سلیمانی

سلیمانی

عراقی خودمختار ریاست کردستان کے سابق صدر اور کرد ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ مسعود بارزانی نے بین الاقوامی نیوز چینل ایم بی سی کو دیئے گئے اپنے انٹرویو میں شہید جنرل قاسم سلیمانی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے سال 2014ء میں داعش کے ساتھ مقابلے کے لئے بھیجے گئے اسلحے اور عسکری امداد پر ایران کا شکریہ ادا کیا ہے۔ مسعود بارزانی نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ امریکی دہشتگردانہ کارروائی میں شہید کر دیئے جانے والے ایرانی سپاہ قدس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی نے داعش کے حملے کے ابتدائی ایام میں میرے ساتھ رابطہ قائم کیا تھا۔ کرد رہنما کا کہنا تھا کہ شہید جنرل قاسم سلیمانی نے مجھ سے داعش کے بڑھتے حملوں سے مقابلے کے بارے میں سوال کیا جس پر میں نے جنرل قاسم سلیمانی سے اینٹی ٹینک اسلحے کا تقاضا کیا اور پھر ایران نے اسلحے سے بھرے 2 ہوائی جہاز ہماری مدد کو بھیج دیئے۔

کرد ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ مسعود بارزانی نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ماضی میں بھی دہشتگرد گروہ موجود رہے ہیں لیکن داعش انتہائی عجیب دہشتگرد تنظیم تھی کیونکہ دیکھتے ہی دیکھتے 24 گھنٹوں کے دوران ہزاروں کلومیٹر سرحدی علاقے پر اس کا قبضہ ہو چکا تھا اور ہمارے پاس اس سے مقابلے کے لئے کچھ بھی نہیں تھا جبکہ امریکہ نے داعش کے خلاف لڑنے والوں کو اسلحہ کی ترسیل پر پابندی عائد کر رکھی تھی۔ انہوں نے داعش کے حملے کے زیراثر عراقی فوج کی فوری عقب نشینی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ (حشد الشعبی کے برخلاف) سابقہ عراقی فوج ملکی دفاع اور قوم سے وفاداری کے اصول پر تشکیل نہیں دی گئی تھی لہذا داعش نے وحشتناک طریقے سے اس کا شیرازہ بکھیر دیا۔ واضح رہے کہ داعش نے عراق و شام پر 2014ء میں حملہ کر کے دونوں ممالک کے آدھے سے زیادہ رقبے پر قبضہ کر لیا تھا جس کو سال 2017ء میں جنرل قاسم سلیمانی نے مکمل شکست دے کر دونوں ممالک کو نئی زندگی بخشی تھی۔

تحریر و ترتیب: ساجد حسین

نیمئہ شعبان میلاد نور آمد امام زمان (عج) کی رات یا شب برات کی اہمیت احادیث و روایات سے واضح ہے، اور یہ رات مسلمانوں کے جملہ مکاتب فکر کے ہاں اہم ترین رات ہے۔ اللہ کی شان دیکھئے کہ امام مہدی عج کی ولادت باسعادت کی خوشی کو کائنات حتی کہ تمام مسلمانوں خواہ شیعہ ہو یا سنی کو میلاد اور خوشی کی کیفیت میں رکھا ہے۔ شیعہ مسلمان اس مبارک رات کو میلاد نور کے طور پر مناتے ہی ہیں، تو دوسری طرف سنی مسلمان بھی اس رات کو شب برات کے عنوان سے متبرک جان کر میلاد اور خوشی میں شریک ہیں۔ اگرچہ شب قدر رمضان کی مبارک رات کی موجودگی میں شب برات کا بھی اسی عنوان سے منانا کوئی معنی نہیں رکھتا، لیکن شاید اللہ کا یہ اہتمام ہو کہ امام مہدی عج کی ولادت باسعادت کی خوشی ہر ایک مسلمان منائے، چاہے وہ امام مہدی عج کی نیمئہ شعبان تاریخ ولادت کا قائل ہو یا نہ ہو۔ 

سنی مکتب فکر کے ہاں کچھ روایات کے مطابق اس مبارک رات میں سال بھر کے اعمال کا حساب و کتاب اور قسمت کے فیصلے ہوتے ہیں، جب کہ بعض معتبر روایات کے مطابق کہ جو تمام مکاتب فکر کے ہاں تواتر سے درج ہوئی ہیں، اس مبارک رات کو منجئی بشریت عالمی نجات دہندہ امام مہدی عج کی ولادت با سعادت کا موقع ہے۔ اگر کوئی شخص عقیدہ مہدویت عج منجئی بشریت عالمی نجات دہندہ امام مہدی عج کے حوالے سے مزید معلومات کا خواہاں ہو تو وہ چالیس سے زیادہ بین الاقوامی زبانوں میں موجود اس ویب سائٹ سے استفادہ کرے۔
www.imamalmahdi.com

مہدی عج موعود کا عقیدہ مسلمانوں کے مسلمہ اور ناقابل انکار عقائد میں شمار ہوتا ہے اور تمام مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ «مہدیؑ» نامی امام جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہم نام ہیں، آخرا لزمان میں ظہور فرمائیں گے، دنیا کو عدل و انصاف سے پر کریں گے جس طرح کہ یہ ظلم و جور سے پر ہوگئی ہوگی اور دین اسلام کو دنیا میں رائج و نافذ کریں گے۔ اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے متواتر احادیث نقل ہوئی ہیں۔ مہدی موعود عج کے بارے میں کم ہی ایسی حدیث نقل ہوئی ہوںگی جس کی سطح حد تواتر سے نیچے ہو، اور متواتر حدیث شیعہ اور سنی مکاتب میں ناقابل انکار ہے۔ جیسے مشہور حدیث «قال رسول اللہ (ص): من مات و لم یعرف امام زمانہ مات میتة الجاہلیة = جس نے اپنے زمانے کے امام کو پہچانے بغیر موت کو گلے لگایا وہ جاہلیت کی موت مرا۔

امام مہدی عج اہل سنت و اہل تشیع کی نگاہ میں:
امام مہدی عج اللہ فرجہ الشریف کا موضوع ایسا موضوع نہیں ہے کہ محض اہل تشیع اس پر ایمان رکھتے ہیں بلکہ اس موضوع پر تمام اسلامی دانشور خواہ وہ کسی بھی مذہب اور مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہوں سب متفق ہیں، نیز سب کا اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ وہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ کے خاندان اہلبیت اطہار ع سے ہوں گے، ان کے ہم نام ہوں گے اور علی ع و فاطمہ س کی نسل مبارک سے ہوں گے اور جب ظہور فرمائیں گے تو وہ دنیا کہ جو ظلم و جور سے پر ہوچکی ہوگی اسے عدل و انصاف سے پر کریں گے اور اسلامی مفکرین اور دانشوروں کا یہ اتفاق اس بناء پر ہے کہ امام مہدی عج کے حوالے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ سے احادیث متواتر بلکہ ان سے بڑھ کر احادیث وارد ہوئی ہیں۔ ہاں البتہ اس حوالے سے اہل سنت میں اختلاف نظر موجود ہے کہ آیا وہ امام حسن ع کی اولاد میں سے ہوں گے یا امام حسین ع کی اولاد میں سے ہوں گے یا یہ کہ آیا وہ پیدا ہوچکے ہیں یا پیدا ہوں گے؟

اہل سنت کے وہ علماء اور مفکرین جو شیعہ علماء کی اس بات سے اتفاق رکھتے ہیں کہ امام مہدی عج پیدا ہوچکے ہیں اور ابھی زندہ ہیں اور امام حسن عسکری ع کے فرزند ارجمند ہیں، ان کی اچھی خاصی تعداد ہے، مثلاً ان میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں:

