سلیمانی
حزب اللہ کو دہشتگرد قرار دینا قابل مذمت ہے، جرمنی کو تو حق کی جنگ لڑتی اقوام کی حمایت کرنا چاہئے، یمن
یمنی سرکاری خبررساں ایجنسی سبأ کے مطابق یمنی حکومت کے ترجمان ضیف اللہ الشامی نے جرمن حکومت کی طرف سے حزب اللہ لبنان کے دہشتگرد تنظیم قرار دیئے جانے کی مذمت کی ہے۔ یمنی حکومت کے ترجمان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ جرمن حکومت کی طرف سے حزب اللہ لبنان کو دہشتگرد تنظیم قرار دے کر اس پر پابندی عائد کرنے کا اقدام امریکی و اسرائیلی حکم کی تعمیل ہے کیونکہ یہ امریکہ و اسرائیل ہی ہیں جو اپنے حق کی جدوجہد لڑنے والی اقوام کے دشمن ہیں۔
یمنی حکومت کے ترجمان ضیف اللہ الشامی نے اپنے بیان میں غاصب صیہونی رژیم کے مقابل حزب اللہ لبنان کے مزاحمتی کردار پر روشنی ڈالی اور جرمن حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ جرمنی کے عالمی سطح کے مقام پر منفی اثر ڈالنے والے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے۔ یمنی حکومت کے ترجمان نے جرمن قوم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جرمنی کو تو اپنے حق و آزادی کی جنگ لڑتی اقوام کی حمایت کرنا چاہئے۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز جرمن حکومت کی طرف سے حزب اللہ لبنان کو دہشتگرد تنظیم قرار دے دیا گیا تھا جس کے بعد ملک میں حزب اللہ لبنان کی سرگرمیوں پر بھی پابندی عائد کر دی گئی تھی
روزہ کے طبی اور روحانی فوائد
پروردگار عالم نے ہم پر روزہ فرض کیا ہے جیسا کہ ارشادا لٰہی ہوتا ہے: "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ" اے ایمان والوں تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے جیسا کہ تم سے پہلے والے لوگوں پر کیا گیا تھا تاکہ تمہیں پرہیزگاری نصیب ہو ۔ (بقرہ آیت/۱۸۳) اس آیت مبارکہ میں روزہ کا فرض ہونا اور اس کی فضیلت دونوں کا بیان ہے۔ عربی زبان میں روزہ کو صوم سے تعبیر کیا گیا ہے۔ صوم کے معنی "رک جانے، باز رہنے یا کسی کام سے ہاتھ کھینچ لینے کے ہیں"۔ اور اسلام میں طلوع صادق سے غروب آفتاب تک کھانے پینے سے باز رہنے کا نام روزہ ہے۔ قرآنی آیت کے مطابق روزہ کی فرضیت کا بنیادی مقصد پرہیزگاری اور پاکیزگی ہے، تمام بُرائی سے اپنے نفس کو پاکیزہ کرنا۔ دیکھا جائے تو انسان تین اہم اجزاء کا مجموعہ ہے۔ روح جو ملکوتی ہے، جسم جو عالم مادہ یعنی دنیا سے تعلق رکھتا ہے اور اخلاق جس سے خاکی انسان عالم ملکوت کی طرف مائل ہے۔ روزہ ان تینوں اجزاء کی پاکیزگی کا باعث بنتا ہے جسمانی پاکیزگی، اخلاقی پاکیزگی، اور روحانی پاکیزگی اور یہ تینوں آپس میں ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔
قرآنی آیت سے یہ بات روشن ہے کی روزہ تاریخ انسانی میں کوئی جدید شے نہیں۔ اگر تاریخ بشر کے پہلے صفحے کو دیکھا جائے تو زمانہ آدم میں (ایام بیض) یعنی تیرھویں، چودہویں،اور پندرہویں تاریخوں کے روزے فرض تھے۔ اسی طرح اہل ہنود (ہندو) ہوں یا یہودی یا پھر عیسائی تمام مذاہب میں یہ روش دور دوراں سے چلی آرہی ہے گرچہ انکے روزہ کے مسائل مختلف تھے ۔حضرت عیسٰی علیہ السلام نے اعلان نبوت سے پہلے چالیس دن روزہ رکھا، یعنی یہ واضح ہے کہ روزہ تاریخ بشر میں کوئی نئی شے نہیں۔ درحقیقت انسانی جسم ایک Biological machine ہے، جس طرح ایک مشین بجلی، پیٹرول وغیرہ سے Energy لے کر روح رواں ہو جاتی ہے لیکن جب تک اسکے تمام پرزے اپنے مقام پر درست کارکردگی انجام دے رہے ہوں اور یہ تبھی ممکن ہوتا ہے جب اس مشین کی بروقت servicing اور overhauling ہو، بس ٹھیک اسی طرح انسانی جسم جسے ایک مشین کی حیثیت حاصل ہے serviceing لازم ہے، لہٰذا اس مشین کے خالق نے اسکی سروس کے لئے ایک خاص عمل، روزے کی صورت میں اس پر لازم کر دیا۔ جس کا خاص اثر انسان کے جسم، اخلاق اور روح پر پڑتا ہے۔
مشہور فلاسفر سقراط جسکا زمانہ ۴۷۰ سال قبل مسیح ہے، کسی اہم موضوع کے بارے میں غور و فکر کرنے چلتا تو تمرکز ذہنی کے لئے پہلے دس دن روزہ رکھتا، اس نے روزہ کے طبی فوائد پر مفید بحث کی ہے۔ اسکے طبی فوائد کے ذیل میں کہتا کہ ہر شخص کے اندر ایک ڈاکٹر موجود ہے ہمیں اپنے اندرونی ڈاکٹر یعنی قوت مدافعت کی معاونت کرنی چاہیئے اور تعاون کی بہترین تدبیر روزہ ہے۔ انسانی مشین دو طرح کے خونی دباؤ پر چلتی ہے جسمیں سے انقباضی دباؤ (systolic pressure) دوسرا انبساطی دباؤ (diastolic pressure) ہے، ان دونوں دباؤ کی زیادتی انسانی جسم کے لئے نقصان دہ ہے اور اس بیماری کو عرفِ عام میں high blood pressure یا BP کہتے ہیں جو ایک مہلک بیماری ہے، ان دونوں میں زیادہ خطرہ diastolic دباؤ کے بڑھنے سے ہوتا ہے۔ دن بھر کچھ نا کھانے کی وجہ سے خون میں کچھ مقدار کمی آتی ہے جس سے diastolic دباؤ کم سطح پر ہوتا ہے جو دل کے آرام و سکون کا باعث بنتا ہے۔
دوران خون پر خاص اثر ہے۔ اس حقیقت سے اب سب آگاہ ہیں کہ شریان خون میں کمزوری اور افسردگی کی اہم وجوہات میں سے ایک یہ ہے کہ اس میں موجود باقی ماندہ مادّے (remnants) ہیں جو مکمل تحلیل نہیں ہو پاتے، یہ خون میں مخلوط ہو کر اسکے نظام کو درہم برہم کرتے ہیں روزے کے دوران افطار تک یہ مادے مکمل طور پر تحلیل ہو جاتے ہیں اور یہ تحلیل شدہ مادّے خون کی شریانوں پر نہیں جمتے جسکی وجہ سے خون متعادل طور پر رواں رہتا ہے۔ انسانی بدن میں دل کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اور روزہ دل کی تمام بیماری کے لئے مفید ہے چونکہ دل کا کام ہے جسم کے تمام اعضاء میں خون کو پہچانا۔ طبیبوں کے قول کے مطابق دل دس فیصد خون ان اعضاء کو سپلائی کرتا ہے جنکا کام ہے غذا کو ہضم کرنا اب جبکہ انسان دن بھر کچھ نہیں کھاتا تو دل کو دن میں دس فیصد سکون ملتا جو اسکے لیے بےحد مفید ہے۔ وقت کے رہتے دل hemoglobin کی پیداوار میں مصروف ہو جاتا ہے جو جسمی محافظی سسٹم immune system کو تقویت دیتا ہے۔
اسی طرح روزہ نظام ہاضمہ پر ایک ماہ کا آرام طاری کر دیتا ہے، جس سے معدے کا کھچاؤ ختم ہو جاتا ہے، روزہ کی حالت میں پھیپھڑے تمام فضلات اور بیکار چیزوں کو تیزی سے خارج کر دیتے ہیں، جسکے نتیجہ میں خون کی صفائی اور نظام جسمانی میں صحت کی لہر دوڑ پڑتی ہے۔ روزے کی حالت میں جسم سے تمام زہریلے مادے مانند تیزابِ بول (پیشاب) وغیرہ خارج ہو جاتے ہیں جسکی وجہ جوڑوں اور کمر کے درد میں بہتری آتی ہے۔ روزہ کے جسمانی فوائد میں سب سے اہم جسم اور دماغ میں ہم آہنگی ہے ۔ slimming center میں جانے والے اکثر افراد جیسے ہی اپنی dieting کو ترک کرتے ہیں انکا موٹاپا پہلے سے زیادہ بڑھ جاتا ہے وہ اس وجہ سے کیونکہ دماغ کا وہ حصہ جسے hypothalamus کہتے اور جسکا کام وزن کو کنٹرول کرنا ہے۔ اگر کوئی شخص فاقہ کرتا ہے تو فاقہ کے بعد یہ حصہ تیزی سے کام کرتا ہے نتیجہ وزن پہلے سے زیادہ بڑھ جاتا ہے۔
روزہ ظاہری آلودگی کے ساتھ ساتھ باطنی آلودگی سے نجات کا باعث بنتا ہے جھوٹ، غیبت، برائی، بد گوئی، فحش کلامی، دھوکہ، جھگڑا، ظلم و تشدد جیسے ظاہری آلودگی کے ساتھ ساتھ حسد، بغض، کینہ، بد خواہی، بدگمانی، غیظ و غضب جیسی باطنی بیماریوں سے بچنے کے لئے روزہ ایک بہترین راہ ہے۔ اخلاق کی پاکیزگی میں روزہ کا ایک خاص عمل قوت ارادی میں اضافہ کرنا ہے، اکثر دیکھا جاتا ہے کہ اچھے اور برے کی تمیز کرنے کے باوجود انسان خواہشات کی طرف دوڑ پڑتا ہے، خواہشات کا طوفان روکنے کے لئے ارادہ کا مستحکم اور مضبوط ہونا ضروری ہے روزہ قوت ارادی کو مضبوط کرتا ہے تاکہ انسان اپنے ارادوں پر قائم رہے جس طرح روزہ کے دوران تمام نعمتوں کے سامنے ہونے کے باوجود وہ اسے ہاتھ نہیں لگاتا۔ ایک بہترین معاشرہ سازی کے لئے ایک دوسرے کے دکھ درد کو جاننا اور دادرسی کرنا ہے۔ ایام روزہ ہر شخص ان تمام مفلس افراد کے درد و فاقوں سے آشنا ہوتا ہے اور انکی دادرسی افطار کی صورت میں انجام دیتا ہے جو یقینا ایک بہترین معاشرہ کی پہچان ہے۔ یہ بات دیکھی گئی ہے کہ لوگوں میں انانیت egoistic یا طبیعت کی سختی ان میں چڑچڑاپن پیدا کر دیتی ہے روزہ ہماری انانیت کو ختم کرتا ہے، جسکے باعث چڑچڑا پن دور ہو جاتا ہے اور انسان سکون کی سانس لیتا ہے۔
روزہ کا ایک خاص عمل جو انسان کے اخلاق پر پڑتا ہے وہ نعمات کی قدردانی ہے۔ نعمتوں کی ناقدری انسان کو آہستہ آہستہ سنگدل بنا دیتی ہے، وہ یہ گمان کرنے لگتا ہے کہ یہ تمام نعمتیں اسکی جاگیر ہیں، نتیجہ میں وہ ظلم تشدد پر اتر آتا ہے۔ ایک ماہ کی طویل مدت میں اسے یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ نعمتوں کا جاگیردار نہیں تمام چیزوں سے دور ہونے کے بعد جیسے نعمتوں کو اپنی پاس پاتا ہے انکا قدردان ہو جاتا ہے۔ صفات انسانی نا فقط ملکوتی ہے اور نا حیوانی بلکہ انسان ان دونوں کے درمیانی صفات کا حامل ہے اس میں کچھ ملکوتی صفات جیسے رحم و کرم، محبت، ہمدردی، صبر و تحمل جو انسان کو دوسروں کی نظر میں اسے محبوب بناتی ہیں اور اسے عزت بخشتی ہیں، وہیں دوسری طرف اس میں کچھ حیوانی صفات بھی شامل ہیں جیسے جنسی جذبات، راحت طلبی، جدت پسندی وغیرہ۔
درحقیقت انسان روحی اور جسمی صفات کا حامل ہے پس جس طرح جسمی صفات مادی غذا سے ابھرتے ہیں ویسے ہی روحانی غذا یعنی نا کھانا انسان کی روح کو تقویت دیتے ہیں اسی خاطر پروردگار عالم نے جو نظام احسن کا خالق ہے، گیارہ ماہ ہماری جسمانی قوت بڑھانے کی خاطر مادی غذا اور ایک ماہ روحانی قوت کو بڑھانے کی خاطر روزہ فرض کیا ہے۔ روزہ کو تمام عبادات میں ایک خاص اہمیت حاصل ہے اور وہ یہ کہ تمام عبادات وقتی روحانیت کا سبب بنتی ہیں جبکہ روزہ میں انسان دن بھر روحانی کیفیت سے سرشار ہوتا ہے۔ ان تمام فوائد کے ساتھ روزہ کا ایک خاص مقصد خدا کی بندگی، سچی لگن اور قرب خدا ہے جو ان تمام فوائد سے برتر اور افضل ہے اور مقصد حیات انسانی ہے۔ درحقیقت مالک حقیقی نے اس خاکی بشر کے لئے جتنے بھی واجبات فرض کئے ہیں ان میں انسان کیلئے دونوں عالم کے فوائد شامل ہیں۔ خداوند عالم سے یہ استدعا ہے کہ وہ ہم سب کو روزہ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
ماہ رمضان ارادے کی مضبوطی کا مہینہ
تحریر: مظفر حسین کرمانی
انسان کو جو باقی مخلوقات سے ممتاز کرنے والی چیزیں ہیں ان میں سے ایک اسکا صاحب ارادہ ہونا ہے، انسان جو عمل، سوچ و حرکت انجام دیتا یے اسکی انجام دہی اسکے ارادہ کرنے سے ہی ہوتی ہے، بقیہ مخلوقات کا اگر ہم مشاہدہ کریں تو وہ ایسے نہیں ہیں، یعنی یوں نہیں ہے کہ وہ کسی عمل کا ارادہ کریں، اور پھر اسے انجام دیں بلکہ غریزی و طبیعی ہدایات کے سبب وہ کوئی بھی فعل انجام دیتے ہیں..
لیکن چونکہ انسان عقل و شعور رکھتا ہے اور انکا تقاضا یہ ہے کہ وہ صاحب ارادہ بھی ہو، اگر اسے قوت ارادہ سے مفقود رکھا جائے تو بجائے اسکے کہ وہ کسی شئی کے درست ہونے کا ادارک کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ یہ شئی بہتر ہے لیکن اس کے لئے حرکت نہیں کر سکتا۔
یا کسی شئی کو برا سمجھتا ہے لیکن اسے ترک نہیں کرسکتا یا خود کو اس سے محفوظ نہیں رکھ سکتا، خود اس شئی کے درست و غلط کی تشخیص دینے کے لئے جو سوچ و بچار کرتا یے وہ خود ایک ارادے کے تحت انجام پاتی ہے...اللہ تعالی نے انسان کو بہت ہی عالی و نفیس نعمتوں سے نوازا ہے، جس کا خود اسے علم نہیں ہے، ہمیں صرف وہ نعمتیں سمجھ میں آتی ہیں جو موٹی موٹی ہوں،، لیکن وہ نعمتیں جو ظریف و نفیس ہیں انکا ادراک نہیں کر پاتے اور حقیقی معنوں میں انسان کی اصل و بڑی نعمتیں جو اسے خدا کی طرف سے عطا ہوئی ہیں وہ یہی نفیس نعمتیں ہیں...
