سلیمانی

سلیمانی

ہزاروں یا لاکھوں سال پر محیط اور معلوم انسانی تاریخ میں انسانوں کی رہنمائی، ہدایت اور بھلائی کے لیے انسانوں میں سے ہی ایسی شخصیات انسانی معاشروں میں تشریف لائیں، جنہوں نے اپنے علم، اپنی صلاحیت، اپنی قائدانہ خصوصیات اور اپنی قربانیوں کے ذریعے تاریخ پر انمٹ نقوش چھوڑے۔ یوں تو انسانی مزاج میں شامل ہے کہ وہ اپنے اندر امتیازی اور خاص حیثیت و مقام کے حامل انسانوں کو تادیر یاد رکھتے ہیں، لیکن ان یاد رکھے جانے والوں میں سب سے زیادہ وقت ان لوگوں کو یاد رکھا جاتا ہے، جو قربانی کے ذریعے اپنے آپ کو زندہ رہنے کے اسباب مہیا کر جاتے ہیں۔ مذہبی تاریخ میں انبیاء کی قربانیاں سرفہرست شمار ہوتی ہیں، جس کا نکتہ انجام خاتم المرسلین حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی حیات طیبہ کے دوران دی جانے والی قربانیاں ہیں، جو مکہ کی گلیوں سے کفار کے مظالم کی شکل میں شروع ہوئیں، پھر شعب ابی طالب کی صورت سماجی بائیکاٹ سے ہوتی ہوئی ہجرت جیسے کرب ناک مرحلے تک پہنچیں اور بالاخر مدینہ میں رہ کر عالم ِغربت اور عالم جنگ کی مشکلات پر بظاہر تمام ہوئیں۔

اسلام کے اظہار، اسلام کی تاسیس، اسلام کی بنیاد، اسلام کی ترقی و توسیع اور تکمیل کے مراحل طے ہوئے۔ لیکن نبی اکرم ؐ کی وحی ترجمان زبان نے جب ”حسین ؑ منی وانا من الحسین ؑ“ فرما دیا تو اسلام کی بقاء، تحفظ اور دفاع کا مرحلہ باقی نظر آیا۔ تاریخ نے ثابت کر دیا کہ یہ حدیث محض ایک نواسے کے ساتھ نانے کے تعلق کو ظاہر نہیں کرتی بلکہ اس میں ایک ایسا بلند مفہوم موجود ہے، جس کے شواہد وقت کے ساتھ ملیں گے۔ اگرچہ اسلامی تاریخ میں حضور اکرم  ؐ کی رحلت کا بڑا سبب جنگ ِخیبر میں دیا جانے والا زہر بیان کیا جاتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ نبی اکرم ؐ کو اگر دنیا کی کوئی چیز حاصل نہیں ہوئی تو وہ جسمانی شہادت ہے۔ یہ ایک اختلافی نظریہ ہے، جس پر تاریخی کتب میں ابحاث موجود ہیں، لیکن مذکورہ بالا حدیث کی تفاسیر میں اس اختلافی نظریئے کا رد بھی کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ اگر حسین ؑ کو نبی ؐ سے اور نبی ؐ کو حسین ؑ سے تسلیم کیا جائے تو شہادت ِحسین ؑ محض حسین ؑ کی شہادت نہیں بلکہ نبی پاک ؐ کی شہادت متصور ہوگی، کیونکہ اس شہادت کا پس منظر دفاع اسلام، بقائے اسلام اور تحفظ ِ دین ہے۔

نبی اکرم ؐ کا امام حسین ؑ سے والہانہ اور منفرد پیار، نبی اکرم ؐ کی امام حسین ؑ کے بارے میں مختلف وصیتیں، نصیحتیں اور احادیث، نبی اکرم ؐ کے سامنے جبرئیل کا آنا اور امام حسین ؑ کی شہادت کی خبر بچپن کے زمانے میں ہی دے دینا، نبی اکرم ؐ کا اس خبر پر رنجیدہ و چشم تر ہونا، نبی اکرم ؐ کا اپنے اہل بیت ؑ، ازواج مطرات ؓ اور اصحاب کرام ؓ کو اس خبر سے آگاہ کرنا، نبی اکرم ؐ کا حضرت ام سلمہ ؓ کو مٹی کی ایک شیشی دینا اور مستقبل کا احوال سنانا اور آخر میں دس محرم اکسٹھ ہجری کی عصر کو اس شیشی میں موجود مٹی کا خون بن جانا، نبی اکرم ؐ کا حضرت ام سلمہ ؓ کے خواب میں آکر پریشان حالی اور خاک آلودہ حالت میں شہادت ِحسین ؑ کا پیغام دینا اور حاتف ِغیبی کی طرف سے سرزمین کربلا کے علاوہ بھی مختلف خطوں میں شہادت حسین ؑ پر صدائے افسوس بلند کرنا ایسے قطعی شواہد ہیں، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ واقعہ کربلا کا تسلسل مکہ و مدینہ سے پھوٹنے والی اسلامی تحریک سے تھا، جسے اگرچہ شہدائے بدر و احد و خندق و خیبر نے اپنے خون سے آبیار کیا تھا، لیکن اسلام کو قیامت تک باقی و محفوظ رکھنے کے لیے  ”ذبح عظیم“ کی شکل میں ایک بڑی اور لافانی قربانی کی ضرورت تھی، جسے امام حسین ؑ اور کے آل و اصحاب نے سرزمین ِکربلا میں شہید ہوکر پورا کیا۔

امام عالی مقام ؑ نے یزید کی تخت نشینی اور حکومتی پروگرام کے اعلانات کے بعد اپنا جو موقف اپنایا، اسے مدینہ کے گورنر سے لے کر یزید کے ساتھ رابطوں اور خط و کتابت کے ذریعے، مختلف اصحاب ِنبی ؐ اور تابعین کے ساتھ نشستوں اور مذاکرات کے ذریعے، مدینہ سے مکہ کے سفر کے دوران، مکہ میں قیام کے دوران سلطنت کے مختلف حصوں سے حج کے لیے آئے وفود سے ملاقاتوں کے دوران، کوفیوں اور دیگر علاقوں کے لوگوں کے نام پیغامات کے ذریعے، مکہ سے کربلا کے سفر میں مختلف مقامات پر ٹھہراؤ اور پڑاؤ کے دوران، یکم محرم سے دس محرم تک یزیدی افواج کے سرکردہ کمانڈروں کے ساتھ بات چیت کے دوران اور اپنی شہادت سے کچھ دیر پہلے یزیدی فوج سے آخری خطبے کی شکل میں خطاب کے دوران بہت کھول کھول کر بیان کیا۔ جس کا مفہوم یہی تھا کہ وہ اپنے ذاتی مقاصد کے حصول کے لیے نہیں، اپنے خاندانی یا گروہی مفادات کے لیے نہیں، اپنے سیاسی عزائم کے لیے نہیں اور اقتدار کے حصول کے لیے نہیں بلکہ اسلامی احکام کی شکل بگاڑنے کے خلاف، شریعت کی شکل تبدیل کرنے کے خلاف، اپنے نانا کی امت کی اصلاح کی خاطر، جاہ طلبی اور اقتدار پرستی کے خلاف، ملوکیت کے ذریعے لوگوں پر مسلط ہونے کے خلاف، دینی اقدار کی پامالی کے خلاف، امر بالمعروف کے فریضے اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری کی ادائیگی کی خاطر اور انسانی حقوق کی فراہمی اور جابر و ظالم و فاسق و فاجر حکمرانوں کے خلاف علم ِجہاد بلند کرنے کے لیے گھر سے نکلے تھے۔

ان مقاصد کا بیان خود امام حسین ؑ کے خطبات اور اس کے بعد حضرت امام زین العابدین ؑ اور حضرت سیدہ زینب سلام اللہ علیہا کے ان خطبات میں موجود ہے، جو ان دو شخصیات نے کربلا کے بعد کوفہ و شام کے درباروں و بازاروں سے لے کر مدینۃ الرسول ؐ میں پہنچنے تک جاری کئے۔ ان تمام تر خطبات اور موقف سے واضح ہو جاتا ہے کہ کربلا کی بنیاد ہی نبی اکرم ؐ نے اپنی حیات ِمبارکہ میں رکھ دی تھی۔ امت کو آگاہ فرما دیا تھا اور اسلام کی تاریخ میں اس عظیم واقعہ کا ذکر فرما دیا تھا، جبکہ شجر ِاسلام کی آبیاری میں اپنے نواسے، اپنے اہل ِبیت ؑ اور ان کے اصحاب و انصار کے پاکیزہ خون کی شمولیت کی پیش گوئی بھی فرما دی۔ حقا کہ بنائے لا الہ ہست حسین ؑ کی صورت میں نتیجہ سامنے آیا۔ انا فتحنا لک فتحاً مبینا کی تفسیر سامنے آئی۔ وفدیناہ بذبح ِِ عظیم کا وعدہ پورا ہوا۔ تمہیدی سطور کے تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے بات کو تکمیل کی جانب لے جائیں کہ صدیوں پر محیط شخصیات میں بعد از انبیاء امام حسین ؑ کو ممتاز و منفرد حیثیت حاصل ہوگئی۔ کربلا کی نظیر رہتی دنیا تک نہیں دی جاسکی۔ حسین ؑ جیسی حکمت عملی کوئی مرتب نہ کرسکا۔ حسین ؑ جیسا لائحہ عمل کوئی نہیں دے سکا۔ حسین ؑ جیسی حریت کوئی اختیار نہیں کرسکا۔ حسین ؑ جیسی استقامت کوئی نہیں دکھا سکا۔

حسین ؑ جیسا استقلال کوئی نہیں بتا سکا۔ حسین ؑ جیسا نظم و ضبط کوئی نہیں کرسکا۔ حسین ؑ جیسا صبر و تحمل کوئی نہیں کرسکا۔ حسین ؑ جیسا انفاق کوئی نہیں پیش کرسکا۔ حسین ؑ جیسی انسان دوستی کوئی نہیں نبھا سکا۔ حسین ؑ جیسی حق گوئی و حق بیانی کوئی نہیں کرسکا۔ حسین ؑ جیسی مظلومیت کسی کو حاصل نہیں ہوسکی۔ حسین ؑ جیسی عظمت و رفعت و منزلت پر کوئی فائز نہیں ہوسکا۔ حسین ؑ جیسی قربانی کوئی پیش نہیں کرسکا۔ چودہ صدیوں سے حسین ؑ وہ واحد شخصیت ہیں، جو صرف مسلمانوں کے لیے مثال نہیں۔ صرف عربوں اور عجمیوں کے لیے نمونہ نہیں۔ صرف اہل مذہب و تصوف کے لیے قابل ِتقلید نہیں بلکہ بلا تفریق مذہب و مسلک و فرقہ و نسل و قوم کائنات کے ہر انسان کے لیے نمونہ عمل ہیں، سراپا سیرت و رہنمائی ہیں۔ ہر آزاد فکر اور حریت پسند انسان کے قائد ہیں۔ ہر انسان دوست شخص کے لیڈر ہیں۔ ہر حق پرست کے رہبر ہیں۔ دنیا کا ہر انسان امام حسین ؑ کو اپنے لئے نمونہ قرار دے کر، حسین ؑ کی پیروی کرکے اور حسین ؑ کو اپنا مرشد و مولا و آقا و سید و سردار قرار دے فخر کرسکتا ہے۔ ہر زمانہ میرے حسین ؑ کا ہے۔ کربلا ”حسین ؑ منی و انا من الحسین ؑ“ کا عملی مصداق ہے۔ اسی لئے کہنا پڑتا ہے۔
یہ ختم ِقرب ہے لوگو ہمارا پیارا رسول ؐ
کسی سے کچھ بھی نہیں ہے مگر حسین ؑ سے ہے
 
