
سلیمانی
پندرہ رمضان نواسہ رسول حضرت امام حسن مجتبی علیہ السلام کی ولادت
سن 3 ھ ق : امام حسن مجتبی علیہ السلام کی ولادت ۔ امام حسن بن علی بن ابیطالب علیہ السلام شیعوں کے دوسرے امام ہیں ۔ آپ پندرہ رمضان سن 3 ھ ق کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ کے زمانےمیں مدینہ منورہ میں پیدا ہوے۔ (1)
آپ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ کے نواسے اور پہلے امام اور چوتھے خلیفہ امیر المؤمنین علی بن ابیطالب علیہ السلام اور سیدۃ نساء العالمین فاطمہ زھرا سلام اللہ علیہا کے فرزندہیں ۔
امام حسن مجتبی علیہ السلام ایسے گھرانےمیں پیدا ہوے جو وحی اور فرشتوں کے نازل ہونےکی جگہ تھی ۔وہی گھرانا کہ جس کی پاکی کے بارے میں قرآن نے گواھی دی ہے : ” إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّه لِيُذْهبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ اهلَ الْبَيْتِ وَيُطَهرَكُمْ تَطْهيرًا ” ۔یعنی: (بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اھل بیت علیہم السّلام کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے) ۔ (2) اس طرح خدای سبحان نے قرآن کریم میں اس گھرانے کی بار بار تحسین اور تمجید کی ہے ۔
امام حسن مجتبی علیہ السلام ، امیرالمؤمنین علی بن ابیطالب (ع) اور سیدۃ النساء العالمین فاطمہ زھرا(س) کے پہلے فرزند تھے ۔ اس لۓ آنحضرت کا تولدپیغمبر(ص) انکے اھل بیت اور اس گھرانے کے تمام چاہنے والوں کی خوشیوں کا باعث بنا ۔
پیغمبر (ص) نے مولود کے دائیں کان میں اذان اور بائيں کان میں قامت کہی اور مولود کا نام ” حسن ” رکھا ۔(3)
امام حسن مجتبی علیہ السلام کے القاب کئ ہیں ازجملہ : سبط اكبر، سبط اول، طيب، قائم، حجت، تقي، زكي، مجتبي، وزير، اثير، امير، امين، زاھد و برّ مگر سب سے زیادہ مشھور لقب ” مجتبی ” ہے اور شیعہ آنحضرت کو کریم اھل بیت کہتے ہیں ۔
آنحضرت کی کنیت ، ابو محمد ہے ۔(4)
پیغبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ امام حسن مجتبی علیہ السلام کو بہت چاہتے تھے اور بچپن سے ہی نانا رسولخدا (ص) اور والدامیر المؤمنین علی(ع) اور والدہ سیدۃ النساء العالمین فاطمہ زھرا (س) کے ملکوتی آگوش میں پروان چڑھے اور ایک انسان کامل اور امام عادل جہان کو عطا کیا ۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ نے ایک حدیث کےذریعے اپنی نور چشم حسن مجتبی (ع) کی فضیلت یوں بیان فرمائي ہے ۔ فرمایا: البتہ ، حسن میرا فرزند اور بیٹا ہے ، وہ میرا نور چشم ہے ، میرے دل کا سرور اور میرا ثمرہ ہے وہ بہشت کے جوانوں کا سردار ہے اور امت پر خدا کی حجت ہے ۔ اس کا حکم میرا حکم ہے اسکی بات میری بات ہے جس نے اسکی پیروی کی اس نے میری پیروی کی ہے جس نے اس کی مخالفت کی اس نے میری مخالفت کی ہے ۔ میں جب اسکی طرف دیکھتا ہوں تومیرے بعد اسے کیسے کمزور کریں گے ، اس یاد میں کھو جاتا ہوں؛ جبکہ یہ اسی حالت میں اپنی زمہ داری نبھا تا رہے گا جب تک کہ اسے ستم و دشمنی سے زھر دے کر شھید کیا جاۓ گا ۔اس وقت آسمان کے ملائک اس پر عزاداری کریں گے ۔اسی طرح زمین کی ھر چیز ازجملہ آسمان کے پرندے ، دریاؤں اور سمندروں کی مچھلیاں اس پر عزادری کریں گے ۔(6)
مدارک اور مآخذ:
1- الارشاد (شیخ مفید)، ص 346؛ رمضان در تاریخ (لطف اللہ صافی گلپایگانی)، ص 107؛ منتہی الآمال (شیخ عباس قمی)، ج1، ص 219؛ کشف الغمہ (علی بن عیسی اربلی)، ج2، ص 80؛ تاریخ الطبری، ج2، ص 213؛ البدایہ و النہایہ (ابن کثیر)، ج8، ص 37
2- آیہ تطہیر ]سورہ احزاب(33)، آیہ 33[
3- بحارالانوار (علامہ مجلسی)، ج43، ص 238؛ کشف الغمہ، ج2، ص 82
4- منتہی الآمال، ج1، ص 219؛ رمضان در تاریخ، ص 111؛ کشف الغمہ، ج2، ص 86
5- منتہی الآمال، ج1، ص 220؛ کشف الغمہ، ج2، ص 87؛ البدایہ و النہایہ، ج8، ص 37
6- بحارالانوار، ج44، ص 148
مؤلف: آغا سید عبدالحسین بڈگامی
عالمی یوم القدس کو غاصب صہیونی ریاست کے خلاف احتجاجی مظاہرہ ہونا چاہیے
بیت المقدس میں صیہونی ریاست اسرائیل کے مسلمانوں پر مظالم پہ امت مسلمہ کو خاموشی اختیار کرنے کے بجائے عالم کفر کے خلاف یکجا ہوکر عالمی سطح پر احتجاج ریکارڈ کروانا چاہیے۔ ان خیالات کا اظہار امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے مرکزی صدرعارف حسین نے کیا۔انہوں نے مزید کہا کہ ایک بار پھر ماہ مضان المبارک کے دوران غاصب صیہونی اسرائیل نے بیت المقدس کے مسلمانوں کو مظالم کا نشانہ بنایا ہے اور حملہ میں سو سے زائد فلسطینی مسلمان زخمی ہوئے ہیں۔مرکزی صدر نے کہا کہ غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے انسانیت سوز مظالم نے انسانی زندگی کو محصور کردیا ہے۔اور انہیں عبادت سے بھی روک دیا گیا ہے۔مرکزی صدر نے مزید کہا کہ غاصب صیہونی حکومت کے فوجیوں اور صیہونی آبادکاروں کی جانب سے مسلمانوں کے قبلہ اول مسجدالاقصی کو متعدد بار جارحیت کا نشانہ بنایا جا چکا ہے جس کا مقصد مسلمانوں کے اس مقدس مقام اور شہر بیت المقدس کا اسلامی تشخص ختم کر کے اسے صیہونیوں کا شہر بنانا ہے۔جس میں وہ ہرگز کامیاب نہیں ہوں گے فلسطین صرف فلسطینیوں کا ہے انشا اللہ وہ دن دور نہیں جب فلسطینیوں کی مزاحمت اور استقامت کی بدولت بیت المقدس غاصب ریاست کے چنگل سے آزاد ہوگا۔مرکزی صدر کا مزید کہنا تھا کہ آئی ایس او پاکستان امسال بھی ماہ رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو عالمی یوم القدس کے موقع پر ملک کے تمام شہروں میں فلسطینیوں کی حمایت اور عالمی استکبار و استعمار کے مظالم کے خلاف القدس ریلیوں کا انعقاد کرے گی ۔
