
سلیمانی
مسئلہ کشمیر عالمی اور اسلامی مسئلہ/ کشمیری عوام بھی فلسطینی عوام کی طرح مظلوم
مہر خبررساں ایجنسی کی اردو سروس کے مطابق پاکستان کی مذہبی اور سیاسی تنظیم ، مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل اور خارجہ پالیسی کے سربراہ علامہ ڈاکٹر شفقت حسین شیرازی نے مہر نیوز کے ساتھ گفتگو میں مسئلہ کشمیر کو عالمی اور اسلامی مسئلہ قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کسی ملک کا اندرونی مسئلہ نہیں یہ ایک عالمی اور اسلامی مسئلہ ہےجس پر عالمی اداروں اور اسلامی ممالک کو خصوصی توجہ دینی چاہیے۔
مہر نیوز: کیا کشمیر بھارت کا اندرونی مسئلہ ہے اور کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے؟ اس بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟
علامہ ڈاکٹر شفقت حسین شیرازی: دنیا جانتی ہے کہ کشمیر بھارت کا اندرونی مسئلہ نہیں بلکہ کشمیر بھارت اور پاکستان کے درمیان ایکد یرینہ متنازعہ مسئۂہ ہے جس پر دونوں ممالک کے درمیان متعدد جنگیں بھی ہوچکی ہیں۔ اقوام متحدہ میںم سئلہ کشمیر پر قرارداد بھی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ کشمیر بھارت کا اندرونی مسئلہ نہیں بلکہ متنازعہ مسئلہ ہے کشمیر میں اقوام متحدہ کے بمصرین کی موجودگی بھی اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ نہیں بلکہ کشمیر بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک متنازعہ مسئلہ ہے۔
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل اور خارجہ امور کے سربراہ علامہ ڈاکٹر شفقت حسین شیرازی نے مہر نیوز کے ساتھ گفتگو میں مسئلہ کشمیر کو عالمی اور اسلامی مسئلہ قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کسی ملک کا اندرونی مسئلہ نہیں یہ ایک عالمی اور اسلامی مسئلہ ہےجس پر عالمی اداروں اور اسلامی ممالک کو خصوصی توجہ دینی چاہیے۔
انھوں نے کہا کہ کشمیر کے حوالے سے بھارت میں قانون سازی کی کوئی حیثيت نہیں ، کشمیر متنازعہ مسئلہ ہے جسے کشمیری عوام کی امنگوں اور اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق حل ہونا چاہیے۔
علامہ شفقت حسین شیرازی نے اپنی گفتگو میں کشمیری مسلمانوں کو فلسطینی مسلمانوں کی طرح مظلوم قراردیتےہوئے کہا کہ دنیا بھر کے باشعور لوگ بھارت کی اس ناپاک سازش سے آگاہ ہیں اور دنیا بالخصوص عالم اسلام کے رہنماوں کی ذمہ داری ہے کہ کشمیر کی مظلوم قوم کی حمایت کرتے ہوئے بھارت پر دباو بنائیں تاکہ جلد از جلد مسئلہ کشمیر کو حل کرایا جائے اور کشمیری عوام کو بھارت مظالم سے نجات دلائی جاسکے۔
علامہ ڈاکٹر شفقت حسین شیرازی نے کا کہنا تھا کہ بھارتی وزراء کی جانب سے تحریک پیش کرنا اور حکومت کا مقبوضہ کشمیر سے متعلق اپنے ہی مختلف قانونی آرٹیکلز میں ردو بدل کرنا نہتے کشمیریوں پر کھلا ظلم اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو للکارنے کے ساتھ ساتھ عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔جس کی ہر پہلو سے مذمت کی جاتی ہے، جہاں اس موقعہ پر کشمیریوں سے اظہار یکجہتی ضروری ہے وہاں حکومت پاکستان کو اپنے ان مظلوم بھائیوں کے لئے واضح پالیسی کا اعلان کر کے ان کی ہر صورت میں اخلاقی اور سیاسی مدد کرنی چاہیے۔
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل نےمہر نیوز کے ساتھ مزید گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان میں ہندو تعصب کو پروان چڑھایا گیا کہ جس کے نتیجے میں ہندو انتہا پسند اور دہشت گرد تنظیم آر ایس ایس سے منسلک نریندر مودی مسند اقتدار پر براجمان ہو جاتا ہے اور اپنی متعصبانہ پالیسیوں سے مسلمانان ہند کے خلاف بالعموم اور کشمیری مسلمانوں کے خلاف بالخصوص ظلم کا بازار گرم کرتاہے۔
انہوں نے کہا کہ آج ہندوستان میں شہریت قانون کے نام پر کروڑوں مسلمانوں کے جذبات سے کھیلا جا رہا ہے اور نریند مودی اپنے ہی ملک کے دستور کے برخلاف کروڑوں مسلمانوں کی شہریت کو منسوخ کرنے کے درپے ہے۔
علامہ شفقت حسین شیرازی نے بھارتی حکومت کی طرف سے کشمیری عوام کے حقوق کو کچلنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ دس ماہ سے زیادہ عرصہ گزرچکا ہے کہ جب، کشمیری مسلمان اپنے بنیادی ترین حقوق سے محروم ہیں۔ ریاستی دہشتگردی کی وجہ سے ہزاروں جوان شہید ہو چکے ہیں، سیکڑوں مسلمان خواتین کی عصمت دری کی گئی ہے اورکشمیر میں ظلم کا نہ رکنے والا ایک سلسلہ جاری ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پوری امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے کہ کشمیری مسلمانوں کی حمایت میں اپنی آواز بلند کریں اور ظلم کی چکی سے نکلنے میں ان کی مدد کریں۔ نریندر مودی جیسا شخص نہ فقط ہندوستان کے لیے بلکہ پورے خطے کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔
انہوں نے مزید کہاکہ جہاں کشمیریوں سے ہمارا ایمانی رشتہ ہے وہاں قائد اعظم محمد علی جناح کے فرمان کی روشنی میں کشمیر پاکستان کی شہ رگ حیات بھی ہے اور جب کوئی کسی کے رشتہ کو پامال کرنے کی سوچے یا اسکی شہ رگ کی جانب ہاتھ اٹھائے تو حق بنتا ہے کہ اس ظالم کے ہاتھ توڑ دیئے جائیں،ہمیں یقین ہے کہ ہمارے مقتدر ادارے اپنے کشمیری بھائیوں کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں اس حوالہ سےان کی بھی مدد کرنا ہمارا اخلاقی اور معاشرتی فریضہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم عرب دنیا میں پوری طاقت کے ساتھ مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرتے آئے ہیں لیکن بدقسمتی سے عرب ممالک کی عوام کو ابھی تک مسئلہ کشمیر کے بارے میں بالکل بھی معلوم نہیں ہے جو کہ امت مسلمہ کی ایک بہت بڑی لاپرواہی اور کمزوری ہے۔
مجلس وحدت مسلمین کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل نے کہا کشمیری عوام کو چاہیے کہ مسئلہ کشمیر کو واضح طور پر پوری دنیا کے سامنے پیش کریں مخصوصا وہ افراد جو کشمیر سے باہر مقیم ہیں ان کی اس سلسلے میں زیادہ ذمہ داری ہے کہ کشمیر میں ہونے والے بھارتی مظالم کو دنیا کے سامنے لائیں تاکہ بھارت کا مکروہ چہرہ پوری دنیا کے سامنے بے نقاب کیا جاسکے۔
علامہ ڈاکٹر شفقت حسین شیرازی نے اپنی گفتگو کے آخر میں کشمیر کے مظلوم اور ستمدیدہ مسلمانوں کی حمایت کا مکمل اعلان کرتے ہوئے کہا کہ کشمیریوں کی حمایت کرنا ہمارا نہ صرف سیاسی بلکہ دینی اور ایمانی فریضہ ہے اور مجلس وحدت مسلمین ہر میدان میں مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرتی رہی ہے اور ہمیشہ کرتی رہے گی۔
فداھا ابوھا حضرت فاطمہ معصومہ (س) کی زندگی پر ایک طائرانہ نظر
تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی
حضرت فاطمہ معصومہ (س) حضرت امام موسٰی کاظم علیہ السلام کی بیٹی، امام علی رضا علیہ السلام کی بہن اور امام محمد تقی جواد علیہ السلام کی پھوپھی ہیں۔ آپ کی ولادت یکم ذیقعد 173 ہجری قمری اور دوسری روایت کے مطابق 183 ہجری قمری میں مدینہ منورہ میں ہوئی۔ آپ کی والدہ ماجدہ کا نام نجمہ اور دوسری روایت کے مطابق خیزران تھا۔ آپ امام موسٰی کاظم علیہ السلام کی سب سے بڑی اور سب سے ممتاز صاحبزادی تھیں۔ شیخ عباس قمی فرماتے ہیں: "امام موسٰی کاظم علیہ السلام کی صاحبزادیوں میں سب سے بافضیلت صاحبزادی فاطمہ تھیں، جو معصومہ کے نام سے مشہور تھیں۔۱۔ آپ کا نام فاطمہ اور سب سے مشہور لقب معصومہ تھا۔ یہ لقب انہیں امام علی ابن موسٰی الرضا علیہ السلام نے عطا فرمایا تھا۔ حضرت فاطمہ معصومہ (س) بچپن سے ہی اپنے بڑے بھائی امام علی رضا علیہ السلام سے بہت مانوس تھیں، انہیں کے پر مرن دامن میں پرورش پائی اور علم و حکمت اور پاکدامنی اور عصمت کے اس بے کران خزانے سے بہرہ مند ہوئیں۔
