سلیمانی

سلیمانی

قرآن کریم، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو بندوں کے لئے رحمت اور خلق عظیم کے نام سے یاد کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ اگر سب لوگ تمہارے پاس جمع ہوگئے ہیںتو یہ آپ کے نرم و ملائم اور فصیح و بلیغ کلام کی وجہ سے ہے اور اگر اس طرح نہ ہوتا تو یہ سب آپ سے دور ہوجاتے ۔ اسی طرح قرآن کریم آپ کے سینہ کی کشادگی اور شرح صدر کے متعلق اس طرح تعریف کرتا ہے ، ان کے لئے بہت سخت ہے کہ تمہیں کوئی مشکل پیش آئے ۔ اور دوسری آیت میں فرماتا ہے : شاید تم چاہتے ہو کہ ان کی ہدایت کی خاطر اپنی جان کو فدا کردو ۔
گذشتہ زمانے میں تحریف ایک ایسا وسیلہ تھا جس سے جاہل اور مغرض افراد استفادہ کرتے ہوئے فائدہ اٹھاتے تھے اور اس کو بار بار بیان کرکے کوشش کرتے تھے کہ تحریف کے موضوع کوایک حقیقت اور واقعیت میں بدل دیں ۔
صدیوں سے خصوصا جنگ صلیبی کے زمانہ سے مغرب میں یہ کوشش کی جاتی تھی کہ پیغمبراکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی شخصیت کو مخدوش کردیں اور آپ کو جنگ طلب اور صلح سے بہت دور معرفی کریں، اور یہ کام ابھی تک مغرب میں جاری ہے یہ لوگ دوسرے مذاہب کے افکار و مقدسات کو تسامع اورتساہل سے بیان کرتے ہیں اورخود کو سکولاریزم کے عنوان سے پہچنواتے ہیں ، ابھی تک ان کے تہذیب و تمدن کے گذشتہ آثار ختم نہیں ہوئے ہیں اس کے باوجود یہ لوگ پیغمبروں کے درمیان فرق کے قائل ہیںجب کہ پیغمبروں کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے اور خداوندعالم نے ان سب کو ایک ہدف کیلئے اور انسانوں کی اصلاح و ہدایت کیلئے بھیجا ہے ، یہ لوگ ایک پیغمبر کو صلح و ثبات والا بیان کرتے ہیںاور دوسرے پیغمبر کو کسی اور طر ح سے پہچنواتے ہیں ۔
یہ لوگ ہمیشہ نفاق و اختلاف کا بیج بوتے رہتے ہیں اور یہی نہیں بلکہ انبیاء میں بھی اختلاف بتاتے ہیں اور ہر روز ایک نیا فتنہ پیغمبر خاتم کیلئے ایجاد کرتے ہیں ، اس محبوب اور مظلوم پیغمبر کی توہین کرتے ہیں، اور کروڑوں مسلمانوں کے دل کو زخمی کرتے ہیں، لیکن ان تمام باتوں کے باوجود قرآن کی شہادت اور آنحضرت کے اقرار اور آپ کی مشہود سیرت عملی ، ہمارے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو اخلاق، صلح، دوستی، برادری، رحمت اور محبت کا پیغمبر بتاتی ہے اور آپ کی مشقت بار زندگی اس بات کی گواہ ہے ۔
یہاں پر مختصر طور پر مندرجہ بالا خصوصیات کی وضاحت کریں گے:

١۔بندوں کے لئے رحمت اور خلق عظیم
قرآن کریم، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو بندوں کے لئے رحمت اور خلق عظیم کے نام سے یاد کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ اگر سب لوگ تمہارے پاس جمع ہوگئے ہیںتو یہ آپ کے نرم و ملائم اور فصیح و بلیغ کلام کی وجہ سے ہے اور اگر اس طرح نہ ہوتا تو یہ سب آپ سے دور ہوجاتے ۔ اسی طرح قرآن کریم آپ کے سینہ کی کشادگی اور شرح صدر کے متعلق اس طرح تعریف کرتا ہے ، ان کے لئے بہت سخت ہے کہ تمہیں کوئی مشکل پیش آئے ۔ اور دوسری آیت میں فرماتا ہے : شاید تم چاہتے ہو کہ ان کی ہدایت کی خاطر اپنی جان کو فدا کردو ۔


٢۔ گذشتہ انبیاء کی رسالت کو کامل کرنے اوراخلاقی کمالات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے مبعوث ہوا
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اپنی بعثت کے ہدف کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں گذشتہ انبیاء کی رسالت کو کامل کرنے اوراخلاقی کمالات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے مبعوث ہوا ہوں، لہذا آپ نے گذشتہ انبیاء کی رسالت کو جاری رکھا ، پورا قرآن کریم ،گذشتہ انبیاء کے اعتقاد اور ان کے احترام سے بھرا ہوا ہے اور گذشتہ انبیاء کی کتب اور ان کی رسالت کا بھی قرآن کریم میں تذکرہ ملتاہے ۔

٣- صلح و آرامش کو اپنا ہدف قرار دینا
۔ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے اپنی زندگی میں اپنی عملی سیرت کے ذریعہ ()اور جنگجو و سرکش قوم کے درمیان زندگی بسر کرکے ایسی امت بنائی جو اپنے کینہ اور حسد کو بھول گئی اور انہوں نے اپنی قدرت و طاقت یعنی فتح مکہ کے وقت بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی پیروی کرتے ہوئے صلح و آرامش کو اپنا ہدف قرار دیا ، بعض جگہوں پر ایمان لانے والے اپنے زمانہ جاہلیت کے قصہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)سے بیان کرتے تھے اور آپ ان حادثات کو بیان کرنے سے منع کرتے تھے یا دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ آپ ان کی وحشی گری اور بے رحمی کی باتوں کو برداشت نہیں کرپاتے تھے ، آپ نے اپنے بیٹے ابراہیم کی موت اور اپنے چچا حضرت حمزہ(ع) کی شہادت پر گریہ و عزاداری کرکے اس معاشرہ میں ایک قسم کے عاطفہ، رحم اور احساسات کو جگایا، آپ جاہلی معاشرہ پر اپنے اثرات چھوڑرہے تھے ، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے مہاجر و انصار اور دوسرے مسلمانوں کے درمیان جو ارتباط و عاطفہ پیدا کیا وہ ان لوگوں کیلئے ایک بہترین پیغام تھاجو اپنے جاہلیت کے زمانہ کے بغض و حسد کو زمانہ اسلام میں بھی قائم کرنے کی کوشش کرتے تھے ۔

٤۔ مسلمانوں کے درمیان عقد اخوت قائم کرنا
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ظہور اسلام کے بعد عرب کے قوانین و احکام میں ایک عمیق تبدیلی پیدا ہوگئی ، اور یہ تبدیلی، اسلام کے جدید قوانین و احکام اور رسوم جاہلی کے آداب ، افکاراورعقاید سے مستقم تعارض ہونے کی وجہ سے آئی تھی ،ان میں سے بعض احکام کو اسلام نے تاسیس کیا اور بعض احکام کی تائید کی اور ان کے اندر اصلاحات اور تبدیلیاں انجام دیں، اور جاہلیت کے تمام مظاہر کو ان سے حذف کردیا جیسے حج کے احکام سے شرک کے مظاہر کو حذف کردیا گیا ۔
بعض افراد ہمارے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے عقد اخوت کو جاہلی کے عہدو پیمان ''حلف'' سے تعبیر کرتے ہیں ، وہ لوگ اس بات کی طرف توجہ نہیں کرتے کہ ہمارے پیغمبر اکرم نے جو کام انجام دیا ہے وہ زمانہ جاہلی کے عہد و پیمان ''حلف'' کے برخلاف ہے ، ہمارے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے عہد و پیمان میں بندہ اور مولی ، ضعیف و قوی ، ثروتمند و فقیر کا رابطہ مساوی سمجھا جاتا تھا اور اپنے آپ سے زیادہ دوسروں کو نزدیک سمجھتے تھے یہاں تک کہ ایک دوسرے کو وصیت کرتے تھے لہذا آپ نے فرمایا : '' لا حلف فی الاسلام''۔


٥۔ قوم اور قبیلہ کے عقیدے کو ختم کرنا
زمانہ جاہلیت کی عداوت، دشمنی، بغض اور حسد ان کے دلوں میں باقی رہ گیا تھا خاص طورسے انصار کے دل ، بھرے ہوئے تھے ، یہ ایسی حقیقت ہے جس کی قرآن کریم نے بھی تصریح کی ہے(جس وقت تم لوگ آپس میں دشمن تھے)اور یہ دشمنی ظاہری نہیں تھی جو ایک آدمی یا چند افراد کے وسیلے سے ختم ہوجاتی بلکہ یہ اجتماعی مشکل اس قدرعمیق تھی کہ خداوند عالم نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)سے فرمایا: اگر تم زمین کی تمام قیمت کو ان پر صرف کردیتے تو یہ کام انجام نہ پاتا ۔ اور خداوند عالم نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے اس عمل کو اس کی اہمیت و ارزش کی وجہ سے اپنی طرف نسبت دی ہے اور یہ کوئی سیاسی یا کسی خاص زمانہ کیلئے کام نہیں تھا جس کوالفاظ یا نعروں میں خلاصہ کردیا جائے اور اسی طرح قوم وقبیلہ کے عقیدہ کا معیار اس طر ح ہوگیا کہ مختلف قوم و قبیلہ کے لوگ اس زمانہ میں ایک مسلمان امت ''المومنون اخوة'' کے زمرہ میں آگئے لہذا جو کاروان مدینہ آئے انہوں نے آپ کے اس اقدام کا بہت زیادہ ااستقبال کیا اور انہوں نے اسلام کو قبول کرلیا ، اسی طرح پیغمبراکرم کے دوسرے بہت سے اقدامات ہیں جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے زندہ و جاوید معجزے ہیں اور یہ سب آپ کے اخلاق حسنہ ، رحمت، محبت، صلح اور برادری و بھائی چارگی کی وجہ سے وجو د میں آیا تھا ۔
 
حسنین کے فضائل صحیحین کی روشنی میں
  مصنف: محمد صادق نجمی
مترجم: محمدمنیرخان ھندی لكھیم پوری

حسنین پرصد قہ حرام ھے
,,عن ابی ھریرة؛ قال:کان رسول(ص) اللّٰہ یُوتیٰ بالتمر عند صِرام النخل، فیجیء ہذا بتمرة ،وہذا من تمرہ ،حتی یصیرعندہ کَوْما من تمر، فجعل الحسن(ع) والحسین(ع) یلعبان بذالک التمر، فاخذاحدھما تمرة، فجعلہ فی فیہ، فنظر الیہ رسول(ص) اللّٰہ(ص)،فاخرجھا من فیہ، فقال: اَمَاْ عَلِمْتَ اَنّّ آلَ مُحَمَّدٍ لَایَاْکُلُوْنَ الْصَّدَقَةَ؟!“[1]
امام بخاری نے ابو ھریرہ سے نقل کیا ھے :
جب خرموں کے توڑنے اور چننے کا وقت ھو جاتا تھاتو لوگ رسول(ص) کے پاس خرمہ زکات کے طور پر لایا کرتے تھے ، چنانچہ حسب دستور لوگ چاروں طرف سے آنحضرت(ص) کی خدمت میں خرمہ لے کر آئیجن کا ایک ڈھیر ہوگیا، حسنین علیھما السلام ان خرموں کے اطراف میں کھیل رھے تھے ،ایک روز ان دونوںشہزادوں میں سے کسی ایک نے ایک خرمہ اٹھا کر اپنے دهن مبارک میں رکھ لیا !جب رسول(ص) نے دیکھا تو اس کو شہزادے کے دهن سے باھر نکال دیا اور فرمایا: ” اَماَ عَلِمْتَ اَنَّ آل مُحَمَّدٍ لَایَاٴکُلُوْنَ الصَّدَقَة“؟اے میرے لال! کیا تمھیں نھیں معلوم آل محمد پر صدقہ حرام ھے، وہ صدقہ نھیں کھاتے؟! [2]
اسی طرح دوسری روایت امام بخاری نے امام حسن (ع) سے یوں منسوب کی ھے:
”ان الحسن بن علی اخذ تمرةمن تمر الصدقة،فجعلھا فی فیہ، فقال النبی(ص): کخ کخ لیطرحھا،ثم قال: اما شعرت انا لا ناکل الصدقة“۔[3]
ایک مرتبہ امام حسن (ع)بن علی (ع)نے صدقہ کا خرمہ منھ میں رکھ لیا تو رسول(ص) نے فرمایا:نہ ،نہ ،چنانچہ امام حسن (ع) نے خرمہ کو منھ سے باھر نکال دیا اس وقت رسول اسلام (ص)نے فرمایا : اے میرے لال ! کیا تمھیں نھیں معلوم کہ آل محمد(ص) پر صدقہ حرام ھے؟!


