سلیمانی

سلیمانی

تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی

مباہلہ کا لغوی معنی ایک دوسرے پر لعن و نفرین کرنے کے ہیں۔۱۔ جبکہ اصطلاح میں مباہلہ سے مراد دو افراد یا دو گروہ جو اپنے آپ کو حق بجانب سمجھتے ہیں، دونوں ایک دوسرے کے مقابلے میں بارگاہ الہیٰ میں دعا اور نفرین کرتے ہیں کہ خداوند متعال جھوٹے پر لعنت کرے اور جو باطل پر ہے، اس پر اللہ کا غضب نازل ہو، تاکہ جو حق پر ہے اسے پہچانا جائے۔۲۔ مباہلہ ایک مشہور واقعہ ہے، جسے سیرت ابن اسحاق اور تفسیر ابن کثیر میں تفصیل سے لکھا گیا ہے۔ فتح مکہ کے بعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نجراں کے نصاریٰ کی طرف خط لکھا، جس میں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔ جس میں یہ تین چیزیں شامل  تھیں۔ اسلام قبول کرو یا جزیہ ادا کرو یا جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ۔ نصاریٰ نجراں نے اس مسئلہ پر کافی غور و فکر کرنے کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ ساٹھ افراد پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جائے، جو حقیقت کو سمجھنے اور جاننے کے لئے مدینہ روانہ ہو۔ نجران کا یہ قافلہ بڑی شان و شوکت اور فاخرانہ لباس پہنے مدینہ منورہ میں داخل ہوتا ہے۔ میر کارواں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر کا پتہ پوچھتا ہے، معلوم ہوا کہ پیغمبر اپنی مسجد میں تشریف فرما ہیں۔

کارواں مسجد میں داخل ہوتا ہے، پیغمبر نے نجران سے آئے افراد کی نسبت بے رخی ظاہر کی، جو کہ ہر ایک کیلئے سوال بر انگیز ثابت ہوئی۔! آخر کیوں، ہمیشہ کی طرح اس بار بھی حضرت علی علیہ السلام نے اس مشکل کو حل کر دیا۔ آپ نے عیسائیوں سے کہا کہ آپ تجملات اور سونے جواہرات کے بغیر، عادی لباس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو جائیں، آپکا استقبال ہوگا۔ اب کارواں عادی لباس میں حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس وقت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کا گرم جوشی سے استقبال کیا اور انہیں اپنے پاس بٹھایا۔ میر کارواں ابو حارثہ نے گفتگو شروع کی: آنحضرت کا خط موصول ہوا، مشتاقانہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں، تاکہ آپ سے گفتگو کریں۔ آپ نے فرمایا: شرک اور الحاد کو چھوڑ کر خدای واحد کے فرمان کو قبول کرکے دین اسلام کو قبول کریں۔ نصاریٰ نجران نے کہا: اگر آپ اسلام قبول کرنے کو ایک خدا پر ایمان لانے کو کہتے ہو تو ہم پہلے سے ہی خدا پر ایمان رکھتے ہیں۔

آپ نے فرمایا: اگر آپ حقیقت میں خدا پر ایمان رکھتے ہو تو عیسیٰ مسیح کو کیوں خدا مانتے ہو اور سور کا گوشت کھانے سے کیوں اجتناب نہیں کرتے؟ انہوں نے جواب دیا: اس کے بارے میں ہمارے پاس بہت سارے دلائل ہیں؛ عیسیٰ مردوں کو زندہ کرتے تھے، اندھوں کو بینائی عطا کرتے تھے، جذام اور برص میں مبتلا مریضوں کو شفا بخشتے تھے۔ آپ نے فرمایا: خدائے واحد نے انہیں ان اعزازات سے نوازا تھا، اس لئے عیسیٰ مسیح کی عبادت کرنے کے بجائے  خدا کی عبادت کرنی چاہئئے۔ پادری یہ جواب سن کر خاموش ہوا اور اس دوراں کارواں میں شریک کسی اور نے اس خاموشی کو توڑتے ہوا کہا: عیسیٰ خدا کا بیٹا ہے، کیونکہ ان کی والدہ مریم نے کسی کے ساتھ نکاح کئے بغیر انہیں جنم دیا ہے۔ اس دوران اللہ نے اپنے حبیب کو اس کا جواب وحی فرمایا: "إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِندَ اللّهِ كَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَهُ مِن تُرَابٍ ثِمَّ قَالَ لَهُ كُن فَيَكُونُ"۔۳۔ "عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم جیسی ہے کہ انہیں مٹی سے پیدا کیا اور پھر کہا ہو جا اور وہ ہوگیا۔"

اس جواب کے بعد خاموشی چھا گئی اور سب بڑے پادری کو دیکھتے رہے اور وہ خود شرحبیل کے کچھ کہنے کے انتظار میں ہے اور خود شرحبیل خاموش سر جھکائے بیٹھا ہے۔ آخرکار اس رسوائی سے اپنے آپ کو بچانے کیلئے بہانہ بازی پر اتر آئے اور کہنے لگے کہ ان باتوں سے ہم مطمئن نہیں ہوئے ہیں، اس لئے ضروری ہے کہ سچ کو ثابت کرنے کے لئے مباہلہ کیا جائے۔ خدا کی بارگاہ میں دست بہ دعا ہو کر جھوٹے پر عذاب کی درخواست کریں۔ ان کا خیال تھا کہ ان باتوں سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ اتفاق نہیں کریں گے، لیکن ان کے ہوش آڑ گئے جب انہوں نے سن لیا: "فَمَنْ حَآجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاءنَا وَأَبْنَاءكُمْ وَنِسَاءنَا وَنِسَاءكُمْ وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَةُ اللّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ"۔۴۔ "پیغمبر علم کے آجانے کے بعد جو لوگ آپ سے کٹ حجتی کریں، ان سے کہہ دیجئے کہ آو ہم لوگ اپنے اپنے فرزند، اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں اور پھر خدا کی بارگاہ میں دعا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں۔"

روایات کے مطابق جب مباہلہ کی دعوت دی گئی تو نجران کے عیسائیوں کے نمائندے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے اور آپ سے مہلت چاہی، تاکہ اس بارے میں اپنے بزرگوں سے مشورہ کر لیں۔ عیسائیوں کے مابین یہ طے پایا کہ اگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شور و غل، مجمع اور داد و فریاد کے ساتھ مباہلہ کے لیے آئیں تو ڈرا نہ جائے اور مباہلہ کر لیا جائےو کیونکہ اگر اس طرح آئیں تو پھر حقیقت کچھ بھی نہیں ہے اور اگر وہ بہت محدود افراد کے ساتھ آئیںو بہت قریبی خواص اور چھوٹے بچوں کو لے کر وعدہ گاہ میں پہنچیں تو پھر جان لینا چاہیئے کہ وہ خدا کے پیغمبر ہیں اور اس صورت میں ان سے مباہلہ کرنے سے پرہیز کرنا چاہیئے، کیونکہ اس صورت میں معاملہ خطرناک ثابت ہوگا۔

روز مباہلہ کی صبح کو حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے گھر تشریف لے گئے، امام حسن علیہ السلام کا ہاتھ پکڑ لیا اور امام حسین علیہ السلام کو گود میں اٹھایا اور حضرت علی علیہ السلام اور حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے ہمراہ مباہلے کی غرض سے مدینہ سے باہر نکلے۔ جب نصاریٰ نے ان بزرگواروں کو دیکھا تو ان کے سربراہ ابو حارثہ نے پوچھا: یہ لوگ کون ہیں، جو محمد (ص) کے ساتھ آئے ہیں۔؟ جواب ملا کہ: وہ جو ان کے آگے آگے آرہے ہیں، ان کے چچا زاد بھائی، ان کی بیٹی کے شریک حیات اور مخلوقات میں ان کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہیں، وہ دو بچے ان کے فرزند ہیں، ان کی بیٹی سے اور وہ خاتون ان کی بیٹی فاطمہ ہیں، جو خلق خدا میں ان کے لیے سب سے زیادہ عزیز ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مباہلے کے لیے دو زانو بیٹھ گئے۔

ابو حارثہ نے کہا: خدا کی قسم! محمد (ص) کچھ اس انداز میں زمین پر بیٹھے ہیں، جس طرح کہ انبیاء علیہم السلام مباہلے کے لیے بیٹھا کرتے تھے اور پھر پلٹ گیا۔ عیسائی افراد نے پوچھا: کہاں جا رہے ہو۔؟ ابو حارثہ نے کہا: اگر محمد (ص) برحق نہ ہوتے تو اس طرح مباہلے کی جرات نہ کرتے اور اگر وہ ہمارے ساتھ مباہلہ کریں تو ایک سال گزرنے سے پہلے پہلے ایک نصرانی بھی روئے زمین پر باقی نہ رہے گا۔ ایک  اور روایت میں بیان ہوا ہے کہ: ابو حارثہ نے کہا: میں ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں کہ اگر وہ خدا سے التجا کریں کہ پہاڑ کو اپنی جگہ سے اکھاڑ دے تو بےشک وہ اکھاڑ دیا جائے گا۔ پس مباہلہ مت کرو، ورنہ ہلاک ہو جاؤ گے اور حتیٰ ایک عیسائی بھی روئے زمین پر باقی نہ رہے گا۔

اس کے بعد ابو حارثہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا: اے ابا القاسم! ہمارے ساتھ مباہلے سے چشم پوشی کریں اور ہمارے ساتھ مصالحت کریں، ہم ہر وہ چیز ادا کرنے کے لیے تیار ہیں، جو ہم ادا کر سکیں۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے ساتھ مصالحت کرتے ہوئے فرمایا کہ انہیں ہر سال دو ہزار حلے (یا لباس) دینے پڑیں گے اور ہر حلے کی قیمت 40 درہم ہونی چاہیئے، نیز اگر یمن کے ساتھ جنگ چھڑ جائے تو انہیں 30 زرہیں، 30 نیزے، 30 گھوڑے مسلمانوں کو عاریتاً دینا پڑیں گے اور آپ (ص) خود اس ساز و سامان کی واپسی کے ضامن ہونگے۔ اس طرح آنحضرت (ص) نے صلحنامہ لکھوایا اور عیسائی نجران پلٹ کر چلے گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے بعد فرمایا: اس خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کہ ہلاکت اور تباہی نجران والوں کے قریب پہنچ چکی تھی۔ اگر وہ میرے ساتھ مباہلہ کرتے تو بے شک سب بندروں اور خنزیروں میں بدل کر مسخ ہو جاتے اور بے شک یہ پوری وادی ان کے لیے آگ کے شعلوں میں بدل جاتی اور حتیٰ کہ ان کے درختوں کے اوپر کوئی پرندہ باقی نہ رہتا اور تمام عیسائی ایک سال کے عرصے میں ہلاک ہو جاتے۔۵۔

شیعہ، سنی مفسرین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ آیت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نجران کے نصاریٰ کے مناظرے کی طرف اشارہ کرتی ہے، کیونکہ نصاریٰ (عیسائیوں) کا عقیدہ تھا کہ حضرت عیسی (ع) تین اقانیم میں سے ایک اقنوم ہے، وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں قرآن کریم کے بیان سے متفق نہیں تھے، جو انہیں خدا کا پارسا بندہ اور نبی سمجھتا ہے۔۶۔ اہل سنت کے مفسرین جیسے: زمخشری، نے اپنی کتاب تفسیر الکشاف، اور فخر رازی نے اپنی تفسیر التفسیر الکبیر اور بیضاوی نے اپنی تفسیرالبیضاوی میں اور دیگر مفسرین کے مطابق  ابناءنا (ہمارے بیٹوں) سے مراد امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام ہیں اور "نسا‏‏ءنا " سے مراد  حضرت فاطمہ زہراء علیہا السلام اور "انفسنا" ہمارے نفس اور ہماری جانوں سے مراد حضرت علی علیہ السلام ہیں۔

یعنی وہ چار افراد جو آنحضرت (ص) کے ساتھ مل کر پنجتن آل عبا یا اصحاب کساء کو تشکیل دیتے ہیں اور اس آیت کے علاوہ بھی زمخشری اور فخر رازی کے مطابق آیت تطہیر اس آیت کے بعد ان کی تعظیم اور ان کی طہارت پر تصریح و تاکید کے لیے نازل ہوئی ہے، ارشاد ہوتا ہے: إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً۔۷۔ "بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اہل بیت کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور  اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔" تاریخ میں متعدد بار اہل بیت علیہم السلام کی حقانیت کے اثبات کے لیے واقعہ مباہلہ سے استناد و استدلال کیا گیا ہے اور اس واقعے سے استدلال امیر المؤمنین علیہ السلام، امام حسن علیہ السلام، امام حسین علیہ السلام اور باقی آئمہ معصومین علیہم السلام کے کلام میں ملتے ہیں۔ ہارون عباسی نے امام کاظم علیہ السلام سے کہا: آپ یہ کیوں کہتے ہیں کہ ہم رسول خدا کی نسل سے ہیں، حالانکہ رسول خدا کی کوئی نسل نہیں ہے، کیونکہ نسل بیٹے سے چلتی ہے نہ کہ بیٹی سے، اور آپ رسول خدا (ص) کی بیٹی کے اولاد ہیں۔؟

امام کاظم علیہ السلام نے فرمایا: وَوَهَبْنَا لَهُ إِسْحَقَ وَيَعْقُوبَ كُلاًّ هَدَيْنَا وَنُوحاً هَدَيْنَا مِن قَبْلُ وَمِن ذُرِّيَّتِهِ دَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ وَأَيُّوبَ وَيُوسُفَ وَمُوسَى وَهَارُونَ وَكَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ ۔ وَزَكَرِيَّا وَيَحْيَى وَعِيسَى وَإِلْيَاسَ كُلٌّ مِّنَ الصَّالِحِينَ"۔۸۔ "اور ہم نے ابراہیم کو اسحاق و یعقوب دیئے اور سب کو ہدایت بھی دی اور اس کے پہلے نوح کو ہدایت دی اور پھر ابراہیم کی اولاد میں داؤد، سلیمان، ایوب، یوسف، موسیٰ اور ہارون قرار دیئے اور ہم اسی طرح نیک عمل کرنے والوں کو جزا دیتے ہیں اور زکریا، یحییٰ، عیسیٰ اور الیاس کو بھی رکھا، جو سب کے سب نیک کرداروں میں تھے۔" حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا باپ کون ہے۔؟ ہارون نے کہا: ان کا کوئی باپ نہیں۔؟ امام (ع) نے فرمایا: پس خداوند متعال نے مریم سلام اللہ علیہا کے ذریعے انہیں انبیاء کی نسل سے ملحق فرمایا ہے اور ہمیں بھی ہماری والدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کے ذریعے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسل سے ملحق فرمایا ہے۔

امام نے فرمایا: اور جواب دوں۔؟ ہارون نے کہا: ہاں بولیں، چنانچہ امام علیہ السلام نے آیت مباہلہ کی تلاوت فرمائی اور فرمایا: کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نصاریٰ نجران کے ساتھ مباہلہ کے لیے علی بن ابی طالب، فاطمہ اور حسن و حسین، کے سوا کسی اور کو کساء کے نیچے جگہ دی ہے! پس آیت میں ہمارے بیٹوں "ابنائنا" سے مراد حسن و حسین، ہماری خواتین "نسائنا" سے مراد فاطمہ اور ہماری جانوں "انفسنا" سے مراد علی بن ابی طالب ہیں۔۹۔ پس خداوند نے آیت مباہلہ میں امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیٹے قرار دیا ہے اور یہ واضح ترین ثبوت ہے، اس بات کا کہ امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام اور دیگر اہل بیت علیہم السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسل اور ذریت ہیں۔

مامون عباسی نے امام رضا علیہ السلام سے کہا: امیر المؤمنین (ع) کی عظیم ترین فضیلت جس کی دلیل قرآن میں موجود ہے، کیا ہے۔؟ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: امیر المؤمنین علیہ السلام کی فضیلت مباہلہ میں اور پھر آیت مباہلہ کی تلاوت کرتے ہوئے فرمایا:رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امام حسن علیہ السلام اور امام حسین  علیہ السلام، جو آپ کے بیٹے ہیں، کو بلوایا اور حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کو بلوایا جو آیت میں "نسائنا" کا مصداق ہیں اور امیر المؤمنین علیہ السلام کو بلوایا جو اللہ کے حکم کے مطابق "انفسنا" کا مصداق اور نفس رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی جان ہیں اور یہ ثابت ہے کہ کوئی بھی مخلوق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات با برکت سے زیادہ جلیل القدر اور افضل نہیں ہے، پس کسی کو بھی رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نفس و جان سے بہتر نہیں ہونا چاہیے۔

مامون نے کہا: خداوند نے "ابناء" کو صیغہ جمع کے ساتھ بیان کیا ہے، جبکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صرف اپنے دو بیٹوں کو ساتھ لائے ہیں، "نساء" بھی جمع ہے، جبکہ آنحضرت صرف اپنی ایک بیٹی کو لائے ہیں، پس یہ کیوں نہ کہیں کہ "انفس" کو بلوانے سے مراد رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اپنی ذات ہے اور اس صورت میں جو فضیلت آپ نے امیر المؤمنین (ع) کے لیے بیان کی ہے، وہ خود بخود ختم ہو جاتی ہے۔ امام رضا علیہ السلام نے جواب دیا: نہیں، یہ درست نہیں ہے، کیونکہ دعوت دینے والا اور بلانے والا اپنی ذات کو نہیں، بلکہ دوسروں کو بلاتا ہے، آمر کی طرح جو اپنے آپ کو نہیں بلکہ دوسروں کو حکم دیتا ہے اور چونکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مباہلہ کے وقت علی بن ابی طالب علیہ السلام  کے سوا کسی اور مرد کو نہیں بلوایا، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ علی علیہ السلام وہی نفس ہیں، جو کتاب اللہ میں اللہ کا مقصود و مطلوب ہے اور اس کے حکم کو خدا نے قرآن میں قرار دیا ہے۔۱۰۔

عامر ابن سعد ابن ابی وقاص سعد ابن ابی وقاص سے نقل کرتا ہے کہ: معاویہ نے سعد سے کہا: تم علی پر سب و شتم کیوں نہیں کرتے ہو۔؟ سعد نے کہا: جب تک مجھے تین چیزیں یاد ہیں، میں کبھی بھی ان پر سبّ و شتم نہیں کروں گا اور اگر ان تین باتوں میں سے ایک کا تعلق مجھ سے ہوتا تو میں اس کو سرخ بالوں والے اونٹوں سے زیادہ دوست رکھتا، بعد ازاں سعد ان تین باتوں کا ذکر کرتا ہے اور کہتا ہے کہ: اور تیسری بات یہ تھی کہ جب آیت: فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاءنَا وَأَبْنَاءكُمْ وَنِسَاءنَا وَنِسَاءكُمْ وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَكُمْ...نازل ہوئی، تو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی، فاطمہ اور حسن و حسین علیہم السلام کو اپنے پاس بلایا اور فرمایا: اللهم هؤلاء اهل بيتي، یعنی خداوندا! یہ میرے اہل بیت ہیں۔۱۱۔

حضرت عائشہ سے پوچھا گیا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے اصحاب میں سب سے افضل کون ہے؟ انہوں نے جواب دیا: ابوبکر، عمر، عثمان، طلحہ اور زبیر۔ ان سے دوبارہ سوال ہوا پھر علی ابن ابی طالب کس درجہ پر فائز ہیں۔؟ انہوں نے جواب دیا: تم لوگوں نے اصحاب کے بارے میں سوال کیا تھا، نہ اس شخص کے بارے میں جو نفس پیغمبر تھے۔ اس کے بعد آیت مباہلہ کی تلاوت کی، اس کے بعد کہا: پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے اصحاب کس طرح اس شخص کی مانند ہوسکتے ہیں، جو نفس پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔۱۲۔ اسی طرح احمد ابن حنبل کے بیٹے عبداللہ نے اپنے باپ سے پوچھا خلفاء کی افضلیت کے بارے میں آپ کا کیا نظریہ ہے۔؟ انہوں نے جواب دیا: ابو بکر، عمر اور عثمان اسی ترتیب کے ساتھ افضلیت رکھتے ہیں۔ عبداللہ نے دوبارہ پوچھا پھر علی ابن ابی طالب علیہ السلام کس درجے پر فائز ہیں۔؟ انہوں نے جواب دیا کہ اے بیٹے: علی ابن ابی طالب کا تعلق ایسے خاندان سے ہے کہ کسی کو ان کے ساتھ مقایسہ نہیں کیا جا سکتا۔۱۳۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
۱۔ الجوہری، اسمعیل بن حماد، الصحاح، 1407
۲۔ طبرسی، تفسیر مجمع البیان، ج2، ص 762 تا 761
۳۔ آل عمران ۵۹
۴۔ سورہ آل عمران۶۱
۵۔ الطبرسی، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، 1415، ج 2، ص 310
۶۔ توضیحات و واژه نامه از بهاءالدین خرمشاهی، 1376.ذیل آیه مباهله، ص 57
۷۔ احزاب، 33
۸۔انعام،۸۴۔۸۵۔
۹۔ الطباطبائی، محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ص۲۲۹-۲۳۰۔
۱۰۔ المفید، الفصول المختاره، التحقیق: السید میر علی شریفی، بیروت: دار المفید، الطعبة الثانیة، 1414، ص 38۔
۱۱۔ الطباطبائی، محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ذیل آیت 61 آل عمران۔
۱۲۔ البیہقی، المحاسن ج1 ص 39، الامام الصادق و المذاہب الاربعۃ، ج1، ص 574۔
۱۳۔ طبقات الحنابلۃ، ج2، ص 120 الامام الصادق و المذاہب الاربعۃ، ج1، ص 575۔

حزب اللہ لبنان کے سربراہ سید حسن نصر اللہ نے لبنانی عوام سے اپنے خطاب میں بیروت کی بندرگاہ پر ہونے والے دھماکے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ بیروت میں ہونے والے المناک  دھماکے کے مختلف شعبوں میں خطرناک اثرات مرتب  ہوسکتے ہیں۔

حزب اللہ لبنان کے سربراہ نے کہا کہ بیروت دھماکے سے قبل میں اپنے خطاب میں اسرائیل کے ساتھ سرحدی کشیدگی اور بعض دیگر موضوعات کے بارے میں گفتگو کرنا چاہتا تھا میرے خطاب سے ایک دن قبل دھماکہ ہوا جس کے بعد میں نے اپنا خطاب بدھ کے دن ملتوی کردیا اور اب میں دیگر مسائل کو چھوڑ کر صرف بیروت کے المناک  دھماکے کے بارے میں گفتگو کروں گا۔

سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ میں اس المناک حادثہ میں متاثرہ خاندانوں کو تعزيت اور تسلیت پیش کرتا ہوں۔ اس حادثے کے شہداء کے درجات کی بلندی اور زخمیوں کی جلد از جلد صحتیابی کے لئے دعا کرتا ہوں۔

انھوں نے کہا کہ لبنان کی  تاریخ میں یہ المناک حادثہ بے نظیر ہے اور ہمیں امید ہے کہ لبنان کی مضبوط اور پائدار قوم اس عظیم حادثے سے عبور کرجائے گي۔ لبنان کی تاریخ میں یہ ایک استثنائی حادثہ رونما ہوا ہے۔ یہ دھماکہ لبنانی تاریخ کا المناک دھماکہ ہے۔ اس المناک حادثے میں لبنانی عوام نے 150 سے زائد شہید دیئے ہیں جبکہ ہزاروں افراد زخمی ہوئے ہیں۔ ہم اس غم میں ایکدوسرے کے ساتھ شریک ہیں۔ اس المناک حادثے سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔

سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ اس دھماکے کے مختلف شعبوں پر خطرناک  اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ انھوں نے اس حادثے کے بعد لبنانی حکومت اور عوام کے ساتھ عالمی سطح پر ہمدردی اور یکجہتی کے اظہارات  کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ عالمی سطح پر امداد کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ حزب اللہ نے بھی لبنانی حکومت اور عوام کی مدد کے لئے اپنے تمام وسائل میدان میں پیش کردیئے ہیں ۔ ہم عالمی ہمدردی اورفرانس کے صدر کے دورہ لبنان اور امداد کے حوالے سے دیگر ملاقاتوں کو مثبت نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

حزب اللہ کے سربراہ نے بعض عرب ذرائع ابلاغ کے حزب اللہ کے خلاف معاندانہ اور زہریلے پروپیگنڈے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بعض عرب ممالک کے ذرائع ابلاغ اور بعض سیاسی شخصیات نے بغیر کسی تحقیق کے یہ کہنا شروع کردیا کہ حزب اللہ کے اسلحہ کے ڈپو میں دھماکہ ہوا ہے ۔ عرب ذرائع ابلاغ کے جھوٹے اور بے بنیاد دعوے کا مقصد لبنانی عوام کو حزب اللہ کے خلاف اکسانا تھا جس میں انھیں ناکامی اور شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ بیروت کی بندرگاہ پر حزب اللہ کے اسلحہ کا کوئی ذخیرہ نہیں تھا اور ہم عرب ممالک کے ذرائع ابلاغ کے اس جھوٹے اور بے بنیاد پروپیگنڈے کو سختی کے ساتھ رد کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ لبنانی عوام موجودہ مشکل شرائط سے کامیابی اور کامرانی کے ساتھ عبور کرجائےگا، لبنانی عوام نے ہمیشہ مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے۔

تحریر: علی احمدی

18 ذی الحج دس ہجری کے دن جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی حیات مبارک کے آخری مراحل میں تھے خداوند تبارک و تعالی نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کو آپ ص کے حضور بھیجا اور حکم دیا کہ میرے دین سے متعلق وہ اہم پیغام پہنچا دو کہ جسے نہ پہنچانے کی صورت میں تمہاری اب تک انجام پائی ساری زحمت بے نتیجہ ہو جائے گی۔ یہ پیغام درحقیقت امت مسلمہ کے مستقبل سے مربوط تھا۔ امت مسلمہ کو نظام امامت کی صورت میں ایک الہی سیاسی نظام عطا کیا جا رہا تھا۔ تقریباً اڑھائی سو سال بعد آخری امام حضرت ولیعصر عج نے اپنی غیبت کبری کے آغاز کی خبر دی اور انہیں اپنی بظاہر عدم موجودگی میں ایسے فقہاء کی جانب رجوع کرنے کا حکم دیا جو خدا کے مطیع اور نفسانی خواہشات کے مخالف ہوں۔ یوں نظام مرجعیت کا آغاز ہو گیا۔
 
غیبت کبری سے اب تک مکتب اہلبیت اطہار علیہم السلام کے پیروکاروں میں ایسے عظیم متقی اور مجاہد مجتہد یا فقیہ پیدا ہوتے رہے جنہوں نے نہ صرف ملت تشیع بلکہ امت مسلمہ کو اپنی عالمانہ اور مجاہدانہ صلاحیتوں کی بدولت زمانے کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے میں بنیادی رہنمائی اور سرپرستی فراہم کی۔ یہ سلسلہ یونہی آگے بڑھتا رہا یہاں تک کہ بیسویں صدی میں وقت کے عظیم مجاہد اور مجتہد امام خمینی رحمہ اللہ علیہ نے نظام مرجعیت کو اٹھان دی اور ایران میں فقہ اہلبیت علیہم السلام کی بنیاد پر جدید زمانے کے تقاضوں کے مطابق ایک اسلامی نظام حکومت تشکیل دیا۔ یہ نظام حکومت جو نظام ولایت فقیہ کے نام سے معروف ہے درحقیقت نظام امامت کا ہی تسلسل ہے۔ ولی فقیہ درحقیقت غدیر کا پاسبان ہے جس نے امام عصر عج کے ظہور تک اس عظیم الہی نعمت کی پاسبانی کرنی ہے۔ تحریر حاضر میں غدیر کے موجودہ پاسبان ولی امر مسلمین آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کی نگاہ سے غدیر کو پہچاننے کی کوشش کی گئی ہے۔

غدیر کو زندہ رکھنا اسلام کو زندہ رکھنا ہے
غدیر کو زندہ رکھنا ایک معنی میں اسلام کو زندہ رکھنا ہے۔ یہ مسئلہ صرف اہل تشیع اور امیرالمومنین علی علیہ السلام کی ولایت کا عقیدہ رکھنے والوں سے مخصوص نہیں ہے۔ اگر ہم اہل تشیع اور امام علی علیہ السلام کے پیروکار ہونے کا دعوی کرنے والے غدیر کی حقیقت کو صحیح انداز میں بیان کر دیں، خود بھی سمجھیں اور دوسروں کو بھی سمجھائیں تو واقعہ غدیر بذات خود اتحاد اور وحدت کا باعث بن سکتا ہے۔ ایک خاص مذہبی فرقے کی جانب سے عقیدے کی صورت میں غدیر سے متصل رہنا ایک موضوع ہے جبکہ غدیر کی شناخت ایک علیحدہ موضوع ہے۔ اسلام نے اسلامی معاشرے، اسلامی نظام اور اسلامی دنیا کی تشکیل کے بارے میں اپنے اعلی ترین نظریات کا اظہار واقعہ غدیر میں کیا ہے۔ (31 اکتوبر 2012ء)
 
غدیر کا مقصد صرف جانشین مقرر کرنا نہیں بلکہ نظام امامت متعارف کروانا تھا
غدیر کا واقعہ صرف پیغمبر اکرم ص کا جانشین مقرر کرنے کیلئے رونما نہیں ہوا۔ غدیر کے دو پہلو ہیں: ایک جانشین مقرر کرنا اور دوسرا امامت کے مسئلے پر توجہ دلانا۔ امامت اسی معنی میں جو تمام مسلمان اس لفظ یا عنوان سے سمجھتے تھے۔ امامت یعنی انسانوں کی پیشوائی، دینی اور دنیوی امور میں معاشرے کی پیشوائی۔ یہ مسئلہ پوری انسانی تاریخ میں ایک اہم مسئلہ رہا ہے۔ امامت کا مسئلہ صرف مسلمانوں یا اہل تشیع سے مخصوص مسئلہ نہیں ہے۔ امامت یعنی ایک شخص یا گروہ ایک معاشرے پر حکمرانی کرتا ہے اور دنیوی اور روحانی اور اخروی امور میں اس کی سمت کا تعین کرتا ہے۔ یہ تمام انسانی معاشروں کا مشترکہ مسئلہ ہے۔ (25 نومبر 2010ء)
 
اگر مخالفت نہ ہوتی
آج ہم اور انسانی معاشرہ بدستور انسان کی ابتدائی ضروریات میں پھنسا ہوا ہے۔ دنیا میں بھوک ہے، امتیازی رویے ہیں۔ کم بھی نہیں ہیں بلکہ وسیع حد تک ہیں۔ ایک جگہ محدود بھی نہیں ہیں بلکہ ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔ بدمعاشی ہے، انسانوں پر انسانوں کی ناحق حکمرانی ہے، وہی چیزیں جو چار ہزار سال پہلے، دو ہزار سال پہلے کسی اور شکل میں پائی جاتی تھیں۔ آج بھی انسانیت انہی مشکلات کا شکار ہے اور صرف ان کی شکل میں تبدیلی آئی ہے۔ غدیر اس سلسلے کا آغاز تھا جو بنی نوع انسان کو اس مرحلے سے باہر نکال کر نئے مرحلے میں داخل کرنے کی بھرپور صلاحیت کا مالک تھا۔ ایسی صورت میں (نئے مرحلے میں) انسان کو درپیش چیلنجز زیادہ اعلی اور ظریف قسم کی ضروریات اور اعلی مرتبہ کی خواہشات اور محبتوں پر مشتمل ہونے تھے۔
 
انسان کی ترقی کا راستہ تو بند نہیں ہے۔ ممکن ہے بنی نوع انسان اگلے کئی ہزار یا کئی ملین سال تک جاری رہے۔ جب تک یہ انسانی نسل باقی رہے گی مسلسل ترقی کے مراحل طے کرتی رہے گی۔ البتہ آج ترقی کے بنیادی ستون تباہ حال ہیں۔ ان ستونوں کی تعمیر پیغمبر اکرم ص نے کی تھی اور ان کی حفاظت کیلئے اپنی جانشینی اور وصایت کا مسئلہ اٹھایا تھا۔ لیکن اس کی مخالفت کی گئی۔ اگر مخالفت نہ کی جاتی تو آج صورتحال مختلف ہوتی۔ غدیر یہ ہے۔ ائمہ طاہرین علیہم السلام کی زندگی کے اڑھائی سو سال کے دوران جب بھی انہیں موقع ملا ہے انہوں نے امت مسلمہ کو پیغمبر اکرم ص کے مقرر کردہ راستے پر واپس لوٹانے کی کوشش کی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو سکا۔ اب آج کے دور میں ہم میدان میں اترے ہیں اور خدا کے فضل اور توفیق الہی سے ہمت کر رہے ہیں جو انشاءاللہ بہترین انداز میں جاری رہے گی۔ (19 جنوری 2006ء)

Wednesday, 12 August 2020 11:53

بیعت غدیر

تحریر: سید آصف نقوی

پیغمبر اکرمؐ کی زندگی کا آخری سال تھا۔ ”حجۃ الوداع“ کے مراسم جس قدر باوقار اور باعظمت ہوسکتے تھے، وہ پیغمبر اکرمﷺ کی ہمراہی میں اختتام پذیر ہوئے، سب کے دل روحانیت سے سرشار تھے، ابھی تک ان کی روح اس عظیم عبادت کی معنوی لذت کا ذائقہ محسوس کر رہی تھی۔ اصحاب پیغمبرؐ کی کثیر تعداد آنحضرتؐ کے ساتھ اعمال حج انجام دینے کی عظیم سعادت پر بہت زیادہ خوش نظر آرہے تھے۔ پیغمبرؐ کے ساتھیوں کی تعداد بعض کے نزدیک 90 ہزار اور بعض کے نزدیک ایک لاکھ بارہ ہزار اور بعض کے نزدیک ایک لاکھ بیس ہزار اور بعض کے نزدیک ایک لاکھ چوبیس ہزار ہے۔ نہ صرف مدینہ کے لوگ اس سفر میں پیغمبرؐ کے ساتھ تھے بلکہ جزیرہ نمائے عرب کے دیگر مختلف حصوں کے مسلمان بھی یہ عظیم تاریخی اعزاز و افتخار حاصل کرنے کے لئے آپؐ کے ہمراہ تھے۔

