سلیمانی

سلیمانی

Wednesday, 21 April 2021 07:28

اللہ کی معرفت کا سبق

ولایت پورٹل: ہمارے سامنے یہ سوالات پیدا ہوتے ہیں: کیا آنکھ کو اپنی اہمیت اور باریکی کی خبر تھی؟ جو اس نے آنکھ کے گڑھے کو امن و امان کی جگہ سمجھ کر اپنے لئے منتخب کیا ہے؟ یا وہ اتفاقیہ طور پراس پرامن جگہ پر آگئی ہے؟ یا کسی دوسرے نے اس کے لئے ایسی پر امن جگہ بنائی ہے؟
کیا خود آنکھ، پسینہ کو اپنے اندر آنے سے روکتی ہے؟ اپنے اوپر ا ٓبرو (Eye brow) ناتی ہے؟ یا یہ کہ ابرووں کو اس کی ضرورت کی خبر تھی اس لئے وہ خود اس کی مددکے لئے آگئی ہیں؟ یا کسی دوسرے شخص نے ابرووں کو آنکھ کے اوپر بنادیا ہے؟
کیا پلکیں اتفاقیہ طور سے آنکھوں کی حفاظت اور انہیں نرم رکھنے اور دھونے کے لئے یونہی بن گئی ہیں؟ کیا پلکوں کو آنکھوں کی صحت کی ضرورت تھی کہ جو وہ آنکھ کے ڈھیلے پر چربی ملتی رہتی ہیں اور اپنی تیز حرکت سے آنکھ کو دھوتی رہتی ہیں، یا یہ کہ کسی خالق علیم و قدیر نے انہیں اس انداز سے ڈھالا ہے؟
کیا آنسووں کا غدہ (Lacrimalglands)آنکھ کے کونے میں اچانک پیدا ہوگیا؟ اس جراثیم کش (بیکٹیریا کے قاتل) سیال کامرکب کس نے تیار کیا ہے؟ کیا آنسووں کے غدودکو یہ معلوم تھا کہ آنکھ کے بیکٹیریا کو مارنے کے لئے انہیں نمکین پانی کی ضرورت ہے؟ کیا آنکھ کے گوشہ کا سوراخ (DACRIOSIST) (جس سے اضافی آنسو باہر نکل جاتے ہیں) اتفاقاً بن گیا ہے یا خود آنکھ نے اس سوراخ کو بنایا ہے؟ کیا آنکھ کو ناک اور سانس کے سسٹم میں رطوبت کی ضرورت کی خبر تھی کہ جس کی وجہ سے وہ اپنی ضرورت سے زیادہ آنسووں کو ناک کی طرف منتقل کردیتی ہے؟ یا یہ کہ خدائے علیم و قدیر نے ان سب کو بنایا ہے؟
کیا پلکوں میں چربی نکلنے کے سوراخ خود بخود اور اچانک پیدا ہوگئے ہیں؟ یا یہ کہ آنکھ کو چونکہ ان کی ضرورت تھی اس لئے اس نیخود انہیں بنایا ہے؟ کیا پلکوں کو یہ خبر تھی کہ اس طرح چربی چھوڑنے سے وہ آنکھ کی صحت مندی میں کتنا اہم کردار ادا کررہی ہیں؟یا آنکھ اور پلکوں کے ماہیچے اس عجیب و غریب انداز میں خود بخود اور اتفاقی طور پر پیدا ہوگئے؟ یا ان کو آنکھ نے بنایا ہے، یا کسی دوسرے نے ان کو اس انداز سے بنایا ہے؟
کیا بینائی کے اعصاب اپنی تمام ظرافتوں اور باریکیوںکے ساتھ خود بخود آنکھ کو دماغ میں موجود بصارت کے مرکز سے جوڑ دیتے ہیں؟ یا یہ کہ کسی صاحب علم ہستی نے انہیں جوڑا ہے۔
ایک جملہ میں یہ کہ یہ منظم و مرتب مجموعہ جس کے تمام اعضا آپس میںایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں سب کا ایک مقصد (دیکھنا) ہے کیا یہ اتفاقاً اور اچانک پیدا ہوسکتے ہیں؟
جی ہاں! ہر صاحب عقل انسان یہ جواب دے گا کہ ایسے منظم و مرتب مجموعے ( جس میں سینکڑوں قانون اور ہزاروں باریکیاں اور عجائبات پائے جاتے ہیں) کے بارے میں یہ سوچا بھی نہیں جاسکتا ہے کہ یہ اتفاقی طور پر اور اچانک خود بخود پیدا ہوگیا ہے، بیشک اس کو کسی جاننے والے اور صاحب قدرت نے بنایا ہے۔
صحیح جواب بھی یہی ہے، جب ہم آنکھ کی پیچیدہ عمارت کو دیکھتے ہیں اور جب آنکھ سے اس کے فرعی اعضا کے رابطہ اور ان سب کا دماغ سے رابطہ اور ان اجزا کا پورے بدن سے رابطہ اور پورے بدن کا اس کائنات سے رابطہ کا انداز دیکھتے ہیں تو ہمیں یہ پوری دنیا ایک منظم اکائی(Unit) کی طرح مربوط اورجڑی ہوئی دکھائی دیتی ہے جس میں نظم ہی نظم ہے او رہمیں اچھی طرح یہ دکھائی دیتا ہے کہ اس دنیا کو ایک عظیم خالق نے بنایا ہے جو علیم و قدیر ہے اور وہی اس کے نظام کو چلا رہا ہے۔
اگر ہم چشم بصیرت سے غور وفکرکے ساتھ دیکھیں تو خداوند عالم کے علم و حکمت کی نشانیاں ہمیں کائنات میں ہر جگہ نظر آتی ہیں، ہم اسے پہچانتے ہیں، دل سے اسے چاہتے ہیں، اور اس کی قدرت و عظمت کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہیں اور اپنے دل کی گہرائیوں سے اس کے الطاف اور بے شمار نعمتوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں، اس کی مقدس محبت ہمارے وجود کے ہر حصہ میں پیوست ہے، ہم صرف اسی کو عبادت و دعا کے لائق سمجھتے ہیں اور صرف اور صرف اسی کے حکم کو مانتے ہیں اور اسی کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہیں۔

