سلیمانی
سلامتی کونسل کے اجلاس میں امریکہ کی شکست
گذشتہ روز عالمی ادارے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا آن لائن اجلاس منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے ایران اور چار جمع ایک ممالک کے درمیان طے پانے والے معاہدے اور اس کے نتیجے میں سلامتی کونسل کی قرارداد 2231 کے جائزے پر مشتمل رپورٹ پیش کی۔ امریکہ نے حسب معمول اور حسب توقع اس آن لائن اجلاس میں ایران کے خلاف سخت موقف اختیار کرتے ہوئے ایران کے خلاف پابندیاں برقرار رکھنے پر تاکید کی۔ سلامتی کونسل کی قرارداد 2231 کے تحت اکتوبر 2020ء میں ایران پر اسلحہ جاتی پابندیاں ختم ہو جائیں گی۔ امریکہ کی پوری کوشش ہے کہ ایران کو یہ سہولت حاصل نہ ہو اور اس پر اسلحہ جاتی پابندیاں بدستور برقرار رہیں۔
ایران کے وزیر خارجہ نے اس آن لائن اجلاس میں امریکی موقف کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر امریکہ کے موقف کو تسلیم کر لیا جائے اور ایران پر پابندیوں کا سلسلہ باقی رہے تو گویا عالمی ایٹمی معاہدے اور سلامتی کونسل کی قرارداد 2231 کی کوئی اہمیت اور حیثیت نہیں۔ ڈاکٹر جواد ظریف کا کہنا تھا کہ امریکہ کی یکطرفہ پابندیوں اور ایران کیخلاف اپنائی گئی پالیسیوں کو ماننا گویا جنگل کے قانون کو تسلیم کرنا ہے۔ ایران کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں عالمی معاہدہ مسائل اور بحرانوں کو حل کرنے کا اقدام سفارتی کامیابی تھی اور اگر اس سفارتی کوشش اور اقدام کو امریکہ کے دباؤ پر مسترد کر دیا تو عالمی برادری کا سفارتی کوششوں اور سفارتی اقدامات پر اعتماد اٹھ جائیگا۔
گذشتہ روز سلامتی کونسل کے آن لائن اجلاس میں امریکہ کے علاوہ تمام اراکین نے عالمی ایٹمی معاہدے کے باقی رہنے پر زور دیا۔ سلامتی کونسل کے اس اجلاس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ امریکہ عالمی معاہدہ کے حوالے سے تنہائی کا شکار ہے اور امریکہ نے عالمی سطح پر ایران کو سیاسی و سفارتی سطح پر تنہاء کرنے کی جو کوششیں کی ہیں، وہ بری طرح ناکام رہیں۔ گذشتہ رات کے سلامتی کونسل کے اجلاس میں امریکہ کے وزیر خارجہ اس قدر تنہاء رہ گئے کہ وہ وقت سے پہلے اجلاس سے اٹھ کر چلے گئے۔
ایرانی جوہری معاہدے بارے سلامتی کونسل کا اجلاس ایران پر پابندیاں برقرار رکھنے کی امریکی کوشش کیخلاف ہیں، امریکہ معاہدے میں واپس آجائے، چین
ایرانی جوہری پروگرام (JCPOA) کے حوالے سے اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر 2231 پر عملدرآمد کا جائزہ لینے کے لئے منعقد ہونے والے سلامتی کونسل کے ویڈیو اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں چین کے مسقل نمائندے وانگ کان نے کہا ہے کہ اس بحران کی اصلی جڑ ایرانی جوہری پروگرام سے امریکہ کی یکطرفہ دستبرداری اور ایران پر عائد ہونے والی امریکی پابندیاں ہیں۔ اقوام متحدہ میں چین کے مستقل نمائندے نے کہا کہ جیسا کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی رپورٹ میں بتایا جا چکا ہے؛ ایران پر لگائے جانے والے الزامات اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر 2231 کے متن کے ساتھ میل نہیں کھاتے۔
اقوام متحدہ میں چین کے مستقل نمائندے وانگ کان نے کہا کہ ایران کے خلاف اسلحے کے پابندیوں میں توسیع پر مبنی امریکی کوششوں نے ایرانی جوہری معاہدہ (JCPOA) بچانے کے مشترکہ اقدامات کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ وانگ کان نے اپنے خطاب میں کہا کہ چین امریکہ سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اپنی غیرقانونی پابندیوں کو فورا اٹھا لے اور ایرانی جوہری معاہدے پر عملدرآمد شروع کر دے۔ اقوام متحدہ میں چین کے مستقل نمائندے نے کہا کہ چین ایران کے خلاف اسلحے کی پابندیوں میں توسیع پر مبنی امریکی کوششوں کے خلاف ہے جبکہ امریکہ جوہری معاہدے سے یکطرفہ دستبرداری کے باعث "ٹرگر میکینزم" استعمال کرنے کا حق نہیں رکھتا۔
پورا فلسطین فلسطینی عوام کا ہے
انبیاء کی سرزمین مقدس فلسطین پر بسنے والے فلسطینی عرب گذشتہ ایک سو سال یعنی جس دن سے برطانوی استعمار کے عہدیدار بالفور نے Rothschild کو ایک خط کے ذریعہ اعلان نامہ پھیجا کہ سرزمین فلسطین پر یہودیوں کے لئے ایک ریاست بنام اسرائیل قائم کی جائے، اس دن سے آج تک ایک سو سالہ تاریخ میں فلسطینی عرب صہیونیوں کے ظلم و ستم کے رحم و کرم پر ہے۔ غاصب صہیونیوں نے پہلے جنگوں اور قتل و غارت کے ذریعہ فلسطین کا استحصال کیا، بعد میں امریکہ اور برطانیہ سمیت یورپی ممالک کے دباؤ کو فلسطین کی تنظیم پی ایل او کے ساتھ ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے نام نہاد امن مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا۔ بہرحال ہر دو صورتحال میں اسرائیل اپنے ناپاک عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کرتا رہا اور نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ فلسطین کی اراضی پر مسلسل صہیونیوں نے قبضہ جاری رکھا۔ صورتحال یہاں تک آن پہنچی ہے کہ صہیونی آباد کاری کے ذریعے فلسطین کے مغربی کنارے کو صہیونی آبادی کے تناسب سے فلسطینی آبادی پر برتری کی کوشش کی جا رہی ہے۔ غزہ کے علاقہ کو مغربی کنارے سے پہلے ہی جدا کر دیا گیا ہے اور ساتھ ساتھ یہاں گذشتہ بارہ برس سے غاصب اسرائیل کا مصری حکومت کے ساتھ مشترکہ محاصرہ کیا گیا ہے، جو تاحال جاری ہے۔
موجودہ زمانہ میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ، جو خود امریکی عوام کے لئے بھی ایک مصیبت اور عذاب سے کم نہیں ہیں، انہوں نے صدی کی ڈیل نامی منصوبہ پیش کرتے ہوئے پہلے فلسطین کے ابدی دارالحکومت قدس کی حیثیت کو تبدیل کرنے کی کوشش کی اور بعد میں اسی کوشش کو یقینی بنانے کے لئے امریکی حکومت نے تل ابیب سے قدس میں اپنا سفارتخانہ منتقل کرنے کا اعلان کیا۔ دراصل ان سب باتوں کا مقصد امریکی صدر یہ بتانا چاہتے تھے کہ فلسطین پر اب مکمل اسرائیل کا قبضہ ہے۔ حالانکہ ماضی میں امریکہ کی پیش رو انتظامیہ نے فلسطینی پی ایل او کے ساتھ مذاکرات میں اسرائیل کی ضمانت دی تھی کہ اسرائیل امن مذاکرات کی کامیابی کے لئے 1967ء کی سرحدوں تک چلا جائے گا۔ بعد ازاں یہ ہونا بھی آج تک اسی طرح سے ناممکن رہا ہے کہ جس طرح اعلان بالفور میں کہا گیا تھا کہ اسرائیل قائم کیا جائے گا، لیکن غیر یہودی قوموں کو فلسطین سے نہیں نکالا جائے گا۔ حقیقت اس کے بھی برعکس ثابت ہوئی، اسرائیل قائم کر لیا گیا، لیکن فلسطینی عربوں کو فلسطین سے نکال پھینکا گیا۔ اسی طرح اقوام متحدہ میں 29 نومبر 1947ء کو منظور ہونے والی بڑی قرارداد میں طے پایا کہ فلسطینی آزاد ریاست کا قیام عمل میں لایا جائے، لیکن اس پر بھی آج تک اقوام متحدہ عمل درآمد کروانے میں ناکام رہی ہے، البتہ اسرائیل کو قائم کر دیا گیا۔
اب حالیہ دنوں اسرائیل امریکی سرپرستی میں امریکی صدر کے شیطانی منصوبہ صدی کی ڈیل پر تکیہ لگائے ہوئے ہے۔ اب غرب اردن کے علاقہ کو اسرائیل میں ضم کرنے یا الحاق کرنے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ یعنی صدی کی ڈیل نامی منصوبہ کے مطابق فلسطین کا مغربی کنارا اب اسرائیل کے ساتھ شامل کیا جانے کا ناپاک ارادہ کیا جا چکا ہے۔ اس حوالہ سے امریکہ اور اسرائیل مسلسل اس بات کا اعلان کر رہے ہیں کہ جولائی 2020ء میں غرب اردن کو اسرائیل کے ساتھ ملحق کر دیا جائے گا۔ یہاں پر یقیناً ایک سوال ضرور ہے اور لمحہ فکریہ ان سب قوتوں اور عناصر کے لئے ہے کہ جو ماضی سے اب تک فلسطین کے مسئلہ کا حل امریکی فارمولہ کے مطابق دو ریاستی حل میں سمجھ رہے تھے۔ یعنی وہ حکومتیں اور ادارے جو فلسطین کے لئے امریکی فارمولہ کے مطابق کہا کرتے ہیں کہ 1967ء کی سرحدوں تک اسرائیل واپس ہو جائے اور فلسطین کی آزاد ریاست قائم ہو جائے۔ ایسے تمام عناصر اور حکومتوں کے لئے لمحہ فکر ہے کہ اسرائیل اور امریکہ اس طرح کے کسی منصوبہ کو مانتے ہی نہیں ہیں، بس یہ تو مسلم دنیا اور فلسطین کی نام نہاد حامیوں کو ایک لالی پاپ دیا گیا تھا، جسے آج تک ہماری مسلم حکومتیں لئے گھوم رہی ہیں۔
اسی عنوان پر فلسطین کے سابق وزیر اور تجزیہ نگار وصفی قبہا نے کہا ہے کہ وہ تمام عناصر اور لیڈر جو اسرائیل کے ساتھ مذاکرات اور بات چیت پر زور دیتے رہے ہیں۔ آج فلسطینی قوم کو بتائیں کہ ان کے مذاکرات کا کیا فائدہ ہوا ہے۔؟ اسرائیلی دشمن نے ماضی میں فلسطینی قوم کو دھوکہ دیا اور آئندہ بھی وہ اسی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ فلسطینی علاقوں پر صہیونی ریاست کے غاصبانہ قبضے کی توسیع کے عمل میں امریکا سمیت ہر وہ حکومت، ادارہ اور عناصر بھی برابر کے شریک مجرم ہیں، جنہوں نے فلسطین کے لئے امریکہ کے منصوبہ یعنی دو ریاستی حل اور نام نہاد مذاکرات کی حمایت کی ہے۔ اب اصل مسئلہ کی بات کرتے ہیں کہ اسرائیل غرب اردن کو اپنے ساتھ ملحق کرنا چاہتا ہے اور دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ اب فلسطین باقی نہیں رہے گا۔ ایسے حالات میں مسلم دنیا کی حکومتیں اسرائیل کے ساتھ تعلقات بنا کر اپنے مفادات کی خاطر مسلم امہ کے مفادات کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔ ایسی حالت میں فلسطینیوں کے لئے سنگین مشکلات پیدا ہوچکی ہیں۔
ایک طرف امریکہ، اسرائیل اور ان کے حواری ہیں، جو اس منصوبہ کی اعلانیہ اور مخفیانہ طور پر حمایت کر رہے ہیں، لیکن دوسری طرف فلسطینی قوم ہے، جو سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن چکی ہے اور واضح طور پر دنیا کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ فلسطین کے ایک انچ زمین سے بھی دستبردار نہیں ہوں گے۔ فلسطینی عربوں میں صرف مسلمان اکیلے نہیں بلکہ عیسائی فلسطینی اور ایسے وہ تمام یہودی فلسطینی بھی موجود ہیں کہ جو اسرائیل کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے اور اسرائیل کو ایک جعلی ریاست تصور کرتے ہیں۔ فلسطین کی اسلامی مزاحمت کی تحریک حماس سمیت دیگر گروہوں نے غرب اردن کے اسرائیل کے ساتھ الحاق کے صہیونی منصوبہ کو شدت کے ساتھ مسترد کرتے ہوئے پیغام دیا ہے کہ فلسطینی عوام مزاحمت کریں گے۔ فلسطینی ریاست کو اسرائیل میں شامل کرنے کے ظالمانہ اور غاصبانہ پروگرام کا مقابلہ صرف مسلح مزاحمت سے ممکن ہے۔ فلسطینیوں نے اپنا موقف دنیا پر واضح کر دیا ہے کہ ارض فلسطین میں فلسطینی قوم کے سوا اور کسی قوم کے لیے کوئی جگہ نہیں۔
تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ دریائے اردن سے بحر متوسط تک پورا فلسطین صرف فلسطینی قوم کا ہے۔ غرب اردن سے متعلق اسرائیلی غاصب حکومت کے فیصلہ اور اعلان پر آج تک عالمی انسانی حقوق کے اداروں سمیت اقوام متحدہ خاموش ہے۔ اسرائیلی جرائم کی داستان طویل سے طویل ہوتی چلی جا رہی ہے۔ تاریخی اعتبار سے غرب ردن، غزہ اور القدس فلسطین کے حصے ہیں۔ اگر اسرائیل غرب اردن پر قبضہ کرتا ہے تو اس کے نتیجے میں یہ علاقہ سات حصوں میں بٹ کر رہ جائے گا۔ ہر حصہ ایک دوسرے سے الگ تھلگ ہوگا اور غرب اردن کے 30 فی صد علاقے صہیونی ریاست کا حصہ ہوں گے۔ القدس دیوار فاصل کے عقب میں ہوگا اور یوں فلسطینی ریاست ایک ایسا ملک بن جائے گی، جس کا کوئی دارالحکومت نہیں ہوگا۔ یہ وہ اصل سازش ہے، جس کا آغاز عالمی شیطان امریکہ کی سرپرستی میں انجام دیا جا رہا ہے۔ عرب دنیا کے معروف تجزیہ نگاروں کا اس تمام تر صورتحال پر کہنا ہے کہ ایک طرف جہاں امریکہ اسرائیل کی پشت پناہی کر رہا ہے اور ساتھ ساتھ خطے کی متعدد عرب ریاستیں بھی اسرائیل کے اس منصبوبہ کی حمایت کر رہی ہیں، ایسی صورتحال میں فلسطین کی حمایت میں باقی ماندہ ایک دو ممالک یا حکومتوں کے کوئی سامنے نہیں ہے۔