میدانِ غدیر خم کا پس منظر
سرزمین حجاز کا سورج در و دیوار اور پہاڑوں پر آگ برسا رہا تھا، لیکن اس سفر کی بے نظیر روحانی حلاوت نے تمام تکلیفوں کو آسان بنا دیا تھا۔ زوال کا وقت نزدیک تھا، آہستہ آہستہ ”جحفہ“ کی سرزمین اور اس کے بعد خشک اور جلانے والے ”غدیر خم“ کا بیابان نظر آنے لگا۔ در اصل یہاں ایک چوراہا ہے، جو حجاز کے لوگوں کو ایک دوسرے سے جدا کرتا ہے، شمالی راستہ مدینہ کی طرف، دوسرا مشرقی راستہ عراق کی طرف، تیسرا راستہ مغربی ممالک اور مصر کی طرف اور چوتھا جنوبی راستہ سرزمین یمن کو جاتا ہے۔ یہی وہ مقام تھا، جہاں آخری اور اس عظیم سفر کا اہم ترین مقصد انجام دیا جانا تھا اور پیغمبرؐ مسلمانوں کے سامنے اپنی آخری اور اہم ذمہ داری کی بنا پر آخری حکم پہچانا چاہتے تھے۔

آیہ بلغ
یَااٴَیُّہَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا اٴُنزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ وَاللهُ یَعْصِمُکَ مِنْ النَّاسِ إِنَّ اللهَ لاَیَہْدِی الْقَوْمَ الْکَافِرِینَ ”اے پیغمبر! آپ اس حکم کو پہنچا دیں، جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اگر یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا۔“(سورہ مائدہ ، آیت 67) اہل سنت کی متعدد کتابوں نیز تفسیر و حدیث اور تاریخ کی (تمام شیعہ مشہور کتابوں میں) بیان ہوا ہے کہ مذکورہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ ان احادیث کو بہت سے اصحاب نے نقل کیا ہے، منجملہ: ”ابوسعید خدری“، ”زید بن ارقم“، ”جابر بن عبد اللہ انصاری“، ”ابن عباس“، ”براء بن عازب“، ”حذیفہ“، ”ابو ہریرہ“، ”ابن مسعود“ اور ”عامر بن لیلی“، اور ان تمام روایات میں بیان ہوا کہ یہ آیت واقعہ غدیر سے متعلق ہے اور حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے۔
ابن عساکر شافعی: الدر المنثور سے نقل کیا ہے، جلد دوم، صفحہ۲۹۸
فخر الدین رازی: ”تفسیر کبیر“، جلد ۳، صفحہ ۶۳۶
بد ر الدین حنفی: ”عمدۃ القاری فی شرح صحیح البخاری“، جلد ۸، صفحہ ۵۸۴
شیخ محمد عبدہ مصری: ”تفسیر المنار“، جلد ۶، صفحہ ۴۶۳
 اور ان کے علاوہ بہت سے دیگر علمانے اس حدیث کو بیان کیا ہے۔

ان مذکورہ روایات کے علاوہ بھی متعددروایات ہیں، جن میں وضاحت کے ساتھ بیان ہوا ہے کہ یہ آیت غدیر خم میں اس وقت نازل ہوئی کہ جب پیغمبر اکرم (ص) نے خطبہ دیا اور حضرت علی علیہ السلام کو اپنا وصی و خلیفہ بنایا، ان کی تعداد گذشتہ روایات کی تعداد سے کہیں زیادہ ہے، یہاں تک محقق بزرگوار علامہ امینی نے کتابِ ”الغدیر“ میں ۱۱۰ اصحاب پیغمبر سے زندہ اسناد اور مدارک کے ساتھ نقل کیا ہے۔ جمعرات کا دن تھا اور ہجرت کا دسواں سال، آٹھ دن عید قربان کو گزرے تھے کہ جیسے ہی یہ آیت نازل ہوئی تو پیغمبرﷺ کی طرف سے سب کو ٹھہرنے کا حکم دیا گیا، مسلمانوں نے بلند آواز سے قافلہ سے آگے چلے جانے والے لوگوں کو واپس بلایا اور اتنی دیر تک رُکے رہے کہ پیچھے آنے والے لوگ بھی پہنچ گئے۔ آفتاب خط نصف النہار سے گزر گیا تو پیغمبرؐ کے موٴذن نے ”اللہ اکبر“ کی صدا کے ساتھ لوگوں کو نماز ظہر پڑھنے کی دعوت دی، مسلمان جلدی جلدی نماز پڑھنے کے لئے تیار ہوگئے، لیکن فضا اتنی گرم تھی کہ بعض لوگ اپنی عبا کا کچھ حصہ پاؤں کے نیچے اور باقی حصہ سر پر رکھنے کے لئے مجبور تھے، ورنہ بیابان کی گرم ریت اور سورج کی شعاعیں ان کے سر اور پاؤں کو تکلیف دے رہی تھیں۔

اس صحرا میں کوئی سایہ نظر نہیں آتا تھا اور نہ ہی کوئی سبزہ یا گھاس، صرف چند خشک جنگلی درخت تھے، جو گرمی کا سختی کے ساتھ مقابلہ کر رہے تھے۔ کچھ لوگ انہی چند درختوں کا سہارا لئے ہوئے تھے، انہوں نے ان برہنہ درختوں پر ایک کپڑا ڈال رکھا تھا اور پیغمبرؐ کے لئے ایک سائبان بنا رکھا تھا، لیکن سورج کی جلا دینے والی گرم ہوا اس سائبان کے نیچے سے گزر رہی تھی۔ نماز ظہر کے بعد رسول اللہ ؐنے انہیں آگاہ کیا کہ وہ سب کے سب خداوند تعالیٰ کا ایک نیا پیغام سننے کے لئے تیار ہو جائیں، جسے ایک مفصل خطبہ کے ساتھ بیان کیا جائے گا۔ جو لوگ رسول اللہ ؐ سے دور تھے، وہ اس عظیم اجتماع میں پیغمبر کا ملکوتی اور نورانی چہرہ دیکھ نہیں پا رہے تھے، لہٰذا اونٹوں کے پالانوں کا منبر بنایا گیا، پیغمبرؐ اس پر تشریف لے گئے، پہلے پروردگار عالم کی حمد و ثنا بجا لائے اور خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے یوں خطاب فرمایا: "میں عنقریب خداوند ِ متعال کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے تمہارے درمیان سے جانے والا ہوں، میں بھی جوابدہ ہوں اور تم لوگ بھی جوابدہ ہو، تم میرے بارے میں کیا کہتے ہو؟ سب لوگوں نے بلند آواز میں کہا: ”نَشھَد اٴنّکَ قَد بَلَغْتَ وَ نَصَحْتَ وَ جَاھَدتَّ فَجَزَاکَ اللہُ خَیْراً“ ”ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے فریضہٴ رسالت انجام دیا اور خیر خواہی کی ذمہ داری کو انجام دیا اور ہماری ہدایت کی راہ میں سعی و کوشش کی،خدا آپ کو جزائے خیر دے۔“

اس کے بعد آپؐ نے فرمایا: کیا تم لوگ خدا کی وحدانیت، میری رسالت اور روز قیامت کی حقانیت اور اس دن مردوں کے قبروں سے مبعوث ہونے کی گواہی نہیں دیتے۔؟ سب نے کہا: کیوں نہیں! ہم سب گواہی دیتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: خدایا! گواہ رہنا۔ آپؐ نے مزید فرمایا: اے لوگو! کیا تم میری آواز سن رہے ہو۔؟ انہوں نے کہا: جی ہاں۔ اس کے بعد سارے بیابان پر سکوت کا عالم طاری ہوگیا، سوائے ہوا کی سنسناہٹ کے کوئی چیز سنائی نہیں دیتی تھی، پیغمبرؐ نے فرمایا: دیکھو! میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں بطور یادگار چھوڑے جا رہا ہوں، تم ان کے ساتھ کیا سلوک کرو گے۔؟ حاضرین میں سے ایک شخص نے پکار کر کہا: یارسول اللہؐ وہ دو گرا نقدر چیزیں کونسی ہیں۔؟ تو پیغمبر اکرم ﷺ نے فرمایا: پہلی چیز تو اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے، جو ثقل اکبر ہے، اس کا ایک سرا پروردگار عالم کے ہاتھ میں ہے اور دوسرا سرا تمہارے ہاتھ میں ہے، اس سے ہاتھ نہ ہٹانا، ورنہ تم گمراہ ہو جاؤ گے، دوسری گرانقدر یادگار میرے اہل بیت ؑہیں اور مجھے خدائے لطیف و خبیر نے خبر دی ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے، یہاں تک کہ بہشت میں مجھ سے آملیں گے۔ ان دونوں سے آگے بڑھنے (اور ان سے تجاوز کرنے) کی کوشش نہ کرنا اور نہ ہی ان سے پیچھے رہنا کہ اس صورت میں بھی تم ہلاک ہو جاؤ گے۔

اچانک لوگوں نے دیکھا کہ رسول اللہؐ اپنے ارد گرد نگاہیں دوڑا رہے ہیں، گویا کسی کو تلاش کر رہے ہیں، جونہی آپؐ کی نظر حضرت علی علیہ السلام پر پڑی تو فوراً ان کا ہاتھ پکڑ لیا اور انہیں اتنا بلند کیا کہ بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگی اور سب لوگوں نے انہیں دیکھ کر پہچان لیا کہ یہ تو اسلام کا وہی سپہ سالار ہے کہ جس نے کبھی شکست کا منہ نہیں دیکھا۔ اس موقع پر پیغمبرؐ کی آواز زیادہ نمایاں اور بلند ہوگئی اور آپؐ نے ارشاد فرمایا: ”اٴیُّھا النَّاس مَنْ اٴولیٰ النَّاسِ بِالمَوٴمِنِیْنَ مِنْ اٴَنْفُسِھم“ اے لوگو! بتاؤ وہ کون ہے، جو تمام لوگوں کی نسبت مومنین پر خود ان سے زیادہ اولیت رکھتا ہے۔؟ اس پر سب حاضرین نے بیک آواز جواب دیا کہ خدا اور اس کا پیغمبرؐ بہتر جانتے ہیں۔ تو پیغمبرؐ نے فرمایا: خدا میرا مولا اور رہبر ہے اور میں مومنین کا مولا اور رہبر ہوں اور میں ان کی نسبت خود ان سے زیادہ حق رکھتا ہوں(اور میرا ارادہ ان کے ارادے پر مقدم ہے)۔ اس کے بعد فرمایا: ”فَمَن کُنْتُ مَولَاہُ فَہذَا عَلِیّ مَولاہ۔“ ”یعنی جس کا میں مولا ہوں علی بھی اس کے مولا اور رہبر ہیں۔“

پیغمبر اکرمؐ نے اس جملے کی تین مرتبہ تکرار کی اور بعض راویوں کے قول کے مطابق پیغمبرؐ نے یہ جملہ چار مرتبہ دہرایا اور اس کے بعد آسمان کی طرف سر بلند کرکے بارگاہ خداوندی میں عرض کی: ”اَللّٰھُمَّ وَالِ مَنْ وَالاٰہُ وَعَادِ مَنْ عَادَاہُ وَاٴحب مَنْ اٴحبہُ وَ ابغِضْ مَنْ اٴبغَضہُ وَ انْصُرْمَنْ نَصَرُہُ وَاخْذُلْ مَنْ خَذَلَہُ، وَاٴدرِالحَقّ مَعَہُ حَیْثُ دَارَ“ یعنی "بار الٰہا! جو اس کو دوست رکھے تو اس کو دوست رکھ اور جو اس سے دشمنی رکھے تو اس سے دشمنی رکھ، جو اس سے محبت کرے تو اس سے محبت کر اور جو اس سے بغض رکھے تو اس سے بغض رکھ، جو اس کی مدد کرے تو اس کی مدد کر، جو اس کی مدد سے کنارہ کشی کرے تو اسے اپنی مدد سے محروم رکھ اور حق کو ادھر موڑ دے جدھر وہ رُخ کرے۔" اس کے بعد فرمایا: ”اٴلَا فَلْیُبَلِّغ الشَّاہدُ الغائبُ“ ”تمام حاضرین آگاہ ہو جائیں کہ یہ سب کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو ان لوگوں تک پہنچائیں، جو یہاں پر اس وقت موجود نہیں ہیں۔“ پیغمبر کا خطبہ ختم ہوگیا، پیغمبر پسینے میں شرابور تھے، حضرت علی علیہ السلام بھی پسینہ میں غرق تھے، دوسرے تمام حاضرین کے بھی سر سے پاؤں تک پسینہ بہہ رہا تھا۔

ابھی اس جمعیت کی صفیں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوئی تھیں کہ جبرئیل امین وحی لے کر نازل ہوئے اور پیغمبر کو ان الفاظ میں تکمیلِ دین کی بشارت دی: "الْیَوْمَ اٴَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَاٴَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی" ”آج کے دن ہم نے تمہارے لئے تمہارے دین اور آئین کو کامل کر دیا اور اپنی نعمت کو تم پر تمام کر دیا۔“(سورہٴ مائدہ، آیت3)
اتمام نعمت کا پیغام سن کر پیغمبر اکرم ؐنے فرمایا: ”اللہُ اٴکبرُ اللہُ اٴکبرُ عَلیٰ إکْمَالِ الدِّینِ وَإتْمَام النِعْمَةِ وَرَضیٰ الربِّ بِرسَالَتِی وَالوِلاٰیَة لِعَلیّ مِنْ بَعْدِی“ ”ہر طرح کی بزرگی و بڑائی خدا ہی کے لئے ہے کہ جس نے اپنے دین کو کامل فرمایا اور اپنی نعمت کو ہم پر تمام کیا اور میری نبوت و رسالت اور میرے بعد علی کی ولایت کے لئے خوش ہوا۔“

واقعۂ غدیر میں تحقیق کی ضرورت:
 واقعۂ غدیر کی صحیح شناخت حاصل کرنے کا ایک راستہ اس عظیم واقعہ کی تاریخی حوالے سے صحیح تحقیق ہے، دیکھنا یہ چاہیئے کہ غدیر کے دن کون سے واقعات اور حادثات رونما ہوئے۔ رسول اکرمﷺ نے کیا کیا؟ اور دشمنوں اور مخالفوں نے کس قسم کا رویّہ اختیار کیا۔؟ تاکہ غدیر کی حقیقت واضح اور روشن ہو جائے، اگر غدیر کا دن صرف اعلان ولایت کے لئے تھا؛ تو پھر رسول اکرمﷺ کی گفتگو اور عمل کو بھی اسی حساب سے صرف ابلاغ و پیغام تک محدود ہونا چاہیئے تھا! یعنی رسول اکرمﷺ سب لوگوں کو جمع کرتے اور حضرت علیؑ کی لیاقت اور صلاحیّتوں کے بارے میں لوگوں کو آگاہ فرماتے؛ پھر کچھ اخلاقی نصیحتوں کے ساتھ لوگوں کے لئے دعا فرماتے اور خدا کی امان میں دے دیتے، بالکل اس طرح سے جیسے آج سے پہلے بعثت کے آغاز سے لے کر غدیر کے دن تک بارہا آنحضرتﷺ کی طرف سے دیکھا گیا تھا۔ اس کے بعد ہر شہر و دیار سے آئے ہوئے مسلمان اپنے اپنے وطن کی طرف لوٹ جاتے۔ رسول اکرمﷺ اس کام کو مکّہ کے عظیم اجتماع میں حج کے وقت بھی انجام دے سکتے تھے، عرفات اور منیٰ کے اجتماعات میں بھی یہ کام کیا جاسکتا تھا۔ لیکن غدیر کے تاریخی مطالعہ کے بعد یہ بات واضح ہو جائے گی اور یہ نظریہ بھی سامنے آئے گا کہ غدیر کی داستان کچھ اور ہی ہے۔

 آیات غدیر پر غور و خوص
آیت بلغ کے انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے کوئی ایسا عظیم کام رسول اکرمﷺ سپرد کیا ہے، جو پوری رسالت کے ابلاغ کے برابر ہے اور دشمنوں کی مایوسی کا سبب بھی ہے۔ اس سے بڑھ کر عظیم کام اور کیا ہوسکتا ہے کہ ایک لاکھ سے زیادہ افراد کے سامنے حضرت علی علیہ السلام کو خلافت، وصایت اور جانشینی کے منصب پر معین کریں۔؟ بعض لوگوں نے سورۂ مبارکہ مائدہ کی آیت ۶۷ (یا أَیُّہَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مٰا أُنْزِلَ إِلَیْک)کے ظاہر پر توجّہ کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ غدیر کا دن صرف ’’پیغام ولایت‘‘ پہچانے کا دن ہے اور رسول اکرمﷺ نے اس مبارک دن ’’حضرت علیؑ‘‘ کی ولایت کا پیغام لوگوں تک پہنچایا اور بس اتنے ہی کو کافی سمجھتے ہوئے خوش حال ہو جاتے ہیں یا تو غدیر کے دوسرے تمام زاویوں کو درک کرنے سے ان کی عقلیں قاصر ہیں یا کتب کے مطالعہ کے ذریعہ حقیقت تک پہنچنے کی زحمت نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ: لفظ ( بَلِّغْ) یعنی ابلاغ کر دو، لوگوں تک پہنچا دو اور (مٰا أُنْزِلَ إِلَیْک) یعنی ولایت اور امامت حضرت امیرالمؤمنینؑ۔ لہٰذا غدیر کا دن صرف ’’اعلان ولایت‘‘ کا دن ہے۔

اس گروہ کا جواب بھی مختلف طریقوں سے دیا جاسکتا ہے ،جیسا کہ:
1۔ آیات غدیر کی صحیح تحقیق: یہ صحیح ہے کہ لفظ ’’بلّغ‘‘ کے معنیٰ ہیں (پہنچا دو)؛ لوگوں میں ابلاغ کر دو اور لوگوں کو آگاہ کر دو، لیکن کس چیز کے پہنچانے کا حکم دیا جا رہا ہے؛ اس حکم کا متعلّق کیا ہے۔؟ یہ بات اس آیہ مبارکہ میں ذکر نہیں ہوئی ہے، کس چیز کو پہنچانا ہے؟ ظاہر آیت سے واضح نہیں ہے اور اس آیت کا باقی حصّہ یعنی (مٰا أُنْزِلَ إِلَیْک) جو کچھ تم پر نازل کیا گیا، یہ عام ہے؛ جو کچھ تم پر نازل کیا گیا، یہ کیا چیز ہے۔؟ آیا مقصود صرف ’’ اعلان ولایت‘‘ ہے۔؟ آیا مقصود ’’امام کا تعارف‘‘ ہے۔؟ آیا مراد ’’قیامت اور رجعت تک آنے والے اماموں کا تعارف‘‘ ہے۔؟ آیا مراد ’’اسلام کی رہبریت کا تعیّن‘‘ ہے۔؟ یا (مٰا أُنْزِلَ إِلَیْک) کا متعلّقہ موضوع ’’تھیوری اور پریکٹیکل‘‘ یعنی عملی و نظری پر مشتمل ہے، یعنی ائمّہ معصومین علیہم السّلام کا تعارف کروائیں اور ان ہستیوں کے لئے بیعت بھی طلب کریں۔؟ تاکہ ’’بیعت عمومی‘‘ کے بعد کوئی بھی شکوک و شبہات کا سہارا لیتے ہوئے مسلمانوں کے عقائد کو متزلزل نہ کرسکے۔ چنانچہ یہ سمجھنا اور جاننا ضروری ہے کہ (مٰا أُنْزِلَ إِلَیْک) کیا ہے۔؟ جو کچھ پیغمبر اسلامﷺ پر نازل ہوچکا تھا، وہ کیا تھا۔؟

سورۂ مبارکہ مائدہ کی آیت ۶۷ میں موجودہ پیغامات اور مسلسل احتیاط اس حقیقت کو ثابت کرتی ہیں کہ پہلا نظریہ (صرف اعلان ولایت) صحیح نہیں ہے، بلکہ دوسرے نظریئے (وسیع اہداف) کو ثابت کر رہے ہیں۔ اس آیہ مبارکہ میں مزید آیا ہے: (وَ إِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمٰا بَلَّغْتَ رِسٰالَتَہُ) (اگر تم نے یہ کام انجام نہ دیا تو گویا اس کی رسالت کا کوئی پیغام نہیں پہنچایا۔) (مٰا أُنْزِلَ) کا متعلق کیا اہم چیز ہے کہ جس کو انجام نہ دیا گیا تو پیغمبر اسلامﷺ کی رسالت ناقص و نامکمّل رہ جائے گی۔؟ ادھر رسول اکرمﷺ بھی اس کو انجام دینے سے گھبرا رہے ہیں کہ شاید اس کو قبول نہ کیا جائے اور رخنہ ڈال دیا جائے، اگر صرف ’’اعلان ولایت‘‘ تھا تو اس میں کس بات کا ڈر اور ہچکچاہٹ۔؟ کیونکہ اس سے پہلے بھی بارہا، محراب میں، منبر پر، مدینہ اور دوسرے شہروں میں، جنگ کے میدان میں اور جنگوں میں کامیابیوں کے بعد حضرت امام علیؑ کی ولایت اور وصایت کا اعلان کرچکے تھے، لوگوں تک اس بات کو پہنچا چکے تھے، کسی کا خوف نہ تھا اور کسی سے اس امر کی بجا آوری میں اجازت طلب نہ کی تھی۔

آپ ﷺ نے جنگ تبوک اور جنگ خیبر کے موقع پر حدیث ’’منزلت‘‘ میں حضرت علیؑ ابن ابی طالب ؑ کا تعارف بعنوان وزیر اور خلیفہ کروایا اور کسی بھی طاغوتی طاقت اور قدرت کی پروا نہ کی۔ غدیر کے دن ایسا کیا ہونے والا تھا، جو رسول خداﷺ کو خوفزدہ کئے ہوئے تھا اور فرشتۂ وحی آپﷺ کو تسلّی دیتے ہوئے اس آیت کو لے کر نازل ہوا (وَﷲُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ) (ﷲ تمہیں انسانوں کے شر سے محفوظ رکھے گا۔) جملۂ (مٰا أُنْزِلَ) کا متعلّق کونسی ایسی اہم چیز ہے کہ جس کے وجود میں آنے کے بعد اکمال دین: ( أَلْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ) اتمام نعمات الٰہی: (وَ أَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتٖیْ) بقاء اور جاویدانی اسلام: (وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْإِسْلٰامَ دِیْناً) کفّار کی ناامیدی: (أَ لْیَوْمَ  یَئسَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا) جیسے اہم فوائد حاصل ہونگے۔؟ چنانچہ یقیناً پہلا نظریہ صحیح نہیں ہے اور (مٰا أُنْزِلَ إِلَیْک) کا متعلّق ’’ولایت امیرالمؤمنینؑ کا اعلان‘‘ اور ’’مسلمانوں کی عمومی بیعت‘‘ ہونا چاہیئے۔

اے رسول خداﷺ! آج ہم نے جو کچھ تم پر نازل کیا ہے، لوگوں تک پہنچا دو، یعنی امام علیؑ اور ان ؑکی اولاد میں سے گیارہ بیٹوں کی ولایت اور امامت کا اعلان کر دو اور اس کے بعد حج کی برکت سے ساری دنیا سے آکر اس سرزمین پر جمع ہونے والے مسلمانوں سے بیعت اور اعتراف لے لو (کہ پھر اتنا بڑا اجتماع وجود میں نہ آئے گا) اور امامت کے مسئلے کو نظریہ اور عقیدہ میں عمومی اعتراف اور عملی طور پر عمومی بیعت کے ذریعہ انجام تک پہنچا دو، کیونکہ خدا کے انتخاب اور رسول خداﷺ کے ابلاغ کے بعد لوگوں کی عمومی بیعت بھی تحقق پذیر ہوئی اور دین کامل ہوگیا۔ (امامت راہ رسالت کی بقا اور دوام کا ذریعہ ہے۔) خداوند عالم کی نعمتیں انسانوں پر تمام ہوگئیں، دین اسلام ہمیشہ کے لئے کامیاب ہوگیا، کفّار ناامید ہوگئے کہ اب ارکان اسلام کو متزلزل نہ کرسکیں گے۔اس مقام پر وحی الٰہی یہ بشارت دے رہی ہے کہ (أَلْیَوْمَ  یَئسَ  الَّذِیْنَ کَفَرُوْا) آج ’’روز غدیر‘‘ کفّار ناامید ہوگئے۔

وگرنہ صرف ’’اعلان ولایت تو غدیر سے پہلے بھی کئی بار ہوچکا تھا، کفّار نااُمید نہ ہوئے تھے اور صرف ’’اعلان ولایت کے ذریعہ دین کامل نہیں ہوتا، کیونکہ ممکن ہے کہ پیغمبر اکرمﷺ امامت کا پیغام پہنچا دیں، لیکن لوگ بیعت نہ کریں اور اُمّت میں اختلاف پیدا ہو جائے، گذشتہ اُمّتوں کی طرح پیغمبر اسلامﷺ کے خلاف قیام کیا جائے اور ان کو قتل کر دیا جائے۔ کیا گذشتہ اُمّت نے پیغمبر خدا حضرت زکریا علیہ السلام کو آرے سے دو حصّوں میں تقسیم نہیں کیا۔؟ کیا مخالفوں نے حضرت یحییٰ علیہ السلام جیسے پیغمبر کا سر تن سے جدا نہیں کیا اور اس زمانے کے طاغوت کے لئے اس سر کو ہدیے کے طور پر پیش نہیں کیا۔؟ کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام جیسے پیغمبر کو ایک عرصہ کے لئے ہجرت کرنے اور پوشیدہ رہنے پر مجبور نہیں کیا اور یہودیوں کے جھوٹے دعوے اور مسیحیت کے جھوٹے عقیدے کو بنیاد بنا کر ان کو سولی پر نہیں لٹکایا۔؟

 اس مقام پر یہ بات واضح ہوتی ہے کہ:
۱۔ صرف اعلان ولایت کشیدگی کا سبب نہیں ہے۔
۲۔ اُمّت کے درمیان اختلاف کا خطرہ نہیں ہے۔
۳۔ مسلّحانہ کارروائیوں کا حامل نہیں ہے۔
۴۔ پیغمبر اکرمﷺ کو خوفزدہ نہیں کرسکتا۔
یہ سارے وہم اور خوف ’’عمومی بیعت کے تحقّق‘‘ کی وجہ سے ہیں، جو کہ موقع کی تلاش میں رہنے والی سیاسی جماعتوں کو خوف و وحشت میں مبتلا کئے ہوئے ہے اور کفّار کی یاس و نااُمیدی اسی سبب سے ہے اور حکومت و قدرت کے پیاسوں کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ ایک مسلّحانہ بغاوت کریں۔

مولا علیؑ کی بیعت اللہ کی بیعت ہے
اپنے خطبہ کے آخری حصہ میں زبانی بیعت انجام پائی اور آپؐ نے فرمایا: ”خداوند عالم کا یہ حکم ہے کہ ہاتھ کے ذریعہ بیعت لینے سے پہلے تم سے زبانوں کے ذریعہ اقرار لوں“ اس کے بعد جس مطلب کی تمام لوگوں کو تائید کرنا تھی وہ معین فرمایا، جس کا خلاصہ بارہ اماموں کی اطاعت دین میں تبدیلی نہ کرنے کا عہد و پیمان، آئندہ نسلوں اور غائبین تک پیغام غدیر پہنچانا تھا۔ ضمناً یہ بیعت ہاتھ کی بیعت بھی شمار ہوتی تھی چونکہ آنحضرت ؐ نے فر مایا: کہو کہ ہم اپنی جان و زبان اور ہاتھوں سے بیعت کرتے ہیں۔ پیغمبر اکرمؐ کے خطبہ کے آخری کلمات آپؐ کے فرامین کی اطاعت کرنے والوں کے حق میں دعا اور آپؐ کے فرامین کا انکار کرنے والوں پر لعنت تھی اور خداوند عالم کی حمد و ثناء پر آپؐ نے خطبہ تمام فر مایا۔ آپﷺ نے فرمایا: مَعاشِرَ النّاسِ، إنّی قَدْ بَینْتُ لَکُمْ وَأَفْهَمْتُکُمْ، وَهذا عَلِی یفْهِمُکُمْ بَعْدی. أَلا وَاءنّی عِنْدَ انْقِضاءِ خُطْبَتی أَدْعُوکُمْ اءلی مُصافَقَتی عَلی بَیعَتِهِ وَالاْءقْرارِ بِهِ، ثُمَّ مُصافَقَتِهِ بَعْدی. أَلا وَاءنّی قَدْ بایعْتُ اللّه‏َ وَعَلِی قَدْ بایعَنی، وَأَنَا آخِذُکُمْ بِالْبَیعَةِ لَهُ عَنِ اللّه‏ِ عَزَّ وَجَلَّ. «إنَّ الَّذینَ یبایعُونَکَ إنَّما یبایعُونَ اللّه‏َ، یدُ اللّه‏ِ فَوْقَ أَیدیهِمْ. فَمَنْ نَکَثَ فَإنَّما ینْکُثُ عَلی نَفْسِهِ، وَمَنْ أَوْفی بِما عاهَدَ عَلَیهُ اللّه‏َ فَسَیؤْتیهِ أَجْرا عَظیما۔(بحار الانوار جلد ۳۷ صفحہ ۲۰۱ ۔۲۰۷۔ اثبات الھداۃ جلد ۲ صفحہ ۱۱۴، جلد ۳ صفحہ ۵۵۸۔) (سورہ فتح آیت نمبر 10)

ایھاالناس! میں نے سب بیان کر دیا اور سمجھا دیا، اب میرے بعد یہ علی تمہیں سمجھائیں گے۔ آگاہ ہو جاؤ! کہ میں تمہیں خطبہ کے اختتام پر اس بات کی دعوت دیتا ہوں کہ پہلے میرے ہاتھ پر ان کی بیعت کا اقرار کرو، اس کے بعد ان کے ہاتھ پر بیعت کرو، میں نے اللہ کے ساتھ بیعت کی ہے اور علیؑ نے میری بیعت کی ہے اور میں خداوند عالم کی جانب سے تم سے علیؑ کی بیعت لے رہا ہوں۔ (خدا فرماتا ہے:) ”بیشک جو لوگ آپ کی بیعت کرتے ہیں، وہ درحقیقت اللہ کی بیعت کرتے ہیں اور ان کے ہاتھوں کے اوپر اللہ ہی کا ہاتھ ہے، اب اس کے بعد جو بیعت کو توڑ دیتا ہے، وہ اپنے ہی خلاف اقدام کرتا ہے اور جو عہد الٰہی کو پورا کرتا ہے، خدا اسی کو اجر عظیم عطا کرے گا۔“ اس کا مفہوم یہ ہے کہ علی ؑ کی بیعت نبی کی بیعت ہے اور نبیﷺ کی بیعت اللہ کی بیعت ہے۔ جس طرح اللہ تبارک و تعالیٰ کسی کی بیعت کا محتاج نہیں ہے، ویسے ہی نبیؐ بھی کسی کی بیعت کے محتاج نہیں اور اسی طرح علیؑ بھی کسی کی بیعت کے محتاج نہیں ہیں۔ چونکہ بیعت دو طرفہ چیز کا نام ہے۔ ایک وہ جس کی بیعت کی جائے اور دوسرا بیعت کرنے والا۔ اس لیے جو اس بیعت پر قائم رہے گا، اسی کے لیے اجر عظیم ہے اور جو اس بیعت کو توڑ دے گا، اس کے لیے ہلاکت ہے۔ یعنی جو مولا علیؑ کو امام سمجھے، ان سے محبت رکھے اور وفادار رہے۔ اسی کے لیے نجات ہے اور جس نے رو گردانی کی اس کے لیے ہلاکت ہے۔

 اعلان ولایت
پیغمبر اکرمؐ نے تمام مقدمات فراہم کرنے اور امیرالمومنین علیہ السلام کی خلافت و ولایت کا تذکرہ کرنے کے بعد اس غرض سے کہ قیامت تک ہر طرح کا شک و شبہ ختم ہو جائے اور اس سلسلہ میں ہر طرح کا مکر و فریب غیر موٴثر ہو جائے، ابتدا میں آپؐ نے زبانی طور پر اشارہ فرمایا اور اس کے بعد لوگوں کے لئے عملی طور پر بیان کرتے ہوئے ابتدا میں اس ترتیب کے ساتھ بیان فرمایا: ”قرآن کا باطن اور تفسیر تمھارے لئے کوئی بیان نھیں کرسکتا، مگر یہ شخص جس کا ہاتھ میرے ہاتھ میں ہے اور اس کو بلند کر رہا ہوں۔“ اس کے بعد آنحضرتؐ نے اپنے قول کو عملی صورت میں انجام فرمایا اور امیرالمومنین علیہ السلام سے جو منبر پر آپؐ کے پاس کھڑے ہوئے تھے، فرمایا: ”میرے اور قریب آوٴ“ حضرت علی علیہ السلام اور قریب آئے اور آنحضرت ؐ نے حضرت علی علیہ السلام کے دونوں بازؤوں کو پکڑا، اس موقع پر حضرت علی علیہ السلام نے اپنے دونوں ہاتھوں کو آنحضرت ؐ کے چہرہٴ اقدس کی طرف بڑھا دیا، یہاں تک کہ دونوں کے دست مبارک آسمان کی طرف بلند ہوگئے۔ اس کے بعد آنحضرتؐ نے حضرت علی علیہ السلام کو ”جو آپ سے ایک زینہ نیچے کھڑے ہوئے تھے“ ان کی جگہ سے اتنا بلند کیا کہ ان کے پائے اقدس آنحضرتؐ کے زانو کے بالمقابل آگئے اور سب نے آپؐ کی سفیدیٴ بغل کا مشاہدہ کیا، جو اس دن تک کبھی نھیں دیکھی گئی تھی، اس حالت میں آپؐ نے فرمایا: ”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَھٰذَا عَلِیٌّ مَوْلَاہُ“ ”جس کا میں مولا ہوں، اس کے یہ علی مولا ہیں۔“ (بحار الانوار جلد ۳۷صفحہ /۱۱۱،۲۰۹۔ عوالم: جلد ۱۵/۳صفحہ ۴۷۔ کتاب سلیم: صفحہ ۸۸۸ حدیث/۵۵)

