ستیزی اور ظالم کے سامنے ڈٹ جانے کا درس دیا انسانیت کو یہ سکھایا کہ اگر ظالموں کے ہاتھ نہیں کاٹ سکتے تو خاموش بھی نہ رہیں۔ آپ نے یہ اہم ترین کام معاویہ کی زندگی کے آخری سالوں میں ہی شروع کیا۔ خطبہ منٰی جو معاویہ کی موت سے دو سال قبل مکے میں دو ہزار کے قریب صحابہ، تابعین اور دیگر افراد کو جمع کر کے ارشاد فرمایا۔ امام حسینؑ کے اس خطبے میں درج ذیل موضوعات پر بحث ہوئی ہے:
1۔ امام علیؑ اور خاندان عصمت و طہارت کی فضیلت اور ان آیات و روایات کو بیان کیا ہے جن میں اہل بیتؑ خاص کر امام علیؑ کی فضیلت بیان ہوئی ہے۔ منجملہ ان فضائل میں سد ابواب، واقعہ غدیر خم، مباہلہ، امام علی کے ہاتھوں خیبر کی فتح اور حدیث ثقلین۔
2۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی طرف دعوت اور اسلام میں اس وظیفہ کی اہمیت۔
3۔ ستمگروں اور مفسدین کے خلاف قیام کرنے کو علماء کی اہم ذمہ داری قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف علماء کے سکوت اور خاموشی کے نقصانات اور علماء کا اس الہی وظیفے کی انجام دہی میں سہل انگاری پسندی کے بھیانک نتائج کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ 12 جب آپ کو پتہ چلا کہ یزید مسلمانوں کا حاکم بن چکا ہے تو اس کی عملی مخالفت شروع کی اور اس کی سیاہ کاریوں اور بدکاریوں کو فاش کیا۔ آپ نے فرمایا یزید فاسق و فاجر، شرابی اور بے گناہوں کا قاتل ہے۔ 13
شجاعت و دلاوری:
امام جو ہدف رکھتے تھے اس راہ میں کوئی چیز امام کے دل میں خوف نہیں ڈال سکی اور نہ ہی اپنے ارادے سے منحرف کرسکی اور امام کو دشمن سے مقابلہ کرنے سے نہیں روک سکی اسی لئے جنگ جتنی تیز ہو جاتی تھی اور شہادت کا وقت قریب آتا امام کا مبارک چہرہ اور زیادہ درخشان ہوتا تھا اور اپنی تمام طاقت کے ساتھ مقابلہ کیا۔
امام شناسی کا درس:
امام کوفہ والوں کو یوں لکھتے ہیں میری جان کی قسم لوگوں کا امام اور پیشوا وہ ہے جو قرآن کی بنیاد پر حکم کرے اور دین حق کی پیروی کرے اور خدا کی راہ میں سر تسلیم خم ہو۔ آپ نے اپنے اس فرمان کے ذریعے تمام طاغوت حاکموں کی رہبری پر خط بطلان کھینچ دیا اور دنیا والوں کو یہ پیغام دیا کہ ایسے حاکموں کو قبول نہ کریں جو لوگوں کو گمراہی کی طرف لے جاتے ہیں اور دنیا و آخرت کی خیر سے دور کرتے ہیں۔
اسلامی مقدسات کی حفاظت:
واقعہ عاشورا اگرچہ دین کی حفاظت اور اصلاح امت کی خاطر پیش آیا لیکن ساتھ ساتھ امام اور آپ کے باوفا اصحاب کا ہر فیصلہ اہمیت کا حامل ہے اور آپ کے پیروکاروں کے لئے انتہائی سبق آموز ہے۔ جیسا کہ مسلمانوں کی نگاہ میں مکہ اور بیت اللہ کی بڑی حرمت و تقدس ہے، بڑا مقام ہے، جب آپ نے احساس کیا کہ یزید کے گماشتے مجھے اس حرم الہی میں حج کے موقع پر قتل کر دیں گے اور میری وجہ سے حرمت خانہ خدا شکستہ ہو جائے گی آپ نے فورا مکہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور عازم کوفہ ہوئے، لہٰذا آپ فرماتے ہیں "مکہ میں قتل ہونے سے مکے سے ایک بالشت باہر قتل ہونا بہتر ہے" آپ خانہ خدا کے تقدس کو بچانے کے لیے حج چھوڑ گئے۔
عفت اور حجاب کی پاسداری:
عاشوراء کے دروس میں سے ایک اہم ترین درس حجاب اور پردے کی پاسداری ہے اور یہ خواتین کے لیے بہت اہمیت کی حامل ہے عصر عاشورا لعینوں نے خیموں میں آگ لگائی، اہل حرم کی چادروں اور شہداء کےجسموں کے لباسوں کا خیال بھی نہیں رکھا گیا۔ منقول ہے جب دشمن نے اہل حرم کو گھیر لیا اس وقت علی (ع) کی بیٹی کلثوم دشمنوں سے مخاطب ہو کر فرماتی ہے اے لعینو! تمہیں شرم نہیں آتی کہ خاندان رسالت کی بیبیوں کے سروں پر مناسب پردہ بھی نہیں تم دیکھنے جمع ہوگئے ہو! شہزادی زینب یزید کے دربار میں یذید سے مخاطب ہوکر فرماتی ہیں۔ "يَا ابْنَ الطُّلَقَاءِ تَخْدِيرُكَ حَرَائِرَكَ وَ إِمَاءَكَ وَ سَوْقُكَ بَنَاتِ رَسُولِ اللَّهِ ص سَبَايَا" اے طلقاء کے بیٹے (آزاد کردہ غلاموں کی اولاد) کیا یہ تیرا انصاف ہے کہ تونے اپنی مستورات اور لونڈیوں کو چادر اور چار دیواری کا تحفظ فراہم کر کے پردے میں بٹها رکھا ہوا ہے جبکہ رسول زادیوں کو سر برہنہ در بدر پھرا رہا ہے۔ 14
توحید کا درس:
ایک جملے میں حادثہ کربلا بیان کریں تو یہ ہوگا کربلا معارف اسلامی اور اسلامی اعتقادات سے بھری ایک مکمل کتاب ہے سب سے اہم ترین درس، کربلا میں درس توحید ہے امام حسین نے اپنے بھائی محمد ابن حنفیہ کو لکھے گئے وصیت نامے میں سب سے پہلے خدا کی وحدانیت، رسول کی رسالت اور قیامت کے برحق ہونے کی شہادت دی، اس کے بعد اپنے جانے کے مقصد کو بیان فرمایا اس عظیم قربانی کے موقع پر آپ اور آپ کے باوفا ساتھیوں نے یہ واضح کیا کہ اگر امر دائر ہو جائے رضائے الہی اور رضائے غیر خدا میں، تو غیر الہی امور سے چشم پوشی و نظر انداز کر کے رضائے الہی کو حاصل کرنا دنیا کے تمام موحدین کے لئے عاشورا کا جاودانہ درس ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
