سلیمانی

سلیمانی

عرب ای مجلے المعلومہ کو انٹرویو دیتے ہوئے عراق پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سکیورٹی و دفاع کے رکن کاطع الرکابی نے کہا ہے کہ قابض امریکی افواج کے انخلاء پر مبنی پارلیمانی قرارداد پر عملدرآمد نومنتخب وزیراعظم مصطفی الکاظمی کی اولین ترجیح ہے۔ کاطع الرکابی نے زور دیتے ہوئے کہا کہ امریکی درخواست کے مطابق آئندہ ماہ جون میں بغداد اور واشنگٹن کے درمیان اسٹریٹیجک تعاون کے معاہدے پر گفتگو کی جائے گی۔

عراقی پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سکیورٹی و دفاع کے رکن نے کہا کہ وزیراعظم مصطفی الکاظمی نے قابض امریکی افواج کے انخلاء کے حوالے سے ایک نظام الاوقات ترتیب دے دیا ہے جس کی تفصیلات عنقریب ہی منظر عام پر آ جائیں گی۔ واضح رہے کہ جاری سال کے شروع میں امریکہ کی طرف سے ٹارگٹ کلنگ کی ایک کارروائی میں ایرانی سپاہ قدس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی اور عراقی حشد الشعبی کے ڈپٹی کمانڈر ابومہدی المہندس کے شہید کر دیئے جانے کے فورا بعد عراقی پارلیمنٹ نے اپنی سرزمین سے امریکی افواج کے فوری انخلاء کی قرارداد کو بھاری اکثریت کے ساتھ منظور کر لیا تھا۔
 
 
 

رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ

امریکہ بلا شرکتِ غیرے دنیا پہ حکمرانی کا خواب پورا کرنا چاہتا ہے۔ جنگ و جدل، سازش اور دغا بازی، ظلم و جور اور ہر طرح کا ظلم و ستم اپنانے کے ساتھ الزامات اور جھوٹ کا سہارا بھی لیتا ہے۔ کرونا وائرس کو ایک تنازعہ کا رنگ دینے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے، تاکہ امریکہ اسے اپنے حق میں استعمال کرسکے۔ امریکی صدر ٹرمپ کے قرب ترین سمجھے جانے والے ری پبلکن پارٹی کے سینیٹر ٹام کاٹن نے فروری کے آخر میں کرونا وائرس کے بارے میں الزام لگایا کہ یہ وائرس حادثاتی طور پر نہیں پھوٹا بلکہ اسے ایک منصوبے کے تحت جنم دیا گیا ہے۔ انہوں نے چین کے آزاد آن لائن سائنسی جریدے ChinaXiv کے حوالے سے چینیوں کے اس دعوے کی تردید کی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ ووہان کی مچھلی مارکیٹ سے یہ وائرس کسی انسان کو منتقل ہوا، نومبر کے آخر میں ووہان سے باہر کسی مقام پر یہ جرثومہ کسی انسان سے دوسرے انسان میں منتقل ہوا۔ اس دوسرے آدمی یا Patient Zero سے یہ جرثومہ ووہان کے کسی قصاب اور کارکن کو منتقل ہوا، جس کے بعد وہاں آنے والے صارفین متاثر ہوئے۔ سینیٹر کاٹن بار بار اصرار کرتے رہے کہ Patient Zero کی تفصیل فراہم کی جائے۔ انہوں نے دھمکی دی تھی کہ امریکی حکومت چاہے نہ چاہے، وہ چینی حکومت کے خلاف تحقیقات کا مطالبہ جاری رکھیں گے۔ وہ جنگجو اور پھر سیاستدان ہیں، ان کے اصرار میں فوجی ذہنیت بھی ہے اور سیاست چمکانے کیلئے ایک نعرہ بھی۔

اسی طرح انسدادِ دہشت گردی کے ماہر اور فوجی محکمہ سراغ رسانی کے سابق اہلکار فلپ جیلارڈی کا موقف بھی سامنے آیا کہ کورونا وائرس کے کچھ حصے فطری نہیں، ان کی افزائش بلکہ پیدائش ہتھیار بندی کے لیے کی گئی ہے، کورونا وائرس تغیر پذیری (Mutation) کی فطری صلاحیت سے عاری ہے، لہٰذا اسے لیبارٹری میں جنم دیا گیا ہے، یعنی اس پر ایک حیاتیاتی ہتھیار ہونے کا شبہ ہوتا ہے، یہ جرثومہ ووہان کے انسٹی ٹیوٹ برائے جرثومیات (Virology) سے لیک ہوکر کسی انسان یا جانور کے جسم میں داخل ہوگیا، جہاں سے مچھلی مارکیٹ پہنچا اور اب ساری دنیا میں قیامت ڈھا رہا ہے۔ اس تجزیے کے بعد سینیٹر ٹام کاٹن کے مؤقف میں بھی مزید سختی آگئی۔ ان کے خیال میں کورونا وائرس کی تخلیق چینی فوج کا کارنامہ ہے، جسے ووہان کے فوجی انسٹی ٹیوٹ برائے جرثومیات میں تخلیق کیا گیا۔ اپنے ساتھی کے اس الزام کے بعد صدر ٹرمپ نے کورونا وائرس کو ووہان جرثومہ، غیر ملکی جرثومہ اور چینی جرثومہ کہنا شروع کر دیا تھا، لیکن اپنی ٹیکنیکل ٹیم کے مشورے پر انہوں نے یہ سلسلہ اب ترک کر دیا ہے۔

لیکن چین نے جوابی الزام لگایا کہ ووہان آنے والے امریکی فوج کے کھلاڑیوں نے کورونا وائرس ووہان میں پھیلایا، جہاں اکتوبر 2019ء میں دنیا کے فوجی کھیل منعقد ہوئے تھے، ان مقابلوں میں شرکت کے لیے پینٹاگون نے 280 کھلاڑیوں پر مشتمل امریکی فوج کی17 ٹیمیں ووہان بھیجی تھیں۔ چینیوں کو شک ہے کہ کھلاڑیوں کے روپ میں آنے والے حیاتیاتی جنگ کے ماہرین نے یہ جرثومہ ووہان میں پھیلایا ہے۔ اسی طرح چین نے دعویٰ کیا کہ امریکہ، فرانس، جاپان اور آسٹریلیا میں جو لوگ اس مرض میں مبتلا ہوئے ہیں، اُن میں سے کم از کم پانچ افراد ایسے تھے، جنھوں نے نہ ملک سے باہر سفر کیا اور نہ ہی کسی مریض سے ان کی ملاقات ہوئی، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ووہان میں پھوٹ پڑنے سے پہلے کورونا وائرس چین سے باہر بھی موجود تھا، اور امریکی مریضوں کی اکثریت دارالحکومت کے قریب رہائش پذیر لوگوں کی تھی، جہاں سے امریکی فوج کی فورٹ ڈیٹرک حیاتیاتی لیبارٹری بہت دور نہیں۔