۲۔ شبیہ ِ رسول(ص) یعنی امام حسن و حسین (ع)
۱۔۔۔,, عن انس قال:لم یکن احد اشبہ بالنبی من الحسن بن علی(ص)“[4]
امام بخاری نے انس بن مالک سے نقل کیا ھے:
امام حسن علیہ السلام رسول خدا(ص) سے سب سے زیادہ شباھت رکھتے تھے۔
۲۔ ۔۔۔”راٴیت النبی وکان الحسن یشبہ “[5]
دوسری روایت میں امام بخاری نے ابن جحیفہ سے نقل کیا ھے:
میں نے رسول(ص) کو دیکھاتھا امام حسن آپ سے بالکل مشابہ ھیں ۔
۳۔… عن عقبة بن الحا رث؛ قال: راٴیت ابابکر (رضی الله عنہ) وحمل الحسن وھو یقول:بابی شبیہ بالنبی(ص) لیس شبیہ بعلی ،وعلی یضحک“[6]
اما م بخاری نے عقبہ ابن حا رث سے نقل کیا ھے :
عقبہ بن حارث کھتے ھیں : ایک روز میں نے دیکھا کہ ابو بکر امام حسن (ع) کو کاندھے پر بٹھائے ہوئے جارھے ھیں اور یہ کہہ رھے ھیں :
میرا باپ قربان ھو جائے آپ پر (اے حسن (ع))آپ شبیہ رسول ھیں نہ کہ شبیہ علی (علیہ السلام) اور علی (ع) اس (قضیہ) کو دیکھ کر مسکرا رھے تھے۔
۴۔… ,,عن انس بن مالک؛ اُتِیَ عبید اللّٰہ بن زیاد براس الحسین(ع) بن علی علیہ السلام، فجُعِل فی طشت ،فجعل یَنْکُت،ُ وقال فی حسنہ شیئاً ،فقال انس: کا ن اشبہھم برسول(ص) اللّٰہ وکان مخضوباً بالوسمہ“[7]
امام بخاری نے انس بن مالک سے نقل کیا ھے :
جب امام حسین علیہ السلام ک ا سر اقدس جو وسمہ سے مخضوب تھا، عبید اللہ بن زیاد علیہ اللعنة الدائمہ کے پاس لایا گیا ،تو آپ کے سر اقدس کو ایک طشت میں رکھا گیا ،ابن زیاد سر کے ساتھ بے احترامی (سر پر لکڑی مار رھا تھا) کررھا تھا اور آپ(ع) کے حسن و زیبائی کے بارے میں کچھ کھتا جاتا تھا ۔ انس بن مالک یہ بات نقل کرنے کے بعد کھتے ھیں : جبکہ امام حسین علیہ السلام سب سے زیادہ رسول اسلام(ص) سے شباھت رکھتے تھے۔

۳۔ حسنین علیھما السلام کے ساتھ آنحضرت (ص)کا بیحد محبت کرنا
,,… عن ابی ھریرة؛قبل رسول الله الحسن بن علی،وعندہ الاقرع بن حا بس التمیمی جالساً،فقال الاقرع: ان لی عشرة من الولد،ماقبلت منھم احدا،ً فنظررسول الله (ص)،ثم قال:من لا یرحم لایرحم “[8]
امام بخاری نے ابوھریرہ سے نقل کیا ھے:
ایک مرتبہ رسول خدا(ص) امام حسن علیہ السلام کے بوسے لے رھے تھے، اس وقت آپ کے پاس اقرع بن حا بس بھی تھا، اس نے کھا: یا رسول(ص) اللہ ! میں دس فرزند رکھتا ہوں لیکن ابھی تک میں نے کسی کا بوسہ نھیں لیا، رسول(ص) نے فرمایا: جس کے دل میں ( فرزند کی) مھر و محبت نہ ھو وہ خدا کی رحمت سے دور رھے گا۔
عرض موٴلف
اس حدیث کو امام احمد بن حنبل نے بھی مسند میں نقل کیا ھے لیکن امام حسن (ع) کی جگہ امام حسین بن علی(ع) کا نام ذکر کیا ھے۔[9]

۴۔ حسنین ریحا نہٴرسول(ص) ھیں
”۔۔۔ عن ابن ابی نعیم ؛قال: کنت شاھداً لابن عمر، وساٴلہ رجل عن دم البعوض، فقال: ممن انت؟ فقال :من اھل العراق، قال:انظروا الی ہٰذا یساٴلنی عن دم البعوض وقد قتلوا ابن النبی(ص)؟وسمعت النبی(ص)یقول:ھما ریحا نتا ی من الدنیا“۔ [10]
امام بخاری نے ابن ابونعیم سے نقل کیا ھے:
میں عبداللہ بن عمر کی مجلس میں تھا کہ کسی نے عبد اللہ ابن عمر سے مچھرکے خون کے بارے میں سوال کیا، عبد اللہ بن عمر نے کھا تو کھاں کا رهنے والا ھے؟اس نے کھا عراق کارهنے والا ہوں،اس وقت عبد اللہ ابن عمر لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور کهنے لگے: اے لوگو! اس شخص کو ذرا دیکھو ،مجھ سے مچھر کے خون کے بارے میں سوال کرتا ھے حا لانکہ یہ لوگ فرزند رسول(ص) امام حسین (ع) کا خون ناحق بھا چکے ھیں ؟! اس کے بعد عبد اللہ ابن عمر نے کھا: میں نے رسول(ص) سے سنا تھا کہ آپ(ع) نے فرمایا میرے یہ دونوںبیٹے ”حسن و حسین ریح ا نتای من الدنیا“ اس دنیا میں میرے پھول ھیں ۔

۵۔ حسنین (ع) کے لئے دعائے رسول(ص)
” … عن ابن عباس ؛قال:کان النبی(ص) یعوذ الحسن والحسین، ویقول: ان اباکما کان یعوذ بھا اسماعیل(ع) و اسحا ق، اعوذ بکلمات اللّٰہ التامّة من کل شیطان وھامّة ومن کل عین لامّة “[11]
امام بخاری نے ابن عباس سے نقل کیا ھے:
رسول(ص) نے امام حسن (ع) و امام حسین (ع) کے بارے میں مخصوص دعا کا تعویذ بنایا اور فرمایا: تمھاریجد ابراھیم نے اپنے دونوں فرزند اسمعیل و اسحا ق کے لئے اسی دعا کا تعویذ بنایا تھا :
,,اعوذ بکلمات اللّٰہ التا مّة من کل شیطان و ھامّة و من کل عین لامّة“

۶۔ اے خدا !جو حسن (ع) کو دوست رکھے تو اسے دوست رکھ
,, …عن ابی ھریرة؛ قال:خرج النبی(ص) فی طائفة النھار،ل ا یکلمنی ولا اکلمہ،حتی اتی سوق بنی قینقاع، فجلس بفناء بیت فاطمة(س)، فقال: اثم لکع اثم لکع؟فحبستْہ شیئاً ،فظننتُ انھاتلبسہ سخاباً اوتغسلہ، فجاء یشتد حتی عانقہ، وقبلہ ،وقال:اللّٰھم احببہ واحبب من یحبہ“[12]
امام بخاری نے ابوھریرہ سے نقل کیا ھے :
ایک روز رسول(ص) خدا اپنے گھر سے بالکل خاموش باھر نکلے ،یھاں تک کہ بازاربنی قینقاع تشریف لائے اور یھاں سے پلٹ کر شہزادی کونین حضرت فاطمہ زھر ا سلام اللہ علیھا کے خانہ ٴ اطھر کے دروازے پر تشریف فرما ہوئے اور اپنے فرزند امام حسن علیہ السلام کو ان لفظوں میں بلانے لگے: کیا لکع یھاں ھے؟ کیا لکع یھاں ھے؟[13]
ابوھریرہ کھتے ھیں : جب فاطمہ زھراسلام اللہ علیھا نے تاخیر کی تو میں نے سوچا کہ شاید آپ نے بچہ کو نظافت کی وجہ سے روک رکھا ھے ، اس کے بعد جب امام حسن علیہ السلام باھر تشریف لائے تورسول(ص)نے شہزادے سے معانقہ کیا اور بوسہ لیا اور اس کے بعد دعا کی:
”اے میرے پروردگار! اس کو دوست رکھ اور جو اس کو دوست رکھے اسے دوست رکھ“
قارئین محترم! یہ تھیں چند وہ آیات و احادیث جو صحیحین میں اھل بیت علیھم السلام کی شان میں نقل کی گئیں ھیں ، انھیں چند صفحا ت کادقت سے مطالعہ کرنے سے پتہ چل جاتا ھے کہ مسئلہٴ خلافت ایسا مسئلہ نہ تھا کہ رسول(ص) فراموش کردیتے اور مسلمانوں کے درمیان اس منصب کے لائق اور حقیقی خلفاء کی نشان دھی نہ کرتے،بلکہ یہ وہ مسئلہ تھا جسے رسو ل(ص) نے ھر جگہ بیان کرنا ضروری سمجھا اور متعدد موارد پر اپنے حقیقی خلفاء کا اعلان فرمایا۔
یہ بات بھی ذهن میں رھے کہ ھم نیجو صحیحین سے اھل بیت (ع)کے فضائل نقل کئے ھیں،یہ صحیحین میں ان کے فضائل کے انبار کے مقابلہ میں جو رسول خدا(ص) سے منقول ھیں اورجو سنیوں کی دیگرمعتبر کتب ِ احادیث و تواریخ میں موجود ھیں ،ایک تنکے سے بھی کم ھیں ،بھر حال اب ھم ان مطالب اوراحادیث کو نقل کرتے ھیں ،جنھیں خلفائے ثلاثہ سے متعلق ان دو کتابوں میں نقل کیاگیا ھے، لیکن اس سے قبل مولائے متقیان حضرت علی(ع) کا ایک خطبہ نقل کر دیں جو آپ نے امامت،خلافت ا ور حکومت کے بارے میں بیان کیا ھے اور نشان دھی فرمائی ھے کہ جو امت کا حا کم ھو اس کے لئے کون سے شرائط لازمی ھیں ۔[14]
________________________
[1] بخاری ج۲، کتاب الزکاة ،باب ”اخذ صدقہ التمر عند صرام النخل“ حدیث ۱۴۱۴۔
[2] مترجم: مذکورہ حدیث سے یہ واضح طور پر ثابت جاتا ھے کہ آل محمد(ع) پرصدقہ حرام ھے اس کا مفہوم یہ ہواکہ اصحا ب کے لئے جائز ھے گویا حرمت صدقہ آل محمد ا(ع)ور اصحا ب کرام کے درمیان حد فاصل ھے، اس حدیث میں امام بخاری نے تھوڑ ا سا اضافہ کیا ھے وہ یہ کہ ”حسنین (ع)نے کھجور کو دہن اقدس میں رکھ لیا تب رسول(ص) نے منع فرمایا “ایسا نھیں ھے بلکہ حسنین کھانے کے ارادہ سے بظاھر دیکھنے والوں کی نظر میں اٹھا رھے تھے ،مگر حقیقت یہ تھی کہ آپ دنیا والوں کی زبان پر اپنی فضیلت زبانِ رسالت سے سنوانا چاھتے تھے کہ آل محمد (ع)اور اصحا ب میں زمین و آسما ن کا فرق ھے، یعنی آپ (ع)یہ بتا نا چاھتے تھے کہ اے مسلمانو! کبھی آل محمد(ص) کے مقابلہ میں اصحا ب کا قیاس نہ کرنا :
”لایُقاسُ بِآلِ محمد(ص) من ہذہ اُلامَّةِ اَحَدٌ وَ لَایُسوَّی بھم مَنْ جَرَتْ نِعَمَتُھم علیہ اَبَداً ہُم اَساسُ الدِّین وَ عِمادُ الیقین اِلیھم یَفِئیُ الغَالِی و بھم یُلْحَقُ التاَّلِی و لَہُم خَصائِص حّقِّ الوِلَایَةِ وَ فِیھم الوَصِیَّةُ وَ الْوِراثَةُ “ شرح نہج البلاغہ ابن الی الحدید جلد۱صفحہ ۳۸ ( خطبہ نمبر۲)
ترجمہ: اس امت میں کسی کو آل محمد(علیھم السلام) پرقیاس نھیں کیا جاسکتا ،کیونکہ جن لوگوں پر ان کے احسانات ھمیشہ جاری رھے ہوں ،وہ ان کے برابر نھیں ہوسکتے، یہ دین کی بنیاد اور یقین کے ستون ھیں ، آگے بڑھ جانے والے کو ان کی طرف پلٹ کر آنا ھے اور پیچھے رہ جانے والے کو ان سے آکر ملنا ھے، حقِ ولایت کی خصوصیات انھیں کے لئے ھیں ، انھیں کے بارے میں پیغمبر کی وصیت اور انھیں کے لئے نبی کی وراثت ھے ۔۱۲
[3] صحیح بخاری جلد۲، کتاب الزکاة ،باب ”مایذکر فی الصدقہ للنبی“(ص) حدیث ۱۴۲۰۔ جلد۴ ،کتاب فضل الجھاد و السیر، باب” من تکلم بالفارسیة“حدیث۲۹۰۷۔
[4] صحیح بخاری جلد۵، کتاب فضایل الصحا بة، باب” مناقب الامام الحسن و الحسین(ع) “ حدیث ۳۵۴۰،۳۵۴۲
[5] صحیح بخاری جلد۴، کتاب المناقب، باب” صفة النبی“حدیث ۳۳۴۹،۳۵۰ ۳۔
[6] صحیح بخاری جلد۵ ،کتاب فضایل الصحا بة، باب ”مناقب الامام الحسن و الحسین(ع) “ جلد۴، کتاب المناقب، باب” صفة النبی“۳۵۴۲، ۳۳۵۰۔
[7] صحیح بخاری جلد۵، کتاب الفضایل الصحا بة، باب ”مناقب الحسن و الحسین(ع) “حدیث۳۵۳۸ ۔
[8] صحیح بخاری جلد۸، کتاب الادب، باب(۱۷)” رحمة الولد و تقبیلہ و معا نقتہ “حدیث ۵۶۵۱۔
[9] مسند احمد بن حنبل جلد ۲ ،مسند ابو ھریرة، ص ۲۴۱ ۔
مترجم: ایک جگہ امام بخاری نے اس طرح نقل کیا ھے:(ع) آنحضرت(ص) نے فرمایا :اللّٰھم انی اُحبّہ فاَ حبَّہ، اے خدا !تو حسن (ع) کو دوست رکھ کیونکہ میں اس کو دوست رکھتا ھو ں۔
صحیح بخاری جلد ۳ ،کتاب الفضایل الصحا بة ،باب ”مناقب حسن(ع) حسین “حدیث ۳۵۳۹،۳۵۳۷،باب ”ذکراسامة بن زید“ حدیث۳۵۲۸۔
[10] صحیح بخاری جلد۸ ،کتاب الادب ،باب ”رحمة الولد و تقبیلہ“ حدیث۵۶۴۸ ۔
مترجم:(صحیح بخاری ج۳ ،کتاب الفضایل الصحا بة، باب(۲۴)”مناقب الحسن والحسین“ ح۳۵۴۳۔)
[11] صحیح بخاری جلد۲ ،کتاب الانبیاء، باب ”(سورہٴ صٰفات آیت ۹۴ )یزفون النسلان“ حدیث۳۱۹۱۔
[12] صحیح بخاری جلد۳، کتاب البیوع، باب(۴۹)” ماذکر فی الاسواق“ حدیث۲۰۱۶۔ جلد ۷، کتاب اللباس، باب(۵۸)” السِخّاب للصبیان“ حدیث۵۵۴۵ ،صحیح مسلم جلد ۷ ،کتاب فضایل الصحا بة، باب(۸ )”فضائل الحسن و الحسین علیھما السلا م“ حدیث۲۴۲۱۔ (معانقہ کے جملے صحیح مسلم میں آئے ھیں صحیح بخاری میں نھیں ۔مترجم )
[13] نوٹ:لکع بمعنی چھوٹا بچہ استعمال کیا جاتا ھے ، دیکھئے :نھایہ ابن اثیر ۔
[14] اگر آپ اس خطبہ کی روشنی میں خلفائے ثلاثہ کی زندگی کو دیکھیں تو پھر آپ کو اس بات کے تسلیم کرنے میں کسی طرح کی شرم اورجھجھک محسوس نہ ھو گی کہ منصب خلافت کے واحد حقدار حضرت علی ابن ابی طالب(ع) تھے۔مترجم۔
 