ماضی کے تجربات کی روشنی میں فلسطینی عوام کی مزاحمت ہی اس وقت ایسا مضبوط ہتھیار ہے، جو فلسطین کی سرزمین اور یہاں امت کے مقدسات کا دفاع کرسکتی ہے، وہ ہتھیار فلسطینیوں کی مزاحمت ہے۔ اسی مزاحمت نے ہی فلسطین کو باقی رکھا ہے، ورنہ امریکی و صہیونی اتحاد کئی سال پہلے ہی فلسطین کا مسئلہ نابود کرچکے ہوتے۔ فلسطینی قوم کی سماجی، سفارتی، سیاسی اور قانونی محاذوں پر فلسطین کے دفاع کے لیے کام کے ساتھ ساتھ مسلح مزاحمت بھی جاری رہنا ضروری امر ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ فلسطین فلسطینی عوام کا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیا کی باضمیر حکومتیں اور عالمی ادارے انصاف کے تقاضوں پر عمل پیرا ہوتے ہوئے مسئلہ فلسطین کے ایک منصفانہ حل کی کوشش کریں، جس کا مقصد فلسطین فلسطینیوں کے لئے ہو۔ غاصب دشمن کو حق نہ دیا جائے کہ وہ فلسطین پر مزید تحریر: صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
پی ایچ ڈی اسکالر، شعبہ سیاسیات جامعہ کراچی
غاصب و قابض رہے۔ مسلم دنیا کا اسرائیل کی کاسہ لیسی سے بھی اجتناب ضروری ہے۔
غلو اور غالیوں کیخلاف ائمہ طاہرین ؑ کی جدوجہد (مکمل)
غلو کا لغوی معنی:
الغُلُوُّ کا معنی کسی چیز کے حد سے تجاوز کرنے کے ہیں، اگر یہ تجاوز کسی کی قدر و منزلت اور فضلیت کے متعلق ہو تو اسے غُلُوُّ کہا جاتا ہے اور اگر اشیاء کے نرخ اور قیمت کے بارے میں ہو تو اسے غلاء (مہنگائی) کا نام دیا جاتا ہے اور اگر تیر اپنی حدود سے تجاوز کر جائے تو غُلُوُّ کہتے ہیں۔ ابلنے اور جوش کھانے کو غلیان اور غیر معمولی سرکش حیوان کو غلواء کہتے ہیں، ان تمام معنوں کے لئے فعل کا ایک ہی مادہ استعمال ہوتا ہے۔(۱) بعض افراد کی رائے ہے کہ غلو، افراط و تفریط دونوں طرفوں کے لیے استعمال ہوتا ہے جبکہ بعض دوسرے افراد غلو کو فقط افراط کے معنی میں منحصر سمجھتے ہیں اور اس کے مقابلے پر تقصیر استعمال کرتے ہیں۔(۲) علامہ طبرسی نے مجمع البیان میں غلو کی تفسیر بیان کرتے ہو ئے کہا ہے: ’’بانہ ما یقابل التقصیر وھو تجاوز الحدفقال ان معنی الا یۃلا تتجاوزوا الحد الذی حدہ اللہ لکم الی الا زدیاد وضدہ: التقصیر وھو الخروج عن الحد الی النقصا۔، والزیادہ فی الحد والنقصان عنہ کلا ھما فساد و دین اللہ الذی امر بہ ھو بین الغلو والتقصیر وھو الا قتصاد، ای الا عتدال۔‘‘(۳)
اصطلاحی معنی:
شرعی اعتبار سے انبیا ؑ، آئمہ ؑاور اولیاء کرام کے مقام و مرتبے میں مبالغہ کرنا، اس طرح کہ انہیں الوھیت اور ربوبیت کے مقام پر پہنچا دینا یا انہیں معبودیت، خلق اور رزق وغیرہ میں اللہ تعالیٰ کا اس طرح شریک قرار دینا کہ ضروریات دین کا انکار لازم آئے۔(۴)
قرآن میں غلو کا معنی:
قرآن مجید کی دو آیات میں غلو استعمال ہوا ہے:
1۔ یٰٓاَھْلَ الْکِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِیْ د ِیْنِکُمْ وَلَا تَقُوْلُوْا عَلَی اللَّہِ اِلَّا الْحَقَّ اِنَّمَا الْمَسِیْحُ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ رَسُوْلُ اللّّہِ وَکَلِمَتُہٗ اَلْقَھَآ اِلَیٰ مَرْیَمَ وَرُوْحؒمِِّّنْہُ فَاٰمِنُوْا بِاللَّہِ وَ رُسُلِہٖ وَلَا تَقُوْلُوْا ثَلَثَۃُٗ ط اِنْتَھُوَْا خَیْرًالَّکُمْ ط اِنَّمَا اللّٰہُ اِلٰہُٗ وَّاحِِدُٗ ط سُبْحٰنَہٗٓ اَنْ ْیَّکُوْنَ لَہٗ وَ لَدُٗ لَہُٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْْضِ وَ کَفَیٰ بِاللّٰہ ِ وَکِیْلاً۔(۵) "اے اہل کتاب! اپنے دین میں غلو سے کام نہ لو اور اللہ کے بارے میں حق بات کے سوا کچھ نہ کہو، بے شک مسیح عیسیٰ بن مریم تو اللہ کے رسول اور اس کا کلمہ ہیں، جو اللہ نے مریم تک پہنچا دیا اور اس کی طرف سے وہ ایک روح ہیں۔ لہذا اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لے آؤ اور یہ نہ کہو کہ تین ہیں، اس سے باز آجاؤ، اس میں تمہاری بہتری ہے۔ یقیناً اللہ تو بس ایک ہی معبود ہے، اس کی ذات اس سے پاک ہے کہ اس کا کوئی بیٹا ہو۔ آسمانوں اور زمین میں موجود ساری چیزیں اسی کی ہیں اور کار سازی کے لیے اللہ ہی کافی ہے۔"
اس آیت کی تفسیر میں مفسرین نے جو کچھ بیان کیا ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے: اس آیت میں اہل کتاب کو غلو کرنے سے منع کیا ہے، اہل کتاب سے مراد عیسائی ہیں یا یہودی؟ تو اس بارے میں زیادہ تر مفسرین کی رائے یہ ہے کہ عیسائی مراد ہیں، کیونکہ غلو کے موارد عیسائیوں میں زیادہ پائے جاتے ہیں۔(۶) اور بعض کی رائے کے مطابق عیسائی اور یہودی دونوں مراد ہیں۔(۷) البتہ اس بارے میں اتفاق ہے کہ غلو کا موضوع حضرت عیسیٰ ہیں، اس غلو کے حوالے سے عیسائیوں کے تین گروہ ہیں۔ بعض کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ خدا ہیں، بعض کا نظریہ یہ ہے کہ وہ تین خداؤں میں سے ایک ہیں، تیسرے گروہ کا کہنا ہے کہ وہ خدا کا بیٹا ہیں۔(۸) حضرت عیسی ؑ کے بارے میں یہودیوں نے یہ غلو کیا کہ انہیں فعل حرام کا نیتجہ قرار دیا اور حضرت مریم کی طرف ناروا نسبت دی ہے۔(۹) مفسرین نے اس نکتہ پر بھی بحث کی ہے کہ عیسائیوں سے مراد کون سے ہیں؟ بعض نے کہا کہ اہل نجران مقصود ہیں۔(۱۰) دوسروں کا قول ہے کہ تمام نصاریٰ مراد ہیں۔(۱۱)
قرآن مجید کی ایک دوسری آیت جس میں غلو کا تذکرہ ہے۔ ارشاد رب العزت ہے: ’’قُلْ یٰٓاَ ھْلَ الْکِتٰبِ لَا تَغْلُوْ ا فِیْ دِیْنِکُمْ غَیْرَ الْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعُوْٓا اَھْوَآ ئَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوْ امِنْ قَبْلُ وَ اَ ضَلُّوْا کَثِیْرًا وَّ ضَلُّوْ ا عَنْ سَوَآ ئِ السَّبِیْلِ‘‘(۱۲) "اے رسولﷺ! کہہ دو کہ اے اہل کتاب اپنے دین میں حد سے تجاوز نہ کرو اور اس قوم کی خواہشات کی پیروی نہ کرو، جو پہلے گمراہ ہوچکی ہے اور بہت سے لوگوں کو بھی گمراہ کرچکی اور سیدھے راستہ سے بہک چکی ہے۔" اس آیت میں خطاب رسول اکرمﷺ سے ہے کہ وہ اہل کتاب سے کہیں وہ دین الہیٰ میں غلو نہ کریں اور جو حدود مقرر کی گئی ہیں، ان سے تجاوز نہ کریں، یہاں پر دین میں غلو سے مراد اکثر مفسرین نے حضرت عیسیٰ ؑ کے بارے میں الوھیت اور خدا قرار دینے کا عقیدہ مراد لیا ہے، گویا وہی مطالب جو گذشتہ آیت میں بیان ہوئے ہیں، وہ یہاں پر ذکر ہوئے ہیں۔(۱۳) اس سے ثابت ہوا کہ قرآن مجید میں غلو سے مراد کسی کو خدا قرار دینا اور اسے الوھیت کا درجہ دینا ہے۔ ان آیات سے اور قرآن کی دیگر آیات سے استفادہ ہوتا ہے کہ غلو کی تاریخ پرانی ہے، اسلام سے قبل مختلف اقوام میں بالخصوص یہود و نصاریٰ کے درمیان یہ موجود تھا۔
یہودیوں نے حضرت عزیر کی الوھیت کا دعویٰ کیا۔ قرآن کریم نے ان کے باطل نظریئے کو یوں نقل کیا ہے: ’’وَقَالَتِ الْیَھُوْ دُ عُزَیْرُ ابْنُ اللّٰہِ۔‘‘(۱۴) یعنی "یہودیوں نے کہا کہ عزیر اللہ کے بیٹے ہیں۔" روایات اس بات کی حکایت کرتی ہیں کہ حضرت عزیر کے توسط سے کچھ ایسے معجزات رونما ہوئے، جس کے سبب یہودی یہ کہنے لگے کہ ان میں الوہیت پائی جاتی ہے یا اس کا کچھ جزء شامل ہے۔ یہودیوں کی طرح عیسائیوں کے ہاں بھی ایسے نظریات پائے جاتے ہیں، جن کا تذکرہ گذشتہ آیات میں ہوچکا ہے۔ انہوں نے حضرت عیسیٰ ؑ کے بارے میں غلو کیا اور ان کی الوہیت کا دعویٰ کیا۔ قرآن مجید نے یہودیوں کے عقیدے کو بیان کرنے کے فوراً بعد ان کے نظریات کا تذکرہ کیا ہے: ’’وَقَالَتِ النَّصارَیٰ الْمَسِیْحُ ابْنُ اللّٰہِ۔ ذٰلِک قَوْلُھُمْ بِاَفْوَاھِھِمْ یُضَاھِئُوْنَ قَوْلَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ ط قٰتَلَھُمُ اللّٰہُ اَنّٰی یُئْوفَکُوْن‘‘(۱۵) "اور عیسائی کہتے ہیں کہ عیسیٰ اللہ کے بیٹے ہیں، یہ سب زبانی باتیں ہیں، ان باتوں میں وہ بالکل اپنے سے پہلے کافروں کی طرح ہیں۔ اللہ انہیں قتل کرے، یہ کہاں بہکے چلے جا رہے ہیں۔" اس آیت میں یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ یہود و نصاریٰ سے پہلے بھی کفار اپنے بزرگوں کے بارے میں غلو کا شکار تھے۔
قرآن مجید ایک اور مقام پر عیسائیوں کے غلو کا پردہ چاک کرتا ہے: ’’لَقَدْ کَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللّٰہَ ھُوَا الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ‘‘(۱۶) یعنی "حقیقت میں وہ لوگ کافر ہوگئے، جنہوں نے کہا کہ مسیح ابن مریم اللہ ہے۔" غلو جیسا باطل اور انحرافی عقیدہ مسلمانوں میں بھی سرایت کر گیا۔ جس کی طرف رسول اکرمﷺ نے توجہ دلائی ہے۔ صحیح بخاری میں ہے:
1۔’’حد سے زیادہ میری مدح و ستائش نہ کرو، جیسا کہ نصاریٰ نے حضرت عیسیٰ ؑکی مدح و ستائش میں افراط سے کام لیا ہے، میرے بارے میں کہو کہ میں اللہ کا بندہ اور رسول ہوں۔‘‘(۱۷)
2۔ ابو رافع قرظی اور سید نجرانی نے کہا کہ: اے محمد ؐ! کیا آپ چاہتے ہیں کہ ہم تمہاری پرستش کریں اور تمہیں رب قرار دیں؟ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: اس بات سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں کہ اس کے علاوہ کسی کی پرستش کریں اور اس کے سوا کسی اور کا حکم دوں۔ اس نے مجھے اس لیے مبعوث نہیں فرمایا اور نہ ہی اس قسم کا حکم دیا ہے، اس پر یہ آیت (وما کان لبشر) سورہ آل عمران ۷۹ نازل ہوئی۔ اس آیت کے شان نزول کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ایک شخص نے کہا: اے رسول اللہ! کیا ہم تمہیں سجدہ نہ کریں! رسول اکرمﷺ نے جواب دیا: خدا کے علاوہ کسی اور کو سجدہ کرنا جائز نہیں ہے، البتہ اپنے نبی کی عزت و احترام کرو اور حق کو اس کے اہل کے لیے پہچان کرو۔(۱۸)
3۔ رسول اکرمﷺ نے فرمایا:۔ مجھے میری شان و منزلت سے آگے نہ بڑھاؤ۔ حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے نبی بنانے سے پہلے مجھے اپنا بندہ قرار دیا ہے۔(۱۹)
4۔ آپ ؐ کا ارشاد گرامی ہے: دو قسم کے گروہوں کو میری شفاعت نصیب نہیں ہوگی: ایک ظالم اور ستم کار بادشاہ اور دوسرا دین میں غلو کرنے والا، جو دین سے خارج ہو جاتا ہے اور توبہ نہیں کرتا اور غلو سے اجتناب نہیں کرتا۔(۲۰) پس ثابت ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کے دور میں غلو کے اشارے موجود تھے اور رسول اکرمﷺ اپنے بعد امت میں اس کے پھیلنے کے امکانات کو دیکھ رہے تھے، لہذا آپ ؐ نے غلو کے خطرے سے مسلمانوں کو آگاہ فرمایا اور اس سے بچنے کی تاکید فرمائی۔" مسلمانوں میں اس عقیدے کے داخل ہونے کے مختلف عوامل اور اسباب تھے:
1۔ اہل کتاب یعنی یہود و نصاریٰ کے وہ افراد جنہوں نے ظاہر میں اسلام کا لبادہ اوڑھ لیا، لیکن دل سے اسلام کی حقانیت کو تسلیم نہیں کیا، انہوں نے مسلمانوں کے عقائد کو بگاڑنے کے لیے مختلف اسلامی شخصیات کے متعلق غلو کو رواج دیا۔ انہوں نے ضعیف الایمان مسلمانوں کو دھوکہ میں رکھ کر ان کے درمیان غلو جیسے باطل عقائد کو ہوا دی۔
