سلیمانی
حضرت عمر بن عبدالعزیز کے مزار کی شہادت کی جھوٹی خبر اور خارجی فکر
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس
عرب سوشل میڈیا پر ایک جھوٹی مہم چلائی گئی کہ دیر سعمان میں حضرت عمر بن عبدالعزیز کے مزار کی بیحرمتی کی گئی ہے اور ان کی قبر تک کو اکھاڑ لیا گیا ہے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز کا بوجوہ مسلم امہ میں بہت احترام کیا جاتا ہے، ان کے بعض اقدامات کی بہت ہی تحسین کی جاتی ہے۔ عرب سوشل میڈیا سے یہ غیر معروف انگریزی میڈیا میں داخل کی گئی، جہاں سے پاکستانی سوشل میڈیا ورکرز نے اٹھائی اور کل شام تک یہ کافی پھیل چکی تھی۔ جنگ میں بہت سے ناپسندیدہ اقدامات ہوتے ہیں اور سچ پوچھیں تو جنگ اسی لیے قابل نفرت ہے کہ اس میں کیے گئے اکثر اقدامات ناپسندیدہ ہی ہوتے ہیں۔ اس خبر کے ساتھ یہ لاحقہ لگانا ضروری خیال کیا گیا کہ یہ کام ایران کی پشت پناہی میں کام کرنے والی تنظیم نے کیا ہے۔
وطن عزیز کے فرقہ پرستوں نے عوام میں موجود حساسیت سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی کہ شیعوں نے یہ کیا ہے اور وہ ایسا ہی کرتے ہیں۔ کسی نے تحقیق کی نہ تو کوشش کی اور نہ ہی اسے ضروری خیال کیا، کیونکہ مدمقابل کے خلاف جھوٹ ثواب سمجھ کر پھیلایا جاتا ہے۔ ویسے افواہ کے ذریعے ایسے ایسے فوائد حاصل کیے جاتے ہیں، جو اصل واقعات سے بھی حاصل نہیں ہوتے۔ فرقہ واریت ایسا ہتھیار ہے، جو پچھلے کچھ عرصے سے خوارج اور ان کے سرپرست بہت زیادہ استعمال کر رہے ہیں۔ جب زمینی صورتحال ان کے خلاف جانے لگتی ہے تو کوئی ایسا پتہ کھیلتے ہیں، جس سے سادہ لوح مسلمان بہت جلدی متاثر ہو جاتے ہیں۔ شام کی عملی صورتحال یہ ہے کہ کرد علاقوں اور ترکی کے بارڈر کے کچھ علاقے کو چھوڑ کر سب اہم شہروں پر شامی افواج کا قبضہ ہوچکا ہے۔
سوفٹ وار کے طور پر حضرت عمر بن عبدالعزیز کے مزار کی بے حرمتی کے غیر تصدیق شدہ واقعہ کا سہارا لیا گیا، جس کی تصدیق نہیں ہوسکی، جو کسی معتبر سائیٹ پر نہیں آیا۔ کچھ لوگ یقیناً سوچ رہے ہوں گے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ خوارج ایسے شخص کی قبر کو گرائیں، جسے وہ بظاہر ہیرو سمجھتے ہوں؟ جی خوارج ہمیشہ سے ایسا کرتے آئے ہیں، زیادہ عرصہ نہیں ہوا کہ انہوں نے ایسی ہی ایک واردات پاکستان میں بھی کی تھی۔ محرم الحرام کا جلوس جب راجہ بازار پہنچا، وہاں موجود ایک مدرسے کو آگ لگا دی گئی۔ لوگوں کی اکثریت یہ سمجھ رہی تھی کہ جلوس والوں نے مخالف مسلک ہونے کی وجہ سے مدرسہ کو جلا دیا ہے۔ وطن عزیز کے سکیورٹی اداروں نے اس واقعہ پر دن رات کام کیا اور اس واقعہ میں ملوث اصل افراد کو گرفتار کر لیا۔ جب ان کی پریس کانفرنس سنائی گئی تو عجیب حقائق سامنے آئے کہ خارجی فکر کے لوگوں نے خود مدرسہ پر حملہ کیا، کئی لوگوں کو مارا کہ الزام مخالف مسلک پر لگا سکیں۔ اس سے پاکستان میں فرقہ واریت بڑھے گی، جس سے پاکستانی افواج ان کے خلاف پوری تندی سے آپریشنز نہ کرسکیں گی۔
ویسے تو یہ واقعہ سرے سے مشکوک ہے، اگر اس میں تھوڑی بہت صداقت بھی فرض کی جائے تو بھی یہ انہی خوارج کی کارروائی ہے، جو زمینی طور پر تو شکست کھا چکے ہیں، اب ایسے ہتھکڈوں کے ذریعے فرقہ واریت پھیلا کر اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ شیعہ مزارات بنانے والے ہیں گرانے والے نہیں ہیں۔ تقریباً سو سال پہلے جس فکر نے اصحاب رسولﷺ اور خاندان پیغمبرﷺ کے مزارات پر بلڈوزر چلا دیئے تھے اور جو آج تک اس پر فخر کرتے ہیں، فقط وہی ایسے لوگ ہیں، جو دنیا میں کہیں بھی صحابہ، اہلبیتؑ اور اولیاء اللہ کے مزارات کے ساتھ یہ سلوک کریں۔ شام میں ہی حضرت حجر بن عدی بن حاتم کے مزار کو شہید کیا گیا اور قبر تک کو کھودا گیا، اسی طرح خاتم الانبیاء ﷺ کی نواسی کے مزار پر راکٹ حملوں سے لے کر خودکش حملے تک کیے گئے۔ یہ شام کی ریاستی پالیسی بھی نہیں ہے، کیونکہ بنو امیہ کے بڑوں کی قبریں دمشق میں موجود ہیں اور کسی نے انہیں نہیں گرایا۔
ویسے اس بار انہوں نے پروپیگنڈا کے لیے جس شخصیت کا انتخاب کیا ہے، اس میں ان سے چوک ہوگئی ہے۔ ان کے خیال میں شیعہ سب بنو امیہ کی آنکھیں بند کرکے مخالفت کرتے ہیں، اس لیے جب یہ تصاویر میڈیا پر جائیں گے تو فرقہ وارانہ بحث شروع ہو جائے گی۔ شیعہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کا ذکر ہمیشہ احترام سے کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے امیر المومنین حضرت علیؑ کے خلاف ریاستی سرپرستی میں منبروں سے جاری سب و شتم کے سلسلے کو بند کرا دیا اور حکم دیا کہ خطیب اس کی جگہ قرآن مجید کی یہ آیت پڑھا کریں: إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالإِحْسَانِ وَإِيتَاء ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاء وَالْمُنكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ(سورۃ النحل:۹۰) "یقیناً اللہ عدل اور احسان اور قرابتداروں کو (ان کا حق) دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی اور برائی اور زیادتی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے شاید تم نصیحت قبول کرو۔" اس سے محبین امام علیؑ کے دلوں کو ٹھنڈ پڑی اور حضرت عمر بن عبدالعزیز کا دوسرا کام فدک بنی فاطمہؑ کو دینا تھا۔ امام محمد باقرؑ نے انہیں نجیب بنی امیہ خطاب کیا ہے۔
حد تو یہ ہے کہ صرف مخالف مسلک کی مخالفت میں وہ بھی لوگ بھی مزار کی بے حرمتی پر رو رہے ہیں کہ رہے رب کا نام۔ ہم جانتے ہیں کہ بہت سے لوگ جو سرے سے مزارات کے خلاف ہیں اور ہمیشہ ہم سے یہ بحث کرتے ہیں کہ ائمہ اہلبیتؑ اور دیگر اولیاء اللہ کے مزارات کو گرا دینا چاہیئے، قبر پر تعمیرات کو شرک و کفر گردانتے ہیں، ان کی اسلام نے کسی صورت میں اجازت نہیں دی ہے۔ آج وہ لوگ بڑے دھڑلے سے حضرت عمر بن عبدالعزیز کا مزار گرانے پر مرثیہ خواں ہیں۔ ویسے سچ پوچھیں تو مجھے بہت خوشی ہو رہی ہے کہ مزارات بنانا، اولیاء اللہ کے ایام منانا اور ان کے ذکر کو عام کرنا عامۃ المسلمین میں رائج عمل ہے۔ یوم ولادت باسعادت خاتم الانبیاء حضرت محمدﷺ کی ولادت کا دن پوری امت بڑے شوق سے مناتی ہے، لگ یوں رہا ہے کہ سب اسی سمت بڑھ رہے ہیں۔
قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَکَّي
زیارت کے معنی اور مفہوم
دعائے رویت ہلال
ماخوذ ازکتاب "صحیفہ کاملہ سجادیه"
