سلیمانی

سلیمانی

بدھ 14 اپریل کے دن ولی امر مسلمین امام خامنہ ای مدظلہ العالی نے تہران میں قرآن کریم سے متعلقہ سرگرمیاں انجام دینے والے افراد سے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے بعض اہم نکات کی جانب اشارہ کیا ہے۔ تحریر حاضر میں چند چیدہ چیدہ نکات قارئین کی خدمت میں پیش کئے جا رہے ہیں۔
1)۔ مختلف قرآنی موضوعات میں ہدایت پر مبنی موضوع کی اہمیت اور مقام
خداوند متعال نے ماہ مبارک رمضان کی اہمیت کو اجاگر کرنے کیلئے کئی چیزوں کی جانب اشارہ کیا ہے جن میں سے ایک اس مبارک مہینے میں قرآن کریم کا نازل ہونا ہے۔ سورہ بقرہ کی آیت 185 میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے: "شَهرُ رَمَضانَ الَّذی اُنزِلَ فیهِ القُرءان ۔۔۔" (رمضان ایسا مہینہ ہے جس میں قرآن نازل ہوا)۔ یہ شاید ماہ مبارک رمضان کا اہم ترین طرہ امتیاز ہے۔
 
دوسری طرف قرآن کریم کی بھی ہزاروں فضیلتیں پائی جاتی ہیں جن میں سے اکثر ایسی ہیں جنہیں ہماری عقل درک کرنے سے قاصر ہے۔ لیکن خداوند متعال نے ان تمام خصوصیات میں سے "ہدایت عطا کرنے" کی خصوصیت بیان کی ہے۔ سورہ بقرہ کی اسی آیت میں ارشاد ہوتا ہے: "۔۔۔۔ هُدًی لِلنّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِنَ الهُدیٰ وَ الفُرقان" (انسانوں کیلئے ہدایت اور ہدایت کی واضح دلیلوں کا حامل اور حق اور باطل کے درمیان فرق ظاہر کرنے والا ہے)۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ خصوصیات بہت زیادہ اہمیت اور اعلی مقام رکھتی ہے۔ خود قرآن کریم کا آغاز بھی ہدایت سے ہوتا ہے جیسا کہ سورہ حمد میں پڑھتے ہیں: "اِهدِنَا الصِّراطَ المُستَقیم" (خدایا ہمیں سیدھے راستے کی جانب ہدایت فرما)۔ اسی طرح سورہ بقرہ کے آغاز میں فرمایا: "ذٰلِکَ الکِتٰبُ لارَیبَ فیهِ هُدًی لِلمُتَّقین" (یہ ایسی کتاب ہے جس میں کوئی شک و شبہ نہیں اور متقین کیلئے ہدایت ہے)۔
 
2)۔ قرآن کریم کی ہدایت کا دائرہ انسانی زندگی کے تمام پہلووں پر حاوی
قرآن کریم کی ہدایت انسانوں کے ایک خاص گروہ کیلئے مخصوص نہیں ہے بلکہ پوری عالم بشریت کیلئے ہے۔ ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ قرآن کریم کی ہدایت انسانی زندگی کے ایک یا چند مخصوص پہلووں تک بھی محدود نہیں ہے۔ قرآن کریم انسان کی زندگی کے تمام پہلووں کیلئے ہدایت فراہم کرتا ہے۔ قرآن کریم نے انسانی زندگی کے کسی پہلو سے چشم پوشی نہیں کی۔ انسان کی روحانی ترقی سے لے کر انسانی معاشروں کی ضروریات، ان کی مدیریت، ان میں عدل و انصاف کے قیام اور انسان کے ظاہری اور باطنی دشمنوں سے مقابلے کیلئے جہاد پر تاکید کرنے، اخلاق، گھرانے کے امور، اولاد کی تربیت وغیرہ جیسے تمام موضوعات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
 