:ایران کی سپاہ قدس کے کمانڈر جنرل اسماعیل قاآنی نے اصفہان میں شہید جنرل سید محمد حجازی کی تشییع جنازہ کے موقع پر کہا کہ آج استقامتی محاذ ایران سے لے کر لبنان ، شام ، فلسطین اور یمن تک پھیلا ہوا ہے اور محاذ استقامت  کے سپوت و جیالے جنھوں نے اس مکتب سے درس لیا ہے سبھی غاصب صیہونی حکومت کے مقابلے میں ایک بنیادی اقدام انجام دے رہے ہیں اور استقامت کا یہ راستہ امام زمانہ عج کی حکومت قائم ہونے تک جاری رہے گا۔
 سپاہ قدس کے کمانڈر نے زور دے کر کہا کہ یہ وہ راستہ ہے جس میں فتح و کامیابی کا وعدہ خود اللہ تعالی نے دیا ہے اور ہم پورے عزم و کامیابی کے ساتھ آگے کی جانب بڑھتے رہیں گے اور صرف اس وقت رکیں گے جب امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی عالمی حکومت تشکیل پاجائے۔
 جنرل اسماعیل قاآنی نے استقامتی محاذ کو مضبوط بنانے کے لئے شہید جنرل حجازی کی کوششوں کی جانب اشارہ کیا اور کہا کہ مقدس دفاع میں اہواز کی منتظران شہادت چھاؤنی سے لے کر کردستان کی بلند و بالا چوٹیوں اور قدس فوجی ہیڈکوارٹر تک ہر جگہ مثالی شخصیات اور آئیڈیل انسان موجود رہے ہیں جن میں سے ایک شہید حجازی تھے۔  
سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے شعبہ رابطہ عامہ نے اتوار کی رات ایک بیان جاری کر کے اعلان کیا تھا کہ سپاہ قدس کے ڈپٹی کمانڈر جنرل محمد حجازی جو صدام کی بعثی حکومت کے شیمیائی حملے سے متاثر تھے حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے درجہ شہادت پر فائز  ہوگئے ۔
 سپاہ قدس کے ڈپٹی کمانڈر جنرل سید محمد حجازی کی تشیع جنازہ منگل کو ایس او پیز کا خیال رکھتے ہوئے اصفہان کے کیڈٹ کالج کی کھلی فضاؤں میں انجام پائی ۔
اس موقع پر عسکری و سیاسی شخصیات  بھی موجود  تھیں  ۔
شہید جنرل حجازی سپاہ پاسداران کے ایک عظیم المرتبہ کمانڈر تھے آپ نے حزب اللہ لبنان اور استقامتی محاذ کو مضبوط بنانے میں نہایت نمایاں کردار کیا ہے ۔

