
سلیمانی
لَقَد جاءَكُم رَسولٌ مِن أَنفُسِكُم عَزيزٌ عَلَيهِ ما عَنِتُّم حَريصٌ عَلَيكُم بِالمُؤمِنينَ رَءوفٌ رَحيمٌ﴿﴾
(توبه129) یقینا تمہارے پاس وہ پیغمبر آیا ہے جو تم ہی میں سے ہے اور اس پر تمہاری ہر مصیبت شاق ہوتی ہے وہ تمہاری ہدایت کے بارے میں حرص رکھتا ہے اور مومنین کے حال پر شفیق اور مہربان ہے
آمد مصطفیٰ ؐ مرحبا مرحبا
تحریر: سید اسد عباس
افضل الاناس، خیر البشر، ختم الرسل، رحمت دو جہاں، ہادی انس و جاں، داور بے کساں، منجی بشر، احمد، محمد، مصطفیٰ، طہ، یس، مزمل جس کا خود خالق کائنات ثناء خواں ہے، اس کی بھلا کوئی انسان کیا تعریف و توصیف بیان کرے۔ ہماری زبان اور قلم میں وہ سکت ہی نہیں کہ اس ہستی کے وصف کو بیان کرسکیں۔ ممدوح خدا ہونا ہی وہ وصف ہے کہ پوری انسانیت اس ہستی کے گن گاتی رہی۔ ماہ ربیع الاول کائنات کی اس بہار کی آمد کا مہینہ ہے۔ یہ اس گل سرسبد کے کھلنے کا موسم ہے، جس کی خوشبو نے طول تاریخ میں اقوام عالم کو پاکیزگی اور لطافت سے معطر کر دیا۔ یہ اس نور کے ظہور کی گھڑی ہے، جس نے دنیا کے گوش و کنار کو توحید کی کرنوں سے روشن کر دیا۔ اہل ایمان کے دل اس مبارک گھڑی میں خوش کیوں نہ ہوں۔؟ کیوں نہ اس بدر کے طلوع کا جشن منائیں اور خوشی کے عالم میں گنگناتے پھریں:
طَلَعَ الْبَدرُ عَلَیْنَا
مِنْ ثَنِیّاتِ الْودَاعٖ
وَجَبَ الشّْکرُ عَلَیْنا
مَا دَعَا لِلّٰہِ دَاعٖ
ہم پر وداع کی گھاٹیوں سے چودھویں رات کا چاند طلوع ہوگیا۔ ہم پر (خدا کا) شکر لازم ہے، جب تک اللہ کو پکارنے (دعا کرنے) والا کوئی بھی اْسے پکارتا رہے۔
کوئی ناہنجار اگر اپنی لاعلمی، جہالت اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے اس بدر منیر کی جانب رخ کرکے بے وقوفانہ طرز عمل اختیار کرے، ان کی توہین کرے تو اس کے متعلقین کو ضرور ایسے شخص کے ذہن کا علاج کروانا چاہیئے، جیسا کہ ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے فرانس کے صدر میکرون کو کہا۔ میکرون کے حالات زندگی اور اپنی ہی استانی سے برس ہا برس کا معاشقہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ ذہنی طور پر کس سطح کا انسان ہے۔ ایسا شخص اگر ختمی مرتبت، اسلام یا مسلمانوں کے بارے میں اظہار نفرت اور رذالت کرے تو ہمیں قطعاً افسوس نہیں ہونا چاہیئے۔ افسوس تو یورپ اور مغرب کے ان (گنی پگز) نما انسانوں پر ہے، جو لاعلمی میں چاند کو سیاہ کہنے اور کرنے کی ناکام کوششیں کر رہے ہیں۔ اگر اہل مغرب رسالت ماب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بارے توہین کا ارتکاب کرنے سے پہلے اپنے ہی فلاسفہ، اہل علم اور دانشوروں کے اس ہستی کے بارے بیانات کو پڑھ لیتے تو شاید اس اتھاہ پستی میں نہ گرتے۔
ان کا مسئلہ نبی کریم ؐ ہیں یا مسلمان، اسلام ہے یا خود ان کی اپنی کوئی مشکل، اس سے قطع نظر کسی بھی دین کے مقدسات کی توہین انسانیت کو زیب نہیں دیتی۔ میکرون کو ذہنی مریض کہنے پر فرانسیسی حکومت کی بے چینی اور حکومتی سطح پر اس کا اظہار اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ مسلمہ مقدسات کی توہین کوئی بھی گوارا نہیں کرتا۔ اگر میکرون فقط فرانس کا صدر ہونے کے سبب لائق احترام ہے تو کروڑوں انسانوں کا محبوب، جس کا قرب اور نسبت پانے کی آرزو میں اس پر جان وار دینا ان کے پیروکار اپنے لیے سبب افتخار سمجھتے ہیں، ان کے بارے میں نامناسب الفاظ کا استعمال، ان کے توہین پر مبنی کارٹون بنانا کیسے روا ہے۔ مسلمان کسی انسان کو بے خطا قتل کرنا جائز نہیں سمجھتا، تاہم ہٹ دھرمی اس حد تک بڑھ جائے کہ مسلسل ناانصافی کی جائے، آزادی اظہار کے باوجود ایک موضوع پر بات کرنا جرم ہو جبکہ دوسرا موضوع جو ایک دین کے مقدسات میں بھی شامل ہے، اس کو اچھالا جائے تو سراسر بدنیتی اور مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکانے کی مذموم کوشش ہے جس کا ردعمل بدیہی ہے۔