ایران، اسرائیل کے ہر شیطانی اقدام کا جواب کہیں زیادہ شدت کیساتھ دیگا، میجر جنرل سلامی
ایران کی انقلابی گارڈز سپاہ پاسداران کے کمانڈر انچیف میجر جنرل حسین سلامی نے مقبوضہ فلسطین (اسرائیل) کے حساس فوجی مراکز میں ہونے والے حالیہ دھماکوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے تاکید کی ہے کہ غاصب صیہونیوں کی جانب سے پورے خطے میں اٹھائے جانے والے شیطانی اقدامات بالآخر اُنہی کی جانب پلٹیں گے۔ میجر جنرل حسین سلامی نے میڈیا کے ساتھ گفتگو میں ایرانی جوہری تنصیبات "نطنز" پر ہونے والی صیہونی تخریب کاری کے حوالے سے متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران اسرائیل کے ہر شیطانی اقدام کا جواب کہیں زیادہ شدت کے ساتھ دے گا۔
سپاہ پاسداران کے چیف کمانڈر نے انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ غاصب صیہونیوں کی جانب سے پورے خطے میں اٹھائے جانے والے شیطانی اقدامات خود انہی کے دامنگیر ہوں گے، جن کے باعث وہ مستقبل قریب میں بڑے خطرات سے دوچار ہو جائیں گے۔ میجر جنرل حسین سلامی نے خبردار کیا کہ اگر غاصب صیہونی رژیم نے اپنے شیطانی اقدامات کو مزید جاری رکھا تو اس کا وجود پیش کردہ تخمینے سے کہیں پہلے ختم ہو جائے گا، درحالیکہ اس وقت بھی اس کے خاتمے کے لئے ضروری تمام امکانات فراہم ہوچکے ہیں۔ انہوں نے اپنی گفتگو کے آخر میں تاکید کی کہ گذشتہ چند روز سے غاصب صیہونی رژیم کا کوئی شیطانی اقدام بے جواب نہیں گیا جبکہ مستقبل قریب میں یہ ردعمل کئی گنا بڑھ جائے گا۔
عالم اسلام آزادی فلسطین کیلئے مشترکہ جدوجہد کرے، آزادی القدس کانفرنس
تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں اپنے اختلافات ختم کرکے مسئلہ فلسطین کو سرکاری سطح پر منانے کے حق میں آواز بلند کریں، مسئلہ فلسطین امت مسلمہ کا مسئلہ ہے، پاکستان سمیت تمام مسلم ممالک مقبوضہ فلسطین کی آزادی کیلئے مشترکہ جدوجہد کریں، ان خیالات کا اظہار رہنماء تحریک انصاف و پارلیمانی سیکرٹری آفتاب جہانگیر، پیپلز پارٹی کے سینیٹر تاج حیدر، رہنماء ایم کیو ایم ڈاکٹر فاروق ستار، مرکزی صدر آئی ایس او عارف حسین الجانی، اے این پی کے رہنماء یونس بونیری، پی ایس پی کے ڈپٹی جنرل سیکرٹری ڈاکٹر یاسر، ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل ناصر عباس شیرازی، مولانا احمد اقبال رضوی، امت واحدہ پاکستان کے سربراہ مولانا امین شہیدی، شیعہ ایکشن کمیٹی کے رہنماء علامہ مرزا یوسف حسین، شیعہ علماء کونسل سندھ کے صدر علامہ ناظر تقوی، جمعیت علمائے پاکستان کے رہنما قاضی احمد نورانی، علامہ باقر زیدی، فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان کے سیکرٹری جنرل صابر ابو مریم، سابق رکن قومی اسمبلی قمر عباس، جعفریہ الائنس کے رہنماء شبر رضا، ڈاکٹر عالیہ امام، رہنماء (ن) لیگ اظہر ہمدانی، پاکستان عوامی تحریک کے مرکزی رہنماء راؤ کامران، فنکشنل لیگ کے رہنماء سلمان فیاض، بابر جہانگیر و دیگر سیاسی و مذہبی رہنماؤں نے امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کراچی ڈویژن کے زیر اہتمام ہوٹل مہران میں منعقدہ آزادی القدس کل جماعتی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
سیاسی و مذہبی رہبنماؤں نے کہا کہ تحریک آزادی فلسطین کی حمایت تمام عالم اسلام کی ذمہ داری ہے، اسرائیل کو تسلیم کرنے والے مسلم ممالک نے مظلوم فلسطینیوں کی پیٹھ پر چھرا گھونپا ہے، اسرائیل کو تسلیم کرنا مسئلہ فلسطین سے غداری ہے۔ رہنماؤں نے کہا کہ جمعۃ الوداع کو سرکاری سطح پر عالمی یوم القدس کے عنوان سے منایا جائے اور پارلیمنٹ میں مسئلہ فلسطین کے حق میں قرارداد پیش کرنے کے ساتھ ساتھ فلسطین کی آزادی اور اسرائیل کی نابودی کیلئے عالمی سطح پر مسلم ممالک کو ایک فورم پر جمع کرنے کیلئے کوششوں کو تیز کرے۔ رہنماؤں نے کہا کہ فلسطین کا مسئلہ اس وقت انتہائی سنگین دور سے گزر رہا ہے، اس حوالے سے اس حکومتی سطح پر کمیٹی قائم کرنے کی ضرورت ہے، جو مسئلہ فلسطین کے حق میں قرارداد پیش کرے کہ یوم القدس سرکاری طور پر منایا جائے۔ رہنماؤں نے کہا کہ القدس کا مسئلہ کسی ایک مسلک کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ عالم اسلام کا مسئلہ ہے اور ہمیں ایک قدم بھی اس سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہیئے، ناجائز ریاست اسرائیل نے امت مسلمہ کے مقدس ترین مقام یعنی قبلہ اول پر ناجائز قبضہ کرکے وہاں پر موجود معصوم و مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ جو ظلم و ستم کی داستانیں رقم کی ہیں، ان کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
رہنماؤں نے کہا کہ اگر عالم اسلام اسرائیل کے خلاف متحد ہو جائے تو کچھ لمحوں میں اسرائیل کا وجود دنیا سے ختم ہوسکتا ہے، مگر افسوس کے ساتھ مشرق وسطیٰ میں موجود اسلامی ممالک کے منہ کو تالے لگ جاتے ہیں اور ان کی آوازیں سنائی نہیں دیتی، اسرائیل کے اس جرم میں انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی برابر کی شریک ہیں، جو اس دہشتگردی کے خلاف آواز بلند نہیں کرتیں۔ کانفرنس کے آخر میں شرکاء نے حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کیا کہ جمعۃ الوداع کو عالمی یوم القدس کے عنوان سے منایا جائے اور پارلیمنٹ میں مسئلہ فلسطین کے حق میں قرارداد پیش کرنے کے ساتھ ساتھ فلسطین کی آزادی اور اسرائیل کی نابودی کیلئے عالمی سطح پر مسلم ممالک کو ایک فورم پر جمع کرنے کیلئے کوششوں کو تیز کرے۔ کانفرنس میں اصغریہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان، اسلامی جمعیت طلبہ، آل پاکستان متحدہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن، پنجابی اسٹوڈنس ایسوسی ایشن و دیگر طلباء تنظیموں کے نمائندہ وفود نے بھی شرکت کی۔ اے پی سی سے فلسیطنی مزاحمتی تحریک حماس کے رہنما خالد قدومی نے بھی ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کیا۔
ایرانی وزیر خارجہ کی عراقی قبائل اور اہلسنت کی ممتاز شخصیات کے ساتھ ملاقات
اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف اعلی وفد کے ہمراہ عراق کے دورے پر ہیں , جہاں انھوں نے عراق کے اعلی حکام کے علاوہ عراقی قبائل اور اہلسنت کی ممتاز دینی اور مذہبی شخصیات کے ساتھ بھی ملاقات اور گفتگو کی۔ ایرانی وزير خارجہ نے عراقی پارلیمنٹ میں اہلسنت کے پارلیمانی نمائندوں کے ساتھ بھی ملاقات اور گفتگو کی۔ ایرانی وزیر خارجہ نے اس ملاقات میں اسلامی اصولوں اور بنیادوں پر اتحاد اور یکجہتی پر تاکید کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی معاشرے میں قبائلی اور طائفی رجحانات سے پرہیز کرنا چاہیے تمام مسلمانوں کی توجہ اسلام کے اساسی اور بنیادی اصولوں پر مرکوز ہونی چاہیے۔
ظریف نے بیت المقدس کو ایران کی خارجہ پالیسی کا اہم حصہ قراردیتے ہوئے کہا کہ مسئلہ فلسطین اور بیت المقدس مسلمانوں کا پہلا مسئلہ ہے اور دشمن اس مسئلہ سے مسلمانوں کی توجہ ہٹانے کے سلسلے میں اپنی پوری طاقت استعمال کررہا ہے اور مسلم ممالک میں اختلاف پیدا کرکے اپنے شوم اہداف تک پہنچنے کی کوشش کررہا ہے۔
استجابت دعا کے موانع
بسم اللہ الرحمن الرحیم
"وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ."
بہت سارے لوگ معاشرے میں دعا کرنے سے کتراتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ دعا کرنے کا کیا فائدہ؟
دعا کہاں کہاں انسان کو نفع دیتی ہے؟
بعض اوقات ہم دعا تو کرتے ہیں لیکن دعا قبول نہیں ہوتی دراصل ہمیں یہاں پر یہ دیکھنا ہوگا کہ اگر کسی کی دعا قبول نہیں ہوتی ہے تو اس کی وجہ کیا ہے؟
کیونکہ قرآن اور حدیث نے کچھ ایسے موانع کا تذکرہ کیا ہے کہ جن کی وجہ سے ہماری دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔
اب ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ یہ موانع ہیں کیا؟ اور جب تک ان کو دور نہ کریں ہماری دعاقبول نہیں ہوگی دعا فقط عبادت نہیں ہے بلکہ مخ العبادہ ہے ، یعنی عبادتوں کا مغز ہے،اس وجہ سے دعاکی بہت زیادہ اہمیت ہے۔
دعا مستجاب نہ ہونے کی علتیں:
گناہ
انسان جب گناہ کرتا ہے تو اس کی دعا قبول نہیں ہوتی اس لئے کہ گناہگاروں کی دعائیں بارگاہِ الٰہی تک نہیں پہنچ سکتیں، چونکہ گناہگاروں کی دعاؤں میں پرواز نہیں ہے "الیه یصعد الکلم الطیب والعمل الصالح یرفعه"قرآن کہہ رہا ہے کہ خدا کی طرف دو چیزیں جائیں گی ، ایک کلمہ طیب اور دوسری چیز عمل صالح، البتہ یرفع کے دو معنی کئے ہیں؛ بعض نے کہا: عمل صالح کلمہ طیب کو اوپر اٹھائے گا اور بعض کے مطابق ؛کلمہ طیب عمل صالح کو اوپر اٹھائے گا لیکن یہاں پر دونوں مراد ہو سکتے ہیں اس لئے کہ کلمہ طیب اس کے بہت سارے مصادیق ہیں،مثلاً آپ کا کلمہ پڑھنا، آپ کا ایمان اور اسی طرح سے بہت ساری چیزیں کلمہ طیب کے ضمن میں آتی ہیں جب تک آپ کا عقیدہ صحیح نہ ہو آپ کے عمل کا کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا، اسی بناء دعا کو کلمہ طیب میں شمار کیا جاسکتا ہے۔
جب تک دعا طیب نہ ہو اوپر اٹھ نہیں سکتی، جب تک دعا میں پاکیزگی اور طہارت نہ ہوں قبول نہیں ہو سکتی، کلام آلودہ ہی گناہ کے ارتکاب سے ہوتا ہے اور آلودہ کلام کو خدا پسند نہیں فرماتا،آلودہ کلام میں پرواز کی صلاحیت نہیں ہوتی،آلودہ کلام اس پرندے کی مانند ہے کہ جس کے پروں کو کاٹ دیاہو ایسے پرندے نہیں اڑ سکیں گے تو لہذا دعا میں طہارت شرط ہے اور گناہ سے دوری بھی ضروری ہے۔
دعائے کمیل میں امیر المومنین علیہ السلام ہمیں یہ تعلیم فرماتے ہیں: "اللھم اغفرلی الذنوب التی تحبس الدعاء" تمہاری دعاؤں میں سے بعض دعائیں گناہ کی وجہ سے زندانی ہیں وہ دعائیں بارگاہ الٰہی تک نہیں پہنچ سکتی۔
فرمایا: خدایامیرے ان گناہوں کو بخش دے جو میری دعاؤں کی قبولیت کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔
امام سجاد علیہ السلام بھی عدم استجابت دعاکے کچھ علل و اسباب بیان فرماتے ہیں:
ناپاک باطن؛
