سلیمانی
ایران نے مصنوعی ذہانت کے ذریعے چند سیکنڈز میں کرونا وائرس کی تشخیص کا نیا سسٹم تیار کر لیا
اسلامی جمہوریہ ایران کے صدارتی مشیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی ڈاکٹر سورنا ستاری نے ملک کے اندر تیار کردہ کرونا وائرس کی تشخیص کے نئے سسٹم کا افتتاح کرتے ہوئے خبرنگاروں کو بتایا کہ ایران میں کرونا وائرس کی تشخیصی کٹس کی تیاری کے بعد اب ایرانی ماہرین نے سی ٹی اسکین کے ذریعے مریضوں کے اندر کرونا وائرس کی تشخیص کرنے والا نیا بھی سسٹم تیار کر لیا ہے جو مصنوعی ذہانت کے ذریعے چند سیکنڈز کے اندر 97 فیصد درستگی کے ساتھ نتیجہ فراہم کر دیتا ہے۔
تفصیلات کے مطابق ایران میں تیار کیا جانے والا کرونا وائرس کی تشخیص کا نیا سافٹ ویئر سسٹم سی ٹی اسکین ٹیکنالوجی پر مبنی ہے جس میں کرونا وائرس میں مبتلا مریض کے پھیپھڑوں کی سی ٹی اسکین کے ذریعے حاصل کی جانے والی ڈیجیٹل تصاویر کو اس سافٹ ویئر سسٹم کے حوالے کر دیا جاتا ہے جبکہ ایرانی ماہرین کی طرف سے تیار کردہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس پر مبنی یہ سسٹم کسی ریڈیالوجسٹ ماہر کی طرح ان تصاویر کا معائنہ کرتا ہے اور کرونا وائرس کے باعث متاثر ہو جانے والے حصوں کی پہچان کر کے ان پر نشان کھینچ دیتا ہے۔
ایرانی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سسٹم کی تیاری سے قبل سی ٹی اسکین کے ذریعے مریض کے پھیپھڑوں میں کرونا وائرس کی تشخیص صرف ماہر ریڈیالوجسٹ ڈاکٹر ہی کر پاتا تھا جبکہ اب ملک کے کسی بھی مقام پر لی گئی سی ٹی اسکین تصاویر کو اس سافٹ ویئر کے ذریعے جانچا جا سکتا ہے کیونکہ یہ اپنی مصنوعی ذہانت کی بناء پر سی ٹی اسکین تصاویر میں موجود کرونا وائرس سے متاثرہ حصوں کو چند سکینڈز کے اندر تشخیص دینے کی صلاحیت رکھتا ہے جبکہ کسی ماہر ریڈیالوجسٹ ڈاکٹر کو ایسی ہی تشخیص دینے کے لئے کم از کم 15 منٹ کا وقت درکار ہوتا ہے۔
هود 86
اللہ کی طرف کا ذخیرہ تمہارے حق میں بہت بہتر ہے اگر تم صاحبِ ایمان ہو اور میں تمہارے معاملات کا نگراں اور ذمہ دار نہیں ہوں
صفات مومن
حدیث : روی ان رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم قال:یکمل الموٴمن ایمانہ حتی یحتوی علیہ مائة وثلاث خصالٍ:فعل وعمل و نیة وباطن وظاہر فقال امیر المؤمنین علیہ السلام:یا رسول اللهصلی الله علیہ وآلہ وسلم ما المائة وثلاث خصال؟فقال صلی الله علیہ وآلہ وسلم:یا علی من صفات المؤمن ان یکون جوال الفکر،جوہری الذکر،کثیراً علمہ عظیماً حلمہ،جمیل المنازعة ۔۔۔۔۔۔ [1] ترجمہ : پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا کہ مومن کامل میں ایک سو تین صفتیں ہوتی ہیں اور یہ تمام صفات پانچ حصوں میں تقسیم ہوتی ہیں صفات فعلی،صفات عملی،صفات نیتی اور صفات ظاہری و باطنی۔ اس کے بعد امیر المومنین علیہ السلام نے عرض کیا کہ اے الله کے رسول وہ ایک سو تین صفات کیا ہیں؟حضرت نے فرمایا:”اے علی ﷼ مومن کے صفات یہ ہیں کہ وہ ہمیشہ فکر کرتا ہے اور علی الاعلان الله کا ذکر کرتا ہے،اس کا علم ،حوصلہ وتحمل زیادہ ہوتا ہے اور دشمن کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرتا ہے “ حدیث کی شرح : یہ حدیث حقیقت میں اسلامی اخلاق کا ایک مکمل دورہ ہے ،جس کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، حضرت علی علیہ السلام کو خطاب کرتے ہوئے بیان فرمارہے ہیں ۔اس کا خلاصہ پانچ حصوں میں ہوتا ہے جو اس طرح ہیں:فعل،عمل،نیت،ظاہر اور باطن۔ فعل و عمل میں کیا فرق ہے؟ فعل ایک گزرنے والی چیز ہے،جس کو انسان کبھی کبھی انجام دیتا ہے۔ اس کے مقابلے میں عمل ہے جس میں استمرار پایا جاتاہے یعنی جو کام کبھی کبھی انجام دیا جائے وہ فعل کہلاتا ہے اور جو کام مسلسل انجام دیا جائے وہ عمل کہلاتاہے ۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : مومن کی پہلی صفت ” جوال الفکر“ ہے یعنی مومن کی فکر کبھی جامد وراکد نہیں ہوتی وہ ہمیشہ فکر کرتا رہتا ہے اور نئے مقامات پر پہونچتا رہتا ہے۔ وہ تھوڑے سے علم سے قانع نہیں ہوتا ۔یہاں پر حضرت نے مومن کی پہلی صفت فکر کو قراردیا ہے جس سے فکر کی اہمیت واضع ہو جاتی ہے ۔مومن کا سب سے بہترین عمل تفکر ہے۔ اور یہاں پر ایک بات قابل غور ہے اور وہ یہ کہ ابوذرۻ کی بیشتر عبادت تفکر ہی تھی۔اگر ہم کاموں کے نتیجہ کے بارے میں فکر کریں تو ان مشکلات میں مبتلا نہ ہوں جن میں آج گھرے ہوئے ہیں۔ مومن کی دوسری صفت”جوہری الذکر“ہے: بعض نسخوں میں” جہوری الذکر “بھی آیاہے ۔ہماری نظر میں دونوں ذکر کو ظاہر کرنے کے معنی میں ہے۔ذکر کو ظاہری طور پر انجام دنیا قصد قربت کے منافی نہیں ہے۔ کیونکہ اسلامی احکام میں ذکر جلی اور ذکر خفی دونوں موجودہیں۔صدقہ اور زکوٰة مخفی بھی ہے اور ظاہری بھی،ان میں سے ہرایک کااپنا خاص فائدہ ہے جہاں پر ظاہری ہے وہاں تبلیغ ہے اور جہاں پر مخفی ہے وہ اپنا مخصوص اثر رکھتی ہے ۔ مومن کی تیسری صفت” کثیراً علمہ“ ہے ۔ یعنی مومن کے پاس علم زیاد ہوتا ہے۔حدیث میں ہے کہ ثواب،عقل اور علم کے مطابق ہے۔ یعنی ممکن ہے کہ ایک انسان دو رکعت نماز پڑھے اور اس کے مقابل دوسرا انسان سو رکعت نماز پڑھے مگر ان دو رکعت کا ثواب اس سے زیاد ہو ۔واقعیت بھی یہی ہے کہ عباد ت کے لئے ضریب ہے اور عبادت کی اس ضریب کا نام علم وعقل ہے۔ مومن کی چوتھی صفت”عظیماً حلمہ“ ہے یعنی مومن کا علم جتنا زیادہ ہوتا ہے اس کا حلم بھی اتنا ہی زیاد ہوتا ہے ۔ایک عالم انسان کو سماج میں مختلف لوگوں سے روبرو ہونا پڑتا ہے اگر اس کے پاس حلم نہیں ہوگا تو مشکلات میں گھر جائے گا ۔مثال کے طور پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حلم کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔گذشتہ اقوام میں قوم لوط سے زیادہ خراب کوئی قوم نہیں ملتی اور ان کا عذاب بھی سب سے دردناک تھا فلما جاء امرنا جعلنا عٰلیہاسافلہا وامطرنا علیہا حجارة من سجیل منضود [2] اس طرح کہ ان کے شہر اوپر نیچے ہوگئے اور بعد میں ان کے او پر پتھروں کی بارش ہوئی۔ان سب کے باوجود جب فرشتے اس قوم پر عذاب نازل کرنے کے لئے آئے تو پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خدمت میں پہونچے، اور ان کو بیٹے کی پیدائش کی بشارت دی جس سے وہ خوش ہوگئے،بعدمیں قوم لوط کی شفاعت کی ۔فلما ذہب عن ابراہیم الروع و جاتہ البشریٰ یجادلنا فی قوم لوط ان ابراہیم لحلیم اواة منیب [3] ایسی قوم کی شفاعت کے لئے انسان کو بہت زیادہ حلم کی ضرورت ہے یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بزرگی ،حلم اور ان کے وسیع القلب ہونے کی نشانی ہے۔بس عالم کو چاہئے کہ اپنے حلم کو بڑھائے اور جہاں تک ہو سکے اصلاح کرے نہ یہ کہ اس کو چھوڑ دے۔ مومن کی پانچوین صفت”جمیل المنازعة“ہے یعنی اگرمومن کو کسی کے کوئی بحث یا بات چیت کرنی ہوتی ہے تو اس کو نرم لب و لہجہ میں انجام دیتا ہے اورجنگ و جدال نہیں کرتا ۔آج ہمارے سماج کی حالت بہت حسا س ہے ،خطرہ ہم سے صرف دو قدم کے فاصلے پر ہے۔ان حالات میں عقل کیا کہتی ہے؟کیا عقل یہ کہتی ہے ہم کسی بھی موضوع کو بہانہ بنا کرجنگ کے ایک جدید محاذ کی بنیاد ڈال دیں،یا یہ کہ یہ وقت آپس میں متحد ہونے اور ایک دوسرے کی مدد کرنے کا وقت ہے؟ جب ہم خبروں پر غور کرتے ہیںتو سنتے ہیں کہ ایک طرف تو تحقیقی وفد عراق میں تحقیق میں مشغول ہے دوسر طرف امریکہ نے اپنے آپ کو حملہ کے لئے تیارکرلیا ہے اور عراق کے چاروں طرف اپنے جال کو پھیلا کر حملہ کی تاریخ معین کردی ہے۔دوسری خبر یہ ہے کہ جنایت کار اسرائیلی حکومت کا ایک ذمہ دار آدمی کہہ رہا ہے کہ ہمیں تین مرکزوں (مکہ ،مدینہ،قم)کو ایٹم بم کے ذریعہ تہس نہس کردینا چاہئے۔کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ یہ بات واقعیت رکھتی ہو؟ایک دیگر خبر یہ ہے کہ امریکیوں کا ارادہ یہ ہے کہ عراق میں داخل ہونے کے بعد وہاں پر، اپنے ایک فوجی افسر کو تعین کریں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ ہم پر مسلط ہو گئے تو کسی بھی گروہ پر رحم نہیں کریں گے اور نہ ہی کسی گروہ کو کوئی حصہ دیںگے۔