۱۔ ابوسالم کمال الدین محمد بن طلحہ بن محمد قرشی شافعی اپنی کتاب مطالب السؤل فی مناقب آل رسول میں۔
۲۔ ابو عبداللہ محمد بن یوسف محمد گنجی شافعی اپنی کتاب البیان فی اخبار صاحب الزمان میں۔
۳۔ نور الدین علی بن محمد بن الصباغ مالکی اپنی کتاب الفصول المھمۃ میں۔
۴۔ فقیہ واعظ شمس الدین ابوالمظفر یوسف بن قزغلی بن عبد اللہ بغدادی حنفی جو کہ سبط ابن جوزی کے نام سے مشہور ہیں۔
۵۔ محی الدین عربی حاتمی اندلسی اپنی کتاب الفتوحات المکیہ میں۔
۶۔ نور الدین عبد الرحمن بن احمد بن قوام الدین دشتی جامی شرح کافیہ ابن حاجب کے مصنف اپنی کتاب شواھد النبوۃ میں۔
۷۔ شیخ عبد الوھاب بن احمد بن علی شعرانی مصری اپنی کتاب الیواقیت والجواھر میں۔
۸۔ جمال الدین عطا اللہ بن سید غیاث الدین فضل اللہ اپنی کتاب روضۃ الاحباب فی سیرۃ النبی والال والاصحاب میں۔
۹۔ حافظ محمد بن محمد بن محمود بخاری کہ جو خواجہ یارسا کے نام سے مشہور ہیں اپنی کتاب فصل الخطاب میں۔
۱۰۔ عبد الرحمن جو کہ مشایخ صوفیہ میں سے تھے اپنی کتاب مرآۃ الاسرار میں۔
۱۱۔ شیخ حسن عراقی۔
۱۲۔ ابو محمد احمد بن ابراھیم بلاذری حدیث مسلسل میں۔
۱۳۔ ابو محمد عبداللہ بن احمد بن محمد بن خشاب کہ جو ابن خشاب کے نام سے مشہور ہیں اپنی کتاب تواریخ موالیہ الائمہ و وقیاتھم میں جناب علامہ سید محسن امین شامی کتاب اعیان الشیعہ جلد۲ صفحہ ۶۴ سے ۷۰ تک میں ان تیرہ افراد کا ذکر کرتے ہیں اور اس کے بعد فرماتے ہیں ان کے علاوہ دیگر اھل سنت کہ جو امام مہدی عج کے موجود ہونے کے قائل ہیں ان کی تعداد بہت زیادہ ہے اور جو بھی ان علماء کے بارے میں جاننا چاہتا ہے وہ ہماری کتاب البرھان علی وجود صاحب الزمان اور علامہ نوری کی کتاب کشف الاستار کی طرف رجوع کرے۔

نہج البلاغہ کے شارح ابن ابی الحدید کہتے ہیں:
اس جہان کے ختم ہونے سے پہلے مہدی موعود منتظر کے آنے کا مسئلہ مسلمانوں میں مورد اتفاق ہے، ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ ج۲ ص ۵۳۵
قاضی بہلول بہجت افندی اپنی کتاب تشریح و محاکمہ در تاریخ آل محمد علیہ صلی اللہ علیہ و آلہ میں اس حوالے سے یوں لکھتے ہیں: امام ابوالقاسم محمد المھدیؑ ابھی تک زندہ ہیں اور جب اللہ تعالی اذن فرمائے گا، ظہور فرمائیں گے چونکہ امت کے درمیان امام کا ظہور مورد اتفاق ہے لہذا اس کے دلائل کی وضاحت کے ہم محتاج نہیں ہیں قاضی بہلول بہجت افندی، تشریح و محاکمہ در تاریخ آل محمد ص چاپ ہفتم ص ۱۳۹ الی ۱۴۱

اس اتفاق کی بنیاد وہ بہت ساری احادیث ہیں کہ پیغمبر اسلام ص سے امام مہدی عج کے بارے میں وارد ہوئی ہیں اور علماء کرام نے انہیں اپنی اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے اور ان کے متواتر ہونے کی وضاحت کی ہے۔ بہت سے علماء نے تو اس موضوع پر مستقل کتابیں تحریر کی ہیں، تو ان فراوان احادیث اور کتب کے ہوتے ہوئے شیعہ سنی علماء اور محققین کبھی بھی اس مسئلہ میں شک و تردید کا شکار نہیں ہوسکتے سوائے ایسے عقل و خرد سے بیگانے اور دشمن دین خدا کہ جو اس موضوع کو واضح اور روشن دیکھنے سے محروم ہیں اور اپنے خود ساختہ خیالات میں ہاتھ پاؤں مارتے رہتے ہیں ورنہ اگر دیکھا جائے تو ان بے شمار احادیث جو کہ متواتر بلکہ تواتر سے بھی بالاتر ہیں ان کی تصدیق عقیدہ نبوت کی اہم جزو ہے اور ان کا انکار گویا نبوت کا انکار ہے۔

اسی لئے جب ایک بزرگ عالم دین سے پوچھا گیا کہ آیا مہدی منتظر عج کا ظہور دین کی ضروریات میں سے ہے اور اس کا انکار مرتد ہونے کا سبب ہے یا نہ؟ تو انہوں نے جواب دیا: یہ اعتقاد دین کی ضروریات میں سے ہے اور ان کا انکار موجب کفر ہے فاضل مقداد اللوامع الھیہ چاپ تبریز پاورقی صفحہ ۲۸۹
حجاز کی ایک برجستہ علمی شخصیت اور مدینہ یونیورسٹی کے پروفیسر شیخ عبد المحسن عباد اپنی ایک تقریر کہ جو عقیدہ اھل سنۃ والاثر فی المھدی المنتظر کے عنوان سے مدینہ یونیورسٹی کے رسالہ میں بھی آئی ہے اس میں کہتے ہیں: میں ان پچیس اصحاب کے نام کہ جنہوں نے پیغمبر اسلام سے مہدی عج کے بارے میں احادیث نقل کی ہیں آپ کے سامنے پیش ہیں:

۱۔ عثمان بن عفان ۲ علی بن ابی طالب ۳طلحہ بن زبیر ۴عبدالرحمن بن عوف ۵الحسین بن علی ۶ام سلمہ ۷ام حبیبہ ۸عبد اللہ بن عباس ۹عبد اللہ بن مسعود ۱۰عبد اللہ بن عمر ۱۱عبد اللہ بن عمرو ۱۲ابوسعید الخدری ۱۳جابر بن عبداللہ ۱۴ابوھریرہ ۱۵انس بن مالک ۱۶عمار بن یاسر ۱۷عوف بن مالک ۱۸پیغمبر اسلام کے خادم ثوبان ۱۹قرۃ ابن ایاس ۲۰علی الھلالی ۲۱حذیفہ بن الیمان ۲۲عبد اللہ بن حارث بن حمزہ ۲۳عمران بن حصین ۲۴ابوالطفیل ۲۵جابر الصدفی۔ کتاب مصلح جھانی۔

وہ مزید اپنی بات بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ آئمہ کہ جن سے صحاح، سنن، لغت ناموں اور مسانید وغیرہ میں مہدی کے حوالے سے احادیث نقل ہوئی ہیں وہ تحقیق کے مطابق ۳۸نفر ہیں اور وہ یہ ہیں:

۱۔ ابوداؤد اپنی سنن میں، ۲۔ ترمذی اپنی جامع میں، ۳۔ ابن ماجہ اپنی سنن میں، ۴۔ نسائی کی سفارینی نے اسے لوامع الانوار البھیۃ میں ذکر کیا ہے اور منادی نے فیض القدیر میں ذکر کیا ہے جب کہ میں نے اسے صغری میں دیکھا شاید کبری میں ہو، ۵۔ احمد اپنی مسند میں، ۶۔ ابن حیان اپنی صحیح میں، ۷۔ حاکم اپنی مستدرک میں، ۸۔ ابوبکر بن شیبہ المصنف میں، ۹۔ نعیم بن حماد کتاب الفتن میں، ۱۰۔ حافظ ابو نعیم کتاب المھدی در الحلیۃ میں، ۱۱۔ طبرانی الکبیر والاسط والصغیر میں، ۱۲۔ دارقطنی الافراد میں، ۱۳۔ بارودی معرفۃ الصحابہ میں، ۱۴۔ ابویعلی اسامہ اپنی مسند میں، ۱۵۔ بزاز اپنی مسند میں، ۱۶۔ حارث بن ابی اسامہ اپنی مسند میں، ۱۷۔ خطیب تلخیص المتشابہ اور المتفق والمتفرق میں، ۱۸۔ ابن عساکر اپنی تاریخ میں، ۱۹۔ ابن مندہ تاریخ اصفہان میں، ۲۰۔ ابوالحسن حربی اول من الحربیات میں، ۲۱۔ تمام الرازی اپنی فوائد میں، ۲۲۔ ابن جریر تھذیب الآثار میں، ۲۳۔ ابوبکر مقری اپنی معجم میں، ۲۴۔ ابو عمر والد انی اپنی سنن میں۔
 
