سلیمانی

سلیمانی

لبنان کے دارالحکومت بیروت میں ہولناک دھماکے سے درجنوں افراد کے ہلاک اور سینکڑوں افراد کے زخمی ہونے کا اندیشہ ہے۔ دھماکہ اتنا شدید اور ہولناک تھا کہ اس کی آواز ڈھائی سو کلومیٹر دور تک سنی گئی۔ لبنان کے ایک نجی خبر رساں ادارے نے اس دھماکے کو ہیروشیما اور ناگاساکی کے دھماکے کی گونج سے مثال دی ہے۔ مقامی افراد کے مطابق بیروت کی بندرگاہ  کے علاقے میں ہولناک دھماکا ہوا، جس کے نتیجے میں گردو نواح کے علاقے لرز گئے اور شہر کے مختلف علاقوں کی عمارتیں اور گاڑیاں تباہ ہو گئیں۔ برطانوی خبر ایجینسی کے مطابق تباہ ہونے والی عمارتوں میں لبنان کے سابق وزیراعظم سعد حریری کا گھر بھی شامل ہے۔ مقامی خبر ایجنسی کے مطابق دھماکا ایک ایسے گودام میں ہوا ہے جہاں ضبط کیا گیا دھماکا خیز مواد رکھا گیا تھا۔ لبنان کے وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ ابتدائی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ گودام میں  سال قبل ایک بحری جہاز سے ضبط کیا گیا سوڈیم نائٹریٹ رکھا گیا تھا اور اسے ضایع کیا جانا تھا۔ دھماکے کی  آواز 240 کلومیٹر دور تک سنی گئی اور دور تک عمارتیں اس کی شدت سے لرز گئیں۔ اس سے قبل لبنان کے وزیر صحت حماد حسن نے دھماکے میں سینکڑوں افراد کے زخمی ہونے کی تصدیق کی تھی۔ علاوہ ازیں دھماکے کے مقام کی قریبی عمارتوں سے  لی گئی تصاویر اور ویڈٰیوز میں دھماکے کی شدت کے باعث ہونے والی تباہی اور گردو ونواح میں پھیلنے والا دھواں دیکھا جا سکتا ہے۔ دوسری جانب ایک عالمی خبر رساں ادارے نے بیروت دھماکے میں کم از کم 500 افراد کے ہلاک ہونے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ 

 رہبر انقلاب اسلامی ایران آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے ایران کے اندر منائی جانے والی "عید الاضحی" کی مناسبت سے ٹیلیویژن پر قوم کے ساتھ براہِ راست خطاب کیا۔ آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے اپنے خطاب میں ایرانی قوم سمیت پوری امتِ مسلمہ اور ادیانِ ابراہیمیؑ کو عید الاضحی کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے عید کے پر مسرت موقع پر قوم کو بڑھ چڑھ کر "کمزور طبقات کی مالی مدد اور عوامی صحت کیلئے جدوجہد کرنے والوں کے ساتھ تعاون" کی دعوت دی۔

رہبر انقلاب اسلامی ایران نے ماہ مبارک ذی الحج کی عظمت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اس کے پہلے عشرے کو عظیم ماضی کی یادگار، راہِ حق کی جانب ہدایت کرنے والا اور تضرع و زاری و توسل کا عشرہ قرار دیا اور کہا کہ اس مبارک مہینے کا دوسرا عشرہ، "عید غدیر" کے سبب "عشرۂ ولایت" ہے جبکہ الہی احکام کے درمیان "ولایت" ایک اعلی مقام کی حامل ہے کیونکہ یہی "ولایت"؛ تمام احکاماتِ الہی کے اجراء کی ضمانت ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ اس مبارک مہینے کا تیسرا عشرہ بھی "عید مباہلہ" سمیت متعدد مناسبتوں کے حوالے سے ایک اہم عشرہ ہے۔

آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ امید ہے کہ امتِ مسلمہ کے لئے اس عظیم مہینے کا نہ صرف پہلا عشرہ بابرکت ثابت ہوا ہو گا بلکہ بعد میں آنے والے دو عشرے بھی امت مسلمہ کے لئے "اللہ تعالی کی رضا اور امت کی خوشبختی" کا باعث بنیں گے۔ رہبر انقلاب نے محرم الحرام کے ایام عزاء کی مناسبت سے پیروان مکتب حسینیؑ کو بھرپور عزاداری کے ساتھ ساتھ کرونا وائرس کے سلسلے میں سفارش شدہ احتیاطی تدابیر پر بھی مکمل عملدرآمد کرنے کی تاکید کی۔ انہوں نے ماہ محرم کے دوران عزاداروں کے لئے نذر و نیاز کے اہتمام کو انتہائی اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ محرم الحرام میں بھی مکمل احتیاطی تدابیر پر عملدرآمد کے ساتھ نذر و نیاز کا اہتمام کیا جا سکتا ہے۔

ایرانی سپریم لیڈر نے اپنے خطاب کے دوسرے حصے میں ملک کے خلاف عائد غیرقانونی امریکی پابندیوں کے فوری، درمیانے عرصے اور لمبے عرصے کے اہداف کی جانب اشارہ کرتے ہوئے تاکید کی کہ دشمن نے ملک و قوم کے خلاف پابندیوں کے ساتھ ساتھ حقائق مسخ کرنے کی مہم بھی چلا رکھی ہے تاہم اللہ تعالی کے فضل و کرم اور ایرانی قوم کی بیداری و عقلمندی اور اسے حاصل امریکہ کی گہری پہچان کے بدولت دشمن اپنے کسی بھی ہدف تک پہنچ نہیں پایا اور نہ ہی کبھی پہنچ پائے گا۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ایران؛ صبر و استحکام اور عوام کے اقتصادی مسائل کے حل و ملک میں موجود اندرونی وسائل سے بھرپور استفادے کے لئے حکام کی پہلے سے بڑھ کر کی جانے والی کوششوں کے ذریعے اپنے روشن مستقبل کی جانب گامزن رہے گا۔