ابنا۔ خداوند عالم نے انسان کو صاحب اختیار بنا کر خلق کیا اور ساتھ ہی انبیاء، ائمہ اور قرآن جیسی کتاب بھیج کر ہدایت کا بھی انتظام کیا۔ اب اسے اچھائی یا برائی کرنے کا اختیار ہے، اگر اچھا کرے گا تو اس کا نتیجہ اچھا اور خوبصورت ہو گا اور اگر برا کرے گا تو اس کا نتیجہ برا ہو گا۔ ہمارے اعمال اچھے ہوتے ہیں تو دنیا بھی خوبصورت ہوتی ہے اور آؒخرت بھی۔ اور اگر ہمارے کام برے ہو جاتے ہیں تو دنیا بھی سخت ہو جاتی ہے اور آخرت بھی برباد ہو جاتی ہے۔

ہمارے کاموں کی نوعیت سے ہماری دنیوی زندگی اور آخرت کی نوعیت مشخص ہوتی ہے، انہیں میں سے ایک اہم مسئلہ ہمارے والدین اور ان کے ساتھ ہماری طرف سے کیا جانے والا برتاؤ ہے، ہمارا برتاؤ ہمارے والدین کے ساتھ ہماری زندگی کے سارے نشیب و فراز کو معین کرتا ہے جیسا جیسا کرتے جاتے ہیں ویسا ویسا صلہ ملتا رہتا ہے، حتیٰ والدین کے ساتھ ہماری زندگی کا ہر گذرا لمحہ دوسرے آنے والے لمحے کے لیے سرنوشت ساز ہوتا ہے۔ اسی سلسلے کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک داستان تحریر کرتے چلیں، ایران کے ایک شہر میں کچھ جوانوں کو پھانسی دیئے جانے کا حکم صادر ہو چکا تھا، ان میں سے ایک جوان کے رشتہ دار شیخ رجب علی خیاط (ایک عارف شخصیت) کی خدمت میں آئے تاکہ شیخ دعا کریں اور کوئی چارہ کار بتائیں، شیخ نے بلا فاصلہ کہا: اس جوان کے اس مصیبت میں گرفتار ہونے کی وجہ اس کی ماں ہے، میں جتنی بھی دعا کر لوں مجھے معلوم ہے کہ کوئی نتیجہ نکلنے والا نہیں۔ لہذا اس کی ماں کے پاس جاؤ۔

کچھ لوگ اس کی ماں کے پاس گئے اور پوچھا کہ آپ اپنے اس جوان بیٹے سے ناراض ہیں؟ ماں نے اس طرح روداد سناتے ہوئے کہا کہ ہاں میں ناراض ہوں۔ کہنے لگی جب میرے بیٹے نے نئی نئی شادی کی، ایک دن جب میں دسترخوان اٹھا رہی تھی کچھ برتن اپنی بہو کے ہاتھ میں پکڑائے کہ انہیں باورچی خانے میں لے جائے۔ میرے بیٹے نے وہ دسترخوان اور برتن اپنی بیوی کے ہاتھ سے لیے اور مجھے کہنے لگا کہ میں آپ کے لیے نوکرانی نہیں لایا ہوں۔ میرے دل پر بہت چوٹ لگی اور مجھے بہت ناگوار گزرا۔ آخرکار ماں راضی ہوتی ہے اور خود اپنے جوان بیٹے کی رہائی کے لیے دعا کرتی ہے اگلے دن اس کا بیٹا آزاد ہو جاتا ہے۔

آج ہم پریشان ہیں دعائیں مانگتے ہیں صدقہ دیتے ہیں، نمازیں پڑھتے ہیں، ہمیں اس کا اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ یہ مار کہاں سے پڑ رہی ہے یا بلکہ کبھی ہم جانتے بوجھتے اس دلدل میں پھستے جاتے ہیں۔ یقین کریں والدین کی ناراضگی دونوں جہاں کو برباد کر دیتی ہے ہمارے والدین کی خوشی ان کی رضایت ہی ہے جو ہمیں طوفانوں سے بچا سکتی ہے۔ مال و دولت چاہیے، اولاد چاہیے زندگی کا سکون چاہیے، بیماریوں سے شفا چاہیے تو والدین کو خوش رکھیں۔ ہم کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ ہم والدین کے سامنے اونچی آواز میں چیخ پکار کریں اور ہمیں دنیا میں عزت مل جائے۔

افسوس اب تو کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بچے خود کو پڑھا لکھا سمجھتے ہیں اور والدین کو نابلد۔ اور اپنی مرضی والدین پر اس نام سے تھونپتے ہیں کہ آپ کو کیا پتا ہے ہم پڑھے لکھے ہیں ہم جانتے ہیں۔ لیکن واللہ جتنا ہم کتابیں پڑھ کر سیکھتے ہیں ہمارے والدین تجربوں اور زندگی کی تلخیوں سے سیکھ چکے ہوتے ہیں۔ صرف اب وہ جان بوجھ کر اظہار نہیں کرتے بلکہ انہیں اظہار کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رہتی۔ وہ تنگ آ کر صرف سنتے ہیں اور ایسا ظاہر کرتے ہیں جیسا کہ وہ کچھ نہیں جانتے، جب کہ وہ اپنے بچوں کی رگ رگ سے واقف ہوتے ہیں حتیٰ یہ بھی جان رہے ہوتے ہیں کہ وہ کیا سوچ رہے ہیں ان کے دماغ میں کیا چل رہا ہے، ہمیں اپنے والدین کے سامنے زیادہ ہوشیار بننے کی ضرورت نہیں بلکہ ان سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔

کبھی کبھی ہم کچھ کہہ کے اور کچھ کر کے نکل جاتے ہیں ظاہرا وہ ایک لفظ، ایک جملہ ایک اشارہ اور ایک چہرے کا رنگ ہوتا ہے، جو والدین کے دل کو ایک سیکنڈ میں جھلسا کر رکھ دیتا ہے شاید والدین اپنی محبت کی بنا پر بھول جائیں اور اکثر بھول ہی جاتے ہیں لیکن وہی ایک جملہ وہی لمحہ ہماری ساری زندگی میں آگ لگا دیتا ہے اور اسے اجاڑ دیتا ہے۔ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ والدین کبھی بھی اولاد کا برا نہیں چاہتے۔ یہ ہماری سوچ ہوتی ہے اور جوانی کا غرور، جو ہماری رفتار و کردار کو آلودہ کر دیتے ہیں۔ آج ہم جہاں پر بھی نظر ڈالتے ہیں جس کو دیکھتے ہیں صرف پریشان حال دیکھتے ہیں۔ ہر طرف آہ و بکا ہے! ہمیں پلٹ کر دیکھنے کی ضرورت ہے کہ یہ کیا ہے؟ ہم کیا کر رہے ہیں؟ اور یہ کیا ہو رہا ہے؟

اور پھر رہا حقوق کا مسئلہ، ایسا تو ضروری نہیں کہ جب ہم ایک کے حق کا خیال رکھیں تو دوسرے کا لازمی پامال کریں، مثلا اگر ہمیں اپنی بیوی کے حق کا خیال ہے کہ یقینا ہونا چاہیے لیکن ضروری تو نہیں کہ ماں کو اذیت کریں، یا اگر ماں کے حق کا لحاظ ہے کہ یقینا یقینا ہونا چاہیے لیکن اس کا لازمہ بیوی کو اذیت پہنچانا نہیں ہے۔ سمجھدار تو وہ ہے جو مسائل کو نزاکت کے ساتھ حل کر سکے۔ مثلا اس واقعہ کے اندر یہ جوان اگر چاہ رہا تھا کہ بیوی کے حق کا لحاظ رکھے (گر چہ ان باتوں سے کسی کا حق ضائع نہیں ہوتا دوسرے کی مدد انسانی تقاضا ہے وہ کوئی بھی ہو سکتا ہے ساس سسر، پڑوسی ہمسفر وغیرہ) تو بہت ہی خوبصورت طریقے کے ساتھ اپنی ماں کے سامنے بچھ جاتا اور کہہ سکتا تھا کہ اماں جان! اپنی خدمت کی سعادت مجھے بخشیں، مجھے اپنی خدمت سے کیوں محروم کر رہی ہیں؟ اس طرح سے وہ اپنی بیوی کے حق کو بھی بچا سکتا تھا اور ماں کی عظمت اور منزلت کو بھی، آپ دیکھیں کتنے خوبصورت نتائج ہو سکتے تھے، ماں کا دل بھی باغ باغ ہو جاتا، خدا بھی خوش ہو جاتا، دنیا اور آخرت معطر ہو جاتی اور بیوی کی تربیت بھی ہو جاتی اور ساتھ ہی ساس اور بہو میں ماں اور بیٹی والی محبت پیدا ہو جاتی۔ خداوند عالم ہماری اصلاح فرمائے، اور اپنے والدین کی قدر و قیمت سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

Wednesday, 14 October 2020 10:50

شہید انسانیت حسین(ع)

تحریر: محمد حسن جمالی

انسان نہیں تها، اللہ تعالیٰ نے اسے خلق کیا، مادی اور معنوی نعمتوں سے نوازا، زندگی کا مقصد سمجهایا، ہدایت اور ضلالت کے راستے دکهائے۔ انسان کی ہدایت کا مکمل انتظام کیا، اس کی راہنمائی کے لئے رسول ظاہری کو بهیجنے کے ساتھ رسول باطنی کو بهی مامور کیا۔ انسان کو راہ راست کی ہدایت کرکے صراط مستقیم پر گامزن رکهنے کے لئے اللہ تعالیٰ کا ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کا بهیجنا اس حقیقت کی طرف واضح اشارہ کرتا ہے کہ انسان ایک مجبور مخلوق نہیں بلکہ اللہ نے انسان کو خود مختار بنایا ہے۔ اگر انسان مجبور ہوتا تو اسے ہادی کی ضرورت ہی نہ ہوتی، درنتیجہ نبیوں و رسولوں کی آمد لغو ہو جاتی اور اس سے خدا کا عبث و بے ہودہ فعل انجام دینا لازم آتا ہے، جبکہ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بے ہودہ و لغو کام انجام دینے سے منزہ ہے۔

انسان کے خود مختار ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے ہدایت اور ضلالت کے راستے بالکل واضح اور نمایاں کرکے انسان کو دکهائے ہیں لیکن راستے کے انتخاب کا حق انسان کو عطا کیا ہے۔ انسان کی اپنی مرضی ہے، چاہے تو ہدایت کا راستہ انتخاب کرکے اس پر چلے یا گمراہی کی راہ اپنا کر اس پر سفر کرے۔ البتہ خدا کا یہ وعدہ ہے جو پورا ہو کر رہے گا کہ روز قیامت ہدایت کی راہ پر چلنے والوں کو جزا اور ضلالت کا راستہ انتخاب کرکے اس پر زندگی گزارنے والوں کو سزا دی جائے گی۔ اسی اختیار کی قدرت سے سوء استفادہ کرتے ہوئے آج دنیا میں انسانوں کی اکثریت ضلالت کے راستے پر گامزن ہے۔ وہ نہ جینے کے سلیقے سے واقف ہے اور نہ مرنے کے طریقے سے آشنا۔ اکثر انسانوں کی نظر میں حیوانوں کی طرح کهانا، پینا اور خواہشتات نفسانی کی تکمیل کرکے تولید نسل کرنا زندگی ہے۔ ان کی نگاہ میں دوسروں پر ظلم کرنا، دوسروں کی جان، مال، عزت اور آبرو سے کهیل کر اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرنا لذت بخش زندگی ہے۔

نواسہ رسول حضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنے عمل کے ذریعے تا ابد بشریت کو جینے اور مرنے کا سلیقہ سکها دیا۔ دنیا میں جی کر مرنے سے تو ہر کوئی آشنا ہے، ہر انسان کو اس بات کا علم ہے کہ دنیا میں آنکھ کهولنے کے بعد ایک مدت تک انسان نے زندہ رہنا ہے، جینا ہے، زندگی کی نعمت سے لطف اندوز ہونا ہے، پهر انجام موت ہے اور مرنا ایک اٹل حقیقت ہے۔ موت سے نہ کوئی بچا ہے اور نہ بچے گا، اس سے فرار کرنا کسی کے لئے ممکن نہیں۔ مظلوم کربلا ابی عبداللہ الحسین علیہ السلام نے دنیائے انسانیت کو نہ فقط حقیقی معنوں میں حیات اور موت کا مفہوم سمجهایا بلکہ نواسہ رسول نے آدم کی آولاد کو مر کر جینا بهی سکها دیا ہے۔ آپ نے مرنے سے پہلے کی زندگی کا تصور یوں پیش کیا ہے کہ اگر لوگ حق سے متصل رہ کر عزت سے زندگی بسر کر رہے ہوں تو واقعی معنوں میں وہ زندہ ہیں، لیکن اگر وہ حق سے منہ موڑ کر باطل کی آغوش میں ذلت سے زندگی کے لمحات گزار رہے ہوں تو ایسی زندگی زندگی نہیں موت ہے۔

ایرانی سپریم لیڈر اور مسلح افواج کے کمانڈر انچیف آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے تہران کی امام علی (ع) یونیورسٹی میں مشترکہ پاسنگ آؤٹ پریڈ سے ویڈیو لنک پر خطاب کرتے ہوئے دفاعی طاقت، اقتصادی استحکام اور ثقافتی مضبوطی سے متعلق مسائل میں صحیح اور عقل پر مبنی حساب کتاب کو قومی خودمختاری اور قومی تشخص کا ضامن قرار دیا اور کہا کہ ملکی اقتصادی مسائل حکام کی دن رات کی کوششوں، طاقتور، جامع و انتھک انتظامات اور غیرملکی ذرائع کے ساتھ امید لگانے کے بجائے ملکی پیداوار پر توجہ مرکوز کرنے کے ذریعے حل کئے جا سکتے ہیں تاہم امریکی قوم پر مسلط اوباش ٹولے کی ہرزہ سرائیاں کسی کی توجہ نہ بٹائیں۔ آیت اللہ خامنہ ای نے دفاعی طاقت، اقتصادی استحکام اور ثقافتی مضبوطی کو قومی اقتدار کی بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کا حکومتی نظام دفاعی طاقت کی اندازہ گیری، مسلح افواج کے درمیان تقسیمِ کار اور صحیح دفاعی آلات کے تعیّن کے لئے عقل پر مبنی صحیح اور منطقی حساب کتاب پر مشتمل ہے جبکہ قومی مفاد کے حصول اور قومی سالمیت و تشخص کی حفاظت کے لئے لاحق خطرات و ملکی استعداد کی حدود و سطح کی اندازہ گیری کے لئے انتہائی درست و منطقی حساب کتاب کی موجودگی ناگزیر ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ بعض لوگ عقل کا نام تو لیتے ہیں لیکن اس سے ان کی مراد خوف، مفعولیت اور دشمن کے مقابلے سے گریز ہوتا ہے درحالیکہ فرار کرنے اور ڈرنے 
کو عقل نہیں کہتے! انہوں نے کہا کہ بزدلوں کو عقل کا نام لینے کا حق حاصل نہیں کیونکہ عقل کا مطلب درست حساب کتاب ہے تاہم دشمن چاہتا ہے کہ عقل کا غلط معنی ہم پر مسلط کر دے جبکہ ملک کے اندر موجود بعض لوگ نادانستہ طور پر دشمن کے الفاظ دہرانے لگتے ہیں۔ آیت اللہ خامنہ ای نے ایرانی دفاعی طاقت و خطے کے اندر ایرانی میزائل پاور کے حوالے سے امریکی ہرزہ سرائیوں کی بنیادی وجہ اس توانائی کے حصول کے لئے ایران کے انتہائی درست و عقل پر مبنی حساب کتاب کو قرار دیا اور کہا کہ یہ ہرزہ سرائیاں ان کے خوف اور اسی طرح ان میدانوں کے اندر ان کی پسماندگی کے باعث ہیں تاہم ان پراپیگنڈوں کی پرواہ کئے بغیر "عقل پر مبنی حساب کتاب کے نظام" کی حفاظت کی جانا چاہئے جبکہ اللہ تعالی کے لطف و کرم سے اسلامی جمہوریہ ایران ان میدانوں میں مزید ترقی کرے گا۔