اَیُّہَا الْخَلْقُ الْمَطِیْعُ الدَّائِبُ السَّرِیْعُ الْمُتَرَدِّدُ فِیْ مَنَازِلِ التَّقْدِیْرِ الْمُتَصَرِّفُ فِیْ فَلَکِ التَّدْبِیْرِ اٰمَنْتُ بِمَنْ نَوَّ رَبِّکَ الظُّلَمَ وَ اَوْضَحَبِکَ الْبُہَمَ وَ جَعَلَکَ اٰیَةً مِّنْ اٰیَاتِ مُلْکِہ وَ عَلاَمَةً مِنْ عَلاَمَاتِ سُلْطَانِہ وَامْتَہَنَکَ بِالزِّیَادَةِ وَالنُّقْصَانِ وَ الطُّلُوْعِ وَ الْاُفُوْلِ وَ الْاِنَارَةِ وَ الْکُسُوْفِ فِیْ کُلِّ ذٰلِکَ اَنْتَ لَہ مُطِیْعٌ وَ اِلٰی اِرَادَتِہ سَرِیْعٌ سُیْحَانَہ مَآ اَعْجَبَ مَا دَبَّرَ فِیْ اَمْرِکَ وَ اَلْطَفَ مَا صَنَعَ فِیْ شَانِکَ جَعَلَکَ مِفْتَاحَ شَہْرٍ حَادِثٍ لِاَمْرٍ حَادِثٍ فَاَسْئَلُ اللهَ رَبِّیْ وَ رَبَّکَ وَ خَالِقِیْ وَ خَالِقَکَ وَ مُقَدِّرِیْ وَ مُقَدِّرَکَ وَ مُصَوِّرِیْ وَ مُصَوِّرَکَ اَنْ یُصَلِّیَ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ اٰلِہ وَ اَنْ یَّجْعَلَکَ ہِلاَلَ بَرَکَةٍ لاَ تَمْحَقُہَا الْاَیَّامُ وَ طَہَارَةٍ لاَ تُدَلِّسُہَا الْاٰثَامِ ہِلاَلَ اَمْنٍ مِنَ الْاٰفَاتِ وَ سَلاَمَةٍ مِّنَ السَّیِّئٰافِ ہِلاَلَ سَعْدٍ لاَ نَحْسٍ فِیْہِ وَ یُمْنٍ لاَ نَکَدَ مَعَہ وَ یُسْرٍ لاَ یُمَازِجُہ عُسْرٍ وَ خَیْرِ لاَ یَشُوْبُہ شَرٌّہِلاَلَ اَمْنٍ وَ اِیْمَانٍ وَ نِعْمَةٍ وَ اِحْسَانٍ وَ سَلاَمَةٍ وَ اِسْلاَمٍ اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ اٰلِہ وَ اجئعَلْنَا مِنْ اَرْضٰی مَنْ طَلَعَ عَلَیْہِ وَ اضزْکٰی مَنْ نَظَرَ اِلَیْہِ وَ اَسْعَدَ مَنْ تَعَبَّدَ لضکَ فِیْہِ وَ وَفِّقْنَا فِیْہِ لِلتَّوْبَةِ وَاعْصِمْنَا فِیْہِ مِنَ الْحَوْبَةِ وَاحْفَظْنَا مِنْ مُبَاشَرَةِ مَعْصِیَتِکَ وَ اَوْزِعْنَا فِیْہِ شُکْرَ نِعْمَتِکَ وَ اَلْبِسئنَا فِیْہِ جُنَنَ الْعَافِیَةِ وَ اَتْمِمْ عَلَیْنَا بِاسْتِکْمَالِ طَاعَتِکَ فِیْہِ الْمِنَّةِ اِنَّکَ الْمَنَّانُ الْحَمِیْدُ۔ وَ صَلَّی اللهُ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ اٰلِہ الطَّیِّبِیْنَ الطَّاہِرِیْنَ۔ دعائے رویت ہلال اے فرما نبردار، سرگرم عمل اورتیرز ومخلوق اور مقررہ منزلوں میں یکے بعد دیگرے واردہونے اورفلک نظم وتدبیر میں تصرف کرنے والے میں اس ذات پر ایمان لایا جس نے تیرے ذریعہ تاریکیوں کو روشن اور ڈھلی چھپی چیزوں کو آشکارا کیا اور تجھے اپنے شاہی وفرمانروائی کی نشانیوں میں ایک نشانی اوراپنے غلبہ واقتدار کی علامتوں میں سے ایک علامت قرار دیا اور تجھے بڑھنے گھٹنے نکلنے چھپنے او رچمکنے گہنانے سے تسخیر کیا۔ ان تمام حالات میں تو اس کے زیر فرمان اوراس کے ارادہ کی جانب رواں دواں ہے تیرے بارے میں اس کی تدبیر وکارسازی کتنی عجیب اورتیری نسبت اس کی صناعی کتنی لطیف ہے تجھے پیش آیندہ حالات کے لیے نئے مہینہ کی کلید قراردیا، تو اب میں اللہ تعالی سے جو میرا پروردگار اور تیرا پروردگار میر اخالق اور تیرا خالق ۔ میرا نفش آرا اورتیرا نقس آرا ، اور میرا صورت گر اورتیرا صورت گر ہے سوال کرتا ہوں کہ وہ رحمت نازل کرے محمد اوعر ان کی آل پر اورتجھے ایسی برکت والا چاند قرار دے ، جسے دنوں کی گردشیں زائل نہ کر سکیں اور ایسی پاکیزگی والا جسے گناہ کی کثافتیں آلودہ نہ کر سکیں ۔ ایسا چاند جو آفتوں سے بری او ربرائیوں سے محفوظ ہو سر سر یمن وسعادت کا چاند جسے تنگی وعسرت سے کوئی لگاؤ ہو اور ایسی آسانی وکشائش کا جس میں دشواری کی آمیزش نہ ہو اورایسی بھلائی کا جس میں برائی کا شائبہ نہ ہو،غرض سرتاپا امن ایمان ، نعمت ، حسن عمل ، سلامتی اوراطاعت وفرمانبرداری کا چاند ہو۔ اے اللہ ! محمد اور ان کی آل پر رحمت نازل فرما اورجن جن پر اپنا پر تو ڈالے ان سے بڑھ کر ہمیں خوشنود ، اور جو جو اسے دیکھے ان سب سے زیادہ درست کا ر اور جو جو اس مہینہ میں تیری عبادت کرے ان سب سے زیادہ خوش نصیب قرار دے او ر ہمیں اس میں توبہ کی توفیق دے اور گناہوں سے دور اورمعصیت کے ارتکاب سے محفوظ رکھ ۔اور ہمارے دل میں اپنی نعمتوں پر ادائے شکر کا ولولہ پیدا کر اور ہمیں امن وعافیت کی سپر میں ڈھانپ لے او راس طرح ہم پر اپنی نعمت کو تمام کر کہ تیرے فرائض اطاعت کو پورے طور سے انجام دیں ۔ بیشک تو نعمتوں کا بخشنے والا اور قابل ستائش ہے رحمت فراواں نازل کرے اللہ محمد او ران کی پاک وپاکیزہ آل پر ۔ |
رہبرانقلاب اسلامی کے خطاب کا پاکستانی ذرائع ابلاغ میں انعکاس
پاکستان سے شائع ہونے والے روزنامہ جنگ نے یہ شہ سرخی لگائی ہے: ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے کہا ہے کہ صیہونی حکومت سے لڑنے والے ہر ملک اور گروہ کی مدد کریں گے۔
یوم القدس پر پیغام میں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ ریفرنڈم کا حق ملنے تک فلسطینیوں کی سیاسی، فوجی اور ثقافتی جدوجہد جاری رہنی چاہیے۔
سپریم لیڈر کا کہنا تھا کہ نیتن یاہو جیسوں کو نکالنا اسرائیل کو ختم کرنے کے مترادف ہے جو ہو کر رہے گا، صیہونی حکومت نے ثابت کیا ہے وہ کسی معاہدے اور منطق پرنہیں چلتی۔
روزنامہ ڈان کی شہ سرخی: ایران، اسرائیل کے خلاف لڑائی کرنے والی قوم کا ساتھ دے گا، آیت اللہ خامنہ ای
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے کہا ہے کہ ایران کسی بھی ایسی قوم کی حمایت کرے گا جو اسرائیل کی صیہونی حکومت کی مخالفت اور اس کے خلاف لڑائی کرے گی۔
یوم القدس کے موقع پر خطاب کے دوران انہوں نے کہا کہ فلسطینی قوم کے لیے سیاسی، فوجی اور ثقافت پر مشتمل جامع جدوجہد جاری رکھیں جب تک غاصب (اسرائیل) فلسطینی قوم کے لیے رائے شماری پر آمادہ نہ ہوجائے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ فلسطینی قوم کو طے کرنا چاہیے کہ وہ کون سے سیاسی نظام کے خواہاں ہیں اور پھر مقصد کے حصول تک جدوجہد جاری رکھیں۔
علاوہ ازیں انہوں نے فلسطین کی آزادی کے لیے گائیڈ لائنز بھی پیش کیں جس میں جدوجہد جاری رکھنے اور مغربی طاقتوں کے اوپرانحصار ختم کرنے پر زور دیا گیا۔
سچ ٹیوی ویب سائٹ کی شہ سرخی: مسئلہ فلسطین دنیائے اسلام کا اہم اور ناقابل فراموش مسئلہ ہے: آیت اللہ خامنہ ای