اگر انسان کا باطن ناپاک ہو تو اس کی دعا قبول نہیں ہوتی یہ مانع ہے حجاب ہے۔
منافقت؛
ہمارے معاشرے میں بہت سارے لوگ ایسے ہیں جو آپ کے سامنے کچھ اور پیٹ پیچھے کچھ اور کہیں گے، مثلاً سامنے کہیں گے ہم آپ کے بہت چاہنے والے ہیں اور آپ کی عدم موجودگی میں کچھ اور کہیں گے، معصومین علیہم السلام کے مطابق ، ایسے لوگوں کی دعا قبول نہیں ہوتی، کیونکہ ایمان کی تعریف یہ ہے "اقرار باللسان والتصدیق بالجنان وعمل بالارکان" زبان سے اقرار، دل اس کی تصدیق کرے اور ظاہری عمل سے بھی معلوم ہو، اسی وجہ سے کسی کے دل اور زبان میں یگانگت نہ ہو تو،اس کی دعا کو خداوند قبول نہیں فرماتا اور یہ خود ایک گناہ ہے۔
عدم اطمینان؛
انسان دعا تو کرتا ہے لیکن اپنے رب پر اطمینان اور یقیں نہیں ہے ، حالت شک میں دعا کرتا ہے تذبذب میں ہے تو ایسے مذبذبین کی دعا قبول نہیں ہوتی اور یہ تذبذب کا شکار ہونا ہی عامل ہے دعا کے قبول نہ ہونے کا۔
اول وقت میں نماز برپا نہیں کرنا؛
انسان اگرنماز کی ادائیگی میں تاخیر کرے بہت سارے ایسے لوگ ہیں کہ جن سے کہیں کہ وقت پر نماز پڑھو تو وہ کہتے ہیں بس پڑھیں گے اتنی تاخیر سے پڑھتے ہیں کہ مشکلوں سے ادا ہو جاتی ہے ایسے لوگوں کیلئے اس سے بڑھ کر ضرر اور نقصان کیا ہوسکتا ہے کہ پروردگار ان کی دعا کو نہیں سنتا اور ان کی دعا مستجاب ہی نہیں ہوتی،لہذا یہ بھی ایک گناہ ہے۔
بدکلامی؛
امام سجاد علیہ السلام کی نگاہ میں عدم قبولیت دعا میں سے ایک گناہ بدکلامی،فحش نکالنا ہے۔یعنی انسان جو بھی زبان پر آئے اس سے بکے، معاشرے میں ہم بہت سارے مرد و زن کو دیکھتے ہیں کہ لوگ ان کی بدکلامی سے خدا کی پناہ مانگتے ہیں،لہذا یہ بھی ایک گناہ ہے جس کی بنا پر خدا ہماری دعاؤں کو مستجاب نہیں کرتا۔
ایک گروہ ایسا بھی ہے،وہ یہ سمجھتا ہے کہ ہم دعا کریں گے تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا، عمل کا تصور اور کوشش ہی نہیں کرتے بس کہتے ہیں کہ دعا کریں خدا سب کچھ عطا کرے گا تو خدا ایسے لوگوں کی دعاؤں کو بھی قبول نہیں کرتا کیونکہ یہ نظام فطرت،کائنات اور طبیعت کے بر خلاف عمل کر رہے ہیں، اس لئے کہ خدا نے نظام طبیعت کو وجود میں لا کر"لیس للانسان"کی مہر لگانے کے ساتھ یہ کہا ہے کہ تو کوشش کر اور اس کوشش کے ساتھ دعا کرو تو تیری کوشش کا نتیجہ دیں گے اور تمہاری دعا بھی قبول کریں گے لیکن کوشش کیے بغیر فقط اللہ سے مانگو تو اللہ ایسی دعاؤں کو رد فرماتا ہے۔
عدم قبولیت دعا کے سلسلے میں امام صادق علیہ السلام چار قسم کے لوگوں کو بیان فرماتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن سے ہمارا روزانہ کی بنیاد پر واسطہ پڑتا ہے ۔
1۔ وہ افراد جو گھر بیٹھے خدا سے دعا کریں اور عملی اقدامات اٹھانے کی کوشش نہ کریں۔
2۔ وہ افراد جن کی بیویاں نافرمان ہوں اور وہ خدا سے دعا کریں خدایا ہمیں ان کے شر سے بچا تو ایسی دعا بھی بارگاہ الٰہی میں قبول نہیں ہوتی۔
3۔ فضول خرچی کرنے والے لوگوں کی دعا قبول نہیں ہوتی۔وہ اللہ کا عطا کردہ مال سے قناعت پسندی کے خلاف فضول خرچی سے کام لے اور جب مال و دولت ختم ہو جائے اور دعا کرے خدایا میرے رزق و روزی میں برکت عطا فرما لہذا ایسے افراد کی دعا بھی قبول نہیں ہوگی۔
4۔ وہ افراد ہیں جو کسی کو قرض الحسنہ دیتے ہیں لیکن گواہ وغیرہ کا اہتمام نہیں کرتے، قرآن و حدیث کی روشنی میں ضروری ہے کہ کہ قرض لینے اور دیتے ہوئے گواہ مقرر کیا جائے اور جب قرض لینے کا وقت آجائے اور مقروض انکار کرے کہ میں نے آپ سے کب قرضہ لیا ؟اور جب یہاں قرضہ دینے والا دعا کرتا ہے تو خدا اس کی دعا قبول نہیں کرتا۔لہذا ہمیں دعا کے آداب و اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے بارگاہِ ایزدی میں دست بدعا ہونے کی ضرورت ہے۔
جاری ہے ۔
حوزہ/ رمضان المبارک کی مناسبت سے، حجت الاسلام و المسلمین استاد شیخ یعقوب بشوی کے قرآنیات پر روزانہ درس
اضطراب اور پریشانی سے کیسے نجات حاصل کریں؟
حوزہ حرم حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کے خطیب نے کہا: روایات میں آیا ہے کہ سورہ انشراح کو زیادہ پڑھیں اور اس سورہ کو پڑھتے وقت اپنا ہاتھ اپنے دل پر رکھیں تاکہ خدا انسان کو شرح صبر عطا کرے اور بعض بیماریوں کے دور ہونے کے لیے بھی روایات میں کہا گیا ہے کہ اس سورہ کو پڑھیں اور اپنے اوپر دم کریں۔
حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،حجۃ الاسلام والمسلمین سید حسین مومنی نے حرم حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا قم میں ماہ مبارک رمضان کی مناسبت سے جاری اپنے سلسلۂ گفتگو کو بڑھاتے ہوئے کہا کہ قرآن کریم کی چند آیات میں کلمہ قلب کے بجائے کلمہ صدر استعمال ہوا ہے جیسا کہ حضرت موسی علیہ السلام نے خداوندعالم سے شرح صدر کا تقاضا کیا ہے اور مفسرین کے بقول صدر سے مراد قلب ہے۔
انہوں نے مزید کہا: سورہ انعام کی آیت نمبر 25 میں آیا ہے کہ خداوندعالم اگر کسی کی ہدایت کا ارادہ کرتا ہے تو اسے شرح صدر عطا کرتا ہے اور اگر کسی کی ہدایت نہیں کرنا چاہتا تو اس کے سینے اور قلب کو تنگ کردیتا ہے اور وہ اسٹریس، اضطراب اور پریشانی میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