ایرانی سپریم لیڈر نے غیرقانونی امریکی پابندیوں کو ایرانی قوم کے خلاف عظیم جرم قرار دیا اور کہا کہ خبیث دشمن؛ پوری ایرانی قوم کو نشانے پر لے لینے والی ان پابندیوں کے ذریعے مختلف اہداف حاصل کرنا چاہتا ہے۔ رہبر انقلاب نے ایران کے خلاف غیر قانونی امریکی پابندیوں کے فوری مقصد کو "ایرانی قوم کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنا" قرار دیتے ہوئے کہا کہ دشمن چاہتا ہے کہ عوام کو آپس میں الجھا کر حکومت کے خلاف سڑکوں پر لے آئے اور یہی وجہ ہے وہ اس حوالے سے "شدید گرمی کے موسم" (Hot Summer) کی اصلاح کو مسلسل استعمال کر رہا ہے تاہم اس وقت وہ خود ہی "شدید گرمی کے موسم" میں گرفتار ہو چکا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے "مُلک و قوم کی بالخصوص علمی میدان میں ترقی کو روکنا" غیرقانونی امریکی پابندیوں کا درمیانی مدت کا ہدف قرار دیا اور کہا کہ "ملک کو دیوالیہ کر کے معاشی ناکامی کا شکار بنانا" دشمن کا لمبے عرصے کا ہدف ہے کیونکہ ایسی صورت میں کوئی ملک زندہ نہیں رہ سکتا۔ آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے خطاب میں "اسلامی جمہوریہ ایران کو خطے کے مزاحمتی مراکز سے کاٹ دینے" کو امریکی پابندیوں کا ضمنی ہدف قرار دیا اور نتیجہ اخذ کرتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے دشمن اپنی سازشوں میں ناکام رہا ہے۔

آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ مذاکرات سے امریکیوں کا اصلی مقصد ملک و قوم کی انتہائی اہم صلاحیتیں سلب کرنا ہے تاہم موجودہ امریکی صدر اپنے ذاتی و انتخاباتی مفادات کی فکر میں ہے جیسا کہ شمالی کوریا کے ساتھ مذاکرات سے انتخاباتی فائدہ اٹھایا گیا ہے۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ جاری امریکی حادثات "راکھ تلے چھپی چنگاری" تھے جو، دبائے جانے کے باوجود اب بھڑک کر شعلوں میں بدل چکے ہیں اور یہی حوادث موجودہ امریکی حکومتی نظام کے خاتمے کا سبب بنیں گے کیونکہ اس حکومتی نظام کا سیاسی و معاشی فلسفہ غلط اور قابل مذمت ہے۔


چند دن پہلے لبنان کے ساتھ مقبوضہ فلسطین کی سرحد پر واقع شبعا کھیتوں میں ایک بہت عجیب واقعہ رونما ہوا ہے۔ یہ واقعہ اسرائیل آرمی کے ماتھے پر کلنک کا داغ بن گیا ہے۔ واقعہ کچھ یوں پیش آیا کہ اسرائیل آرمی نے غلطی سے اپنے ہی افراد کو نشانہ بنا ڈالا۔ گذشتہ ہفتے شام کے دارالحکومت دمشق میں اسرائیل کے فضائی حملے میں حزب اللہ لبنان کے ایک اعلی کمانڈر علی کمال محسن شہید ہو گئے جس کے بعد حزب اللہ نے اسرائیل سے بدلہ لینے کا اعلان کر دیا۔ اس اعلان کے بعد اسرائیل آرمی کو ہائی الرٹ کر دیا گیا تھا۔ لبنان کی سرحد کے قریب شبعا کھیتوں میں گشت کرنے والی ایک اسرائیلی یونٹ کو یوں محسوس ہوا گویا حزب اللہ لبنان کے کمانڈوز نے ان پر حملہ کر دیا ہے جس پر انہوں نے بوکھلا کر فائرنگ اور گولہ باری شروع کر دی۔
 
لیکن حقیقت یہ تھی کہ انہوں نے بوکھلاہٹ میں اپنے ہی فوجیوں کو نشانہ بنا ڈالا تھا۔ اب انہوں نے شرمندگی سے بچنے کیلئے یہ خبر اڑا دی کہ اسرائیل آرمی نے حزب اللہ لبنان کا کمانڈو ایکشن ناکام بنا دیا ہے۔ جب ان سے ثبوت کے طور پر جھڑپ میں مارے جانے والے افراد کی تصاویر کا مطالبہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ زندہ بچنے والے حزب اللہ کے کمانڈوز اپنے ساتھیوں کی لاشیں اپنے ساتھ واپس لے گئے ہیں۔ ایسی خبریں بھی موصول ہوئی ہیں کہ اس فائرنگ اور گولہ باری میں اسرائیل آرمی نے اپنے ہی پانچ فوجی ہلاک اور بارہ زخمی کر دیے ہیں۔ واقعے کے کچھ دیر بعد حزب اللہ لبنان نے اپنے سرکاری بیان میں واضح کیا کہ انہوں نے مقبوضہ فلسطین کے اندر کوئی کاروائی انجام نہیں دی اور ان کا کوئی مجاہد زخمی یا شہید نہیں ہوا۔
 
حزب اللہ لبنان نے اس واقعہ پر دو قسم کی حکمت عملی اپنائی۔ ایک "اسٹریٹجک خاموشی" اور دوسری "بامقصد ابہام" پر مبنی تھی۔ حزب اللہ لبنان کی جانب سے اس واقعہ کے بارے میں کچھ مدت کیلئے خاموشی اختیار کئے جانا اسرائیلیوں کیلئے ہر بیانئے یا دھمکی سے زیادہ دردناک تھا۔ اس خاموشی نے صہیونی رژیم کو شدید قسم کے اوہام کا شکار کر دیا جس کے نتیجے میں اس کا خوف و ہراس اپنے عروج تک جا پہنچا۔ اس واقعہ کے دوران اسرائیلی فوجیوں نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کی لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ وہ آپس میں لڑنے میں مصروف تھے۔ اس دوران حزب اللہ لبنان نے مکمل طور پر خاموشی اختیار کر رکھی تھی۔ یوں حزب اللہ لبنان نے ایک گولی بھی چلائے بغیر محض اسٹریٹجک خاموشی اور بامقصد ابہام کے ذریعے شبعا کھیتوں میں بہت بڑی کامیابی حاصل کی۔
 
اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم حزب اللہ لبنان سے اس قدر خوفزدہ ہو چکی ہے کہ نہ صرف حزب اللہ کے مجاہدین بلکہ مجاہدین کے سائے سے بھی وحشت زدہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی فوجی حتی مجاہدین کی موجودگی کا وہم و گمان کر کے بھی گولہ باری اور فائرنگ کا آغاز کر دیتے ہیں۔ تاریخ میں یہ حقیقت لکھی جائے گی کہ ایسے احمق بھی تھے جو خوف کا شکار ہو کر میدان جنگ میں اترتے تھے اور فرضی دشمن کے خلاف کاروائی انجام دیتے تھے۔ گویا اسرائیل حزب اللہ لبنان سے خوفزدہ ہو کر خودکشی پر اتر آیا ہے۔ دوسری طرف حزب اللہ لبنان نے اعلان کیا ہے کہ وہ دمشق میں شہید ہونے والے اپنے فوجی کمانڈر کا بدلہ لے کر رہے گی۔ حزب اللہ کی جانب سے جاری کردہ بیانئے میں کہا گیا ہے کہ ہم اپنے شہید کمانڈر کا بدلہ ضرور لیں گے۔
 