مارچ 2020ء میں پاکستان کے سابق عبوری وزیر خارجہ اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل نمائندے جناب عبداللہ حسین ہارون نے اعداد و شمار اور استثنائی حقوق (Patent) کی تفصیل کے ساتھ کورونا وائرس کو امریکہ کا حیاتیاتی ہتھیار ثابت کیا ہے۔ اپنے طویل ویڈیو خطاب میں انہوں نے کہا کہ اس قسم کا ہتھیار شام میں بھی استعمال کیا جا چکا ہے۔ وائرس کی تخلیق برطانیہ میں ہوئی اور اسے ائیر کینیڈا کے ذریعے چین بھیجا گیا۔ اس کی ویکسین اسرائیل نے بنائی ہے، جسے صرف وہی ملک خرید سکیں گے، جن کے اسرائیل سے سفارتی تعلقات ہیں۔ جناب حسین ہارون کا کہنا تھا کہ وائرس سے چین کو ہدف بنانے کا مقصد چین کو معاشی طور پر مفلوج کرنا تھا، جو حجم کے اعتبار سے امریکہ کے بعد دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ انہوں نے بل گیٹس فائونڈیشن اور امریکہ کے طبی علوم کے مشہور تحقیقی مرکز جامعہ ہاپکنز کو بھی اس کام میں ملوث قرار دیا۔ احباب کو یقیناً علم ہوگا کہ کورونا وائرس کی ویکسین کی تیاری کے کام کی نگرانی جامعہ ہاپکنز کر رہی ہے۔

جبکہ روس کے ایک سائنسی جریدے میں شائع ہونے والے مقالے میں بتایا گیا کہ  COVID-19 کی جائے پیدائش امریکہ ہے۔ روسی اخبار اسپتنک کے مطابق کورونا وائرس شمالی یورپ کے ننھے سے بلقانی ملک لیٹویا (Latvia) میں نیٹو کی ایک فوجی تجربہ گاہ میں متولد ہوا۔ انسدادِ حیاتیاتی دہشت گردی کے ماہر اور امریکہ کے حیاتیاتی دہشت گردی کے خلاف قانون مجریہ 1989ء کا ابتدائی مسودہ تحریر کرنیوالے امریکی قانون دان پروفیسر لارنس بوائل کا بیان عالمی ذرائع ابلاغ میں نقل ہوا کہ جس میں پروفیسر صاحب نے شک ظاہر کیا کہ کورونا وائرس امریکہ کا حیاتیاتی اسلحہ ہے، جسے جرثومے کی شکل میں پھیلایا گیا۔ پریس ٹی وی کا دعویٰ بھی سامنے آیا کہ امریکی ریاست میری لینڈ میں فورٹ ڈیٹرک کے حیاتیاتی اسلحہ کے ریسرچ سینٹر پر امریکہ اور اسرائیل کے ماہرین نے یہ جرثومہ تخلیق کیا، ساتھ ہی اسرائیلی سائنس دانوں کا یہ دعویٰ پیش کیا، جس میں کہا گیا تھا کہ 90 روز میں Infectious Bronchitis Virus (IBV) کے خلاف ویکسین تیار کر لی جائے گی۔ ایرانی ماہرین کا کہنا ہے کہ ویکسین کی تیکنیکی تفصیل سے صاف ظاہر ہے کہ یہ COVID-19 کی ویکسین ہے۔

اس سے پہلے 2015ء، 2017ء اور 2018ء میں بل گیٹس نے کہا کہ دنیا میں علاج معالجہ، خاص طور سے وبائی امراض سے حفاظت کے انتظامات ناکافی اور غیر تسلی بخش ہیں، جس کی بنا پر کئی ملک کسی بڑی وبا کا مؤثر انداز میں مقابلہ نہیں کرسکیں گے، کسی بھی وباء کے پھوٹ پڑنے پر اس کے مقابلے کے لیے ویکسین کی بروقت تیاری سب سے اہم اور مقدم ہے، لیکن دنیا کے ڈاکٹر، سائنس دان اور تحقیقاتی ادارے اس کے لیے تیار نہیں، تعلیم و ایجادات کی وجہ سے دنیا کے زیادہ تر لوگوں کا معیارِ زندگی نسبتاً بلند ہوگیا ہے، لیکن اب بھی کسی عالمی وبا کے مقابلے کے لیے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک بھی تیار نہیں، دنیا کو وبا سے نبرد آزما ہونے کے لیے اسی نوعیت کی تیار کرنی چاہیئے، جیسی دنیا کے ممالک جنگ اور فوجی حملے کے مقابلے کے لیے کرتے ہیں۔

جبکہ 2019ء میں امریکہ کی مشہور میڈیا کمپنی Netflix کی Next Pandemic کے عنوان سے بننے والی دستاویزی فلم میں بل گیٹس نے چین کے کسی مچھلی بازار سے ایک خوفناک وائرس کے پھوٹ پڑنے کا خطرہ ظاہر کیا تھا۔ مچھلی بازار کے بجائے جناب گیٹس نے wet market کا لفظ استعمال کیا تھا۔ دستاویزی فلم میں چینی شہر لیانگ ہوا (Lianghua) کا ایک گوشت بازار بھی دکھایا گیا، جہاں جانوروں کو صارفین کے سامنے ذبح کرکے گوشت فروخت ہوتا ہے۔ لیانگ ہوا جنوبی چین کے ساحلی صوبے گوانگ ڈونگ میں واقع ہے۔ یہاں بھی ووہان کے ہونان مچھلی بازار کی طرح مچھلی اور جانوروں کا تازہ گوشت فروخت ہوتا ہے۔ یقیناً یہ حُسنِ اتفاق ہے، لیکن کورونا وائرس کا ظہور بالکل اسی انداز میں ہوا، جس کا خدشہ بل گیٹس نے اس دستاویزی فلم میں ظاہر کیا تھا۔ چینی حکام، ایرانی میڈیا، روسی جرائد اور امریکی سیاست دانوں اور ماہرین کے بیانات بھی ابھی تک مفروضوں، خدشات اور قیاس پر مشتمل ہیں۔ کسی بھی جانب سے کوئی ٹھوس دستاویزی ثبوت سامنے نہیں آیا۔ لیکن سی این این اور فاکس نیوز نے اپنی رپورٹس میں بتایا تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور خارجہ سیکرٹری مائیک پومپیو کی جانب سے کورونا کو لیبارٹری میں تیار کیے جانے کے خدشات ظاہر کیے جانے کے بعد امریکا نے معاملے کی تفتیش کا آغاز کر دیا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک اور بیان میں کہا تھا کہ اگر یہ ثابت ہوگیا کہ چین نے واقعی کورونا لیبارٹری میں تیار کرکے پھیلایا تو اسے نتائج کو بھگتا پڑے گا اور اگر یہ سب کچھ غلطی سے ہوا ہے تو غلطی کسی سے بھی ہوسکتی ہے۔ گذشتہ دنوں نے امریکی صدر نے پھر کہا ہے کہ ہم چین سے خوش نہیں ہیں، ہم پوری صورتحال سے خوش نہیں ہیں، کیونکہ ہمارا ماننا ہے کہ اس کو جڑ سے روکا جا سکتا تھا، اسے تیزی سے روکا جا سکتا تھا اور اسے پوری دنیا میں نہیں پھیلنا چاہیئے تھا اور انہیں اس کا ذمے دار ٹھہرانے کے لیے کئی راستے موجود ہیں۔ اس موقع پر ٹرمپ سے ایک جرمن اخبار کے ادارے کے حوالے سے سوال پوچھا گیا، جس نے چین سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ وائرس سے جرمن معیشت کو پہنچنے والے نقصان پر 165 ارب ڈالر ہرجانہ ادا کرے۔ جب ٹرمپ سے پوچھا گیا کہ کیا امریکا بھی ایسا ہی کچھ کرے گا تو امریکی صدر نے جواب دیا کہ ہم اس سے آسان راستہ اختیار کریں گے اور ابھی ہم نے حتمی رقم کے بارے میں فیصلہ نہیں کیا۔ واضح رہے کہ امریکا میں اب تک 56 ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں، جبکہ تقریباً 10 لاکھ افراد وائرس سے متاثرہ ہوئے ہیں۔