2۔ دوسری جانب وہ قومیں جو مجوسیت اور دیگر ادیان کو چھوڑ کر اسلام میں داخل ہوئیں، لیکن اسلام کی روح کو نہ سمجھ سکیں یا انہوں نے ظاہر میں اسلام کو قبول کیا اور اپنے باطل عقائد کو مسلمانوں کے اندر پھیلایا۔
غلو کی علامات:
وہ نظریات جو غالیوں کے عقائد شمار ہوتے ہیں اور غلو کی نشانیاں قرار پاتے ہیں، وہ یہ ہیں:
1۔ رسول اکرم ﷺ، امیر المومنین علی ابن ابی طالبؑ یا دوسرے اولیاء الٰہی کے متعلق الوہیت کا عقیدہ رکھنا۔
2۔ یہ عقیدہ رکھنا کہ کائنات کا انتظام و انصرام یا تدبیر، رسول خداﷺ، امیر المومنین علی اور آئمہ اہل بیت علیہم السلام یا کسی اور فرد کے سپرد کی گئی ہے۔
3۔ امیر المومنین علی اور آئمہ علیہم السلام یا کسی اور شخص کی نبوت کا نظریہ رکھنا۔
4۔ کسی فرد کا علم غیب سے ذاتی طور پر آگاہ ہونا، بغیر اس کے کہ اسے وحی یا الہام ہو، اس بات کا عقیدہ رکھنا۔
5۔ یہ عقیدہ رکھنا کہ اہل بیت ؑکی معرفت اور محبت عبادت الہیٰ اور فرائض الہیٰ کی انجام دہی سے بے نیاز کر دیتی ہے۔(۲۱) البتہ وہ عقائد جن پر دلیل قطعی (خواہ وہ عقلی ہو یا نقلی) قائم ہو تو اسے غلو یا حد سے تجاوز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ مثال کے طور پر اہل بیت ؑکی عصمت امیر المومنین علی ؑ کی خلافت و وصایت بلا فصل اور ان کے بعد باقی اماموں کی امامت اور ولایت کا عقیدہ، امام کے علم لدنی کا نظریہ، رجعت کا عقیدہ اور دیگر شیعہ عقائد جن پر محکم اور متقن ادلہ قائم کی گئی ہیں، انہیں غلو اور حد سے تجاوز قرار دینا کسی لحاظ سے درست نہیں ہے۔
غلو اسلام کے تمام فرقوں میں پایا جاتا ہے، جن کی مثالیں تاریخ کے اوراق میں موجود ہیں، لیکن متعصب افراد نے اسے صرف شیعہ فرقے سے منسوب کیا ہے، جو کہ سراسر غلط ہے۔ شیعوں کے عقائد مسلم طور پر ان کی کتب میں موجود ہیں۔ یہاں پر ہم چند شیعہ علماء کے نظریات بیان کریںگے، تاکہ غلو اور غلاۃ کے بارے میں شیعہ اثناء عشری فرقہ کا نظریہ واضح ہو جائے۔ شیخ صدوق ؒ فرماتے ہیں: غلاۃ اور مفوضہ کے سلسلے میں ہمارا عقیدہ ہے کہ وہ کافر باللہ ہیں، یہ لوگ اشرار ہیں، جو یہودی، نصاریٰ، مجوسی، قدریہ، حروریہ سے منسلک ہیں، یہ تمام بدعتوں اور گمراہ فکروں کے پیروکار ہیں۔(۲۲) شیخ مفید ؒ فرماتے ہیں: غلات اسلام کا دکھاوا کرنے والا گروہ ہے، یہ وہی افراد ہیں، جہنوں نے امیر لمومنین علی ؑ اور ان کی پاکیزہ اولاد کو الوہیت اور نبوت کی نسبت دی ہے، یہ افراد گمراہ اور کافر ہیں اور امیر المومنین ؑنے ایسے لوگوں کے قتل کا حکم صادر فرمایا ہے۔ دوسرے آئمہ ؑنے بھی ایسے افراد کو کافر اور خارج از اسلام قرار دیا ہے۔(۲۳)
علامہ حلیؒ بیان فرماتے ہیں: بعض غالی حضرات امیر المومنین علی ؑ کی الوہیت اور بعض ان کی نبوت کا عقیدہ رکھتے ہیں، یہ سب نظریات باطل ہیں، کیونکہ ہم نے ثابت کیا ہے کہ اللہ جسم نہیں ہے، اس میں حلول محال اور اس کے ساتھ ایک ہو جانا (اتحاد) باطل ہے۔ اسی طرح ہم نے ثابت کیا ہے کہ محمدﷺ خاتم الانبیاء ہیں۔(۲۴) محقق حلی فرماتے ہیں: غلات اسلام سے خارج ہیں، اگرچہ وہ ظاہری طور پر اسلام کا اقرار کرتے ہیں۔(۲۵) علامہ نراقی کا قول ہے: غالیوں کی نجاست میں کسی قسم کا شک نہیں ہے، یہ وہ لوگ ہیں، جو حضرت علی ؑ یا دیگر افراد کی الوہیت کے قائل ہیں۔(۲۶) صاحب جواہر کا قول ہے: غلات، خوارج، ناصبی اور ان کے علاوہ دیگر افراد جو ضروریات دین کے منکر ہیں، یہ کبھی بھی مسلمانوں کے وارث نہیں ہوسکتے ۔(۲۷) آقا رضا ہمدانی لکھتے ہیں: وہ فرقہ جن کے کفر کا حکم دیا گیا ہے، وہ غلات ہیں اور ان کے کفر میں شک و شبہ نہیں ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ امیر المومنین ؑ اور دوسرے افراد کی الوھیت کے قائل ہیں۔(۲۸) امام خمینی ؒ تحریر الوسیلہ میں فتویٰ دیتے ہوئے فرماتے ہیں: اگر غالی کا غلو الوھیت، توحید اور نبوت کے انکار کا لازمہ قرار پائے تو یہ کافر ہیں۔(۲۹) ان اقوال سے ثابت ہوا کہ علماء شیعہ غالیوں کے کفر اور نجاست کا حکم دیتے ہیں اور ان کے حوالے سے انہوں نے فقہی احکام بھی بیان کر دیئے ہیں، مثلاً ان کی نجاست، ان کا ذبیحہ حرام ہے اور وہ مسلمانوں کی میراث نہیں پا سکتے۔ جرح والتعدیل کے ماہر شیعہ علماء کا غالیوں کے بارے میں موقف انتہائی واضح ہے۔(۳۰)
غلو اور غالیوں کے بارے میں آئمہ اہل بیت ؑکا موقف اور انکا طرز عمل:
رسول اکرم ﷺ نے اپنے اصحاب کو اپنی امت میں رونما ہونے والے فتنوں سے باخبر کر دیا تھا، انہی امور میں سے ایک وہ راز تھا، جس سے حضرت علیؑ کو آگاہ فرمایا کہ ایک قوم تمہاری محبت کا اظہار کرے گی اور اس میں غلو کی حد تک پہنچ جائے گی اور اس کی وجہ سے اسلام سے خارج ہو کر کفر و شرک کی حدوں میں داخل ہو جائے گی۔ احمد بن شاذان نے اپنی اسناد سے امام صادق ؑسے روایت کی ہے کہ انہوں نے اپنے آباء و اجداد سے اور انہوں نے علی ؑسے بیان کیا ہے کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا: "اے علی میری امت میں تیری مثال عیسیٰ بن مریمؑ کی ہے، ان کی قوم ان کے حوالے سے تین گروہوں میں بٹ گئی، ایک گروہ مومن تھا اور یہ ان کے حواری تھے، دوسرا گروہ ان کا دشمن تھا، جو کہ یہودی تھے۔ تیسرا گروہ وہ تھا، جنہوں نے ان کے بارے میں غلو کیا اور ایمان کی حدود سے خارج ہوگئے۔ میری امت تیرے بارے میں تین گروہوں میں تقسیم ہوگی۔ ایک گروہ تمہارا شیعہ ہوگا اور یہ مومنین ہوں گے، دوسرا گروہ تمہارا دشمن ہوگا اور یہ شک کرنے والے ہوں گے، تیسرا گروہ تمہارے بارے میں غلو کرنے والا ہوگا اور یہ منکرین کا گروہ ہوگا۔ اے علی! جنت میں آپ اور آپ کے شیعہ جائیں گے اور جہنم تمہارے دشمنوں اور غلو کرنے والوں کا ٹھکانہ ہوگی۔"(۳۱)
حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام نے خود فرمایا ہے: "میرے بار ے میں دو قسم کے افراد ہلاک ہوں گے، ایک غالی محب اور دوسرا دشمن جفا کار۔"(۳۲) ابن نباتہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی ؑنے فرمایا: "خدایا! میں غلو کرنے والوں سے ایسے بیزار اور بری ہوں، جس طرح عیسیٰ بن مریم عیسائیوں سے بری اور بیزار تھے۔ اے اللہ ان (غالیوں کو) ہمیشہ ذلیل و رسوا فرما اور ان میں سے کسی کی بھی نصرت نہ فرما۔"(۳۳) آپ ؑ نے ایک اور مقام پر فرمایا: "ہمارے بارے میں غلو سے پرہیز کرو، کہو کہ ہم پروردگار کے بندے ہیں، اس کے بعد ہماری فضلیت میں جو چاہو کہو۔"(۳۴) امام صادق ؑسے روایت ہے کہ یہودی علماء میں سے ایک شخص امیر المومنین ؑکے پاس آیا اور کہا اے امیر المومنین! آپ کا خدا کب سے ہے۔؟ آپ ؑ نے فرمایا: "تیری ماں تیرے غم میں روئے میرا خدا کب نہیں تھا؟ جو یہ کہا جائے کہ کب سے تھا، میرا خدا کب سے پہلے تھا، جب کب نہ تھا اور بعد کے بعد بھی رہے گا، جب بعد نہ ہوگا، اس کی کوئی غایت نہیں اور اس کی غایت و انتہاء کی حد نہیں، حد انتہا اس پر ختم ہے، وہ ہر انتہا کی انتہا ہے۔" اس نے کہا: اے امیر المومنین کیا آپ نبی ہیں۔؟ آپ ؐ نے فرمایا: "وائے ہو تم پر! میں تو محمد ؐ کے غلاموں میں ایک غلام ہوں۔"(۳۵)
غالیوں کیساتھ امیر المومنین ؑکا سلوک:
عبداللہ بن سبا اصل میں یمن کا رہنے والا اور صنعا کے یہودیوں میں سے تھا۔ حجاز، بصرہ اور کوفہ میں اس کا بہت آنا جانا تھا۔ حضرت عثمان کے زمانے میں دمشق کا سفر کیا تو اہل شہر نے اسے شہر سے نکال دیا، اس کے بعد یہ مصر چلا گیا۔ وہاں حضرت عثمان کے خلاف جو شورش برپا ہوئی، اس میں پیش پیش تھا اور ان کے زبردست مخالفوں میں اس کا شمار ہوتا تھا۔(۳۶) ابن سبا کے حالات میں ہے کہ اس نے نبوت کا دعویٰ کیا اور یہ خیال کیا کہ امیر المومنین علی ؑ خدا ہیں اور مقام الوھیت رکھتے ہیں، جب حضرت علی ؑتک یہ خبر پہنچی تو آپ نے ابن سبا کو بلایا اور اس بارے میں پوچھا تو اس نے واضح طور پر اپنے عقیدے کا اعتراف کیا اور کہا کہ ہاں تو وہ (خدا) ہے، میرے دل میں یہی الہام ہوا ہے کہ تو خدا ہے اور میں تیرا رسول ہوں۔ امیر المومنین ؑنے اسے فرمایا "وائے ہو تم پر! شیطان نے تجھ سے مذاق کیا ہے، تیری ماں تیری میت پر روئے۔ اس سے روگردانی کر اور توبہ کر۔" اس نے قبول نہ کیا۔ حضرت امیر ؑنے اسے زندان میں ڈال دیا اور اسے تین دن کی مہلت دی، تاکہ وہ توبہ کر لے، لیکن اس نے توبہ نہ کی۔ حضرت علی ؑ نے اسے آگ میں جلا دیا اور فرمایا "اس پر شیطان مسلط ہوگیا تھا، وہ اس کے پاس آتا تھا اور یہ عقیدے اسے تلقین کرتا تھا۔"(۳۷)
اس حوالے سے ایک اور واقعہ بھی تاریخ میں نقل ہوا ہے: جنگ جمل کے بعد قوم زط (جٹ) کے بعض افراد جو کہ سبائیہ (عبد اللہ بن سبا کے پیروکار) تھے اور ان کی تعداد ستر تھی، حضرت علی ؑکے پاس آئے، سلام کیا اور اپنی زبان میں آپ سے گفتگو کی، آپ نے انھیں کی زبان میں جواب دیا۔ آپؑ نے انہیں کہا: "جیسا تم کہہ رہے ہو، وہ نہیں ہوں، میں اللہ کا بندہ اور مخلوق ہوں۔" ان لوگوں نے حضرت علیؑ کی بات کا انکار کیا اور ان سے کہا تو ہی خدا ہے۔ آپ نے انہیں کہا: "اگر ان باتوں سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ نہیں کرو گے، جو تم نے میرے بارے میں کہی ہیں تو تم سب کو قتل کر دوں گا۔" وہ اپنی باتوں پر ڈٹے رہے اور ہرگز توبہ نہ کی، حضرت علی ؑ نے ان کے لیے زمین میں گڑھے کھودنے کا حکم دیا۔ گھڑھے کھودے گئے اور ان کے درمیان سوراخ کرکے انہیں آپس میں ملا دیا گیا، پھر ان افراد کو ان گڑھوں میں ڈالا گیا اور ان گڑھوں کا منہ بند کر دیا گیا، ایک خالی گڑھے میں آگ جلائی گئی۔ دھوئیں اور گھٹن کی وجہ سے وہ سب ہلاک ہوگئے۔(۳۸) البتہ اس واقعے کو ایک اور طرح سے بھی نقل کیا گیا ہے کہ حضرت علی ؑکے حکم کے مطابق گڑھوں میں آگ جلائی گئی اور پھر آپ نے اپنے غلام قنبر کو حکم دیا کہ انہیں پکڑ کر آگ میں ڈالے۔ اس طرح سے وہ سب ہلاک ہوگئے۔ اس بارے میں ایک شعر بھی حضرت علی ؑسے منسوب ہے کہ انہوں نے فرمایا :
انی اذا البصرت امراً منکراً او قدرت ناری ودعوت قنبراً
ثم احفرت حضراً فحفراً وقنبر یحطم حطما ً منکراً (۳۹)
امام زین العابدین ؑ کا موقف:
امام علی بن الحسین علیہ السلام نے فرمایا: ’’جو ہم پر جھوٹ باندھے، اللہ تعالیٰ کی اس پر لعنت ہو، میں نے جب عبد اللہ بن سبا کے بارے میں سوچا تو میرے بدن کے رونگٹے کھڑے ہوگئے، اس نے بہت بڑا دعویٰ کیا تھا، اسے کیا ہوگیا تھا! اللہ کی اس پر لعنت ہو۔ خدا کی قسم علیؑ اللہ کے صالح بندے اور رسول اللہ کے بھائی تھے، درگاہ احدیت میں انہیں جو مقام و مرتبہ ملا، اس کی وجہ صرف اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت تھی، جس طرح رسول اکرم ﷺ کو عظیم مقام و منزلت سے نہیں نوازا گیا، مگر خدا کی اطاعت کی وجہ سے۔ امام زین العابدین ؑنے ابو خالد کابلی کو امت میں غلو کے بارے میں آگاہ کیا، جس طرح یہود و نصاریٰ نے اپنے دین میں غلو کیا تھا۔ امام ؑنے فرمایا: "یہودی حضرت عزیر ؑسے محبت کرتے تھے، یہاں تک کہ انہوں نے ان کے بارے میں وہ کچھ کہا، جو نہیں کہنا چاہیئے تھا۔ لہذا نہ حضرت عزیر ؑ ان سے تھے، نہ وہ حضرت عزیز سے تھے۔ عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ ؑکو دل و جان سے چاہا اور ان کے بارے وہ کچھ کہا، جو ان کے شایان شان نہ تھا۔ لہذا نہ حضرت عیسیٰ ؑ کا ان سے کوئی تعلق رہا اور نہ ہی ان کا حضرت عیسیٰ ؑسے کوئی تعلق رہا اور حقیقت میں ہم بھی اس بدعت کا شکار ہوں گے۔ بہت جلد ہمارے شیعیوں کا ایک گروہ ہم سے محبت کرے گا، یہاں تک کہ وہ ہمارے بارے میں وہی کچھ کہے گا، جو یہودیوں نے حضرت عزیر ؑ اور عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ ؑ کے بارے میں کہا تھا۔ لہذا یہ لوگ ہم میں سے نہیں ہوں گے اور نہ ہی ہمارا ان سے کوئی تعلق ہوگا۔"(۴۰)