۲۵۔ ابو غنم کوفی کتاب الفتن میں، ۲۶۔ دیلمی مسند الفردوس میں، ۲۷۔ ابوبکر الاسکاف فوائد الاخبار میں، ۲۸۔ ابوالحسین بن المنادی کتاب الملاحم میں، ۲۹۔ بھیقی دلائل النبوۃ میں، ۳۰۔ ابوعمر والقری اپنی سنن میں، ۳۱۔ ابن الجوزی اپنی تاریخ میں، ۳۲۔ یحیی بن عبد الحمید الحمانی اپنی مسند میں، ۳۳۔ رویانی اپنی مسند میں، ۳۴۔ ابن سعد طبقات میں، ۳۵۔ ابن خزیمہ، ۳۶۔ احسن بن سفیان، ۳۷۔ عمرو بن شبیہ، ۳۸۔ ابوعوانہ مصلح جھانی ص ۱۰۹ و ۱۱۰ امام مہدی ع ص ۱۴۹ الی، ۵۳۔ مسجد نبوی کے بعض مضافات کہ جو آل سعود کے دور حکومت میں کچھ عرصہ قبل تعمیر ہوئے ہیں ان عمارتوں کی چھتوں کو اس طرح بنایا گیا ہے کہ روشنی ان سے گزرتی ہےان عمارتوں کی دیواروں پر بارہ ائمہؑ کے اسماء کا مشاھدہ کیا جاتا ہے اور امام مہدی عج کا نام یوں لکھا ہوا ہے محمد بن الحسن العسکری ع اور یہ اس مسلمہ عقیدے کا ثبوت ہے کہ امام زمانہ امام مہدی عج امام حسن عسکری علیہ السلام کے فرزند ہیں۔

منجئی بشریت عالمی نجات دہندہ امام مہدی عج کے ظہور و انقلاب کی اہم علامات:
دنیا میں كوئی بھی طوفان ایكا ایكی نہیں آتا ھے۔ سماج میں انقلاب رونماء ھونے سے پہلے اس كی علامتیں ظاھر ھونے لگتی ھیں، حتی کہ ان علامات میں مشرق وسطی میں حالیہ بحرانات، سید یمانی و سید خراسانی کی آمد اور باطل کی طرف سے سفیانی کی آمد (شیعہ، سنی متفقہ روایات میں سفیانی کو سفیانی اسلئے کہتے ہیں کہ وہ اسلام کے اولین دشمن ابو سفیان کی اولاد میں سے ہوگا اور امام مہدی عج و حضرت عیسیؑ کے مقابلے میں آئے گا)۔ 

اسلامی روایات میں اس عظیم انقلاب كی نشانیوں كا تذكرہ ملتا ھے۔ یہ نشانیاں اور علامتیں دو طرح كی ھیں:
1) عمومی علامتیں جوھر انقلاب سے پہلے (انقلاب كے تناسب سے) ظاھر ھوتی ھیں۔
2) جزئیات جن كو معمولی و اطلاع كی بنیاد پر نہیں پركھا جاسكتا ھے بلكہ ان جزئیات كی حیثیت ایك طرح كی اعجازی ھے۔

ظلم و فساد كا رواج:
سب سے پہلی وہ علامت جو عظیم انقلاب كی آمد كی خبر دیتی ھے۔ وہ ظلم و فساد كا رواج ھے۔ جس وقت ھر طرف ظلم پھیل جائے، ھر چیز كو فساد اپنی لپیٹ میں لے لے۔ دوسروں كے حقوق پامال ھونے لگیں، سماج برائیوں كا گڑھ بن جائے، اس وقت عظیم انقلاب كی آھٹ محسوس ھونے لگتی ھے۔ یہ طے شدہ بات ھے كہ جب دباؤ حد سے بڑھ جائے گا تو دھماكہ ضرور ھوگا، یہی صورت سماج كی بھی ھے، جب سماج پر ظلم و فساد كا دباؤ حد سے بڑھ جائے گا تو اس كے نتیجہ میں ایك انقلاب ضرور رونماء ھوگا۔

اس عظیم عالمی انقلاب اور حضرت مھدی عج كے ظھور كے بارے میں بھی بات كچھ اسی طرح كی ھے۔ منفی انداز فكر والوں كی طرح یہ نہیں سوچنا چاھیے كہ ظلم و فساد كو زیادہ سے زیادہ ھوا دی جائے تاكہ جلد از جلد انقلاب آجائے بلكہ فساد اور ظلم كی عمومیت كو دیكھتے ھوئے اپنی اور دوسروں كی اصلاح كی فكر كرنا چاھیے، تاكہ صالح افراد كی ایك ایسی جماعت تیار ھوسكے جو انقلاب كی علمبردار بن سكے۔

اسلامی روایات میں اس پہلی علامت كو ان الفاظ میں بیان كیا گیا ھے: كما ملئت ظلما وجوراً …" جس طرح زمین ظلم و جور سے بھر چكی ھوگی۔ یہاں ایك سوال یہ اٹھتا ھے كہ "ظلم و جور" مترادف الفاظ ھیں یا معانی كے اعتبار سے مختلف۔ دوسروں كے حقوق پر تجاوز دو طرح ھوتا ھے۔ ایك یہ كہ انسان دوسروں كے حقوق چھین لے اور ان كی محنت سے خود استفادہ كرے اس كو "ظلم" كہتے ھیں۔ دوسرے یہ كہ دوسروں كے حقوق چھین كر اوروں كو دے دے، اپنے اقتدار كے استحكام كے لئے اپنے دوستوں كو عوام كے جان و مال پر مسلط كردے اس كو "جور" كہتے ھیں۔