ایک خبر یہ بھی ہے کہ جب ہمارے یہاںمجلس میں کوئی ٹکراوپیدا ہو جاتا ہے یا اسٹوڈنٹس کا کوئی گروہ جلسہ کرتا ہے تو دشمن کامیڈیا ایسے معاملات کی تشویق کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ یہ سلسلہ جاری رہے۔کیا یہ سب کچھ ہمارے بیدار ہو نے کے لئے کافی نہیں ہے؟کیا آج کا دن اعتصموا بحبل الله جمیعاً ولا تفرقوا وروز وحد ت ملی نہیں ہے؟عقل کیا کہتی ہے؟اے مصنفوں،مئلفوں،عہدہ داروں،مجلس کے نمائندوں،اور دانشمندوں ! خداکے لئے بیدار ہو جاؤ کیا عقل اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ ہم کسی بھی موضوع کو بہانہ بنا کر جلسہ کریں اور ان کو یونیورسٹی سے لے کر مجلس تک اور دیگر مقامات پر اس طرح پھیلائیں کہ دشمن اس سے غلط فائدہ اٹھائے؟میں چاہتا ہوں کہ اگر کوئی اعتراض بھی ہے تو ا س کو ”جمیل المنازعة“ کی صورت میں بیان کرنا چاہئے کیونکہ یہ مومن کی صفت ہے۔ہمیں چاہئے ک قانون کو اپنا معیار بنائیں او روحدت کے معیاروںکو باقی رکھیں۔ اکثر لوگ متدین ہیں ،جب ماہ رمضان یا محرم آتا ہے تو پورے ملک کا نقشہ ہی بدل جاتا ہے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کو دین سے محبت ہے۔آگے بڑھو اور دین کے نام پر جمع ہو جاؤ اور اس سے فائدہ اٹھاؤ وحدت ایک زبردست طاقت اور سرمایہ ہے ۔ -------------------------------------------------------------------------------- [1] بحار الانوار ،ج/ ۶۴ باب علامات المومن،حدیث/ ۴۵ ،ص/ ۳۱۰ [2] سورہٴ ہود:آیہ/ ۸۲ [3] سورہٴ ہود:آیہ/ ۷۴ و ۷۵ |
غیرمسلموں کی نظر میں مہدی عج کا تصور
ظہور مہدی (ع) کا عقیدہ اسلامی عقیدہ ہے
تحریر: آیۃ اللہ العظمیٰ صافی گلپائگانی
جو لوگ شیعوں کے بارہ میں غلط فہی میں مبتلا ہوکر شیعہ حقائق کا مطالعہ کرتے ہیں یا دشمنان اسلام کے سیاسی اغراض پر مبنی مسموم افکار کی ترویج کرتے ہیں وہ جادۂ تحقیق سے منحرف ہوکر اپنے مقالات یا بیانات میں یہ اظہار کرتے ہیں کہ ظہور مہدی (ع) کا عقیدہ ،شیعہ عقیدہ ہے اور اسے تمام اسلامی فرقوں کا عقیدہ تسلیم کرتے ہوئے انھیں زحمت ہوتی ہے۔ کچھ لوگ تعصب ونفاق کے علاوہ تاریخ وحدیث اورتفسیر ورجال سے ناواقفیت،اسلامی مسائل سے بے خبری اور عصر حاضر کے مادی علوم سے معمولی آگاہی کے باعث تمام دینی مسائل کو مادی اسباب وعلل کی نگاہ سے دیکھتے اور پرکھتے ہیں اور اگر کہیں کوئی راز یا فلسفہ سمجھ میں نہ آئے توفوراً تاویل وتوجیہ شروع کردیتے ہیں یا سرے سے انکار کربیٹھتے ہیں۔ اس طرح اپنے کمرہ کے ایک کونے میں بیٹھ کر قلم اٹھاتے ہیں اور اسلامی مسائل سے متعلق گستاخانہ انداز میں اظہار نظر کرتے رہتے ہیں جب کہ یہ مسائل ان کے دائرہ کا رومعلومات سے باہر ہیں، اس طرح یہ حضرات قرآن وحدیث سے ماخوذ مسلمانوں کے نزدیک متفق علیہ مسائل کا بہ آسانی انکار کردیتے ہیں۔ انھیں قرآن کے علمی معجزات، اسلامی قوانین اور اعلیٰ نظام سے زیادہ دلچسپی ہوتی ہے لیکن انبیاء کے معجزات اور خارق العادہ تصرفات کے بارے میں گفتگو سے گریز کرتے ہیں تاکہ کسی نووارد طالب علم کے منہ کا مزہ خراب نہ ہو جائے یا کوئی بے خبر اسے بعید از عقل نہ سمجھ بیٹھے۔ ان کے خیال میں کسی بات کے صحیح ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اسے ہر آدمی سمجھ سکے یا ہر ایک دانشوراس کی تائید کرسکے یا ٹیلی اسکوپ، مائیکرو اسکوپ یا لیبوریٹری میں فنی وسائل کے ذریعہ اس کا اثبات ہو سکے۔ ایسے حضرات کہتے ہیں کہ جہاں تک ممکن ہو انبیاء (ع) کو ایک عام آدمی کی حیثیت سے پیش کرنا چاہئے اور حتی الامکان ان کی جانب معجزات کی نسبت نہیں دینا چاہئے بلکہ بہتر تو یہ ہے کہ دنیا کے حوادث کی نسبت خداوند عالم کی جانب بھی نہ دی جائے یہ لوگ خدا کی قدرت، حکمت، علم، قضا وقدر کا صریحی تذکرہ بھی نہیں کرتے جو کچھ کہنا ہوتا ہے مادہ سے متعلق کہتے ہیں۔ خدا کی حمد وستائش کے بجائے مادہ اور طبیعت (Nature)کے گن گاتے ہیں تاکہ ان لوگوں کی لے میں لے ملا سکیں، جنہوں نے تھوڑے مادی علوم حاصل کئے ہیں یا فزکس، کمیسٹری، ریاضی سے متعلق چند اصطلاحات، فارمولے وغیرہ سیکھ لئے ہیں اوراگر انگریزی یا فرانسیسی زبان بھی آ گئی تو کیا کہنا۔ یہ صورت حال کم وبیش سبھی جگہ سرایت کر رہی ہے اور زندگی کے مختلف شعبوں میں اس کے آثار نمایاں نظر آتے ہیں، عموماً اس صورت حال کا شکار کچے ذہن کے وہ افراد ہوتے ہیں جو علوم قدیم وجدید کے محقق تو نہیں ہیں لیکن مغرب کے کسی بھی نظریہ یا کسی شخص کی رائے کو سو فیصدی درست مان لیتے ہیں چاہے اس کا مقصد سیاسی اور استعماری ہی رہا ہو، ہمارے بعض اخبارات، رسائل، مجلات و مطبوعات بھی دانستہ یا نادانستہ طور پر انہیں عوامل سے متاثر ہو کر سامراجی مقاصد کی خدمت میں مصروف ہیں ۔ انہیں یہ احساس نہیں ہے کہ یورپ اور امریکہ کے اکثر لوگ اور ان کے حکام کی علمی، عقلی، فلسفی اور دینی معلومات بالکل سطحی ہوتی ہیں، وہ اکثر بے خبر اور مغرض ہوتے ہیں (بلکہ ایک رپورٹ کے مطابق ٨١ فیصدافراد ضعف عقل و اعصاب ا ور دماغ میں مبتلا ہیں)اور اپنے پست اور انسانیت سے دور سیاسی مقاصد کے لئے دنیا کے مختلف مقامات پر اپنے سیاسی مفادات کے مطابق گفتگو کرتے ہیں، البتہ جو لوگ ذی علم و استعداد، محقق و دانشور ہیں ان کا معاملہ فحشاء و فساد میں ڈوبی اکثریت سے الگ ہے۔ ان کے معاشرہ میں ہزاروں برائیاں اور خرافات پائے جاتے ہیں پھر بھی وہ عقلی، سماجی، اخلاقی اور مذہبی بنیاد پر مبنی مشرقی عادات و رسوم کا مذاق اڑاتے ہیں۔ مشرق میں جو صورتحال پیدا ہو گئی ہے اسے ''مغرب زدہ ہونا'' یا مغرب زدگی کہا جاتا ہے جس کی مختلف شکلیں ہیں اور آج اس سے ہمارا وجود خطرے میں ہے، انہوں نے بعض اسلامی ممالک کی سماجی زندگی سے حیاو عفت اور اخلاقی اقدار کو اس طرح ختم کر دیا ہے کہ اب ان کا حشر بھی وہی ہونے والا ہے جو اندلس (اسپین) کے اسلامی معاشرہ کا ہوا تھا۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے زمانہ میں ایسے افراد جن کی معلومات اخبارات و رسائل سے زیادہ نہیں ہے اور انہوں نے مغربی ممالک کا صرف ایک دو مرتبہ ہی سفر کیا ہے،مغرب زدگی، مغرب کے عادات و اخلاق کے سامنے سپرانداختہ ہوکر موڈرن بننے کی جھوٹی اور مصنوعی خواہش، جو دراصل رجعت پسندی ہی ہے کو روشن فکری کی علامت قرار دیتے ہیں،اور اغیار بھی اپنے ذرائع کے ذریعہ مثلاً اپنے سیاسی مقاصد کے لئے انہیں مشتشرق، خاورشناس کا ٹائٹل دے کر ان جیسے افراد کی حوصلہ افزائی کرتے رہتے ہیں۔ ظہور حضرت مہدی (ع) کے بارے میں بھی ادھر ہمارے سنّی بھائیوں میں سے کچھ مغرب زدہ احمد امین، عبدالحسیب طٰہٰ حمیدہ جیسے افراد نے امام مہدی (ع) کے متعلق روایات نقل کرنے کے باوجود تشیع پر حملے کئے ہیں گویا ان کے خیال میں یہ صرف شیعوں کا عقیدہ ہے یا کتاب و سنت، اقوال صحابہ و تابعین وغیرہ میں اس کا کوئی مدرک و ماخذ نہیں ہے، بے سر پیر کے اعتراضات کر کے یہ حضرات اپنے کو روشن فکر، مفکر اور جدید نظریات کا حامل سمجھتے ہیں،غالباً سب سے پہلے جس مغرب زدہ شخص نے ظہور مہدی (ع) سے متعلق روایات کو ضعیف قرار دینے کی ناکام و نامراد کوشش کی وہ ابن خلدون ہے، جس نے اسلامی مسائل کے بارے میں ہمیشہ بغض اہلبیت (ع) اور اموی افکار کے زیر اثر بحث و گفتگو کی ہے۔ ''عقاد '' کے بقول اندلس کی اموی حکومت نے مشرقی اسلام کی وہ تاریخ ایجاد کی ہے جو مشرقی مورخین نے ہرگز نہیں لکھی تھی اور اگر مشرقی مورخین لکھنا بھی چاہتے تو ایسی تاریخ بہر حال نہ لکھتے جیسی ابن خلدون نے لکھی ہے۔ اندلس کی فضا میں ایسے مورخین کی تربیت ہوتی تھی جو اموی افکار کی تنقید و تردید کی صلاحیت سے بے بہرہ تھے، ابن خلدون بھی انہیں افراد میں سے ہے جو مخصوص سیاسی فضا میں تربیت پانے کے باعث ایسے مسائل میں حقیقت بین نگاہ سے محروم ہو گئے تھے، فضائل اہلبیت (ع) سے انکار یا کسی نہ کسی انداز میں توہین یا تضعیف اور بنی امیہ کا دفاع اور ان کے مظالم کی تردیدسے ان کا قلبی میلان ظاہر ہے۔ ابن خلدون معاویہ کو بھی ''خلفائے راشدین'' میں شمار کرتے ہیں۔ انہوں نے مہدی (ع) اہل بیت (ع) کے ظہور کے مسئلہ کو بھی اہل بیت (ع) سے بغض و عناد کی عینک سے دیکھا ہے کیونکہ مہدی (ع) بہرحال اولاد فاطمہ (ص) میں سے ہیں خانوادہ رسالت کا سب سے بڑا سرمایۂ افتخارہیں لہٰذا اموی نمک خوار کے حلق سے فرزند فاطمہ(ص) کی فضیلت کیسے اتر سکتی تھی چنانچہ روایات نقل کرنے کے باوجود ان کی تنقید و تضعیف کی سعی لاحاصل کی اور جب کامیابی نہ مل سکی تو اسے ''بعید'' قرار دے دیا۔ اہل سنت کے بعض محققین اور دانشوروں نے ابن خلدون اور اس کے ہم مشرب افراد کا دندان شکن جواب دیا ہے اور ایسے نام نہاد روشن فکر افراد کی غلطیاں نمایاں کی ہیں۔ معروف معاصر عالم استاد احمد محمد شاکر مصری ''مقالید الکنوز'' میں تحریر فرماتے ہیں ''ابن خلدون نے علم کے بجائے ظن و گمان کی پیروی کر کے خود کو ہلاکت میں ڈالا ہے۔ ابن خلدون پر سیاسی مشاغل، حکومتی امور اور بادشاہوں، امیروں کی خدمت و چاپلوسی کا غلبہ اس قدر ہو گیا تھا کہ انہوں نے ظہور مہدی (ع) سے متعلق عقیدہ کو ''شیعی عقیدہ'' قرار دے دیا۔ انہوں نے اپنے مقدمہ میں طویل فصل لکھی ہے جس میں عجیب تضاد بیان پایا جاتا ہے ابن خلدون بہت ہی فاش غلطیوں کے مرتکب ہوئے ہیں، پھر استاد شاکر نے ابن خلدون کی بعض غلطیاں نقل کرنے کے بعد تحریر فرمایا: اس(ابن خلدون) نے مہدی (ع) سے متعلق روایات کو اس لئے ضعیف قرار دیا ہے کہ اس پر مخصوص سیاسی فکر غالب تھی، پھر استاد شاکر مزید تحریر کرتے ہیں کہ: ابن خلدون کی یہ فصل اسماء رجال، علل حدیث کی بے شمار غلطیوں سے بھری ہوئی ہے کبھی کوئی بھی اس فصل پر اعتماد نہیں کرسکتا۔'' استاد احمد بن محمد صدیق نے تو ابن خلدون کی رد میں ایک مکمل کتاب تحریر کی ہے جس کا نام ''ابراز الوہم المکنون عن کلام ابن خلدون'' ہے۔ اس کتاب میں استاد صدیق نے مہدویت سے متعلق ابن خلدون کی غلطیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کا مکمل جواب دیا ہے اور ابن خلدون کو بدعتی قرار دیا ہے۔ ہر چند علمائے اہل سنت نے اس بے بنیاد بات کا مدلل جواب دیا ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ ظہور مہدی (ع) کا عقیدہ خالص اسلامی عقیدہ ہے اور امت مسلمہ کے نزدیک متفق علیہ اور اجتماعی ہے مگرہم چند باتیں بطور وضاحت پیش کر رہے ہیں : ١۔ شیعوں کا جو بھی عقیدہ یا نظریہ ہے وہ اسلامی عقیدہ و نظریہ ہے، شیعوں کے یہاں اسلامی عقائد و نظریات سے الگ کوئی عقیدہ نہیں پایا جاتا، شیعی عقائد کی بنیاد کتاب خدا اور سنت پیغمبر (ص) ہے اس لئے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کوئی عقیدہ شیعی عقیدہ ہو مگر اسلامی عقیدہ نہ ہو۔ ٢۔ ظہور مہدی (ع) کا عقیدہ شیعوں سے مخصوص نہیں ہے بلکہ علمائے اہلسنت بھی اس پر متفق ہیں اور یہ خالص اسلامی عقیدہ ہے۔ ٣۔ آپ کے نزدیک ''اسلامی عقیدہ'' کا معیار کیا ہے؟ اگر قرآن مجید کی آیات کی تفسیر اسی سے ہوتی ہو تو کیا وہ عقیدہ اسلامی عقیدہ نہ ہوگا؟ اگر صحیح، معتبر بلکہ متواتر روایات (جو اہل سنت کی کتب میں بھی موجود ہیں) سے کوئی عقیدہ ثابت ہو جائے تب بھی کیا وہ عقیدہ اسلامی عقیدہ نہ ہوگا؟ اگر صحا بہ و تابعین اور تابعینِ تابعین کسی عقیدہ کے معتقد ہوں تو بھی وہ عقیدہ اسلامی نہیں ہے؟ اگر شواہد اور تاریخی واقعات سے کسی عقیدہ کی تائید ہو جائے اور یہ ثابت ہو جائے کہ یہ عقیدہ ہر دور میں پوری امت مسلمہ کے لئے مسلّم رہا ہے پھر بھی کیا آپ اسے اسلامی عقیدہ تسلیم نہ کریں گے؟ اگر کسی موضوع سے متعلق ابی دائود صاحب سنن جیسا محدث پوری ایک کتاب بنام ''المہدی''، شوکانی جیسا عالم ایک کتاب ''التوضیح'' اسی طرح دیگر علماء کتابیں تحریر کریں، بلکہ پہلی صدی ہجری کی کتب میں بھی یہ عقیدہ پایا جاتا ہوتب بھی یہ عقیدہ اسلامی نہ ہوگا؟ پھر آپ ہی فرمائیں اسلامی عقیدہ کا معیار کیا ہے؟ تاکہ ہم آپ کے معیار و میزان کے مطابق جواب دے سکیں، لیکن آپ بخوبی جانتے ہیںکہ آپ ہی نہیںبلکہ تمام مسلمان جانتے ہیں کہ مذکورہ باتوں کے علاوہ اسلامی عقیدہ کا کوئی اور معیار نہیں ہو سکتا اور ان تمام باتوں سے ظہور مہدی (ع) کے عقیدہ کا اسلامی ہونا مسلّم الثبوت ہے چاہے آپ تسلیم کریں یا نہ کریں۔ |