غالیوں کے بارے میں امام محمد باقر ؑکی رائے:
امام محمد باقر ؑ نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ ابو الخطاب، اس کے اصحاب اور اس پر لعنت میں شک کرنے والوں اور اس بارے میں توقف کرنے والوں اور شک کرنے والوں پر لعنت کرے۔۔ اے علی! ان پر لعنت کرنے میں کوتاہی نہ کرو، بتحقیق اللہ تعالیٰ نے ان پر لعنت کی ہے۔" اس کے بعد انہوں نے کہا کہ رسول ؐخدا نے فرمایا ہے: "جو شخص اس فرد پر لعنت کرنے سے ناراض ہو، جس پر ذات باری تعالیٰ نے لعنت کی ہے تو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔"(۴۱) ابو الخطاب محمد بن مقلاص بن راشد منقری بزاربراداجدع اسدی تھا، کوفے کا رہنے والا ایک غالی انسان تھا، اس کے اصحاب اور پیروکاورں کو خطابیہ کہا جاتا ہے۔(۴۲) ابتداء میں وہ امام محمد باقر ؑ اور امام جعفر صادق ؑکے اصحاب میں سے تھا، شروع میں اس کا عقیدہ یہ تھا کہ آئمہ، پیغمبر ہیں، پھر انہیں خدا سمجھنے لگا اور جعفر بن محمد ؐ اور ان کے آباء کی الوھیت کا قائل ہوگیا۔ اس نے کہا کہ امام جعفر صادق ؑ اپنے زمانے کا خدا ہے اور یہ وہ نہیں جسے وہ محسوس کرتا ہے اور اس سے روایت کرتا ہے، چونکہ اس نے عالم بالا سے اس دنیا میں نزول کیا ہے، اس لیے اس نے آدمی کی شکل اختیار کی ہے۔(۴۳)
اس کا خیال تھا کہ جعفر صادق ؑنے اسے اپنے بعد اپنا قیم اور وصی مقرر کیا ہے، پھر اس سے آگے بڑھا اور نبوت کا دعویٰ کر دیا اور یہ کہا کہ وہ اسم اعظم جانتا ہے اور آخر میں کہنے لگا کہ وہ فرشتوں میں سے ہے۔(۴۴) رفتہ رفتہ اس کے گروہ میں اضافہ ہوا اور انہوں نے کوفے کے گورنر کی مخالفت شروع کر دی۔ ایک دن جب ان میں سے ستر افراد ہنگامہ برپا کرنے کے لیے مسجد کوفہ میں جمع تھے تو گورنر کوفہ نے ان پر حملہ کر دیا اور سخت مقابلے میں اس کے بہت سارے ساتھی مارے گئے، اس دوران ابوالخطاب کو گرفتار کیا گیا، حاکم کوفہ نے حکم دیا کہ فرات کے کنارے ’’دار الرزق‘‘ میں اس کے پیروکاروں کے ساتھ سولی پر لٹکایا جائے۔ اس کے بعد ان کے جسموں کو جلایا گیا اور ان کے سروں کو منصور دوانقی کے پاس بھیجا گیا، اس نے حکم دیا کہ تین دن تک ان سروں کو بغداد کے دروازے پر لٹکایا جائے اور پھر آگ میں جلایا جائے۔(۴۵)
زرارہ نے امام محمد باقر علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ بیان یا بنان پر لعنت کرے، بنان (اللہ کی لعنت ہو اس پر) نے میرے باپ پر جھوٹ اور افتراء باندھا ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ میرے باپ علی ابن الحسینؑ عبد صالح تھے۔"(۴۶) بیان بن سمعان تمیمی نھدی غلات کا سرغنہ تھا، اس کے پیروکاروں کو بیانیہ کہا جاتا ہے، اس کا نام بنان بن سمعیان فھدی اور تمیمی بھی آیا ہے، یہ شخص امام زین العابدین ؑاور محمد باقر ؑکا معاصر تھا۔(۴۷) اس نے پہلے تو اپنے آپ کو ابو ہاشم عبد اللہ ابن محمد بن حنفیہ کا جانشین کہا، پھر غلو کیا اور علی ؑ کو خدا سمجھا اور تناسخ اور رجعت کا عقیدہ اپنایا۔(۴۸) پھر اس نے نبوت کا دعویٰ کیا اور امام محمد باقر ؑکو خط لکھا کہ تو اسلام قبول کر اور امان میں رہ، بلند ہو جا اور نجات اور کامیابی پالے، کیونکہ تو نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی نبوت کو کہاں رکھا ہے اور رسول کا فرض صرف پہنچا دینا ہے، جس نے کسی کو ڈرایا، اس نے عذر کو برطرف کر دیا۔ امام ؑنے اس کے خط لانے والے عمر و بن عفیف ازدی کو مجبور کیا کہ وہ خط نگل لے۔ پس اس نے خط کھایا اور مرگیا۔(۴۹) آخرکار انہوں نے مسجد کوفہ میں ہنگامہ برپا کیا۔ خالد بن عبداللہ قسری نے اسے اور اس کے پندرہ ساتھیوں کو گرفتار کر لیا، انہیں رسی سے باندھ کر ان پر تیل چھڑکا گیا اور انہیں آگ لگا دی گئی۔ یہ واقعہ ۱۱۹ ہجری کو رونما ہوا۔(۵۰)
غالیوں کیخلاف امام صادق ؑکی جدوجہد:
امام صادق ؑکے دور میں غلاۃ کا مسئلہ بہت بڑھ گیا تھا، اسی کے پیش نظر امام نے اپنے شاگردوں کے درمیان مختلف علوم کی تعلیم شروع کر دی، آپ کی علمی تحریک آفاقی ہوگئی اور آپ کے شاگردوں اور پیروکاروں کی تعداد میں اضافہ ہوگیا، آپ ؑ لوگوں کو ان علوم سے آگاہ کرنے لگے، جن سے وہ بالکل جاہل تھے اور جو کچھ اپنے آباء اور رسول اکرمﷺ سے سینہ بہ سینہ آپ کو ملا تھا، اسے لوگوں کے دلوں میں منتقل کرنے لگے۔ اس کے سبب سطحی اور سادہ لوح افراد یہ سمجھے کہ امام غیب کا علم رکھتے ہیں اور غیب کا علم رکھنے والا الوہیت (خدائی) کے درجہ پر فائز ہوتا ہے۔ بعض فتنہ پرور افراد نے سادہ لوح افراد کو آلہ کار بنایا، تاکہ لوگوں کے عقائد کی تخریب کے سلسلہ میں اپنی غرض کو پورا کرسکیں، جو ان کا اصلی مقصد تھا۔ یہ کام خاص طور پر ان لوگوں سے لے رہے تھے، جو ابھی ابھی دائرہ اسلام میں داخل ہوئے تھے اور ان کا تعلق سوڈان، زط وغیرہ سے تھا، جو اپنے آبائی عقائد لے کر آئے تھے، اس طرح سے بعض نے مادی اور روحانی احتیاج کے پیش نظر غلو کو اپنایا اور راہ حق اور صراط مستقیم سے دور ہوگئے اور امام صادقؑ کے بارے میں طرح طرح کے خرافات پھیلانے لگے۔
مالک ابن عطیہ نے امام صادق ؑکے بعض اصحاب سے یہ روایت نقل کی ہے کہ ایک دن امام صادق ؑ بہت غیظ و غضب کی کیفیت میں باہر آئے اور آپ نے فرمایا: "میں ابھی اپنی ایک حاجت کے لیے باہر نکلا، اس وقت مدینہ میں مقیم بعض سوڈانیوں نے مجھ کو دیکھا تو ’’لبیک یاجعفر بن محمد لبیک‘‘ کہہ کر پکارا، تو میں الٹے پاؤں اپنے گھر لوٹ آیا اور جو کچھ ان لوگوں نے میرے بارے میں بکا تھا، اس کے لیے بہت دہشت زدہ تھا، یہاں تک کہ میں نے مسجد جا کر اپنے رب کا سجدہ کیا اور خاک پر اپنے چہرے کو رگڑا اور اپنے نفس کو ہلکا کرکے پیش کیا اور جس آواز سے مجھے پکارا گیا تھا، اس سے اظہار برات کیا، اگر حضرت عیسیٰ ؑ اس حد تک بڑھ جاتے، جو خدا نے ان کے لیے معین کی تھی تو وہ ایسے بہرے ہوگئے ہوتے کہ کبھی نہ سنتے، ایسے نابینا بن جاتے کہ کبھی کچھ نہ دیکھتے، ایسے گونگے بن جاتے کہ کبھی کلام نہ کرتے۔" اس کے بعد آپ نے فرمایا: "خدا ابوالخطاب پر لعنت کرے اور اس کو تلوار کا مزہ چکھائے۔"(۵۱)
ابو عمرو کشی نے سعد سے روایت کی ہے، مجھ سے احمد بن محمد بن عیسیٰ، انہوں نے حسین ابن سعید بن ابی عمیر سے اور انہوں نے ہشام بن الحکم سے، انہوں نے امام صادق ؑسے روایت کی کہ امام نے فرمایا: "خدا بنان اور سری بزیع پر لعنت کرے، وہ لوگ سر تا پا انسان کی حسین صورت میں درحقیقت شیطان تھے۔" روای کہتا ہے کہ میں نے آپ ؑ سے عرض کی کہ وہ اس آیت :’’ھوا لذی فی السماء الہ و فی الارض الہ‘‘ وہ، وہ زمین و آسمان کا خدا ہے۔"(۵۲) کی یوں تاویل کرتا ہے کہ آسمان کا خدا دوسرا ہے اور جو آسمان کا خدا ہے، زمین کا خدا نہیں ہے اور آسمان کا خدا، زمین کے خدا سے عظیم ہے اور اہل زمین آسمانی خدا کی فضلیت سے آگاہ ہیں اور اس کی عزت کرتے ہیں۔ امام صادقؑ نے فرمایا: "خدا کی قسم ان دونوں کا خدا صرف ایک اور یکتا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، وہ زمینوں اور آسمانوں کا رب ہے، بنان جھوٹ بول رہا ہے، خدا اس پر لعنت کرے، اس نے خدا کو چھوٹا کرکے پیش کیا اور اس کی عظمت کو حقیر سمجھا ہے۔"(۵۳)
کشی نے اپنی اسناد کے ساتھ امام صادق ؑسے روایت کی ہے کہ آپ نے اس قول پروردگار: ’’ھَلْ اُنَبِّئُکُمْ عَلٰی مَنْ تَنَزَّلُ الشَّیٰطِیْنُ ٭ تَنَزَّلُ عَلٰی کُلِّ اَفَّاکٍ اَثِیْمٍٍ۔‘‘(۵۴) "کیا ہم آپ کو بتائیں کہ شیاطین کس پر نازل ہوتے ہیں، وہ ہر جھوٹے اور بدکردار پر نازل ہوتے ہیں" کے بارے میں فرمایا: "وہ (جھوٹے و بدکردار) لوگ سات ہیں: مغیرہ بن سعید، بنان، صائد، حمزہ بن عمار زبیدی، حارث شامی، عبداللہ بن عمرو بن حارث، ابواالخطاب۔"(۵۵) کشی نے حمدویہ سے روایت کی ہے، وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے یعقوب نے، انہوں نے ابن ابی عمیر سے، انہوں نے عبد الصمد بن بشیر سے، انہوں نے مصارف سے روایت کی ہے، جب کوفہ سے کچھ لوگ آئے تو میں نے جا کر امام صادق ؑکو ان لوگوں کے آمد کی خبر دی، آپ فوراً سجدے میں چلے گئے اور زمین سے اپنے اعضاء چپکا کر رونے لگے اور انگلیوں سے اپنے چہرہ کو ڈھانپ کر فرما رہے تھے، نہیں بلکہ میں اللہ کا بندہ اس کا ذلیل و پست ترین بندہ ہوں اور اس کی تکرار کرتے جا رہے تھے، جب آپ نے سر اٹھایا تو آنسوؤں کا ایک سیلاب تھا، جو آنکھوں سے چل کر ریش مبارک سے بہہ رہا تھا، میں اس خبر دینے پر نہایت شرمندہ تھا، میں نے عرض کی: یابن رسول اللہ ؐ ! میری جان آپ پر فدا ہو، آپ کو کیا ہوا اور وہ کون ہیں۔؟
آپ نے فرمایا: "مصادف! عیسیٰ کے بارے میں نصاریٰ جو کچھ کہہ رہے تھے، اگر اس کے سبب وہ خاموشی اختیار کر لیتے تو ان کا حق تھا کہ اپنی سماعت گنوا دیتے اور بصارت کھو دیتے، ابو الخطاب نے جو کچھ میرے بارے میں کہا، اگر اس کے سبب سکوت کر لوں اور اپنی سماعت و بصارت سے چشم پوشی کر لوں تو یہ میرا حق ہے۔"(۵۶) شیخ کلینی نے سدیر سے روایت کی ہے کہ میں نے حضرت امام صادق ؑکی خدمت میں عرض کی کہ ایک گروہ ہے، جو اس بات کا عقیدہ رکھتا ہے کہ آپ ہی خدا ہیں اور اس کے ثبوت میں اس آیت :’’ھو الذی فی السماء الہ وفی الارض الہ۔‘‘(۵۷) کو ہمارے سامنے تلاوت کرتے ہیں۔ آپ ؑنے فرمایا: "سدیر! میری سماعت و بصارت، گوشت و پوست اور رواں رواں ان لوگوں سے بیزار ہے اور خدا بھی ان سے بیزار ہے، وہ لوگ میرے اور میرے آباء و اجداد کے دین پر نہیں ہیں، خدا کی قسم روز محشر خدا ان لوگوں کو ہمارے ساتھ محشور نہیں کرے گا، مگر یہ کہ وہ لوگ غضب و عذاب الہیٰ کا شکار ہوں گے۔"(۵۸)
روای کہتا ہے کہ میں نے عرض کی: اے فرزند رسول خدا ؐ ! ایک گروہ ایسا ہے، جو اس بات کا معتقد ہے کہ آپ رسولوں میں سے ہیں اور اس آیت کی تلاوت کرتے ہیں: ’’یٰٓاَ یُّھَا الرُّسُلُ کُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَاعْمَلُوْ اصَالِحًا ٭ اِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْم۔‘‘ ’’اے میرے رسولو! پاکیزہ غذائیں کھاؤ اور نیک اعمال انجام دو کہ میں تمہارے نیک اعمال سے خوب با خبر ہوں۔‘‘(۵۹) آپ نے فرمایا: "اے سدیر! میری سماعت و بصارت، گوشت و پوست اور خون ان لوگوں سے اظہار برات کرتے ہیں، یہ لوگ میرے اور میرے آباء و اجداد کے دین پر نہیں، خدا کی قسم روز محشر خدا ان لوگوں کو ہمارے ساتھ محشور نہیں کرے گا، مگر یہ کہ وہ لوگ عذاب و غضب الہیٰ کا شکار ہوں گے۔" روای کہتا ہے، میں نے عرض کی: فرزند رسول خدا پھر آپ کیا ہیں۔؟ آپ نے فرمایا: "علم الہیٰ کے خزانہ دار، احکام الہیٰ کے ترجمان اور معصوم قوم ہیں، اللہ نے ہماری اطاعت کا حکم دیا ہے اور ہماری نافرمانی سے منع کیا ہے، ہم زمین پر بسنے والے اور آسمان کے رہنے والوں کے لیے حجت کامل ہیں۔"(۶۰)