3)۔ قرآنی تعلیمات کو سمجھنے کیلئے تدبر کی ضرورت
قرآن کریم کا انداز عام انسانی کتب کی مانند نہیں کہ ایک فہرست پائی جاتی ہو اور مختلف ابواب پر مشتمل ہو۔ خداوند متعال نے قرآن کریم میں بعض جگہ ایک لفظ یا ایک اشارے کے ذریعے انسان کیلئے معرفت کے سمندر بیان کر ڈالے ہیں۔ لہذا اگر ہم قرآن کریم میں تفکر کریں، تدبر کریں اور اس کے مختلف پہلووں کا بغور جائزہ لیں تو بعض اوقات ایک لفظ سے وسیع مطالب حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ اسی طرح قرآن کریم میں جو مختلف واقعات کہانیوں کی صورت میں بیان ہوئے ہیں جن میں سے بعض انبیاء الہی کے بارے میں ہیں جبکہ بعض عام افراد کے بارے میں ہیں۔ ان تمام واقعات میں انسان کی ہدایت کا سامان موجود ہے۔ ان واقعات کے ذریعے ایسے مطالب بیان کئے گئے ہیں جو کلی ہیں اور ہر زمانے میں لاگو ہوتے ہیں۔
 
مثال کے طور پر سورہ آل عمران کی آیت 173 میں ارشاد ہوتا ہے: "الَّذینَ قالَ لَهُمُ النّاسُ اِنَّ النّاسَ قَد جَمَعوا لَکُم فَاخشَوهُم فَزادَهُم ایمانًا وَ قالوا حَسبُنَا اللهُ وَ نِعمَ الوَکیل" (وہ افراد جنہیں لوگوں نے کہا کہ لوگ تم سے جنگ کرنے کیلئے اکٹھے ہو چکے ہیں لہذا ان سے ڈریں، لیکن ان کے ایمان میں مزید اضافہ ہو گیا اور انہوں نے کہا کہ خدا ہمارے لئے کافی ہے اور وہ بہترین حمایت کرنے والا ہے)۔ یہ جنگ احد کے بعد کا واقعہ ہے۔ جب مسلمانوں کا لشکر ظاہری شکست کے بعد بہت زیادہ زخمیوں کے ہمراہ واپس آ رہا تھا۔ کچھ منافقین نے انہیں ڈرانے کی کوشش کی۔ رسول خدا ص نے صرف زخمیوں کو اپنے ساتھ لیا اور جا کر انہیں شکست دے دی۔ اس واقعہ سے حاصل ہونے والا سبق آج بھی ہمارے لئے مفید ہے۔ ہر زمانے کیلئے ہے۔
 
4)۔ تقوی، قرآن سے ہدایت حاصل کرنے کی لازمی شرط
اگرچہ قرآن کریم تک ہم سب کو رسائی حاصل ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم قرآن کریم سے بہرہ مند ہوتے ہیں؟ یا اس سے بہرہ مند ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن کریم نے تمام انسانوں کیلئے ہدایت پیش کی ہے لیکن ہم کس صورت میں اس ہدایت سے بہرہ مند ہو سکتے ہیں؟ قرآن کریم میں ارشاد خداوندی ہے: "هُدًی لِلمُتَّقین" (متقین کیلئے ہدایت ہے) ایک اور جگہ فرمایا: "هُدًی وَ رَحمَةً لِقَومٍ یُؤمِنون" (اہل ایمان کیلئے ہدایت اور رحمت ہے، سورہ اعراف)۔ ان آیات میں ہدایات کے مختلف درجات اور مراتب کی جانب اشارہ کیا گیا ہے۔ جب تقوی پایا جائے گا تو یہ ہدایت بھی ہمیں نصیب ہوتی رہے گی۔

تحریر: مصطفی ہادی

مہر خبررساں ایجنسی نے ایکس پریس کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی علاقہ کے 4 ممالک کا دورہ کریں گے۔محمود قریشی کل اتوار کے دن اپنے سفر کے پہلے مرحلے میں متحدہ امارات کا دورہ کریں گے ۔ اس کے بعد پاکستانی وزير خارجہ تہران میں ایرانی حکام کے ساتھ دو طرفہ ، علاقائی اور عالمی  امور کے بارے میں تبادلہ خیال کریں گے ایران کے بعد پاکستانی وزير خارجہ قطر اور ترکی کا سفر کریں گے۔ پاکستانی وزیر خارجہ اس سفر میں متعلقہ ممالک کے حکام سے دو طرفہ تعلقات اور عالمی امور پر تبادلہ خیال کریں گے۔

مہر خبررساں ایجنسی نے فلسطین الیوم کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ اسرائیلی فضائیہ نے دوسرے روز مسلسل غزہ کے بعض علاقوں پر شدید بمباری کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس نے حماس کے ٹھکانوں پر بمباری کی ہے اورحماس کے اسلحہ ڈپو سمیت ملٹری سائٹس کو تباہ کردیا ہے۔ اسرائیلی جنگی طیاروں نے رفح میں شدید بمباری کی