 
تحریر: سید اظہار مہدی بخاری
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

تحریر و تحقیق: توقیر کھرل

حضرت امام حسینؑ کے سر مبارک کا نوک نیزہ پر قرآن پڑھنا یہ تاریخ کربلاء میں ایسی واضح بات ہے کہ جس کو علماء تشیع اور علماء اہلسنت سب نے صحیح سند کے ساتھ نقل کیا ہے۔ جب کاروان حریت 12 محرم کو کوفہ میں پہنچا۔ تین دن قید میں رکھنے کے بعد ابن زیاد نے 15 محرم کو امام حُسین کا سر دوسرے شہداء کے سروں کے ساتھ یزید کی طرف شام روانہ کر دیا۔ ارشاد شیخ مفید میں درج ہے کہ زید بن ارقم روایت کرتے ہیں کہ ابن زیاد کے دربار میں مظلوم کربلا کا مقدس سر میرے پاس سے گزرا جو نیزے کی نوک پر سوار تھا جبکہ میں اپنی جگہ بیٹھا ہوا تھا، جب وہ میرے پاس سے گزرا تو وہ کچھ پڑھ رہا تھا، میں نے توجہ کے ساتھ کان لگا کر سنا تو وہ سورہ کہف کی نویں آیت کی تلاوت کر رہا تھا: ام حسبت ان اصحاب الکھف والرقیم کانو من ایا تنا عجبا "کیا آپ یہ خیال کرتے ہیں کہ اصحاب کہیف ورقیم (غار اور کتے والے) ہماری تعجب کے قابل نشانیوں میں سے تھے۔" خدا کی قسم میں یہ منظر دیکھ کر لرز گیا اور بلند آواز کے ساتھ کہا کہ فرزند رسول آپ کا مقدس سر اصحاب کہف سے زیادہ حیران کن اور تعجب آور ہے۔

امام حُسین علیہ السلام کے سر مبارک سے تلاوت کا دوسر واقعہ حران میں ہوا۔
کوفہ سے شام جاتے ہوئے کاروان حریت چلتے چلتے حران نامی ایک جگہ کے نزدیک پہنچ گیا، اس شہر کی چوٹی پر یحیٰی خزائی نامی یہودی کا مکان تھا۔ وہ استقبال کے لئے آیا اور قیدیوں کا تماشہ دیکھنے لگا اور اس کی نگاہ حضرت امام حُسین کے سر مبارک پر پڑ گئی، اس نے دیکھا کہ آپ کے مبارک لبوں سے کوئی آواز آرہی ہے، اس نے جب کان لگا کر سنا تو وہ سورہ شعراء کی 227 کی تلاوت رہا تھا: وسیعلم الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون "اور عنقریب ظالموں کو معلوم ہو جائے گا کہ وہ کس انجام کو پلٹ جائیں گے۔" یہ مظر دیکھ کر یحیٰی حیران و پریشان ہوگیا، اس نے پوچھا یہ کس کا سر ہے۔؟ حسین بن علی کا، اس نے کہا۔ یہودی نے کہا کہ اگر اس کا دین برحق نہ ہوتا تو یہ کرامت اس سے ہرگز ظاہر نہ ہوتی۔ اس نے یہ کہا اور زبان پر کلمہ جاری کر دیا اور مسلمان ہوگیا۔

اپنے سر پر موجود عمامے کے کئی ٹکڑے کئے اور بے مقنع و چادر سیدانیوں کے سر پر ڈالے اور ایک قیمتی پوشاک جو خود زیب تن کئے ہوئے تھا، اتار کر امام زین العابدین کی خدمت میں پیش کی اور ایک ہزار درہم آقا کی خدمت میں پیش کئے۔ سر کے لئے متعین سپاہیوں نے دیکھا تو بلند آواز سے کہا خلیفہ یزید کے دشمنوں کی امداد اور حمایت کر رہے ہو، پرے ہٹ جاو، ورنہ تمہیں قتل کر دیں گے۔ یحیٰی نے دفاع کے لئے نیام سے تلوار نکالی، سپاہیوں نے اس پر حملہ کیا، اس نے بھی پانچ سپاہیوں کو جہنم رسید کیا اور خود بھی شہید ہوگیا، اس شہید کا مقبرہ حران میں ہے۔ منھال بن عمروؓ کہتے ہیں کہ: "خدا کی قسم! میں نے حسین ابن علیؑ کے سر کو نیزے پر دیکھا ہے اور میں اس وقت دمشق میں تھا۔ وہ سر آیت قرآن کو پڑھ رہا تھا۔ آیت کے فوری بعد سر نے واضح اور بلیغ زبان میں کہا کہ اصحاب کہف سے زیادہ عجیب میرا قتل ہونا اور میرے سر کو نیزے پر اٹھانا ہے۔" نوک سناں پر سورہ کہف کی تلاوت جہاں ایک طرف سے معجزہ تھا آپؑ کا، وہاں لوگوں کو یہ بات سمجھا رہے تھے کہ حسینؑ اور ان کے ساتھی اصحاب کہف کی طرح حق پرست ہیں، جبکہ یزید اور اس کے پیرو کار دقیانوس کی طرح ظالم ہیں۔
نیزے پہ جو سر ہے وہی سر بلند ہے

فرانسیسی جریدے میں خاتم النبین حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت اور سویڈن میں قران پاک جلائے جانے کے روح فرسا واقعات کے خلاف شیعہ علماء کونسل کے زیر اہتمام کراچی،اسلام آباد،لاہور، پشاور، ملتان، کوئٹہ، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر سمیت ملک کے مختلف شہروں میں پُرامن احتجاجی مظاہرے کیے گئے جن میں مرکزی، صوبائی اور ضلعی رہنماوں سمیت کارکنان کی کثیر تعداد نے شرکت کی احتجاج کے شرکاء نے بینرز اور پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جس میں اسلام دشمن صیہونی و نصرانی قوتوں کے خلاف نعرے درج تھے مظاہرین نے عالم استعماری و طاغوتی طاقتوں کے خلاف فلک شگاف نعرے بھی لگائے اور گستاخی کے مرتکب افراد کے خلاف ان کی حکومتوں سے عالمی قانون کے تحت سخت کاروائی کا مطالبہ بھی کیا۔

کراچی پریس کلب کے باہر مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے علامہ ناظر عباس تقوی نے کہا دین اسلام کے مقدسات کی توہین دنیا کے دو ارب مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو بھڑکانے کے مترادف ہے عالم اسلام کو بے بس سمجھنے والے احمق اور عالمی امن کے دشمن ہے مغرب کی اسلام دشمنی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کبھی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرنا تو کبھی قر آن مجید کا جلانا اور اس کی توہین کرنا معمول بنتا جارہا ہے اور اس پر عالمی اداروں کی خاموشی قابل تشویش عمل ہے کسی کے مقدسات کی توہین کرنا اقوام متحدہ کے چارٹر کے خلاف ہے لہذا اس گھناونی شازش کو روکنے کے لئے اقوام متحدہ اور او آئی سی اپنا بھر پور کر دار ادا کرے ایسے اقدامات سے مسلمانوں کے جزبات مجروح ہوتے ہیں تو مغرب ممالک اس کو انتہاء پسندی کا نام دیتے ہیں جبکہ اپنے مقدسات کے تحظ کے لئے احتجاج کرنا یہ انتہاء پسندی نہیں ہے بلکہ مغرب کی جانب سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرنا انتہاء پسندی کے زمرے میں آتی ہے اس کی ہم شدید مذمت کرتے ہیں

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ ایک فرانسیسی جریدے کے ذریعے ختمی مرتبت حضرت محمد مصطفی (ص) کی شان میں گستاخی اور آپ کی مقدس ہستی کی توہین گناہ عظیم اور ناقابل معافی جرم ہے۔ آپ نے اپنے پیغام میں فرمایا ہے کہ اس اقدام سے اسلام اور مسلم معاشرے سے مغربی دنیا کے ثقافتی و سیاسی اداروں کا بغض و عناد شر پسندی اور دشمنی ایک بار پھر کھل کر سامنے آگئی ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے پیغام میں مزید فرمایا ہے کہ آزادی بیان کے بہانے فرانس کے بعض سیاستدانوں کی جانب سے اس بڑے جرم کی مذمت نہ کرنا پوری طرح مسترد ، غلط اور عوام کو دھوکا دینا ہے ۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا ہے کہ صیہونیوں اور سامراجی حکومتوں کی اسلام دشمن پالیسیاں ہی اس طرح کی دشمنانہ حرکتوں اور اقدامات کا عامل ہیں جو ہر کچھ دن پر سامنے آتی ہیں ۔

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اپنے پیغام میں فرمایا ہے کہ اس حساس دور میں یہ اقدام مغربی ایشیا کی حکومتوں اور قوموں کے ذہنوں کو ان مذموم منصوبوں کی جانب سے موڑنے کی غرض سے انجام پایا ہے جو امریکہ اور صیہونی حکومت نے تیار کئے ہیں ۔آپ نے فرمایا ہے کہ مسلم امۃ خاص طور سے مغربی ایشیا کے ممالک کو چاہئے کہ اس حساس علاقے کے مسائل کی بابت ہوشیار رہتے ہوئے اسلام و مسلمین کے سلسلے میں مغربی حکمرانوں اور سیاستدانوں کی دشمنیوں کو ہرگز فراموش نہ کریں۔

یاد رہے کہ فرانسیسی جریدے چارلی ایبدو نے گذشتہ ہفتے منگل کو شان ختمی مرتبت میں ایک بار پھر گستاخی کا ارتکاب کرتے ہوئے پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی (ص) کے بارے میں توہین آمیز خاکے شائع کئے ہیں ۔

