
سلیمانی
پیغمبراکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پیکر صلح و رحمت
قرآن کریم، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو بندوں کے لئے رحمت اور خلق عظیم کے نام سے یاد کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ اگر سب لوگ تمہارے پاس جمع ہوگئے ہیںتو یہ آپ کے نرم و ملائم اور فصیح و بلیغ کلام کی وجہ سے ہے اور اگر اس طرح نہ ہوتا تو یہ سب آپ سے دور ہوجاتے ۔ اسی طرح قرآن کریم آپ کے سینہ کی کشادگی اور شرح صدر کے متعلق اس طرح تعریف کرتا ہے ، ان کے لئے بہت سخت ہے کہ تمہیں کوئی مشکل پیش آئے ۔ اور دوسری آیت میں فرماتا ہے : شاید تم چاہتے ہو کہ ان کی ہدایت کی خاطر اپنی جان کو فدا کردو ۔ گذشتہ زمانے میں تحریف ایک ایسا وسیلہ تھا جس سے جاہل اور مغرض افراد استفادہ کرتے ہوئے فائدہ اٹھاتے تھے اور اس کو بار بار بیان کرکے کوشش کرتے تھے کہ تحریف کے موضوع کوایک حقیقت اور واقعیت میں بدل دیں ۔ صدیوں سے خصوصا جنگ صلیبی کے زمانہ سے مغرب میں یہ کوشش کی جاتی تھی کہ پیغمبراکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی شخصیت کو مخدوش کردیں اور آپ کو جنگ طلب اور صلح سے بہت دور معرفی کریں، اور یہ کام ابھی تک مغرب میں جاری ہے یہ لوگ دوسرے مذاہب کے افکار و مقدسات کو تسامع اورتساہل سے بیان کرتے ہیں اورخود کو سکولاریزم کے عنوان سے پہچنواتے ہیں ، ابھی تک ان کے تہذیب و تمدن کے گذشتہ آثار ختم نہیں ہوئے ہیں اس کے باوجود یہ لوگ پیغمبروں کے درمیان فرق کے قائل ہیںجب کہ پیغمبروں کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے اور خداوندعالم نے ان سب کو ایک ہدف کیلئے اور انسانوں کی اصلاح و ہدایت کیلئے بھیجا ہے ، یہ لوگ ایک پیغمبر کو صلح و ثبات والا بیان کرتے ہیںاور دوسرے پیغمبر کو کسی اور طر ح سے پہچنواتے ہیں ۔ یہ لوگ ہمیشہ نفاق و اختلاف کا بیج بوتے رہتے ہیں اور یہی نہیں بلکہ انبیاء میں بھی اختلاف بتاتے ہیں اور ہر روز ایک نیا فتنہ پیغمبر خاتم کیلئے ایجاد کرتے ہیں ، اس محبوب اور مظلوم پیغمبر کی توہین کرتے ہیں، اور کروڑوں مسلمانوں کے دل کو زخمی کرتے ہیں، لیکن ان تمام باتوں کے باوجود قرآن کی شہادت اور آنحضرت کے اقرار اور آپ کی مشہود سیرت عملی ، ہمارے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو اخلاق، صلح، دوستی، برادری، رحمت اور محبت کا پیغمبر بتاتی ہے اور آپ کی مشقت بار زندگی اس بات کی گواہ ہے ۔ یہاں پر مختصر طور پر مندرجہ بالا خصوصیات کی وضاحت کریں گے: ١۔بندوں کے لئے رحمت اور خلق عظیم قرآن کریم، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو بندوں کے لئے رحمت اور خلق عظیم کے نام سے یاد کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ اگر سب لوگ تمہارے پاس جمع ہوگئے ہیںتو یہ آپ کے نرم و ملائم اور فصیح و بلیغ کلام کی وجہ سے ہے اور اگر اس طرح نہ ہوتا تو یہ سب آپ سے دور ہوجاتے ۔ اسی طرح قرآن کریم آپ کے سینہ کی کشادگی اور شرح صدر کے متعلق اس طرح تعریف کرتا ہے ، ان کے لئے بہت سخت ہے کہ تمہیں کوئی مشکل پیش آئے ۔ اور دوسری آیت میں فرماتا ہے : شاید تم چاہتے ہو کہ ان کی ہدایت کی خاطر اپنی جان کو فدا کردو ۔ ٢۔ گذشتہ انبیاء کی رسالت کو کامل کرنے اوراخلاقی کمالات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے مبعوث ہوا پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اپنی بعثت کے ہدف کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں گذشتہ انبیاء کی رسالت کو کامل کرنے اوراخلاقی کمالات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے مبعوث ہوا ہوں، لہذا آپ نے گذشتہ انبیاء کی رسالت کو جاری رکھا ، پورا قرآن کریم ،گذشتہ انبیاء کے اعتقاد اور ان کے احترام سے بھرا ہوا ہے اور گذشتہ انبیاء کی کتب اور ان کی رسالت کا بھی قرآن کریم میں تذکرہ ملتاہے ۔ ٣- صلح و آرامش کو اپنا ہدف قرار دینا ۔ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے اپنی زندگی میں اپنی عملی سیرت کے ذریعہ ()اور جنگجو و سرکش قوم کے درمیان زندگی بسر کرکے ایسی امت بنائی جو اپنے کینہ اور حسد کو بھول گئی اور انہوں نے اپنی قدرت و طاقت یعنی فتح مکہ کے وقت بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی پیروی کرتے ہوئے صلح و آرامش کو اپنا ہدف قرار دیا ، بعض جگہوں پر ایمان لانے والے اپنے زمانہ جاہلیت کے قصہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)سے بیان کرتے تھے اور آپ ان حادثات کو بیان کرنے سے منع کرتے تھے یا دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ آپ ان کی وحشی گری اور بے رحمی کی باتوں کو برداشت نہیں کرپاتے تھے ، آپ نے اپنے بیٹے ابراہیم کی موت اور اپنے چچا حضرت حمزہ(ع) کی شہادت پر گریہ و عزاداری کرکے اس معاشرہ میں ایک قسم کے عاطفہ، رحم اور احساسات کو جگایا، آپ جاہلی معاشرہ پر اپنے اثرات چھوڑرہے تھے ، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے مہاجر و انصار اور دوسرے مسلمانوں کے درمیان جو ارتباط و عاطفہ پیدا کیا وہ ان لوگوں کیلئے ایک بہترین پیغام تھاجو اپنے جاہلیت کے زمانہ کے بغض و حسد کو زمانہ اسلام میں بھی قائم کرنے کی کوشش کرتے تھے ۔ ٤۔ مسلمانوں کے درمیان عقد اخوت قائم کرنا اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ظہور اسلام کے بعد عرب کے قوانین و احکام میں ایک عمیق تبدیلی پیدا ہوگئی ، اور یہ تبدیلی، اسلام کے جدید قوانین و احکام اور رسوم جاہلی کے آداب ، افکاراورعقاید سے مستقم تعارض ہونے کی وجہ سے آئی تھی ،ان میں سے بعض احکام کو اسلام نے تاسیس کیا اور بعض احکام کی تائید کی اور ان کے اندر اصلاحات اور تبدیلیاں انجام دیں، اور جاہلیت کے تمام مظاہر کو ان سے حذف کردیا جیسے حج کے احکام سے شرک کے مظاہر کو حذف کردیا گیا ۔ بعض افراد ہمارے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے عقد اخوت کو جاہلی کے عہدو پیمان ''حلف'' سے تعبیر کرتے ہیں ، وہ لوگ اس بات کی طرف توجہ نہیں کرتے کہ ہمارے پیغمبر اکرم نے جو کام انجام دیا ہے وہ زمانہ جاہلی کے عہد و پیمان ''حلف'' کے برخلاف ہے ، ہمارے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے عہد و پیمان میں بندہ اور مولی ، ضعیف و قوی ، ثروتمند و فقیر کا رابطہ مساوی سمجھا جاتا تھا اور اپنے آپ سے زیادہ دوسروں کو نزدیک سمجھتے تھے یہاں تک کہ ایک دوسرے کو وصیت کرتے تھے لہذا آپ نے فرمایا : '' لا حلف فی الاسلام''۔ ٥۔ قوم اور قبیلہ کے عقیدے کو ختم کرنا زمانہ جاہلیت کی عداوت، دشمنی، بغض اور حسد ان کے دلوں میں باقی رہ گیا تھا خاص طورسے انصار کے دل ، بھرے ہوئے تھے ، یہ ایسی حقیقت ہے جس کی قرآن کریم نے بھی تصریح کی ہے(جس وقت تم لوگ آپس میں دشمن تھے)اور یہ دشمنی ظاہری نہیں تھی جو ایک آدمی یا چند افراد کے وسیلے سے ختم ہوجاتی بلکہ یہ اجتماعی مشکل اس قدرعمیق تھی کہ خداوند عالم نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)سے فرمایا: اگر تم زمین کی تمام قیمت کو ان پر صرف کردیتے تو یہ کام انجام نہ پاتا ۔ اور خداوند عالم نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے اس عمل کو اس کی اہمیت و ارزش کی وجہ سے اپنی طرف نسبت دی ہے اور یہ کوئی سیاسی یا کسی خاص زمانہ کیلئے کام نہیں تھا جس کوالفاظ یا نعروں میں خلاصہ کردیا جائے اور اسی طرح قوم وقبیلہ کے عقیدہ کا معیار اس طر ح ہوگیا کہ مختلف قوم و قبیلہ کے لوگ اس زمانہ میں ایک مسلمان امت ''المومنون اخوة'' کے زمرہ میں آگئے لہذا جو کاروان مدینہ آئے انہوں نے آپ کے اس اقدام کا بہت زیادہ ااستقبال کیا اور انہوں نے اسلام کو قبول کرلیا ، اسی طرح پیغمبراکرم کے دوسرے بہت سے اقدامات ہیں جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے زندہ و جاوید معجزے ہیں اور یہ سب آپ کے اخلاق حسنہ ، رحمت، محبت، صلح اور برادری و بھائی چارگی کی وجہ سے وجو د میں آیا تھا ۔ |
حسنین کے فضائل صحیحین کی روشنی میں
انسان کی مشکلات کا ایک اہم راز
ابنا۔ خداوند عالم نے انسان کو صاحب اختیار بنا کر خلق کیا اور ساتھ ہی انبیاء، ائمہ اور قرآن جیسی کتاب بھیج کر ہدایت کا بھی انتظام کیا۔ اب اسے اچھائی یا برائی کرنے کا اختیار ہے، اگر اچھا کرے گا تو اس کا نتیجہ اچھا اور خوبصورت ہو گا اور اگر برا کرے گا تو اس کا نتیجہ برا ہو گا۔ ہمارے اعمال اچھے ہوتے ہیں تو دنیا بھی خوبصورت ہوتی ہے اور آؒخرت بھی۔ اور اگر ہمارے کام برے ہو جاتے ہیں تو دنیا بھی سخت ہو جاتی ہے اور آخرت بھی برباد ہو جاتی ہے۔
ہمارے کاموں کی نوعیت سے ہماری دنیوی زندگی اور آخرت کی نوعیت مشخص ہوتی ہے، انہیں میں سے ایک اہم مسئلہ ہمارے والدین اور ان کے ساتھ ہماری طرف سے کیا جانے والا برتاؤ ہے، ہمارا برتاؤ ہمارے والدین کے ساتھ ہماری زندگی کے سارے نشیب و فراز کو معین کرتا ہے جیسا جیسا کرتے جاتے ہیں ویسا ویسا صلہ ملتا رہتا ہے، حتیٰ والدین کے ساتھ ہماری زندگی کا ہر گذرا لمحہ دوسرے آنے والے لمحے کے لیے سرنوشت ساز ہوتا ہے۔ اسی سلسلے کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک داستان تحریر کرتے چلیں، ایران کے ایک شہر میں کچھ جوانوں کو پھانسی دیئے جانے کا حکم صادر ہو چکا تھا، ان میں سے ایک جوان کے رشتہ دار شیخ رجب علی خیاط (ایک عارف شخصیت) کی خدمت میں آئے تاکہ شیخ دعا کریں اور کوئی چارہ کار بتائیں، شیخ نے بلا فاصلہ کہا: اس جوان کے اس مصیبت میں گرفتار ہونے کی وجہ اس کی ماں ہے، میں جتنی بھی دعا کر لوں مجھے معلوم ہے کہ کوئی نتیجہ نکلنے والا نہیں۔ لہذا اس کی ماں کے پاس جاؤ۔
کچھ لوگ اس کی ماں کے پاس گئے اور پوچھا کہ آپ اپنے اس جوان بیٹے سے ناراض ہیں؟ ماں نے اس طرح روداد سناتے ہوئے کہا کہ ہاں میں ناراض ہوں۔ کہنے لگی جب میرے بیٹے نے نئی نئی شادی کی، ایک دن جب میں دسترخوان اٹھا رہی تھی کچھ برتن اپنی بہو کے ہاتھ میں پکڑائے کہ انہیں باورچی خانے میں لے جائے۔ میرے بیٹے نے وہ دسترخوان اور برتن اپنی بیوی کے ہاتھ سے لیے اور مجھے کہنے لگا کہ میں آپ کے لیے نوکرانی نہیں لایا ہوں۔ میرے دل پر بہت چوٹ لگی اور مجھے بہت ناگوار گزرا۔ آخرکار ماں راضی ہوتی ہے اور خود اپنے جوان بیٹے کی رہائی کے لیے دعا کرتی ہے اگلے دن اس کا بیٹا آزاد ہو جاتا ہے۔