(1) بحارالانوار، ج45، ص51، مقتل خوارزمی ج2، ص32
(2) بحارالانوار، ج44، ص 192، مناقب شہر آشوب ج4، ص75
(3) شکوفائی عقل در پرتو نہضت حسنی اسرار ص 83
(4) موسوعہ امام؛ حسین ص 425، ح 412
(5) تاریخ طبری ج4، ص 304، بحار، ج44، ص 382
(6) سخنان امام حسین از مدینہ تا کربلا، ص53
(7) لہوف ص53، مثیرالاحزان 21
(8) معانی الاخبار ج3، ص288
(9) زیارت اربعین، مفاتیح الجنان
(10) زیارت حضرت عباس، مفاتیح الجنان
(11) بحار، ج 44، ص 392
(12) سخنان امام حسین از مدینہ تا کربلا، ص363
(13) مقتل خوارزمی ج1، ص184
(14) مقتل ابی مخنف مترجم سید علی محمد موسوی جزایری، قم، انتشارات امام حسن، چ اول، 80، ص 393
حقوق والدین کا اسلامی تصور ( قرآن وحدیث کی روشنی میں)
فرقہ واریت سے ہوشیار
یوں محسوس ہوتا ہے کہ کچھ افراد یا گروہ نئے سرے سے فرقہ واریت کو پھیلانے میں سرگرم ہوگئے ہیں یا فرقہ واریت کے سلیپر سیلز پھر سے متحرک کیے جا رہے ہیں۔ اس کے لیے وہ تمام افراد جنھوں نے پاکستان میں فرقہ واریت کے خلاف سالہا سال جدوجہد کی ہے، انھیں اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے اور اپنی طاقتوں کو نئے سرے سے مجتمع کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ فرقہ واریت کی نئی لہر کا مقابلہ کیا جاسکے۔ ہمیں یہ بات ملحوظ نظر رکھنا چاہیے کہ اس وقت اسلام دشمن قوتوں کو یہ ضرورت کیوں پیش آئی کہ وہ عالم اسلام میں نئے سرے سے فرقہ واریت کے الائو بھڑکائیں اور نئے سرے سے اس آگ کو روشن کریں۔ اس وقت بھارت جس انداز سے پاکستان پر حملے کے لیے پَر تول رہا ہے، وہ کسی سے مخفی نہیں ہے، بھارت کے اندر مسلمانوں کی حالت زار اور کشمیری مسلمانوں کے خلاف مسلسل کریک ڈائون بھی جاری ہے۔ ہمارے وزیر خارجہ نے بھی اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ بھارت پاکستان میں اپنے سلیپر سیلز پھر سے متحرک کرسکتا ہے۔ ہمیں یہ بات فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ ان سلیپر سیلز میں فرقہ پرست عناصر بھارتی مقاصد کے سب سے بڑے اور اہم آلہ کار ہیں کیونکہ یہی وہ لوگ ہیں، جو مسلمانوں کو اس پاک سرزمین پر آپس میں لڑا کر دشمن کے مقاصد زیادہ پورے کرسکتے ہیں، کیونکہ فرقہ واریت کی آگ شہر بہ شہر، محلہ بہ محلہ اور کوچہ بہ کوچہ پہنچائی جاسکتی ہے۔ ماضی میں ہم اس کے نہایت تلخ اور تکلیف دہ تجربوں سے گزر چکے ہیں۔
دوسری طرف امریکی ایما پر صہیونی غاصب ریاست باقی ماندہ فلسطینی علاقوں کو ہڑپ کرنے کے لیے اپنے منصوبوں کو آگے بڑھا رہی ہے۔ صدی کی ڈیل (Deal of the Centurey) کے یک طرفہ منصوبے پر عمل کے لیے فلسطین کے بچے کھچے حصوں کو اسرائیل میں شامل کرنے کے لیے قدم بہ قدم پیش رفت دکھائی دے رہی ہے۔ پاکستان کے مسلمان اسرائیل کو ایک غاصب ریاست سمجھتے ہیں اور پہلے دن سے فلسطینیوں کے ساتھ ہیں، اگر پاکستانی اور دیگر مسلمان فرقہ وارانہ مسائل میں الجھے ہوئے ہوں تو پھر فلسطینیوں کی حمایت میں کون آواز اٹھائے گا! ہم دیکھ رہے ہیں کہ لیبیا کو بھی مسلمانوں کی باہمی آویزش کا نیا مرکز بنایا جا رہا ہے، جس کا مقصد یہ ہے کہ مصر اور دیگر عرب ریاستیں ایک طرف جبکہ ترکی اور اس کے ساتھی دوسری طرف میدان جنگ میں ایک دوسرے پر آگ برسا رہے ہوں اور اسرائیل اپنے مقاصد پورے کرنے کے لیے آگے بڑھ رہا ہو۔ اس وقت جبکہ ضرورت ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان فلسطین اور کشمیر کے مسلمانوں کے لیے اپنی آواز بلند کریں، اپنے وسائل اکٹھے کریں اور مل کر مظلوموں کی نجات کے لیے جدوجہد کا آغاز کریں، اگر وہ آپس میں الجھ پڑیں تو پھر دشمن کے لیے اس سے بڑی خوشخبری اور کیا ہوسکتی ہے۔
گذشتہ دنوں ایک مولوی صاحب نے پاکستان میں ایک افسوسناک تاریخی واقعے کی بنا پر جس انداز سے حضرت فاطمۃ الزہراؑ کے بارے میں ہرزہ سرائی کی، اس کا ردعمل پاکستان کے تمام مسالک کے علماء کی طرف سے سامنے آیا۔ ضرورت اس بات کی تھی کہ مذکورہ مولوی صاحب مناسب وضاحت کے بعد اپنے دیگر امور و مشاغل میں مصروف ہو جاتے، انھوں نے اب مسئلے کو مستقل فرقہ وارانہ رنگ دینے کے لیے ملک بھر میں جلسوں، جلوسوں اور دھرنوں کا اعلان کر دیا ہے۔ اس کے لیے ان کے پاس ماضی کے واقعات کو نئے زہر آلود انداز میں پیش کرنے کا حربہ ہی موجود ہے۔ پہلے بھی ایسے ہی حربوں کے ذریعے مسلمانوں کو لڑایا جا چکا ہے اور مسلمان ریاستوں کو کمزور کیا جاچکا ہے۔ اس کی روک تھام حکومتی و ریاستی سطح پر بھی ضروری ہے اور علماء و عوام کی سطح پر بھی۔