ارادہ:
انسان کی کیفیت وجودی و نفسانی جو اسے کسی بھی سوچ و عمل کی انجام دہی پر اسے ابھارتی ہے۔ انسان بعض اوقات بہت سی چیزوں کو درست گردانتا ہے مگر انہیں انجام نہیں دیتا، اسکی آرزو ہوتی ہے کہ وہ الٰہی انسان بنے جسکی ذات، اعمال و تفکر کا محور فقط اللہ کی ذات ہو مگر یہ اس سے ہو نہیں پاتا، یہ اس لئے کہ اگرچہ اسکی آرزو ہے و ارادہ بھی کرتا ہے مگر اسکا ارادہ اسکے عمل کی انجام دہی میں اسکا محرک (حرکت میں لانے والا) نہیں بن پاتا.. انسان کے وجود میں بہت سی قوتیں ہیں جن کے ذریعے ہماری شخصیت بنتی ہے لیکن ہم خود اس سے آگاہ نہیں ہوتے۔ اصلا اس طرف توجہ نہیں دیتے کہ یہ جو شخصیت وجود میں آئی ہے اسکے عوامل و اسباب کیا ہیں۔
انسان کے وجود میں پروردگار کی طرف سے عقل، فطرت، نفس امارہ، غرائز و شہوات رکھی گئی ہیں اور باہر و بیرون سے بھی مختلف عوامل ہوتے ہیں مثلا گھرانہ، خاندان، دوستان و معاشرہ، یہ سب ملکر انسان کی شخصیت کو تشکیل دیتے ہیں، اگر انسان عقل و فطرت کے تابع ہو و اپنے نفس کو تمرین کرائی ہو، انکے مطابق چلنے کی تو اسکا ہر ارادہ الٰہی ہوگا یعنی اسکی ہر حرکت حکم خدا کے تحت انجام پائے گی لیکن اگر اسکے برعکس انسان کے وجود میں شہوات و نفس امارہ غالب ہو تو اسکا ارادہ انہی کے تابع ہوگا اگرچہ وہ ان سے بعض اوقات بیزاری کا اظہار کرے، لیکن چونکہ اس نے اپنے وجود کو انکے فرامین کے مطابق چلنے کی مشق و تمرین کرائی ہے تو اس کے لئے بہت مشکل ہے کہ وہ ان سے چھٹکارا پا سکے، اگر ان سے لاتعلقی کا ارادہ کرے گا بھی تو وہ بہت ہی ضعیف ہوگا۔
اسی طرح بیرونی عوامل بھی انسان کی شخصیت سازی و اسکے ارادوں پر حاکم ہوتے ہیں، مثلا آپ کا دوست یا سہیلی، اگر آپ نے ایسے فرد کو اپنا دوست بنایا ہے جس کے وجود کا پیکر شہوات و نفس امارہ یا معاشرے میں موجود فاسد نظریات سے تشکیل پایا ہے تو خواہ نخواہ وہ آپ پر بھی اثر انداز ہوگا،، اسی لئے قرآن و آئمہ معصومین علیہم السلام نے دوستی کے معیار ذکر کئے ہیں کہ کن کو انسان اپنا دوست بنائے وگرنہ روز قیامت انہی دوستوں کی دوستی پر شکوہ کرے گا کہ کاش اسے دوست نا بنایا ہوتا...ماہ رمضان جہاں اپنے ساتھ بہت ساری برکات لیکر آتا ہے وہاں اسکی ایک برکت یہ ہے کہ اسکے طفیل انسان کو موقع ملتا ہے کہ وہ اپنے ارداے کو مضبوط بنائے و ان فاسد و غلط عادتوں سے خود کو بچائے و چھڑائے جنکا وہ خوگر و عادی ہو گیا ہے۔
عام دنوں میں انسان کیلئے بہت مشکل ہوتا ہے کہ وہ اپنی کسی عادت یا گناہ و غلط کام کو ترک کرے جسے ترک کرنے کا وہ ارادہ رکھتا ہے مگر کر نہیں پاتا، یہ ماہ ان اعمال و افکار سے جان چھڑانے کیلئے بہترین فرصت ہے۔ یہ ماہ درحقیقت انسان کے نفس کو مشق کرانے کا مہینہ ہے، انسان کے سامنے اسکی پسندیدہ غذا ہوتی ہے مگر وہ اسے ہاتھ نہیں لگاتا، کسی غلط عمل کو انجام دینے کی آرزو کرتا ہے مگر اس سے خود کو بچانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہی ماہ ہے جس میں وہ بندہ بھی جس نے پورا سال خود کو دیگر چیزوں میں سرگرم رکھا ہوتا ہے وہ بھی اس ماہ میں اللہ کی جانب رجوع کرتا ہے، اگر ہم اس ماہ اپنے نفس کو تمرین کرائیں فرامین خدا کے تحت چلنے کی و اپنے ارادے کو ارادہ الٰہی کے مطابق کرنے کی تو یقینا ہم کامیاب ہونگے، اور اسکے بعد اپنی باقی زندگی بھی اسکے بھیجے ہوئے قوانین کے ماتحت گزار پائیں گے اور بے شک اللہ ہماری اس کام میں مدد کرے گا... اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اس ماہ کی برکات کو سمجھنے و اس سے استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
دعا کی اہمیت قرآن و حدیث کی روشنی میں
روایات میں دعا کی اہمیت:
جس طرح خداوند متعال نے قرآن کریم میں دعا کی اہمیت و فضیلت کو بیان فرمایا اسی طرح معصومین علیهم السلام سے بہت سی روایات موجود ہیں جن میں دعا کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ ہم یہاں پر اختصار کے ساتھ چند روایات کو ذکر کریں گے۔ رسول خدا ﷺ نے ایک مقام پر دعا کو مومن کا ہتھیار قرار دے دیا کہ جس طرح جب انسان پر کوئی حملہ آور ہوتا ہے تو انسان مادی ہتھیار سے اپنی حفاظت کرتا ہے اسی طرح جب معنوی طور پر دکھ مصیبتیں اور بلائیں انسان پر حملہ آور ہوتی ہیں تو انسان اپنے معنوی ہتھیار دعا کے ذریعے انکا مقابلہ کر سکتا ہے اور دوبارہ فرمایا "دعا مومن کے لیے دین کا ستون ہے"۔ يعنی دعا مومن کے ایمان کے لیے ایک ستون کا مقام رکھتی ہے. جس طرح ایک خیمہ کے لیے ستون کا ہونا ضروری ہے اسی طرح ایک مومن کے ایمان کے ستون، دعا کا ہونا ضروری ہے۔
یعنی بندے کا خدا کے ساتھ دعا کے ذریعے جتنا رابطہ مضبوط ہو گا ایک انسان مومن اتنا ہی معنوی طور پر مضبوط ہو گا۔ تقرب خدا کے لیے بہترین ہتھیار دعا ہے۔ رسول خدا صلی نے ایک مختصر اور جامع حدیث میں ارشاد فرمایا :"الدُّعا سِلاحُ الْمُؤْمِنِ وَ عَمُودُ الدّینِ وَ نُورُ السَّماواتِ وَ الْارْضِ"؛ دعا مؤمن کا ہتھیار، دین کا ستون، اور آسمان و زمین کا نور ہے۔1 اس حدیث سے دعا کی اہمیت و فضیلت کا آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے لیکن افسوس کہ ہم اس نعمت خدا سے اکثر محروم رہتے ہیں۔ ہمارے پیشوا وہ ہیں جنہوں نے ہمیں دعا کا ڈھنگ سکھایا۔ ہمیں بتایا کہ کس طرح اس مالک حقیقی سے سوال کیا جاتا ہے. کس طرح اس رحمان سے اپنی بات منوائی جا سکتی ہے۔ امیرالمومنین علی علیہ السلام نے ایک مقام پر دعا کو رحمت خدا کی چابی قرار دیا اور دنیا و آخرت کی تاریکیوں کے لیے روشنی قرار دے دیا۔ یعنی جب انسان کے گناہوں کی وجہ سے اس پر اپنے پروردگار کی رحمت کے دروازے بند ہو جائیں تو اس وقت دعا وہ چابی ہے جس کے ذریعے رحمت خدا کے دروازے کھولے جا سکتے ہیں.
اور جب انسان اپنے گناہوں کی وجہ سے گمراہی کے اندھیروں میں چلا جاتا ہے اور راہ حق کو گم کر دیتا ہے، اس وقت دعا ہی وہ روشنی ہے جو انسان کو گمراہیوں کے اندھیروں سے نکال کر، حق کی روشنی کی طرف لاتی ہے۔ جب کثرت گناہ کی وجہ سے انسان کا دل تاریک ہو جاتا ہے تو اس وقت دعا ہی کے ذریعے دل کو نور ایمان سے منور کیا جا سکتا ہے۔ دعا وہ روشنی ہے جو انسان کو گناہوں کی تاریکی سے نکال کر خداوند متعال کے قریب لاتی ہے۔ دعا ہی ہے جو عبد اور معبود کے درمیان قربت کا سبب بنتی ہے۔ دعا ہی ہے جو خالق اور مخلوق کے درمیان رابطے کو پختہ کرتی ہے۔ امير المومنین علی علیہ السلام نے فرمایا:"الدُّعا مِفْتاحُ الرَّحْمَةِ وَ مِصْباحُ الظُّلْمَةِ"دعا رحمت کی چابی اور (دنیا و آخرت) تاریکی کے لیے روشنی ہے۔ یعنی دعا دنیا و آخرت کی تاریکیوں کے لیے روشنی ہے، جس طرح اس دنیا میں انسان کو نور ھدایت کی ضرورت ہے اسی طرح آخرت میں بھی انسان کو نور رحمت کی ضرورت ہے۔ جس طرح یہ دعا دنیا میں انسان کو گمراہی کے اندھیرے سے نکال کر ھدایت کی طرف لاتی ہے، اسی طرح آخرت میں جس دن انسان مایوسی و نامیدی کے اندھیرے میں سرگردان ہو گا تو یہ دعا اس وقت بھی انسان کی مونس و مددگار ہو گی۔
ایک مقام پر رسول اللہ نے انسان کے تمام نیک اعمال اور واجبات کو عبادت کا نصف قرار دیا اور نصف عبادت دعا کو قرار دیا۔ یعنی اگر انسان تمام واجبات کو انجام دے، جس میں نماز بھی ہے، روزہ بھی ہے، حج بھی ہے، زکوۃ بھی ہے، حتٰی کہ جہاد کہ جس متعلق خود خدا نے فرمایا :کہ "شہید کے خون کا پہلا قطرہ زمین پر نہیں گرتا کہ میں اس کے تمام کے تمام گناہ معاف کر دیتا ہوں"۔ ان عبادات کو انجام دینے کے بعد بھی یہ عبادت کا آدھا ہیں، عبادت کا آدھا دعا کو قرار دے دیا۔ ارشاد فرمایا: "عَمَلَ الْبِرِّ کلُّهُ نِصْفُ الْعِبادَةِ وَ الدُّعا نِصْفٌ" انسان کے تمام نیک اعمال اس کی عبادت کا نصف ہیں اور دوسرا نصف دعا ہے۔ اس حدیث سے دعا کی اہمیت و فضیلت اور دعا کی برکات روز روشن کی طرح واضح ہیں۔ ایک مقام پر امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا :"عَلَيْكُمْ بِالدُّعَاءِ فَإِنَّكُمْ لَا تَقَرَّبُونَ بِمِثْلِهِ وَ لَا تَتْرُكُوا صَغِيرَةً لِصِغَرِهَا أَنْ تَدْعُوا بِهَا إِنَّ صَاحِبَ الصِّغَارِ هُوَ صَاحِبُ الْكِبَارِ". میں آپ کو دعا کی سفارش کرتا ہوں، کوئی چیز بھی اس دعا سے بڑھ کر خدا کے قریب کرنے والی نہیں ہے، اور کسی چھوٹے کام کے چھوٹا ہونے کی خاطر اس کے لیے دعا کو ترک نہ کرنا، چونکہ چھوٹی حاجات بھی اسی کے ہاتھ میں ہیں، جس کے ہاتھ میں بڑی حاجات ہیں۔3 اس حدیث میں اگر دقت کی جائے تو اس میں کافی ظریف نکات موجود ہیں۔
1)۔ امام علیہ السلام نے سب سے پہلے فرمایا کہ میں تمہیں دعا کی سفارش کرتا ہوں۔ امام معصوم کا ایک چیز کے متعلق سفارش کرنا یہ خود اس چیز کی اہمیت پر بہت بڑی دلیل۔ گويا امام علیہ السلام کے نزدیک دعا کی اتنی اہمیت ہے کہ خود اپنے ماننے والوں کو دعا کی سفارش کر رہے ہیں.
2)۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ امام علیہ السلام نے فرمایا: کوئی چیز بھی دعا سے بڑھ کر خدا کے قریب کرنے والی نہیں ہے۔ یعنی خداوند متعال کا قرب حاصل کرنے کے لیے سب سے آسان راستہ دعا ہے۔ دعا کے ذریعے انسان خدا تک پہنچ سکتا ہے۔ خدا سے راز و نیاز کا وسیلہ دعا ہے۔ البتہ تمام نیک اعمال خدا تک پہنچنے کا وسیلہ ہیں۔ تمام نیک اعمال تقرب الھی کا موجب ہیں لیکن جس چیز کی معصوم نے سفارش کی ہے وہ دعا ہے۔
3)۔ تیسرا نکتہ امام علیہ السلام نے فرمایا: دعا کو اپنی چھوٹی چھوٹی حاجات میں بھی ترک نہ کرو۔ یہاں پر معصوم علیہ السلام ہمیں متوجہ کر رہے ہیں کہ ہمیشہ اپنے خدا کے ساتھ رابطہ برقرار رکھو، ایسا نہ ہو کہ ہم جب کسی بڑی مشکل میں مبتلا ہو جائیں تو پھر خداوند متعال کی بارگاہِ میں دعا کریں، توسل کریں۔ بلکہ انسان کو اپنی چھوٹی چھوٹی حاجات اپنی چھوٹی چھوٹی مشکلات میں بھی خداوند متعال کے ساتھ متوسل رہنا چاہیئے، تاکہ وہ عبد اور معبود، خالق اور مخلوق والا رابطہ برقرار رہے۔ جس طرح انسان بڑی بڑی مشکلات اور حاجات میں خدا کا محتاج ہے اسی طرح چھوٹی چھوٹی مشکلات اور حاجات میں بھی خدا کا محتاج ہے۔
4)۔ چوتھا نکتہ یہ ہے امام علیہ السلام نے فرمایا: جس طرح بڑی بڑی حاجات کو پورا، اور بڑی بڑی مشکلات کو رفع کرنی والی ذات، ذات خدا ہے اسی طرح چھوٹی چھوٹی حاجات کو پورا، اور چھوٹی چھوٹی مشکلات کو رفع کرنے والی خداوند متعال کی ذات ہے۔ ہم اس کی طرف متوجہ ہوں یہ نہ ہوں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اگر انسان خیال کرے کہ فقط بڑی بڑی مشکلات میں ہی خداوند متعال سے دعا اور توسل کرنا چاہیئے، چھوٹی چھوٹی مشکلات میں ہم اس کے محتاج نہیں ہیں تو یہ تصور غلط ہے. انسان ہر وقت، ہر حال میں رحمت الھی کا محتاج ہے، لطف پرودگار کا نیازمند ہے۔ لہٰذا ہمیں چاہیئے کہ ہم اپنی چھوٹی چھوٹی حاجات کو بھی اس مہربان پروردگار کے سامنے پیش کریں تاکہ ہمارا رابطہ اپنے مالک حقیقی کے ساتھ برقرار رہے اور اس کی رحمت و لطف ہمارے شامل حال رہے۔ امام محمد باقر علیہ السلام نے ایک حدیث میں ارشاد فرمایا: "ما اَحدٌ أَبغضُ اِلَی اللهِ عزّوجَلَّ مِمَّن یستكبِرُ عَن عِبادَتِه و لا یسأَلُ ما عِندَهُ"۔ خداوند کے نزدیک اس سے بڑھ کر کوئی مبغوض (قابل نفرت) نہیں جو تکبر کی وجہ سے خدا کی عبادت نہیں کرتا اور خدا سے کسی چیز کا سوال نہیں کرتا۔ دعا کی اہمیت کا یہاں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جن چیزوں کی وجہ سے خدا کسی سے نفرت کرتا ہے ان میں سے ایک خدا سے سوال (دعا) نہ کرنا ہے۔ بس دعا ہی ایک ایسا وسیلہ جس کے ذریعے خداوند متعال کی خوشنودی حاصل کی جا سکتی ہے. اور غضب خدا سے بچا جا سکتا ہے.