دنیا بھر میں انسانیت خوف اور بیماری کیساتھ ساتھ بے روزگاری اور بھوک سے سسک رہی ہے، لیکن امریکی استعماری ذہنیت کی غمازی کرنیوالے صدر ٹرمپ کی زبان پہ صرف چین پہ جرمانے کرنے اور پیسے بٹورنے کی بات ہے۔ امریکہ میں وائرس کے موجود ہونے اور مریضوں کے سامنے آنے سے پہلے انہوں نے یہ بھی کہا کہ چین کی معیشت ڈوب رہی ہے، اس لیے دنیا بھر کے سرمایہ کار چین سے اپنی سرمایہ کاری نکال لیں، ورنہ ان کا پیسہ ڈوب جائیگا اور انہیں معاشی نقصان اور خسارے کا سامنا کرنا پڑیگا۔ لاکھوں افراد کو بارود برسا برسا کر موت کی وادی میں دھکیلنے والی ظالم سامراجی طاقت سے اس کے سوا کیا توقع کی جا سکتی ہے کہ پوری دنیا کے انسانوں کو مصیبت اور زندگی اور موت کی کشمکش میں صرف اپنے مفادات کیلئے ہی اقدامات کریں۔ لیکن ساتھ ساتھ یہ فرعونی طاقتیں ظاہری طور پر کمزور اور سادہ لوح انسانوں کو یہ بھی باور کرواتی ہیں کہ وہ ہر قسم کی کمزوری سے پاک ہیں، لیکن پے در پے غلطیاں اور ناکامیاں ان کا مقدر بنتی ہیں۔ اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے چین نے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ جاننے کے لیے عالمی سطح پر آزادانہ تحقیقات کے مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی مطالبات کی بنیاد سیاسی اور وبا کے خلاف جنگ سے چین کی توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔

یمنی سرکاری خبررساں ایجنسی سبأ کے مطابق یمنی حکومت کے ترجمان ضیف اللہ الشامی نے جرمن حکومت کی طرف سے حزب اللہ لبنان کے دہشتگرد تنظیم قرار دیئے جانے کی مذمت کی ہے۔ یمنی حکومت کے ترجمان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ جرمن حکومت کی طرف سے حزب اللہ لبنان کو دہشتگرد تنظیم قرار دے کر اس پر پابندی عائد کرنے کا اقدام امریکی و اسرائیلی حکم کی تعمیل ہے کیونکہ یہ امریکہ و اسرائیل ہی ہیں جو اپنے حق کی جدوجہد لڑنے والی اقوام کے دشمن ہیں۔

یمنی حکومت کے ترجمان ضیف اللہ الشامی نے اپنے بیان میں غاصب صیہونی رژیم کے مقابل حزب اللہ لبنان کے مزاحمتی کردار پر روشنی ڈالی اور جرمن حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ جرمنی کے عالمی سطح کے مقام پر منفی اثر ڈالنے والے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے۔ یمنی حکومت کے ترجمان نے جرمن قوم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جرمنی کو تو اپنے حق و آزادی کی جنگ لڑتی اقوام کی حمایت کرنا چاہئے۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز جرمن حکومت کی طرف سے حزب اللہ لبنان کو دہشتگرد تنظیم قرار دے دیا گیا تھا جس کے بعد ملک میں حزب اللہ لبنان کی سرگرمیوں پر بھی پابندی عائد کر دی گئی تھی


روایات میں دعا کی اہمیت:
جس طرح خداوند متعال نے قرآن کریم میں  دعا کی اہمیت و فضیلت کو بیان فرمایا اسی طرح معصومین علیهم السلام سے بہت سی روایات موجود ہیں جن میں دعا کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ ہم یہاں پر اختصار کے ساتھ چند روایات کو ذکر کریں گے۔ رسول خدا ﷺ نے ایک مقام پر دعا کو مومن کا ہتھیار قرار دے دیا کہ جس طرح جب انسان پر کوئی حملہ آور ہوتا ہے تو انسان مادی ہتھیار سے اپنی حفاظت کرتا ہے اسی طرح جب معنوی طور پر دکھ مصیبتیں اور بلائیں انسان پر حملہ آور ہوتی ہیں تو انسان اپنے معنوی ہتھیار دعا کے ذریعے انکا مقابلہ کر سکتا ہے اور دوبارہ فرمایا "دعا مومن کے لیے دین کا ستون ہے"۔ يعنی دعا مومن کے ایمان کے لیے ایک ستون کا مقام رکھتی ہے. جس طرح ایک خیمہ کے لیے ستون کا ہونا ضروری ہے اسی طرح ایک مومن کے ایمان کے ستون، دعا کا ہونا ضروری ہے۔

یعنی بندے کا خدا کے ساتھ دعا کے ذریعے جتنا رابطہ مضبوط ہو گا ایک انسان مومن اتنا ہی معنوی طور پر مضبوط ہو گا۔ تقرب خدا کے لیے بہترین ہتھیار دعا ہے۔ رسول خدا صلی نے ایک مختصر اور جامع حدیث میں ارشاد فرمایا :"الدُّعا سِلاحُ الْمُؤْمِنِ وَ عَمُودُ الدّینِ وَ نُورُ السَّماواتِ وَ الْارْضِ"؛ دعا مؤمن کا ہتھیار، دین کا ستون، اور آسمان و زمین کا نور ہے۔1 اس حدیث سے دعا کی اہمیت و  فضیلت کا آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے لیکن افسوس کہ ہم اس نعمت خدا سے اکثر محروم رہتے ہیں۔ ہمارے پیشوا وہ ہیں جنہوں نے ہمیں دعا کا ڈھنگ سکھایا۔ ہمیں بتایا کہ کس طرح اس مالک حقیقی سے سوال کیا جاتا ہے. کس طرح اس رحمان سے اپنی بات منوائی جا سکتی ہے۔ امیرالمومنین علی علیہ السلام نے ایک مقام پر دعا کو رحمت خدا کی چابی قرار دیا اور دنیا و آخرت کی تاریکیوں کے لیے روشنی قرار دے دیا۔ یعنی جب انسان کے گناہوں کی وجہ سے اس پر اپنے پروردگار کی رحمت کے دروازے بند ہو جائیں تو اس وقت دعا وہ چابی ہے جس کے ذریعے رحمت خدا کے دروازے کھولے جا سکتے ہیں.

اور جب انسان اپنے گناہوں کی وجہ سے گمراہی کے اندھیروں میں چلا جاتا ہے اور راہ حق کو گم کر دیتا ہے، اس وقت دعا ہی وہ روشنی ہے جو انسان کو گمراہیوں کے اندھیروں سے نکال کر، حق کی روشنی کی طرف لاتی ہے۔ جب کثرت گناہ کی وجہ سے انسان کا دل تاریک ہو جاتا ہے تو اس وقت دعا ہی کے ذریعے دل کو نور ایمان سے منور کیا جا سکتا ہے۔ دعا وہ روشنی ہے جو انسان کو گناہوں کی تاریکی سے نکال کر خداوند متعال کے قریب لاتی ہے۔ دعا ہی ہے جو عبد اور معبود کے درمیان قربت کا سبب بنتی ہے۔ دعا ہی ہے جو خالق اور مخلوق کے درمیان رابطے کو پختہ کرتی ہے۔ امير المومنین علی علیہ السلام نے فرمایا:"الدُّعا مِفْتاحُ الرَّحْمَةِ وَ مِصْباحُ الظُّلْمَةِ"دعا رحمت کی چابی اور (دنیا و آخرت) تاریکی کے لیے روشنی ہے۔ یعنی دعا دنیا و آخرت کی تاریکیوں کے لیے روشنی ہے، جس طرح اس دنیا میں انسان کو نور ھدایت کی ضرورت ہے اسی طرح آخرت میں بھی انسان کو نور رحمت کی ضرورت ہے۔ جس طرح یہ دعا دنیا میں انسان کو گمراہی کے اندھیرے سے نکال کر ھدایت کی طرف لاتی ہے، اسی طرح آخرت میں جس دن انسان مایوسی و نامیدی کے اندھیرے میں سرگردان ہو گا تو یہ دعا اس وقت بھی انسان کی مونس و مددگار ہو گی۔