اس عظیم خاتون کی فضائل کے لئے یہی کافی ہے کہ امام وقت نے تین بار فرمایا: "فداھا ابوھا" یعنی باپ اس پر قربان جائے۔ کتاب "کشف اللئالی" میں مرقوم ہے کہ ایک دن کچھ شیعیان اہلبیت علیہم السلام مدینہ میں داخل ہوئے۔ ان کے پاس کچھ سوالات تھے، جن کا جواب وہ امام موسٰی کاظم علیہ السلام سے لینا چاہتے تھے۔ امام علیہ السلام کسی کام سے شہر سے باہر گئے ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنے سوالات لکھ کر امام علیہ السلام کے گھر دے دیئے کیونکہ وہ جلد واپس جانا چاہتے تھے۔ حضرت معصومہ (س) گھر میں موجود تھیں۔ آپ نے ان سوالات کو پڑھا اور ان کے جواب لکھ کر انہیں واپس کر دیئے۔ وہ بہت خوش ہوئے اور مدینہ سے واپسی کا سفر شروع کر دیا۔ مدینہ سے باہر نکلتے ہوئے اتفاق سے امام موسٰی کاظم علیہ السلام سے ان کی ملاقات ہوگئی۔ انہوں نے سارا واقعہ بیان کیا۔ جب امام علیہ السلام نے ان کے سوالات اور ان سوالات کے جوابات کو دیکھا تو بہت خوش ہوئے اور تین بار کہا: "فداھا ابوھا" یعنی باپ اس پر قربان جائے۔ اس وقت حضرت معصومہ (س) کی عمر بہت کم تھی، لہذا یہ واقعہ آپ کے بے مثال علم اور دانائی کو ظاہر کرتا ہے۔۲۔
مرحوم آیت اللہ مرعشی نجفی (رہ) اپنے والد بزرگوار مرحوم حاج سید محمود مرعشی سے نقل کرتے ہیں نخ حضرت معصومہ (س) کی قبر مطہر اپنی مادر گرامی حضرت فاطمہ زھرا (س) کی گم شدہ قبر کی تجلی گاہ ہے۔ مرحوم نے حضرت فاطمہ زھرا (س) کی قبر کی جگہ معلوم کرنے کے لئے ایک چلہ شروع کیا اور چالیس دن تک اسے جاری رکھا۔ چالیسویں دن انہیں حضرت امام باقر علیہ السلام اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی زیارت نصیب ہوئی۔ امام علیہ السلام نے انہیں فرمایا: "علیک بکریمہ اھل البیت" یعنی تم کریمہ اہلبیت (س) کی پناہ حاصل کرو۔ انہوں نے امام علیہ السلام سے عرض کی: "جی ہاں، میں نے یہ چلہ اسی لئے کاٹا ہے کہ حضرت فاطمہ (س) کی قبر کی جگہ معلوم کر سکوں اور اسکی زیارت کروں۔" امام علیہ السلام نے فرمایا: "میرا مقصود قم میں حضرت معصومہ (س) کی قبر ہے۔" پھر فرمایا: "کچھ مصلحتوں کی وجہ سے خداوند عالم کا ارادہ ہے کہ حضرت فاطمہ زھرا (س) کی قبر کسی کو معلوم نہ ہو اور چھپی رہے۔
امام رضا علیہ السلام کے مجبوراً شہر مرو سفر کرنے کے ایک سال بعد 201ھ قمری میں آپ اپنے بھائیوں کے ہمراہ بھائی کے دیدار اور اپنے امام زمانہ سے تجدید عہد کے قصد سے عازم سفر ہوئیں، راستہ میں جب ساوہ پہنچیں لیکن چونکہ وہاں کے لوگ اس زمانے میں اہلبیت کے مخالف تھے، لہٰذا حکومتی کارندوں کے سے مل کر حضرت اور ان کے قافلے پر حملہ کر دیا اور جنگ چھیڑ دی، جس کے نتیجہ میں حضرت کے ہمراہیوں میں سے بہت سارے افراد شہید ہوگئے۳۔ حضرت غم و الم کی شدت سے مریض ہوگئیں اور شہر ساوہ میں ناامنی محسوس کرنے کی وجہ سے فرمایا: مجھے شہر قم لے چلو، کیونکہ میں نے اپنے بابا سے سنا ہے کہ آپ فرماتے تھے: قم ہمارے شیعوں کا مرکز ہے۔ ۴۔ اس طرح حضرت وہاں سے قم روانہ ہوگئیں۔ بزرگان قم جب اس مسرت بخش خبر سے مطلع ہوئے تو حضرت کے استقبال کے لئے دوڑ پڑے، مویٰ بن خزرج اشعری نے اونٹ کی زمام ہاتھوں میں سنبھالی اور حضرت فاطمہ معصومہ (س) کو اہل قم نے گلبارن کرتے ہوئے موسٰی بن خزرج کے شخصی مکان میں لائے۔۵۔
بی بی مکرمہ نے 17 دنوں تک اس شہر امامت و ولایت میں زندگی گزاری، اس مدت میں ہمیشہ مشغول عبادت رہیں اور اپنے پروردگار سے راز و نیاز کرتی رہیں، اس طرح اپنی زندگی کے آخری ایام خضوع و خشوع الٰہی کے ساتھ بسر فرمائے۔ جس جگہ آج حرم مطہر حضرت معصومہ (س) ہے، یہ اس زمانے میں "بابلان" کے نام سے پہچانی جاتی تھی اور موسٰی بن خزرج کے باغات میں سے ایک باغ تھی۔ حضرت معصومہ (س) کی وفات کے بعد ان کو غسل دیا گیا اور کفن پہنایا گیا۔ پھر انہیں اسی جگہ لایا گیا، جہاں پر ابھی ان کی قبر مطہر ہے۔ آل سعد نے ایک قبر آمادہ کی۔ اس وقت ان میں اختلاف پڑ گیا کہ کون حضرت معصومہ (س) کے بدن اقدس کو اس قبر میں اتارے گا۔ آخرکار اس بات پر اتفاق ہوا کہ ان میں موجود ایک متقی اور پرہیزگار سید یہ کام کرے گا۔ جب وہ اس سید کو بلانے کیلئے جا رہے تھے تو انہوں نے دیکھا کہ ناگہان صحرا میں سے دو سوار آرہے ہیں۔ انہوں نے اپنے چہروں کو نقاب سے چھپا رکھا تھا۔ وہ آئے اور حضرت معصومہ (س) کی نماز جنازہ پڑھانے کے بعد انہیں دفن کرکے چلے گئے۔ کوئی بھی یہ نہیں جان سکا کہ وہ کون تھے۔ اس کے بعد موسٰی بن خزرج نے قبر مطہر کے اوپر کپڑے کا ایک چھت بنا دیا۔ جب امام محمد تقی علیہ السلام کے صاحبزادی زینب قم تشریف لائیں تو انہوں نے حضرت معصومہ (س) کی قبر پر مزار تعمیر کیا۔ کچھ علماء نے یہ احتمال ظاہر کیا ہے کہ بانقاب سوار حضرت امام علی رضا علیہ السلام اور حضرت امام محمد تقی جواد علیہ السلام تھے۔۶۔
امام علی ابن موسٰی الرضا علیہ السلام فرماتے ہیں: "من زار المعصومۃ بقم کمن زارنی" ۷۔ یعنی جس نے قم میں معصومہ (س) کی زیارت کی، گویا اس نے میری زیارت کی۔ حضرت معصومہ (س) کی زیارت کی فضیلت کے بارے میں ائمہ معصومین سے مختلف روایات نقل ہوئی ہیں۔ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: إِنَ لِلّهِ حَرَماً وَ هُوَ مَکَةُ وَ إِنَ لِلرَّسُولِ (ص) حَرَماً وَ هُوَ الْمَدِینَهُ وَ إِنَ لِأَمِیرِالْمُؤْمِنِینَ(ع) حَرَماً وَ هُوَ الْکُوفَهُ وَ إِنَ لَنَا حَرَماً وَ هُوَ بَلْدَهٌ قُمَّ وَ سَتُدْفَنُ فِیهَا امْرَأَهٌ مِنْ أَوْلَادِی تُسَمَّی فَاطِمَةَ فَمَنْ زَارَهَا وَ جَبَتْ لَهُ الْجَنَةُ؛۸۔
"خدا کا ایک حرم ہے جو کہ مکہ میں ہے، رسول خدا کا ایک حرم ہے جو کہ مدینہ ہے، امیر المومنین کا ایک حرم ہے جو کہ کوفہ ہے اور ہم اہل بیت کا حرم ہے جو کہ قم ہے اور عنقریب میری اولاد میں سے موسٰی بن جعفر کی بیٹی قم میں وفات پائے گی، اس کی شفاعت کے صدقے ہمارے تمام شیعہ بہشت میں داخل ہوں گے۔"
ایک اور بیان کے مطابق آپکی زیارت کا اجر بہشت ہے۔ امام جواد علیہ السلام نے فرمایا: "جو کوئی قم میں پورے شوق اور معرفت سے میری پھوپھی کی زیارت کرے گا، وہ اہل بہشت ہوگا"۹۔ حضرت فاطمہ زھرا (س) کے بعد وسیع پیمانے پر شفاعت کرنے میں کوئی خاتون شفیعہ محشر، حضرت معصومہ (س) بنت امام موسٰی کاظم علیہ السلام کے ہم پلہ نہیں ہے۔" امام جعفر صادق علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں: "تدخل بشفاعتہا شیعتناالجنۃ باجمعھم" یعنی ان کی شفاعت سے ہمارے تمام شیعیان بہشت میں داخل ہو جائیں گے۔"
منابع:
1۔ منتہی الآمال، ج۲، ص۳۷۸
2۔ کریمہ اہل بیت، ص ۶۳ و ۶۴ نقل از کشف اللئالی
3۔ دلائل الامامہ ص/ ۳۰۹
4۔ زندگانی حضرت معصومہ/آقائے منصوری: ص/ ۱۴، بنقل از ریاض الانساب تالیف ملک الکتاب شیرازی
5۔ دریائے سخن تاٴلیف سقازادہ تبریزی: ص/۱۲، بنقل از ودیعہ آل محمد صل اللہ علیہ و آلہ/ آقائے انصاری
6۔ تاریخ قدیم قم ص/ ۲۱۳
7۔ مستدرک سفینہ البحار، ص۵۹۶؛ النقض، ص۱۹۶. بحارالانوار، ج۵۷، ص۲۱۹.
8۔ ریاحین الشریعۃ، ج۵، ص۳۵.
9۔ کامل الزیارات، ص۵۳۶، ح۸۲۷؛ بحارالانوار، ج۱۰۲، ص۲۶۶.