عالمی یوم القدس کے موقع پر دنیا بھر کے عوام سےبراہ راست خطاب میں سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ کا کہنا تھا کہ مسئلہ فلسطین ناقابل فراموش مسئلہ ہے۔ فلسطینیوں پر ہونے والے اسرائیلی جرائم میں مغربی ممالک برابر کے شریک ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مغربی ممالک نے اسرائیل کو ایٹمی ہتھیاروں سے مسلح کیا، انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد مسئلہ فلسطین ایک نئےمرحلے میں داخل ہوگیاہے،امت مسلمہ نے یوم قدس کا شانداراستقبال کرکے فلسطینیوں کے ساتھ ہمدردی اور یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔
سپریم لیڈر ایران کا کہنا تھا کہ فلسطین جیسے عظیم اور با عظمت مسئلہ کو مسلمانوں کی عزت اورغیرت فراموش کرنے کی اجازت نہیں دےگی اور مسلمان مسئلہ فلسطین کے بارے میں پہلے کی نسبت کہیں زیادہ آگاہ اور ہوشیار ہیں۔
آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے کہا امریکہ اور خطے میں موجود اس کے اتحادی کتنا بھی پیسہ کیوں نہ خرچ کریں وہ فلسطین کے بارے میں اپنے شوم منصوبوں میں ناکام ہوجائیں گے اوراسرائیلی وائرس کا علاقے کےمؤمن جوانوں کی ہمت سے خاتمہ ہوجائے گا۔
سید علی خامنہ ای کا موقف بھی اسلامی تاریخ میں سنہرے حروف کے ساتھ لکھا جائے گا۔
فلسطینی مزاحمتی تحریک جہاد اسلامی فی فلسطین کے سیکرٹری جنرل زیاد النخالہ نے عرب نیوز چینل المیادین کے ساتھ گفتگو کے دوران عالمی یوم فلسطین کو امتِ مسلمہ کی تاریخ میں ایک انتہائی اہم موڑ قرار دیا ہے۔ جہاد اسلامی فی فلسطین کے سیکرٹری جنرل نے اپنے انٹرویو میں اس بات پر تاکید کی ہے کہ عالمی یوم فلسطین کے حوالے سے ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای کے بیانات کی اہمیت خود یوم القدس سے کسی طور کم نہیں۔
جہاد اسلامی فی فلسطین کے سیکرٹری جنرل زیاد النخالہ نے آیت اللہ سید علی خامنہ ای کے بیانات کو اہم اور تاریخی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کی طرف سے عالمی یوم القدس کے اعلان کے ساتھ ساتھ آیت اللہ سید علی خامنہ ای کا موقف بھی اسلامی تاریخ میں سنہرے حروف کے ساتھ لکھا جائے گا۔ زیاد النخالہ نے حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ کے آج کے خطاب کو بھی مزاحمتی محاذ کے لئے انتہائی حوصلہ افزاء اور اطمینان بخش قرار دیا اور کہا کہ ہمارا ہدف قدس کی آزادی ہے جبکہ ہم خدا پر اپنے تمام بھروسے کے ساتھ روز بروز اس کے نزدیک سے نزدیک تر ہو رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے انٹرویو کے آخر میں کہا کہ خطے میں موجود متحدہ مزاحمتی محاذ نے واضح طور پر یہ پیغام دے دیا ہے کہ آج وہ پہلے کسی بھی زمانے سے بڑھ کر طاقتور ہے۔
عالمی یوم فلسطین اس مقدس جہاد میں سب ملکر فلسطینیوں کی مدد کریں، امتِ مسلمہ کو رہبر انقلاب کی 7 نصیحتیں
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے عالمی یوم فلسطین کے حوالے سے قومی ٹیلیویژن پر براہ راست خطاب میں عالم اسلام کو عید سعید فطر کی پیشگی مبارکباد پیش کرتے ہوئے مسئلۂ فلسطین کے حوالے سے امتِ مسلمہ کو انتہائی اہم 7 نصیحتیں کی ہیں۔ رہبر انقلاب اسلامی نے ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے فورا بعد امام خمینیؒ کی جانب سے عالمی یوم فلسطین کے اعلان کو فلسطین کی آزادی کے رستے میں کھلنے والا ایک نیا باب اور خطے میں طاقت کے توازن کو فلسطینی مجاہدین کے حق میں پلٹا دینے والا نیا محاذ قرار دیا۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے مسئلۂ فلسطین کے حوالے سے امتِ مسلمہ کو 7 نکات پر مشتمل اپنے اہم نصائح بیان کرتے ہوئے تاکید کی کہ ان کی اصلی ترین نصیحت، جدوجہد کا جاری رکھا جانا اور جہاد کی قلمرو کا تمام فلسطینی سرزمینوں تک پھیلا دیا جانا ہے جبکہ بیشک جوانوں کی ہمت، ایمان اور غیرت کے ذریعے اس خطے سے صیہونی وائرس کا وجود عنقریب ہی ختم ہو جائے گا۔ انہوں نے امام خمینیؒ کی جانب سے عالمی یوم قدس کے اعلان کو سب مسلمانوں کے لئے اتحاد اور قدس شریف و مظلوم فلسطین کے لئے مل کر آواز بلند کرنے کا ذریعہ قرار دیا اور اس حوالے سے اقوام عالم کی طرف سے عالمی یوم فلسطین کے خیرمقدم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ عالمی استکباری طاقتوں اور صیہونزم کی اصلی سیاست اسلامی معاشروں کی اجتماعی سوچ میں مسئلۂ فلسطین کو غیر اہم بنا کر آہستہ آہستہ بھلا دیا جانا ہے لہذا (مسلم معاشروں کی) فوری ذمہ داری اس خیانت کے ساتھ مقابلہ ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے کہا کہ مسلم اقوام کی مسلسل بڑھتی غیرت، خوداعتمادی اور ذہانت مسئلۂ فلسطین کو ہرگز فراموش نہیں ہونے دے گی۔ انہوں نے فلسطینی مملکت کے غصب اور اس کی جگہ انواع و اقسام کی فجیع ترین قتل و غارت اور دوسرے جرائم کے ذریعے صیہونی ناسور کی تشکیل اور پھر دسیوں سالوں تک ان جرائم کے جاری رکھے جانے کو انسان کی درندگی اور شیطان پرستی کا ایک نیا ریکارڈ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس انسانی المیے کے اصلی ترین محرک اور ذمہ دار مغربی ممالک اور ان کی شیطانی سیاست ہے۔ انہوں نے کہا کہ مغربی حکومتوں اور وہاں کی یہودی کمپنیوں کی جانب سے اس خطے کے اندر صیہونی حکومت کی تشکیل اور اس کو انواع و اقسام کے، حتی ایٹمی اسلحے کے ساتھ لیس کرنے کا اصلی مقصد خطے کے اندر ایک مستقل اڈہ قائم کرنا اور خطے کے ممالک میں مداخلت اور ان پر حکمرانی کا ایک رستہ کھولنا تھا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اکثر عرب حکومتیں اپنی ابتدائی مزاحمت کے بعد نہ صرف بتدریج گھٹنے ٹیک چکی ہیں اور اپنی انسانی، اسلامی و سیاسی ذمہ داری اور عربی غیرت و حمیت کو بھلا چکی ہیں بلکہ دشمن کے مقصد میں اس کی مددگار بھی بن چکی ہیں۔