اگر یورپ کو اپنے معاشرے میں امن و چین چاہیئے تو اسے مقدسات دین کی توہین کے مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا ہوگا۔ ہولوکاسٹ کی مانند تمام ادیان کے مقدسات کی توہین کو بھی قانون کے لیے قابل گرفت بنانا ہوگا۔ اگر ہولوکاسٹ پر گفتگو، تحقیق اور اشاعت پر پابندی سے آزادی اظہار کو کوئی گزند نہیں پہنچتا تو کسی بھی مذہب کے مقدسات کی توہین سے بھی ایسا نہیں ہونا چاہیئے۔ ہمارا مطالبہ تحقیق و تنقید پر پابندی نہیں بلکہ فقط توہین سے اجتناب ہے، جو کہ لاکھوں انسانوں کی دل آزاری کا باعث بنتا ہے۔ اگر یورپ اور مغربی ممالک نے اس مسئلے پر سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کیا تو ان کے معاشرے میں ایسی صورتحال جنم لے گی، جس سے نمٹنا ان کے بس میں نہیں ہوگا۔
اقوام مشرق اور مسلمانوں کو بھی اس سلسلے میں سنجیدہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ فرانس کے بہت سے مفادات مسلمان ممالک سے وابستہ ہیں، امریکہ اور کینڈا کے بعد مسلم ممالک کو اسلحہ سپلائی کرنے والوں میں فرانس کا نام آتا ہے۔ یقیناً اسے بھی اسلامی ممالک کے ساتھ تجارت کی ضرورت ہے۔ ایسے میں فرانس و دیگر یورپی ممالک کو یہ باور کروانے کی ضرورت ہے کہ مسلمان کسی صورت بھی اپنے نبی کریم ؐ کی توہین برداشت نہیں کرسکتے نیز ان ممالک کو یہ بھی باور کروانے کی ضرورت ہے کہ مسلمان شہریوں کے ساتھ روا رکھا جانے والا معاندانہ رویہ باہمی تعلقات کو بگاڑنے کا کام کرے گا۔ اس موقع پر علامہ محمد اقبال کا شعر مسلم حکمرانوں کو یاد کروانے کی ضرورت ہے، جس میں علامہ نے عشق رسولؐ کو دلوں پر حکمرانی کا نسخہ بتایا ہے:
کی محمد ؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
ہفتہ وحدت اور ہفتہ عشق رسول (ص)
ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینیؒ نے سنی شیعہ مسلمانوں کے درمیان اتحاد و وحدت کو مزید پختہ کرنے کے لیے اپنی الہٰی بصیرت سے کام لیتے ہوئے بارہ سے سترہ ربیع الاول تک ہفتہ وحدت منانے کا اعلان کیا تھا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اہلسنت مسلمانوں کے ہاں پیغمبر اکرم محمدؑ مصطفیٰ کا یوم ولادت باسعادت بارہ ربیع الاول، جبکہ شیعہ مسلمان سترہ ربیع الاول کو یوم ولادت باسعادت کا جشن مناتے ہیں۔ گذشتہ چالیس اکتالیس برسوں سے اس ہفتہ کی مناسبت سے دنیا بھر میں اتحاد و وحدت کو فروغ دینے کے لیے تقاریب منعقد ہوتی ہیں اور 12 سے 17 ربیع الاول کے درمیان سنی شیعہ مل کر مختلف پروگرام منعقد کرتے ہیں۔
اس حوالے سے مختلف ممالک بالخصوص ایران میں ہونے والی عالمی وحدت کانفرنس کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ہفتہ اگر اس کے صحیح اہداف و مقاصد کے تحت منایا جائے تو سارا سال مسلمان آپس میں اتحاد و وحدت کی فضا کو قائم رکھ سکتے ہیں۔ عصر حاضر بالخصوص موجودہ ایام میں امت مسلمہ کے درمیان اتحاد و یکجہتی کی اشد ضرورت ہے۔ اسلام دشمن طاقتیں بالخصوص امریکہ، اسرائیل اور اس کے بعض عرب اتحادی اس بات کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں کہ مسلمانوں کے مشترکہ مسئلہ فلسطین کو بھی مسلمانوں کے درمیان نفاق اور تفرقہ کے لیے استعمال کریں۔ متحدہ عرب امارات، بحرین اور سوڈان کے بعد سعودی عرب بھی بہت جلد اسرائیل کو تسلیم کرنے جیسے جرم کا ارتکاب کرنے والا ہے۔