آج ہم پریشان ہیں دعائیں مانگتے ہیں صدقہ دیتے ہیں، نمازیں پڑھتے ہیں، ہمیں اس کا اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ یہ مار کہاں سے پڑ رہی ہے یا بلکہ کبھی ہم جانتے بوجھتے اس دلدل میں پھستے جاتے ہیں۔ یقین کریں والدین کی ناراضگی دونوں جہاں کو برباد کر دیتی ہے ہمارے والدین کی خوشی ان کی رضایت ہی ہے جو ہمیں طوفانوں سے بچا سکتی ہے۔ مال و دولت چاہیے، اولاد چاہیے زندگی کا سکون چاہیے، بیماریوں سے شفا چاہیے تو والدین کو خوش رکھیں۔ ہم کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ ہم والدین کے سامنے اونچی آواز میں چیخ پکار کریں اور ہمیں دنیا میں عزت مل جائے۔
افسوس اب تو کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بچے خود کو پڑھا لکھا سمجھتے ہیں اور والدین کو نابلد۔ اور اپنی مرضی والدین پر اس نام سے تھونپتے ہیں کہ آپ کو کیا پتا ہے ہم پڑھے لکھے ہیں ہم جانتے ہیں۔ لیکن واللہ جتنا ہم کتابیں پڑھ کر سیکھتے ہیں ہمارے والدین تجربوں اور زندگی کی تلخیوں سے سیکھ چکے ہوتے ہیں۔ صرف اب وہ جان بوجھ کر اظہار نہیں کرتے بلکہ انہیں اظہار کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رہتی۔ وہ تنگ آ کر صرف سنتے ہیں اور ایسا ظاہر کرتے ہیں جیسا کہ وہ کچھ نہیں جانتے، جب کہ وہ اپنے بچوں کی رگ رگ سے واقف ہوتے ہیں حتیٰ یہ بھی جان رہے ہوتے ہیں کہ وہ کیا سوچ رہے ہیں ان کے دماغ میں کیا چل رہا ہے، ہمیں اپنے والدین کے سامنے زیادہ ہوشیار بننے کی ضرورت نہیں بلکہ ان سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔
کبھی کبھی ہم کچھ کہہ کے اور کچھ کر کے نکل جاتے ہیں ظاہرا وہ ایک لفظ، ایک جملہ ایک اشارہ اور ایک چہرے کا رنگ ہوتا ہے، جو والدین کے دل کو ایک سیکنڈ میں جھلسا کر رکھ دیتا ہے شاید والدین اپنی محبت کی بنا پر بھول جائیں اور اکثر بھول ہی جاتے ہیں لیکن وہی ایک جملہ وہی لمحہ ہماری ساری زندگی میں آگ لگا دیتا ہے اور اسے اجاڑ دیتا ہے۔ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ والدین کبھی بھی اولاد کا برا نہیں چاہتے۔ یہ ہماری سوچ ہوتی ہے اور جوانی کا غرور، جو ہماری رفتار و کردار کو آلودہ کر دیتے ہیں۔ آج ہم جہاں پر بھی نظر ڈالتے ہیں جس کو دیکھتے ہیں صرف پریشان حال دیکھتے ہیں۔ ہر طرف آہ و بکا ہے! ہمیں پلٹ کر دیکھنے کی ضرورت ہے کہ یہ کیا ہے؟ ہم کیا کر رہے ہیں؟ اور یہ کیا ہو رہا ہے؟
اور پھر رہا حقوق کا مسئلہ، ایسا تو ضروری نہیں کہ جب ہم ایک کے حق کا خیال رکھیں تو دوسرے کا لازمی پامال کریں، مثلا اگر ہمیں اپنی بیوی کے حق کا خیال ہے کہ یقینا ہونا چاہیے لیکن ضروری تو نہیں کہ ماں کو اذیت کریں، یا اگر ماں کے حق کا لحاظ ہے کہ یقینا یقینا ہونا چاہیے لیکن اس کا لازمہ بیوی کو اذیت پہنچانا نہیں ہے۔ سمجھدار تو وہ ہے جو مسائل کو نزاکت کے ساتھ حل کر سکے۔ مثلا اس واقعہ کے اندر یہ جوان اگر چاہ رہا تھا کہ بیوی کے حق کا لحاظ رکھے (گر چہ ان باتوں سے کسی کا حق ضائع نہیں ہوتا دوسرے کی مدد انسانی تقاضا ہے وہ کوئی بھی ہو سکتا ہے ساس سسر، پڑوسی ہمسفر وغیرہ) تو بہت ہی خوبصورت طریقے کے ساتھ اپنی ماں کے سامنے بچھ جاتا اور کہہ سکتا تھا کہ اماں جان! اپنی خدمت کی سعادت مجھے بخشیں، مجھے اپنی خدمت سے کیوں محروم کر رہی ہیں؟ اس طرح سے وہ اپنی بیوی کے حق کو بھی بچا سکتا تھا اور ماں کی عظمت اور منزلت کو بھی، آپ دیکھیں کتنے خوبصورت نتائج ہو سکتے تھے، ماں کا دل بھی باغ باغ ہو جاتا، خدا بھی خوش ہو جاتا، دنیا اور آخرت معطر ہو جاتی اور بیوی کی تربیت بھی ہو جاتی اور ساتھ ہی ساس اور بہو میں ماں اور بیٹی والی محبت پیدا ہو جاتی۔ خداوند عالم ہماری اصلاح فرمائے، اور اپنے والدین کی قدر و قیمت سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
شہید انسانیت حسین(ع)
تحریر: محمد حسن جمالی
انسان نہیں تها، اللہ تعالیٰ نے اسے خلق کیا، مادی اور معنوی نعمتوں سے نوازا، زندگی کا مقصد سمجهایا، ہدایت اور ضلالت کے راستے دکهائے۔ انسان کی ہدایت کا مکمل انتظام کیا، اس کی راہنمائی کے لئے رسول ظاہری کو بهیجنے کے ساتھ رسول باطنی کو بهی مامور کیا۔ انسان کو راہ راست کی ہدایت کرکے صراط مستقیم پر گامزن رکهنے کے لئے اللہ تعالیٰ کا ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کا بهیجنا اس حقیقت کی طرف واضح اشارہ کرتا ہے کہ انسان ایک مجبور مخلوق نہیں بلکہ اللہ نے انسان کو خود مختار بنایا ہے۔ اگر انسان مجبور ہوتا تو اسے ہادی کی ضرورت ہی نہ ہوتی، درنتیجہ نبیوں و رسولوں کی آمد لغو ہو جاتی اور اس سے خدا کا عبث و بے ہودہ فعل انجام دینا لازم آتا ہے، جبکہ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بے ہودہ و لغو کام انجام دینے سے منزہ ہے۔
انسان کے خود مختار ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے ہدایت اور ضلالت کے راستے بالکل واضح اور نمایاں کرکے انسان کو دکهائے ہیں لیکن راستے کے انتخاب کا حق انسان کو عطا کیا ہے۔ انسان کی اپنی مرضی ہے، چاہے تو ہدایت کا راستہ انتخاب کرکے اس پر چلے یا گمراہی کی راہ اپنا کر اس پر سفر کرے۔ البتہ خدا کا یہ وعدہ ہے جو پورا ہو کر رہے گا کہ روز قیامت ہدایت کی راہ پر چلنے والوں کو جزا اور ضلالت کا راستہ انتخاب کرکے اس پر زندگی گزارنے والوں کو سزا دی جائے گی۔ اسی اختیار کی قدرت سے سوء استفادہ کرتے ہوئے آج دنیا میں انسانوں کی اکثریت ضلالت کے راستے پر گامزن ہے۔ وہ نہ جینے کے سلیقے سے واقف ہے اور نہ مرنے کے طریقے سے آشنا۔ اکثر انسانوں کی نظر میں حیوانوں کی طرح کهانا، پینا اور خواہشتات نفسانی کی تکمیل کرکے تولید نسل کرنا زندگی ہے۔ ان کی نگاہ میں دوسروں پر ظلم کرنا، دوسروں کی جان، مال، عزت اور آبرو سے کهیل کر اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرنا لذت بخش زندگی ہے۔