دلوں اور زبانوں کے ذریعہ بیعت
آنحضرت ؐنے دوسرا اقدام یہ فرمایا کہ چونکہ اس انبوہ کثیر کے ایک ایک فرد سے بیعت لینا غیر ممکن تھا اور دوسری جانب ممکن تھا کہ لوگ بیعت کرنے کے لئے مختلف قسم کے بہانے کریں اور بیعت کرنے کے لئے حاضر نہ ہوں، جس کے نتیجہ میں ان سے عملی طور پر پابند رہنے کا عہد اور قانونی گواہی نہ لی جا سکے، لہٰذا آنحضرتؐ نے اپنے خطبہ کے آخر میں فرمایا: ایھا الناس! ایک ہاتھ پر، اتنے کم وقت میں اس انبوہ کثیر کا بیعت کرنا سب کے لئے ممکن نھیں ہے، لہٰذا جو کچھ میں کہنے جا رہا ہوں، سب اس کی تکرار کرتے ہوئے کہیں: "ہم آپؐ کے اس فرمان کی جو آپؐ نے حضرت علیؑ بن ابی طالبؑ اور ان کی اولاد سے ہونے والے اماموں کے متعلق فرمایا، اس کو قبول کرتے ہیں اور اس پر راضی ہیں، ہم اپنے دل، جان، زبان اور ہاتھوں سے اس مدعا پر بیعت کرتے ہیں۔ ان کے لئے ہم سے اس بارے میں ہمارے دل و جان، زبانوں، ضمیروں اور ہاتھوں سے عہد و پیمان لے لیا گیا ہے۔ جو شخص ہاتھ سے بیعت کرسکا، ہاتھ سے بیعت کرچکا ہے اور جو ہاتھ سے بیعت نہ کرسکا، وہ زبان سے اس کا اقرار کرچکا ہے۔“ (بحار الانوار جلد ۳۷صفحہ /۲۱۵،۲۱۹) ظاہر ہے کہ آنحضرتؐ جس کلام کی بعینہ تکرار کرانا چاہتے تھے، وہ آپؐ نے ان کے سامنے بیان کیا اور اس کی عبارت معین فرما دی، تاکہ ہر انسان اپنے مخصوص طریقہ سے اس کا اقرار نہ کرے، بلکہ جو کچھ آپؐ نے بیان فرمایا ہے، سب اسی طرح اسی کی تکرار کریں اور بیعت کریں۔ جب آنحضرتؐ کا کلام تمام ہوا، سب نے اس کو اپنی زبانوں پر دھرایا، اس طرح عمومی بیعت انجام پائی۔

خطبہ کے بعد کے مراسم
خطبہ تمام ہونے کے بعد، لوگ ہر طرف سے منبر کی طرف بڑھے اور حضرت علی علیہ السلام کے دست مبارک پر بیعت کی، آنحضرت ؐ اور حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کو مبارک باد پیش کی اور آنحضرتؐ فرما رہے تھے :”اَلْحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْ فَضَّلَنَا عَلیٰ جَمِیْعِ الْعٰا لَمِیْن“ تاریخ میں عبارت اس طرح درج ہے: "خطبہ تمام ہو جانے کے بعد لوگوں کی صدائیں بلند ہوئیں کہ: ہاں، ہم نے سنا ہے اور خدا و رسولﷺ کے فرمان کے مطابق اپنے دل و جان، زبان اور ہاتھوں سے اطاعت کرتے ہیں۔“ اس کے بعد مجمع پیغمبر اکرمؐ اور حضرت علی علیہ السلام کی طرف بڑھا اور بیعت کے لئے ایک دوسرے پر سبقت کرتے ہوئے ان کی بیعت کی۔ مجمع سے اٹھنے والے اس احساساتی اور دیوانہ وار شور سے اس بڑے اجتماع کی شان و شو کت دُوبالا ہو رہی تھی۔ جس اہم اور قابل توجہ مطلب کا پیغمبر اسلام ؐکی کسی بھی فتح (چاہے جنگوں میں ہو یا دوسرے مقامات پر ہو، حتی ٰکہ فتح مکہ بھی) میں مشاہدہ نہ کیا گیا، وہ یہ ہے کہ آپؐ نے غدیر خم میں فرمایا: "مجھے مبارکباد دو مجھے تہنیت کہو، اس لئے کہ خدا نے مجھ سے نبوت اور میرے اہل بیت علیھم السلام سے امامت مخصوص کی ہے۔“(بحار الانوار: جلد ۲۱صفحہ ۳۸۷۔ امالی شیخ مفید: صفحہ ۵۷) یہ بڑی فتح اور کفر و نفاق کی تمام آرزووٴں کا قلع و قمع کر دینے کی علامت تھی۔ دوسری طرف پیغمبر اسلامؐ نے منادی کو حکم دیا کہ وہ مجمع کے درمیان گھوم گھوم کر غدیر کے خلاصہ کی تکرار کرے :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَھٰذَا عَلِیٌ مَوْلَاہُ اَللَّھُمَّ وٰالِ مَنْ وَالَاہُ وَعَادِمَنْ عَادَاہُ وَانْصُرْ مَنْ نَصَرَہُ وَاخْذُلْ مَنْ خَذَلَہُ“ تاکہ غدیر کا موقع لوگوں کے ذہن میں منقش ہو جائے۔

لوگوں سے بیعت
مسئلہ کو رسمی طور پر مستحکم کرنے کیلئے اور اس لئے کہ پورا مجمع منظم و مرتب طریقہ سے بیعت کرسکے، لہٰذا پیغمبر اکرم ؐنے خطبہ تمام کرنے کے بعد دو خیمے لگانے کا حکم صادر فرمایا۔ ایک خیمہ اپنے لئے مخصوص قرار دیا اور آپؐ اس میں تشریف فرما ہوئے اور حضرت علیؑ کو حکم دیا کہ آپؑ دوسرے خیمہ کے دروازہ پر تشریف فرما ہوں اور لوگوں کو جمع ہونے کا حکم دیا۔ اس کے بعد لوگ گروہ گروہ کرکے آنحضرتؐ کے خیمہ میں آتے اور آپؐ کی بیعت کرتے اور آپؐ کو مبارکباد پیش کرتے، اس کے بعد حضرت امیر المؤمنینؑ کے خیمہ میں آتے اور آپؑ کو پیغمبر اکرمؐ کے خلیفہ اور امام ہونے کے عنوان سے آپؑ کی بیعت کرتے اور آپؑ پر (امیر المومنین) کے عنوان سے سلام کرتے اور اس عظیم منصب پر فائز ہونے کی مبارکباد پیش کرتے تھے۔ بیعت کا یہ سلسلہ تین دن تک چلتا رہا اور تین دن تک آنحضرتؐ نے غدیر خم میں قیام فرمایا۔ یہ پروگرام اس طرح منظم و مرتب تھا کہ تمام لوگ اس میں شریک ہوئے۔

یہاں پر اس بیعت کے سلسلہ میں تاریخ کے ایک دلچسپ مطلب کی طرف اشارہ کرنا مناسب ہوگا کہ سب سے پہلے غدیر میں جن لوگوں نے امیر المومنین علیہ السلام کی بیعت کی، وہ وہی لوگ تھے جنہوں نے سب سے پہلے یہ بیعت توڑی اور اپنا عہد و پیمان خود ہی اپنے پیروں تلے روند ڈالا۔ حضرت عمر نے حضرت علی علیہ السلام کی بیعت کے بعد اپنی زبان سے یہ کلمات ادا کئے: ”مبارک ہو مبارک اے ابو طالبؑ کے بیٹے، مبارک اے ابو الحسنؑ آج آپ میرے اور ہر مومن مرد اور ہر مومنہ عورت کے مولا ہوگئے“! پیغمبر اسلام ؐ کے حکم صادر ہو جانے کے بعد تمام لوگوں نے چون و چرا کے بغیر حضرت علی علیہ السلام کی بیعت کی، لیکن حضرت ابو بکر اور حضرت عمر (جنھوں نے سب سے پہلے حضرت علی علیہ السلام کی بیعت کی تھی) نے بیعت کرنے سے پہلے سوال کیا: کیا یہ حکم خداوند عالم کی جانب سے ہے یا اس کے رسولؐ کی جانب سے ہے۔؟ آنحضرتؐ نے فرمایا: خدا اور اس کے رسول کی طرف سے ہے۔ کیا اتنا بڑا مسئلہ خداوند عالم کے حکم کے بغیر ہوسکتا ہے۔؟ نیز فرمایا: ”ہاں یہ حق ہے کہ حضرت علی علیہ السلام خدا اور اس کے رسول کی طرف سے امیر المومنین ہیں۔“ (بحار الانوار جلد۲۱ صفحہ ۳۸۷، جلد ۲۸ صفحہ ۹۰، جلد ۳۷ صفحہ۱۲۷ ۔۱۶۶۔ الغدیر جلد ۱ صفحہ ۵۸،۲۷۱،۲۷۴۔ عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ ۴۲، ۶۰،۶۵، ۱۳۴، ۱۳۶، ۱۹۴،۱۹۵، ۲۰۳، ۲۰۵۔)

 عورتوں کی بیعت
 پیغمبر اسلامؐ نے عورتوں کو بھی حضرت علی علیہ السلام کی بیعت کرنے کا حکم دیا اور ان کو امیر المومنین کہہ کر سلام کریں اور ان کو مبارکباد پیش کریں اور اس حکم کی اپنی ازواج کے لئے تاکید فرمائی۔ اس عمل کو انجام دینے کے لئے آنحضرت ؐ نے پانی کا ایک برتن منگوایا اور اس کے اوپر ایک پردہ لگایا، اس طرح کہ عورتیں پردہ کے ایک طرف پانی کے اندر ہاتھ ڈالیں پردہ کے ادھر سے مولائے کائنات کا ہاتھ پانی کے اندر رہے اور اس طرح عورتوں کی بیعت انجام پائے۔ یہ بات بھی بیان کر دیں کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا بھی غدیر خم میں حاضر تھیں۔ اسی طرح پیغمبر اکرم ؐ کی ازواج، حضرت علی علیہ السلام کی بہن ام ہانی، حضرت حمزہ علیہ السلام کی بیٹی فاطمہ اور اسماء بنت عمیس بھی اس پرو گرام میں موجود تھیں۔(بحارالانوار جلد ۲۱ صفحہ/ ۳۸۸۔ عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ ۳۰۹)

دستار بندی
عرب جب کسی کو کسی قوم کا رئیس بناتے تھے تو اُن کے ہاں اس کے سر پر عمامہ باندھنے کی رسم تھی۔ عربوں کے یہاں اس بات پر بڑا فخر ہوتا تھا کہ ایک بڑی شخصیت اپنا عمامہ کسی شخص کے سر پر باندھے، کیونکہ اس کا مطلب اس پر سب سے زیادہ اعتماد ہوتا تھا۔ (الغدیر جلد۱ صفحہ/ ۲۹۱۔ عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ ۱۹۹۔ اثبات الھداة جلد۲ صفحہ۲۱۹ حدیث ۱۰۲) پیغمبر اکرمؐ نے اس رسم و رواج کے موقع پر اپنا عمامہ جسے ”سحاب“ کہا جاتا تھا، تاج افتخار کے عنوان سے حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے سر اقدس پر باندھا اور تحت الحنک کو آپؑ کے دوش پر رکھ کر فرمایا: ”عمامہ تاجِ عرب ہے۔“ (تاج العروس جلد ۸ صفحہ ۴۱۰) خود امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام اس سلسلہ میں یوں فرماتے ہیں: ”پیغمبر اکرم (ص) نے غدیر خم کے دن میرے سر پر عمامہ باندھا اور اس کا ایک کنارہ میرے دوش پر رکھتے ہوئے فرمایا: خداوند عالم نے بدر و حنین کے دن اس طرح کا عمامہ باندھنے والے ملائکہ کے ذریعے میری مدد فرمائی۔“

تائید الہیٰ
معجزہ کے عنوان سے ایک واقعہ جو غدیر کے پروگرام کے اختتام پر پیش آیا، وہ ”حارث فہری" کا ماجرا تھا، یہ شخص تیسرے دن پروگرام کی آخری گھڑیوں میں اپنے بارہ ساتھیوں کو لیکر آیا اور پیغمبر اکرمؐ سے عرض کیا: ”اے محمدﷺ میں آپ سے تین سوال پوچھنا چاہتا ہوں: خداوند عالم کی وحدانیت کی گواہی اور اپنی رسالت کا اعلان آپؐ نے پروردگارِ عالم کی جانب سے کیا یا اپنی طرف سے کیا ہے۔؟ کیا نماز و زکات و حج اور جہاد کا حکم پروردگار عالم کی جانب سے آیا یا آپ نے اپنی طرف سے ان کا حکم دیا۔؟ آپؐ نے جو حضرت علیؑ بن ابی طالب ؑ کے با رے میں یہ فرمایا ہے : ”مَنْ کُنْتُ مَوْلَا ہُ فَعَلِیٌ مَوْلَاہُ۔۔۔“ یہ آپؐ نے پروردگار عالم کی جانب سے فرمایا ہے یا آپؐ کی طرف سے ہے۔؟ تو آپؐ نے تینوں سوالوں کے جواب میں فرمایا: "خداوند عالم نے مجھ پر وحی کی ہے، میرے اور خدا کے درمیان جبرئیل واسطہ ہیں، میں خداوند عالم کے پیغام کا اعلان کرنے والا ہوں اور خداوند عالم کی اجازت کے بغیر میں کسی بات کا اعلان نھیں کرتا۔“

حارث نے کہا: ”پروردگار! محمدؐ نے جو کچھ بیان فرمایا ہے، اگر وہ حق ہے اور تیری جانب سے ہے تو مجھ پر آسمان سے پتھر یا دردناک عذاب نازل فرما۔“ حارث کی بات تمام ہوگئی اور اس نے اپنی راہ لی تو خداوند عالم نے اس پر آسمان سے ایک پتھر بھیجا، جو اس کے سر پر گرا اور اس کے پاخانہ کے مقام سے نکل گیا اور اس کا وہیں پر کام تمام ہوگیا۔(بحار الانوار جلد ۳۷ صفحہ ۱۳۶، ۱۶۲، ۱۶۷۔ عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ ۵۶، ۵۷، ۱۲۹، ۱۴۴۔ الغدیر: جلد ۱ صفحہ ۱۹۳) اس واقعہ کے بعد یہ آیت نازل ہوئی: ساٴَلَ سَائلٌ بِعَذَابٍ وَاقِعٍ لِلْکَافِرِیْنَ لَیْسَ لَہُ دَافِعٌ، "ایک سائل نے واقع ہونے والے عذاب کا سوال کیا، جس کا کافروں کے حق میں کوئی دفع کرنے والا نہیں ہے، یہ بلندیوں والے خدا کی طرف سے ہے۔"(سورہ معارج آیت /۲تا۱) نازل ہوئی پیغمبر اکرمؐ نے اپنے اصحاب سے فرمایا: کیا تم نے دیکھا اور سنا ہے؟ انھوں نے کہا: ہاں۔ اس معجزہ کے ذریعے سب کو یہ معلوم ہوگیا کہ ”غدیر“ منبع وحی سے معرض وجود میں آیا اور ایک الہیٰ فرمان ہے۔

حضرت امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں: ”مَا عَلِمْتُ اَنَّ رَسُوْلُ اللہِ (ص)تَرَکَ یَوْمَ الْغَدِیْرِلِاَحَدٍ حُجَّةً وَلَالِقَائِلٍ مَقَالاً“ ”پیغمبر اکرم (ص) نے غدیر کے دن کسی کے لئے کوئی حجت اور کوئی بہانہ باقی نھیں چھوڑا" (اثبات الھُداۃ :جلد ۲ صفحہ ۱۵۵حدیث۴۷۶) حدیث قدسی میں خداوند تبارک و تعالیٰ کے کلام کے عمیق و دقیق ہونے کو پہچانا جا سکتا ہے، جو یہ فرماتا ہے: ”لَوْ اِجْتَمَعَ النَّاسُ کُلُّھُمْ عَلیٰ وِلَایَةِ عَلِیٍّ مَاخَلَقْتُ النَّارَ“ ”اگر تمام لوگ حضرت علی علیہ السلام کی ولایت پر متفق ہو جاتے تو میں جہنم کو پیدا نہ کرتا۔“(بحارالانوار جلد ۳۹صفحہ۲۴۷) مختصر یہ کہ نبی اکرم ؐ کو معلوم تھا کہ اس دور کے لوگ امیر المومنین ؑسے کی گئی بیعت سے روگردانی کریں گے، اس لیے انہوں نے الہٰی منصب امامت کی اس لحاظ سے تبلیغ کا اہتمام کیا کہ بعد میں کوئی اسے جھٹلا نہ سکے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ الہیٰ پیغام دور دراز کے علاقوں اور آئندہ آنے والی نسلوں تک پہنچ جائے۔ تاریخ گواہ ہے کہ نبی مکرمﷺ اپنے اس ہدف میں کامیاب و کامران رہے اور ان کے دشمنوں کے حصے میں ذلت و رسوائی آئی۔ درود و سلام ہو نبی پاک ﷺ اور ان کی آل پاک علیہم السلام پر۔ چونکہ غدیر کا دن حضرت علیؑ کے ساتھ لوگوں کی عمومی بیعت کا دن ہے، روز غدیر حضرت علیؑ سے لے کر حضرت مہدی ؑ تک بارہ ائمہ(ع) کی اثبات ولایت اور تحقق امامت کا دن ہے۔ لہذا ہمیں کوشش کرنی چاہیئے کہ اس الہیٰ پیغام کو زیادہ سے زیادہ پھیلائیں۔ کیونکہ اسی پیغام کے ساتھ دین کی تکمیل ہے اور انسانیت کی فلاح بھی اسی میں ہے۔

ماخذ: کتاب منزلت غدیر,حجۃ الاسلام والمسلمین محمد دشتی ؒ
مترجم : ضمیرحسین آف بہاول پور,مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام


علماء اہل سنّت نے روزِ غدیر سے لے کر آج تک اس موضوع پر مختلف قسم کے نظریات کا اظہار کیا ہے، بعض نے خاموشی اختیار کی تاکہ اس خاموشی کے ذریعے اس عظیم واقعہ کو بھول اور فراموشی کی وادی میں ڈھکیل دیا جائے، اور یہ حَسین یاد لوگوں کے ذ ہنوں سے محوہو جائے ،لیکن ایسا نہ ہو سکا ، بلکہ سینکڑوں عرب شاعروں کے اشعار کی روشنی میں جگمگا تا گیا جیسے عرب کا مشہور شاعر فرزدق رسولِ خد ا ا [ص] کی خدمت میں موجود تھا ۔
اس نے ا پنی فنکارانہ شاعری میں نظم کر کے اس عظیم واقعہ کو دنیا والوں تک پہنچا دیا، اور بعض نے حکّامِ وقت کی مدد سے سقیفہ سے اب تک تذکرہ غدیر پر پابندی لگا دی ا س کو جرم شمار کیا جانے لگا !کوڑوں ،زندان اور قتلِ عام کے ذریعے چاہا کہ اس واقعہ کو لوگ فرموش کر ڈالیں۔لیکن اپنی تمام تر کوششوں کی باوجود ناکام رہے ، ولایت کے متوالوں پر ظلم ڈھایا گیا انھیں قتل کیا گیا ،تازیانوں کی زد پررکھا گیا ، جتنا راہ غدیر کو خونی بنا یا گیا اُتنا ہی مقامِ غدیر اُجاگر ہوتا گیا اور آخر کار ان کا خون رنگ لایا اور شفق کی سرخی کے مانند جاوید ہو گیا ۔
حضرت فاطمہ زہرا سلامُ اﷲِ علَیہا کی ہمیشہ یہ کوشش رہی بحث و مباحثہ اور مناظرات کے دوران غدیر کے موضوع پر بات کریں ، خود حضرت علی ۔ نے غدیر کی حساس سیاسی تبدیلیوں سے ،متعلق گفتگو کی اور میدان غدیر میں حاضر چشم دید گواہوں سے غدیر کے واقعہ کا اعتراف لیا، اور دوسرے ائمّۂ معصومین ؑ اور ولایت کے جانثاروں نے ا س دن سے لے کر آج تک ہمیشہ غدیرِ خُم کو اُجاگر کیا، اور پیامِ غدیر کو آ ئندہ نسلوں تک پہنچایا اب کوئی غدیر میں شک و تردد کا شکار نہیں ہو سکتااور نہ ہی اس کو جھٹلا سکتا ہے ۔

۱ ۔ دوستانہ نظریات
بعض اہل سنت مصنِّفین جو اس بات کو سمجھتے تھے کہ واقعۂ غدیر سورج کی طرح روشن و منوّر ہے اور جس طرح سورج کو چراغ نہیں دکھایا جاسکتا اُسی طرح اس کا انکار بھی ممکن نہیں ہے اور اگر اِس کو نئے رنگ میں پیش نہیں کیا گیا تو غدیر کی حقیقت بہت سے جوانوں اور حق کے متلاشیوں کو ولایتِ علی ۔ کے نور کی طرف لے جائے گی ،تو وہ حیلہ اور مکر سے کام لینے لگے اور حقیقت غدیر میں تحریف کرنے لگے ،اور کہا کہ ! ہاں واقعۂ غدیر صحیح ہے اور اس کا انکار ممکن نہیں ہے لیکن اس دن رسولِ خداؐ کا مقصد یہ تھا کہ اس بات کا اعلان کریں کہ (علی ۔ کو دوست رکھتے ہیں) اور یہ جو آپ [ص] نے فرمایا: مَنْ کُنْتُ مَوْلٰاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلٰاہُ آپ [ص] کا مقصد یہ بتانا تھا کہ ( جو بھی مُجھے دوست رکھتا ہے ضروری ہے کہ علی ۔ کو بھی دوست رکھے )۔
اور یہیں سے وہ الفاظ کی ادبی بحث میں داخل ہوئے لفظِ ’’ ولی ‘‘ اور ’’ مولیٰ ‘‘ کاایک معنیٰ ( دوستی )اور( دوست رکھنے ) کے ہیں لہذا غدیر کا دن اس لئے نہیں تھا کہ اسلامی دنیا کی امامت اور رہبری کا تذکرہ کیا جائے بلکہ روزِ غدیر علی ۔ کی دوستی کے اعلان کا دن تھا۔
اُنہوں نے اس طرح پیغامِ غدیر میں تحریف کر کے بظاہر دوستانہ نظریات کے ذریعہ یہ کوشش کی کہ ا ہلسُنّت جوانوں اور اذہانِ عمومی کو پیغامِ غدیر سے منحرف کیا جائے ،چنانچہ اپنی کتابوں میں اس طرح بیان کیا کہ اہلِسُنّت مدارس کے طالبِ علموں اور عام لوگوں نے اس بات پر یقین کر لیا کہ روزِ غدیر علی ۔ کی دوستی کے اعلان کا دن ہے ، پس کوئی غدیر کا انکار نہیں کرتا اور رسولِ خدا [ص]نے اُس دن تقریر کی لیکن صرف علی ۔ کی اپنے ساتھ دوستی کا اعلان کیا اور اس بات کی تاکید کی کہ مسلمان بھی حضرت علی ۔ کو دوست رکھیں۔

۲ ۔ حقیقتِ تاریخ کا جواب:
واقعۂ غدیرکی صحیح تحقیق کے بعد ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ غدیر خم صرف اعلان دوستی کا نام نہیں ہے بلکہ اس کی حقیقت کچھ اور ہے۔


۱۔واقعۂ روزِغدیر کی تحقیق:
حقیقتِ غدیر تک پہنچنے کے لئے ایک راستہ یہ ہے کہ غدیر کی تاریخی حقیقت اورواقعیّت میں تحقیق کی جائے ، حجۃُالوداع رسولِ گرامیِ اسلام [ص]کا آخری سفرِ حج ہے اس خبرکے پاتے ہی مختلف اسلامی ممالک سے جوق در جوق مسلمان آپ [ص] کی خدمت میں آئے اور بے مثال و کم نظیر تعداد کے ساتھ فرائض حج کو انجام دیا اور اسکے بعد سارے مسلمان شہرِ مکّہ سے خارج ہوئے اور غدیر خُم پر پہنچے کہ جہاں سے اُنہیں اپنے اپنے شہرو دیار کی طرف کوچ کرنا تھا ۔
اہلِ عراق کو عراق کی طرف ، اہلِ شام کو شام کی طرف ،بعض کو مشرق کی سمت اوربعض کو مغرب کی سمت ،ایک تعدادکو مدینہ ، اور اسی طرح مختلف گروہوں کو اپنے اپنے قبیلوں اور دیہاتوں کی طرف لَوٹنا تھا،رسولِ خدا [ص]ایسے مقام کا انتخاب کرتے اور توقّف کرتے ہیں شدید گرمی کا عالم ہے ، سائبان اور گرمی سے بچنے کے دوسرے وسائل موجود نہیں ہیں اور عورتوں اور مردوں پر مشتمل ایک لاکھ بیس ہزار (۰۰۰،۱۲۰)حاجیوں کی اتنی بڑی تعداد کو ٹہرنے کا حکم دیتے ہیں یہاں تک کہ(۱) پچھے رہ جانے والوں کا انتظار کیاجائے ،آگے چلے جانے والوں کو واپس بلایا جائے اور پھر آپؐ نے اُونٹوں کے کجا ووں اور مختلف وسائل سے ایک اُونچی جگہ بنانے کا حکم د یا تاکہ سب لوگ آپؐ کو آسانی سے دیکھ سکیں، اور اسلامی ممالک سے آ ئے ہو ئے حاجیوں کے جمع ہونے تک انتظار کیا گیا، گرمی کی شدّت سے پسینے میں شرابور لوگ صرف اس لئے جمع ہوئے تھے کہ پیغمبراکرم [ص] کا پیغام غور سے سنیں اور آپ [ص] یہ فرمائیں! ( ۱ ) واقعۂ غدیر کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت حاجیوں کا جمع غفیر تھا جوکہ مختلف اسلامی ممالک سے آئے ہوئے تھے جنکی تعداد مؤرّخین نے نوّے ہزار (۰۰۰،۹۰) سے ایک لاکھ بیس ہزار (۰۰۰،۱۲۰)تک نقل کی ہے اورحج کی ادائگی کے بعد اپنے اپنے وطن لَوٹتے ہوئے ۱۸؍ ذی الحجہ کے دن خدا کے حکم سے سرزمینِ غدیر خُم پر جمع ہوئے اور جنہوں نے رسولِ خد اؐکے پیام کو سُننے کے بعدحضرت علی ۔ کی بیعت کی،غدیر کے دن لوگوں کی اس عام بیعت کا اعتراف بہت سارے مؤرِّخین نے کیا ہے ۔جو مندرجہ ذیل ہیں!
۱ ۔ سیرۂ حلبی ، ج ۳ ص ۲۸۳ : حلبی :
۲ ۔ سیرۂ نبوی ، ج ۳ ص ۳ : زینی دحلان
۳ ۔ تاریخُ الخُلَفاء ، ج ۴ : سیوطی (متوفّٰی ۹۱۱ ؁ ہجری)
۴ ۔ تذکرۃُخواص الاُمّۃ ، ص ۱۸ : ابنِ جَوزی(متوفّٰی ۶۵۴ ؁ ہجری)
۵ ۔ احتجاج ، ج ۱ ص ۶۶ : طبرسی (متوفّٰی ۵۸۸ ؁ ہجری)
۶ ۔ تفسیرِ عیّاشی ، ج ۱ ص ۳۲۹/۳۳۲ حدیث ۱۵۴ : ثمر قندی
۷ ۔ بحارُا لا نوار ، ج ۳۷ ص ۱۳۸ حدیث ۳۰ : علّامہ مجلسی
۸۔ اثباتُ الہُداۃ ، ج ۳ حُرِّعاملی ص ۵۴۳ /۵۴۴ حدیث ۵۹۰/۵۹۱/۵۹۳ :
۹ ۔ تفسیرِبرہان ، ج ۱ ص ۴۸۵ حدیث ۲ ، ص ۴۸۹ حدیث ۶ :بحرانی
۱۰ ۔ حبیبُ السَّیر ، ج ۱ ص ۲۹۷/۳۷۵/۴۰۴/۴۱۲/۴۴۱ : خواند میر
’’اے لوگو !میں علی ۔ کو دوست رکھتا ہوں ‘‘
پھر آپ [ص]کی لوگوں سے بار بارتاکید کی کہ آج کے اس واقعہ کو اپنی اَولادوں،آئندہ آنے والی نسلوں اور اپنے شہرودیار کے لوگوں تک پہنچادیں۔
یہ اہم واقعہ کیا ہے؟
کیا صرف یہ ہے کہ آپ [ص] یہ فرمائیں ! میں علی ۔ کو دوست رکھتا ہوں ؟
کیا ایسی حرکت کسی عام شخص سے قابلِ قبول ہے ؟
کیا ایسی حرکت بیہودہ ،اذیّت ناک اور قابل مذمّت نہیں ہے ؟
پھر کسی نے اعتراض کیوں نہیں کیا؟
کیا مسلمان یہ نہیں جانتے تھے کہ پیغمبراکرم [ص] حضرت علی ۔ کو دوست رکھتے ہیں ؟ کیا علی ۔ ایسے صف شکن مجاہد کی محبّت پہلے سے مسلمانوں کے دلوں میں نہیں بسی ہوئی تھی؟

۲۔فرشتۂ وحی کا بار بار نزول:
اگر غدیر کا دن صرف دوستی کے اعلان کے لئے تھا تو ایسا کیوں ہواکہ جبرئیل امین جیسا عظیم فرشتہ تین بار آپ [ص] پر نازل ہو اور پیغامِ الٰہی سے آپ [ص] کو آگاہ کرے؟! جیسا کہ آنحضرت [ص]نے خود ارشاد فرمایا!۔
’’إِنَّ جِبْرَئےْلَ۔ھَبَطَ إِلَیَّ مِرٰاراً ثَلٰاثاً یَأْ مُرُنِیْ عَنِ السَّلٰامِ رَبِّیْ وَھُوَالسَّلٰامُ أَنْ أَقُوْمَ فِی ھٰذا الْمَشْہَدِ، فأُعْلِمَ کُلَّ أَبْےَضٍ وَ أَسْوَدٍ أَنَّ عَلِیَّ بْنَ أَبِیْ طٰالِبٍ أَخِیْ وَ وَصِییّ وَ خَلِیفَتِی عَلٰی أُمَّتِیْ وَ الْإِمٰامُ مِنْ بَعْدِیْ أَلَّذِی مَحَلَّہٗ مِنِّیْ مَحَلَُ ھٰارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی إِلّٰا إنَّہٗ لاَ نَبِیَّ بَعْدِیْ وَ ھُوَ وَلِیُّکُمْ بَعْدَ اﷲِ وَرَسُوْلِہٖ وَ قَدْ أَنْزَلَ اﷲ تَبٰارَ کَ وَ تَعٰا لٰی عَلَیَّ
بِذٰ لِکَ آیَۃً مِنْ کِتٰابِہٖ!‘‘
(إِنَّمٰاوَلِیُّکُمُ اﷲُ وَرَسُوْلُہُ وَالَّذِیْنَ آمَنُوْاالَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَیُؤْ تُوْن الزَّکٰوۃَ وَ ھُمْ رٰاکِعُوْنَ )(۱)
وَعَلِیُّ بْنَ أَبِیْطالِبٍ أَلَّذِیْ أَ قٰامَ الصَّلٰوۃَوَاٰتَی الزَّکٰوۃَ وَھُوَرٰاکِعٌیُرِیْد اﷲَ عزَّ وَجَلَّ فِیْ کُلّ حٰالٍ (۲)
جبرائیل ۔ تین بار وحی لے کرمجھ پرنازل ہو ئے اور درود و سلام کے بعد فرمایا کہ یہ مقام غدیرہے یہاں قیام فرمائیں اورہر سیاہ و سفید،یہ بات جان لے کہ حضرت علی ۔ میرے بعد
..................
(۱)مائدہ، ۵/ ۵۵
(۲) حجّۃُالوداع کے موقع پر آپ [ص] کا خطبہ ( کتاب احتجاج طبرسی ،ج ۱، ص۶۶)



خطبہ کے مدارک و اسناد :
(۱) ۔ احتجاج ، ج ۱، ص ۶۶ : طبرسی
( ۲)۔ اقبا ل الاعمال ،ص۴۵۵: ابن طاؤوس
( ۳)۔ کتاب الیقین،باب۱۲۷: ابن طاؤوس
( ۴) التحصین ، باب۲۹: ابن طاؤوس
(۵)۔روضۃُالواعظین ،ص۸۹ :قتال نیشابوری
(۶)۔ البرہان،ج۱ ص۴۳۳:بحرانی
(۷)۔ اثباتُ الہُداۃ ، ج۳ ص۲ : عاملی
(۸)۔ بحارُالانوار ، ج۳۷ص ۲۰۱:بحرانی
( ۹)۔ کشف المہم،ص ۵۱:بحرانی
(۱۰)۔تفسیرِ صافی،ج۲، ص۵۳۹:فیض کاشانی
آپ کے وصی خلیفہ اورتمہارے پیشوا ہیں ، انکا مقام میری نسبت ایسا ہی ہے جیسا مقام ہارون کا موسٰی ؑ کی نسبت تھا ،بس فرق یہ ہے کہ میرے بعد کو ئی نبی نہیں آئے گاعلی ۔ خدا اور رسول [ص] کے بعد تمہارے رہنما ہیں خدا وندِ صاحب عزّت و جلال نے اپنی پا ک وبابرکت کتاب قرآنِ مجید میں اس مسئلہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ آیت نازل فرمائی۔
اس کے سوا کچھ نہیں کہ تمہارے ولی اور سرپرست خدا،رسول [ص] اوروہ لوگ ہیں جو ایمان لائیں ،نماز بپا کریں اور حالتِ رکوع میں زکٰوۃ ادا کریں یہ بات تم لوگ اچھی طرح جانتے ہو کہ علی ۔ نے نماز بپا کی اور حالتِ رکوع میں زکٰوۃ ادا کی اور ہر حال میں مرضیِ خدا کے طلبگار رہے ۔