اموی حکومت کے حقیقی چہرے کو برملا کرنے کے سلسلے میں امام سجاد کا کردار اور انقلابی حکمت عملی
جزیرۃ العرب میں رسول اسلام خاتم النبیین رحمۃ للعالمین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نورانی ظہور اور الہی معیارات پر قائم اسلامی احکام و دستور سے مقہور دور جاہلیت کے پروردہ امیہ و ابوسفیان کے پوتے یزید ابن معاویہ اور ان کے ذلہ خواروں کے ہاتھوں نواسۂ رسول حضرت امام حسین علیہ السلام کی مظلومانہ شہادت کے بعد ظلم و استبداد کے نشہ میں چور اموی ملوکیت نے عصر جاہلیت کے انسانیت سوز رسم و رواج از سر نو اسلامی معاشرے میں رواج دینے پر کمر باندھ لی ۔
بنی امیہ کے اس استبدادی دور میں حسینی انقلاب کے پاسبان امام زين العابدین علیہ السلام کی ذمہ داریاں شعب ابی طالب میں محصور توحید پرستوں کی سختیوں ، بدر و احد کے معرکوں میں نبردآزما جیالوں کی تنہائیوں ، جمل و صفین کی مقابلہ آرائیوں میں شریک حق پرستوں اور نہروان و مدائن کی سازشوں سے دوچار علی (ع) و حسن (ع) کے ساتھیوں کی جان فشانیوں اور میدان کربلا میں پیش کی جانے والی عظیم قربانیوں کے مراحل سے کم حیثیت کی حامل نہیں تھیں ۔قرآن کی محرومی ،اسلام کی لاچاری اور آل رسول (ص) کی مظلومی کے " یزید زدہ " ماحول میں امام سجاد (ع) کی حقیقی انقلابی روش میں گویا اسلام و قرآن کی تمام تعلیمات جمع ہوگئی تھیں
اور اسلامی دنیا آپ کے کردار و گفتار کے آئینہ میں ہی الہی احکام و معارف کا مطالعہ اور مشاہدہ کررہا تھا ۔روز عاشورا نیزہ و شمشیر اور سنان و تیر کی بارش میں امام حسین (ع) کے ساتھ ان کے تمام عزیز و جاں نثار شہید کردئے گئے مردوں میں صرف سید سجاد (ع) اور بچوں میں امام باقر (ع) شہادت کے کارزار میں زندہ بچے تھے جو حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے ساتھ اہل حرم کے قافلہ سالار تھے ۔خون اور آگ کے درمیان امامت و ہدایت کی یہ دونوں شمعیں الہی ارادہ اور فیصلے کے تحت محفوظ رکھی گئی تھیں جنہوں نے اپنی نرم و لطیف حکمت آمیز روشنی کے ذریعہ عاشورا کے پیغامات تاریخ بشریت میں جاوداں بنادئے ۔امام زين العابدین علیہ السلام کو خدا نے محفوظ رکھا تھا کہ وہ اپنی 35 سالہ تبلیغی مہم کے دوران عاشورا کے سوگوار کے طور پر اپنے اشکوں اور دعاؤں کے ذریعہ اموی نفاق و جہالت کو ایمان و آگہی کی قوت عطا کرکے عدل و انصاف کی دار پر ہمیشہ کے لئے آویزاں کردیں اور دنیا کے مظلوموں کو بتادیں کہ اشک و دعا کی شمشیر سے بھی استبدادی قوتوں کے ساتھ جہاد و مقابلہ کیا جا سکتا ہے ۔ظلم و عناد سے مرعوب بے حسی اور بے حیائي کے حصار میں بھی اشک و دعا کے ہتھیار سے تاریکیوں کے سینے چاک کئے جا سکتے ہیں اور پرچم حق کو سربلندی و سرافرازی عطا کی جا سکتی ہے ۔چنانچہ آج تاریخ یہ کہنے پر مجبور ہے کہ کبھی کبھی اشک و دعا کی زبان آہنی شمشیر سے زیادہ تیز چلتی ہے اور خود سروں کے سروں کا صفایا کردیتی ہے
۔امام زین العابدین ،سید سجاد، عبادتوں کی زینت ، بندگي اور بندہ نوازی کی آبرو ، دعا و مناجات کی جان ، خضوع و خشوع اور خاکساری و فروتنی کی روح سید سجاد جن کی خلقت ہی توکل اور معرفت کے ضمیر سے ہوئی ، جنہوں نے دعا کو علو اور مناجات کو رسائي عطا کردی ،جن کی ایک ایک سانس تسبیح اور ایک ایک نفس شکر خدا سے معمور ہے جن کی دعاؤں کا ایک ایک فقرہ آدمیت کے لئے سرمایۂ نجات اور نصیحت و حکمت سے سرشار ہے امام زين العابدین علیہ السلام کی مناجاتوں کے طفیل آسمان سجادۂ بندگي اور زمین صحیفۂ زندگي بنی ہوئی ہے ۔آپ کی " صحیفۂ سجادیہ " کا ایک ایک ورق عطر جنت میں بسا ہوا ہے اور آپ کی صحیفۂ کاملہ کاایک ایک لفظ وحی الہی کا ترجمان ہے اسی لئے اس کو " زبور آل محمد " کہتے ہیں آپ خود سجاد بھی ہیں اور سید سجاد بھی ،عابد بھی ہیں اور زین العابدین بھی ۔کیونکہ عصر عاشور کو آپ کے بابا سید الشہداء امام حسین (ع) کا " سجدۂ آخر " گیارہ کی شب ، شام غریباں ہیں آپ کے " سجدۂ شکر " کے ساتھ متصل ہے ۔اکہتر قربانیاں پیش کرنے کے بعد امام حسین (ع) نے " سجدۂ آخر " کے ذریعہ سرخروئي حاصل کی اور جلے ہوئے خیموں کے درمیان ، چادروں سے محروم ماؤں اور بہنوں کی آہ و فریاد کے بیچ ، باپ کے سربریدہ کے سامنے سید سجاد کے " سجدۂ شکر " نے ان کو زین العابدین بنادیا ۔نماز عشاء کے بعد سجدۂ معبود میں رکھی گئی پیشانی اذان صبح پر بلند ہوئی اور یہ سجدہ شکر تاریخ بشریت کا زریں ترین ستارۂ قسمت بن گیا
۔باپ کا سجدۂ آخر اور بیٹے کا سجدۂ شکر اسلام کی حیات اور مسلمانوں کی نجات کا ضامن ہے ۔در حقیقت صبر و شجاعت اور حریت و آزادی کے پاسبان امام زين العابدین ، طوق و زنجیر میں جکڑدئے جانے کے باوجود لاچار و بیمار نہیں تھے بلکہ کوفہ و شام کے بے بس و لاچار بیماروں کے دل و دماغ کا علاج کرنے کے لئے گئے تھے ۔کوفہ بیمار تھا جس نے رسول (ص) و آل رسول (ص) سے اپنا اطاعت و دوستی کا پیمان توڑدیا تھا، کوفہ والے بیمار تھے جن کے سروں پر ابن زیاد کے خوف کا بخار چڑھا ہوا تھا اور حق و باطل کی تمیز ختم ہوگئی تھی شام بیمار تھا جہاں ملوکیت کی مسموم فضاؤں میں وحی و قرآن کا مذاق اڑایا جا رہا تھا اور اہلبیت نبوت و رسالت کومعاذاللہ " خارجی " اور ترک و دیلم کا قیدی قرار دیا جا رہا تھا
۔شام والے بیمار تھے جو خاندان رسول کے استقبال کے لئے سنگ و خشت لے کر جمع ہوئے تھے لیکن امام سجاد ان کے علاج کے لئے خون حسین (ع) سے رنگین خاک کربلا ساتھ لے کر گئے تھے کہ بنی امیہ کی زہریلی خوراک سے متاثر کوفیوں اور شامیوں کو خطرناک بیماریوں سے شفا عطا کریں ۔چنانچہ علی (ع) ابن الحسین (ع) اور ان کے ہمراہ خاندان رسول (ص) کی خواتین نے اپنے خطبوں اورتقریروں کی ذوالفقار سے کوفہ و شام کے ضمیر فروشوں کے سردو پارہ کردئے کوفہ جو گہرے خواب میں ڈوبا ہوا تھا خطبوں کی گونج سے جاگ اٹھا
شام نے جو جاں کنی کی آخری سانسیں لے رہا تھا زنجیروں کی جھنکار سے ایک نئي انگڑائی لی پورے عالم اسلام میں حیات و بیداری کی ایک ہلچل شروع ہوئی اور اموی حکومت کے بام و در لرزنے لگے ۔
 

تحریر: مجتبیٰ ابن شجاعی

آج سے تقریباً چودہ سو سال پہلے سرزمین عراق پر کربلا کے مقام پر نواسہ رسول، فرزند مولائے کائنات، جگر گوشہ بتول ؑ حضرت امام حسین ؑ نے اپنے اہل و عیال، اصحاب و انصار کے ہمراہ ایک عظیم الشان قربانی پیش کی، راہ حق میں بہتر مقدس اور قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے انسانیت اور اسلام کی ڈوبتی کشتی کو کنارے لگایا۔ جہالت و ظلمت کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں گم شدہ انسانیت کو ہدایت کا چراغ دکھایا۔ اپنے مقدس لہو سے حق و باطل کے درمیان نجات کی لکیر کھینچ لی اور روئے زمین پر ”ھیہات من الذلہ“ کا نعرہ بلند کرکے خفتہ ملت اور مردہ ضمیروں کے اندر تازہ روح پھونک دی۔ گویا عالم انسانیت کو جینے کا سلیقہ سکھایا۔

سنہ 61 ھجری کا روز عاشورا طول تاریخ کا تابناک باب اور عالم انسانیت کی ایک عظیم درسگاہ ہے۔ روز عاشور کے ایک ایک لمحے میں انسانیت کی بقاء کا راز مضمر ہے، عاشورا لمحہ فکریہ ہے، ہماری نا فہمی اور تنگ نظری کا نتیجہ ہے کہ ہم نے عاشورا کو ایک حادثہ کے طور پر پیش کیا، جاہل اور ناخوانندہ ذاکرین نے اس کو افسانہ کا لباس پہنایا، ملت مرحومہ نے امام عالی مقام کو کمزور، لاچار اور خوفزدہ سمجھا ہے۔ ہماری یہ کج فہمی و کج نظری ہی اصل باعث بن رہی ہے کہ دور حاضر میں بین الاقوامی سطح پر تحریک کربلا کے خلاف سازشیں رچائی جا رہی ہیں اور عالمی سطح پر دشمنان اسلام عاشورا کے اصل ہدف کو نام نہاد مسلمانوں بلکہ مفاد پرست، دین فروش، کرائے کے ملاوں اور مصنفوں کے ہاتھوں ہائی جیک کروا کر عاشورا کو فقط حادثہ کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔

حضرت امام حسین علیہ السلام اپنے والد گرامی مولائے کائنات حضرت علی ابن ابی الطالبؑ اور نانا رسول اکرم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرح صابر، دلیر اور شجاع تھے کہ آپ نے میدان کربلا میں دلیری اور شجاعت کے کارہائے نمایاں سرانجام دیئے۔ ڈرپوک یزیدی افواج کے خلاف ایسا موقف اختیار کیا کہ دسیوں ہزار پر مشتمل یزیدی فوج پر ہیبت طاری ہوئی، اشقیاء میں ہلچل مچ گئی۔ ہزاروں لعینوں کی موجودگی میں تیروں، تلواروں اور نیزوں کے بیچ امام عالی مقام کا نماز جماعت قائم کرنا اور اس نماز کو انتہائی سکون، خضوع و خشوع بلا کسی خوف و ڈر کے ادا کرنا امام حسین ؑ کی شجاعت، جوانمردی اور دلیری کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔ تاریخ بشریت میں شجاعت اور بہادری کی ہوبہو مثال ماضی، حال اور مستقبل میں ملنا مشکل ہی نہیں محال ہے۔

نامور شیعہ و سنی مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ یزید ابن معاویہ لہو و لعب، فسق و فجور، ہوس پرست، شراب خور اور ڈھیر ساری برائیوں کا مظہر تھا۔ مشہور مورخ مسعودی نے ابو مخنف سے نقل کیا ہے کہ ”یزید کے دور حکومت میں مکے اور مدینے میں اس (یزید) کے کارندوں کے ذریعے سر عام فسق و فجور اور شراب خوری رواج پا چکی تھی۔“(مسعودی، ج 3 ص 68)۔ یزید لعین کے متعلق عبد اللہ بن عمر سے منقول ہے، فرماتے ہیں کہ ”میں اسکی بیعت کروں جو بندروں اور کتوں سے کھیلتا ہے، شراب پیتا ہے اور کھلم کھلا فسق کرتا ہے؟ خدا کے نزدیک ہمارا کیا بہانہ ہے۔؟“ (یعقوبی ج 2 ص 160)۔ عبداللہ بن عباس نے مکہ میں کہا: تم انکے پاس جا رہے ہو، جنہوں نے آپ کے والد کو قتل کیا اور آپ کے بھائی کو زخمی کیا۔ یقیناً وہ آپ کے ساتھ بھی ایسا ہی کریں گے، لہذا آپ مکہ میں ہی قیام کریں۔"(الاخبار الطوال ص244)