ہمیں یہ بات افسوس کے ساتھ کہنا پڑتی ہے کہ کچھ عرصے سے بعض علماء نما شیعہ بھی ایسی تقریریں کر رہے ہیں اور ایسی ویڈیوز نشر کر رہے ہیں، جو معاشرے میں مسلمانوں کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کا باعث بن سکتی ہیں۔ یہ بات اس لحاظ سے زیادہ افسوسناک ہے کہ قبل ازیں یہ کہا جاتا تھا کہ بعض ان پڑھ ذاکرین فرقہ ورانہ باتیں کرتے ہیں، لیکن اگر یہی باتیں علماء کا لباس پہن کر بعض افراد شروع کر دیں تو پھر مسئلہ نہایت خطرناک صورت اختیار کر جاتا ہے۔ ہم ایسے تمام افراد کو استعماری اور صہیونی طاقتوں کا شعوری یا لا شعوری آلہ کار سمجھتے ہیں۔ آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای ان افراد کے مکتب کو برطانوی تشیع قرار دیتے ہیں اور انھیں ایم آئی سکس کے ایجنٹ کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے۔
ہر وہ بات اور کوشش جو مسلمانوں کو جوڑنے اور ملانے کے لیے کی جائے قابل قدر ہے اور ہر وہ بات اور کوشش جس کی بنیاد پر مسلمانوں میں تفرقہ اور فرقہ واریت پیدا ہوتی ہو، دشمنوں کے مفاد میں ہے۔ اس سلسلے میں ہمیں ہوشیار اور خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔ اس موقع پر ملی یکجہتی کونسل اور دیگر تمام قوتوں کو نئے سرے سے سر جوڑ کر بیٹھنے اور اس صورت حال کا سنجیدگی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آگ زیادہ پھیل جائے اور ہمیں بعد میں ہوش آئے۔ اس سلسلے میں ہم ایک مثال عرض کرنا چاہیں گے اور وہ یہ ہے کہ گذشتہ دنوں حضرت عمر ابن عبدالعزیز کی قبر کی بے حرمتی کی خبریں جاری ہوئیں، اس پر جس انداز سے بغیر سوچے سمجھے ردعمل سامنے آیا، اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ہم دشمن کی معمولی سی کسی سازش کا شکار ہو کر کس طرح باہم دست و گریباں ہوسکتے ہیں۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز تمام عدالت پسند مسلمانوں کے نزدیک محترم ہیں، کیونکہ انھوں نے خود اپنے خاندان اور آباء کی بعض غلط روایتوں کا قلع قمع کیا اور معاشرے میں عدل و انصاف کی بنیادوں کو نئے سرے سے استوار کرنے کی کوشش کی۔ حضرت عمر ابن عبدالعزیز کا احترام اہل سنت بھی کرتے ہیں اور اہل تشیع بھی، لیکن یہ ظاہر کیا گیا کہ اہل تشیع نے ان کی قبر کی بے حرمتی کی ہے اور یہ الزام بعد میں غلط ثابت ہوگیا۔ اس دوران میں نفرت کی کتنی آگ تھی جو مسلمانوں کے مابین پھیل گئی تھی۔
یہاں ہم ایک اور بات کہنا چاہتے ہیں کہ فرض کیا کہ اپنے آپ کو شیعہ کہلوانے والا کوئی ایک فرد یا گروہ کوئی غلط حرکت کرے یا اپنے آپ کو سنی کہلوانے والا کوئی فرد یا گروہ غلط حرکت کرے تو ہمیں تمام شیعوں یا سنیوں کو مورد الزام نہیں ٹھہرانا چاہیے۔ جب کوئی چور چوری کرتا ہے تو ہم یہ نہیں کہتے کہ یہ شیعہ چور یا سنی چور ہے تو پھر کسی بھی غلط حرکت کرنے والے کو شیعہ یا سنی قرار دے کر تمام اہل تشیع یا اہل تسنن کو نفرت کا نشانہ بنانا کہاں کی دانشمندی ہے۔ ہمیں اس بات کو اصول کے طور پر اختیار کر لینا چاہیے، تاکہ آئندہ ہم کسی سازش کا شکار نہ ہوں۔ یہاں میں ملی یکجہتی کونسل کے احیا گر قاضی حسین احمد مرحوم کے اس شعار کو دہراتا ہوں کہ ہمیں درد مشترک اور قدر مشترک کی بنیاد پر ایک ہو جانا چاہیے۔ میں یہاں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ ہم ماضی کے واقعات کو تبدیل نہیں کرسکتے، لیکن ہم دانش و حکمت سے کام لے کر اپنے مستقبل کو ضرور سنوار سکتے ہیں۔
ملکی امن و امان "دفاع مقدس" کا مرہون منت ہے، ہر جارحیت کا دندان شکن جواب دیا جائیگا، آیت اللہ خامنہ ای
امریکہ، برطانیہ و جرمنی سمیت دنیا بھر کے 40 سے زائد ممالک کے حمایت یافتہ عراقی آمر صدام حسین کی جانب سے ایران پر مسلط کردہ جنگ میں ایران کے فتحیاب ہونے کے سلسلے میں ہر سال "ہفتہ دفاع مقدس" منایا جاتا ہے۔ اس حوالے سے قوم سے ویڈیو خطاب کے دوران ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے تاکید کرتے ہوئے کہا ہے کہ فتحیابی پر مبنی کی یہ حقیقت، امام خمینیؒ کی حیرت انگیز کمان، ملکی دفاع میں معاشرے کے ہر طبقے کی ہمہ جہت شرکت اور مجاہدین کے عقلمندی پر مبنی اقدامات کی مرہون منت ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای نے جنگ کے پیاسے عراقی آمر صدام حسین کو امریکہ سمیت بڑی طاقتوں کا آلۂ کار قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایرانی قوم کے خلاف برسرپیکار اصلی فریق؛ اسلامی انقلاب سے نقصان اٹھانے والا امریکہ، خطے میں ایک نئی اسلامی-ایرانی پاور کے اُبھرنے سے خوفزدہ طاقتیں، نیٹو اور مشرقی و مغربی ممالک تھے، جنہوں نے صدام حسین کو حملے پر اکسایا تھا، تاکہ وہ (نوظہور) اسلامی انقلاب کو تہس نہس کر ڈالے۔