ایرانی سپریم لیڈر نے ملکی معیشت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ملک کو درپیش اقتصادی مسائل میں ہم امریکہ کے خباثت آمیز کردار اور اس کی پابندیوں، جو درحقیقت جرم ہیں، کے بُرے اثرات کو نظر انداز نہیں کرتے البتہ ہم اپنا قیام اور مزاحمت جاری رکھیں گے اور اللہ تعالی کے لطف و کرم سے امریکہ کے زیادہ سے زیادہ دباؤ (کی پالیسی) کو امریکہ کی زیادہ سے زیادہ رسوائی اور پشیمانی میں بدل دیں گے۔ انہوں نے ملکی معیشت کو درپیش مسائل پر امریکی صدر کے اظہار خوشی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ (ایرانی قوم کے خلاف) ایسے جرائم کے ارتکاب 
پر صرف تم جیسا رذیل شخص ہی افتخار کر سکتا ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ آج ہزاروں ارب ڈالر کے قومی خسارے اور بھوکے و غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے کروڑوں انسانوں کے ہمراہ امریکہ کی حالت انتہائی بُری ہے جبکہ ایرانی قوم نہ صرف توفیقِ الہی، ایمانی طاقت اور قومی عزم کے ذریعے اپنی تمام مشکلات پر قابو پا لے گی بلکہ عائد پابندیوں کو بھی ملکی معیشت کی حقیقی مضبوطی میں اضافے کے لئے استعمال کرے گی۔

آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے خطاب میں اس بات پر دوبارہ تاکید کرتے ہوئے کہ ملک کی تمام مشکلات کا حل ملک کے اندر موجود ہے، کہا کہ اگرچہ ہماری بہت سی مشکلات کا تعلق بیرون ملک امور کے ساتھ ہے تاہم ان کا علاج ملک کے اندر اور صحیح حساب کتاب پر ہے لہذا ہمیں ان مسائل کا حل ملک سے باہر نہیں ڈھونڈنا چاہئے کیونکہ ملک کے باہر سے ہم نے کوئی بھلائی نہیں دیکھی البتہ امریکی قوم پر مسلط اراذل و اوباشوں کی ہرزہ سرائیاں کسی کی توجہ نہ بٹائے! انہوں نے اپنے خطاب کے آخر میں کرونا وائرس کے حوالے سے احتیاطی تدابیر پر عوامی عملدرآمد کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ جیسا کہ اربعین امام حسین (ع) کے حوالے سے لوگ سرحدوں کی جانب نہیں گئے اور انہوں نے محرم الحرام کے دوران بھی پوری احتیاطی تدابیر پر مکمل عملدرآمد کیا ہے، اب بھی زندگی کے بنیادی مسائل میں پوری احتیاطی تدابیر پر مکمل عملدرآمد کیا جائے تاکہ اس منحوس بیماری سے پیچھا چھڑوایا جا سکے۔
 
 
 
پہلی فصل
احترام والدین

الف۔قرآن کی روشنی میں
ارشاد خداوندی ہوتا ہے:
(وَإِذْ أَخَذْنَا مِیثَاقَ بَنِی إِسْرَائِیلَ لاَتَعْبُدُونَ إِلاَّ اﷲَ وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا )(١)
ترجمہ: اورجب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خدا کے سوا کسی کی عبادت اور پرستش نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنا۔

تحلیل آیت:
اس آیت شریفہ میں اللہ تعا لی دو مطلب کی طرف پوری بشریت کی توجہ کو مبذول فرماتا ہے .توحید عبادی ،یعنی عبادت اور پر ستش کا مستحق صرف خدا ہے، عبادت اور پرستش میں کسی کو شریک قرار دنیااس آیت کے مطابق شرک ہے کیونکہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)بقرۃ آیت ٨٣.

خدانے نفی اور اثبات کی شکل میں فرمایا: لاتعبدون الااﷲ یعنی سوائے خدا کے کسی کی عبادت نہ کرنا کہ یہ جملہ حقیقت میں تو حیدعبادی کو بیان کرناچاہتا ہے اور علم کلام میں تو حید کوچار قسموں میں تقسیم کیا ہے:
١۔ تو حید ذاتی کہ اس مطلب کو متعدد عقلی اور فلسفی دلیلوں سے ثابت کیا گیا ہے۔
٢۔ توحید صفاتی ۔
٣۔ تو حید افعالی۔
٤۔تو حید عبادی۔ توحیدعبادی سے مراد یہ ہے کہ صرف خدا کی عبادت کریں ۔کسی قسم کی عبادت میں کسی کو شریک نہ ٹھر ائیں ۔
لہٰذا ریا جیسی روحی بیماری کو شریعت اسلام میں شدت سے منع کیا گیا ہے اور شرک کو بد ترین گنا ہوں میں سے قراردیا گیا ہے ۔
جیسا کہ خدانے صریحاآیت شریفہ میں بیان کیا ہے کہ تما م گناہ تو بہ کے ذریعہ معاف ہو سکتے ہیں الاالشرک مگر شرک کے کہ اس گناہ کو کبھی معاف نہیں کیا جاسکتا ۔
٢۔ دوسرا مطلب جو خدا نے تو حید عبادی کے ساتھ ذکر فرما یا ہے ''وباالوالدین احسانا''کا جملہ ہے یعنی ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔
دنیا میں ہر انسان فطری طور پر اس چیز کا معتر ف ہے کہ وہ خود بخود وجود میں نہیں آیاہے بلکہ کسی اور انسان کے ذریعہ عدم کی تاریکی سے نکل کروجود کی نعمت سے مالا مال ہوا ۔ لہٰذاانبیاء الٰہی کی تعلیمات اور تاریخی حقائق کے مطالعہ کر نے سے معلوم ہوتا ہے کہ پیدا ئش کے اعتبار سے پوری بشریت تین قسموں میں تقسیم ہوتی ہے :
١۔ یا تو انسان کو والدین کے بغیر خدا نے خلق کیا ہے یہ سنت کائنات میں صرف حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حواء کے ساتھ مخصوص ہے لیکن حضرت آدم کے بعد خدا نے بشر کی خلقت میں والدین کے وجود کو جزعلت قراردیاہے، یعنی والدین کے بغیر حضرت آدم(ع) اور حضرت حوا کے بعد کسی کو وجود نہیں بخشا ہے ۔
٢۔بشریت کی دوسری قسم کو صرف ماں کے ذریعے لباس وجود پہنایا ہے جیسے حضرت عیسی علیہ السلام کہ اس قصہ کو خدانے قرآن مجید میں مفصل بیان کیا ہے ، پیدائش کا یہ طریقہ بھی محدود ہے اورصرف حضرت عیسیٰ سے مخصوص ہے۔
٣۔ تیسری قسم وہ انسان ہے جسے اللہ نے والدین کے ذریعہ وجودمیں لایا ہے۔
لہٰذا حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے علاوہ باقی سارے انسان ماں باپ کے ذریعہ وجود میں آئے ہیں اسی لئے والدین کے ساتھ نیکی کرنا اورحسن سلوک کے ساتھ پیش آنا ہر انسان کی فطری خواہش ہے، اگر چہ معاشرہ اور دیگر عوامل کی تاثیرات اس فطری چاہت کو زندہ اور مردہ رکھنے میں حتمی کردار ادا کرتی ہیں۔
پس اگر معاشرہ اسلامی تہذیب وتمدن کا آئینہ دار ہو تو یہ فطری خواہشات روز بروز زندہ اور مستحکم ہو جاتی ہیں، لیکن اگر کسی معاشرہ پر غیر اسلامی تہذیب وتمدن کی حکمرانی ہو تو فطری خواہشات مردہ ہو جاتی ہیں اور والدین کے ساتھ وہی سلوک روا رکھتے ہیں جو حیوانات کے ساتھ رکھتے ہیں۔
لہٰذا دو ر حاضر میں بہت ایسے واقعات دیکھنے میں آتے ہیں کہ اکثر اولاد والدین کے ساتھ نہ صرف حسن سلوک نہیں رکھتے بلکہ بڑھاپے اورضعیف العمری میں بیمار ماں باپ کی احوال پرسی اور عیادت تک نہیں کرتے، حالانکہ اولاد اپنے وجود میں والدین کی مرہون منت ہیں اور ان کی کا میابی پرورش اور تربیت میں والدین کی زحمتوں اور جانفشانیوں کا عمل دخل ہے۔
لہٰذا روایت میں والدین سے طرز معاشرت کا سلیقہ اور ان کی عظمت اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ والدین کے ساتھ نیکی اور احسان یہ ہے کہ تم والدین کو کو ئی بھی تکلیف نہ پہنچنے دیں ،اگر تم سے کوئی چیز مانگے تو انکار نہ کریں، ان کی آواز پر اپنی آواز کو بلند نہ کرے ان کے پیش قدم نہ ہو ان کی طرف تیز نگاہ سے نہ دیکھو اگر وہ تمھیں مارے تو جواب میں کہو:
''خدا یا ان کے گناہوں کو بخش دے اور اگر وہ تمھیں اذیت دے تو انہیں اف تک نہ کہو''۔(١)

دوسری آیت :
( وَاعْبُدُوا اﷲَ وَلاَتُشْرِکُوا بِہِ شَیْئًا وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا)(٢)
اور خدا ہی کی عبادت کر ے اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھر اؤاور ماں باپ کے سا تھ اچھا سلوک کرو۔

تفسیرآیت :
خداوند کریم اس آیت شریفہ میں تین نکات کی طرف اشارہ فرماتا ہے:
١۔ اللہ کی عبادت کریں۔
٢۔ اس کے ساتھ کسی کوشریک نہ ٹھرائیں ۔
٣۔ ماں باپ کے ساتھ اچھے رفتار سے پیش آئے ۔
تفسیر عیاشی میں ''وبالوالدین احسانا'' کے ذیل میں سلام جعفی نے امام محمد باقر علیہ السلام سے اور آبان بن تغلب نے امام جعفرصادق علیہ السلام سے یوں نقل کیا ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١) ترجمہ حافظ فرمان علی ص ١٦ حاشیہ .
(٢) سورہ نساء آیت ٣٦.

''نزلتْ فی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم وفی علی علیہ السلام'' یعنی یہ آیت ( وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا )
حضرت پیغمبر اکرم (ص) اور حضرت علی علیہ اسلام کے بارے میں نازل ہوئی ہے یعنی کہ ان کے ساتھ اچھے سلوک سے پیش آئیں ۔نیز ابن جلبہ سے منقول روایت اس کی تائید کرتی ہے کہ حضور (ص) نے فرمایا:
'' اناوعلی ابوا ہذہ الامۃ''
یعنی میں اور علی علیہ السلام اس امت کے باپ ہیں پس ان دو رواتیوں کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ وبالوالدین احسانا سے حضرت پیغمبر اور حضرت علی مراد ہے لہٰذا سوال یہ ہے کہ کیوں پیغمبر اکرم (ص) اور حضرت علی کے بارے میں وبالوالدین کا جملہ استعمال ہوا جب کہ عربی زبان میں والدین سے مراد ماں باپ ہیں ۔
جواب یہ ہے جیسا کہ والدین اپنے بچوں کی تربیت اور ترقی وتکامل کے لئے ہر قسم کی زحمتیں اور مشکلات برداشت کرتے ہیں، حضرت پیغمبر (ص)اور حضرت علی علیہ السلام پوری زندگی امت اسلامی کی تربیت اور روحی وفکری نشوو نما کی خاطر ہر قسم کی سختیوں اور رکا وٹوں کو تحمل کرتے رہے۔
لہٰذا قرآن کی نظر میں جہاں والدین سے حسن سلوک ہر مسلمان کا بنیادی فریضہ ہے اسی طرح اولیاء خدا کی اطاعت وفرما نبرداری بھی ایمان کا لازمی حصہ ہے، اس لئے وبالوالدین احساناً حضرت رسول اکرم (ص) اور حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہونا ہماری بات کے ساتھ نہیں ٹکرارہا ہے۔

تیسری آیت:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
( قُلْ تَعَالَوْا أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّکُمْ عَلَیْکُمْ أَلاَّ تُشْرِکُوا بِہِ شَیْئًا وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا)(١)
اے رسول کہدو کہ تم آؤ جو چیزیں تمہارے پروردگار نے حرام قراردیا ہے کہ وہ تمھیں پڑھ کر سناؤں وہ یہ ہے کہ کسی چیز کو خدا کے ساتھ شریک نہ ٹھراؤ اور ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرو ۔
تفسیر آیت :
اللہ تعالی نے سورۃ بقرہ کی آیت نمبر٨٣/اور سورۃ انعام کی آیت نمبر ١٥٢/اور سورہ نساء کی آیت ٣٦/ میں ایک ہی مطلب کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ والدین کے ساتھ اچھا سلوک کریں، صرف خدا کی عبادت کریں۔ اور کسی کو اللہ کا شریک نہ بنائیں کیونکہ شرک (جیسا کہ پہلے بھی اشارہ ہوا ) اسلام میں سب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)سورہ انعام ١٥٢.