ولایت پورٹل:عرب 48 ویب سائٹ  کی رپورٹ کے مطابق مقبوضہ بیت المقدس میں صہیونیوں سے وابستہ بلدیاتی عہدیداروں نے آج (منگل) کو قابض حکومت کے سکیورٹی اہلکاروں کے ساتھ مل کر ایک فلسطینی کو زیر تعمیر مکان منہدم کرنے پر مجبور کیا، رپورٹ کے مطابق اسرائیلی ایجنٹوں نے آج صبح امجد مسلم جعابیص نامی ایک فلسطینی کو البشیر کے علاقے میں اپنامکان منہدم کرنے پر مجبور کیا۔
 اس دوران ، صیہونیوں کا مقابلہ کرنےوالے پانچ فلسطینی نوجوان کو گرفتار کرلیا گیا،واضح رہے کہ  مقبوضہ بیت المقدس کی بلدیہ مکان تعمیر کرنے کی اجازت نہ لینے کے بہانے فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار کررہی ہے جسے فلسطینیوں نے یہودی آبادکاری اور اپنی زمین پر قبضہ کرنے کا اقدام قرار دیا ہے ۔
 اسی دوران فلسطینی میڈیا کے مطابق  رمضان کے آغاز سے اب تک یروشلم کے 270 رہائشی مظاہروں کے دوران زخمی ہوئے ہیں اور 30 سے زائد فلسطینیوں کو حراست میں لیا گیا ہےجبکہ عرب 48 کے مطابق  1967 سے صہیونیوں نے مقبوضہ بیت المقدس میں 2 ہزار سے زائد فلسطینی مکانات کو تباہ کردیا ہے،تاہم صیہونیوں کی اس طرح کی درندگی پر اقوام متحدہ سمیت پوری عالمی برادری مجرمانہ طورپر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے دوسرے کچھ شیخ نشین عرب ریاستوں کے حکمرانوں نےفلسطینیوں کے حقوق کو پائمال کرتے ہوئے پوری عالم اسلام کی جانب سے لعنت کا طوق اپنے گلے میں ڈال کر صیہونیوں کے ساتھ تعلقات بحال کر لیے ہیں جن میں بحرین ،سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پیش پیش ہیں،ان کے اس اقدام سے صیہونی کی مزید ہمت بڑھ گئی ہے اور ہر طرح سے فلسطینیوں کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ انھیں معلوم ہے کہ عرب ہمارے ساتھ ہیں اور باقی ہمیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔

اے معبود! مجھے اس مہینے میں توفیق عطا کر کہ یتیموں پر مہربان رہوں، اور لوگوں کو کھانا کھلاتا رہوں، اور بزرگوں کی مصاحبت کی توفیق عطا کر، اے آرزومندوں کی پناہ گاہ۔

 اے معبود! اس مہینے کے دوران اس کے روزے اور شب زندہ داری میں میری مدد فرما، اور مجھے اس مہینے کے گناہوں اور لغزشوں سے دور رکھ، اور اپنا ذکر اور اپنی یاد کی توفیق جاری رکھنے کی توفیق عطا فرما، اپنی توفیق کے واسطے اے گمراہوں کے ہادی و  راہنما۔

سربراہ نورالھدیٰ مرکز تحقیقات (نمت ) اسلام آباد، حجت الاسلام سید رمیز الحسن موسوی نے رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر سے گفتگو میں پاکستان کی موجودہ صورت حال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا : جو شخص بھی عالمی سیاست خصوصاً دنیائے اسلام کی سیاست سے معمولی سی بھی دلچسپی رکھتا ہے وہ جانتا ہے کہ پوری دنیا اور بالخصوص عالم اسلام کی سیاست کا دارومدار اسرائیل کے مفادات کے گرد گھومتا ہے اور پوری دنیا میں استعماری طاقتوں کا ہم وغم اسرائیل کو بچانا اور اس کے اہداف کو پورا کرنا ہے ۔