طلوع شمس امامت
|
انتظار احادیث كی روشنی میں
ف . ح . مہدوی میری امت كا برترین اور بالاترین عمل خدا كی جانب سے فَرَج و فراخی كا انتظار ہے۔ 1.انتظارِ فَرَج (گشایش ). 1. قال رسول اللّه (ص): انتظارالفَرَج بالصبرعبادة (الدعوات للراوندى: 41 / 101). صبر و استقامت كے ساتھ فَرَج و فراخی كا انتظار، عبادت ہے. 2. قال الامام علي (ع): انتظروا الفَرَج ولا تياسوا من روح اللّه، فان احب الاعمال الى اللّه عزوجل انتظار الفَرَج. (البحار: 52 / 1243 / 7.). فَرَج اور فراخی كے منتظر رہو اور خدا كی رحمت سے ناامید مت ہوجاؤ كیونكہ خداوند عزّ و جلّ كے نزدیك محبوبترین اور پسندیدہ ترین عمل انتظارِ فَرَج ہے. 3. قال الامام زين العابدين (ع): انتظار الفَرَج من اعظم الفَرَج (البحار: ص 122 / 4). فَرَج و فراخی كا انتظار خود عظیم ترین فراخی ہے. 4. قال الامام الصادق (ع): من دين الائمة الورع والعفة والصلاح... وانتظار الفَرَج بالصبر (البحار: 52 / 122 / 1). پارسائى، پاكدامنى، درستكاری اور صبر كے ساته فَرَج اور فراخی كا انتظار ائمہ كے دین كا حصہ ہیں. 5. الامام الكاظم (ع): انتظار الفَرَج من الفَرَج (الغيبة للطوسى: 459 / 471) فَرَج و فراخی كا انتظار فراخی كی علامت ہے. انتظار فَرَج برترین عبادت ہے. 6. قال رسول اللّه (ص): افضل اعمال امتي انتظارفَرَج اللّه عزوجل (البحار: 52 / 122 / 2). میری امت كا برترین اور بالاترین عمل خدا كی جانب سے فَرَج و فراخی كا انتظار ہے. 7. قال رسول اللّه (ص): افضل اعمال امتي انتظارالفَرَج من اللّه عزوجل (البحار: ص 128 / 21). میری امت كا بالاترین عمل یہ ہے كہ خدا كی جانب سے فَرَج و فراخی كا انتظار كرے. انتظار فَرَج بہترین عبادت ہے 8. قال رسول اللّه (ص): افضل العبادة انتظار الفَرَج (البحار:ص 125 / 11). بہترین عبادت انتظارِ فَرَج ہے. 9. قال الامام علي (ع): افضل عبادة المؤمن انتظار فَرَج اللّه (المحاسن: 1 / 453 / 1044). مؤمن كی بہترین عبادت، خدا كی جانب سے فراخی كا انتظار ہے. منتظرین كی منزلت 10. قال الامام الصادق (ع): المنتظر للثاني عشركالشاهر سيفه بين يدي رسول اللّه (ص) يذب عنه (البحار: 52 / 129 / 24). جو شخص بارہویں امام (عج) كا چشم براہ اور منتظر ہوگا وہ اس شخص كی مانند ہے جس نے تلوار سونت كر رسول اللہ (ص) كی ركاب میں جہاد كرتے ہوئے آپ (ص) كی ذات بابركات كا دفاع كیا ہو. 11. قال الامام الصادق (ع): من مات منتظرا لهذا الامر كان كمن كان مع القائم في فسطاطه، لا بل كان بمنزلة الضارب بين يدي رسول اللّه (ص) بالسيف (. البحار: ص 146 / 69). جو شخص اس امر (ظہور امام مہدی (عج) كا انتظار كرتا ہوا مرجائے، وہ اس شخص كی مانند ہے جو حضرت قائم (عج) كے ساتھ آپ (عج) كے خیمے میں حاضر ہو؛ نہیں بلكہ [اس سے بھی بالاتر] وہ اس شخص كی مانند ہے جو رسول اللہ (ص) كی ركاب میں فریضۂ جہاد انجام دیتا ہے. ان احادیث كے مفہوم كے بہتر ادراك كے لئے درج ذیل مقالات كا ضرور مطالعہ كریں: |
امریکہ کی فوجی و سیاسی برتری کے زوال کا وقت آن پہنچا
جنرل یحییٰ صفوی نے اپنے ایک ٹوئیٹ میں پڑوسی ملک عراق میں امریکہ کی غیر قانونی موجودگی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھا کہ اب امریکی انتظامیہ کو بین الاقوامی قوانین اور ضابطوں کی پابندی کے تعلق سے اپنی ذمہ داری سمجھ لینی چاہئے۔