ایسے عالم میں مسلمانوں کو پہلے سے زیادہ اتحاد و وحدت کی ضرورت ہے، تاکہ مسئلہ فلسطین اور قبلہ اول کا مسئلہ سرد خانے میں پھینک دیا جائے۔ ہفتہ وحدت تو عالمی سطح پر منایا ہی جائے گا، تاہم حکومت پاکستان نے بارہ سے اٹھارہ ربیع الاول کے ایام میں ہفتہ عشق رسولؑ منانے کا اعلان کیا ہے۔ ہفتہ عشق رسولؑ بھی تمام مسلمانوں کو رسولؑ گرامی ذات اقدس پر متحد کرنے کی کوشش ثابت ہوسکتا ہے، لہٰذا ہفتہ وحدت اور ہفتہ عشق رسولؑ کو اس شان و شوکت اور آگہی و بصیرت سے منایا جائے کہ عشق رسولؑ، عالم اسلام کے درمیان اخوت و برادری کا پیغام بنے اور مسلمان "واعتصمو بحبل اللہ جمیعا ولا تفرقو" کی بھی تصویر بن جائیں۔
شہید فتحی شقاقی، اسرائيل کا مقابلہ کرنے میں بیدارامت کا مصداق تھے
فلسطینی تنظیم جہاد اسلامی کے بانی و مؤسس اور پہلے سکریٹری جنرل شہید فتحی شقاقی کی شہادت کی آج پچیسویں سالگرہ ہے شہید فتحی شقاقی کو اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد نے جزیرہ مالٹا میں 26 اکتوبر 1995 میں شہید کردیا تھا۔
ڈاکٹر شہید فتحی شقاقی حضرت امام خمینی (رہ) اور انقلاب اسلامی ایران سے بہت زيادہ متاثر تھے انھوں نے اسی بنا پر" امام خمینی (رہ) ایک متبادل راہ حل " نامی کتاب تحریر کی ۔ شہید فتحی شقاقی نے انقلاب اسلامی ایران کے کامیابی کے پانچ سال بعد سن 1984 ء میں فلسطینی تنظيم جہاد اسلامی کو تشکیل دیا۔
اسلام کی ظرف باز گشت اور مشکلات کا حل :
شہید فتحی شقاقی انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی کے نتیجے میں اس بات تک پہنچ گئے کہ حقیقی اسلام کی طرف بازگشت اور دینی و شرعی ذمہ داریوں پر عمل دنیائے اسلام کی مشکلات اور خاص طور پر مسئلہ فلسطین کا بنیادی اور اساسی راہ حل ہے۔ انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی کے بعد مسئلہ فلسطین میں نئی روح پیدا ہوگئی اور انقلاب اسلامی ایران کو فلسطینی تنظیموں نے اپنا نمونہ عمل بنا لیا۔
شہید فتحی شقاقی نے انقلاب اسلامی ایران کو مشعل راہ بنایا:
شہید فتحی شقاقی نے جہاد اسلامی تنظیم تشکیل دے کر بائیں بازو کی تنظیموں کے افکار کو اسلامی فکر میں تبدیل کیا اور اسی تبدیلی کے نتیجے میں مسئلہ فلسطین ایک بار پھر ابھر کو دنیا کے سامنے آگیا۔ جہاد اسلامی کی تشکیل سے پہلے فلسطین کی فتح تنظيم کی اسرائیل کے خلاف جد وجہد جاری تھی ، لیکن فلسطینیوں میں باہمی اختلاف بھی شدید تھا اور اس اختلاف کو کافی حد تک دور کرنے میں شہید فتحی شقاقی نے اہم کردار ادا کیا اور ثابت کردیا کہ دین اسلام کا دنیائے اسلام کی مشکلات کو حل کرنے کے سلسلے میں بنیادی اور اساسی کردار ہے اور سازشی مذاکرات کے بجائے مزاحمتی تحریک ہی مسئلہ فلسطین کا اصلی راہ حل ہے ۔ مزاحمتی تحریک میں شہید فتحی شقاقی نے نئی روح پھونک کر بتا دیا کہ وہ اسرائیل کے مقابلے میں بیدار امت کا مصداق ہیں۔
فرانسیسی صدر کے اسلام مخالف اقدامات
تحریر: عبدالحمید بیاتی
