


عالمی یوم قدس پر رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای کا خطاب
بسم الله الرحمن الرحیم
و الحمد لله ربّ العالمین و صلی الله علی محمد و آله الطاهرین و صحبه المنتجبین و من تبعهم باحسان الی یوم الدین
ساری دنیا کے مسلمان بھائیوں اور بہنوں پر درود و سلام بھیجتا ہوں، اللہ تعالی سے مبارک مہینے رمضان میں ان کی عبادتوں کی قبولیت کی دعا کرتا ہوں، عید سعید فطر کی انھیں پیشگی مبارکباد دیتا ہوں اور ضیافت خداوندی کے اس مہینے میں موجود رہنے کی نعمت پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں۔
آج یوم قدس ہے۔ وہ دن جو امام خمینی کی جدت عمل سے قدس شریف اور مظلوم فلسطین کے بارے میں مسلمانوں کی آوازوں کو ایک لڑی میں پرونے کا ذریعہ بن گیا۔ ان چند عشروں میں اس سلسلے میں اس کا بنیادی کردار رہا اور ان شاء اللہ آئندہ بھی رہے گا۔ اقوام نے یوم قدس کا خیر مقدم کیا اور اسے اولین ترجیح یعنی فلسطین کی آزادی کا پرچم بلند رکھنے کے مشن کے طور پر منایا۔ استکبار اور صیہونیت کی بنیادی پالیسی مسلمان معاشروں کے اذہان میں مسئلہ فلسطین کو بے رنگ کر دینا اور فراموشی کی طرف دھکیل دینا ہے۔ سب کا فوری فریضہ اس خیانت کا سد باب ہے جو خود اسلامی ممالک میں دشمن کے سیاسی اور ثقافتی ایجنٹوں کے ذریعے انجام پا رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسئلہ فلسطین ایسا قضیہ نہیں ہے جسے مسلمان اقوام کی غیرت، روز افزوں خود اعتمادی و بیداری فراموش ہو جانے دے گی۔ حالانکہ اس مقصد کے لئے امریکہ اور دیگر تسلط پسند طاقتیں اور ان کے مہرے اپنا پیسہ اور طاقت استعمال کر رہے ہیں۔
سب سے پہلی بات مملکت فلسطین کے غصب کر لئے جانے اور وہاں صیہونیت کا کینسر وجود میں آنے کے بڑے المئے کی یادہانی کرانا ہے۔ ماضی قریب کے ادوار کے انسانی جرائم میں اس پیمانے اور اس شدت کا کوئی اور جرم رونما نہیں ہوا۔ ایک ملک کو غصب کر لینا اور عوام الناس کو ہمیشہ کے لئے ان کے گھربار اور موروثی سرزمین سے بے دخل کر دینا وہ بھی قتل و جرائم، کھیتیوں اور نسلوں کی تباہی کی المناک ترین شکل میں اور دسیوں سال تک اس تاریخی ستم کا تسلسل، حقیقت میں انسان کی درندگی اور شیطانی خو کا نیا ریکارڈ ہے۔
اس المئے کی اصلی مجرم اور ذمہ دار مغربی حکومتیں اور ان کی شیطانی پالیسیاں تھیں۔ جس دن پہلی عالمی جنگ کی فاتح حکومتیں مغربی ایشیا کے علاقے یعنی حکومت عثمانیہ کی ایشیائي قلمرو کو سب سے اہم مال غنیمت کے طور پر پیرس کانفرنس میں آپس میں تقسیم کر رہی تھیں، اس علاقے پر اپنے دائمی تسلط کے لئے اس کے قلب میں ایک محفوظ جگہ کی ضرورت انھیں محسوس ہوئی۔ برطانیہ نے برسوں پہلے بالفور منصوبہ پیش کرکے زمین ہموار کر دی تھی اور یہودی سرمایہ داروں کو ہم خیال بنا کر مشن کو آگے بڑھانے کے لئے صیہونزم نام کی بدعت تیار کر لی تھی۔
اب اس کے عملی مقدمات فراہم ہونے لگے تھے۔ انھیں برسوں سے بتدریج مقدمات ترتیب سے آمادہ کئے جا رہے تھے اور سرانجام دوسری عالمی جنگ کے بعد علاقے کی حکومتوں کی غفلت اور مشکلات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انھوں نے اپنی ضرب لگائی اور جعلی اور بغیر قوم کی حکومت کا اعلان کر دیا۔
اس ضرب کی زد پر سب سے پہلے ملت فلسطین اور اس کے بعد علاقے کی تمام اقوام تھیں۔
علاقے میں بعد کے واقعات کے جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ مغربی حکومتوں اور یہودی سرمایہ داروں کا صیہونی حکومت کی تشکیل کا اصلی اور فوری مقصد مغربی ایشیا میں اپنے دائمی رسوخ اور موجودگی کے لئے ایک اڈا قائم کرنا اور علاقے کے ممالک اور حکومتوں کے امور میں دخل اندازی اور ان پر اپنی مرضی مسلط کرنے کے لئے قریب سے رسائی کے امکانات حاصل کرنا تھا۔ اسی لئے جعلی و غاصب حکومت کو طاقت کے گوناگوں عسکری و غیر عسکری وسائل یہاں تک کہ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس کر دیا اور نیل سے فرات تک کے علاقے میں اس سرطان کی توسیع کو اپنے ایجنڈے میں جگہ دی۔
بد قسمتی سے بیشتر عرب حکومتوں نے ابتدائی مزاحمتوں کے بعد جن میں بعض قابل تعریف ہیں، بتدریج ہتھیار ڈال دئے اور خاص طور پر اس مسئلے کے ذمہ دار کے طور پر ریاستہائے متحدہ امریکہ کے وارد ہو جانے کے بعد انھوں نے انسانی، اسلامی اور سیاسی فریضے کو بھی اور اپنی عربی غیرت و حمیت کو بھی بالائے طاق رکھ دیا اور موہوم امیدیں لگا کر دشمن کے اہداف کی تکمیل میں مدد کی۔ کیمپ ڈیوڈ اس تلخ حقیقت کی واضح مثال ہے۔
مجاہد تنظیموں نے بھی شروع کے برسوں میں فداکارانہ جدوجہد کے بعد رفتہ رفتہ غاصب قوت اور اس کے حامیوں سے بے نتیجہ مذاکرات میں پڑ گئیں اور اس راستے کو ترک کر دیا جو فلسطین کی امنگیں پوری کر سکتا تھا۔ امریکہ اور دیگر مغربی حکومتوں اور بے اثر بین الاقوامی اداروں سے مذاکرات، فلسطین کا تلخ اور ناکام تجربہ ہے۔ اقوام متحدہ کیجنرل اسمبلی میں زیتون کی شاخ دکھانے کا نتیجہ اوسلو کے زیاں بار معاہدے کے علاوہ کچھ نہیں نکلا اور آخرکار یاسر عرفات کے عبرتناک انجام پر منتج ہوا۔
ایران میں اسلامی انقلاب کے طلوع سے فلسطین کے لئے جہاد کا نیا باب کھل گیا۔ پہلے قدم کے طور پر صیہونی عناصر کو باہر بھگانے جو طاغوتی (شاہی) دور میں ایران کو اپنا محفوظ ٹھکانا شمار کرتے تھے اور صیہونی حکومت کے غیر رسمی سفارت خانے کو فلسطینی نمائندہ دفتر کو سونپنے اور تیل کی سپلائی بند کرنے سے لیکر بڑے کاموں اور وسیع سیاسی اقدامات تک ساری کاروائیوں کے نتیجے میں پورے علاقے میں مزاحمتی محاذ وجود میں آیا اور مسئلے کے حل کی امید پیدا ہوئی۔ مزاحمتی محاذ کے نمودار ہو جانے کے بعد صیہونی حکومت کا کام سخت سے سخت تر ہوتا گیا۔ البتہ مستقبل میں ان شاء اللہ اور بھی سخت تر ہو جائے گا۔ لیکن اس رژیم کے حامیوں اور ان میں سر فہرست امریکہ نے اس کا دفاع بھی شدت کے ساتھ بڑھا دیا۔ لبنان میں مومن، نوجوان اور فداکار حزب اللہ کی تشکیل اور فلسطین کی سرحدوں کے اندر جوش و جذبے سے معمور تنظیموں حماس اور جہاد اسلامی کی تشکیل نے صیہونی عمائدین ہی نہیں بلکہ امریکہ اور دیگر مغربی دشمنوں کو مضطرب اور سراسیمہ کر دیا تو انھوں نے غاصب حکومت کی فکری و عسکری حمایت کے بعد علاقے کے اندر اور خود عرب معاشرے کے اندر سے ایجنٹوں کی بھرتی کو اپنے ایجنڈے میں شامل کر لیا۔ ان کی پیہم کوششوں کا نتیجہ آج بعض عرب حکومتوں کے عمائدین اور بعض خائن عرب سیاسی و ثقافتی کارکنوں کے روئے اور بیانوں میں نمایاں اور سب کی نظروں کے سامنے ہے۔
اس وقت مقابلہ آرائی کے میدان میں دونوں طرف سے گوناگوں سرگرمیاں نظر آ رہی ہیں، بس اس فرق کے ساتھ کہ مزاحمتی محاذ روز افزوں اقتدار و امید اور قوت کے عناصر کی فہرست میں مسلسل اضافے کی طرف گامزن ہے جبکہ اس کے برخلاف ظلم و کفر و استکبار کا محاذ روز بہ روز خالی ہاتھ، مایوس اور ناتواں ہوتا جا رہا ہے۔ اس خیال کی روشن دلیل یہ ہے کہ صیہونی فوج جو کبھی ناقابل تسخیر اور برق آسا سمجھی جاتی تھی اور جس نے دو حملہ آور ممالک کی بڑی افواج کو چند دنوں کے اندر روک سکتی تھی، آج لبنان اور غزہ میں عوامی مزاحمتی فورسز کے سامنے پسپا ہونے اور اعتراف شکست کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔
اس کے باوجود مقابلہ آرائی کا میدان بہت خطرناک ہے، حالات کا رخ بدل جانے کا امکان ہے، دائمی نگرانی لازمی ہے اور اس مقابلہ آرائی کا موضوع حد درجہ اہم، فیصلہ کن اور حیاتی ہے۔ بنیادی تخمینوں میں کسی بھی طرح کی غفلت، سادہ فکری اور غلطی کے بڑے سنگین نقصانات ہوں گے۔
اس بنیاد پر میں ان تمام افراد کو جو مسئلہ فلسطین سے قلبی وابستگی رکھتے ہیں چند سفارشات کرنا چاہتا ہوں۔