جنرل صفوی کا کہنا تھا کہ عراقی پارلیمنٹ اپنے ملک میں امریکی سرکردگی میں موجود غیر ملکی فوجیوں کے انخلا کا بل پاس کر چکی ہے جس کے بعد ان کی موجودگی غیر قانونی ہے اور عراق کے اقتدار اعلیٰ کی خلاف ورزی شمار ہوتی ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم کمانڈر آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کے مشیراعلیٰ نے امریکہ کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اگر وہ بین الاقوامی قوانین اور ضابطوں کو نظر انداز کرے گا تو پھر اسے عراق میں اپنی غیر قانونی موجودگی کی بھاری قیمت ادا کرنی ہوگی اور عراقی حکومت و عوام اس کی مہم جوئی کا جواب دینے کے لئے پوری طرح حق بجانب ہیں۔
امریکہ، عراق سے ٹیکٹیکل پسماندگی اور دھمکی آمیز لہجہ
تحریر: ہادی محمدی
امریکہ نے 2003ء میں عراق پر فوجی قبضہ کیا تھا۔ اس وقت امریکہ کی اسٹریٹجی آئندہ 7 برس میں خطے کے 5 بڑے ممالک پر فوجی قبضہ کر کے انہیں نابود کرنے پر مشتمل تھی۔ لیکن افغانستان اور عراق پر فوجی قبضے کے بعد امریکہ 2008ء میں شدید اقتصادی بحران کا شکار ہو گیا جس کے نتیجے میں اسے 2010ء میں اپنے فوجیوں کی اکثریت عراق سے واپس بلانا پڑی۔ اس کے بعد جب خطے میں خود امریکہ کا ہی ایجاد کردہ تکفیری دہشت گرد گروہ داعش ابھر کر سامنے آیا تو امریکہ اس سے مقابلے کے بہانے ایک بار پھر عراق میں حاضر ہو گیا۔ امریکی حکام نے ہمیشہ اپنے حقیقی عزائم پوشیدہ رکھے ہیں لیکن موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اصل حقائق پوشیدہ نہ رکھ سکے اور انتہائی بے شرمانہ انداز میں کہہ ہی ڈالا کہ عراق اور شام میں ہمارا مقصد وہاں موجود خام تیل کے ذخائر ہیں۔ 2013ء سے اب تک عراق میں امریکہ کی فوجی سرگرمیاں اسی بے شرمی پر مبنی رہی ہیں اور امریکہ مسلسل عراق کی خودمختاری اور حق خود ارادیت کی خلاف ورزی کرتا آیا ہے۔ حالیہ چند دنوں میں یہ امریکی بدمعاشی اپنے عروج تک پہنچ چکی ہے۔
جب اسلامی جمہوریہ ایران کی مرکزیت میں اسلامی مزاحمتی فورسز فورسز اور عراق آرمی نے اس ملک میں داعش کا قلع قمع کر دیا اور امریکہ کے ہاتھ سے یہ اہم ہتھکنڈہ نکل گیا تو امریکہ نے اپنے شیطانی مقاصد کے حصول کیلئے این جی اوز، جاسوسوں، مغرب نواز حلقوں اور بکے ہوئے عناصر کا سہارا لینا شروع کر دیا۔ خطے سے متعلق امریکہ کا شیطانی منصوبہ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس فورس کے سربراہ شہید جنرل قاسم سلیمانی اور عراق کی عوامی رضاکار فورس حشد الشعبی کے نائب سربراہ شہید ابو مہدی المہندس کے ہاتھوں شکست کا شکار ہوا تھا لہذا امریکہ نے انتقامی کاروائی کرتے ہوئے ایک دہشت گردانہ اقدام کے ذریعے ان دونوں کی ٹارگٹ کلنگ کی۔ اس دہشت گردانہ اقدام میں امریکہ نے تمام بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑا دیں اور حتی اقوام متحدہ نے اسے عراق کی خودمختاری کی کھلی خلاف ورزی اور غیر قانونی اقدام انجام دیا ہے۔ امریکی حکام کا خیال تھا کہ اکتوبر 2019ء میں ان کی منصوبہ بندی سے عراق میں شروع ہونے والے ہنگاموں اور شدت پسندی کے بعد اس ملک میں مغرب نواز حلقوں کے برسراقتدار آنے کے مقدمات فراہم ہو جائیں گے لیکن امریکہ کی یہ خوش فہمی بھی سراب ثابت ہوئی۔
عراق کی پارلیمنٹ نے شہید قاسم سلیمانی اور شہید ابو مہدی المہندس کی شہادت کے بعد متفقہ طور پر عراق سے امریکی فوجیوں کے انخلاء پر مبنی بل منظور کر لیا۔ اس کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے امریکہ کے عین الاسد فوجی اڈے پر میزائل حملہ امریکہ کے منہ پر زوردار طمانچہ ثابت ہوا۔ گذشتہ چند ماہ کے دوران امریکہ نے عراق میں موجود سیاسی بحران کو طول دے کر اور نئی کابینہ تشکیل پانے کی راہ میں روڑے اٹکا کر اپنے شیطانی اقدامات کیلئے مناسب موقع حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن عراق میں قومی عزم پوری طاقت سے باقی ہے جبکہ ایران نے بھی امریکہ سے شدید انتقام کو اپنی پہلی ترجیح بنا رکھا ہے۔ سوشل میڈیا پر ایجنٹس کی جانب سے چلائی جانے والی مہم اور پروپیگنڈا بھی بے نتیجہ ثابت ہوا ہے جبکہ عراق آرمی اور حشد الشعبی کے مراکز پر ہوائی حملوں کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ آج امریکہ اپنے ہی بنائے ہوئے کرونا وائرس کی لپیٹ میں آ کر اقتصادی بحران کی نئی لہر سے روبرو ہو چکا ہے جس کے باعث وہ عراق اور مغربی ایشیا کے دیگر حصوں میں فوجی سرگرمیوں پر دولت لٹانے کی پوزیشن میں نہیں رہا۔ لہذا ڈونلڈ ٹرمپ ایسے طریقوں کی تلاش میں ہے جن سے کم اخراجات کے ذریعے بہتر نتائج حاصل کئے جا سکیں۔