ان الفاظ كے مد مقابل جو الفاظ ھیں وہ ھیں ظلم كے مقابل "قسط" اور جور كے مقابل "عدل" ھے۔ اب تك بات عمومی سطح پر ھورھی تھی كہ ھر انقلاب سے پہلے مظالم كا وجود انقلاب كی آمد كی خبر دیتا ھے۔ قابل غور بات تو یہ ھے كہ اسلامی روایات نے سماجی برائیوں كی جزئیات كی نشاندھی كی ھے۔ یہ باتیں اگر چہ 13۔ 14 سو سال پہلے كہی گئی ھیں لیكن ان كا تعلق اس زمانے سے نہیں ھے بلكہ آج كل ھماری دنیا سے ھے۔ یہ جزئیات كچھ اس طرح بیان كیے گئے ھیں گویا بیان كرنے والا اپنی آنكھوں سے دیكھ رھا ھو، اور بیان كررھا ھو۔ یہ پیشین گوئیاں كسی معجزے سے كم نہیں ھیں۔ اس سلسلے میں ھم متعدد روایتوں میں سے صرف ایك روایت كا ذكر كرتے ھیں۔ یہ روایت حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل ھوئی ھے۔ اس روایت میں سیاسی، سماجی اور اخلاقی مفاسد كا ذكر كیا گیا ھے۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے بعض اصحاب سے ارشاد فرمایا ھے:
1۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ ھر طرف ظلم و ستم پھیل رھا ھے۔
2۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ قرآن فرسودہ كردیا گیا ھے اور دین میں بدعتیں رائج كردی گئی ھیں۔
3۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ دین خدا اس طرح اپنے مفاھیم سے خالی ھوگیا ھے جس طرح برتن الٹ دیا گیا ھو۔
4۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ اھل باطل صاحبانِ حق پر مسلط ھوگئے ھیں۔
5۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ مرد مرد پر اور عورتیں عورتوں پر اكتفا كر رھی ھیں۔
6۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ صاحبانِ ایمان سے خاموشی اختیار كرلی ھے۔
7۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ چھوٹے بڑوں كا احترام نہیں كر رھے ھیں۔
8۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ رشتہ داریاں ٹوٹ گئی ھیں۔
9۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ چاپلوسی كا بازار گرم ھے۔
10۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ شراب اعلانیہ پی جارھی ھے۔
11۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ خیر كے راستے اُجاڑ اور شر كی راھیں آباد ھیں۔
12۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ حلال كو حرام اور حرام كو حلال كیا جارھا ھے۔
13۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ احكامِ دین كی حسبِ منشا تفسیر كی جارھی ھے۔
14۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ صاحبان ایمان ھے آزادی اس طرح سلب كرلی گئی ھے كہ وہ اپنے دل كے علاوہ كسی اور سے اظھار نفرت نہیں كرسكتے۔
15 جس وقت تم یہ دیكھو كہ سرمایہ كا بیشتر حصّہ گناہ میں صرف ھورھا ھے۔
16۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ حكومتی ملازمین كے درمیان رشوت عام ھوگئی ھے۔
17۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ حساس و اھم منصبوں پر نااھل قبضہ جمائے ھیں۔
18۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ (بعض مرد) اپنی عورتوں كی ناجائز كمائی پر زندگی بسر كر رھے ھیں۔
19۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ قمار آزاد ھوگیا ھے (قانونی ھوگیا ھے)
20۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ ناروا تفریحیں اتنی عام ھوگئی ھیں كہ كوئی روكنے كی ھمّت نہیں كر رھا ھے۔
21۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ قرآنی حقائق كا سننا لوگوں پر گراں گذرتا ھے۔
22۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ پڑوسی پڑوسی كی زبان كے ڈر سے اس كا احترام كر رھا ھے۔
23۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ مسجدوں كی آرائش كی جارھی ھے۔
24۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ غیر خدا كے لئے حج كیا جارھا ھے۔
25۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ عوام سنگ دل ھوگئے ھیں۔
26۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ عوام اس كے حامی ھوں جو غالب آجائے (خواہ حق پر ھو خواہ باطل پر)
27۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ حلال كے متلاشی افراد كی مذمّت كی جائے اور حرام كی جستجو كرنے والوں كی مدح۔
28۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ لہو و لعب كے آلات مكّہ مدینہ میں (بھی رائج ھوں۔
29۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ مسجد ان لوگوں سے بھری ھے جو خدا سے نہیں ڈرتے۔
30۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ لوگوں كی ساری توجہ پیٹ اور شرمگاہ پر مركوز ھے۔
31۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ مادی اور دنیاوی وسائل كی فراوانی ھے، دنیا كا رخ عوام كی طرف ھے۔
32۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ اگر كوئی امر بمعروف اور نہی از منكر كرے تو لوگ اس سے یہ كہیں كہ یہ تمھاری ذمہ داری نہیں ھے۔
33۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ عورتیں اپنے آپ كو بے دینوں كے حوالے كر رھی ھیں۔
34۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ حق پرستی كے پرچم فرسودہ ھوگئے ھیں۔
35۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ بربادی آبادی پر سبقت لے جارھی ھے۔
36۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ بعض كی روزی صرف كم فروشی پر منحصر ھے۔
37۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ ایسے افراد موجود ھیں جنھوں نے مال كی فراوانی كے باوجود اپنی زندگی میں ایك مرتبہ بھی زكات نہیں دی ھے۔
38۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ لوگ صبح و شام نشہ میں چور ھیں۔
39۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ لوگ ایك دوسرے كو دیكھتے ھیں اور بروں كی تقلید كرتے ھیں۔
40۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ ھر سال نیا فساد اور نئی بدعت ایجاد ھوتی ھے۔
41۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ عوام اپنے اجتماعات میں خود پسند سرمایہ داروں كے پیروكار ھیں۔
42۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ جانوروں كی طرح سب كے سامنے جنسی افعال انجام دے رھے ھیں
43۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ غیر خدا كے سلسلے میں زیادہ سے زیادہ خرچ كرنے میں كوئی تكلف نہیں كرتے لیكن خدا كی راہ میں معمولی رقم بھی صرف نہیں كرتے۔
44۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ ایسے افراد بھی ھیں كہ جس دن گناہ كبیرہ انجام نہ دیں اس دن غمگیں رھتے ھیں۔
45۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ حكومت عورتوں كے ھاتھوں میں چل گئی ھے۔
46۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ ھوائیں منافقوں كے حق میں چل رھی ھیں، ایمان داروں كو اس سے كچھ حاصل نہیں ھے۔
47۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ قاضی احكامِ الٰہی كے خلافِ فیصلہ دے رھا ھے۔
48۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ بندوں كو تقویٰ كی دعوت دی جارھی ھے مگر دعوت دینے والا خود اس پر عمل نہیں كر رھا ھے۔
49۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ لوگ اوقات نماز كو اھمیت نہیں دے رھے ھیں۔
50۔ جس وقت تم یہ دیكھو كہ ضرورت مندوں كی امداد بھی پارٹی كی بنیاد پر كی جارھی ھے، كوئی خدائی عنصر نہیں ھے۔

اسلئے ہم سب کی یہ ذمہ داری ہے کہ اس عالمی انقلاب کے لئے عملی کام کرکے راہ ہموار کرنکے امام مہدی ؑ کے سپاہیوں میں اپنا نام درج کروائیے۔ بقول فارسی شاعر
جہاں در انتظار عدالت
عدالت در انتظار مہدی(ع) 

اور بقول علامہ اقبال(رہ) 


دنیا کو ہے اس مہدی (ع) برحق کی ضرورت
ہو جس کی نگہ، زلزلئہ عالم افکار
یا
کبھی اے حقیقت منتظر (ع) نظر آ لباس مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبین نیاز میں

اللہ پاک بحق اہلبیت اطہار (ع) ہمیں امام مہدی (ع) کے انقلاب کو سمجھ کر اس میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)

اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے عید سعید نیمۂ شعبان کے حوالے سے ٹیلیویژن پر قوم سے براہ راست خطاب کیا ہے۔ آیت اللہ سید علی خامنہ نے ٹیلیویژن پر قوم سے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ آج انسان تاریخ کے کسی بھی وقت سے بڑھ کر "منجی بشریت" (نجات دہندہ) کی ضرورت کا احساس کر رہا ہے۔ انہوں نے 15 شعبان عید میلاد حضرت ولی عصر علیہ السلام کی مناسبت سے امت مسلمہ کو تبریک پیش کرتے ہوئے تاکید کی ہے کہ اسلام کے اندر "انتظار فرج" کا مطلب نجات کی امید، اس پر ایمان رکھنا، فعالیت اور روشن مستقبل کے حصول کے لئے اقدام اٹھانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انتظارِ فرج بیکار بیٹھ جانے اور کچھ نہ کرنے کا نام نہیں بلکہ اسلام کے اندر انتظار فرج کا مطلب روشن مستقبل اور الہی وعدے کے حصول کے لئے جدوجہد کرنا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی ایران آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے کرونا وائرس کو دنیا بھر کی حکومتوں کے لئے ایک امتحان قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایرانی قوم کرونا وائرس کے ساتھ مقابلے کی جدوجہد میں سرخرو ہوئی ہے۔ انہوں نے مغربی دنیا میں حالیہ بحران کے دوران ہونے والی بے عدالتیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت تک حاصل شدہ علم و خرد عالم بشریت کی بے عدالتی کی گرہ کھولنے کے قابل نہیں جبکہ انسانیت کو اپنی دیرینہ آرزوؤں تک پہنچنے کے لئے الہی وعدے کے پورے ہونے کی ضرورت ہے اور یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی کی طرف سے حضرت حجت بن الحسن علیہما السلام کو دنیا بھر کو عدلت و انصاف سے بھر دینے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔

ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے کرونا وائرس کے حوالے سے ایرانی قوم کی طرف سے عوامی خدمت میں انجام دی جانے والی جانثاریوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ تمام اعلی انسانی فعالیت ایرانی عوام کے اندر اسلامی تمدن کے گہرے رسوخ کی علامت ہے۔ رہبر انقلاب نے کرونا بحران کے زیراثر مغربی حکومتوں خصوصا امریکہ کی طرف سے دوسرے ممالک کے خریدے گئے ماسک، دستانے اور طبی سامان کے زبردستی ہتھیا لئے جانے اور مغربی عوام کی طرف سے بنیادی ضرورت کی اشیاء پر دھاوا بولنے اور ناامنی کے احساس کے باعث اسلحے کی دکانوں پر ہجوم لانے کو مغربی دنیا کی طرف سے ظاہر کئے جانے والے جھوٹے اعلی انسانی تمدن کا اصلی چہرہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان اقدامات کے ذریعے مغربی دنیا نے انفرادی مفاد اور مادّہ پرستی پر مبنی اپنے اصلی تمدن سے پردہ اٹھا دیا ہے۔

آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے پہلی و دوسری عالمی جنگ اور ویتنام، افغانستان اور عراق پر امریکی حملوں کو گزشتہ سالوں کے عظیم مظالم قرار دیا اور دنیا بھر میں جاری کرونا وائرس کے بحران کے حوالے سے امت محمدی (ص) کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ دنیا بھر میں کرونا وائرس کے جاری بحران کے زیراثر امتِ مسلمہ کو طاقتور ممالک کی طرف سے فلسطین و یمن سمیت دنیا کی تمام اقوام پر ہونے والے ظلم و ستم سے غافل نہیں ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ دشمن کی سازشوں اور دشمنی سے بھی غافل نہیں رہنا چاہئے کیونکہ بعض لوگوں کی اس سوچ کے برخلاف کہ اگر ہم دشمنی نہ کریں تو استکباری طاقتیں بھی ہم سے دشمنی نہیں کریں گی، استکباری طاقتوں کی دشمنی جمہوری اسلامی نظام کی بنیاد اور عوام کی دینی قیادت کے ساتھ ہے۔

تحریر: رضوان حیدر نقوی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

اسلام ایک جامع و کامل دین ہے، جس نے زندگی کے ہر شعبہ سے متعلق بشریت کی راہنمائی فرمائی ہے۔ اگر اسلامی احکامات کی طرف توجہ کی جائے تو معلوم ہوگا کہ اسلام نے اقتصاد اور معاش کو عبادی احکامات سے اگر زیادہ نہ کہیں تو کم اہمیت بھی نہیں دی۔ بے شک اقتصاد انسانی زندگی کا بنیادی ترین رکن ہے۔ انسان، معاش اور اقتصاد کو نظر انداز کرکے اچھی زندگی نہیں گزار سکتا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جس طرح اسلام عبادات و معنویات کو اہمیت دیتا ہے، اسی طرح اپنے خاندان اور بچوں کے لئے حلال رزق کمانے کو بھی جہاد فی سبیل اللہ قرار دیتا ہے۔ دین انسان سازی اور انسانی معاشرے کی فلاح و بہبود کی خاطر آیا ہے۔ جب انسان کو اس مقصد کے لئے سب کچھ میسر ہو، جو اس کی نشو و نما اور زندگی کے لئے ضروری ہے اور اپنے آپ کو فقر و ناداری سے محفوظ رکھے تو وہ مادیات سے بالاتر ہو کر اعلیٰ مقاصد کے بارے میں سوچ سکتا ہے۔ ایسا انسان ہی معاشرے کے لئے مفید ثابت ہوسکتا ہے۔ بہت سے انسان فقر و ناداری کی وجہ سے اپنی صلاحیتوں کو کھو دیتے ہیں اور بری خصلتیں ان کے دل و دماغ میں بس جاتی ہیں۔ بسا اوقات قوت فکر مفلوج اور سوچنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔

اسلام مال و دولت کو انسانی معاشرے کے لئے ضروری سمجھتا اور اسے بہت اہمیت دیتا ہے۔ اسلام ثروت اور مادی امکانات کو معاشرے کا ستون اور بنیادی جز سمجھتا ہے۔ اقتصادیات انسانی معاشرے کے لئے ریڑھ کی ہڈی ہے۔ قرآن مجید میں پروردگار فرماتا ہے: آپ کے اموال جس پر اللہ تعالیٰ نے تمہارا نظام زندگی قائم رکھا ہے۔(سورہ نسا آیت ۵) یہ آیت معاشرے میں اقتصاد کی اہمیت کو واضح کرتی ہے۔ درحقیقت معیشت کی نابودی سے معاشرے تباہ ہو جاتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں دولت و ثروت معاشرے اور سماج کے جسم میں خون کی مانند ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں دولت و ثروت کو بشریت کے لئے اپنی نعمت اور شکر گزاری کا وسیلہ قرار دیتا ہے۔ امیرالمومنین امام علی علیہ السلام  مال و دولت کو تقویٰ الہیٰ کا سبب قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں: مال اور ثروت، تقویٰ الہیٰ کے لئے بہترین مددگار ہے۔ (الکافی،ج۵، ۷۱۔) امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے: دنیا، سعادت آخروی کے لئے بہترین مددگار ہے۔(الکافی،ج۵، ۷۲۔) پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں: تین چیزیں مسلمان کے لئے سعادت ہیں، گھر کا گشادہ اور وسیع ہونا، نیک اور صالح ہمسایہ اور بہترین مرکب کا ہونا۔(الخصال، ج‌1، ص:184)

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: جو شخص بھی رزق و روزی کی تلاش میں ہوتا ہے، تاکہ اس ذریعے سے خود کو لوگوں سے بے نیاز کرے، اپنے خاندان کے لئے رفاہ و آسائش کا انتظام کرے اور ہمسایوں کے ساتھ محبت سے پیش آئے، ایسا شخص قیامت کے دن پروردگار کا دیدار اس حالت میں کرے گا کہ اس کا چہرہ چودہویں کے چاند کی طرح چمک رہا ہوگا۔(الکافی، ج۵، ۷۸) ایک شخص نے امام صادق علیہ السلام سے عرض کی: یا ابن رسول اللہ میں دنیا کے پیچھے ہوں اور چاہتا ہوں کہ اسے حاصل کروں۔ امام نے فرمایا: حاصل کرکے کیا کرو گے؟ اس نے جواب دیا: میں چاہتا ہوں کہ اس سے اپنی اور اپنے خاندان کی زندگی بہتر بناوں، صلہ رحم کروں، صدقہ دوں، حج اور عمرہ ادا کروں۔ امام نے فرمایا: یہ دنیا طلبی نہیں بلکہ آخرت طلبی ہے۔(الکافی ج ۵، ۷۸۔) رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  سے منقول ہے کہ جب بھی آپ کی کسی جوان پر نظر پڑتی تو فرماتے: کیا اس کے پاس کوئی ہنر (کام اور کاروبار) ہے، اگر جواب نفی میں ہوتا تو آپ فرماتے: میری نظروں سے یہ جوان گر گیا ہے۔(یعنی میری نظر میں اس کی کوئی اہمیت نہیں) جب آپ سے اس کی وجہ پوچھی جاتی تو آپ فرماتے، جب مومن کے پاس کوئی ہنر نہ ہو تو وہ دین کو معاش کا ذریعہ بنا لیتا ہے۔(جامع الاخبار، ج۱، ص۱۳۹) رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے فرمایا: آخرالزمان میں لوگوں کے لئے مال و دولت اور ثروت ضروری ہوگی، کیونکہ ان کی دنیا اور آخرت اسی سے قائم ہوگی۔(کنزالعمال ج۳، ص۲۳۸)

اسلام نے محنت و کوشش کو بہت اہمیت دی ہے اور اسے معاشرے کے لئے لازمی جز قرار دیا ہے۔ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب سورہ طلاق کی آیت 2 اور 3 نازل ہوئیں، جس میں فرمایا گیا: جو تقویٰ الہیٰ اختیار کرتا ہے تو خدا اس کے لئے راستے کھول دیتا ہے اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا کرتا ہے، جس کا وہ سوچ بھی نہیں سکتا تو صحابہ کرام میں سے بعض صحابہ بدفہمی کے باعث عبادت و دعا میں مشغول ہوگئے۔ جب رسول اللہ تک یہ خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا: وہ شخص میرا دشمن ہے، جو اللہ سے اپنے رزق میں اضافہ کی دعا کرے، لیکن اس کے لئے محنت اور کوشش نہ کرے۔(الفقیہ، ج۵، ص۶۷) امام صادق علیہ السلام نے عمر ابن مسلم کے بارے میں پوچھا؛ تو بتایا گیا کہ وہ تجارت چھوڑ کر دعا اور عبادت میں مشغول ہوگیا ہے۔ امام نے فرمایا: افسوس ہے اس پر، کیا اس کو معلوم نہیں کہ فقط دعا (عملی جدوجہد کے بغیر) قبول نہیں ہوتی۔(الکافی ج۵، ۸۴۔) پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: وہ شخص خدا کی رحمت سے دور ہے، جو اپنا بوجھ دوسروں کے کندہوں پر ڈال دیتا ہے۔(الکافی، ج ‏5، ص 72) امام صادق فرماتے ہیں: بے شک اللہ تعالیٰ بہت سونے والے اور بے کار بندے پر غضبناک ہوتا ہے۔(من لا یحضر الفقیہ، ج ‏3، ص169)