نواسہ رسول حضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنے عمل کے ذریعے تا ابد بشریت کو جینے اور مرنے کا سلیقہ سکها دیا۔ دنیا میں جی کر مرنے سے تو ہر کوئی آشنا ہے، ہر انسان کو اس بات کا علم ہے کہ دنیا میں آنکھ کهولنے کے بعد ایک مدت تک انسان نے زندہ رہنا ہے، جینا ہے، زندگی کی نعمت سے لطف اندوز ہونا ہے، پهر انجام موت ہے اور مرنا ایک اٹل حقیقت ہے۔ موت سے نہ کوئی بچا ہے اور نہ بچے گا، اس سے فرار کرنا کسی کے لئے ممکن نہیں۔ مظلوم کربلا ابی عبداللہ الحسین علیہ السلام نے دنیائے انسانیت کو نہ فقط حقیقی معنوں میں حیات اور موت کا مفہوم سمجهایا بلکہ نواسہ رسول نے آدم کی آولاد کو مر کر جینا بهی سکها دیا ہے۔ آپ نے مرنے سے پہلے کی زندگی کا تصور یوں پیش کیا ہے کہ اگر لوگ حق سے متصل رہ کر عزت سے زندگی بسر کر رہے ہوں تو واقعی معنوں میں وہ زندہ ہیں، لیکن اگر وہ حق سے منہ موڑ کر باطل کی آغوش میں ذلت سے زندگی کے لمحات گزار رہے ہوں تو ایسی زندگی زندگی نہیں موت ہے۔
زیادہ سے زیادہ دباؤ کی امریکی پالیسی کو زیادہ سے زیادہ امریکی رسوائی میں بدل دینگے، آیت اللہ خامنہ ای
رہبر انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ بعض لوگ عقل کا نام تو لیتے ہیں لیکن اس سے ان کی مراد خوف، مفعولیت اور دشمن کے مقابلے سے گریز ہوتا ہے درحالیکہ فرار کرنے اور ڈرنے
ایرانی سپریم لیڈر نے ملکی معیشت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ملک کو درپیش اقتصادی مسائل میں ہم امریکہ کے خباثت آمیز کردار اور اس کی پابندیوں، جو درحقیقت جرم ہیں، کے بُرے اثرات کو نظر انداز نہیں کرتے البتہ ہم اپنا قیام اور مزاحمت جاری رکھیں گے اور اللہ تعالی کے لطف و کرم سے امریکہ کے زیادہ سے زیادہ دباؤ (کی پالیسی) کو امریکہ کی زیادہ سے زیادہ رسوائی اور پشیمانی میں بدل دیں گے۔ انہوں نے ملکی معیشت کو درپیش مسائل پر امریکی صدر کے اظہار خوشی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ (ایرانی قوم کے خلاف) ایسے جرائم کے ارتکاب
آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے خطاب میں اس بات پر دوبارہ تاکید کرتے ہوئے کہ ملک کی تمام مشکلات کا حل ملک کے اندر موجود ہے، کہا کہ اگرچہ ہماری بہت سی مشکلات کا تعلق بیرون ملک امور کے ساتھ ہے تاہم ان کا علاج ملک کے اندر اور صحیح حساب کتاب پر ہے لہذا ہمیں ان مسائل کا حل ملک سے باہر نہیں ڈھونڈنا چاہئے کیونکہ ملک کے باہر سے ہم نے کوئی بھلائی نہیں دیکھی البتہ امریکی قوم پر مسلط اراذل و اوباشوں کی ہرزہ سرائیاں کسی کی توجہ نہ بٹائے! انہوں نے اپنے خطاب کے آخر میں کرونا وائرس کے حوالے سے احتیاطی تدابیر پر عوامی عملدرآمد کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ جیسا کہ اربعین امام حسین (ع) کے حوالے سے لوگ سرحدوں کی جانب نہیں گئے اور انہوں نے محرم الحرام کے دوران بھی پوری احتیاطی تدابیر پر مکمل عملدرآمد کیا ہے، اب بھی زندگی کے بنیادی مسائل میں پوری احتیاطی تدابیر پر مکمل عملدرآمد کیا جائے تاکہ اس منحوس بیماری سے پیچھا چھڑوایا جا سکے۔
حقوق والدین کا اسلامی تصور ( قرآن وحدیث کی روشنی میں)
فرقہ واریت سے ہوشیار
یوں محسوس ہوتا ہے کہ کچھ افراد یا گروہ نئے سرے سے فرقہ واریت کو پھیلانے میں سرگرم ہوگئے ہیں یا فرقہ واریت کے سلیپر سیلز پھر سے متحرک کیے جا رہے ہیں۔ اس کے لیے وہ تمام افراد جنھوں نے پاکستان میں فرقہ واریت کے خلاف سالہا سال جدوجہد کی ہے، انھیں اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے اور اپنی طاقتوں کو نئے سرے سے مجتمع کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ فرقہ واریت کی نئی لہر کا مقابلہ کیا جاسکے۔ ہمیں یہ بات ملحوظ نظر رکھنا چاہیے کہ اس وقت اسلام دشمن قوتوں کو یہ ضرورت کیوں پیش آئی کہ وہ عالم اسلام میں نئے سرے سے فرقہ واریت کے الائو بھڑکائیں اور نئے سرے سے اس آگ کو روشن کریں۔ اس وقت بھارت جس انداز سے پاکستان پر حملے کے لیے پَر تول رہا ہے، وہ کسی سے مخفی نہیں ہے، بھارت کے اندر مسلمانوں کی حالت زار اور کشمیری مسلمانوں کے خلاف مسلسل کریک ڈائون بھی جاری ہے۔ ہمارے وزیر خارجہ نے بھی اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ بھارت پاکستان میں اپنے سلیپر سیلز پھر سے متحرک کرسکتا ہے۔ ہمیں یہ بات فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ ان سلیپر سیلز میں فرقہ پرست عناصر بھارتی مقاصد کے سب سے بڑے اور اہم آلہ کار ہیں کیونکہ یہی وہ لوگ ہیں، جو مسلمانوں کو اس پاک سرزمین پر آپس میں لڑا کر دشمن کے مقاصد زیادہ پورے کرسکتے ہیں، کیونکہ فرقہ واریت کی آگ شہر بہ شہر، محلہ بہ محلہ اور کوچہ بہ کوچہ پہنچائی جاسکتی ہے۔ ماضی میں ہم اس کے نہایت تلخ اور تکلیف دہ تجربوں سے گزر چکے ہیں۔