قبولیت دعا کی شرائط:
دعا انسان کا خالق حقیقی کے ساتھ معنوی رابطے کا نام ہے۔ دعا عبد کی معبود کے ساتھ محبت کی نشانی ہے۔ دعا مخلوق کو خالقِ حقیقی کے ساتھ ملانے کا وسیلہ ہے۔ جب گناہوں کی وجہ سے خالق اور مخلوق کے درمیان پردے حائل ہو جاتے ہیں تو دعا کے ذریعے ہی ان حجابوں کو دود کیا جا سکتا ہے، چونکہ ہم ذکر کر چکے ہیں کہ دعا باقی عبادات کی طرح ایک عبادت ہے لہٰذا جس طرح باقی تمام عبادات کے خاص احکام اور شرایط ہیں، اسی طرح دعا کی بھی کچھ شرائط ہیں۔ انسان مومن کو چاہیئے کہ جب دعا کرے تو ان شرائط کا لحاظ کرے، تاکہ اس کی دعا مرحلہ استجابت تک پہنچ جائے۔ بسا اوقات ہم دعا تو بہت زیادہ کرتے ہیں، لیکن چونکہ دعا کی شرائط کا لحاظ نہیں کیا جاتا، اس لیے بسا اوقات ہماری دعا قبول نہیں ہوتی۔ ہم یہاں پر دعا کی چند شرائط کو اختصار کے ساتھ ذکر کریں گے۔ ان شرائط میں سے...
1۔ خداوند متعال کی عظمت اور قدرت پر ایمان:
دعا کی شرائط میں سے سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ انسان ایمان رکھتا ہو کہ خداوند متعال کی ذات تمام موجودات پر قدرت رکھتی ہے اور یہ ایمان رکھتا ہو کہ خداوند متعال کے لیے کوئی چیز بھی ناممکن نہیں ہے. میں جس چیز (جائز) کا بھی سوال کروں خدا کی ذات اسے عطا کر سکتی ہے۔ وہ اس چیز کو عطا کرنے میں کسی کا محتاج نہیں ہے۔ خدا کے علاوہ کسی پر، کسی قسم کی امید نہ رکھے۔ اس کی تمام امید خداوند کی ذات اقدس ہو۔ خداوند متعال نے خود قرآن میں ارشاد فرمایا: "و من یتوکل علی اللّه فهو حسبه" ترجمہ: جو بھی اپنے امور میں خدا پر توکل کرے گا بس خدا اس کے لیے کافی ہے۔ علی بن سوید سائی کہتا ہے، اس آیت کے متعلق امام رضا علیہ السلام سے کسی نے سوال کیا۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: "و من یتوکل علی الله فهو حسبه" يعني: "التوکل علی الله درجات: منها أن تتوکل علی الله فی أمورک کلها فما فعل بک کنت عنه راضیا تعلم أنه لا یألوک خیرا و فضلا".... . توکل کے درجات اور مراتب ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ تو اپنے تمام امور میں خداوند متعال پر توکل اور اعتماد کرے، اور جو کچھ وہ تیرے لیے انجام دے تو اس پر راضی رہے اور تو جان لے، یقین رکھ کہ وہ کسی صورت میں بھی اپنے فضل و خیر اور کرم سے تیرے حق میں کوتاہی نہیں کرے گا۔6
2۔ توجه قلبی سے دعا کرنا:
دعا کی شرائط میں سے دوسری شرط توجہ قلبی ہے، دعا کرنے والے کو چاہیئے کہ مکمل توجہ اور خلوص کے ساتھ اپنی حاجات کو خداوند متعال سے طلب کرے. دعا کرتے وقت متوجہ ہو کہ کس سے ہمکلام ہو رہا ہے۔ خداوند متعال نے قرآن میں ارشاد فرمایا: "فادعواللّه مخلصین له الدین" ترجمہ: فقط خدا کو پکاریں اور اپنے دین کو اسی کے لیے خالص کریں۔7 یعنی دعا اور درخواست خالص ہونی چاہیئے۔ ایک مقام پر امیرالمومنین علی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا، "لا یَقْبَلُ اللّهُ عَزَّوَجَلَّ دُعاءَ قَلْبٍ لاهٍ؛...،خدا اس کی دعا قبول نہیں کرتا جس کا دل دعا کرتے وقت غافل اور مشغول ہو۔ 8۔ امير المومنین کے اس نورانی کلام سے واضح ہے کہ دعا کی قبولیت کے لیے توجہ لازم ہے، ورنہ دعا استجابت کے مرحلے تک نہیں پہنچے گی۔ خداوند متعال نے قرآن میں ارشاد فرمایا: "وَ یَدْعُونَنا رَغَبا وَ رَهَبا وَ کانُوا لَنا خاشِعینَ" ترجمہ: انہوں نے ہم کو امید اور ڈر سے پکارا اور ہمارے لئے خشوع کیا۔9 معلوم ہوا دعا کی قبولیت دعا کرنے والے سے وابستہ ہے، اگر دعا کرنے والا توجہ اور خلوص کے ساتھ دعا نہ کرے تو دعا قبول نہیں ہوتی۔
3۔ شر اور خیر کی پہچان:
دعا کی شرائط میں سے تیسری شرط خیر اور شر کی پہچان ہے۔ انسان راہ نجات اور راہ ہلاکت کو جانتا ہو. کہیں ایسا نہ ہو کہ انسان اپنی ہلاکت کی آپ ہی دعا کر رہا ہو. یہ تب مشخص کر پائے گا جب خیر اور شر کی پہچان ہو گی۔ خداوند متعال نے سورہ اسرا میں ارشاد فرمایا: "وَ یَدْعُ الاِنْسانُ بِالشَرِّ دُعاءَهُ بِالْخَیْرِ وَ کانَ الانْسانُ عَجُولاً" ترجمہ: انسان کو جس طرح خیر مانگنا چاہیئے اسی انداز سے شر مانگتا ہے اور انسان بڑا جلد باز ہے۔10 اس آیت کے متعلق امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: "وَ اعْرِفْ طُرُقَ نَجَاتِکَ وَ هَلَاکِکَ کَیْلَا تَدْعُوَ اللَّهَ بِشَیْءٍ مِنْهُ هَلَاکُکَ وَ أَنْتَ تَظُنُّ فِیهِ نَجَاتَکَ قَالَ اللَّهُ عزّوجلّ وَ یَدْعُ الْإِنْسانُ بِالشَّرِّ دُعاءَهُ بِالْخَیْرِ وَ کانَ الْإِنْسانُ عَجُولًا وَ تَفَکَّرْ مَا ذَا تَسْأَلُ وَ کَمْ تَسْأَلُ وَ لِمَا ذَا تَسْأَلُ" تیرے اوپر لازم ہے کہ نجات اور ھدایت کے راستوں کو پہچان، تاکہ دعا کرتے وقت خدا سے ایسی چیز کا سوال نہ کرے جس میں تیری ہلاکت ہو، اور تو گمان کر رہا ہو کہ اس میں میری نجات ہے۔ 11بس معلوم ہوا دعا سے پہلے انسان سوچے کہ کس سے مانگ رہا ہے، اور کیا مانگ رہا ہے تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ خیر کے بجائے شر طلب کر رہا ہو، اگر انسان خیر اور شر میں تشخیص کی صلاحیت نہ رکھتا ہو، تو پھر اسے چاہیئے خدا سے اس طرح دعا کرے، کہ خدایا ہر وہ چیز جو میرے لیے خیر اور مصلحت رکھتی ہے، وہ مجھے عطا کر۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منابع:
[1] (کافى، جلد ۲، ص ۴۶۸.)
[2] (بحارالانوار،ج۹۰، ص ۳۰.)
[3] (كافى (ط-الاسلامیه) ج 2، ص 467، ح 6)
[4] (وسائل، ج ٤، ص ١٠٨٤)
[5] سوره طلاق 3
[6] وسائل الشیعه، ح. ۲۰۳۰۷؛ بحار ۶۸: ۱۲۹ ح. ۵
[7] غافر آیت. 14
[8] الکافي؛ ج 2، ص 473
[9] انبیاء 9
[10] سورہ اسرا 11
[11] مستدرک الوسلنگرایل، ج۵، ص،۲۷۱
تحریر: ساجد محمود
ماہ مبارک، عبادت اور تنہائی
تحریر: سید ثاقب اکبر
اب کے یہ مہینہ دنیا میں عجب حالات میں آیا ہے۔ ایک طرف رمضان کریم، اللہ کریم کا خاص مہینہ ہے، عبادت و مناجات اور دعا و تضرع کا مہینہ اور دوسری طرف سماجی فاصلوں کی تاکید، گھروں میں رہنے پر زور، مساجد میں رونقیں کم، گلیاں اور سڑکیں بہت حد تک سنسان۔ پابندیاں، مجبوریاں، قدغنیں اور تنہائیاں۔ اس ماہ میں، ان دنوں یہ عالم ہے۔ اس مہینے میں کرونا کی وباء سے پوری دنیا میں پیش آنے والے بے شمار اور بے پناہ مسائل ہیں، لیکن ہر طرف سے ایک ہی تلقین ہے: سماجی فاصلہ، Social Distance۔ البتہ اللہ کے بہت سے بندے اس دور اِبتلا میں بھی خیر کے پہلو تلاش کرتے پھرتے ہیں اور وہ ایسا کیوں نہ کریں کہ خود پروردگار عالم نے فرما رکھا ہے: وَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ "بسا ایسا ہوتا ہے کہ کوئی چیز تمھیں ناگوار گزرتی ہے جبکہ وہی تمھارے لیے خیر ہوتی ہے۔"(سورہ بقرہ، ۲۱۶) کتنے خدا کے بندے ہیں جو تنہائیوں کی ساعتیں ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ایک عارفِ الہیٰ تنہائی میں محوِ راز و نیاز تھے کہ اُن کے کوئی دوست آپہنچے۔ کمرے میں اکیلے بیٹھے دیکھا تو کہنے لگے: تنہا بیٹھے ہو۔ اُنھوں نے سرد آہ کھینچ کے کہا: اب تنہا ہوگیا ہوں۔
قرآن حکیم کی کئی آیات ایسی ہیں، جو تنہائی میں اللہ تعالیٰ کو پکارنے کی طرف رغبت دلاتی ہیں۔ مثلاً: ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً "اپنے پروردگار کو گڑگڑاتے ہوئے اور چپکے چپکے پکارو۔"(سورہ اعراف، ۵۵) ایک اور خوبصورت آیت دیکھیے: وَاذْكُر رَّبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَخِيفَةً وَدُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ وَلَا تَكُن مِّنَ الْغَافِلِينَ "اپنے پروردگار کو صبح و شام دل ہی دل میں یاد کرو، زاری و خوف کے ساتھ اور زبان سے بھی ہلکی آواز کے ساتھ اور تم غفلت میں پڑے لوگوں میں سے نہ ہو جاؤ۔" ہمارے دینی ادب میں اسی کیفیت کو "مناجات" کہتے ہیں۔ یہ لفظ "نجویٰ" سے نکلا ہے، جس کا معنیٰ ہے "سرگوشی۔" آج جبکہ ہنگامے فرو ہوچکے، رفت و آمد محدود ہوچکی، محفل آرائیاں اور مجالسِ نشاط کے سلسلے رُک چکے، پھر ماہ مبارک بھی آگیا ہے اور اللہ والوں کے لیے مناجات اور خدا کو تنہائی میں پکارنے کا ایک موقع بھی اپنے ساتھ لے آیا ہے۔ ہم اپنے مذہبی ماحول میں دیکھتے ہیں کہ اجتماعی عبادات پر بہت زور ہے۔ محافل دعا اور مجالس ذکر برپا ہوتی رہتی ہیں۔ شب ہائے قدر میں بھی اجتماعات منعقد ہوتے ہیں۔ میلاد نبوی ﷺ اور ذکر اہل بیتؑ کی محافل و مجالس کا بھی ایک وسیع سلسلہ ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر شہرِ اعتکاف کا اہتمام۔
ان میں سے بہت سی محفلیں اور مجلسیں نہایت اہم ہیں، لیکن اجتماعیت کے اس تصور نے تنہائی کی عبادتوں اور ضرورت کے تصور کو گہنا دیا ہے۔ ہمیں ہر معاملے میں اعتدال کا سبق دیا گیا ہے۔ اعتکاف کا تو تصور ہی تنہائی میں ذکر و فکر سے عبارت ہے۔ اس کے لیے بھی جب شہر بسا دیئے جائیں اور اسے اجتماعی عبادت کی شکل دے دی جائے تو "عبادت" تو شاید رہ جائے، لیکن اعتکاف کے مقاصد اس سے پورے نہیں ہوں گے۔ ہم جانتے ہیں کہ اللہ کے خاص بندے جن میں انبیاء پیش پیش ہیں، ایسے مواقع تلاش کرتے تھے کہ انہیں تنہائی میں اپنے پروردگار کے ساتھ محفل ذکر و فکر جمانے کی مہلت مل جائے۔ وہ تنہائی میں، یکسو ہو کر اپنے اللہ کو یاد کریں۔ توبہ و انابت، استغفار و استمداد، دعا و مناجات اور تضرع و زاری کے لیے تنہائی کی چند گھڑیاں درکار ہوتی ہیں۔ نماز تہجد میں ایک یہ مقصد بھی کار فرما ہے۔ نبی کریم ﷺ کا اعلان بعثت سے پہلے غار حرا میں جانا اور اپنے اللہ سے لَو لگانا، ہمیں اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ بڑے بڑے عرفاء اور علماء کی گوشہ نشینیاں بلکہ پہاڑوں اور غاروں میں جاکر عبادت اور غور و فکر کرنا اور پھر معارف و دانش اور حکمت و دانائی کے جواہر پارے لے کر بندگانِ خدا کے پاس آنا، ہماری کتابوں میں مذکور و مرقوم ہے۔ ہم تو یہاں تک جانتے ہیں کہ بہت سی اہم علمی و فقہی کتابیں، تفاسیر اور ادب پارے زندان میں تخلیق پائے ہیں۔ تنہائیوں کی برکات کے کتنے پہلو ہیں، جن سے بہت سے لوگ بے خبر ہیں۔
امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے بارے میں مروی ہے کہ وہ زندان میں پہنچے تو اللہ تعالیٰ کا یہ کہہ کر شکر بجا لائے کہ "پروردگارا! میری کتنی آرزو تھی کہ میں جی بھر کر تیری عبادت کروں، تو نے مجھے یہ موقع عطا فرمایا ہے۔" علامہ اقبال کا سحر خیزی کی حوالے سے یہ شعر بہت شہرت رکھتا ہے:
زمستانی ہوا میں گرچہ تھی شمشیر کی تیزی
نہ چھوٹے مجھ سے لندن میں بھی آداب سحر خیزی
اللہ تعالیٰ اس ماہ ِمبارک میں دستیاب ہماری ان تنہائیوں کو اپنی یاد سے آباد کر دے، ہماری غفلتوں کو دُور کر دے، ہمارے دلوں کو اپنے ساتھ جوڑ لے، اپنی محبت سے ہمارے دل معمور کر دے۔ یا اللہ! ہمیں بھی اپنے اُن بندوں کے ساتھ ملحق کر دے، جو تجھے چپکے چپکے پکارتے تھے، گریہ و زاری کے ساتھ اور تیری یاد سے اپنے سینوں کو آباد رکھتے تھے۔ تیرے بندوں کی مناجات اور دعاؤں کے خزانے ہمارے پاس ہیں۔ قرآن حکیم جو تیرے نبیﷺ کے سینے پر نازل ہوا اور اسی مہینے میں نازل ہوا، جو تیری حبل ِ متین ہے، ہمارے پاس ہے۔ نبی کریمﷺ اور اُن کے جانشینوں کی دعاؤں کے خزانے ہمارے پاس ہیں۔ ہم صحیفہ کاملہ جیسی دعاؤں کے وارث ہیں۔ ہمیں ان کا حقیقی حامل و وراث بنا دے۔ اس مہینے میں ہماری توبہ قبول فرما۔ اپنے بندوں پر مہربانی فرما اور کرونا کی اس وبا سے اپنے بندوں کو بیداری کے ساتھ اور خیر کے عزم کے ساتھ نجات دے۔ اپنی خاص رحمتوں کے ساتھ "یاارحم الراحمین۔"
کیا یہ وہی ایران ہے؟
تحریر: سید اسد عباس
گذشتہ دنوں ایران نے اپنے ملک میں تیار ہونے والی سیٹلائیٹ نور کو اپنے ہی ملک میں تیار ہونے والے لانچر کے ذریعے کامیابی سے فضا میں پہنچا دیا، سیٹلائیٹ نے لانچ ہونے کے نوے منٹ بعد اپنے زمینی مرکز پر سگنل دینے شروع کر دیئے تھے۔ ویسے تو خلا میں کئی ایک ممالک کی سیٹلائٹس موجود ہیں، تاہم ہر ملک کے پاس یہ ٹیکنالوجی نہیں ہے کہ وہ اپنی سیٹلائیٹ کو خود خلا میں بھیج سکے۔ اس مقصد کے لیے غریب ممالک کو اکثر ترقی یافتہ ممالک کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ ایران نے اس سیٹلائیٹ کو فضا میں بھیجنے کے لیے اس سے قبل دو تجربات کیے تھے، جن میں اسے ناکامی ہوئی تھی، تاہم اس مرتبہ وہ کامیاب ہوگیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق نور اگرچہ فوجی سیٹلائیٹ ہے، لیکن اس کو غیر فوجی مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس سیٹلائیٹ کو مدار میں پہنچانے کے لیے جو لانچر استعمال کیا گیا ہے، اس کے بارے مین یہ اطلاعات ہیں کہ اس میں ٹھوس ایندھن استعمال ہوا ہے۔ ماہرین کے مطابق ٹھوس ایندھن کو لانچر میں استعمال کرنے کی استعداد دنیا میں گنے چنے ممالک کے پاس ہے۔ ایران ان گنے چنے ممالک میں سے ایک ہوچکا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس ایندھن کے استعمال کے لیے پیچیدہ ٹیکنالوجی درکار ہے۔ نور کے کامیاب تجربہ سے یہ چیز تو واضح ہوگئی ہے کہ ایران نے یہ پیچیدہ ٹیکنالوجی حاصل کر لی ہے۔