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا : بقول امام خمینی ؒ اس سرطانی غدے کو ایجاد کرنے کامقصد ہی عالمی شیطانی قوتوں کو تقویت پہنچانا تھا اور پچھلے بہتر، تہتر سال سے عالم اسلام اور اسلامی ممالک میں ہونے والی تبدیلیاں اسی مقصد کےلئے تھیں ۔ اس عالمی شیطانی سازش کو امام خمینی ؒ کی اسلامی تحریک نے برملا کیااور عالم اسلام کو بیدارکرکے اسے اس طاغوتی نظام کے مقابلے کے لئے آمادہ کیا ۔اس لئے دنیائے اسلام میں جہاں بھی کوئی اضطرابی کیفیت پیدا ہوتی ہے ،اس کے پیچھے یہی طاغوتی مقاصد کی تکمیل کارفرماہوتی ہے ۔

سربراہ نورالھدیٰ مرکز تحقیقات اسلام آباد نے بیان کیا : اس وقت آپ جانتے ہیں کہ اسرائیلی مقاصد کو تحفظ دینے اور ان کی تکمیل کے لئے آخری مراحل کو طے کیا جارہا ہے۔اس سلسلے کی ایک کڑی امارات کا اسرائیل کو سرکاری سطح پر تسلیم کرنا ہے اور تازہ خبروں کے مطابق بحرین نے بھی اسرائیلی مملکت کو رسمی طور پر تسلیم کرلیا ہے ۔ ایسے حالات میں پاکستان جیسے اہم ملک میں اضطراب پیدا کرنا ایک ان طاقتوں کی سیاسی ضرورت ہے ۔پاکستان دنیائے اسلام میں اسرائیلی مخالفت کے لحاظ سے ایک اہم ملک سمجھا جاتا ہے کیونکہ پاکستان کے بانیوں نے شروع ہی سے اسرائیل کے وجود کو تسلیم نہیں کیا تھا اور اس عدم تسلیم کو پاکستان کی نظریاتی بنیاد بنا دیا تھا ۔جس کی بنا پر پاکستانی عوام خواہ جس مسلک سے بھی تعلق رکھتے ہوں ،اسرائیل کو رسمی طور پر تسلیم کرنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں ۔

انہوں نے کہا : اس رکاوٹ کو فرقہ وارنہ جنگ ہی کے ذریعے کمزور کیا جاسکتا ہے ۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اسلامی انقلاب کے ظہور کے بعد سےاسرائیلی مخالفت کے محاذ کی قیادت اہل تشیع کے ہاتھ میں ہے اور پاکستان کے باشعور اہل سنت کی اکثریت اس نظریاتی قیادت کو تسلیم کرچکی ہے اور قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی ؒ کے زمانے سے ہی اس فکری اور نظریاتی قیادت کی جڑیں پاکستان میں کافی مضبوط ہوچکی تھیں ۔لہذا جب بھی اسرائیلی مفادات کا مسئلہ پیش آتا ہے تو پاکستان میں اہل تشیع پر دباؤ بڑھ جاتا ہے ۔ شاید پاکستان کی سیاسی اور مبارزاتی تاریخ میں اس وقت جس قدر دباؤ اہل تشیع پر ڈالاجارہا ہے وہ اس سے پہلے نہیں ڈالا گیا ۔

سید رمیز الحسن موسوی نے کہا : اس وقت محرم الحرام سے پہلے ہی اس دباؤ اور تنش کے محرکات فراہم کردیئے گئے تھے ۔آصف جلالی نامی ایک سعودی ایجنٹ کے ذریعے بنت رسول ؐ جناب فاطمہ زہراسلام اللہ علیہا کی توہین کرائی گئی ۔اس کے بعد اس سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے آصف علوی نامی عالمی ایجنٹ کو استعمال کرتے ہوئے محرم الحرام کے آغاز میں ہی اہل تشیع کے خلاف ایک ماحول پیدا کیا گیا اور آخر کار روز عاشور زیارت عاشورہ کی تلاوت کو بہانہ بنا کر تمام شیعہ مخالف گروہوں کو ایک پلیٹ فارم مہیا کرنے کی سازش کی گئی ۔لیکن اہل سنت عوام کے باشعور طبقے خصوصاً حالا ت سے آگاہ علمائے اہل سنت کی اکثریت نے اس عالمی صیہونی منصبوے کی نفی کی ہے ۔گو کہ تکفیری سوچ کے حامل کچھ بے شعور لوگ صیہونی ایجنڈے کی تکمیل میں ٹشو پیپر کا کردارادا کررہے ہیں، جنہیں بعد میں ہمیشہ کی طرح استعمال کرکے پھینک دیا جائے گا ۔