اس آیت کے ذیل میں روایات میں بھی آیا ہے کہ صدر سے مراد قلب (دل) ہے۔
دینی علوم کے اس استاد نے کہا: سورہ مبارکہ انشراح میں خداوند متعال نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خطاب کر کے فرمایا: ہم نے تمہیں شرح صدر عطا کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ روایات میں آیا ہے کہ سورہ انشراح کی زیادہ تلاوت کرو اور اس کی تلاوت کرتے وقت اپنا ہاتھ اپنے سینے پر رکھو تا کہ خداوندکریم انسان کو شرح صدر عطا کرے اور بعض بیماریوں کے لیے بھی آیا ہے کہ اس سورہ کو پڑھو اور اپنے اوپر دم کرو ۔
انہوں نے مزید کہا: سورہ انشراح انسان کو سکونِ دل اور شرح صدر عطا کرتی ہے اور انسان سے باطنی اضطراب کو دور کرتی ہے۔
انہوں نے کہا: باطنی اضطراب کے مصادیق ہی میں سے ایک دل کا تنگ ہونا ہے۔
حجۃ الاسلام والمسلمین مومنی نے کہا: روایات میں آیاہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شرح صدر کے مفہوم کے متعلق سوال ہوا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: شرح صدر ایسا نور ہے جو خداوندعالم مومنین کے دل میں قرار دیتا ہے اور اس کا دل کشادہ ہو جاتا ہے اور وہ مشکلات کے ہجوم میں تدبیر سے کام لیتا ہے۔
دوبارہ حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال ہوا کہ آیا شرح صدر کی کوئی علامت بھی ہے؟ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں! دنیا سے دل نہ لگانا اور اس سے وابستہ نہ ہونا، آخرت کے لئے جدوجہد کرنا اور موت سے پہلے موت کے لیے تیار ہونا شرح صدر کی علامات میں سے ہیں۔
ڈیمونا کو پہلا صدمہ
ابھی گذشتہ ہفتے منگل کے روز اسرائیل کی ایک میزائل تیار کرنے والی فیکٹری میں دھماکے کی خبر میڈیا سے غائب نہیں ہوئی تھی کہ جمعرات کی صبح سائرن کی آوازوں نے ایک بار پھر غاصب صہیونیوں کو چونکا دیا۔ میڈیا ذرائع نے اطلاع دی کہ ایک میزائل ڈیمونا ایٹمی پلانٹ کے قریب ہی گرا ہے۔ صہیونی اخباری ذرائع کے مطابق یہ میزائل شام کی سرزمین سے فائر کیا گیا تھا۔ غاصب صہیونی فوج کی جاری کردہ رپورٹ میں اسرائیل کی جوہری تنصیبات کے قریب میزائل گرنے کی تصدیق کرتے ہوئے فضائی دفاعی سسٹم کی ناکامی کا بھی اعتراف کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق یہ میزائل SA 5 نوعیت کا تھا، جو روسی ساختہ ہے اور S 200 کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہ میزائل شام کے فضائی دفاعی نظام کا حصہ تھا۔
اس واقعے کا اہم نکتہ یہ ہے کہ شام سے فائر کیا گیا میزائل مقبوضہ فلسطین کی فضائی حدود میں 125 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد زمین پر گرا ہے اور اس دوران اسرائیل کی فضائی دفاعی شیلڈ حتی اس کی تشخیص دینے میں بھی ناکامی کا شکار رہی ہے۔ اسرائیلی ذرائع ابتدا میں یہ بھی نہ سمجھ سکے کہ اس میزائل کی نوعیت کیا ہے۔ لہذا ابتدائی رپورٹ میں اعلان کیا گیا کہ زمین سے زمین پر مار کرنے والا ایک میزائل نقب کے علاقے میں آ گرا ہے۔ لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ یہ زمین سے فضا میں مار کرنے والا میزائل تھا۔ اسی طرح ابتدا میں اسرائیلی ذرائع نے یہ دعویٰ کیا کہ ہمارے فضائی دفاعی سسٹم کی جانب سے اسے روکنے کیلئے میزائل فائر کئے گئے تھے لیکن معلوم نہیں اسے روک پائے یا نہیں۔
غاصب صہیونی فوج کے ترجمان اویخائے ادرعی نے اپنے ٹویٹر پیغام میں لکھا: "شام سے فائر ہونے والے میزائل کے بارے میں ابتدائی تحقیقات سے واضح ہوتا ہے کہ ہمارا فضائی دفاعی نظام اسے ڈیٹکٹ کرنے میں ناکامی کا شکار ہوا ہے۔" اسی طرح غاصب صہیونی رژیم کے وزیر جنگ بنی گانتیز نے بھی اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا: "میزائل کو ڈیٹکٹ کرنے کی کوشش انجام پائی لیکن ناکامی کا شکار ہوئی۔ ہم بدستور اس حادثے کے بارے میں تحقیق کر رہے ہیں۔" ڈیمونا شہر کے میئر بنی بیتان نے ایف ایم 103 نامی صہیونی ریڈیو چینل سے بات چیت کرتے ہوئے کہا: "تمام تر حفاظتی اقدامات کے باوجود ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ڈیمونا ایٹمی ری ایکٹر تک رسائی ممکن ہے۔ میں صبح اٹامک پلانٹ کے سربراہ کی فون کال آنے پر بیدار ہوا لیکن اس وقت بھی خطرے کی گھنٹی نہیں بج رہی تھی اور صرف محدود علاقوں میں شور شرابہ سنا جا رہا تھا۔"
غاصب صہیونی رژیم کے سابقہ وزیر جنگ اویگڈور لیبرمین نے جمعرات کی صبح ہونے والے دھماکے کے بارے میں اپنے ٹویٹر پیغام میں لکھا: "جن حالات میں 200 کلوگرام کا وار ہیڈ رکھنے والا میزائل اسرائیل پر آن گرا ہے، ان کا نتیجہ کچھ اور بھی نکل سکتا تھا۔ نیتن یاہو سوتا رہتا ہے اور صرف اپنے ذاتی کاموں کی تیاری میں مصروف ہے۔" غاصب صہیونی رژیم کے تھنک ٹینک سکیورٹی ریسرچ سنٹر کے سربراہ عاموس یادلین نے اس بات پر زور دیا ہے کہ مذکورہ بالا واقعہ ایران کی جانب سے نطنز کی تخریب کاری کا جواب نہیں ہے۔ انہوں نے کہا: "یقین رکھیں ڈیمونا کا حادثہ ایران کی جوابی کارروائی نہیں ہے۔ ہم بہت سخت حالات سے گزر رہے ہیں۔ ایرانیوں نے ابھی تک انتقام نہیں لیا۔ اس کے باوجود ہمیں سکون کا سانس لینا چاہیئے کہ گرنے والا میزائل ایرانی نہیں تھا۔"