لہذا شبعا کے کھیتوں میں غلطی سے اپنے ہی فوجی مارنے اور زخمی کرنے کے باوجود اسرائیل کی سکیورٹی فورسز بدستور ہائی الرٹ پر ہیں۔ خود اسرائیل بھی اچھی طرح جانتا ہے کہ حزب اللہ لبنان جس اقدام کا اعلان کرتی ہے اسے انجام دیتی ہے۔ چند سال پہلے حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے اعلان کیا تھا کہ ہم نے اپنی دفاعی حکمت عملی میں تبدیلی کی ہے اور آج کے بعد اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم دنیا کے جس حصے میں بھی ہمارے خلاف کسی قسم کا دہشت گردانہ اقدام انجام دے گی ہم اس کا منہ توڑ جواب دیں گے۔ لہذا ماضی میں بھی حزب اللہ لبنان اپنے اعلی سطحی کمانڈرز کی شہادت کے بدلے باقاعدہ پہلے سے اعلان کر کے مقبوضہ فلسطین کے اندر غاصب صہیونی فوجیوں کے خلاف انتقامی کاروائی انجام دیتی آئی ہے۔
 
شبعا کے کھیت مقبوضہ فلسطین اور لبنان کی سرحد پر واقع ہیں۔ یہ علاقہ درحقیقت لبنان کی سرزمین کا حصہ ہے جس پر اسرائیل نے غاصبانہ قبضہ جما رکھا ہے۔ ایسے ہی جیسے اسرائیل نے شام کے علاقے گولان ہائٹس پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے۔ حزب اللہ لبنان نے اس عزم کا اظہار کر رکھا ہے کہ جب تک لبنان کی خاک کا ایک چپہ بھی غاصب صہیونی رژیم کے قبضے میں ہے یہ تنظیم اپنی مسلح جدوجہد جاری رکھے گی۔ حزب اللہ لبنان نے اعلان کیا ہے کہ وہ شہید علی کمال محسن کے خون کا بدلہ لینے کیلئے مناسب وقت اور جگہ کا انتخاب خود کرے گی۔ اسرائیلی حکمرانوں کے خوف اور وحشت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ حزب اللہ لبنان کی ممکنہ انتقامی کاروائی کے وقت، جگہ اور نوعیت سے لاعلم ہیں۔

یوم عرفہ ، اللہ تعالی کی پہچان اور شناخت کا دن ہے۔ یہ دن  اللہ تعالی کی بارگاہ میں تضرع و زاری نیز دعا اور توبہ قبول ہونے کا اہم دن ہے۔

اللہ تعالی نے اس دن اپنے بندوں کے لئے اپنے احسان وکرم اور جود و سخا کے دسترخوان بچھا دیئے ہیں یوم عرفہ اللہ تعالی کی عطا اور بخشش کا دن ہے۔  بعض دینی ذرائع کے مطابق یوم عرفہ کو عید کے عنوان سے بھی یاد کیا گیا ہے، مفاتیح الجنان کے مطابق یوم عرفہ اور نویں ذالحجہ بڑی اعیاد میں سے ہے اگر چہ روایات میں عید کے نام سے موسوم نہیں ہوا ہے لیکن یہ دن بھی اہم ایام میں شامل ہے جس میں اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو اپنی عبادت اور اطاعت کی دعوت دی ہے۔ اس دن لوگ اللہ تعالی کے فضل و کرم اور جود و سخا سے بہرہ مند ہوتے ہیں ۔عرفہ کے معنی پہچان اور شناخت کے ہیں اس دن لوگ اپنے حقیقی معبود اور خالق کو پہچانتے ہیں اس کی عبادت و بندگی کرتے ہیں اس سے مدد اور نصرت طلب کرتے ہیں ۔ آج کے اعمال میں حضرت امام حسین علیہ السلام کی زيارت اہم ہے اور خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو آج کربلائے معلی میں اپنے مولا و آقا حضرت امام حسین (ع)  کے روضہ پرحاضر ہو کر اپنے معبود برحق سے راز و نیاز کررہے ہیں۔آج کے دن کی دعاؤں میں یوم عرفہ میدان عرفات میں حضرت امام حسین علیہ السلام کی دعا معروف ہے جو عبد و معبود کے درمیان گہرے  رابطہ کا مظہر ہےجو اللہ تعالی کی پہچان اور شناخت کا مظہر ہے۔

اس دن حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت اور کربلائے معلی میں حاضر ہونے کی سخت تاکید کی گئی جس کے نتیجے میں حضرت امام حسین علیہ السلام کی عظمت اور جلالت دو چنداں ہوجاتی ہے بعض روایات کے مطابق عرفہ کے دن اللہ تعالی پہلے حضرت امام حسین علیہ السلام کے زائرین پر نظر کرتا ہے اور اس کے بعد عرفات میں حاضر ہونے والے حجاج پر نظر کرتا ہے۔

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: " انّ اللّه تبارک و تعالی یتجلّی لزوّار قبر الحسین(ع) قبل اهل العرفات و یقضی حوائجهم و یغفر ذنوبهم و یشفّعهم فی مسائلهم ثمّ یأتی اهل عرفه فیفعل بهم ذلک." اللہ تعالی عرفات سے پہلے حضرت امام حسین علیہ السلام کے زائرین پر نظر کرتا ہےان کی توبہ کوقبول کرتا ہے ان کے گناہوں کو بخش دیتا ہے اور ان کے مسائل اور مشکلات کو حل کرتا ہے اور اس کے بعد اہل عرفہ کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کرتا ہے۔

روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یوم عرفہ دعا ، توبہ اور انابہ کے لحاظ سے بہت ہی اہم دن ہے اور مؤمنین کو اس دن کے فیوض اور برکات سے بھر پور استفادہ کرنا چاہیے۔