ایران نے اس بات کو بھی واضح کیا ہے کہ ہم اس ٹیکنالوجی کو میزائل سسٹم میں استعمال کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے ہیں، تاہم یہ بات ایک حقیقت ہے کہ وہ ایسا کرنے کی صلاحیت حاصل کرچکے ہیں۔ اسی لیے امریکہ کو اس لانچنگ پر تشویش ہے اور اس کا کہنا ہے کہ ایران نے یہ سیٹلائیٹ لانچ کرکے عالمی معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔ ویسے امریکہ بہادر تو اپنے علاوہ کسی بھی ملک کی جانب سے لانچ کی جانے والی سیٹلائیٹ کو عالمی قوانین کے مطابق نہیں سمجھتا، اسی لیے اس نے چین اور جنوبی کوریا کو بھی متعدد مواقع پر ایسی ہی دھمکیاں دی ہیں، جنہیں یہ ممالک اب زیادہ قابل اعتناء بھی نہیں سمجھتے ہیں۔ میرا حیرت سے بھرپور سوال واقعاً دنیا کے اعلیٰ دماغوں کو بھی ورطہ حیرت میں ڈالے ہوئے ہے کہ ایران جو امریکا، یورپ، یورپی یونین، اقوام متحدہ کی جانب سے گذشتہ تین دہائیوں سے پابندیوں کا سامنا کر رہا ہے، جہاں میزائل ٹیکنالوجی، توانائی، سائنس کے مختلف شعبہ جات، فوجی اداروں اور شخصیات، بینکوں، کرنسی، کاروبار، ہوائی انڈسٹری، بحری انڈسٹری اور دیگر کئی ایک شعبوں پر عالمی پابندیاں ہیں، جس کی معیشت کو کبھی سکھ کا سانس نہیں لینے دیا گیا، اس نے کیسے سیٹلائیٹ بنائی اور پھر اسے خود ہی مدار میں پہنچا دیا۔ وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب پورا ایران کرونا کی زد پر ہے اور اس کے سینکڑوں شہری اس آفت سے زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔
ایران نے اس سے قبل بھی دنیا کو متعدد مرتبہ ورطہ حیرت میں ڈالا ہے، کبھی امریکی ڈرون اتار کر، کبھی پیچیدہ ترین ڈرون کو فضاء میں تباہ کرکے، کبھی عراق میں امریکوں اڈوں کو نشانہ بنا کر۔ تاہم اس بار تو ایران نے سبھی حدیں ہی عبور کر دیں اور دنیا کو بتایا کہ ایران کے حالات خواہ کیسے ہی کیوں نہ ہوں، ایرانی قوم کی پیشرفت اور ترقی کا سفر کسی حال میں بھی نہیں تھم سکتا ہے۔ اگر ایران کی جگہ کوئی اور ملک ہوتا، جو اتنے عرصے سے مغربی ممالک کی پابندیوں کا سامنا کر رہا ہوتا تو میں نہیں سمجھتا کہ وہ فی الحال فضا میں غبارے چھوڑنے سے اوپر جا سکا ہوتا۔ ایرانی سائنسدانوں اور ماہرین نیز اس کے فیصلہ سازوں نے دنیا کے سامنے ثابت کر دیا ہے کہ اگر کوئی قوم ترقی اور خود انحصاری کا فیصلہ کر لے تو دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت اس قوم کے ارادوں کو متزلزل نہیں کرسکتی ہے۔ ایرانیوں نے یہی ثابت کیا ہے کہ معاشی، اقتصادی، علمی پابندیاں ترقی کی رفتار کو سست تو کرسکتی ہیں، تاہم مکمل طور پر روکنا ان پابندیوں سے بس سے باہر ہے۔
ایران نے نور سیٹلائیٹ کو کامیابی سے مدار میں پہنچانے کا تجربہ کرکے جہاں سائنسی اور علمی میدان میں اپنی پیشرفت اور خود کفالت کا اعلان کیا ہے، وہیں اس نے خطے کے دیگر ممالک کے لیے بھی ایسی ہی ترقی اور پیشرفت کے مواقع روشن کر دیئے ہیں۔ کرونا کے خلاف جنگ میں بھی ایران نے بہت جلد ایسے انقلابی اقدامات کئے ہیں، جن سے ملک میں اموات کی شرح دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ ایران میں کرونا سے صحتیاب ہونے والے مریضوں کی تعداد چین کے بعد سب سے زیادہ ہے، ایران میں اب تک نوے ہزار کرونا کے مریض رجسٹر ہوئے ہیں، جن میں سے تقریبا ستر ہزار کے قریب صحتیاب ہوچکے ہیں۔ اس وقت ایران میں کویڈ 19 کے تقریباً پندرہ ہزار کیسز موجود ہیں، جبکہ اموات کی تعداد پانچ ہزار سات سو کے قریب ہے۔ ایران کی اس پیشرفت اور خود کفالت کا موازنہ دنیا کے کسی بھی ملک سے کرنا بالکل غلط ہے، کیونکہ دنیائے اسلام میں بالخصوص اور اقوام عالم میں بالعموم کوئی بھی ایسا ملک نہیں ہے، جو مغربی ممالک کی پابندیوں کا ایران کی مانند سامنا کر رہا ہو اور ان تمام معاشی، اقتصادی، تجارتی، علمی اور سائنسی پابندیوں کے باوجود ایسے معجزات رونما کرے۔ سائنسی ترقی کے یہ مظاہر اور ان شعبوں میں خود کفالت ایرانی قوم اور اس کی قیادت کا طرہ امتیاز اور ایمان باللہ کی بین دلیل ہے۔ اللہ کریم دنیا کی تمام اقوام اور ریاستوں کو اپنے قدموں پر کھڑا ہونے اور عزت و وقار سے جینے کا حوصلہ عطا فرمائے۔آمین
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَىٰ وَالْفُرْقَانِ
.بقره 185رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ہے جو لوگوں کے لئے ہدایت ہے اور اس میں ہدایت اور حق و باطل کے امتیاز کی واضح نشانیاں موجود ہیں
رمضان المبارک کے آداب و شرائط/ نزول قرآن ، رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ
رمضان المبارک کا مہینہ نزول قرآن ، رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ ہے ۔ یہ مہینہ عبادت، بندگی ، توبہ و استغفار اور اللہ تعالی کی خوشنودی حاصل کرنے کا مہینہ ہے۔
رمضان المبارک کے آداب مندرجہ ذیل ہیں :
1۔ چاند کا دیکھنا
اس مہینے کے آداب میں سے ایک یہ ہے کہ اس مبارک مہینے کے چاند کو دیکھا جائے اور اس چیز کو «سنن النبی» اور «تهذیب» شیخ طوسی (ره) نے ذکر کیا ہے کہ چاند کا دیکھنا سنت نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ہے رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ماہ مبارک رمضان کے چاند کو دیکھتے اور اس مہینے کی دعا کو پڑھتے تھے ۔ (1)
2۔ سحری اور افطاری کا کھانا
سحری اور افطاری اس مہینے کی سنت میں شمار ہوتا ہے اور اسی طرح شریعت اسلام میں «صوم وصال»؛ یعنی ایک روزے کے بعد دوسرا روزہ بغیر کچھ کھائے پیے منع کیا گیا ہے،ہاں مگر جب کوئی مجبوری ہو یعنی کھانے کے لیے کچھ نہ یا پھر سوئے رہے اور اذان کے بعد آنکھ کھولی تو اس صورت میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
شیخ مفید نے کتاب مقنعہ میں لکھا ہے کہ : آل محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) سے نقل ہوا ہے «سحرى» کھانا مستحب ہے اگرچہ ایک گھونٹ پانی کا ہی کیوں نہ ہو ۔
اسی طرح ایک اور روایت میں ذکر ہوا ہے کہ بہترین سحری «کھجور» ہے؛ کیونکہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) اسے کھاتے تھے ۔ (2)
کتاب سنن النبی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) میں جب آپ افطار کرتے تھے تو آپ کی افطاری میں ،حلوہ ،کھجور ،دودھ،روٹی ہوا کرتی تھی اور بعض اوقات یہ بھی دیکھا گیا کہ جب کچھ نہیں ہوتا تھا تو آپ پانی سے روزہ افطار کرتے تھے ۔ (3)
اہم تکتہ: سحری اور افطاری میں حلال کھانے پر توجہ کی جائے تفسیر روح البیان میں ذکر ہے کہ سحری اور افطاری میں چاہے ایک لقمہ ہی کیوں نہ ہو وہ حلال کا ہونا چاہیے کیونکہ حرام لقمہ ایسا ہے کہ جیسے زہر کھا رہے ہوں۔ (4)
3۔نماز و دعا اور استغفارو صدقہ کا کثرت سے انجام دینا
اس مبارک مہینے میں بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے کہ اس ماہ کو نماز و دعا اور اسی طرح استغفارو صدقہ سے گزارا جائے اور اس کا ذکر سنن النبی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) میں آیا ہے ۔
سید بن طاوس نے کتاب «اقبال» میں تاریخ نیشابورى سے روایت نقل کی ہے کہ جب بھی ماہ مبارک رمضان آتا تو رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے چہرے کا رنگ بدل جاتا آپ کا زیادہ و قت نماز و دعا میں گزرتا اور لوگوں کو استغفار کی تاکید کرتے ۔ (5)
کتاب «فقیه» میں روایت نقل ہے کہ: رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) جب بھی ماہ مبارک رمضان آتا تو سارے قیدیوں کو آزاد کر دیتے اور ہر سائل کو کچھ نہ کچھ ضرور دیتے (6)
کتاب کشف الاسرار میں آیا ہے کہ: رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا: «من صام رمضان و قامه ایمانا و احتسابا غفر له ما تقدّم من ذنبه» جو بھی ماہ رمضان میں روزے رکھے اور اس کی راتوں میں جاگے اور روزہ رکھنے کو فریضہ سمجھے تو خدا اس کےپچھلے تمام گناہوں کو معاف کر دے گا ۔(7)
اسی طرح خطبہ شعبانیہ میں بھی ذکر ہوا ہے کہ نماز کے وقت دعا کے لیے ہاتھ اٹھائیں اور یہ بہترین وقت ہے دعا کے لیے ،اور خدا اپنے بندوں کی مناجات کو سنتا ہے اور انکی حاجات کو مستجاب کرتا ہے ،آواز آتی ہے کہ اے لوگوں اپنے نفس کو استغفار کے لیے آزار کرو،تمہارے کندھوں بہت بوج ہے اور یہ کندھے وہ بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں اس لیے استغفار کرو اور سجدہ کرو ،اور جو بھی ایک آیہ کریمہ کی تلاوت کرے گا وہ ایسے ہےکہ جیسے اس نے دوسرے مہینوں میں پورا قرآن ختم کیا ہو ۔ (8)
4۔ اعضاو جوارح کا روزہ
روزہ کے آداب میں اس کی بھی بہت زیادہ تاکید ہے کہ انسان اعضا و جوارح کا بھی خیال رکھے یعنی ان کا بھی روزہ ہونا چاہیے تفسیر جامع نے کافی ، فقیہ اور تہذیب سے نقل کیا ہے محمد ابن مسلم نے امام صادق (علیہ السلام) سے نقل کیا ہے کہ امام نے فرمایا:جب بھی روزہ رکھو تو تمہارے ہر عضو کا روزہ ہونا چاہیے یعنی کان ، آنکھ ، ہاتھ ، پاؤں سب کا روزہ ہونا چاہیے ۔ (9)
امام صادق (علیہ السلام )نے فرمایا : روزہ رکھنا ،فقط کھانے پینے کی چیزوں کا روزہ نہیں ہے حضرت عیسی (علیہ السلام) کی ماں مریم (علیھا السلام) نے کہا کہ : «میں نے منت مانی ہے کہ خداوند متعال کی ذات کے لیے روزہ رکھوں » یعنى، میں فقط اور فقط خدا کی مدح کے لیے بولوں گی ۔
ایک مرتبہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) نے سنا کہ ان کی ازواج میں سے ایک روزے کی حالت میں اپنے خادم کو برا بھلا کہہ رہی ہے تو آپ نے فرمایا کہ : اس کے لیے کھانا لے آؤ تو اس نے کہا نہیں میں روزے سے ہوں تب آپ نے فرمایا کہ: «کیسا روزہ ! اگر روزے سے ہوتی تو ایسے الفاظ سے بات نہ کرتی ،فقط بھوک کا روزہ نہیں ہوتا »۔
امام(علیہ السلام) نے فرمایا:جب بھی روزہ رکھو تو تمہارے ہر عضو کا روزہ ہونا چاہیے کہیں ایسا نہ ہو کہ بھوک کی حالت میں آنکھ ،کان حرام میں مبتلا ہوں اور فرمایا کہ جس دن روزہ رکھو وہ دن تمہارے باقی دنوں کی طرح نہ ہو ۔ (10)
5۔ماہ مبارک کے آخری عشرے میں خصوصی توجہ
ماہ مبارک رمضان کے آخری دس دنوں میں خصوصی توجہ ہونی چاہیے کہ یہ دس دن اہم اہمیت رکھتے ہیں ان دس دنوں میں خصوصی توجہ دینا سنت رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) میں سے ہے اور اعتکاف بھی بیٹھے۔
کافى میں امام صادق (علیہ السلام) سے روایت ہے کہ:جیسے ہی ماہ مبارک کا آخری عشرہ آتا تو رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)اسے ایک خاص انداز سے گزارتے اپنی بیویوں سے نزدیکی نہ کرتے پوری پوری رات عبادت کرتے ان دس دنوں میں انہیں کوئی فارغ نہیں پاتا تھا ۔ (11)
کتاب «دعائم» میں حضرت علی (علیہ السلام) سے روایت ہے کہ :ماہ مبارک رمضان کے آخری دس دنوں میں رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اپنا بستر جمع کر دیتے تھے اور اپنی کمر کو عبادت کے لیے باندھ دیتے اور جیسے ہی ۲۳ رمضان کی رات آتی تو اپنے گھر والوں کو کہتے خبردار آج کوئی سوئے نا اور کسی کو نیند آنے بھی لگتی تو اس کے منہ پر پانی ڈالتے اور یہی روش حضرت زہراء (سلام اللہ علیھا) کی بھی ہوتی کہ کسی اس رات سونے نہ دیتیں اور کہتی کہ اس رات کھانا کم کھاؤ تاکہ کسی کو نیند نہ آئے اور یہ فرماتیں :محروم ہے وہ انسان جو اس رات کو بھی سوتا ہے ۔ (12) رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) اور ان کی اہل (علیھم السلام) نے ہمیں یہ درس دیا ہے کہ اس ماہ کی اہمیت کو درک کریں اور خاص طور پر اس مبارک مہینے کے آخری عشرے کو پوری توجہ سے گزاریں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1) طباطبائی، محمد حسین، سنن النبی (ص)، فقهی، محمدهادی، ص 302،ح 343، کتاب فروشى اسلامیه ،تهران، چاپ هفتم، 13788ش.