بیٹی گلدستہ گھرانہ
تحریر: مظفر حسین کرمانی
اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت بیٹی کا وجود ہے۔ پروردگار جب کسی انسان پر بہت مہربان اور اس کے لئے بہتری چاہتا ہے تو اسے بیٹی عنایت کرتا یے۔ بیٹیاں دراصل کسی بھی گھرانے کی رونق ہوتی ہیں، ان کے وجود بابرکت سے ہی گھر چہکتا و دمکتا ہے۔ اگر کسی گھر سے بیٹی کا وجود اٹھا لیا جائے تو وہ گھر ایک ویران عمارت کی مانند ہو جاتا ہے، کیونکہ کسی بھی گھر کو رونق بخشنے والی بیٹیاں ہیں۔ عموماً بیٹوں نے اپنی رونقیں باہر کی دنیا سے وابستہ کی ہوئی ہوتی ہیں، لیکن بیٹیوں کے لئے ان کا گھر ہی سب کچھ ہوتا یے۔ آپ نے مشاہدہ کیا ہوگا کہ بیٹیاں بہت کم عمری میں ہی گھر کے مسائل پر توجہ دینا اور ان کا ادراک کرنا شروع کر دیتی ہیں، انہیں حل کرنے کی جستجو اور کوشش میں ہوتی ہیں، جبکہ بیٹے بعض اوقات بڑے ہو کر بھی لاپرواہ اور ان مسائل کی بابت اس حد تک حساس نہیں ہوتے۔
اسلام نے بیٹیوں کو بہت عزت اور شرف سے نوازا ہے۔ اسلام سے قبل جاہلیت کے دور میں خواہ مشرق ہو یا مغرب، عورتوں کو بالکل عزت نہیں دی جاتی تھی، حتیٰ انہیں انسان تک نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اسے آدھی مخلوق، منحوس، پلیدی کی علامت اور اس طرح کی دیگر خرافات لوگوں نے بنا رکھی تھیں، جس کی بنیاد پر کسی کے ہاں بیٹی پیدا ہو جائے تو وہ اپنے لئے بہت ہی شرم محسوس کرتا تھا، و چہ بسا انہیں زندہ دفن کر دیا جاتا تھا۔ اسلام نے آکر ان جاہلیت اور خرافاتی افکار کا خاتمہ کیا اور عورتوں و بیٹیوں کو وہ عزت اور مقام دیا، جو ان کے شایان شان یے۔ حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی ولادت پر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو خبر دی گئی کہ انکے ہاں بیٹی ہوئی ہے تو آپ نے دیکھا کہ اصحاب کے چہرے اتر گئے ہیں، آپ نے ان کی طرف نگاہ کی اور ان کی اس حرکت پر مذمت کرتے ہوئے فرمایا "کیوں تمہیں اس خوشخبری سے کراہت محسوس ہو رہی ہے، بیٹی وہ پھول ہے کہ جس کی خوشبو کو میں سونگھوں گا و استشمام کرونگا اور اس کے رزق کا ذمہ بھی اللہ تعالیٰ نے خود لیا ہے۔"(من لا یحضر الفقیہ ج 3 ص 482)
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آئمہ معصومین علیہم السلام سے بیٹیوں کی عظمت کے بارے میں متعدد احادیث و روایات منقول ہیں، جن میں بیٹیوں کو گھر کی برکت، گھر کا پھول، باقیات الصالحات، قرب خداوندی کا ذریعہ اور ماں باپ کے لئے باعث نجات عذاب آخرت قرار دیا گیا ہے۔ بیٹیوں کی اچھی تربیت اور انہیں تعلیم سے آراستہ کرنے والے کو بہت ہی اجر عظیم دینے کا وعدہ کیا گیا یے، حتیٰ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنت میں ایسے شخص کو اپنے نزدیک افراد میں شمار کیا ہے۔
امریکی اور مغربی دباو کے مقابلے میں ایران کی استقامت
1)۔ امریکہ اور مغربی ممالک کی جانب سے ایران کے جوہری پروگرام کو بہانہ بنا کر شدید دباو ڈالا گیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ جن امور کا سہارا لے کر ایران پر سیاسی اور اقتصادی دباو ڈالا گیا ان کا ایران کے جوہری پروگرام سے دور دور تک کا کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔ امریکہ اور مغربی ممالک کا اصلی ترین مقصد ایران کو اسلامی انقلاب سے پہلے والی حالت میں واپس لوٹانا ہے جب ایران مغرب کی کالونی کی حیثیت رکھتا تھا۔
2)۔ اس وقت ایران کے دشمن ممالک کے پاس جو واحد ہتھکنڈہ باقی بچ گیا ہے وہ اقتصادی نوعیت کا ہے۔ یہ بات منطقی لحاظ سے بھی انتہائی واضح ہے اور امریکہ اور مغربی حکمرانوں کے اعترافات بھی اس پر دلالت کرتے ہیں کہ اگر ان کے پاس اقتصاد سے ہٹ کر جنگ یا فوجی ہتھکنڈہ ہوتا تو وہ اسے ضرور ایران کے خلاف بروئے کار لاتے۔ کیونکہ اقتصادی جنگ کے مقابلے میں فوجی جنگ بہت زیادہ آسان اور کم پیچیدگیوں کی حامل ہے۔ لہذا اگر امریکہ اور مغربی ممالک ایران کے خلاف شدیدترین بیان بازی کے بعد اقتصادی ہتھکنڈے بروئے کار لا رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے پاس فوجی ہتھکنڈہ استعمال کرنے کا آپشن موجود نہیں ہے۔
3)۔ دشمن ممالک کی جانب سے اسلامی جمہوریہ ایران پر اقتصادی دباو بذات خود اصلی مقصد نہیں بلکہ وہ ایرانی حکمرانوں اور عوام کی سوچ اور اعتقادات پر اثرانداز ہونا چاہتے ہیں۔ جیسا کہ ایران کے خلاف پابندیوں کا بانی رچرڈ نفیو اپنی کتاب "پابندیوں کا فن" میں اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ اقتصادی پابندیاں ایرانی حکومت اور عوام کی سوچ تبدیل کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ اصل مقصد ایران کو امریکہ اور یورپ کا پیرو اور تابعدار بنانا ہے۔
4)۔ امریکہ کی بنیادی پالیسیوں میں ریپبلکن پارٹی اور ڈیموکریٹک پارٹی میں کوئی فرق نہیں۔ اگرچہ ایران اور دنیا کے دیگر ممالک میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ ریپبلکن پارٹی سے وابستہ سیاست دان شدت پسندانہ سوچ جبکہ ڈیموکریٹک پارٹی سے وابستہ سیاست دان پرامن سوچ کے مالک ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ وحشیانہ پن اور بربریت میں ڈیموکریٹک پارٹی کسی طور ریپبلکن پارٹی سے کم نہیں ہے۔ اسے ثابت کرنے کیلئے بہت سے شواہد موجود ہیں۔ مثال کے طور پر ایران کے خلاف سب سے زیادہ تعداد میں اور سب سے زیادہ موثر اقتصادی پابندیاں براک اوباما کے دور میں عائد کی گئی تھیں۔ اس بات کی تصدیق امریکہ کے اعلی سطحی مذاکرات کار ویلیم برنز نے اپنی کتاب "درپردہ کینال" میں کی ہے۔
5)۔ دشمن کے ہاتھ میں موجود واحد ہتھکنڈے کے طور پر اقتصادی پابندیاں بھی بے نہایت اور نامحدود نہیں ہیں۔ جیسا کہ رچرڈ نفیو نے بھی اپنی کتاب میں اس بات کا اعتراف کیا ہے اور امریکی اور یورپی حکمران بھی اس کا اظہار کر چکے ہیں ایران کے خلاف اقتصادی پابندیاں ایک حد تک موثر ہیں۔ اس وقت ایران کے خلاف عائد پابندیاں اپنی شدید ترین حد تک ہیں۔ لہذا جب ڈونلڈ ٹرمپ نے دعوی کیا کہ وہ ایران کے خلاف وسیع ترین پابندیاں لگانا چاہتے ہیں تو رچرڈ نفیو نے اس کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا: "میں یہ بات سن کر بہت خوش ہوا ہوں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ تمام پابندیاں 2011ء میں ہی عائد کر دی گئی تھیں۔ لہذا یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔"
البتہ امریکہ اور مغربی ممالک اقتصادی پابندیوں کو زیادہ موثر بنانے کیلئے نفسیاتی جنگ کا سہارا لیتے ہیں اور اقتصادی دباو کے ساتھ ساتھ نفسیاتی دباو بھی بروئے کار لاتے ہیں۔ گذشتہ سترہ برس کے دوران اسلامی جمہوریہ ایران نے امریکہ اور مغربی ممالک کے جارحانہ اقدامات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے اور اپنے مسلمہ حقوق کا دفاع کیا ہے۔ ایک وقت وہ تھا جب امریکہ اور مغربی ممالک ایران میں حتی ایک سنٹریفیوج بھی چلنے کے مخالف تھے لیکن ایران کی استقامت اور شجاعت کے باعث محدود پیمانے پر یورینیم انرچمنٹ کا حق حاصل کر چکا ہے۔
آزادی نسواں کے نام پر خواتین کا استحصال
تحریر و ترتیب: مجتبیٰ ابن شجاعی
طلوع اسلام سے قبل مختلف ادیان میں عورت کے بارے میں دل دہلانے والے شرمناک اور افسوسناک عقائد و افکار تھے۔ مکتبِ جاہلیت کے پروردہ انسان نما درندوں نے جنسیت کی بناء پر عورت کے مقام کو نیچے گرا دیا تھا۔ بیٹی کی پیدائش پر باپ کا چہرہ سرخ ہو جاتا تھا۔ سنگ دل باپ شرم و عار محسوس کرکے بے رحمانہ انداز میں اپنی معصوم کلی کو زندہ درگور کرتا تھا۔ قرآن پاک اس دردناک واقعہ کی تصویر کشی کرتا ہے ”اور جب خود ان میں سے کسی کو بیٹی کی بشارت دی جاتی تھی تو اس کا چہرہ سیاہ پڑ جاتا تھا اور خون کے گھونٹ پینے لگتا تھا، گویا بہت بری خبر سنائی گئی ہے۔“(سورہ نحل آیت نمبر 58-59) اسی واقعہ کے تناظر میں کلام پاک ان ظالم اور جابر افراد کے احساسات و اقدامات کی مذمت کرتے ہوئے سوالیہ انداز میں ارشاد فرماتا ہے ”جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ انہیں کس خطاء میں مارا گیا۔“(سورہ التکویرآیت نمبر 8-9)