 آج اسلامی جمہوریہ ایران کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں مقدس اور مذہبی مقامات پر طبی پروٹوکول کی رعایت کے ساتھ  اس دعا کی تلاوت کی جائے گی اور مؤمنین اس دعا کے ذریعہ اپنے گناہوں کی بخشش اور قرب خدا حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ یوم عرفہ حضرت آدم اور حضرت داؤد کی توبہ قبول ہوئی یہ دن اللہ تعالی سے  دعا ، رحمت اور مغفرفت طلب کرنے کا دن ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے حجاج بیت اللہ الحرام کے نام اپنے پیغام میں فرمایا: مغربی ایشیائی ممالک میں امریکہ کی فوجی موجودگی ویرانی ، تباہی، بربادی  اور پسماندگی کا سبب بن گئی ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے پیغام میں امریکہ اور اسرائیل کی جارحیت و بربریت کے مقابلے میں مسلمانوں کے درمیان اتحاد و یکجہتی ، فلسطینی مسلمانوں ، یمن کے مظلوم اور ستمدیدہ مسلمانوں نیز دنیا کے دیگر علاقوں میں ظلم و ستم کا سامنا کرنے والے مظلوم مسلمانوں کی حمایت  پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: بعض اسلامی ممالک کے سربراہان اپنے شخصی اور ذاتی مفادات کے لئے  اسرائيل کی غاصب اور ظالم حکومت کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا کر فلسطینیوں کی زخموں پر نمک چھڑکتے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بعض مسلم ممالک کے سربراہان کو اس ذلت آمیز رفتار سے پرہیز کرنے کی سفارش کی اور مغربی ایشیائی ممالک میں امریکہ کی فوجی موجودگی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: امریکہ کی مغربی ایشیائي ممالک میں فوجی موجودگی  اس خطے میں ویرانی ، تباہی اور پسماندگی کا سبب بن گئی ہے ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ہم امریکہ کے رونما ہونے والے حالات میں امریکہ کے مظلوم عوام کے ساتھ  ہیں اور امریکی حکومت کے نسل پرستانہ اقدامات کی مذمت کرتے ہیں ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے پیغام میں کورونا وائرس کی وجہ سے اس سال حج کے محدود پیمانے پر منعقد ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ہمیں خانہ کعبہ کی غربت کا احساس ہے اور ہمارے دل اس صورتحال میں بھی خانہ کعبہ کے پاس ہیں۔ ان شا اللہ ہم سب پہلی شان و شوکت کے ساتھ  آئندہ سال حج کا فریضہ ادا کریں گے۔

تحریر: سید اسد عباس
 
موسم حج آن پہنچا، تاہم اس مرتبہ حج گذشتہ روایات سے ہٹ کر انجام دیا جائے گا۔ کرونا کے سبب حکومت سعودیہ نے اعلان کیا ہے کہ اس مرتبہ دنیا بھر سے مسلمان حج کی سعادت سے بہرہ ور نہیں ہوسکیں گے۔ سعودیہ میں مقیم افراد نیز سعودیہ کے اقامہ ہولڈر ہی اس سعادت سے فیضیاب ہوں گے۔ حج کے حوالے سے یقیناً ایس او پیز کی تیاری بھی جاری ہوگی۔ یہ شاید کعبۃ اللہ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہے کہ حج کو ایسی پابندیوں کے ساتھ انجام دیا جا رہا ہے۔ ہماری دعا ہے کہ خداوند کریم دنیا کو اس وبائی مرض سے نجات عطا فرمائے، تاکہ ایک مرتبہ پھر بلاد حرم، زیارات مقدسہ اور مساجد و عبادت خانوں کی رونقیں بحال ہوسکیں۔ حج کے اجتماع کے حوالے سے مسلم مفکرین نے مختلف انداز سے اس اجتماع کی غرض و غایت کو بیان کیا ہے۔ ان مفکرین کی آراء کو اگر جمع کیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ جہاں انھوں نے اس عظیم عبادت کے عبادی اور معنوی پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے، وہیں اس کے اجتماعی، سیاسی اور اقتصادی گوشوں پر بھی گفتگو کی ہے۔

گذشتہ دنوں مجھے چند ایک مسلم مفکرین کے حج کے حوالے سے مضامین پڑھنے کا موقع ملا، جن میں مولانا مودودی، مولانا ابو الکلام آزاد، امام خمینی، شہید مرتضیٰ مطہری اور شہید باقر الصدر شامل ہیں۔ یقیناً درج بالا نام ان چند شخصیات کے ہیں جنھوں نے اس عظیم عبادت کے فلسفہ کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ حج کے عبادی اور معنوی پہلوؤں پر تو تقریباً سبھی مفکرین کا اتفاق ہے، تاہم بعض کے نزدیک یہ عبادت فقط انفرادی، عبادی اور معنوی حیثیت کی حامل نہیں بلکہ اس میں امت مسلمہ کے لیے اجتماعی پیغامات بھی موجود ہیں۔ حج کے سیاسی اور اجتماعی پہلو کے حوالے سے امام خمینی، شہید مرتضیٰ مطہری اور شہید باقر الصدر نے متعدد تحریریں قلمبند کیں۔
 
روایات اور سیرت معصومین علیہم السلام میں حج کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے۔ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی نگاہ میں حج کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب امیر کائنات حالت سجدہ میں 19 رمضان المبارک کو ابن ملجم لعین کے ہاتھوں زخمی ہوئے اور جب زہر کا اثر جسم مبارک میں پوری طرح اثر انداز کر گیا تو مولائے متقیان نے اپنی اولاد و اقارب کو جمع کرکے جو آخری وصیت فرمائی، اس میں ”حج“ کی بھی تلقین فرمائی۔ آپ نے فرمایا ”یہ میری وصیت ہر اس شخص کو ہے (قیامت تک) کہ جس تک یہ میری وصیت پہنچے، اس میں نماز اور قرآن کے ساتھ عبادت الٰہی میں جس چیز کے متعلق انتباہ ضروری خیال فرمایا وہ حج ہے۔ فرمایا:
اللّٰہ اللّٰہ فی بیت ربکم فانہ ان ترک لم ینظروا“ ترجمہ: "دیکھو اللہ سے ڈرنا اپنے پروردگار کے گھر (خانہ کعبہ) کے بارے میں کہ اگر اس کا حج موقوف ہو جائے تو پھر خلق خدا کو عذاب الہیٰ سے مہلت نہیں مل سکتی۔" ایک اور جگہ مولائے متقیان علیہ السلام نے فرمایا: "لا تترکوا حج بیت ربکم، فتھلکوا" ترجمہ: "دیکھو! اپنے پروردگار کے گھر (خانہ کعبہ) کا حج ترک نہ کرنا، ورنہ ہلاکت سے دوچار ہو جاؤ گے۔"(ثواب الاعمال ص: 212)
 