(2) وہی، ص 295، ح 333.
(3) وہی، ص 294- 301.
(4) آلوسی، تفسیر روح البیان، ج 1،ص 296. قال ابو سلیمان الدارانی قدس سره لأن أصوم النهار و أفطر اللیل على لقمة حلال أحب الى من قیام اللیل و النهار و حرام على شمس التوحید ان تحل قلب عبد فی جوفه لقمة حرام و لا سیما فی وقت الصیام فلیجتنب الصائم أکل الحرام فانه سم مهلک للدین و السنة.
(5) طباطبایی، محمدحسین، سنن النبی، ص 300، ح 336.
(6) همان، ص 296، ح 335.
(7) میبدی، کشف الأسرار و عدة الأبرار، ج 1، ص 488 و 489.
(8) شیخ صدوق، امالى، کمرهاى، ص 94 و 95.
(9) بروجردی،سید محمد ابراهیم، تفسیر جامع، ج 1، ص 300، انتشارات صدر، تهران، چاپ ششم، 1366ش.
(10) بهبودی، محمد باقر، گزیده کافى، ج 3، ص 134و 136، انتشارات علمی و فرهنگی، تهران، چاپ اول، 1363ش.
(11) طباطبائی، محمد حسین، همان، ص 301 و 302،ح 342.
(12) وہی، ص 296، ح 336.
ابن تیمیہ كی نظر میں حضرت رسول اكرم (ص) اور دوسروں كی زیارت كرنا
اقتباس از تاریخ وھابیت؛ علی اصغر فقیھی - مترجم: اقبال حیدر حیدری
ابن تیمیہ نے اپنے فتووں میں كھا ھے كہ اگر قبور پر نماز اور دعا كی جائے تو یہ كام ائمہ مسلمین كے اجماع اور دین اسلام كے خلاف ھے اور اگر كوئی شخص یہ گمان كرے كہ مشاہد اور قبور پر نمازپڑھنا اور دعاكرنا مسجدوں سے افضل ھے توایسا شخص كافر ھے۔۱
ابن تیمیہ مسجد النبی اور آنحضرت (ص)كی قبر كے بارے میں كھتا ھے كہ مسجد النبی اور آنحضرت كی قبر كی زیارت بذات خود ایك نیك اور مستحب عمل ھے اور اس طرح كے سفر میں نمازیں قصر پڑھی جائیں گی(یعنی اس كا یہ سفر، سفر معصیت نھیں ھے كہ اگر سفر معصیت هوتو نماز پوری پڑھنا ضروری ھے) اور اس طرح كی زیارت (جو مسجد النبی كی زیارت كے ضمن میں هو) بھترین اعمال میں سے ھے اور اسی طرح قبور كی زیارت كرنا مستحب ھے جیسا كہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بقیع اور شہدائے اُحد كی زیارتوں كے لئے جایا كرتے تھے اور اپنے اصحاب كو بھی اس عمل كی ترغیب دلاتے تھے چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایاكہ جس وقت زیارت كے لئے جایا كرو تو اس طرح كھا كرو:
”اَلسَّلاٰمُ عَلَیْكُمْ اَہْلَ الدِّیَارِ مِنَ الْمُوٴمِنِیْنَ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَاِنَّا اِنْ شَاءَ اللّٰہُ بِكُمْ لاٰحِقُوْنَ وَیَرْحَمُ اللّٰہُ الْمُسْتَقْدِمِیْنَ مِنَّا وَمِنْكُمْ وَالْمُسْتَاخِرِیْنَ وَنَسْئَلُ اللّٰہَ لَنَا وَلَكُمُ الْعَافِیَةَ، اَللّٰهم لاٰتَحْرِمْنَا اَجْرَهم وَلاٰ تَفِتْنَا بَعْدَهم وَاغْفِرْ لَنَاوَلَهم“
”سلام هو تم پر اے مسلمین ومومنین، اور انشاء اللہ ھم بھی تم سے ملحق هونے والے ھیں، خدا رحمت كرے ان لوگوں پر جو اس دیار میں ھم سے پھلے آئے یا بعد میں آئیں گے ،میں اپنے لئے اور تمھارے لئے خداوندعالم سے عافیت كا طلبگار هو ں، بارالہٰا! ھم پر اجر ثواب كو حرام نہ كر، اور ھمیں اور ان لوگوں كو بخش دے“۔
قارئین كرام! جب عام مومنین كی قبروں كی زیارت جائز هو تو پھر انبیاء، پیغمبروں اور صالحین كی قبور كی زیارت كا ثواب تو اور بھی زیادہ هوگا، لیكن اس سلسلہ میں ھمارے نبی حضرت محمد مصطفی كا دوسرے انبیاء سے یہ فرق ھے كہ آپ كے اوپر ھر نماز میں صلوات او رسلام بھیجنا ضروری ھے، اسی طرح اذان اور مسجد میں داخل هوتے وقت كی دعا یھاں تك كہ كسی بھی مسجد میں داخل هونے كی دعا اور مسجد سے باھر نكلتے وقت آپ پر سلام بھیجا جاتا ھے، اسی وجہ سے امام مالك نے كھا كہ اگر كوئی شخص یہ كھے كہ میں نے حضرت پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر كی زیارت كی ھے تو اس كا یہ كہنا مكروہ ھے، اور قبور كی زیارت سے مراد صاحب قبر پر سلام ودعا ھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر یہ سلام و دعا ،كامل ترین انداز میں،نمازاذان او ردعا كے وقت درود وسلام بھیجنا ھے، ۲ اور اسی لئے كبھی یہ اتفاق نھیں هوا كہ اصحاب پیغمبرآنحضرت (ص)كی قبر مطھر كے نزدیك نھیں گئے ،اور كبھی انھوں نے حجرے كے اندر سے یا حجرے كے باھر سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر كی زیارت نھیں كی، لہٰذا اگر كوئی شخص فقط آنحضرت كی قبر كی زیارت كی وجہ سے سفر كرے اور اس كا قصد مسجد النبی میں نماز پڑھنا نہ هو، تو ایسا شخص بدعتی اورگمراہ ھے۔ ۳
ابن تیمیہ نے اس سلسلہ میں صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر كی زیارت كے لئے سفر كرنے والوں كے لئے، چند قول نقل كئے ھیںكہ چونكہ یہ سفر، سفر معصیت ھے لہٰذا كیا نماز پوری هوگی یا قصر۔ ۴
ابن بطوطہ كے قول كے مطابق ابن تیمیہ قائل تھا كہ چونكہ یہ سفر، سفر معصیت ھے لہٰذاكیا نماز پوری پڑھنا ضروری ھے؟۵
اسی طرح ابن تیمیہ كھتا ھے: مسلمانوں كے ائمہ اربعہ نے خلیل خدا جناب ابراھیم كی قبراور دیگر انبیاء كی قبروں كی صرف زیارتوں كے لئے سفر كرنے كو مستحب نھیں جانا ھے، لہٰذا اگر كوئی شخص ایسے سفر كے لئے نذر كرے تو اس نذر پر عمل كرنا واجب نھیں ھے۔ ۶
اس كے بعد زیارت كے طریقہ كے بارے میں كھتا ھے كہ اگر زیارت سے كسی كا مقصد صاحب قبر كے لئے دعا كرنا هو تو اس كی یہ زیارت صحیح ھے لیكن اگر كوئی كام حرام هو جیسے (صاحب قبر كو) خدا كا شریك قرار دینا، (گویا ابن تیمیہ كی نظر میں صاحب قبر سے استغاثہ كرنا اور اس كو شفیع قرار دینا شرك كا باعث ھے) یا اگر كوئی كسی كی قبر پر جاكر روئے، نوحہ خوانی كرے یا بے هودہ باتیں كھے تو اس كی یہ زیارت باتفاق علماء حرام ھے، لیكن اگر كوئی شخص كسی رشتہ دار اور دوستوں كی قبر پر جاكر ازروئے غم آنسو بھائے تو اس كا یہ كام مباح ھے البتہ اس شرط كے ساتھ كہ اس گریہ كے ساتھ ندبہ او رنوحہ خوانی نہ هو۔ ۷ اسی طرح مَردوں كے لئے زیارت كرنا مباح ھے، البتہ عورتو ںكے بارے میں اختلاف ھے كہ وہ قبور كی زیارت كرسكتی ھیں یا نھیں؟ ۸
البتہ ابن تیمیہ صاحب كفار كی قبور كی زیارت كے بارے میں فرماتے ھیں كہ ان كی زیارت كرنا جائز ھے تاكہ انسان كو آخرت كی یاد آئے، لیكن جب كفار كی قبور كو دیكھنے كے لئے جائے تو ان كے لئے خدا سے استغفار كرنا جائز نھیں ھے۔ ۹
اسی طرح ابن تیمیہ صاحب كا عقیدہ یہ بھی ھے كہ قبور كے نزدیك نماز پڑھنا یا قبروں پر بیٹھنا (یا ان كے برابر بیٹھنا) اور قبروں كی زیارت كو عید قرار دینا یعنی كئی لوگوں كا ایك ساتھ مل كر زیارت كے لئے جانا جائز نھیں ھے، ۱۰ چنانچہ وہ كھتے ھیں كہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر كے پاس آنحضرت پر صلوات اور سلام بھیجنا ناجائز ھے كیونكہ یہ كام گویا آنحضرت كی قبر پر عید منانا ھے۔ ۱۱
یھی نھیں بلكہ جناب كا عقیدہ تو یہ بھی ھے كہ وہ احادیث جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی زیارت كے بارے میں وارد هوئی ھیں وہ تمام علمائے حدیث كی نظر میں ضعیف بلكہ جعلی ھیں، اسی طرح موصوف فرماتے ھیں كہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر مبارك پر ھاتھ ركھنا یا قبر كو بوسہ دینا جائز نھیں ھے اور مخالف توحید ھے، ۱۲ اور اسلامی نظریہ كے مطابق كوئی ایسی قبر یا روضہ نھیں ھے جس كی زیارت كے لئے جایا جائے، اور قبور كی زیارت كا مسئلہ تیسری صدی كے بعد پیدا هوا ھے یعنی اس سے قبل زیارت قبور كا مسئلہ موجود نھیں تھا۔ ۱۳
سب سے پھلے جن لوگوں نے زیارت كے مسئلہ كو پیش كیا اور اس سلسلہ میں حدیثیں گڑھیں، وہ اھل بدعت اور رافضی لوگ ھیں جنھوں نے مسجدوں كو بند كركے روضوں كی تعظیم كرنا شروع كردی، چنانچہ روضوں پر شرك، جھوٹ اور بدعت كے مرتكب هوتے ھیں۔ ۱۴
جب ابن تیمیہ سے زیارت كے بارے میں سوال كیا گیا اور اس كے جواب كو شام كے قاضی شافعی نے دیكھا تو اس نے اسی جواب كے نیچے لكھا كہ میں نے ابن تیمیہ كے جواب اور سوال میں مقابلہ كیا اور وہ چیز جو ابن تیمیہ اور ھمارے درمیان اختلاف كا باعث بنتی ھے وہ یہ ھے كہ اس نے انبیاء كرام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبور كی زیارت كو معصیت او رگناہ كھا ھے۔
لیكن ابن كثیر نے اس مطلب كو ذكر كرنے كے بعد كھا كہ ابن تیمیہ كی طرف اس مذكورہ بات كی نسبت دینا صحیح نھیں ھے (یعنی اس نے زیارت كو معصیت قرار نھیں دیا)، ابن كثیر صاحب جو ابن تیمیہ كے مشهور ومعروف طرفدار مانے جاتے ھیں مسئلہ زیارت میں ابن تیمیہ كے نظریہ كی توجیہ اور تصحیح كرتے ھیں۔ ۱۵
ابن تیمیہ اپنے نظریات میں عام طور پر تمام قبور او رخاص طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر كی زیارت كے مسئلہ میں بھت زیادہ ہٹ دھرمی سے كام لیتا ھے، اسی وجہ سے اپنی دو كتابوں”الجواب الباھر“ اور ”الرد علی الاخنائی“ میں جب بھی اس طرح كے مسئلہ كو بیان كرتا ھے اور كسی مدرك اور سند كو ذكر كرتا ھے تو اس كو كئی كئی بار اور مختلف انداز سے تكرار كرنے كی كوشش كرتا ھے، اور وہ احادیث جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر كی زیارت كو مستحب قرار دیتی ھیں ان كو ضعیف اور جعلی بتاتا ھے، ان احادیث میں سے جن كو اھل سنت نے مختلف طریقوں سے پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل كیا ھے منجملہ وہ حدیث جس میں آنحضرت نے فرمایا: ”مَنْ زَارَ قَبْرِی وَجَبَتْ لَہُ شَفَاعَتِی“ (جس شخص نے میری قبر كی زیارت كی اس كی شفاعت مجھ پر واجب ھے)، اس حدیث كو صحیح نھیں مانتا، جبكہ زیارت سے متعلق احادیث صحاح ستہ اور اھل سنت كی معتبر كتابوں میں موجود ھیں او رمختلف طریقوںسے نقل كی گئی ھیں اور بھت سے علماء نے ان كو صحیح شمار كیا ھے اور ان احادیث كے مضامین پر عمل بھی كیا ھے ۱۶
ھم یھاں پر ان احادیث كے چند نمونے بیان كرنا مناسب سمجھتے ھیں:
امام مالك (مالكی مذھب كے امام) اپنی كتاب ”موطاء“ میں عبد اللہ ابن دینار سے روایت كرتے ھیں كہ ابن عمر جب بھی كسی سفر پر جاتے تھے یا سفر سے واپس آتے تھے تو آنحضرت (ص)كی قبر پر حاضر هوتے تھے اور وھاں نماز پڑھتے تھے اور آپ پر درود وسلام بھیجتے تھے اور دعا كرتے تھے، اسی طرح محمد (ابن عمر) نے كھا:اگر كوئی مدینہ میں آتا ھے تو اس كے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے پاس حاضر هوناضروری ھے۔ ۱۷
ابو ھریرہ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت نقل كرتے ھیں كہ آپ نے فرمایا كہ خدا نے مجھے اپنی والدہٴ گرامی كی قبر كی زیارت كرنے كی اجازت عطا فرمائی ھے، ۱۸
اسی طرح ابوبكر نے حضرت رسول اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت كی ھے جو شخص جمعہ كے دن اپنے ماں باپ یا ان میں سے كسی ایك كی زیارت كرے اور ان كی قبر كے پاس سورہ یٰس پڑھے تو خدا اس كو بخش دیتا ھے۔ ۱۹