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کے لئے کوشش کرنے والا خدا کی راہ میں جہاد کرنے والے کی مانند ہے۔(الکافی ج۲، ص۷۶) امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں: جو شخص اپنے خاندان کے لئے رزق و روزی کی تلاش میں رہتا ہے، اس کا اجر خدا کی راہ میں جہاد کرنے والے سے زیادہ ہے۔(الکافی ج۵، ص۸۸) رسول اکرم نے فرمایا: عبادت کے دس حصے ہیں، جس میں سے ۹ حصے حلال روزی کمانا ہے۔(جامع الاخبار، ص۱۳۹) امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا: اللہ کی نعمتوں سے فائدہ اٹھانا اور ان کا اظہار کرنا دینداری ہے۔(کافی، ج6، ص496۔) پس بنیادی ضروریات کا حصول دینی تعلیمات میں سے ہے۔ معاشرے کے ارباب حل و عقد اور صاحب کرسی و منصب افراد پر ضروری قرار دیا گیا ہے کہ معاشرے کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے لئے ان سہولتوں تک رسائی کو آسان بنائیں، کیونکہ جس معاشرے میں فقر و ناداری کی حکمرانی ہو، وہ معاشرہ مختلف قسم کی بیماریوں اور برائیوں کی جنم گاہ بن جاتا ہے۔

انسان کے لئے سہولیات کا حاصل کرنا ایک بنیادی ضرورت ہے۔ انسان کو چاہیئے کہ سہولیات کے حصول کے لئے نیک اور پسندیدہ راستوں کو اپنائے اور جدوجہد کرے، ان سے فائدہ اٹھائے، لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ دیکھے کس زمانہ میں جی رہا ہے۔ ائمہ معصومین علیہم السلام کی سیرت میں ہمیں یہ بات بھی ملتی ہے کہ یہ ہستیاں اپنے زمانے کے مطابق زندگی گزارتی تھیں، جیسا کہ امام علی علیہ السلام اور امام صادق علیہ السلام کی طرز زندگی میں فرق ہے۔ روز عاشورا امام حسین علیہ السلام کے کاندھے پر بعض اثرات دیکھے گئے، جب امام سجاد علیہ السلام سے ان کے بارے میں پوچھا گیا تو امام علیہ السلام نے فرمایا: یہ ان کھانے سے بھری گھٹریوں کی وجہ سے ہے، جو میرے بابا ہر روز اپنے کاندھے پر اٹھا کر عورتوں، یتیموں اور مسکینوں کے گھروں میں پہنچاتے تھے۔(بحار ج‌44، ص190) جب رات کا کچھ حصہ گزر جاتا تو امام صادق علیہ السلام اس گھٹری کو جس میں روٹیاں، گوشت اور درہم ہوتے تھے، اپنے دوش اطہر پر اٹھا کر مدینہ کے فقیروں کے پاس جاتے اور ان میں تقسیم کرتے تھے۔(وسایل الشیعه، ج6، ص278) امام موسی کاظم علیہ السلام رات کو مدینہ کے تنگدست لوگوں کے پاس جاتے تھے اور ایک تھیلہ بھی ساتھ لے جاتے، جس میں پیسے اور کھجوریں ہوتی تھیں اور اسے فقیروں میں تقسیم کرتے تھے۔(وسایل الشیعه، ج6، ص278)

اسلام کسی طور پر بھی فقر و فاقہ کو پسند نہیں کرتا بلکہ صراحت کے ساتھ اعلان کرتا ہے کہ معاد اور معاش کے درمیان ظاہری اور باطنی رابطہ ہے۔ اسلام انسان کی مادی زندگی کے لئے کسب معاش اور لوگوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی تاکید کرتا ہے۔ جان اور نان کے درمیان موجود رابطے کو بیان کرتا ہے۔ جس سے اسلام میں اقتصادی نظام کی اہمیت سمجھ آتی ہے۔ اسلام ان تمام ضرورتوں کو پورا کرتا ہے، جو حیات انسانی کو جاری رکھنے کے لیے ضروری ہیں۔ میانہ روی اور معتدل راستے سے ہٹنے کا نتیجہ غربت و افلاس کے کنویں میں گرنا ہے۔ غربت اور فقر کے لغوی معنی احتیاج کے ہیں۔ عام طور پر اس سے تنگ دستی، مفلسی اور ناداری مراد لی جاتی ہے۔ غربت یہ ہے کہ انسان زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم ہو یا ان سہولتوں سے محروم ہو، جن سے انسان ترقی اور تکامل کی منزلوں کو طے کر سکتا ہے۔ احادیث میں غربت اور فقر کی بہت مذمت ہوئی ہے۔ امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: فقر اور غربت سب سے بڑی موت ہے۔(نہج البلاغہ،حکمت154۔)  اور پھر فرمایا: قبر، تنگدستی اور ناداری سے بہتر ہے۔(الکافی، ج ۸، ۲۱۔) معروف جملہ ہے کہ جب فقر ایک دروازے سے داخل ہوتا ہے تو ایمان دوسرے دروازے سے چلا جاتا ہے۔

پس فقر ایک ایسا مرض ہے، جو دھیرے دھیرے پورے مسلم معاشرے کے بدن میں سرایت کر رہا ہے اور اگر جلد اس کا علاج نہیں کیا گیا تو اس کے نتائج بہت سنگین ہوں گے۔ علم اقتصاد کے ماہرین کا خیال ہے کہ جس معاشرے کی اکثریت غریب ہو، وہ معاشرہ کبھی ترقی نہیں کرسکتا۔ غربت اور تنگدستی تمام آفتوں اور اخلاقی برائیوں کی ماں ہے۔ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ حضرت لقمان کی اپنے بیٹے کو کی گئی نصیحتوں میں سے ایک یہ ہے اے میرے بیٹے! میں نے تمام تلخیوں کا مزہ چکھا، لیکن غربت جیسی کوئی تلخی نہیں ہے۔(جامع أحاديث الشيعة ج‌22، ص238) امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: غربت اور افلاس قرض کے ساتھ سب سے بڑی شقاوت اور بدبختی ہے۔(غررالحکم، ص28۔) امام صادق علیہ السلام، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت بیان فرماتے ہیں: فقر اور تنگدستی انسان کو کفر تک لے جاتی ہے۔(الکافی، ج ۲، ۳۰۷۔) علماء کے کلام میں ایک جملہ ملتا ہے کہ جس کی معاش نہیں، اس کی آخرت بھی نہیں۔

غربت و افلاس بہت سے امراض کا سبب بنتی ہے۔ بہت سی نفسیاتی بیماریاں ناداری اور تنگدستی کے سبب وجود میں آتی ہیں۔ جسم کا کمزور ہونا، توہین اور تحقیر کا شکار ہونا، گھریلو زندگی میں ناکام ہونا، اخلاقی اور جنسی برائیوں کا جنم لینا، معاشرے میں سر نیچا ہونا، اداسی کا احساس کرنا، صلاحیتوں کا ضائع ہونا، سیاسی میدانوں سے انہیں دور رکھنا، سیاسی میدانوں کو مالداروں کے لئے کھلا چھوڑنے جیسی بیماریاں غربت اور افلاس سے جنم لیتی ہیں۔ کسی بھی دین کی کامیابی کا راز اس میں مضمر ہے کہ وہ کس حد تک لوگوں کی جسمانی ضرورتوں کا خیال رکھتا ہے۔ اس کی زندگی کی کسی بھی ضرورت کو نظر انداز کئے بغیر تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھتا ہے۔ غربت و تنگدستی انسان کے تکامل میں بڑی رکاوٹ ہے۔ غربت و افلاس انسان کی شخصیت کو برباد کر دیتی ہے۔ غربت و ناداری کے معاشرے پر بھی بہت منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے کینہ اور بغض جیسی لاعلاج بیماریاں پروان چڑھتی ہیں۔ بسا اوقات ناامید غریب شخص پورے معاشرے پر اپنا بوجھ ڈال دیتا ہے۔