امام حسن ؑکے بارے ملتا ہے کہ آپ نے بیس (20) حج پا پیادہ کیے۔ بعض روایات کے مطابق پچیس (25) پا پیادہ حج کیے۔ سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام نے پچیس (25) حج پا پیادہ کیے اور تین دفعہ آپ نے اپنا کل اثاثہ خدا کی راہ میں لُٹا کر حج کیا۔ امام زین العابدین علی الحسین علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے:
"حجوا واعتمروا وتضح اجسامکم و تتسع ارزاقکم، ویصلح ایمانکم وتکفوا مونۃ عیالاتکم" ترجمہ: "حج اور عمرہ بجا لایا کرو، جسمانی طور پر تندرست رہو گے، رزق میں اضافہ اور برکت ہوگی، ایمان میں اصلاح ہوگی(تمہارے مال میں اتنی وسعت ہوگی کہ لوگوں کی ضرورت پوری کرسکو گے)۔" حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: "الحاج و المعتمر وفد اللہ ان سئلوہ اعطاھم و ان دعوہ اجابھم، و ان شفعوا شفعھم، وان سکتوا ابتداھم ویعضون بالدرھم الف الف درھم۔" ترجمہ: "حج اور عمرہ کرنے والے خداوند عالم کی بارگاہ میں حاضر ہونے والا (ایسا وفد ہے) کہ اگر یہ لوگ اس سے کچھ مانگیں تو عطا کرے گا، اگر اسے پکاریں تو جواب دے گا، کسی کی سفارش کریں تو اس کی سفارش کو قبول کرے گا، اگر خاموش رہیں تو وہ خود ابتدا کرے گا اور ہر درہم کے بدلے انھیں ہزار ہزار درہم دیے جائیں گے۔"
 
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: "من مات ولم یحج حجۃ الاسلام ولم یمنعہ من ذلک حاجۃ تجحف بہ او مرض لا یطیق الحج من اجلہ او سلطان یمنعہ فلیمت ان شاء یھودیا و  ان شآء نصرانیا۔"ترجمہ: "اگر کسی شخص نے (استطاعت کے باوجود) حج کا اسلامی فریضہ ادا نہیں کیا، جبکہ نہ کوئی ایسا ضروری کام درپیش تھا، جو اس کے لیے رکاوٹ بنے، نہ ایسا بیمار تھا کہ جس کی وجہ سے حج کر ہی نہ سکے اور نہ (حکم وقت) کسی جابر سلطان نے اسے منع کیا تھا، تو وہ چاہے یہودی مرے یا عیسائی۔" ایک اور جگہ امام صادقؑ نے فرمایا: "من حج یرید بہ اللہ ولا یرید بہ ریاء ولا سمعۃ، غفراللہ لہ البتۃ۔"(ثواب الاعمال، صف ۲۶) ترجمہ: "جو شخص حج کرے اور اس کا مقصد صرف خداوند عالم (کی خوشنودی) ہو، نہ ریاکاری پیش نظر ہو، نہ شہرت(وغیرہ) تو خداوند عالم، یقیناً اس کی مغفرت فرمائے گا۔"
 
 حضرت امام علی رضا علیہ السلام فرماتے ہیں: "اعلم یرحمک اللہ، ان الحج فریضۃ من فرائض اللہ جل و عز اللازمۃ الواجبۃ من استطاع الیہ سبیلاً، وقد وجب فی طول العمر مرۃ واحدۃ، ووعد علیھا من الثواب الجنۃ والمعفومن الذنوب، وسمی تارکہ کافرا، وتوعد علی تارکہ بالنار فنعوذ باللہ من النار۔" ترجمہ: "یاد رکھو! خدا تم پر رحم کرے کہ ”حج“ خداوند عالم کے مقرر کردہ فرائض میں سے ایک اہم، واجب و لازم فریضہ ہے۔ ہر اس شخص کے لیے جس کو وہاں جانے کی استطاعت حاصل ہو۔ یہ پوری زندگی میں صرف ایک بار واجب ہے۔ خداوند عالم نے اس (کی ادائیگی) پر گناہوں کی مغفرت اور اس کے ثواب کے طور پر جنت کا وعدہ کیا ہے۔ اسے ترک کرنے والے کو کافر کے نام سے یاد کیا ہے اور حج نہ کرنے والے کو جہنم کے عذاب کی خبر دی ہے۔" ہم آتش جہنم سے خداوند عالم کی پناہ مانگتے ہیں۔ اللہ کریم ہر مسلمان کو اس عظیم عبادت کو اس کی حقیقی روح کے مطابق انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے۔ وہ افراد جو اس برس کوویڈ 19 کے سبب حج کی سعادت سے محروم رہے ہیں، خدا انہیں اگلے برس حج بیت اللہ سے سرفراز فرمائے، نیز ان احباب کو اپنے اموال کو راہ خدا میں صرف کرنے اور دکھی انسانیت کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔امین

تحریر: مولانا سید مشاہد عالم رضوی (تنزانیہ)
جب ہابیل اپنی شرافت پاکیزگی نفس اطاعت و تقوی کی بنا پر اپنے والد حضرت آدم علیہ السلامؑ کے قریب ہونے لگے تو قابیل کو اپنے بھائی ہابیل کی نسبت باپ کی یہ مجبت پسند نہ آئی اوراپنے گریبان میں جھانکنے کے بجائے بھائی سے حسد کرنے لگا حضرت آدم نے  اپنی مجبت کا راز ظاہر کرنے کے لئے  دونوں کو راہ خدا میں قربانی کا حکم دیا ہابیل چوپان یعنی بھیڑ بکریاں چراتا تھا اور قابیل دہقان (کسان) تھا اس لئے دونوں اپنی اپنی قربانیوں کے لئے تیار ہوئے ہابیل طہارت نفس وپاکیزگی روح کی بنیاد پر ایک موٹا تازہ دنبہ یاگوسفند راہ خدا میں قربانی کرنے کے لئے لایا جبکہ قابیل نے کچھ ردی بالیاں راہ خدا میں پیش کیں ۔ 
اس وقت قربانی قبول ہونے کی علامت آسمانی آگ تھی یعنی جس کی قربانی قبول ہوتی آسمان سے آگ آکر اسے جلا ڈالتی چنانچہ یہی ہوا کہ ہابیل کی قربانی کو تھوڑی ہی دیر بعد آسمانی آگ نے جلا کر خاک کر دیا جبکہ قابیل کی ردی بالیاں میدان میں پڑی رہیں" اور پیغمبر آپ ان کو آدم کے دونوں فرزندوں کا سچا قصہ پڑھ کر سنائیے کہ جب دونوں نے قربانی دی اور ایک کی قربانی قبول ہو گئی اور دوسرے کی قبول نہ ہوئی / سورہ مائدہ/ 26" 
تو  ابتدائے خلقت کا یہی واقعہ ہمیں قربانی کےآغاز کے بارے میں بتا تا ہے جو راہ خدا میں نبی آدمؑ علیہ السلام  کے حکم سے انجام پائی ۔ 
قربانی ابراہیم ؑ و اسماعیلؑ:
حضرت ابراہیم کا زمانہ نبوت آیا تو خداوند متعال نے نبوت کے ساتھ منصب امامت دینے کے لئے انھیں سخت آزمائشوں میں مبتلا کیا کیونکہ اطاعت ابراہیمی کی مثال انسانی تعمیر و تربیت میں آگے چل کر نہایت موثر واقع ہونے والی تھی اور ان کی زندگی خصوصیت سے نمونہ عمل قرار دی جانے والی تھی ، چنانچہ ابراہیم  نار نمرود میں پھینکے گئے ، مکہ کی سنسان خشک و خالی زمین پر جناب ہاجرہ اور گود کے پالے اسماعیل کےساتھ ہجرت کا حکم ملا ، اور جب اللہ نے ان کے دل کے خلوص کوہر طرح سےآزما لیا تو پھر خواب میں جوان بیٹے اسماعیل کے ذبح کرنے کا حکم دیا ۔ " پھر جب وہ فرزند ان کے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے کے قابل ہو گیا تو انھوں نے کہا بیٹا میں خواب میں دیکھ رہا ہوں کہ میں تمہیں ذبح کر رہا ہوں اب تم بتاو کہ تمہارا کیا خیال ہے / سورہ صافات /102"
جناب ابراہیم نے اسماعیل جیسے ہونہار و معصوم بیٹے سے جب اپنا یہ خواب بیان کر دیا تو اسماعیل ؑ نےفرما یا : " بابا جو آپ کو حکم دیا جا رہا ہے اس پر عمل کریں انشا اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے / صافات 102 "
اور پھرباپ بیٹے دونوں اللہ کے حکم کو انجام دینے کے لئے تیار ہو گئے جناب ابراہیمؑ نے اپنےجوان بیٹے کو راہ خدا میں قربان کرنےکےلئےمیدان منی میں لٹا دیا مگر اللہ نے اسماعیل ؑ کے بجائے دنبہ بھیج کر اسماعیل ؑ کو ذبح ہونے سے بچا لیا اور قربانی کے اس حسین مظاہرہ کو خدا وند متعال نے تاریخ انسانیت میں محفوظ کر لیا ۔" اور ہم نے آواز دی کہ اے ابراہیم تم نے اپنا خواب سچ کر دکھا یا / صافات 105 ۔ " خدا وند عالم کو باپ اور بیٹے کی یہ اطاعت وفرمانبرداری اس قدر پسند آئی کہ اسے ھمیشہ ھمیشہ کےلئےحج کے ارکان کا ایک جز قرار دے دیا ۔ چنانچہ جناب ابراہیم کی یہ قربانی شعار اللہ کا حصہ بن گئی اس لئے حج میں موجود تمام حاجیوں پر 10 / ذی الحجہ کو میدان منی میں قربانی کرنا واجب قرار دیا گیا اورعام مسلمانوں پر مستحب موکد رکھی گئی۔ اس لئے 10 / ذی الحجہ کو دنیا بھر میں اس عظیم قربانی کی یاد میں قربانیاں ہوتی ہیں اور اگر فوت ہو جائے تو 11 اور 12 / ذی الحجہ کو اس نیک عمل کو انجام دینے کی ترغیب دلائی گئی ہے ۔
تاریخ آگے بڑھتی ہے :
  آگے چل کر انھیں جناب ابراہیم کی نسل میں ہمارے نبی حضرت محمد ؐ پیدا ہوئے جو کبھی کبھی مقام فخر میں فرمایا کرتے تھے " انا بنُ الذبیحین " 
میں دو قربانیوں کا بیٹا ہوں جواشارہ ہےجناب اسماعیل کی قربانی اور  اپنےوالد جناب عبد اللہ کی قربانی کی طرف، 
واقعہ یہ ہے: کہ جناب عبد المطلب(نبی اکرم ؐ کے دادا ) کعبہ کے متولی تھے اور اکیلے تھے ، اس لئے حاجیوں کی شایان شان پذیرائی سے معذور رہتے ایک دن چاہ زم زم کی کھدائی کا ارادہ کیا اوراس وقت آپ کو اپنی تنہائی اورقوت  بازوکی کمی کا بڑی شدت سے احساس ہوا اوربارگاہ خدا میں اس طرح سےگویا دعا کی ؛ بار الہا اگرتومجھے ! تومجھے دس فرزند عطا کردےجو تیرے امر میں ہمارے مددگار ہوں تو میں اپنے ایک فرزند کو تیری راہ میں قربان کردوں گا ۔ اللہ نےانکی یہ دعا سن لی ۔ نذر پوری کرنے کا وقت آگیا بیٹوں کے نام کا قرعہ ڈالا ، جناب عبد اللہ ہمارے نبی کے والدجو فضائل و کمالات ، خاندانی وجاہت او رزیبائی وخوبصورتی میں اپنی مثال آپ تھے، ان کا نام نکلا ۔اہل خاندان اور مکہ والے اس بات سےبہت رنجیدہ ہوئےاور آخر کار مشورہ یہ دیا گیا  کہ عبداللہ اور دس اونٹوں میں قرعہ اندازی کریں اور جب پھر عبد اللہ ہی کا نام قرعہ میں نکلا تو لوگوں کے مشورے سےاونٹوں کی تعداد بڑھاتے چلے گئے یہاں تکہ اونٹوں کی  تعداد سو تک پہونچ گئی جو ایک انسان کی کامل دیت بھی ہے تواس وقت جناب عبد اللہ کےبجائےقرعہ اونٹوں کےنام نکلا ۔ اس طرح جناب عبد اللہ بچ گئے اور بدلہ میں سو اونٹ عبد اللہ کی جان پر قربان ہوگئے ۔اور
 اس طرح ایک بار پھر ابراہیم ؑ و اسماعیلؑ کی قربانی کی یاد تازہ ہو گئی ۔
مگر ان مقدس قربانیوں کے حکم کے باوجود انسان کی قربانی کے بجائے جانور کی قربانی کا راز تاریخ میں چھپا رہا اور تاریخ نے آگے بڑھ کر اس راز سے اس وقت پردہ اٹھایا جب  فخر ابراہیم ؑ و اسماعیل ؑ ، سبط رسول صلیاللہعلیہ وآلہ وسلم یعنی حضرتؐ امام حسین علیہ السلام دسویں محرم سن اکسٹھ ھجری کو میدان کربلا میں فوج یزید کے ہاتھوں شہید ہوئے اور قرآن کریم کے مطابق" و ٙ فٙدٙیْناہُ بِذِبح عظیم  ۔ اور ہم نے اس کا بدلہ ایک عظیم قربانی کوقرار دے دیا ہے / صافات 107 ۔" 
کی تفسیر روشن ہو کر سامنے آئی 
اس مقام پر علامہ اقبال کہتے ہیں :
اللہ اللہ بائے بسم اللہ پدر 
معنی ذبح عظیم آمد پسر
سر ابراہیم و اسماعیل بود 
یعنی آن اجمال را تفسیر بود 
اس طرح امام حسینؑ قربانی ابراہیم ؑ واسماعیل ؑ کی تفصیلی مثال بن کر افق تاریخ انبیا پر ظاہر ہوئے جو آج بھی مومنوں کے قلوب کو گرما رہی ہے اور انسانیت کو ہدایت کا راستہ دکھا رہی ہے ۔ اور راہ دین میں قربانی کا فلسفہ واضح کر رہی ہے ۔گویا دین کی بقا اور دوام معصوم نبی کی قربانی چاہتا ہے یا معصوم امام کی قربانی کا طالب ہے اس لئے آج بھی پیغمبرؐ کے سچے پیروکار قربانی ابراہیم و اسماعیل کی یاد بھی مناتے ہیں اور شہادت سبط نبی حضرت امام حسین کی بھی یادکو تازہ کرتے ہیں ۔اس طرح دس ذی الحجہ اور دس محرم کی قربانی کا تناسب ایک لطیف نکتہ کی طرف اشارہ ہے۔

 رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے  شام عراقی وزیراعظم مصطفی الکاظمی کیساتھ  ہونے والی ملاقات میں عراق کی حکومت کو کمزور کرنے والے ہر اقدام کی مخالفت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ دونوں ممالک کے مابین باہمی تعلقات میں اسلامی جمہوریہ ایران کیلئے سب سے اہم بات عراق کے مفادات، سلامتی، عزت، وقار اور اس کی علاقائی صورتحال میں بہتری ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ عراق کے حوالے سے امریکی موقف ایران کے موقف کے بالکل برعکس ہے فرمایا عراق اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں ایران مداخلت نہیں کرتا ، لیکن عراقی دوستوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ امریکہ کو اچھی طرح پہچانیں اور سمجھ لیں کہ امریکہ نے جس ملک میں بھی قدم رکھا وہاں اس نے فساد، تباہی اور بربادی پھیلائی ہے۔

حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کو توقع ہے کہ عراقی حکومت، عوام اور پارلیمنٹ کی جانب سے امریکیوں کو ملک بدر کرنے کے فیصلے پر عمل پیرا ہوگی اس لئے کہ ان کی موجودگی عدم تحفظ کا باعث ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امریکہ کے ہاتھوں شہید جنرل سلیمانی اور ابو مہدی مہندس کے بہیمانہ قتل کو عراق میں امریکہ کی موجودگی کا نتیجہ قراردیتے ہوئے فرمایا ایران کبھی بھی اس مسلئے کو نہیں بھولے گا اور امریکہ پر کاری ضرب لگائے گا۔

حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ ایران اور عراق کے باہمی تعلقات کے بہت زیادہ مخالفین ہیں کہ جن میں سر فہرست امریکہ ہے لیکن کسی بھی طور امریکہ سے ڈرنے کی ضرورت نہیں اس لئے کہ امریکہ کسی کا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسی طرح آیت الله العظمی سید علی سیستانی کو عراقی عوام کیلئے ایک بہت بڑی نعمت قرار دیتے ہوئے فرمایا عراق میں الحشد الشعبی بھی بہت بڑی نعمت ہے کہ جس  کی حفاظت کرنی چاہئیے۔

اس ملاقات میں عراق کے وزیراعظم مصطفی الکاظمی نے رہبر معظم انقلاب اسلامی کے ساتھ ملاقات کو بہت بڑی سعادت قراردیا اور داعش اور دیگر دہشت گرد گروہوں کے خلاف عراقی حکومت اور عوام کی حمایت کرنے پر ایران کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ عراقی عوام اور حکومت مشکل صورتحال میں ایران کی مدد ، ہمدردی اور حمایت کو کبھی فراموش نہیں کریں گے۔

عراقی وزیراعظم نے عراق اور ایران کے تاریخی، ثقافتی اور دینی تعلقات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی نصیحتیں مشکلات کا بہترین راہ حل ہیں اور میں آپ کی ہدایت اور رہنمائی پر آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

مہر خبررساں ایجنسی کے بین الاقوامی امور کے نامہ ںگار کے ساتھ گفتگو میں اسلامی جمہوریہ ایران کے دارالحکومت تہران میں فلسطینی تنظیم حماس کے نمائندے خالد قدومی نے صدی ڈیل کا مقابلہ کرنے اور فلسطینیوں کے درمیان اتحاد اور یکجہتی برقرار کرنے کے سلسلے میں ایران کے اہم ، اساسی اور بنیادی کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ  فلسطینیوں کے درمیان اتحاد و یکجہتی ، صدی معاملے کا مقابلہ کرنے کا واحد راستہ ہے۔

خالد قدومی نے فلسطینی تنظیم فتح اور حماس کے درمیان اتحاد اور یکجہتی کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا فلسطینی عوام کو بڑے چیلنجوں کا سامنا ہے فلسطینیوں کو ان کے اہداف سے دور کرنے کے لئے امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک نت نئی سازشیں کررہے ہیں ۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی سازشوں کا مقابلہ کرنے اور سینچری ڈیل کو ناکام بنانے کے سلسلے میں فلسطینی عوام اور حکام کے درمیان اتحاد اور یکجہتی وقت کی ضرورت ہے اس موقع پر فلسطینیوں کو اپنے داخلی اور اندرونی اختلافات کو فراموش کرکے فلسطین کی آزادی اور بیت المقدس کی نجات کے سلسلے میں مشترکہ اور متفقہ اقدامات انجام دینے کی ضرورت ہے۔

خالد قدومی نے حماس اور فتح کے درمیان مشترکہ قومی کانفرنس منعقد کرنے کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ فلسطینی تنظیم حماس اور فتح کو اسرائیل جیسے مشترکہ دشمن کا سامنا ہے اسرائیل کو امریکہ جیسی سامراجی طاقت کی حمایت اور پشتپناہی حاصل ہے ۔ امریکہ نے خطے میں موجود اپنے عرب اتحادیوں کو بھی اسرائیل کے بالکل قریب کردیا ہے اور ایسی صورتحال میں فلسطینیوں کا ایک جگہ جمع ہونا اور مشترکہ دشمن کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لئے اتحاد و یکجہتی کا عملی طور پر مظاہرہ کرنا بہت ضروری ہے۔ مہر نیوز کے مطابق حماس کے نمائندے نے اسرائیل کے ساتھ کئی عشروں سے جاری مذاکرات کی ناکامی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مذاکرات اچھی بات ہے لیکن مذاکرات کے سائے میں فلسطینیوں سے ان کے حقوق سلب کرنے کی کوشش کی گئی اور فلسطینیوں کو ان کے اصلی اہداف سے منحرف کرنے کے لئےمذاکرات کا ڈھونگ رچایا گيا۔