اسی طرح عبد اللہ بن ابی ملیكہ كی روایت ھے كہ اس نے كھا:میں نے دیكھا كہ ایك روز جناب عائشہ قبرستان سے واپس آرھی ھیں تو میں نے ان سے عرض كیا اے ام الموٴمنین ! كیا پیغمبر اكرم نے قبور كی زیارت سے منع نھیں فرمایا تھا؟! تو انھوں نے جواب دیا كہ ٹھیك ھے پھلے ایسا ھی حكم كیا تھا لیكن بعد میں خود انھوں نے حكم فرمایا كہ قبروں كی زیارت كے لئے جایا كرو۔ ۲۰
اسی طرح پیغمبر اكرم (ص)كی ایك دوسری حدیث جس میں آپ نے فرمایا : جو شخص میری زیارت كے لئے آئے اور اس كے علاوہ اور كوئی دوسرا قصد نہ ركھتا هو، تو مجھ پر لازم ھے كہ میں روز قیامت اس كی شفاعت كروں۔ ۲۱
جناب سمهودی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر كی زیارت كے بارے میں ۱۷ حدیثیں سند كے ساتھ ذكر كی ھیں، جن میں سے بعض كوھم زیارت كے بارے میں وھابیوں كےعقیدہ كے بیان كریں گے۔
اسی طرح سمهودی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی زیارت كے آداب كو تفصیل سے بیان كرتے ھیں جس كا خلاصہ یہ ھے:
ابو عبد اللہ محمد بن عبد اللہ بن الحسین السامری حنبلی نے، اپنی كتاب ”المُستَوعِب“ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر كی زیارت كے سلسلہ میں آداب زیارت كے باب میں لكھا ھے كہ جب زائر قبر كی دیوار كی طرف آئے تو گوشہ میں كھڑا هوجائے اور قبر كی طرف رخ یعنی پشت بقبلہ اس طرح كھڑا هو كہ منبر اس كی بائیں طرف هو، اور اس كے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر سلام ودعا كی كیفیت بیان كی ھے، اور اس دعا كو ذكر كیا ھے:
”اَللّٰهم اِنَّكَ قُلْتَ فِی كِتَابِكَ لِنَبِیِّكَ عَلَیْہِ السَّلاٰمُ: < وَلَوْاَنَّهم اِذْظَلَمُوْا اَنْفُسَهم جَاْوٴُكَ فَسَتَغْفرُوْا اللّٰہَ وَاسْتَغْفَرَ لَهم الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوْا اللّٰہَ تَوَّاباً رَحِیْماً۔ > وَاِنِّی قَدْ اَتَیْتُ نَبِیّكَ مُسْتَغْفِراً وَاَسْاٴلُكَ اَنْ تُوْجِبَ لِیَ الْمَغْفِرَةَ كَمَا اَوْجَبْتَها لِمَنْ اَتَاہُ فِی حَیَاتِہِ، اَللّٰهم اِنِّي اَتَوَجَّہَ اِلَیْكَ بِنَبِیِّكَ“۔
”خداوندا !تو نے اپنی كتاب میں اپنے پیغمبر (ص)كے لئے فرمایاھے:<اے كاش جب ان لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم كیا تھا تو آپ كے پاس آتے اور خود بھی اپنے گناهوں سے استغفار كرتے اور رسول بھی ان كے حق میں استغفار كرتے، تو یہ خدا كو بڑا ھی توبہ قبول كرنے والا اور مھربان پاتے>، میں اپنے گناهوں كی بخشش كے لئے تیرے نبی كی خدمت عالیہ میں حاضر هوا هوں، اور تجھ سے اپنے گناهوں كی مغفرت چاھتا هوں اور امید ھے كہ تو مجھے معاف كردے گا ،جس طرح لوگ تیرے نبی كی حیات میں ان كے پاس آتے تھے اور تو ان كو معاف كردیتا تھا، اے خدائے مھربان میں تیرے نبی كے وسیلہ سے تیری بارگاہ میں ملتمس هوتا هوں“۔
حنفی عالم دین ابومنصور كرمانی كھتے ھیں كہ اگر كوئی تم سے آكر یہ كھے كہ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تك میرا سلام پهونچادینا، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی بارگاہ میں حاضر هوكر اس طرح كہنا كہ آپ پر سلام هو فلاں فلاں شخص كا، اور انھوںنے آپ كو خدا كی بارگاہ میں شفیع قرار دیا ھے تاكہ آپ كے ذریعہ خداوندعالم كی مغفرت اور رحمت ان كے شامل حال هو، اور آپ ان كی شفاعت فرمائیں۔
سمهودی مذاھب اسلامی كے معتبر اور قابل اعتماد علماء میں سے ھیں، انھوں نے اپنی كتاب كے تقریباً ۵۰ صفحے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر مطھر كی زیارت اور اس كے آداب اور قبر مطھر سے توسل سے مخصوص كئے ھیں، اور متعدد ایسے واقعات بیان كئے ھیں كہ لوگ مشكلات اور بلا میں گرفتارهوئے اور آپ كی قبر مطھر پر جاكر نجات مل گئی ۔ ۲۲
مرحوم علامہ امینیۺ نے زیارت قبر پیغمبر (ص)كی فضیلت اور استحباب كے بارے میں جھاں اھل سنت سے بھت سی روایات نقل كی ھیں وھیں تقریباً چالیس سے زیادہ مذاھب اربعہ كے بزرگوں كے قول بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی زیارت كے بارے میں نقل كئے ھیں۔ ۲۳
قارئین كرام!یھاں پر مناسب ھے كہ محمد ابوزَھرَہ عصر جدید كے مصری موٴلف كا قول نقل كیا جائے، وہ كھتے ھیں: ابن تیمیہ نے اس سلسلہ (زیارت آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) میں تمام مسلمانوں سے مخالفت كی ھے بلكہ جنگ كی ھے۔
روضہ رسول اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی زیارت،دراصل پیغمبر كی عظمت، آپ كے جھاد، مقام توحید كی عظمت كو بلند كرنے میں كوشش اور شرك اور بت پرستی كی نابودی كی كوششوں كی یاد دلاتی ھے، خود ابن تیمیہ روایت كرتے ھیں كہ سَلفِ صالح جب آپ كے روضہ كے قریب سے گذرتے تھے تو آپ كو سلام كرتے
نافع، غلام اور راوی عبد اللہ ابن عمر سے مروی ھے كہ عبد اللہ ابن عمر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر پر سلام كرتے تھے اور میں نے سیكڑوں بار ان كو قبر منور پر آتے دیكھا اور میں نے یہ بھی دیكھا كہ اپنے ھاتھ كو منبر رسول سے مس كرتے ھیں، وہ منبر جس پر آنحضرت (ص)بیٹھا كرتے تھے ،پھر وہ اپنے ھاتھ كو اپنے منھ پر پھیرلیا كرتے تھے ،اسی طرح ائمہ اربعہ جب بھی مدینہ آتے تھے تو آنحضرت كی قبر كی زیارت كیا كرتے تھے۔ ۲۴
عمومی طور پر دوسری قبروں كی زیارت كے بارے میں ابن ماجہ نے روایت نقل كی ھے كہ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
”زُوْرُوْا الْقُبُوْرَ فَاِنَّها تُذَكِّرُكُمُ الآخِرَةَ“۔
”قبروں كی زیارت كے لئے جایا كرو كیونكہ قبروں كی زیارت تمھیں آخرت كی یاددلائے گی“۔
اسی طرح جناب عائشہ كی روایت كے مطابق پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے قبروں كی زیارت كی اجازت عطا فرمائی ھے۔ ۲۵
ابن مسعود سے منقول ایك اورروایت میں ھے كہ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”كُنْتُ نَہَیْتُكُمْ عَنْ زِیَارَةِ القُبُوْرِ، فَزُوْرُوْها فَاِنَّها تُزَہِّدُ فِی الدُّنْیَا وَتُذَكِّرُ الٓاخِرَةَ“۔
”پھلے میں نے تم كو قبروں كی زیارت سے منع كیا تھا لیكن (اب اجازت دیتا هوں كہ) قبروں كی زیارت كیا كرو كیونكہ قبروں كی زیارت دنیا میں زہد پیدا كرے گی اور آخرت كی یاد دلائے گی“۔
اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ایك اور روایت ھے جس میں آپ نے فرمایا كہ قبروں كی زیارت كیا كرو كیونكہ قبروں كی زیارت تمھیں موت كی یاد دلاتی ھے۔ ۲۶
سخاوی كھتے ھیں كہ آنحضرت خود بھی زیارت قبور كے لئے جاتے تھے اور اپنی امت كے لئے بھی اجازت دی كہ وہ بھی زیارت كے لئے جایا كریں، جبكہ پھلے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے قبور كی زیارت سے منع فرمایا تھا۔
قبروں كی زیارت كرنا ایك سنت ھے اور جو شخص بھی زیارت كرتا ھے اس كو ثواب ملتا ھے البتہ زائر كو حق بات كے علاوہ كوئی بات زبان پر جاری نھیں كرنا چاہئے، اور قبروں كے اوپر نھیں بیٹھنا چاہئے، اور ان كو بے اھمیت قرار نھیں دینا چاہئے اور ان كو اپنا قبلہ بھی قرار نھیں دینا چائے ۔
چنانچہ روایت میںوارد هوا ھے كہ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی والدہ گرامی اور عثمان بن مظعون كی قبروں كی زیارت كی اور عثمان بن مظعون كی قبر پر ایك نشانی بنائی تاكہ دوسری قبروں سے مل نہ جائے۔
اس كے بعد سخاوی كھتے ھیں كہ َمردوں كے لئے قبور كی زیارت كے مستحب هونے پر دلیل اجماع ھے جس كو عَبدرَی نے نقل كیا ھے اور نُوو ی شارح صحیح مسلم نے كھا ھے كہ یہ قول تمام علمائے كرام كا ھے۔
ابن عبد البِرّ اپنی كتاب ”استذكار“ میں ابوھریرہ كی حدیث پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل كرتے هوئے اس طرح كھتے ھیں كہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جس وقت قبرستان میں جاتے تھے ،تو اس طرح فرماتے تھے:
”اَلسَّلاٰمُ عَلَیْكُمْ دَارَ قومٍ مُوٴْمِنِیْنَ وَاِنَّا اِنْ شَاءَ اللّٰہ بِكُم لاحقُونَ، نَسْاٴَلُ اللّٰہَ لَنَا وَلَكُمُ الْعَافِیَةِ“۔
اس حدیث كے مضمون كے مطابق قبروں پر جانے اوران كی زیارت كرنے كے سلسلہ میںعلما كا اجماع واتفاق ھے كہ مَردوں كے لئے جائز ھے اوراس سلسلہ میں متعدد احادیث موجود ھیں۔
لیكن عورتوں كے سلسلہ میں خصوصی طور پر صحیح بخاری میں نقل هوا ھے كہ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایك عورت كو دیكھا كہ ایك قبر كے پاس بیٹھی گریہ كر رھی ھے تو آپ نے اس سے فرمایا كہ اے كنیز خداپرھیزگار رهواور صبر كرو، پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس عورت كو منع نھیں كیا كیونكہ اگر عورتوں كا قبور كی زیارت كرنا اور وھاں پرگریہ كرنا حرام هوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس كو منع فرماتے۔ ۲۷
اسی طرح زیارت كے بارے میں ایك حدیث جلال الدین سیوطی نے بیہقی سے نقل كی اور انھوں نے ابوھریرہ سے نقل كی ھے كہ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے شہدائے احد كے بارے میں خاص طور پر فرمایا :
”اَشْہَدُاَنَّ ہٰوٴُلاٰءِ شُہْدَاٌ عِنْدَ اللّٰہِ فَاتُوهم وَزُوْرُوْهم وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہ. لاٰیُسَلِّمُ عَلَیْهم اَحَدٌ اِلٰی یَومَ القِیَامَةِ اِلاّٰ رَدُّوْا عَلَیْہِ“
”میں گواھی دیتا هوں كہ یہ حضرات خدا كی بارگاہ میں شھید ھیں ،ان كی قبروں پر جاؤ اور ان كی زیارت كرو، قسم اس خدا كی جس كے قبضہٴ قدرت میں میری جان ھے، تا روز قیامت اگر كوئی شخص ان كو سلام كرے گا تو یہ ضرور اس كا جواب دیں گے“
اسی طرح وہ روایت جس كو حاكم نے صحیح مانا ھے اور اس كو بیہقی نے بھی نقل كیاھے كہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شہدائے احد كی قبور كی زیارت كے لئے جاتے تھے تو كھتے تھے:
”اَللّٰهم اِنَّ عَبْدَكَ وَنَبِیَّكَ یَشْہَدُ اَنَّ ہٰوٴُلاٰءِ شُہَدَاءٌ وَاِنَّہُ مَنْ زَارَهم اَوْ سَلِّمْ عَلَیْهم اِلٰی یَومَ الْقَیَامَةِ رَدُّوْا عَلَیْہِ“
”خداوندا !تیرا بندہ اور تیرا نبی گواھی دیتا ھے كہ یہ شہداء راہ حق ھیں ،اوراگر كوئی ان كی زیارت كرے یا (آج سے) قیامت تك ان پر سلام بھیجے تویہ حضرات اس كے سلام كا جواب دیں گے۔ ۲۸
واقدی كھتے ھیں: پیغمبر اكرم:صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ھر سال شہداء احد كی زیارت كے لئے جایا كرتے تھے اور جب اس وادی میں پهونچتے تھے تو بلند آواز میں فرماتے تھے:
”اَلسَّلاٰمُ عَلَیْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِ “۔
”سلام هو تم پر اس چیز كے بدلے جس پر تم نے صبر كیا اورتمھاری كیا بھترین آخرت ھے“۔