صہیونی اخبار معاریو کے تجزیہ کار طال لیف رام نے بھی اس بات پر زور دیا ہے کہ میزائل کا ٹارگٹ ڈیمونا جوہری ری ایکٹر نہیں تھا، لیکن ان کا یہ دعویٰ غاصب صہیونی رژیم کے کمزور فضائی دفاعی نظام پر پردہ نہیں ڈال سکتا۔ لبنانی اخبار "الاخبار" نے لکھا ہے کہ یہ واقعہ اسرائیل کے فضائی دفاعی نظام کی کمزوری کا واضح ثبوت ہے۔ اخبار مزید لکھتا ہے: "اس واقعے کے بارے میں اسرائیل کا سرکاری موقف بہت شکوک و شبہات کا حامل ہے۔ فائر ہونے والے میزائل اور اسے فائر کرنے والے کے بارے میں بہت سے سوالات پائے جاتے ہیں۔" رای الیوم آنلائن اخبار کے چیف ایڈیٹر عبدالباری عطوان اس بارے میں لکھتے ہیں: "ڈیمونا کی جانب فائر ہونے والا میزائل شاید جنگ کے قوانین میں تبدیلی کی نوید سنا رہا ہے۔ اس میزائل نے پرانے تمام جنگی قوانین کو روند ڈالا ہے۔"
حضرت خدیجہ (س) کی اخلاقی خصوصیات
حضرت خدیجہ علیھا السلام بہت ہی مہربان، بااخلاق اور نیک سیرت خاتون تھیں۔ وہ بہت مہمان نواز، باوقار شخصیت کی مالک، بہت ہی مذہبی اور دینی معاملات میں نہ تھکنے والی خاتون تھی۔ وہ سب سے پہلی خاتون تھیں، جنہوں نے اسلام کو قبول کیا اور پیغمبر اکرم (ص) کی اقتداء میں نماز جماعت پڑھی۔ یہ وہ عظیم خاتون ہیں، جنہوں نے اپنے مال کو اسلام کے راستہ میں لٹا دیا۔ ایک قول کی بناء پر تاریخ میں بہت سے بزرگان یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ اسلام کے اعلان سے پہلے معاشرہ میں حضرت خدیجہ کو طاہرہ، مبارکہ اور عورتوں کی سردار کہا جاتا تھا۔ یہ وہ تنہاء شخصیت تھیں، جو منجی کی منتظر تھیں، وہ اپنے زمانے کے علماء سے پوچھتی رہتی تھی کہ نبوت پیغمبر اکرم (ص) کی علامات کیا ہیں۔؟ جب نبوت کی تمام علامتوں کو پیغمبر اکرم (ص) کے اندر دیکھ لیا تو آپ فوراً پیغمبر آخر الزمان سے ملحق ہوگئیں اور آخری نفس تک پیغمبر اکرم (ص) کے رکاب میں ثابت قدم رہیں نیز کسی بھی ایثار و قربانی سے دریغ نہیں کیا۔ آپ نے پیغمبر اکرم (ص) کے بارے میں جو اشعار کہے، وہ بہت ہی زیبا اور عشق و محبت سے لبریز ہیں، جس کا ایک نمونہ یہ ہے "پوری دنیا کا مال و متاع رکھتی ہوں اور پوری دنیا کی حکومت ہاتھ میں ہوتی، تب بھی آپ کے مقابلہ میں کچھ نہ تھا، آپ کے مقابلہ میں مال اور حکومت کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے۔
دین کی ترویج اور ارتقاء میں حضرت خدیجہ کا کردار
حضرت خدیجہ کے پاس جو کچھ تھا، انہوں نے اسلام کے راستے میں قربان کر دیا اور اسے پیغمبر اکرم (ص) کے قدموں میں رکھ دیا۔ ابن اسحاق حضرت خدیجہ کی مدح کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں، خدیجہ پیغمبر اکرم (ص) کی سچی اور وفادار ساتھی تھیں۔ جب خدیجہ اور ابو طالب رحلت فرما گئے تو ساری مصیبتوں نے پیغمبر اکرم (ص) کو گھیر لیا۔ انہوں نے اپنا پورا مال و متاع اسلام کی نصرت اور پیغمبر اکرم (ص) پر قربان کر دیا بلکہ اپنی جان سے بھی زیادہ پیغمبر اکرم (ص) کا خیال رکھتی تھیں آپ نے اسلام کی ترویج اور ارتقاء کے لئے کوئی بھی موقع اپنے ہاتھ سے نکلنے نہیں دیا۔ حضرت خدیجہ ہم سب کے لیے خصوصاً ثروت مندوں کے لیے نمونہ ہیں، اس دنیا کی کوئی حیثیت نہیں، جو کچھ ہے، اسلام اور مسلمین کے لیے خرج کریں۔ خدا کی خوشنودی اور محمد و آل محمد علیھم السلام کے راستے میں خرج کریں، تاکہ کل کے لیے باقیات و صالحات ہو۔
حضرت خدیجہ کی تعریف پیغمبر اکرم (ص) کی زبانی
پیغمبر اکرم (ص) حضرت خدیجہ کی شان اور منزلت کے بارے میں فرماتے ہیں: "افضل نساء اهل الجنه خدیجه بنت خویلد و فاطمه بنت محمد و مریم بنت عمران و آسیه بنت مزاحم۔" "جنت کی افضل اور برترین عورتوں میں خدیجہ بنت خویلد، فاطمہ بنت محمد، مریم عمران کی بیٹی اور آسیہ بنت مزاحم ہیں۔" ذہبی کہتا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) جب بھی قریش والوں کی تہمتوں، مکر و فریب، جھوٹ، دغا بازی اور ان کی طرف سے دی جانے والی تکالیف کا ذکر سنتے تھے تو غمگین ہو جاتے تھے اور جب ان کے سامنے حضرت خدیجہ کا ذکر کیا جاتا تھا تو آپ خوشحال ہوتے تھے۔ پیغمبر اسلام (ص) حضرت خدیجہ کی بہت تعریف کرتے تھے اور آپ کے ہاں امہات المومنین میں سب سے زیادہ حضرت خدیجہ کو فوقیت حاصل تھی، یہان تک کہ حضرت عائشہ نے کہا، میں نے پیغمبر اکرم (ص) کی کسی بیوی سے اتنا پیار نہیں کیا، جتنا خدیجہ سے کیا، وہ اس لئے کہ پیغمبر اکرم (ص) انہیں بہت زیادہ یاد کرتے تھے۔
احمد بن حنبل اپنی مسند میں حضرت عائشہ سے کچھ اس طرح نقل کرتے ہیں: "پیغمبر جب بھی خدیجہ کو یاد کرتے تھے تو ان پر درود بھیجتے اور بہت تعریف کرتے تھے تو میں نے کہا آپ کس قدر اس کو یاد کرتے ہیں، خدا نے آپ کو اس سے بہتر دیا ہے تو پیغمبر اکرم (ص) نے فرمانے لگے، خداوند متعال نے اس سے بہتر مجھے نہیں دیا، کیونکہ جب لوگوں نے کفر اختیار کیا، وہ مجھ پر ایمان لائی، جب لوگ مجھے جھٹلاتے تھے تو اس نے میری تائید اور حمایت کی، جب لوگوں نے میرا اقتصادی بائیکاٹ کیا تو اس نے اپنا تمام مال و دولت مجھ پر نچھاور کیا اور خداوند متعال نے مجھے اس سے بیٹی عطا کی، جبکہ دوسری بیویوں سے کچھ نہیں ملا۔"
