سلیمانی

سلیمانی

ارشاد رب العزت ہے:
وَإِذْ یَرْفَعُ إِبْرَاہِیْمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَإِسْمَاعِیْلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّکَ أَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَکَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِنَا أُمَّۃ مُّسْلِمَۃ لَّکَ وَأَرِنَا مَنَاسِکَنَا وَتُبْ عَلَیْنَا إِنَّکَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ۔
"(وہ وقت بھی یاد کرو)جب ابراہیم اور اسماعیل اس گھر کی بنیادیں اٹھا رہے تھے اور دعا کر رہے تھے۔ اے ہمارے رب ہم سے (یہ عمل) قبول فرما کیونکہ تو خوب سننے اور جاننے والا ہے۔اے ہمارے رب ہم دونوں کو اپنا مطیع اور فرمانبردار بنا۔اور ہماری ذریت سے اپنی ایک فرمانبردار امت پیدا کر اور ہمیں ہماری عبادت کی حقیقت سے آگاہ فرما اور ہماری توبہ قبول فرما۔یقیناً تو بڑا توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔"(بقرہ:۱۲۷ ،۱۲۸)

امتحان میں کامیابی کے بعد امامت کا ملنا

وَإِذِ ابْتَلٰی إِبْرَاہِیْمَ رَبُّہ بِکَلِمَاتٍ فَأَتَمَّہُنَّ قَالَ إِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ إِمَامًا قَالَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِیْ قَالَ لَایَنَالُ عَہْدِی الظَّالِمِیْنَ۔
"اور (وہ وقت بھی یاد کرو)جب ابراہیم کو ان کے رب نے چند کلمات سے آزمایا اور انہوں نے ان کو پورا کر دیا۔تو ارشاد ہوا میں تمہیں لوگوں کا امام بنانے والا ہوں۔انہوں نے کہا اور میری اولاد سے بھی۔ارشاد ہوا میرا عہد ظالموں کو نہیں پہنچے گا۔"(بقرہ :۱۲۴) کیا کہنا عظمت اور خلّتِ ابراہیم کا،وہ واقعاً ایک امت تھے۔انہوں نے اللہ کے کاموں میں پوری وفا کی۔ارشاد ہوا۔ وَاِبرَہِیْمَ الَّذِیْ وَفّٰی "اور ابراہیم جس نے (حق اطاعت) پورا کیا۔" (نجم:۳۷) لیکن ان کی زوجہ محترمہ کی وفا مثالی اور کردار عالی تھا۔حضرت ابراہیم کے ہر قول پر آمنا و صدقنا کی حقیقی مصداق تھیں،اور ہر تکلیف کو برداشت کرنے کے لئے تیار رہتیں۔ چھوٹے بچے اسماعیل اور ہاجرہ کو اکیلے مکہ جیسی بے آب و گیاہ زمین میں چھوڑ رہے ہیں نہ پینے کا پانی ہے اور نہ کھانے کیلئے خوراک بننے والی کوئی چیز۔ سایہ کیلئے کوئی درخت بھی نہیں۔ نہ تو کوئی انسان موجود ہے اور نہ کوئی متنفس لیکن ہاجرہ رضائے خدا ، رضائے ابراہیم پر راضی کھڑی ہیں اللہ نے اس بی بی کو اس قدر عظمت دی کہ اسماعیل کے ایڑیاں رگڑنے سے زم زم جیسے پانی کا تحفہ میّسر ہوا بیچاری ہاجرہ پانی کی تلاش کیلئے بھاگ دوڑ میں ہی مشغول رہیں۔ صفا و مروہ شعائر اللہ اور حج کا عظیم رکن بن گئے مکہ آباد ہوا اور اللہ والوں کا مرکز ٹھہرا۔ ارشاد رب العزت ہوا :
رَبَّنَا إِنِّیْ أَسْکَنتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلَاۃ فَاجْعَلْ أَفْئِدَۃ مِّنَ النَّاسِ تَہْوِیْ إِلَیْہِمْ وَارْزُقْہُمْ مِّنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّہُمْ یَشْکُرُوْنَ۔
"اے ہمارے پروردگار! میں اپنی اولاد میں سے بعض کو تیرے محترم گھر کے قریب بے آب و گیا ہ وادی میں چھوڑ رہا ہوں تاکہ وہ یہاں نماز قائم کریں اور (اے اللہ)تو لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف موڑ دے اور انہیں پھلوں کا رزق عطا فرما تاکہ وہ تیرے شکر گزار بندے بن جائیں۔" ( ابراہیم :۳۷) اب اس گرم تپتی ہوئی زمین پر صرف دو انسان موجود ہیں ایک عورت اور دوسرا چھوٹا سا بچہ، ماں اور بیٹے کو پیاس لگی۔ ماں صفا اور مروہ پہاڑوں کے درمیان پانی کی تلاش میں بھاگ دوڑ کر رہی ہیں ارشاد رب العزت ہوتا ہے۔ إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃ مِنْ شَعَائِرِ اللہ "بے شک صفا اور مروہ دونوں پہاڑیاں اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔" (بقرہ :۱۵۸) ادھر اسماعیل رو رہے ہیں ایڑیاں رگڑ رہے ہیں خدا نے پانی کا چشمہ جاری کر دیا ہاجرہ تھکی ہوئی آئیں پانی دیکھا تو خوش ہو گئیں ارد گرد مٹی رکھ دی اور کہا زم زم (رک جا رک جا) تو چشمہ کا نام زم زم پڑ گیا۔ جب حضرت ابراہیم جانے لگے تو بے چاری عورت نے صرف اتنا کہا۔ اِلیٰ مَنْ تَکِلُنِیْ مجھے کس کے سپرد کر کے جا رہے ہو۔ ابراہیم۔نے کہا اللہ۔یہ سن کر ہاجرہ مطمئن ہو گئیں۔ عورت کا خلوص اور ماں کی مامتا اس بات کی موجب بنی کہ جب وہ پانی کی تلاش میں کبھی صفا اور کبھی مروہ کی طرف جاتی تو اللہ کو یہ کام اتنا پسند آیا کہ اس نے صفا و مروہ کے درمیان سات چکروں کو حج کا واجب رکن قرار دیا۔ پانی ملا اور جب اس پر ہر طرف سے بند باندھا تو زم زم کہلایا ،حج کے موقع پر یہاں سے پانی لینا مستحب ہے اس پانی سے منہ اور بدن دھونا بھی مستحب ہے۔ آج پوری دنیا میں آب زم زم تبرک کے طور پر پہنچ کر گواہی دے رہا ہے کہ جناب ہاجرہ نے خدا و رسول کی جو اطاعت کی اس کے صدقے میں ہاجرہ کی پیروی کس قدر ضروری ہے۔ پھر آب زم زم کو یہ قدر و منزلت اور عظمت اس بی بی (عورت) کی وجہ سے نصیب ہوئی۔ ابراہیم۔کا کام قابل احترام ہے لیکن زوجہ کا احترام بھی ہمیشہ ہمیشہ باقی رہے گا۔