اطلاعات  کے مطابق اسرائیل نے غزہ میں فضائی کارروائی کے دوران حماس کی ملٹری سائیٹس اور اسلحہ ڈپو کو تباہ کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ کارروائی غزہ کی جانب سے اسرائیلی سرزمین پر داغے گئے میزائل کے جواب میں کی گئی۔ ذرائع کے مطابق اسرائیلی ڈرون نے بھی غزہ کے ایک علاقہ پر حملہ کیا۔ اسرائیل کے فضائی حملوں میںم تعدد فلسطینیوں کے زخمی ہونے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔

 رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے یوم فوج کی مناسبت سے اپنے پیغام میں  ایرانی فوج کی میدان میں موجودگی اور آمادگی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ایران کی مسلح افواج کو اپنی آمادگی اور نقش آفرینی میں روزبروز اضافہ کرنا چاہیے۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایرانی فوج کے سربراہ میجر جنرل سید عبد الرحیم موسوی کے نام اپنے پیغام میں فرمایا: ایران کی مسلح افواج ہر قسم کی ماموریت انجام دینے کے لئے میدان میں موجود ہیں اور فوج کی نقش آفرینی اور آمادگی میں روز بروز اضافہ کرنا چاہیے۔

 اے معبود! مجھے اس مہینے میں مغفرت طلب کرنے والوں اور اپنے نیک اور فرمانبردار بندوں میں قرار دے اور مجھے اپنے مقرب اولیاء کے زمرے میں شمار فرما، تیری رأفت کے واسطے اے مہربانوں کے سب سے زیادہ مہربان ۔

عربی ۲۱ کے مطابق تل ابیب میں مقیم اماراتی سفیر نے فلسطین پر قبضے کی تہترویں برسی پر مبارکبادی کا پیغام جاری کیا ہے جس پر سوشل میڈیا پر صارفین سخت نفرت اور غصے کا اظھار کررہے ہیں۔

 

فلسطین پر سال ۱۹۴۸ میں اسرائیل تسلط کو امارات نے «عید استقلال اسرائیل» کے عنوان سے مبارک باد پیش کی ہے جس پر سوشل میڈیا صارفین نے سخت غصے کا اظھار کیا ہے اور اس کو اسلامی اور عربی اصولوں سے خیانت قرار دیا ہے۔

 

اماراتی سفارت سے ٹوئٹ کیا ہے: عید استقلال پر اسرائیل کے لیے نیک خواہشات کا اظھار کرتے ہیں۔

 

اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو نے اس ٹوئٹ کو شکریہ ادا کیا ہے.

 

ایک صارف نے رد عمل میں کہا ہے: اماراتی سفارت خانہ قبضے کو مبارک باد پیش کرتا ہے جس کے رو سے ۷۵۰ هزار فلسطینی ۲۰ شهروں اور  ۴۰۰ دیہاتوں سے آوارہ ہوگئے جبکہ ظلم و ستم کے نتیج میں ہزاروں فلسطینی جانبحق ہوگیے ہیں۔

 

اسعد ابوخلیل ایک اور صارف نے کمنٹ کیا ہے: تمام عرب اقوام کو دیکھنے کی ضرورت ہے اماراتی سفیر کس طرح سے ایک غاصب رژیم کو اس قبضے اور فلسطینی بربادی پر مبارک باد پیش کرتے ہیں۔

 

ایک اور صارف حمید النعیمی نے امارات-اسرائیل تعلقات کو تاریخی کی نجس ترین تعلقات قرار دیا ہے۔/

 اے معبود! مجھے اس مہینے میں اپنے امر کے قیام کے لئے طاقت عطا کر، اور اپنی یاد اور ذکر کی حلاوت مجھے چکھا دے اور اپنے شکر کی ادائیگی کو مجھے الہام فرما، اے بصارت والوں میں سے سب بڑے صاحب بصارت ۔