انہوں نے کہا : الحمدللہ بعض اہل سنت علما اور شیعہ علماء نے بصیرت کا ثبوت دیا ہے گو کہ پہلے شیعوں کے اندرونی خلفشار اور گروہی سیاست نے ان نازک حالات کا ادراک نہیں کیا، لیکن جلد ہی بعض علماءکی بصیرت کی وجہ سے کہ جنہوں نے ہمیشہ ملت کے مفاد کی خاطر اپنے گروہی جذبات واحساسات کو پس پشت ڈالا ہے ، آخر کل ۱۲ ستمبر ۲۰۲۰ء کو اسلام آباد میں بزرگ علماء کی زیرسرپرستی علما وذاکرین کانفرنس منعقد ہوئی جس میں ملت کے تقریبا ً سبہی گروہ شامل تھے سوائے ایک دو کو چھوڑ کر سب نے ذمہ داری کا احساس کیا اور ایک مشترکہ بیانیہ سامنے آیا ۔جس کے انشا اللہ امید افزا نتائج نکلیں گے اور عالمی سازش ایک بار پھر پاکستانی عوام کی امنیت کو خراب کرنے میں ناکام ہو گی ۔

سربراہ نورالھدیٰ مرکز تحقیقات اسلام آباد نے اس سوال کے جواب میں کہ دشمن مسلمان سے کیوں خوف کھاتا ہے بیان کیا : واضح سی بات ہے اور اس کے پیچھے قرآنی فکر کارفرما ہے ۔دشمن مسلمانوں سے خوف زدہ نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کے متحد ہونے سے خوف زدہ ہے ۔اسی لئے وہ اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے مسلمانوں میں تفرقہ پیدا کرنے کی سعی کرتا ہے ۔جس کی مثال پاکستان کے حالیہ صورت حال ہے کہ اسرائیل کے ناجائز وجود کو دوام دینے اوراس کے مفادات کی حفاظت کے لئے پاکستان جیسے اسلام کے قلعے میں اضطراب اور تنش پیدا کرنے کی سعی کی گئی ہے تاکہ مسلمانان پاکستان متحد ہو کر اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرنے والے مسلمان ممالک کے خلاف قیام نہ کرسکیں ۔

انہوں نے موجودہ صوت حال میں مسلمانوں کی ذمہ داری بہت ہی اہم جانا ہے اور بیان کیا : ایسے حالات میں ہمارے فریضہ وہی ہے جو قرآن اور اہل بیت اطہار علیہم السلام کی سیرت نے ہمارے لئے معین کیا ہے ۔یعنی اتحاد اور وحدت کلمہ تمام مسلمانوں کو خصوصاً پیروان اہل بیت اطہار کو ایسے حالات میں صبر وتحمل سے کام لینا چاہیے ۔اہل تشیع کوکہ جو امام علی علیہ السلام کی پیروی کا دعوی ٰ کرتے ہیں ،سب سے زیادہ صبر وتحمل کرناچاہیے اور بصیرت وشعور کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرنا چاہیے ہمارے سامنے امام علی علیہ السلام کی پچیس سالہ سیرت موجود ہے اور پھر موجود ہ دور میں امام خمینی ؒ اور رہبر معظم کی بصیرت افروز سیرت کہ کس طرح ہماری قیادت نے پچھلے چالیس سال میں صبر تحمل کے ساتھ پوری دنیا سے انقلاب اسلامی ایران کو منوایا ہے اور ثابت کیا ہے کہ عالم اسلام بلکہ عالم بشریت کا مفاد امام خمینی ؒکی فکر ونظریئے کے ذریعے ہی پور ا کیا جاسکتا ہے کہ جو اسلام ناب محمد ی کی فکر ہے نہ عالمی طاغوتوں کی سیاست کے ذریعے ۔

 اے معبود! مجھے اس مہینے میں اپنی نافرمانی کے قریب جانے کی وجہ سے نظراندار کرکے تنہا نہ فرما اور مجھے اپنے انتقام کے تازیانوں سے مضروب نہ کر، اور اپنے غضب کے اسباب و موجبات سے دور رکھ، اپنے فضل و عطا اور احسان کے واسطے، اے راغبوں کی رغبت کی انتہا ۔

سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے رابطہ عامہ نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سپاہ قدس کے سربراہ کے جانشین جنرل سید محمد حسین زادہ حجازی کا دل کا دورہ پڑنے سے انتقال ہوگیا ہے۔ سپاہ نے اپنے بیان میں سپاہ کے مختلف شعبوں میں مرحوم جنرل حجازی کی شاندار خدمات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ جنرل حجازی کی سپاہ میں مخلصانہ ، ہمدردانہ اور مؤمنانہ خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ جنرل حجازی دفاع مقدس کے بعد سپاہ اور رضاکار فورس میں اہم عہدوں پر فائز رہے اور انھوں نے سپاہ میں گرانقدر خدمات انجام دیں۔ شہید میجر جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد سپاہ قدس کے سربراہ جنرل اسماعیل قاآنی کی تجویز پر سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے سربراہ میجر جنرل حسین سلامی نے جنرل حجازی کو سپاہ قدس کے سربراہ کا جانشین مقرر کیا تھا۔ اللہ تعالی مرحوم پر اپنی رحمت واسعہ نازل فرمائے۔

 امریکا کی ریاست منی سوٹا میں پولیس اہلکار کے ہاتھوں سیاہ فام کے قتل کیخلاف پرتشدد مظاہرے کیے گئے۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق مظاہرین نے گاڑیوں اور اسٹورز کو آگ لگا دی گئی، کئی افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ ادھر ٹیکساس میں بھی پولیس کی مبینہ فائرنگ سے ڈرائیور اور مسافر ہلاک ہو گئے جبکہ ایک شہری زخمی ہو گیا۔

عادی سازی با اسرائیل یعنی سادہ الفاظ میں یوں سمجھ لیجیے کہ انبیاء علیہم السلام کی سرزمین مقدس پر قائم کی جانے والی صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا یا پھر اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنا۔ ریاستی سطح پر ان تعلقات کو سفارتی تعلقات کہا جاتا ہے کہ جس کے بعد آپس میں تجارت اور دفاع سمیت متعدد ریاست کے شعبہ جات میں دو طرفہ تعاون اور امداد کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ یہاں یقیناً نوجوانوں کے اذہان میں یہ سوال ضرور جنم لیتا ہو گا کہ آخر اسرائیل کے ساتھ تعلقات یا عادی سازی کی اس قدر مخالفت کیوں کی جاتی ہے۔؟ اس سوال کا سب سے آسان جواب یہ ہے کہ ہمیں یہ بات جان لینی چاہیئے کہ حقیقت میں اسرائیل کیا ہے۔؟ اسرائیل ایک ایسی ناجائز ریاست کا نام ہے، جو انبیاء علیہم السلام کی سرزمین مقدس فلسطین پر 1948ء میں غاصبانہ تسلط حاصل کرکے امریکی و برطانوی آشیر باد کے ذریعے مسلط ہوئی ہے۔ اسرائیل ایک ایسی ریاست کا نام ہرگز نہیں کہ جسے دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ تشبیہ دیا جا سکے۔

اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم نہ کرنے کی بات اس لئے بھی زیادہ کی جاتی ہے کہ ایک ایسی ناجائز ریاست جس کا وجود ہی غاصبانہ ہے اور اپنے قیام کے روز اول سے ہی نہ صرف فلسطین کے عوام کا قتل عام کرنے میں مصروف عمل ہے بلکہ فلسطین کے باہر کئی ایک ممالک میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں براہ راست ملوث ہے۔ اسرائیل کے بانیان کا یہ خواب ہے کہ وہ ایک عظیم تر اسرائیل قائم کریں کہ جس کی سرحدیں نیل سے فرات تک ہوں۔ اس کے لئے بنائے جانے والے نقشوں میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ بہرحال سادہ سا جواب یہ ہے کہ کیا کسی چور اور ڈاکو کہ جو آپ کے بھائی کے گھر میں زبردستی گھس گیا ہو اور آپ کے بھائی اور ان کے تمام اہل و عیال کو نکال باہر کیا ہو تو کیا اس چور اور ڈاکو کے ساتھ آپ دوستانہ تعلقات بنا کر زندگی گزارنا پسند کریں گے۔؟ یہی چور اور ڈاکو اسرائیل ہے، جو ہمارے بھائیوں یعنی فلسطینیوں کے گھر میں گھس چکا اور انہیں نکال باہر کیا ہے۔ لہذا اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات اور سفارتی تعلقات کا مطلب یہ ہوا کہ اسرائیل کے تمام غلط اور مجرمانہ اقدامات کو بھی تسلیم کیا گیا ہے۔