ایرانی سپریم لیڈر نے ایران پر جنگ مسلط کئے جانے سے قبل صدام حسین اور امریکہ کے درمیان طے پانے والی مفاہمتوں سے متعلق منظر عام پر آنے والی دستاویزات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران پر مسلط کی جانے والی جنگ کے دوران بھی مغربی
و مشرقی ممالک کی فوجی، اطلاعاتی اور مالی مدد امارات، کویت، سعودی عرب اور دوسرے رَستوں سے جارح صدام حسین کو ملتی رہی۔ انہوں نے جنگ کے آغاز سے لے کر دفاع مقدس کے اختتام تک جاری رہنے والی امام خمینیؒ کی قیادت کو انتہائی حساس و حیرت انگیز قرار دیتے ہوئے کہا کہ امام خمینیؒ نے جنگ کے آغاز سے ہی پیش آنے والے پیکار کی وسعت کو پہچان لیا اور اپنی حیرت انگیز دوراندیشی کے ذریعے اعلان کیا کہ یہ جنگ دو ہمسایہ ممالک کی جنگ نہیں بلکہ اسلامی انقلاب اور ایرانی قوم کے دشمنوں نے صدام حسین کی اوٹ میں اسلامی نظام حکومت کے خلاف صف آرائی کر رکھی ہے۔
آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے اسلامی انقلاب کے شروع میں مسلط کی جانے والی بھیانک جنگ کو صلاحیتوں کے نکھرنے کا سبب قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس میدان میں عوام کی وسیع شرکت سے انتہائی اہم استعدادیں وجود میں آئی ہیں، مثال کے طور پر کرمان کے ایک گاؤں سے تعلق رکھنے والا معمولی سا نوجوان "حاج قاسم سلیمانی" بن گیا یا ایک جوان فوجی افسر شہید صیاد شیرازی اور شہید بابائی جیسا تجربہ کار اور طاقتور کمانڈر بن گیا اور ایک سادہ سا خبرنگار محاذ جنگ پر پیش آنے والے حوادث کے سبب شہید باقری جیسے اطلاعات کے ماہر میں بدل گیا۔ انہوں نے ملکی امن و امان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان قربانیوں سے حاصل ہونے
والا ایک انتہائی قیمتی سرمایہ "امن و امان" ہے، جو "دفاع مقدس" کی برکت سے حاصل ہوا ہے، کیونکہ ایرانی قوم کے دفاع نے ثابت کر دکھایا ہے کہ اس ملک کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کرنے کی قیمت بہت زیادہ ہے اور ہر جارح طاقت دندان شکن جواب سے دوچار ہوگی، بنابرایں جارح قوتوں کو ہر اقدام سے قبل سوچنا پڑتا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے خود اعتمادی اور تکنیکی و سائنسی ایجادات کی جانب بڑھتے قدموں کو "دفاع مقدس" کا ایک اور ثمر قرار دیا اور کہا کہ اُس وقت جب ایرانی شہر دشمن کے میزائلوں کا نشانہ بن رہے تھے، کوئی ملک ہمیں میزائل یا دوسرا فوجی ساز و سامان دینے کو تیار نہیں تھا جبکہ اسی دوران شہید طہرانی مقدم اور ان کے دوست و احباب کی جانب سے میزائل کی ایرانی صنعت کی بنیاد رکھ دی گئی اور آج کی ایرانی میزائل پاور اسی خود اعتمادی اور اس زمانے کی علمی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے بظاہر ناممکن کاموں کو انجام دینے کی جرأت اور ملکی انسانی سرمائے کے فروغ کو دفاع مقدس کا ایک اور نتیجہ قرار دیا اور کہا کہ دفاعِ مقدس کے اس انسانی سرمائے کا ایک واضح نمونہ شہید (قاسم) سلیمانی ہیں، جو خطے کے اندر سفارتکاری کے حیرت انگیز کارنامے انجام دیا کرتے تھے جبکہ دنیا تاحال ان کی وسیع سرگرمیوں کے بارے بطور کافی معلومات نہیں رکھتی۔
آیت اللہ خامنہ
ای نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ جنگ ایک خوفناک و پرتشدد چیز کا نام ہے، تاہم اپنی تمام مشکلات اور نقصانات کے باوجود، دفاعِ مقدس ایرانی قوم کے لئے مختلف قسم کی برکتوں، بشارتوں، ترقیوں اور تازگیوں کا حامل رہا ہے۔ انہوں نے حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے حرم کا دفاع کرنے والے مجاہدین کو دفاع مقدس کی برکتوں اور نئی نسل کے اندر جہادی جذبے کے تسلسل کا ایک نمونہ قرار دیا اور کہا کہ ایرانی، شامی، عراقی، لبنانی اور افغانی اقوام سمیت دنیا بھر کی مختلف قوموں کا صفِ واحد میں آجانا ہمارے زمانے کی حیرت انگیز حقیقتوں میں سے ایک ہے۔ انہوں نے اپنے خطاب کے آخر میں منحوس کرونا وائرس کے وسیع پھیلاؤ اور اس کے باعث ہونے والی وسیع اموات پر اظہار تاسف کرتے ہوئے کہا کہ اس افسوسناک مرض کا علاج خود عوام کے ہاتھ میں اور مناسب فاصلے کی رعایت، ماسک کے استعمال اور مسلسل ہاتھ دھونے جیسی احتیاطی تدابیر میں مضمر ہے۔ رہبر انقلاب نے جاری سال کے دوران اربعین حسینیؑ کے حوالے سے کہا کہ ایرانی قوم حضرت امام حسینؑ اور زیارتِ اربعین کی عاشق ہے، تاہم چہلم واک صرف اور صرف ماہرین کی رائے پر ملتوی کی گئی ہے جبکہ ہم سب کو (ماہرین کا) مطیع و فرمانبردار رہنا چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ اس سال اربعین سید الشہداء علیہ السلام کی زیارت گھروں میں پڑھی جائے۔