1- فلسطین کی آزادی کے لئے جنگ، راہ خدا میں جہاد، اسلامی مطالبہ اور فریضہ ہے۔ ایسی لڑائی میں فتح یقینی ہے، کیونکہ مجاہد شخص قتل ہو جانے کی صورت میں بھی 'احدی الحسنیین' (دو عظیم نیکیوں میں سے کسی ایک) تک رسائی ضرور حاصل کر لے گا۔ اس کے علاوہ بھی مسئلہ فلسطین ایک انسانی مسئلہ ہے۔ دسیوں لاکھ انسانوں کو ان کے گھر، کھیت، زندگی گزارنے اور کسب معاش کرنے کی جگہ سے بے دخل کر دینا وہ بھی قتل اور مجرمانہ اقدامات کے ذریعے، ہر صاحب ضمیر انسان کو آزردہ خاطر اور متاثر کرتا ہے اور ہمت و شجاعت ہونے کی صورت میں اسے مقابلے پر اٹھ کھڑے ہونے کے لئے آمادہ کرتا ہے۔ اس لئے اسے صرف فلسطین کا مسئلہ یا زیادہ سے زیادہ عربوں کا مسئلہ قرار دے دینا بہت بڑی بھول ہے۔
جو لوگ چند فلسطینی عناصر یا چند عرب ممالک کے حکام کی مصالحتی کوششوں کو اس اسلامی اور انسانی مسئلے کو اس کے حال پر چھوڑ دینے کا جواز سمجھتے ہیں، وہ اس مسئلے کے ادراک میں شدید غلطی بلکہ بسا اوقات اس میں تحریف جیسی خیانت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
2- اس پیکار کا اصلی مقصد 'سمندر سے دریا تک' (یعنی بحیرہ روم سے دریائے اردن تک) پوری سرزمین فلسطین کی آزادی اور تمام فلسطینیوں کی وطن واپسی ہے۔ اس (عظیم مقصد) کو اس سرزمین کے کسی گوشے میں ایک حکومت کی تشکیل تک محدود کر دینا، وہ بھی اس تحقیر آمیز شکل میں جس کی بات بے ادب صیہونی کرتے ہیں، نہ حق جوئی کی علامت ہے اور نہ حقیقت پسندی کی نشانی۔ امر واقع یہ ہے کہ آج ملینوں فلسطینی فکر، تجربے اور خود اعتمادی کی اس منزل پر پہنچ چکے ہیں کہ اس عظیم جہاد کے لئے انھوں نے کمر ہمت باندھ لی ہے، البتہ انھیں نصرت خداوندی اور حتمی فتح کا یقین رکھنا چاہئے، کیونکہ ارشاد ہوا ہے؛ وَلَيَنصُرَنَّ اللَّهُ مَن يَنصُرُه إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ .. بے شک دنیا میں بہت سے مسلمان ہیں جو ان شاء اللہ ان کی مدد کریں گے اور ان کے درد میں شریک ہوں گے۔
3- اگرچہ اس لڑائی میں تمام حلال اور شرعی وسائل منجملہ عالمی حمایت سے استفادہ جائز ہے لیکن خاص طور پر مغربی حکومتوں اور ظاہری یا باطنی طور پر ان پر منحصر عالمی اداروں پر اعتماد کرنے سے پرہیز کرنا چاہئے۔ وہ ہر موثر اسلامی طاقت کے وجود کے دشمن ہیں۔ انھیں انسانوں اور اقوام کے حقوق کی کوئی پروا نہیں ہے۔ وہ خود مسلم امہ کو پہنچنے والے بیشتر نقصانات اور اس کے خلاف انجام پانے والے جرائم کے ذمہ دار ہیں۔ اس وقت کئی اسلامی و عرب ممالک میں جاری قتل عام، جنگ افروزی، بمباری یا مسلط کردہ خشکسالی کے سلسلے میں کون عالمی ادارہ یا جرائم پیشہ طاقت جوابدہ ہے؟
آج دنیا عالمی سطح پر کورونا سے ہونے والی اموات کو تو گن رہی ہے لیکن کسی نے نہیں پوچھا اور نہ پوچھے گا کہ جن ممالک میں امریکہ اور یورپ نے جنگ کی آگ بھڑکائی ہے وہاں لاکھوں افراد کی شہادت، قید اور گمشدگی کا ذمہ دار کون ہے؟ افغانستان، یمن، لیبیا، عراق، شام اور دیگر ممالک میں بہائے جانے والے اس خون ناحق کا ذمہ دار کون ہے؟ فلسطین میں جاری ان جرائم، غاصبانہ و تخریبی اقدامات اور مظالم کا ذمہ دار کون ہے؟ اسلامی ممالک کے دسیوں لاکھ مظلوم مردوں اور خواتین کو کوئی شمار کیوں نہیں کرتا؟ مسلمانوں کے قتل عام پر کوئی تعزیت کیوں نہیں دیتا؟ ملینوں فلسطینی ستر سال سے اپنے گھر بار سے دور جلا وطنی میں کیوں رہیں؟ مسلمانوں کے قبلہ اول کی کیوں توہین کی جائے؟ نام نہاد اقوام متحدہ اپنے فرائض پر عمل نہیں کر رہی ہے اور نام نہاد انسانی حقوق کی تنظیموں کو موت آ گئی ہے۔'بچوں اور خواتین کے حقوق کے نعرے'کا اطلاق یمن اور فلسطین کے مظلوم بچوں اور خواتین پر نہیں ہوتا۔
دنیا کی ظالم مغربی طاقتوں اور ان سے وابستہ عالمی اداروں کی یہ حالت ہے۔ علاقے میں ان کی بعض ہمنوا حکومتوں کی رسوائی اور ذلالت کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔
تو غیور و دیندار مسلم معاشرے کے لئے ضروری ہے کہ اپنے اوپر اور اپنی داخلی توانائیوں پر تکیہ کرے، اپنا طاقتور ہاتھ آستین سے باہر لائے اور اللہ پر توکل اور اعتماد کرکے رکاوٹوں کو عبور کرے۔
4- اہم نکتہ جو عالم اسلام کی سیاسی و دفاعی شخصیات کی نظر سے پنہاں نہیں رہنا چاہئے، تصادم اور جھڑپوں کو مزاحمتی محاذ کی پشت پر پہنچانے کی امریکہ اور صیہونیوں کی سیاست ہے۔ شام میں خانہ جنگی شروع کروانا، یمن کی ناکہ بندی اور وہاں شب و روز قتل عام، عراق میں ٹارگٹ کلنگ، تخریبی اقدامات اور داعش کی تشکیل، علاقے کے بعض دیگر ممالک میں ایسے ہی واقعات، یہ سب مزاحمتی محاذ کو الجھا دینے اور صیہونی حکومت کو موقع دینے کے حربے ہیں۔ بعض مسلم ممالک کے سیاستدانوں نے نادانستگی میں اور بعض نے دانستہ طور پر دشمن کے ان حربوں کی مدد کی ہے۔ اس خبیثانہ سیاست کے نفاذ کا سد باب کرنے کا طریقہ پورے عالم اسلام میں غیور نوجوانوں کی طرف سے پرزور مطالبہ ہے۔ تمام اسلامی ممالک اور خاص طور پر عرب ممالک میں نوجوانوں کو امام خمینی کی سفارشات کو نظر سے دور نہیں ہونے دینا چاہئے، جنہوں نے فرمایا: جتنا چیخنا ہے امریکہ پر اور بے شک صیہونی دشمن پر چیخئے۔
5- علاقے میں صیہونی حکومت کی موجودگی کو معمول کی بات بنا دینا ریاستہائے متحدہ امریکہ کی سب سے بنیادی پالیسی ہے۔ علاقے کی بعض عرب حکومتیں جو امریکہ کے اشارے پر چلتی ہیں، اس کے لازمی مقدمات جیسے اقتصادی روابط قائم کرنے وغیرہ کا کام انجام دے رہی ہیں۔ یہ کوششیں سرے سے بے ثمر اور بے نتیجہ ہیں۔ صیہونی حکومت اس علاقے کے لئے ایک مہلک اضافہ اور سراپا نقصان ہے جو بلا شبہ ختم اور نابود ہو جائے گی اور ان لوگوں کے ہاتھ صرف ذلت اور بدنامی لگے گی جنہوں نے اپنے تمام وسائل اس استکباری سیاست کے لئے وقف کر رکھے ہیں۔ بعض اپنی اس پست روش کا یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ صیہونی حکومت علاقے کی ایک حقیقت ہے، انھیں یہ یاد نہیں کہ مہلک اور زیاں بار حقیقتوں سے لڑنا اور انھیں ختم کرنا ہوتا ہے۔ آج کورونا ایک حقیقت ہے اور سارے باشعور افراد اس کے خلاف جنگ کو لازمی جانتے ہیں۔ صیہونزم کا دیرینہ وائرس بلا شبہ اب زیادہ نہیں ٹکے گا اور نوجوانوں کی ہمت، قوت ایمانی اور حمیت اس علاقے سے اسے اکھاڑ پھینکے گی۔
6- میری سب سے بنیادی سفارش ہے جدوجہد کا تسلسل، مجاہد تنظیموں کی مزید تقویت، ان کا باہمی تعاون اور جہاد کا دائرہ پورے فلسطینی علاقوں تک پھیلانا۔ اس مقدس جہاد میں سب ملت فلسطین کی مدد کریں۔ سب کو چاہئے کہ فلسطینی مجاہدین کو پوری طرح لیس اور اس کی پشت پناہی بڑھائيں۔ اس راہ میں ہم فخر سے وہ سب کچھ صرف کریں گے جو ہمارے پاس ہوگا۔ ایک موقع پر ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ فلسطینی مجاہد کے پاس دین، غیرت اور شجاعت موجود ہے، اس کی واحد مشکل اسلحے کا نہ ہونا ہے۔ ہم نے نصرت و ہدایت خداوندی سے منصوبہ بندی کی اور نتیجہ یہ ہوا کہ فلسطین میں طاقت کا توازن بدل گیا اور آج غزہ صیہونی دشمن کی فوجی یلغار کے مقابلے میں کھڑا ہو سکتا ہے اور اسے مغلوب کر سکتا ہے۔ مقبوضہ فلسطین کہے جانے والے علاقے میں طاقت کے توازن کی تبدیلی مسئلہ فلسطین کو اس کی آخری منزل کے قریب کرے گی۔ اس مسئلے میں فلسطینی انتظامیہ کے دوش پر بہت سنگین ذمہ داری ہے۔ وحشی دشمن سے صرف مقتدرانہ لہجے میں بات کرنا چاہئے اور اس قوت و طاقت کے لئے فلسطین کی شجاع اور مجاہد قوم کے اندر بحمد اللہ مقدمات فراہم ہیں۔ فلسطین نوجوان آج اپنی عزت نفس کے دفاع کے پیاسے ہیں۔ فلسطین میں حماس اور جہاد اسلامی نے اور لبنان میں حزب اللہ نے سب پر حجت تمام کر دی ہے۔ دنیا وہ دن نہ بھولی ہے اور نہ بھولے گی جب صیہونی فوج نے لبنان کی سرحد توڑی اور بیروت تک بڑھتی چلی گئی، اسی طرح وہ دن جب ایریئل شیرون نام کے مجرم نے صبرا و شتیلا میں خون کی ندیاں بہا دیں۔ اسی طرح وہ دن بھی نہ بھولی ہے اور نہ بھولے گي جب حزب اللہ کے زوردار حملوں کی وجہ سے اس فوج کے پاس کوئی راستہ نہیں بچا اور وہ بہت بڑا نقصان اٹھا کر اور شکست کا اعتراف کرکے لبنان کی سرحدوں سے پیچھے ہٹی اور جنگ بندی کے لئے التجائیں کرنے لگی۔۔۔ لیس ہونے اور مقتدارانہ انداز کا یہ نتیجہ ہے۔ اس یورپی حکومت کی بات جانے دیجئے جسے صدام حکومت کو کیمیائی ہتھیار فروخت کرنے پر ہمیشہ شرمسار رہنا چاہئے، اور وہ مجاہد و سرفراز حزب اللہ کو غیر قانونی قرار دیتی ہے۔ غیر قانونی تو امریکہ جیسی حکومت ہے جو داعش کی تشکیل کرتی ہے، غیر قانونی وہ یورپی حکومت ہے جس کے کیمیکل ہتھیاروں کی وجہ سے ایران کے بانہ اور عراق کے حلبچہ علاقوں میں ہزاروں افراد لقمہ اجل بن گئے۔