ایک مقام پر رسول اللہ نے انسان کے تمام نیک اعمال اور واجبات کو عبادت کا نصف قرار دیا اور نصف عبادت دعا کو قرار دیا۔ یعنی اگر انسان تمام واجبات کو انجام دے، جس میں نماز بھی ہے، روزہ بھی ہے، حج بھی ہے، زکوۃ بھی ہے، حتٰی کہ جہاد کہ جس متعلق خود خدا نے فرمایا :کہ "شہید کے خون کا پہلا قطرہ زمین پر نہیں گرتا کہ میں اس کے تمام کے تمام گناہ معاف کر دیتا ہوں"۔ ان عبادات کو انجام دینے کے بعد بھی یہ عبادت کا آدھا ہیں، عبادت کا آدھا دعا کو قرار دے دیا۔ ارشاد فرمایا: "عَمَلَ الْبِرِّ کلُّهُ نِصْفُ الْعِبادَةِ وَ الدُّعا نِصْفٌ" انسان کے تمام نیک اعمال اس کی عبادت کا نصف ہیں اور دوسرا نصف دعا ہے۔ اس حدیث سے دعا کی اہمیت و فضیلت اور دعا کی برکات روز روشن کی طرح واضح ہیں۔ ایک مقام پر امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا :"عَلَيْكُمْ بِالدُّعَاءِ فَإِنَّكُمْ لَا تَقَرَّبُونَ بِمِثْلِهِ وَ لَا تَتْرُكُوا صَغِيرَةً لِصِغَرِهَا أَنْ تَدْعُوا بِهَا إِنَّ صَاحِبَ الصِّغَارِ هُوَ صَاحِبُ الْكِبَارِ". میں آپ کو دعا کی سفارش کرتا ہوں، کوئی چیز بھی اس دعا سے بڑھ کر خدا کے قریب کرنے والی نہیں ہے، اور کسی چھوٹے کام کے چھوٹا ہونے کی خاطر اس کے لیے دعا کو ترک نہ کرنا، چونکہ چھوٹی حاجات بھی اسی کے ہاتھ میں ہیں، جس کے ہاتھ میں بڑی حاجات ہیں۔3 اس حدیث میں اگر دقت کی جائے تو اس میں کافی ظریف نکات موجود ہیں۔

1)۔ امام علیہ السلام نے سب سے پہلے فرمایا کہ میں تمہیں دعا کی سفارش کرتا ہوں۔ امام معصوم کا ایک چیز کے متعلق سفارش کرنا یہ خود اس چیز کی اہمیت پر بہت بڑی دلیل۔ گويا امام علیہ السلام کے نزدیک دعا کی اتنی اہمیت ہے کہ خود اپنے ماننے والوں کو دعا کی سفارش کر رہے ہیں.
2)۔  دوسرا نکتہ یہ ہے کہ امام علیہ السلام نے فرمایا: کوئی چیز بھی دعا سے بڑھ کر خدا کے قریب کرنے والی نہیں ہے۔ یعنی خداوند متعال  کا قرب حاصل کرنے کے لیے سب سے آسان راستہ دعا ہے۔ دعا کے ذریعے انسان خدا تک پہنچ سکتا ہے۔ خدا سے راز و نیاز کا وسیلہ دعا ہے۔ البتہ تمام نیک اعمال خدا تک پہنچنے کا وسیلہ ہیں۔ تمام نیک اعمال تقرب الھی کا موجب ہیں لیکن جس چیز کی معصوم نے سفارش کی ہے وہ دعا ہے۔
3)۔ تیسرا نکتہ امام علیہ السلام نے فرمایا: دعا کو اپنی چھوٹی چھوٹی حاجات میں بھی ترک نہ کرو۔ یہاں پر معصوم علیہ السلام ہمیں متوجہ کر رہے ہیں کہ ہمیشہ اپنے خدا کے ساتھ رابطہ برقرار رکھو، ایسا نہ ہو کہ ہم جب کسی بڑی مشکل میں مبتلا ہو جائیں تو پھر خداوند متعال کی بارگاہِ میں دعا کریں، توسل کریں۔ بلکہ انسان کو اپنی چھوٹی چھوٹی حاجات اپنی چھوٹی چھوٹی مشکلات میں بھی خداوند متعال کے ساتھ متوسل رہنا چاہیئے، تاکہ وہ عبد اور معبود، خالق اور مخلوق والا رابطہ برقرار رہے۔ جس طرح انسان بڑی بڑی مشکلات اور حاجات میں خدا کا محتاج ہے اسی طرح چھوٹی چھوٹی مشکلات اور حاجات میں بھی خدا کا محتاج ہے۔

4)۔   چوتھا نکتہ یہ ہے  امام علیہ السلام نے فرمایا: جس طرح بڑی بڑی حاجات کو پورا، اور بڑی بڑی مشکلات کو رفع کرنی والی ذات، ذات خدا ہے اسی طرح چھوٹی چھوٹی حاجات کو پورا، اور چھوٹی چھوٹی مشکلات کو رفع کرنے والی خداوند متعال کی ذات ہے۔ ہم اس کی طرف متوجہ ہوں یہ نہ ہوں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اگر انسان خیال کرے کہ فقط بڑی بڑی مشکلات میں ہی خداوند متعال سے دعا اور توسل کرنا چاہیئے، چھوٹی چھوٹی مشکلات میں ہم اس کے محتاج نہیں ہیں تو یہ تصور غلط ہے. انسان ہر وقت، ہر حال میں رحمت الھی کا محتاج ہے، لطف پرودگار کا نیازمند ہے۔ لہٰذا ہمیں چاہیئے کہ ہم اپنی چھوٹی چھوٹی حاجات کو بھی اس مہربان پروردگار کے سامنے پیش کریں تاکہ ہمارا رابطہ اپنے مالک حقیقی کے ساتھ برقرار رہے اور اس کی رحمت و لطف ہمارے شامل حال رہے۔ امام محمد باقر علیہ السلام نے ایک حدیث میں ارشاد فرمایا: "ما اَحدٌ أَبغضُ اِلَی اللهِ عزّوجَلَّ مِمَّن یستكبِرُ عَن عِبادَتِه و لا یسأَلُ ما عِندَهُ"۔ خداوند کے نزدیک اس سے بڑھ کر کوئی مبغوض (قابل نفرت) نہیں جو تکبر کی وجہ سے خدا کی عبادت نہیں کرتا اور خدا سے کسی چیز کا سوال نہیں کرتا۔ دعا کی اہمیت کا یہاں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جن چیزوں کی وجہ سے خدا کسی سے نفرت کرتا ہے ان میں سے ایک خدا سے سوال (دعا) نہ کرنا ہے۔ بس دعا ہی ایک ایسا وسیلہ جس کے ذریعے خداوند متعال کی خوشنودی حاصل کی جا سکتی ہے. اور غضب خدا سے بچا جا سکتا ہے.
 