اسلامی جمہوریہ ایران جوہری توانائی کی بین الاقوامی ایجنسی آئی اے ای اے کا رکن ملک ہے۔ آئی اے ای اے ایک عالمی ادارہ ہے اور قانونی طور پر اپنے رکن ممالک کے حقوق کے دفاع کا ذمہ دار ہے۔ حال ہی میں (اتوار 11 اپریل 2021ء) نطنز میں واقع ایران کے یورینیم افزودگی کے ایک مرکز میں تخریب کاری انجام پائی ہے جس میں اسرائیل کے ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد پائے گئے ہیں۔ لیکن اب تک آئی اے ای اے نے اس واقعہ پر پراسرار خاموشی اختیار کر رکھی ہے جبکہ بین الاقوامی جوہری توانائی کا ادارہ ہونے کے ناطے اس سے توقع کی جا رہی تھی کہ وہ اس واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے اس میں ملوث قوتوں کے خلاف موثر اقدامات انجام دیتا۔
 
نطنز کا شمار اسلامی جمہوریہ ایران کے یورینیم افزودگی کے ایسے متعدد مراکز میں ہوتا ہے جو جوہری توانائی کے عالمی ادارے آئی اے ای اے کی زیر نگرانی فعالیت انجام دے رہے ہیں۔ نطنز میں تخریب کاری کا یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب ایران میں "قومی اٹامک ٹیکنالوجی ڈے" کی مناسبت سے اس مرکز میں جدید نسل کے سینٹری فیوجز نصب کئے گئے تھے اور ان کا افتتاح ہونا تھا۔ اسرائیل نے نطنز میں انجام پانے والی تخریب کاری کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ یہ تخریب کاری اس مرکز کے الیکٹرک پاور ڈسٹری بیوشن سسٹم میں خلل پیدا کر کے کی گئی تھی۔ اسرائیلی چینل "کان" کی فوجی نیوز رپورٹر کارمیلا مناشیہ نے کہا کہ یہ دھماکہ ایران کے جوہری پروگرام کو روکنے کیلئے انجام پایا ہے۔
 
اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ ڈاکٹر محمد جواد ظریف نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے نام خط میں ماضی میں اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کی جانب سے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملوں کی دھمکیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے: "ایسے جوہری مرکز پر دہشت گردانہ حملہ جو آئی اے ای اے کی زیر نگرانی کام کر رہا ہے اور وہاں سے بڑے پیمانے پر تابکاری پھیلنے کا خطرہ بھی پایا جاتا ہے، درحقیقت جوہری دہشت گردی کا ایک مجرمانہ اقدام ہے۔" جوہری ٹیکنالوجی کے حامل ممالک میں سے ایران کا شمار ایسے ممالک میں ہوتا ہے جس کا جوہری پروگرام بارہا دشمنوں کی جانب سے مختلف حملوں اور خطروں کا نشانہ بن چکے ہیں۔
 
اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم، جو خود جوہری ہتھیاروں کا بڑا ذخیرہ رکھتی ہے، ہمیشہ سے ایران کے جوہری پروگرام کے خاتمے پر زور دیتی آئی ہے۔ تل ابیب نے اب تک ایران میں جوہری سائنسدانوں کی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ بھی انجام دیا ہے جس کی تازہ ترین مثال گذشتہ برس تہران میں سیٹلائٹ سے کنٹرول ہونے والی مشین گن کے ذریعے ڈاکٹر محسن فخری زادہ کی شہادت ہے۔ گذشتہ چند سالوں میں اسرائیل نے ایران کی جوہری تنصیبات پر سائبر حملے کرنے کی بھی متعدد کوششیں انجام دی ہیں۔ ان میں سے سب سے زیادہ خطرناک کوشش اسٹاکس نیٹ نامی وائرس کے ذریعے کیا گیا تھا۔ یہ وائرس اسرائیل نے خاص طور پر ایران کی جوہری تنصیبات کیلئے تیار کیا تھا۔
 
اس کے بعد جولائی 2020ء میں نطنز میں ہی سینٹری فیوجز تیار کرنے والے ہال میں دھماکہ ہوا۔ اس دھماکے میں بھی اسرائیلی حکام نے ملوث ہونے کا اعتراف کیا تھا۔ اس وقت بھی ویانا میں بین الاقوامی اداروں میں ایران کے مستقل نمائندے اور سفیر کاظم غریب آبادی نے آئی اے ای اے کے اجلاس میں اس مسئلے کو اٹھایا تھا اور اس میں اسرائیل کے ملوث ہونے کی نشاندہی بھی کی تھی۔ کاظم غریب آبادی نے آئی اے ای اے کے حکام سے اس حملے کی مذمت کرنے کا مطالبہ بھی کیا تھا لیکن انہوں نے ایسا کرنے سے گریز کیا۔ دوسری طرف جوہری توانائی کی عالمی ایجنسی آئی اے ای اے کی مختلف قراردادوں میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ وہ اپنے رکن ممالک کے حقوق کا دفاع کرے گی۔
 