اپنے دور میں یزید پلید نے عدل و انصاف کے بجائے ظلم و زیادتی، فسق و فجور، عیاشی، بدمعاشی، بدعنوانی، فساد، شراب خوری، زنا، لہو و لعب، جھوٹ، لوٹ اور دیگر برائیوں کو عروج بخشا۔ انسانی اقدار کو پامال کیا، اسلامی اصول و قوانین کی کھلے عام دھجیاں اڑا کر حق و باطل کی آمیزش کی۔ دین محمدی میں رسومات بد اور بدعات کو جنم دے کر اس کا چہرہ مسخ کر دیا تھا۔ مسلمان ان تمام برائیوں اور بدیوں کا اپنی بدنصیب آنکھوں سے نظارہ کرتے رہے۔ دین نبوی یزید کے ہتھکنڈوں اور حربوں سے پامال ہو رہا تھا، لیکن رسول اسلام سے محبت کے دعویدار بڑے بڑے علماء، محدثین، مورخین، نام نہاد شجاع اور دلیر مسلمان چپ سادھ لئے خاموش تماشائی بنے بیٹھے تھے۔ حق چھپانے اور خالص دین میں باطل کی آمیزش کے خاطر بنو امیہ نے بیت المال سے کثیر تعداد میں مال خرچ کیا۔ مال و زر، درہم و دینار اور منصب کا لالچ دے کر حق چھپوایا۔ حریص اور مفاد پرست لوگوں نے نفسانی خواہشات کے خاطر دین و ایمان کا سودا کرکے یزید پلید کے ساتھ سمجھوتہ کیا۔ حق پر پردہ پوشی کرکے اپنی ذلت اور مردہ ضمیری کا ثبوت پیش کرکے رسول اسلام کو دھوکہ دیا۔

ایسی حالت میں منحرف معاشرے کو صحیح ڈگر پر واپس لانے کی ضرورت تھی، حالات قربانیوں کا تقاضا کر رہے تھے، قربانیاں پیش کرنے کے خاطر کوئی آمادہ نہیں تھا، ڈر اور خوف کا ماحول تھا، تیروں اور تلواروں کی آوازیں گونج رہی تھیں۔ اسلام کے ٹھیکہ داروں نے سر پر چادر اوڑھ کر خراٹیں لینے شروع کر دیئے تو امام عالی مقام اٹھ کھڑے ہوئے، اپنے باوفا رفقاء، اہل و عیال کے ہمراہ، جس نے یزید پلید کے ان مذموم اقدامات کے خلاف بڑی بہادری اور دلیری سے قیام کا اعلان کیا۔ قیام حسین ؑکوئی حادثاتی یا اتفاقی قیام نہیں تھا، یہ قیام خالص الٰہی قیام تھا، جب سے یزید ابن معاویہ غاصبانہ جابرانہ اور ظالمانہ طریقے سے تخت اسلامی پر براجمان ہوا۔ بالکل اسی وقت، اسی لمحہ امام عالی مقام نے اس ظلم و جبر اور غاصبیت کے خلاف آواز اٹھائی، احیائے دین اور بقائے دین کے خاطر یزید سے لڑنا بہتر سمجھا۔

مستحکم و مصمم ارادہ کے ساتھ مدینہ سے باضابطہ یزیدیت کے منحوس نظام کے خلاف تحریک کا آغاز کیا۔ مدینہ سے نکلتے وقت جب لوگ (جو امام عالی مقام کی معرفت سے بے بہرہ تھے) امام کو یزید کے خلاف قیام نہ کرنے کی تجویزیں دے رہے تھے۔ روایت میں ہے کہ عبد اللہ بن مطیع کے کنواں کھودنے کے وقت جب حضرت امام حسینؑ کی اس سے ملاقات ہوئی تو اس نے امام عالی مقام سے کہا: میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، کہاں جانے کا ارادہ ہے۔؟ امام حسین علیہ السلام نے جواب دیا مکے کا تو اس نے کہا کہ آپ اس سفر پہ مت جائیں۔ (ابن عساکر، ترجمہ الامام حسین، ص1) یہاں تک کہ محمد ابن حنفیہ نے امام عالی مقامؑ کو کچھ مشورے دیئے، جن میں سے ایک یہ بھی تھا کہ آپ مکہ میں پناہ لیں، اگر مکہ محفوظ نہیں تو یمن چلے جائیں، (یعنی اپنی جان بچائیں) لیکن قیام امام حسین ؑ ایک شجاعانہ، مستحکم اور مصمم ارادہ والا قیام تھا۔ امام عالی مقام نے اپنے بھائی حضرت محمد حنفیہ کو فرمایا کہ اگرچہ آپ کے مشورے برادرانہ مشورے اور آپ کی تجاویز مخلصانہ تجاویز ہیں، لیکن حسین ؑ پناہ گاہ نہیں چاہتا ہے بلکہ حسینؑ دین محمدی کو پناہ دینے جا رہا ہے۔

قافلہ حسینی ؑ کا ایک ایک فرد شہادت کے لیے آمادہ تھا۔ اتنا آمادہ تھے کہ شہادت کو شہد سے شیرین سمجھنے لگے۔ میدان کربلا میں 13 سالہ شہزادے حضرت قاسم ابن حسنؑ نے اپنے چچا امام عالی مقام سے پوچھا ”چچا جان کیا میں بھی شہید ہوں گا۔؟" امام حسین ؑ نے پوچھا: تم موت کو کیسے دیکھتے ہو؟ شہزادہ قاسم ؑ نے جواب دیا ”چچا جان، موت میرے لیے شہد سے میٹھی ہے۔“ وہاب کلبی(جو صرف 17 دنوں کا دولہا تھا)، جب عصر عاشور شہید ہوا تو اشقیاء نے ان کا سر مبارک وہاب کلبی کی مادر گرامی کی طرف پھینکا تو انہوں نے واپس پھینک کر کہا کہ ہم راہ خدا میں قربان کرنے والے کو واپس نہیں لے رہے ہیں۔ شب عاشور امام حسین نے چراغ بجھا کر اپنے ساتھیوں کو فرمایا کہ جو جانا چاہتے ہو چلے جاو، تمہاری جانیں قیمتی ہیں، آپ چلے جاو، اگر کوئی جانا چاہتا ہے، ہمیں کل اسلام پر قربان ہونا ہے۔ لیکن ساتھیوں نے جانے سے انکار کر دیا اور امام عالی مقام کے رقاب میں شہادت کی خواہش کی۔

خیمہ حسینی ؑ میں جذبہ جہاد اور شوق شہادت کا یہ عالم تھا کہ ہر کوئی اذن جہاد کے لیے تڑپ رہا تھا۔ دین محمدی کے احیاء کے لیے اور اپنے آقا پر جان قربان کرنے کے خاطر ایک دوسرے پر سبقت لے رہے تھے۔ تحریک کربلا کا جائزہ لیتے ہوئے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ واقعہ کربلا کوئی حادثہ نہیں تھا بلکہ کربلا باطل کے خلاف جنگ کا مصمم اور محکم ارادہ تھا۔ بعض ایمان فروش، ناداں و جاہل ملا، کرائے کے مصنفین اور مورخین قیام حسینی ؑ کو دو شہزادوں کی جنگ، کرسی کی جنگ، قبیلہ کی جنگ، حکومت سے ٹکراو اور حادثہ قرار دیتے ہیں۔ لیکن امام عالی مقام ؑنے محمد حنفیہ کے نام اپنی وصیت میں واضح الفاظ میں فرمایا کہ میں ”طغیانی و سرکشی، عداوت، فساد کرنے اور ظلم کرنے کے لیے مدینہ سے نہیں نکلا، میں فقط اور فقط اپنے نانا (حضرت محمد مصطفیٰ) کی امت کی اصلاح کرنے کے لیے نکلا ہوں، میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا چاہتا ہوں اور میں اپنے نانا اور اپنے والد علی ابن ابی طالب ؑکی سیرت پر عمل کرنا چاہتا ہوں۔

کربلا کے تپتے ریگزار میں امام عالی مقام نے بلا تفریق مذہب و مسلک انسانی اقدار اور عوامی حقوق کے تحفظ کے لیے خندہ پیشانی سے شہادت کا استقبال کیا۔ جابر و فاسق یزید پلید کی بیعت کا دوٹوک الفاظ میں انکار کرکے کلمہ حق کو سربلند کیا۔ امام عالی مقام نے ظلم و زیادتی کے اس ماحول میں بلا کسی خوف و ڈر کے اطمینان قلب سے فرمایا کہ ”میں موت کو سعادت کے علاوہ اور کچھ نہیں دیکھتا اور ظالموں کے ساتھ زندگی بسر کرنا ذلت کے علاوہ اور کچھ نہیں۔“ امام عالی مقام نے محکم و مصمم ارادہ، ہمت و شجاعت، عزم و استقلال کے ساتھ میدان کارزار میں قدم رکھا، اذیت ناک اور دلسوز مصائب و سختیوں کے آگے کبھی جھکنے، بکنے اور تھکنے کا نام تک بھی نہ لیا۔ امام نے واضح کر دیا کہ اہل حق سر کٹا سکتے ہیں لیکن باطل کے آگے سر جھکا نہیں سکتے۔ اپنی لازوال قربانیوں کے ذریعے انسانیت کے پرچم کو بلند کیا اور امت مسلمہ بلکہ عالم انسانیت کو عظیم الشان فتح و نصرت سے ہمکنار کیا۔

61 ہجری عاشور کے دن قیام امام حسین ؑکا اختتام نہیں ہوا بلکہ میدان کارزار میں امام عالی مقام ؑ نے اس تحریک کو اپنے خون مقدس سے سینچتے ہوئے بام عروج تک پہنچایا، جس کی شعائیں کائنات کے ذرے ذرے پر پڑ گئیں۔ یزید لعین، شمر ابن ذی الجوشن، عمر سعد، ابن زیاد،خولی اور دیگر دسیوں ہزار یزیدی افواج کی ہلاکت کے بعد بھی اس تحریک نے رکنے کا نام تک نہ لیا بلکہ اس تحریک نے گذشتہ چودہ صدیوں سے حسینی ؑ جوان، حسینی لیڈر، حسینی ؑ ملت پیدا کرکے یزیدیت، شمریت، عمریت اور خولیت کو ہر محاذ پر ناکام و نامراد کر دیا۔ عاشورا کی یہ تحریک امت اسلامیہ کے لیے کسوٹی بن گئی، جس نے وقتاً فوقتاً امت محمدی کے دعویداروں کو پرکھا۔ حسینیت ؑکی صحیح پہچان کروائی اور طاغوتیت، فرعونیت، نمرودیت اور یزیدیت کو ہر دور میں بے نقاب کر دیا۔ محمد علی جوہر نے اس کو عمدہ پیرائے میں بیان کیا ہے:
قتل حسین ؑ اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

کربلا عالم بشریت کے لیے لازوال دانشگاہ بنا، عاشورا ملت ِخوددار اور بیدار کے لیے ہدف اور مقصد بنا، ظالم کی ہلاکت، ظلم کا خاتمہ اور مظلوم کی سرفرازی کا باعث بنا۔ تاریخ بشریت میں سفر کربلا کا ایک ایک لمحہ عالم انسانیت کے لیے در نایاب کی حیثیت رکھتا ہے۔ آج سامراجی اور طاغوتی قوتیں اگر کسی چیز سے خوفزدہ ہیں تو وہ صرف اور صرف عزاداری اور پیروی امام حسین علیہ السلام ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ حقیقی عزاداروں نے سامراجی قوتوں بالخصوص امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل کو بغیر کسی ساز و سامان کے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔ امام خمینی ؑ مقام معظم رہبری، سید حسن نصر اللہ، شیخ ابراہیم زکزکی، آیت اللہ باقر نمر النمر، شیخ عیسیٰ قاسم اور شہید قاسم سلیمانی جیسے عزاداران امام حسین ؑ نے امام عالی مقام کی سیرت پر عمل پیرا ہوکر دنیا کے خطرناک سپر پاور طاقتوں کا غرور چکنا چور کر دیا، چوراہے پر سامراج کی ناک رگڑ کر اسلام و مسلمین کی فتح و نصرت کا جھنڈا گاڑ دیا۔