7- آخری بات یہ ہے کہ فلسطین فلسطینیوں کا ہے اور اس کے امور انھیں کے ارادے کے مطابق انجام پانے چاہئے۔ فلسطین کے تمام ادیان اور قومیتوں کی شمولیت سے استصواب رائے کی جو تجویز ہم نے تقریبا دو عشرے قبل پیش کی ہے، وہ آج کے چیلنجوں اور فلسطین کے مستقبل کا واحد نتیجہ ہونا چاہئے۔ یہ تجویز ثابت کرتی ہے کہ یہودی دشمنی کے جو دعوے مغربی طاقتیں اپنے تشہیراتی ذرائع کی مدد سے دہراتی رہتی ہیں، بالکل بے بنیاد ہیں۔ اس تجویز کے مطابق فلسطینی یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کو ایک ساتھ استصواب رائے میں شرکت اور فلسطین کے لئے سیاسی نظام کا تعین کرنا ہے۔ جسے ہر حال میں مٹنا ہے وہ صیہونی نظام ہے اور صیہونیت خود دین یہود میں ایک بدعت اور اس سے بالکل بیگانہ ہے۔ آخر میں شیخ احمد یاسین، فتحی شقاقی، سید عباس موسوی سے لیکر اسلام کے عظیم سردار اور مزاحمتی محاذ کی ناقابل فراموش ہستی شہید قاسم سلیمانی اور عراق کے عظیم مجاہد شہید ابو مہدی المہندس اور دیگر شہدائے قدس کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں اور عظیم الشان امام خمینی کی روح پر درود بھیجتا ہوں جنہوں نے عزت وجہاد کا یہ راستہ ہمارے لئے تعمیر کیا۔ اسی طرح برادر مجاہد حسین شیخ الاسلام مرحوم کے لئے جنہوں نے برسوں اس راہ میں زحمتیں اٹھائیں رحمت خداوندی کی دعا کرتا ہوں۔
والسلام علیکم و رحمة الله
تحریر: علی احمدی
انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی کے بعد یوم قدس کا یہ پہلا موقع ہے جب ہمارے درمیان شہید جنرل قاسم سلیمانی موجود نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود پوری اسلامی دنیا بلکہ پوری دنیا میں وہ جذبہ بخوبی قابل مشاہدہ ہے جس کے فروغ کیلئے شہید قاسم سلیمانی نے زندگی بھر جدوجہد کی اور وہ جذبہ اور سوچ قدس شریف کی آزادی اور مظلوم فلسطینی قوم کی نجات پر مشتمل تھا۔ شہید قاسم سلیمانی جنہوں نے اپنی پوری زندگی مختلف اسلامی سرزمینوں پر جہاد فی سبیل اللہ میں وقف کر رکھی تھی اپنی زندگی کے بیس برس سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس فورس کے چیف کمانڈر کے طور پر بسر کی۔ اس دوران انہوں نے اسلامی مزاحمتی بلاک کو مضبوط بنانے اور مظلوم فلسطینی قوم کی نجات کیلئے امت مسلمہ کے غیور جوانوں کی نظریاتی اور فوجی تربیت کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اپنی پوری زندگی میں شہید قاسم سلیمانی کا بنیادی اور اصل مقصد قدس شریف کی آزادی اور اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کا خاتمہ تھا۔ اسی مقصد کے حصول کیلئے جنرل قاسم سلیمانی نے لبنان میں حزب اللہ کو مضبوط کیا اور فلسطین میں اسلامی مزاحمتی گروہوں کی تقویت کی۔
یہ شہید قاسم سلیمانی کی انہی پرخلوص کوششوں کا نتیجہ تھا کہ اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کو حزب اللہ لبنان کے خلاف 33 روزہ جنگ اور غزہ میں 22 روزہ اور 8 روزہ جنگوں میں ذلت آمیز شکستوں کا سامنا کرنا پڑا۔ درحقیقت جنرل قاسم سلیمانی نے غاصب صہیونی رژیم کے خلاف نبرد آزما جہادی گروہوں کو مضبوط بنانے پر مبنی اسلامی جمہوریہ ایران کی حکمت عملی کو انتہائی احسن انداز میں عملی جامہ پہنایا۔ اگست 2019ء میں فلسطین کی جہادی تنظیم عزالدین قسام بریگیڈز کے چیف کمانڈر کی جانب سے خط کا جواب دیتے ہوئے شہید قاسم سلیمانی لکھتے ہیں: "فلسطین کی شجاع قوم پر خدا کا سلام اور درود ہو۔ وہ قوم جس کے دل میں کروڑوں مسلمانوں کی نگاہوں کے سامنے ظالمانہ محاصرے، دشمنوں کی وحشیانہ جارحیت اور بے شمار زخموں کے باعث گہرا غم اور سینے میں جانکاہ درد موجود ہے۔" شہید قاسم سلیمانی اس خط میں فلسطینی مجاہدین کو مخاطب قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں: "سلام ہو عظیم مجاہد اور استقامت کا مظاہرہ کرنے والے اسماعیل ہنیہ پر اور ان کے باوفا ساتھیوں پر جنہوں نے غزہ میں ایمان کے جذبے سے سرشار ہو کر اور فتح کی صبح طلوع ہونے کی امید کے ساتھ حی علی الجہاد کا نعرہ لگا رکھا ہے۔"
شہید قاسم سلیمانی جو ہمیشہ مجاہدین کے دلوں کی طاقت تھے فلسطینی مجاہدین کے حوصلے بڑھاتے ہوئے لکھتے ہیں: "سب کو یہ یقین دلا دیں کہ جس قدر بھی دباو میں اضافہ ہو جائے اور جس قدر بھی گھیراو تنگ ہو جائے اسلامی جمہوریہ ایران ہر گز اسلامی دنیا کے نگینے یعنی فلسطین اور قبلہ اول مسلمین اور پیغمبر اکرم ص کی معراج گاہ کی حمایت اور مدد نہیں چھوڑے گا۔ فلسطین کا دفاع ہمارے لئے عزت اور فخر کا باعث ہے اور ہم کبھی بھی اس دنیا کی لاش کی چمک اور جھوٹے جلووں کی خاطر اپنی اس دینی ذمہ داری سے کوتاہی نہیں کریں گے۔ فلسطین کا دفاع حقیقی معنی میں اسلام اور قرآن کا دفاع ہے اور جو بھی آپ کی پکار نہ سنے اور آپ کی مدد کو نہ دوڑے وہ مسلمان نہیں ہے۔" شاید فلسطینی مجاہدین کے ساتھ شہید قاسم سلیمانی کا یہی گہرا قلبی تعلق اور شہید قاسم سلیمانی کی عظیم شخصیت تھی جو حماس کے مرکزی رہنما اسماعیل ہنیہ کو اس شہید کی نماز جنازہ میں شرکت کیلئے تہران کھینچ لائی۔ اسماعیل ہنیہ نے جنازے میں شریک لاکھوں افراد کے عظیم الشان اجتماع میں تقریر کرتے ہوئے کہا: "یہ عظیم کمانڈر شہید قدس، شہید قدس، شہید قدس ہے۔"
اسرائیل کی غاصب اور قاتل صہیونی رژیم کی نابودی اور خاتمہ شہید قاسم سلیمانی کی دلی آرزو تھی۔ شہید قاسم سلیمانی کی نظر میں پورے خطے میں امن کا قیام اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اسرائیل جیسی دہشت گرد رژیم کا خاتمہ نہیں ہو جاتا۔ شہید قاسم سلیمانی نے شہید عماد مغنیہ کی دسویں برسی کی مناسبت سے اجتماع میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا: "وہ حقیقت جس سے دشمن بھی آگاہ ہے اور اسے چاہئے کہ وہ بہت اچھی طرح جان لے یہ ہے کہ عماد مغنیہ کے قتل کا بدلہ چند میزائل فائر کرنا نہیں۔ عماد مغنیہ کے قتل کا بدلہ چند افراد کو قتل کرنا نہیں۔ عماد مغنیہ اور فلسطین اور لبنان میں شہید ہونے والے تمام مجاہدین کے خون کا بدلہ اس قاتل صہیونی رژیم کا مکمل خاتمہ اور نابودی ہے۔" دوسری طرف شہید قاسم سلیمانی اسرائیل کی نابودی کو ایک یقینی امر جانتے تھے۔ وہ کہتے تھے: "دشمن جانتا ہے کہ یہ امر (اسرائیل کی نابودی) یقینی ہے اور جانتا ہے کہ جتنے بھی افراد شہید ہو رہے ہیں روزنہ اتنے ہی بچے پیدا ہو رہے ہیں جو اسی راستے پر گامزن ہوں گے اور شہداء کی خالی جگہ پر کر دیں گے۔ لہذا یہ الہی وعدہ پورا ہو کر رہے گا اور ہم اس وعدے پر یقین رکھتے ہیں۔"