قبولیت دعا کی شرائط:

دعا انسان کا خالق حقیقی کے ساتھ معنوی رابطے کا نام ہے۔ دعا عبد کی معبود کے ساتھ محبت کی نشانی ہے۔ دعا مخلوق کو خالقِ حقیقی کے ساتھ ملانے کا وسیلہ ہے۔ جب گناہوں کی وجہ سے خالق اور مخلوق کے درمیان پردے حائل ہو جاتے ہیں تو دعا کے ذریعے ہی ان حجابوں کو دود کیا جا سکتا ہے، چونکہ ہم ذکر کر چکے ہیں کہ دعا باقی عبادات کی طرح ایک عبادت ہے لہٰذا جس طرح باقی تمام عبادات کے خاص احکام اور شرایط ہیں، اسی طرح دعا کی بھی کچھ شرائط ہیں۔ انسان مومن کو چاہیئے کہ جب دعا کرے تو ان شرائط کا لحاظ کرے، تاکہ اس کی دعا مرحلہ استجابت تک پہنچ جائے۔ بسا اوقات ہم دعا تو بہت زیادہ کرتے ہیں، لیکن چونکہ دعا کی شرائط کا لحاظ نہیں کیا جاتا، اس لیے بسا اوقات ہماری دعا قبول نہیں ہوتی۔ ہم یہاں پر دعا کی چند شرائط کو اختصار کے ساتھ ذکر کریں گے۔ ان شرائط میں سے...

1۔ خداوند متعال کی عظمت اور قدرت پر ایمان:
دعا کی شرائط میں سے سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ انسان ایمان رکھتا ہو کہ خداوند متعال کی ذات تمام موجودات پر قدرت رکھتی ہے اور یہ ایمان رکھتا ہو کہ خداوند متعال کے لیے کوئی چیز بھی ناممکن نہیں ہے. میں جس چیز (جائز) کا بھی سوال کروں خدا کی ذات اسے عطا کر سکتی ہے۔ وہ اس چیز کو عطا کرنے میں کسی کا محتاج نہیں ہے۔ خدا کے علاوہ کسی پر، کسی قسم کی امید نہ رکھے۔ اس کی تمام امید خداوند کی ذات اقدس ہو۔ خداوند متعال نے خود قرآن میں ارشاد فرمایا: "و من یتوکل علی اللّه فهو حسبه" ترجمہ: جو بھی اپنے امور میں خدا پر توکل کرے گا بس خدا اس کے لیے کافی ہے۔ علی بن سوید سائی کہتا ہے، اس آیت کے متعلق امام رضا علیہ السلام سے کسی نے سوال کیا۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: "و من یتوکل علی الله فهو حسبه" يعني: "التوکل علی الله درجات: منها أن تتوکل علی الله فی أمورک کلها فما فعل بک کنت عنه راضیا تعلم أنه لا یألوک خیرا و فضلا".... . توکل کے درجات اور مراتب ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ تو اپنے تمام امور میں خداوند متعال پر توکل اور اعتماد کرے، اور جو کچھ وہ تیرے لیے انجام دے تو اس پر راضی رہے اور تو جان لے، یقین رکھ کہ وہ کسی صورت میں بھی اپنے فضل و خیر اور کرم سے تیرے حق میں کوتاہی نہیں کرے گا۔6

2۔ توجه قلبی سے دعا کرنا:
دعا کی شرائط میں سے دوسری شرط توجہ قلبی ہے، دعا کرنے والے کو چاہیئے کہ مکمل توجہ اور خلوص کے ساتھ اپنی حاجات کو خداوند متعال سے طلب کرے. دعا کرتے وقت متوجہ ہو کہ کس سے ہمکلام ہو رہا ہے۔ خداوند متعال نے قرآن میں ارشاد فرمایا: "فادعواللّه مخلصین له الدین" ترجمہ: فقط خدا کو پکاریں اور اپنے دین کو اسی کے لیے خالص کریں۔7 یعنی دعا اور درخواست خالص ہونی چاہیئے۔ ایک مقام پر امیرالمومنین علی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا، "لا یَقْبَلُ اللّهُ عَزَّوَجَلَّ دُعاءَ قَلْبٍ لاهٍ؛...،خدا اس کی دعا قبول نہیں کرتا جس کا دل دعا کرتے وقت غافل اور مشغول ہو۔ 8۔ امير المومنین کے اس نورانی کلام سے واضح ہے کہ دعا کی قبولیت کے لیے توجہ لازم ہے، ورنہ دعا استجابت کے مرحلے تک نہیں پہنچے گی۔ خداوند متعال نے قرآن میں ارشاد فرمایا: "وَ یَدْعُونَنا رَغَبا وَ رَهَبا وَ کانُوا لَنا خاشِعینَ" ترجمہ: انہوں نے ہم کو امید اور ڈر سے پکارا اور ہمارے لئے خشوع کیا۔9 معلوم ہوا دعا کی قبولیت دعا کرنے والے سے وابستہ ہے، اگر دعا کرنے والا توجہ اور خلوص کے ساتھ دعا نہ کرے تو دعا قبول نہیں ہوتی۔

3۔ شر اور خیر کی پہچان:
دعا کی شرائط میں سے تیسری شرط خیر اور شر کی پہچان ہے۔ انسان راہ نجات اور راہ ہلاکت کو جانتا ہو. کہیں ایسا نہ ہو کہ انسان اپنی ہلاکت کی آپ ہی دعا کر رہا ہو. یہ تب مشخص کر پائے گا جب خیر اور شر کی پہچان ہو گی۔ خداوند متعال نے سورہ اسرا میں ارشاد فرمایا: "وَ یَدْعُ الاِنْسانُ بِالشَرِّ دُعاءَهُ بِالْخَیْرِ وَ کانَ الانْسانُ عَجُولاً" ترجمہ: انسان کو جس طرح خیر مانگنا چاہیئے اسی انداز سے شر مانگتا ہے اور انسان بڑا جلد باز ہے۔10 اس آیت کے متعلق امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: "وَ اعْرِفْ طُرُقَ نَجَاتِکَ وَ هَلَاکِکَ کَیْلَا تَدْعُوَ اللَّهَ بِشَیْءٍ مِنْهُ هَلَاکُکَ وَ أَنْتَ تَظُنُّ فِیهِ نَجَاتَکَ قَالَ اللَّهُ عزّوجلّ وَ یَدْعُ الْإِنْسانُ بِالشَّرِّ دُعاءَهُ بِالْخَیْرِ وَ کانَ الْإِنْسانُ عَجُولًا وَ تَفَکَّرْ مَا ذَا تَسْأَلُ وَ کَمْ تَسْأَلُ وَ لِمَا ذَا تَسْأَلُ" تیرے اوپر لازم ہے کہ نجات اور ھدایت کے راستوں کو پہچان، تاکہ دعا کرتے وقت خدا سے ایسی چیز کا سوال نہ کرے جس میں تیری ہلاکت ہو، اور تو گمان کر رہا ہو کہ اس میں میری نجات ہے۔ 11بس معلوم ہوا دعا سے پہلے انسان سوچے کہ کس سے مانگ رہا ہے، اور کیا مانگ رہا ہے تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ خیر کے بجائے شر طلب کر رہا ہو، اگر انسان خیر اور شر میں تشخیص کی صلاحیت نہ رکھتا ہو، تو پھر اسے چاہیئے خدا سے اس طرح دعا کرے، کہ خدایا ہر وہ چیز جو میرے لیے خیر اور مصلحت رکھتی ہے، وہ مجھے عطا کر۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منابع:
[1]  (کافى، جلد ۲، ص ۴۶۸.)
[2] (بحارالانوار،ج۹۰، ص ۳۰.)
[3] (كافى (ط-الاسلامیه) ج 2، ص 467، ح 6)
[4] (وسائل، ج ٤، ص ١٠٨٤)
[5] سوره طلاق 3
[6] وسائل الشیعه، ح. ۲۰۳۰۷؛ بحار ۶۸: ۱۲۹ ح. ۵
[7] غافر آیت. 14
[8] الکافي؛ ج 2، ص 473
[9] انبیاء 9
[10] سورہ اسرا 11
[11] مستدرک الوسلنگرایل، ج۵، ص،۲۷۱