حضرت خدیجہ کبریٰ، صاحب تقویٰ، پارسا، خدا پرست اور بہترین اخلاق کی مالک خاتون تھیں۔ آپ کا تعلق بنی ہاشم کے قبیلہ سے تھا، آپ کے والد گرامی خویلد بن اسد بن عبدالعزی بن قصی بن کلاب قریشی تھے۔ آپ کی والدہ ماجدہ فاطمہ، زائدہ بن اصم کی بیٹی تھی، جو باپ کی طرف سے پیغمبر اکرم (ص) کے چچازاد اور نسب کے لحاظ سے دونوں قصی بن کلاب تک پہنچ جاتے ہیں۔ اگرچہ آپ کی تاریخ پیدائش مشخص و معین نہیں ہے، لیکن تحقیق اور مطالعہ کے بعد حقیقت سے نزدیک تر یہ ہے کہ آپ عام الفیل سے تین سال پہلے دنیا میں تشریف لائیں۔ اس حوالہ سے آپ پیغمبر اکرم (ص) سے تین سال بڑی تھیں۔ انہوں نے ایک شرافت مند اور بااخلاق گھرانے میں پرورش پائی۔ اسی وجہ سے آپ صاحب تقویٰ، بااخلاق اور نجیب ترین خاتون کے طور پر معروف ہوگئیں۔ آپ اخلاق حمیدہ، تقویٰ اور شرافت ہی کی وجہ سے پیغمبر اکرم (ص) کی ہمسر بنیں۔
حضرت خدیجہ کی شادی
کیا حضرت خدیجہ علیھا السلام کی پہلی شادی پیغمبر اکرم سے ہوئی تھی؟ اس میں اختلاف ہے، بعض تاریخی کتابوں میں آیا ہے کہ حضرت خدیجہ نے عرب کے مشہور شخص عتیق بن عائذ مخزومی سے پہلی شادی کی تھی اور وہ جوانی میں ہی فوت ہوگئے تھے، اس نے کافی مال حضرت خدیجہ کے لیے چھوڑا تھا۔ اس کے بعد ابی ھالہ بن المنذر الاسدی سے شادی کی، کچھ عرصہ کے بعد وہ بھی فوت کر جاتے ہیں اور اپنے پیچھے کافی ثروت چھوڑ جاتے ہیں، البتہ تاریخی باتیں زیادہ حقیقت نہیں رکھتیں، کیونکہ بہت ساری شخصیات کا عقیدہ یہ ہے کہ حضرت خدیجہ نے ایک ہی شادی کی تھی اور وہ پیغمبر اکرم (ص) کے ساتھ تھی۔ مثال کے طور پر ابوالقاسم کوفی، احمد بلاذری، سید مرتضیٰ، شیخ طوسی، علامہ مجلسی وغیرہ اپنی اپنی کتابوں میں اس حقیقت کو ذکر کرتے ہیں کہ جب حضرت خدیجہ پیغمبر اکرم (ص) کے گھر آئیں تھیں، اپنی بہن کی بیٹیوں کو اپنے ساتھ لے آئیں تھیں، جن کی کفالت خود ان کے ذمہ تھی۔
حضرت خدیجہ کی ایک بہن تھی، جن کا نام ھالہ تھا اور ان کی دو بیٹیان تھیں، ھالہ کا شوہر مر گیا تھا اور وہ فقیر تھیں، اسی لئے حضرت خدیجہ ان کی پرورش اور کفالت کیا کرتی تھیں، جب خدیجہ نے پیغمبر اکرم (ص) سے شادی کی تو یہ دو بیٹیاں حضرت خدیجہ کے پاس ہی رہتی تھیں۔ تاریخ نے ھالہ کی بیٹیوں کو حضرت خدیجہ اور پیغمبر اکرم (ص) سے نسبت دی ہے۔ زمانہ جاہلیت میں لے پالک بچوں کو کفالت اور پرورش کرنے والوں سے نسبت دینے کا رواج عام تھا۔ ابن عباس سے منقول ہے کہ حضرت خدیجہ نے جب پیغمبر اکرم (ص) سے شادی کی تھی تو اس وقت ان کی عمر 28 سال تھی، البتہ یہ روایت بھی ہے کہ اس وقت آپ کی عمر 25 سال تھی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آپ شادی کے وقت پیغمبر اکرم (ص) کی ہم عمر تھیں۔
بہرحال حضرت خدیجہ پیغمبر اکرم (ص) کے کردار و گفتار سے بہت متاثر تھیں اور آپ سے بہت عشق و محبت کرتی تھیں، جب خدیجہ نے اپنے دو غلاموں کو شام میں تجارتی سفر کے لئے پیغمبر اکرم (ص) کے ساتھ بھیجا تو انہوں نے جو معجزات اور کرامات دیکھے تھے، انہیں حضرت خدیجہ کو نقل کیا، جن سے بہت متاثر ہوئیں۔ آپ نے پیغمبر اکرم (ص) سے شادی کے بعد جو کچھ تھا، اسے پیغمبر اکرم (ص) کے قدموں میں رکھ دیا، اس طرح آپ نے اپنی محبت اور ایمان کا اظہار کیا، آپ نے نہ صرف اپنی تمام دار و نادار کو پیغمبر اکرم (ص) پر قربان کیا بلکہ اپنی شخصیت، مقام و منصب، مال اور منال جو عرب میں مشہور تھا، اسلام اور پیغمبر اکرم (ص) کی خدمت میں رکھا۔ آپ کے القاب میں خاص طور پر طاہرہ ہے، جو پورے عرب میں آپ کی پاکیزگی، طہارت اور پاکدامنی کی علامت تھا۔
حضرت خدیجہ کی وصیت
جب حضرت خدیجہ بیمار ہوگئیں تو پیغمبر اسلام (ص) آپ کے سرہانے بیٹھے رہے اور فرماتے تھے، خدیجہ کیا تم جانتی ہو کہ خداوند تعالیٰ نے تم کو جنت میں بھی میری بیوی قرار دیا ہے اور بہشت میں اعلیٰ علیین میں آپ کے لیے جگہ دی ہے۔ آپ نے جب اپنی بیماری کو شدید دیکھا تو کہنے لگیں، یارسول اللہ، میں نے آپ کے حق میں کوئی کوتاہی کی ہے تو مجھے معاف کر دیجئے۔ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا، تم سے میں نے کبھی کوئی کمی و بیشی نہیں دیکھی اور جب بھی مجھے تھکا ہوا اور پریشان دیکھا تو اپنی تمام جان و مال میرے اوپر نچھاور کر دیا۔ حضرت خدیجہ نے عرض کیا، یارسول اللہ (حضرت فاطمہ زہراء کی طرف اشارہ کرتی ہوئی) بہت خیال رکھیں چونکہ یہ میرے بعد یتیم، غریب اور تنہا ہو جائے گی، پس خدا نہ کرے کہ قریشی عورتوں کی طرف سے اسے کوئی اذیت و تکلیف پہنچے۔ خدا نہ کرے، کوئی اس کے چہرے پر تھپڑ مار دے، خدا نہ کرے کہ کوئی اس کے اوپر زور سے آواز دے، خدا نہ کرے کہ کوئی اس پر بہت بڑی چوٹ لگائے۔
ایک اور وصیت ہے، جسے بیان کرتے ہوئے شرماتی ہوں، اس کو فاطمہ زہراء کو بتا دوں گی۔ اس کے بعد فاطمہ زہرا کو بلایا اور کہا، میری آنکھوں کی ٹھنڈک، یہ اپنے باپ کو بتا دینا کہ میں قبر میں ڈرتی ہوں، اس لیے جو لباس آپ نے وحی نازل ہونے کے موقعہ پر پہنا ہوا تھا، مجھے کفن کے طور پر دیں۔ پس حضرت زہرا نے یہ بات پیغمبر اکرم (ص) کو بتا دی تو پیغمبر اسلام (ص) نے اپنا وہ لباس حضرت خدیجہ کو دے دیا۔ پیغمبر اکرم (ص) نے خود حضرت خدیجہ کے غسل و کفن و دفن کی ذمہ داری لی اور خود رسول اللہ (ص) نے انجام دیا اور حضرت جبرائیل بھی بہشت سے ایک کفن لائے اور کہا یارسول اللہ، خداوند عالم نے آپ کو سلام کہا ہے اور فرمایا ہے کہ حضرت خدیجہ نے اپنے مال کو میری راہ میں خرچ کیا ہے، لہذا ان کے کفن کی ذمہ داری میرے لیے سزاوار ہے۔