بدنصیبی یہ ہے کہ ملت اسلامیہ معرفت امام حسین ؑسے تاحال بے بہرہ ہے۔ عالم اسلام میں امام عالی مقام کو ایک مخصوص مکتب فکر کے ساتھ منصوب کیا گیا ہے۔ حد درجہ افسوس اس بات کا کہ چند مفاد پرست، جاہل و ناداں ملا نما افراد آج بھی اسلامی لبادہ اوڑھ کر یزید لعین کی وکالت کرکے اس ملعون کو بے گناہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش میں لگے ہوئے ہیں اور ہماری ملت مرحومہ نے بھی شہادت عظمیٰ کو مرثیہ خوانی اور نوحہ سرائی کے دائرے تک محدود رکھا ہے، جبکہ شہادت کے اصل اہداف و مقاصد سے روگردانی اختیار کی جا رہی ہے۔ اگرچہ عزاداری امام حسین ؑلازمی امر ہے، لیکن یہ عزاداری واقعی عزاداری ہونی چاہیئے۔ یہ عزاداری باعث بنے کہ مردہ ضمیر بیدار ہو جائیں۔ نہ فقط یزید ابن معاویہ بلکہ ہر دور کے یزید اور یزیدیت کے خلاف نفرت و بیزاری کا اعلان ہونا چاہیئے اور اس نفرت کو عملی جامہ بھی پہنایا جائے۔ امام عالی مقام کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے صرف عزاداری کافی نہیں بلکہ امام عالی مقام کی سیرت کو اپنی زندگی میں عملی جامہ پہنانا انتہائی ضروری ہے، اپنے اندر کردار حسینی ؑ اور افکار حسینی ؑکے جذبات کو جگانا ہے، تاکہ یزیدی کردار کا مقابلہ کیا جائے، یہی طریقہ امام حسین کے تئیں بہترین خراج عقیدت ہے۔

اگر ملت اسلامیہ امام عالی مقام حضرت امام حسین ؑکی سیرت پر عمل پیرا ہو جائے، ”ہیہات من الذلہ“ کو اپنا شعار بنائے، اپنے اندر شعور و بیداری کا جذبہ پیدا کرے تو شہادت امام حسینؑ کے اصل مقاصد تک رسائی حاصل ہوگی اور ظلم و زیادتی کا بآسانی سے مقابلہ کیا جاسکتا۔ ورنہ روایتی عزاداری بے معنی اور لاحاصل عمل ہے۔ امام عالی مقامؑ بھی روایتی عزاداری اور روایتی عزاداروں سے خوشنود نہیں ہوں گے۔ الغرض کربلا عظیم الشان درسگاہ ہے، اس درسگاہ سے فیض حاصل کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔۔۔ بقول جوش ملیح آبادی:
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین

یمنی مزاحمتی تحریک انصاراللہ کے سربراہ سید عبدالملک بدرالدین الحوثی نے عاشورائے محرم الحرام کی مناسبت سے ہونے والے اپنے خطاب کے دوران اسرائیل-امارات دوستی معاہدے سمیت غاصب صیہونی رژیم اسرائیل کے ساتھ ہر قسم کے تعلقات کی استواری کی شدید مذمت کی ہے۔ سید عبدالملک بدرالدین الحوثی نے آج بعض مسلم ممالک کی موجودہ صورتحال کو بنی امیہ کے دور حکومت میں موجود حالات کے جیسا قرار دیا اور کہا کہ اسلامی دنیا کے اندر "اُموی باغیوں" کا اثر 

ایسی خطرناک حد تک بڑھ گیا تھا کہ امتِ مسلمہ کے سپوتوں کے درمیان ذہنی شکست، ذلت، غیر ذمہ داری اور لاتعلقی نے ڈیرے ڈال لئے تھے۔

انصاراللہ یمن کے سربراہ نے حضرت امام حسین علیہ السلام کی تحریک کو اصلی اسلام قرار دیتے ہوئے کہا کہ اُموی حکام چاہتے تھے کہ اسلام ایک ایسے دین میں بدل جائے، جس کے اندر کوئی حق بحال نہ رہے، باطل کو ناجائز قرار نہ دیا جائے، عدالت برقرار نہ ہو، (مسلمانوں کی) زندگی میں کوئی منصوبہ بندی باقی نہ رہے اور نہ ہی امتِ مسلمہ کی تشکیل 

میں کوئی کردار ادا کیا جا سکے۔ سید عبدالملک بدرالدین الحوثی نے کہا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت امام حسین علیہ السلام کی کوششوں، جانثاری اور ان کے باوفا اصحاب کی قربانی کے ذریعے نہ صرف اصلی اسلام کی بقاء کو محفوظ بنا دیا بلکہ اس کے ذریعے (حسینیوں کی) گفتار و کردار کے اندر حقانیت کو بھی تسلسل بخش دیا۔

انہوں نے اپنے خطاب کے دوران یمن کی موجودہ صورتحال کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یمنی عوام آج کے یزید "امریکہ و اسرائیل" کی غنڈہ گردی اور 

بدمعاشی کے سامنے ہرگز گھٹنے نہیں ٹیکیں گے۔ انہوں نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ یمن کی آزاد عوام، "امتِ مسلمہ کے اندر موجود منافقت کے اس گڑھ" کے ساتھ شامل ہونے کے شدید خلاف ہے، جس کی نمائندہ "سعودی و اماراتی" حکومتیں ہیں۔ انہوں نے حضرت امام حسین علیہ السلام کے رَستے کو حقیقی اسلام کا تسلسل قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ رَستہ امتِ مسلمہ کے لئے امن و امان، آزادی اور دشمن کے دبدبے و پیروی سے نجات کا ضامن ہے۔

انصاراللہ یمن کے سربراہ نے مزید کہا 

کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے روز یمنی قوم نے یہ قطعی فیصلہ کر لیا ہے کہ امریکہ، سعودی عرب اور امارات کے حملوں و جارحیت کی بھرپور طریقے سے مذمت اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتے ہوئے اس جارحیت کے مقابلے میں کسی بھی کوشش سے دریغ نہیں کرے گی۔ سید عبدالملک الحوثی نے کہا کہ فلسطینی امنگوں اور غاصب صیہونی رژیم و امریکہ کی مخالفت سمیت امتِ مسلمہ کے جاری مسائل کے بارے یمنی قوم کا موقف مستقل اور ناقابل تغیّر ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ لبنانی، 

شامی، عراقی، بحرینی اور ایرانی عوام سمیت برما، کشمیر اور دنیا کے تمام مقامات پر بسنے والے مسلمانوں کے بارے یمن کا موقف کبھی نہیں بدلے گا کیونکہ یہ موقف ہمارے دینی عقیدے کا ایک اہم جزو ہے۔ انہوں نے متحدہ عرب امارات کی جانب سے غاصب و بچوں کی قاتل صیہونی رژیم کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی استواری کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ہم اسرائیل کے ساتھ ہر قسم کے تعلقات کی استواری کی نہ صرف شدید مذمت کرتے ہیں بلکہ اسے شرعی طور پر بھی حرام جانتے ہیں۔

Tuesday, 01 September 2020 07:42

بِنائے لا الہ است حسین ؑ

تحریر: مظہر حسین ہاشمی

اِسلام کی تاریخ کا بغور مطالعہ کیا جائے تو اِسلام کا بچپن جناب ِابو طالب ؑ کی گود میں بہلتا نظر آئے گا، اِسلام کی جوانی رحمۃ اللعالمین کے دامن کی چھاﺅں تلے آرام کرتی نظر آئے گی اور اِسلام کا بڑھاپا مولا علی ؑکے طاقتور بازوﺅں کے آنگن میں سانس لیتا نظر آئے گا۔ لیکن ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اِسلام کو خود کو بچانے کیلئے حسین ؑجیسے لجپال کا سہارا اور پناہ لینا پڑی۔ حسین مولا کی زندگی پر طائرانہ نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ 8 جنوری 626ء بدھ کی صبح، خاتون ِجنت فاطمہ زہراؑ کی آغوش طاہرہ میں تشریف لائے۔ نانا رسول کی زُبان ِمبارک چوس چوس کر علم لدّنی کے وارث بنتے رہے۔ بابا علی ؑکی گود میں بیٹھ کر درس ِتوحید لیتے رہے۔ حبش کی شہزادی اماں فضہ ؓکے ہاتھوں جھولا جھولتے ہوئے لوری کی شکل میں ناطق قران ہوکر صامت قران کی تلاوت سنتے رہے۔ 627ء میں جنگ ِخندق میں نانا رسول کو نہ صرف یہ کہتے سنا کہ "قَد بَرَزَالِایمَان کلِّہ اِلَی الکُفرِکُلِّہ" (باتحقیق کل ِایمان، کل ِکفر کے مقابلے میں جا رہا ہے) بلکہ بابا علی ؑ کے ہاتھوں عمرو ابن ِعبدود کی گردن ہوا میں بھی اُڑتے ہوئے دیکھی۔

628ء میں جنگ خیبر میں ایک ہزار آدمیوں سے اکیلے لڑنے والے اور 39 دن تک مسلمانوں کو ڈرا کر مار بھگانے والے پہلوان مرحب و عنتر کو اپنے بابا کی ذوالفقار سے دو ٹکڑے ہوتے ہوئے بھی دیکھا۔ 630ء میں فتح مکہ کے دن اسلام کے ازلی دشمنوں کو نانا رسول اور بابا علی ؑکے سامنے سر جھکائے کھڑا دیکھا اور جب چلنا شروع کیا تو 631ء میں نجران کے عیسائیوں سے مباہلہ کرنے، جھوٹوں پر لعنت کرنے  اور نانا رسول کی صداقت و رسالت کی گواہی دینے کیلئے اپنی طاہرہ ماں، ابو تراب بابا اور عظیم بھائی امام حسن ؑکے ساتھ نانا کی انگلی پکڑ کر گئے۔ کبھی اللہ کے صادق رسول کی زُبان ِمبارک سے حُسَینُ مِنّی وَاَنَا مِنَ الحسَین (حسین مجھ سے ہے اور مَیں حسین سے ہوں) جیسی فضیلت سنی، تو کبھی اَلحَسَنُ وَالحُسَین سَیَّدہ شَبَابِِ اَہلَ الجنّہ (حسن اور حسین جوانان جنت کے سردار ہیں) کی بشارت سنی۔ کبھی جبریل ِامین ؑکو فطرس کے ساتھ اُس کا سفارشی بن کر آتے ہوئے دیکھا تو کبھی درزی بن کر جنت سے عید کے کپڑے لے کر آتے ہوئے دیکھا۔

632ء میں پنجتن پاک کے پانچویں بن کر زیر ِکساء آیہ تطہیر کے مصداق بنے۔ چند ماہ بعد میدان ِخم ِغدیر پر سوا لاکھ کے حاجیوں کے مجمع میں اپنے بابا علی ؑکا بازو نانا رسول کے ہاتھ میں نہ صرف بلند ہوتے ہوئے دیکھا بلکہ مَن کُنتُ مَولَاہُ فَھَذَا عَلی مَولَاہ (جس کا مَیں مولا ہوں، اُس کا علی مولا ہے) کا اعلان بھی سنا اور بَخِن بَخِن (مبارک مبارک) کی آوازیں بھی بلند ہوتے ہوئے سنیں۔ پھر دو ماہ بعد 25 مئی 632ء کو اپنے شفیق نانا کی رحلت کا کبھی نہ بھلا سکنے والا غم بھی روتی آنکھوں سے دیکھا۔ وہ کریم نانا جو اپنی واللیل زلفیں ننھے ہاتھوں میں پکڑا کر سواری بن جاتے تھے، وہ شفیق نانا جو حسین ؑکو گرتا دیکھ کر مسجد نبوی کے منبر پر خطبہ دینا بھول جاتے تھے، وہ نمازی نانا جو نماز کے سجدہ میں 70 دفعہ سُبحَانَ رَبّ الاَعلیٰ پڑھنا تو گوارا کر لیتے تھے، لیکن حسین ؑکو اپنی پشت سے اُٹھانا پسند نہیں کرتے تھے۔