جدید سیاسی لٹریچر میں فرانس کو مغرب میں جمہوریت کا گہوارہ کہا جاتا ہے۔ اس کا مقصد درحقیقت دنیا والوں کے ذہن سے دیگر قوموں کے استعمار پر مبنی فرانس کے ماضی پر پردہ ڈالنا ہے۔ لیکن جمہوریت کے اسی گہوارے میں بعض ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں جن پر غور کرنے سے انسان اس نتیجے تک پہنچتا ہے کہ دیگر قوموں پر ناجائز تسلط اور استعمار کا جذبہ نہ صرف فرانس پر حکمفرما سیاسی نظام سے ختم نہیں ہوا بلکہ حالیہ حکمران بھی اپنے ماضی کی ڈگر پر ہی گامزن ہیں۔ یہ دعوی ثابت کرنے کیلئے بہت سے ثبوت موجود ہیں۔ لیکن ان دنوں جو چیز فرانسیسی حکمرانوں کی اس خصلت کے ظاہر ہونے کا بنیادی سبب بنی ہے وہ اسلاموفوبیا پر مبنی اقدامات ہیں۔ فرانس میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کی ایک نئی لہر نے جنم لیا ہے۔
الیزہ میں مقیم فرانسیسی حکام کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف اقدامات ایک طویل ماضی کے حامل ہیں۔ انہی اقدامات کے تسلسل کے طور پر اکتوبر کے آخر میں فرانسیسی صدر ایمونوئل میکرون نے بعض شدت پسند عناصر کے اقدامات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے بعد مسلمانوں کے خلاف ایک نیا قانون بنانے کا ارادہ کیا ہے۔ اس کے بعد فرانسیسی صدر نے میڈیا کے سامنے اعلان کیا کہ فرانس کی حکومت نے "مذہبی علیحدگی پسندی" کا مقابلہ کرنے کیلئے ایک نیا قانون تشکیل دیا ہے۔ انہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ وہ ملک سے باہر جا کر امام مسجد اور مبلغ کی تعلیم حاصل کرنے پر مبنی تعلیمی نظام کو ختم کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ فرانسیسی صدر نے دعوی کیا کہ ان کے اس فیصلے کا مقصد اپنے ملک میں اسلام کو بیرونی عناصر کے قبضے سے آزاد کروانا ہے۔
فرانس میں اس نئے قانون کی تشکیل کا آغاز اس سال کے آخر میں ایک بل کی صورت میں ہو گا جو مرکزی کابینہ میں شامل وزیروں کو پیش کیا جائے گا۔ اسی طرح اگلے سال کے شروع میں یہ بل فرانس کی پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔ اس نئے قانون میں فرانس میں موجود اسلامک سنٹرز اور اسلامک آرگنائزیشنز کی تعلیمی سرگرمیوں کو بہت زیادہ محدود کر دیا جائے گا۔ مزید برآں، اس نئے قانون کی روشنی میں امام جماعت اور مبلغین کی تعلیم حاصل کرنے والے افراد کے تعلیمی عمل پر حکومت کی نگرانی کی جائے گی۔ اسی طرح اسلامی مراکز اور تنظیموں کو ملنے والی مالی امداد کی بھی مکمل تحقیق کی جائے گی۔ فرانس میں نئے اسلام مخالف قانون کی تشکیل پر مبنی غل غپاڑے کے دوران ایک اور اہم واقعہ رونما ہوا ہے۔
اس دوران چارلی ایبدو میگزین کے دفتر پر حملہ کرنے والے افراد کے خلاف عدالتی کاروائی کا بھی آغاز ہو چکا ہے۔ یاد رہے گذشتہ برس چند مسلح افراد نے چارلی ایبدو نامی فرانسیسی مجلے کے دفتر پر ہلہ بول دیا تھا جس میں دفتر کے کئی کارکن ہلاک ہو گئے تھے۔ یہ حملہ درحقیقت اس مجلے کی جانب سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں گستاخی پر مبنی کارٹون شائع کرنے کا ردعمل تھا۔ چارلی ایبدو میگزین نے اتنی بار رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں گستاخانہ خاکے شائع کئے ہیں کہ اب وہ اس بارے میں بدنام ہو چکا ہے۔ پانچ سال پہلے جب اس مجلے نے پہلی بار یہ گستاخانہ عمل انجام دیا تو دنیا بھر میں اس کے خلاف شدید ردعمل ظاہر ہوا تھا۔ لیکن آزادی اظہار کی آر میں یہ مجلہ مسلسل اسلامی مقدسات کی توہین کرتا آیا ہے۔