مغیرہ بن سعید غلو کرنے والے گروہ کا ایک فرد تھا، جو سحر و جادو کے ذریعے سادہ لوح اور عام فکر کے لوگوں کو اپنی طرف جذب کرتا تھا، پھر ان لوگوں کے لیے آئمہ اہل بیتؑ کے حوالے سے غلو کو آراستہ کر دیتا تھا۔ امام صادق ؑنے اس غالی شخص کی حقیقت اپنے اصحاب کے سامنے واضح کر دی۔ ایک دن اپنے اصحاب کو مخاطب کرکے فرمایا: "خدا مغیرہ بن سعید پر لعنت کرے اور اس یہودیہ پر لعنت کرے، جس سے وہ مختلف قسم کے جادو، ٹونے اور کرتب سیکھتا تھا۔ مغیرہ نے ہماری طرف جھوٹی باتوں کو منسوب کیا ہے، جس کے سبب خدا نے اس سے نعمت ایمان کو لے لیا۔ ایک گروہ نے ہم پر جھوٹا الزام لگایا تو خدا نے ان کو تلوار کا مزہ چکھایا۔ خدا کی قسم ہم کچھ نہیں، صرف اللہ کے بندے ہیں۔ اس نے ہم کو خلق کیا اور انتخاب کیا، ہم کسی کے فائدہ اور نقصان پر قادر نہیں ہیں، اگر کچھ ہے تو رحمت الہیٰ ہے، اگر کوئی مستحق عذاب ہے تو اپنی غلطیوں کے سبب ہوگا۔ خدا کی قسم! خدا پر ہماری کوئی حجت نہیں، ہم مرنے والے ہیں، قبروں میں رہنے والے، محشور کیے جانے والے، واپس بلائے جانے والے، روکے جانے والے اور سوال کیے جانے والے ہیں۔ ان کو کیا ہوگیا ہے، خدا ان پر لعنت کرے، انہوں نے خدا کو اذیت دی اور رسول اکرمﷺ کو قبر میں اذیت دی اور امیر المومنین و فاطمہ زہراء، حسن، حسین بن علی کو اذیت دی ہے۔
آج کل تمہارے درمیان میں ہوں، جو رسول اکرم کا گوشت پوست ہوں، لیکن راتوں کو جب کبھی بستر استراحت پر جاتا ہوں تو خوف و ہراس کے عالم میں سوتا ہوں، وہ لوگ چین و سکون کے ساتھ خواب خرگوش کے مزے لیتے ہیں اور میں خوف و ہراس کی زندگی بسر کر رہا ہوں۔ میں دہشت و جبل کے درمیان لرزہ بر اندام ہوں، میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں، جو کچھ میرے بارے میں بنی اسد کے غلام اجرع براد اور ابوالخطاب نے کہا: خدا اس پر لعنت کر ے، خدا کی قسم اگر وہ لوگ ہمارا امتحان لیتے اور ہم کو اس کا حکم دیتے تو واجب ہے کہ اس کو قبول نہ کریں، آخر ان لوگوں کو کیا ہوگیا کہ وہ لوگ ہم کو خائف و ہراساں پا رہے ہیں۔؟ ہم ان کے خلاف اللہ کی مدد چاہتے ہیں اور ان سے خدا کی پناہ مانگتے ہیں۔ میں تم سب کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں فرزند رسول ؐ خدا ہوں، اگر ہم نے آپﷺ کی اطاعت کی تو اللہ ہم پر رحمت نازل کرے اور اگر آپﷺ کی نافرمانی کی تو ہم پر شدید عذاب نازل کرے۔"(۶۱)
امام صادق ؑ نے غلاۃ کی جانب سے دی گئی ساری نسبتوں کی نفی کی ہے، مثلاً علم غیب، خلقت، تقسیم رزق وغیرہ۔ ابی بصیر سے روایت ہے کہ میں نے امام صادق ؑ سے عرض کی یا بن رسول اللہﷺ! وہ لوگ آپ کے بارے میں کہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: کیا کہتے ہیں؟ میں نے عرض کی کہ وہ لوگ کہتے ہیں کہ آپ بارش کے قطرات، ستاروں کی تعداد، درختوں کے پتوں، سمندر کے وزن، ذرات زمین کا علم رکھتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: "سبحان اللہ! خدا کی قسم، خدا کے علاوہ کوئی بھی ان کا علم نہیں رکھتا۔" آپ سے کہا گیا کہ فلاں شخص آپ کے بارے میں کہتا ہے کہ آپ بندوں کے رزق تقسیم کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: "ہم سب کا رزق صرف خدا کے ہاتھوں میں ہے، مجھ کو اپنے اہل و عیال کے لیے کھانے کی ضرورت پڑی تو میں کشمکش میں مبتلا ہوا، میں نے سوچ بچار کے ذریعے ان کی روزی فراہم کی، اس وقت میں مطمئن ہوا۔"
زرارہ سے روایت ہے کہ میں نے امام صادق ؑسے عرض کی کہ عبد اللہ بن سبا کے فرزندوں میں سے ایک تفویض کا قائل ہے! آپ نے فرمایا: تفویض کا قائل ہے! آپ نے فرمایا: تفویض سے کیا مراد ہے۔؟ میں نے کہا: کہ وہ لوگ کہتے ہیں کہ خدا نے محمد ؐو علی ؑ کو خلق کیا، اس کے بعد سارے امور ان کو تفویض (حوالے) کر دیئے، لہذا اب یہی لوگ رزق تقسیم کرتے ہیں اور موت و حیات کے مالک ہیں۔ آپ نے فرمایا: "وہ دشمن خدا جھوٹ بولتا ہے، جب تم اس کے پاس جانا تو اس آیت کی تلاوت کرنا:
’’ اَمْ جَعَلُوْ الِلّٰہِ شُرَکَآئَ خَلَقُوْا کَخَلْقِہٖ فَتَشَا بَہَ الخلْقُ عَلَیْھِمْ قُلِ اللّٰہُ خَالِقُ کُلِّ شَیْئٍ وَّ ھُوَ الْوَاحِدُ الْقَھّار۔‘‘(۶۲) "یا ان لوگوں نے اللہ کے لیے ایسے شریک بنائے ہیں، جنہوں نے اس کی طرح کائنات خلق کی ہے اور ان پر خلقت مشتبہ ہوگئی ہے، کہہ دیجیے کہ اللہ ہی ہر شی کا خالق ہے، وہی یکتا اور سب پر غالب ہے۔‘‘ میں واپس گیا اور جو کچھ امام ؑنے فرمایا تھا، وہ پیغام سنا دیا تو گویا وہ پتھر کی طرح ساکت ہوگیا یا بالکل گونگا ہوگیا۔ مفضل روای ہیں کہ امام صادق ؑ نے ہم سے ابو خطاب کے اصحاب اور غلاۃ کے حوالے سے فرمایا: "اے مفضل! ان کے ساتھ نشست و برخاست نہ کرو، ان کے ساتھ کھانا پینا نہ رکھو، ان سے میل جول نہ رکھو، نہ ان کے وراث بنو اور نہ ان کو اپنا وارث بناؤ۔"(۶۳)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
۱۔ الصحاح: ج ۴، ص۲۴۴۸۔۲۴۴۹، تاج العروس، ج۱۰، ص۲۶۹۔۲۷۰مفردات القرآن: ج۲، ص۷۶۳
۲۔ التفسیر الکبیر، ج۱۲، ص۶۲، لسان العرب، ج۷، ص۳۶۸، فیروز آبادی، قاموس المحیط، ج۲
۳۔ طبرسی، مجمع البیان، ج۲، ص۲۳۰
۴۔ ابو الحسن اصفہانی، صراط النجاۃ، ج ۱، ص۷۷، خمینی، تحریر الوسیلہ، ج،۱، ص۱۱۸، جعفر سبحانی، کلیات فی علم الرجال، ص۴۰۹
۵۔ سورۂ النساء، آیت۱۷۱
۶۔ طبری، جامع البیان، ج ۶، ص۲۴۔۲۵ شیخ طوسی، التبیان ج۳، ص۳۹۹۔۴۰۳ ابن کیثر، تفسیر القرآن العظیم، ج،۱، ص۵۸۹۔۵۹۰، ابو حیان البحر المحیط، ج۳، ص، ۴۰۰،۴۰۲
۷۔ طبرسی، مجمع البیان، ج۲، ص۱۴۴
۸۔ ابو الفتوح رازی تفسیر شیخ ابو الفتواح رازی: ج۴، ص۷۷۔۷۹، طبرسی، مجمع البیان، ج۲، ص۱۴۴
۹۔ قرطبی، الجامع، ج۶، ص۲۱، طبرسی، مجمع البیان ج۲، ص۱۴۴
۱۰۔ ابو حیان، البحر المحیط، ج۳، ص۴۰۰،۴۰۲، تفسیر شیخ ابو الفتوح رازی۔ ج،۴ ص۷۷۔۷۹
۱۱۔ ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، ج،۱، ص۵۸۹۔۵۹۰
۱۲۔ سورہ ٔمائدہ؍۷۷
۱۳۔ ابن کثیر تفسیرالقرآن العظیم، ج۲، ص۸۲، طبری جامع البیان: ج ۶، ص۲۰۴، قرطبی الجامع: ج۶، ص۲۵۳، کاشانی، منہج الصادقین، ج۳، ص۲۸۸
۱۴۔ سورۂ توبہ،۳۰
۱۵۔ سورۂ توبہ،۳۰
۱۶۔ سورۂ مائدہ،۷۲
۱۷۔ صحیح البخاری، باب المناقب
۱۸۔ بحار: ج ۲۵، ص۲۶۲، الدرالمنثور: ج۲، ص۴۶،۴۷ مجمع البیان: ج ۱، ص۴۶۶
۱۹۔ بحار ج،۲۵، ص۲۶۵
۲۰۔ بحار ج ۲۵، ص۲۶۸۔۲۶۹، حمیری قرب الاسناد، ص۳۱، صدوق، خصال، ج،۱ ص۶۳
۲۱۔ بحار الانوار، ج۲۵، ص۳۴۶
۲۲۔ اعتقادات۔ ص۷۱
۲۳۔ تصحیح الاعتقاد، ص۱۰۹
۲۴۔ انوار الملکوت: ص۲۵۲
۲۵۔ المعتبر، ج،۱، ص۹۸
۲۶۔ مستند الشیعہ، ج،۱، ص۲۰۴
۲۷۔ مستند الشیعہ، ج،۱، ص۲۰۴
۲۸۔ مصباح الفقیہ: ج۹، ص۵۶۸
۲۹۔ تحریر الوسیلہ ج۱، ص۱۱۸
۳۰۔ رجال کشی، ج،۱، ص۲۲۳ شمارہ ۱۷۰۰؛ رجال طوسی، ص۵۱، رجال ابن داود، ص۲۵۴
۳۱۔ بحار، ج۲۵، ص۲۶۶۔۲۶۵ ابن شاذان، ایضاح دفائن النواصب، ص۳۳
۳۲۔ بحار، ج،۲۵، ص۲۸۵، مناقب ابن شہر آشوب، ج،ا، ص۲۶۴
۳۳۔ امالی شیخ طوسی، ص۶۵۴، بحار ج ۲۵، ص۲۶۶، مناقب ابن شہر آشوب، ج،۱، ص۲۶۳
۳۴۔ بحار، ج،۲۵، ص،۲۷۰، خصال، ج۲، ص۶۱۴
۳۵۔ اصول کافی، ج،۱، ص۸۹
۳۶۔ الکامل: ج ۳، ص۱۵۴، تہذیب تاریخ ابن عساکر، ج۷، ص۴۲۸۔ تاریخ طبری۔ ج۲، ص۶۴۸
۳۷۔ رجال کشی: ج۱، ص۳۲۳۔ بحار ج۲۵، ص۲۸۶، قاموس الرجال ج ۵، ص۴۶۱
۳۸۔ رجال کشی: ج۱، ص۳۲۵، شرح نہج البلاغہ (حدیدی) ج ۵، ص،۵ الوافی ج ۲، ابواب الحدود، ص۷۰
۳۹۔ بحار ج ۲۵، ص۲۸۵، مستدرک الوسائل: ج ۳، ص۳۴۳، مناقب شہر آشوب، ج۱، ص۲۶۵
۴۰۔ رجال کشی: ج۱، ص۳۳۶، بحار ج۲۵، ص۲۸۳، منھج المقال ص۳۵۵
۴۱۔ بحار، ج،۲۵، ص۳۱۸۔۳۱۹، رجال کشی ج ۲، ص۸۱۰۔۸۱۱، قاموس الرجال ج۸، ص۴۰۱
۴۲۔ الانساب ج۵، ص۱۶۱، الکنی والا لقاب ج۱، ص۶۴
۴۳۔ الملل ونحل: ج۱، ص،۱۳۶،۱۳۷، الفریق بین الفرق، ص۱۵۰۔ منہاج السنۃ، ج،۱، ص۲۳۹
۴۴۔ فرق الشیعہ ص۶۹،۱۰۵۔ مقالات الاسلامیین ج،۱، ص۷۷، الفرق المتفرقہ ص۴۲
۴۵۔ المقالات والفرق، ص۸۱۔۸۲ فرق الشیعہ، ص۱۰۳، ۱۰۵
۴۶۔ مقیاس الھدایۃ ص۸۹، رجال کشی ج۲، ص۵۹۰، بحار ج۲۵، ص۲۷۱،۲۷۰
۴۷۔ الانساب ج۲، ص۳۸۶،۳۸۱؛ قاموس الرجال ج۲، ص۴۶۔۲۴۷
۴۸۔ الفرق الاسلامیہ ص۳۵
۴۹۔ فرق الشیعہ ص۸۵، الملل والنحل ج۱، ص۱۱۴ قاموس الرجال، ج۲، ص۲۴۷
۵۰۔ الکامل: ج ۵، ص۲۰۸، المقالات والفرق، ص۳۳، فرق الشیعہ ص۵۰
۵۱۔ الکافی، ج۸، ص۲۲۶
۵۲۔ سورہ زخرف،۸۴
۵۳۔ رجال کشی، ج۴، ص،۵۹۲
۵۴۔ سورئہ شعراء آیت ۲۲۲،۲۲۳
۵۵۔ اصول کافی، ج،۱، ص۲۶۹
۵۶۔ رجال کشی، ج۴، ص۵۸۸
۵۷۔ سورئہ زخرف، آیت۸۲
۵۸۔ مقیاس الہدایۃ، ص۸۹، رجال کشی، ج۲، ص۵۹۴، بحار ج۲۵، ص۲۹۸
۵۹۔ سورہ مومنون، آیت ۵۱
۶۰۔ اصول کافی، ج۱، ص۲۶۹
۶۱۔ رجال کشی، ج۲، ص۴۹۱،۴۹۲، بحار الانوار، ج۲۵، ص۲۸۹۔۲۹۰
۶۲۔ سورئہ رعد، آیت۱۶
۶۳۔ رجال کشی، ج۲، ص۵۸۶، بحار، ج۲۵، ص۲۹۶، تنقیع المقال، ج۳، باب مقاتل، ص۲۴۴
٭٭٭٭٭٭
مراجع و مصادر:
۱۔ ابن شاذان، محمد بن احمد(نویں صدی) ایضاح دفائن النواصب والمناقب المائۃ النجف مکتبۃ الحیدریہ
۲۔ ابن شہر آشوب، محمد بن علی (م،۵۸۸)المناقب، قم، موسسہ انتشارات علاقہ
۳۔ ابن عساکر، علی بن حسن (م،۵۷۱) تاریخ مدینہ دمشق، دار البشیر
۴۔ ابن کثیر، اسماعیل بن عمر (ما۔۷۷۴ھ) تفسیر القرآن العظیم، بیروت، دارلفکر،۱۹۷۰ء
۵۔ ابن منظور، محمد بن مکرم (م۔۷۱۱ھ) لسان العرب، قم، نشر ادب الحوزہ، ۱۴۰۵ہجری
۶۔ ابوحیان، محمد بن یوسف (م۔۷۵۴) تفسیر البحر المحیط ، ۱۴۰۳ہجری ۔۱۹۸۳ء بیروت دارلفکر
۷۔ استر آبادی، محمد بن علی (م۱۰۳۸) نہج المقال فی تحقیق احوال الرجال، تعلیق
۸۔ محمد باقر بن محمد اکمل، مطبعہ محمد حسین طہرانی، ۱۳۰۰ہجری
۹۔ اشعری سعد بن عبداللہ، (م،۳۰۱) المقالات والفرق، تصحیح و تعلیق محمد جواد مشکور مرکز انتشارات علمی و فرہنگی 1361 ہجری تیسری بار اشاعت)
۱۰۔ اصفہانی ابو الحسن (۱۳۲۵) صراط النجاۃ، حاشیہ ابراہیم حسینی اصطھباناتی تصحیح ابوا القاسم شرافت، تہران چاپ خانہ اسلامیہ ۱۳۷۷ء ہجری اشاعت دہم
۱۱۔ بخاری، محمد بن اسماعیل (م۔۲۵۶) صحیح البخاری شرح و تحقیق شیخ قاسم اشمای الرفاعی، بیروت، دارالقلم لبقہ الاولی ۱۹۸۷ء
۱۲۔ تستری، محمد تقی، قاموس الرجال، تہران مرکز نشر الکتاب۱۳۸۲ ہجری
۱۳۔ جوہری، اسماعیل بن حماد (م۳۹۳) الصحاح تاج اللغۃ وصحاح العربیۃ انتشارات امیری، ۱۳۶۸ش، اشاعت اول
۱۴۔ حمیری عبداللہ بن جعفر (تیسری صدی) قرب الاسناد تہران مکتبۃ نینوی الحدیثہ
۱۵۔ خمینی، روح اللہ (م۔۱۴۱۰ہجری) تحریر الوسیلہ، بیروت، دارالانوار، ۱۴۰۳ ہجری ۱۹۸۲ء رازی فخرالدین (م۔۶۰۶) التفسیر الکبیر
۱۶۔ زبیدی واسطی، محمد مرتضیٰ (م۱۲۰۵) تاج العروس من جواہر القاموس، بیروت، دامکتبہ الحیاۃ، ۱۳۰۶ اشاعت اول
۱۷۔ سبحانی، جعفر کلیات فی علم الرجال، قم مرکز مدیریت حوزہ علمیہ قم ۱۴۰۸ ہجری اشاعت دوم
۱۸۔ سمعانی، عبدالکریم بن محمد (م۔۵۶۲) الانساب، حیدر آباد دکن، مجلس دائرۃ المعارف
۱۹۔ سیوطی، جلال الدین (م،۹۱۱) الدارالمنثور فی التفسیر بائما ثور قم، مکتبہ اللہ العظمیٰ النجفی ۱۴۰۴ ہجری
۲۰۔ شہرستانی، محمد بن عبد الکریم (م۵۴۸) الملل والنحل، لاییزیک، اتوھا راس وتیز۱۹۲۳ء
۲۱۔ صدوق، محمد بن علی (م۳۸۱) الخصال، تصحیح و تعلیق علی اکبر غفاری، قم جماعۃ المدرسین فی الحوزہ العلمیہ، ۱۴۰۳ہجری
۲۲۔ طباطبائی، محمد حسین (م۱۴۰۲) المیزان فی تفسیر القرآن، تہران دارالکتب الاسلامیہ ۱۳۸۹ہجری دوسری اشاعت
۲۴۔ طبرسی، فضل بن حسن (م ۵۴۸) مجمع البیان فی تفسیر القرآن، قم، مکتبہ آیۃ اللہ العظمیٰ المرعشی النجفی ۱۴۰۳ہجری
۲۵۔ طبری، محمد بن جریر(م۳۱۰) جامع البیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دارا المعرفہ ۱۳۹۸ھ
۲۶۔ طوسی، محمد بن حسن (م۴۶۰) التبیان، تحقیق و تصحیح احمد حبیب قیصر عاملی، بیروت ۱۹۷۸ء تیسری اشاعت