تحریر: ساجد محمود

Monday, 27 April 2020 07:58

کیا یہ وہی ایران ہے؟

تحریر: سید اسد عباس

گذشتہ دنوں ایران نے اپنے ملک میں تیار ہونے والی سیٹلائیٹ نور کو اپنے ہی ملک میں تیار ہونے والے لانچر کے ذریعے کامیابی سے فضا میں پہنچا دیا، سیٹلائیٹ نے لانچ ہونے کے نوے منٹ بعد اپنے زمینی مرکز پر سگنل دینے شروع کر دیئے تھے۔ ویسے تو خلا میں کئی ایک ممالک کی سیٹلائٹس موجود ہیں، تاہم ہر ملک کے پاس یہ ٹیکنالوجی نہیں ہے کہ وہ اپنی سیٹلائیٹ کو خود خلا میں بھیج سکے۔ اس مقصد کے لیے غریب ممالک کو اکثر ترقی یافتہ ممالک کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ ایران نے اس سیٹلائیٹ کو فضا میں بھیجنے کے لیے اس سے قبل دو تجربات کیے تھے، جن میں اسے ناکامی ہوئی تھی، تاہم اس مرتبہ وہ کامیاب ہوگیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق نور اگرچہ فوجی سیٹلائیٹ ہے، لیکن اس کو غیر فوجی مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس سیٹلائیٹ کو مدار میں پہنچانے کے لیے جو لانچر استعمال کیا گیا ہے، اس کے بارے مین یہ اطلاعات ہیں کہ اس میں ٹھوس ایندھن استعمال ہوا ہے۔ ماہرین کے مطابق ٹھوس ایندھن کو لانچر میں استعمال کرنے کی استعداد دنیا میں گنے چنے ممالک کے پاس ہے۔ ایران ان گنے چنے ممالک میں سے ایک ہوچکا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس ایندھن کے استعمال کے لیے پیچیدہ ٹیکنالوجی درکار ہے۔ نور کے کامیاب تجربہ سے یہ چیز تو واضح ہوگئی ہے کہ ایران نے یہ پیچیدہ ٹیکنالوجی حاصل کر لی ہے۔

ایران نے اس بات کو بھی واضح کیا ہے کہ ہم اس ٹیکنالوجی کو میزائل سسٹم میں استعمال کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے ہیں، تاہم یہ بات ایک حقیقت ہے کہ وہ ایسا کرنے کی صلاحیت حاصل کرچکے ہیں۔ اسی لیے امریکہ کو اس لانچنگ پر تشویش ہے اور اس کا کہنا ہے کہ ایران نے یہ سیٹلائیٹ لانچ کرکے عالمی معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔ ویسے امریکہ بہادر تو اپنے علاوہ کسی بھی ملک کی جانب سے لانچ کی جانے والی سیٹلائیٹ کو عالمی قوانین کے مطابق نہیں سمجھتا، اسی لیے اس نے چین اور جنوبی کوریا کو بھی متعدد مواقع پر ایسی ہی دھمکیاں دی ہیں، جنہیں یہ ممالک اب زیادہ قابل اعتناء بھی نہیں سمجھتے ہیں۔ میرا حیرت سے بھرپور سوال واقعاً دنیا کے اعلیٰ دماغوں کو بھی ورطہ حیرت میں ڈالے ہوئے ہے کہ ایران جو امریکا، یورپ، یورپی یونین، اقوام متحدہ کی جانب سے گذشتہ تین دہائیوں سے پابندیوں کا سامنا کر رہا ہے، جہاں میزائل ٹیکنالوجی، توانائی، سائنس کے مختلف شعبہ جات، فوجی اداروں اور شخصیات، بینکوں، کرنسی، کاروبار، ہوائی انڈسٹری، بحری انڈسٹری اور دیگر کئی ایک شعبوں پر عالمی پابندیاں ہیں، جس کی معیشت کو کبھی سکھ کا سانس نہیں لینے دیا گیا، اس نے کیسے سیٹلائیٹ بنائی اور پھر اسے خود ہی مدار میں پہنچا دیا۔ وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب پورا ایران کرونا کی زد پر ہے اور اس کے سینکڑوں شہری اس آفت سے زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔

ایران نے اس سے قبل بھی دنیا کو متعدد مرتبہ ورطہ حیرت میں ڈالا ہے، کبھی امریکی ڈرون اتار کر، کبھی پیچیدہ ترین ڈرون کو فضاء میں تباہ کرکے، کبھی عراق میں امریکوں اڈوں کو نشانہ بنا کر۔ تاہم اس بار تو ایران نے سبھی حدیں ہی عبور کر دیں اور دنیا کو بتایا کہ ایران کے حالات خواہ کیسے ہی کیوں نہ ہوں، ایرانی قوم کی پیشرفت اور ترقی کا سفر کسی حال میں بھی نہیں تھم سکتا ہے۔ اگر ایران کی جگہ کوئی اور ملک ہوتا، جو اتنے عرصے سے مغربی ممالک کی پابندیوں کا سامنا کر رہا ہوتا تو میں نہیں سمجھتا کہ وہ فی الحال فضا میں غبارے چھوڑنے سے اوپر جا سکا ہوتا۔ ایرانی سائنسدانوں اور ماہرین نیز اس کے فیصلہ سازوں نے دنیا کے سامنے ثابت کر دیا ہے کہ اگر کوئی قوم ترقی اور خود انحصاری کا فیصلہ کر لے تو دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت اس قوم کے ارادوں کو متزلزل نہیں کرسکتی ہے۔ ایرانیوں نے یہی ثابت کیا ہے کہ معاشی، اقتصادی، علمی پابندیاں ترقی کی رفتار کو سست تو کرسکتی ہیں، تاہم مکمل طور پر روکنا ان پابندیوں سے بس سے باہر ہے۔

ایران نے نور سیٹلائیٹ کو کامیابی سے مدار میں پہنچانے کا تجربہ کرکے جہاں سائنسی اور علمی میدان میں اپنی پیشرفت اور خود کفالت کا اعلان کیا ہے، وہیں اس نے خطے کے دیگر ممالک کے لیے بھی ایسی ہی ترقی اور پیشرفت کے مواقع روشن کر دیئے ہیں۔ کرونا کے خلاف جنگ میں بھی ایران نے بہت جلد ایسے انقلابی اقدامات کئے ہیں، جن سے ملک میں اموات کی شرح دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ ایران میں کرونا سے صحتیاب ہونے والے مریضوں کی تعداد چین کے بعد سب سے زیادہ ہے، ایران میں اب تک نوے ہزار کرونا کے مریض رجسٹر ہوئے ہیں، جن میں سے تقریبا ستر ہزار کے قریب صحتیاب ہوچکے ہیں۔ اس وقت ایران میں کویڈ 19 کے تقریباً پندرہ ہزار کیسز موجود ہیں، جبکہ اموات کی تعداد پانچ ہزار سات سو کے قریب ہے۔ ایران کی اس پیشرفت اور خود کفالت کا موازنہ دنیا کے کسی بھی ملک سے کرنا بالکل غلط ہے، کیونکہ دنیائے اسلام میں بالخصوص اور اقوام عالم میں بالعموم کوئی بھی ایسا ملک نہیں ہے، جو مغربی ممالک کی پابندیوں کا ایران کی مانند سامنا کر رہا ہو اور ان تمام معاشی، اقتصادی، تجارتی، علمی اور سائنسی پابندیوں کے باوجود ایسے معجزات رونما  کرے۔ سائنسی ترقی کے یہ مظاہر اور ان شعبوں میں خود کفالت ایرانی قوم اور اس کی قیادت کا طرہ امتیاز اور ایمان باللہ کی بین دلیل ہے۔ اللہ کریم دنیا کی تمام اقوام اور ریاستوں کو اپنے قدموں پر کھڑا ہونے اور عزت و وقار سے جینے کا حوصلہ عطا فرمائے۔آمین