آئی اے ای اے اپنی مختلف قراردادوں میں واضح کر چکی ہے کہ: "پرامن مقاصد کے تحت سرگرم جوہری تنصیبات پر کسی قسم کا دہشت گردانہ حملہ اقوام متحدہ کے منشور، بین الاقوامی قانون اور آئی اے ای اے کے دستور کی خلاف ورزی قرار پائے گا۔" ایران کی جوہری توانائی تنظیم کے سربراہ علی اکبر صالحی نے بھی عالمی برادری سے نطنز میں انجام پانے والی دہشت گردی کے خلاف موثر موقف اختیار کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس وقت یہ سوال موجود ہے کہ جرمنی اور روس کی جانب سے اس تخریب کاری کی مذمت کئے جانے کے باوجود کیوں آئی اے ای اے اس پر پراسرار خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے؟ اگرچہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ دہشت گردانہ اقدام عالمی قوانین اور آئی اے ای اے کے دستور کی بھی کھلی خلاف ورزی ہے۔

تحریر: ڈاکٹر سید رضا میر طاہر

اے معبود! مجھے اس مہینے میں ذہانت اور بیداری عطا فرما اور مجھ  سے بےوقوفی اور بےعقلی کودور رکھ اور اپنی جود و سخا کے واسطے، میرے لئے اس مہینے کے دوران نازل ہونے والی ہر خیر و نیکی میں نصیب اور حصہ قرار دے، اے سب سے بڑے صاحب جود و سخا۔

اسلامی جمہوریہ ایران نے حال ہی میں اپنی جوہری تنصیبات میں یورینیم کی افزودگی 60 فیصد کی حد تک بڑھا دینے کا اعلان کیا ہے۔ یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا ہے جب گذشتہ ہفتے نطنز میں واقع ایران کی جوہری تنصیبات میں مبینہ تخریب کاری کا واقعہ رونما ہوا۔ ایران کا دعوی ہے کہ اس تخریب کاری میں اسرائیل ملوث ہے جبکہ اسرائیل ایسا اقدام ہر گز امریکہ کی رضامندی حاصل کئے بغیر انجام نہیں دے سکتا۔ یہ تخریب کاری ایسے وقت انجام پائی ہے جب امریکی وزیر دفاع اسرائیل کے دورے پر تھا اور اسرائیل کے انٹیلی جنس ادارے کا سربراہ امریکہ کے دورے میں مصروف تھا۔ اس تخریب کاری کا ایک مقصد امریکہ کی جانب سے ایران پر دباو ڈال کر جنیوا میں انجام پانے والے جوہری مذاکرات میں ایران سے اپنی شرائط منوانا ہو سکتا ہے۔
 
اسلامی جمہوریہ ایران کی ایٹمی توانائی کی تنظیم کے سربراہ علی اکبر صالحی نے اس بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا: "نطنز میں انجام پانے والا اقدام ظاہر کرتا ہے کہ ایران کی صنعتی اور سیاسی ترقی کے مخالفین کو شکست ہوئی ہے اور وہ جوہری صنعت کے شعبے میں ہماری ترقی اور ظالمانہ پابندیوں کے خاتمے کیلئے مذاکرات کی کامیابی روکنے میں ناکام رہے ہیں۔" ڈاکٹر علی اکبر صالحی نے مزید کہا: "اسلامی جمہوریہ ایران اس پست اقدام کی پرزور مذمت کرنے کے ساتھ ساتھ عالمی برادری اور ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی سے اس جوہری دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔ اسی طرح ہم اس دہشت گردی میں ملوث قوتوں کے خلاف مناسب کاروائی کرنے کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔"
 