آیت اللہ شیخ عیسی قاسم نے مسلم علماء اور دانشوروں سے مطالبہ کیا کہ وہ مسئلہ فلسطین کے بارے میں اپنی ذمہ داریوں پر عمل کرتے ہوئے اللہ تعالی کے دین اور امت مسلمہ کے مفادات کی حفاظت کے لئے فلسطینی مسلمانوں کا بھر پور ساتھ دیں۔ انہوں نے کہا کہ مسجد الاقصی اور فلسطین کی آزادی کے سلسلے میں امت مسلمہ کو اپنی تمام توانائیوں اور صلاحیتوں سے بھر پور فائدہ اٹھانا چاہیے۔
آیت اللہ شیخ عیسی قاسم نے بعض عرب حکومتوں کے بزدلانہ اور منافقانہ موقف کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ ساز باز کرنے والی عرب ریاستوں کی غداری کو مسلمان اور عرب عوام کبھی فراموش نہیں کریں گے، استقامت، پائیداری اور مزاحمت مسئلہ فلسطین کا واحد حل ہے، اللہ تعالی کا وعدہ بر حق ہے" یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا إِن تَنصُرُوا اللَّهَ یَنصُرْکُمْ وَیُثَبِّتْ أَقْدَامَکُمْ۔"
آیت اللہ شیخ عیسی قاسم نے امت مسلمہ اور مزاحمتی گروہوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آج مسلسل مزاحمت کی ضرورت ہے کیونکہ مزاحمت اور استقامت کے بغیر فلسطین اور بیت المقدس کی آزادی ممکن نہیں ہے۔
بالفور ڈیکلریشن (2 نومبر 1917ء کو برطانوی وزیر خارجہ آرتھر جیمز بالفور کا اعلامیہ) برطانوی استعمار کے انسانیت سوز مظالم کا سیاہ ترین باب ہے، جس کے ذریعے صیہونی فسطائیت کو فلسطین جیسی اسلامی سرزمین ہتھیانے کا غیر قانونی راستہ فراہم کیا گیا۔ انسانی
احقوق کا ناٹک رچانے والے امریکی استکبار اور برطانوی سامراج نے ایک آزاد قوم کے حقوق پر ڈاکہ ڈالتے ہوئے ارض فلسطین کی بندر بانٹ کرکے انسانی حقوق کی دھجیاں اڑائی، جبکہ بین الاقوامی قانون کی رو سے برطانیہ اپنے زیرانتداب مقبوضہ جات سے متعلق علاقے کے عوام کی رائے اور حق خودارادیت کے احترام کا پابند قرار پاتا ہے۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ نام نہاد تہذیب کے فرزندوں نے اس وحشتناک جرم پر معافی مانگنے کی بجائے ناجائز صیہونی قبضے کو لیگ آف نیشن کے ذریعے قانونی جواز فراہم کرنے کی بھونڈی کوشش کی۔ عالم اسلام کے قلب اور انبیاء کی سرزمین پر نسل پرست صیہونی جرثومہ اعظم کا غاصبانہ قبضہ ایک ایسا جارحانہ عمل ہے، جس کے خلاف آج دنیا بھر کے منصف مزاج، آزاد انسان سراپا احتجاج ہیں۔
یہ احتجاج اسرائیل کے جرائم اور توسیع پسندانہ عزائم کے خلاف فلسطین کی آزادی کے حق میں عالمگیر آواز بن کر استکباری قوتوں اور ان کے لوکل گماشتوں کی نیندیں حرام کرچکا ہے۔ امام خمینی عالمی مسائل کے دقیق اور گہرے تجزیئے کی بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کرچکے تھے کہ مسئلہ فلسطین اور کشمیر سمیت تمام بین الاقوامی تنازعات کا حل استکباری طاقتوں کے خلاف مستضعف اقوام کی مزاحمت اور استقلال طلب جدوجہد میں ہی مضمر ہے۔ لہذا فلسطینی مظلوموں کی آواز کو عالمگیر جہت دے کر عالمی ضمیر کو جگانے کے لیے خمینی بت شکن نے یوم القدس منانے کا حکم دیا۔ امام راحل نے نام نہاد مسلم حکمرانوں کی طرح صرف زبانی جمع خرچ کو کافی نہیں سمجھا بلکہ استقامتی بلاک کو اسٹریٹیجک گائیڈ لائن اور مصافیاتی نظام العمل فراہم کرکے مقاومت اور مزاحمت کا راستہ دکھایا۔
الفتح اور پی ایل او جیسی تنظیمیں جو کبھی پرامن ٹیبل ٹاک کے ذریعے فلسطین کاز کے حل کا خواب دیکھتی تھیں، آج مقاومت اور انتفاضہ کی زبان میں بات کرنے پر مجبور ہوچکی ہیں۔ کیونکہ مذاکرات کی میز پر مخملی ہاتھ ملانے والوں کے پس پردہ آہنی ہاتھ اور دھونس دھمکی کا مشاہدہ محمود عباس (الفتح کے موجودہ راہنما) بخوبی کرچکے ہیں۔ کاش الفتح کی قیادت کو مقاومت کی طاقت کا اندازہ بہت پہلے ہو جاتا تو آج حالات کچھ اور ہوتے، چلو دیر آید درست آید۔ امام خمینی کی دوراندیش نگاہیں عالمی طاغوت کی نفسیاتی بزدلی اور عسکری برتری کے کھوکھلے پن کا مشاہدہ کرچکی تھیں، لہذا آپ نے اسرائیل جیسے ناسور کو عالم اسلام کے قلب سے کاٹ پھینکنے کا واحد نسخہ، اسلامی مقاومت بتایا۔ دنیا آپ کے بتائے ہوئے نسخے کی طاقت کا بڑی حیرت سے مشاہدہ کر رہی ہے۔
1967ء کی جنگ میں عرب ملکوں کو چھے دنوں کے اندر شکست دینے والا اسرائیل 2006ء کی جنگ میں حزب اللہ جیسی خدائی ابابیل کے ہاتھوں شرمناک شکست سے دوچار ہوا۔ اس تینتیس روزہ جنگ میں حزب اللہ نے ملٹری سائنس کے رائج فارمولوں کی قلعی کھول کر رکھ دی۔ امریکہ اور اسرائیل کی ملٹری ٹیکنالوجی کا طلسم ٹوڑ ڈالا۔ صیہونی عسکری بالادستی کے افسانوں کی حقیقت عیاں ہوگئی، اسرائیل کی شکست ناپذیری کا کھوکھلاپن دینا پر واضح ہوگیا۔ آج مقاومتی بلاک اقدامی پوزیشن کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے، جبکہ صیہونیت نواز دجالی ٹرائیکا دفاعی پوزیشن اپنانے پر مجبور ہوچکی ہے۔ مسئلہ فلسطین اور اس قبیل کے تمام ایشوز کو اقوام عالم تک پہنچانے کے لیے یوم القدس ایک موئثر عالمگیر پلیٹ فارم کی شکل اختیار کر رہا ہے۔ لیکن بی بی سی اور سی این این طرز کا زائونسٹ کنٹرولڈ میڈیا، مسلم نوجوانوں کے اذہان کو گمراہ کرنے کی خاطر مسئلہ فلسطین کو اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان متنازعہ ایشو بنا کر پیش کر رہا ہے۔
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مسئلہ فلسطین عالم اسلام کا مسئلہ ہے اور قبلہ اول کو صیہونی تسلط سے آزاد کرانے کے لیے جدوجہد کرنا تمام مسلمانوں کا مشترکہ فریضہ ہے۔ مسلم نوجوان نسل کے ذہنوں میں یہ سوال ڈالا گیا ہے کہ عالم اسلام کے دیگر حل طلب ایشوز کی نسبت قضیہ فلسطین کو اس قدر ہائی لائٹ کیوں کیا جاتا ہے۔؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے ہمیں صیہونی رجیم اور اس کو وجود میں لانے والے امریکہ اور برطانیہ کے پس منظر اور ان کی ریاستی ہیت ترکیبی کا جائزہ لینا ہوگا، تاکہ مسئلہ فلسطین اور دیگر عالمی تنازعات کے حل کی راہ میں حائل اصل رکاوٹ کی تشخیص ممکن ہوسکے۔ عالمی جغرافیے میں موجود ممالک کی تاریخی حرکیات کے مطالعے سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل کے وجود کی عمارت ہی دیگر اقوام کے قتل و غارت اور استحصال پر کھڑی کر دی گئی ہے، اقوام عالم میں یہ واحد منحوس مثلث ہے، جو اپنے غاصبانہ پس منظر اور جارحانہ کردار کے سبب سیاہ ترین مجرمانہ تاریخ رکھتی ہے۔
امریکی استعمار، ریڈ انڈینز کی زمینوں پر ناجائز قبضے کے ذریعے ان کی نسل کشی اور برطانوی گوروں کی آبادکاری کے لیے سیاہ فام افریقی اقوام کو غلام بنا کر ان سے جبری بیگار لینے کے نتیجے میں وجود میں آیا، یعنی امریکہ کی بنیاد ہی ریڈ انڈینز قبائل اور سیاہ فام افریقیوں کے خون پر رکھی گئی ہے، اسی طرح اسرائیل جیسے ناجائز ملک کی بنیاد بھی فلسطین پر ناجائز قبضے کے ذریعے علاقے کے اصل باشندوں کی جبری بے دخلی کے سبب ممکن ہوئی ہے۔ برطانیہ ان دونوں ملکوں کو وجود میں لانے کا بنیادی عامل ہے۔ گویا دیگر اقوام کے وسائل پر ناجائز قبضہ کرنا اور اوچھے ہتھکنڈوں کے ذریعے قوموں کا استحصال، اس وحشی تکون کے اجتماعی مزاج کا حصہ رہا ہے۔ موجودہ عالمی تنازعات، سیاسی اضطراب اور معاشی بحران کا غیر جانبدارانہ تجزیہ کیا جائے تو اس ناہمواری کا بنیادی فیکٹر بھی یہی دجالی ٹرائیکا نظر آتا ہے۔ مثال کے طور پر ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف طرز کے معاشی استحصالی اداروں کے ذریعے کمزور اقوام کو مالی امداد کے نام پر سودی قرضوں کے شکنجے میں جکڑ لینے کا مذموم عمل ان تینوں ممالک کی استحصالی ذہنیت کی واضح دلیل ہے۔