جہالت کے گھٹا ٹوپ دور میں جب صدر اسلام کا نور چمکا تو آپ نے عورت کو عزت، وقار، رتبہ اور مقام و منزلت بخشا۔ مساوات، برادری اور برابری کا نظریہ پیش کیا۔ جنسیت، حسب و نسب رنگ اور نسل کو مرد و عورت کے درمیان برتری و بلندی کا میعار قرار نہیں دیا بلکہ واضع الفاظ میں بیان فرمایا کہ ”اللہ کے نزدیک تم سب میں باعزت وہ ہے، جو سب سے زیادہ صاحب تقویٰ ہے۔“(سورہ الحجرات آیت 13) کلام پاک کی رو سے مرد اور عورت از لحاظ جنسیت ایک دوسرے کے مساوی ہیں۔ کلی طور پر اگر دیکھا جائے تو مرد اور عورت ہونے کے لحاظ سے دونوں کے مقام و منزلت میں کوئی فرق نہیں۔ دونوں جنس ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ ایسے انسانی معاشرے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، جو صرف مردوں یا صرف خواتین پر مشتمل ہو۔ سورہ بقرہ میں ارشاد خداوندی ہے کہ ”تمہاری بیویاں تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا لباس ہو۔“ قرآن پاک میں عورت کے بارے میں بہت سی آیات نازل ہوئی ہیں، جن کے ذریعے عورت کی فضیلت مقام و مرتبے کا ادراک کیا جاسکتا ہے اور یہ آیات قرآنی مرد و عورت کے مابین فرق کے نظریہ کو خارج کر دیتے ہیں۔
سورہ مبارکہ نحل آیت نمبر 97 میں اللہ تبارک و تعالٰی ارشاد فرماتا ہے: ”جو شخص بھی نیک عمل کرے گا، وہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ صاحبان ایمان ہو، ہم اسے پاکیزہ حیات عطاء کریں گے۔“ اس آیہ کریمہ میں مرد و عورت کو از لحاظ جنسیت مساوی حیثیت دے کر واضح کر دیا گیا کہ جنسی اعتبار سے مرد اور عورت کو ایک دوسرے پر فوقیت نہیں، اگر ایک دوسرے پر فوقیت ہے تو وہ صرف ایمان، اخلاق، تقویٰ اور پرہیزگاری کی بنا پر ہے، یعنی تقویٰ و پرہیزگاری کو محبوبیت کا بنیادی عنصر قرار دیا گیا ہے۔ ایک دوسری آیت میں خداوند عالم کا ارشاد ہے: ”اے انسانو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور پھر تم میں شاخیں اور قبیلے قرار دیئے، تاکہ آپس میں ایک دوسرے کو پہچان سکو۔“(سورہ حجرات آیت نمبر 13) اسی طرح سورہ مبارکہ روم آیت نمبر 31 میں زن و مرد کے مساوی ہونے کی دلیل پیش کی گئی ہے: ”اور اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے حسین بیویاں پیدا کیں، تاکہ تمہیں سکون حاصل ہو اور پھر تمہارے درمیان محبت اور رحمت قرار دی ہے کہ اس میں صاحبان فکر کے لیے بہت سی نشانیاں پائی جاتی ہیں۔“
سورہ بقرہ میں مرد و عورت کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیا ہے، اسی طرح سورہ احقاف آیت نمبر 15 میں دوران حمل ماں کی زحمت کا ذکر کرتے ہوئے اپنے والدین (ماں باپ) کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا حکم دیا ہے۔ گویا قرآن کریم کی روشنی میں مرد اور عورت دونوں کا وجود مساوی ہے۔ کلام پاک کے علاوہ رسول اکرم و ائمہ اطہار ؑکی نگاہ میں بھی مرد و عورت جنسیت، حسب و نسب اور رنگ و نسل کے اعتبار سے مساوی ہیں۔ پیامبر گرامی اسلام کا ارشاد ہے کہ ”لڑکیاں تمہاری بہترین اولاد ہیں۔“(مکارم الاخلاق ص 219)۔ روایات میں ہے کہ جب رسول گرامی اسلام کو بیٹی کی پیدائس کی بشات دی گئی تو اصحاب کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ اصحاب کے چہرے سے کراہیت سی ظاہر ہونے لگی تو رسول اسلام نے اصحاب سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ "تمہیں کیا ہوگیا، لڑکی ایک پھول ہے، جسے ہم سونگھتے ہیں اور اس کے رزق کی ذمہ داری خدا کے اوپر ہے۔“(بحار الانوار جلد 20)
اس طرح سے قرآن و احادیث مرد و عورت کے مساوی ہونے کی وکالت کرتے ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ عورت انسانی معاشرہ کا ایک لازمی اور قابل احترام کردار ہے۔ انسانی معاشرہ کا نصف حصہ مثل ایک گاڑی کے دو پہئے ہیں۔ نسل انسانی کا ذریعہ ہے۔ مرد کی ترقی، کامیابی اور کامرانی میں اس صنف نازک کا ایک اہم اور کلیدی کردار ہوتا ہے۔ علامہ اقبال ؒ بڑے دلکش انداز میں اہمیت عورت کی تصویر کشی کرکے فرماتے ہیں:
وجود زن سے ہیں تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں
طول تاریخ میں مثالی خواتین نے وقتاً فوقتاً ایک کردار نبھایا۔ وحدانیت، رسالت اور امامت کے پرچار میں شانہ بشانہ مردوں کا ساتھ نبھایا۔ عظیم الشان خواتین نے انبیاء و اولیاء ﷲکے مقدس مشن کی آبیاری میں اپنا آرام حرام کر دیا۔ مریم ؑ ، آسیہ، ہاجرہ ؑ، بی بی آمنہ، فاطمہ بنت اسدؑ، حضرت خدیجہ، دیگر امہات المومنین، خاتون جنت حضرت فاطمہ الزہرا ؑ اور شیر دل خاتون جناب زینب ؑ جیسی مثالی، نڈر اور باہمت خواتین نے دین مبین اسلام کے تئیں بیش بہا خدمات انجام دے کر اسلامی و انسانی معاشرے کا لازمی کردار ہونے کا ثبوت پیش کیا۔
عصر حاضر میں سید علی خامنہ ای شہید قاسم سلیمانی، شہید محسن حججی، شیخ زکزکی، شیخ باقر نمر النمر، سید حسن نصراللہ، خالد مشعل جیسے عظیم المرتبت مجاہدین اور شہدائے اسلام کی خواتین نے جس انداز سے اپنے مرد مجاہدوں کا حوصلہ بڑھایا، جہاد برائے اسلام میں ان کا ساتھ نبھایا اور اسلامی معاشرے میں خواتین کی آزادی کا جیتا جاگتا ثبوت دنیا کے سامنے پیش کیا۔ صدیوں کی صدیاں گزر جانے کے بعد بھی مغربی اور یورپی نظام کی پروردہ خواتین کو ”نام نہاد آزادی نسواں“ کے نظریئے کے باوجود بھی اس طرح کی آزادی نصیب نہیں ہوگی۔ امام خمینی (رہ) فرما رہے ہیں کہ ”مرد در دامن زن بہ معراج می رود“(صحیفہ امام) یعنی ایک مرد کے کمال تک پہنچنے میں خاتون کا اہم رول ہوتا ہے اور زن باہوش کے بلند قامت حوصلوں کے سائے تلے ایک مرد قرب خدا کی معراج حاصل کرسکتا ہے۔ قول خمینی ؒ کی تازہ مثال شہید قاسم سلیمانی، شہید حججی جیسے شہداء ہیں، جن کے جذبہ جہاد اور شوق شہادت میں ان کی بیویوں، بیٹیوں اور بہنوں کا حوصلہ اور ہمت پوشیدہ ہے۔ علامہ اقبال (رہ) نے عورت کی اہمیت دلکش الفاظ میں بیان کی ہے:
جس قوم نے اس زندہ حقیقت کو نہ پایا
اس قوم کا خورشید بہت جلد ہوا زرد
افسوس کا مقام ہے کہ اگرچہ عورت شعور و ادراک کے اعتبار سے ناقص نہیں تو پھر معاشرے میں عورت کے مقام کو کیوں کر اور کس طرح گرا دیا گیا۔ عورت پس سے پست ترین اور کمزور مخلوق کیوں سمجھی گی۔ کمتری کا برتاو کرکے عورت کو صرف گھر کی نوکرانی کے روپ میں پیش کیا گیا۔ نرم اور نازک مزاج عورت پر آئے روز دست درازی، محض مرد کی جنسی تسکین کا ذریعہ اور کھلونا کیوں سمجھا جا رہا ہے۔ ان سختیوں اور اذیتوں نے صنف نازک کو احساس کمتری کا شکار بنا دیا۔ تاریخ کے جھروکوں سے پتہ چلتا ہے کہ عورت کی پستی اور گراوٹ کا ذمہ دار مغرب کا استعماری نظام ہے، جس نے نام نہاد آزادی نسواں کے نام پر عورت کا استحصال کیا۔ عورت کو نوکرانی کے روپ میں پیش کرکے اس کا مقام حد درجہ گرا دیا۔ آزادی زن کے پرچم تلے عورت کی عصمت اور شرم و حیا کا سودا کیا۔ جنسی آزادی کے نام پر خواتین کو ہوس کے غلیظ و بدترین قید خانے کی جانب دھکیل دیا۔
آج کے انسانی معاشرے میں اگر کسی جگہ عورت کے ساتھ دست درازی، عصمت دری، چھیڑ خوانی اور قتل و غارتگری کے واقعات رونما ہو رہے ہیں تو یہ مغرب کی ہی دین ہے۔ اسلامی نظام کے ہوتے ہوئے کسی کی مجال نہیں تھی کہ کہ عورت کی جانب میلی نظروں سے دیکھے۔ استعماری نظام کے ہوتے ہوئے ان نظروں کی ہمت بڑھ گئی اور بے چاری عورت ہوس و درندگی کا شکار بن گئی، یہ مخلوق مظلوم تر بن گئی۔ بقول ڈاکٹر شریعتی ”مغرب کے استعماری نظام کا سب سے گھناونا حربہ فرائڈزم کی جنسی آزادی کا تصور تھا۔“ ڈاکٹر شریعتی کہتے ہیں کہ ”ہمارے دور میں مشرقی عورت کی تین قسمیں ہیں، ایک وہ جو روایات کہنہ کا شکار ہے اور ان روایات کو مذہب سمجھ کر انہیں ناقابل تغیر سمجھتی ہے، عورتوں کی دوسری قسم وہ ہے، جو مغرب کی نقالی کو اپنی نجات اور آزادی کا ذریعہ سمجھتی ہے۔ عورتوں کی تیسری قسم وہ ہے، جو آگاہ اور باشعور ہے، جو اپنے لیے خود انتخاب کرنا چاہتی ہے۔ یہ وہ عورت ہے، جو نہ چہرہ موروثی کو قبول کرتی ہے اور نہ مغرب سے درآمد شدہ مکروہ اور انسانیت دشمن نظریات میں گرفتار ہونا چاہتی ہے۔“