ابوبكر، عمر اورعثمان بھی سال میں ایك مرتبہ شہداء احد كی زیارت كے لئے جایا كرتے تھے، اورجناب فاطمہ دختر نبی اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دوتین دن میں ایك دفعہ احد جایا كرتی تھیںاور وھاں جاكر گریہ وزاری اور دعا كرتی تھیں۔
اسی طرح سعد بن ابی وقّاص بھی قبرستان میں پیچھے كی طرف سے دا خل هوتے اور تین بار سلام كرتے تھے۔
واقدی كھتے ھیں كہ رسول اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مُصْعَب بن عُمَیر جو كہ شہداء احد میں سے ھیں، كے پاس سے گذرے تو ٹھھرگئے ان كے لئے دعا كی اور یہ آیہٴ شریفہ پڑھی:
< رِجَالٌ صَدَقُوْا مَاعَاہَدُوْا اللّٰہَ عَلَیْہِ فَمِنْهم مَنْ قَضٰی نَحْبَہُ وَمِنْهم مَنْ یَنْتَظِرُ وَمَابَدَّلُوا تَبْدِیلاً ۔ >۔ ۲۹
”مومنین میں سے ایسے بھی مرد میدان ھیں جنھوں نے اللہ سے كئے وعدہ كو سچ كردكھایا، ان میں سے بعض اپنا وقت پورا كرچكے ھیں اور بعض اپنے وقت كا انتظار كررھے ھیں، اور ان لوگوں نے اپنی بات میں كوئی تبدیلی نھیں كی ھے“۔
اس كے بعد فرمایا: میں خدا كے حضور میں گواھی دیتا هوں كہ یہ لوگ خدا كی بارگاہ میں شھید ھیں،ان كی قبور كی زیارت كے لئے جایا كرو اور ان پر درود وسلام بھیجا كرو، كیونكہ وہ(بھی) سلام كا جواب دیتے ھیں۔ اس كے بعد واقدی نے ان اصحاب كے نام شمار كئے ھیں جو شہداء احد كی زیارت كے لئے جایا كرتے تھے نیزان كی زیارت كی كیفیت اور طریقہ بھی بیان كیا ھے۔ ۳۰
اب رھا شیعوں كے یھاں مسجدوں كو تعطیل كرنے كا مسئلہ تو ھم اس سلسلہ میں یہ كھیں گے كہ یہ بھی ان تھمتوں میں سے ھے جو قدیم زمانہ سے چلی آرھی ھے اور اس كی اصل وجہ بھی شیعوں سے دشمنی اور بغض وعناد ھے، چنانچہ بعض موٴلفین نے اپنی اپنی كتابوں میں اسے بغیر كسی تحقیق كے بیان كردیا، اور شیعوں سے بد ظنی كی بناپر اس نظریہ كو اپنی كتابوں میں بھی داخل كردیا ،جبكہ حقیقت یہ ھے كہ شروع ھی سے شیعوں كی مساجد سب سے زیادہ آباد اور پررونق رھی ھیں جیسا كہ كتاب تاریخ مذھبی قم كے موٴلف نے بھی بیان كیا ھے، آج بھی دنیا كی سب سے بھترین ،خوبصورت اور قدیمی ترین مساجد كو ایران میں دیكھا جاسكتا ھے،جو گذشتہ صدیوں سے اسی طرح باعظمت باقی ھیں۔
اور یہ مسجدیںجونماز جماعت كے وقت بھر جاتی ھیں اس كی داستانیں زبان زد خاص وعام ھیں، اس وقت شھروں ،قصبوں اور دیھاتوں میں ایسی ہزاروں مسجدیں ھیں جن میں بھترین فرش وغیرہ موجود ھیں ۔
جب بھی كوئی مسافرایران آتا ھے تو وہ ایران كے پایہٴ تخت” تھران“ میں ضرور جاتا هوگا تھران میں سیكڑوں مسجد یں ھیں جن میں بھترین وسائل اور كتابخانے ھیں ۔ یہ مسجدیںكسی بھی وقت نمازیوں سے خالی نھیں هوتیں اور ان سب میں وقت پر نماز جماعت قائم هوتی ھے، اور تھران كے علاوہ بھی دوسرے شھروں مثلاً مشہد، قم، اصفھان، شیراز وغیرہ میں كسی بھی جگہ دیكھ لیں كھیں پر بھی مسجدیںمعطّل نھیں هوئی ھیں بلكہ اپنی پوری شان وشوكت كے ساتھ بھری هوئی ھیں،اور تمام مساجد میں نماز جماعت قائم هوتی ھے۔
خلاصہ یہ كہ چاھے ایران میں جو شیعت كا مركز ھے یا دوسرے علاقوں میں كوئی بھی زمانہ ایسا نھیں گذرا جھاں پر مسجد غیر آباد هو، اور شیعہ مسجدوں كی رونق دوسر ے فرقوں سے كم رھی هو۔
صحیح مسلم میں قبور كے نزدیك آنحضرت (ص)كے نماز پڑھنے كے بارے میں بھت سی روایات بیان هوئی ھیں۔ ۳۱
ابن اثیراس حدیث ”نَہٰی عَنِ الصَّلاٰةِ فِیْ الْمَقْبَرَةِ“كو نقل كرنے كے بعد كھتے ھیں كہ مقبروں میں نماز كو ممنوع قرار دینے كی وجہ یہ ھے كہ مقبروں كی مٹی، خون اور مردوں كی نجاست سے مخلوط هوتی ھے لیكن اگر كسی پاك قبرستان میں نماز پڑھی جائے تو صحیح ھے، اس كے بعد ابن اثیركھتے ھیں كہ ”لاتجعلوا بیوتكم مقابر“(یعنی اپنے گھروں كو قبرستان نہ بناؤ)گذشتہ حدیث كی ھی طرح ھے یعنی تمھارے گھر نماز نہ پڑھے جانے میں قبرستان كی طرح نہ هوجائیں، كیونكہ جو مرجاتا ھے وہ پھر نماز نھیں پڑھتا، چنانچہ مذكورہ معنی پر درج ذیل حدیث دلالت كرتی ھے: ”اِجْعَلُوا مِنْ صَلاٰتِكُمْ فِی بُیُوْتِكُمْ وَلاٰ تَتَّخِذُوْا قُبُوْراً“ (اپنے گھروں كو قبرستان كی طرح قرار نہ دو كہ كبھی اس میں نماز نہ پڑھو بلكہ كچھ نمازیں گھروں میں بھی پڑھا كرو)بعض لوگوں نے كھا ھے كہ اس حدیث كے معنی یہ ھیں كہ اپنے گھروں كو قبرستان قرار نہ دو كہ اس میں نماز پڑھنا جائز نھیں ھے ،لیكن پھلے والے معنی بھتر ھیں ۔ ۳۲
شوكانی نے خطابی كی كتاب ”معالم السنن “ كے حوالہ سے مقبروں میں نماز پڑھنے كو جائز قراردیا ھے اسی طرح اس نے حسن (حسن بصری) سے نقل كیا ھے كہ انھوں نے مقبرہ میں نماز پڑھی، اوریہ بھی كھا كہ رافعی وثوری (سفیان ثوری) اور اوزاعی اور ابوحنیفہ قبرستان میں نماز پڑھنے كو مكروہ جانتے تھے لیكن امام مالك نے قبرستان میں نماز پڑھنے كو جائز قرار دیاھے۔
امام مالك كے بعض اصحاب نے یہ دلیل پیش كی كہ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایك سیاہ اور فقیر عورت كی قبر كے نزدیك نما ز پڑھی ھے، ۳۳ `مالك كی روایت كاخلاصہ یہ ھے كہ ایك غریب عورت بیمار هوئی، اس وقت پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا جب یہ مرجائے تو مجھے خبر كرنا، لیكن چونكہ اس كو رات میں موت آئی توآپ كو خبر نھیں كی گئی اور اس عورت كو رات ھی میں دفن كردیا گیا، جب دوسرا روز هوا تو پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس كی قبر پر گئے او راس پر نماز پڑھی اور چار تكبیریں كھیں ۔ ۳۴
ابن تیمیہ نے میت پر ،نوحہ خوانی اورگریہ كرنے كو ممنوع قرار دیا ھے، اور وھابی حضرات بھی اس طرح كے كاموں كو گناھان كبیرہ میں شمار كرتے ھیں۔ ۳۵
جبكہ احمد ابن حنبل اور بخاری كی روایت كے مطابق جب عمر كو ضربت لگی تو صُھیب (غلام عمر) نے چلانا شروع كیا: ” وااخاہ، وا صاحباہ“اس وقت جناب عمر نے كھا كہ كیا تم نے نھیںسنا كہ حضرت رسول اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ھے كہ اگر میت پر گریہ كیا جائے تو اس گریہ كی وجہ سے اس پر عذاب هوتا ھے؟!
جناب ابن عباس كھتے ھیں كہ جب عمر كا انتقال هوا، تو میں نے اس بات كو جناب عائشہ كے سامنے پیش كیا تو انھوں نے فرمایا: بخدا جناب رسول خدا نے كبھی اس طرح كی كوئی بات نھیں كھی ھے بلكہ انھوں نے تو یہ فرمایا ھے كہ اگر كفار پر اس كے اھل خانہ گریہ كریں تو اس كے عذاب میں اضافہ هوتا ھے۔ ۳۶
اسی طرح میت پر رونے اور گریہ كرنے كے جائز هونے پر صاحب ”منتقی الاخبار“ نے انس بن مالك سے یہ ورایت نقل كی ھے كہ جب رسول گرامی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كا انتقال هوا تو حضرت فاطمہ زھرا(ع)نے فرمایا:
”یَا اَبَتَاہُ، اَجَابَ رَبّاً دَعَاہُ، یَا اَبَتَاہُ جَنَّةُ الْفِرْدُوْسِ مَاوَاہُ، یَا اَبَتَاہُ اِلٰی جِبْرِیْلَ نَنْعَاہُ“۔
”اے میرے پدر محترم آپ نے دعوت حق پر لبیك كھی اور جنت الفردوس كو اپنا مقام بنالیا،اور جناب جبرئیل نے آپ كی وفات كی خبر سنائی“۔
اسی طرح انس سے ایك دوسری روایت كے مطابق جب جناب رسول اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی روح جسم سے پرواز كر گئی تو جناب ابوبكر حجرے میں تشریف لائے اور اپنے منھ كو آنحضرت كی دونوں آنكھوں كے پیچ ركھا اور آنحضرت كے دونوں رخساروں پر اپنے دونوں ھاتھوں كو ركھا اور كھا: ”وانبیاہ وا خلیلاہ وا صفیاہ“ اس روایت كو احمد ابن حنبل نے بھی نقل كیا ھے۔ ۳۷
یھی نھیں بلكہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بھی متعدد بار اپنے رشتہ داروں اور اصحاب كے انتقال پر گریہ فرمایا ھے، جیسا كہ انس بن مالك نے روایت كی ھے كہ جب آپ كی ایك بیٹی اس دنیا سے چلی گئی تو آپ اس كی قبر پر بیٹھ گئے درحالیكہ آپ كی چشم مبارك سے آنسوںبہہ رھے تھے، اور ایك مقام پر جب آپ كی بیٹی كا ایك بیٹامرنے كے نزدیك تھا تو آپ نے گریہ شروع كیا۔ ۳۸
اسی طرح جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جنگ احد میں اپنے چچا حمزہ كو شھید پایا تو گریہ كیا اور جب آپ كو یہ معلوم هوا كہ جناب حمزہ كو مُثلہ كردیاگیا (یعنی آپ كے ناك وكان اور دوسرے اعضاء كاٹ لئے گئے) تو آپ چیخیں مار مار كر روئے۔ ۳۹
اور جب جناب حمزہ كی شھادت واقع هوئی اور جناب صفیہ دخترعبد المطلب نے جناب حمزہ كے لاشہ كو تلاش كرنا شروع كیا تو انصار نے آپ كو روكا، اس وقت پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ان كو آزاد چھوڑدو، جب جناب صفیہ نے اپنے بھائی كی لاش پائی تو رونا شروع كیا، جس وقت آپ گریہ كرتی تھیں رسول اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی گریہ كرتے تھے اور جب آپ چیخیں مارتی تھیں تو رسول گرامی بھی چیخیں مارتے تھے ۔ ۴۰
جب جناب فاطمہ زھرا = جناب حمزہ كے اوپر گریہ كرتی تھیں توپیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی گریہ كرتے تھے، اسی طرح جب جناب جعفر بن ابی طالب جنگ موتہ میں شھید هوئے تو رسول گرامیجناب جعفر كی زوجہ اسماء بنت عمیس كے پاس گئے اور ان كو تعزیت پیش كی، اس موقع پر جناب فاطمہ زھرا= تشریف لائیں درحالیكہ آپ گریہ كررھی تھیں اور كھتی جاتی تھیں: ”واعماہ“ (ھائے میرے چچا) اس موقع پر حضرت پیغمبر اسلام نے فرمایا كہ جعفر جیسے مَرد پر گریہ كرنا چاہئے، ۴۱
مزید یہ كہ نافع نے ابن عمرسے روایت كی ھے كہ جب پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جنگ احد سے واپس هوئے تو انصار كی عورتیں اپنے شھید شوھروں پر گریہ كر رھی تھیں اس وقت پیغمبر نے فرمایا حمزہ پر كوئی گریہ كرنے والا نھیں ھے ،یہ كہہ كر آپ سوگئے،جب بیدار هوئے تو دیكھا كہ عورتیں یوں ھی گریہ كر رھی ھیں آپ نے فرمایا: ورتیں آج جو گریہ كریں تو حمزہ پر كریں۔ ۴۲
ابن ہشام او رطبری نے اس سلسلہ میں كھا ھے كہ جب پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بنی عبد الاشھل وظفر كے گھروں میں سے ایك گھر كی طرف گذرے تو وھاں سے جنگ احد میں هوئے شھیدوں پر رونے كی آوازیں سنائی دیں تو اس پر آنحضرت كی آنكھیں بھی آنسووں سے بھرآئیں اور آپ گریہ كرتے هوئے فرماتے تھے: جناب حمزہ پر كوئی رونے والا نھیں،یہ سن كر سعد بن مُعاذ واُسید بن حُضَیر بنی عبد الاشھل كے گھروں میں گئے اور اپنی اپنی عورتوں كو حكم دیا كہ جناب حمزہ پر بھی گریہ كریں۔