عالمی امن کو سبوتاژ کرنے کے لیے جنگوں کا بزنس بھی اس تاریک مثلث کے مجرمانہ ٹریک ریکارڈ کا حصہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام خمینی جیسی نبض شناس شخصیت نے انسانی معاشرے کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھتے ہوئے صیہونیت نواز امریکی استکبار اور برطانوی استعمار کو عالمی ناہمواریوں کا بنیادی عامل بتایا اور یوم القدس کے ذریعے اس شیطانی تکون کے مظالم اور جرائم کو برملا کرنے کا حکم دیا۔ یوم القدس صرف فلسطین کاز کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ تمام عالمی تنازعات کے بنیادی عامل یعنی اسرائیل کے جارحانہ منصوبوں سے دنیا کو آگاہ کرنے کا پلیٹ فارم ہے۔ یوم القدس مقاومت کا استعارہ ہے، جو مستضعفین جہاں کو اسرائیل اور اس کے لے پالک گماشتوں کے توسیع پسندانہ عزائم کو خاک میں ملانے کا عزم بخشتا ہے۔ یوم القدس، اقوام عالم کو اسرائیل کی شکل میں موجود اصل عالمی خطرے کی طرف متوجہ کرنے کا نام ہے۔ دنیا کو اسرائیل کی جارحیت کو عالمی امن کے لیے حقیقی خطرہ قرار دے کر صیہونی مظالم کے خلاف سنجیدہ اقدام کرنا ہوگا۔ اسرائیلی کنیسٹ پر کندہ عبارت میں نیل سے فرات تک کا علاقہ اسرائیل کی قلمرو میں شامل کرنے کا اعلان، مغربی ایشیا کے اسلامی ممالک کے لیے ایک طرح کی کھلی دھمکی اور سکیورٹی تھریٹ ہے۔
ایسے حالات میں مسئلہ فلسطین خطے کے دیگر تنازعات کے حل کا بنیادی راستہ ہے، جو مزاحمت کے ذریعے ہی طے کیا جا سکتا ہے۔ آج انقلاب اسلامی ایران کی کامیاب حکمت عملی کی بدولت مسئلہ فلسطین عالمی توجہ کا مرکز بنتا جا رہا ہے، جو کہ مقاومتی بلاک کی تزویراتی کامیابی اور اسرائیل کی سیاسی شکست کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یوم القدس، جہاں صیہونی مظالم کے خلاف آواز اٹھانے کا ذریعہ ہے، وہاں فلسطینی انتفاضہ اور مزاحمتی بلاک کی جملہ اخلاقی، سیاسی اور عسکری کامیابی کے اظہار کا طاقتور پلیٹ فارم بھی ہے۔ یوم القدس، اسلامی دنیا اور مستضعف اقوام کو اپنی تقدیر خود اپنے ہاتھوں سے لکھنے کا پیغام دیتا ہے۔ لہذا اس تقدیر ساز دن کی حیاتیاتی اہمیت کو سمجھتے ہوئے عالمی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اظہار نفرت اور فلسطین، کشمیر، یمن، عراق اور سیریا کے مظلومین سے یکجہتی کا اظہار کرنا تمام انسانوں پر فرض ہے، تاکہ جارح اور غاصب طاقتوں کی بساط لپیٹی جا سکے۔ ان شاء اللہ مقاومت کی بدولت مظلوموں کا خون ایک دن ضرور رنگ لائے گا اور صیہونی مظالم کی سیاہ رات کا خاتمہ ہو جائے گا۔ بقول شاعر:
ظلم بس ظلم ہے آغاز سے انجام تلک
خون پھر خون ہے سو شکل بدل سکتا ہے
تحریر: ڈاکٹر ابوبکر عثمانی
جمعة الوداع قریب ہے۔ دنیا بھر کے مسلمان سردار الایام (جمعۃ الوداع، دنوں کا سردار دن) کو خشوع و خضوع سے منانے کیلئے تیاریوں میں مصروف ہیں۔ کورونا وائرس کے باعث حکومت اور اداروں کی جانب سے بھی خصوصی اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ مساجد، مدارس، عیدگاہوں کی تزئین و آرائش بھی جاری ہے۔ مذہبی و سیاسی تنظیموں، تحریکوں کی جانب سے اپنی خدمات یا عزائم کی تشہیری مہم عروج پہ ہے۔ کہیں مبارکباد تو کہیں درخواست، کہیں خیر مقدمی تو کہیں احتجاجی بینرز، پینا فلیکسز آویزاں ہیں اور مزید بھی نصب کئے جا رہے ہیں۔ تمام اقدامات سر آنکھوں پہ، مگر سوال یہ ہے کہ مقبوضہ بیت المقدس، قبلہ اول کیا کسی ایک خاص مکتب فکر کا ہے۔؟ کیا فلسطین کی آزادی کی جدوجہد ایک مخصوص مسلک کیلئے ہے۔؟ اگر نہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ قبلہ اول، بیت المقدس کی آزادی، فلسطین کی آزادی، اسرائیل کے خاتمے، کشمیر کی آزادی سے تجدید عہد پہ مبنی پوسٹرز، بینرز ایک ہی مسلک و مکتب کی جانب سے جاری کئے جا رہے ہیں۔
کیا وجہ ہے کہ الیکٹرانک، پرنٹ و سوشل میڈیا میں بھی اسی مسلک کے رہنماؤں، اکابرین کی جانب سے عالم اسلام کے اجتماعی مفادات، حقوق کا نعرہ حق بلند ہے۔؟ کیا وجہ ہے کہ اسی مکتب فکر کی جانب سے مسلمانوں کے ساتھ ہونیولی عالمی ناانصافیوں کے خلاف آواز بلند کی جا رہی ہے۔ شہر شہر میں انہی کی جانب سے قبلہ اول پہ صہیونی قبضے کے خلاف احتجاجی ریلیوں اور لانگ مارچ کی کال دی جا رہی ہے۔؟ ایسا کیوں ہے۔؟ کیا ہم نے آزادی فلسطین کا مقدمہ کسی ایک مکتب کے سپرد کر دیا ہے؟ یا ہم نے قبلہ اول پہ صہیونی قبضے کو قبول کر لیا ہے۔؟ یقیناً دونوں باتوں میں صداقت نہیں ہے۔ آپ ایران کے انقلاب اسلامی سے چاہے اختلاف کریں یا امام خمینی کے نظریات سے اتفاق نہ کریں، مگر مقدمہ فلسطین کے حوالے سے ان کے اس احسان کو کبھی بھی فراموش نہیں کرسکتے کہ جو انہوں نے جمعة الوداع کو یوم القدس قرار دیکر تمام عالم اسلام پہ کیا ہے۔
دنیائے اسلام اس عنوان سے امام خمینی کی ممنون ہے کہ انہوں نے یوم القدس منانے کا فرمان جاری کرکے قبلہ اول کی آزادی کی تحریک میں نئی روح پھونکی۔ ایک ایسے مقدمے کو زندہ کیا، جسے بھلا دیا گیا تھا۔ فلسطین کی آزادی کے اس نعرے کو پھر سے ببانگ دہل بلند کیا کہ جسے تقریباً تقریباً فراموش کر دیا گیا تھا۔ امام خمینی جمعة الوداع کو یوم القدس قرار دیکر قدس کی آزادی، فلسطین کی آزادی کا مطالبہ کمرہ بند اجلاسوں سے، عالمی ایوانوں میں ہونے والی مخفی میٹنگز سے، حکومتی خط و کتابت سے نکال کر عوامی سطح تک لے آئے۔ دنیا بھر کے انصاف پسند انسانوں کی زبان کو موقع فراہم کیا کہ وہ اسرائیل کے ناجائز وجود کے خلاف آواز بلند کریں۔ آزادی فلسطین، بیت المقدس کی آزادی کے لیے اس سے بڑھ کر کیا خدمت ہو گی کہ جمعة الوداع کے موقع پہ دنیا بھر میں عظیم الشان انسانی اجتماع برپا ہوتے ہیں اور کروڑوں لوگ قبلہ اول مقبوضہ بیت المقدس کی، فلسطین کی آزادی کا نعرہ بلند کرتے ہیں۔
تاریخ کے چند حقائق کو سامنے رکھیں تو امام خمینی کی اس خدمت کا بہتر ادراک ہوتا ہے کہ جو انہوں نے جمعة الوداع کو یوم القدس قرار دیکر کی ہے۔ نومبر 1917ء میں آزاد عربوں کی سرزمین (فلسطین) میں یہودیوں کو آباد کرنے کی عالمی سازش کا آغاز ہوا۔ جس کے خلاف اس وقت کے تقریباً تمام مسلمان ممالک نے شدید احتجاج کیا۔ ابھی قیام پاکستان عمل میں نہیں آیا تھا، مگر اس وقت بانی پاکستان کی فلسطین میں یہودیوں کو بسانے کے حوالے سے گفتگو ملاحظہ فرمائیں۔ اکتوبر 1937ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں خطبہ صدارت کے دوران مسئلہ فلسطین پہ بات کرتے ہوئے قائداعظم نے فرمایا تھا کہ ''یہ سب برطانیہ کا کیا دھرا ہے، عربوں کو جنگ عظیم میں استعمال کرنے کے بعد ان پہ بالفور اعلامیہ مسلط کیا گیا۔ برطانیہ وعدہ خلافی کرکے اپنی قبر کھودے گا۔ برصغیر کے مسلمان عربوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اسی اجلاس میں منظور ہونے والی قرار داد میں کہا گیا تھا کہ اگر برطانیہ اپنے اقدام سے باز نہیں آیا تو مسلمان برطانیہ کو اسلام کا دشمن تصور کرینگے اور اس کے خلاف اپنے ایمان کے تحت اقدامات کریں گے۔''
فلسطین کی آزادی کے حوالے سے یہ بانی پاکستان کا وہ ویژن ہے کہ جس کی بنیاد قیام پاکستان سے بھی پہلے رکھی گئی اور نہایت شفاف الفاظ میں ہر اس طاقت کے خلاف قیام کا عزم ظاہر کیا گیا کہ جو کسی بھی طریقے سے اسرائیل کو تحفظ دینے کی کوشش کرے۔ یاد رہے کہ جس وقت بانی پاکستان اس عزم کا اظہار کر رہے تھے، اس وقت برصغیر برطانیہ کے زیر تسلط تھا اور قائداعظم فلسطین کی آزادی کیلئے اسی مسلط برطانوی سامراج کے خلاف قیام کو ایمان سے مشروط بیان فرما رہے تھے اور برطانیہ کو اسلام کا دشمن قرار دے رہے تھے، حالانکہ برطانوی سامراج کے زیرتسلط مساجد بھی آباد تھیں۔ مدارس بھی چل رہے تھے۔ مدارس کو حکومتی آشیرباد اور فنڈنگ بھی حاصل تھی۔ نماز، روزہ، حج، زکواة پہ بھی کوئی پابندی یا قدغن نہیں تھی، مگر اس کے باوجود بانی پاکستان یا قیام پاکستان کی تحریک کے ہراول دستے نے مسئلہ فلسطین کو صرف عربوں کا مسئلہ نہیں سمجھا، خطے کا مسئلہ نہیں کہا اور نہ ہی اسے سیاسی مسئلہ قرار دیا بلکہ زور دیکر اسرائیل کے محافظ کو اسلام کا دشمن قرار دیا اور آزادی فلسطین کی جدوجہد کو ایمان سے منسلک بتایا۔ کیا پاکستان بنانے والوں کا فلسطین کی آزادی اور اسرائیل کی نابودی سے متعلق یہ نظریہ پاکستانی حکومتوں اور عوام کیلئے واضح اور شفاف راستہ نہیں۔؟