آپ نے اپنے بچپنے کے سات سال اپنے کریم نانا کی شفقت و محبت کے سائے میں گزارے۔ وہ رحمۃ اللعالمین نانا اب آپ کو اپنی اُمت کے رحم و کرم پر چھوڑ کر داغ مفارقت دے گئے۔ ابھی نانا کو گئے عرصہ ہی کیا گزرا تھا کہ معصوم روتی آنکھوں سے اُس دروازے کو نہ صرف آگ لگتے دیکھا بلکہ اُس دروازے کو اپنی ماں زہراؑ کے پہلو پہ گرتے اور چھوٹے بھائی محسن کو ماں کے پیٹ میں شہید ہوتے بھی دیکھا۔ جس دروازے پر نانا رسول رُک کر آیہ تطہیر پڑھا کرتے تھے، جس پر سردارِ ملائکہ جبرائیل ؑاور ملک الموت عزرائیل ؑبھی اجازت لے کر آتے تھے، اُس عظیم اور مقدس گھر پر نہ صرف یلغار کی گئی بلکہ اپنے مولائے کائنات بابا اور سیدة النساء العالمین ماں پر ظلم و ناانصافی کے بادل بھی برستے ہوئے دیکھے۔ بقول شبنم شکیل
جس کی خاطر سے بنائی گئی دُنیا ساری
اہلِ دُنیا سے وہی گھر، نہیں دیکھا جاتا

حسین ؑمولا کو بچپن میں ہی سمجھ آگئی کہ سقیفہ میں کربلا کی پہلی اینٹ رکھ دی گئی ہے۔ ابھی یہ غم تازہ تھا کہ سات سال کی عمر میں 26 اگست 632ء کو سب سے محبوب ہستی اور پناہ گاہ، اماں فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی جدائی کا سامنا کرنا پڑا۔ حسین مولاؑ کے کانوں میں اپنی ماں کے وہ الفاظ گونج رہے تھے کہ ثُبّت عَلَیّ مَصَائِب لَو اَنّہَاثُبّت عَلَی الاَیّامِ صِرنا لیا لیا۔۔۔۔۔۔۔ (جتنی مصیبتیں مجھ پر آئیں، اگر یہ روشن دنوں پر آتیں تو وہ تاریک راتوں میں تبدیل ہو جاتے)۔ اب نانا بھی نہ تھے کہ اُمتی ظاہراً لحاظ کرتے اور نہ ماں جیسی شفیق ممتا کہ پریشانی میں 7 سالہ معصوم حسین ؑکو دلاسا اور تسلی دیتی اور بابا علی ؑ ؑنے تو رسول ِپاک کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے صبر اور خاموشی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا تھا۔ 632ء سے لے کر 656ء تک یعنی 25 سال تک اپنے بابا علی ؑکے ساتھ خانہ نشین ہوکر زمانے کی سنگدلی کا جائزہ لیتے رہے۔

لیکن جب اور جہاں اسلام کو ضرورت پڑی، اپنے بابا علی ؑاور بھائی امام حسن ؑکے ساتھ مل کر اسلام اور مسلمانوں کی ہر ممکن مدد کرتے رہے۔ اِس گوشہ نشینی اور تنہائی کے دَور میں، گھر میں قرآن کی جمع آوری کا منظر بھی دیکھا اور گھر سے باہر چاہنے والوں پر مصائب کی یورش کو بھی دیکھا۔ جو اعلان نانا رسول نے بابا علی ؑکی خلافت کا 16 مارچ 632ء کو میدان ِخم میں کیا تھا، اُسے 25 سال بعد 17 جون 656ء میں بابا علی ؑکے ہاتھ پر بیعت کرنے والوں کے ہجوم کی شکل میں پورا ہوتے ہوئے بھی دیکھا۔ آپ ؑکے بابا نے ظاہری خلافت کو مسلمانوں کی بھلائی اور اِنصاف قائم کرنے کی خاطر قبول تو کر لیا، لیکن بہت سوں نے اِس خلافت ِراشدہ کو تسلیم نہ کیا۔ مختلف حیلے بہانوں سے برپا ہونے اور ایک سال تک جاری رہنے والی جنگ جمل کو نومبر 656ء سے نومبر 657ء تک میدان جنگ میں رہ کر فتح ہوتے دیکھا۔ ابھی جنگ جمل کی دُھول نہیں بیٹھی تھی کہ مارچ 657ء میں آپ ؑکو اپنے بھائیوں سمیت ابو یزید حاکم شام کی بغاوت کچلنے کیلئے بابا علی ؑکی کمان میں صفین آنا پڑا۔

اِس جنگ میں آپ ؑنے اپنے 12 سالہ چھوٹے بھائی عباس علمدارؑ کے ساتھ شامی باغیوں سے پانی کے گھاٹ پر قبضہ چھڑا کر سب کیلئے پانی بھرنے کا اعلان کیا۔ 110 روز تک جاری رہنے والی اِس جنگ میں لشکر شام کو چال بازی اور مکاری سے اپنی جان بچانے کیلئے قران مجید کو نیزوں پر اٹھائے اور حکمین مقرر کرتے ہوئے دیکھا۔ حکمین کے مہمل، لغو اور مکارانہ فیصلے کو جب مسترد کیا گیا تو پھر خارجیوں کے 18 ہزار افراد کو راہ راست پر لانے کیلئے مارچ 658ء میں آپ کو بابا علی کی قیادت میں نہروان بھی جانا پڑا۔ جس میں بابا علی ؑکے سمجھانے پر 6 ہزار خارجی گھروں کو لوٹ گئے لیکن 12 ہزار خارجیوں سے جنگ ہوئی اور صرف 9 خارجی زندہ بچے اور مولاؑ کی فوج میں سے صرف 9 جانثار شہید ہوئے۔ کچھ عرصہ بعد اپنے بابا علی ؑکے سپہ سالار مالک ِاشتر کو زہر ملے دودھ دہئے جانے اور 27 سالہ محمد ابن ابوبکر کی حاکم شام کے سفاکانہ حکم کی بنیاد پر گدھے کی کھال میں زندہ جلائے جانے کی اندوہ ناک خبریں بھی سنیں۔

پھر 28 جنوری 661ء کو نماز صبح کے سجدے میں اپنے بابا علی ؑ کو عبدالرحمن ابن ملجم کی زہر آلود تلوار سے زخمی ہوتے اور کامیابی کا یقینی دعویٰ کرتے ہوئے سنا فزت ورب الکعبہ، رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا اور ہاتف غیبی کی یہ اندوہناک ندا بھی سنی قَد قُتِلَ اَمِیرَ المُومِنِین۔۔۔۔۔ امیرالمومنین قتل کر دیئے گئے، ارکان ِہدایت گرا دیئے گئے۔ پھر ستمبر 661ء میں وقت کے امام اور بڑے بھائی امام حسن ؑ کو اسلام کی سربلندی اور اپنوں کی بیوفائی کی وجہ سے خلافت سے دستبردار ہوتے ہوئے دیکھا اور سب و شتم کی جو قبیح اور مسموم رَسم ابو یزید حاکم شام نے بابا علی ؑپر ملک شام سے شروع کی تھی، اُس مکروہ رسم کو 72 ہزار منبروں تک پھیلتے ہوئے بھی دیکھا اور ایک دن ایسا بھی آیا کہ آپ کو بچپن کے ساتھی اور غمخوار بھائی امام حسن ؑکو اُموی چال سے اُنہی کی بیوی جعدہ کے ہاتھوں 27 مارچ 670ء کو نہ صرف مسموم دیکھنا پڑا بلکہ کریم نانا کے ساتھ دفن کرنے کی وصیت کے بدلے میں جسد مبارک سے 70 تیر بھی نکالنے پڑے۔

ابو یزید سے دس سال تک تو بھائی امام حسن ؑکی امامت میں صلح نامے کا پاس رکھا اور بھائی امام حسن ؑکی شہادت کے بعد مزید دس سال یعنی 28 اپریل 680ء تک ابو یزید کی موت ہونے پر اُس عہد پر کار بند رہے۔ لیکن حالات نے ایکدم پلٹا کھایا اور امام ؑنے دیکھا کہ 632ء میں نانا رسول کی رحلت کے بعد بابا علی ؑسے جو بیعت کا مطالبہ کیا گیا تھا، وہی مطالبہ آج پھر 680ء میں ہو رہا تھا۔ حسین مولاؑ نے طے کر لیا تھا کہ جب مَیں نے پہلے اپنے بزرگوں کی روش سے علیحدگی اختیار نہیں کی تو آج علیحدگی کا کیا سوال پیدا ہوتا ہے۔ مجھے تو آج یہ ثابت کرنا ہے کہ مَیں امام بھائی کی صلح کے احترام میں خاموش تھا، ورنہ مجھ حسین ؑمیں نانا کا عزم، دادا کا حوصلہ، ہاشم کا خون اور عبدالمطلب کا جوش سلامت ہے۔
صبر زہراؑ کا تقاضا تھا جو اَب تک تھا خاموش
ورنہ پہلو میں دل ِحیدر کرار ؑبھی ہے

ابو یزید کا شرابی اور فاسد بیٹا یزید جب خلافت جیسے مقدس منبر پر متمکن ہوا تو 3 مئی 680ء کو اپنے والد کی وصیت کی روشنی میں مدینہ کے گورنر ولید بن عتبہ کے ذریعہ امام حسین ؑسے بیعت طلب کی۔ امام حسین ؑ نے مروان کے سامنے کہہ دیا "مِثلِی لَایبَایِعُ مِثلَ یَزِید"(مجھ جیسا یزید جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا)۔ آپ ؑنے اُسی روز اپنے نانا اور اماں زہراؑ کے مزارات ِمقدسہ سے مدینہ چھوڑنے کی اجازت طلب کی۔ جوانانِ بنی ہاشم اور مخدرات ِعصمت و طہارت کے ہمراہ 4 مئی 680ء کو مدینہ سے مکہ کی طرف عازم ِسفر ہوئے۔ 435 کلومیڑ کا فاصلہ طے کرکے چھٹے دن یعنی 9 مئی کو مکہ کی پرامن سرزمین پر پہنچے۔ عراق کے شہر کوفہ کی طرف سے ہزاروں کی تعداد میں حسین مولاؑ کو عراق بلانے کیلئے خط موصول ہونے شروع ہوگئے۔ (یاد رہے کہ 20 سال پہلے مولا علی ؑکی خلافت کا دارلخلافت کوفہ رہا تھا)۔ آپ ؑنے حالات کا جائزہ لینے کیلئے اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل ؑکو 19 جولائی 680ء کو کوفہ بھیجا۔ حسین مولاؑ کو عراق میں حالات اچھے ہیں، کی خبر دی گئی۔