سے بڑا گنا ہ محسوب ہوتا ہے۔

چوتھی آیت :
ارشاد خداوندی ہوتا ہے:
( وَقَضَی رَبُّکَ أَلاَّ تَعْبُدُوا إِلاَّ إِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا)(١)
اور تمہا رے پروردگارنے حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ سے نیکی اور اچھا سلوک کرنا۔
تفسیر آیت:
چنانچہ اس آیت شریفہ میں دقت کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح آیات گذشتہ میں خدا نے تو حید عبادی کے ساتھ احترام والدین کا تذکرہ فرمایا ہے اسی طرح اس آیت میں بھی توحید عبادی کے ساتھ والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کا حکم دیا ہے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ خدا کی نظر میں تو حید کے اقرار کے بعد اہم ترین ذمہ داری احترام والدین ہے کیوںکہ ان چاروں آیات میں خدا نے صریحا فرمایا کہ صرف میری عبادت کر ے اور والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں تعجب آور بات ہے کہ بحیثیت مسلمان قرآن مجید کی شب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)سورہ اسرائیل آیت٢٣.

وروز تلاوت کے باوجود بعض افراد ایسی عظیم ذمہ داری سے شانہ خالی کئے بیٹھے ہیں لہٰذا ہر معاشر ے میں بہت سے والدین مشاہدہ میں آتے ہیں جو اپنی اولاد سے ناراض اور ناامید دنیا سے رخت سفر باندھ لیتے ہیں ۔

ب۔ فطرت کی روشنی میں
جب انسان عقل وشعور اور رشد فکری کا مرحلہ طے کرتا ہے تو اپنے اور کائینات کی دوسری مخلوقات کے بارے میں غورو فکر کرتا ہے اور یہ درک کر لیتا ہے کہ اس میں اور باقی مخلوقات میں فرق ہے، لہٰذا وہ اپنی زندگی کو ایک منظم اورباارادہ زندگی قرار دیتا ہے اور زندگی کے نشیب و فراز میں ما ں باپ ہی کو اپنا ہمدر داور مددگار تصور کرتا ہے، قدرتی طور پر اس کا دل والدین کے لئے نرم گوشہ رکھتا ہے ان کے چہرے کی زیارت تسکین قلب کا وسیلہ ہے جب کہ ان سے دوری انسان پر شاق گزرتی ہے ۔اور سب سے بڑھ کریہ کہ والدین کا احترام اور ان سے محبت کرنا زمان ومکان سے بالاتر فطری امر ہے۔
اگرچہ یہ بھی اپنی جگہ ایک مسلم حقیقت ہے کہ معاشرتی او ربیرونی عوامل اس فطری اور طبیعی چاہت پر اثر انداز ہوجاتے ہیں اور اس کی شدت وضعف یا کمی بیشی کا باعث ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن کی متعدد آیات میں والدین کااحترام کرنا کسی خاص گروہ سے مخصوص نہیں کیا ہے ارشاد خداوندی ہے :
( وَوَصَّیْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حُسْنًا وَإِنْ جَاہَدَاکَ لِتُشْرِکَ بِی مَا لَیْسَ لَکَ بِہِ عِلْمٌ فَلاَتُطِعْہُمَا إِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ فَأُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُونَ)(١)
اور ہم نے انسانو ں کو اپنے ماں باپ کے ساتھ نیک برتا ؤ ں کرنے کی نصیحت کی ہے اور اگر وہ تمھیں میرے ساتھ کسی چیز کے شریک ٹھہرانے پر مجبور کر یں کہ جس کا تمھیں علم نہیں ہے تو ان کی اطاعت نہ کرنا (کیو نکہ ) تمھیں میری طرف ہی لوٹ کرآنا ہے پس جو کچھ تم نے(دنیامیں) انجام دیئے ہیں تمھیں خبر دوںکا۔

شان نزولآیت :
اس آیت شریفہ کا شان نزول یوںذکر ہوا ہے کہ سعد بن وقاص کہتا ہے کہ میں اپنی ماں کی بہت خدمت کیا کرتا تھا جب میں مسلمان ہوا تو ما ں نے کہا کہ تو نے یہ کو ن سا دین اختیا ر کیا ہے اس کو چھوڑ دے ورنہ میں کھا نا پینا ترک کروں گی یہا ں تک کہ مرجاؤں اور لوگ تجھے ملامت کریں گے کہ ما ں کا قاتل ہے میں نے کہا کہ یہ ممکن نہیں آخر اس نے کھا نا پینا چھو ڑ دیا جب دو وقت گزر گئے تو میں نے کہا اے اماں اگر تیری سو جانیں ہوں اور ایک ایک مجھ سے جدا ہو اور میں دیکھتا رہوں تو بھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)سور ہ عنکبوت آیت ٨.

میں اپنا دین تر ک نہیں کر سکتا لہٰذا کھائیں اور پیئںورنہ تجھے اختیار ہے ۔

تفسیر آیہئ شریفہ :
خدا نے مذکورہ آیت میں انسانوں سے خطاب کرکے یہ بتلایا ہے کہ والدین کا احترام رکھنے کاجذبہ اور شعور اللہ تعالی نے پہلے سے ہی ہر انسان کی فطرت میں ودیعت کررکھاہے ، دوسرا مطلب یہ ہے کہ اگر والدین اپنے کسی فرزند کو اسلامی اصول وضوابط اور احکام خداوندی پر عمل پیرا ہونے سے منع کرے تو واجب الا طاعت نہیں ہیں کہ حقیقت میں یہ جملہ والدین کے احترام کی حدبندی کی تو ضیح دینا چاہتا ہے۔

دوسری آیت:
( وَوَصَّیْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَیْہِ حَمَلَتْہُ أُمُّہُ وَہْنًا عَلَی وَہْنٍ وَفِصَالُہُ فِی عَامَیْنِ أَنْ اشْکُرْ لِی وَلِوَالِدَیْکَ إِلَیَّ الْمَصِیرُ)(١)
اور ہم نے پورے انسانوں کو اپنے والدین کے ساتھ اچھاسلوک کرنے کا حکم دیا ہے (کیونکہ ) اس کی ماں نے اس کو پیٹ میں سختی پر سختی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)سورہ لقمان آیت١٤.

کے ساتھ برداشت کیا ہے اور اس کی دودھ بڑھائی بھی دوسال میں ہوئی ہے ۔
لہٰذا میرا اور اپنے والدین کا شکریہ ادا کرو کہ تمھاری باز گشت میر ی طرف ہی ہے۔

تفسیر آیت :
اس آیت شریفہ میں دو مطلب کی طرف اشارہ ہے:
١۔احترام والدین کا حکم فطرت انسان سے مربوط ہے لہٰذاحترام والدین مسلمانوں کے ساتھ مختص نہیں ہے ۔
٢۔ماں کے احترام او راس کے ساتھ نیکی کرنے کی علت بھی ذکر کی گئی ہے یعنی ماں کا احترام لازم ہے کیونکہ ماں نے نو ٩/ ماہ تک سختی کے ساتھ پیٹ میں تمھاری حفاظت کی ہے پھر دوسال تک دودھ پلانے کی خاطر زحمتیںاٹھائی ہیں، لہٰذا حقیقت میں دیکھا جائے تو ماں باپ فرزندان کے منعم او رمحسن ہیں اور ہر منعم فطری طورشکر گزاری کا مستحق ہے گویا اللہ تعالی یہ فرمارہا ہے کہ جس طرح میں تمھارا منعم ہوں، اسی طرح والدین بھی تمھارے منعم ہیں ، جس طرح اللہ پر اعتقاد رکھنا ، ان سے محبت کرنا فطری امر ہے اسی طرح والدین سے محبت کرنا اور انکا احترام رکھنا بھی فطرت کا تقاضاہے لہٰذا دونوں آیتوں میں وو صینا الانسان کو الف لام کے ساتھ ذکر کیا ہے ،جوتمام انسانوںکے اس امر میں مساوی ہونے پر دلالت کرتا ہے۔
تیسری آیت:
( وَوَصَّیْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَیْہِ إِحْسَانًا حَمَلَتْہُ أُمُّہُ کُرْہًا وَوَضَعَتْہُ کُرْہًا)(١)
اور ہم نے انسان کو اپنے ما ں باپ کے ساتھ نیکی کرنے کی نصیحت کی ہے (کیونکہ) اس کی ماں نے بہت رنج اور مشقت کے ساتھ شکم میں اس کو برداشت کیا ہے اور بہت ہی رنج کے ساتھ جنا ہے۔
تفسیر آیت :
ان تینوں آیات کا مدلول ایک چیزہے کہ خدا نے فرمایا ہے .کہ ہم نے انسان کو اپنے والدین سے احترام اور اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا ہے . دوسرا مطلب والدین کی اطاعت اور احترام کی حد بندی بھی کی گئی ہے یعنی خالق کی اطاعت کے بعد اولین واجب الاطاعت والدین ہیں لیکن والدین کی اطاعت اور احترام یہاں تک واجب ہے کہ وہ خالق کے مخالفت اور شریک ٹھرانے کا حکم نہ دیں اگر والدین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)سورہ احقاف آیت ١٥.

سے ایسا حکم صادر ہو جائے تو ماننا ضروری نہیںہے،تیسر امطلب یہ ہے کہ باپ سے بھی زیادہ ماں کا احترا م لازم ہے۔
لہٰذا ان آیات کی روشنی میں بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ والدین کا احترام رکھنا کسی خاص مذہب اور فرد کے ساتھ مخصوص نہیں ہے اس لئے تو ریت میں احترام والدین کے بارے میں مستقل ایک فصل ہے یہا ں تک کہ والدین کے ساتھ بدگوئی کرنے یا نا سزا کہنے کی صورت میں پھانسی کا حکم مذ کورہے ۔

ج۔ سنت کی روشنی میں
چنا نچہ گذشتہ بحث سے بخوبی روشن ہوا کہ والدین کے ساتھ احترام اور ان سے نیک برتا ؤں کا حکم ادیان الٰہی میں سے صرف اسلام سے مخصوص نہیں ہے، جیسا کہ قرآن کریم تمام کتب آسمانی کا خلاصہ اور تر جمان کی حیثیت سے حضرت یحيٰعلیہ السلام کی یوں تو صیف کررہا ہے :
(وَکَانَ تَقِیًّا وَبَرًّا بِوَالِدَیْہِ )(١)
اور وہ پر ہیز گار اور ماں باپ کے ساتھ نیکو کار تھے۔
. نیز حضرت عیسی علیہ السلام کے بارے میں ارشاد ہورہا ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)سورہ مریم آیت ١٣، ١٤ .

( یَاأُخْتَ ہَارُونَ مَا کَانَ أَبُوکِ امْرَأَ سَوْءٍ وَمَا کَانَتْ أُمُّکِ بَغِیًّا فَأَشَارَتْ إِلَیْہِ قَالُوا کَیْفَ نُکَلِّمُ مَنْ کَانَ فِی الْمَہْدِ صَبِیًّا قَالَ إِنِّی عَبْدُ اﷲِ آتَانِی الْکِتَابَ وَجَعَلَنِی نَبِیًّا وَجَعَلَنِی مُبَارَکًا أَیْنَ مَا کُنتُ 'وَأَوْصَانِی بِالصَّلَاۃِ وَالزَّکَاۃِ مَا دُمْتُ حَیًّا وَبَرًّا بِوَالِدَتِی وَلَمْ یَجْعَلْنِی جَبَّارًا شَقِیًّا )(١)
(ترجمہ )اے ہارون کی بہن نہ تیرا باپ برا آدمی تھا اور نہ تو تیری ماں بد کارہ تھی (لہٰذا یہ کیاکیا ہے )تو حضرت مریم نے بچے کی طرف اشارہ کیا (کہ کچھ پو چھنا ہے اس سے پوچھ لو ) وہ کہنے لگے کہ ہم پنگوڑے میں موجود بچے سے کیسے گفتگو کریں (اس وقت وہ بچہ ) بولنے لگا کہ بیشک میں خدا کابندہ ہوں مجھ کو اللہ نے کتاب (انجیل ) عطاکی ہے اور مجھ کو نبی قرار دیا ہے ۔اور جہاں کہیں رہوں خدا نے مجھ کو مبارک قرار دیا ہے اور جب تک زندہ رہوں نماز انجام دینے اور زکواۃ دینے کی نصیحت کی ہے اور مجھے اپنی ماں کا فرمانبردار بنایا ہے اور (الحمدللہ) نافرمان اور سرکش قرار نہیں دیا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
( ١)سورہ مریم آیت ٢٨ تا٣٢.

تفسیرآیت :
آیہئ شریفہ میں ایک مطلب یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام چونکہ باپ کے بغیر وجود میں آئے جو عادت اور طبیعت کے خلاف تھا اس لئے حضرت مریم کے خاندان والوں نے ان کو برا بھلا کہا اور ان کی سرزنش کی یہاں تک کہ حضرت مریم (ع) کو ہارون نامی بدکار شخض کی بہن کہہ کے پکارا لیکن خدا نے اس تہمت کو اپنی قدرت سے یوں دورکیا کہ اللہ کے حکم سے حضرت عیسی علیہ السلام نے گہوارے میں ہی ان سے ہم کلام ہو کر انہیں لاجواب کردیا .دوسرا مطلب یہ ہے کہ دونوں آتیوںمیں حضرت عیسیٰ (ع) اور حضرت یحيٰ (ع) کی والدین کے ساتھ نیک برتاؤ کرنے کا تذکرہ ہوا ہے تا کہ یاد دہانی ہوجائے کہ والدین سے خیر وبھلائی کا حکم تمام آسمانی ادیان میں بیان ہوا ہے اور دین اسلام تمام ادیان الٰہی کا نچوڑہونے کی حیثیت سے اس کا ترجمانی کرتا ہے اسی لئے والدین کے ساتھ نیکی کرنے کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے ۔
جناب مرحوم کلینی نے اپنی گراں بہاکتاب اصول کافی میں مفصل ایک باب اسی عنوان کے ساتھ مخصوص کیا ہے،جس میں معصومین علیہم السلام سے مروی روایات کو جمع کیا ہے جن میں سے چند روایات بطور نمونہ ذکر کیا جا تا ہے ،ابن محبوب خالدبن نافع سے وہ محمد بن مروان سے روایت کرتا ہے:
قال : سمعت ابا عبد اللّٰہ علیہ السلام یقول ان رجلا اتی النیی صلی اللّٰہ علیہ والہ وسلم فقال یا رسول اللّٰہ اوصنی فقال لا تشرک باللّٰہ شیأاً وان حرقّت بالنار، وعذبت الا وقلبک مطمئن بالا یمان ووالدیک فاطعمھما وبرّھما حیین کا نا او میتین وان امراک ان تخرج من اھلک ومالک فافعل، فان ذالک من الایمان ۔(١)
(ترجمہ )محمد بن مروان نے کہا کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ایک دن ایک شخض پیغمبر اکرم (ص)کی خدمت میں آیا اور کہا اے خدا کے رسول (ص)مجھے کچھ نصیحت فرما ئیے ۔تو آپ (ص) نے فرمایا کبھی بھی خدا کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھر ائے اگر چہ تجھے آگ میں جلادیا جائے اور طرح طرح کی اذیتیں پہنچا دے پھر بھی اطمینان قلبی سے رہو، اپنے والدین کو کھانا کھلاتے رہو اور ان کے ساتھ نیکی کر وںچا ہے وہ زندہ ہوں یا مردہ اگر چہ وہ تجھے اپنے اہل وعیاں اور مال ودولت سے علیحد گی اختیار کرنے کا حکم دیں توپھر بھی اطاعت کریں کیونکہ یہی ایمان کی علامت ہے ۔

تفسیر وتحلیل:
اس حدیث شریف میں امام جعفرصادق علیہ السلام نے پیغمبر اکرم(ص) کے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)کافی ج٢ ص ١٢٦.