امریکی جان لیں! جنرل سلیمانی کی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہر شخص کو نشانہ بنائینگے، میجر جنرل حسین سلامی
ایرانی انقلابی گارڈز سپاہ پاسداران کے سربراہ میجر جنرل حسین سلامی نے "ہفتۂ دفاع" کی مناسبت سے منعقد ہونے والی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے امام خمینیؒ کو ایسا عظیم انسان قرار دیا، جنہوں نے امتِ مسلمہ کی کھوئی ہوئی عظمت کو دوبارہ بحال کرتے ہوئے دین مبین اسلام کو زندہ کرنے کے لئے الہیٰ پیغمبروں جیسا کردار ادا کیا ہے۔ سپاہ قدس کے سربراہ نے شہداء کو ایرانی فخر کے آسمان پر چکمتے ستاروں سے تعبیر کیا اور کہا کہ ہمارے عظیم شہداء کے جنازے اس قوم کی عزت و عظمت کی خاطر زمین پر گرے ہیں، تاکہ ہم سربلند باقی رہیں۔ انہوں نے کہا ان عظیم شہداء نے اپنا سب کچھ جہاد فی سبیل اللہ میں لگا دیا اور دشمنوں کا ان کے گھروں تک پیچھا کرکے اُنہیں سزا دی ہے اور یوں وہ ایرانی قوم کو ہمیشگی کا تحفہ دے گئے ہیں۔
سپاہ پاسداران ایران
کے سربراہ نے شہید جنرل قاسم سلیمانی کو مزاحمتی محاذ کے سید الشہداء کے لقب سے یاد کرتے ہوئے کہا کہ جنرل قاسم سلیمانی ہمارے شہداء کے درمیان سورج کے مانند چمک رہے ہیں، جو اسلام، انقلاب، ولایت اور قوم کے ساتھ اپنی وفاداری میں بے مثال تھے۔ میجر جنرل حسین سلامی نے کہا کہ وہ گذشتہ سال تو ہمارے درمیان موجود تھے، تاہم اس سال وہ اللہ تعالیٰ کے حضور اور اصحابِ عاشوراء کے درمیان موجود اپنے باقی چھوڑے ہوئے جہادی رَستے کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ اگر ایرانی انقلاب وجود میں نہ آتا تو امریکہ پوری دنیا کو ہڑپ کر جاتا، کہا کہ یہ ہمارا انقلاب ہی تھا جس نے امریکہ کو خاتمے کے قریب پہنچا دیا ہے جبکہ آج کا امریکہ سیاسی رونقوں سے عاری، بے رمق، ناتواں اور شکست خوردہ حالت میں میدان کے درمیان موجود ہے۔
انہوں
نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ اسلامی انقلاب نے امریکہ کو اس کی محفوظ سے پناہگاہوں سے باہر نکال کر عملی میدان میں الجھا دیا ہے، کہا کہ آج نہ صرف امریکہ کی فوجی طاقت ختم ہو کر رہ گئی ہے بلکہ وہ کسی بھی قسم کی کامیابی حاصل کرنے کے قابل بھی نہیں رہا۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے کسی جنگ میں کامیاب نہیں ہوا مگر فوجی اتحاد کے ہمراہ، تاہم وہ اس فوجی اتحاد کو بھی اپنے لئے فائدہ مند نہیں بنا پایا۔ میجر جنرل حسین سلامی نے اپنے خطاب کے دوران امریکی زبوں حالی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اکیسویں صدی کے آغاز کے ساتھ ہی امریکی صدی بھی ختم ہوگئی، جس کی اصلی وجہ اس کے ظلم و ستم کے مقابلے میں اسلامی جمہوریہ ایران کی مزاحمت ہے۔
سپاہ قدس کے سربراہ نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ آج سیاسی اعتبار سے بھی امریکہ تنہاء ہوچکا
ہے، جیسا کہ ایران پر اسلحہ جاتی پابندیوں میں توسیع کے معاملے میں حتیٰ وہ اپنے ہمیشہ کے اتحادی بھی کھو بیٹھا ہے۔ میجر جنرل حسین سلامی نے امریکی صدر کی حالیہ ہرزہ سرائی کے جواب میں ڈونلڈ ٹرمپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مسٹر ٹرمپ! جنرل قاسم سلیمانی کی ٹارگٹ کلنگ پر ہمارا انتقام حتمی، سنجیدہ اور حقیقی ہے، لیکن ہم عزت و وقار کے حامل ہیں، جو جوانمردی اور انصاف کے ساتھ انتقام لیتے ہیں۔ انہوں نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ آپ کا خیال ہے کہ ہم اپنے شہید بھائی (جنرل سلیمانی) کے خون کا بدلہ "جنوبی افریقہ میں موجود ایک خاتون سفیر" سے لیں گے؟ نہیں بلکہ ہم اُن افراد کو نشانہ بنائیں گے، جو اس عظیم انسان (جنرل سلیمانی) کی ٹارگٹ کلنگ میں بلاواسطہ یا بالواسطہ طور پر شریک رہے ہیں اور جان لو کہ جو شخص بھی اس جرم میں شریک رہا ہے، ضرور بالضرور
نشانہ بنایا جائے گا، یہ ایک سنجیدہ پیغام ہے!
ایرانی سپاہ پاسداران کے سربراہ نے امریکی صدر کی جانب سے دی جانے والے حالیہ دھمکیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ تم ہمیں ہزار گنا بڑے حملے کی دھمکی دیتے ہو! ہم تمہیں جانتے ہیں؛ اس وقت جب ہم نے عین الاسد کو نشانہ بنایا تھا تو ہمارا خیال تھا کہ تمہاری جانب سے جواب دیا جائے گا، لہذا ہم نے سینکڑوں میزائل تیار کر رکھے تھے، تاکہ اگر تمہاری طرف سے جواب آیا تو تمہارا سب کچھ تباہ کر دیا جائے۔ میجر جنرل حسین سلامی نے اپنے خطاب کے آخر میں دشمن (امریکہ و اس کے اتحادیوں) پر اپنی مکمل بالادستی پر تاکید کرتے ہوئے کہا کہ مسٹر ٹرمپ! اگر کسی ایرانی کے سر کا ایک بال بھی کم ہوا تو ہم تمہارے چھکے چھڑا دیں گے، یہ ایک سنجیدہ دھمکی ہے اور ہم اپنی ہر بات کو عمل سے ثابت کرتے ہیں!