دوسری طرف امریکی ایما پر صہیونی غاصب ریاست باقی ماندہ فلسطینی علاقوں کو ہڑپ کرنے کے لیے اپنے منصوبوں کو آگے بڑھا رہی ہے۔ صدی کی ڈیل (Deal of the Centurey) کے یک طرفہ منصوبے پر عمل کے لیے فلسطین کے بچے کھچے حصوں کو اسرائیل میں شامل کرنے کے لیے قدم بہ قدم پیش رفت دکھائی دے رہی ہے۔ پاکستان کے مسلمان اسرائیل کو ایک غاصب ریاست سمجھتے ہیں اور پہلے دن سے فلسطینیوں کے ساتھ ہیں، اگر پاکستانی اور دیگر مسلمان فرقہ وارانہ مسائل میں الجھے ہوئے ہوں تو پھر فلسطینیوں کی حمایت میں کون آواز اٹھائے گا! ہم دیکھ رہے ہیں کہ لیبیا کو بھی مسلمانوں کی باہمی آویزش کا نیا مرکز بنایا جا رہا ہے، جس کا مقصد یہ ہے کہ مصر اور دیگر عرب ریاستیں ایک طرف جبکہ ترکی اور اس کے ساتھی دوسری طرف میدان جنگ میں ایک دوسرے پر آگ برسا رہے ہوں اور اسرائیل اپنے مقاصد پورے کرنے کے لیے آگے بڑھ رہا ہو۔ اس وقت جبکہ ضرورت ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان فلسطین اور کشمیر کے مسلمانوں کے لیے اپنی آواز بلند کریں، اپنے وسائل اکٹھے کریں اور مل کر مظلوموں کی نجات کے لیے جدوجہد کا آغاز کریں، اگر وہ آپس میں الجھ پڑیں تو پھر دشمن کے لیے اس سے بڑی خوشخبری اور کیا ہوسکتی ہے۔
گذشتہ دنوں ایک مولوی صاحب نے پاکستان میں ایک افسوسناک تاریخی واقعے کی بنا پر جس انداز سے حضرت فاطمۃ الزہراؑ کے بارے میں ہرزہ سرائی کی، اس کا ردعمل پاکستان کے تمام مسالک کے علماء کی طرف سے سامنے آیا۔ ضرورت اس بات کی تھی کہ مذکورہ مولوی صاحب مناسب وضاحت کے بعد اپنے دیگر امور و مشاغل میں مصروف ہو جاتے، انھوں نے اب مسئلے کو مستقل فرقہ وارانہ رنگ دینے کے لیے ملک بھر میں جلسوں، جلوسوں اور دھرنوں کا اعلان کر دیا ہے۔ اس کے لیے ان کے پاس ماضی کے واقعات کو نئے زہر آلود انداز میں پیش کرنے کا حربہ ہی موجود ہے۔ پہلے بھی ایسے ہی حربوں کے ذریعے مسلمانوں کو لڑایا جا چکا ہے اور مسلمان ریاستوں کو کمزور کیا جاچکا ہے۔ اس کی روک تھام حکومتی و ریاستی سطح پر بھی ضروری ہے اور علماء و عوام کی سطح پر بھی۔
ہمیں یہ بات افسوس کے ساتھ کہنا پڑتی ہے کہ کچھ عرصے سے بعض علماء نما شیعہ بھی ایسی تقریریں کر رہے ہیں اور ایسی ویڈیوز نشر کر رہے ہیں، جو معاشرے میں مسلمانوں کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کا باعث بن سکتی ہیں۔ یہ بات اس لحاظ سے زیادہ افسوسناک ہے کہ قبل ازیں یہ کہا جاتا تھا کہ بعض ان پڑھ ذاکرین فرقہ ورانہ باتیں کرتے ہیں، لیکن اگر یہی باتیں علماء کا لباس پہن کر بعض افراد شروع کر دیں تو پھر مسئلہ نہایت خطرناک صورت اختیار کر جاتا ہے۔ ہم ایسے تمام افراد کو استعماری اور صہیونی طاقتوں کا شعوری یا لا شعوری آلہ کار سمجھتے ہیں۔ آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای ان افراد کے مکتب کو برطانوی تشیع قرار دیتے ہیں اور انھیں ایم آئی سکس کے ایجنٹ کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے۔
ہر وہ بات اور کوشش جو مسلمانوں کو جوڑنے اور ملانے کے لیے کی جائے قابل قدر ہے اور ہر وہ بات اور کوشش جس کی بنیاد پر مسلمانوں میں تفرقہ اور فرقہ واریت پیدا ہوتی ہو، دشمنوں کے مفاد میں ہے۔ اس سلسلے میں ہمیں ہوشیار اور خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔ اس موقع پر ملی یکجہتی کونسل اور دیگر تمام قوتوں کو نئے سرے سے سر جوڑ کر بیٹھنے اور اس صورت حال کا سنجیدگی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آگ زیادہ پھیل جائے اور ہمیں بعد میں ہوش آئے۔ اس سلسلے میں ہم ایک مثال عرض کرنا چاہیں گے اور وہ یہ ہے کہ گذشتہ دنوں حضرت عمر ابن عبدالعزیز کی قبر کی بے حرمتی کی خبریں جاری ہوئیں، اس پر جس انداز سے بغیر سوچے سمجھے ردعمل سامنے آیا، اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ہم دشمن کی معمولی سی کسی سازش کا شکار ہو کر کس طرح باہم دست و گریباں ہوسکتے ہیں۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز تمام عدالت پسند مسلمانوں کے نزدیک محترم ہیں، کیونکہ انھوں نے خود اپنے خاندان اور آباء کی بعض غلط روایتوں کا قلع قمع کیا اور معاشرے میں عدل و انصاف کی بنیادوں کو نئے سرے سے استوار کرنے کی کوشش کی۔ حضرت عمر ابن عبدالعزیز کا احترام اہل سنت بھی کرتے ہیں اور اہل تشیع بھی، لیکن یہ ظاہر کیا گیا کہ اہل تشیع نے ان کی قبر کی بے حرمتی کی ہے اور یہ الزام بعد میں غلط ثابت ہوگیا۔ اس دوران میں نفرت کی کتنی آگ تھی جو مسلمانوں کے مابین پھیل گئی تھی۔
یہاں ہم ایک اور بات کہنا چاہتے ہیں کہ فرض کیا کہ اپنے آپ کو شیعہ کہلوانے والا کوئی ایک فرد یا گروہ کوئی غلط حرکت کرے یا اپنے آپ کو سنی کہلوانے والا کوئی فرد یا گروہ غلط حرکت کرے تو ہمیں تمام شیعوں یا سنیوں کو مورد الزام نہیں ٹھہرانا چاہیے۔ جب کوئی چور چوری کرتا ہے تو ہم یہ نہیں کہتے کہ یہ شیعہ چور یا سنی چور ہے تو پھر کسی بھی غلط حرکت کرنے والے کو شیعہ یا سنی قرار دے کر تمام اہل تشیع یا اہل تسنن کو نفرت کا نشانہ بنانا کہاں کی دانشمندی ہے۔ ہمیں اس بات کو اصول کے طور پر اختیار کر لینا چاہیے، تاکہ آئندہ ہم کسی سازش کا شکار نہ ہوں۔ یہاں میں ملی یکجہتی کونسل کے احیا گر قاضی حسین احمد مرحوم کے اس شعار کو دہراتا ہوں کہ ہمیں درد مشترک اور قدر مشترک کی بنیاد پر ایک ہو جانا چاہیے۔ میں یہاں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ ہم ماضی کے واقعات کو تبدیل نہیں کرسکتے، لیکن ہم دانش و حکمت سے کام لے کر اپنے مستقبل کو ضرور سنوار سکتے ہیں۔