حال ہی میں فرانس میں ایک ٹیچر نے کلاس میں چارلی ایبدو کے گستاخانہ خاکے کلاس میں تمام طلبہ کو دکھائے۔ اس کا یہ عمل مسلمان شہریوں میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑ جانے کا باعث بنا۔ فرانس کے مسلمان شہریوں نے اسکول انتظامیہ سے اس گستاخ ٹیچر کو نکال باہر کرنے اور اس کے خلاف عدالتی کاروائی کا مطالبہ کیا لیکن اس جائز مطالبے پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ اس کے بعد اچانک ایک مسلمان جوان نے چھریوں کے وار کر کے اس گستاخ شخص کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اس واقعے کے فرانسیسی حکمرانوں سمیت تمام مغربی میڈیا نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف شدید پروپیگنڈے اور نفسیاتی جنگ کا آغاز کر دیا۔ فرانسیسی صدر ایمونوئل میکرون نے بھی ہلاک شدہ گستاخ رسول ص کے ساتھ اظہار ہمدردی کرتے ہوئے نئے قانون کی تشکیل کا اعلان کیا۔
یہاں یہ اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ عالمی سطح پر شدید مخالفت اور مذمت کے باوجود فرانسیسی حکمران نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں گستاخی کے اس سلسلے کا سدباب کیوں نہیں کرتے؟ اس کا ممکنہ جواب یہ ہے کہ فرانسیسی حکمران جان بوجھ کر ایسی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں۔ وہ اپنے ملک میں عوام کی جانب سے دین مبین اسلام کی جانب تیزی سے بڑھتے ہوئے رجحانات اور معاشرے میں اسلامی تعلیمات کے پھیلاو سے شدید خوفزدہ ہیں۔ لہذا مغربی حکام خاص طور پر فرانسیسی حکمرانوں کی جانب سے اسلامی مقدسات کی توہین کی حوصلہ افزائی کا ایک مقصد مسلمانوں کو شدت پسندانہ اقدامات پر اکسا کر ایسے اقدامات کے ذریعے اسلام اور مسلمانوں کا چہرہ بدنام کرنا ہے۔ دوسرا مقصد معاشرے میں اسلام کے تیزی سے جاری پھیلاو کو روکنا ہے۔
نو ربیع الاول عصر مہدوی کا آغاز
ربیع الاول کا مہینہ اسلامی سال کا تیسرا مہینہ ہے اور اس مہینے کی اہمیت روز روشن کی طرح واضح ہے، جہاں اس مہینے کی سترہ تاریخ کو اللّه تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے رحمت للعالمین حضرت محمّد صلی اللّه علیہ وآلہ وسلم کو اس دنیا میں بھیج ہم پر اپنی نعمتوں کی بارش کر دی، وہاں 9 ربیع الاول کی تاریخ حضرت امام مہدی عجل اللہ تعالٰی فرجہ الشریف کی امامت کے آغاز کا دن ہے، حضرت ولی عصر عجل اللہ تعالٰی کی امامت کا آغاز دنیا کے مظلوموں کی امید ہے، وہ آئیں گے اور دنیا کو انصاف سے پُر کردیں گے جو ظلم و جور سے پر ہو چکی ہے۔ ربیع الاول کی نویں تاریخ نہ صرف امام عصر (ع) کی امامت کا پہلا دن ہے بلکہ شیعہ تاریخ کے ایک اہم دور کے آغاز کا دن بھی ہے۔ شیعہ اس دن کو عید کے طور پر مناتے ہیں اور عبادت کرنے کیساتھ ساتھ خوشی مناتے ہیں۔ یہ خدا کا وعدہ ہے کہ وہ اپنی زمین کو کسی بھی دور زمانہ میں حجت سے خالی نہیں رکھے گا۔ فقہی اور روایی منابع میں موجود دستاویزات سے بھی یہ بات ثابت ہے کہ امام حسن عسکری کی شہادت کے بعد لوگ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے آخری خلیفہ کے لئے جب کافی پریشان تھے تو امام مہدی عجل اللہ تعالٰی فرجہ الشریف نے لوگوں کے سامنے ظاہر ہو کر اپنے چچا کو ہٹا کر اپنے والد گرامی کی نمازہ جنازہ پڑھائی۔
بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رح) حضرت مہدی عجل اللہ تعالٰی فرجہ الشریف کی امامت کے آغاز کے بارے میں فرماتے ہیں کہ "ربیع الاول کی نویں تاریخ حضرت مہدی عجل اللہ تعالٰی فرجہ الشریف کی امامت کے آغاز کا دن ہے، حضرت مہدی علیہ السلام کی امامت کا آغاز دنیا کے مظلوموں کی امید ہے، وہ آئیں گے۔ رہبر کبیر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق ہر مسلمان کا ایک اہم فریضہ یہ ہے کہ حضرت مہدی (ع) کے ظہور کے منتظر رہیں۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ اس توقع کا صلہ کیا ہے اور انتظار کرنے والوں کے لئے ثمرات کیا ہیں؟ امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کا انتظار کرنے والوں کے لیے یہی کافی ہے کہ ان کا نام امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے صحابیوں میں لکھا جائے گا"۔ امام زمانہ زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف سرچشمئہ ولایت کا وہ گوہر نایاب ہیں کہ جنکے وجود کا عقیدہ، ایمان کی تکمیل کا سبب بنتا ہے۔ آج ہر ایک چاہنے والے کی زبان پر انکا کا ذکر جاری و ساری ہے، ہماری دعاؤں میں انکا کا تذکرہ ہے، مناجات میں امام کی یاد ہے لیکن اسکے ساتھ ساتھ ہمارے لئے انکی معرفت و شناخت اور خصوصیات سے باخبر ہونا بھی ضروری ہے۔
ابو سعید خدری کی رسول گرامی اسلام سے روایت ہے کہ آپ امام زمانہ عجل اللہ تعالٰی فرجہ الشریف کے بارے میں فرماتے ہیں، "عن ابی سعید الخدری قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ ابشرکم بالمھدی یبعث فی امتی علی اختلاف من الناس و زلزال فیملا الارض قسطا و عدلا کما ملئت ظلما و جورا یرضی عنہ ساکن السماء و ساکن الارض یقسم المال صحاحا فقال لہ رجل وما صحاحا قال السویة بین الناس"۔ ابو سعید خدری روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا، میں تمہیں مہدی کی بشارت دیتا ہوں کہ وہ اس وقت میری امت میں آئیں گے جب امت کے افراد آپس میں اختلاف کر رہے ہوں گے اور لڑکھڑا رہے ہوں گے تو آپ (عج) زمین کو اسی طرح انصاف و عدالت سے پر کریں گے جیسے کہ وہ ظلم و ستم سے پر ہو چکی ہوگی، ان سے آسمان و زمین والے راضی ہوں گے وہ مال کو صحیح تقسیم کریں گے۔ ایک اور جگہ پیغمبر (ص) نے فرمایا کہ "میرے فرزند امام مہدی (عج) میرے ہم نام ہیں اور آپ کی کنیت بھی میری کنیت ہے اور صورت و سیرت میں دوسروں سے بہت زیادہ مجھ سے مشابہت رکھتے ہیں۔ آپ (ع) کے لیے لمبی غیبت (غیبت کبری) ہے، جس میں بہت سے لوگ گمراہ ہو جائیں گے اور تھوڑے سے لوگ باقی رہیں گے اور اس کے بعد میرے یہ فرزند چمکتے ستارے کی مانند طلوع کریں گے اور زمین کو عدل و انصاف سے پر کر دیں گے جس طرح کہ یہ ظلم و ستم سے بھر چکی ہو گی"۔
9 ربیع الاول کا مقدس اور مبارک دن حضرت ولی اللہ الاعظم، امام مبین، بقیۃ اللہ فی الارضین، موعود الانبیاء و المرسلین کی ولایت و امامت کے آغاز کا دن ہونے کیساتھ ظلم و استکبار اور استضعاف سے رہائی اور نجات و کا دن بھی ہے۔ منتظرین پر لازم ہے کہ اس روز کو عقیدت و احترام کے ساتھ منائیں اور اس کی تعظیم کو اپنے لیے فخر و اعزاز سمجھیں۔ یہ حقیقت ہے کہ اس روز سے ہجری تاریخ کے اندر عصر مہدوی کا آغاز ہوتا ہے۔ گویا نو ربیع الاول کو عید منانے کا حقیقی فلسفہ آغاز ولایت امام زمانہ (ع) ہے، اسی روز سے مولائے عصر والزمان (عج) کی ولایت و امامت کا آغاز ہوا ہے، اسی لئے نو ربیع الاول یوم اللہ ہے۔ ربیع الاول رسول اللہ (ص) اور امام صادق علیہ السلام کی ولادت کا مہینہ ہے۔ بعض روایات کے مطابق رسول اللہ (ص) کی ہجرت مدینہ کا مہینہ بھی یہی ہے، اسی مہینے رسول اللہ (ص) کی ولادت ہوئی، گویا دین خاتم کا آغاز بھی اسی مہینے سے ہوا اور یہ وہ مہینہ ہے کہ جس کی 8 تاریخ کو امام حسن عسکری علیہ السلام عباسی بادشاہ کے ہاتھوں شہید ہوئے، تو 9 ربیع الاول کی رات امام زمانہ کی امامت و ولایت کا آغاز ہوا۔