سیاسی ماہرین کے مطابق نطنز میں تخریب کاری میں ملوث قوتوں خاص طور پر اسرائیل کا مقصد جنیوا میں جاری جوہری مذاکرات کو سبوتاژ کرنا اور ایران کے پاس موجود جدید سینٹری فیوجز کو نقصان پہنچا کر اسے مزید یورینیم افزودگی سے محروم کرنا تھا۔ لیکن وہ اپنے دونوں مقاصد میں ناکام رہے ہیں۔ اسی طرح اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اس اقدام کے ذریعے اندرونی سطح پر اپنی پوزیشن بہتر بنانے کا خواہاں تھا۔ اس مقصد میں بھی اسے شکست حاصل ہوئی ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے اراکین پارلیمنٹ نے بھی اس دہشت گردانہ اقدام پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ سیاسی ہتھکنڈوں کے ذریعے ایران کا جوہری پروگرام روکنے میں ناکام ہونے کے بعد ان اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آیا ہے۔ نطنز میں تخریب کاری کا نتیجہ نہ صرف اسلامی جمہوریہ ایران کے دشمن ممالک کے حق میں ظاہر نہیں ہوا بلکہ الٹا ان کے نقصان میں ظاہر ہوا ہے۔
 
ایران نے اس کھلی دہشت گردی کے جواب میں اپنی یورینیم کی افزودگی 60 فیصد کی سطح تک بڑھا دینے کا اعلان کیا ہے۔ تازہ ترین رپورٹس کے مطابق ایران نے اس پر عمل کرنا بھی شروع کر دیا ہے اور جدید نسل کے سینٹری فیوجز کو بروئے کار لا چکا ہے۔ ایران کے نائب وزیر خارجہ عباس عراقچی نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ اس ضمن میں ایران نے آئی اے ای اے کے سربراہ کو بھی ایک خط کے ذریعے مطلع کر دیا ہے۔ کچھ ہفتے پہلے ہی اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اپنی تقریر میں واضح کیا تھا کہ ایران اپنے ملک کو درپیش ضروریات کے پیش نظر یورینیم افزودگی کو 60 فیصد کی سطح تک بھی بڑھا سکتا ہے۔
 
ایران کی جانب سے یورینیم افزودگی کی سطح 60 فیصد تک بڑھا دیے جانے کا اعلان درحقیقت اس تخریب کاری کا ردعمل ہے جس کا مقصد ایران کی جوہری سرگرمیوں میں بنیادی خلل ایجاد کرنا تھا۔ دوسری طرف یورپی ممالک، جو گذشتہ تین برس سے ایران کے خلاف اچھے پولیس مین کے طور پر عمل کر رہے ہیں، نے نہ صرف اس تخریب کاری کی مذمت نہیں کی بلکہ محض ایک بیانیے پر اکتفا کیا ہے۔ ان کا یہ بیانیہ اسرائیل کی مذمت کی بجائے اسے شاباش دینے کے مترادف دکھائی دیتا ہے۔ اسرائیلی حکام نے دعوی کیا ہے کہ اس تخریب کاری کے باعث نطنز میں جوہری تنصیبات کی سرگرمیاں 9 ماہ کیلئے روک دی گئی ہیں۔ لیکن ایران کی جانب سے چند دن بعد ہی انہی جوہری تنصیبات میں 60 فیصد یورینیم افزودگی کے آغاز نے اس جھوٹے دعوے کی قلعی کھول دی ہے۔
 
اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے فوری طور پر یورینیم افزودگی کی سطح 60 فیصد تک بڑھا دیے جانے کا عمل امریکہ اور اسرائیل کیلئے ایک خاص پیغام کا حامل ہے۔ انہیں یہ پیغام دیا گیا ہے کہ امریکہ کی بدمعاشی اور ظالمانہ اقدامات کے مقابلے میں خاموشی اختیار کرنے کا وقت گزر چکا ہے اور اب امریکہ یا اسرائیل کے جارحانہ اقدامات کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔ اسی طرح ایران کا یہ عمل دنیا کی دیگر اقوام کو بھی یہ اہم پیغام دے رہا ہے کہ وہ بھی امریکہ اور اسرائیل کی بدمعاشی کے خلاف اٹھ کھڑی ہوں۔ ایران نے نطنز میں تخریب کاری کا شکار ہونے والی آئی آر 1 سینٹری فیوجز کی جگہ ایسی نئی نسل کے سینٹری فیوجز نصب کئے ہیں جو آئی آر 1 کی نسبت پانچ گنا زیادہ تیزی سے افزودگی انجام دیتے ہیں۔

تحریر: علی احمدی