انہی میں سے ایک عراق میں نئی حکومت کی تشکیل کیلئے عدنان الزرفی کا انتخاب ہے۔ عراق میں عدنان الزرفی امریکی فوج کے نوکر کے طور پر جانا جاتا ہے۔ وہ اگلے دس دنوں میں عراقی پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔ البتہ اس کی کامیابی کا امکان بہت کم ہے۔ عراق میں موجود امریکی فوجی اس وقت کرونا وائرس جیسے بڑے چیلنج سے روبرو ہیں۔ عراق میں موجود امریکی فوجی اپنے اڈوں میں محصور رہتے ہیں کیونکہ انہیں شہر میں آنے کی اجازت نہیں ہے۔ کرونا وائرس سے بچنے کیلئے امریکہ نے عراق میں بڑے پیمانے پر فوجی سرگرمیاں شروع کر رکھی ہیں اور اپنے فوجیوں کو چھوٹے اڈوں سے نکال کر بڑے اڈوں میں منتقل کر رہا ہے۔ دوسری طرف اس صورتحال کا غلط فائدہ اٹھا کر امریکی حکام نے حشد الشعبی کے خلاف ایک نفسیاتی جنگ کا آغاز کر رکھا ہے اور ایسا تاثر دیا جا رہا ہے جیسے امریکہ حشد الشعبی کے خلاف کوئی بڑی کاروائی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے چیف کمانڈر جنرل سلامی نے خبردار کیا ہے کہ ایران ہر گز عراق میں اپنی اتحادی فورسز کو تنہا نہیں چھوڑے گا اور مشکل وقت آنے پر ان کی بھرپور مدد اور حمایت کرے گا۔
دشمن سے سرزد ہونیوالی کوئی بھی خطا اُسکی آخری غلطی ثابت ہو گی، سپاہ پاسداران ایران
ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے روز کی مناسب سے سپاہ پاسداران کی طرف سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ شرارتی و بدطینت دشمن کی طرف سے دنیا کے کسی بھی کونے میں ایران کے خلاف سرزد ہونے والی کوئی چھوٹے سے چھوٹی خطا بھی اس کی آخری غلطی ثابت ہو گی۔ اس بیان میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی جارحیت کے مقابلے میں اسلامی انقلابی محاذ کی اٹل اور انتہائی تباہ کن جوابی کارروائی ناقابل یقین ہو گی جس کے بعد دشمن کو پچھتانے کی فرصت بھی نہیں ملے گی۔ سپاہ پاسداران نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوریہ ایران نے اپنے زندہ، مستحکم و متاثر کن حقائق اور عدالت، حق طلبی و استکبار مخالف موقف کی بناء پر نہ صرف پوری انسانیت کو اپنا مخاطب قرار دیا ہے بلکہ امریکہ و اسرائیل کی آمر و دہشتگرد رژیموں کو دنیا کے اسٹریٹیجک نشیب و فراز پر تنہاء کر کے ان کے ظاہری جاہ و جلال کی قلعی کو بھی کھول دیا ہے۔
ایرانی انقلابی گارڈز سپاہ پاسداران کی طرف سے جاری ہونے والے اس بیان میں ایران کے اندر اسلامی انقلاب کی کامیابی کے روز کی مبارکباد پیش کی گئی اور اسلامی انقلاب کے معنوی پیغام کو آزاد قلوب کیلئے نوید، امید اور امریکہ جیسی فریب کار، شیطانی و انسان دشمن طاقتوں سے آزادی کا پیغام قرار دیا گیا ہے۔ اس بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم اللہ تعالی کے شکرگزار ہیں کہ قوم کے سپوتوں کی جدوجہد اور دفاعی میدانوں میں خصوصا سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی کاوشوں کی بدولت آج مملکت خداداد کسی بھی دشمن کی طرف سے سخت یا نرم، ہر قسم کی جارحیت کا بھرپور مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس بیان میں گذشتہ 41 سال کے دوران اسلامی انقلاب کے دفاع میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے شہداء خصوصا سپاہ قدس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کو خراج عقیدت پیش کیا گیا اور رہبر کبیر انقلاب اسلامی آیت اللہ خمینیؒ کے ساتھ تجدید عہد کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اللہ تعالی کی مدد سے قیام، فعال مزاحمت اور دفاعی ترقی پر مبنی سپاہ پاسداران کی حکمت عملی پورے زور و شور سے جاری رہے گی۔