یہاں پر اہل علم، دانشوروں، اور صاحب حیثیت افراد کو اپنا کردار پیش کرنا چاہیئے کہ وہ معاشرے کو غربت کے منفی اثرات سے پاک اور غربت کے خاتمے کے لئے خلوص دل کے ساتھ کام کریں؛ غریب لوگوں کیلئے ملازمتیں پیدا کریں، انہیں اپنی کمپنیوں، کارخانوں میں کام کا موقع دیں، ان کی صلاحتیوں اور ہنرمندی میں مزید اضافہ کریں اور ان کے راستے میں آنے والی رکاوٹوں کو ختم کریں۔ امام علی علیہ السلام کی نگاہ میں غربت کے بہت سے منفی اثرات ہیں۔ جن میں سے ایک حقارت ہے! امام علیہ السلام  فرماتے ہیں: لوگ فقیر کو فقر کی بنا پر حقیر سمجھتے ہیں۔(الحیات، ج4، ص32) پھر فرمایا: فقیری ایک انسان کو استدلال کے وقت گنگ بنا دیتی ہے۔(الحیات، ج4، ص319) جہاں مولا علی علیہ السلام کی پوری زندگی فقر و ناداری کے خلاف جہاد میں گزری، وہیں آج مسلم معاشرے کی اکثریت فقر و ناداری کا شکار ہے۔ جس کی ایک وجہ خود ہماری سستی اور کام سے فرار ہے۔

جبکہ حضرت علی علیہ السلام معیشت کو سدھارنے کے لئے طاقت فرسا کام انجام دینے سے بھی گریز نہیں کرتے تھے اور آپ لوگوں کی معیشت سنوارنے کو خود پر لوگوں کا حق سمجھتے تھے۔(علامہ تقی جعفری، شرح نہج البلاغہ، ج9، ص25) کتب تاریخ میں مذکور ہے کہ امام علی علیہ السلام کی خلافت کے دور میں کوئی شخص بھی کوفہ میں ایسا نہیں تھا، جس کا اپنا گھر نہ ہو۔ اب یہ ہمارے معاشرے کے پڑھے لکھے طبقے کا کام ہے کہ معاشرے میں غربت کی وجوہات تلاش کرے اور انہیں حل کرنے کی کوشش کرے۔ کیونکہ فقر و ناداری، ضعف ایمان کا سبب بھی ہے۔(الحیات، ج4، ص309) جب تک یہ مشکل حل نہیں ہوگی، معاشرہ دلدل میں پھنستا چلا جائے گا۔ ماہرین اقتصادیات کے مطابق فقر، فقر پیدا کرتا  ہے۔(نگاھی بہ فقر زدائی از دیدگاہ اسلام، ص34) امام علی علیہ السلام فقراء کی دستگیری اور ان کی دیکھ بھال کے بارے میں فرماتے ہیں: خدا را خدا را نچلے طبقے کا خیال رکھیں کہ جن کے لئے کوئی راستہ نہیں ہے۔(نھج البلاغہ مکتوب53۔) لہذا اس کے لئے کوئی راہ حل تلاش کرنا چاہیئے، تاکہ معاشرے کو غربت و افلاس سے نجات دلائی جاسکے۔ اس کے لئے ہم سب کو جدوجہد کرنی ہوگی۔ پوری قوم کو مل کر کوشش کرنی ہوگی۔ دنیا اور آخرت کی بھلائی اسی میں ہے۔

کورونا سے بوکھلا چکے امریکی صدر نے ظاہراً ہر قیمت پر کورونا وائرس کی روک تھام کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ وہ اپنے ملک کے جنگی دور کے قوانین کو استعمال کرتے ہوئے، اب تک کینیڈا فرانس اور جرمنی کے ذریعے چین سے خریدے جا چکے طبی ساز و سامان کو زیادہ پیسہ دے کر لے اڑ چکے ہیں اور دوسروں کا حق مار کر اپنے عوام کا حق ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس ماڈرن ڈکیتی کا شکار ہونے والے کینیڈا، فرانس اور جرمنی نے ٹرمپ کے اس غیر اخلاقی اور غیر ذمہ دارانہ اقدام پر اپنی سخت برہمی ظاہر کی ہے۔

ایرانی پارلیمنٹ کے نمائندے جبار کوچکی نژاد  نے ایرانی حکام کو اندرونی توانائیوں سے استفادہ کرنے کی سفارش کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کو مغربی ممالک کی مدد کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ امریکہ اور مغربی ممالک آج خود کورونا وائرس سے نمٹنے میں ناکام ہوگئے ہیں ۔ کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے کے سلسلے میں ہمیں مغربی ممالک کی امداد کی توقع نہیں رکھنی چاہیے کیونکہ وہ خود اس وبا سے نمٹنے میں بری طرح ناکام ہوچکے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ہمیں ملک کی اندرونی ظرفیتوں اور صلاحیتوں سے بھر پور استفادہ کرنا چاہیے کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے کے سلسلے میں حکومت اور عوام  ایک پیج پر ہیں۔  کوچکی نژاد نے کہا کہ ہم عوام کے تعاون سے کورونا وائرس کو شکست دے سکتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ صوبہ گیلان میں کورونا وائرس کے کیسز زيادہ تھے جہاں اب ان کیسز میں کمی آگئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایران کو مغربی ممالک کی مدد کی کوئي ضرورت نہیں ، ایران اپنی اندرونی صلاحیتوں سے استفادہ کرتے ہوئے کورونا وائرس کو شکست دے سکتا ہے

اسلامی جمہوریہ ایران میں ہندوستان کے سفیر گدام درمندرا Gaddam Dharmendra  نے کل قم کے گورنر بہرام سرمست سے ہونے والی ملاقات میں کہا کہ ہندوستان کے پاس کورونا کا مقابلہ کرنے کیلئے طبی وسائل اور ماہر ڈاکٹروں کی کمی ہے۔

ہندوستان کے سفیر نے قم میں ہندوستانی شہریوں کے علاج معالجے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہماری حکومت کی پہلی ترجیح ہندوستانی باشندوں کی واپسی ہے تا کہ اس طرح ہم ایران سے ہندوستانی شہریوں کے علاج معالجے کے بوجھ کو کم کر سکیں۔

قم کے گورنر نے اس ملاقات میں کورونا وائرس کے پھیلنے کے ساتھ ہی ایران میں مقیم غیر ملکی باشندوں کی صحت و سلامتی اور علاج معالجے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہر حکومت پہلے اپنے باشندوں کا علاج معالجہ کرتی ہے تاہم ایران میں اس قسم کا رویہ نہیں پایا جاتا اور یہاں سب برابر ہیں۔

بهرام سرمست نے اسی طرح 802 ہندوستانی باشندوں کی 5 مرحلوں میں ہندوستان روانگی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران میں ہندوستانی با شندوں کا علاج ہو رہا ہے اور انھیں ہوٹلوں اور دوسری جگہوں میں قرنطینہ کیا گیا ہے۔

امریکہ میں کورونا وائرس کے معاملے ہر روز بڑھتے ہی جا رہے ہیں اور گزشتہ 24 گھنٹے کے دوران مزید ہزاروں افراد کورونا میں مبتلا ہوگ‏ئے۔ اس طرح اس ملک میں کورونا سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد 3 لاکھ  56 ہزار 7 ہو گئی جبکہ ہلاکتوں کی تعداد بڑھ کر10467 ہو گئی۔

امریکی حکومت نے دیگر ممالک کی بہ نسبت بہت دیر سے کورونا ٹیسٹنگ کا آغاز کیا ہے اور اس وقت کورونا بیماروں میں اچانک اضافے کے بعد امریکہ کے طبی مراکز کورونا ٹیسٹ کیٹس کی قلت سے روبرو ہیں۔