ایران کے خلاف نئی امریکی پابندیوں کے پس پردہ محرکات
اکثر سیاسی اور اقتصادی ماہرین کا خیال ہے کہ امریکہ کی جانب سے ایران کے خلاف عائد کی جانے والی نئی پابندیاں محض علامتی ہیں اور اب تک جو پابندیاں چلی آ رہی ہیں ان کی سختی اور افادیت میں کسی قسم کے اضافے کا باعث نہیں بنیں گی۔ لیکن اس کے باوجود امریکی حکام یہ ظاہر کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف موجودہ پابندیاں نئی ہیں اور وہ تہران پر مزید اقتصادی دباو کا باعث بنیں گی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس بارے میں ٹویٹر پر اپنے پیغام میں کہا ہے: "آج میں نے ایران کا جوہری پروگرام، بیلسٹک میزائل اور فوجی ٹیکنالوجی کو محدود کرنے کیلئے نئے اقدامات انجام دیے ہیں۔"
انہوں نے مزید لکھا: "میری حکومت ہر گز ایران کو جوہری ہتھیاروں تک رسائی یا بیلسٹک میزائلوں اور دیگر فوجی سازوسامان کے نئے ذخائر کے ذریعے باقی دنیا کو خطرے سے روبرو کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔ میں نیا صدارتی حکم جاری کر کے ایران کے خلاف اقوام متحدہ کی پابندیوں کو دوبارہ فعال کر دوں گا اور نئی پابندیاں عائد کرنے، برآمدات کو کنٹرول کرنے اور جوہری سرگرمیوں سے مربوط 24 افراد اور اداروں کے خلاف پابندیاں لگا کر ایران پر مزید دباو ڈالوں گا۔" اسی طرح امریکہ کے وزیر دفاع مارک ایسپر نے کہا ہے: "وہ صدارتی حکم جو آج صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے خلاف نئی پابندیوں اور گذشتہ پابندیوں کے خود بخود دوبارہ فعال ہو جانے کی صورت میں جاری کیا ہے مددگار ثابت ہو گا۔"
مارک ایسپر نے مزید کہا: "یہ صدارتی حکم ایران کی جانب سے فوجی اسلحہ اور سازوسامان کی درآمد اور برآمد کو روک کر امریکہ، اس کے اتحادیوں، اس کے شرکاء کی فورسز اور شہریوں کی حفاظت کرے گا۔" امریکہ کی جانب سے ایران کے خلاف نئی پابندیاں عائد کرنے کا ایک مقصد ایران کے ساتھ جوہری معاہدے میں شریک دیگر مغربی ممالک اور دنیا کی تجارتی کمپنیوں کو خبردار کرنا ہو سکتا ہے تاکہ انہیں ایران کے ساتھ کسی قسم کے تجارتی لین دین خاص طور پر اسلحہ کی تجارت سے باز رکھا جا سکے۔ امریکہ کے وزیر خارجہ مائیک پمپئو نے بھی ایران کے خلاف پابندیوں اور ان کے ممکنہ نتائج کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا: "امریکہ میں بہت سی ایسی کمپنیاں موجود ہیں جو ایران کے ساتھ تجارت کرنے کی خواہاں ہیں۔"
امریکی وزیر خارجہ نے مزید کہا: "امریکہ اس بات کی اجازت نہیں دے گا کہ ایران کیلئے اسلحہ اور فوجی سازوسامان کی اسمگلنگ ممکن ہو سکے۔ لہذا ہم نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 2231 کا سہارا لیتے ہوئے یہ یقین حاصل کرنے کی کوشش کی ہے کہ ایران کو اسلحہ نہیں پہنچے گا۔ امریکہ اقوام متحدہ کی اس قرارداد پر عملدرآمد یقینی بنانے کیلئے بھرپور کردار ادا کرے گا۔ یہ پابندیاں دنیا بھر کی کمپنیوں کے خلاف ایک جیسی عائد کی جائیں گی۔ ہم اس بارے میں یقین حاصل کرنا چاہتے ہیں کہ ایران کو کسی قسم کا پیسہ اور دولت فراہم نہیں کیا جائے گا۔" لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ امریکی حکام کی جانب سے شروع کی جانے والی اس نفسیاتی جنگ کے پیچھے کوئی اور محرکات کارفرما ہیں جنہیں وہ چھپانا چاہ رہے ہیں۔
امریکی حکام کے اس پروپیگنڈے کے پیچھے کارفرما محرکات درج ذیل ہیں:
1)۔ امریکہ میں صہیونی لابی کی سیاسی، میڈیا اور مالی حمایت حاصل کر کے درپیش صدارتی انتخابات میں اس کا فائدہ اٹھانا۔
2)۔ ایران کے خلاف جارحانہ انداز اپنا کر گذشتہ چار سالوں کے دوران خارجہ پالیسی میں ڈونلڈ ٹرمپ کی ناکامیوں پر پردہ ڈالنا۔ امریکہ کو ایران کے علاوہ چین، روس اور شمالی کوریا کے سامنے بھی شدید ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس کے پیچھے بھی انتخابات میں کامیابی کا محرک کارفرما ہے۔
3)۔ ایرانی شہریوں کو نفسیاتی جنگ کا نشانہ بنا کر شدید اضطراب اور بے چینی کا شکار کرنا تاکہ ملک میں موجود اقتصادی بحران کی شدت میں مزید اضافہ ہو جائے۔ خاص طور جب ہم دیکھتے ہیں کہ ایران میں موجود اقتصادی مسائل کی بڑی وجہ نفسیاتی اسباب ہیں۔
روس نے واضح طور پر اعلان کیا ہے کہ امریکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا کردار اپنے ہاتھ میں لینے کا کوئی حق نہیں رکھتا۔ روسی پارلیمنٹ دوما کی بین الاقوامی کمیٹی کے سربراہ لیونیڈ ایسلاٹسکے نے کہا: "بظاہر یوں دکھائی دیتا ہے کہ امریکی حکمران اوہام کا شکار ہیں اور خود کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل تصور کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے رکن ممالک حتی امریکہ کے قریبی اتحادی ممالک بھی گذشتہ چند ماہ کے دوران واضح طور پر ایران کے خلاف امریکہ کے ناجائز مطالبات کو مسترد کر چکے ہیں۔" انہوں نے تحریر: عبدالرضا خلیلیکہا کہ امریکہ نے اپنے ان بچگانہ اقدامات کے ذریعے خود کو پوری عالمی برادری کے مقابلے میں لا کھڑا کیا ہے۔ لہذا یوں محسوس ہوتا ہے کہ امریکہ اسی شاخ کو کاٹنے میں مصروف ہے جس پر خود بھی بیٹھا ہوا ہے
مظلوم فلسطینی قوم کی پیٹھ میں آل خلیفہ کا دوسرا خنجر