اگر اجتماعی طور پر دیکھا جائے کہ ان تینوں قسموں میں دوسری قسم کی عورت سب سے زیادہ ہوس کا شکار بن رہی ہے۔ اس قسم کی عورت نے مغربی نظام کے ساتھ اپنے جسم کا سودا کیا ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ سودا کرنے والی عورت کا جنسی ہوس کا شکار ہونا یقینی ہے۔ افسوس صد افسوس اس قسم کے طبقے میں مغرب نقال مسلم خواتین کی ایک تعداد شیطانی خواتین کے کندھوں سے کندھا ملا کر اپنی زندگی برباد اور معاشرہ آلودہ کر رہی ہیں۔ ہماری وادی کشمیر جسے ایک وقت ”پیرہ واری“ کے نام سے جانا جاتا تھا، میں بھی مغرب نقال خواتین کی ایک بڑی تعداد صاف و پاک معاشرے کو آلودہ اور اسلامی تہذیب و تمدن کو تباہ و برباد کر رہی ہے۔ بے جا نہ ہوگا کہ اس وادی گلپوش میں آئے روز عصمت دری اور چھیڑ خوانی کے جو واقعات رونما ہو رہے ہیں، اس کی ذمہ دار مغرب نقال خواتین ہیں۔ بڑی حد تک مغرب پرست والدین بھی ہیں، جو اپنے اولاد کی تربیت شیطان کو سونپ رہے ہیں۔
ڈاکٹر شریعتی مزید کہتے ہیں کہ مغرب سے درآمد شدہ نظریات انسانیت اور حرمت کے دشمن ہیں، یہ آزادی کے نام پر عورت کو جنسی بے راہ روی کے دام میں گرفتار کرکے اپنے مذموم مفادات اور پست مقاصد کو حاصل کرتے ہیں۔(مسلمان عورت اور عہد حاضر کے تقاضے) اگرچہ آزادی ہر فرد کا بنیادی اور فطری حق ہے، لیکن انقلاب فرانس کے بعد اس اصطلاح کو ہائی جیک کرکے مغربی اور یورپی نظام نے آزادی زن کے نام پر انسانی معاشرہ کو آلودہ کیا۔ اس غلیظ ترین نظام نے بیہودہ اور جاہلانہ قوانین تیار کرکے آزادی کے نام پر عورت ذات کا استحصال کروایا۔ اس نظام نے عورت کا مقام مفلوج زدہ کر دیا۔ ڈریس کوڑ اور دیگر ذرائع سے عورت کی عصمت کو سرعام نیلام کر دیا۔ حماقت کی بات ہے کہ آزادی زن کے نام پر مغرب کے اس بیہودہ تصور نے بڑی تیزی کے ساتھ اسلامی تمدن کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ سادہ لوح مسلمان نے تعلیمات قرآنی اور اسوہ معصومین کو بالائے طاق رکھ کر مغرب کے فرسودہ نظام کا جوش و جذبہ کے ساتھ استقبال کیا اور اپنے بدنصیب کندھوں پر شریعت کا جنازہ نکال کر اپنی پستی، ذلالت و رسوائی کا اعلان کر دیا۔
مغرب نے سب سے پہلے حجاب کو ہدف تنقید کا نشانہ بنایا، مسلمان خواتین کے ایک طبقے نے بے شرم معاشرہ کی نقالی کرتے ہوئے اپنے سروں سے حجاب اتار دیا۔ اپنے تنوں کو تنگ لباس سے عریاں کر دیا، یہ بے حجابی ان کی تذلیل و تحقیر کا بنیادی سبب بنی۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نام نہاد آزادی زن کے ڈھنڈورے پر فرماتے ہیں کہ ”مغرب والوں کا ہم پر اعتراض ہے کہ آپ کی عورتیں حجاب میں کیوں رہتی ہے، کیوں حجاب کو لازمی کر دیا گیا ہے؟ جبکہ ان لوگوں نے بے حجابی و بے پردگی کو لازمی کر رکھا ہے۔ مغربی دنیا میں عورت کو رسوا کرکے رکھ دیا گیا ہے، اس کی تحقیر و توہین کی گئی ہے۔ انہوں نے عورت کو لذت و شہوت کے سامان کے طور پر استعمال کیا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ میک اپ کے بغیر عورت کی کوئی ارزش و قیمت نہیں، اسے چاہیئے کہ سجے سنورے، تاکہ مردوں کو اچھے لگے۔ یہ عورت کی سب سے بڑی توہین ہے۔“
قرآن پاک بھی بے حجابی، بیہودگی اور عریانیت کی مذمت کرتے ہوئے ارشاد فرما رہا ہے: ”اپنے گھروں میں قرار سے رہو اور زمانہ جاہلیت کی طرح اپنے بناو سنگھار کا اظہار نہ کرو اور نماز کی ادائیگی کرو، زکواۃ دو اور اللہ و رسول کی اطاعت کرو۔“(احزاب آیت 33) الغرض مغربی نظام نے آزادی نسواں کے نام پر جس عورت کو کھلونے کے طور پر پیش کیا ہے۔ اسلام نے اسی مخلوق کو حجاب کے سائے میں عظیم رتبہ اور مقام دیا ہے۔ عورت اس وقت جو احساس کمتری کا شکار ہوگئی ہے، ظلم و تشدد کا نشانہ بن گئی ہے، اس میں زیادہ تر عورت کا ہی ہاتھ ہے، ساتھ ہی ساتھ والدین اور چھوٹے بڑے مسلم حکمران بھی اس کے ذمہ دار ہیں۔ دورحاضر کی خواتین اگر خاتون جنت حضرت فاطمۃ الزہرا ؑ اور ثانی الزہراؑ کی سیرت پر عمل پیرا ہو جائیں تو ان کی تمام مشکلات کا حل بغیر کسی کے جھنڈے تلے حل ہو جائیں گے۔ خواتین کا جو طبقہ رسول اسلام کی میلاد کو یوم رہبر، مولائے کائنات کے یوم ولادت کو یوم پدر، حضرت زہرا ؑ کے میلاد باسعاد کو یوم مادر اور جناب ذینب ؑ کے یوم ولادت کو یوم خواہر کے طور پر مناتا ہے اور ان کی سیرت پر عمل پیرا ہوتا ہے، وہ طبقہ دین و دنیا میں سرخرو ہے۔ مادران را اسوہ کامل بتول ؑ۔(اقبال)
ابتدائے اسلام میں خواتین کا کردار
ابتدائے اسلام میں خواتین کا کردار | |||||
مصنف: ظہور احمد اظہر ادیان عالم کی ابتدائی تاریخ پر نظر ڈالیں بلکہ ارتقائی منازل کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو اس میں عورت کا کردار بالکل مفقود ہے۔ یہ تو گزشتہ ایک دو صدیوں کی بات ہے کہ حواء کی بیٹی کو عزت و احترام کے قابل تسلیم کیا گیا اور عورت کو بھی مرد کے برابر قرار دیا گیا لیکن اسلام کی ابتدائی تاریخ میں مسلم خواتین کا جو کردار رہا وہ آج سب دنیا کے لئے ایک واضح سبق بھی ہے، قابل تحسین کارنامہ بھی اور قابل فخر تاریخ بھی! بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ اسلام کی تاریخ کی تو ابتدا ہی عورت کے شاندار کردار سے ہوتی ہے۔ اس دین حق کا تونقطہ آغاز ہی عورت کے عظیم الشان کردار سے عبارت ہے! یہ بات الگ ہے کہ آج ترقی یافتہ ہونے کا دعوی کرنے والی دنیا حقوق نسواں کی علمبردار بنی ہوئی ہے اور چار پانچ صدیوں سے مغرب کی معاندانہ یلغار اور مسلسل لوٹ مار کے ستائے ہوئے مسلمان معاشروں میں جہالت و پسماندگی کے باعث مسلمان عورت سے اس کا تاریخ ساز کردار بھی چھین لیا گیا ہے اور وہ اس کردار سے بھی محروم کردی گئی ہے جو اسے دین اسلام نے سونپا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کی تاریخ تو شروع ہی عورت کے تعمیری و تاریخی کردار سے ہوتی ہے ہماری تاریخ تو عورت کی ہمت، دانائی، حوصلہ مندی اور دور اندیشی کے شاندار اور قابل فخر کردار سے معمور ہے۔ ہمارا نقطہ آغاز تو حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا سے ہوتا ہے جب ضعیف و ناتواں سمجھی جانے والی صنف نازک ہمت و عظمت کا ایک پہاڑ اور حوصلہ افزائی کا ایک سرچشمہ بن کر نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور کھڑی ہوجاتی ہے اور ایک غیر متزلزل ستون کی طرح سہارا بن جاتی ہے۔ غار حراء سے اتر کر اور ایک نسخہ کیمیا ساتھ لے کر اپنی قوم کے پاس جب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر تشریف لائے تو گھبراہٹ اور پریشانی کے سائے آپ کا پیچھا کر رہے تھے مگر اپنے شوہر کی پاکبازی، بلند اخلاق اور انسان دوست کردار کی گواہ بن کر نبوت پر سب سے پہلے ایمان لے آئیں اور فرمایا کہ ’’اے مجسمہ صدق و امانت! اللہ تعالیٰ آپ جیسے بلند کردار کو کبھی پریشانی اور گھبراہٹ کے سایوں کے سپرد نہیں کرے گا۔ آپ انسانی معاشرہ کے لئے اتنے بڑے بڑے کارنامے انجام دیتے ہیں۔ جس انسان کا یہ مرتبہ و کردار ہو اللہ تعالیٰ اسے بھلا تنہا چھوڑ سکتے ہیں۔ آپ یقینا اللہ تعالیٰ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مبعوث ہوئے ہیں اور یہ جو پیغام آپ کو ملا ہے اس کا لانے والا وہی جبریل امین، وہی ناموس حق اور وہی فرشتہ ہے جو ابراہیم، خلیل اللہ علیہ السلام اور موسیٰ، کلیم اللہ علیہ السلام جیسے اولوالعزم نبیوں کے پاس اللہ تعالیٰ کا پیغام حق لے کر آتا رہا ہے۔ آیئے میں اس کی تصدیق آپ کو اپنے بھائی ورقہ بن نوفل سے کرائے دیتی ہوں جو مقدس صحیفوں کے عالم ہیں اور نبیوں کے احوال سے بخوبی آگاہ ہیں‘‘۔ غار حراء میں گوشت پوست سے عبارت ایک فرد بشر کا سامنا عالم ملکوت کی دنیا کے سرخیل حضرت جبریل امین علیہ السلام سے ہوا یہ کوئی معمولی واقعہ نہ تھا بلکہ عرش سے فرش کے ارتباط کی بنیاد پڑی تھی۔ اس کے وقوع پذیر ہونے پر سیّد وُلِدَ آدَمَ حضرت سیدنا محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پریشانی اور گھبراہٹ ایک فطرتی بات تھی بلکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ غیر فطری بات ہوتی مگر اللہ تعالیٰ نے یہ چاہا کہ حواء کی بیٹی کی عظمت کو انسان بھول گئے ہیں اس کی عظمت رفتہ کو اجاگر کرنے اور عورت کا مرتبہ ہمیشہ کے لئے منوانے کی غرض سے ایک خدیجۃ الکبریٰ کے کردار کی ضرورت ہے۔ ایسا کردار جس کے سامنے انسانیت ہمیشہ جھکتی رہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے حج اور عمرہ مکمل کرنے کے لئے صفا و مروہ کے درمیان سعی کو سیدہ ہاجرہ علیہا السلام کی سنت کو لازم ٹھہرا دیا گیا ہے اسی طرح سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے عظیم الشان کردار سے عورت کی عظمت کو ہمیشہ کے لئے تسلیم کروا لیا جائے۔ اس کے بعد دعوت اسلام میں سب سے زیادہ اذیت بھی خواتین نے اٹھائی۔ دعوت الی اللہ کی خاطر سب سے پہلی شہادت بھی عورت کے حصہ میں آئی جب حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا نے شہادت قبول کرکے ظلم کو ٹھکرا دیا۔ سب سے پہلے ہجرت کرنے والوں میں بھی خواتین پیش پیش تھیں۔ حضرت سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی لخت جگر حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا نے اپنے شوہر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے ہمراہ ہجرت کی تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ حضرت لوط علیہ السلام اور ان کے اہل و عیال کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور ان کی اہلیہ اللہ کی راہ میں پہلے ہجرت کرنے والے ہیں۔ ہجرت کے بعد قیام حبشہ کے دوران مسلم خواتین کا کردار بھی تاریخ ساز ہے۔ ابتدائے اسلام یا دوسرے لفظوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد مبارک میں مسلم خواتین نے زندگی کے ہر شعبہ میں بھرپور کردار ادا کیا اور بڑی آزادی اور خوشی کے ساتھ ادا کیا۔ علم سیکھنے سکھلانے کا میدان ہو یا معاشرتی خدمات کا میدان، اللہ کی راہ میں جہاد کا موقع ہو یا سیاست و حکومت کے معاملات ہوں، سب میں خواتین کا واضح، روشن اور اہم کردار ہوتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس میں صحابہ کرام اور صحابیات رضوان اللہ علیہم اجمعین سب ایک ساتھ شریک ہوتے تھے اور دین کی باتیں پوچھتے اور سمجھتے تھے۔ صحابیات رضی اللہ عنہن نے شکایت کی کہ خواتین سے متعلق کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جو ہم اپنے باپ دادا اور بھائیوں کی موجودگی میں نہیں کرسکتیں۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خواتین کے لئے ایک دن الگ سے مخصوص کردیا جس میں مرد شریک نہیں ہوتے تھے۔ اس طرح چھ دن مردوں کے ساتھ اور ایک دن الگ سے حاضر ہو کر اپنے مسائل کا حل پوچھتی تھیں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک خواتین کی تعلیم و تربیت مردوں سے بھی زیادہ اہمیت کی حامل تھی۔ میدان جنگ میں مسلم خواتین، مجاہدین کو پانی پلاتی تھیں، زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھیں اور اس کار خیر میں کسی بڑے یا چھوٹے کی تفریق و تمیز نہیں تھی حتی کہ غزوہ احد میں حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بھی اس کار خیر میں اپنا کردار ادا کرنے کے لئے موجود تھیں۔ غزوہ خندق کے موقع پر بھی مسلم خواتین نے اپنے ایسے ہی کارہائے خیر میں بھرپور کردار ادا کیا، ایک صحابیہ رضی اللہ عنہا جو طب کا علم کامل رکھتی تھیں ان کا خیمہ ایک ڈسپنسری اور ہسپتال کا کام دیتا رہا۔ اس ابتدائی عہد اسلام میں مسلم خواتین نے مشاورت میں بھی اپنا تعمیری کردار ادا کیا۔ بعض اوقات تو ایسا بھی ہوا کہ جہاں کوئی حیلہ کارگر ثابت نہیں ہورہا تھا وہاں ایک مسلم خاتون کی صائب اور درست رائے نے مسئلہ کا کامیاب حل پیش کرکے حالات کا رخ ہی بدل دیا۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر مکہ مکرمہ کے قرب و جوار سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جو کئی سال بعد آئے تھے مگر عمرہ و زیارت بیت اللہ کے بغیر واپس ہونے پر مجبور ہونا پڑا، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے احرام کھول کر واپس جانے کا اعلان فرما دیا تھا مگر زیارت بیت اللہ کے لئے تڑپنے والی نیک روحیں جیسے بے جان ہوکر بیٹھ گئی ہوں، آپ فکر مند تھے کہ یہ غمزدہ ساتھی ٹس سے مس نہیں ہو رہے انہیں احرام کھولنے پر کیسے آمادہ کیا جائے؟ آپ اسی حال میں اپنے خیمہ میں تشریف لے گئے اور ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مشورہ لیا، اہل ایمان کی روحانی ماں اپنے فرزندوں کی نفسیات سے خوب آگاہ تھیں۔ انہوں نے مشورہ دیتے ہوئے عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ جانتے ہیں کہ آپ کے جانثار تو آپ کے نقش قدم پر چلنے کے منتظر رہتے ہیں، اگر آپ احرام کھول دیں اور وضو کرکے نفل سے فارغ ہو کر تیاری کرلیں تو یہ لوگ بھی دوڑ کر آپ کے نقش قدم پر چل پڑیں گے چنانچہ ایسے ہی ہوا۔ جب آپ احرام کھول کر تیار ہوئے تو تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی آپ کی پیروی کی اور چند لمحوں میں غمزدہ قافلہ مدینہ منورہ کی طرف رواں دواں تھا۔ وصال نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد امہات المومنین رضی اللہ عنہن نے تعلیم قرآن کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں اور بچیوں کو دینی مسائل کی تعلیم بھی دینا شروع کردی حتّٰی کہ ام المومنین رضی اللہ عنہما کا اپنا حجرہ ایک درسگاہ نظر آنے لگا۔ امہات المومنین کی پیروی میں دیگر خواتین اسلام نے بھی اشاعت علم اور فہم دین کو اپنے لئے لازم ٹھہرا لیا۔ اس طرح علم کی تدریس، تعلیم کے فروغ اور حدیث کی روایت میں ابتدائی دور کی مسلم خواتین نے سرگرم کردار ادا کیا۔ یہ سب باتیں ایک حقیقت کو آشکار کرتی ہیں کہ ابتدائے اسلام میں مسلم خواتین نے اپنا بھرپور تعمیری اور مثبت کردار ادا کرکے آنے والے وقتوں کے لئے ایک اعلیٰ نمونہ اور قابل تقلید مثالیں قائم کردی ہیں جو آج بھی مسلمان عورت کے لئے مشعل راہ ہیں اور رہیں گی۔ |
ایمان والو یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا دوست اور سرپرست نہ بناؤ کہ یہ خود آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں سے کوئی انہیں دوست بنائے گا تو ان ہی میں شمار ہوجائے گا بیشک اللہ ظالم قوم کی ہدایت نہیں کرتا ہے
امریکی حکومت کی اصلیت
عدالت، انسانی حقوق، آزادی اور اس جیسے دسیوں دیگر مفاہیم ہر دور میں تمام انسانوں کی نظر میں پسندیدہ، دل موہ لینے والے اور اعلی قسم کے مفاہیم رہے ہیں۔ بڑی تعداد میں دانشور حضرات نے بھی اپنی تحریروں، تقریروں اور کلاسوں میں ان مفاہیم پر سیر حاصل گفتگو کی ہے اور روشنی ڈالی ہے۔ ان تمام متون اور مطالب کا مطالعہ کر کے انسان اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ ان مفاہیم سے متعلق قوانین کو صحیح انداز میں لاگو کر کے مطلوبہ اور آئیڈیل معاشرے تک پہنچا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر "انسانی حقوق" کا تصور ایسے مفاہیم میں شمار ہوتا ہے جو دوسری عالمی جنگ کے بعد پوری عالمی برادری کی جانب سے ایک مطالبے کی صورت میں سامنے آیا۔ بہت جلد اقوام متحدہ میں "ہیومن رائٹس کمیشن" نامی ادارہ تشکیل دیا گیا اور اس میں انسانی حقوق سے متعلق بنیادی اور ضروری قوانین بنائے گئے۔ ان قوانین کو اقوام متحدہ کی جانب سے جاری ہونے والے "انسانی حقوق کے بیانیے" میں مقدمے کے طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ اس میں کہا گیا تھا: "بنی نوع انسان کے ہر فرد کی ذاتی عزت و احترام اور تمام انسانوں کے مسلمہ اور مساوی حقوق کو قانونی درجہ فراہم کرنا دنیا میں آزادی، عدالت اور امن کے قیام کی بنیاد ہے۔"