حماس کے نمائندے نے حماس اور فتح تنظیموں کے درمیان ممکنہ اتحاد کے بارے میں مہر کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ حماس اور فتح کے درمیان اتحاد بالکل ممکن ہے اگر امریکہ اور اسرائیل فلسطینیوں اور مسلمانوں کے خلاف متحد ہوسکتے ہیں تو حماس اور فتح تنظیمیں بھی مشترکہ اور متفقہ  طور پر اسرائیل اور امریکہ کی گھناؤنی سازشوں کا مقابلہ کرسکتی ہیں۔

حماس کے نمائندے نے فلسطین کی آزادی کے بارے میں رہبر معظم انقلاب اسلامی کے یوم قدس کے بیان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ فلسطین کے بارے میں ایران کا کردار اساسی، بنیادی اور اہم ہے ایران نے اب تک فلسطین کے بارے میں عملی طور پر ٹھوس اور اہم اقدامات انجام دیئے ہیں ۔ ہمارا ایران کی عملی حمایت پر ایمان ہے ۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی اور ایرانی وزير خارجہ نے عالمی سطح مسئلہ فلسطین کی حمایت میں اہم اور بنیادی کردار ادا کیا ہے ایرانی حکومت اور عوام کے احسان کو فلسطینی عوام کبھی فراموش نہیں کریں گے۔

 
نھج البلاغہ میں عبادت کے اقسام



امام علی علیہ السلام نہج البلاغہ کے اندر 

عبادت کرنے والوں کی تین اقسام بیان فرماتے ھیں۔”اِنَّ قَوْماً عَبَدُوْا اللہَ رَغْبَۃً فَتِلْکَ عِبَادَۃُ التُّجَّارِ وَ اِنَّ قَوْماً عَبَدُوْا اللہَ رَہْبَۃً فَتِلْکَ عِبَادَةُ الْعَبِیْدِ، وَ اِنَّ قَوْماً عَبَدُوْا اللہَ شُکْراً فَتِلْکَ عِبَادَةُ الاٴحْرَارِ“۔[1]

”کچھ لوگ خدا کی عبادت کے انعام کے لالچ میں کرتے ھیں یہ تاجروں کی عبادت ہے اور کچھ لوگ خدا کی عبادت خوف کی وجہ سے کرتے ھیں یہ غلاموں کی عبادت ہے اور کچھ لوگ خدا کی عبادت خدا کا شکر بجالانے کی کے لئے کرتے ھیں یہ آزاد اور زندہ دل لوگوں کی عبادت ہے“۔ اس فرمان میں امام علیہ السلام نے عبادت کو تین قسموں میں تقسیم کیا ہے۔

پھلی قسم :تاجروں کی عبادت

فرمایا:  ”اِنَّ قَوْماً عَبَدُوْا اللہَ رَغْبَۃً فَتِلْکَ عِبَادَةُ التُّجَّارِ ۔۔۔“

یعنی کچھ لوگ رغبت اور انعام کے لالچ میں خُدا کی عبادت کرتے ھیں۔ امام فرماتے ھیں یہ حقیقی عبادت نھیں ہے بلکہ یہ تاجر لوگوں کی طرح خدا سے معاملہ کرنا چاہتا ہے۔ جیسے تاجر حضرات کا ھم و غم فقط نفع اور انعام ھوتا ہے۔ کسی کی اھمیت اُس کی نظر میں نھیں ھوتی۔ اسی طرح یہ عابد جو اس نیت سے خدا کے سامنے جھکتا ہے در اصل خدا کی عظمت کا اقرار نھیں کرتا بلکہ فقط اپنے انعام کے پیش نظر جھک رھا ھوتا ہے۔

دوسری قسم :غلاموں کی عبادت

”وَ اِنَّ قَوْماً عَبَدُوْا اللہَ رَہْبَۃً فَتِلْکَ عِبَادَةُ الْعَبِیْدِ“۔

امام فرماتے ھیں کچھ لوگ خدا کے خوف سے اس کی بندگی کرتے ھیں یہ بھی حقیقی عبادت نھیں ہے بلکہ غلاموں کی عبادت ہے جیسے ایک غلام مجبوراً اپنے مالک کی اطاعت کرتا ہے۔ اُس کی عظمت اس کی نظر میں نھیں ھوتی۔ یہ عابد بھی گویا خدا کی عظمت کا معترف نھیں ہے بلکہ مجبوراً خدا کے سامنے جھک رھا ہے۔

تیسری قسم :حقیقی عبادت:

”وَ اِنَّ قَوْماً عَبَدُوْا اللہَ شُکْراً فَتِلْکَ عِبَادَةُ الاٴحْرَارِ“۔

امام فرماتے ھیں کہ کچھ لوگ ایسے ھیں جو خدا کی عبادت اور بندگی اُس کی نعمتوں کا شکریہ ادا کرنے کے لئے بجالاتے ھیں۔ فرمایا : یہ حقیقی عبادت ہے۔ چونکہ یھاں پر عبادت کرنے والا اپنے منعم حقیقی کو پہچان کر اور اُس کی عظمت کا معترف ھوکر اُس کے سامنے جھک جاتا ہے۔ جیسا کے کوئی عطیہ اور نعمت دینے والا واجب الاکرام سمجھا جاتا ہے۔ اور تمام دنیا کے عاقل انسان اُس کی عظمت کو تسلیم کرتے ھیں۔ اسی عقلی قانون کی بناپر امام علیہ السلام فرماتے ھیں جو شخص اُس منعم حقیقی کو پہچان کر اُس کے سامنے جھک جائے۔ اسی کو عابد حقیقی کھا جائے گا۔ اور یہ عبادت کی اٴعلیٰ قسم ہے۔

عبادة کے آثار میں سے ایک اھم اٴثریہ ہے کہ عبادت دل کو نورانیت اور صفا عطا کرتی ہے۔ اور دل کو تجلیات خدا کا محور بنا دیتی ہے۔ امام علی(ع) اس اثر کے بارے میں فرماتے ھیں:

”إنَ اللہَ تَعَالیٰ جَعَلَ الذِّکْرَ جَلَاءً لِلْقُلُوْبِ“۔(2)

امام علی(ع) فرماتے ھیں کہ ”خدا نے ذکر یعنی عبادت کو دلوں کی روشنی قرار دیا ہے۔ بھرے دل اسی روشنی سے قوة سماعت اور سننے کی قوة حاصل کرتے ھیں اور نابینا دل بینا ھوجاتے ھیں“

حوالہ:

[1] نہج البلاغہ، حکمت ۲۳۷۔

[2] نہج البلاغہ، خطبہ ۲۲۲۔