تحریر: حسین الموسوی

دہشت گردی کی تعریف کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ دشمنی پر مبنی ہر ایسا اقدام ہے جس کے نتیجے میں مدمقابل شخص یا افراد میں رعب اور وحشت کی فضا پیدا ہو جائے اور انہیں جسمانی یا نفسیاتی نقصان پہنچ جائے۔ اسی طرح ریاستی دہشت گردی ہر ایسا عمل ہے جو حکومتیں اپنے شہریوں یا غیر ملکی گروہوں اور حکومتوں کے خلاف انجام دیں جس کے نتیجے میں وہ غیر ملکی حکومت یا اس کے شہری خوف و ہراس کا شکار ہو جائیں اور انہیں جسمانی یا نفسیاتی نقصان پہنچ جائے۔ اگر ہم ریاستی دہشت گردی کی اس تعریف کو سامنے رکھیں تو ہمیں امریکہ کی جانب سے دیگر ممالک کے خلاف انجام پانے والے اقدامات میں اس کی بہت سی مثالیں اور نمونے مل جائیں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکہ کی جانب سے ریاستی دہشت گردی کے زمرے میں آنے والے اقدامات کے انداز بھی بدلتے رہے ہیں۔
 
حال ہی میں شام کی فضائی حدود میں امریکہ کے دو جنگی طیارے تہران سے بیروت جانے والے ماہان ایئر کے مسافر بردار طیارے سے انتہائی قریب ہوئے جس کے نتیجے میں مسافرین میں شدید خوف و ہراس پیدا ہوا۔ پائلٹ نے بھی ممکنہ خطرناک صورتحال سے بچنے کیلئے انتہائی تیزی سے اپنی اونچائی کم کی جس کے نتیجے میں کئی مسافر زخمی بھی ہو گئے۔ یہ ایران کے خلاف امریکہ کی ریاستی دہشت گردی کا تازہ ترین واقعہ تھا اور اس کا انداز بھی ماضی میں انجام پانے والے ریاستی دہشت گردی کے واقعات سے بہت مختلف تھی۔ یاد رہے امریکی حکومت نے ایران کی فضائی کمپنی ماہان ایئر کے خلاف بھی اقتصادی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ ماہان ایئر کے طیارے فوجی مقاصد کیلئے زیر استعمال ہیں۔
 