ہیومن رائٹس کمیشن کی تشکیل کے بعد وقفے وقفے سے انسانی حقوق کے بیانئے پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کیلئے مختلف قسم کے دیگر معاہدے بھی انجام پاتے رہے ہیں۔ شہری و سیاسی حقوق سے متعلق بین الاقوامی معاہدے اور اقتصادی، سماجی اور ثقافتی حقوق کے بارے میں بین الاقوامی معاہدے سے مربوط انجام پانے والے بعض اہم معاہدے یہ ہیں: ہر قسم کے نسل پرستانہ امتیازی سلوک کے خاتمے کا کنونشن (1966)، خواتین کے خلاف ہر قسم کے امتیازی سلوک کے خاتمے کا کنونشن (1979)، ٹارچر کے خلاف اقوام متحدہ کا کنونشن (1984)، بچوں کے حقوق کا کنونشن (1989)، معذور افراد کے حقوق کا کنونشن (2006)، مہاجر مزدوروں اور ان کے اہلخانہ کے حقوق کے بارے میں بین الاقوامی کنونشن (1990)۔ اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے قوانین کی منظوری، اس قدر معاہدوں کی تشکیل اور دنیا کے تمام ممالک کو ان معاہدوں کی پاسداری کا پابند کرنے کے باوجود عالمی استکباری قوتیں کھلم کھلا ان قوانین کو روندتی چلی آئی ہیں اور اس کی پابندی کرنے سے دریغ کرتی آئی ہیں۔ موجودہ دور میں خاص طور پر مغربی ایشیا کے حالات میں ان معاہدوں کی کھلی خلاف ورزی کا بآسانی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔
عراق، یمن، شام اور افغانستان پر فوجی جارحیت اور ان ممالک کے ہزاروں بیگناہ شہریوں کا لقمہ اجل بن جانا، اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کی جانب سے ریاستی دہشت گردی کو فروغ دینا، فلسطین اور لبنان کی مظلوم قوموں کے خلاف غاصب صہیونی رژیم کی کھلی جارحیت، غزہ کی پٹی میں مسلسل عام شہریوں کا قتل عام، حریت پسند قوموں کے خلاف امریکہ کی جانب سے شدید اقتصادی پابندیاں عائد کئے جانا، خاص طور پر کرونا وائرس کے پھیلاو سے پیدا شدہ حالات میں ایران پر دوائیوں برآمد کرنے پر پابندی لگانا اور حال ہی میں امریکہ کے سیاہ فام شہری جرج فلائڈ کا پولیس کے ہاتھوں قتل اور انسانیت کے خلاف جرائم کے ایسے ہی ہزاروں واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسانی حقوق، عدالت، آزادی وغیرہ صرف کاغذ پر لکھے گئے خوبصورت قوانین کی حد تک ہی رہ گئے ہیں۔ یہ الفاظ صرف تقریروں یا کلاس میں لیکچرز کے کام آتے ہیں جبکہ باہر کی دنیا میں بھی صرف سفارتی سرگرمیوں اور سیاسی بیانات کی حد تک محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔ اکثر تسلط پسند اور استکباری ممالک کی حقیقت اور اصلیت وہی ہے جو آج دکھائی دے رہی ہے۔ یہ حقیقت گذشتہ کئی سالوں سے مخلص رہنماوں کی جانب سے بیان کی جا رہی تھی لیکن مغرب نواز حلقے اسے جھٹلاتے رہے ہیں۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کا شمار ایسے ہی مخلص رہنماوں میں ہوتا ہے جنہوں نے دنیا والوں کو امریکہ کا حقیقی چہرہ دکھانے کی کوشش کی ہے۔ آپ 3 جون کے دن امام خمینی رح کی برسی کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "آپ آج امریکہ کی آشفتہ صورتحال دیکھ رہے ہیں۔ امریکہ کے مختلف شہروں اور ریاستوں میں دکھائی دینے والی صورتحال کچھ حقائق کا شاخسانہ ہے جن پر ہمیشہ پردہ ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ نئی چیز نہیں ہے بلکہ حقائق کا آشکار ہونا ہے۔ اسی طرح جیسے ایک حوض کی تہہ میں بیٹھا گند ابھر کر اوپر آتا ہے۔ یہ بات کہ ایک سفید فام پولیس والا انتہائی بے رحمی سے سیاہ فام شخص کی گردن پر گھٹنا دے کر بیٹھ جائے اور اس قدر دباو ڈالے کہ اس کی موت واقع ہو جائے اور اردگرد کھڑے پولیس والے تماشائی بن کر دیکھتے رہیں کوئی نئی نہیں ہے بلکہ یہ امریکہ کی اصلیت ہے۔ یہ وہ کام ہے جو اب تک امریکی حکام پوری دنیا سے کرتے آئے ہیں۔ افغانستان کے ساتھ انہوں نے یہی کیا ہے، عراق کے ساتھ بھی، شام کے ساتھ بھی یہی کچھ کیا اور اس سے پہلے بھی دنیا کے بہت سے ممالک جیسے ویتنام سے یہی کام کر چکے ہیں۔ یہ امریکی حکومت کی اصلیت ہے۔"
اسلامی سیاست اور امام خمینی ؒ
تحریر: مرزا محمد حیدر، (لکھنؤ)
سیاست یعنی ملکی تدبیر و انتظام۔ اس سادہ سے لفظ کا مفہوم جہاں کچھ افراد کیلئے قابل فہم ہے، وہیں کچھ حضرات کیلئے مشکل اور الجھا ہوا ہے۔ وہ چیز جو سیاست کے مفہوم و معنی کو گنجلک بناتی ہے، اس کا تعلق انسان کے خود اپنے تصورات سے ہے اور یقیناً ان تصورات کو اقتدار و بادشاہت کے طلبگار افراد نے لوگوں کو فریب دینے کی غرض سے ان میں بہت سی پیچیدگیاں پیدا کر دی ہیں، تاکہ ان کی مطلق شہنشاہی برقرار رہے اور لوگ سیاست کی حقیقی صورت سے ناواقف رہیں۔ اس کے مفہوم کو اتنا بگاڑ دیا کہ لوگوں نے لفظ سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلی اور دین و سیاست کو ایک دوسرے سے علیحدہ کر دیا۔
شہید مطہری کا کہنا ہے ہوای و ہوس کے خواہاں اور جو اسلام کے سرنگوں ہونے کے منتظر ہیں، ان کی ہمیشہ سے یہ آرزو رہی ہے کہ دین سیاست سے دور ہو جائے، جبکہ دین و سیاست کی نسبت ایسی ہے، جیسے بدن و روح، جس کا علیحدہ ہونا ہر ایک کیلئے نقصان دہ ثابت ہوگا۔ فہم سیاست کا فقدان ایک مہلک بیماری ہے، جو ایک رہبر اور بہتر معاشرتی نظام کے لئے مضر ہے۔ امام علی فرماتے ہیں: آفة الزعماء ضعف السياسة یعنی معاشرہ میں فہم سیاست کی کمزوری حکمران کیلئے ایک آفت ہے۔ تاریخ اسلام میں اس کی بہترین مثالیں ہیں۔ لوگوں کا در علیؑ کو چھوڑنا، جنگ سفین میں خوارج کے نام سے ایک گروہ کا (لا حکم الا اللہ) کا نعرہ لگانا، دور امام حسنؑ میں امام کو ایسے مقام پر تنہا چھوڑ جانا جہاں امام کو باطل سے صلح کی صورت زہریلا گھونٹ پینا پڑا اور سیاست سے انجان افراد نے آپ کے بھائی حسینؑ کو وہاں لا کھڑا کیا، جہاں انہیں اپنے چھ مہینے کے بچے اور چار سالہ بچی کی قربانی دینا پڑی، یہ سب واضح مثالیں ہیں۔
سیاست کے بدلتے رنگ کو سمجھنا نہایت ضروری ہے، تاکہ ہم فرق کرسکیں کہ شیطانی اور الہیٰ سیاست کا معیار کیا ہے۔ سیاست سے ناواقفیت ہی وجہ بنی کہ کچھ افراد نے معاویہ کو امام علیؑ سے زیادہ سیاست داں کہا۔ امام نے ان کے جواب میں فرمایا: (وَ اللَّهِ ما معاویہ بادهى منّى، و لكنّهُ يَغْدِرُ وَ يَفْجُرُ، وَ لَوْلا كَراهِيَةُ الْغَدْرِ لَكُنْتُ مِنْ أَدْهَی النّاس) "خدا کی قسم! معاویہ مجھ سے زیادہ سیاست مند نہیں، لیکن وہ مکار و فریب دینے والا اور اگر مکر و فریب گناہ نہ ہوتا تو میں سب سے زیادہ سیاست مند ہوتا۔" یہ سیاست کی پہلی باطل صورت یعنی شیطانی سیاست ہے، جس کا معیار ظلم، مکر و فریب، جھوٹ اور دھوکہ ہے۔ بنی امیہ اور بنی عباس ایسی خلافت تھیں، جنہوں نے سب سے پہلے سیاست کو دین سے جدا کیا اور پھر مفہوم سیاست میں تحریف کی۔
سیاست کی دوسری باطل صورت جس کا حقیقت سیاست سے کوئی تعلق نہیں، شیطانی سیاست ہے۔ فقط معاشرہ کی مادی ضرورتوں کو مکر و فریب اور تمام شیطنت کو بروئے کار لاکر بخوبی انجام دیا جانا۔ انسان کی تخلیق فقط کھانے پینے اور مادی خواہشات کی تکمیل کیلئے نہیں ہوئی، بلکہ انسان روحانی مراحل بھی رکھتا ہے اور جس عالم کی طرف انسان کا مستقبل ہے، اس میں روحانیت کافی اہمیت کی حامل ہے۔ لہٰذا معاشرہ میں فقط مادی سہولیات کا انتظام انسان کیلئے کبھی بھی کمال بخش نہیں ہوسکتا۔ سیاست کی وہ حقیقت جس سے بعض افراد نا آشنا ہیں، وہ اسلامی سیاست ہے۔ اگر اس کے اہداف اور ثمرات کے بارے بات کریں تو ہمیں امام خمینی ؒ جیسی شخصیت ملتی ہے، جس نے مکتب اہل بیت سے مستفید ہوکر اسلامی سیاست سے لوگوں کو آشنا کرایا، جس کے نتیجے میں ایک ایسا انقلاب برپا ہوا، جس نے طاغوتی نظام کی قلعی کھول دی۔ امام خمینی نے صحیح سیاسی فکر کو احیاء کیا اور اس پر عمل پیرا بھی ہوئے۔
امام خمینی نے اپنی کتاب "کشف الاسرار" میں دین و سیاست کے رابطہ کو بیان کیا ہے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ سیاست کو دین سے جدا کرنا اور اس کی صورت کو بدنما بنانے کی ابتداء بنی امیہ و بنی عباس کی۔ ایسا شخص جو دین و سیاست میں جدائی ڈالے گویا وہ ایسا ہے کہ اس نے ان دونوں میں سے کسی کو بھی نہیں سمجھا۔ دیکھا جائے تو دین و سیاست میں جدائی لانے کے سبب ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ ہم نے ماضی میں ان الہیٰ رہنماؤں کو کھو دیا، جنہوں نے انسانیت کو نہایت بلند و بالا مقام تک رسائی دی تھی۔ امام خمینی اور اسلامی رو سے اساس زندگی یہ ہے کہ انسان معنویت اور اخلاق الہیٰ سے آراستہ ہو۔ وہ تمام مسائل جو انسانیت کے کمال و ہدایت کی راہ میں درپیش آئیں، ان سے آگاہی حاصل کرکے اسے معاشرے کیلئے فراہم کیا جائے۔ معاشرے کو سعادت کی راہ دکھانا، اسلامی سیاست کی حقیقی شکل و صورت ہے۔