۲۷۔ فیروز آبادی، محمد بن یعقوب (م۸۱۷) القاموس المحیط، بیروت دارالجلیل
۲۸۔ قرطبی، محمد بن احمد (م۶۷۱) الجامع لا حکام القرآن، دار الکتاب العربی ۱۳۸۷ھ ۔۱۹۶۷ء تیسری اشاعت
۲۹۔ قمی، عباس (م۱۳۱۹) الکنی والاتعاب، نجف منشورات مطبعہ حیدریہ، ۱۳۸۹، ہجری ۱۹۴۹ء
۳۰۔ کلینی، محمد بن یعقوب (م۳۲۹) الکافی، تصحیح، تعلیق علی اکبر غفاری، دارالکتب الاسلامیہ، تیسری اشاعت
۳۱۔ مبرد محمد بن یزید (م۲۸۵) الکامل تعلیق، محمد ابو الفضل ابراہیم فجالہ مکتبہ نہضۃ مصر ومطبعتھا
۳۲۔ مجلسی محمد باقر (م۔۱۱۱۱) بحار الانوار الجامعۃ لدرا الاخبار آئمۃ الاطہار، بیروت موسسہ الوفا ۱۴۰۳ ہجری ۱۹۸۳ء دوسری اشاعت
۳۳۔ کاشانی فتح اللہ (۹۸۸) منہج الصادقین فی الزام المخالفین متدم و حاشیہ ابوالحسن مرتضوی، تصحیح علی اکبر غفاری انتشارات علمیہ اسلامیہ
تحریر: سید حسنین عباس گردیزی
جامعۃ الرضا، بہارکہو اسلام آباد ٭٭٭٭٭٭
امام رضا (ع) کی ولایت عہدی کا تحلیلی تجزیہ
جیسا کہ مشہور ہے ’’سیاست میں کوئی دوست اور رشتہ دار نہیں ہوتا‘‘ کچھ ایسی ہی داستان عباسی خلیفہ ہارون الرشید کے دو بیٹوں مامون اور امین کی ہے، جب مامون کو اپنے بھائی امین سے خطرہ لاحق ہوا تو اپنے سگے بھائی کے خلاف تلوار کھینچ لی، ہزاروں لوگوں کے قتل عام کے بعد مامون اپنے بھائی امین پر فائق آیا اور اس کا سر قلم کرکے اقتدار کی کرسی بچا لی۔ مامون عباسی خلفاء میں سب سے زیادہ ذہین، فطین اور شاطر مزاج آدمی تھا، لہذا امین کو اپنے راستے سے ہٹانے کے بعد اسے مدینہ منورہ میں علویوں کی بغاوت کا خطرہ لاحق ہوا، اسے خبر پہنچ چکی تھی کہ دور دور سے لوگ امام رضا (ع) کے پاس جمع ہو کر ان کے فیوضات اور برکات سے سیراب ہو رہے ہیں اور ان کی بارگاہ اقدس میں زانو تلمذ خم کرکے اپنی علمی پیاس بجھا رہے ہیں، یہ بات مامون کے لیے انتہائی ناگوار اور ناقابل برداشت تھی، دوسری جانب مدینہ منورہ، مرو (خراسان) سے بہت دور تھا، وہ امام رضا (ع) کی علمی اور سیاسی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھنا چاہتا تھا، لہذا اس نے امام رضا (ع) کو "مرو" بلانے کا مصمم ارادہ کیا، اپنے وزیر فضل بن سہل کو بلایا اور اس سے مشورہ کرنے کے بعد امام رضا (ع) کو خراسان بلانے کے بعد ولایت عہدی کا عہدہ ان کے سپرد کرنے کا اعلان کیا۔[1]
عباسی خاندان کے لوگ اس فیصلے سے خوش نہیں تھے جبکہ دربار اور مامون کے حلقہ احباب میں بھی اس فیصلے سے متعلق آپس میں چہ میگویاں ہو رہی تھیں۔ چنانچہ مامون کو اپنے فیصلے کے پیچھے پوشیدہ راز آشکار کرنے پڑے، ان میں سے کچھ اہم اغراض و مقاصد یہ ہیں:
1۔ خلافت عباسیہ کی تثبیت و تائید
مامون الرشید نے امام رضا(ع) کے خراسان بلانے کا مقصد صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے، ’’میں ابو الحسن (ع) کو یہاں بلا کر ولایت عہدی کی پیشکش کروں گا، اب اگر امام رضا (ع) نے قبول کر لیا تو گویا انہوں نے خلافتِ عباسیہ کو قبول کیا ہے۔‘‘[2]
2۔ امام رضا (ع) کی سرگرمیوں کو اپنے کنٹرول میں رکھنا
مامون چاہتے تھے کہ اس طریقے سے امام (ع) کی سیاسی اور سماجی سرگرمیاں کنٹرول میں رکھے، کیونکہ اگر امام رضا (ع) ولایت عہدی کے منصب کو قبول کر لیتے تو آپ خلافت عباسی کے زیر سایہ ایک ولی عہد کے طور پر ذمہ داریاں انجام دیتے اور آپ کی کاوشیں خلافت عباسیہ کی تشہیر و ترویج کا باعث ہوتیں، یوں اس بات کا خطرہ ٹل جاتا کہ امام رضا (ع) مامون کے راستے میں رکاوٹ بن کر لوگوں کو اپنے گرد جمع کرے گا۔[3]
3۔ لوگوں کی نظروں میں امام (ع) کی شان و عظمت گھٹانا
مامون کا اس فیصلے سے ایک اور مقصد یہ تھا کہ لوگوں کی نظروں میں امام (ع) کی شان اور عظمت گھٹائی جائے، کیونکہ جب امام (ع) ولایت عہدی کے منصب پر راضی ہو جاتا تو عاشقان، دلدادگان اور موالیان اہل بیت (ع) کو یہ باور کروایا جاتا کہ امام (ع) کی تمام تر سرگرمیاں دنیاوی لالچ کے حصول کے لیے تھیں، رفتہ رفتہ امام عالی مقام (ع) کا وقار اور رعب و دبدبہ ان کے چاہنے والوں کی نظروں میں ماند پڑ جاتا اور ان کے سینوں میں امام (ع) کے ساتھ جذبہ اور عشق و ولولہ ٹھنڈا ہو جاتا۔[4]
4۔ عراق اور یمن میں حکومت کیخلاف ہونیوالے قیاموں کا سدّباب
عراق اور یمن کے بیشتر شہروں میں مامون کے خلاف قیام کے لیے تیاریاں ہو رہی تھیں اور واضح سی بات ہے کہ ہر دنیا پرست سیاستدان کی طرح مامون بھی ان تمام تر ممکنہ خطرات کو مول لینا نہیں چاہتا تھا اور بروز ہونے سے قبل ہی فتنہ دفن کرنا چاہتا تھا، جس کے لیے مامون کی نظر میں بہتر فیصلہ یہی تھا کہ امام رضا (ع) کو خراسان بلا کر ان کی تمام تر سرگرمیاں زیرِ نظر رکھی جائیں۔[5]
5۔ خراسان کے شیعوں کے دل موہ لینا
خراسان میں آلِ علی اور اہل بیت (ع) کے شیعوں کی اکثریت تھی، مامون کی کوشش تھی کہ ولایت عہدی کی پیشکش کے ذریعے انہیں بھی اپنی جانب رغبت دلا سکے اور یہ تاثر ظاہر کرے کہ میں بھی اہل بیت (ع) کا نام لیوا اور دلداہ ہوں، یوں علویوں کے خراسان میں عباسی حکومت کے خلاف ممکنہ اقدامات کا سدباب کیا جا سکے گا۔[6]
تحلیل و تجریہ:
لیکن اگر جائزہ لیا جائے تو یہ مسئلہ عیاں اور آشکار ہو جاتا ہے کہ مامون کسی طرح بھی اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوا، کیونکہ جب امام رضا (ع) خراسان پہنچے اور انہیں تعظیم و تکریم کے ساتھ ولایت عہدی کی پیشکس ہوئی تو امام (ع) نے کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی اور فرمایا: ’’اگر تم ہی خلافت کے لیے سزاوار ہو تو تیرے اس لباس کو اتار کر کسی دوسرے کو پہنانا جائز نہیں ہے اور خلافت تیرے لیے نہیں ہے تو تجھے اسے مجھے سپرد کرنا جائز نہیں ہے۔‘‘ امام عالی مقام کے اس جواب سے مامون کے ذہن میں چھپے پشت پردہ عزائم خاک میں مل گئے، لہذا مامون کو اپنا لہجہ تبدیل کرنا پڑا، آگ بگولہ ہو کر تھدید آمیز لہجے میں کہنے لگا: ’’اے اباالحسن! اگر آپ نے ولایت عہدی کی پیشکش ٹھکرا دی تو میں وہی سلوک کروں گا، جو خلیفہ ثانی نے اپنے بعد شوریٰ بناتے وقت کیا تھا کہ جو بھی شوریٰ کے انتخاب میں شرکت نہیں کرے گا، اسے قتل کیا جائے گا۔‘‘[7]
شہید مطہری (رہ) لکھتے ہیں: ’’ امام رضا (ع) ولایت عہدی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھے، لیکن حالات کی نزاکت کے باعث انہیں با دل نخواستہ ایسا کرنا قبول کرنا پڑا، کیونکہ ولایت عہدی کا مطلب یہی یہ ہے کہ مامون اس منصب کا حقدار تھا اور اب وہ کسی کو اپنا جانشین بنا رہا ہے۔‘‘ [8] اور جیسا کہ اس بات کی طرف امام رضا (ع) نے خود اشارہ کیا ہے، فرمایا ’’جیسا کہ میرے جدّ علی ابن ابی طالب کو شوریٰ قبول کرنا پڑی تھی، میں بھی ایسے ہی ولایت عہدی قبول کر رہا ہوں‘‘ [9] بنابرایں، امام رضا (ع) نے منصب ولایت عہدی قبول کرنے کے لیے شرائط رکھیں کہ وہ عزل و نصب نہیں کریں گے اور ہر طرح کا حکم دینے سے کناہ کش رہیں گے۔ یوں آپ نے اپنے دامن کو ظلم و استبداد پر مبنی حکومتی اقدامات کی تائید سے الگ کر دیا اور ریاستی امور میں مداخلت سے کنارہ کش ہو کر اسلام کی ترویج و تشہیر میں مشغول ہوگئے، لوگ دور دور سے امام (ع) کی قدم بوسی اور زیارت کے لیے خراسان کا رخ کرنے لگے، امام (ع) کا حلقہ عشاق بڑھتا گیا، مامون کے لیے یہ حالت ناقابل برداشت تھی کہ ظاہری طور پر منصب خلافت کے عہدے پر فائز ہونے کے باوجود دربار میں بھی اس کا کوئی پرسان حال نہیں، جبکہ لوگوں کے دلوں کے اعماق پر امام (ع) کی حکومت و سلطنت ہے۔
لہذا عوام میں امام (ع) کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کم کرنے کے لیے مامون نے مختلف مذاہب و مسالک کے نامور علماء کو دربار بلانا شروع کیا، لیکن اس کا یہ حربہ بھی کارساز نہ ہوا، مناظرے پر بلائے گئے تمام فرقوں کے علماء نے امام (ع) کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے۔ اب پورے خراسان میں امام (ع) کی شہرت کا بول بالا تھا اور مامون ان کے سامنے بالکل بے بس دکھائی دے رہے تھے، اس کی تمام تر تجاویز اور ترکیبیں جواب دے چکی تھیں۔ وقت گزرتا گیا، خشکسالی اور قحط سالی سے رنجیدہ لوگ اپنا مدعا لے کر خلیفہ وقت کے پاس آئے، اب مامون کو پاس امام (ع) کی آزمائش کا ایک اور موقع ہاتھ آیا، وہ لوگوں کو اپنے ساتھ لے کر امام (ع) کی بارگاہ میں آیا اور کہنے لگا: ’’ اے اباالحسن! آپ امام اور اللہ تعالیٰ کی مقرب مخلوق ہیں، آپ ہی بارش کے لیے دعا کیجیے!‘‘
مامون کو پورا یقین تھا کہ بھلا اس چلچلاتی دھوپ میں کیسے بارش ہوسکتی ہے؟! اب امام (ع) بھی دعا سے انکار نہیں کرسکتے اور اگر ہاتھ اٹھا کر بارش کے لیے دعا مانگیں اور بارش نہ ہو تو لوگوں کی نظروں میں امام (ع) کی عظمت ختم جائے گی۔ امام عالی مقام نے فرمایا: "سب نماز استسقاء کے لیے صحرا کی طرف نکل آؤ، امام نے دعا کے لیے ہاتھ بلند کئے، اچانک آسمان سے بادل نمودار ہوئے اور بجلی گرجنے لگی، لوگ بارش کے تصور میں اپنے لیے سر چھپانے کی تلاس میں ادھر ادھر دوڑے۔ امام (ع) نے فرمایا: یہ بادل فلاں علاقے پر برسیں گے، دس مرتبہ بادل نمودار ہوئے اور امام عالی مقام نے بادل برسنے کی جگہ کی نشاندہی کی، اب جو بادل آئے تو امام (ع) نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے یہ بادل تمہارے لیے بھیجا ہے، اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو اور اپنے گھروں کو چلے جاؤ۔"[10]
اس واقعہ نے مامون کی کمر توڑ دی، اب مامون امام (ع) کے سامنے عاجز اور بے بس ہوچکا تھا، خراسان میں قیام کے مختصر عرصہ (صرف دو ہی برسوں) میں امام (ع) کی شہرت آسمانوں کو چھو گئی تھی، لہذا مامون کے پاس امام (ع) کو شہید کرنے کے سوا کوئی اور آپشن نہیں تھا اور آخرکار ایسا ہی ہوا، 201 ہجری کو امام رضا (ع) خراسان تشریف لائے تھے اور 30 صفر 203 ہجری کو امام عالی مقام نے مامون کے ہاتھوں جام شہادت نوش کیا۔
افغانستان میں تقریبی نظریہ کے حامی اور طرفدار علماء کا بہیمانہ قتل
گذشتہ دو ہفتوں ميں افغانستان میں اہلسنت کی مساجد پردہشت گردوں کے بم دھماکوں میں ایسے علماء دین کو نشانہ بنایا گيا جو اسلامی مسالک کے درمیان تقریبی نظریہ رکھتے تھے۔ اطلاعات کے مطابق افغانستان کے دارالحکومت کابل میں کابل یونیورسٹی کے استاد اور وزیر محمد اکبر خان مسجد کے امام مولوی محمد ایاز نیازی کو اس مسجد میں ایک بم دھماکے میں شہید کردیا گیا۔ ادھر صوبہ تخار میں بھی وہابی دہشت گردوں نے مولوی عین اللہ خلیانی کو شہید کردیا جبکہ کابل میں شدت پسندوں نے ایک اور حملے میں مولوی عزیز اللہ مفلح کو شہید کردیا ۔ افغانستان میں ممتاز مذہبی رہنماؤں کا بہیمانہ قتل ایک سوچی سمجھی پالیسی کا حصہ ہے ۔ افغانستان میں شہید ہونے والے علماء اسلامی مسالک کے درمیان اتحاد اور تقریب کے حامی اور طرفدار تھے لہذا وہ طاقتیں جو مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور یکجہتی سے خوفزدہ ہیں ، ان کا ہاتھ افغان علماء کے قتل کے پيچھے نمایاں ہے۔
ایک طرف افغانستان میں صلح کی بات کی جارہی ہے اور دوسری طرف افغانستان کے ممتاز علماء اور تقریبی نظریہ طرفدار اور حامی علماء کا سلسلہ وار قتل اس بات کا مظہر ہے کہ اسلام اور افغان دشمن طاقتیں ان علماء کو درمیان سے اٹھانا چاہتی ہیں جو اسلامی وحدت و یکجہتی کے طرفدار ہیں ۔