حضرت خدیجہ کی وفات
بیہقی حضرت خدیجہ کی عمر کے بارے میں کہتے ہیں، صحیح بات یہ ہے کہ وفات کے وقت آپ کی عمر پچاس سال تھی۔ مرحوم ملا صالح مازندرانی لکھتے ہیں، ہجرت سے تین سال پہلے آپ کی پچاس سال عمر تھی، پس بنا بر این پیغمبر اسلام (ص) سے شادی کے وقت حضرت خدیجہ کی عمر پچیس سال تھی۔ آپ نے اس وقت داعی اجل کو لبیک کہا۔ جب دشمنان اسلام نے پیغمبر اکرم (ص) کا اقتصادی بائیکاٹ کیا ہوا تھا اور آپ شعب ابو طالب میں زندگی کر رہے تھے، اس طرف حضرت خدیجہ بعثت کے دسویں سال دنیا سے رحلت فرما گئیں۔
خطے میں ایران کی فضائی برتری اور امریکہ کی پریشانی
جنرل میک کینزی نے مزید کہا: "ہم 1950ء کے عشرے کے آغاز میں کوریا جنگ کے بعد پہلی بار مکمل فضائی برتری کے بغیر ملٹری آپریشن انجام دے رہے ہیں۔ جب تک ہم ایران کے ڈرون طیاروں کی شناخت کر کے تباہ کرنے کی صلاحیت رکھنے والا نیٹ ورک تیار نہیں کر لیتے، اس وقت تک ہمیں مکمل طور پر فضائی برتری حاصل نہیں ہو پائے گی۔" امریکہ کے اس اعلی سطحی جنرل کی جانب سے ایران کی فضائی طاقت کو تسلیم کئے جانے سے اس پراپیگنڈے کی حقیقت واضح ہو جاتی ہے جو مغربی میڈیا نے ایران کی فوجی طاقت کے بارے میں شروع کر رکھا ہے۔ مغربی میڈیا اس بات پر زور دیتا آیا ہے کہ سابقہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایران کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباو کی پالیسی کے نتیجے میں ایران کی فوجی طاقت کمزور ہو چکی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے فوجی شعبے میں اپنی اندرونی اور مقامی صلاحیتوں اور توانائیوں پر بھروسہ کرتے ہوئے ڈرون طیاروں کی بڑی کھیپ تیار کر لی ہے جس کے نتیجے میں اب مغربی ایشیا خطے میں ایران امریکہ کی فضائی برتری کے مقابلے میں سب سے بڑا چیلنج بن کر سامنے آیا ہے۔ ایران کے ڈرون طیارے خطے میں امریکہ کی فوجی نقل و حرکت پر نظر رکھنے میں بہت زیادہ حد تک کامیاب ہوئے ہیں اور ضروری مواقع پر فوجی کاروائیاں بھی انجام دے چکے ہیں۔ یہی چیز امریکہ کے شدید تعجب اور پریشانی کا باعث بنی ہے۔ جو بائیڈن کی سربراہی میں امریکی حکومت نے مارچ 2021ء میں قومی سکیورٹی اسٹریٹجی سے متعلق ایک اہم دستاویز جاری کی تھی۔
"قومی سکیورٹی اسٹریٹجی کی عبوری گائیڈ" نامی اس اہم دستاویز میں خطے کے اہم کھلاڑی کے طور پر ایران کے کردار پر زور دیا گیا تھا اور ایران کو ایسی صلاحیتیں اور ٹیکنالوجیز حاصل کرنے سے روکنے پر تاکید کی گئی تھی جو "کھیل تبدیل کرنے" کی صلاحیت رکھتی ہوں۔ امریکہ کے مدنظر صلاحیتوں اور ٹیکنالوجیز میں خاص طور پر ڈرون ٹیکنالوجی، میزائل ٹیکنالوجی اور جوہری ٹیکنالوجی شامل ہیں۔ ایک ملک کی فوجی اور صنعتی طاقت میں ان ٹیکنالوجیز کے اہم کردار کی بدولت امریکہ نے ان پر اپنی توجہ مرکوز کر رکھی ہے۔ گذشتہ چند سالوں میں ایران نے مختلف قسم کے نئے ڈرون طیارے تیار کرنے کے شعبے میں خاطر خواہ ترقی کی ہے۔ امریکہ کے فوجی ماہر مائیکل نائٹس کے بقول ایرانی ڈرون طیاروں کا زیادہ تر استعمال خطے میں اس کے حامی گروہ کر رہے ہیں۔
لبنان میں حزب اللہ لبنان اور یمن میں انصاراللہ یمن سمیت ایران سے وابستہ اسلامی گروہ اور تنظیمیں ایران کے جدید ڈرون طیاروں کا استعمال کر رہے ہیں۔ فوجی اور دفاعی شعبوں خاص طور پر ڈرون ٹیکنالوجی میں اسلامی جمہوریہ ایران کی روز افزوں ترقی ایسی حقیقت ہے جس کا اعتراف دوست اور دشمن دونوں کرتے نظر آتے ہیں۔ آج ایران کا شمار دنیا کے ان محدود ممالک میں ہوتا ہے جو مختلف قسم کے ڈرون طیاروں کی ڈیزائننگ، تیاری اور ماڈرنائز کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ دوسری طرف بری، بحری اور فضائی فوجی آپریشنز میں ڈرون طیاروں کی روز بروز بڑھتی اہمیت کسی پر پوشیدہ نہیں ہے۔ مزید برآں، سویلین شعبوں میں بھی ڈرون طیاروں کا استعال تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے۔ ڈرون طیاروں کی ٹیکنالوجی میں ایران کی ترقی کا اندازہ جدید ترین امریکی ڈرون طیاروں کو ہیک کر کے نیچے اتار لینے سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔
اس وقت ایران چھوٹے سے لے کر بہت بڑے ڈرون طیارے اور مختلف قسم کے جیٹ انجن سے چلنے والے پرندے ڈیزائن کرنے اور تیار کرنے کی بھرپور صلاحیت کا مالک بن چکا ہے۔ یہ ڈرون طیارے اور پرندے شناخت اور معلومات جمع کرنے، فوجی کاروائی کرنے، خودکش حملہ کرنے، گشت انجام دینے اور دیگر بہت زیادہ سرگرمیاں انجام دینے کی طاقت رکھتے ہیں۔ دوسری طرف اکتوبر 2020ء میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 2231 کی روشنی میں ایران پر اسلحہ فروخت کرنے کی پابندی بھی ختم ہو چکی ہے جس کے نتیجے میں اب وہ اپنی ایسی مصنوعات دیگر ممالک کو بھی فروخت کر سکتا ہے۔ اس مسئلے نے بھی واشنگٹن کو شدید پریشان کر رکھا ہے۔ سینٹکام کے مرکزی کمانڈر کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ ایران کی ڈرون طاقت سے شدید خوفزدہ ہے۔