حوالے سے دو مطلب کی طرف اشارہ فرمایا ہے ۔ ایک یہ کہ شرک بہت بڑا جرم ہے۔ کہ اس جرم کا کبھی بھی مرتکب نہ ہو دوسرا والدین کے ساتھ نیکی کرنا کہ ان دو چیزوں کی رعایت سے سعادت دنیوی واخروی سے بہر مند ہو سکتا ہے ۔

دوسری روایت :
دوسری روایت کو حسین بن محمد نے معلی بن محمد سے انہوں نے جناب وشاسے انھوں نے منصور بن حازم سے اور انہوں نے امام جعفرصادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے :
''قال قلت ای الا عمال افضل قال الصلواۃ بوقتھا وبِرُّ الوالدین والجھاد فی سبیل اللّٰہ عز وجل ''(١)
(ترجمہ ) ابن حازم نے کہا کہ میں نے امام جعفرصادق علیہ السلام سے پوچھا کہ اعمال میں سب سے بہترین کو ن سا عمل ہے ؟تو آپ نے فرمایا:
''نماز کو مقررہ وقت پر پڑھنا اوور والدین کے ساتھ نیکی کرنا اور راہ خدا میں جہاد کرنا۔''
اس حدیث میں تین ایسے کاموں کی طرف اشارہ فرمایا ہے جو باقی سارے اعمال سے افضل ہیں نماز کو اس کے مقرر ہ وقت پر انجام دینا کہ ہمارے معاشرے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)کافی ج ١ص١٢٧ .

میںنماز تو انجام دیتے ہیں لیکن وقت کی رعایت نہیں کرتے ایسے افراد کو اگر چہ تارک الصلوۃنہیں کہا جاتا مگر نماز کو عذر شرعی کے بغیر اسکے مقررہ وقت پر انجا م نہ دینے کی خاطر ثواب میں کمی ہو جاتی ہے ۔
دوسرا والدین کی خدمت ہے .والدین عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے جتنے ضعیف ہوں ،بڑھاپے کی وجہ سے ظاہری حلیے میں تبدیلی آگئی ہو اورمزاج کے اعتبار سے ہمارے مخالف ہوں پھر بھی انکی خدمت خدا کی نظر میں بہتر ین کا موں میں سے ہے۔
تیسرا راہ خدا میں جہاد ہے جواس مادی دور میں انسان کے لئے بہت مشکل کا م ہے لیکن نتیجہ اور عاقبت کے لحاظ سے بہترین اعمال میں سے شمار ہوتاہے۔

تیسری روایت :
علی ابن ابراہیم نے محمد بن عیسی سے وہ یونس بن عبدالرحمن سے انہوں نے درست بن ابی منصور سے اور وہ امام موسی کاظم علیہ السلام سے یوں نقل کرتے ہیں:
قال سئل رجل رسول اللّٰہ (ص) ماحق الوالد علی ولدہ قال لا یسمیہ بأ سمہ ولا یمشی بین یدیہ ولا یجلس قبلہ ولاسب لہ۔(١)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)کافی ج٢ ص ١٢٧ .

ترجمہ: امام ہفتم (ع)نے فرمایا کہ ایک دن کسی شخص نے پیغمبر اکرم (ص)سے سوال کیا کہ باپ کا حق فرزند پر کیا ہے ؟
تو آپ نے فرمایا کبھی نام سے ان کو نہ پکارے پیش قدم نہ ہو ۔چلتے ہوئے ان کے آگے نہ ہو ان کو پشت کرکے نہ بیٹھیں اور گالی گلوچ نہ دے ۔

چوتھی روایت:
علی ابن ابراہیم نے محمد بن علی سے انہوں نے حکم بن مسکین سے اور انھوں نے محمد بن مروان سے اور وہ امام ششم سے نقل کرتے ہیں :
''قال ابوعبداللّٰہ علیہ السلام ما یمنع الرجل منکم ببر والدیہ حیین او متیین یصلی عنھما ویتصدق عنھما ویحج عنھما ویصوم عنھما فیکون الذی صنع لھما ولہ مثل ذالک فیزیدہ اللّٰہ عز وجل ببرّہ وصلتہ خیراً کثراً'' (١)
محمد بن مروان نے کہا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کون سی چیز تمہارے والدین کے ساتھ نیکی کرنے میں رکاوٹ ہے؟ چاہے وہ زندہ ہوں یا مردہ نیکی کرنا چاہئے ان کی طرف سے نماز پڑھے ان کے نام سے صدقہ دے اور ان کی طرف سے حج بجالائے اور ان کے حق میں روزہ رکھیں تاکہ خداوندعالم اس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)اصول کافی ج٢ ص ١٢٧.

نیک برتاؤ اور صلہ رحمی کی خاطر اسے خیر کثیر سے مالامال فرمائے۔

پانچوی روایت:
محمد بن یحيٰ نے احمد بن محمد بن عیسی سے انہوں نے معمر بن خلاد سے نقل کیا ہے:
''قلت لابی الحسن الرضا علیہ السلام ادعو لوالدی اذا کانا لا یعرفان الحق قال ادع لہما وتصدق عنہما وان کانا حیین لایعرفان الحق فدارہما فان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم قال ان اللّٰہ بعثنی بالرحمۃ لا بالعقوق''
معمر بن خلاد کہتا ہے کہ میں نے امام رضا علیہ السلام سے سوال کیا کہ کیا میں اپنے ماں باپ کے حق میں دعا کرسکتا ہوں جب کہ وہ دونوں حق سے بے خبر ہوں، تو آپ نے فرمایا کہ ان کے حق میں دعا کریں اور ان کی طرف سے صدقہ دیں اگر وہ زندہ ہیں اور حق سے بے خبر ہیں تو ان کے ساتھ مداراکریں، کیونکہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا ہے کہ خدا نے مجھے رحمت بنا کر مبعوث فرمایا ہے نہ جدائی ڈالنے اور آپس میںدوری کے لئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)اصول کافی ج٢ ص ١٢٧.

چھٹی روایت:
علی بن ابراہیم نے اپنے باپ سے انھوں نے ابن ابی عمَیر سے انہوں نے ہشام بن سالم سے اور انہوں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے:
''قال جاء رجل الی النبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم فقال یا رسول اللّٰہ (ص) من ابرُّ قال امّک قال ثم من، قال امّک، قال ثم من؟ قال امّک قال ثم من؟ قال اباک''(١)
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ ایک شخص پیغمبر اکرم (ص) کی خدمت میں آیا اور پوچھا: اے خدا کے رسول (ص) کس کے ساتھ نیکی کروں؟ آپ نے فرمایا اپنی ماں کے ساتھ نیکی کر پوچھا پھر کس کے ساتھ فرمایا:اپنی ماں کے ساتھ، پھر پوچھا:اس کے بعدفرمایا: اپنی ماں چوتھی دفعہ پوچھا کس کے ساتھ فرمایااپنے باپ کے ساتھ نیکی کر۔
اس روایت میں سائل نے تین دفعہ پیغمبر اکرم (ص)سے پوچھا:آپ (ص)نے تینوں دفعہ ماں کی خدمت کرنے کا حکم دیا اس سے معلوم ہو تا ہے کہ ماں کی خدمت باپ کی خدمت سے زیادہ اہم ہے ،انشاء اللہ اس سلسلے میںماں کی عظمت کے عنوان سے مفصل بحث ہو گی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)کافی ج٢ ص ١٢٨.

ساتویں روایت:
امام جعفرصادق علیہ السلام سے منقول ہے:
'' قال جاء رجل وسأل النبی (ص)عن برالوالدین فقال اَبرّر امک ابررامکّ ابرر اباک ابرر اباک وبداء بالامّ قبل الأب''(١)
امام جعفرصادق علیہ السلام نے فرمایا کہ ایک شخص پیغمبر (ص) کی خدمت میں آیا اور والدین کے ساتھ نیکی کرنے کے بارے میں پوچھا تو آنحضرت (ع) نے فرمایا اپنی ماں کے ساتھ نیکی کر اپنی ماں کے ساتھ نیکی کرے اپنی ماں کے ساتھ نیکی کر(پھر فرمایا ) اپنے باپ کے ساتھ نیکی کراپنے باپ کے ساتھ نیکی کر اپنے باپ کے ساتھ نیکی کر پیغمبر (ص)نے باپ کی خدمت سے پہلے ماں کی خدمت کو ذکر فرمایا اس سے بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ ماں کی عظمت اور اہمیت باپ سے زیادہ ہے۔

د ۔ سیرت انبیاء کی روشنی میں
اگر کو ئی شخص انبیا ء علیہم السلام کی سیرت کا مطا لعہ کرے تو بخوبی واضح ہو جاتی ہے کہ والدین کی خدمت انبیاء ،اورآئمہ معصومین کی سیرت ہے لہٰذا ہر نبی نے اپنے دور نبوّت میں اپنی امت سے والدین کے ساتھ نیکی کرنے کی سفارش کی ہے چنانچہ حضرت شیث بن آدم علیہ السلام نے سولہ نیک خصلتوں کی تاکید کی ہے ان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)کافی ج ٢ ص ١٣٠ .

میں سے چوتھی خصلت والدین کی خدمت سے متعلق ہے نیز حضرت نوح علیہ السلام (جو دنیا سے گذرے ہوئے انبیا ء میں سے سب زیادہ دنیا میں زندگی کرنے والی ہستی ہے جیسا کہ روایت ہے :
''روی ان جبرئیل علیہ السلام قال لنوح علیہ السلام یا اطول الا نبیاء عمر ا کیف وجدت الدنیا قال کدارٍ لھا بابان دخلت من احد ھما وخرجت من الاخر''(١)
یعنی روایت کی گئی ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے حضرت نوح علیہ السلام سے کہا اے سارے پیغمبر وں میں سب سے زیادہ لمبی عمر پانے والے بنی دنیا کو کیسے پایا آپ(ص) (ص)نے فرمایا دنیا کو ایک ایسے گھر کی مانند پایا کہ جس کے دو در وازے ہو کہ ایک سے داخل ہوا اور دوسرے سے خارج ہوا ) کی سیرت بھی برالوالدین ہے یعنی حضرت نوح علیہ السلام کی حیات طیبہ بھی والدین کے احتر ام اور ان کی خدمت گزاری کے لحاظ سے ہمارے لئے مشعل ہدایت ہے چنانچہ ماں باپ کے حق میں آپ کی دعا ء کو قرآن کریم میں یوں حکایت کی ہے:
( رَبِّ اغْفِرْ لِی وَلِوَالِدَیَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَیْتِی مُؤْمِنًا وَلِلْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَلاَتَزِدْ الظَّالِمِینَ إِلاَّ تَبَارًا )(٢)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)ارزش پدر ومادر.
(٢)سورہ نوح آیت٢٨ )

خدا یا مجھ کواورمیرے ماں باپ کو اور جو مومن میرے گھر میں آئے اس کو اور تمام ایماندار مردوں اور مومنہ عورتوں کو بخش دے اور ان ظالموں کی صرف تباہی زیادہ کر ۔
اسی طرح حضرت یحیی علیہ السلام کی سیرت طیبہ کو اللہ تبارک تعالیٰ قرآن مجید میں یوں حکایت کرتا ہے (وکان تقیا وبرا بوالدیہ ) یعنی آنحضرت پر ہیز گار اور ماں باپ کے ساتھ نیکو کار تھے نیز حضرت عیسی علیہ السلام کی سیرت'' وبرا بوالدتی'' تھی حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں ایک روایت ہے کہ جب آپ (ص)نے مصر کی سلطنت سنبھالی تو حضرت یعقوب علیہ السلام آپ سے ملنے کے لئے وارد مصرہوئے حضرت یوسف علیہ السلام استقبال کے موقع پر مرکب پر سوار رہے اس وقت جناب جبرئیل علیہ السلام نازل ہوئے او رکہا اے یوسف ہاتھ کھولو جب یوسف نے ہاتھ کھولا تو ان کے ہاتھ سے ایک نورآسمان کی طرف گیا تو حضرت یوسف (ع) نے سوال کیا اے جبرئیل یہ نور کیا ہے ؟ جو آسمان کی طرف جارہا ہے تو جبرئیل نے فرمایا: یہ نور نبوت تھا جو تمہارے باپ کے استقبال کے موقع پر مرکب سے نہ اترنے کی وجہ سے آپ سے جدا ہوگیا ہے اب تمہارے صلب سے کوئی نبی نہیں ہوگا۔(١)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١) ارزش پدر ومادر.