عالمی ادارہ صحت نے گزشتہ ہفتے یہ خدشہ ظاہر کیا تھا کہ امریکہ دنیا میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے اصل مرکز میں تبدیکل ہو سکتا ہے۔ اس وقت امریکہ کی تمام پچاس ریاستوں میں کورونا وائرس سرایت کر چکا ہے اور اس وبا کا شکار ہونے والوں کی تعداد کے لحاظ سے امریکہ دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ برس دسمبر کے آخر میں چین کے ہوبئی صوبے سے کورونا وائرس کے معاملے شروع ہوئے تھے اور اب یہ وبا دنیا کے بیشتر ممالک میں پھیل چکی ہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کی پارلیمنٹ کے اسپیکر کےعالمی امور کے نمائندے حسین امیرعبداللهیان نے اپنی ٹویٹ میں اس جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ کورونا بحران نے ثابت کردیا کہ امریکہ نہ فقط دنیا کو چلانے کی طاقت و توانائی نہیں رکھتا بلکہ وہ تو اپنے ملک کو بھی چلانے میں ناکام رہا ہے کہا کہ اس بحران نے ون مین شو اور عالمی نظام کو ایک ملک کی جانب سے چلانے کے انسانی دعوے کو بے نقاب کردیا ہے۔

امریکی حکومت نے دیگر ممالک کی بہ نسبت بہت دیر سے کورونا ٹیسٹنگ کا آغاز کیا ہے اور اس وقت کورونا بیماروں میں اچانک اضافے کے بعد امریکہ کے طبی مراکز کورونا ٹیسٹ کیٹس کی قلت سے روبرو ہیں۔

امریکہ میں کورونا وائرس کے معاملے ہر روز بڑھتے ہی جا رہے ہیں اور گزشتہ 24 گھنٹے کے دوران مزید ہزاروں افراد کورونا میں مبتلا ہوگ‏ئے۔ اس طرح اس ملک میں کورونا سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد 3 لاکھ  56 ہزار 7 ہو گئی جبکہ ہلاکتوں کی تعداد بڑھ کر10467 ہو گئی ہے۔

تحریر: محمد زینی (کالم نگار المیادین نیوز ویب سائٹ)

جب 1965ء میں یورپی یونین کی بنیاد رکھی گئی تھی تو وہ ایک اقتصادی اور سیاسی اکائی اور متحدہ مارکیٹ دکھائی دے رہا تھا اور بعد میں ایک مشترکہ کرنسی بھی جاری کر دی گئی تھی۔ سب یہ توقع کر رہے تھے کہ یونین تشکیل پانے کے بعد یورپی ممالک کے اندر انتہائی مضبوط تعلق پیدا ہو جائے گا جس کے باعث وہ مستقبل میں پیش آنے والے ناگوار حوادث اور چیلنجز سے مل کر مقابلہ کریں گے۔ لیکن حال ہی میں دنیا بھر میں کرونا وائرس کی خطرناک وبا پھیلی ہے جو اب یورپی ممالک تک بھی پہنچ چکی ہے۔ اٹلی اور اسپین دو ایسے یورپی ممالک ہیں جہاں کرونا وائرس کے باعث اموات کی تعداد بہت زیادہ رہی ہے۔ کرونا وائرس کی جانب سے یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے لینے کے بعد یورپی یونین سے متعلق پرانا تصور اور توقعات بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔ یورپی ممالک کے درمیان مشترکہ سرحدیں مکمل طور پر بند کر دی گئی ہیں، اور یورپی یونین کے رکن ممالک ایک دوسرے سے دور ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ رکن ممالک نے ایکدوسرے کی مدد کرنے سے صاف انکار کر دیا ہے جس کی واضح مثال اٹلی اور سربیا ہیں۔

اٹلی کے صدر نے ایک طرف یورپی یونین کو اپنی مدد نہ کرنے پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے جبکہ دوسری طرف چین سے مدد کی درخواست کرتے ہوئے کہا ہے وہ چین کی جانب سے ہر قسم کے امدادی اقدام کا خیرمقدم کریں گے۔ کرونا وائرس کا مقابلہ کرنے کیلئے اب تک یورپی ممالک کے سربراہان مملکت کئی ہنگامی اجلاس بھی منعقد کر چکے ہیں لیکن کسی مشترکہ راہ حل تک پہنچنے میں ناکام رہے ہیں۔ شمالی یورپ کے ممالک جیسے ہالینڈ کا خیال ہے کہ موجودہ حالات کے پیش نظر ہر یورپی ملک کرونا وائرس کے باعث پیدا ہونے والی مشکلات کا مقابلہ کرنے کیلئے اپنی اندرونی صلاحیتوں پر بھروسہ کرے۔ دوسری طرف جنوبی یورپ کے ممالک جیسے اٹلی، اسپین اور یونان کا نقطہ نظر ہے کہ کرونا وائرس کا پھیلاو کنٹرول سے باہر ہو چکا ہے اور موجودہ صورتحال کا مقابلہ صرف آپس میں مل کر ہی کیا جا سکتا ہے۔ فرانس بھی ان کے موقف کی حمایت کر رہا ہے۔ ان ممالک کا مدعی ہے کہ اگر اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کیلئے مشترکہ حکمت عملی نہ اپنائی گئی تو عنقریب بہت بڑا انسانی المیہ رونما ہو گا۔

اگر ہم کرونا وائرس سے درپیش حالات کا مقابلہ کرنے میں یورپی یونین کے حریف ممالک جیسے چین، روس اور کیوبا کے اقدامات کا جائزہ لیں تو دیکھیں گے کہ انہوں نے آپس میں بہت گہرا تعاون کیا ہے۔ تینوں ممالک سے میڈیکل ٹیمیں اور ضروری سازوسامان ایکدوسرے کو فراہم کیا گیا ہے۔ ان ممالک کی یہ حکمت عملی کامیاب بھی ثابت ہوئی ہے۔ یورپی یونین کا مستقبل روشن نہیں ہے۔ اسی طرح امریکہ کی دنیا میں سپر پاور ہونے کی حیثیت بھی شدید خطرے میں پڑ گئی ہے۔ کرونا وائرس سے درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بعض ریاستوں خاص طور پر نیویارک کے گورنرز کے درمیان شدید اختلافات سامنے آئے ہیں۔ ان اختلافات کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے امریکہ اندر سے ٹوٹ رہا ہے۔ یوں محسوس ہو رہا ہے کہ امریکہ میں کرونا وائرس سے درپیش حالات دھیرے دھیرے سیاسی رنگ اختیار کرتے جا رہے ہیں اور مختلف صدارتی امیدوار انہیں اپنے اپنے سیاسی مفادات کیلئے استعمال کر رہے ہیں۔ کرونا وائرس کے باعث پیدا ہونے والی وبائی مرض کی وجہ سے تاریخ میں پہلی بار امریکہ اور یورپی یونین آمنے سامنے کھڑے دکھائی دے رہے ہیں۔

مذکورہ بالا حالات کے تناظر میں دوسری عالمی جنگ کے بعد تشکیل پانے والا عالمی نظام متزلزل دکھائی دے رہا ہے۔ یورپی ممالک اور امریکہ کی جانب سے واحد مشترکہ حکمت عملی تک پہنچنے میں ناکامی کے باعث ان کا انتشار اور عجز و ناتوانی عیاں ہو چکی ہے۔ دوسری طرف چین، روس اور کیوبا جیسے ممالک موجودہ بحرانی حالات میں سپر پاور کا کردار ادا کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ انہوں نے کرونا وائرس کا شکار ممالک کو مدد کی پیشکش کر رکھی ہے اور اب تک اس بارے میں اہم اور مفید اقدامات بھی انجام دے چکے ہیں۔ اسپین کے وزیراعظم پیدرو سینچیز نے حال ہی میں گارجین اخبار میں ایک مقالہ شائع کیا ہے جس میں انہوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ کرونا وائرس نے یورپی یونین کے مستقبل کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ کرونا وائرس کے خلاف موجودہ جنگ ان تمام جنگوں سے مختلف ہے جو ماضی میں یورپی ممالک کو درپیش رہی تھیں۔ اگر ہم موجودہ جنگ میں باہمی اتحاد اور ہم آہنگی کا مظاہرہ نہیں کرتے تو یورپی یونین کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ ہم نے ماضی سے یہی سبق سیکھا ہے کہ اگر ہم سب فاتح نہ ہوں تو گویا سب شکست کا شکار ہو چکے ہیں۔