پھر ستمبر میں حج کا موسم آگیا۔ آپ ؑنے حج کی نیت کی اور دورانِ حج آپ ؑکو معلوم ہوا کہ 30 یزیدی گماشتے حاجیوں کے لباس میں عمر بن سعد کی امارت میں آپ ؑکو قتل کرنے کے ارادے سے مکہ آچکے ہیں۔ آپ ؑنے حج کے احرام توڑ دیئے، تاکہ حرمت کعبہ پامال نہ ہو، لاکھوں کے مجمع میں اُموی چال کامیاب نہ ہوسکے اور قاتل زیر نقاب نہ چلے جائیں۔ آپ ؑ 9 ستمبر 680ء کو عراق کی طرف راہی سفر ہوئے۔ آپ ؑکو پانچویں منزل زابلہ پر 10 ستمبر کو مسلم بن عقیل ؑکی شہادت کی خبر سنی، کیونکہ کوفہ میں مسلمان تو بہت تھے لیکن مسلم ایک تھا۔ آپ بہت رنجیدہ ہوئے لیکن بحکم خدا اپنا سفر جاری رکھا۔ نویں منزل ذوحسم پر یزید کے ایک ہزار فوجیوں نے حر بن یزید ریاحی کی قیادت میں آپ ؑ کا راستہ روکا، لیکن آپ ؑچلتے رہے اور 2 اکتوبر کو چودہویں منزل کرب و بلا پہنچے۔ آپ ؑنے وہیں پر خیمے لگانے کا حکم دیا۔

شامی اور کوفی فوجوں کی آمد شروع ہوئی۔ عمر بن سعد آئے، شمر بن ذی الجوشن پہنچے۔ 7 اکتوبر کو پانی بند کر دیا گیا اور 9 اکتوبر کو کم سے کم 30 ہزار فوجِ یزید و ابن ِزیاد نے جنگ کا طبل بجا دیا۔ حسین مولاؑ نے اپنے اور جانثاران کیلئے عبادت ِخدا کی خاطر ایک دن کی مہلت لے کر یزیدی فوج کو ایک دن مزید سوچ لینے کی مہلت دی کہ اب بھی جہنم کا ایندھن بننے سے بچ سکتے ہو تو بچ جاﺅ، کیونکہ جوانانِ جنت کے دو سرداروں میں سے ایک سردار مَیں خود ہوں۔ لیکن عقل کے اندھوں اور ناعاقبت اندیشوں پر اِس نصیحت کا کوئی اثر نہ ہوا، سوائے حر بن یزید ریاحی اور اُس کے گھر والوں کے جو معافی کے بعد جنت کے حقدار ٹھہرے۔ 10 اکتوبر کو مختلف مراحل میں جنگ ہوتی رہی، کچھ اصحابؓ صبح کی نماز کے وقت، کچھ ظہر کی نماز اور باقی اصحاب ؓاور بنو ہاشم ؑایک ایک کرکے دادِ شجاعت دیتے ہوئے اِسلام پر قربان ہوتے رہے۔

آخر میں 6 ماہ کے علی اصغر ؑکو بابا کے ہاتھوں پر حرملہ کا تیر سیراب کر گیا۔ خیام میں آخری سلام کرکے آپ ؑ میدان ِجنگ میں آئے، حملے پہ حملہ کیا۔ تھوڑی دیر میں زمین ِکربلا میں بھونچال آیا اور آواز بلند ہوئی اَلَا قُتِلَ الحُسَینِ بِکَربَلا، اَلَاذبح الحُسَین بِکربلا۔۔۔ حسین ؑکربلا میں قتل ہوگئے، حسین ؑکربلا میں ذبح ہوگئے۔۔۔۔۔ حسین مولا ؑ 626ء سے 680ء تک اپنے کریم اور شفیق نانا کی حدیث حُسینُ مِنی (حسین ؑمجھ سے ہے) کا عملی نمونہ بن کر رہے اور 680ء کے بعد وَاَنَامِنَ الحُسَین(اور مَیں حسین ؑسے ہوں) کی عملی تفسیر بن گئے۔ امام ِوقت نے اسلام اور انسانیت کو اپنے، نوجوانانِ بنو ہاشم اور اصحاب باوفا کے مقدس خون سے ایسا آبِ حیات پلا دیا کہ ہر باشعور اور غیرت مرد مسلمان اور انسان تاقیامت امام حسین ؑکا مشکور اور مقروض ہوگیا اور کائنات کے مظلوم، کمزور اور مستضعف انسان کو حریت اور آزادی کا ایسا انقلابی درس دے گئے کہ وہ اپنی ناتوانی اور کمزوری کو ایک طرف رکھ کر وقت کے یزید، اِبن ِزیاد، شمر اور مروان سے بے خوف و خطر ٹکرا رہے ہیں اور ٹکراتے رہیں گے۔
 
 
 
Thursday, 20 August 2020 20:13

اخلاقِ حسيني کے چند پہلو

امام حسين عليہ السلام کي غير معمولي شخصيت کے يوں تو بے شمار پہلو ہيں ليکن زيادہ توجہ آپٴ کي شجاعت اور قرباني نے اپني جانب مبذول کروالي ہے۔ اور اس کي وجہ واقعہ کربلا جيسا عظيم سانحہ ہے جو اپنے مقام پر اندوہگيں بھي ہے اور تاريخ ساز بھي۔اس واقعہ ميں جہاں غم کے بے شمار پہلو ہيں وہيں ايثار و قرباني، محبت و عقيدت، عشق و وفاداري، شجاعت و شہامت، صبر و استقامت کي لازوال داستانيں بھي نظر آتي ہيں۔

ليکن آپٴ کي زندگي کے ہر ہر مرحلے پر ايسے واقعات کثرت سے موجود ہيں جو اخلاق کي بلنديوں کي نشاندہي کرتے ہيں اور امام حسينٴ کي زندگي کے مزيد روشن پہلو ہمارے سامنے آجاتے ہيں۔ فاضل مصنف جناب محسن امين نے اس مختصر مضمون ميں امام حسين عليہ السلام کي زندگي سے چند واقعات کو يکجا کيا ہے، جسے نوجوان ديني طالب علم سيد طالب حيدر نے طاہرہ کے قارئين کے لئے ترجمہ کيا اور پھر مختصر وضاحت بھي کردي ہے جس کي وجہ سے اس مضمون کي تاثير ميں مزيد اضافہ ہوگيا ہے۔ انشائ اللہ ہم سب ان واقعات کو پڑھنے کے بعد جس حد تک ممکن ہو، ان پر عمل کرنے کي کوشش کريں گے۔

سخاوت حسيني
جود و سخاوت تمام انسانوں کے اندر فطري طور پر پائي جاتي ہے اور ہر فطري فضيلت کو انسان کي ذات ميں اجاگر کرنے کے لئے حضرت آدمٴ سے لے کر نبي خاتم ۰ اور پھر ائمہ معصومين نے بہت کوششيں کيں۔ اسي لئے ہم ديکھتے ہيں کہ جود و سخا کے بارے ميں معصومين کے اقوال کثرت سے ملتے ہيں اور انھوں نے عملي طور پر بھي سخاوت کے ايسے نمونے پيش کئے کہ اگر انسانيت اس فضيلت کي معراج کو ديکھنا چاہے تو اس کو مشکل نہيں ہوگي۔
اسامہ بن زيد نبي اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے منہ بولے بيٹے تھے اور آپکے بااعتماد ساتھيوں ميں ان کا شمار ہوتا تھا۔ ليکن حضور کي وفات کے بعد انہوں نے اہلبيت عليہم السلام کي کماحقہ حمايت نہ کي اور امير المومنين کي خلافت کے دوران ہونے والي جنگوں ميں بھي حمايت کي اور نہ مخالفت۔ ايسے پُرآشوب ماحول ميں بھي جب وہ مريض ہوتے ہيں تو امام حسين ان کي عيادت کو جاتے ہيں۔ اسامہ نے آپٴ کے سامنے سخت پريشاني کا اظہار کيا۔ امام عليہ السلام نے وجہ پوچھي تو بتايا کہ ميں چھ ہزار درہم کا مقروض ہوں۔
امام حسين نے اسے تسلي دي کہ ميں تمہارا قرض اتار دوں گا۔ ليکن اسامہ کي پريشاني دور نہ ہوئي اور انہوں نے کہا کہ مجھے ڈر ہے کہ قرض کي ادائيگي سے پہلے ميري موت نہ واقع ہو جائے۔
چنانچہ امام نے فرمايا کہ اس سے پہلے کہ تيري موت واقع ہو، ميں تيرا قرض اتار دوں گا۔ پھر امام حسين نے اسامہ کي موت سے پہلے اس کا قرض ادا کرديا۔

ہر ايک کے ساتھ ہمدردي
سنت نبوي اور سيرتِ اہلبيت يہي رہي ہے کہ جب کوئي غريب اپنے حالات سے مجبور ہوکر ہاتھ پھيلائے تو يہ ديکھے بغير کہ وہ اپنا ہے يا پرايا، اس کي مدد کي جائے۔ اس تجزيے کي مزيد تشريح مندرجہ ذيل واقعہ سے اور واضح ہوجائے گي۔
جب مروان نے حکم ديا کہ فرزدق کو مدينہ سے نکال ديا جائے تو وہ امام حسين کي خدمت ميں حاضر ہوا اور آپٴ نے اس کو ٤٠٠ دينار عطا کئے۔ کسي نے پوچھا کہ ايک فاسق شاعر کو اتني عطا کيوں کر رہے ہيں تو امامٴ نے جواب ديا کہ ''بہترين بخشش وہ مال ہے کہ جس سے آبرو محفوظ رہے‘‘۔
يعني اگر آپ نے کسي شخص کي آبرو کو محفوظ کرديا تو يہ جان ليجئے کہ زندگي بھر اس کے دل ميں بھي آپ کے لئے عزت و احترام موجود رہے گا۔ اس سلسلے ميں يہ نکتہ بہت اہم ہے کہ سنتِ نبوي اور سيرتِ اہلبيتٴ سے يہ تاثر ملتا ہے کہ انھوں نے شعرا ئ کے ساتھ خصوصاً بہت کريمانہ رويہ رکھا ہے اور اس کي وجہ يہ سمجھ ميں آتي ہے کہ اشعار انسان کے جذبات اور احساسات پر بہت اثر انداز ہوتے ہيں اور کسي شاعر کا ايک شعر کسي خاص واقعہ کي ياد تازہ کرنے کے لئے شايد ايک ضخيم کتاب سے زيادہ موثر واقع ہو جائے۔

استاد کي اہميت
استاد کي اہميت اور اس کو روحاني باپ کا درجہ دينا سنتِ نبوي اور سيرتِ اہلبيت ميں بہت واضح طور پر نظر آتا ہے۔ علم حاصل کرنے کي جتني تاکيد دينِ اسلام ميں کي گئي ہے شايد ہي کسي اور دين و مکتب ميں کي گئي ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ علم حاصل کرنے کے آداب بھي تفصيل سے بيان کئے گئے ہيں چنانچہ استاد کي عزت و احترام بھي آداب تعليم و تعلم کا ايک اہم حصہ ہے۔ مندرجہ ذيل واقعہ اس پہلو کي بہترين نشاندہي کرتا ہے۔
ابو عبدالرحمن عبداللہ بن حبيب سلمي نے امام حسين کے ايک فرزند کو سورہ جمعہ پڑھنا سکھائي۔ جب بچے نے امامٴ کے سامنے سورۃ کي تلاوت کي تو آپٴ نے ابو عبد الرحمن کو ايک ہزار دينار اور ايک ہزار نئے لباس عطا کئے اور اس کے منہ کو موتيوں سے بھر ديا۔
جب کسي نے بخشش کي کثرت کي وجہ پوچھي تو امام نے فرمايا: ''جو ميں نے اس کو عطا کيا ہے، وہ اس کے کام کے مقابلہ ميں (يعني سورہ جمعہ کي کي تعليم کے مقابلہ ميں) بہت معمولي ہے۔‘‘