مسئلۂ فلسطین کے حوالے سے رہبر انقلاب اسلامی کی پہلی نصیحت "مسئلۂ فلسطین کو صرف فلسطینی یا زیادہ سے زیادہ عربی مسئلہ قرار دے کر محدود نہ کیا جانا" ہے۔ انہوں نے کہا کہ فلسطین کی آزادی کی جدوجہد پہلے تو جہاد فی سبیل اللہ اور اسلامی فریضہ ہے اور دوسرے ایک انسانی مسئلہ بھی ہے جبکہ وہ لوگ جو کچھ فلسطینی باشندوں کی طرف سے چند ایک عرب حکام کے ساتھ مل بیٹھنے کو اس عظیم اسلامی و انسانی مسئلے سے گزر جانے کا جواز سمجھتے ہیں، نہ صرف اس مسئلے کی سمجھ بوجھ میں شدید غلطی پر ہیں بلکہ (مسئلۂ فلسطین کے ساتھ) خیانت کے مرتکب بھی ہو رہے ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ خامنہ ای نے اہنی دوسری نصیحت بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس جدوجہد کا ہدف بحر تا نہر (بحیرہ روم سے دریائے اردن تک کی) تمام فلسطینی سرزمین کی آزادی اور تمام فلسطینی باشندوں کی اپنے گھروں کو واپسی ہے لہذا اس عظیم جدوجہد کے مقصد کو صرف فلسطینی حکومت کا قیام قرار دینا اور وہ بھی فلسطینی سرزمین کے صرف ایک کونے میں، نہ حق پرستی کی علامت ہے اور نہ ہی حقیقت پسندی کی۔ انہوں نے کہا کہ آج کروڑوں فلسطینی مسلمان ایسے فکری و تجرباتی مراحل تک پہنچ چکے ہیں کہ جن کے باعث وہ کسی بھی وقت اس عظیم جہاد پر اپنی کمر ہمت باندھ سکتے ہیں جبکہ اللہ تعالی کی نصرت کے ذریعے حتما انہیں ہی آخری فتح نصیب ہو گی۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے مسئلۂ فلسطین کے حوالے سے امتِ مسلمہ کو اپنی تیسری نصیحت میں اس عظیم و مقدس جہاد کے دوران غیور و دیندار مسلم معاشرے کی طرف سے اللہ تعالی پر توکل، اپنی اندرونی قوت و اپنے زورِ بازو پر تکیہ اور ظالم مغربی حکومتوں، معاشروں اور خطے کی بعض مغربی کاسہ لیس بےغیرت حکومتوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے پرہیز پر زور دیتے ہوئے کہا کہ آج کرونا وائرس سے متاثر ہونے والوں کے محدود اعداد و شمار کو پوری دنیا بار بار گن رہی ہے لیکن کیوں کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ ان ممالک کے لاکھوں شہداء، قیدیوں اور گمشدہ لوگوں کا ذمہ دار کون ہے جن میں امریکہ و یورپ نے جنگ کی آگ بھڑکا رکھی ہے؟ کیوں آج دنیا یہ نہیں پوچھتی کہ فلسطین میں اس قدر وسیع پیمانے پر ہونے والے غصب، تخریبکاری اور ظلم و ستم کا ذمہ دار کون ہے؟
امام خامنہ ای نے اپنی چوتھی نصیحت میں عالم اسلام کی اہم سیاسی و عسکری شخصیات کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ امریکی و صیہونی سیاست کا ہدف جنگ کو مزاحمتی محاذ کے پیچھے منتقل کرنا اور مزاحمتی محاذ کو مصروف رکھنے کے لئے خانہ جنگی کی آگ بھڑکانا ہے تاکہ غاصب صیہونی رژیم کو مزید فرصت مل جائے؛ بالکل وہی کام جو انہوں نے شام، یمن اور عراق کے اندر داعش کو بنا کر انجام دیا ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ اس گھناؤنی سیاست سے مقابلے کا رستہ اسلامی دنیا کے اندر جوانوں کے مطالبے میں سنجیدگی اور امام خمینیؒ کے اس عظیم فرمان میں موجود ہے کہ آپ کو جتنا للکارنا ہے، امریکہ کو للکاریئے! البتہ غاصب صیہونی دشمن کو بھی للکاریئے!
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اپنی پانچویں نصیحت میں خطے کے اندر موجود امریکی پٹھوؤں کی طرف سے صیہونی رژیم کے ساتھ معمول کے دوستانہ تعلقات استوار کئے جانے اور غاصب صیہونی رژیم کو ایک واقعیت قرار دے کر قبول کروائے جانے کی گھناؤنی امریکی سیاست کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں چاہئے کہ مہلک اور ضرر رساں واقعیت کا مقابلہ کریں اور بالکل ایسے ہی جیسے آج باشعور لوگ کرونا وائرس کے ساتھ مقابلہ ضروری گردانتے ہیں قدیم صیہونی وائرس کے ساتھ مقابلہ بھی انتہائی ضروری ہے جبکہ جوانوں کی ہمت، ایمان اور غیرت کے ذریعے خطے سے اس مہلک (صیہونی) وائرس کی جڑیں اکھڑنے میں ذرہ برابر دیر نہیں لگے گی۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے مسئلۂ فلسطین کے حوالے سے امتِ مسلمہ کو پیش کی جانے والی اپنی نصیحتوں میں جدوجہد کے جاری رکھے جانے اور جہادی قلمرو میں توسیع پر مبنی اپنی چھٹی نصیحت کو انتہائی اہم قرار دیا ہے۔ آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اپنی نصیحت میں اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ اس مقدس جہاد میں سب مل کر فلسطینیوں کو مدد پہنچائیں جبکہ ایران اس رستے میں ہر وہ کام فخر کے ساتھ انجام دے گا جس پر وہ طاقت رکھتا ہو گا، کہا کہ اس حوالے سے ایک روز مشخص ہو گیا کہ فلسطینی مجاہدین کے پاس دین، غیرت اور شجاعت تو موجود ہے لیکن ہتھیار نہیں، لہذا اللہ تعالی کی مدد کے ساتھ اس سلسلے میں منصوبہ بندی کی گئی جس کے باعث فلسطین کے اندر موجود عسکری توازن میں خاطرخواہ تبدیلی آئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج غزہ اپنے صیہونی دشمن کی کسی بھی عسکری جارحیت کا آسانی کے ساتھ مقابلہ کر کے اس پر فتح حاصل کر سکتا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ فلسطین کے اندر عسکری قوت میں آنے والی یہ تبدیلی مسئلۂ فلسطین کو عنقریب ہی اپنے آخری مراحل میں داخل کر دے گی جبکہ اس حوالے سے فلسطینی حکومت کے کاندھوں پر انتہائی اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے، کہا کہ وحشی دشمن کے ساتھ طاقت اور مضبوط پوزیشن کے علاوہ کسی زبان میں بات نہیں کی جا سکتی۔ انہوں نے کہا کہ بحمدللہ بہادر اور ڈٹ جانے والی فلسطینی قوم کے اندر اس طاقت کا بھرپور زمینہ موجود ہے جبکہ آج فلسطینی جوان اپنی عزت کا دفاع کرنے کے لئے بےچین ہیں۔ آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ فلسطین میں حماس و جہاد اسلامی اور لبنان میں حزب اللہ نے سب پر حجت تمام کر دی ہے جبکہ دنیا مجرم صیہونی فوج کا حزب اللہ کی کاری ضربوں کے سائے میں جنوبی لبنان سے عقب نشینی پر مجبور ہو جانا کبھی نہیں بھولے گی درحالیکہ وہ سیز فائر کے لئے التماس کر رہی تھی؛ یہی ہے وہ بھرپور وار اور طاقتور موقف۔
رہبر انقلاب اسلامی امام خامنہ ای نے امتِ مسلمہ کے نام اپنی ساتویں نصحیت میں اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ فلسطین تمام فلسطینیوں کا ہے اور اسے انہی کی مرضی سے چلایا جانا چاہئے، اسلامی جمہوری ایران کی طرف سے پیش کردہ تمام مذاہب پر مبنی ریفرنڈم کے راہ حل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ حل ظاہر کرتا ہے کہ مغربی میڈیا کی طرف سے کیا جانے والا یہودی دشمنی پر مبنی دعوی بالکل بےبنیاد ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے خطاب کے آخر میں اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ وہ فریق جس کو اپنی بساط سمیٹنا ہے قطعی طور پر غاصب صیہونی نظام و صیہونزم ہے، شیخ احمد یسین، فتحی شقاقی، سید عباس موسوی سے لے کر مزاحمتی محاذ کے عظیم سپہ سالار شہید جنرل قاسم سلیمانی اور عظیم شہید ابومہدی المہندس سمیت قدس شریف کے تمام شہداء کو خراج تحسین پیش کیا۔