تہران سے بیروت جانے والی مذکورہ بالا پرواز ایک مسافر بردار طیارے کی صورت میں تھی۔ لہذا اسے جنگی طیاروں کے ذریعے نشانہ بنانا بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ دوسری طرف یہ نکتہ بھی اہم ہے کہ امریکی حکومت کی جانب سے کسی ملک پر عائد کردہ پابندیاں صرف امریکہ کے قانون کے تحت انجام پاتی ہیں اور بین الاقوامی قانون میں ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ ایران کا لبنان جانے والا مسافر بردار طیارہ جس وقت امریکی جنگی طیاروں کی جانب سے خطرے کا شکار ہوا شام کی فضائی حدود میں پرواز کر رہا تھا۔ یعنی یہ طیارہ امریکہ کی فضائی حدود میں نہیں تھا۔ دوسری طرف اس کا فضائی روٹ اور پرواز تمام تر بین الاقوامی فضائی قوانین کے عین مطابق تھا۔ جبکہ شام کی فضائی حدود میں امریکہ کے جنگی طیاروں کی موجودگی اس ملک کی خودمختاری اور حق خود ارادیت کے عین مخالف تھی۔
 
ایک ملک کے جنگی طیاروں کا غیر قانونی طور پر دوسرے ملک کی فضائی حدود میں داخل ہو کر تیسرے ملک کے مسافر بردار طیارے کو خطرے کا شکار کرنا ریاستی دہشت گردی کا واضح مصداق ہے۔ امریکی حکمرانوں کا دعوی ہے کہ عراق میں اس کے جنگی طیارے داعش کے خلاف تشکیل پانے والے فوجی اتحاد کے تحت موجود ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس نام نہاد داعش مخالف فوجی اتحاد کو نہ تو عالمی برادری اور نہ ہی اقوام متحدہ کی جانب سے کوئی قانونی جواز حاصل ہے۔ ایران کے خلاف امریکہ کے اس اقدام کے بعض ممکنہ انتہائی خطرناک قسم کے اہداف بھی سامنے آ رہے ہیں۔ لبنان میں شام کے سفیر عدنان محمود نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ امریکی جنگی طیاروں کا مقصد شام کے فضائی دفاعی نظام کو دھوکہ دے کر ایرانی مسافر بردار طیارے کو میزائلوں کا نشانہ بنانا بھی ہو سکتا ہے۔
 
عدنان محمود نے کہا ہے: "میڈیا پر شائع ہونے والی رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی جنگی طیاروں کے حالیہ اقدام کا مقصد شام کے فضائی دفاعی نظام کو دھوکہ دینا تھا۔ امریکی جنگی طیارے چاہتے تھے کہ شام کا میزائل ڈیفنس سسٹم ان کی جانب میزائل فائر کرے اور وہ میزائل ایرانی مسافر طیارے کو آن لگیں۔ لہذا یہ اقدام ایک بین الاقوامی جرم قرار دیا جا رہا ہے اور امریکہ کو اس پر بین الاقوامی قوانین کے مطابق سزا ملنی چاہئے۔ جیسا کہ ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے بھی اس بات پر زور دیا ہے کہ قانون توڑنے والی قوتوں کو اس سے پہلے کہ کوئی بڑی تباہی پھیلا دیں روکنے کی ضرورت ہے۔" لہذا ریاستی دہشت گردی کے بارے میں اپنی ہی تعریف کی رو سے امریکہ کا یہ اقدام ریاستی دہشت گردی کے سوا کچھ نہیں کہلا سکتا۔
 
امریکہ گذشتہ چند عشروں کے دوران ایران کے خلاف مختلف قسم کے دہشت گردانہ اقدامات کا ارتکاب کرتا آیا ہے جن میں اقتصادی، سیاسی اور فوجی دہشت گردی شامل ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی سربراہی میں موجودہ حکومت اندرونی سطح پر بہت زیادہ مشکلات کا شکار ہے لہذا وہ ایسے اقدامات کے ذریعے اپنی عوام کی توجہ ملک سے باہر مرکوز کرنا چاہتی ہے۔ ماضی میں امریکہ نے ریاستی دہشت گردی کا کھلا ثبوت دیتے ہوئے اپنے جنگی بحری جہازوں کے ذریعے ایران کا ایک مسافر بردار طیارہ مار گرایا تھا۔ حالیہ واقعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی حکومت شدید بحرانی صورتحال کا شکار ہو چکی ہے کیونکہ صرف ایسی صورت میں ہی کوئی حکومت ریاستی دہشت گردی کے ذریعے کسی دوسرے ملک کے شہریوں کو ڈرانے دھمکانے لگتی ہے۔