نيکي کا بدلہ اس سے بہتر
اسلام نے انسانيت کي فطري فضيلتوں کو پروان چڑھانے کے لئے حالات سازگار بنانے کي کوشش کي ہے۔ اس کا ايک طريقہ يہ ہے کہ دوسرے سے محبت کي جائے اور اس کے ساتھ نيکي اور احسان کے پہلو کو مزيد تقويت ديا جائے۔ مندرجہ ذيل واقعہ بھرپور طريقے سے ہم سب کو ايک دوسرے سے محبت اور احسان کرنے کي طرف دعوت دے رہا ہے۔
ايک روز امام حسين کي ايک کنيز نے آپٴ کي خدمت ميں ايک گلدستہ پيش کيا۔ امام نے جواب ميں اس کو راہِ خدا ميں آزاد کرديا۔ کسي نے سوال کيا کہ ايک چھوٹے سے گلدستہ کے بدلے ميں آپ نے کنيز کو آزاد کر ديا تو امامٴ نے فرمايا: ''يہ طريقہ خدا نے ہم کو سکھايا ہے۔‘‘ يعني جب تمہيں کوئي سلام کرے تو اس سے بہتر طريقے سے يا کم از کم اسي کے برابر جواب دو۔ (سورہ نسائ ¬٨٦) ''اور اس کنيز کے لئے بہترين تحفہ اس کي آزادي تھي‘

عالم اور جاہل ميں فرق
خدا نے بعض نعمتوں کو تمام انسانوں کے درميان يکساں طور پر تقسيم کيا ہے جيسے سورج کي روشني اور اس کي حرارت، ليکن بعض نعمتوں کو صرف اہل افراد کے لئے مخصوص کيا ہے جيسے جنت اور اس کي نعمتيں۔ اس سے يہ نتيجہ نکلتا ہے کہ ہر عطا اور بخشش ميں مساوات ضروري نہيں ہے۔ اگر آپ کے سامنے دو محتاج ہيں؛ ايک عالم اور دوسرا جاہل تو آپ چاہيں تو عالم کو زيادہ دے سکتے ہيں۔ مندرجہ ذيل واقعہ جہاں اور دوسرے نکات کو ظاہر کر رہا ہے وہاں عطااور بخشش کرتے وقت عالم اور جاہل ميں فرق کرنے کي بھي دعوت دے رہا ہے۔
ايک مرتبہ ايک بدو امام حسين کي خدمت ميں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ اے فرزندِ رسول! ميں بہت مقروض ہوگيا ہوں اور اس کو ادا کرنا ميرے لئے ممکن نہيں ہے۔ ميں نے سوچا کہ کسي ايسے شخص کے پاس جاوں جو سب سے بڑھ کر کريم ہو۔ اور ميں نے کسي دوسرے کو اہلِ بيت سے زيادہ کريم نہيں پايا۔
امام حسينٴ نے فرمايا: ''اے ميرے عربي بھائي! ميں تم سے تين سوال کروں گا۔ اگر ايک سوال کا جواب ديا تو تمہارے قرض کا ايک تہائي حصہ ادا کردوں گا۔ اگر دو سوالوں کے جواب ديئے تو قرض کا دو تہائي حصہ ادا کردوں گا اور اگر تينوں سوالوں کے جواب دے ديئے تو پورا قرضہ ادا کردوں گا۔‘‘
بدو نے کہا کہ آپٴ جيسي صاحبِ علم اور بافضليت شخصيت مجھ سے سوال کرے اور ميں جواب دوں، يہ کيسے ہو سکتا ہے؟
امامٴ نے فرمايا: ميں نے اپنے جد رسولِ خدا ۰ سے سنا ہے کہ! ''نيکي اور بخشش اس کي معرفت اور معلومات کے مطابق ہوتي ہے۔‘‘
بدو سوالات پر راضي ہوگيا اور کہنے لگا کہ آپٴ جو چاہتے ہيں، پوچھ ليجئے اگر مجھے معلوم ہوا تو جواب دے دوں گا وگرنہ آپ سے پوچھ لوں گا۔
امامٴ نے پوچھا: بہترين عمل کيا ہے؟
بدو نے جواب ديا: خدا پر ايمان۔
امامٴ نے پوچھا: کون سي چيز لوگوں کو تباہي و ہلاکت سے بچاتي ہے؟
بدو نے جواب ديا: خدا پر توکل اور اعتماد۔
امامٴ نے پوچھا! آدمي کي زينت کس ميں ہے؟
بدو نے جواب ديا: وہ علم کہ جس کے ساتھ حلم اور بردباري بھي ہو۔
امامٴ نے پوچھا اور اگر اس کے پاس يہ فضيلت نہ ہو تو؟
بدو نے جواب ديا: ايسا مال کہ جس کے ساتھ غيرت بھي ہو۔
امامٴ نے پھر پوچھا! اگر يہ بھي نہ ہو تو؟
بدو نے کہا! ايسي غربت جس کے ساتھ صبر و تحمل بھي ہو۔
امامٴ نے پوچھا! اگر يہ بھي نہ ہو؟
بدو نے کہا: ايسي صورت ميں (بہتر ہے) ايک بجلي آسمان سے نازل ہو اور اس شخص کو جلا کر راکھ کردے کہ وہ اسي کا حقدار ہے۔
امام حسين يہ سن کر مسکرا دئيے اور اس کو ايک ہزار دينار اور ايک انگوٹھي عطا کي اور فرمايا کہ ہزار دينار سے اپنا قرض ادا کرو اور انگوٹھي بيچ کر کہ جس کي قيمت تقريباً ٢٠٠ درہم ہے، اپني زندگي پر خرچ کرو۔
بدو نے دونوں چيزيں ليں اور يہ آيت تلاوت کرتے ہوئے رخصت ہوا کہ ''اللّٰہ اعلم حيث يجعل رسالتہ‘‘، ''خدا بہتر جانتا ہے کہ اپني رسالت کو کہاں قرار دے۔‘‘ (بحار ج ٤٤)

کس سے سوال کريں
آج کے اس پُرآشوب دور ميں لوگوں کي مالي مشکلات روز بروز بڑھتي جارہي ہيں، ليکن مکتبِ اہلبيتٴ ہر انسان کو ہر ممکن حد تک مشکلات کا سامنا کرنے کي تلقين کرتا ہے اور اگر ہاتھ پھيلانا ناگزير ہوجائے تو بھي ہر ايک کے سامنے ہاتھ پھيلانے سے روکتا ہے۔
ايک شخص امام حسين کي خدمت ميں حاضر ہوا اور مالي مدد کي درخواست کي۔ امامٴ نے جواب ميں فرمایا کہ کسي کے سامنے سوال کرنا صرف تين مواقع پر جائز ہے: بہت زيادہ مقروض ہو يا بہت غريب ہو يا ديت اس کے ذمہ ہو۔
ايک شخص نے امامٴ کي خدمت ميں حاضر ہوکر مدد کي درخواست کي۔ امامٴ نے اس کي حاجت پوري کرنے کے بعد اس کو نصيحت کرتے ہوئے فرمایا کہ سوائے تين لوگوں کے اپني حاجت کسي سے بيان نہ کرو: ديندار سے يا غيرت مند سے يا صاحبِ حسب و نسب سے؛

ديندار شخص اپنے دين کي وجہ سے تيري حاجت کو رد نہيں کرے گا۔
غير ت مند شخص اپني غيرت کي وجہ سے شرم کرے گا اور تيري حاجت کو پورا کرے گا۔
اور صاحبِ حسب و نسب انسان چونکہ يہ بات سمجھے گا کہ تو نے اتني آساني سے اپني عزت کو اپني حاجت بيان کر کے پامال نہيں کيا ہے، اس لئے وہ تيري مزيد بے عزتي نہيں ہونے دے گا۔

شانوں پر نشانات
واقعہ کربلا کے بعد لوگوں نے امام حسين کے شانوں پر زخم کے نشانات ديکھے تو امام زين العابدينٴ سے اس بارے ميں پوچھا۔ آپٴ نے فرمايا: ميرے والد ہميشہ رات کو ايک بوري ميں خوراک اپنے کاندھوں پر لاد کر بيوہ عورتوں، يتيموں اور مسکينوں کے گھروں ميں جاکر تقسيم کرتے تھے۔ (مناقب ابن شہر آشوب )

امام حسينٴ اور فقرائ
سنتِ نبوي۰ اور اہلبيتٴ کي سيرت عام انسانوں سے برتاو ميں روايتي بادشاہوں اور حکمرانوں کے عمل سے بالکل مختلف ہے۔ اس کي وجہ يہ ہے کہ يہ مکتب انسان کي عزت و آبرو کو ہر چيز پر مقدم رکھتا ہے۔ يہي وجہ ہے کہ عاجزي اور انکساري کے عملي واقعات اہلبيتٴ کي سيرت ميں بہت زيادہ ملتے ہيں جن ميں سے ايک درج ذيل ہے۔
ايک روز کچھ فقيروں کے سامنے سے امام حسين کا گزر ہوا۔ وہ لوگ روٹي کے ٹکڑے کھا رہے تھے۔ امامٴ نے ان لوگوں کو سلام کيا تو انہوں نے امامٴ کو دعوت دي کہ ان کے ساتھ بيٹھ کر کچھ کھائيں۔ امامٴ نے دعوت قبول کي اور ان کے ساتھ بيٹھ گئے اور فرمايا: يہ روٹي جو تم لوگ کھارہے ہو، صدقہ نہيں ہے اس لئے ميں بھي تمہارے ساتھ بيٹھ گيا ہوں۔ پھر امامٴ نے ان سب کو اپنے گھر دعوت دي۔ جب سب گھر پہنچے تو ان کو کھانے کے علاوہ لباس اور کچھ پيسے بھي دئيے۔

قرآني تعليمات او رمعصومين عليہم السلام کا عمل
ہمارا ايمان ہے کہ معصومين قرآنِ ناطق ہيں اور جس طرح قرآن کو ان ہستيوں نے عملي طريقہ سے پيش کيا‘ شايد ہي کوئي دوسرا اس کے مقابل آسکے۔ جن ہستيوں کا ہر عمل قرآن کي تفسير ہو، وہ يقينا قابلِ اطاعت ہيں۔ مندرجہ ذيل واقعہ اس امر کي بھرپور عکاسي کررہا ہے۔
امام حسين کے ايک غلام نے ايک ايسي غلطي کي جو قابلِ سزا تھي۔ امامٴ نے حکم ديا کہ اس کو تازيانہ مارا جائے۔ غلام نے امامٴ سے کہا: اے ميرے مولا! خدا نے قرآن ميں فرمايا ہے، ''و الکاظمين الغيظ‘‘ امامٴ نے اس کو معاف کرديا اور کہا کہ اس کو چھوڑ دو۔ غلام نے آيت کا اگلے حصہ پڑھا: ''و العافين عن الناس‘‘ امامٴ نے کہا ميں نے تيرا گناہ بخش ديا۔ اب اس نے آيت کا بقيہ حصہ پڑھا: ''و اللّٰہ يحب المحسنين‘‘ اس مقام پر امامٴ نے فرمايا: تجھ کو خدا کے لئے آزاد کرتا ہوں۔

امام حسين کي حياتِ مبارکہ سے انتخاب کئے گئے يہ چند واقعات جہاں امامٴ کي عظمتوں کو بيان کرتے ہيں، وہاں ان پر عمل کر کے ہماري انفرادي و اجتماعي زندگي ميں انقلاب آسکتا ہے۔ اميد ہے کہ ہم سب ان روايات کو پڑھنے کے بعد ان پر عمل کر کے اپني زندگي ميں انقلاب پيدا کرديں گے۔