ملکی امن و امان "دفاع مقدس" کا مرہون منت ہے، ہر جارحیت کا دندان شکن جواب دیا جائیگا، آیت اللہ خامنہ ای
امریکہ، برطانیہ و جرمنی سمیت دنیا بھر کے 40 سے زائد ممالک کے حمایت یافتہ عراقی آمر صدام حسین کی جانب سے ایران پر مسلط کردہ جنگ میں ایران کے فتحیاب ہونے کے سلسلے میں ہر سال "ہفتہ دفاع مقدس" منایا جاتا ہے۔ اس حوالے سے قوم سے ویڈیو خطاب کے دوران ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے تاکید کرتے ہوئے کہا ہے کہ فتحیابی پر مبنی کی یہ حقیقت، امام خمینیؒ کی حیرت انگیز کمان، ملکی دفاع میں معاشرے کے ہر طبقے کی ہمہ جہت شرکت اور مجاہدین کے عقلمندی پر مبنی اقدامات کی مرہون منت ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای نے جنگ کے پیاسے عراقی آمر صدام حسین کو امریکہ سمیت بڑی طاقتوں کا آلۂ کار قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایرانی قوم کے خلاف برسرپیکار اصلی فریق؛ اسلامی انقلاب سے نقصان اٹھانے والا امریکہ، خطے میں ایک نئی اسلامی-ایرانی پاور کے اُبھرنے سے خوفزدہ طاقتیں، نیٹو اور مشرقی و مغربی ممالک تھے، جنہوں نے صدام حسین کو حملے پر اکسایا تھا، تاکہ وہ (نوظہور) اسلامی انقلاب کو تہس نہس کر ڈالے۔
ایرانی سپریم لیڈر نے ایران پر جنگ مسلط کئے جانے سے قبل صدام حسین اور امریکہ کے درمیان طے پانے والی مفاہمتوں سے متعلق منظر عام پر آنے والی دستاویزات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران پر مسلط کی جانے والی جنگ کے دوران بھی مغربی
و مشرقی ممالک کی فوجی، اطلاعاتی اور مالی مدد امارات، کویت، سعودی عرب اور دوسرے رَستوں سے جارح صدام حسین کو ملتی رہی۔ انہوں نے جنگ کے آغاز سے لے کر دفاع مقدس کے اختتام تک جاری رہنے والی امام خمینیؒ کی قیادت کو انتہائی حساس و حیرت انگیز قرار دیتے ہوئے کہا کہ امام خمینیؒ نے جنگ کے آغاز سے ہی پیش آنے والے پیکار کی وسعت کو پہچان لیا اور اپنی حیرت انگیز دوراندیشی کے ذریعے اعلان کیا کہ یہ جنگ دو ہمسایہ ممالک کی جنگ نہیں بلکہ اسلامی انقلاب اور ایرانی قوم کے دشمنوں نے صدام حسین کی اوٹ میں اسلامی نظام حکومت کے خلاف صف آرائی کر رکھی ہے۔
آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے اسلامی انقلاب کے شروع میں مسلط کی جانے والی بھیانک جنگ کو صلاحیتوں کے نکھرنے کا سبب قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس میدان میں عوام کی وسیع شرکت سے انتہائی اہم استعدادیں وجود میں آئی ہیں، مثال کے طور پر کرمان کے ایک گاؤں سے تعلق رکھنے والا معمولی سا نوجوان "حاج قاسم سلیمانی" بن گیا یا ایک جوان فوجی افسر شہید صیاد شیرازی اور شہید بابائی جیسا تجربہ کار اور طاقتور کمانڈر بن گیا اور ایک سادہ سا خبرنگار محاذ جنگ پر پیش آنے والے حوادث کے سبب شہید باقری جیسے اطلاعات کے ماہر میں بدل گیا۔ انہوں نے ملکی امن و امان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان قربانیوں سے حاصل ہونے
والا ایک انتہائی قیمتی سرمایہ "امن و امان" ہے، جو "دفاع مقدس" کی برکت سے حاصل ہوا ہے، کیونکہ ایرانی قوم کے دفاع نے ثابت کر دکھایا ہے کہ اس ملک کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کرنے کی قیمت بہت زیادہ ہے اور ہر جارح طاقت دندان شکن جواب سے دوچار ہوگی، بنابرایں جارح قوتوں کو ہر اقدام سے قبل سوچنا پڑتا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے خود اعتمادی اور تکنیکی و سائنسی ایجادات کی جانب بڑھتے قدموں کو "دفاع مقدس" کا ایک اور ثمر قرار دیا اور کہا کہ اُس وقت جب ایرانی شہر دشمن کے میزائلوں کا نشانہ بن رہے تھے، کوئی ملک ہمیں میزائل یا دوسرا فوجی ساز و سامان دینے کو تیار نہیں تھا جبکہ اسی دوران شہید طہرانی مقدم اور ان کے دوست و احباب کی جانب سے میزائل کی ایرانی صنعت کی بنیاد رکھ دی گئی اور آج کی ایرانی میزائل پاور اسی خود اعتمادی اور اس زمانے کی علمی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے بظاہر ناممکن کاموں کو انجام دینے کی جرأت اور ملکی انسانی سرمائے کے فروغ کو دفاع مقدس کا ایک اور نتیجہ قرار دیا اور کہا کہ دفاعِ مقدس کے اس انسانی سرمائے کا ایک واضح نمونہ شہید (قاسم) سلیمانی ہیں، جو خطے کے اندر سفارتکاری کے حیرت انگیز کارنامے انجام دیا کرتے تھے جبکہ دنیا تاحال ان کی وسیع سرگرمیوں کے بارے بطور کافی معلومات نہیں رکھتی۔
آیت اللہ خامنہ
ای نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ جنگ ایک خوفناک و پرتشدد چیز کا نام ہے، تاہم اپنی تمام مشکلات اور نقصانات کے باوجود، دفاعِ مقدس ایرانی قوم کے لئے مختلف قسم کی برکتوں، بشارتوں، ترقیوں اور تازگیوں کا حامل رہا ہے۔ انہوں نے حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے حرم کا دفاع کرنے والے مجاہدین کو دفاع مقدس کی برکتوں اور نئی نسل کے اندر جہادی جذبے کے تسلسل کا ایک نمونہ قرار دیا اور کہا کہ ایرانی، شامی، عراقی، لبنانی اور افغانی اقوام سمیت دنیا بھر کی مختلف قوموں کا صفِ واحد میں آجانا ہمارے زمانے کی حیرت انگیز حقیقتوں میں سے ایک ہے۔ انہوں نے اپنے خطاب کے آخر میں منحوس کرونا وائرس کے وسیع پھیلاؤ اور اس کے باعث ہونے والی وسیع اموات پر اظہار تاسف کرتے ہوئے کہا کہ اس افسوسناک مرض کا علاج خود عوام کے ہاتھ میں اور مناسب فاصلے کی رعایت، ماسک کے استعمال اور مسلسل ہاتھ دھونے جیسی احتیاطی تدابیر میں مضمر ہے۔ رہبر انقلاب نے جاری سال کے دوران اربعین حسینیؑ کے حوالے سے کہا کہ ایرانی قوم حضرت امام حسینؑ اور زیارتِ اربعین کی عاشق ہے، تاہم چہلم واک صرف اور صرف ماہرین کی رائے پر ملتوی کی گئی ہے جبکہ ہم سب کو (ماہرین کا) مطیع و فرمانبردار رہنا چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ اس سال اربعین سید الشہداء علیہ السلام کی زیارت گھروں میں پڑھی جائے۔