افغانستان میں قیام امن کے سلسلے میں افغان حکومت اور طالبان نے قیدیوں کے تبادلے کا آغاز کیا ہے جس کے بعد افغان انٹرا مذاکرات کے آغاز ہونے کا امکان ہوگیا ہے۔ لیکن وہ طاقتيں جو افغانستان سے نکلنا نہیں چاہتیں وہ افغانتسان میں ایک بار پھر دہشت گردی کے ذریعہ افغانیوں کو ایکدوسرے کے خلاف صف آراء کرنا چاہتی ہیں تاکہ ان کا افغانستان میں دائمی حضور برقرار رہے لہذآ افغانستان حکومت کو چآہیے کہ وہ ایسے افراد کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرے جو افغانستان میں دشمن کے ایجنڈے پر کام کررہے ہیں۔
مسئلہ کشمیر عالمی اور اسلامی مسئلہ/ کشمیری عوام بھی فلسطینی عوام کی طرح مظلوم
مہر خبررساں ایجنسی کی اردو سروس کے مطابق پاکستان کی مذہبی اور سیاسی تنظیم ، مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل اور خارجہ پالیسی کے سربراہ علامہ ڈاکٹر شفقت حسین شیرازی نے مہر نیوز کے ساتھ گفتگو میں مسئلہ کشمیر کو عالمی اور اسلامی مسئلہ قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کسی ملک کا اندرونی مسئلہ نہیں یہ ایک عالمی اور اسلامی مسئلہ ہےجس پر عالمی اداروں اور اسلامی ممالک کو خصوصی توجہ دینی چاہیے۔
مہر نیوز: کیا کشمیر بھارت کا اندرونی مسئلہ ہے اور کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے؟ اس بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟
علامہ ڈاکٹر شفقت حسین شیرازی: دنیا جانتی ہے کہ کشمیر بھارت کا اندرونی مسئلہ نہیں بلکہ کشمیر بھارت اور پاکستان کے درمیان ایکد یرینہ متنازعہ مسئۂہ ہے جس پر دونوں ممالک کے درمیان متعدد جنگیں بھی ہوچکی ہیں۔ اقوام متحدہ میںم سئلہ کشمیر پر قرارداد بھی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ کشمیر بھارت کا اندرونی مسئلہ نہیں بلکہ متنازعہ مسئلہ ہے کشمیر میں اقوام متحدہ کے بمصرین کی موجودگی بھی اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ نہیں بلکہ کشمیر بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک متنازعہ مسئلہ ہے۔
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل اور خارجہ امور کے سربراہ علامہ ڈاکٹر شفقت حسین شیرازی نے مہر نیوز کے ساتھ گفتگو میں مسئلہ کشمیر کو عالمی اور اسلامی مسئلہ قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کسی ملک کا اندرونی مسئلہ نہیں یہ ایک عالمی اور اسلامی مسئلہ ہےجس پر عالمی اداروں اور اسلامی ممالک کو خصوصی توجہ دینی چاہیے۔
انھوں نے کہا کہ کشمیر کے حوالے سے بھارت میں قانون سازی کی کوئی حیثيت نہیں ، کشمیر متنازعہ مسئلہ ہے جسے کشمیری عوام کی امنگوں اور اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق حل ہونا چاہیے۔
علامہ شفقت حسین شیرازی نے اپنی گفتگو میں کشمیری مسلمانوں کو فلسطینی مسلمانوں کی طرح مظلوم قراردیتےہوئے کہا کہ دنیا بھر کے باشعور لوگ بھارت کی اس ناپاک سازش سے آگاہ ہیں اور دنیا بالخصوص عالم اسلام کے رہنماوں کی ذمہ داری ہے کہ کشمیر کی مظلوم قوم کی حمایت کرتے ہوئے بھارت پر دباو بنائیں تاکہ جلد از جلد مسئلہ کشمیر کو حل کرایا جائے اور کشمیری عوام کو بھارت مظالم سے نجات دلائی جاسکے۔
علامہ ڈاکٹر شفقت حسین شیرازی نے کا کہنا تھا کہ بھارتی وزراء کی جانب سے تحریک پیش کرنا اور حکومت کا مقبوضہ کشمیر سے متعلق اپنے ہی مختلف قانونی آرٹیکلز میں ردو بدل کرنا نہتے کشمیریوں پر کھلا ظلم اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو للکارنے کے ساتھ ساتھ عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔جس کی ہر پہلو سے مذمت کی جاتی ہے، جہاں اس موقعہ پر کشمیریوں سے اظہار یکجہتی ضروری ہے وہاں حکومت پاکستان کو اپنے ان مظلوم بھائیوں کے لئے واضح پالیسی کا اعلان کر کے ان کی ہر صورت میں اخلاقی اور سیاسی مدد کرنی چاہیے۔
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل نےمہر نیوز کے ساتھ مزید گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان میں ہندو تعصب کو پروان چڑھایا گیا کہ جس کے نتیجے میں ہندو انتہا پسند اور دہشت گرد تنظیم آر ایس ایس سے منسلک نریندر مودی مسند اقتدار پر براجمان ہو جاتا ہے اور اپنی متعصبانہ پالیسیوں سے مسلمانان ہند کے خلاف بالعموم اور کشمیری مسلمانوں کے خلاف بالخصوص ظلم کا بازار گرم کرتاہے۔
انہوں نے کہا کہ آج ہندوستان میں شہریت قانون کے نام پر کروڑوں مسلمانوں کے جذبات سے کھیلا جا رہا ہے اور نریند مودی اپنے ہی ملک کے دستور کے برخلاف کروڑوں مسلمانوں کی شہریت کو منسوخ کرنے کے درپے ہے۔
علامہ شفقت حسین شیرازی نے بھارتی حکومت کی طرف سے کشمیری عوام کے حقوق کو کچلنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ دس ماہ سے زیادہ عرصہ گزرچکا ہے کہ جب، کشمیری مسلمان اپنے بنیادی ترین حقوق سے محروم ہیں۔ ریاستی دہشتگردی کی وجہ سے ہزاروں جوان شہید ہو چکے ہیں، سیکڑوں مسلمان خواتین کی عصمت دری کی گئی ہے اورکشمیر میں ظلم کا نہ رکنے والا ایک سلسلہ جاری ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پوری امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے کہ کشمیری مسلمانوں کی حمایت میں اپنی آواز بلند کریں اور ظلم کی چکی سے نکلنے میں ان کی مدد کریں۔ نریندر مودی جیسا شخص نہ فقط ہندوستان کے لیے بلکہ پورے خطے کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔
انہوں نے مزید کہاکہ جہاں کشمیریوں سے ہمارا ایمانی رشتہ ہے وہاں قائد اعظم محمد علی جناح کے فرمان کی روشنی میں کشمیر پاکستان کی شہ رگ حیات بھی ہے اور جب کوئی کسی کے رشتہ کو پامال کرنے کی سوچے یا اسکی شہ رگ کی جانب ہاتھ اٹھائے تو حق بنتا ہے کہ اس ظالم کے ہاتھ توڑ دیئے جائیں،ہمیں یقین ہے کہ ہمارے مقتدر ادارے اپنے کشمیری بھائیوں کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں اس حوالہ سےان کی بھی مدد کرنا ہمارا اخلاقی اور معاشرتی فریضہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم عرب دنیا میں پوری طاقت کے ساتھ مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرتے آئے ہیں لیکن بدقسمتی سے عرب ممالک کی عوام کو ابھی تک مسئلہ کشمیر کے بارے میں بالکل بھی معلوم نہیں ہے جو کہ امت مسلمہ کی ایک بہت بڑی لاپرواہی اور کمزوری ہے۔
مجلس وحدت مسلمین کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل نے کہا کشمیری عوام کو چاہیے کہ مسئلہ کشمیر کو واضح طور پر پوری دنیا کے سامنے پیش کریں مخصوصا وہ افراد جو کشمیر سے باہر مقیم ہیں ان کی اس سلسلے میں زیادہ ذمہ داری ہے کہ کشمیر میں ہونے والے بھارتی مظالم کو دنیا کے سامنے لائیں تاکہ بھارت کا مکروہ چہرہ پوری دنیا کے سامنے بے نقاب کیا جاسکے۔
علامہ ڈاکٹر شفقت حسین شیرازی نے اپنی گفتگو کے آخر میں کشمیر کے مظلوم اور ستمدیدہ مسلمانوں کی حمایت کا مکمل اعلان کرتے ہوئے کہا کہ کشمیریوں کی حمایت کرنا ہمارا نہ صرف سیاسی بلکہ دینی اور ایمانی فریضہ ہے اور مجلس وحدت مسلمین ہر میدان میں مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرتی رہی ہے اور ہمیشہ کرتی رہے گی۔
فداھا ابوھا حضرت فاطمہ معصومہ (س) کی زندگی پر ایک طائرانہ نظر
تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی
حضرت فاطمہ معصومہ (س) حضرت امام موسٰی کاظم علیہ السلام کی بیٹی، امام علی رضا علیہ السلام کی بہن اور امام محمد تقی جواد علیہ السلام کی پھوپھی ہیں۔ آپ کی ولادت یکم ذیقعد 173 ہجری قمری اور دوسری روایت کے مطابق 183 ہجری قمری میں مدینہ منورہ میں ہوئی۔ آپ کی والدہ ماجدہ کا نام نجمہ اور دوسری روایت کے مطابق خیزران تھا۔ آپ امام موسٰی کاظم علیہ السلام کی سب سے بڑی اور سب سے ممتاز صاحبزادی تھیں۔ شیخ عباس قمی فرماتے ہیں: "امام موسٰی کاظم علیہ السلام کی صاحبزادیوں میں سب سے بافضیلت صاحبزادی فاطمہ تھیں، جو معصومہ کے نام سے مشہور تھیں۔۱۔ آپ کا نام فاطمہ اور سب سے مشہور لقب معصومہ تھا۔ یہ لقب انہیں امام علی ابن موسٰی الرضا علیہ السلام نے عطا فرمایا تھا۔ حضرت فاطمہ معصومہ (س) بچپن سے ہی اپنے بڑے بھائی امام علی رضا علیہ السلام سے بہت مانوس تھیں، انہیں کے پر مرن دامن میں پرورش پائی اور علم و حکمت اور پاکدامنی اور عصمت کے اس بے کران خزانے سے بہرہ مند ہوئیں۔
اس عظیم خاتون کی فضائل کے لئے یہی کافی ہے کہ امام وقت نے تین بار فرمایا: "فداھا ابوھا" یعنی باپ اس پر قربان جائے۔ کتاب "کشف اللئالی" میں مرقوم ہے کہ ایک دن کچھ شیعیان اہلبیت علیہم السلام مدینہ میں داخل ہوئے۔ ان کے پاس کچھ سوالات تھے، جن کا جواب وہ امام موسٰی کاظم علیہ السلام سے لینا چاہتے تھے۔ امام علیہ السلام کسی کام سے شہر سے باہر گئے ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنے سوالات لکھ کر امام علیہ السلام کے گھر دے دیئے کیونکہ وہ جلد واپس جانا چاہتے تھے۔ حضرت معصومہ (س) گھر میں موجود تھیں۔ آپ نے ان سوالات کو پڑھا اور ان کے جواب لکھ کر انہیں واپس کر دیئے۔ وہ بہت خوش ہوئے اور مدینہ سے واپسی کا سفر شروع کر دیا۔ مدینہ سے باہر نکلتے ہوئے اتفاق سے امام موسٰی کاظم علیہ السلام سے ان کی ملاقات ہوگئی۔ انہوں نے سارا واقعہ بیان کیا۔ جب امام علیہ السلام نے ان کے سوالات اور ان سوالات کے جوابات کو دیکھا تو بہت خوش ہوئے اور تین بار کہا: "فداھا ابوھا" یعنی باپ اس پر قربان جائے۔ اس وقت حضرت معصومہ (س) کی عمر بہت کم تھی، لہذا یہ واقعہ آپ کے بے مثال علم اور دانائی کو ظاہر کرتا ہے۔۲۔
مرحوم آیت اللہ مرعشی نجفی (رہ) اپنے والد بزرگوار مرحوم حاج سید محمود مرعشی سے نقل کرتے ہیں نخ حضرت معصومہ (س) کی قبر مطہر اپنی مادر گرامی حضرت فاطمہ زھرا (س) کی گم شدہ قبر کی تجلی گاہ ہے۔ مرحوم نے حضرت فاطمہ زھرا (س) کی قبر کی جگہ معلوم کرنے کے لئے ایک چلہ شروع کیا اور چالیس دن تک اسے جاری رکھا۔ چالیسویں دن انہیں حضرت امام باقر علیہ السلام اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی زیارت نصیب ہوئی۔ امام علیہ السلام نے انہیں فرمایا: "علیک بکریمہ اھل البیت" یعنی تم کریمہ اہلبیت (س) کی پناہ حاصل کرو۔ انہوں نے امام علیہ السلام سے عرض کی: "جی ہاں، میں نے یہ چلہ اسی لئے کاٹا ہے کہ حضرت فاطمہ (س) کی قبر کی جگہ معلوم کر سکوں اور اسکی زیارت کروں۔" امام علیہ السلام نے فرمایا: "میرا مقصود قم میں حضرت معصومہ (س) کی قبر ہے۔" پھر فرمایا: "کچھ مصلحتوں کی وجہ سے خداوند عالم کا ارادہ ہے کہ حضرت فاطمہ زھرا (س) کی قبر کسی کو معلوم نہ ہو اور چھپی رہے۔
امام رضا علیہ السلام کے مجبوراً شہر مرو سفر کرنے کے ایک سال بعد 201ھ قمری میں آپ اپنے بھائیوں کے ہمراہ بھائی کے دیدار اور اپنے امام زمانہ سے تجدید عہد کے قصد سے عازم سفر ہوئیں، راستہ میں جب ساوہ پہنچیں لیکن چونکہ وہاں کے لوگ اس زمانے میں اہلبیت کے مخالف تھے، لہٰذا حکومتی کارندوں کے سے مل کر حضرت اور ان کے قافلے پر حملہ کر دیا اور جنگ چھیڑ دی، جس کے نتیجہ میں حضرت کے ہمراہیوں میں سے بہت سارے افراد شہید ہوگئے۳۔ حضرت غم و الم کی شدت سے مریض ہوگئیں اور شہر ساوہ میں ناامنی محسوس کرنے کی وجہ سے فرمایا: مجھے شہر قم لے چلو، کیونکہ میں نے اپنے بابا سے سنا ہے کہ آپ فرماتے تھے: قم ہمارے شیعوں کا مرکز ہے۔ ۴۔ اس طرح حضرت وہاں سے قم روانہ ہوگئیں۔ بزرگان قم جب اس مسرت بخش خبر سے مطلع ہوئے تو حضرت کے استقبال کے لئے دوڑ پڑے، مویٰ بن خزرج اشعری نے اونٹ کی زمام ہاتھوں میں سنبھالی اور حضرت فاطمہ معصومہ (س) کو اہل قم نے گلبارن کرتے ہوئے موسٰی بن خزرج کے شخصی مکان میں لائے۔۵۔