ترک عدالت نے قانون اور بازنطینی حکمرانوں کے ساتھ کئے گئے سلطان محمد کے معاہدے کی رو سے مسجد کی بحالی کا حکم دے دیا۔ صدر طیب اردگان عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کے لئے پہلے سے ہی آمادہ تھے، 10 جولائی کو طیب اردگان کی ڈگری کے اجراء کے بعد تاریخی مسجد آیا صوفیا کا قدیم تشخص بحال کرتے ہوئے اسے عجائب خانہ سے دوبارہ مسجد میں بدلنے کا عمل جاری ہے۔ آرائش و تزئین کے بعد اسے نماز کے لئے کھول دیا جائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ آیا صوفیا مسجد میں سیاحوں کی آمد پر کوئی پابندی نہیں لگائی جائے گی۔ مخصوص اوقات کار میں سیاح آ سکیں گے۔

انہوں نے زور دے کر کہا کہ اب بیت المقدس کی آزادی کی کا وقت قریب آگیا ہے۔ نوٹر ڈیم کیتھڈرل میں عبادت بھی ہوتی ہے اور سیاحوں کے لئے بھی کھلا ہے، یہی پوزیشن صوفیا مسجد کی بھی ہوگی۔ عدالتی فیصلہ سنتے ہی متعدد افراد اللہ کے حضور سجدہ ریز ہونے مسجد پہنچ گئے تھے، صدر ترکی طیب اردگان کے حکم پر 85 برس بعد پہلی نماز 25 جولائی کو ادا کی جائے گی۔ استنبول کی شان اور ترک ثقافت کی پہچان مسجد آیا صوفیا (خدا کی حکمت) کئی سو برس پرانی ہے۔ 500 برس تک ترکی میں اللہ تعالیٰ کے حضور سر جھکانے کی بہترین جگہ تھی۔ 9 صدیوں تک آیا صوفیا کو دنیا کے ایک بڑے شاہی مرکز اور گرجا گھر کی کی حیثیت حاصل رہی۔

مسجد بنانے کے مخالفین
مسجد کے کھلنے کا حکم جاری ہوتے ہی کئی ممالک میں کہرام مچا ہے۔ پاکستان سمیت کئی ممالک اور اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسف نے بھی مسجد کی بحالی قبول نہیں کی۔ یہ سب مسجد کی جگہ عجائب خانہ ہی دیکھنا چاہتے ہیں۔ روس اور امریکہ کے صدر ترکی کے فیصلے کو قدامت پرست فیصلہ کہہ رہے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ پومیو کا مخالفانہ بیان کوئی انوکھی بات نہیں۔ روسی سینٹ کی امور خارجہ کمیٹی کے چیئرمین کونستاتن کوسا شیف نے انتباہ کیا کہ فیصلے پر انتہائی منفی ردعمل آسکتا ہے۔ فرینکفرٹ میں قائم عالمی کونسل برائے چرچز نے صدر کے نام لکھے گئے ایک خط میں اس فیصلے پر گہرے رنج و غم اور مایوسی کا اظہار کیا ہے۔

یونیسف نے بھی ترکی کی انتطامیہ کو لکھے گئے ایک خط میں مسجد کی بحالی کو بنا سوچے سمجھ اٹھایا گیا فیصلہ قرار دیا ہے، عالمی عجائب گھر ہونے کے ناطے مسجد کی بحالی سے پہلے عالمی شخصیات سے بات چیت بھی ضروری تھی، یکطرفہ طور خود سے مسجد کی بحالی درست نہیں۔ متحدہ عرب امارات نے بھی فیصلے کو تبدیل کرنے کا ذکر کیا ہے۔ عالمی ثقافتی ورثہ کو مسجد میں بدلنے پر یورپی یونین بھی خوش نہیں۔ یورپی یونین نے فیصلے کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے عجائب گھر قائم رکھنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