۳۔ پیغمبر اکرم [ص] کی پریشانی:
اگر غدیر کا مقصد صرف علی ۔ کی دوستی کا پیغام پہنچانا تھا تواس پیغامِ الٰہی کے پہنچا دینے میں آپ [ص] کی پریشانی کا کیا سبب ہے؟آپ [ص] نے تین بار پس و پیش کیوں کی؟ اور جِبرَئیل ۔ کا مسلسل اصرار کرنا اور اس آیت کاپڑھناکہ(یٰا أَیُّہَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مٰا أُنْزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّکْ وَإِنْ لَمْ تَفْعَل فَمٰا بَلَّغْتَ رِسٰالَتَہُ)(۱)
( اے پیغمبر [ص] !جو حکم خدا کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا ہے اسے لوگوں تک پہنچا دیں اگر آج آپنے یہ کام انجام نہیں دیا تو گویا آپنے اپنی رسالت کو ادھورا چھوڑ دیا ۔(۲)
..................
(۱) مائدہ ۵/۶۷
(۲)بہت سارے مسلمان عُلماء نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ! یہ آیۂ مبارکہ غدیر کے دن حضرتِ علی ۔ کی ولایت کے ا علان کے لئے نازل ہوئی۔
۱۔ الولایۃ فی طرق حدیث الغدیر : طبری
۲۔ ما نزل القرآن فی امیرالمؤمنین ۔ : ابو بکر فارسی ۳۔ ما نزل القرآن فی علی ۔ : ابو نعیم
۴۔ الدرایۃ فی حدیث الولایۃ : سجستانی
۵۔ الخصائص العلویّۃ : نطنزی
۶۔ تفسیر شاہی : محبوب العالم
۷۔ ارجح المطالب ، ص ۶۷/۶۸/۲۰۳/ ۵۶۶ : امرتسری
۸۔ اسباب النزول ، ص ۱۳۵ : واحدی
۹۔ تاریخ دمشق ، ج ۲ ، ص ۸۵ : ابن عساکر
۱۰۔ فتح القدیر ، ج ۳ ، ص ۵۷ : شوکانی
۱۱۔ مفاتیحُ الغیب ، ج ۱۲ : فخر رازی
۱۲۔ تفسیر المنار ، ج ۶ ، ص ۴۶۳ : رشید رضا
۱۳۔ حبیبُ السَّیر، ج ۲ ،ص ۱۲ : خواند میر
۱۴۔ الدرّ المنثور ، ج ۲ ص ۲۹۸ : سیوطی
۱۵۔ شواھدالتنزیل ، ج ۱، ص ۱۸۷ / ۱۹۲ : حسکانی
۱۶۔ فرائد ا لسّمطین : حموینی
۱۷۔ فصول المہمّۃ ، ص ، ۲۳ /۷۴ : ابن صبّاغ
۱۸۔ مطالب السؤول : ابن طلحہ
۱۹۔ ینا بیع المودّۃ : ص ،۱۲۰ قندوزی
۲۰ ۔ روح المعانی : ج ۲ ص، ۳۴۸ آلوسی
۲۱۔ عمدۃ القاری ، ج ۸ ، ص۵۸۴: عینی
۲۲۔ غرایب القرآن ، ج ۶، ص ۱۷۰ : نیشا بوری
۲۳ ۔: مودّۃ القربی : ھمدانی

یہ اتنا بڑااور اہم کام کیا تھا؟حضرت علی ۔ کی دوستی کا پیغام تو کوئی اتنا بڑا کام نہیں تھا !اور یہ کام کسی خاص خطرہ کا حامل بھی نہیں تھا کہ رسول خدا [ص] کو اتنا پریشان کرتا یہاں تک کہ ۳ بار حضرت جبرئیل ۔ نازل ہوں اور آپ [ص] اس کام کو انجام دینے سے عذر خواہی کریں ،اس بات کا اظہا ر خود آپ [ص] نے اس دن کے خطبہ میں کیا !
وَسَأَلْتُ جِبْرَءِیْل ۔أَنْ یَسْتَعْفِیَ لِیَ السَّلٰامَ عَنْ تَبْلِیْغِ ذٰلِکَ إِلَیْکُمْ؛ أَیُّہَاالنّٰاسُ؛ لِعِلْمِیْ بِقِلَّۃِ الْمُتَّقِیْنَ وَکَثْرَۃِالْمُنٰافِقِیْنَ ، وَإِدْغٰالَ الا ثْمِیْنَ وَحِیَلِ الْمُسْتَہْزِءِیْنِ بِالاِسْلٰامِ أَلَّذِیْنَ وَصَفَھُم ُ اﷲ فِیْ کِتٰابِہ:
(بِأَنَّہُمْ یَقُوْ لُوْنَ بِأَلْسِنَتِہِمْ مٰالَیْسَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ وَیَحْسَبُوْنَہ ھَیِّناً وَ ھُوَ عِنْدَاﷲِ عَظِیْمٌ)(۱)
وَکَثْرَ ۃِ أَ ذٰا ھُمْ لِیْ غَیْرَ مَرَّۃِ ، حَتّیٰ سَمُّوْنِی أُذُناً، وَزَعَمُوْاأَنِّیْ کَذٰلِک لِکَثْرَۃِ مُلٰازِمَتِہ اِ یّٰایَ، وَإِقْبٰالِیْ عَلَیْہِ، وَھَوٰاہُ وَقَبُوْلِہٖ حَتّیٰ أَنْزَلَ اﷲُ عَزَّ وجَلَّ َفِیْ ذٰلِکَ قُرْآناً
( وَمِنْھُمُ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ النَّبِیَّ وَیََقُوْلُوْنَ ھُوَأُذُ نٌ قُلْ أُذُنٌخَیْرٍلَکُم )(۲)
وَلَوْ شِءْتُ أَنْ أُسَمِّیَ القٰاءِلیْنَ بِذٰلِکَ بِأَسْمٰءِھِمْ لَسَمَّیْتُ، وَإِنْ أَوْمَیءَ إِلَیْھِمْ بِأَعْیٰانِھِمْ لاَوْمأْتُ،وَأَنْ أَدُلَّ عَلَیْھِمْ لَدَلَلْتُ،وَلٰکِنِّیْ وَاﷲِ فِیْ أُمُوْرھِمْ قَدْ تَکَرَّمْتُ۔
میں نے جبرَئیل ۔ سے درخواست کی کہ مجھے علی ۔ کی ولایت کے اعلان سے معاف رکھے کیوں کہ اے لوگو !میں اس بات سے بخوبی واقف ہوں کہ ،پرہیزگار بہت کم اور منافقوں کی تعداد
..................
(۱) نور،۲۴/۱۵
(۲) توبہ / ۶۱

بہت زیادہ ہے ، مکّار گنہگار اور اسلام کا مذاق اڑانے وا لے موجود ہیں وہ لوگ کہ جن کے بارے میں خدا وندِعالم نے اپنی کتاب میں فرمایا: (وہ لوگ اپنی زبانوں سے ایسی باتیں کہتے ہیں کہ جن پر دل میں یقین نہیں رکھتے اور انکا خیال یہ ہے کہ یہ آسان اور بہت سادہ سی بات ہے جبکہ منافقت خدا کے نزدیک سب سے بڑاگناہ ہے )
ان منافقوں نے بارہا مجھے تکلیف پہنچائی یہاں تک کہ مجھ پر تہمتیں لگائیں اور کہا کہ ( پیغمبر ؐ معاذاﷲ دوسروں کے کہنے پر عمل کرتے ہیں اور اس میں انکا اپنا کوئی ا رادہ شامل نہیں ہوتا) کیونکہ! میں ہمیشہ علی ۔ کے ساتھ تھا اور وہ زیادہ تر میری توجّہ کے مرکز تھے لہٰذا منا فقین حسد کی وجہ سے اس بات کو تحمّل نہ کر سکے یہاں تک کہ خداو ندِ بزرگ و بر تر نے ایک آیت نازل کی جسکے ذریعہ اُنکی ان بیہودہ باتوں کامُنہ توڑ جواب دیا فرمایاکہ:( بعض منافقین ، پیغمبر [ص] کو تکلیف پہنچاتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ سرا پاگوش ہیں، اے رسول کہدو کہ پیغمبر اچھی باتیں سننے والا ہے یہی تمہارے لئے بہتر ی ہے) اگر ابھی چاہوں تو منافقوں کونام اور پتے کے ساتھ پہچنوا دوں، یا انکی طرف ا نگلی کا اشارہ کر دوںیا لوگوں کو انکو پہچاننے کے لئے راہنمائی کردوں توجو چاہوں کر سکتا ہوں لیکن خداکی قسم میں ان کیلئے کریم ہوں اور بزرگواری سے کا م لیتا ہوں(۱)
اگر اُس دن پیغمبر [ص] حضرت علی ۔ کی دوستی کا پیغام نہ پہنچاتے تو آپ [ص] کی رسالت پر کیا حرف آتا ؟یہ کام ایسا کونسا کام ہے کہ اگر پیغمبر گرامی [ص] انجام نہ دیں تو انکی رسالت نا مکمّل رہ جائے گی؟ اور پھر فرشتۂ وحی آ نحضرت [ص] کی تسلّی کے لئے پیغام الٰہی لے کر آئے کہ ( وَاﷲُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ )(۲)
..................
۱۔ یہ آنحضرت [ص] کے حجّۃُ الوداع کے موقع پر معروف خطبہ کا کچھ حصّہ ہے مکمّل خطبہ اس کتاب کے آ خر میں اسناد و مدارک کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے رجوع فرمائیں:
(۲)مائدہ ۵/۶۷

( خدا آپ [ص] کو انسانوں کے شر سے محفوظ رکھے گا )
وہ رسول جن پر آغاز بعثت سے لے کر حجّۃُ الوداع تک کبھی بھی خوف غالب نہیں آیا ،ہمیشہ میدان جنگ میں موجود رہے (۱) کارِ رسالت کے مشکل اور کٹھن راستے میں آپ [ص] کے قدم کبھی متزلزل نہیں ہوئے اب آ پ [ص] کو کیا بات پریشان کئے ہوئے ہے ؟
آپ [ص] کو کونسا کام انجام دینا ہے کہ جسکے انجام دینے میں آپ [ص] دشمن کے مخالفانہ پروپیگنڈے، منکروں کے انکار ،کافروں کے کفر اور منافقوں کے نفاق سے خوفزدہ ہیں اور تین بارجبرَئیل ۔ سے اس کام کو انجام نہ دینے کی درخواست کرتے ہیں ؟
پیغمبر [ص] تو کبھی خوف میں مبتلا نہیں ہوتے تھے ،اور وحیِّ الہی کے پہنچانے میں ایک لحظہ پس و پیش سے کام نہیں لیتے تھے،حقیقت میں پیغمبر [ص] أُمّت کے بکھر جانے سے خوفزد ہ تھے،رسولِ اکرم [ص] کوداخلی اختلاف اور جھگڑوں کا ڈر تھاکہ کہیں لوگ آپ [ص] کے مقابلہ میں کھڑے نہ
..................
۱ ۔آنحضرت [ص] کی شجاعت اور خط شکنی کے سلسلے میں امیرُالمؤمنین ۔ نے فرمایا:
( کُنَّا إِذَا أحْمَرَّالْبَأْسُ أتَّقَیْنَا بِرَسُوْلِ اﷲِ [ص]،فَلَمْ یَکُنْ أَحَدٌ مِنَّاأَقْرَبَ إِلَیٰ الْعَدُوِّمِنْہُ )
(جب بھی شعلۂ جنگ بھڑکتا ہم رسولِخدا [ص] کی پناہ میں چلے جاتے تھے کیوں کہ ایسے نازک وقت میں ہم لوگوں میں سب سے زیادہ رسولِخدا [ص] دشمن کے نزدیک ہوتے تھے ۔ )
۱۔ کشف الغمۃ : مرحوم اربلی( متوفیٰ ۶۸۹ ھ)۔۔۔
۔۔۔۲۔غریب الحدیث ، ج۲ ص۱۸۵ : ابن سلام ( متوفیٰ ۲۲۳ھ )
۳۔کتاب النہایۃ ، ج۱ ص ۸۹ ، ۴۳۹ : ابن اثیر ( متوفیٰ ۶۳۰ھ )
۴۔تاریخ طبری ، ج۲ ص۱۳۵ : طبری ( متوفیٰ ۳۱۰ھ )
۵۔بحار الانوار ، ج۵ ص ۲۲۰ : مرحوم مجلسی ( متوفی۱۱۱۰ھ )
۶۔بحار الانوار ، ج۱۶ص ۱۱۷، ۲۳۲، ۳۴۰ : مرحوم مجلسی ( متوفی۱۱۱۰ھ )

ہوجائیں اور آپ [ص] کی کہیں موجودگی میں امّت کے درمیان خونریزی شرو ع نہ ہو جائے، احترام جاتا رہے،جو کچھ جہاد کی قربانیوں اور شہادتوں سے حاصل ہوا تھا بھلا دیا جائے آیا یہ سب کچھ حضرت علی ۔ سے دوستی کے اعلان کی وجہ سے تھا ؟ پیغمبر اکرم [ص]نے ماضی میں آغاز بعثت سے لے کر غدیر کے موقع تک بارہا و بارہا فرمایا تھا کہ میں علی ۔ کو دوست رکھتا ہوں ۔
یہ تو کوئی اتنا اہم مسئلہ نہیں تھا کہ امّت مسلمہ کی صفوں میں تزلزل اور دراڑ کا باعث ہو دوستی کا اعلان کوئی خاص اہمیت کا حامل مسئلہ نہ تھا کہ صاحب عزّت و جلال خدا اپنے پیغمبر اکرم [ص] کو اطمینان دلائے اور کہے کہ ( وَ اﷲُ یَعصِمُکَ مِنَ النَّاسِ)
اور تم ڈر و نہیں خداوند عالم آپ کو لوگوں کے شر سے محفو ظ رکھے گا اگر ہدف صرف یہ تھا کہ ’’دوستی کا ابلاغ ‘‘ ہو جائے تو پیغمبر اسلام [ص] نے حضرت علی ۔کا ہاتھ بلند کرکے انکی بیعت کیوں کی ؟ اور تمام مسلمانوں کو بیعت کا حکم کیوں دیا کہ حضرت علی ۔ کی بیعت کریں !! اور حاضرین میں سے مرد آدھی رات تک اور خواتین اگلے دن کی صبح تک حکم بیعت کی بجاآوری میں مشغول رہیں ۔ حضرت علی ۔ کی د وستی یا اسکا ابلاغ تو اس بات کا متقاضی نہیں ہے کہ بیعت طلب کی جائے اور لوگ بھی امتثال حکم کرتے ہوئے مشغول ہوجائیں ۔
پیغمبر اسلام [ص] مختلف اسلامی ممالک سے آئے ہوئے ایک لاکھ بیس ہزار حجاج کو ایک دن اور رات کے لئے غدیر خم کے میدان میں روکے رہیں صرف یہ کہنے کے لئے کہ ( اے لوگو ! میں علی ۔ کو دوست رکھتا ہوں ) آیا یہ دعویٰ قابلِ قبول ہے ؟
یہاں ایک سوا ل اور پیدا ہوتا ہے کہ آیا حضرت علی ۔کی دوستی کے اعلان کے ساتھ دین کامل ہو جائے گا؟اگر پیغمبر گرامیِ اسلام [ص] روزِغدیر اپنے ساتھ علی ۔ کی دوستی کا اعلان نہ کرتے تو کیا دین ناقص تھا ؟ اور چونکہ اُس دن آپ [ص] نے لوگوں سے کہا کہ ( میں علی ۔ کو دوست رکھتا ہوں ) تو دینِ خدا کامل ہو گیا ؟ اور خدا کی نعمتیں لوگوں پر تمام ہو گئیں ؟ اور جیسا کہ بہت سارے شیعہ اور سُنّی علماء (۱) نے اس بات کااعتراف کیا ہے
غدیر کے دن آپ [ص] کے اعلانِ ولایت اور لوگوں کے بیعت کر لینے کے بعد ختمی مرتبت [ص] پر یہ آیۂ مبارکہ نازل ہوئی !
( ا لْیَوْ مَ یَءِسَ ا لَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ دِ یْنِکُمْ ، فَلاَ تَخْشَوْ ھُم وَاخْشَوْنِ،الْیَوْمَ أَکْمَلْت لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ أَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتٖی وَرَضِیْتُ لَکُمُ الإِسْلٰامَ دِیْناً )(۲)
(مسلمانوں ) اب تو کفّار تمہارے دین سے( پھر جانے سے ) ما یوس ہو گئے ہیں ، لھذا تم ان سے تو ڈرو ہی نہیں بلکہ صرف مجھ سے ڈرو آج ( غدیر کے دن )میں نے تمہارے دین کو مکمّل کر دیا اور تم لوگوں پر اپنی نعمتیں پوری کر دیں ،اور تمارے اس دین اسلام کو پسندکیا غدیر کے دن ایسا کونسا کام انجام پایا کہ فرشتۂ وحی مذ کورہ آیت کوبشارت و خوشخبری کے سا تھ لیکر نازل ہوا ؟
وہ عظیم واقعہ کیا تھا کہ جس کی وجہ سے
الف۔ کافر دین کی نابودی سے مایوس ہو گئے ۔
..................

۱۔تمام مؤرّخوں اور بہت سارے اہلِ سنّت مفسِّروں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ سورۂ مبارکۂ مائدہ کی آیت شمارہ /۳ (الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ) غدیر کے دن حضرت علی ۔ کی اعلانِ ولایت اور لوگوں کی بیعتِ عمومی کے بعدآنحضرت ؐپر نازل ہوئی ۔مورخوں اور مفسّروں کے نام مندرجہ ذیل ہیں !
۱۔تاریخ دمشق ، ج۲ ص ۷۵ و ۵۷۷ : ابن عساکر شافعی ( متوفّیٰ ۵۷۱ ؁ ھ )
۲۔ شواہدُ التنزیل ، ج۱ ص ۱۵۷ : حسکانی حنفی ( متوفّیٰ ۵۰۴ ؁ ھ ) ۳۔ مناقب ،ص۱۹ : ابن مغازلی شافعی
۴۔ تاریخ بغداد ، ج۸، ص ۲۹۰ :خطیبِ بغدادی ( متوفّیٰ ۴۸۴ ؁ ھ )
۵۔ تفسیرِدرّالمنثور ،ج۲، ص ۲۵۹ : سیوطی شافعی ( متوفّیٰ ۹۱۱ ؁ ھ )
۶۔ الإِتقان ، ج ۱، ص ۳۱ و۵۲ : سیوطی شافعی ( متوفّیٰ ۹۱۱ ؁ ھ )
۷۔ مناقب ،ص۸۰ : خوارزمی حنفی ( متوفّیٰ ۹۹۳ ؁ ھ )
۸۔تذکرۃُ الخواص ، ص ۳۰ و ۱۸: ابن جوزی حنفی ( متوفّیٰ ۶۵۴ ؁ ھ )
۹۔ تفسیرِ ابن کثیر ، ج۲ ،ص ۱۴ : ابن کثیرِ شافعی ( متوفّیٰ ۷۷۴ ؁ ھ )
۱۰۔ مقتلُ الحُسین،ج۱ ، ص۴۷ : خوارزمی حنفی ( متوفّیٰ ۹۹۳ ؁ ھ )
۱۱۔ینابیعُ المودۃ، ص۱۱۵ : قندوزی حنفی
۱۲۔ فرائدُ السّمطین ،ج ۱ ،ص، ۷۲ و ۷۴ و۳۱۵: حموینی ( متوفّیٰ ۷۲۲ ؁ ھ )
۱۳۔ تاریخ یعقوبی ،ج ۲، ص ۳۵ : یعقوبی ( متوفّیٰ ۲۹۲ ؁ ھ )
۱۴۔ الغدیر ، ج ۱، ص ۲۳۰ : علّامہ امینی
۱۵۔ کتاب الولایۃ : ابن جریر طبری ( متوفّیٰ ۳۱۰ ؁ ھ )
۱۶۔ تاریخ ابن کثیر،ج۵، ص ۲۱۰ : ابن کثیرِ شافعی ( متوفّیٰ ۷۷۴ ؁ ھ )
۱۷۔ مناقب ،ص ۱۰۶: عبداﷲِ شافعی
۱۸ ۔ ارجح المطالب ،ص ۵۶۸ : عبداﷲِ حنفی
۱۹۔ تفسیرِ روحُ المعانی ، ج۶ ص۵۵: آلوسی
۲۰ ۔ البدایۃ والنہایۃ ،ج۵، ص۲۱۳وج۷ ص ۳۴۹ :ابن کثیرِ شافعی ( متوفّیٰ ۷۷۴ ؁ ھ )
۲۱۔ الکشف و البیان :ثعلبی ( متوفّیٰ ۲۹۱ ؁ ھ ) ۲۲۔بحارُ الانوار ،ج۳۷ باب ۵۲ : علّامہ مجلسی
اور بہت ساری تفاسیر اہل سنّت ، اور تمام شیعہ علماء کی تفاسیر جن کے ذکر کے لئے ایک الگ کتاب کی ضرورت ہے ۔
(۲) مائدہ ۵/ ۳

ب ۔ جس کے بعد کافروں کی سازشوں سے نہ ڈرا جائے ۔
ج ۔ دین اسلام کامل ہوگیا۔
د۔ اﷲ کی نعمتیں پوری ہو گئیں ۔
ھ ۔ اسلام کے پائندہ رہنے کی ضمانت دی گئی ۔
کیا یہ سب کچھ صرف دوستی کا پیغام پہنچانے کے لئے تھا ؟
آیا اس قسم کے دعوے تمام دنیا کے مسلمانوں کے لئے قابلِ قبول ہیں ؟
ہم غدیر کے پر نور خورشید کے مقابلے میں جہل کی تاریکی اور کینہ پروری کی پناہ کیوں لیں؟
بلکہ غدیر کاواقعہ تو کوئی بہت بڑا واقعہ ہونا چاہیے کہ جس نے آیاتِ الٰہی کے( بہت سی بشارتوں اور پیغاموں کے ساتھ) نزول کی راہ ہموار کی۔
اُس واقعہ کو تو بہت اہم واقعہ ہونا چا ہیے کہ جسکا نتیجہ ’’اکمالِ دین ‘‘ اور ’’ اتمامِ نعمت ہو۔
ایسا واقعہ کہ جس نے راہ رسالت کو رنگ جاویدانی بخشا اور آپ [ص] کی آغازِ بعثت سے لے کر ہجرت اور اسکے بعد کی زحمتوں کا پھل دیا۔
آیا یہ عظیم واقعہ ’’ عام مسلمانوں کا حضرت علی ۔ کی بیعت کرنے‘‘ کے علاوہ کچھ اور ہے؟ آیا یہ عظیم واقعہ ’’ حضرت علی ۔ اور انکے گیارہ بیٹوں کی ‘‘قیامت تک کے لئے بیعت عمومی کے علاوہ کچھ اور ہے ؟
کیایہ عظیم واقعہ پیغمبر [ص]کے بعدسے قیامت تک کے لئے مسلمانوں کے رہبراور پیشوا معیّن ہونے کے علاوہ کچھ اور ہے؟
یہ اہل سنّت مصنّفین، تاریخ کا مطالعہ کیوں نہیں کرتے کہ روزِ غدیر کے بعد کس قسم کے تلخ حوادث رونما ہوئے ؟
۵۔ آپ [ص] کے قتل کی نا کام سازش :
اگر پیغمبر [ص] کا ہدف غدیر کے دن صرف حضرت علی ۔ کی دوستی کا پیغام پہنچانا تھا تو ایک گروہ نے آپ [ص] کے قتل کا ارادہ کیوں کیا ؟ اور مدینے کے راستے میں اپنے اس باغیانہ ارادے کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کیوں کی لیکن خدا وند عالم نے آپ [ص] کی حفاظت کی ؟ دوستی کا پیغام تو آپ [ص] کے قتل کا سبب نہیں ہو سکتا ؟
امیرُ المؤمنین ۔ کی ولایت کے مخالفوں نے سوچا کہ اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ آپؐ کو قتل کر دیا جائے ، اور اس قتل کوطبیعی موت ظاہر کرنے کے لئے ان لوگوں نے آپس میں سازش یہ کی کہ جب آپ [ص] کی سواری ’’ عقبہ‘‘ (جو کہ پہاڑی علاقہ ہے اور وہاں بہت گہری گہری کھائیّاں ہیں) کے قریب پہنچے تو پتھر اور لکڑیاں وغیرہ ان کھائیّوں میں پھینکی جائیں جن سے مختلف قسم کی خوفناک آوازیں پیدا ہو ں گی جن آوازوں سے ڈر کر آپ [ص] کی سواری کسی گہری کھائی میں جا گرے گی۔ اور ہم تاریکی شب سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہاں سے فرار ہو جائیں گے پھر کل سب لوگوں میں یہ بات مشہور کر دیں گے کہ آپ [ص] کی وفات کا سبب طبیعی حادثہ ہے ۔
پھر یہ سارے مخالفین تیزی سے اس مقام پر جمع ہوکر گھات لگا کر بیٹھ گئے اور آپ [ص] کی سواری کا انتظار کرنے لگے ،لیکن خدا وندِ عالم نے فرشتۂ وحی کو نازل کرکے اپنے حبیب [ص] کو دشمن کی اس سازش سے آگاہ فرما دیا،جب آپ [ص] کی سواری اس مقام کے نزدیک پہنچی تو آپ ؐ نے حذیفۂ یمانی اور عمّار یاسر سے کہا کہ اُن میں سے ایک اونٹ کی مھار تھامے اور ایک سواری کو ہنکائے، گھات لگائے ہوئے منافقوں نے جو کچھ بھی ہاتھ میں آیا کھائی کی طرف پھینکنا شروع کر دیا اور مختلف قسم کی خوفناک آوازوں سے اُونٹ کو ڈرانے کی کوشش کی ، لیکن خدا کی مدد آپ [ص] کے شامل حال رہی اور اُونٹ پر کوئی اثر نہ ہوا ۔
اور اس طرح دشمن کی سازش ناکام ہوئی ، مگر یہ منافقین اس سنہرے موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتے تھے اور جب اس سازش کو ناکام ہوتے دیکھا تو تلواریں لے کر پیغمبر گرامیِ اسلام ؐپر حملہ آور ہو گئے لیکن ان کے سامنے حذیفۂ یمانی اور عمارِ یاسر جیسے عاشقانِ ولایت تھے جن کے بے نظیر اور شجاعت سے بھرپور دفاع کے سبب اس سازش میں بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ، اب اگر یہ منافقین تھوڑی سی دیر کرتے تو قافلے میں شامل عاشقانِ ولایت سر پر پہنچ جاتے اور منافقوں کا کام تمام کر دیتے ۔
لہٰذا اب منافقین کے پاس فرار کے علاوہ کو ئی چارہ نہیں تھا ، حذیفۂ یمانی نے پوچھا یا رسول اﷲ [ص] یہ کون لوگ تھے ؟ آپ [ص] نے فرمایا خود ہی دیکھ لو، اُس وقت بجلی چمکی اور منافقوں کے چہرے تاریکی کے پردے سے بے نقاب ہوئے اور حذیفہ نے اُن افراد کو آسانی سے پہچان لیا ! جن کی تعداد پندرہ (۱۵) ہے اور ان کے نام در ج ذیل کتب میں درج ہیں۔(۱)
۶۔ نفرین آمیز طو مار کا انکشاف :
روزِ غدیر پیغمبر [ص] کا ہدف صرف حضرت علی ۔ کی دوستی کا اعلان اور لوگوں سے حضرت علی ۔ کی بعنوان امام اور رہبربیعت لینا نہیں تھا تو ایک گروہ نے اس دن کے بعد اُمّتِ اسلامی کی امامت اور رہبری کے متعلّق مخفیانہ تحریر کیوں لکھی کہ جسکے ذریعہ رسولِ خدا [ص] کے بعد قدرت و حکومت اپنے ہاتھ میں لے لیں ؟
جب یہ گروہ آنحضرت [ص] کو قتل کرنے اور مسلمانوں کے درمیان تفرقہ ڈالنے میں کامیاب نہ ہوسکا تو انہوں نے احتیاط کا دامن تھاما اور تا حیاتِ رسول خدا [ص] اس قسم کی حرکتوں
..................
(۱) کشف الیقین ، ص ۱۳۷ : علّامہ حلّی ۲۔ ارشادالقلوب ، ص ۱۱۲ و ۱۳۵ : دیلمی ۳۔ بحارالانوار ، ج۲۸ ص ۸۶ و ۴ ۱۱ : علّامہ مجلِسی

سے اجتناب کرنے کا فیصلہ کیا، لیکن ایک دوسرے گر وہ نے ولایتِ علی ۔ کی کھلّم کھلّا مخالفت کی ا ور اس طرح ایک تحریر لکھی جس پر بہت سارے لوگوں کے دستخط لئے تاکہ یہ ظاہر کر سکیں کہ ہمار ی مخالفت بہت منظّم اور مستحکم ہے ۔
اس مقصد کے لئے ابو بکر کے گھر پر جمع ہوئے باہم گفتگو کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ ایک عہد نامہ لکھا جائے ،چنانچہ سعید بن عاص نے ایک عہد نامہ لکھا ، اس عہد نامے پر جن لوگوں نے دستخط کئے ان کے ناموں سے قریش اور امیرُالمؤ منین ۔ کے مخالفوں کے سینوں میں کینے اور بغض کی شدت ثابت ہو جاتی ہے ،ان ناموں میں سرِ فہرست ابو سفیان ، فرزندِ ابی جہل اورصفوان بن أُمیّہ جیسے نام دیکھنے میں آتے ہیں، یعنی مشرکوں اور کافروں کے سردار منافقوں ( نام نہاد مسلمانوں ) کے ہاتھوں میں ہاتھ دئے ہوئے ہیں تاکہ خورشیدِ ولایت کا انکار کیا جاسکے ۔
 

 

Wednesday, 05 August 2020 06:19

ولايت اور ہجرت

ررر



اقتباس از چھ تقريريں امامت و ولايت کے موضوع پر حضرت آيت اللہ العظميٰ سيد علي خامنہ اي
ترجمہ سيد سعيد حيدر زيدي


ہجرت کا شمار اُن مسائل ميں ہوتا ہے جو ولايت کے بارے ميں ہمارے پيش کردہ وسيع مفہوم کے ساتھ تعلق رکھتے ہيں ۔پچھلي تقارير ميں ہم نے عرض کياتھا کہ ولايت کے معني ہيںمومنين کي صف ميںموجود عناصر کے مابين مضبوط اور مستحکم باہمي رابطے کا قيام‘مومن اور غير مومن صفوںکے درميان ہر قسم کي وابستگي کا خاتمہ‘اور بعد کے مراحل ميں مومنين کي صف کے تمام افراد کا اُس مرکزي نقطے اور متحرک قوت يعني ولي‘حاکم اور امام سے انتہائي مضبوط اور قوي ارتباط جس کے ذمے اسلامي معاشرے کي تنظيم و تشکيل ہے ۔
ہم نے اِس بارے ميں بھي گفتگو کي تھي کہ کون اشخاص اسلامي معاشرے کے ولي اور حاکم ہو سکتے ہيں اور اِس کا جواب قرنِ کريم سے حاصل کياتھا ‘جو کہتا ہے کہ :
’’اِنَّمَا وَلِيُّکُمُ اُ وَ رَسُوْلُہ وَ الَّذِيْنَ ٰامَنُوا الَّذِيْنَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَ يُْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَ ہُمْ رَاکِعُوْنَ۔‘‘(١)
اوراس يت کے حوالے سے ہم نے امير المومنين صلوات ا عليہ کے قصّے کي جانب
١۔تمہارا ولي امر صرف خدا ‘ اُس کا رسول اور وہ مومنين ہيں جو نماز قائم کرتے ہيں اور حالت ِ رکوع ميں زکات ديتے ہيں ۔(سورہ مائدہ ٥۔يت ٥٥)
اشارہ کيا تھا ۔
اگر ہم ولايت کو اس وسعت کے ساتھ سمجھيںاور اسے فروعي اور دوسرے درجے کا مسئلہ قرار دے کر چھوڑ نہ ديں‘ تو ولايت قبول کرنے کے بعد جن چيزوں کا سامنا ہوسکتا ہے اُن ميں سے ايک چيزہجرت بھي ہے۔کيونکہ اگر ہم نے خدا کي ولايت کو قبول کيا‘اور اس بات کو مان ليا کہ انسان کي تمام جسماني‘فکر ي اورروحاني قوتوں اور صلاحيتوں کو ولي الٰہي کي مرضي اور منشا کے مطابق استعمال ہونا چاہئے‘

مختصر يہ کہ انسان کو اپنے وجود کے تمام عناصر کے ساتھ بندہ خدا ہونا چاہئے ‘ نہ کہ بندہ طاغوت‘تو لامحالہ ہميں يہ بات بھي قبول کرني پڑے گي کہ اگر کسي جگہ ہمارا وجود‘ہماري ہستي اور ہماري تمام صلاحيتيں ولايت ِ الٰہي کے تابع فرمان نہ ہوں‘ بلکہ طاغوت اور شيطان کي ولايت کے زيرِ فرمان ہوں‘تو خدا سے ہماري وابستگي اس بات کا تقاضا کرتي ہے کہ ہم اپنے پ کو طاغوت کي قيد و بند سے زاد کرائيں اور ولايت ِ الٰہي کے پُر برکت اور مبارک سائے تلے چلے جائيں۔ظالم حاکم کي ولايت سے نکل کر امامِ عادل کي ولايت ميں داخل ہوجانے کا نام ہجرت ہے۔
پ نے ديکھا کہ ہجرت ولايت سے منسلک مسائل ميں سے ايک مسئلہ ہے۔ يہ وہ چوتھا نکتہ ہے جس پر ولايت کے بارے ميںکي جانے والي اِن تقارير کے سلسلے ميں ہم گفتگو کريں گے۔