امام زمان (عج) کے دور ولایت و امامت کے آغاز کی کیفیت کچھ اسطرح سے ہے کہ عباسی سلاطین نے امام صادق سے امام عسکری علیہما السلام تک (چھ اماموں) کو شہید کر دیا تھا۔ معتصم عباسی نے امام عسکری علیہ السلام کو شہید کرنے کے بعد امام عصر (عج) کا تعاقب بھی شروع کیا۔ کئی لوگ امام (ع) کے گھر میں تعینات کئے اور انہیں ہدایت کی کہ فرزند عسکری (ع) کو ڈھونڈ لائیں۔ بے رحم دشمنی کا ثبوت دیتے ہوئے سلسلہ امامت کی آخری کڑی کو ختم کرنے کا منصوبہ بنایا لیکن قدرت نے انہیں محفوظ کر لیا۔
وحدت ضروری ہے
تحریر: سویرا بتول
ہفتہ وحدت، 12 ربیع الاول سے 17 ربیع الاول کے درمیانی فاصلے کو کہا جاتا ہے۔ یہ دونوں تاریخیں مسلمانوں کے یہاں پیغمبر اکرمﷺ کی تاریخ ولادت کے حوالے سے مشہور ہیں، اہل سنت 12 ربیع الاول کو جبکہ اہلِ تشيع 17 ربیع الاول کو خاتم النبینﷺ کی ولادت واقع ہونے کے قائل ہیں۔ امام خمینی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: "ولادتیں مختلف ہوتی ہیں، ایک ولادت خیر و برکت کا مبداء ہے، ظلم کو نابود کرنے کا ذریعہ، بت کدوں کو ڈھانے اور آتش کدوں کو خاموش کرنے کی بنیاد ہے ۔۔۔۔ جیسے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت با سعادت۔۔۔۔ اس زمانہ میں دو قوتیں تھیں؛ ظالم حکومت اور دوسری آتش پرست روحانی طاقتیں۔۔۔۔ پیغمبر اسلامﷺ کی ولادت ان دونوں قوتوں کی شکست کا سرچشمہ بنی۔"
خیمہ افلاک کا استادہ اسی نام سے ہے
نبضِ ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے
ام المومنین حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ: "رسولِ خداﷺ نے جبریلؑ امین سے نقل کیا کہ میں نے زمین کے مغارب و مشارق کو دیکھا ہے مگر کسی شخص کو محمد مصطفیٰﷺ سے افضل نہیں دیکھا اور کسی کی اولاد کو میں نے نہیں دیکھا جو بنی ہاشم سے افضل ہو۔" کوئی انہیں انسانوں کے درمیان رہتے بستے دیکھ کر اور جامہ بشری میں پا کر اپنا سا بشر قرار دے دے، لیکن ہمارے لیے آپﷺ پیکرِ بشریت کا مثالیہ تھا، سراپا عصمت، مجسم صدق و صفا، جن کی ہر بات قابل ِتقلید اور ہر عمل دلیل ایمان تھا۔ امام خمینی ؒ نے مسلمانوں کو رسول اکرمﷺ کا جشنِ ولادت 12 سے 17 ربیع الاول پورا ہفتہ منانے کا حکم دیا۔ جو وحدت کی عظیم مثال ہے۔ جو لوگ شیعہ و سنی کے درمیان اختلافات کو ہوا دیتے ہیں، وہ نہ شیعہ ہیں نہ سنی بلکہ یا تو نادان ہیں یا دشمن کے آلہ کار ہیں۔
دشمن اپنے سازشی منصوبوں کو مسلمانوں پر آزما رہا ہے اور اتحاد وحدت کے لئے کی جانے والی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کے لئے مختلف راستوں سے اپنے حملے جاری رکھے ہوئے ہے۔ امام خمینی کے افکار و نظریات کی روشنی میں حقیقی اور محمدی اسلام میں جامعیت، جذابیت اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کی تمام تر صفات موجود ہیں۔ اگر حققیی اسلام کو معاشرے کے سامنے پیش کیا جائے تو اختلافات کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی اور وحدت اسلامی کے احیاء کا ہدف آسانی سے پورا کیا جا سکتا ہے۔ اگر حقیقی محمدی اسلام کو اس کی حقیقی اقدار و روایات کے ساتھ پیش کیا جائے تو امت مسلمہ اور عالم اسلام کو عزت و عظمت کو بحال کیا جا سکتا ہے۔
قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں عشقِ محمدﷺ سے اجالا کر دے