نیز حضرت اسماعیل علیہ السلام کے سیرت بھی یہی تھی چنانچہ روایت ہے کہ حضرت اسماعیل (ع)اپنے والدگرامی حضرت ابراھیم علیہ السلام کے قدمگاہ کی جب بھی زیارت کرتے توفر ط محبت میں گریہ فرماتے اور بوسہ دیتے تھے اسی طرح حضرت ختمی مر تبت (ص)کی سیرت طیبہ سب سے نمایاں ہے اگر چہ آپ (ع)کے والد گرامی آپ کی تولد سے پہلے ہی وفات پاچکے تھے اور والدہ گرامی بھی کم سنی میں آپ سے جدا ہو گئی لیکن والدین کے احترام کا اندازہ یہیں سے لگاسکتے ہیں کہ آپ اپنی خواہر رضاعی کے احترام میںکھڑے ہوجاتے تھے اور ہمیشہ اپنی مادر رضاعی کے ساتھ نیکی کرنے اور ان کو خوش رکھنے کی سعی فرماتے اور ہمیشہ والدین کے احترام اور ان کے ساتھ نیک سلوک کی تاکید فرماتے تھے۔
 
Wednesday, 23 September 2020 13:09

فرقہ واریت سے ہوشیار

تحریر: ثاقب اکبر

یوں محسوس ہوتا ہے کہ کچھ افراد یا گروہ نئے سرے سے فرقہ واریت کو پھیلانے میں سرگرم ہوگئے ہیں یا فرقہ واریت کے سلیپر سیلز پھر سے متحرک کیے جا رہے ہیں۔ اس کے لیے وہ تمام افراد جنھوں نے پاکستان میں فرقہ واریت کے خلاف سالہا سال جدوجہد کی ہے، انھیں اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے اور اپنی طاقتوں کو نئے سرے سے مجتمع کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ فرقہ واریت کی نئی لہر کا مقابلہ کیا جاسکے۔ ہمیں یہ بات ملحوظ نظر رکھنا چاہیے کہ اس وقت اسلام دشمن قوتوں کو یہ ضرورت کیوں پیش آئی کہ وہ عالم اسلام میں نئے سرے سے فرقہ واریت کے الائو بھڑکائیں اور نئے سرے سے اس آگ کو روشن کریں۔ اس وقت بھارت جس انداز سے پاکستان پر حملے کے لیے پَر تول رہا ہے، وہ کسی سے مخفی نہیں ہے، بھارت کے اندر مسلمانوں کی حالت زار اور کشمیری مسلمانوں کے خلاف مسلسل کریک ڈائون بھی جاری ہے۔ ہمارے وزیر خارجہ نے بھی اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ بھارت پاکستان میں اپنے سلیپر سیلز پھر سے متحرک کرسکتا ہے۔ ہمیں یہ بات فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ ان سلیپر سیلز میں فرقہ پرست عناصر بھارتی مقاصد کے سب سے بڑے اور اہم آلہ کار ہیں کیونکہ یہی وہ لوگ ہیں، جو مسلمانوں کو اس پاک سرزمین پر آپس میں لڑا کر دشمن کے مقاصد زیادہ پورے کرسکتے ہیں، کیونکہ فرقہ واریت کی آگ شہر بہ شہر، محلہ بہ محلہ اور کوچہ بہ کوچہ پہنچائی جاسکتی ہے۔ ماضی میں ہم اس کے نہایت تلخ اور تکلیف دہ تجربوں سے گزر چکے ہیں۔

دوسری طرف امریکی ایما پر صہیونی غاصب ریاست باقی ماندہ فلسطینی علاقوں کو ہڑپ کرنے کے لیے اپنے منصوبوں کو آگے بڑھا رہی ہے۔ صدی کی ڈیل (Deal of the Centurey) کے یک طرفہ منصوبے پر عمل کے لیے فلسطین کے بچے کھچے حصوں کو اسرائیل میں شامل کرنے کے لیے قدم بہ قدم پیش رفت دکھائی دے رہی ہے۔ پاکستان کے مسلمان اسرائیل کو ایک غاصب ریاست سمجھتے ہیں اور پہلے دن سے فلسطینیوں کے ساتھ ہیں، اگر پاکستانی اور دیگر مسلمان فرقہ وارانہ مسائل میں الجھے ہوئے ہوں تو پھر فلسطینیوں کی حمایت میں کون آواز اٹھائے گا! ہم دیکھ رہے ہیں کہ لیبیا کو بھی مسلمانوں کی باہمی آویزش کا نیا مرکز بنایا جا رہا ہے، جس کا مقصد یہ ہے کہ مصر اور دیگر عرب ریاستیں ایک طرف جبکہ ترکی اور اس کے ساتھی دوسری طرف میدان جنگ میں ایک دوسرے پر آگ برسا رہے ہوں اور اسرائیل اپنے مقاصد پورے کرنے کے لیے آگے بڑھ رہا ہو۔ اس وقت جبکہ ضرورت ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان فلسطین اور کشمیر کے مسلمانوں کے لیے اپنی آواز بلند کریں، اپنے وسائل اکٹھے کریں اور مل کر مظلوموں کی نجات کے لیے جدوجہد کا آغاز کریں، اگر وہ آپس میں الجھ پڑیں تو پھر دشمن کے لیے اس سے بڑی خوشخبری اور کیا ہوسکتی ہے۔

گذشتہ دنوں ایک مولوی صاحب نے پاکستان میں ایک افسوسناک تاریخی واقعے کی بنا پر جس انداز سے حضرت فاطمۃ الزہراؑ کے بارے میں ہرزہ سرائی کی، اس کا ردعمل پاکستان کے تمام مسالک کے علماء کی طرف سے سامنے آیا۔ ضرورت اس بات کی تھی کہ مذکورہ مولوی صاحب مناسب وضاحت کے بعد اپنے دیگر امور و مشاغل میں مصروف ہو جاتے، انھوں نے اب مسئلے کو مستقل فرقہ وارانہ رنگ دینے کے لیے ملک بھر میں جلسوں، جلوسوں اور دھرنوں کا اعلان کر دیا ہے۔ اس کے لیے ان کے پاس ماضی کے واقعات کو نئے زہر آلود انداز میں پیش کرنے کا حربہ ہی موجود ہے۔ پہلے بھی ایسے ہی حربوں کے ذریعے مسلمانوں کو لڑایا جا چکا ہے اور مسلمان ریاستوں کو کمزور کیا جاچکا ہے۔ اس کی روک تھام حکومتی و ریاستی سطح پر بھی ضروری ہے اور علماء و عوام کی سطح پر بھی۔

ہمیں یہ بات افسوس کے ساتھ کہنا پڑتی ہے کہ کچھ عرصے سے بعض علماء نما شیعہ بھی ایسی تقریریں کر رہے ہیں اور ایسی ویڈیوز نشر کر رہے ہیں، جو معاشرے میں مسلمانوں کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کا باعث بن سکتی ہیں۔ یہ بات اس لحاظ سے زیادہ افسوسناک ہے کہ قبل ازیں یہ کہا جاتا تھا کہ بعض ان پڑھ ذاکرین فرقہ ورانہ باتیں کرتے ہیں، لیکن اگر یہی باتیں علماء کا لباس پہن کر بعض افراد شروع کر دیں تو پھر مسئلہ نہایت خطرناک صورت اختیار کر جاتا ہے۔ ہم ایسے تمام افراد کو استعماری اور صہیونی طاقتوں کا شعوری یا لا شعوری آلہ کار سمجھتے ہیں۔ آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای ان افراد کے مکتب کو برطانوی تشیع قرار دیتے ہیں اور انھیں ایم آئی سکس کے ایجنٹ کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے۔

ہر وہ بات اور کوشش جو مسلمانوں کو جوڑنے اور ملانے کے لیے کی جائے قابل قدر ہے اور ہر وہ بات اور کوشش جس کی بنیاد پر مسلمانوں میں تفرقہ اور فرقہ واریت پیدا ہوتی ہو، دشمنوں کے مفاد میں ہے۔ اس سلسلے میں ہمیں ہوشیار اور خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔ اس موقع پر ملی یکجہتی کونسل اور دیگر تمام قوتوں کو نئے سرے سے سر جوڑ کر بیٹھنے اور اس صورت حال کا سنجیدگی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آگ زیادہ پھیل جائے اور ہمیں بعد میں ہوش آئے۔ اس سلسلے میں ہم ایک مثال عرض کرنا چاہیں گے اور وہ یہ ہے کہ گذشتہ دنوں حضرت عمر ابن عبدالعزیز کی قبر کی بے حرمتی کی خبریں جاری ہوئیں، اس پر جس انداز سے بغیر سوچے سمجھے ردعمل سامنے آیا، اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ہم دشمن کی معمولی سی کسی سازش کا شکار ہو کر کس طرح باہم دست و گریباں ہوسکتے ہیں۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز تمام عدالت پسند مسلمانوں کے نزدیک محترم ہیں، کیونکہ انھوں نے خود اپنے خاندان اور آباء کی بعض غلط روایتوں کا قلع قمع کیا اور معاشرے میں عدل و انصاف کی بنیادوں کو نئے سرے سے استوار کرنے کی کوشش کی۔ حضرت عمر ابن عبدالعزیز کا احترام اہل سنت بھی کرتے ہیں اور اہل تشیع بھی، لیکن یہ ظاہر کیا گیا کہ اہل تشیع نے ان کی قبر کی بے حرمتی کی ہے اور یہ الزام بعد میں غلط ثابت ہوگیا۔ اس دوران میں نفرت کی کتنی آگ تھی جو مسلمانوں کے مابین پھیل گئی تھی۔

یہاں ہم ایک اور بات کہنا چاہتے ہیں کہ فرض کیا کہ اپنے آپ کو شیعہ کہلوانے والا کوئی ایک فرد یا گروہ کوئی غلط حرکت کرے یا اپنے آپ کو سنی کہلوانے والا کوئی فرد یا گروہ غلط حرکت کرے تو ہمیں تمام شیعوں یا سنیوں کو مورد الزام نہیں ٹھہرانا چاہیے۔ جب کوئی چور چوری کرتا ہے تو ہم یہ نہیں کہتے کہ یہ شیعہ چور یا سنی چور ہے تو پھر کسی بھی غلط حرکت کرنے والے کو شیعہ یا سنی قرار دے کر تمام اہل تشیع یا اہل تسنن کو نفرت کا نشانہ بنانا کہاں کی دانشمندی ہے۔ ہمیں اس بات کو اصول کے طور پر اختیار کر لینا چاہیے، تاکہ آئندہ ہم کسی سازش کا شکار نہ ہوں۔ یہاں میں ملی یکجہتی کونسل کے احیا گر قاضی حسین احمد مرحوم کے اس شعار کو دہراتا ہوں کہ ہمیں درد مشترک اور قدر مشترک کی بنیاد پر ایک ہو جانا چاہیے۔ میں یہاں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ ہم ماضی کے واقعات کو تبدیل نہیں کرسکتے، لیکن ہم دانش و حکمت سے کام لے کر اپنے مستقبل کو ضرور سنوار سکتے ہیں۔
 
 
خ

امریکہ، برطانیہ و جرمنی سمیت دنیا بھر کے 40 سے زائد ممالک کے حمایت یافتہ عراقی آمر صدام حسین کی جانب سے ایران پر مسلط کردہ جنگ میں ایران کے فتحیاب ہونے کے سلسلے میں ہر سال "ہفتہ دفاع مقدس" منایا جاتا ہے۔ اس حوالے سے قوم سے ویڈیو خطاب کے دوران ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے تاکید کرتے ہوئے کہا ہے کہ فتحیابی پر مبنی کی یہ حقیقت، امام خمینیؒ کی حیرت انگیز کمان، ملکی دفاع میں معاشرے کے ہر طبقے کی ہمہ جہت شرکت اور مجاہدین کے عقلمندی پر مبنی اقدامات کی مرہون منت ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای نے جنگ کے پیاسے عراقی آمر صدام حسین کو امریکہ سمیت بڑی طاقتوں کا آلۂ کار قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایرانی قوم کے خلاف برسرپیکار اصلی فریق؛ اسلامی انقلاب سے نقصان اٹھانے والا امریکہ، خطے میں ایک نئی اسلامی-ایرانی پاور کے اُبھرنے سے خوفزدہ طاقتیں، نیٹو اور مشرقی و مغربی ممالک تھے، جنہوں نے صدام حسین کو حملے پر اکسایا تھا، تاکہ وہ (نوظہور) اسلامی انقلاب کو تہس نہس کر ڈالے۔

ایرانی سپریم لیڈر نے ایران پر جنگ مسلط کئے جانے سے قبل صدام حسین اور امریکہ کے درمیان طے پانے والی مفاہمتوں سے متعلق منظر عام پر آنے والی دستاویزات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران پر مسلط کی جانے والی جنگ کے دوران بھی مغربی 

و مشرقی ممالک کی فوجی، اطلاعاتی اور مالی مدد امارات، کویت، سعودی عرب اور دوسرے رَستوں سے جارح صدام حسین کو ملتی رہی۔ انہوں نے جنگ کے آغاز سے لے کر دفاع مقدس کے اختتام تک جاری رہنے والی امام خمینیؒ کی قیادت کو انتہائی حساس و حیرت انگیز قرار دیتے ہوئے کہا کہ امام خمینیؒ نے جنگ کے آغاز سے ہی پیش آنے والے پیکار کی وسعت کو پہچان لیا اور اپنی حیرت انگیز دوراندیشی کے ذریعے اعلان کیا کہ یہ جنگ دو ہمسایہ ممالک کی جنگ نہیں بلکہ اسلامی انقلاب اور ایرانی قوم کے دشمنوں نے صدام حسین کی اوٹ میں اسلامی نظام حکومت کے خلاف صف آرائی کر رکھی ہے۔

آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے اسلامی انقلاب کے شروع میں مسلط کی جانے والی بھیانک جنگ کو صلاحیتوں کے نکھرنے کا سبب قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس میدان میں عوام کی وسیع شرکت سے انتہائی اہم استعدادیں وجود میں آئی ہیں، مثال کے طور پر کرمان کے ایک گاؤں سے تعلق رکھنے والا معمولی سا نوجوان "حاج قاسم سلیمانی" بن گیا یا ایک جوان فوجی افسر شہید صیاد شیرازی اور شہید بابائی جیسا تجربہ کار اور طاقتور کمانڈر بن گیا اور ایک سادہ سا خبرنگار محاذ جنگ پر پیش آنے والے حوادث کے سبب شہید باقری جیسے اطلاعات کے ماہر میں بدل گیا۔ انہوں نے ملکی امن و امان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان قربانیوں سے حاصل ہونے 

والا ایک انتہائی قیمتی سرمایہ "امن و امان" ہے، جو "دفاع مقدس" کی برکت سے حاصل ہوا ہے، کیونکہ ایرانی قوم کے دفاع نے ثابت کر دکھایا ہے کہ اس ملک کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کرنے کی قیمت بہت زیادہ ہے اور ہر جارح طاقت دندان شکن جواب سے دوچار ہوگی، بنابرایں جارح قوتوں کو ہر اقدام سے قبل سوچنا پڑتا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے خود اعتمادی اور تکنیکی و سائنسی ایجادات کی جانب بڑھتے قدموں کو "دفاع مقدس" کا ایک اور ثمر قرار دیا اور کہا کہ اُس وقت جب ایرانی شہر دشمن کے میزائلوں کا نشانہ بن رہے تھے، کوئی ملک ہمیں میزائل یا دوسرا فوجی ساز و سامان دینے کو تیار نہیں تھا جبکہ اسی دوران شہید طہرانی مقدم اور ان کے دوست و احباب کی جانب سے میزائل کی ایرانی صنعت کی بنیاد رکھ دی گئی اور آج کی ایرانی میزائل پاور اسی خود اعتمادی اور اس زمانے کی علمی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے بظاہر ناممکن کاموں کو انجام دینے کی جرأت اور ملکی انسانی سرمائے کے فروغ کو دفاع مقدس کا ایک اور نتیجہ قرار دیا اور کہا کہ دفاعِ مقدس کے اس انسانی سرمائے کا ایک واضح نمونہ شہید (قاسم) سلیمانی ہیں، جو خطے کے اندر سفارتکاری کے حیرت انگیز کارنامے انجام دیا کرتے تھے جبکہ دنیا تاحال ان کی وسیع سرگرمیوں کے بارے بطور کافی معلومات نہیں رکھتی۔