امریکی جان لیں! جنرل سلیمانی کی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہر شخص کو نشانہ بنائینگے، میجر جنرل حسین سلامی
ایرانی انقلابی گارڈز سپاہ پاسداران کے سربراہ میجر جنرل حسین سلامی نے "ہفتۂ دفاع" کی مناسبت سے منعقد ہونے والی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے امام خمینیؒ کو ایسا عظیم انسان قرار دیا، جنہوں نے امتِ مسلمہ کی کھوئی ہوئی عظمت کو دوبارہ بحال کرتے ہوئے دین مبین اسلام کو زندہ کرنے کے لئے الہیٰ پیغمبروں جیسا کردار ادا کیا ہے۔ سپاہ قدس کے سربراہ نے شہداء کو ایرانی فخر کے آسمان پر چکمتے ستاروں سے تعبیر کیا اور کہا کہ ہمارے عظیم شہداء کے جنازے اس قوم کی عزت و عظمت کی خاطر زمین پر گرے ہیں، تاکہ ہم سربلند باقی رہیں۔ انہوں نے کہا ان عظیم شہداء نے اپنا سب کچھ جہاد فی سبیل اللہ میں لگا دیا اور دشمنوں کا ان کے گھروں تک پیچھا کرکے اُنہیں سزا دی ہے اور یوں وہ ایرانی قوم کو ہمیشگی کا تحفہ دے گئے ہیں۔
سپاہ پاسداران ایران
کے سربراہ نے شہید جنرل قاسم سلیمانی کو مزاحمتی محاذ کے سید الشہداء کے لقب سے یاد کرتے ہوئے کہا کہ جنرل قاسم سلیمانی ہمارے شہداء کے درمیان سورج کے مانند چمک رہے ہیں، جو اسلام، انقلاب، ولایت اور قوم کے ساتھ اپنی وفاداری میں بے مثال تھے۔ میجر جنرل حسین سلامی نے کہا کہ وہ گذشتہ سال تو ہمارے درمیان موجود تھے، تاہم اس سال وہ اللہ تعالیٰ کے حضور اور اصحابِ عاشوراء کے درمیان موجود اپنے باقی چھوڑے ہوئے جہادی رَستے کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ اگر ایرانی انقلاب وجود میں نہ آتا تو امریکہ پوری دنیا کو ہڑپ کر جاتا، کہا کہ یہ ہمارا انقلاب ہی تھا جس نے امریکہ کو خاتمے کے قریب پہنچا دیا ہے جبکہ آج کا امریکہ سیاسی رونقوں سے عاری، بے رمق، ناتواں اور شکست خوردہ حالت میں میدان کے درمیان موجود ہے۔
انہوں
نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ اسلامی انقلاب نے امریکہ کو اس کی محفوظ سے پناہگاہوں سے باہر نکال کر عملی میدان میں الجھا دیا ہے، کہا کہ آج نہ صرف امریکہ کی فوجی طاقت ختم ہو کر رہ گئی ہے بلکہ وہ کسی بھی قسم کی کامیابی حاصل کرنے کے قابل بھی نہیں رہا۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے کسی جنگ میں کامیاب نہیں ہوا مگر فوجی اتحاد کے ہمراہ، تاہم وہ اس فوجی اتحاد کو بھی اپنے لئے فائدہ مند نہیں بنا پایا۔ میجر جنرل حسین سلامی نے اپنے خطاب کے دوران امریکی زبوں حالی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اکیسویں صدی کے آغاز کے ساتھ ہی امریکی صدی بھی ختم ہوگئی، جس کی اصلی وجہ اس کے ظلم و ستم کے مقابلے میں اسلامی جمہوریہ ایران کی مزاحمت ہے۔
سپاہ قدس کے سربراہ نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ آج سیاسی اعتبار سے بھی امریکہ تنہاء ہوچکا
ہے، جیسا کہ ایران پر اسلحہ جاتی پابندیوں میں توسیع کے معاملے میں حتیٰ وہ اپنے ہمیشہ کے اتحادی بھی کھو بیٹھا ہے۔ میجر جنرل حسین سلامی نے امریکی صدر کی حالیہ ہرزہ سرائی کے جواب میں ڈونلڈ ٹرمپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مسٹر ٹرمپ! جنرل قاسم سلیمانی کی ٹارگٹ کلنگ پر ہمارا انتقام حتمی، سنجیدہ اور حقیقی ہے، لیکن ہم عزت و وقار کے حامل ہیں، جو جوانمردی اور انصاف کے ساتھ انتقام لیتے ہیں۔ انہوں نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ آپ کا خیال ہے کہ ہم اپنے شہید بھائی (جنرل سلیمانی) کے خون کا بدلہ "جنوبی افریقہ میں موجود ایک خاتون سفیر" سے لیں گے؟ نہیں بلکہ ہم اُن افراد کو نشانہ بنائیں گے، جو اس عظیم انسان (جنرل سلیمانی) کی ٹارگٹ کلنگ میں بلاواسطہ یا بالواسطہ طور پر شریک رہے ہیں اور جان لو کہ جو شخص بھی اس جرم میں شریک رہا ہے، ضرور بالضرور
نشانہ بنایا جائے گا، یہ ایک سنجیدہ پیغام ہے!
ایرانی سپاہ پاسداران کے سربراہ نے امریکی صدر کی جانب سے دی جانے والے حالیہ دھمکیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ تم ہمیں ہزار گنا بڑے حملے کی دھمکی دیتے ہو! ہم تمہیں جانتے ہیں؛ اس وقت جب ہم نے عین الاسد کو نشانہ بنایا تھا تو ہمارا خیال تھا کہ تمہاری جانب سے جواب دیا جائے گا، لہذا ہم نے سینکڑوں میزائل تیار کر رکھے تھے، تاکہ اگر تمہاری طرف سے جواب آیا تو تمہارا سب کچھ تباہ کر دیا جائے۔ میجر جنرل حسین سلامی نے اپنے خطاب کے آخر میں دشمن (امریکہ و اس کے اتحادیوں) پر اپنی مکمل بالادستی پر تاکید کرتے ہوئے کہا کہ مسٹر ٹرمپ! اگر کسی ایرانی کے سر کا ایک بال بھی کم ہوا تو ہم تمہارے چھکے چھڑا دیں گے، یہ ایک سنجیدہ دھمکی ہے اور ہم اپنی ہر بات کو عمل سے ثابت کرتے ہیں!