اربعین حسینی کے موقع پہ وحدتِ اسلامی کی بہترین مثال قائم ہوئی، جس میں ہمارے اہلِ سنت برادران نے نہ صرف سبیلیں لگائیں بلکہ نماز کے بڑے بڑے اجتماعات میں بھرپور شرکت کرکے یہ بات ثابت کی کہ یہ ملک حسینیوں کا ہے اور یہاں تکفیریت کی کوئی جگہ نہیں اور شیعہ سنی اتحاد کی عظیم مثال قائم کی۔ وہی ہمارا اخلاقی اور شرعی فریضہ ہے کہ جشنِ عید میلاد النبیﷺ کے جلوسوں میں ناصرف بھرپور شرکت کریں بلکہ ایک دوسرے کو پھولوں کے ہار پہناۓ، اتحاد اور وحدت کو فروغ دیں، تاکہ امن و محبت کی فضا کو برقرار رکھا جاۓ اور حکمِ الہیٰ کہ خدا کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور تفرقہ میں مت پڑو کو عملی جامہ پہنائیں۔
اپنی ملت پہ قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی
فرانس میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کھلی دہشتگردی ہے
انہوں نے کہا کہ تمام مذاہب کے ماننے والے محسن انسانیت کا احترام کرتے ہیں کیونکہ انکی ذات کا پیغام تمام انسایت کا اولین منشور ہے۔ ملت تشیع کا ماضی عشق رسول سے سرخ ہے، ہم عاشق رسول شہید علی رضا تقوی کی قربانی کو فراموش نہیں کر سکتے جنہوں نے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کیخلاف احتجاج میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ رسول اکرمۖ کی شان میں گستاخی ناقابل برداشت ہے، فرانسیسی صدر کو مسلم برادری سے معافی مانگنی چاہئے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ مشرق وسطی میں اٹھنے والی اسلامی بیداری سے مغرب خوفزدہ ہے، داعش کے نام پر اسلام کو بدنام کیا گیا اور ایک بار پھر گستاخانہ خاکے شائع کرکے مسلمانوں کی غیرت کو للکارا جا رہا ہے، سیکولر طاقتیں اسلام کیخلاف متحد ہیں، عالمی اسلامی طاقتوں کو متحد ہوکر سیکولر طاقتوں کا مقابلہ کرنا ہوگا۔
صنعاء ایئرپورٹ کی بندش روزانہ 25 مریضوں کی جان لے لیتی ہے، خالد الشایف
یمنی دارالحکومت صنعاء کی بین الاقوامی ایئرپورٹ کے ڈائریکٹر خالد بن احمد الشایف نے اعلان کیا ہے کہ جارح سعودی فوجی اتحاد کی جانب سے صنعاء ایئرپورٹ کی بندش کے باعث روزانہ 25 یمنی مریض جانبحق ہو جاتے ہیں۔ خالد الشایف نے عرب نیوز چینل المسیرہ کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے تاکید کی ہے کہ عالمی برادری یمنی مریضوں کی بیرون ملک منتقلی کے لئے طبی فلائی اوور کے قیام اور یمن میں دواؤں کی درآمد میں سنجیدہ نہیں ہے۔ ڈائریکٹر صنعاء ایئرپورٹ نے کہا کہ تاحال 30 ہزار سے زائد یمنی مریض علاج معالجے کے لئے بیرون جانے کے منتظر ہیں کیونکہ 3 لاکھ 50 ہزار سے زائد یمنی مریض ایسے ہیں جن کا ملک کے اندر علاج ناممکن ہے تاہم جارح سعوی فوجی اتحاد کی جانب سے ملک کے سخت ترین محاصرے کے باعث ان میں سے 25 مریض ہر روز جانبحق ہو جاتے ہیں۔
خالد الشایف نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ عالمی ادارۂ صحت اور اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر برائے انسانی امور کی جانب سے تقریبا 8 ماہ قبل یمنی مریضوں کے لئے میڈیکل فلائی اوور بنانے کا اعلان کیا گیا تھا جبکہ تب سے لے کر آج تک اس نظام کے تحت علاج معالجے کے لئے بیرون ملک جانے والے یمنی مریضوں کی تعداد انتہائی کم ہے۔ واضح رہے کہ صنعاء کی جانب سے اقوام متحدہ و سلامتی کونسل سے بارہا مطالبہ کیا جا چکا ہے کہ وہ طے شدہ میڈیکل فلائی اوور کے قیام کی خاطر یمن کے ہوائی محاصرے میں نرمی کے لئے جارح سعودی فوجی اتحاد پر دباؤ ڈالے کیونکہ یمنی بین الاقوامی ایئرپورٹ کی بندش، یمن کا ہوائی محاصرہ، یمنی شہریوں کو علاج معالجے کے لئے بیرون ملک نہ جانے دینا اور یمن کے اندر دواؤں سمیت کسی بھی قسم کے طبی سازوسامان کی درآمد پر پابندی انسانی حقوق کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی قوانین کی بھی کھلی خلاف ورزی ہے۔