مسئلہ فلسطین ایک ایسا انسانی مسئلہ ہے کہ جو دنیا میں سب سے اولین درجہ کی اہمیت رکھتا ہے۔ فلسطین کے عوام کے ساتھ دنیا کی بڑی طاقتوں نے مشترکہ طور پر نا انصافی کی ہے۔ ان کی زمینوں پر اسرائیل کو قابض کیا گیا ہے۔ فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کیا گیا ہے۔ سب سے بڑھ کر مسلمانوں کا قبلہ اول جو مسلم امہ کے مابین اتحاد کی علامت سمجھا جاتا ہے، آج بھی صہیونیوں کی بدترین سازشوں کا نشانہ بن رہا ہے۔ قبلہ اول بیت المقدس وہ مقام ہے کہ جہاں شب معراج پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفیٰ (ص) مسجد الحرام سے یہاں تشریف لائے تھے اور یہاں اس مقام پر آپ (ص) نے انبیاء علیہم السلام کی امامت فرمائی۔ اب آئے روز صہیونی قبلہ اول کا تقدس پائمال کر رہے ہیں۔ شعائر اللہ کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ انبیاء علیہم السلام کے مقدس مقامات کی بے حرمتی کی جا رہی ہے۔

فلسطینی عوام کو بے دردی سے قتل و غارت کا نشانہ بنانے کا عمل گذشتہ ایک سو سالوں سے جاری ہے۔ کئی ایک جنگیں مسلط کی گئی ہیں۔ اسرائیل نے پڑوسی ممالک کی زمینوں پر بھی غاصبانہ تسلط قائم کر لیا ہے۔ داعش جیسے فتنہ کو اسرائیل ہی نے جنم دیا تاکہ خطے کو آگ و خون میں غلطاں کرکے اپنے ناپاک عزائم حاصل کرے۔ ان تمام تر معاملات اور وجوہات کے باوجود دنیا بھر کے مسلمانوں کے مابین مسجد اقصیٰ یعنی قبلہ اول بیت المقدس اور فلسطین باہمی اتحاد و یکجہتی کا مظہر رہا ہے۔ دنیا میں چاہے مسلمانوں میں آپس کے کچھ بھی اختلافات موجود ہوں، لیکن جب بھی بات انبیاء علیہم السلام کی مقدس سرزمین فلسطین کی ہو یا قبلہ اول بیت المقدس کی بات ہو تو مسلم امہ کے عوام متحد اور یکجا نظر آتے ہیں۔ اس کی کئی ایک مثالیں دنیا کے ممالک میں موجود ہیں کہ فلسطین و القدس کے پرچم تلے مسلمان اقوام آپس میں متحد و یکجا نظر آتی ہیں۔ اس قسم کے مشاہدات موجودہ دور میں ہمیں خود پاکستان کی سرزمین پر بھی مشاہدے میں آئے ہیں۔

عالمی استعمار اور اس کے شیطانی چیلے چاہے وہ براہ راست اسرائیل کی صورت میں ہوں یا یورپی و مغربی سامراج کی صورت میں ہوں، مسلم امہ کے مابین مسئلہ فلسطین سے متعلق پائے جانے والے اتفاق اور اتحاد سے خائف رہتے ہیں، کیونکہ مسلمان اقوام کا اتحاد اور وحدت ہی ایک ایسا ہتھیار ہے کہ جو دنیا کی ظالم و استکباری قوتوں کی ناک کو زمین پر رگڑ رہا ہے۔ اسلام و مسلمین کے دشمنوں نے گذشتہ چند سالوں میں متعدد مرتبہ جنگ کے میدانوں میں شکست کھانے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ مسلمانوں کے اتحاد اور وحدت کو پارہ پارہ کیا جائے تاکہ مغربی استعمار غاصب اسرائیل کے تحفظ سے متعلق کئے گئے وعدوں کو یقینی بنانے کے لئے اسرائیل کو یقین دلوا سکے۔

تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاءونڈیشن پاکستان