رہبر انقلاب اسلامی کے یوم القدس پر خطاب کی اہمیت
اداریہ
رہبر انقلاب اسلامی نے یوم القدس کی مناسبت سے اپنے تاریخی خطاب میں سات بنیادی نکات کو اٹھایا ہے۔ اس خطاب کی اہمیت و افادیت اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کہ 1979ء میں یوم القدس کے اعلان سے لیکر آج تک نہ کبھی امام خمینیؒ نے یوم القدس کے دن خطاب کیا اور نہ ہی رہبر انقلاب اسلامی نے۔ ایران سمیت دنیا کے کئی نشریاتی اداروں نے حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای کے یوم القدس کے دن آن لائن خطاب کو براہ راست نشر کیا۔ اس خطاب نے یوم القدس اور مسئلہ فلسطین کی اہمیت کو مزید نمایاں کر دیا ہے۔ غاصب صیہونی حکومت کرونا وائرس کی وجہ سے یوم القدس کے اجتماعات نہ ہونے پر خوشیاں منا رہی تھی، لیکن رہبر انقلاب اسلامی نے اُن کی خوشیوں کو ماتم میں تبدیل کر دیا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس خطاب میں مسئلہ فلسطین کے ماضی، حال اور مستقبل کا تجزیاتی جائزہ پیش کرکے اس مسئلے کے حل کے لیے نہ صرف اس کا متوازن اور عالمی معیارات پر پورا اترنے والا حل پیش کیا ہے، بلکہ فلسطین اور فلسطینی کاز سے جڑے حریت پسندوں کو یہ امید بھی دلا دی کہ ظلم و کفر نے بالآخر ختم ہونا ہے اور مظلوم و محروم طبقے کو کامیابیاں نصیب ہونگی اور اسرائیل نے بالآخر اپنی موت مرنا ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے سات نکات میں سب سے زیادہ اہمیت اس مسئلے کو دی کہ فلسطین کو ہمیشہ سب سے اہم اور سب سے ترجیحی مسئلہ سمجھنا چاہیئے، قبلہ اول اور مقبوضہ فلسطین عالم اسلام کو نمبر ون مسئلہ ہے۔
جبکہ اسرائیل اور اس کے مغربی حامی اس بات کی سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں کہ اس مسئلے سے عالم اسلام اور عالمی برادری کی توجہ ہٹ جائے۔ اس وقت خطے میں امریکی اور صیہونی لابی کی طرف سے جو بھی کھیل کھیلا جا رہا ہے، اس کا بنیادی ہدف اسرائیل کا تحفظ اور مسئلہ فلسطین سے امت مسلمہ اور خطے کی توجہ ہٹانا ہے۔ بہرحال رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای کے خطاب کے ایک ایک نکتہ پر توجہ دینے اور اس کی تفصیلات سے رائے عامہ کو آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔ خوش قسمت ہے یہ دور جس میں آج دنیا نے ایک ایسا خطاب سنا جسے سننے والا یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ اس زمانے میں موجود تھا، جس میں ایک مرد الہٰی نے صدائے حق بلند کی تھی۔
آیت اللہ خامنہ ای کا اسرائیل شکن خطاب
عالمی یوم قدس پر رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای کا خطاب
بسم الله الرحمن الرحیم
و الحمد لله ربّ العالمین و صلی الله علی محمد و آله الطاهرین و صحبه المنتجبین و من تبعهم باحسان الی یوم الدین
ساری دنیا کے مسلمان بھائیوں اور بہنوں پر درود و سلام بھیجتا ہوں، اللہ تعالی سے مبارک مہینے رمضان میں ان کی عبادتوں کی قبولیت کی دعا کرتا ہوں، عید سعید فطر کی انھیں پیشگی مبارکباد دیتا ہوں اور ضیافت خداوندی کے اس مہینے میں موجود رہنے کی نعمت پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں۔
آج یوم قدس ہے۔ وہ دن جو امام خمینی کی جدت عمل سے قدس شریف اور مظلوم فلسطین کے بارے میں مسلمانوں کی آوازوں کو ایک لڑی میں پرونے کا ذریعہ بن گیا۔ ان چند عشروں میں اس سلسلے میں اس کا بنیادی کردار رہا اور ان شاء اللہ آئندہ بھی رہے گا۔ اقوام نے یوم قدس کا خیر مقدم کیا اور اسے اولین ترجیح یعنی فلسطین کی آزادی کا پرچم بلند رکھنے کے مشن کے طور پر منایا۔ استکبار اور صیہونیت کی بنیادی پالیسی مسلمان معاشروں کے اذہان میں مسئلہ فلسطین کو بے رنگ کر دینا اور فراموشی کی طرف دھکیل دینا ہے۔ سب کا فوری فریضہ اس خیانت کا سد باب ہے جو خود اسلامی ممالک میں دشمن کے سیاسی اور ثقافتی ایجنٹوں کے ذریعے انجام پا رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسئلہ فلسطین ایسا قضیہ نہیں ہے جسے مسلمان اقوام کی غیرت، روز افزوں خود اعتمادی و بیداری فراموش ہو جانے دے گی۔ حالانکہ اس مقصد کے لئے امریکہ اور دیگر تسلط پسند طاقتیں اور ان کے مہرے اپنا پیسہ اور طاقت استعمال کر رہے ہیں۔
سب سے پہلی بات مملکت فلسطین کے غصب کر لئے جانے اور وہاں صیہونیت کا کینسر وجود میں آنے کے بڑے المئے کی یادہانی کرانا ہے۔ ماضی قریب کے ادوار کے انسانی جرائم میں اس پیمانے اور اس شدت کا کوئی اور جرم رونما نہیں ہوا۔ ایک ملک کو غصب کر لینا اور عوام الناس کو ہمیشہ کے لئے ان کے گھربار اور موروثی سرزمین سے بے دخل کر دینا وہ بھی قتل و جرائم، کھیتیوں اور نسلوں کی تباہی کی المناک ترین شکل میں اور دسیوں سال تک اس تاریخی ستم کا تسلسل، حقیقت میں انسان کی درندگی اور شیطانی خو کا نیا ریکارڈ ہے۔
اس المئے کی اصلی مجرم اور ذمہ دار مغربی حکومتیں اور ان کی شیطانی پالیسیاں تھیں۔ جس دن پہلی عالمی جنگ کی فاتح حکومتیں مغربی ایشیا کے علاقے یعنی حکومت عثمانیہ کی ایشیائي قلمرو کو سب سے اہم مال غنیمت کے طور پر پیرس کانفرنس میں آپس میں تقسیم کر رہی تھیں، اس علاقے پر اپنے دائمی تسلط کے لئے اس کے قلب میں ایک محفوظ جگہ کی ضرورت انھیں محسوس ہوئی۔ برطانیہ نے برسوں پہلے بالفور منصوبہ پیش کرکے زمین ہموار کر دی تھی اور یہودی سرمایہ داروں کو ہم خیال بنا کر مشن کو آگے بڑھانے کے لئے صیہونزم نام کی بدعت تیار کر لی تھی۔
اب اس کے عملی مقدمات فراہم ہونے لگے تھے۔ انھیں برسوں سے بتدریج مقدمات ترتیب سے آمادہ کئے جا رہے تھے اور سرانجام دوسری عالمی جنگ کے بعد علاقے کی حکومتوں کی غفلت اور مشکلات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انھوں نے اپنی ضرب لگائی اور جعلی اور بغیر قوم کی حکومت کا اعلان کر دیا۔
اس ضرب کی زد پر سب سے پہلے ملت فلسطین اور اس کے بعد علاقے کی تمام اقوام تھیں۔
علاقے میں بعد کے واقعات کے جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ مغربی حکومتوں اور یہودی سرمایہ داروں کا صیہونی حکومت کی تشکیل کا اصلی اور فوری مقصد مغربی ایشیا میں اپنے دائمی رسوخ اور موجودگی کے لئے ایک اڈا قائم کرنا اور علاقے کے ممالک اور حکومتوں کے امور میں دخل اندازی اور ان پر اپنی مرضی مسلط کرنے کے لئے قریب سے رسائی کے امکانات حاصل کرنا تھا۔ اسی لئے جعلی و غاصب حکومت کو طاقت کے گوناگوں عسکری و غیر عسکری وسائل یہاں تک کہ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس کر دیا اور نیل سے فرات تک کے علاقے میں اس سرطان کی توسیع کو اپنے ایجنڈے میں جگہ دی۔