بی بی مکرمہ نے 17 دنوں تک اس شہر امامت و ولایت میں زندگی گزاری، اس مدت میں ہمیشہ مشغول عبادت رہیں اور اپنے پروردگار سے راز و نیاز کرتی رہیں، اس طرح اپنی زندگی کے آخری ایام خضوع و خشوع الٰہی کے ساتھ بسر فرمائے۔ جس جگہ آج حرم مطہر حضرت معصومہ (س) ہے، یہ اس زمانے میں "بابلان" کے نام سے پہچانی جاتی تھی اور موسٰی بن خزرج کے باغات میں سے ایک باغ تھی۔ حضرت معصومہ (س) کی وفات کے بعد ان کو غسل دیا گیا اور کفن پہنایا گیا۔ پھر انہیں اسی جگہ لایا گیا، جہاں پر ابھی ان کی قبر مطہر ہے۔ آل سعد نے ایک قبر آمادہ کی۔ اس وقت ان میں اختلاف پڑ گیا کہ کون حضرت معصومہ (س) کے بدن اقدس کو اس قبر میں اتارے گا۔ آخرکار اس بات پر اتفاق ہوا کہ ان میں موجود ایک متقی اور پرہیزگار سید یہ کام کرے گا۔ جب وہ اس سید کو بلانے کیلئے جا رہے تھے تو انہوں نے دیکھا کہ ناگہان صحرا میں سے دو سوار آرہے ہیں۔ انہوں نے اپنے چہروں کو نقاب سے چھپا رکھا تھا۔ وہ آئے اور حضرت معصومہ (س) کی نماز جنازہ پڑھانے کے بعد انہیں دفن کرکے چلے گئے۔ کوئی بھی یہ نہیں جان سکا کہ وہ کون تھے۔ اس کے بعد موسٰی بن خزرج نے قبر مطہر کے اوپر کپڑے کا ایک چھت بنا دیا۔ جب امام محمد تقی علیہ السلام کے صاحبزادی زینب قم تشریف لائیں تو انہوں نے حضرت معصومہ (س) کی قبر پر مزار تعمیر کیا۔ کچھ علماء نے یہ احتمال ظاہر کیا ہے کہ بانقاب سوار حضرت امام علی رضا علیہ السلام اور حضرت امام محمد تقی جواد علیہ السلام تھے۔۶۔
امام علی ابن موسٰی الرضا علیہ السلام فرماتے ہیں: "من زار المعصومۃ بقم کمن زارنی" ۷۔ یعنی جس نے قم میں معصومہ (س) کی زیارت کی، گویا اس نے میری زیارت کی۔ حضرت معصومہ (س) کی زیارت کی فضیلت کے بارے میں ائمہ معصومین سے مختلف روایات نقل ہوئی ہیں۔ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: إِنَ لِلّهِ حَرَماً وَ هُوَ مَکَةُ وَ إِنَ لِلرَّسُولِ (ص) حَرَماً وَ هُوَ الْمَدِینَهُ وَ إِنَ لِأَمِیرِالْمُؤْمِنِینَ(ع) حَرَماً وَ هُوَ الْکُوفَهُ وَ إِنَ لَنَا حَرَماً وَ هُوَ بَلْدَهٌ قُمَّ وَ سَتُدْفَنُ فِیهَا امْرَأَهٌ مِنْ أَوْلَادِی تُسَمَّی فَاطِمَةَ فَمَنْ زَارَهَا وَ جَبَتْ لَهُ الْجَنَةُ؛۸۔
"خدا کا ایک حرم ہے جو کہ مکہ میں ہے، رسول خدا کا ایک حرم ہے جو کہ مدینہ ہے، امیر المومنین کا ایک حرم ہے جو کہ کوفہ ہے اور ہم اہل بیت کا حرم ہے جو کہ قم ہے اور عنقریب میری اولاد میں سے موسٰی بن جعفر کی بیٹی قم میں وفات پائے گی، اس کی شفاعت کے صدقے ہمارے تمام شیعہ بہشت میں داخل ہوں گے۔"
ایک اور بیان کے مطابق آپکی زیارت کا اجر بہشت ہے۔ امام جواد علیہ السلام نے فرمایا: "جو کوئی قم میں پورے شوق اور معرفت سے میری پھوپھی کی زیارت کرے گا، وہ اہل بہشت ہوگا"۹۔ حضرت فاطمہ زھرا (س) کے بعد وسیع پیمانے پر شفاعت کرنے میں کوئی خاتون شفیعہ محشر، حضرت معصومہ (س) بنت امام موسٰی کاظم علیہ السلام کے ہم پلہ نہیں ہے۔" امام جعفر صادق علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں: "تدخل بشفاعتہا شیعتناالجنۃ باجمعھم" یعنی ان کی شفاعت سے ہمارے تمام شیعیان بہشت میں داخل ہو جائیں گے۔"
منابع:
1۔ منتہی الآمال، ج۲، ص۳۷۸
2۔ کریمہ اہل بیت، ص ۶۳ و ۶۴ نقل از کشف اللئالی
3۔ دلائل الامامہ ص/ ۳۰۹
4۔ زندگانی حضرت معصومہ/آقائے منصوری: ص/ ۱۴، بنقل از ریاض الانساب تالیف ملک الکتاب شیرازی
5۔ دریائے سخن تاٴلیف سقازادہ تبریزی: ص/۱۲، بنقل از ودیعہ آل محمد صل اللہ علیہ و آلہ/ آقائے انصاری
6۔ تاریخ قدیم قم ص/ ۲۱۳
7۔ مستدرک سفینہ البحار، ص۵۹۶؛ النقض، ص۱۹۶. بحارالانوار، ج۵۷، ص۲۱۹.
8۔ ریاحین الشریعۃ، ج۵، ص۳۵.
9۔ کامل الزیارات، ص۵۳۶، ح۸۲۷؛ بحارالانوار، ج۱۰۲، ص۲۶۶.
بیٹی گلدستہ گھرانہ
تحریر: مظفر حسین کرمانی
اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت بیٹی کا وجود ہے۔ پروردگار جب کسی انسان پر بہت مہربان اور اس کے لئے بہتری چاہتا ہے تو اسے بیٹی عنایت کرتا یے۔ بیٹیاں دراصل کسی بھی گھرانے کی رونق ہوتی ہیں، ان کے وجود بابرکت سے ہی گھر چہکتا و دمکتا ہے۔ اگر کسی گھر سے بیٹی کا وجود اٹھا لیا جائے تو وہ گھر ایک ویران عمارت کی مانند ہو جاتا ہے، کیونکہ کسی بھی گھر کو رونق بخشنے والی بیٹیاں ہیں۔ عموماً بیٹوں نے اپنی رونقیں باہر کی دنیا سے وابستہ کی ہوئی ہوتی ہیں، لیکن بیٹیوں کے لئے ان کا گھر ہی سب کچھ ہوتا یے۔ آپ نے مشاہدہ کیا ہوگا کہ بیٹیاں بہت کم عمری میں ہی گھر کے مسائل پر توجہ دینا اور ان کا ادراک کرنا شروع کر دیتی ہیں، انہیں حل کرنے کی جستجو اور کوشش میں ہوتی ہیں، جبکہ بیٹے بعض اوقات بڑے ہو کر بھی لاپرواہ اور ان مسائل کی بابت اس حد تک حساس نہیں ہوتے۔
اسلام نے بیٹیوں کو بہت عزت اور شرف سے نوازا ہے۔ اسلام سے قبل جاہلیت کے دور میں خواہ مشرق ہو یا مغرب، عورتوں کو بالکل عزت نہیں دی جاتی تھی، حتیٰ انہیں انسان تک نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اسے آدھی مخلوق، منحوس، پلیدی کی علامت اور اس طرح کی دیگر خرافات لوگوں نے بنا رکھی تھیں، جس کی بنیاد پر کسی کے ہاں بیٹی پیدا ہو جائے تو وہ اپنے لئے بہت ہی شرم محسوس کرتا تھا، و چہ بسا انہیں زندہ دفن کر دیا جاتا تھا۔ اسلام نے آکر ان جاہلیت اور خرافاتی افکار کا خاتمہ کیا اور عورتوں و بیٹیوں کو وہ عزت اور مقام دیا، جو ان کے شایان شان یے۔ حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی ولادت پر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو خبر دی گئی کہ انکے ہاں بیٹی ہوئی ہے تو آپ نے دیکھا کہ اصحاب کے چہرے اتر گئے ہیں، آپ نے ان کی طرف نگاہ کی اور ان کی اس حرکت پر مذمت کرتے ہوئے فرمایا "کیوں تمہیں اس خوشخبری سے کراہت محسوس ہو رہی ہے، بیٹی وہ پھول ہے کہ جس کی خوشبو کو میں سونگھوں گا و استشمام کرونگا اور اس کے رزق کا ذمہ بھی اللہ تعالیٰ نے خود لیا ہے۔"(من لا یحضر الفقیہ ج 3 ص 482)
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آئمہ معصومین علیہم السلام سے بیٹیوں کی عظمت کے بارے میں متعدد احادیث و روایات منقول ہیں، جن میں بیٹیوں کو گھر کی برکت، گھر کا پھول، باقیات الصالحات، قرب خداوندی کا ذریعہ اور ماں باپ کے لئے باعث نجات عذاب آخرت قرار دیا گیا ہے۔ بیٹیوں کی اچھی تربیت اور انہیں تعلیم سے آراستہ کرنے والے کو بہت ہی اجر عظیم دینے کا وعدہ کیا گیا یے، حتیٰ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنت میں ایسے شخص کو اپنے نزدیک افراد میں شمار کیا ہے۔
امریکی اور مغربی دباو کے مقابلے میں ایران کی استقامت
1)۔ امریکہ اور مغربی ممالک کی جانب سے ایران کے جوہری پروگرام کو بہانہ بنا کر شدید دباو ڈالا گیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ جن امور کا سہارا لے کر ایران پر سیاسی اور اقتصادی دباو ڈالا گیا ان کا ایران کے جوہری پروگرام سے دور دور تک کا کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔ امریکہ اور مغربی ممالک کا اصلی ترین مقصد ایران کو اسلامی انقلاب سے پہلے والی حالت میں واپس لوٹانا ہے جب ایران مغرب کی کالونی کی حیثیت رکھتا تھا۔
2)۔ اس وقت ایران کے دشمن ممالک کے پاس جو واحد ہتھکنڈہ باقی بچ گیا ہے وہ اقتصادی نوعیت کا ہے۔ یہ بات منطقی لحاظ سے بھی انتہائی واضح ہے اور امریکہ اور مغربی حکمرانوں کے اعترافات بھی اس پر دلالت کرتے ہیں کہ اگر ان کے پاس اقتصاد سے ہٹ کر جنگ یا فوجی ہتھکنڈہ ہوتا تو وہ اسے ضرور ایران کے خلاف بروئے کار لاتے۔ کیونکہ اقتصادی جنگ کے مقابلے میں فوجی جنگ بہت زیادہ آسان اور کم پیچیدگیوں کی حامل ہے۔ لہذا اگر امریکہ اور مغربی ممالک ایران کے خلاف شدیدترین بیان بازی کے بعد اقتصادی ہتھکنڈے بروئے کار لا رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے پاس فوجی ہتھکنڈہ استعمال کرنے کا آپشن موجود نہیں ہے۔
3)۔ دشمن ممالک کی جانب سے اسلامی جمہوریہ ایران پر اقتصادی دباو بذات خود اصلی مقصد نہیں بلکہ وہ ایرانی حکمرانوں اور عوام کی سوچ اور اعتقادات پر اثرانداز ہونا چاہتے ہیں۔ جیسا کہ ایران کے خلاف پابندیوں کا بانی رچرڈ نفیو اپنی کتاب "پابندیوں کا فن" میں اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ اقتصادی پابندیاں ایرانی حکومت اور عوام کی سوچ تبدیل کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ اصل مقصد ایران کو امریکہ اور یورپ کا پیرو اور تابعدار بنانا ہے۔
4)۔ امریکہ کی بنیادی پالیسیوں میں ریپبلکن پارٹی اور ڈیموکریٹک پارٹی میں کوئی فرق نہیں۔ اگرچہ ایران اور دنیا کے دیگر ممالک میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ ریپبلکن پارٹی سے وابستہ سیاست دان شدت پسندانہ سوچ جبکہ ڈیموکریٹک پارٹی سے وابستہ سیاست دان پرامن سوچ کے مالک ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ وحشیانہ پن اور بربریت میں ڈیموکریٹک پارٹی کسی طور ریپبلکن پارٹی سے کم نہیں ہے۔ اسے ثابت کرنے کیلئے بہت سے شواہد موجود ہیں۔ مثال کے طور پر ایران کے خلاف سب سے زیادہ تعداد میں اور سب سے زیادہ موثر اقتصادی پابندیاں براک اوباما کے دور میں عائد کی گئی تھیں۔ اس بات کی تصدیق امریکہ کے اعلی سطحی مذاکرات کار ویلیم برنز نے اپنی کتاب "درپردہ کینال" میں کی ہے۔
5)۔ دشمن کے ہاتھ میں موجود واحد ہتھکنڈے کے طور پر اقتصادی پابندیاں بھی بے نہایت اور نامحدود نہیں ہیں۔ جیسا کہ رچرڈ نفیو نے بھی اپنی کتاب میں اس بات کا اعتراف کیا ہے اور امریکی اور یورپی حکمران بھی اس کا اظہار کر چکے ہیں ایران کے خلاف اقتصادی پابندیاں ایک حد تک موثر ہیں۔ اس وقت ایران کے خلاف عائد پابندیاں اپنی شدید ترین حد تک ہیں۔ لہذا جب ڈونلڈ ٹرمپ نے دعوی کیا کہ وہ ایران کے خلاف وسیع ترین پابندیاں لگانا چاہتے ہیں تو رچرڈ نفیو نے اس کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا: "میں یہ بات سن کر بہت خوش ہوا ہوں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ تمام پابندیاں 2011ء میں ہی عائد کر دی گئی تھیں۔ لہذا یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔"
البتہ امریکہ اور مغربی ممالک اقتصادی پابندیوں کو زیادہ موثر بنانے کیلئے نفسیاتی جنگ کا سہارا لیتے ہیں اور اقتصادی دباو کے ساتھ ساتھ نفسیاتی دباو بھی بروئے کار لاتے ہیں۔ گذشتہ سترہ برس کے دوران اسلامی جمہوریہ ایران نے امریکہ اور مغربی ممالک کے جارحانہ اقدامات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے اور اپنے مسلمہ حقوق کا دفاع کیا ہے۔ ایک وقت وہ تھا جب امریکہ اور مغربی ممالک ایران میں حتی ایک سنٹریفیوج بھی چلنے کے مخالف تھے لیکن ایران کی استقامت اور شجاعت کے باعث محدود پیمانے پر یورینیم انرچمنٹ کا حق حاصل کر چکا ہے۔