ایران کے خلاف نئی امریکی پابندیوں کے پس پردہ محرکات
اکثر سیاسی اور اقتصادی ماہرین کا خیال ہے کہ امریکہ کی جانب سے ایران کے خلاف عائد کی جانے والی نئی پابندیاں محض علامتی ہیں اور اب تک جو پابندیاں چلی آ رہی ہیں ان کی سختی اور افادیت میں کسی قسم کے اضافے کا باعث نہیں بنیں گی۔ لیکن اس کے باوجود امریکی حکام یہ ظاہر کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف موجودہ پابندیاں نئی ہیں اور وہ تہران پر مزید اقتصادی دباو کا باعث بنیں گی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس بارے میں ٹویٹر پر اپنے پیغام میں کہا ہے: "آج میں نے ایران کا جوہری پروگرام، بیلسٹک میزائل اور فوجی ٹیکنالوجی کو محدود کرنے کیلئے نئے اقدامات انجام دیے ہیں۔"
انہوں نے مزید لکھا: "میری حکومت ہر گز ایران کو جوہری ہتھیاروں تک رسائی یا بیلسٹک میزائلوں اور دیگر فوجی سازوسامان کے نئے ذخائر کے ذریعے باقی دنیا کو خطرے سے روبرو کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔ میں نیا صدارتی حکم جاری کر کے ایران کے خلاف اقوام متحدہ کی پابندیوں کو دوبارہ فعال کر دوں گا اور نئی پابندیاں عائد کرنے، برآمدات کو کنٹرول کرنے اور جوہری سرگرمیوں سے مربوط 24 افراد اور اداروں کے خلاف پابندیاں لگا کر ایران پر مزید دباو ڈالوں گا۔" اسی طرح امریکہ کے وزیر دفاع مارک ایسپر نے کہا ہے: "وہ صدارتی حکم جو آج صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے خلاف نئی پابندیوں اور گذشتہ پابندیوں کے خود بخود دوبارہ فعال ہو جانے کی صورت میں جاری کیا ہے مددگار ثابت ہو گا۔"
مارک ایسپر نے مزید کہا: "یہ صدارتی حکم ایران کی جانب سے فوجی اسلحہ اور سازوسامان کی درآمد اور برآمد کو روک کر امریکہ، اس کے اتحادیوں، اس کے شرکاء کی فورسز اور شہریوں کی حفاظت کرے گا۔" امریکہ کی جانب سے ایران کے خلاف نئی پابندیاں عائد کرنے کا ایک مقصد ایران کے ساتھ جوہری معاہدے میں شریک دیگر مغربی ممالک اور دنیا کی تجارتی کمپنیوں کو خبردار کرنا ہو سکتا ہے تاکہ انہیں ایران کے ساتھ کسی قسم کے تجارتی لین دین خاص طور پر اسلحہ کی تجارت سے باز رکھا جا سکے۔ امریکہ کے وزیر خارجہ مائیک پمپئو نے بھی ایران کے خلاف پابندیوں اور ان کے ممکنہ نتائج کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا: "امریکہ میں بہت سی ایسی کمپنیاں موجود ہیں جو ایران کے ساتھ تجارت کرنے کی خواہاں ہیں۔"
امریکی وزیر خارجہ نے مزید کہا: "امریکہ اس بات کی اجازت نہیں دے گا کہ ایران کیلئے اسلحہ اور فوجی سازوسامان کی اسمگلنگ ممکن ہو سکے۔ لہذا ہم نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 2231 کا سہارا لیتے ہوئے یہ یقین حاصل کرنے کی کوشش کی ہے کہ ایران کو اسلحہ نہیں پہنچے گا۔ امریکہ اقوام متحدہ کی اس قرارداد پر عملدرآمد یقینی بنانے کیلئے بھرپور کردار ادا کرے گا۔ یہ پابندیاں دنیا بھر کی کمپنیوں کے خلاف ایک جیسی عائد کی جائیں گی۔ ہم اس بارے میں یقین حاصل کرنا چاہتے ہیں کہ ایران کو کسی قسم کا پیسہ اور دولت فراہم نہیں کیا جائے گا۔" لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ امریکی حکام کی جانب سے شروع کی جانے والی اس نفسیاتی جنگ کے پیچھے کوئی اور محرکات کارفرما ہیں جنہیں وہ چھپانا چاہ رہے ہیں۔
امریکی حکام کے اس پروپیگنڈے کے پیچھے کارفرما محرکات درج ذیل ہیں:
1)۔ امریکہ میں صہیونی لابی کی سیاسی، میڈیا اور مالی حمایت حاصل کر کے درپیش صدارتی انتخابات میں اس کا فائدہ اٹھانا۔
2)۔ ایران کے خلاف جارحانہ انداز اپنا کر گذشتہ چار سالوں کے دوران خارجہ پالیسی میں ڈونلڈ ٹرمپ کی ناکامیوں پر پردہ ڈالنا۔ امریکہ کو ایران کے علاوہ چین، روس اور شمالی کوریا کے سامنے بھی شدید ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس کے پیچھے بھی انتخابات میں کامیابی کا محرک کارفرما ہے۔
3)۔ ایرانی شہریوں کو نفسیاتی جنگ کا نشانہ بنا کر شدید اضطراب اور بے چینی کا شکار کرنا تاکہ ملک میں موجود اقتصادی بحران کی شدت میں مزید اضافہ ہو جائے۔ خاص طور جب ہم دیکھتے ہیں کہ ایران میں موجود اقتصادی مسائل کی بڑی وجہ نفسیاتی اسباب ہیں۔
روس نے واضح طور پر اعلان کیا ہے کہ امریکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا کردار اپنے ہاتھ میں لینے کا کوئی حق نہیں رکھتا۔ روسی پارلیمنٹ دوما کی بین الاقوامی کمیٹی کے سربراہ لیونیڈ ایسلاٹسکے نے کہا: "بظاہر یوں دکھائی دیتا ہے کہ امریکی حکمران اوہام کا شکار ہیں اور خود کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل تصور کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے رکن ممالک حتی امریکہ کے قریبی اتحادی ممالک بھی گذشتہ چند ماہ کے دوران واضح طور پر ایران کے خلاف امریکہ کے ناجائز مطالبات کو مسترد کر چکے ہیں۔" انہوں نے تحریر: عبدالرضا خلیلیکہا کہ امریکہ نے اپنے ان بچگانہ اقدامات کے ذریعے خود کو پوری عالمی برادری کے مقابلے میں لا کھڑا کیا ہے۔ لہذا یوں محسوس ہوتا ہے کہ امریکہ اسی شاخ کو کاٹنے میں مصروف ہے جس پر خود بھی بیٹھا ہوا ہے