متحدہ عرب امارات کے بعد بحرین پر قابض آل خلیفہ رژیم نے بھی فلسطین کاز اور مظلوم فلسطینی قوم کے پیٹھ میں دوسرا خنجر گھونپ دیا ہے۔ البتہ بحرینی حکومت کا یہ اقدام پہلے سے متوقع تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ منامہ ریاض کی کٹھ پتلی حکومت تصور کی جاتی ہے اور وہ سعودی حکمرانوں کی جانب سے ملنے والے احکامات کی بلا تاخیر اور مکمل اطاعت اپنا پہلا فرض تصور کرتی ہے۔ عرب ممالک کے ساتھ اسرائیل کے دوستانہ تعلقات استوار کرنے کی مہم کافی عرصہ پہلے آل سعود رژیم کی جانب سے شروع کی جا چکی تھی۔ اسی مہم کے نتیجے میں اب بحرین بھی متحدہ عرب امارات کے بعد اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھانے والا دوسرا عرب ملک قرار پایا ہے۔
آل خلیفہ رژیم کا یہ اقدام درحقیقت اگلے عرب ملک یعنی سعودی عرب کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے اور اس کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کرنے کا مقدمہ تصور کیا جا رہا ہے۔ آل سعود رژیم اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کیلئے بانہیں پھیلانے کیلئے لمحہ شماری کر رہی ہے تاکہ غاصب صہیونی حکمران کھل کر خلیجی ریاستوں میں اپنے ناپاک عزائم کو عملی جامہ پہنا سکیں۔ اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ بنجمن نیتن یاہو، ڈونلڈ ٹرمپ، محمد بن زاید اور محمد بن سلمان بحرین کے حکمران حمد بن خلیفہ آل ثانی کو اس بات پر قانع کر چکے ہیں کہ اسے بھی اسرائیل سے دوستی کے نتیجے میں وہی مراعات حاصل ہوں گی جو متحدہ عرب امارات کو حاصل ہوئی ہیں۔
لیکن بحرین کے حکمران اس تلخ حقیقت سے غافل ہیں کہ بحرین کی صورتحال متحدہ عرب امارات سے یکسر مختلف ہے۔ اس کی متعدد وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ بحرین کی عوام ایک عرصے سے حکمران رژیم کے خلاف برسرپیکار ہے۔ بحرینی عوام کی اس انقلابی تحریک کو کچلنے کیلئے آل خلیفہ رژیم سعودی عرب اور دیگر ممالک سے کرائے کے فوجی اور قاتل منگوانے پر مجبور ہو چکی ہے۔ لیکن تمام تر آمریت اور بربریت کے باوجود بحرینی قوم پوری شجاعت اور استقامت کے ساتھ میدان میں حاضر ہے اور ڈکٹیٹر حکمرانوں کے خلاف عوامی احتجاج اور مظاہرے جاری ہیں۔ بحرینی عوام یہ ثابت کرنے کیلئے پرعزم دکھائی دیتے ہیں کہ آل خلیفہ رژیم امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب کے ہاتھ میں ایک کٹھ پتلی کے علاوہ کوئی حیثیت نہیں رکھتی اور ذرہ برابر عوامی محبوبیت کی حامل نہیں ہے۔
اگر اسرائیلی حکمران یہ تصور کرتے ہیں کہ بحرینی حکمرانوں کے ساتھ دوستی قائم کرنے سے وہ بحرینی عوام میں بھی جگہ بنا لیں گے تو یہ ان کی شدید غلط فہمی ہے کیونکہ بحرینی عوام شدت سے فلسطین کاز اور مظلوم فلسطینی قوم کے حامی ہیں۔ اگرچہ آل خلیفہ رژیم نے پارلیمنٹ میں سینکڑوں کٹھ پتلی اراکین بٹھا کر خود کو بحرینی عوام کا نمائندہ ظاہر کیا ہوا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ بحرین کے حقیقی عوام وہ لاکھوں افراد ہیں جو گذشتہ دس برس سے ان ظالم حکمرانوں کے خلاف سڑکوں پر موجود ہیں اور سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔ بحرین کا متحدہ عرب امارات سے مختلف ہونے کی دوسری وجہ اسرائیلی حکمرانوں کی نظر میں اس کی حیثیت ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اپنی وزارت عظمی کی کرسی بچانے کیلئے زیادہ سے زیادہ عرب ممالک کو ساتھ ملانے کی کوشش میں مصروف ہے۔
بنجمن نیتن یاہو کی نظر میں بحرین کی حیثیت صرف اسی حد تک ہے کہ اسرائیل کی دوستی پر راضی کئے گئے عرب ممالک کی تعداد ایک سے بڑھ کر دو ہو گئی ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم کیلئے درپیش سیاسی بحران سے باہر نکلنے کیلئے اسی حد تک کافی ہے اور اس سے بڑھ کر بحرینی حکمرانوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ تیسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ کیا آل خلیفہ رژیم اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کرنے کی محتاج اور ضرورت مند تھی؟ سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس اقدام کا واحد مقصد اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو سیاسی موت سے نجات دلانا ہے۔ نیتن یاہو اور ڈونلڈ ٹرمپ آئندہ الیکشن میں کامیابی کیلئے شدت سے بعض ایسے اقدامات کے محتاج تھے جنہیں وہ اپنی خارجہ پالیسی میں بڑی کامیابی کے طور پر ظاہر کر کے پیش کر سکیں۔
متحدہ عرب امارات اور بحرین پر مسلط حکمرانوں نے جان کی بازی لگا کر ڈونلڈ ٹرمپ اور بنجمن نیتن یاہو کو اندرونی سیاست میں کامیابی کیلئے مدد فراہم کی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آل خلیفہ رژیم کے اس اقدام کے بعد بحرین میں جاری عوامی انقلابی تحریک میں مزید شدت آئے گی اور اس کا نتیجہ آل خلیفہ رژیم کے زوال کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ بحرین کی باغیرت قوم ہر گز اپنے حکمرانوں کی یہ غداری برداشت نہیں کرے گی۔ دوسری طرف فلسطین کے تمام محب وطن گروہ اب اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ انہیں قدس شریف کی آزادی
کیلئے عرب حکمرانوں سے کوئی امید وابستہ نہیں رکھنی چاہئے۔ اسی احساس کے ساتھ وہ آپس میں متحد ہونا شروع ہو گئے ہیں اور اسلامی جمہوریہ ایران کے اس اصولی موقف کی حقانیت کو بھانپ چکے ہیں کہ مسئلہ فلسطین کا واحد حل مسلح جدوجہد اور اسلامی مزاحمت ہے۔
۔۔۔اے گرفتار ابوبکرؓ و علیؑ