انفرادي ہجرت
ايک انسان کو طاغوت اور شيطان کي ولايت کے تحت نے سے کيوںبچنا چاہئے ؟
اس سوال کا جواب ايک دوسرے سوال کے جواب سے وابستہ ہے ‘ اورہم پ سے چاہتے ہيں کہ پ فوراً اپنے ذہن ميں اس سوال کا اِس انداز سے تجزيہ و تحليل کيجئے گا کہ پ خوداپنے پاس موجود اسلامي اور مذہبي تعليمات اور معلومات کے مطابق اِس کا جواب دے سکيں ۔اسکے بعد اگر پ کا جواب اُس جواب جيسا نہ ہوا جو ہمارے ذہن ميں ہے اورہمارے جواب سے مختلف ہوا‘تب اس موضوع پر گفتگو کي گنجائش رہے گي۔
سوال يہ ہے کہ :کيا طاغوت کي حکومت ميں رہتے ہوئے مسلمان نہيں رہا جاسکتا ؟
کيا يہ ممکن نہيںہے کہ ايک مسلمان شيطان کي ولايت کے تحت زندگي بسر کرے ‘ ليکن رحمان کا بندہ ہو ؟
ايسا ہوسکتا ہے يا نہيں ؟
کيا يہ ممکن ہے کہ: انساني زندگي کے تمام پہلوؤں اور اسکي حيات کے تمام گوشوں پر ايک غير الٰہي عامل کي حکمراني ہو‘ انسانوں کے جسموں اور اُن کي فکروں کي تنظيم و تشکيل اور اُن کا انتظام وانصرام ايک غير الٰہي عامل کے ہاتھ ميں ہو‘يہي غير الٰہي عامل افراد ِ معاشرہ کے جذبات و احساسات کو بھي کبھي اِس رُخ پر اور کبھي اُس رُخ پر دھکيل رہا ہو اورانسان اِس قسم کے طاغوتي اور شيطاني عوامل کے قبضہ قدرت ميںزندگي بسر کرنے کے باوجود خدا کا بندہ اور مسلمان بھي ہو۔
کيا يہ چيزممکن ہے ‘يا ممکن نہيں ہے ؟
پ اِس سوال کا جواب تلاش کرنے کي کوشش کيجئے اور اپنے ذہن ميں اِس کا جواب تيار کيجئے ‘ديکھئے يہ ہوسکتا ہے يا نہيں ہوسکتا ؟
اِس سوال کا جواب دينے کے لئے خود اِس سوال کاکچھ تجزيہ وتحليل کرناضروري ہے ‘تاکہ جواب واضح ہوجائے ۔
ہم نے پوچھاہے کہ کيا يہ ممکن ہے کہ کوئي انسان شيطان کي ولايت کے تحت ہو‘ اِسکے باوجود مسلمان بھي ہو ؟
اِس سوال کے دو اجزا ہيںاور ہميں چاہئے کہ ہم اِن دو اجزا کا درست تجزيہ و تحليل کريں ‘ اور ديکھيں کہ اِن کے کيا معني ہيں ؟
پہلا جز يہ ہے کہ کوئي شخص شيطان کي ولايت کے تحت ہو۔
شيطان کي ولايت کے تحت ہونے کے کيا معني ہيں ؟
اگر ولايت کے اُن معني کو جو ہم نے يات ِقرني سے اخذ کئے ہيں ‘ ’’ولايت ِشيطان ‘‘ کي عبارت کے پہلوميں رکھيں ‘ تو معلوم ہوجائے گا کہ ولايت ِ شيطان سے کيا مراد ہے ۔
ولايت ِ شيطان سے مراديہ ہے کہ شيطان (شيطان کے اُنہي مجموعي معني کے مطابق جنہيں ہم نے بارہا بيان کيا ہے ) انسان کے وجود ميںپائي جانے والي تمام توانائيوں ‘ صلاحيتوں ‘ تخليقي قوتوں اور اعمال پر مسلط ہو اور انسان جو کچھ انجام دے وہ شيطان کے معين کردہ دستور کے مطابق ہو‘انسان جو کچھ سوچے وہ اس سمت ميں ہو جس کا تعين شيطان نے کيا ہے‘ اُس انسان کي طرح جو کوہساروں سے نيچے بہنے والے سيلاب کي لپيٹ ميں ہو۔ اس انسان کو يہ بات پسند نہيں ہوتي کہ وہ سخت اور کھردري چٹانوں سے ٹکرائے اوراُس کا سر پاش پاش ہوجائے ‘اُسے يہ بات پسند نہيں ہوتي کہ وہ اس پاني ميں بہتے ہوئے گہرے گڑھے ميں جاپڑے ‘اُسے يہ بات پسند نہيںہوتي کہ پاني کي ان موجوں کے درميان اُس کا دم گھٹ کے رہ جائے۔باوجود يہ کہ اُسے پسند نہيں ہوتا ليکن پاني کا يہ تيز و تند ريلا بغير اُسکي مرضي کے اُسے بہائے لئے جاتا ہے ‘وہ ہاتھ پاؤںبھي مارتا ہے‘وہ کبھي اِس طرف اور کبھي اُس طرف سہارا بھي ليتا ہے ‘راستے ميں نے والے پودوں اور درختوںکو پکڑنے کي کوشش بھي کرتا ہے ‘ليکن پاني کا تيز بہاؤ اُسے بے اختيار بہائے لئے جاتا ہے ۔
ولايت ِ طاغوت اور ولايت ِ شيطان اسي قسم کي چيز ہے ۔
لہٰذا يت ِ قرن کہتي ہے:
’’وَجَعَلْنہُمْاٰا اَئِمَّۃً يَّدْعُوْنَ اِلَي النَّارِ۔‘‘
’’ايسے رہنمااور قائدين بھي ہيں جو اپنے پيروکاروں اور زيرِ فرمان افراد کو دوزخ کي گ اور بد بختي کي طرف کھينچے لئے جاتے ہيں۔‘‘
(سورہ قصص ٢٨۔ يت ٤١)
قرنِ مجيد کي ايک دوسري يت فرماتي ہے :
’’اَلَمْ تَرَ اِلَي الَّذِيْنَ بَدَّلُوْا نِعْمَتَ اِ کُفْرًا وَّ اَحَلُّوْا قَوْمَہُمْ دَارَ الْبَوَارِ جَہَنَّمَ يَصْلَوْنَہَا وَ بِئْسَ الْقَرَارُ ۔‘‘(١)
کيا تم نے اُن لوگوں کو نہيں ديکھا جنہوں نے خدا کي نعمت کا کفران کيا ؟
وہ نعمت جس کا اُن لوگوں نے کفران کيا ‘کيا تھي؟
نعمت ِ قدرت ‘جو پروردگار کي قدرت کا مظہر ہے‘دنيوي طاقتيں‘انسان کے معاملات کے نظم ونسق کي نعمت‘انسانوں کي بکثرت صلاحيتوں ‘ افکاراور قوتوںکو ہاتھ ميں رکھنے کي نعمت ‘ يہ سب کي سب چيزيں نعمت ہيں اور ايسے سرمائے ہيں جو انسان کے لئے خير کا سرچشمہ ہوسکتے ہيں ۔
اِ س يت ميں جن افراد کي جانب اشارہ کيا گيا ہے اُن کي فرمانروائي ميںزندگي گزارنے والاہر انسان ايک عظيم اور بزرگ انسان بن سکتاتھا‘اور کما ل کے بلند ترين درجات تک رسائي پاسکتاتھا۔ليکن ان لوگوں نے نعمات کا کفران کيااور جس مقصد کے لئے اُن سے استفادہ کرنا چاہئے تھا اُس مقصد کے لئے اُنہيںاستعمال نہيںکيا ۔
اسکے بعد فرماتا ہے :
وَّ اَحَلُّوْا قَوْمَہُمْ دَارَ الْبَوَارِ(اوروہ خودجانتے بوجھتے ‘ اپني قوم اور اپنے زيرِ فرما ن لوگوں کو نيستي و نابودي اور ہلاکت کے گڑھے کي طرف لے گئے)
جَہَنَّمَ يَصْلَوْنَہَا وَ بِئْسَ الْقَرَارُ( اُنہيں جہنم کي طرف لے گئے ‘ جس ميں الٹے منھ پھينکے جائيں گے اور يہ کيسي بُري جگہ اور ٹھکانہ ہے)
يہ يت امام موسيٰ ابن جعفر عليہما السلام نے ہارون کے سامنے پڑھي اور ہارون کو يہ بات باور کرائي کہ تو وہي شخص ہے جو اپني قوم کو اور اپنے پ کو بد ترين منزل اورمہلک ترين ٹھکانے سے ہمکنار کرے گا ۔
ہارون نے (امام سے) سوال کيا تھا کہ کيا ہم کافر ہيں ؟ اُسکي مراد يہ تھي کہ کيا ہم خدا ‘ پيغمبر اور دين پر عقيدہ نہيں رکھتے ہيں ۔
لہٰذاامام ٴنے اُسکے جواب ميں اِس يت کي تلاوت فرمائي ‘تاکہ اسے يہ بات ذہن نشين کراديں کہ کافر فقط وہي شخص نہيں ہوتا جو صاف اور صريح الفاظ ميں خدا کاانکار کرے‘ يا قرن کوجھٹلائے ‘ يا پيغمبر کو مثلاً افسانہ کہے۔ٹھيک ہے کہ اِس قسم کا شخص کافر ہے اور کافر کي بہترين قسم سے ہے جو صريحاً اپني بات کہتا ہے اور انسان اسے پہچانتا ہے اور اسکے بارے ميںاپنے موقف کا اچھي طرح تعين کرتا ہے ۔
کافر سے بدتر شخص وہ ہے جو ان عظيم نعمتوں کا کفران کرے جو اسے ميسّر ہيںاور اُنہيں غلط راستے ميں استعمال کرے ۔ايسا شخص نہ صرف اپنے پ کو بلکہ اپنے ماتحت تمام انسانوں کو جہنم ميںجھونک ديتا ہے ۔
طاغوت کي ولايت ايسي ہي چيز ہے ۔وہ شخص جو طاغوت کي ولايت ميںزندگي بسر کرتا ہے‘ اُسے گويااپنے اوپر کوئي اختيارحاصل نہيں ہوتا ۔ہماري مراد يہ نہيں ہے کہ وہ با لکل ہي بے اختيار ہوتا ہے ۔بعد ميں جب ہم يہ قرن کے معني بيان کريں گے‘ تو اس نکتے کي تفسير واضح ہوجائے گي۔ البتہ وہ شخص سيلابي ريلے کي زد پرہوتا ہے اوراُس ميں بہا چلا جاتا ہے ۔وہ ہاتھ پاؤں مارنا چاہتا ہے ‘ ليکن نہيں مار پاتا ‘ وہ ديکھتا ہے کہ تمام لوگ جہنم کي طرف جارہے ہيں اور اُسے بھي اپني طرف کھينچ رہے ہيں۔لہٰذاوہ جہنم کے راستے سے پلٹنا چاہتا ہے ۔}ليکن بے بس ہوتا ہے{
کيا پ کبھي کسي مجمع ميں پھنسے ہيں ؟ اِس موقع پر پ کا دل چاہتا ہے کہ ايک طرف ہوجائيں ‘ ليکن مجمع پ کو ايک تنکے کي طرح اٹھا کر دوسري طرف پھينک ديتا ہے ۔
ايسا شخص جو طاغوت کے زيرِ ولايت ہو ‘
وہ چاہتا ہے کہ نيک بن جائے ‘ صالح زندگي بسر کرے ‘ ايک انسان کي طرح زندگي گزارے ‘ مسلمان رہے اور مسلمان مرے ‘
ليکن ايسانہيں کر سکتا ۔
يعني معاشرے کا ريلا اسے کھينچ کر اپنے ساتھ لئے جاتا ہے ‘اور اِس طرح لئے جاتا ہے کہ وہ ہاتھ پاؤں بھي نہيں مار سکتا ۔وہ اگر ہاتھ پاؤں مارتا بھي ہے‘ توسوائے اپني قوت کے زياں کے اسے کچھ نتيجہ حاصل نہيں ہوتا ۔وہ نہ صرف ہاتھ پاؤں نہيں مارپاتا ‘بلکہ اِس سے بھي زيادہ تکليف دہ بات يہ ہے کہ کبھي کبھي وہ اپني حالت کو بھي نہيں سمجھ پاتا ۔
مجھے نہيں معلوم پ نے سمندر سے شکار ہوتي مچھليوں کو ديکھا ہے يا نہيں ۔کبھي کبھي ايک جال ميں ہزاروں مچھلياں پھنس جاتي ہيں ‘ جنہيں سمندر کے وسط سے ساحل کي طرف کھينچ کر لاتے ہيں ‘ليکن اُن ميں سے کوئي مچھلي يہ نہيں جانتي کہ اُسے کہيں لے جايا جارہا ہے ‘ ہر ايک يہ تصور کرتي ہے کہ وہ خود اپنے اختيار سے اپني منزل کي طرف رواں دواں ہے ۔ليکن درحقيقت وہ بے اختيار ہوتي ہے ‘اُسکي منزل وہي ہوتي ہے جس کي جانب جال کا مالک وہ شکاري اسے لے جا رہا ہوتا ہے۔
جاہلي نظام کا غير مرئي جال انسان کو اس سمت کھينچتا ہے جس سمت اس جال کي رہنمائي کرنے والے چاہتے ہيں۔اس نظام ميں زندگي گزارنے والا انسان بالکل نہيں سمجھ پاتا کہ وہ کہاں جارہا ہے ۔کبھي کبھي تو وہ اپني دانست ميں يہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ وہ سعادت اور کاميابي کي منزل کي طرف گامزن ہے ‘جبکہ اُسے نہيں معلوم ہوتاکہ وہ جہنم کي طرف جارہا ہے: جَہَنَّمَ يَصْلَوْنَہَا وَ بِئْسَ الْقَرَارُ۔
يہ ولايت ِ طاغوت اور ولايت ِ شيطان ہے ۔
يہ پہلي عبارت اُن دو عبارتوں ميں سے ايک تھي جن سے مل کر (مذکورہ بالا ) سوال بنا تھا۔ اور سوال يہ تھا کہ کيا طاغوت اور شيطان کي ولايت اورحکومت ميں رہتے ہوئے مسلمان نہيں رہا جاسکتا؟
اجمالاً ہم نے طاغوت کي ولايت اور حکومت ميں زندگي گزارنے کو سمجھ ليا ہے۔ يعني يہ جان ليا ہے کہ اِس سے کيا مراد ہے۔اگر ہم اِسکي تفسير کرنا چاہيں ‘تو ايک مرتبہ پھر تاريخ کي طرف پلٹ سکتے ہيں ۔
پ ديکھئے بني اميہ اور بني عباس کے زمانے ميں عالمِ اسلام کس جوش و خروش سے محو ِ سفر تھا ۔ ديکھئے اُس دور کے اسلامي معاشرے ميں علم ودانش کي کيسي عظيم لہر اُٹھي تھي‘کيسے کيسے عظيم اطبّاپيدا ہوئے تھے ‘ زبان داني اور عموي علمي افلاس کے اُس دور ميں عالمِ اسلام ميں کيسے عظيم مترجمين پيدا ہوئے تھے‘ جنہوں نے قديم تہذيبوں کے عظيم ثار کو عربي زبان ميں ترجمہ کيااور اُن کي نشر و اشاعت کي ۔مسلمان تاريخ‘حديث ‘ علومِ طبيعي ‘ طب اورنجوم کے شعبوں ‘حتيٰ فنونِ لطيفہ ميںبھي انتہائي ممتازمقام کے مالک تھے ۔ يہاں تک کہ ج بھي جب فرانس سے تعلق رکھنے والے گسٹاف لوبون کي مانند ايک شخص‘ ياکوئي اور مصنف اورمستشرق ان ظاہري باتوں کو ديکھتاہے ‘تو اسلام کي دوسري‘ تيسري اور چوتھي صديوںکو اسلام کے عروج کي صدياں قرار ديتا ہے ۔
گسٹاف لو بون نے ’’چوتھي صدي ہجري ميںتاريخِ تمدنِ اسلام ‘‘ کے نام سے ايک کتاب لکھي ہے ۔ايک ايسا تمدن جسے وہ ايک عظيم تمدن سمجھتا ہے اور چوتھي صدي ہجري کواس عظيم تمدن کي صدي بيان کرتا ہے۔ مجموعي طور پر جب کوئي يورپي مستشرق دوسري ‘ تيسري اور چوتھي صدي ہجري پر نگاہ ڈالتا ہے ‘ تووہ دنگ رہ جاتا ہے۔ اِسکي وجہ يہ ہے کہ اُس وقت کے اسلامي معاشرے ميںحيرت انگيزگرمياں‘ صلاحيتيں اورلياقتيں ظاہر ہوئي تھيں۔
ليکن ہم پ سے سوال کرتے ہيں کہ يہ تمام سرگرمياں اور صلاحيتيں‘جو اس دورميں ظاہر ہوئيں ‘ کيا ان کا نتيجہ اسلامي معاشرے اور انسانيت کے مفاد ميں برمد ہوا ؟
ج اُس زمانے کو دس صدياں گزر چکي ہيں‘اور ہم اس زمانے کے بارے ميں کسي تعصب کا شکار نہيں ہيں اور غير مسلم دنيا کے با لمقابل ہم کہہ سکتے ہيں کہ يہ عالمِ اسلام تھا جس نے جامعات کي بنياد رکھي ‘يہ عالمِ اسلام تھا جس نے فلسفے کي تشکيل کي ‘يہ عالمِ اسلام تھا جس نے طبابت اور طبيعيات کے ميدانوں ميں کارہائے نماياں انجام دئيے۔ ليکن کيا خود اپنے حلقوں ميں ہم حق و انصاف کے ساتھ يہ کہہ سکتے ہيں کہ اُن تمام قوتوں اور صلاحيتوں کا نتيجہ ٹھيک ٹھيک ‘ برمحل اور انسانيت اور اسلامي معاشرے کے مفاد ميں برمد ہوا ؟
ج دس صدياں گزرنے کے بعداسلامي معاشرے کے پاس اُس ميراث ميں سے کيا باقي ہے ؟ اور کيوں باقي نہيں ہے ؟
خر وہ علمي اورتہذيبي دولت ہمارے لئے کيوںباقي نہ بچ سکي ؟
ہم دس صدي پہلے کے اُس تابناک معاشرے کي طرح ج کيوںدنيا ميںدرخشاں اور جلوہ نما نہيں ؟ کيا اسکي وجہ اسکے سوا کچھ اور ہے کہ وہ تمام سرگرمياں اور جلوہ نمائياں طاغوت کي حکمراني ميں رہتے ہوئے تھيں ۔

من ن نگين سليمان بہ ہيچ نستانم
کہ گاہ گاہ بر اودست اھر من باشد

ان گمراہ کن قيادتوں نے اسلامي معاشرے کے ساتھ کھيل کھيلا ‘اوراپنانام اونچا کرنے اور يہ کہلوانے کے لئے کہ مثلاً فلاں عباسي خليفہ کے دورِ اقتدار ميں فلاں کام ہوا ‘ مختلف کام کئے۔
اگر يہ حکمراں طبيعيات ‘ رياضي‘ نجوم‘ ادب اور فقہ کے ميدانوں ميں علمي ترقي کي بجائے ‘فقط اتني اجازت ديتے کہ علوي حکومت برسرِ اقتدار جائے ‘امام جعفرصادقٴ کي حکومت قائم ہوجائے‘ اسلامي معاشرے کي تمام قوتيں اور صلاحيتيں امام جعفر صادقٴ کے ہاتھ ميں جائيں‘ پورے اسلامي معاشرے کي سرگرميوں کاتعين امام جعفر صادقٴ کريں۔ اس صورت ميں اگر مسلمان علمي اور ادبي لحاظ سے‘ ان باتوں کے اعتبار سے جن پر ج دنيا ئے اسلام فخروناز کرتي ہے سو سال پيچھے بھي رہتے ‘ تب بھي يہ انسانيت کے فائدے ميں ہوتا۔ انسانيت ترقي کرتي‘ اسلام پھلتا پھولتا‘ اسلامي معاشرے کي صلاحيتيں اور قوتيں صحيح راہ ميں استعمال ہوتيں۔ پھر يہ صورت نہ رہتي کہ کتابيں تو ترجمہ کرتے‘ طب اور سائنس کے ميدانوں ميںترقي کو بامِ عروج پر پہنچا ديتے‘ ليکن انفرادي اور اجتماعي اخلاق کے اعتبار سے اس قدر کمزور ہوتے‘ کہ اُس دور ميںپايا جانے والا طبقاتي فرق ج بھي تاريخ ميں بطور يادگار محفوظ ہے۔ بالکل ج کي دنيا کے غليظ اور ذلت ميز تمدن کي طرح‘ کہ ج کي بڑي حکومتيں عقلوں کو دنگ کر دينے والي اپني ايجادات پر تو فخر کرتي ہيں‘ مثلاً کہتي ہيں کہ ہم نے فلاں دوا ايجاد کي ہے ‘ فلاں کام کيا ہے‘ علمي لحاظ سے فلاں شعبے ميں ترقي کي ہے‘ ليکن يہ حکومتيں انساني اقدار اور اخلاقي اعتبار سے اب بھي ہزار ہا سال پراني تاريخ جيسے حالات ميں زندگي بسر کر رہي ہيں ۔ ج بھي بے پناہ مال و دولت‘ بے انتہا فقر و افلاس کے پہلو بہ پہلو موجود ہے۔ ج بھي غريب ممالک کے لاکھوں‘ کروڑوں بھوکے انسانوں کے مقابل صرف ايک في صد انسان دولت کي فراواني کے مزے لوٹ رہے ہيں۔ اسکے باوجود يہ حکومتيں اپني سائنسي ترقي پر نازاں ہيں۔
دوسري ‘ تيسري اور چوتھي صدي ہجري کا عظيم اسلامي تمدن اسي صورتحال سے دوچار تھا۔ اُس دور ميںبہت زيادہ علمي ترقي ہوئي ‘ليکن امير طبقے کا راج تھا‘ عيش وعشرت کا چلن تھا اور اسکے مقابل انسانيت اور انساني فضيلتوںسے بے خبري اور طبقاتي اونچ نيچ انتہائي درجے پر موجود تھي۔ اُس زمانے ميں بھي ايک طرف لوگ بھوک سے مرتے دکھائي ديتے تھے‘ تودوسري طرف بسيار خوري بہت سے لوگوں کي موت کا سبب بنتي تھي۔
خر کيا وجہ تھي کہ اُس دور کا اسلامي معاشرہ اپني علمي سرگرميوں اور نشاط کے باوجودانساني فضائل وکمالات کاگلستاںنہيں بن سکا ؟
دوسري اور تيسري صدي ہجري سے تعلق رکھنے والي جن شخصيتوں کا تذکرہ فخر وناز کے ساتھ کيا جاسکتا ہے ‘اور جن کا نام ہم دنيا ميں قابلِ افتخار ہستيوں کے ساتھ پيش کر سکتے ہيں‘وہ لوگ ہيںجنہوں نے اس متمدن نظام کے خلاف شدت سے جنگ کي۔ مثال کے طور پر معلي بن خنيس کا نام ليا جاسکتا ہے‘جنہيں بيچ بازار ميں سولي پر لٹکا يا گيا۔ يحييٰ ابن امِ طويل کا نام ليا جاسکتا ہے‘ جن کے ہاتھ پير کاٹ ديئے گئے ‘جن کي زبان کھينچ لي گئي۔ محمدا بن ابي عمير کا نام ليا جاسکتا ہے‘جنہيں چار سو تازيانے مارے گئے ۔يحييٰ ابن زيدکا نام ليا جاسکتا ہے‘ جنہيںصرف اٹھارہ برس کے سن ميں خراسان کي پہاڑيوں ميںشہيد کيا گيا ۔زيد بن علي کا نام ليا جاسکتا ہے‘جن کے جسد کو چار سال سولي پر لٹکائے رکھا گيا ۔
يہ وہ ہستياں ہيں جن کے ناموں کو ہم ج دنيائے انسانيت کے قابلِ فخر افراد کي فہرست ميںجگہ دے سکتے ہيں ۔اِن حضرات کااُس پر شکوہ تمدن سے کوئي تعلق نہ تھاجس کا ذکر گسٹاف لوبون نے کيا ہے‘بلکہ يہ اُس تمدن کے مخالفين ميں سے تھے ۔
پس ديکھئے کہ جن معاشروں اور جن انسانوں پر طاغوت اور شيطان کي حکمراني ہوتي ہے اور جن کے معاملات کي باگ ڈورطاغوتي اور شيطاني ہاتھوں ميں ہوتي ہے‘اُن معاشروں ميں زندگي بسر کرنے والے افراد کي قوتيںاستعمال ہوتي ہيں‘ اُن کي صلاحيتيں بروئے کارتي ہيں‘ ليکن بالکل اُسي طرح جيسے ج کي متمدن دنيا ميں کام تي ہيں‘اُسي طرح جيسے اب سے دس گيارہ سو سال پہلے عالمِ اسلام ميں کام ميں تي تھيں۔يہ ساري ترقياں اُسي طرح بے قيمت ہيں جيسے اعليٰ اقدار اورانساني فضيلتوںکي نظرميں چوري سے کمايا ہوا مال بے حيثيت ہوتاہے۔ يہ ہوتي ہے طاغوت کي ولايت اورحکومت۔
ان خصوصيات کے ساتھ کيا طاغوت کي حکومت کے تحت ايک مسلمان کي حيثيت سے زندگي بسر کي جاسکتي ہے ؟
ذرا ديکھتے ہيںکہ دراصل مسلمان کي حيثيت سے زندگي بسر کرنے کے معني کيا ہيں ؟
مسلمان کي حيثيت سے زندگي بسر کرنے کے معني ہيں انسان کے تمام وسائل ‘ قوتوں اور صلاحيتوں کا مکمل طور پر خدا کے اختيار ميں ہونا‘اُسکے مال و دولت اوراُسکي تمام چيزوں کا خدا کے اختيار ميں ہونا‘اُسکي جان کا خدا کے اختيار ميں ہونا ‘اُسکي فکر اور سوچ کا خدا کے اختيار ميں ہونا ۔
اِس حوالے سے بھي ہمارے پاس معاشرے اورمدنيت کي صورت ميںموجود اجتماعات اور طاغوتي نظاموں سے سرکشي اختيار کرکے باہر نکلنے والے اور خدا کي طرف ہجرت کرنے والے گروہوں کي مثاليں موجود ہيں۔
پہلي مثال پيغمبراسلام صلي اللہ عليہ ولہ وسلم کے زمانے ميں مدينہ کے معاشرے کي ہے۔ مدينہ ايک ’’بندہ خدا‘‘ معاشرہ تھا‘ايک مسلمان معاشرہ تھا‘وہاں جو قدم بھي اٹھتا راہِ خدا ميں اٹھتا۔وہاں اگر يہودي اور عيسائي بھي اسلامي حکومت کے زيرِ سايہ زندگي بسر کرتے تھے‘ تو اُن کي زندگي بھي اسلامي زندگي تھي۔ اسلامي معاشرے ميںعيسائي اور يہودي اہلِ ذمہ افراد بھي اسلام کي راہ پر گامزن ہوتے ہيں۔ايسے معاشرے ميںاعمال کے لحاظ سے ايک شخص يہودي ہوتا ہے‘ ليکن معاشرے کے ايک رکن کے لحاظ سے اُس مسلمان سے کہيں زيادہ مسلمان ہوتاہے جوايک جاہلي نظام کے تحت زندگي بسر کرتا ہے ۔
زمانہ پيغمبر۰ ميں مال و دولت ‘نيزہ وتلوار‘فکر اور سوچ‘تمام انساني اعمال ‘حتيٰ جذبات واحساسات بھي راہِ خدا ميںہوتے تھے ۔
امير المومنين حضرت علي عليہ السلام کے زمانے ميں بھي کم و بيش يہي صورت تھي ۔اِس لئے کہ امير المومنين ٴ حاکمِ الٰہي اور ولي خدا ہونے کے ناطے پيغمبراسلام ۰سے مختلف نہ تھے۔ ليکن وہ ايک بُرے معاشرے کے وارث تھے ‘ اُن پيچيدگيوں اورمسائل کے وارث تھے ‘ اوراگراميرالمومنين ٴکي جگہ خود پيغمبر اسلا۰م بھي ہوتے اور پچيس سال بعدايک مرتبہ پھرمسند ِ حکومت پر جلوہ افروز ہوتے ‘ تو يقيناً انہي مشکلات کا سامنا کرتے جو امير المومنين ٴ کو درپيش تھيں ۔