آیت اللہ خامنہ 

ای نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ جنگ ایک خوفناک و پرتشدد چیز کا نام ہے، تاہم اپنی تمام مشکلات اور نقصانات کے باوجود، دفاعِ مقدس ایرانی قوم کے لئے مختلف قسم کی برکتوں، بشارتوں، ترقیوں اور تازگیوں کا حامل رہا ہے۔ انہوں نے حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے حرم کا دفاع کرنے والے مجاہدین کو دفاع مقدس کی برکتوں اور نئی نسل کے اندر جہادی جذبے کے تسلسل کا ایک نمونہ قرار دیا اور کہا کہ ایرانی، شامی، عراقی، لبنانی اور افغانی اقوام سمیت دنیا بھر کی مختلف قوموں کا صفِ واحد میں آجانا ہمارے زمانے کی حیرت انگیز حقیقتوں میں سے ایک ہے۔ انہوں نے اپنے خطاب کے آخر میں منحوس کرونا وائرس کے وسیع پھیلاؤ اور اس کے باعث ہونے والی وسیع اموات پر اظہار تاسف کرتے ہوئے کہا کہ اس افسوسناک مرض کا علاج خود عوام کے ہاتھ میں اور مناسب فاصلے کی رعایت، ماسک کے استعمال اور مسلسل ہاتھ دھونے جیسی احتیاطی تدابیر میں مضمر ہے۔ رہبر انقلاب نے جاری سال کے دوران اربعین حسینیؑ کے حوالے سے کہا کہ ایرانی قوم حضرت امام حسینؑ اور زیارتِ اربعین کی عاشق ہے، تاہم چہلم واک صرف اور صرف ماہرین کی رائے پر ملتوی کی گئی ہے جبکہ ہم سب کو (ماہرین کا) مطیع و فرمانبردار رہنا چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ اس سال اربعین سید الشہداء علیہ السلام کی زیارت گھروں میں پڑھی جائے۔

ایرانی انقلابی گارڈز سپاہ پاسداران کے سربراہ میجر جنرل حسین سلامی نے "ہفتۂ دفاع" کی مناسبت سے منعقد ہونے والی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے امام خمینیؒ کو ایسا عظیم انسان قرار دیا، جنہوں نے امتِ مسلمہ کی کھوئی ہوئی عظمت کو دوبارہ بحال کرتے ہوئے دین مبین اسلام کو زندہ کرنے کے لئے الہیٰ پیغمبروں جیسا کردار ادا کیا ہے۔ سپاہ قدس کے سربراہ نے شہداء کو ایرانی فخر کے آسمان پر چکمتے ستاروں سے تعبیر کیا اور کہا کہ ہمارے عظیم شہداء کے جنازے اس قوم کی عزت و عظمت کی خاطر زمین پر گرے ہیں، تاکہ ہم سربلند باقی رہیں۔ انہوں نے کہا ان عظیم شہداء نے اپنا سب کچھ جہاد فی سبیل اللہ میں لگا دیا اور دشمنوں کا ان کے گھروں تک پیچھا کرکے اُنہیں سزا دی ہے اور یوں وہ ایرانی قوم کو ہمیشگی کا تحفہ دے گئے ہیں۔

سپاہ پاسداران ایران 

کے سربراہ نے شہید جنرل قاسم سلیمانی کو مزاحمتی محاذ کے سید الشہداء کے لقب سے یاد کرتے ہوئے کہا کہ جنرل قاسم سلیمانی ہمارے شہداء کے درمیان سورج کے مانند چمک رہے ہیں، جو اسلام، انقلاب، ولایت اور قوم کے ساتھ اپنی وفاداری میں بے مثال تھے۔ میجر جنرل حسین سلامی نے کہا کہ وہ گذشتہ سال تو ہمارے درمیان موجود تھے، تاہم اس سال وہ اللہ تعالیٰ کے حضور اور اصحابِ عاشوراء کے درمیان موجود اپنے باقی چھوڑے ہوئے جہادی رَستے کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ اگر ایرانی انقلاب وجود میں نہ آتا تو امریکہ پوری دنیا کو ہڑپ کر جاتا، کہا کہ یہ ہمارا انقلاب ہی تھا جس نے امریکہ کو خاتمے کے قریب پہنچا دیا ہے جبکہ آج کا امریکہ سیاسی رونقوں سے عاری، بے رمق، ناتواں اور شکست خوردہ حالت میں میدان کے درمیان موجود ہے۔

انہوں 

نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ اسلامی انقلاب نے امریکہ کو اس کی محفوظ سے پناہگاہوں سے باہر نکال کر عملی میدان میں الجھا دیا ہے، کہا کہ آج نہ صرف امریکہ کی فوجی طاقت ختم ہو کر رہ گئی ہے بلکہ وہ کسی بھی قسم کی کامیابی حاصل کرنے کے قابل بھی نہیں رہا۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے کسی جنگ میں کامیاب نہیں ہوا مگر فوجی اتحاد کے ہمراہ، تاہم وہ اس فوجی اتحاد کو بھی اپنے لئے فائدہ مند نہیں بنا پایا۔ میجر جنرل حسین سلامی نے اپنے خطاب کے دوران امریکی زبوں حالی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اکیسویں صدی کے آغاز کے ساتھ ہی امریکی صدی بھی ختم ہوگئی، جس کی اصلی وجہ اس کے ظلم و ستم کے مقابلے میں اسلامی جمہوریہ ایران کی مزاحمت ہے۔

سپاہ قدس کے سربراہ نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ آج سیاسی اعتبار سے بھی امریکہ تنہاء ہوچکا 

ہے، جیسا کہ ایران پر اسلحہ جاتی پابندیوں میں توسیع کے معاملے میں حتیٰ وہ اپنے ہمیشہ کے اتحادی بھی کھو بیٹھا ہے۔ میجر جنرل حسین سلامی نے امریکی صدر کی حالیہ ہرزہ سرائی کے جواب میں ڈونلڈ ٹرمپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مسٹر ٹرمپ! جنرل قاسم سلیمانی کی ٹارگٹ کلنگ پر ہمارا انتقام حتمی، سنجیدہ اور حقیقی ہے، لیکن ہم عزت و وقار کے حامل ہیں، جو جوانمردی اور انصاف کے ساتھ انتقام لیتے ہیں۔ انہوں نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ آپ کا خیال ہے کہ ہم اپنے شہید بھائی (جنرل سلیمانی) کے خون کا بدلہ "جنوبی افریقہ میں موجود ایک خاتون سفیر" سے لیں گے؟ نہیں بلکہ ہم اُن افراد کو نشانہ بنائیں گے، جو اس عظیم انسان (جنرل سلیمانی) کی ٹارگٹ کلنگ میں بلاواسطہ یا بالواسطہ طور پر شریک رہے ہیں اور جان لو کہ جو شخص بھی اس جرم میں شریک رہا ہے، ضرور بالضرور 

نشانہ بنایا جائے گا، یہ ایک سنجیدہ پیغام ہے!

ایرانی سپاہ پاسداران کے سربراہ نے امریکی صدر کی جانب سے دی جانے والے حالیہ دھمکیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ تم ہمیں ہزار گنا بڑے حملے کی دھمکی دیتے ہو! ہم تمہیں جانتے ہیں؛ اس وقت جب ہم نے عین الاسد کو نشانہ بنایا تھا تو ہمارا خیال تھا کہ تمہاری جانب سے جواب دیا جائے گا، لہذا ہم نے سینکڑوں میزائل تیار کر رکھے تھے، تاکہ اگر تمہاری طرف سے جواب آیا تو تمہارا سب کچھ تباہ کر دیا جائے۔ میجر جنرل حسین سلامی نے اپنے خطاب کے آخر میں دشمن (امریکہ و اس کے اتحادیوں) پر اپنی مکمل بالادستی پر تاکید کرتے ہوئے کہا کہ مسٹر ٹرمپ! اگر کسی ایرانی کے سر کا ایک بال بھی کم ہوا تو ہم تمہارے چھکے چھڑا دیں گے، یہ ایک سنجیدہ دھمکی ہے اور ہم اپنی ہر بات کو عمل سے ثابت کرتے ہیں!

اکثر سیاسی اور اقتصادی ماہرین کا خیال ہے کہ امریکہ کی جانب سے ایران کے خلاف عائد کی جانے والی نئی پابندیاں محض علامتی ہیں اور اب تک جو پابندیاں چلی آ رہی ہیں ان کی سختی اور افادیت میں کسی قسم کے اضافے کا باعث نہیں بنیں گی۔ لیکن اس کے باوجود امریکی حکام یہ ظاہر کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف موجودہ پابندیاں نئی ہیں اور وہ تہران پر مزید اقتصادی دباو کا باعث بنیں گی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس بارے میں ٹویٹر پر اپنے پیغام میں کہا ہے: "آج میں نے ایران کا جوہری پروگرام، بیلسٹک میزائل اور فوجی ٹیکنالوجی کو محدود کرنے کیلئے نئے اقدامات انجام دیے ہیں۔"
 
انہوں نے مزید لکھا: "میری حکومت ہر گز ایران کو جوہری ہتھیاروں تک رسائی یا بیلسٹک میزائلوں اور دیگر فوجی سازوسامان کے نئے ذخائر کے ذریعے باقی دنیا کو خطرے سے روبرو کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔ میں نیا صدارتی حکم جاری کر کے ایران کے خلاف اقوام متحدہ کی پابندیوں کو دوبارہ فعال کر دوں گا اور نئی پابندیاں عائد کرنے، برآمدات کو کنٹرول کرنے اور جوہری سرگرمیوں سے مربوط 24 افراد اور اداروں کے خلاف پابندیاں لگا کر ایران پر مزید دباو ڈالوں گا۔" اسی طرح امریکہ کے وزیر دفاع مارک ایسپر نے کہا ہے: "وہ صدارتی حکم جو آج صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے خلاف نئی پابندیوں اور گذشتہ پابندیوں کے خود بخود دوبارہ فعال ہو جانے کی صورت میں جاری کیا ہے مددگار ثابت ہو گا۔"
 
مارک ایسپر نے مزید کہا: "یہ صدارتی حکم ایران کی جانب سے فوجی اسلحہ اور سازوسامان کی درآمد اور برآمد کو روک کر امریکہ، اس کے اتحادیوں، اس کے شرکاء کی فورسز اور شہریوں کی حفاظت کرے گا۔" امریکہ کی جانب سے ایران کے خلاف نئی پابندیاں عائد کرنے کا ایک مقصد ایران کے ساتھ جوہری معاہدے میں شریک دیگر مغربی ممالک اور دنیا کی تجارتی کمپنیوں کو خبردار کرنا ہو سکتا ہے تاکہ انہیں ایران کے ساتھ کسی قسم کے تجارتی لین دین خاص طور پر اسلحہ کی تجارت سے باز رکھا جا سکے۔ امریکہ کے وزیر خارجہ مائیک پمپئو نے بھی ایران کے خلاف پابندیوں اور ان کے ممکنہ نتائج کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا: "امریکہ میں بہت سی ایسی کمپنیاں موجود ہیں جو ایران کے ساتھ تجارت کرنے کی خواہاں ہیں۔"
 
امریکی وزیر خارجہ نے مزید کہا: "امریکہ اس بات کی اجازت نہیں دے گا کہ ایران کیلئے اسلحہ اور فوجی سازوسامان کی اسمگلنگ ممکن ہو سکے۔ لہذا ہم نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 2231 کا سہارا لیتے ہوئے یہ یقین حاصل کرنے کی کوشش کی ہے کہ ایران کو اسلحہ نہیں پہنچے گا۔ امریکہ اقوام متحدہ کی اس قرارداد پر عملدرآمد یقینی بنانے کیلئے بھرپور کردار ادا کرے گا۔ یہ پابندیاں دنیا بھر کی کمپنیوں کے خلاف ایک جیسی عائد کی جائیں گی۔ ہم اس بارے میں یقین حاصل کرنا چاہتے ہیں کہ ایران کو کسی قسم کا پیسہ اور دولت فراہم نہیں کیا جائے گا۔" لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ امریکی حکام کی جانب سے شروع کی جانے والی اس نفسیاتی جنگ کے پیچھے کوئی اور محرکات کارفرما ہیں جنہیں وہ چھپانا چاہ رہے ہیں۔
 
امریکی حکام کے اس پروپیگنڈے کے پیچھے کارفرما محرکات درج ذیل ہیں:
1)۔ امریکہ میں صہیونی لابی کی سیاسی، میڈیا اور مالی حمایت حاصل کر کے درپیش صدارتی انتخابات میں اس کا فائدہ اٹھانا۔
2)۔ ایران کے خلاف جارحانہ انداز اپنا کر گذشتہ چار سالوں کے دوران خارجہ پالیسی میں ڈونلڈ ٹرمپ کی ناکامیوں پر پردہ ڈالنا۔ امریکہ کو ایران کے علاوہ چین، روس اور شمالی کوریا کے سامنے بھی شدید ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس کے پیچھے بھی انتخابات میں کامیابی کا محرک کارفرما ہے۔
3)۔ ایرانی شہریوں کو نفسیاتی جنگ کا نشانہ بنا کر شدید اضطراب اور بے چینی کا شکار کرنا تاکہ ملک میں موجود اقتصادی بحران کی شدت میں مزید اضافہ ہو جائے۔ خاص طور جب ہم دیکھتے ہیں کہ ایران میں موجود اقتصادی مسائل کی بڑی وجہ نفسیاتی اسباب ہیں۔
 
روس نے واضح طور پر اعلان کیا ہے کہ امریکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا کردار اپنے ہاتھ میں لینے کا کوئی حق نہیں رکھتا۔ روسی پارلیمنٹ دوما کی بین الاقوامی کمیٹی کے سربراہ لیونیڈ ایسلاٹسکے نے کہا: "بظاہر یوں دکھائی دیتا ہے کہ امریکی حکمران اوہام کا شکار ہیں اور خود کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل تصور کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے رکن ممالک حتی امریکہ کے قریبی اتحادی ممالک بھی گذشتہ چند ماہ کے دوران واضح طور پر ایران کے خلاف امریکہ کے ناجائز مطالبات کو مسترد کر چکے ہیں۔" انہوں نے تحریر: عبدالرضا خلیلیکہا کہ امریکہ نے اپنے ان بچگانہ اقدامات کے ذریعے خود کو پوری عالمی برادری کے مقابلے میں لا کھڑا کیا ہے۔ لہذا یوں محسوس ہوتا ہے کہ امریکہ اسی شاخ کو کاٹنے میں مصروف ہے جس پر خود بھی بیٹھا ہوا ہے