.بقره 185رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ہے جو لوگوں کے لئے ہدایت ہے اور اس میں ہدایت اور حق و باطل کے امتیاز کی واضح نشانیاں موجود ہیں

 امریکہ کی جنوبی ریاست کنیکٹیکٹ سے منتخب ہونے والے ڈیموکریٹک سینیٹر کرس مرفی نے ایران کی طرف سے اپنے پہلے دفاعی سیٹیلائٹ "نور" کے کامیابی کے ساتھ خلاء میں پہنچانے کے اقدام پر اظہار خیال کرتے ہوئے ٹوئٹر پر جاری ہونے والے اپنے ایک بیان میں لکھا ہے کہ ایران کی طرف سے اپنے دفاعی سیٹیلائٹ کے کامیابی کے ساتھ خلاء میں پہنچانے کا اقدام بذات خود اس بات کا ثبوت ہے کہ ایران کے حوالے سے اختیار کردہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسی نہ صرف ایران کو مضبوط کرنے کا باعث بنی ہے بلکہ اب ایران کا رویہ بھی پہلے سے زیادہ جارحانہ ہو گیا ہے۔ کریس مرفی نے اپنے پیغام میں لکھا ہے کہ گزشتہ 4 سالوں کے دوران مشرق وسطی میں ایران ہر لحاظ سے طاقتور اور امریکہ کمزور ہوا ہے۔

امریکی ڈیموکریٹ سینیٹر کرس مرفی نے ٹوئٹر پر جاری ہونے والے اپنے پیغام میں دعوی کیا ہے کہ قبل ازیں جب ڈونلڈ ٹرمپ نے حکومت اپنے ہاتھ میں لی تھی تب ایران، عراق کے اندر موجود امریکیوں کو نشانہ نہیں بناتا تھا لیکن اب ایران اور اس کی حمایت یافتہ فورسز منظم طور پر امریکی فورسز کو نشانہ بنا رہی ہیں۔ امریکی سینیٹر نے لکھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے ہمیں کہا تھا کہ (شہید جنرل قاسم) سلیمانی کی ٹارگٹ کلنگ ایرانی دفاع میں کمزوری کا باعث بنے گی لیکن ان کی ٹارگٹ کلنگ کے بعد سے امریکی فورسز پر حملے بڑھے ہی ہیں کم نہیں ہوئے۔ کرس مرفی نے ڈونلڈ ٹرمپ کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا کہ امریکی صدر نے (ایرانی) جوہری معاہدہ توڑ کر ہمیں یہ تسلی دی کہ ایک نئے سسٹم اور بین الاقوامی دباؤ کے ذریعے ایران کو مجبور کر کے پہلے سے بہتر ایک نیا معاہدہ طے کر لیا جائے گا لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ امریکہ کا یہ منصوبہ بھی خاک میں مل کر رہ گیا ہے اور اب حالت یہ ہے کہ کسی (بین الاقوامی فریق) نے ایران پر جدید پابندیاں عائد کئے جانے کی حمایت نہیں کی جبکہ ایران نے اپنا جوہری پروگرام بھی ازسرنو شروع کر لیا ہے درحالیکہ نیا معاہدہ بھی طے نہیں پایا۔

اقوام متحدہ کے لئے ایران کے مستقل کمیشن کے ترجمان علی رضا میریوسفی نے اپنے ایک بیان میں ایرانی دفاعی سیٹیلائٹ اور ایرانی فوجی بحری بیڑے کے حوالے سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے ایران کو دی جانے والے دھمکیوں کے جواب میں کہا ہے کہ ایران اپنے ملک و قوم کے دفاع کی خاطر کسی قسم کے اقدام سے گریز نہیں کرے گا۔ انہوں نے اس حوالے سے امریکی ہفت روزہ اخبار "نیوز ویک" کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایران نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ کسی بھی قسم کے رعب و دبدبے اور دھمکیوں کے سامنے جھکنے والا نہیں اور اپنے ملک و قوم کے دفاع میں ہر قسم کی جارحیت کا بین الاقوامی قوانین کے مطابق بھرپور جواب دے گا۔

اقوام متحدہ کے اندر ایران کے مستقل کمیشن کے ترجمان علی رضا میریوسفی نے امریکہ میں کرونا وائرس کی وسیع تباہ کاریوں کے حوالے سے جاری بدترین صورتحال میں امریکی حکومت کی ناکامی اور بین الاقوام سطح پر تناؤ میں اضافے کے امریکی اقدامات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ سوال یہ ہے کہ دنیا بھر میں کرونا وائرس کے وسیع پھیلاؤ کے درمیان جب پوری دنیا کی توجہ اس وبا سے نپٹنے پر مرکوز ہے تو امریکی فوج اپنے ملک سے 7 ہزار کلومیٹرز کے فاصلے پر واقع خلیج فارس کے پانیوں میں کیا کر رہی ہے؟

واضح رہے کہ ایرانی سمندری حدود کے قریب خلیج فارس میں سپاہ پاسداران کی طرف سے امریکی فوجی بحری بیڑے کے روکے جانے پر گزشتہ روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے ٹوئٹر پر جاری ہونے والے ایک بیان میں لکھا گیا تھا کہ میں نے امریکی فورسز کو حکم دیے دیا ہے کہ ہر یا تمام ایرانی کشتیوں کی طرف جو سمندر میں موجود ہمارے بحری بیڑوں کو روکنے کی کوشش کریں، فائر کر کے انہیں تباہ کر دیا جائے۔

یاد رہے کہ امریکی بحریہ کی طرف سے ایرانی سمندر حدود کے نزدیک بین الاقوامی قوانین کی خلاف پر ایرانی سپاہ پاسداران کی طرف سے امریکی فوجی بحری بیڑے کے روکے جانے پر ایرانی بحریہ کے سربراہ ایڈمرل علی رضا تنگسیری نے امریکہ کو متنبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم بارہا خبردار کر چکے ہیں کہ خلیج فارس 2 لاکھ 50 ہزار کلومیٹرز رقبے پر موجود ایک بند سمندر ہے جس میں موجود کسی ایٹمی بحری بیڑے کو اگر کوئی حادثہ پیش آ گیا تو کم از کم 10 بارہ سال تک وہاں کوئی زندہ چیز یا قابل استعمال پانی باقی نہیں بچے گا جو انتہائی خطرناک صورتحال ہو گی۔

 ایرانی انقلابی گارڈز سپاہ پاسداران کی ذیلی بریگیڈ ایروسپیس فورس کے کمانڈر جنرل امیر علی حاجی زادہ نے ملکی ٹیلیویژن پر انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ خلائی پروگرام کو مزید آگے لے کر جائیں گے اور مزید طاقت کے حصول کے لئے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے حکم دے رکھا ہے کہ امریکہ کے شر سے بچنے کے لئے ملکی قوت میں اضافہ کیا جائے اور ہم یہی کام انجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کے ظاہری رعب داب کے برعکس وہ ایرانی پر حملہ پر حملہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔

ایرانی ایروسپیس فورس کے کمانڈر جنرل امیر علی حاجی زادہ نے امریکی دہشتگردی کی کارروائی میں سپاہ قدس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد عراق میں موجود سب سے بڑے امریکی فوجی اڈے عین الاسد پر ایرانی جوابی کارروائی کی مثال پیش کرتے ہوئے کہا کہ تب امریکی فورسز کی طرف سے جوابی کارروائی کی توقع تھی لیکن ایرانی کارروائی کے جواب میں امریکہ کچھ نہیں کر پایا۔ ایرانی ایروسپیس فورس کے کمانڈر نے کہا کہ اگر امریکہ کی طرف سے عین الاسد پر ایرانی کارروائی کا جواب دیا جاتا تو پھر اس کے جواب میں فوری طور پر مزید 400 امریکی اہداف کو نشانہ بنایا جانا تھا جن کی فہرست پہلے سے تیار کی جا چکی تھی۔

تحریر: رضا اصلانی

چند روز پہلے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی ایران نے کامیابی سے اپنا پہلا فوجی سیٹلائٹ فضائی مدار میں قرار دے دیا ہے۔ یہ فوجی شعبے میں اسلامی جمہوریہ ایران کی بہت بڑی کامیابی قرار دی جا رہی ہے۔ اس فوجی سیٹلائٹ کا نام "نور" ہے اور اسے "قاصد" نامی لانچر کے ذریعے فضا میں بھیجا گیا ہے۔ دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ لانچر اور سیٹلائٹ دونوں مکمل طور پر ایران کے تیار کردہ ہیں۔ نور سیٹلائٹ کو زمین سے 425 کلومیٹر کے فاصلے پر اپنے مدار میں قرار دیا گیا ہے۔ لانچنگ پیڈ سے فائر ہونے کے 90 منٹ بعد ہی نور سیٹلائٹ نے زمین پر سگنل بھیجنا شروع کر دیے تھے جس سے یقین ہو گیا کہ یہ سیٹلائٹ کامیابی سے اپنے مدار میں چلا گیا ہے۔ اس بارے میں ایک انتہائی اہم نکتہ یہ ہے کہ نور سیٹلائٹ کو فضا میں بھیجنے کیلئے جس لانچر کا استعمال کیا گیا اس کے بالائی حصے میں ٹھوس ایندھن کی ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ہے جو دنیا کی جدید ترین ٹیکنالوجی تصور کی جاتی ہے۔ یہاں یہ نکتہ بھی لازم الذکر ہے کہ ٹھوس ایندھن سے کام کرنے والے انجن کو کنٹرول کرنا بہت مشکل ہے اور اس کیلئے اعلی فنی صلاحیتوں کی ضرورت ہے۔

اس وقت دنیا میں بہت کم ایسے ممالک ہیں جو فضا میں سیٹلائٹ بھیجنے کیلئے ٹھوس ایندھن والے انجن کے حامل لانچر کا استعمال کرتے ہیں۔ اس ٹیکنالوجی کے حامل چند ایک لانچرز میں سے جاپان کا ایسیلیون لانچر، یورپین اسپیس ایجنسی کا ویگا لانچر اور امریکہ کے پاس موجود فوجی سیٹلائٹس فضا میں بھیجنے کیلئے مینماٹین لانچر قابل ذکر ہیں۔ ٹھوس ایندھن استعمال کرنے والے لانچرز کے شعبے میں جاپان سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک تصور کیا جاتا ہے۔ یوں اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے ٹھوس ایندھن سے کام کرنے والے لانچر "قاصد" کا استعمال فضائی شعبے میں ٹیکنالوجی کی اٹھان ہے۔ خاص طور پر جب ہم دیکھتے ہیں کہ ایران اس سے پہلے دو بار فضا میں سیٹلائٹ بھیجنے کی کوشش کر چکا ہے لیکن ناکام رہا ہے۔ دونوں بار اصل مسئلہ لانچر کے بالائی حصے میں تھا۔ لیکن فضا میں سیٹلائٹ بھیجنے کے حالیہ کامیاب تجربے کے بعد ایران اس مسئلے پر بھی قابو پانے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ اس وقت زمین کے اردگرد مختلف مداروں میں تقریباً دو ہزار سے زائد سیٹلائٹ موجود ہیں۔ لیکن ان میں سے بہت کم تعداد ایسے سیٹلائٹس کی ہے جنہیں باقاعدہ طور پر فوجی سیٹلائٹ قرار دیا گیا ہے۔

اس وقت جو فوجی سیٹلائٹس فضا میں موجود ہیں ان کی اکثریت امریکہ یا نیٹو نے فوجی مقاصد کیلئے فضا میں بھیج رکھا ہے۔ یہ نکتہ بھی شاید آپ کیلئے دلچسپ ہو کہ فضا میں موجود بین الاقوامی فضائی اسٹیشن بھیجے جانے والے بعض امریکی خلابازوں کو بھی فوجی نوعیت کی ذمہ داریاں سونپی جاتی ہیں۔ اسی طرح اس فضائی اسٹیشن پر امریکی اور روسی انٹیلی جنس، سکیورٹی اور فوجی اداروں نے بھی بڑی تعداد میں جاسوسی کے آلات نصب کر رکھے ہیں۔ ایران کی جانب سے فضا میں بھیجے جانے والا نور سیٹلائٹ اگرچہ فوجی اداروں سے متعلق ہے لیکن محض فوجی مقاصد سے مخصوص نہیں۔ نور سیٹلائٹ غیر فوجی مقاصد کیلئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے اور قدرتی آفات یا ماحولیات کے بارے میں بھی مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ فضا کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں تک رسائی حاصل کرنے کیلئے ایک ملک کو کسی دوسرے ملک کی اجازت درکار ہو۔ لیکن امریکہ اور دیگر عالمی طاقتیں فضائی ٹیکنالوجی کو اپنے ساتھ مخصوص رکھنا چاہتی ہیں اور دیگر ممالک کو اس شعبے میں داخل ہوتا نہیں دیکھ سکتیں۔ امریکہ اب تک کئی ممالک کی جانب سے فضا میں سیٹلائٹ بھیجنے کی راہ میں رکاوٹیں ایجاد کر چکا ہے جن میں جنوبی کوریا اور چین سرفہرست ہیں۔

امریکہ نے جنوبی کوریا کو فضائی شعبے میں ایک سے زیادہ تجربہ کرنے کی اجازت نہ دی۔ یہ ایک تجربہ بھی جنوبی کوریا کے دباو اور سیاسی عزم کا نتیجہ تھا۔ دوسری طرف چین نے 2007ء میں اپنا پہلا سیٹلائٹ فضا میں بھیجا۔ چین نے امریکہ کو خبردار کیا کہ وہ فضائی شعبے میں ترقی کی راہ پر چلنے کیلئے پرعزم ہے اور اگر امریکہ نے اس کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی تو اسے بھاری تاوان ادا کرنا پڑے گا۔ اب سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی ایران کی جانب سے کامیابی سے پہلا فوجی سیٹلائٹ فضا میں بھیجنا دنیا والوں کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ ایران نے جدید ٹیکنالوجی کی چوٹی پر پہنچنے کا عزم راسخ کر رکھا ہے۔ دوسری طرف ایران نے اس بات پر بھی تاکید کی ہے کہ قاصد لانچر میں زیر استعمال ٹیکنالوجی اس کے میزائل پروگرام میں مفید ثابت نہیں ہو سکتی کیونکہ اصولی طور پر بین البراعظمی میزائلوں کی تیاری ایران کی دفاعی پالیسی کا حصہ نہیں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نور سیٹلائٹ سائنس و ٹیکنالوجی کے تمام شعبوں میں ترقی کیلئے مفید واقع ہو گا۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے شدید اقتصادی پابندیوں کے باوجود یہ عظیم کامیابی حاصل کر کے ثابت کر دیا ہے کہ جو قوم اپنے پاوں پر کھڑی ہوتی ہے اسے دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی۔