1947ء میں پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔ 1979ء میں انقلاب اسلامی برپا ہوا اور اگست 1979ء میں امام خمینی نے جمعة الوداع کو یوم القدس قرار دیا اور فلسطین کی آزادی کے حق میں اور اسرائیل کے خلاف عوامی مظاہروں کا اعلان کیا۔ قیام پاکستان سے لیکر امام خمینی کی جانب سے جمعة الوداع کو یوم القدس قرار دیئے جانے کا درمیانی عرصہ تقریباً 35 برس ہے۔ ان 35 سالوں میں فلسطین کی آزادی کا مطالبہ سیاسی رہنماؤں کے اخباری بیانات میں کبھی کبھار تو ملتا ہے، مذہبی و سیاسی جماعتوں کی کانفرنسز میں بھی خال خال ملتا ہے، مگر عوامی سطح پہ، گلی کوچوں میں شہر بہ شہر اسرائیل کے خلاف اور قبلہ اول کی آزادی کے حق میں عوامی اجتماعات ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتے۔ نہ ہی عوامی سطح پہ اس مسئلہ کی حساسیت کا ادراک تھا اور نہ ہی یہ مطالبہ زبان زدعام تھا۔ باالفاظ دیگر انقلاب اسلامی ایران سے قبل اسرائیل کے خلاف عوامی مظاہرے اور آزادی فلسطین کیلئے عوامی اجتماعات اس مقدار اور تعداد میں نہیں ملتے کہ جو انقلاب ایران کے بعد دنیا بھر میں ملتے ہیں۔ اب یہ کریڈٹ تو بہرحال امام خمینی اور انقلاب اسلامی ایران کو ہی جاتا ہے کہ آج دنیا بھر میں صہیونیت کو اپنے خلاف عظیم عوامی غیض و غضب کا سامنا ہے۔
پاکستان سمیت پوری اسلامی دنیا میں ایسے عناصر کی بھی کمی نہیں کہ جو محض انقلاب اسلامی سے نظری اختلاف کی بناء پہ یوم القدس کے اجتماعات اور عوامی ریلیوں کے خلاف ''دور کی کوڑی'' لاتے ہیں۔ میرا سوال اپنے انہی بھائیوں سے ہے کہ آیا آپ کو قبلہ اول پہ یہودی قبضہ قبول ہے۔؟ یا تحریک آزادی قبلہ اول و فلسطین کے تمام حقوق آپ ایک مخصوص مکتب و مسلک (اہل تشیع) کو سونپ چکے ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہے تو جناب اپنی خانقاہوں، مدارس، مساجد اور حجروں سے باہر آئیں۔ اسرائیل کے خلاف، امریکہ کے خلاف، برطانیہ کے خلاف نعرہ حق بلند کریں۔ سیدالایام قرار پانے والے جمعة الوداع کے موقع پہ حالت روزہ میں سوکھے گلے اور خشک لبوں کے ساتھ قبلہ اول کی، مسجداقصیٰ کی آزادی کا نعرہ بلند کریں۔ دنیا بھر کے مظلومین کے حق میں آواز اٹھائیں۔ عالمی سامراج کے خلاف خم ٹھونک کر میدان میں اتریں۔ یہی پاکستان کے مفاد میں بھی ہے اور عالم اسلام کے بھی مفاد میں اور اسی سے اسلام کا بھی بول بالا ہوگا۔ (نوٹ: اگر بات دل کو نہیں لگی تو تعصب کی عینک اتار کر دوبارہ پڑھیں)
بیت المقدس یا قدس شریف محض ایک مقدس مقام ہی نہیں بلکہ ایسی سرزمین ہے جس کا انبیاء الہی اور ابراہیمی ادیان سے بہت گہرا تعلق ہے۔ ہزاروں سال سے الہی ادیان نے اس پر نظریں جما رکھی ہیں اور اسے اپنا "نقطہ آغاز" اور "مقصد" قرار دیتے ہیں۔ بندگی کا نقطہ آغاز اور بندگی کا مقصد۔ یہی وجہ ہے کہ ان ہزاروں برس کے دوران قدس شریف جنی اور انسی شیاطین کی جانب سے شدید یلغار کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ الہی ادیان کے آغاز سے ہی قدس شریف کی آزادی اور اسارت ایک ساتھ آگے بڑھے ہیں اور بیت المقدس بعض اوقات آزاد جبکہ بعض اوقات مقبوضہ رہا ہے۔ اس کی آزادی کی علامت اس مقدس مقام میں تمام ادیان سے وابستہ افراد کی آزادی سے مذہبی رسومات اور عبادت کی ادائیگی جبکہ اس کی اسارت کی علامت بعض کینہ توز اور متعصب عناصر کی جانب سے اس مقدس مقام کو اپنے تک محدود کرنا اور دیگر مذاہب سے وابستہ افراد کو وہاں آنے اور مذہبی رسومات کی ادائیگی سے محروم کرنا ہے۔ آج یہ مقدس مقام مقبوضہ ہے اور اسارت کی حالت میں ہے اور ابراہیمی ادیان کے پیروکاروں سے اپنی آزادی کی فریاد کر رہا ہے۔ قدس شریف آزادی کیلئے انسانیت کو اپنی جانب پکار رہی ہے اور زخمی قدس شریف کی اس پکار کے پہلے مخاطب دیندار اور مذہبی افراد ہیں۔
قدس شریف اپنی آزادی کیلئے ہمیں پکار رہا ہے اور ہمیں آزاد ہونے کی ترغیب دلا رہا ہے۔ قدس شریف کو آزاد کروانے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم خود آزاد ہوں۔ خوف سے آزاد، انسان نما شیطانوں کی غلامی سے آزاد، وقت کے طاغوت اور فرعونوں سے آزاد، ہر اس چیز سے آزاد ہوں جس نے ہمارے پاوں باندھ کر ہمیں زمین سے چپکا رکھا ہے، پرانی اور نئی سازشوں اور پراپیگنڈوں سے آزاد، تن آسانی اور عیاشی سے آزاد، جھوٹی طاقتوں کے رعب اور دبدبے سے آزاد، موت کے خوف سے آزاد، فرعونوں، نمرودوں، ابوسفیانوں اور ابوجہلوں سے آزاد ہوں۔ جی ہاں، قدس شریف چاہتا ہے کہ ہم آزاد ہوں۔ جیسا کہ ہمارے زمانے کے بت شکن امام خمینی رح نے فرمایا ہے: "یوم قدس تمام مسلمانوں اور مستضعفین عالم کی آزادی کا دن ہے۔" قدس شریف آج ایک ایسی "نسل" کے قبضے میں ہے جس نے پوری انسانیت کو "یرغمال" بنا رکھا ہے۔ صہیونزم ایک نسلی سازش ہے اور صہیونی انسانیت کو "یہودیت" کے مساوی اور مترادف قرار دیتے ہیں۔ وہ انسانیت کا کوئی اور معنی قبول کرنے کو تیار نہیں۔ دوسری طرف اس چیز کے برعکس جو دکھائی دیتی ہے، یہودیت اور یہودی بھی دو ایک جیسی چیزیں نہیں جو قدس شریف میں اکٹھی ہو گئی ہوں۔ یہودیت ایک نسل پرستانہ سوچ ہے جو یہود اور یہودیوں کو بھی قبول نہیں کرتے۔ اسی وجہ سے یہودی صہیونزم کو دین نہیں سمجھتے اور صہیونی بھی حضرت موسی علیہ السلام کی تعلیمات کو خرافات قرار دیتے ہیں اور ہر اس چیز سے دوری اختیار کرتے ہیں جس میں "خدا" کا نام پایا جاتا ہو۔
صہیونزم کی نظر میں قدس شریف کی کوئی عزت اور حیثیت نہیں ہے۔ جیسا کہ ہم ماضی میں مشاہدہ کر چکے ہیں ایریل شیرون فوجی بوٹوں اور تلوار کے ساتھ قدس شریف اور قبہ الصخرا میں داخل ہوا، وہاں قتل و غارت کا بازار گرم کیا اور عبادت کے پرسکون ماحول کا خاتمہ کر دیا تھا۔ اس سے 52 سال پہلے بھی صہیونیوں نے مسجد اقصی کو آگ لگا دی تھی جس کے اثرات آج بھی اس مسجد کی دیواروں، چھت، منبر اور محراب پر قابل مشاہدہ ہیں۔ گذشتہ کئی برس سے صہیونی قدس شریف کے نیچے کھدائی میں مصروف ہیں جس کے باعث اس مقدس مقام کی بنیادیں کھوکھلی ہو رہی ہیں اور اس کی نابودی کا خطرہ پایا جاتا ہے۔ وہ "ہیکل داود" نامی ورثہ تلاش کرنے کے بہانے اس ابراہیمی ورثے کو نابود کر رہے ہیں۔ اسی طرح جیسے انہوں نے الخلیل کو "ہیبرون" کے نام پر عبادت اور مذہبی رسومات سے عاری کر ڈالا ہے۔ الخلیل کی تقسیم انسانوں اور انسانیت کی تقسیم تھی ورنہ ابراہیمی ادیان کے پیروکاروں کو تقسیم کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ صہیونزم ایک دین نہیں ہے اور صہیونی کسی دین کے پیروکار بھی نہیں ہیں۔ صہیونزم ایک سیاسی فرقہ "کالٹ" (Kalt) ہے۔ ایسا سیاسی فرقہ جس کا آغاز سوئٹزرلینڈ کے شہر بال میں ایک بیانیے سے ہوا اور اس کی جڑیں 15 ویں اور 16 ویں صدی (قرون وسطایی) کے دولت مند اور سرمایہ دار خاندانوں تک پہنچتی ہیں۔ روتھ شیلڈز اور راک فلرز نامی خاندان جو نسل پرست سرمایہ دار تھے۔