اسی طرح ابن اسحاق كا بیان ھے كہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جنگ احد سے مدینہ واپس پهونچے، تو”حَمنَہ دختر جَحش“ راستہ میں ملی اور جب لوگوں نے اس كو اس كے بھائی عبد اللہ ابن جحش كی شھادت كی خبر سنائی تو اس نے كھا: <انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ > اور اس كے لئے خداوندكریم كی بارگاہ میں طلب مغفرت كی، اس بعد كے اس نے اپنے ماموں حمزہ ابن عبد المطلب كی شھادت كی خبر سنی، اس نے پھر وھی آیت پڑھی اور ان كے لئے بھی استغفار كیا، لیكن جب اس كو اس كے شوھر مصعب بن عمیر كی شھادت كی خبر سنائی گئی تو اس نے چیخیں ماریں ،اور جب پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حمنہ كو اپنے بھائی اور ماموں كی شھادت پر صبر اور اپنے شوھر كی شھادت پر نالہ وشیون كرتے دیكھا تو فرمایا: بیوی كی نظر میں شوھر كی اھمیت كچھ اور ھی هوتی ھے۔ ۴۳
اور جب جناب ابوبكر اس دنیا سے گئے تو جناب عائشہ نے ابوبكر كے لئے نوحہ وگریہ كی مجلس ركھی جب جناب عمر نے عائشہ كو اس كام سے روكا، تو جناب عائشہ او ردیگر عورتوں نے اس بات كو نہ مانا،چنانچہ جناب عمر نے ابوبكر كی بہن ام فروہ كو چند تازیانے بھی مارے، اس كے بعد گریہ كرنے والیعورتیں وھاں سے مجبوراً اٹھ كر چلی گئیں۔ ۴۴
واقدی كھتے ھیں كہ جنگ احد میں سعد بن ربیع شھید هوگئے، پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مدینہ تشریف لائے اور وھاں سے ” حمراء الاسد“ گئے، جابر ابن عبد اللہ كھتے ھیں كہ ایك روز صبح كا وقت تھا میں آنحضرت كی خدمت میں بیٹھا هوا تھا، چنانچہ جنگ احد میں مسلمانوں كے قتل وشھادت كی باتیں هونے لگیں، منجملہ سعد بن ربیع كا ذكر آیا تو اس وقت پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا كہ اٹھو ! سعد كے گھر چلتے ھیں، جابر كھتے ھیں كہ ھم بیس افراد هونگے جو آنحضرت كے ساتھ سعد كے گھر گئے وھاں پر بیٹھنے كے لئے كوئی فرش وغیرہ بھی نہ تھا چنانچہ سب لوگ زمین پر بیٹھ گئے اس وقت رسول اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سعد بن ربیع كا ذكر كیا اور ان كے لئے خدا سے طلب رحمت كی اور فرمایا كہ میں نے خود دیكھا ھے كہ اس روز سعد كے بدن كو نیزوں نے زخمی كرركھا تھا، یھاں تك كہ ان كو شھادت مل گئی، جیسے ھی عورتوں نے یہ كلام سنا تو رونا شروع كردیا، اس وقت پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی آنكھوں سے بھی آنسوجاری هوگئے اور پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان عورتوں كو رونے سے منع نھیں فرمایا۔ ۴۵
كتاب ”الاُم“ تالیف شافعی میں”بكاء الحیّ علی المیت“ (زندہ كا میت پر گریہ كرنا)كے تحت اس طرح بیان هوا ھے كہ جناب عبد اللہ ابن عمر كی طرف سے جناب عائشہ سے كھا گیا كہ كسی میت پر زندہ كا گریہ كرنا اس پر عذاب كا باعث هوتا ھے، تو جناب عائشہ نے كھا كہ ابن عمر نے جھوٹ نھیں كھا لیكن اس سے غلطی، یا بھول چوك هوئی ھے، (یعنی اصل حدیث یہ ھے كہ)پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے سامنے جب ایك یهودی عورت كا جنازہ آیا در حالیكہ اس كے رشتہ دار اس پر روتے جارھے تھے تو آپ نے فرمایا كہ یہ لوگ رو رھے ھیں جبكہ ان كے رونے كی وجہ سے یہ قبر میں عذاب میں مبتلا ھے۔
ابن عباس كھتے ھیں كہ جب جناب عمر كو ضربت لگی اور ان كا غلام صُھیب رونے لگا اور كہنے لگا:”وا اخیاہ وا صاحباہ“ تو عمر نے اس سے كھا تو روتا ھے جبكہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ھے میت پر اھل خانہ كا گریہ كرنا اس كے لئے عذاب كا باعث هوتا ھے، جناب ابن عباس كھتے ھیں كہ جب عمر اس دنیا سے چلے گئے تو میں نے اس بات كو جناب عائشہ سے دریافت كیا۔ عائشہ نے كھا خدا كی قسم پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس طرح نھیں فرمایا بلكہ آپ نے یہ فرمایا ھے كہ كفار كی میت پر اس كے اھل خانہ كا گریہ اس كے عذاب كو زیادہ كردیتا ھے، اس كے بعد جناب عائشہ نے فرمایا كہ تمھارے لئے قرآن كافی ھے كہ جس میں ارشاد هوتا ھے: <ولا تزر وازةوزر اخریٰ۔> 65 (اور كوئی نفس دوسرے كا بوجھ نھیں اٹھائے گا) س كے بعد جناب ابن عباس نے بھی كھا: <واللّٰہ اضحك وابكی۔> ۴۶
شافعی نے مذكورہ مطالب كو ذكر كرنے كے بعد آیات وروایات كے ذریعہ مذكورہ روایت”ان المیت لیعذب“۔ كے صحیح نہ هونے كو ثابت كیا ھے۔ ۴۷
حوالہ جات
۱. الفتاوی الكبری ج۲ص ۴۳۱۔
۲. الجواب الباھر ص ۱۴،۱۵، ۲۲،۲۵۔
۳. الجواب الباھر ص ۱۴،۱۵، ۲۲،۲۵۔
۴. الجواب الباھر ص ۱۴،۱۵، ۲۲،۲۵۔
۵. رحلہٴ ابن بطوطہ جلد اول ص ۵۸۔
۶. الفتاوی الكبریٰ ج ۲ ص ۲۱۹۔
۷. الجواب الباھر، ص ۴۵۔
۸. الرد علی الاخنائی ص ۲۳، شاید یھی وجہ رھی هو كہ آج كل بقیع اور دوسرے قبرستانوں میں عورتوں كو جانے سے روكا جاتا ھے، صاحب فتح المجید كھتے ھیں (ص۲۲۵) كہ عورتوں كے لئے قبور كی زیارت مستحب نھیں ھے محمد بن عبد الوھاب نے اپنی توحید نامی كتاب میں جناب ابن عباس ۻ سے یہ روایت نقل كی ھے جو عورتیں قبور كی زیارت كے لئے جاتی ھیں پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان پر لعنت كی ھے۔
۹. الجواب الباھر ص ۴۴،۴۷،۵۱۔
۱۰. الجواب الباھر ص ۴۴،۴۷،۵۱۔
۱۱. الجواب الباھر ص ۴۴،۴۷،۵۱۔
۱۲. كتاب الرد علی الاخنائی ص ۳۰،۳۱۔
۱۳. كتاب الرد علی الاخنائی ص ۶۶۔
۱۴. كتاب الرد علی الاخنائی ص۳۲۔
۱۵. البدایہ والنھایہ ج ۱۴ ص ۱۲۴۔
۱۶. ان میں سے احمد ابن حنبل كی پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت ھے كہ آنحضرت نے فرمایا: ”نھیتكم عن زیارة القبور فزوروھا فان فی زیارتھا عظة وعبرة“(میں پھلے تم كو زیارت سے منع كرتا تھا لیكن اس وقت كھتا هوں كہ قبروں كی زیارت كے لئے جایا كرو كیونكہ قبور كی زیارت سے انسان كو پند او رنصیحت حاصل هوتی ھے) احمد ابن حنبل نے اس حدیث كو چند طریقوں سے نقل كیا، (مسند احمد ابن حنبل ج۵ ص۳۵۶، ۳۵۷،۳۵۹، اور ددوسرے چند مقامات پریہ حدیث نقل ھے)
۱۷. موطاء ص ۳۳۴، طبع دوم، مصر۔
۱۸. صحیح مسلم ج۳ ص ۶۵، سنن ابی داود ج۳ ص ۲۱۲۔
۱۹. شرح جامع صغیر، سیوطی ص ۲۹۸۔
۲۰. فتح المجید ص ۲۵۵۔
۲۱. شفاء الغرام ج ۲ ص ۳۹۷۔
۲۲. وفاء الوفاء باخبار دار المصطفیٰ ج۴ ص۱۳۷۱ سے ۱۴۲۲تك۔
۲۳. الغدیر ج ۵ ص۱۰۹ ۔ اوراس كے بعد ۔
۲۴. المذاھب الاسلامیہ ص ۳۴۳۔
۲۵. سنن ابن ماجہ جلد اول ص ۵۰۰۔
۲۶. سنن ابن ماجہ جلد اول ص ۵۰۱۔
۲۷. سخاوی حنفی ،كتاب ”تحفة الاحباب“ ص ۴،۵۔
۲۸. الخصائص الكبریٰ جلد اول ص ۵۴۶،۵۴۷۔
۲۹. سورہ احزاب آیت ۲۴۔
۳۰. كتاب المغازی جلد اول ص ۳۱۳،۳۱
۳۱. صحیح مسلم ج ۳ ص ۵۵، منجملہ یہ حدیث كہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایك میت كی قبر پر دفن هونے كے بعد نماز پڑھی اور چار تكبیریں كھیں اور دوسری روایت كے مطابق: آنحضرت (ص)ایك تازہ قبر كے پاس پهونچے اور اس پر نماز پڑھی اور اصحاب نے بھی آپ كے پیچھے صف باندھ لی ۔
۳۲. النھایہ ج ۴ ص۴ ۔
۳۳. نیل الاوطار جلد اول ص ۱۳۶۔
۳۴. موطاء ابن مالك ص ۱۱۲،۱۱۳۔ اس حدیث كو بخاری نے بھی نقل كیا ھے ۔
۳۵. فتح المجید ص ۳۷۳۔
۳۶. مسند احمد، جلد اول ص۴۱،۴۲، مسند عمر، وصحیح بخاری ج۲ ص ۷۹۔
۳۷. منتقی الاخبار، تالیف ابن تیمیہ حنبلی (ابن تیمیہ كے دادا) ھمراہ نیل الاوطار، شوكانی ج۴ ص ۱۶۱۔
۳۸. صحیح بخاری ج۲ ص ۹۶۔
۳۹. ابن عبد البر، كتاب استیعاب جلد اول ص ۲۷۴۔
۴۰. مغازی واقدی جلد اول ص ۲۹۰،” اِذَا بَكَتْ صَفِیِّةُ یَبْكٰی، وَاِذَا نَشَجَتْ یَنْشَجْ“
۴۱. استیعاب جلد اول ص۲۱۲۔
۴۲. مسند احمد ابن حنبل ج۲ ص ۴۰، نُویری كھتے ھیں كہ جب پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انصار كو اپنے شھیدوں پر روتے دیكھا تو آپ نے بھی گریہ كیا اور كھا كہ جناب حمزہ پر كوئی رونے والی نھیں ھے (نھایة الارب ج ۱۷ ص ۱۱۰)
۴۳. سیرة النبی ج ۳ ص ۵۰، تاریخ طبری جلد ۳ ص ۱۴۲۵، حدیث ۱۔
۴۴. تاریخ طبری ج۴ ص ۲۱۳۱، ۲۱۳۲،(حلقہ اول)
۴۵. المغازی جلد اول ص ۳۲۹،۳۳۰،دیار بكری كابیان ھے كہ جناب حمزہ پر نوحہ وگریہ كے بعد سے پیغمبر اكرمنے رونے سے منع كردیا، دوسرے روز انصار كی عورتیں آپ كی خدمت میں آئیں اور كھا كہ ھم نے سنا ھے كہ آپ نے رونے سے منع فرمایا ھے جبكہ ھمیں اپنے مردوں پر رونے سے سكون وآرام كا احساس هوتا ھے، تب پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: جب تم نوحہ وگریہ كرو تو اپنے چھروں پر طمانچہ نہ مارو اور اپنے چھروں كو نہ نوچو اور اپنے سروں كو نہ منڈواؤ او راپنے گریبان چاك نہ كرو، (تاریخ الخمیس جلد اول ص ۴۴۴)
۴۶. سورہ انعام آیت ۱۶۴۔
۴۷. یہ جملہ سورہ والنجم آیت ۴۴ سے اقتباس ھے۔ <وانّہ ھُوَاضحك واٴبٰكی>،اور یہ كہ اس نے ہنسایا بھی ھے اور رلایا بھی ھے)
۴۸. كتاب الاُمّ شافعی ج۸ ص ۵۳۷۔
ایرانی دفاعی سیٹیلائٹ، آج مشرق وسطی میں ایران طاقتور اور امریکہ کمزور ہو چکا ہے، کرس مرفی کا دردنامہ
امریکہ کی جنوبی ریاست کنیکٹیکٹ سے منتخب ہونے والے ڈیموکریٹک سینیٹر کرس مرفی نے ایران کی طرف سے اپنے پہلے دفاعی سیٹیلائٹ "نور" کے کامیابی کے ساتھ خلاء میں پہنچانے کے اقدام پر اظہار خیال کرتے ہوئے ٹوئٹر پر جاری ہونے والے اپنے ایک بیان میں لکھا ہے کہ ایران کی طرف سے اپنے دفاعی سیٹیلائٹ کے کامیابی کے ساتھ خلاء میں پہنچانے کا اقدام بذات خود اس بات کا ثبوت ہے کہ ایران کے حوالے سے اختیار کردہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسی نہ صرف ایران کو مضبوط کرنے کا باعث بنی ہے بلکہ اب ایران کا رویہ بھی پہلے سے زیادہ جارحانہ ہو گیا ہے۔ کریس مرفی نے اپنے پیغام میں لکھا ہے کہ گزشتہ 4 سالوں کے دوران مشرق وسطی میں ایران ہر لحاظ سے طاقتور اور امریکہ کمزور ہوا ہے۔
امریکی ڈیموکریٹ سینیٹر کرس مرفی نے ٹوئٹر پر جاری ہونے والے اپنے پیغام میں دعوی کیا ہے کہ قبل ازیں جب ڈونلڈ ٹرمپ نے حکومت اپنے ہاتھ میں لی تھی تب ایران، عراق کے اندر موجود امریکیوں کو نشانہ نہیں بناتا تھا لیکن اب ایران اور اس کی حمایت یافتہ فورسز منظم طور پر امریکی فورسز کو نشانہ بنا رہی ہیں۔ امریکی سینیٹر نے لکھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے ہمیں کہا تھا کہ (شہید جنرل قاسم) سلیمانی کی ٹارگٹ کلنگ ایرانی دفاع میں کمزوری کا باعث بنے گی لیکن ان کی ٹارگٹ کلنگ کے بعد سے امریکی فورسز پر حملے بڑھے ہی ہیں کم نہیں ہوئے۔ کرس مرفی نے ڈونلڈ ٹرمپ کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا کہ امریکی صدر نے (ایرانی) جوہری معاہدہ توڑ کر ہمیں یہ تسلی دی کہ ایک نئے سسٹم اور بین الاقوامی دباؤ کے ذریعے ایران کو مجبور کر کے پہلے سے بہتر ایک نیا معاہدہ طے کر لیا جائے گا لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ امریکہ کا یہ منصوبہ بھی خاک میں مل کر رہ گیا ہے اور اب حالت یہ ہے کہ کسی (بین الاقوامی فریق) نے ایران پر جدید پابندیاں عائد کئے جانے کی حمایت نہیں کی جبکہ ایران نے اپنا جوہری پروگرام بھی ازسرنو شروع کر لیا ہے درحالیکہ نیا معاہدہ بھی طے نہیں پایا۔