بد قسمتی سے بیشتر عرب حکومتوں نے ابتدائی مزاحمتوں کے بعد جن میں بعض قابل تعریف ہیں، بتدریج ہتھیار ڈال دئے اور خاص طور پر اس مسئلے کے ذمہ دار کے طور پر ریاستہائے متحدہ امریکہ کے وارد ہو جانے کے بعد انھوں نے انسانی، اسلامی اور سیاسی فریضے کو بھی اور اپنی عربی غیرت و حمیت کو بھی بالائے طاق رکھ دیا اور موہوم امیدیں لگا کر دشمن کے اہداف کی تکمیل میں مدد کی۔ کیمپ ڈیوڈ اس تلخ حقیقت کی واضح مثال ہے۔
مجاہد تنظیموں نے بھی شروع کے برسوں میں فداکارانہ جدوجہد کے بعد رفتہ رفتہ غاصب قوت اور اس کے حامیوں سے بے نتیجہ مذاکرات میں پڑ گئیں اور اس راستے کو ترک کر دیا جو فلسطین کی امنگیں پوری کر سکتا تھا۔ امریکہ اور دیگر مغربی حکومتوں اور بے اثر بین الاقوامی اداروں سے مذاکرات، فلسطین کا تلخ اور ناکام تجربہ ہے۔ اقوام متحدہ کیجنرل اسمبلی میں زیتون کی شاخ دکھانے کا نتیجہ اوسلو کے زیاں بار معاہدے کے علاوہ کچھ نہیں نکلا اور آخرکار یاسر عرفات کے عبرتناک انجام پر منتج ہوا۔
ایران میں اسلامی انقلاب کے طلوع سے فلسطین کے لئے جہاد کا نیا باب کھل گیا۔ پہلے قدم کے طور پر صیہونی عناصر کو باہر بھگانے جو طاغوتی (شاہی) دور میں ایران کو اپنا محفوظ ٹھکانا شمار کرتے تھے اور صیہونی حکومت کے غیر رسمی سفارت خانے کو فلسطینی نمائندہ دفتر کو سونپنے اور تیل کی سپلائی بند کرنے سے لیکر بڑے کاموں اور وسیع سیاسی اقدامات تک ساری کاروائیوں کے نتیجے میں پورے علاقے میں مزاحمتی محاذ وجود میں آیا اور مسئلے کے حل کی امید پیدا ہوئی۔ مزاحمتی محاذ کے نمودار ہو جانے کے بعد صیہونی حکومت کا کام سخت سے سخت تر ہوتا گیا۔ البتہ مستقبل میں ان شاء اللہ اور بھی سخت تر ہو جائے گا۔ لیکن اس رژیم کے حامیوں اور ان میں سر فہرست امریکہ نے اس کا دفاع بھی شدت کے ساتھ بڑھا دیا۔ لبنان میں مومن، نوجوان اور فداکار حزب اللہ کی تشکیل اور فلسطین کی سرحدوں کے اندر جوش و جذبے سے معمور تنظیموں حماس اور جہاد اسلامی کی تشکیل نے صیہونی عمائدین ہی نہیں بلکہ امریکہ اور دیگر مغربی دشمنوں کو مضطرب اور سراسیمہ کر دیا تو انھوں نے غاصب حکومت کی فکری و عسکری حمایت کے بعد علاقے کے اندر اور خود عرب معاشرے کے اندر سے ایجنٹوں کی بھرتی کو اپنے ایجنڈے میں شامل کر لیا۔ ان کی پیہم کوششوں کا نتیجہ آج بعض عرب حکومتوں کے عمائدین اور بعض خائن عرب سیاسی و ثقافتی کارکنوں کے روئے اور بیانوں میں نمایاں اور سب کی نظروں کے سامنے ہے۔
اس وقت مقابلہ آرائی کے میدان میں دونوں طرف سے گوناگوں سرگرمیاں نظر آ رہی ہیں، بس اس فرق کے ساتھ کہ مزاحمتی محاذ روز افزوں اقتدار و امید اور قوت کے عناصر کی فہرست میں مسلسل اضافے کی طرف گامزن ہے جبکہ اس کے برخلاف ظلم و کفر و استکبار کا محاذ روز بہ روز خالی ہاتھ، مایوس اور ناتواں ہوتا جا رہا ہے۔ اس خیال کی روشن دلیل یہ ہے کہ صیہونی فوج جو کبھی ناقابل تسخیر اور برق آسا سمجھی جاتی تھی اور جس نے دو حملہ آور ممالک کی بڑی افواج کو چند دنوں کے اندر روک سکتی تھی، آج لبنان اور غزہ میں عوامی مزاحمتی فورسز کے سامنے پسپا ہونے اور اعتراف شکست کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔
اس کے باوجود مقابلہ آرائی کا میدان بہت خطرناک ہے، حالات کا رخ بدل جانے کا امکان ہے، دائمی نگرانی لازمی ہے اور اس مقابلہ آرائی کا موضوع حد درجہ اہم، فیصلہ کن اور حیاتی ہے۔ بنیادی تخمینوں میں کسی بھی طرح کی غفلت، سادہ فکری اور غلطی کے بڑے سنگین نقصانات ہوں گے۔
اس بنیاد پر میں ان تمام افراد کو جو مسئلہ فلسطین سے قلبی وابستگی رکھتے ہیں چند سفارشات کرنا چاہتا ہوں۔
1- فلسطین کی آزادی کے لئے جنگ، راہ خدا میں جہاد، اسلامی مطالبہ اور فریضہ ہے۔ ایسی لڑائی میں فتح یقینی ہے، کیونکہ مجاہد شخص قتل ہو جانے کی صورت میں بھی 'احدی الحسنیین' (دو عظیم نیکیوں میں سے کسی ایک) تک رسائی ضرور حاصل کر لے گا۔ اس کے علاوہ بھی مسئلہ فلسطین ایک انسانی مسئلہ ہے۔ دسیوں لاکھ انسانوں کو ان کے گھر، کھیت، زندگی گزارنے اور کسب معاش کرنے کی جگہ سے بے دخل کر دینا وہ بھی قتل اور مجرمانہ اقدامات کے ذریعے، ہر صاحب ضمیر انسان کو آزردہ خاطر اور متاثر کرتا ہے اور ہمت و شجاعت ہونے کی صورت میں اسے مقابلے پر اٹھ کھڑے ہونے کے لئے آمادہ کرتا ہے۔ اس لئے اسے صرف فلسطین کا مسئلہ یا زیادہ سے زیادہ عربوں کا مسئلہ قرار دے دینا بہت بڑی بھول ہے۔
جو لوگ چند فلسطینی عناصر یا چند عرب ممالک کے حکام کی مصالحتی کوششوں کو اس اسلامی اور انسانی مسئلے کو اس کے حال پر چھوڑ دینے کا جواز سمجھتے ہیں، وہ اس مسئلے کے ادراک میں شدید غلطی بلکہ بسا اوقات اس میں تحریف جیسی خیانت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
2- اس پیکار کا اصلی مقصد 'سمندر سے دریا تک' (یعنی بحیرہ روم سے دریائے اردن تک) پوری سرزمین فلسطین کی آزادی اور تمام فلسطینیوں کی وطن واپسی ہے۔ اس (عظیم مقصد) کو اس سرزمین کے کسی گوشے میں ایک حکومت کی تشکیل تک محدود کر دینا، وہ بھی اس تحقیر آمیز شکل میں جس کی بات بے ادب صیہونی کرتے ہیں، نہ حق جوئی کی علامت ہے اور نہ حقیقت پسندی کی نشانی۔ امر واقع یہ ہے کہ آج ملینوں فلسطینی فکر، تجربے اور خود اعتمادی کی اس منزل پر پہنچ چکے ہیں کہ اس عظیم جہاد کے لئے انھوں نے کمر ہمت باندھ لی ہے، البتہ انھیں نصرت خداوندی اور حتمی فتح کا یقین رکھنا چاہئے، کیونکہ ارشاد ہوا ہے؛ وَلَيَنصُرَنَّ اللَّهُ مَن يَنصُرُه إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ .. بے شک دنیا میں بہت سے مسلمان ہیں جو ان شاء اللہ ان کی مدد کریں گے اور ان کے درد میں شریک ہوں گے۔
3- اگرچہ اس لڑائی میں تمام حلال اور شرعی وسائل منجملہ عالمی حمایت سے استفادہ جائز ہے لیکن خاص طور پر مغربی حکومتوں اور ظاہری یا باطنی طور پر ان پر منحصر عالمی اداروں پر اعتماد کرنے سے پرہیز کرنا چاہئے۔ وہ ہر موثر اسلامی طاقت کے وجود کے دشمن ہیں۔ انھیں انسانوں اور اقوام کے حقوق کی کوئی پروا نہیں ہے۔ وہ خود مسلم امہ کو پہنچنے والے بیشتر نقصانات اور اس کے خلاف انجام پانے والے جرائم کے ذمہ دار ہیں۔ اس وقت کئی اسلامی و عرب ممالک میں جاری قتل عام، جنگ افروزی، بمباری یا مسلط کردہ خشکسالی کے سلسلے میں کون عالمی ادارہ یا جرائم پیشہ طاقت جوابدہ ہے؟