صہیونزم عالم بشریت کیلئے ایک نئی تاریخ رقم کرنے کے درپے ہے۔ ایسی تاریخ جس میں "خون" کی حکومت ہو اور جو زیادی خونخوار ہو اسے حکومت کرنے کا زیادہ حق حاصل ہو۔ وہ اپنی عبادت خون سے شروع کرتے ہیں، ان کی سجدہ گاہوں پر بھی خون جاری ہوتا ہے اور ان کے محراب سے خون کی بو آتی ہے۔ صہیونیوں کیلئے خون کہانی کا آغاز ہے اور "قابیل" ان کا سب سے بڑا لوگو ہے۔ صہیونزم کے پنجے جو خاموش مشعل کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں اپنے مرکز میں "صلیب" تک جا پہنچتے ہیں تاکہ حضرت عیسی علیہ السلام کے بے رحمانہ قتل میں ان کے اسلاف کی یاد تازہ کر سکیں۔ وہ آج دنیا بھر میں عیسائیوں کے طاقت کے مراکز پر مسلط ہو چکے ہیں اور حضرت عیسی علیہ السلام کے قتل کے قصے بیان کرنے سے دریغ نہیں کرتے جنہیں خداوند متعال نے ان کے چنگل سے نجات دلائی تھی۔ صہیونزم کے مرکزی رہنماوں کی نظر میں یہودا اور عیسی علیہ السلام کی کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی اور ہر عیسائی کو یہودا کی نسل کے سامنے صہیونزم کے پنجوں کا زخم برداشت کرنا ہو گا۔ صہیونزم نے عیسائیت کے قتل اور نابودی کیلئے کمر کس رکھی ہے اور آج مستی کے عالم میں الیزے، بیکنگھم اور وائٹ ہاوس پر قبضہ کر رکھا ہے۔ لیکن وہ اس حد تک راضی نظر نہیں آتے اور جب تک چرچ کی آواز مکمل طور پر بند نہیں کر دیتے چین سے نہیں بیٹھیں گے۔
صہیونزم ایک "کالٹ" ہے اور اس کا انحصار نسل اور خون پر ہے اور وہ خون کے ذریعے تاریخ لکھ رہا ہے اور خون کے ذریعے ہی تاریخ کا آغاز کرتا ہے۔ صہیونزم اگرچہ یہودی نہیں لیکن یہودیوں کے نام پر خیبر واپس پلٹنا چاہتا ہے۔ صہیونزم مسلمانوں کی سرزمین بنی قریظہ، بنی المصطلق اور بنی قینقاع کے سپرد کرنا چاہتا ہے اور چونکہ اچھی طرح جانتا ہے کہ عرب اقوام کی طاقت ختم ہو چکی ہے لہذا حجاز، ابوظہبی، کویت، مسقط اور دوحہ کے محلوں میں غلاموں کی تلاش میں ہے تاکہ ان کی مدد سے بنی قریظہ کی نیابت میں صہیونیت کو سرزمین وحی میں پھیلا سکے۔ صہیونزم نے یہاں بھی خون سے شروع کیا ہے اور خون کے ذریعے تاریخ لکھنے میں مصروف ہے۔ یمن میں جنگ، عرب مسلمانوں میں نفرت کی آگ پھیلانے اور عرب اور عجم میں دشمنی ڈالنے کے ذریعے آج کے ابوسفیانوں، ابوجہلوں اور عکرموں کے ساتھ اتحاد قائم کر رکھا ہے۔ لیکن سکے کا دوسرا رخ قدس شریف ہے۔ سکے کا دوسرا رخ الہی تقدیر کے ذریعے تشکیل پایا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا نمرود پر غلبہ، حضرت موسی علیہ السلام کی فرعون کے مقابلے میں کامیابی، حضرت عیسی علیہ السلام کا ہامان، یہودا اور ہیدرین کے فتنہ انگیز افراد کو شکست دینا، حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا خیبر اور خاقان پر غلبہ، حضرت علی علیہ السلام کا ابوسفیان کی اولاد پر غلبہ اور صہیونزم کے مقابلے میں قدس شریف کی فتح۔
اس ابراہیمی سلسلے کی کہانی سرزمین کی کہانی نہیں، مادی تسلط پسندی بھی نہیں، تسلط اور قبضہ نہیں، امن کے مقابلے میں اسلحہ کا انتخاب نہیں بلکہ اس کی کہانی آزادی کی کہانی ہے۔ اس کہانی میں قدس شریف آزادی کی علامت ہے۔ انسان کی آزادی، دین کی آزادی، انبیاء کی آزادی اور خدا کی آزادی۔ اس وقت جب کسی محدودیت کے بغیر اس کی پرستش کی جائے، اس وقت جب کوئی کسی بندے کا غلام نہ ہو اور ہر سلام اور سجدے سے بندگی کے پھول نکھر رہے ہوں۔ جیسا کہ کہا گیا ہے: "لا تکن عبد غیرک و قد جعلک اللہ حرا" (کسی کے بندے نہ بنو بالتحقیق خدا نے تمہیں آزاد پیدا کیا ہے۔) صہیونزم مسلح ہو کر میدان میں آیا ہے تاکہ مومنین کے درمیان امن کا خاتمہ کر دے اور اس کے بعد امن کے نام پر انسانیت کو اپنا غلام بنا لے۔ لیکن آج صہیونزم کا اسلحہ اور امن اپنی حیثیت کھو چکا ہے اور بندوں کے درمیان امن حاصل ہو چکا ہے۔ انقلاب اسلامی ایران نے چالیس سال پہلے صہیونزم کی حقیقت کو "وہم" میں تبدیل کر دیا اور اس کی مشینری روک دی۔ اس کے بعد سے صہیونزم کیمپ ڈیوڈ، ایناپولس وغیرہ میں بھیک مانگنے پر مجبور ہو گیا ہے۔ اس وقت صہیونزم ابراہیم علیہ السلام، موسی علیہ السلام، عیسی علیہ السلام اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فرزندوں کے محاصرے میں آ چکا ہے۔ حزب اللہ لبنان، فلسطین میں حماس اور اسلامک جہاد، یمن میں انصاراللہ، عراق میں حشد الشعبی، شام میں اسلامی مزاحمت اور دسیوں بریگیڈز خطے کے چپے چپے میں موجود ہیں اور اسرائیل دلدل میں ہاتھ پاوں مار رہا ہے۔
آج تل ابیب کی حکومت دیوالیہ ہو چکی ہے۔ الیکشن پر الیکشن اور واپس پہلے خانے میں۔ فلسطین کو یہودیانے کی کوششیں بے سود ہو چکی ہیں اور "سینچری ڈیل" دم توڑ چکی ہے۔ فلسطین کو یہودیانے کی مشینری گذشتہ ستر برس سے ناکارہ ہو چکی ہے اور صہیونزم کی باقیماندہ عمر میں بھی کچھ حاصل نہ کر پائے گی۔ شاہی دربار اور وقت کے عبدالعزیز اب مزید کاغذوں پر دستخط کر کے فلسطین کو یہودیانے میں کامیاب نہیں ہو پائیں گے۔ وقت کے بن سلمان اور بن زاید اور دیگر بادشاہ زادے اب کچھ نہیں کر سکیں گے۔ صہیونزم اس وقت اپنے پرچم میں دو نیلی لکیروں سے امید وابستہ کرنے کی بجائے ان دیواروں کے بارے میں سوچ رہا ہے جو اسے فلسطینیوں کی نفرت آمیز نگاہوں سے بچا سکیں۔ نیل سے فرات تک کا صہیونزم اس وقت تل ابیب میں نیم مردہ حکومت کا روپ دھار چکا ہے۔ نیل سے فرات تک اور ہر جگہ تک اس وقت تل ابیب سے مغربی بیت المقدس تک محصور ہو چکا ہے۔ صہیونزم آج مقبوضہ فلسطین کی شمالی سرحدوں کے قریب جنگی مشقیں منعقد کرتا ہے تاکہ شاید ان سرنگوں کا سراغ لگا سکے جن سے ہر لمحہ حزب اللہ کے مجاہدین کے حملہ ور ہونے کا خطرہ موجود ہے۔ اسی طرح مقبوضہ فلسطین کی جنوبی سرحدوں پر غزہ سے لے کر صحرائے سینا اور وہاں سے لے کر مغربی کنارے تک ان سرنگوں کی تلاش میں ہے جن میں سے حماس اور اسلامک جہاد کے مجاہدوں کے ممکنہ حملوں کا خطرہ محسوس کرتا ہے۔
صہیونزم نے آج واشنگٹن اور آئی پیک سے امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں لیکن انتہائی مایوسی سے عراق اور شام میں امریکی فوجیوں کے انجام کا مشاہدہ کر رہا ہے۔ وہی انجام جسے آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے خطے سے امریکی انخلاء کی صورت میں شہید قاسم سلیمانی کا خون بہا قرار دیا ہے۔ خونخوار صہیونزم بخوبی جانتا ہے کہ الیزہ، بیکنگھم اور وائٹ ہاوس کے ساتھ اس کی روایتی دوستی اور قربت اب مزید معجزات دکھانے سے قاصر ہے اور مغرب کے تمدنی اور سیاسی عروج کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ صہیونزم جانتا ہے کہ مغرب جو گذشتہ 72 سالوں کے دوران اس کی اصلی پناہ گاہ رہی ہے آج خود بے شمار مشکلات اور بحرانوں کی لپیٹ میں ہے اور اس سے اپنی بقا کیلئے مدد کی امیدیں وابستہ کرنا بیہودہ امر ہے۔ لہذا آج تل ابیب کی چھاونیوں اور آبادیوں میں اسرائیل کے اختتام کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔ صہیونزم کا خاتمہ ہو چکا ہے اور جیسا کہ مصر میں رمضان کی سیریل میں کہا گیا ہے اسرائیل اپنی سو سالہ سالگرہ نہیں دیکھ پائے گا۔ لیکن اس کے باوجود صہیونزم اب بھی خونریزی میں مصروف ہے، اب بھی بمب گرا رہا ہے، اب بھی ٹارگٹ کلنگ کر رہا ہے، اب بھی لبنان کی فضا سے شام میں جارحیت کر رہا ہے، اب بھی سازشیں کر رہا ہے اور غزہ کے محصور فلسطینیوں پر آگ برسا رہا ہے۔ اس وقت بھی انتہائی کم قیمت میں عرب غلاموں کو خرید رہا ہے، خطے کے درباروں سے امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں اور اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری للکار برقرار رہنی چاہئے، ہاتھ بلند رہنے چاہئیں اور قدم استوار رہنے چاہئیں۔ قدس شریف آزادی کے دہانے پر ہے اور ہمیں آخر تک یہ راستہ جاری رکھنا ہے۔