ہر صاحب عقل دیکھ رہا ہے کہ وطن عزیز کے اندر پچھلے چند سالوں کے امن و امان کے بعد ایک مرتبہ پھر ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت فرقہ واریت کی آگ بھڑکانے کی بھرپور کوششیں جاری ہیں اور باہمی منافرت کی فضا کو پروان چڑھایا جا رہا ہے، جس کا نتیجہ یقیناً نہ تو اسلام اور مسلمانوں کے حق میں نیک شگون ہے اور نہ ہی مادر وطن کے باسیوں کیلیے اچھا ہے۔ انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ آپس کے نظریاتی اختلافات کو برداشت کرنے کی بجائے اسے جھگڑے کا ذریعہ بنایا جا رہا ہے، حالانکہ کسی بھی انسانی معاشرے میں ایک دوسرے کے مقدسات کو محفوظ رکھتے ہوئے اختلاف رائے رکھنا ایک طبیعی امر سمجھا جاتا ہے۔ ایسے میں بدقسمتی سے بعض لوگ نادانستہ طور پر یا کسی بیرونی دشمن کی ایماء پر ایسے ماحول میں جلتی پر تیل کا رول ادا کرتے نظر آتے ہیں۔
اس سلسلے میں معروف تجزیہ نگار جناب نذر حافی "ایک اقلیت طاقتور لوگوں کی" کے عنوان سے اپنی ایک تحریر میں یوں رقمطراز ہیں "پاکستان میں شیعہ اور سنی دونوں ہی کمزور ہیں، یہ اکثریت میں ہونے کے باوجود اتنے کمزور ہیں کہ ان کی قسمت کے فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں۔ یہ دونوں فرقے ایک طاقتور اقلیت کے ہاتھوں یرغمال ہیں، یہ اقلیت نہیں بلکہ ایک پریشر گروپ ہے، یہ پریشر گروپ انہیں آپس میں مل بیٹھنے اور سوچنے کا موقع نہیں دیتا۔" آپ مزید لکھتے ہیں "کہ وہ اقلیت اتنی مضبوط ہے کہ وہ قائد اعظم کو کافر اعظم اور پاکستان کو کافرستان کہہ کر اور آئین پاکستان کا انکار کرنے کے باوجود ہر شعبے کی کلیدی پوسٹوں پر قابض ہے۔"
یہی وجہ ہے کہ وطن عزیز کے کونے کونے میں بالخصوص سوشل میڈیا پر ان دنوں جو مغلظات ایک دوسرے کے خلاف بکے جا رہے ہیں، وہ ناقابل بیان ہیں، مگر خوش قسمتی سے ایسے میں نوجوانوں کے اندر امید کی ایک کرن اس وقت روشن ہوتی نظر آتی ہے، جب پاکستان کے مختلف مسالک فکر کے صاحبان علم و دانش، ان مخصوص طبقات کی جانب سے غیروں کے اشارے پر بھڑکائی گئی اس آگ کو اپنے قلم کے ہتھیار کے سہارے بجھانے کیلیے مستعد و کوشاں نظر آتے ہیں۔ ان میں سرفہرست جماعت اسلامی کے نائب امیر لیاقت بلوچ، البصیرہ ٹرسٹ اسلام آباد کے سربراہ سید ثاقب اکبر، جامعہ نعیمیہ اسلام آباد کے مہتمم مفتی گلزار احمد نعیمی اور نامور محقق ڈاکٹر محسن نقوی دامت برکاتھم کا نام لیا جاسکتا ہے، جو باہم دست و گریباں جوانان ملت اسلامیہ کو ہمہ وقت انتشار اور افتراق سے روکتے نظر آتے ہیں۔
ذیل میں مذکورہ بالا شخصیات کی بعض تحریروں کے چند اقتباسات بہ ترتیب پیش کیے دیتا ہوں۔ جناب لیاقت بلوچ صاحب "فروعی اختلافات کو پھر پہاڑ نہ بنایا جائے" کے عنوان سے اپنی ایک تحریر یوں لکھتے ہیں، "اسلامی معاشرے خصوصاً ملت اسلامیہ میں افراط و تفریط پر مبنی اور اعتدال و توازن سے ہٹ کر اختلاف نے تفریق اور باہمی مخاصمت کو بڑھکاوا دیا ہے۔" موصوف مزید آں رقمطراز ہیں، "امت مسلمہ بیرونی دشمنوں کے حملوں کی زد میں تو ہے ہی، لیکن اندرونی اختلافات نے حالات مزید ابتر کر دیئے ہیں۔" اس کے بعد آپ علامہ اقبالؓ کے اس شعر کو کوڈ کرتے ہیں؛
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کیلئے
نیل کے ساحل سے لیکر تابخاک کاشغر
البصیرہ ٹرسٹ اسلام آباد کے سربراہ سید ثاقب اکبر "پاکستان میں آر ایس ایس کی نئی صورت" کے عنوان سے لکھتے ہیں، "پاکستان میں ان دنوں ایک بظاہر مذہبی گروہ ایسی حرکتیں انجام دے رہا ہے کہ یوں لگتا ہے کہ یہ آر ایس ایس کی نئی صورت اور اس کا پاکستانی برانڈ ہے۔ یہ وہی برانڈ ہے جو ہزاروں انسانوں کا خون بہا چکا ہے۔ اس خون آشام گروہ نے اپنے مخالفین کو کافر کافر کہا اور یہ بھی کہا کہ جو ان کے مورد نظر گروہ کو کافر نہ کہے وہ بھی کافر ہے، اس طرح درحقیقت جو اقلیتی گروہ تھا، وہ اپنے خونین خنجروں اور تلواروں کے زور سے اس ملک میں دندناتا رہا۔" آپ مزید رقمطراز ہیں کہ "پھر جب پاکستان کے اداروں اور سیاسی قوتوں نے ملکر ان سے نمٹنے کا فیصلہ کیا تو وہ زیرزمین چلے گئے۔۔۔ افسوس یہ نقاب بہت عارضی ثابت ہوا اور اب پھر ایک مرتبہ اپنے کریہہ اور وحشی چہروں کے ساتھ سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔"
جامعہ نعیمیہ اسلام آباد کے پرنسپل مفتی گلزار احمد نعیمی اپنی ایک تحریر میں "ان سے بچیں" کے عنوان سے یوں رقمطراز ہیں، "سروں پر دستاریں سجا کے، نورانی شکلیں بنا کر مولا علی کرم اللہ وجھہ کی کسر شان کرنے والے درندہ دھن خارجیوں کی اولاد نہ پہلے آپ کا کچھ بگاڑ سکی اور نہ اب کچھ بگاڑ سکیں گے۔ سادہ لوح مسلمان ان سے بچیں، یہ زہر پر کھانڈ چڑھی ہوتی ہے، پنج تن پاک سے محبت کرنے والے نہ پہلے کم تھے نہ اب کم ہونگے۔" آخر میں لکھتے ہیں، "عاشق تو یہی کہتے ہیں؛
بیدم یہی تو پانچ ہیں مقصود کائنات
خیرالنساء، حسن و حسین، مصطفیٰ، علی
ملک کے نامور محقق ڈاکٹر سید محسن نقوی معروضی حالات کے بارے میں یوں خیالات کا اظہار کرتے ہیں، "متفردات پہ قوموں اور عقائد کے فیصلے کیے گئے تو امت بڑی مشکل میں پڑ جائے گی۔ وہ صحاح ستہ ہوں یا کتب اربعہ، تاریخ کی کتب ہوں یا رجال و تذکروں کی، ان میں ایسی روایات اور متون موجود ہیں جو پاکستان کے قانون، آئین، مذہب اور لا کے تحت قابل دست درازی ہیں، کیا نکالا جائیگا اور رکھا جائے گا۔؟ اپنی ایک دوسری تحریر میں پاکستانی قوم سے محبت اور امن سے رہنے کی تلقین کرتے ہوئے موصوف لکھتے ہیں، "مسلمان بھائیوں سے درخواست ہے کہ دشمن اسلام و دشمن پاکستان سے لڑنے کا وقت کسی بھی لمحہ آسکتا ہے، آپس میں لڑیں گے تو دشمن کا مقابلہ نہیں کرسکیں گے، متحد رہیں۔" آخر میں اقبال لاہوریؓ کے اس فارسی شعر کے ساتھ رخصتی کا طالب ہوں؛
اے کہ نشناسی خفی را از جلی ھشیار باش
اے گرفتار ابوبکرؓ و علیؑ ھشیار باش