آج دنیا عالمی سطح پر کورونا سے ہونے والی اموات کو تو گن رہی ہے لیکن کسی نے نہیں پوچھا اور نہ پوچھے گا کہ جن ممالک میں امریکہ اور یورپ نے جنگ کی آگ بھڑکائی ہے وہاں لاکھوں افراد کی شہادت، قید اور گمشدگی کا ذمہ دار کون ہے؟ افغانستان، یمن، لیبیا، عراق، شام اور دیگر ممالک میں بہائے جانے والے اس خون ناحق کا ذمہ دار کون ہے؟ فلسطین میں جاری ان جرائم، غاصبانہ و تخریبی اقدامات اور مظالم کا ذمہ دار کون ہے؟ اسلامی ممالک کے دسیوں لاکھ مظلوم مردوں اور خواتین کو کوئی شمار کیوں نہیں کرتا؟ مسلمانوں کے قتل عام پر کوئی تعزیت کیوں نہیں دیتا؟ ملینوں فلسطینی ستر سال سے اپنے گھر بار سے دور جلا وطنی میں کیوں رہیں؟ مسلمانوں کے قبلہ اول کی کیوں توہین کی جائے؟ نام نہاد اقوام متحدہ اپنے فرائض پر عمل نہیں کر رہی ہے اور نام نہاد انسانی حقوق کی تنظیموں کو موت آ گئی ہے۔'بچوں اور خواتین کے حقوق کے نعرے'کا اطلاق یمن اور فلسطین کے مظلوم بچوں اور خواتین پر نہیں ہوتا۔
دنیا کی ظالم مغربی طاقتوں اور ان سے وابستہ عالمی اداروں کی یہ حالت ہے۔ علاقے میں ان کی بعض ہمنوا حکومتوں کی رسوائی اور ذلالت کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔
تو غیور و دیندار مسلم معاشرے کے لئے ضروری ہے کہ اپنے اوپر اور اپنی داخلی توانائیوں پر تکیہ کرے، اپنا طاقتور ہاتھ آستین سے باہر لائے اور اللہ پر توکل اور اعتماد کرکے رکاوٹوں کو عبور کرے۔
4- اہم نکتہ جو عالم اسلام کی سیاسی و دفاعی شخصیات کی نظر سے پنہاں نہیں رہنا چاہئے، تصادم اور جھڑپوں کو مزاحمتی محاذ کی پشت پر پہنچانے کی امریکہ اور صیہونیوں کی سیاست ہے۔ شام میں خانہ جنگی شروع کروانا، یمن کی ناکہ بندی اور وہاں شب و روز قتل عام، عراق میں ٹارگٹ کلنگ، تخریبی اقدامات اور داعش کی تشکیل، علاقے کے بعض دیگر ممالک میں ایسے ہی واقعات، یہ سب مزاحمتی محاذ کو الجھا دینے اور صیہونی حکومت کو موقع دینے کے حربے ہیں۔ بعض مسلم ممالک کے سیاستدانوں نے نادانستگی میں اور بعض نے دانستہ طور پر دشمن کے ان حربوں کی مدد کی ہے۔ اس خبیثانہ سیاست کے نفاذ کا سد باب کرنے کا طریقہ پورے عالم اسلام میں غیور نوجوانوں کی طرف سے پرزور مطالبہ ہے۔ تمام اسلامی ممالک اور خاص طور پر عرب ممالک میں نوجوانوں کو امام خمینی کی سفارشات کو نظر سے دور نہیں ہونے دینا چاہئے، جنہوں نے فرمایا: جتنا چیخنا ہے امریکہ پر اور بے شک صیہونی دشمن پر چیخئے۔
5- علاقے میں صیہونی حکومت کی موجودگی کو معمول کی بات بنا دینا ریاستہائے متحدہ امریکہ کی سب سے بنیادی پالیسی ہے۔ علاقے کی بعض عرب حکومتیں جو امریکہ کے اشارے پر چلتی ہیں، اس کے لازمی مقدمات جیسے اقتصادی روابط قائم کرنے وغیرہ کا کام انجام دے رہی ہیں۔ یہ کوششیں سرے سے بے ثمر اور بے نتیجہ ہیں۔ صیہونی حکومت اس علاقے کے لئے ایک مہلک اضافہ اور سراپا نقصان ہے جو بلا شبہ ختم اور نابود ہو جائے گی اور ان لوگوں کے ہاتھ صرف ذلت اور بدنامی لگے گی جنہوں نے اپنے تمام وسائل اس استکباری سیاست کے لئے وقف کر رکھے ہیں۔ بعض اپنی اس پست روش کا یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ صیہونی حکومت علاقے کی ایک حقیقت ہے، انھیں یہ یاد نہیں کہ مہلک اور زیاں بار حقیقتوں سے لڑنا اور انھیں ختم کرنا ہوتا ہے۔ آج کورونا ایک حقیقت ہے اور سارے باشعور افراد اس کے خلاف جنگ کو لازمی جانتے ہیں۔ صیہونزم کا دیرینہ وائرس بلا شبہ اب زیادہ نہیں ٹکے گا اور نوجوانوں کی ہمت، قوت ایمانی اور حمیت اس علاقے سے اسے اکھاڑ پھینکے گی۔
6- میری سب سے بنیادی سفارش ہے جدوجہد کا تسلسل، مجاہد تنظیموں کی مزید تقویت، ان کا باہمی تعاون اور جہاد کا دائرہ پورے فلسطینی علاقوں تک پھیلانا۔ اس مقدس جہاد میں سب ملت فلسطین کی مدد کریں۔ سب کو چاہئے کہ فلسطینی مجاہدین کو پوری طرح لیس اور اس کی پشت پناہی بڑھائيں۔ اس راہ میں ہم فخر سے وہ سب کچھ صرف کریں گے جو ہمارے پاس ہوگا۔ ایک موقع پر ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ فلسطینی مجاہد کے پاس دین، غیرت اور شجاعت موجود ہے، اس کی واحد مشکل اسلحے کا نہ ہونا ہے۔ ہم نے نصرت و ہدایت خداوندی سے منصوبہ بندی کی اور نتیجہ یہ ہوا کہ فلسطین میں طاقت کا توازن بدل گیا اور آج غزہ صیہونی دشمن کی فوجی یلغار کے مقابلے میں کھڑا ہو سکتا ہے اور اسے مغلوب کر سکتا ہے۔ مقبوضہ فلسطین کہے جانے والے علاقے میں طاقت کے توازن کی تبدیلی مسئلہ فلسطین کو اس کی آخری منزل کے قریب کرے گی۔ اس مسئلے میں فلسطینی انتظامیہ کے دوش پر بہت سنگین ذمہ داری ہے۔ وحشی دشمن سے صرف مقتدرانہ لہجے میں بات کرنا چاہئے اور اس قوت و طاقت کے لئے فلسطین کی شجاع اور مجاہد قوم کے اندر بحمد اللہ مقدمات فراہم ہیں۔ فلسطین نوجوان آج اپنی عزت نفس کے دفاع کے پیاسے ہیں۔ فلسطین میں حماس اور جہاد اسلامی نے اور لبنان میں حزب اللہ نے سب پر حجت تمام کر دی ہے۔ دنیا وہ دن نہ بھولی ہے اور نہ بھولے گی جب صیہونی فوج نے لبنان کی سرحد توڑی اور بیروت تک بڑھتی چلی گئی، اسی طرح وہ دن جب ایریئل شیرون نام کے مجرم نے صبرا و شتیلا میں خون کی ندیاں بہا دیں۔ اسی طرح وہ دن بھی نہ بھولی ہے اور نہ بھولے گي جب حزب اللہ کے زوردار حملوں کی وجہ سے اس فوج کے پاس کوئی راستہ نہیں بچا اور وہ بہت بڑا نقصان اٹھا کر اور شکست کا اعتراف کرکے لبنان کی سرحدوں سے پیچھے ہٹی اور جنگ بندی کے لئے التجائیں کرنے لگی۔۔۔ لیس ہونے اور مقتدارانہ انداز کا یہ نتیجہ ہے۔ اس یورپی حکومت کی بات جانے دیجئے جسے صدام حکومت کو کیمیائی ہتھیار فروخت کرنے پر ہمیشہ شرمسار رہنا چاہئے، اور وہ مجاہد و سرفراز حزب اللہ کو غیر قانونی قرار دیتی ہے۔ غیر قانونی تو امریکہ جیسی حکومت ہے جو داعش کی تشکیل کرتی ہے، غیر قانونی وہ یورپی حکومت ہے جس کے کیمیکل ہتھیاروں کی وجہ سے ایران کے بانہ اور عراق کے حلبچہ علاقوں میں ہزاروں افراد لقمہ اجل بن گئے۔