تاریخ بشریت گواہ ہے کہ پروردگار نے انسان کی ہدایت کیلئے انبیاء، رسول اور ائمہ کو منتخب کیا۔ ختم نبوت کے بعد سلسلہ امامت کا دور شروع ہوتا ہے۔ فانوسِ امامت کا پہلا چراغ امام علی ابن ابیطالب ہیں، جس طرح دیگر الٰہی نمائندوں نے سختی و مشکلات کا سامنا کیا تھا، اسی طرح آپ نے بھی بے پناہ سختیوں اور دشواریوں کا سامنا کرتے ہوئے نظام الٰہی برقرار رکھا۔ تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو رحلت رسول اکرمؐ کے بعد امیرالمومنین کی زندگی کے سخت اور دشوار ایام شروع ہوگئے۔ امام کے سخت اور دشوار کاموں کی ابتدا مصلحت کی رعایت کرتے ہوئے اپنے حقوق کو چھوڑ دینا تھی، جو یقیناً امام کیلئے بہت سخت تھا۔ ایک ایسے عظیم انسان کیلئے جو جانتا ہو کہ وہ صاحب حق، صاحب قدرت ہے، اس کے باوجود امام نے تمام چیزوں سے صرف نظر کیا اور مصلحت کی رعایت کرتے ہوئے حکومت خلفائے ثلاثہ میں 25 سال خاموشی کے گزار دیئے کہ کہیں دین محمد خطرہ میں نہ پڑ جائے۔ ممکن تھا کہ امام ان ایام سے فائدہ اٹھاتے اور لوگوں کے درمیان یہ ظاہر کرتے کہ آپ ہی حق خلافت رکھتے ہیں، لیکن امام نے ایسا نہ کرتے ہوئے خلفائے ثلاثہ کی مدد بھی کی اور ایک امین مشاور بن کر ہمیشہ ان کے ساتھ رہے، تاکہ اسلام کا رنگ باقی رہے۔ قتل عثمان کے بعد وہ وقت بھی آیا کہ لوگوں نے آپ کو مسند خلافت پر بیٹھنے پر مجبور کیا۔ امام نے "دعونی والتمسوا غیری" مجھے چھوڑو، کسی اور کی تلاش میں جاؤ، کی صدا بلند کی۔
مذکورہ جملہ سے امام کے درد کا احساس ہوتا ہے کہ لوگ 25 سال کے بعد اس در پر آئے، جہاں انہیں روز اول ہونا چاہیئے تھا۔ لیکن لوگوں کے اصرار پر امام نے خلافت کو قبول کیا، چونکہ خلافت الٰہی کو دنیوی سلطنت کی شکل دیدی تھی، لیکن امام نے سلطنت کو الٰہی نظام خلافت میں بدل دیا۔ لہٰذا اول روز امام نے عدالت کا پرچم لہرایا اور الٰہی احکام نافذ کیے۔ امیرالمومنین کا اپنے زمانے میں ایسے افراد سے سامنا تھا، جو کسی بھی صورت اس عظیم شخصیت اور کھری عدالت کے خواہاں نہ تھے۔ رحلت رسول اکرمؐ اور خلافت امیرالمومنینؑ کے درمیان 25 سال کے فاصلے نے تمام چیزوں کو بدل ڈالا تھا۔ امیرالمومنین ؑنے خلافت کے آغاز میں اس درد کو بیاں کیا اور کہا (الا و إن بليتكم عادت كهيئتها يوم بعثت الله نبيه)آج وہ تمام مصائب پلٹ آئے ہیں، جو رسول اکرمؐ کے زمانے میں تھے۔ یعنی مکتب اسلام فراموش کر دیا گیا، ایمان کا رنگ پھیکا پڑ گیا ہے، ذخیرہ اندوزی لوگوں کا پیشہ بن گیا اور اسلام لوگوں کے لئے فقط ایک لفظ بن کر رہ گیا تھا۔ اس کا اندازہ امیر المومنینؑ کے 25 سال کے آخری حوادث سے لگایا جا سکتا۔
امت رسولؐ کا لوگوں نے وہ حال کیا، جسے انسانیت تو نہیں کہا جا سکتا۔ ربذہ میں جناب ابوذر ؒکا جاں بلب ہوکر شہید ہو جانا۔ مسجد میں حق کا ساتھ دینے پر عبداللہ بن مسعود کے دانت اور سینے کی ہڈیوں کا توڑا جانا، یہ سیاہ داستان تاریخ کے صفحوں پر تحریر ہے۔ امیرالمومنینؑ کی خلافت سے پہلے کوفہ میں نااہل حضرات نے حکومت سنبھالی تھی، اس لیے امیرالمومنینؑ کیلئے نہایت سخت تھا کہ وہ دوبارہ لوگوں کے دلوں میں آیات قرآنی کے نقش و نگار ابھاریں اور وہ بھی اس شہر میں جہاں ولید جیسے فاسق و فاجر کی حکومت رہی ہو۔ امیرالمومنین علیؑ بن ابیطالب ؑنے چار سال 10 ماہ مشکلات سے لبریز حکومتی ایام گزارے۔ ایسے مشکل اور دشوار حوادث کا سامنا کیا، جو ضعیف الایمان اور سطحی سوچ کے حامل افراد کے ایمان کو لے اڑے۔ یقیناً ان کے ایمان ساحلی جھاڑ جیسے تھے، جن کی موج سیلاب نے بیخ کنی کر دی۔
امیرالمومنینؑ کے دور کی سب سے بڑی مصیبت وہ فتنہ تھا، جو کالی اور تاریک کھٹا بن کر لوگوں پر چھایا ہوا تھا۔ ایسا فتنہ جس میں پہلی نظر حق و باطل میں تمیز نہیں دے پاتی، فقط دقیق تدبر و تفکر ہی ایک واحد راستہ تھا، جو انسان کو حق و باطل کی تمیز کرتا، لیکن یہ کوئی آسان راہ نہیں۔ غبار فتنہ میں حق و باطل کو پہچاننا ان افراد کیلئے جنہوں نے حدود اسلام میں تازہ قدم رکھا تھا، بہت مشکل تھا۔ ہر انقلاب اور نظام کی بربادی اسی لمحے شروع ہو جاتی ہے، جب اس نظام میں حق و باطل مخلوط ہو جائے۔ رسول اکرمؑ کے زمانے میں مومنین کو اپنی راہ کا انتخاب کرنا بہت آسان تھا، وہ جس طرف کافرین اور مشرکین کو پاتے، ان کے مقابل کھڑے ہو جاتے، لیکن امیرالمومنین ؑکا زمانہ ایسا تھا، جہاں غبار فتنہ نے حق وب اطل کو ملا دیا تھا۔ لوگوں کا ایک طرف ہونا بہت مشکل تھا، فقط ان افراد نے امام کا ساتھ دیا، جن کے ایمان نے غبار کو چھانٹ کر رکھا تھا۔ اس کی سادہ مثال جناب عمار ؑکی شخصیت ہے، جنہوں نہ صرف امام کا ساتھ دیا بلکہ جب کبھی فساد کی آنچ امام تک پہنچتی، آپ امام کی سامنے کھڑے ہو جاتے۔
امام علی علیہ السلام کے دور میں نہ صرف حق و باطل مخلوط تھے، بلکہ باطل، حق کا چولا پہنے ہوئے تھا، لہٰذا امیرالمومنینؑ کا بعد رسول انداز جنگ یہ رہا کرتا تھا کہ ہر جنگ سے پہلے خطبہ دیتے، تاکہ لوگ اس مکر و فریب سے بچ جائیں۔ ان کے وہ تمام خطبات دفتر تاریخ میں ثبت ہیں۔ اگر امیرالمومنینؑ کی تقریباً پانچ سالہ حکومت پہ نظر ڈالیں تو ہم اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ اس زمانے میں لوگوں کے سیاسی تجربات بہت ضعیف تھے۔ غلط تحلیل کی بناء پر امام کے خلاف جنگ جمل لڑی گئی۔ زبیر ابن عوام جیسا شخص جو یقیناً کوئی معمولی شخصیت نہیں تھے، ان کے قتل کے بعد جب امامؑ کی نظر زبیر کی تلوار پہ پڑتی ہے تو فرماتے ہیں کہ یہ وہی تلوار کہ جب اٹھتی تو رسول کے چہرے سے غبار غم کو دھو ڈالتی تھی، لیکن غلط تحلیل کی بناء پر ان کا دم مرگ مقام کیا ہے۔۔۔۔؟!
ایک سب سے تکلیف دہ چیز دوران امام علی میں یہ رہی کہ کچھ منافق حضرات، اسلام کے نام پر اسلام سے جنگ کر رہے تھے۔ قرآن کے ذریعے معارف قرآن سے جنگ، نام نہاد مسلمانوں کے ذریعے مسلمانوں سے جنگ، جو یقیناً امام کیلئے بہت تکلیف کا باعث بنا کہ وہ اس میدان میں جنگ کے لئے حاضر ہیں، جہاں دونوں طرف نمازیں پڑھی جا رہی ہیں اور اسلامی پرچم لہرایا جا رہا ہے۔ کیا اس سے بڑھ کر امام کیلئے اور کوئی مصیبت ہوسکتی ہے۔ یقیناً ان تمام مشکلات کے باوجود امام علی علیہ السلام کے حکومتی ایام تاریخ میں ایک نمایاں خصوصیت کے حامل ہیں۔ امام کا ہر حکم مرضی الٰہی کے موافق تھا، جو یقیناً امام کیلئے بہت سخت تھا، ان تمام مشکلات میں سب سے اہم جو مسئلہ تھا، وہ لوگوں کی سطحی فکر تھی۔ خوارج اسی بیماری کا شکار تھے۔ جنگ صفین کے بعد جو گروہ خوارج کے نام سے مشہور ہے، ان کا اصل ہدف ظواہر دین پر سطحی طور پر عمل کرنا تھا، حقیقت سے نا آشنا معارف سے دور فقط ظواہری دین کو ماننا اور عمل کرنے پر موقوف تھا۔
گذشتہ تاریخی سچائی سے کیا ہم بھی سبق لیں گے یا نہیں، تاکہ ہمیں معلوم تو ہو کہ کہیں ہم میں تو وہ تمام عیب موجود نہیں، جو آنے والی حکومت کیلئے دشواری اور پریشانی کا سبب بنیں یا اس حکومت کے جاری ہونے میں سدراہ۔ کہیں ہم سطحی فکر کے حامل تو نہیں۔؟ کیا ہم میں اتنی صلاحیت موجود ہے کہ ہم حق اور حق نما میں تمیز کر سکیں، یا اتنی تیز فہمی ہے کہ ہم قرآن مجید کو نیزہ پر بلند کرنے کا مقصد سمجھ سکیں۔ یقیناً آج قرآن تو نہیں، مگر عزاداری و نماز کے نازک مسائل کے ذریعے لوگوں کو ورغلانے کی کوشش جاری ہے۔ کیا ہم میں اس کی حقیقت اور اس میں چھپے مقاصد کو سمجھنے کی صلاحیت ہے؟ کیا ہمارے ایمان میں اتنی قوت ہے کہ ہم سایہ فگن فتنہ کو چیر سکیں اور اگر ایسا نہیں ہے تو صدائے العجل سے پہلے ہماری ذمہ داری یہی ہے کہ ہم پہلے اپنے ایمان کو مضبوط کریں، فکر کو بالا اور پھر اس آفاقی حکومت کے آرزومند ہوں اور اس شخصیت کے منتظر، جو اس پُرطلاطم بحر میں سکون برپا کرے گی اور دنیا کو پھر سے سکون دریافت ہو جائے گا۔