گروہي ہجرت
گروہي صورت ميں ہجرت کي تاريخي مثال ‘ ائمہ اہلِ بيت ٴ کے ماننے والے شيعوں کي ہجرت ہے ۔افسوس کہ ماہِ رمضان ختم ہوگيا اور ہم تفصيل کے ساتھ امامت کي بحث تک نہيں پہنچ سکے‘ وگرنہ ولايت کے بعد امامت کي گفتگو کرتے اور پ کو بتاتے کہ ائمہ ٴ کے زمانے ميں شيعہ کس قسم کاگروہ تھے ‘ اور يہ بات واضح کرتے کہ شيعوں کے ساتھ امام ٴکے روابط وتعلقات اورپھر شيعوںکے اپنے معاشرے کے ساتھ روابط وتعلقات کي نوعيت کيا ہوا کرتي تھي ۔ليکن اب ہم مجبورہيں کہ اسے اجمالي طور پر عرض کريں ۔
شيعہ بظاہر طاغوتي نظام ميں زندگي بسر کرتے تھے ‘ ليکن باطن ميں طاغوتي نظام کے يکسر برخلاف گامزن ہوتے تھے ۔اس سلسلے ميں بطورِمثال اُس گروہ کا نام ليا جاسکتا ہے جو حسين ابن علي ٴ کے ہمراہ تھا۔ ان لوگوں نے اس سيلاب کامقابلہ کيا اور اس سيلابي ريلے کي مخالف سمت چلے جو انہيں اپنے ہمراہ بہاکرليجانا چاہتا تھا۔يہ تاريخ ميں گروہي ہجرت اور انقلاب کي مثالوں ميں سے ايک مثال ہے ۔ليکن عام افراد ‘ اور کلي طور پر عرض کريں کہ ايک فرد کسي طاغوتي معاشرے ميں زندگي بسر کرتے ہوئے مسلمان باقي نہيں رہ سکتا اور اُس کا وجود ‘ اُس کے وسائل‘اُسکي قوتيں اور اُسکي تمام تر صلاحيتيں احکامِ الٰہي کے تابع نہيں رہ سکتيں ۔ايساہونامحال ہے ۔
اگر ايک مسلمان طاغوتي ماحول اور طاغوتي نظام ميں زندگي بسر کرے‘ تو بہر حال اسکي اسلاميت کا ايک حصہ طاغوت کي راہ پر ہوگا‘ وہ خدا کا سو فيصدبندہ نہيں ہوسکتا ۔
اصولِ کافي جو شيعوں کي معتبر ترين اور قديم ترين کتابوں ميں سے ہے‘ اُس ميں اِس }درجِ ذيل{ حديث کو کئي طريقوں سے نقل کيا گيا ہے ‘ پ کتاب الحجہ کے باب’’ اس شخص کے بارے ميں جس نے منصوص من اللہ امام کے بغير خدا کي عبادت کي ‘‘ ميںمطالعہ کيجئے‘اس روايت ميں امام جعفر صادق عليہ السلام فرماتے ہيں :
’’اِنَّ اَ لاٰ يَسْتَحِيي اَنْ يُعَذِّبَ اُمّہ دانَتْ بِاِمٰامٍ لَيْسَ مِنَ اِ وَاِنْ کٰانَتْ فِي اَعْمٰالِھٰا بَرّۃً تَقِيَّۃً وَاِنَّ اَ لَيَسْتَحْيِي اَنْ يُعَذِّبَ اُمَّۃً دانَتْ بِاِمٰامٍ مِنَ اِ وَاِنْ کَانَتْ في اَعْمٰالِھٰا ظٰالِمَۃً مَسِيئَۃً۔‘‘(۲)
عجيب حديث ہے ‘يہ حديث کہتي ہے کہ وہ لوگ جو خدا کے ولي کي حکومت کے تحت زندگي بسر کرتے ہيں ‘ اہلِ نجات ہيں‘اگرچہ وہ اپنے انفرادي اور نجي افعال ميں کبھي کبھار گناہوں ميں بھي مبتلا ہوجاتے ہوں ۔ اور وہ لوگ جو شيطان اور طاغوت کي حکومت کے تحت زندگي بسر کرتے ہيںوہ بد بخت اور عذاب کا شکار ہونے والے لوگ ہيں ‘ اگرچہ وہ اپنے انفرادي اور شخصي کاموں ميں نيکو کار اور عملِ صالح انجام دينے والے ہي کيوں نہ ہوں ۔يہ انتہائي عجيب بات ہے ۔اگرچہ حديث کو کئي طريقوں سے بيان کيا گيا ہے‘ ليکن سب يہي ايک معني ديتے ہيں ۔
ہم ہميشہ اس حديث کے مفہوم کي وضاحت ميں ايک ايسي گاڑي کي مثال پيش کرتے ہيں جس ميں پ مثلاً نيشاپور جانے کے لئے سوار ہوں۔اگر يہ گاڑي نيشاپور کي طرف چلے گي‘ تو پ لازماً اپني منزل پر پہنچ جائيں گے اور اگر مثلاً طبس يا قوچان کي طرف جائے گي‘ تو لازماً پ اپني منزل (نيشا پور ) نہيں پہنچ سکيں گے ۔
اب اگر نيشاپور جا نے والي گاڑي ميں سوار مسافر ايک دوسرے کے ساتھ انساني داب کے ساتھ ميل جول رکھيں گے ‘ تو کيا خوب ‘ اور اگر انساني داب اور نيکي و احسان کے ساتھ باہم ميل جول نہيںرکھيںگے ‘تب بھي خرکار نيشا پور تو پہنچ ہي جائيںگے ۔ وہ اپني منزل پر جا پہنچيں گے‘چاہے انہوں نے راستے ميں کچھ بُرے کام بھي کئے ہوں۔ ان برے کاموں کے بھي ثار و نتائج ظاہر ہوں گے ‘ جنہيں برداشت کرنے پر وہ مجبور ہوں گے ۔ليکن منزل پربہرحال پہنچ جائيں گے۔ اس کے برخلاف وہ گاڑي جسے پ کو نيشا پور لے جانا چاہئے‘ وہ پ کو نيشا پور کے بالکل برعکس سمت لے جائے ۔اگر اس گاڑي کے تمام ا فراد مودب ہوں‘ايک دوسرے کے ساتھ انتہائي احترام ميز سلوک کريں‘ايک دوسرے کے ساتھ خنداں پيشاني سے ميل جول رکھيں اور يہ ديکھيں کہ يہ گاڑي نيشاپور کي بجائے قوچان کي طرف جارہي ہے ‘ ليکن يہ ديکھنے کے باوجود کسي ردِ عمل کا اظہار نہ کريں ‘ تو ٹھيک ہے کہ يہ لوگ بہت اچھے انسان ہيں‘ايک دوسرے کے لئے انتہائي مہربان ہيں ‘ ليکن کيا اپنے مقصد اور منزل پر پہنچ سکيں گے ؟ ظاہر ہے کہ نہيں۔
پہلي مثال ميں گاڑي کا ڈرائيور ايک امين شخص تھا ‘ ايک محترم ومکرم انسان تھا :اِمٰام مِنَ ا تھا‘ جس نے اُنہيں منزلِ مقصود پر پہنچاديا ‘ اگر چہ وہ لوگ بد اخلاق تھے:وَاِنْ کَانَتْ في اَعْمٰالِھٰا ظٰالِمَۃً مَسِيئَۃً ۔جبکہ دوسري مثال ميں گاڑي کا ڈرائيور راستے ہي سے واقف نہ تھا ‘ امين نہيں تھا ‘ خواہشِ نفس کا پجاري تھا ‘مست تھا ‘راہ سے بھٹکا ہوا تھا ‘اُسے قوچان ميں کوئي کام تھا اور اُس نے اپنے کام کو لوگوں کي خواہش پر مقدم رکھا ۔اس گاڑي ميں سوار لوگ کسي صورت اپني منزل پر نہيں پہنچ سکيں گے ۔اگرچہ يہ لوگ گاڑي کے اندر باہم انتہائي مہربان اور خوش اخلاق ہوں :وَاِنْ کٰانَتْ فِي اَعْمٰالِھٰا بَرّۃً تَقِيَّۃً۔ ليکن خر کار عذابِ خدا کا سامنا کريںگے ‘ اپني منزل نہيںپا سکيں گے۔
لہٰذا‘ايک ايسا معاشرہ جس کا انتظام و انصرام طاغوت کے ہاتھ ميں ہو‘وہ اُس گاڑي کي مانند ہے جسے ايک غير امين ڈرائيور چلا رہا ہو‘ اُس معاشرے ميں زندگي بسر کرنے والے انسان اپنے مقصد اوراپني منزل تک نہيں پہنچ سکيںگے اور مسلمان نہيں رہ سکيں گے ۔
اب سوال يہ پيش تا ہے کہ اِن حالات ميں مسلمانوں کو کيا کرنا چاہئے ؟
اِس سوال کا جواب قرنِ کريم کي يت ديتي ہے ‘ اور کہتي ہے:
’’اِنَّ الَّذِيْنَ تَوَفّٰہُمُ الْمَلٰئِکَۃُ ظٰلِمِيْ اَنْفُسِہِمْ قَالُوْا فِيْمَ کُنْتُمْ قَالُوْا کُنَّا مُسْتَضْعَفِيْنَ فِي الْاَرْضِ قَالُوْآ اَلَمْ تَکُنْ اَرْضُ اِ وَاسِعَۃً فَتُہَاجِرُوْا فِيْھَا فَاُولٰئِکَ مَاْواٰاہُمْ جَہَنَّمُ وَ سَآئَتاْا مَصِيْرًا۔‘‘(۳)
قرنِ کريم فرماتا ہے : وہ لوگ جنہوں نے اپنے پ پر ‘ اپنے مستقبل پر اور اپني ہر چيز پر ظلم کيا ہے‘ جب اُن کي موت قريب تي ہے ‘ تو اُن کي روح قبض کرنے پر مامورخدا کے فرشتے اُن سے پوچھتے ہيں ! فِيْمَ کُنْتُمْ۔تمکس حال ميں تھے ؟ کہاں تھے ؟
جب سماني فرشتہ يہ ديکھتاہے کہ اس انسان کي حالت اسقدر خراب ہے ‘جب وہ اُس طبيب يا اُس جراح کي مانند جو ايک بيمار کے معالجے کے لئے تاہے ‘ يہ ديکھتا ہے کہ بيمار کي حالت بہت خراب ‘ افسوس ناک اور مايوس کن ہے ‘ تو کہتا ہے : تم کہاں پڑے ہوئے ہو؟ تمہاري يہ حالت کيسے ہو گئي ؟
ہميں يہ محسو س ہوتا ہے کہ ملائکہ اس بيچارے کي بري حالت پر‘ اسکي روح کي خستگي پر ‘ اس بدبختي اور عذاب پر جو اس کا منتظر ہے ‘ تعجب کرتے ہيںاور اس سے کہتے ہيں : تم نے کہاں زندگي بسر کي ہے ؟ تم کہاں تھے جو تم نے اپنے پ پر اس قدر ظلم کيا اوراب اپنے نفس پر ظلم کرتے ہوئے دنيا سے رخصت ہورہے ہو ؟
وہ جواب ميں کہتے ہيں :
’’قَالُوْا کُنَّا مُسْتَضْعَفِيْنَ فِي الْاَرْضِ۔‘‘
ہم زمين پر جن لوگوں کے درميان زندگي بسر کررہے تھے ‘ ان ميں لاچار تھے ‘ ہم بے اختيار عوام ميں سے تھے ۔
مستضعفين معاشرے کا وہ گروہ ہوتے ہيں جن کے اختيار ميں معاشرہ نہيں ہوتا ۔ يہ لوگ مجبور ولاچار ہوتے ہيں ۔يہ لوگ معاشرے کي پاليسيوں‘اسکي راہ وروش‘ اسکي سمت و جہت ‘اسکي حرکت ‘ اسکے سکون اور اسکي سر گرميوں کے سلسلے ميں کوئي اختيار نہيںرکھتے ۔
جيسا کہ ہم نے پہلے عرض کيا‘يہ لوگ اُس سمت چل پڑتے ہيںجہاں اُن کي رسي کھينچنے والا چاہتا ہے ‘منھ اُٹھائے اسکے پيچھے چلے جاتے ہيں‘ انہيں کہيں جانے اور کچھ کرنے کا کوئي اختيار حاصل نہيں ہوتا ۔
نرسري کلاس کے چند بچوں کو فرض کيجئے ۔اُن بچوں کو نہيں جن کي عمر سات برس ہوچکي ہے ‘ کيونکہ ج کل سات برس کے بچوں کي نکھيں اور کان بھي ان باتوں سے بہت اچھي طر ح شنا ہيں ۔چار پانچ سال کے بچوں کو پيشِ نظر رکھئے ‘ جنہيں گزشتہ زمانے کے مکتب خانوں کي مانند ج نرسري اسکولوں ميں بٹھا ديتے ہيں ۔ہميں وہ مکتب ياد تا ہے جس سے ہم چھٹي کے وقت اکٹھے باہر نکلتے تھے۔ اصلاً ہميں سمجھ نہيں ہوتي تھي کہ ہم کہاں جارہے ہيں ‘ بچوں کو بھي پتا نہيں ہوتا تھا کہ کون سي چيز کہاں ہے ۔ايک مانيٹر‘ يا ايک ذرا بڑا لڑکا ہماري رہنمائي کرتا تھا کہ اِس طرف جاؤ ‘ اُس طرف نہ جاؤ ۔ ہميں با لکل خبر ہي نہيں ہوتي تھي کہ ہم کہاں چلے جارہے ہيں‘اچانک پتا چلتا تھا کہ اپنے گھر کے دروازے پرکھڑے ہيں يا اپنے دوست کے گھر کے دروازے پرموجودہيں۔ اب اگرکبھي اُس مانيٹر کا دل چاہتا کہ ہميں گلي کوچوں ميں پھرائے‘ تويکبارگي ہم ديکھتے کہ مثلاً ہم فلاں جگہ ہيں۔
زمين پر مستضعف لوگ وہ ہيں جنہيں ايک معاشرے ميں رہنے کے باوجوداس معاشرے کے حالات کي کوئي خبر نہيں ہوتي ۔نہيں جانتے کونسي چيز کہاں ہے ۔ نہيں جانتے کہ کہاں چلے جارہے ہيں اور يہاں سے چل کر کہا ں پہنچيں گے ‘ اور کون انہيں لئے جارہاہے ‘ اور کس طرح يہ ممکن ہے کہ وہ اسکے ساتھ نہ جائيں‘اور اگر نہ جائيں تو انہيں کيا کام کرنا چاہئے۔
انہيں بالکل پتا نہيں ہوتا ‘ با لکل بھي متوجہ نہيں ہوتے ‘ اور با لکل کولھو کے بيل کي طرح جس کي نکھيں بند ہوتي ہيں‘جومسلسل چل رہا ہوتا‘ جواسي طرح چلتا رہتا ہے اور گھومتا رہتا ہے۔ اگر يہ حيوان کچھ سمجھ پاتاتوخود سے تصور کرتااور کہتا کہ اِس وقت مجھے پيرس ميں ہونا چاہئے۔ ليکن جب غروبِ فتاب کے قريب اُسکي نکھيں کھولتے ہيں‘ تو وہ ديکھتا ہے کہ وہ تووہيں کھڑا ہے جہاں صبح کھڑا تھا ۔اسے بالکل پتا نہيں ہوتا کہ کہاں چلا ہے ‘نہيں جانتا کہ کہاں جارہا ہے ۔
البتہ يہ بات اُن معاشروں سے متعلق ہے جو صحيح نظام پر نہيں چلائے جاتے‘ اور انسان کي کسي حيثيت اور قدر و قيمت کے قائل نہيں ہوتے‘ اُن معاشروں سے متعلق نہيں جو انسان اور انسان کي رائے کي عزت اور احترام کے قائل ہيں‘ اُس معاشرے سے تعلق نہيںرکھتي جس کے قائد پيغمبر۰ ہيں‘جن سے قرنِ کريم کہتا ہے کہ:وَشَاوِرْہُمْ فِي الْاَمْر۔(۴)باوجود يہ کہ پ خدا کے رسول ہيں ‘ باوجود يہ کہ پ کو لوگوں سے مشورے کي ضرورت نہيں‘پھر بھي پ کو حکم ديا جاتا ہے کہ لوگوں سے مشورت کريں اور اُنہيں عزت واحترام ديں ‘ اُنہيں حيثيت ديں۔ ايسے معاشروں کے عوام لاعلم اور بے شعور نہيں ہوتے۔
تاہم وہ معاشرے جو مرانہ ‘ ظالمانہ ‘ يا جاہلانہ نظام پر چلائے جاتے ہيں ‘ وہاں کے اکثر لوگ مستضعف ہوتے ہيں ۔ وہ کہتے ہيں :کُنَّا مُسْتَضْعَفِيْنَ فِي الْاَرْضِ(ہم زمين پرمستضعفين ميں سے تھے )اُنہوں نے ہميں اسي طرح کھينچا‘ اُٹھايااور پٹخ ديا ‘ہميںقدموں تلے پامال کيا‘بے برو کيا۔ليکن ہميں پتا ہي نہيںچلا۔ وہ يہ عذرپيش کرتے اوريہ جواب ديتے ہيں۔
ان کے جواب ميںملائکہ کہتے ہيں :
’’ اَلَمْ تَکُنْ اَرْضُ اِ وَاسِعَۃً فَتُہَاجِرُوْا فِيْھَا۔‘‘
کيا پروردگار کي زمين يہيں تک محدود تھي ؟
کيا پوري دنياصرف اسي معاشرے تک محدود تھي جس ميں تم مستضعف بنے زندگي بسر کر رہے تھے؟
کيا خدا کي زمين وسيع نہيں تھي ‘ کہ تم اس قيد خانے سے نکل کر ايک زاد خطہ ارضي ميں چلے جاتے ‘جہاں تم خدا کي عبادت کرسکتے‘ايک ايسي سرزمين پرجہاں تم اپني صلاحيتوں کا استعمال صحيح راستے پر کر سکتے ۔
کيا دنيا ميں ايسي کوئي جگہ نہيں تھي ؟
اِس جواب سے پتا چلتا ہے کہ ملائکہ کي منطق اورعقلمند انسانوں کي منطق بالکل يکساں ہے۔ انسان کي عقل بھي يہي کہتي ہے :
’’اَلَمْ تَکُنْ اَرْضُ اِ وَاسِعَۃً فَتُہَاجِرُوْا فِيْھَا۔‘‘
’’کيا خدا کي زمين وسيع نہيں تھي کہ تم اس ميں ہجرت کرتے۔‘‘
اب اُن کے پاس کوئي جواب نہيںہوتا‘وہ بيچارے کيا کہيں ‘پتا ہے اُن کے پاس اِس کا کوئي معقول جواب نہيں ہے۔لہٰذا قرنِ کريم ان بيچاروں کے انجام کے بارے ميں کہتا ہے :
’’فَاُولٰئِکَ مَاْواٰاہُمْ جَہَنَّمُ وَ سَآئَتاْا مَصِيْرًا۔‘‘
وہ مستضعفين جن کي قوتيںاور صلاحيتيں طاغوتوں کے ہاتھ ميں تھيں‘اُن کا ٹھکانہ جہنم ہے ‘ اوريہ انسان کے لئے کيسابُرا ٹھکانہ اور انجام ہے ۔
البتہ يہاں بھي ايک استثنا پايا جاتا ہے ‘ کہ سب کے سب لوگ ہجرت نہيں کرسکتے‘ تمام لوگ اپنے پ کو جاہلي نظام کي اس قيد سے نجات نہيں دلاسکتے ۔کچھ لوگ ناتواں ہيں‘کچھ بوڑھے ہيں ‘کچھ بچے ہيں ‘کچھ عورتيں ہيں ‘جن کے لئے ہجرت ممکن نہيں ہے ۔
لہٰذا يہ لوگ مستثنا کئے جاتے ہيں :
’’اِِلَّا الْمُسْتَضْعَفِيْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَ النِّسَآئِ وَ الْوِلْدَانِ لااَا يَسْتَطِيْعُوْنَ حِيْلَۃً وَّ لااَا يَہْتَدُوْنَ سَبِيْلا۔‘‘
’’سوائے اُن ضعيف و ناتواں مردوں ‘ عورتوں اور بچوں کے جن کے پاس کوئي چارہ نہيں اور جن سے کچھ نہيں بن پڑتا ۔‘‘(سورہ نسا٤ ۔يت ٩٨)
ان کے پاس خطہ نور ‘ خطہ اسلام اور خدا کي عبوديت کي سر زمين کي جانب نے کي کوئي راہ نہيں‘ اور جو کچھ نہيں کر سکتے۔
’’فَاُولٰئِکَ عَسَي اُ اَنْ يَّعْفُوَ عَنْہُمْ۔‘‘
’’پس وہ لوگ جو کچھ نہيںکر سکتے‘ اميد ہے خدا وند ِمتعال اُنہيں معاف کر دے ۔‘‘
’’وَکَانَ اُ عَفُوًّا غَفُوْرًا۔‘‘
’’اورخدا درگزر اور مغفرت کرنے والا ہے۔‘‘(سورہ نسا٤ ۔يت ٩٩)
اسکے بعدوہ لوگ جن کے لئے يہ خطاب حجت ہے‘يہ نہ سمجھيں اور اُن کے ذہن ميں يہ خيال نہ ئے کہ ہجرت اُن کے لئے بدبختي‘ ضرراور نقصان کا باعث ہوگي‘اوروہ بار بار اپنے پ سے يہ نہ پوچھيں کہ مثلاً ہمارا کيا بنے گا؟کيا ہم کچھ کر بھي سکيں گے يا نہيں؟ کيا کچھ حاصل بھي ہو گا يا نہيں؟
ايسے لوگوں کے جواب ميں قرنِ مجيد فرماتا ہے:
’’وَ مَنْ يُّہَاجِرْ فِيْ سَبِيْلِ اِ يَجِدْ فِي الْاَرْضِ مُرَاغَمًا کَثِيْرًا وَّسَعَۃً۔‘‘ ’’اور جو بھي راہِ خدا ميں ہجرت اختيار کرتا ہے ‘ وہ زمين ميں بہت سے ٹھکانے اور وسعت پاتا ہے۔‘‘( سورہ نسا ٤۔يت ١٠٠ )
دنيا اسکے لئے پرواز کا ايک کھلاسمان ثابت ہوتي ہے‘ اور وہ زادي کے ساتھ اس ميں پرواز کرتا ہے۔ نظامِ جاہلي ميں ہم کتنا ہي اونچا اُڑ تے‘ پنجرے سے اونچا نہيں اُڑ سکتے تھے ‘ ليکن اب ايک حيرت انگيز وسيع و عريض افق ہمارے سامنے ہے ۔ اسلام کے ابتدائي دورکے بيچارے مسلمان مسجد ميں بڑي مشکل سے نماز پڑھ پاتے تھے‘ اگر جذبہ ايماني زيادہ ہي جوش مارتا تو مسجد الحرام ميںدو رکعت نماز ادا کرپاتے ‘ اسکے بعد اُنہيںبُري طرح زدو کوب ہونا پڑتا ۔}اُس دور ميں{يہي مسلماني کي انتہا تھي ‘ اس سے زيادہ نہيں۔ليکن جب ان لوگوں نے ہجرت کي اور زاد
سر زمين ميں ‘ اسلامي معاشرے اور ولايت ِالٰہي کے تحت زندگي بسر کرنے لگے ‘ تو ديکھا کہ يہ ايک عجيب جگہ ہے : يُسَارِعُوْنَ فِي الْخَيْرٰتِ۔(۵)
يہاں پر لوگوں کا مقام ومرتبہ يہ قرن اورتقويٰ اور عبادت کے ذريعے متعين اور معلوم ہوتا ہے۔ جو شخص راہِ خدا ميں زيادہ جدو جہد اور زيادہ خدا کي عبادت انجام دے ‘ جہاد اورراہِ خداميں خرچ کرے‘ وہ زيادہ بلند مرتبہ ہے۔ کل کے مکي معاشرے ميں ‘ اگر کسي کو پتا چل جاتا کہ فلاں شخص نے راہِ خدا ميں ايک درہم ديا ہے ‘ تو اسے گرم سلاخوں سے ايذا پہنچائي جاتي تھي ‘ شکنجوں ميں کس کر اسے گ سے جلايا جاتا تھا۔ ليکن جب انہوں نے راہِ خدا ميں ہجرت کي‘ اور مدينۃ الرسول ميں چلے ئے ‘ تو ديکھا کہ کيسي کھلي فضا اور پرواز کي جگہ ہے ‘ کس طرح انسان حسب ِ دل خواہ پرواز کر سکتا ہے:
وَ مَنْ يُّہَاجِرْ فِيْ سَبِيْلِ اِ يَجِدْ فِي الْاَرْضِ مُرَاغَمًا کَثِيْرًا وَّسَعَۃً(اورجو کوئي راہِ خدا ميں اور الٰہي اور اسلامي معاشرے کي طرف ہجرت کرتاہے ‘ وہ بکثرت ٹھکانے پاتااور وسعتوں سے ہمکنار ہوتا ہے)
اب اگر تم نے راہِ خدا ميں دار الکفر سے دار الھجرہ کي جانب حرکت کي ‘ اور درميانِ راہ ميں خدا نے تمہاري جان لے لي ‘ تب کيا ہوگا ؟
قرن کہتا ہے : اس وقت تمہارا اجر و پاداش خدا کے ذمے ہے ۔کيونکہ تم نے اپنا کام کر ديا‘ جو فريضہ تم پر واجب تھا اسے انجام دے ديا ‘اور تم نے حتيٰ الامکان کوشش اور جدوجہد کي ۔اسلام يہي چاہتا ہے ‘ اسلام چاہتا ہے کہ ہر انسان اپني توانائي کے مطابق‘ جتني وہ صلاحيت رکھتا ہے اتني ‘ اور جتني اسکي استطاعت ہے اتني راہِ خدا ميں جدوجہد کرے ۔
’’وَ مَنْ يَّخْرُجْ مِنْ بَيْتِہ مُہَاجِرًا اِلَي اِ وَرَسُوْلِہ ثُمَّ يُدْرِکْہُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ اَجْرُہ عَلَي اِ وَ کَانَ اُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا۔‘‘ (۶)
توجہ رکھئے گا کہ کيونکہ يہ گفتگو ولايت کے موضوع پر خري گفتگو ہے ‘ يہ بحث تقريباً دھي باقي رہتي ہے ‘ لہٰذا ہم اِس نکتے کو عرض کرتے ہيں کہ ہجرت دار الکفر ‘ غير خدا کي ولايت ‘ شيطان اور طاغوت کي ولايت سے دارالہجرہ ‘ دارالايمان ‘ولايت ِالٰہي کے زيرِ فرمان ‘ ولايت ِ امام کے زيرِ فرمان ‘ ولايت ِ پيغمبر اور ولايت ِ ولي الٰہي کے زيرِ فرمان سرزمين کي جانب ہوتي ہے ۔ليکن اگردنيا ميں ايساکوئي خطہ ارضي موجود نہ ہو‘ تو کيا کيا جانا چاہئے ؟
کيا دارالکفرہي ميں پڑے رہنا چاہئے؟
يا ايک دارالہجرہ ايجاد کرنے کے بارے ميں سوچنا چاہئے ؟
خود پيغمبر اسلام ۰نے بھي ہجرت کي ۔ليکن پيغمبر ۰کے ہجرت کرنے سے پہلے ايک دارالہجرہ موجودنہيں تھا‘پ نے اپني ہجرت کے ذريعے ايک دارالہجرہ ايجاد کيا ۔
کبھي کبھي يہ بات ضروري ہو جاتي ہے کہ لوگوں کا ايک گروہ اپني ہجرت کے ذريعے دارالايمان کي بنياد رکھے ‘ايک الٰہي اور اسلامي معاشرہ بنائے‘ اور پھر مومنين وہاں ہجرت کريں۔

حوالے
١۔ کيا تم نے ان لوگوں کاحال نہيں ديکھا جنہوں نے خدا کي نعمت کو کفر انِ نعمت سے تبديل کر ديا اور اپني قوم کو ہلاکت کے سپرد کر ديااور دوزخ جو بد ترين ٹھکانہ ہے ‘ اس ميں جاپڑے ۔(سورہ ابراہيم ١٤۔يت٢٨‘٢٩)
۲۔ امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے : خدا ايسي امت کو عذاب دينے ميں شرم محسوس نہيں کرتا جو ايسے امام کي تابع ہو جو خدا کي طرف سے نہيں ‘اگرچہ وہ اپنے اعمال ميں نيکو کار اور پرہيز گار ہو۔ بے شک خدا ايسي امت کو عذاب دينے ميں شرم محسوس کرتا ہے جو خدا کي جانب سے مقرر کردہ امام کي تابع ہو‘ اگرچہ اپنے اعمال کے حوالے سے ظالم اور بدکردار ہو۔(اصول ِکافي ۔ ج٢۔ص٢٠٦)
۳۔وہ لوگ جو اپنے پ پر ظلم کررہے ہوتے ہيں ‘جب فرشتے اُن کي روح قبض کرتے ہيں‘ تو اُن سے پوچھتے ہيں: تم کس حال ميںمبتلا تھے ؟وہ کہتے ہيں: ہم زمين ميں لاچار بنا ديئے گئے تھے ۔فرشتے کہتے ہيں: کيا خدا کي زمين وسيع نہيں تھي کہ تم اس ميںہجرت کرجاتے ۔پس اِ ن لوگوں کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ بدترين منزل ہے۔(سورہ نسا ٤۔يت ٩٧)
۴۔اور معاملات وامورميںان سے مشورہ کرو۔(سورہ لِ عمران٣۔يت١٥٩)
۵۔سورہ مومنون ٢٣۔يت٦١
۶۔اور جوکوئي خدا اور رسول کي جانب ہجرت کے ارادے سے اپنے گھر سے نکلے اورراستے ميں اسے موت جائے‘ تو اس کااجر اللہ کے ذمے ہے ۔اور اللہ بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے۔( سورہ نسا٤۔يت ١٠٠)


اقتباس از چھ تقريريں امامت و ولايت کے موضوع پر حضرت آيت اللہ العظميٰ سيد علي خامنہ اي
ترجمہ سيد سعيد حيدر زيدي


ہجرت کا شمار اُن مسائل ميں ہوتا ہے جو ولايت کے بارے ميں ہمارے پيش کردہ وسيع مفہوم کے ساتھ تعلق رکھتے ہيں ۔پچھلي تقارير ميں ہم نے عرض کياتھا کہ ولايت کے معني ہيںمومنين کي صف ميںموجود عناصر کے مابين مضبوط اور مستحکم باہمي رابطے کا قيام‘مومن اور غير مومن صفوںکے درميان ہر قسم کي وابستگي کا خاتمہ‘اور بعد کے مراحل ميں مومنين کي صف کے تمام افراد کا اُس مرکزي نقطے اور متحرک قوت يعني ولي‘حاکم اور امام سے انتہائي مضبوط اور قوي ارتباط جس کے ذمے اسلامي معاشرے کي تنظيم و تشکيل ہے ۔
ہم نے اِس بارے ميں بھي گفتگو کي تھي کہ کون اشخاص اسلامي معاشرے کے ولي اور حاکم ہو سکتے ہيں اور اِس کا جواب قرنِ کريم سے حاصل کياتھا ‘جو کہتا ہے کہ :
’’اِنَّمَا وَلِيُّکُمُ اُ وَ رَسُوْلُہ وَ الَّذِيْنَ ٰامَنُوا الَّذِيْنَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَ يُْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَ ہُمْ رَاکِعُوْنَ۔‘‘(١)
اوراس يت کے حوالے سے ہم نے امير المومنين صلوات ا عليہ کے قصّے کي جانب
١۔تمہارا ولي امر صرف خدا ‘ اُس کا رسول اور وہ مومنين ہيں جو نماز قائم کرتے ہيں اور حالت ِ رکوع ميں زکات ديتے ہيں ۔(سورہ مائدہ ٥۔يت ٥٥)
اشارہ کيا تھا ۔
اگر ہم ولايت کو اس وسعت کے ساتھ سمجھيںاور اسے فروعي اور دوسرے درجے کا مسئلہ قرار دے کر چھوڑ نہ ديں‘ تو ولايت قبول کرنے کے بعد جن چيزوں کا سامنا ہوسکتا ہے اُن ميں سے ايک چيزہجرت بھي ہے۔کيونکہ اگر ہم نے خدا کي ولايت کو قبول کيا‘اور اس بات کو مان ليا کہ انسان کي تمام جسماني‘فکر ي اورروحاني قوتوں اور صلاحيتوں کو ولي الٰہي کي مرضي اور منشا کے مطابق استعمال ہونا چاہئے‘

مختصر يہ کہ انسان کو اپنے وجود کے تمام عناصر کے ساتھ بندہ خدا ہونا چاہئے ‘ نہ کہ بندہ طاغوت‘تو لامحالہ ہميں يہ بات بھي قبول کرني پڑے گي کہ اگر کسي جگہ ہمارا وجود‘ہماري ہستي اور ہماري تمام صلاحيتيں ولايت ِ الٰہي کے تابع فرمان نہ ہوں‘ بلکہ طاغوت اور شيطان کي ولايت کے زيرِ فرمان ہوں‘تو خدا سے ہماري وابستگي اس بات کا تقاضا کرتي ہے کہ ہم اپنے پ کو طاغوت کي قيد و بند سے زاد کرائيں اور ولايت ِ الٰہي کے پُر برکت اور مبارک سائے تلے چلے جائيں۔ظالم حاکم کي ولايت سے نکل کر امامِ عادل کي ولايت ميں داخل ہوجانے کا نام ہجرت ہے۔
پ نے ديکھا کہ ہجرت ولايت سے منسلک مسائل ميں سے ايک مسئلہ ہے۔ يہ وہ چوتھا نکتہ ہے جس پر ولايت کے بارے ميںکي جانے والي اِن تقارير کے سلسلے ميں ہم گفتگو کريں گے۔