7- آخری بات یہ ہے کہ فلسطین فلسطینیوں کا ہے اور اس کے امور انھیں کے ارادے کے مطابق انجام پانے چاہئے۔ فلسطین کے تمام ادیان اور قومیتوں کی شمولیت سے استصواب رائے کی جو تجویز ہم نے تقریبا دو عشرے قبل پیش کی ہے، وہ آج کے چیلنجوں اور فلسطین کے مستقبل کا واحد نتیجہ ہونا چاہئے۔ یہ تجویز ثابت کرتی ہے کہ یہودی دشمنی کے جو دعوے مغربی طاقتیں اپنے تشہیراتی ذرائع کی مدد سے دہراتی رہتی ہیں، بالکل بے بنیاد ہیں۔ اس تجویز کے مطابق فلسطینی یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کو ایک ساتھ استصواب رائے میں شرکت اور فلسطین کے لئے سیاسی نظام کا تعین کرنا ہے۔ جسے ہر حال میں مٹنا ہے وہ صیہونی نظام ہے اور صیہونیت خود دین یہود میں ایک بدعت اور اس سے بالکل بیگانہ ہے۔ آخر میں شیخ احمد یاسین، فتحی شقاقی، سید عباس موسوی سے لیکر اسلام کے عظیم سردار اور مزاحمتی محاذ کی ناقابل فراموش ہستی شہید قاسم سلیمانی اور عراق کے عظیم مجاہد شہید ابو مہدی المہندس اور دیگر شہدائے قدس کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں اور عظیم الشان امام خمینی کی روح پر درود بھیجتا ہوں جنہوں نے عزت وجہاد کا یہ راستہ ہمارے لئے تعمیر کیا۔ اسی طرح برادر مجاہد حسین شیخ الاسلام مرحوم کے لئے جنہوں نے برسوں اس راہ میں زحمتیں اٹھائیں رحمت خداوندی کی دعا کرتا ہوں۔
والسلام علیکم و رحمة الله
قدس شریف، شہید قدس کی نگاہ میں
تحریر: علی احمدی
انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی کے بعد یوم قدس کا یہ پہلا موقع ہے جب ہمارے درمیان شہید جنرل قاسم سلیمانی موجود نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود پوری اسلامی دنیا بلکہ پوری دنیا میں وہ جذبہ بخوبی قابل مشاہدہ ہے جس کے فروغ کیلئے شہید قاسم سلیمانی نے زندگی بھر جدوجہد کی اور وہ جذبہ اور سوچ قدس شریف کی آزادی اور مظلوم فلسطینی قوم کی نجات پر مشتمل تھا۔ شہید قاسم سلیمانی جنہوں نے اپنی پوری زندگی مختلف اسلامی سرزمینوں پر جہاد فی سبیل اللہ میں وقف کر رکھی تھی اپنی زندگی کے بیس برس سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس فورس کے چیف کمانڈر کے طور پر بسر کی۔ اس دوران انہوں نے اسلامی مزاحمتی بلاک کو مضبوط بنانے اور مظلوم فلسطینی قوم کی نجات کیلئے امت مسلمہ کے غیور جوانوں کی نظریاتی اور فوجی تربیت کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اپنی پوری زندگی میں شہید قاسم سلیمانی کا بنیادی اور اصل مقصد قدس شریف کی آزادی اور اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کا خاتمہ تھا۔ اسی مقصد کے حصول کیلئے جنرل قاسم سلیمانی نے لبنان میں حزب اللہ کو مضبوط کیا اور فلسطین میں اسلامی مزاحمتی گروہوں کی تقویت کی۔
یہ شہید قاسم سلیمانی کی انہی پرخلوص کوششوں کا نتیجہ تھا کہ اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کو حزب اللہ لبنان کے خلاف 33 روزہ جنگ اور غزہ میں 22 روزہ اور 8 روزہ جنگوں میں ذلت آمیز شکستوں کا سامنا کرنا پڑا۔ درحقیقت جنرل قاسم سلیمانی نے غاصب صہیونی رژیم کے خلاف نبرد آزما جہادی گروہوں کو مضبوط بنانے پر مبنی اسلامی جمہوریہ ایران کی حکمت عملی کو انتہائی احسن انداز میں عملی جامہ پہنایا۔ اگست 2019ء میں فلسطین کی جہادی تنظیم عزالدین قسام بریگیڈز کے چیف کمانڈر کی جانب سے خط کا جواب دیتے ہوئے شہید قاسم سلیمانی لکھتے ہیں: "فلسطین کی شجاع قوم پر خدا کا سلام اور درود ہو۔ وہ قوم جس کے دل میں کروڑوں مسلمانوں کی نگاہوں کے سامنے ظالمانہ محاصرے، دشمنوں کی وحشیانہ جارحیت اور بے شمار زخموں کے باعث گہرا غم اور سینے میں جانکاہ درد موجود ہے۔" شہید قاسم سلیمانی اس خط میں فلسطینی مجاہدین کو مخاطب قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں: "سلام ہو عظیم مجاہد اور استقامت کا مظاہرہ کرنے والے اسماعیل ہنیہ پر اور ان کے باوفا ساتھیوں پر جنہوں نے غزہ میں ایمان کے جذبے سے سرشار ہو کر اور فتح کی صبح طلوع ہونے کی امید کے ساتھ حی علی الجہاد کا نعرہ لگا رکھا ہے۔"
شہید قاسم سلیمانی جو ہمیشہ مجاہدین کے دلوں کی طاقت تھے فلسطینی مجاہدین کے حوصلے بڑھاتے ہوئے لکھتے ہیں: "سب کو یہ یقین دلا دیں کہ جس قدر بھی دباو میں اضافہ ہو جائے اور جس قدر بھی گھیراو تنگ ہو جائے اسلامی جمہوریہ ایران ہر گز اسلامی دنیا کے نگینے یعنی فلسطین اور قبلہ اول مسلمین اور پیغمبر اکرم ص کی معراج گاہ کی حمایت اور مدد نہیں چھوڑے گا۔ فلسطین کا دفاع ہمارے لئے عزت اور فخر کا باعث ہے اور ہم کبھی بھی اس دنیا کی لاش کی چمک اور جھوٹے جلووں کی خاطر اپنی اس دینی ذمہ داری سے کوتاہی نہیں کریں گے۔ فلسطین کا دفاع حقیقی معنی میں اسلام اور قرآن کا دفاع ہے اور جو بھی آپ کی پکار نہ سنے اور آپ کی مدد کو نہ دوڑے وہ مسلمان نہیں ہے۔" شاید فلسطینی مجاہدین کے ساتھ شہید قاسم سلیمانی کا یہی گہرا قلبی تعلق اور شہید قاسم سلیمانی کی عظیم شخصیت تھی جو حماس کے مرکزی رہنما اسماعیل ہنیہ کو اس شہید کی نماز جنازہ میں شرکت کیلئے تہران کھینچ لائی۔ اسماعیل ہنیہ نے جنازے میں شریک لاکھوں افراد کے عظیم الشان اجتماع میں تقریر کرتے ہوئے کہا: "یہ عظیم کمانڈر شہید قدس، شہید قدس، شہید قدس ہے۔"
اسرائیل کی غاصب اور قاتل صہیونی رژیم کی نابودی اور خاتمہ شہید قاسم سلیمانی کی دلی آرزو تھی۔ شہید قاسم سلیمانی کی نظر میں پورے خطے میں امن کا قیام اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اسرائیل جیسی دہشت گرد رژیم کا خاتمہ نہیں ہو جاتا۔ شہید قاسم سلیمانی نے شہید عماد مغنیہ کی دسویں برسی کی مناسبت سے اجتماع میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا: "وہ حقیقت جس سے دشمن بھی آگاہ ہے اور اسے چاہئے کہ وہ بہت اچھی طرح جان لے یہ ہے کہ عماد مغنیہ کے قتل کا بدلہ چند میزائل فائر کرنا نہیں۔ عماد مغنیہ کے قتل کا بدلہ چند افراد کو قتل کرنا نہیں۔ عماد مغنیہ اور فلسطین اور لبنان میں شہید ہونے والے تمام مجاہدین کے خون کا بدلہ اس قاتل صہیونی رژیم کا مکمل خاتمہ اور نابودی ہے۔" دوسری طرف شہید قاسم سلیمانی اسرائیل کی نابودی کو ایک یقینی امر جانتے تھے۔ وہ کہتے تھے: "دشمن جانتا ہے کہ یہ امر (اسرائیل کی نابودی) یقینی ہے اور جانتا ہے کہ جتنے بھی افراد شہید ہو رہے ہیں روزنہ اتنے ہی بچے پیدا ہو رہے ہیں جو اسی راستے پر گامزن ہوں گے اور شہداء کی خالی جگہ پر کر دیں گے۔ لہذا یہ الہی وعدہ پورا ہو کر رہے گا اور ہم اس وعدے پر یقین رکھتے ہیں۔"