امام خمینی کی نگاہ میں اسلامی سیاست کی بنیادی خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں:
اول: تمام قوانین کی بنیاد انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی ہوگی۔ دوسرے: حقیقی سعادت کا حامل ہونا یعنی دونوں عالم دنیا و آخرت میں سعادت مند ہونا۔ تیسرے: ہر حال میں انسان کی تمام جہتوں (جسم و روح، مادیت و معنویت) کو کمال تک پہنچنا۔ چوتھے: مکر و فریب، دھوکہ، ریاکاری اور تمام صفات شیطانی سے پاک ہونا۔ پانچویں: حدود الہیٰ کو معاشرے میں نافذ کرنا۔ چھٹے: لوگوں کو مادی و معنوی دونوں طرح کی غلامی سے نجات دلانا، تاکہ معاشرہ باطل سیاست کا شکار نہ ہو جائے اور غلامی کا طوق نہ پہن لے۔ اسلامی سیاست کے اہداف کے بارے مین امام خمینی کا صحیفہ امام میں کہنا ہے کہ اولاً لوگوں کو عقل و عدل کی راہ پر گامزن کرنا ہے، تاکہ وہ کسی بھی صورت ظلم کے خلاف خاموش نہ بیٹھیں اور غلامی کی رسی ہرگز اپنی گردن پر قبول نہ کریں۔
تاریخ اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ عاقل کبھی غلامی کی بدنامی اپنے سر نہیں لیتا اور فساد برپا ہونے پر اس چیز کی ممانعت کرنا کہ کہیں لوگ فطرت انسانی سے خارج نہ ہو جائیں، کیونکہ یہ اکثر دیکھا جاتا ہے کہ مصیبت کہ وقت انسان، انسانیت سے عاری ہو جاتا ہے، جس کے سبب معاشرہ کی ساٹھ گانٹھ، زیرو زبر ہو جاتی ہے، جو کہ اسلامی سیاست کیلئے ضرر رساں ہے۔ اسلامی سیاست کی اگر بات کی جائے تو اس کا سب سے پہلا فائدہ یہ ہے کہ اس میں فقط مادیات کو مدنظر نہیں رکھا جاتا، بلکہ معاشرے کو ملکوتی سیر کرانا اسلامی سیاست کی خصوصیات میں شامل ہے۔
دوسرا فائدہ عدالت ہے، جو یقیناً ایک بہترین معاشرہ کو تشکیل دینے کی بنیادی ضروریات میں شامل ہے۔ امام علیؑ فرماتے ہیں: سیاست کا معیار ہی عدالت ہے۔
الغرض! دیکھنا یہ ہے کہ ہم سیاست کو کس صورت میں دیکھنا چاہتے ہیں: شیطانی یا اسلامی۔ یقیناً جو افراد فطرت انسانی کی حدود سے تجاوز کرچکے ہیں یا مادیات میں الجھے ہوئے ہیں، وہ شیطانی سیاست کے خواہاں ہیں، لیکن جن کے اندر روحانیت ہے اور وہ مادیات کو فقط ضروریات زندگی جانتے ہیں اور صعودی راہ پر گامزن ہے، وہ یقیناً اسلامی سیاست کے طلبگار ہیں۔ ایسی سیاست جس میں ان کے مقصد تک پہنچنے کے قوانین شامل ہوں اور جو معاشرہ میں عدل و انصاف کے راستہ پر چل کر سب کو ان کے حقوق ادا کرے اور مظلوم کا ساتھ ، ظالم کے خلاف برسرپیکار رہے۔
یہ درحقیقت امریکہ کا اصلی چہرہ ہے
تحریر: مرضیہ ہاشمی (امریکی نژاد صحافی)
امریکہ میں نسل پرستی کا مسئلہ آج اور کل کا نہیں بلکہ یہ ملک گذشتہ 400 سال سے اس مصیبت میں مبتلا ہے۔ البتہ ہر دور میں نسل پرستی ایک خاص شکل میں ظاہر ہوتی رہی ہے۔ مثال کے دور پر دور حاضر میں غلامی کا تصور نہیں پایا جاتا کیونکہ قانونی طور پر اسے ممنوع قرار دیا جا چکا ہے لیکن اس کے باوجود نسل پرستی مختلف صورتوں میں امریکی معاشرے میں پائی جاتی ہے۔ اس بات کی تصدیق کیلئے بے شمار مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ اس وقت امریکہ میں چھوٹی سطح کے پیشوں میں مصروف شہریوں کی زیادہ تر تعداد سیاہ فام افراد پر مشتمل ہے۔ البتہ کامیاب سیاہ فام شہری بھی دیکھے جا سکتے ہیں جو میری نظر میں استثنائی شمار ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے امریکہ کے سفید فام شہریوں میں خودپسندی کا جذبہ پایا جاتا ہے جو ماضی میں بھی تھا اور آج بھی موجود ہے۔ بعض سفید فام شہریوں کے دل میں سیاہ فام شہریوں کے خلاف شدید نفرت پائی جاتی ہے۔ جب روایتی طور پر سفید فام شہری اس گمان کا شکار ہوں کہ وہ سیاہ فام شہریوں سے بہتر ہیں تو اس کا نتیجہ یہی ہو گا جو ہم آج مشاہدہ کر رہے ہیں۔
جب یورپی شہری سرخ فام افراد کی سرزمین امریکہ میں داخل ہوئے تو انہوں نے اس سرزمین کے حقیقی باسیوں کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا؟ ان میں سے بعض کا تصور یہ ہے کہ دیگر نسلیں کوئی قدر و قیمت نہیں رکھتیں یا کم از کم یہ کہ ان کے برابر نہیں ہو سکتیں۔ دوسری طرف امریکی ذرائع ابلاغ میں سیاہ فام افراد کے خلاف انتہائی زہریلا پروپیگنڈہ پایا جاتا ہے۔ یہ ذرائع ابلاغ مسلسل لوگوں کے ذہنوں میں یہ تاثر ڈالتے رہتے ہیں کہ سیاہ فام شہری مجرم، بے وقوف اور جرائم پیشہ ہیں اور وہ زیادہ سے زیادہ ایک اچھا باسکٹ بالسٹ بن سکتے ہیں۔ امریکی میڈیا میں جاری یہی منفی پروپیگنڈہ ملک میں نسل پرستانہ سوچ پیدا ہونے اور فروغ پانے کا باعث بنا ہے۔ جب ہم امریکہ کے بارے میں گفتگو کرنا چاہتے ہیں تو بہت سے اسباب اور عوامل پر توجہ دینا پڑتی ہے جس کے باعث موضوع پیچیدہ ہو جاتا ہے اور حالات کا تجزیہ بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ امریکہ میں جاری موجودی احتجاجی تحریک میں سیاہ فام شہریوں کا سب سے بڑا مسئلہ ایک قابل اور واحد لیڈرشپ کا فقدان ہے۔ ایک اچھے اور قابل لیڈر کے بغیر ملکی سطح پر سرگرم سیاہ فام شہریوں میں اتحاد اور ہم آہنگی پیدا ہونا بہت مشکل ہے۔
امریکہ کی سکیورٹی فورسز نے ہر زمانے میں ایسے سیاہ فام شخص کو گرفتار کیا ہے جس کے بارے میں انہیں تھوڑا سا بھی شک تھا کہ اس میں لیڈرانہ صلاحیتیں پائی جاتی ہیں۔ حتی آج بھی اگر امریکہ کی سکیورٹی ایجنسیز کسی شخص پر حالیہ احتجاجی تحریک کا لیڈر ہونے کا شبہ کریں تو اسے فوراً گرفتار کر لیں گی۔ لہذا موجودہ احتجاجی تحریک کے مستقبل کے بارے میں کچھ بھی کہنا بہت مشکل ہے۔ لیکن موجودہ احتجاجی تحریک کئی لحاظ سے سابقہ تحریکوں سے مختلف ہے اور اس کی کئی وجوہات ہیں۔ کرونا وائرس کے پھیلاو کے باعث معرض وجود میں آنے والی بے روزگاری اور دیگر شدید مالی مشکلات نے سیاہ فام مزدوروں کو شدید دباو کا شکار کر ڈالا ہے جس سے تنگ آ کر وہ سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ دوسری طرف کرونا وائرس کے نتیجے میں مرنے والے افراد میں سیاہ فام شہریوں کی تعداد سفید فام شہریوں سے کہیں زیادہ ہے اور اس وجہ سے بھی سیاہ فام شہری حکومت کی جانب سے اپنے ساتھ امتیازی سلوک کا احساس کر رہے ہیں۔ یہ تمام وجوہات مل کر سیاہ فام شہریوں اور نچلے طبقے کے افراد میں شدید غم و غصے کا باعث بنے ہیں اور اب یہ لاوا آتش فشان کی صورت اختیار کر چکا ہے۔
امریکہ کے اکثر ذرائع ابلاغ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مخالف ہیں لہذا وہ بھرپور انداز میں امریکہ کی مختلف ریاستوں میں جاری عوامی احتجاج کو کوریج فراہم کر رہے ہیں۔ یہ نکتہ بھی اہم ہے کہ سیاہ فام شہریوں کو نظرانداز کرنے میں ریپبلکن پارٹی اور ڈیموکریٹک پارٹی کے درمیان بھی کوئی فرق نہیں اور دونوں پارٹیاں نسلی تعصب کا شکار ہیں۔ امریکہ کے ریاستی اداروں میں نسلی تعصب پایا جانا، سفید فام طبقے کا خود کو برتر تصور کرتے ہوئے سیاہ فام طبقے کو گھٹیا اور پست جاننا اور موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے نسل پرستانہ بیانات بھی موجودہ احتجاجی تحریک کے معرض وجود میں آنے میں موثر اسباب جانے جاتے ہیں۔ حال ہی میں ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ٹویٹر پیغام میں مظاہرین کو دھمکی دی ہے کہ اگر انہوں نے احتجاج جاری رکھا تو ان پر فائرنگ کا حکم دیا جائے گا۔ واضح ہے کہ اس قسم کے بیانات مزید عوامی اشتعال کا باعث بنتے ہیں اور عوامی احتجاج میں مزید شدت آتی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ سوچے سمجھے بغیر بات کرتا ہے۔ امریکہ کا اصلی چہرہ یہی ہے۔ امریکہ کے تمام سیاست دان اسی انداز میں سوچتے ہیں البتہ ڈونلڈ ٹرمپ اور دوسروں میں فرق یہ ہے کہ ٹرمپ اپنی سوچ ظاہر کر دیتا ہے جبکہ باقی منافقت سے کام لیتے ہیں۔