انفرادي ہجرت
ايک انسان کو طاغوت اور شيطان کي ولايت کے تحت نے سے کيوںبچنا چاہئے ؟
اس سوال کا جواب ايک دوسرے سوال کے جواب سے وابستہ ہے ‘ اورہم پ سے چاہتے ہيں کہ پ فوراً اپنے ذہن ميں اس سوال کا اِس انداز سے تجزيہ و تحليل کيجئے گا کہ پ خوداپنے پاس موجود اسلامي اور مذہبي تعليمات اور معلومات کے مطابق اِس کا جواب دے سکيں ۔اسکے بعد اگر پ کا جواب اُس جواب جيسا نہ ہوا جو ہمارے ذہن ميں ہے اورہمارے جواب سے مختلف ہوا‘تب اس موضوع پر گفتگو کي گنجائش رہے گي۔
سوال يہ ہے کہ :کيا طاغوت کي حکومت ميں رہتے ہوئے مسلمان نہيں رہا جاسکتا ؟
کيا يہ ممکن نہيںہے کہ ايک مسلمان شيطان کي ولايت کے تحت زندگي بسر کرے ‘ ليکن رحمان کا بندہ ہو ؟
ايسا ہوسکتا ہے يا نہيں ؟
کيا يہ ممکن ہے کہ: انساني زندگي کے تمام پہلوؤں اور اسکي حيات کے تمام گوشوں پر ايک غير الٰہي عامل کي حکمراني ہو‘ انسانوں کے جسموں اور اُن کي فکروں کي تنظيم و تشکيل اور اُن کا انتظام وانصرام ايک غير الٰہي عامل کے ہاتھ ميں ہو‘يہي غير الٰہي عامل افراد ِ معاشرہ کے جذبات و احساسات کو بھي کبھي اِس رُخ پر اور کبھي اُس رُخ پر دھکيل رہا ہو اورانسان اِس قسم کے طاغوتي اور شيطاني عوامل کے قبضہ قدرت ميںزندگي بسر کرنے کے باوجود خدا کا بندہ اور مسلمان بھي ہو۔
کيا يہ چيزممکن ہے ‘يا ممکن نہيں ہے ؟
پ اِس سوال کا جواب تلاش کرنے کي کوشش کيجئے اور اپنے ذہن ميں اِس کا جواب تيار کيجئے ‘ديکھئے يہ ہوسکتا ہے يا نہيں ہوسکتا ؟
اِس سوال کا جواب دينے کے لئے خود اِس سوال کاکچھ تجزيہ وتحليل کرناضروري ہے ‘تاکہ جواب واضح ہوجائے ۔
ہم نے پوچھاہے کہ کيا يہ ممکن ہے کہ کوئي انسان شيطان کي ولايت کے تحت ہو‘ اِسکے باوجود مسلمان بھي ہو ؟
اِس سوال کے دو اجزا ہيںاور ہميں چاہئے کہ ہم اِن دو اجزا کا درست تجزيہ و تحليل کريں ‘ اور ديکھيں کہ اِن کے کيا معني ہيں ؟
پہلا جز يہ ہے کہ کوئي شخص شيطان کي ولايت کے تحت ہو۔
شيطان کي ولايت کے تحت ہونے کے کيا معني ہيں ؟
اگر ولايت کے اُن معني کو جو ہم نے يات ِقرني سے اخذ کئے ہيں ‘ ’’ولايت ِشيطان ‘‘ کي عبارت کے پہلوميں رکھيں ‘ تو معلوم ہوجائے گا کہ ولايت ِ شيطان سے کيا مراد ہے ۔
ولايت ِ شيطان سے مراديہ ہے کہ شيطان (شيطان کے اُنہي مجموعي معني کے مطابق جنہيں ہم نے بارہا بيان کيا ہے ) انسان کے وجود ميںپائي جانے والي تمام توانائيوں ‘ صلاحيتوں ‘ تخليقي قوتوں اور اعمال پر مسلط ہو اور انسان جو کچھ انجام دے وہ شيطان کے معين کردہ دستور کے مطابق ہو‘انسان جو کچھ سوچے وہ اس سمت ميں ہو جس کا تعين شيطان نے کيا ہے‘ اُس انسان کي طرح جو کوہساروں سے نيچے بہنے والے سيلاب کي لپيٹ ميں ہو۔ اس انسان کو يہ بات پسند نہيں ہوتي کہ وہ سخت اور کھردري چٹانوں سے ٹکرائے اوراُس کا سر پاش پاش ہوجائے ‘اُسے يہ بات پسند نہيں ہوتي کہ وہ اس پاني ميں بہتے ہوئے گہرے گڑھے ميں جاپڑے ‘اُسے يہ بات پسند نہيںہوتي کہ پاني کي ان موجوں کے درميان اُس کا دم گھٹ کے رہ جائے۔باوجود يہ کہ اُسے پسند نہيں ہوتا ليکن پاني کا يہ تيز و تند ريلا بغير اُسکي مرضي کے اُسے بہائے لئے جاتا ہے ‘وہ ہاتھ پاؤںبھي مارتا ہے‘وہ کبھي اِس طرف اور کبھي اُس طرف سہارا بھي ليتا ہے ‘راستے ميں نے والے پودوں اور درختوںکو پکڑنے کي کوشش بھي کرتا ہے ‘ليکن پاني کا تيز بہاؤ اُسے بے اختيار بہائے لئے جاتا ہے ۔
ولايت ِ طاغوت اور ولايت ِ شيطان اسي قسم کي چيز ہے ۔
لہٰذا يت ِ قرن کہتي ہے:
’’وَجَعَلْنہُمْاٰا اَئِمَّۃً يَّدْعُوْنَ اِلَي النَّارِ۔‘‘
’’ايسے رہنمااور قائدين بھي ہيں جو اپنے پيروکاروں اور زيرِ فرمان افراد کو دوزخ کي گ اور بد بختي کي طرف کھينچے لئے جاتے ہيں۔‘‘
(سورہ قصص ٢٨۔ يت ٤١)
قرنِ مجيد کي ايک دوسري يت فرماتي ہے :
’’اَلَمْ تَرَ اِلَي الَّذِيْنَ بَدَّلُوْا نِعْمَتَ اِ کُفْرًا وَّ اَحَلُّوْا قَوْمَہُمْ دَارَ الْبَوَارِ جَہَنَّمَ يَصْلَوْنَہَا وَ بِئْسَ الْقَرَارُ ۔‘‘(١)
کيا تم نے اُن لوگوں کو نہيں ديکھا جنہوں نے خدا کي نعمت کا کفران کيا ؟
وہ نعمت جس کا اُن لوگوں نے کفران کيا ‘کيا تھي؟
نعمت ِ قدرت ‘جو پروردگار کي قدرت کا مظہر ہے‘دنيوي طاقتيں‘انسان کے معاملات کے نظم ونسق کي نعمت‘انسانوں کي بکثرت صلاحيتوں ‘ افکاراور قوتوںکو ہاتھ ميں رکھنے کي نعمت ‘ يہ سب کي سب چيزيں نعمت ہيں اور ايسے سرمائے ہيں جو انسان کے لئے خير کا سرچشمہ ہوسکتے ہيں ۔
اِ س يت ميں جن افراد کي جانب اشارہ کيا گيا ہے اُن کي فرمانروائي ميںزندگي گزارنے والاہر انسان ايک عظيم اور بزرگ انسان بن سکتاتھا‘اور کما ل کے بلند ترين درجات تک رسائي پاسکتاتھا۔ليکن ان لوگوں نے نعمات کا کفران کيااور جس مقصد کے لئے اُن سے استفادہ کرنا چاہئے تھا اُس مقصد کے لئے اُنہيںاستعمال نہيںکيا ۔
اسکے بعد فرماتا ہے :
وَّ اَحَلُّوْا قَوْمَہُمْ دَارَ الْبَوَارِ(اوروہ خودجانتے بوجھتے ‘ اپني قوم اور اپنے زيرِ فرما ن لوگوں کو نيستي و نابودي اور ہلاکت کے گڑھے کي طرف لے گئے)
جَہَنَّمَ يَصْلَوْنَہَا وَ بِئْسَ الْقَرَارُ( اُنہيں جہنم کي طرف لے گئے ‘ جس ميں الٹے منھ پھينکے جائيں گے اور يہ کيسي بُري جگہ اور ٹھکانہ ہے)
يہ يت امام موسيٰ ابن جعفر عليہما السلام نے ہارون کے سامنے پڑھي اور ہارون کو يہ بات باور کرائي کہ تو وہي شخص ہے جو اپني قوم کو اور اپنے پ کو بد ترين منزل اورمہلک ترين ٹھکانے سے ہمکنار کرے گا ۔
ہارون نے (امام سے) سوال کيا تھا کہ کيا ہم کافر ہيں ؟ اُسکي مراد يہ تھي کہ کيا ہم خدا ‘ پيغمبر اور دين پر عقيدہ نہيں رکھتے ہيں ۔
لہٰذاامام ٴنے اُسکے جواب ميں اِس يت کي تلاوت فرمائي ‘تاکہ اسے يہ بات ذہن نشين کراديں کہ کافر فقط وہي شخص نہيں ہوتا جو صاف اور صريح الفاظ ميں خدا کاانکار کرے‘ يا قرن کوجھٹلائے ‘ يا پيغمبر کو مثلاً افسانہ کہے۔ٹھيک ہے کہ اِس قسم کا شخص کافر ہے اور کافر کي بہترين قسم سے ہے جو صريحاً اپني بات کہتا ہے اور انسان اسے پہچانتا ہے اور اسکے بارے ميںاپنے موقف کا اچھي طرح تعين کرتا ہے ۔
کافر سے بدتر شخص وہ ہے جو ان عظيم نعمتوں کا کفران کرے جو اسے ميسّر ہيںاور اُنہيں غلط راستے ميں استعمال کرے ۔ايسا شخص نہ صرف اپنے پ کو بلکہ اپنے ماتحت تمام انسانوں کو جہنم ميںجھونک ديتا ہے ۔
طاغوت کي ولايت ايسي ہي چيز ہے ۔وہ شخص جو طاغوت کي ولايت ميںزندگي بسر کرتا ہے‘ اُسے گويااپنے اوپر کوئي اختيارحاصل نہيں ہوتا ۔ہماري مراد يہ نہيں ہے کہ وہ با لکل ہي بے اختيار ہوتا ہے ۔بعد ميں جب ہم يہ قرن کے معني بيان کريں گے‘ تو اس نکتے کي تفسير واضح ہوجائے گي۔ البتہ وہ شخص سيلابي ريلے کي زد پرہوتا ہے اوراُس ميں بہا چلا جاتا ہے ۔وہ ہاتھ پاؤں مارنا چاہتا ہے ‘ ليکن نہيں مار پاتا ‘ وہ ديکھتا ہے کہ تمام لوگ جہنم کي طرف جارہے ہيں اور اُسے بھي اپني طرف کھينچ رہے ہيں۔لہٰذاوہ جہنم کے راستے سے پلٹنا چاہتا ہے ۔}ليکن بے بس ہوتا ہے{
کيا پ کبھي کسي مجمع ميں پھنسے ہيں ؟ اِس موقع پر پ کا دل چاہتا ہے کہ ايک طرف ہوجائيں ‘ ليکن مجمع پ کو ايک تنکے کي طرح اٹھا کر دوسري طرف پھينک ديتا ہے ۔
ايسا شخص جو طاغوت کے زيرِ ولايت ہو ‘
وہ چاہتا ہے کہ نيک بن جائے ‘ صالح زندگي بسر کرے ‘ ايک انسان کي طرح زندگي گزارے ‘ مسلمان رہے اور مسلمان مرے ‘
ليکن ايسانہيں کر سکتا ۔
يعني معاشرے کا ريلا اسے کھينچ کر اپنے ساتھ لئے جاتا ہے ‘اور اِس طرح لئے جاتا ہے کہ وہ ہاتھ پاؤں بھي نہيں مار سکتا ۔وہ اگر ہاتھ پاؤں مارتا بھي ہے‘ توسوائے اپني قوت کے زياں کے اسے کچھ نتيجہ حاصل نہيں ہوتا ۔وہ نہ صرف ہاتھ پاؤں نہيں مارپاتا ‘بلکہ اِس سے بھي زيادہ تکليف دہ بات يہ ہے کہ کبھي کبھي وہ اپني حالت کو بھي نہيں سمجھ پاتا ۔
مجھے نہيں معلوم پ نے سمندر سے شکار ہوتي مچھليوں کو ديکھا ہے يا نہيں ۔کبھي کبھي ايک جال ميں ہزاروں مچھلياں پھنس جاتي ہيں ‘ جنہيں سمندر کے وسط سے ساحل کي طرف کھينچ کر لاتے ہيں ‘ليکن اُن ميں سے کوئي مچھلي يہ نہيں جانتي کہ اُسے کہيں لے جايا جارہا ہے ‘ ہر ايک يہ تصور کرتي ہے کہ وہ خود اپنے اختيار سے اپني منزل کي طرف رواں دواں ہے ۔ليکن درحقيقت وہ بے اختيار ہوتي ہے ‘اُسکي منزل وہي ہوتي ہے جس کي جانب جال کا مالک وہ شکاري اسے لے جا رہا ہوتا ہے۔
جاہلي نظام کا غير مرئي جال انسان کو اس سمت کھينچتا ہے جس سمت اس جال کي رہنمائي کرنے والے چاہتے ہيں۔اس نظام ميں زندگي گزارنے والا انسان بالکل نہيں سمجھ پاتا کہ وہ کہاں جارہا ہے ۔کبھي کبھي تو وہ اپني دانست ميں يہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ وہ سعادت اور کاميابي کي منزل کي طرف گامزن ہے ‘جبکہ اُسے نہيں معلوم ہوتاکہ وہ جہنم کي طرف جارہا ہے: جَہَنَّمَ يَصْلَوْنَہَا وَ بِئْسَ الْقَرَارُ۔
يہ ولايت ِ طاغوت اور ولايت ِ شيطان ہے ۔
يہ پہلي عبارت اُن دو عبارتوں ميں سے ايک تھي جن سے مل کر (مذکورہ بالا ) سوال بنا تھا۔ اور سوال يہ تھا کہ کيا طاغوت اور شيطان کي ولايت اورحکومت ميں رہتے ہوئے مسلمان نہيں رہا جاسکتا؟
اجمالاً ہم نے طاغوت کي ولايت اور حکومت ميں زندگي گزارنے کو سمجھ ليا ہے۔ يعني يہ جان ليا ہے کہ اِس سے کيا مراد ہے۔اگر ہم اِسکي تفسير کرنا چاہيں ‘تو ايک مرتبہ پھر تاريخ کي طرف پلٹ سکتے ہيں ۔
پ ديکھئے بني اميہ اور بني عباس کے زمانے ميں عالمِ اسلام کس جوش و خروش سے محو ِ سفر تھا ۔ ديکھئے اُس دور کے اسلامي معاشرے ميں علم ودانش کي کيسي عظيم لہر اُٹھي تھي‘کيسے کيسے عظيم اطبّاپيدا ہوئے تھے ‘ زبان داني اور عموي علمي افلاس کے اُس دور ميں عالمِ اسلام ميں کيسے عظيم مترجمين پيدا ہوئے تھے‘ جنہوں نے قديم تہذيبوں کے عظيم ثار کو عربي زبان ميں ترجمہ کيااور اُن کي نشر و اشاعت کي ۔مسلمان تاريخ‘حديث ‘ علومِ طبيعي ‘ طب اورنجوم کے شعبوں ‘حتيٰ فنونِ لطيفہ ميںبھي انتہائي ممتازمقام کے مالک تھے ۔ يہاں تک کہ ج بھي جب فرانس سے تعلق رکھنے والے گسٹاف لوبون کي مانند ايک شخص‘ ياکوئي اور مصنف اورمستشرق ان ظاہري باتوں کو ديکھتاہے ‘تو اسلام کي دوسري‘ تيسري اور چوتھي صديوںکو اسلام کے عروج کي صدياں قرار ديتا ہے ۔
گسٹاف لو بون نے ’’چوتھي صدي ہجري ميںتاريخِ تمدنِ اسلام ‘‘ کے نام سے ايک کتاب لکھي ہے ۔ايک ايسا تمدن جسے وہ ايک عظيم تمدن سمجھتا ہے اور چوتھي صدي ہجري کواس عظيم تمدن کي صدي بيان کرتا ہے۔ مجموعي طور پر جب کوئي يورپي مستشرق دوسري ‘ تيسري اور چوتھي صدي ہجري پر نگاہ ڈالتا ہے ‘ تووہ دنگ رہ جاتا ہے۔ اِسکي وجہ يہ ہے کہ اُس وقت کے اسلامي معاشرے ميںحيرت انگيزگرمياں‘ صلاحيتيں اورلياقتيں ظاہر ہوئي تھيں۔
ليکن ہم پ سے سوال کرتے ہيں کہ يہ تمام سرگرمياں اور صلاحيتيں‘جو اس دورميں ظاہر ہوئيں ‘ کيا ان کا نتيجہ اسلامي معاشرے اور انسانيت کے مفاد ميں برمد ہوا ؟
ج اُس زمانے کو دس صدياں گزر چکي ہيں‘اور ہم اس زمانے کے بارے ميں کسي تعصب کا شکار نہيں ہيں اور غير مسلم دنيا کے با لمقابل ہم کہہ سکتے ہيں کہ يہ عالمِ اسلام تھا جس نے جامعات کي بنياد رکھي ‘يہ عالمِ اسلام تھا جس نے فلسفے کي تشکيل کي ‘يہ عالمِ اسلام تھا جس نے طبابت اور طبيعيات کے ميدانوں ميں کارہائے نماياں انجام دئيے۔ ليکن کيا خود اپنے حلقوں ميں ہم حق و انصاف کے ساتھ يہ کہہ سکتے ہيں کہ اُن تمام قوتوں اور صلاحيتوں کا نتيجہ ٹھيک ٹھيک ‘ برمحل اور انسانيت اور اسلامي معاشرے کے مفاد ميں برمد ہوا ؟
ج دس صدياں گزرنے کے بعداسلامي معاشرے کے پاس اُس ميراث ميں سے کيا باقي ہے ؟ اور کيوں باقي نہيں ہے ؟
خر وہ علمي اورتہذيبي دولت ہمارے لئے کيوںباقي نہ بچ سکي ؟
ہم دس صدي پہلے کے اُس تابناک معاشرے کي طرح ج کيوںدنيا ميںدرخشاں اور جلوہ نما نہيں ؟ کيا اسکي وجہ اسکے سوا کچھ اور ہے کہ وہ تمام سرگرمياں اور جلوہ نمائياں طاغوت کي حکمراني ميں رہتے ہوئے تھيں ۔

من ن نگين سليمان بہ ہيچ نستانم
کہ گاہ گاہ بر اودست اھر من باشد

ان گمراہ کن قيادتوں نے اسلامي معاشرے کے ساتھ کھيل کھيلا ‘اوراپنانام اونچا کرنے اور يہ کہلوانے کے لئے کہ مثلاً فلاں عباسي خليفہ کے دورِ اقتدار ميں فلاں کام ہوا ‘ مختلف کام کئے۔
اگر يہ حکمراں طبيعيات ‘ رياضي‘ نجوم‘ ادب اور فقہ کے ميدانوں ميں علمي ترقي کي بجائے ‘فقط اتني اجازت ديتے کہ علوي حکومت برسرِ اقتدار جائے ‘امام جعفرصادقٴ کي حکومت قائم ہوجائے‘ اسلامي معاشرے کي تمام قوتيں اور صلاحيتيں امام جعفر صادقٴ کے ہاتھ ميں جائيں‘ پورے اسلامي معاشرے کي سرگرميوں کاتعين امام جعفر صادقٴ کريں۔ اس صورت ميں اگر مسلمان علمي اور ادبي لحاظ سے‘ ان باتوں کے اعتبار سے جن پر ج دنيا ئے اسلام فخروناز کرتي ہے سو سال پيچھے بھي رہتے ‘ تب بھي يہ انسانيت کے فائدے ميں ہوتا۔ انسانيت ترقي کرتي‘ اسلام پھلتا پھولتا‘ اسلامي معاشرے کي صلاحيتيں اور قوتيں صحيح راہ ميں استعمال ہوتيں۔ پھر يہ صورت نہ رہتي کہ کتابيں تو ترجمہ کرتے‘ طب اور سائنس کے ميدانوں ميںترقي کو بامِ عروج پر پہنچا ديتے‘ ليکن انفرادي اور اجتماعي اخلاق کے اعتبار سے اس قدر کمزور ہوتے‘ کہ اُس دور ميںپايا جانے والا طبقاتي فرق ج بھي تاريخ ميں بطور يادگار محفوظ ہے۔ بالکل ج کي دنيا کے غليظ اور ذلت ميز تمدن کي طرح‘ کہ ج کي بڑي حکومتيں عقلوں کو دنگ کر دينے والي اپني ايجادات پر تو فخر کرتي ہيں‘ مثلاً کہتي ہيں کہ ہم نے فلاں دوا ايجاد کي ہے ‘ فلاں کام کيا ہے‘ علمي لحاظ سے فلاں شعبے ميں ترقي کي ہے‘ ليکن يہ حکومتيں انساني اقدار اور اخلاقي اعتبار سے اب بھي ہزار ہا سال پراني تاريخ جيسے حالات ميں زندگي بسر کر رہي ہيں ۔ ج بھي بے پناہ مال و دولت‘ بے انتہا فقر و افلاس کے پہلو بہ پہلو موجود ہے۔ ج بھي غريب ممالک کے لاکھوں‘ کروڑوں بھوکے انسانوں کے مقابل صرف ايک في صد انسان دولت کي فراواني کے مزے لوٹ رہے ہيں۔ اسکے باوجود يہ حکومتيں اپني سائنسي ترقي پر نازاں ہيں۔
دوسري ‘ تيسري اور چوتھي صدي ہجري کا عظيم اسلامي تمدن اسي صورتحال سے دوچار تھا۔ اُس دور ميںبہت زيادہ علمي ترقي ہوئي ‘ليکن امير طبقے کا راج تھا‘ عيش وعشرت کا چلن تھا اور اسکے مقابل انسانيت اور انساني فضيلتوںسے بے خبري اور طبقاتي اونچ نيچ انتہائي درجے پر موجود تھي۔ اُس زمانے ميں بھي ايک طرف لوگ بھوک سے مرتے دکھائي ديتے تھے‘ تودوسري طرف بسيار خوري بہت سے لوگوں کي موت کا سبب بنتي تھي۔
خر کيا وجہ تھي کہ اُس دور کا اسلامي معاشرہ اپني علمي سرگرميوں اور نشاط کے باوجودانساني فضائل وکمالات کاگلستاںنہيں بن سکا ؟
دوسري اور تيسري صدي ہجري سے تعلق رکھنے والي جن شخصيتوں کا تذکرہ فخر وناز کے ساتھ کيا جاسکتا ہے ‘اور جن کا نام ہم دنيا ميں قابلِ افتخار ہستيوں کے ساتھ پيش کر سکتے ہيں‘وہ لوگ ہيںجنہوں نے اس متمدن نظام کے خلاف شدت سے جنگ کي۔ مثال کے طور پر معلي بن خنيس کا نام ليا جاسکتا ہے‘جنہيں بيچ بازار ميں سولي پر لٹکا يا گيا۔ يحييٰ ابن امِ طويل کا نام ليا جاسکتا ہے‘ جن کے ہاتھ پير کاٹ ديئے گئے ‘جن کي زبان کھينچ لي گئي۔ محمدا بن ابي عمير کا نام ليا جاسکتا ہے‘جنہيں چار سو تازيانے مارے گئے ۔يحييٰ ابن زيدکا نام ليا جاسکتا ہے‘ جنہيںصرف اٹھارہ برس کے سن ميں خراسان کي پہاڑيوں ميںشہيد کيا گيا ۔زيد بن علي کا نام ليا جاسکتا ہے‘جن کے جسد کو چار سال سولي پر لٹکائے رکھا گيا ۔
يہ وہ ہستياں ہيں جن کے ناموں کو ہم ج دنيائے انسانيت کے قابلِ فخر افراد کي فہرست ميںجگہ دے سکتے ہيں ۔اِن حضرات کااُس پر شکوہ تمدن سے کوئي تعلق نہ تھاجس کا ذکر گسٹاف لوبون نے کيا ہے‘بلکہ يہ اُس تمدن کے مخالفين ميں سے تھے ۔
پس ديکھئے کہ جن معاشروں اور جن انسانوں پر طاغوت اور شيطان کي حکمراني ہوتي ہے اور جن کے معاملات کي باگ ڈورطاغوتي اور شيطاني ہاتھوں ميں ہوتي ہے‘اُن معاشروں ميں زندگي بسر کرنے والے افراد کي قوتيںاستعمال ہوتي ہيں‘ اُن کي صلاحيتيں بروئے کارتي ہيں‘ ليکن بالکل اُسي طرح جيسے ج کي متمدن دنيا ميں کام تي ہيں‘اُسي طرح جيسے اب سے دس گيارہ سو سال پہلے عالمِ اسلام ميں کام ميں تي تھيں۔يہ ساري ترقياں اُسي طرح بے قيمت ہيں جيسے اعليٰ اقدار اورانساني فضيلتوںکي نظرميں چوري سے کمايا ہوا مال بے حيثيت ہوتاہے۔ يہ ہوتي ہے طاغوت کي ولايت اورحکومت۔
ان خصوصيات کے ساتھ کيا طاغوت کي حکومت کے تحت ايک مسلمان کي حيثيت سے زندگي بسر کي جاسکتي ہے ؟
ذرا ديکھتے ہيںکہ دراصل مسلمان کي حيثيت سے زندگي بسر کرنے کے معني کيا ہيں ؟
مسلمان کي حيثيت سے زندگي بسر کرنے کے معني ہيں انسان کے تمام وسائل ‘ قوتوں اور صلاحيتوں کا مکمل طور پر خدا کے اختيار ميں ہونا‘اُسکے مال و دولت اوراُسکي تمام چيزوں کا خدا کے اختيار ميں ہونا‘اُسکي جان کا خدا کے اختيار ميں ہونا ‘اُسکي فکر اور سوچ کا خدا کے اختيار ميں ہونا ۔
اِس حوالے سے بھي ہمارے پاس معاشرے اورمدنيت کي صورت ميںموجود اجتماعات اور طاغوتي نظاموں سے سرکشي اختيار کرکے باہر نکلنے والے اور خدا کي طرف ہجرت کرنے والے گروہوں کي مثاليں موجود ہيں۔
پہلي مثال پيغمبراسلام صلي اللہ عليہ ولہ وسلم کے زمانے ميں مدينہ کے معاشرے کي ہے۔ مدينہ ايک ’’بندہ خدا‘‘ معاشرہ تھا‘ايک مسلمان معاشرہ تھا‘وہاں جو قدم بھي اٹھتا راہِ خدا ميں اٹھتا۔وہاں اگر يہودي اور عيسائي بھي اسلامي حکومت کے زيرِ سايہ زندگي بسر کرتے تھے‘ تو اُن کي زندگي بھي اسلامي زندگي تھي۔ اسلامي معاشرے ميںعيسائي اور يہودي اہلِ ذمہ افراد بھي اسلام کي راہ پر گامزن ہوتے ہيں۔ايسے معاشرے ميںاعمال کے لحاظ سے ايک شخص يہودي ہوتا ہے‘ ليکن معاشرے کے ايک رکن کے لحاظ سے اُس مسلمان سے کہيں زيادہ مسلمان ہوتاہے جوايک جاہلي نظام کے تحت زندگي بسر کرتا ہے ۔
زمانہ پيغمبر۰ ميں مال و دولت ‘نيزہ وتلوار‘فکر اور سوچ‘تمام انساني اعمال ‘حتيٰ جذبات واحساسات بھي راہِ خدا ميںہوتے تھے ۔
امير المومنين حضرت علي عليہ السلام کے زمانے ميں بھي کم و بيش يہي صورت تھي ۔اِس لئے کہ امير المومنين ٴ حاکمِ الٰہي اور ولي خدا ہونے کے ناطے پيغمبراسلام ۰سے مختلف نہ تھے۔ ليکن وہ ايک بُرے معاشرے کے وارث تھے ‘ اُن پيچيدگيوں اورمسائل کے وارث تھے ‘ اوراگراميرالمومنين ٴکي جگہ خود پيغمبر اسلا۰م بھي ہوتے اور پچيس سال بعدايک مرتبہ پھرمسند ِ حکومت پر جلوہ افروز ہوتے ‘ تو يقيناً انہي مشکلات کا سامنا کرتے جو امير المومنين ٴ کو درپيش تھيں ۔

گروہي ہجرت
گروہي صورت ميں ہجرت کي تاريخي مثال ‘ ائمہ اہلِ بيت ٴ کے ماننے والے شيعوں کي ہجرت ہے ۔افسوس کہ ماہِ رمضان ختم ہوگيا اور ہم تفصيل کے ساتھ امامت کي بحث تک نہيں پہنچ سکے‘ وگرنہ ولايت کے بعد امامت کي گفتگو کرتے اور پ کو بتاتے کہ ائمہ ٴ کے زمانے ميں شيعہ کس قسم کاگروہ تھے ‘ اور يہ بات واضح کرتے کہ شيعوں کے ساتھ امام ٴکے روابط وتعلقات اورپھر شيعوںکے اپنے معاشرے کے ساتھ روابط وتعلقات کي نوعيت کيا ہوا کرتي تھي ۔ليکن اب ہم مجبورہيں کہ اسے اجمالي طور پر عرض کريں ۔
شيعہ بظاہر طاغوتي نظام ميں زندگي بسر کرتے تھے ‘ ليکن باطن ميں طاغوتي نظام کے يکسر برخلاف گامزن ہوتے تھے ۔اس سلسلے ميں بطورِمثال اُس گروہ کا نام ليا جاسکتا ہے جو حسين ابن علي ٴ کے ہمراہ تھا۔ ان لوگوں نے اس سيلاب کامقابلہ کيا اور اس سيلابي ريلے کي مخالف سمت چلے جو انہيں اپنے ہمراہ بہاکرليجانا چاہتا تھا۔يہ تاريخ ميں گروہي ہجرت اور انقلاب کي مثالوں ميں سے ايک مثال ہے ۔ليکن عام افراد ‘ اور کلي طور پر عرض کريں کہ ايک فرد کسي طاغوتي معاشرے ميں زندگي بسر کرتے ہوئے مسلمان باقي نہيں رہ سکتا اور اُس کا وجود ‘ اُس کے وسائل‘اُسکي قوتيں اور اُسکي تمام تر صلاحيتيں احکامِ الٰہي کے تابع نہيں رہ سکتيں ۔ايساہونامحال ہے ۔
اگر ايک مسلمان طاغوتي ماحول اور طاغوتي نظام ميں زندگي بسر کرے‘ تو بہر حال اسکي اسلاميت کا ايک حصہ طاغوت کي راہ پر ہوگا‘ وہ خدا کا سو فيصدبندہ نہيں ہوسکتا ۔
اصولِ کافي جو شيعوں کي معتبر ترين اور قديم ترين کتابوں ميں سے ہے‘ اُس ميں اِس }درجِ ذيل{ حديث کو کئي طريقوں سے نقل کيا گيا ہے ‘ پ کتاب الحجہ کے باب’’ اس شخص کے بارے ميں جس نے منصوص من اللہ امام کے بغير خدا کي عبادت کي ‘‘ ميںمطالعہ کيجئے‘اس روايت ميں امام جعفر صادق عليہ السلام فرماتے ہيں :
’’اِنَّ اَ لاٰ يَسْتَحِيي اَنْ يُعَذِّبَ اُمّہ دانَتْ بِاِمٰامٍ لَيْسَ مِنَ اِ وَاِنْ کٰانَتْ فِي اَعْمٰالِھٰا بَرّۃً تَقِيَّۃً وَاِنَّ اَ لَيَسْتَحْيِي اَنْ يُعَذِّبَ اُمَّۃً دانَتْ بِاِمٰامٍ مِنَ اِ وَاِنْ کَانَتْ في اَعْمٰالِھٰا ظٰالِمَۃً مَسِيئَۃً۔‘‘(۲)
عجيب حديث ہے ‘يہ حديث کہتي ہے کہ وہ لوگ جو خدا کے ولي کي حکومت کے تحت زندگي بسر کرتے ہيں ‘ اہلِ نجات ہيں‘اگرچہ وہ اپنے انفرادي اور نجي افعال ميں کبھي کبھار گناہوں ميں بھي مبتلا ہوجاتے ہوں ۔ اور وہ لوگ جو شيطان اور طاغوت کي حکومت کے تحت زندگي بسر کرتے ہيںوہ بد بخت اور عذاب کا شکار ہونے والے لوگ ہيں ‘ اگرچہ وہ اپنے انفرادي اور شخصي کاموں ميں نيکو کار اور عملِ صالح انجام دينے والے ہي کيوں نہ ہوں ۔يہ انتہائي عجيب بات ہے ۔اگرچہ حديث کو کئي طريقوں سے بيان کيا گيا ہے‘ ليکن سب يہي ايک معني ديتے ہيں ۔
ہم ہميشہ اس حديث کے مفہوم کي وضاحت ميں ايک ايسي گاڑي کي مثال پيش کرتے ہيں جس ميں پ مثلاً نيشاپور جانے کے لئے سوار ہوں۔اگر يہ گاڑي نيشاپور کي طرف چلے گي‘ تو پ لازماً اپني منزل پر پہنچ جائيں گے اور اگر مثلاً طبس يا قوچان کي طرف جائے گي‘ تو لازماً پ اپني منزل (نيشا پور ) نہيں پہنچ سکيں گے ۔
اب اگر نيشاپور جا نے والي گاڑي ميں سوار مسافر ايک دوسرے کے ساتھ انساني داب کے ساتھ ميل جول رکھيں گے ‘ تو کيا خوب ‘ اور اگر انساني داب اور نيکي و احسان کے ساتھ باہم ميل جول نہيںرکھيںگے ‘تب بھي خرکار نيشا پور تو پہنچ ہي جائيںگے ۔ وہ اپني منزل پر جا پہنچيں گے‘چاہے انہوں نے راستے ميں کچھ بُرے کام بھي کئے ہوں۔ ان برے کاموں کے بھي ثار و نتائج ظاہر ہوں گے ‘ جنہيں برداشت کرنے پر وہ مجبور ہوں گے ۔ليکن منزل پربہرحال پہنچ جائيں گے۔ اس کے برخلاف وہ گاڑي جسے پ کو نيشا پور لے جانا چاہئے‘ وہ پ کو نيشا پور کے بالکل برعکس سمت لے جائے ۔اگر اس گاڑي کے تمام ا فراد مودب ہوں‘ايک دوسرے کے ساتھ انتہائي احترام ميز سلوک کريں‘ايک دوسرے کے ساتھ خنداں پيشاني سے ميل جول رکھيں اور يہ ديکھيں کہ يہ گاڑي نيشاپور کي بجائے قوچان کي طرف جارہي ہے ‘ ليکن يہ ديکھنے کے باوجود کسي ردِ عمل کا اظہار نہ کريں ‘ تو ٹھيک ہے کہ يہ لوگ بہت اچھے انسان ہيں‘ايک دوسرے کے لئے انتہائي مہربان ہيں ‘ ليکن کيا اپنے مقصد اور منزل پر پہنچ سکيں گے ؟ ظاہر ہے کہ نہيں۔
پہلي مثال ميں گاڑي کا ڈرائيور ايک امين شخص تھا ‘ ايک محترم ومکرم انسان تھا :اِمٰام مِنَ ا تھا‘ جس نے اُنہيں منزلِ مقصود پر پہنچاديا ‘ اگر چہ وہ لوگ بد اخلاق تھے:وَاِنْ کَانَتْ في اَعْمٰالِھٰا ظٰالِمَۃً مَسِيئَۃً ۔جبکہ دوسري مثال ميں گاڑي کا ڈرائيور راستے ہي سے واقف نہ تھا ‘ امين نہيں تھا ‘ خواہشِ نفس کا پجاري تھا ‘مست تھا ‘راہ سے بھٹکا ہوا تھا ‘اُسے قوچان ميں کوئي کام تھا اور اُس نے اپنے کام کو لوگوں کي خواہش پر مقدم رکھا ۔اس گاڑي ميں سوار لوگ کسي صورت اپني منزل پر نہيں پہنچ سکيں گے ۔اگرچہ يہ لوگ گاڑي کے اندر باہم انتہائي مہربان اور خوش اخلاق ہوں :وَاِنْ کٰانَتْ فِي اَعْمٰالِھٰا بَرّۃً تَقِيَّۃً۔ ليکن خر کار عذابِ خدا کا سامنا کريںگے ‘ اپني منزل نہيںپا سکيں گے۔
لہٰذا‘ايک ايسا معاشرہ جس کا انتظام و انصرام طاغوت کے ہاتھ ميں ہو‘وہ اُس گاڑي کي مانند ہے جسے ايک غير امين ڈرائيور چلا رہا ہو‘ اُس معاشرے ميں زندگي بسر کرنے والے انسان اپنے مقصد اوراپني منزل تک نہيں پہنچ سکيںگے اور مسلمان نہيں رہ سکيں گے ۔
اب سوال يہ پيش تا ہے کہ اِن حالات ميں مسلمانوں کو کيا کرنا چاہئے ؟
اِس سوال کا جواب قرنِ کريم کي يت ديتي ہے ‘ اور کہتي ہے:
’’اِنَّ الَّذِيْنَ تَوَفّٰہُمُ الْمَلٰئِکَۃُ ظٰلِمِيْ اَنْفُسِہِمْ قَالُوْا فِيْمَ کُنْتُمْ قَالُوْا کُنَّا مُسْتَضْعَفِيْنَ فِي الْاَرْضِ قَالُوْآ اَلَمْ تَکُنْ اَرْضُ اِ وَاسِعَۃً فَتُہَاجِرُوْا فِيْھَا فَاُولٰئِکَ مَاْواٰاہُمْ جَہَنَّمُ وَ سَآئَتاْا مَصِيْرًا۔‘‘(۳)
قرنِ کريم فرماتا ہے : وہ لوگ جنہوں نے اپنے پ پر ‘ اپنے مستقبل پر اور اپني ہر چيز پر ظلم کيا ہے‘ جب اُن کي موت قريب تي ہے ‘ تو اُن کي روح قبض کرنے پر مامورخدا کے فرشتے اُن سے پوچھتے ہيں ! فِيْمَ کُنْتُمْ۔تمکس حال ميں تھے ؟ کہاں تھے ؟
جب سماني فرشتہ يہ ديکھتاہے کہ اس انسان کي حالت اسقدر خراب ہے ‘جب وہ اُس طبيب يا اُس جراح کي مانند جو ايک بيمار کے معالجے کے لئے تاہے ‘ يہ ديکھتا ہے کہ بيمار کي حالت بہت خراب ‘ افسوس ناک اور مايوس کن ہے ‘ تو کہتا ہے : تم کہاں پڑے ہوئے ہو؟ تمہاري يہ حالت کيسے ہو گئي ؟
ہميں يہ محسو س ہوتا ہے کہ ملائکہ اس بيچارے کي بري حالت پر‘ اسکي روح کي خستگي پر ‘ اس بدبختي اور عذاب پر جو اس کا منتظر ہے ‘ تعجب کرتے ہيںاور اس سے کہتے ہيں : تم نے کہاں زندگي بسر کي ہے ؟ تم کہاں تھے جو تم نے اپنے پ پر اس قدر ظلم کيا اوراب اپنے نفس پر ظلم کرتے ہوئے دنيا سے رخصت ہورہے ہو ؟
وہ جواب ميں کہتے ہيں :
’’قَالُوْا کُنَّا مُسْتَضْعَفِيْنَ فِي الْاَرْضِ۔‘‘
ہم زمين پر جن لوگوں کے درميان زندگي بسر کررہے تھے ‘ ان ميں لاچار تھے ‘ ہم بے اختيار عوام ميں سے تھے ۔
مستضعفين معاشرے کا وہ گروہ ہوتے ہيں جن کے اختيار ميں معاشرہ نہيں ہوتا ۔ يہ لوگ مجبور ولاچار ہوتے ہيں ۔يہ لوگ معاشرے کي پاليسيوں‘اسکي راہ وروش‘ اسکي سمت و جہت ‘اسکي حرکت ‘ اسکے سکون اور اسکي سر گرميوں کے سلسلے ميں کوئي اختيار نہيںرکھتے ۔
جيسا کہ ہم نے پہلے عرض کيا‘يہ لوگ اُس سمت چل پڑتے ہيںجہاں اُن کي رسي کھينچنے والا چاہتا ہے ‘منھ اُٹھائے اسکے پيچھے چلے جاتے ہيں‘ انہيں کہيں جانے اور کچھ کرنے کا کوئي اختيار حاصل نہيں ہوتا ۔
نرسري کلاس کے چند بچوں کو فرض کيجئے ۔اُن بچوں کو نہيں جن کي عمر سات برس ہوچکي ہے ‘ کيونکہ ج کل سات برس کے بچوں کي نکھيں اور کان بھي ان باتوں سے بہت اچھي طر ح شنا ہيں ۔چار پانچ سال کے بچوں کو پيشِ نظر رکھئے ‘ جنہيں گزشتہ زمانے کے مکتب خانوں کي مانند ج نرسري اسکولوں ميں بٹھا ديتے ہيں ۔ہميں وہ مکتب ياد تا ہے جس سے ہم چھٹي کے وقت اکٹھے باہر نکلتے تھے۔ اصلاً ہميں سمجھ نہيں ہوتي تھي کہ ہم کہاں جارہے ہيں ‘ بچوں کو بھي پتا نہيں ہوتا تھا کہ کون سي چيز کہاں ہے ۔ايک مانيٹر‘ يا ايک ذرا بڑا لڑکا ہماري رہنمائي کرتا تھا کہ اِس طرف جاؤ ‘ اُس طرف نہ جاؤ ۔ ہميں با لکل خبر ہي نہيں ہوتي تھي کہ ہم کہاں چلے جارہے ہيں‘اچانک پتا چلتا تھا کہ اپنے گھر کے دروازے پرکھڑے ہيں يا اپنے دوست کے گھر کے دروازے پرموجودہيں۔ اب اگرکبھي اُس مانيٹر کا دل چاہتا کہ ہميں گلي کوچوں ميں پھرائے‘ تويکبارگي ہم ديکھتے کہ مثلاً ہم فلاں جگہ ہيں۔
زمين پر مستضعف لوگ وہ ہيں جنہيں ايک معاشرے ميں رہنے کے باوجوداس معاشرے کے حالات کي کوئي خبر نہيں ہوتي ۔نہيں جانتے کونسي چيز کہاں ہے ۔ نہيں جانتے کہ کہاں چلے جارہے ہيں اور يہاں سے چل کر کہا ں پہنچيں گے ‘ اور کون انہيں لئے جارہاہے ‘ اور کس طرح يہ ممکن ہے کہ وہ اسکے ساتھ نہ جائيں‘اور اگر نہ جائيں تو انہيں کيا کام کرنا چاہئے۔
انہيں بالکل پتا نہيں ہوتا ‘ با لکل بھي متوجہ نہيں ہوتے ‘ اور با لکل کولھو کے بيل کي طرح جس کي نکھيں بند ہوتي ہيں‘جومسلسل چل رہا ہوتا‘ جواسي طرح چلتا رہتا ہے اور گھومتا رہتا ہے۔ اگر يہ حيوان کچھ سمجھ پاتاتوخود سے تصور کرتااور کہتا کہ اِس وقت مجھے پيرس ميں ہونا چاہئے۔ ليکن جب غروبِ فتاب کے قريب اُسکي نکھيں کھولتے ہيں‘ تو وہ ديکھتا ہے کہ وہ تووہيں کھڑا ہے جہاں صبح کھڑا تھا ۔اسے بالکل پتا نہيں ہوتا کہ کہاں چلا ہے ‘نہيں جانتا کہ کہاں جارہا ہے ۔
البتہ يہ بات اُن معاشروں سے متعلق ہے جو صحيح نظام پر نہيں چلائے جاتے‘ اور انسان کي کسي حيثيت اور قدر و قيمت کے قائل نہيں ہوتے‘ اُن معاشروں سے متعلق نہيں جو انسان اور انسان کي رائے کي عزت اور احترام کے قائل ہيں‘ اُس معاشرے سے تعلق نہيںرکھتي جس کے قائد پيغمبر۰ ہيں‘جن سے قرنِ کريم کہتا ہے کہ:وَشَاوِرْہُمْ فِي الْاَمْر۔(۴)باوجود يہ کہ پ خدا کے رسول ہيں ‘ باوجود يہ کہ پ کو لوگوں سے مشورے کي ضرورت نہيں‘پھر بھي پ کو حکم ديا جاتا ہے کہ لوگوں سے مشورت کريں اور اُنہيں عزت واحترام ديں ‘ اُنہيں حيثيت ديں۔ ايسے معاشروں کے عوام لاعلم اور بے شعور نہيں ہوتے۔
تاہم وہ معاشرے جو مرانہ ‘ ظالمانہ ‘ يا جاہلانہ نظام پر چلائے جاتے ہيں ‘ وہاں کے اکثر لوگ مستضعف ہوتے ہيں ۔ وہ کہتے ہيں :کُنَّا مُسْتَضْعَفِيْنَ فِي الْاَرْضِ(ہم زمين پرمستضعفين ميں سے تھے )اُنہوں نے ہميں اسي طرح کھينچا‘ اُٹھايااور پٹخ ديا ‘ہميںقدموں تلے پامال کيا‘بے برو کيا۔ليکن ہميں پتا ہي نہيںچلا۔ وہ يہ عذرپيش کرتے اوريہ جواب ديتے ہيں۔
ان کے جواب ميںملائکہ کہتے ہيں :
’’ اَلَمْ تَکُنْ اَرْضُ اِ وَاسِعَۃً فَتُہَاجِرُوْا فِيْھَا۔‘‘
کيا پروردگار کي زمين يہيں تک محدود تھي ؟
کيا پوري دنياصرف اسي معاشرے تک محدود تھي جس ميں تم مستضعف بنے زندگي بسر کر رہے تھے؟
کيا خدا کي زمين وسيع نہيں تھي ‘ کہ تم اس قيد خانے سے نکل کر ايک زاد خطہ ارضي ميں چلے جاتے ‘جہاں تم خدا کي عبادت کرسکتے‘ايک ايسي سرزمين پرجہاں تم اپني صلاحيتوں کا استعمال صحيح راستے پر کر سکتے ۔
کيا دنيا ميں ايسي کوئي جگہ نہيں تھي ؟
اِس جواب سے پتا چلتا ہے کہ ملائکہ کي منطق اورعقلمند انسانوں کي منطق بالکل يکساں ہے۔ انسان کي عقل بھي يہي کہتي ہے :
’’اَلَمْ تَکُنْ اَرْضُ اِ وَاسِعَۃً فَتُہَاجِرُوْا فِيْھَا۔‘‘
’’کيا خدا کي زمين وسيع نہيں تھي کہ تم اس ميں ہجرت کرتے۔‘‘
اب اُن کے پاس کوئي جواب نہيںہوتا‘وہ بيچارے کيا کہيں ‘پتا ہے اُن کے پاس اِس کا کوئي معقول جواب نہيں ہے۔لہٰذا قرنِ کريم ان بيچاروں کے انجام کے بارے ميں کہتا ہے :
’’فَاُولٰئِکَ مَاْواٰاہُمْ جَہَنَّمُ وَ سَآئَتاْا مَصِيْرًا۔‘‘
وہ مستضعفين جن کي قوتيںاور صلاحيتيں طاغوتوں کے ہاتھ ميں تھيں‘اُن کا ٹھکانہ جہنم ہے ‘ اوريہ انسان کے لئے کيسابُرا ٹھکانہ اور انجام ہے ۔
البتہ يہاں بھي ايک استثنا پايا جاتا ہے ‘ کہ سب کے سب لوگ ہجرت نہيں کرسکتے‘ تمام لوگ اپنے پ کو جاہلي نظام کي اس قيد سے نجات نہيں دلاسکتے ۔کچھ لوگ ناتواں ہيں‘کچھ بوڑھے ہيں ‘کچھ بچے ہيں ‘کچھ عورتيں ہيں ‘جن کے لئے ہجرت ممکن نہيں ہے ۔
لہٰذا يہ لوگ مستثنا کئے جاتے ہيں :
’’اِِلَّا الْمُسْتَضْعَفِيْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَ النِّسَآئِ وَ الْوِلْدَانِ لااَا يَسْتَطِيْعُوْنَ حِيْلَۃً وَّ لااَا يَہْتَدُوْنَ سَبِيْلا۔‘‘
’’سوائے اُن ضعيف و ناتواں مردوں ‘ عورتوں اور بچوں کے جن کے پاس کوئي چارہ نہيں اور جن سے کچھ نہيں بن پڑتا ۔‘‘(سورہ نسا٤ ۔يت ٩٨)
ان کے پاس خطہ نور ‘ خطہ اسلام اور خدا کي عبوديت کي سر زمين کي جانب نے کي کوئي راہ نہيں‘ اور جو کچھ نہيں کر سکتے۔
’’فَاُولٰئِکَ عَسَي اُ اَنْ يَّعْفُوَ عَنْہُمْ۔‘‘
’’پس وہ لوگ جو کچھ نہيںکر سکتے‘ اميد ہے خدا وند ِمتعال اُنہيں معاف کر دے ۔‘‘
’’وَکَانَ اُ عَفُوًّا غَفُوْرًا۔‘‘
’’اورخدا درگزر اور مغفرت کرنے والا ہے۔‘‘(سورہ نسا٤ ۔يت ٩٩)
اسکے بعدوہ لوگ جن کے لئے يہ خطاب حجت ہے‘يہ نہ سمجھيں اور اُن کے ذہن ميں يہ خيال نہ ئے کہ ہجرت اُن کے لئے بدبختي‘ ضرراور نقصان کا باعث ہوگي‘اوروہ بار بار اپنے پ سے يہ نہ پوچھيں کہ مثلاً ہمارا کيا بنے گا؟کيا ہم کچھ کر بھي سکيں گے يا نہيں؟ کيا کچھ حاصل بھي ہو گا يا نہيں؟
ايسے لوگوں کے جواب ميں قرنِ مجيد فرماتا ہے:
’’وَ مَنْ يُّہَاجِرْ فِيْ سَبِيْلِ اِ يَجِدْ فِي الْاَرْضِ مُرَاغَمًا کَثِيْرًا وَّسَعَۃً۔‘‘ ’’اور جو بھي راہِ خدا ميں ہجرت اختيار کرتا ہے ‘ وہ زمين ميں بہت سے ٹھکانے اور وسعت پاتا ہے۔‘‘( سورہ نسا ٤۔يت ١٠٠ )
دنيا اسکے لئے پرواز کا ايک کھلاسمان ثابت ہوتي ہے‘ اور وہ زادي کے ساتھ اس ميں پرواز کرتا ہے۔ نظامِ جاہلي ميں ہم کتنا ہي اونچا اُڑ تے‘ پنجرے سے اونچا نہيں اُڑ سکتے تھے ‘ ليکن اب ايک حيرت انگيز وسيع و عريض افق ہمارے سامنے ہے ۔ اسلام کے ابتدائي دورکے بيچارے مسلمان مسجد ميں بڑي مشکل سے نماز پڑھ پاتے تھے‘ اگر جذبہ ايماني زيادہ ہي جوش مارتا تو مسجد الحرام ميںدو رکعت نماز ادا کرپاتے ‘ اسکے بعد اُنہيںبُري طرح زدو کوب ہونا پڑتا ۔}اُس دور ميں{يہي مسلماني کي انتہا تھي ‘ اس سے زيادہ نہيں۔ليکن جب ان لوگوں نے ہجرت کي اور زاد
سر زمين ميں ‘ اسلامي معاشرے اور ولايت ِالٰہي کے تحت زندگي بسر کرنے لگے ‘ تو ديکھا کہ يہ ايک عجيب جگہ ہے : يُسَارِعُوْنَ فِي الْخَيْرٰتِ۔(۵)
يہاں پر لوگوں کا مقام ومرتبہ يہ قرن اورتقويٰ اور عبادت کے ذريعے متعين اور معلوم ہوتا ہے۔ جو شخص راہِ خدا ميں زيادہ جدو جہد اور زيادہ خدا کي عبادت انجام دے ‘ جہاد اورراہِ خداميں خرچ کرے‘ وہ زيادہ بلند مرتبہ ہے۔ کل کے مکي معاشرے ميں ‘ اگر کسي کو پتا چل جاتا کہ فلاں شخص نے راہِ خدا ميں ايک درہم ديا ہے ‘ تو اسے گرم سلاخوں سے ايذا پہنچائي جاتي تھي ‘ شکنجوں ميں کس کر اسے گ سے جلايا جاتا تھا۔ ليکن جب انہوں نے راہِ خدا ميں ہجرت کي‘ اور مدينۃ الرسول ميں چلے ئے ‘ تو ديکھا کہ کيسي کھلي فضا اور پرواز کي جگہ ہے ‘ کس طرح انسان حسب ِ دل خواہ پرواز کر سکتا ہے:
وَ مَنْ يُّہَاجِرْ فِيْ سَبِيْلِ اِ يَجِدْ فِي الْاَرْضِ مُرَاغَمًا کَثِيْرًا وَّسَعَۃً(اورجو کوئي راہِ خدا ميں اور الٰہي اور اسلامي معاشرے کي طرف ہجرت کرتاہے ‘ وہ بکثرت ٹھکانے پاتااور وسعتوں سے ہمکنار ہوتا ہے)
اب اگر تم نے راہِ خدا ميں دار الکفر سے دار الھجرہ کي جانب حرکت کي ‘ اور درميانِ راہ ميں خدا نے تمہاري جان لے لي ‘ تب کيا ہوگا ؟
قرن کہتا ہے : اس وقت تمہارا اجر و پاداش خدا کے ذمے ہے ۔کيونکہ تم نے اپنا کام کر ديا‘ جو فريضہ تم پر واجب تھا اسے انجام دے ديا ‘اور تم نے حتيٰ الامکان کوشش اور جدوجہد کي ۔اسلام يہي چاہتا ہے ‘ اسلام چاہتا ہے کہ ہر انسان اپني توانائي کے مطابق‘ جتني وہ صلاحيت رکھتا ہے اتني ‘ اور جتني اسکي استطاعت ہے اتني راہِ خدا ميں جدوجہد کرے ۔
’’وَ مَنْ يَّخْرُجْ مِنْ بَيْتِہ مُہَاجِرًا اِلَي اِ وَرَسُوْلِہ ثُمَّ يُدْرِکْہُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ اَجْرُہ عَلَي اِ وَ کَانَ اُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا۔‘‘ (۶)
توجہ رکھئے گا کہ کيونکہ يہ گفتگو ولايت کے موضوع پر خري گفتگو ہے ‘ يہ بحث تقريباً دھي باقي رہتي ہے ‘ لہٰذا ہم اِس نکتے کو عرض کرتے ہيں کہ ہجرت دار الکفر ‘ غير خدا کي ولايت ‘ شيطان اور طاغوت کي ولايت سے دارالہجرہ ‘ دارالايمان ‘ولايت ِالٰہي کے زيرِ فرمان ‘ ولايت ِ امام کے زيرِ فرمان ‘ ولايت ِ پيغمبر اور ولايت ِ ولي الٰہي کے زيرِ فرمان سرزمين کي جانب ہوتي ہے ۔ليکن اگردنيا ميں ايساکوئي خطہ ارضي موجود نہ ہو‘ تو کيا کيا جانا چاہئے ؟
کيا دارالکفرہي ميں پڑے رہنا چاہئے؟
يا ايک دارالہجرہ ايجاد کرنے کے بارے ميں سوچنا چاہئے ؟
خود پيغمبر اسلام ۰نے بھي ہجرت کي ۔ليکن پيغمبر ۰کے ہجرت کرنے سے پہلے ايک دارالہجرہ موجودنہيں تھا‘پ نے اپني ہجرت کے ذريعے ايک دارالہجرہ ايجاد کيا ۔
کبھي کبھي يہ بات ضروري ہو جاتي ہے کہ لوگوں کا ايک گروہ اپني ہجرت کے ذريعے دارالايمان کي بنياد رکھے ‘ايک الٰہي اور اسلامي معاشرہ بنائے‘ اور پھر مومنين وہاں ہجرت کريں۔

حوالے
١۔ کيا تم نے ان لوگوں کاحال نہيں ديکھا جنہوں نے خدا کي نعمت کو کفر انِ نعمت سے تبديل کر ديا اور اپني قوم کو ہلاکت کے سپرد کر ديااور دوزخ جو بد ترين ٹھکانہ ہے ‘ اس ميں جاپڑے ۔(سورہ ابراہيم ١٤۔يت٢٨‘٢٩)
۲۔ امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے : خدا ايسي امت کو عذاب دينے ميں شرم محسوس نہيں کرتا جو ايسے امام کي تابع ہو جو خدا کي طرف سے نہيں ‘اگرچہ وہ اپنے اعمال ميں نيکو کار اور پرہيز گار ہو۔ بے شک خدا ايسي امت کو عذاب دينے ميں شرم محسوس کرتا ہے جو خدا کي جانب سے مقرر کردہ امام کي تابع ہو‘ اگرچہ اپنے اعمال کے حوالے سے ظالم اور بدکردار ہو۔(اصول ِکافي ۔ ج٢۔ص٢٠٦)
۳۔وہ لوگ جو اپنے پ پر ظلم کررہے ہوتے ہيں ‘جب فرشتے اُن کي روح قبض کرتے ہيں‘ تو اُن سے پوچھتے ہيں: تم کس حال ميںمبتلا تھے ؟وہ کہتے ہيں: ہم زمين ميں لاچار بنا ديئے گئے تھے ۔فرشتے کہتے ہيں: کيا خدا کي زمين وسيع نہيں تھي کہ تم اس ميںہجرت کرجاتے ۔پس اِ ن لوگوں کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ بدترين منزل ہے۔(سورہ نسا ٤۔يت ٩٧)
۴۔اور معاملات وامورميںان سے مشورہ کرو۔(سورہ لِ عمران٣۔يت١٥٩)
۵۔سورہ مومنون ٢٣۔يت٦١
۶۔اور جوکوئي خدا اور رسول کي جانب ہجرت کے ارادے سے اپنے گھر سے نکلے اورراستے ميں اسے موت جائے‘ تو اس کااجر اللہ کے ذمے ہے ۔اور اللہ بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے۔( سورہ نسا٤۔يت ١٠

مام  علیدور ا نقی الہادی(ع) کے سخت ترین حالات اور آپکا طرز امامت

تحریر: حجت الاسلام سید نجیب الحسن زیدی

امام ہادی علیہ السلام نے ۱۵ ذی الحجہ ۲۱۴ ہجری میں مدینہ منورہ کے علاقے '' صريا،، (۱)میں آنکھیں کھولیں آپکو نجیب ،ناصح، متوکل ، مرتضی، ہادی و نقی جیسے القاب سے یاد کیا جاتا(۲) ہے آپکی کنیت ابوالحسن ثالث بیان کی گئی ہے(۳) جیسا کہ واضح ہے آپ امام جواد علیہ السلام کے فرزند ہیں  آپکی والدہ گرامی کا نام تاریخ میں  والدہ سمانہ(۴) یا سوسن(۵) بیان کیا گیا ہے ، آپ اور آپکے بیٹے امام حسن عسکری علیہ السلام کو امامین عسکریین(۶) کے نام سے بھی جانا جاتا ہے بظاہر اسکی وجہ عباسی خلفا ء کی جانب سے آپ دونوں بزرگواروں کو سنہ 233 ہجری میں سامرا لے جاکر چھاونی میں رکھنا ہے چنانچہ آپ آخرِ عمر تک سامرہ میں ہی نظر بند رہے جو کہ اس وقت ایک ایسا علاقہ تھا جسے چھاونی کے طور پر جانا جاتا تھا ۔
آپ کا علم اوراخلاقی فضائل
آپ علم و حلم میں لا ثانی تواخلاقی فضائل خاص کر سخاوت و بخشش میں بے نظیر و یکتائے روزگار تھے آپکی زندگی میں فقراء و محروم طبقہ کو خاص حیثیت حاصل تھی آپ انہیں کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے انکی مشکلوں کو حل کرتے انکے مسائل کو سنتے اور انکی حاجتوں کو پورا کرنا اپنی ذمہ داری سمجھتے تھے ، آپ مدینہ میں موجود کھجوروں کے باغات میں خود بھی کام کرتے اور جن کے پاس کام نہ ہوتا انہیں بھی ضروریات زندگی کے لئے کام پر لگا دیتے کھیتی باڑی کرتے اورطلب رزق حلال کے لئے کسی بھی کوشش سے دریغ نہ کرتے ،آپ انکے ساتھ بھی اچھا سلوک کرتے جو لوگ آپکا برا چاہتے ، شاید یہی وجہ ہے کہ دیگر ائمہ کے سلسلہ سے امامت کے دعویدار نظر آتے ہیں لیکن آپکی امامت پر تمام ہی بزرگان شیعہ متفق نظر آتے ہیں اور کمسنی میں امامت کے باوجود کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا ہے(۷)
آپکے دور کے سیاسی حالات:
آپکی زندگی کے سات سال معتصم عباسی کی خلافت کے دور میں گزرے ، اور یہ سات سال کا عرصہ آپ پر بہت سخت وگراں گزرا ، ان سات سالوں میں مدینہ میں آپکی کڑی نگرانی ہوتی، آپ پر لوگوں سے ملنے جلنے پر پابندی تھی یہاں تک "بصریا" نامی جگہ پر آپ پر نظر رکھنے کے لئے بھی کچھ گماشتوں کو رکھا گیا تھا(۸) سامرا و بغداد کی صورت حال بھی مدینہ سے الگ نہ تھی یہاں پر بھی آپکے ساتھ آپکے شیعوں پر بھی آپ ہی کی طرح حکومت وقت کی جانب سے پابندیاں تھیں اور جو شیعہ آپ سے ملتے جلتے وہ بھی تقیہ کی حالت میں ملتے تھے(۹)
معتصم کے مرنے کے بعد ۲۲۷ ہجری میں اسکا بیٹا واثق خلیفہ بنا اور اس نے مامون کے طریقہ کار پر عمل کرتے ہوئے علمی نشستوں کا اہتمام کرنا شروع کیا کبھی علمی گفتگو ترتیب دی جاتی کبھی مناظرے ہوتے اس طرح ایک اچھا علمی ماحول فراہم ہوا لیکن یہ سلسلہ زیادہ نہ چل سکا اور انجام کار ۲۳۲ ھ میں دو ترک سرداروں کی تحریک پر قتل کر دیا گیا اور اسکا بھائی جعفر جسے متوکل بھی کہا جاتا ہے مسند نشین ہوا(۱۰)
متوکل ایک شرابی ، تند خو اور بہت ہی متعصب قسم کا آدمی تھا اسکے نظریات بھی بہت خشک اور متہجرانہ تھے اور ان پر سختی بھی بہت کرتا تھا چنانچہ *اس دور میں معتزلہ کے خلق قرآن کے عقیدے پر اس نے بہت سختی کی اور ان تمام لوگوں کو کافر قرار دیا جو معتزلہ کے عقیدے کے قائل تھے اور اسکے مقابل احمد بن حنبل و اہل حدیث کے نظریات کو کھلی چھوٹ دیتے ہوئے انکی حمایت کی، شیعوں سے اسکی دشمنی بہت شدید تھی اور اہلبیت و شیعوں سے شدید عناد رکھتا تھا، شیعوں اور اور اہل بیت اطہار علیھم السلام سے اسکی دشمنی کا عالم یہ تھا کہ اس نے مقامات مقدسہ کی زیارت کو ممنوع قراردے دیا تھا حتی ۲۳۵ ھجری میں امام حسین علیہ السلام کے روضہ کو منہدم کرنے کا حکم(۱۱) دے کر اس نے نہ صرف اپنی سفاکیت بلکہ اہل بیت اطہار علیھم السلام کے ساتھ اپنی شدید دشمنی کا واضح طور پر اعلان کر دیا ، متوکل کے دور حکومت میں بہت سے شیعوں کو دار پر چڑھا دیا گیا بہت سوں کو سخت ترین ایذائیں دے کر شہید کر دیا ،نہ جانے کتنوں کو زندانوں میں ڈال ڈال کر مار دیا انجام کار خود اپنے بیٹے کے حکم سے ۲۴۷ ھ میں واصل جہنم ہوا(۱۲) متوکل کے بعد اسکے بیٹے منتصر نے ۶ مہینہ سے زیادہ خلافت نہ کی لیکن ہر طرف فتنہ و فساد کا بازار گرم ہو گیا مصرو خراسان اور سیستان عباسی سلطنت سے خارج ہو گئے سیستان میں یعقوب لیث صفاری کا سکہ چلا تو بغداد میں لوگوں نے مستعین کے نیچے سے تخت حکومت کھینچ لیا اور اسکی جگہ معتز عباسی کو بٹھا دیا تین سال بعد اسکی جگہ پر واثق کا بیٹا محمد مھتدی خلیفہ بنا(۱۳) ان تمام حوادث کے درمیان امام علی نقی علیہ السلام سامرا میں حالات کا مشاہدہ کرتے رہے ،آپکو ۲۳۳ ھ میں متوکل …

تحریر: سید ثاقب اکبر

جب کبھی مسلمان خاص طور پر عرب فلسطینیوں کے حقوق کے بارے میں بظاہر سنجیدہ تھے، بھارت اسرائیل سے اپنے تعلقات کو مخفی رکھے ہوئے تھا۔ اب فلسطینی حقوق کے دعویدار عرب اسرائیل سے دوستی کی پینگیں بڑھانے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں تو ایسی صورت حال میں بھارت کو اسرائیل سے اپنے خفیہ مراسم اور دیرینہ آشنائی کو چھپانے کی کیا ضرورت پڑی ہے، لہذا بات اب سر بام آگئی ہے۔ اس کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ ان تعلقات کا منحوس سایہ مسئلہ کشمیر اور اہلیان کشمیر کے حقوق پر پڑتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ افسوس پاکستان کے مین سٹریم میڈیا کو ایسے سنجیدہ موضوعات سے کوئی دلچسپی نہیں اور ہو بھی کیسے کہ کشمیریوں کے بزعم خویش سفیر کے دور حکومت میں ہمارا وزیر خارجہ بھارتی استبداد اور کشمیر میں وحشیانہ اقدامات کے جواب میں قوم کو ایک منٹ کی خاموشی تجویز کر رہا ہے۔
تن ہمہ داغ داغ شد  پنبہ کجا کجا نہم

بھارت اور اسرائیل کے تعلقات کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ بھارت نے سترہ ستمبر 1950ء کو اسرائیل کو ایک جائز ریاست تسلیم کر لیا۔ اس کے بعد ممبئی میں اسرائیل کا ایک امیگریشن دفتر کھول لیا گیا، جس کا نام ٹریڈ اینڈ کونسلنگ سینٹر رکھا گیا۔ یہ دراصل اسرائیل کا سفارتخانہ تھا جسے سفارتخانے کا نام نہیں دیا گیا۔ اس زمانے میں اسرائیل کو سب سے زیادہ اس امر کی ضرورت تھی کہ پوری دنیا سے زیادہ سے زیادہ یہودیوں کو فلسطین کی مقبوضہ سرزمین میں منتقل کیا جائے، چنانچہ 1950ء اور 1960ء کی دہائیوں میں ایک لاکھ سے زیادہ یہودی باشندوں کو بھارت سے اسرائیل کی طرف جانے پر مجبور کیا گیا۔ یہ سلسلہ گذشتہ دہائی تک جاری رہا ہے، جب بھارت کے شمال مشرقی حصوں سے بڑی تعداد میں یہودی اسرائیل بھجوائے گئے۔

 1992ء میں حالات کو سازگار پا کر دونوں ملکوں نے باقاعدہ سفارت خانے کھول لیے۔ بھارت اور اسرائیل کے مابین سائنس، ٹیکنالوجی، انڈسٹری، تعلیم وغیرہ جیسے اہم شعبوں میں گہرے تعلقات قائم ہیں لیکن سب سے اہم عسکری اور فوجی تعلقات ہیں۔ اسرائیل سے بھارت نے اس قدر اسلحہ خریدا ہے کہ بھارت اسرائیل سے اسلحہ خریدنے والے پانچ بڑے ملکوں میں شمار ہوتا ہے جبکہ بعض ایسے برس بھی آئے کہ جب بھارت اسرائیلی اسلحے کا سب سے بڑا خریدار قرار پایا۔ چنانچہ 2017ء میں بھارت اسرائیلی اسلحے کا سب سے بڑا خریدار تھا ۔ بھارت نے اپنی فضائیہ کے لیے 53 کروڑ پاونڈ کے عوض راڈار اور ہوا سے زمین پر ہدف کو نشانہ بنانے والے میزائل خریدے۔ یاد رہے کہ مسلمانوں کی نسل کشی کرنے والے میانمار کو بھی سب سے زیادہ اسلحہ بیچنے والا اسرائیل ہی ہے۔ اسرائیل اور بھارت مشترکہ فوجی مشقیں بھی کرتے رہتے ہیں۔ ان مشقوں کی تفصیلات بہت حیران کن ہیں۔ بہت سے ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت اور اسرائیل کے گہرے تعلقات کا بیشتر حصہ اور تفصیلات پردہ اخفاء میں ہیں اور دونوں ملک بیشتر تزویراتی کام خاموشی سے انجام دیتے ہیں۔

1999ء میں جب کارگل کا معرکہ پیش آیا تو اس کے بعد بھارت نے اسرائیل سے 6.1 ارب ڈالر کا اسلحہ اور فوجی ساز و سامان خریدنے کا معاہدہ کیا۔ اسرائیل میں اسلحہ سازی کے 150 سے زیادہ کارخانے ہیں جو بھارت اور دیگر ملکوں کے آرڈرز کے مطابق دن رات اسلحہ تیار کرتے ہیں۔ 2006ء تک بھارت اسرائیل سے 4.4 ارب ڈالر کا اسلحہ خرید چکا تھا۔ 2013ء میں اسرائیل کا ایک اعلیٰ سطحی فوجی وفد بھارت آیا، جس سے بھارتی حکام نے اپنی افواج کی ٹریننگ اور ان کو جدید ہتھیار مہیا کرنے کے لیے 3 ارب ڈالر مالیت کا معاہدہ کیا، تاہم اسرائیل کو یہ تشویش تھی کہ کہیں بھارت کے ذریعہ اسرائیل کی ہتھیاروں کی ٹیکنالوجی ایران منتقل نہ ہو جائے، جس کے لیے بھارت نے اسرائیل کو ہر طرح کی یقین دہانی کروا رکھی ہے۔ بعید نہیں کہ حالیہ دنوں میں بھارت اور ایران کے مابین اقتصادی معاہدوں کے ختم ہونے کے پیچھے امریکہ کے علاوہ اسرائیل کا بھی ہاتھ ہو۔

دونوں ملکوں کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے مابین بہت دیرینہ روابط ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ را اور موساد 1968ء سے رابطے میں ہیں۔ اس وقت دونوں ملکوں کے مابین انٹیلی جنس شیئرنگ کا معاہدہ بھی ہوچکا ہے۔ مودی کے دور میں ہونے والے معاہدوں میں یہ بات بھی شامل ہے کہ دونوں ملک ’’اسلامی شدت پسندی‘‘ کے خلاف جنگ میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے۔ ’’اسلامی شدت پسندی‘‘ سے مقابلے کے لیے اسرائیل بھارتی کمانڈوز کو باقاعدہ تربیت دے رہا ہے۔ یادر رہے کہ اسرائیل اور بھارت دونوں اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والے مظلوم مسلمانوں اسلامی شدت پسند قرار دیتے ہیں اور دوسروں کے حقوق کو غصب کرنے کے باوجود اپنے آپ کو جمہوریت کا علمبردار قرار دیتے ہیں۔

گذشتہ برس بھارت نے کشمیریوں کے حقوق پر جو ڈاکہ ڈالا ہے اور بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے کا خاتمہ کیا اور پھر کشمیریوں کے خلاف جو پے در پے اقدامات کیے اسے فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی ماڈل قرار دیا جا رہا ہے۔ جس کے مطابق کشمیر میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب تبدیل کرنا، اہم ترین مناصب سے مسلمانوں کو ہٹا کر ہندوں اور سکھوں کو تعینات کرنا، مختلف حیلوں سے مسلمانوں کی سرزمینوں پر قبضہ کرنا، سرکاری ملازمتوں میں غیر مسلموں کو ترجیح دینا، کشمیر میں کاروبار کو بھارت کے طاقتور سرمایہ داروں کی سرمایہ کاری کے ذریعے سے کنٹرول کرنا، انتخابات کے لیے ایسی نئی حلقہ بندیاں کرنا جس سے غیر مسلموں کو زیادہ مواقع میسر آسکیں، مسلمان نوجوانوں کو بغیر مقدمے کے اٹھا لینا، مقابلے کے نام پر قتل کرنا اور خوف و وحشت کی فضا پیدا کرنا یہ سب اقدامات اسرائیلی ماڈل کا حصہ ہیں۔ کیا ان سب کے جواب میں پاکستانی قوم کو احتجاج کے طور پر ایک منٹ کی خاموشی اختیار کرنا چاہیے؟ شاہ محمود قریشی نے یہ بات تو کہ دی ہے:
مگر یہ راز آخر کھل گیا سارے زمانے پر
حمیت نام ہے جس کا گئی تیمور کے گھر سے