مسیحیوں کی عالمی تنظیم نے بھی ترکی کے صدر سے فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ بعض عیساائی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ پرانے تشخص کی بحالی سے دنیا ایک بار پھر مشرق اور مغرب میں بٹ جائے گی، کسی نے کہا کہ اس سے 30 کروڑ قدامت پرستوں کے جذبات مجروح ہونگے۔ بھارت میں بھی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ اس بھارت میں جہاں 80 لاکھ کشمیریوں کو گھر سے باہر نکلنے اور نماز پڑھنے کی اجازت نہیں، جس کے مرکزی شہر دلی میں اسلامی نام رکھنے پر 39 افراد 23 فروری سے 26 فروری تک خاک اور خون میں نہلا دیئے گئے۔

کیا پورا گرجا گھر مسجد میں بدلا گیا؟
ہرگز نہیں۔ گرجا گھر میں سات اہم علوم کی تعلیم کے لئے عظیم الشان یونیورسٹی بنائی گئی تھی، لیکن یہ یونیورسٹی خستہ ہونے کے باعث بند کردی گئی تھی۔ سلطان نے نئی جگہ پر عالی شان یونیورسٹی قائم کی۔ ان کا تعمیراتی پلان منفرد تھا۔ انہوں نے اس عمارت میں مسجد کے لئے بہت سی تعمیرات کیں، جن کا ذکر الگ بھی کیا گیا ہے جبکہ ہسپتال، مدرسہ، اسکول، لائبریری، باغ، مہمان خانہ، سرائے اور مقابر کے علاوہ دیگر تعمیرات بھی شامل تھیں۔ یہ سب سلطان کی حکمت علمی کا نتیجہ ہیں۔

گرجا گھر پر قبضے
مسلمانوں کی آمد سے پہلے اس عمارت نے کئی رنگ روپ بدلے۔ آیا صوفیا 900 برس گرجا گھر رہا لیکن کئی بار اجڑا۔ رومیوں اور بازنطینی آپس میں لڑتے رہے اور گرجا گھر کا تشخص بدلتے رہے۔ موقع ملنے پر یونانیوں نے بھی گرجا گھر کی شکل بدل ڈالی۔ آیئے دیکھتے ہیں
537ء تا 1054ء: یہ بطور بازنطینی کرسچین گرجا گھر قائم رہا۔
1054ء تا 1204ء: یونانیوں نے قبضہ کرکے قدامت پرست کیتھڈرل بنا دیا۔
1204ء تا 1261ء :رومیوں نے قبضہ کرکے رومن کیتھولک چرچ میں تبدیل کردیا، دوسرے گروہوں کی تمام نشانیاں ایک بار پھر مٹا دی گئیں۔
1261ء تا 1453ء: اسے یونانی آرتھوڈکس میں بدل دیا گیا۔

مسجد مذہبی پیشواؤں کے کہنے پر بنائی گئی تھی
1453ء میں خلافت عثمانیہ کے سلطان محمد دوئم کو فاتح قسطنطنیہ بھی کہا جاتا ہے، ان کی فتوحات اس قدر تھیں کہ انہیں فاتح ان کے نام کا حصہ بن گیا تھا، فاتح قسطنطنیہ سلطان محمد نے 1453ء میں رومیوں اور یونانیوں کو عبرت ناک شکست دینے کے بعد پورے علاقے کو اپنی سلطنت میں شامل کرلیا۔ جس کے بعد 29 مئی 1453ء کو خستہ حالت میں یہ عمارت ان کی سلطنت کا حصہ بن گئی۔ شکست خوردہ بازنطینی حکمرانوں نے اس عمارت کے حسن کو برقرار رکھنے کی التجا کی جسے مسلمانوں نے مان لیا۔ ایک مغربی دستاویز میں لکھا ہے کہ سلطان محمد فاتح مذہبی پیشواؤں کی مدد سے آگے بڑھتے رہے اور نئے روم کی بنیاد رکھنے کی جانب پیشرفت کر رہے تھے۔ قسطنطنیہ کے سلطان اور اوپر تلے بدلنے والے کئی پوپ بھی آپس میں سیاست کرتے رہے جس سے سلطان کو موقع مل گیا۔

سیاست کے جوڑ توڑ اور بنتے بگڑتے اتحادوں میں وینس کا کردار بھی کلیدی رہا۔ اٹلی کے حکمران کئی اہم شہروں (جیسا کہ فلورینس، وینس، نیپلز اور ریمینی) کا تبادلہ کرتے رہے لیکن ان تبدیلیوں کا فائدہ سلطان محمد کو پہنچا۔ جنوبی اٹلی میں ’’Otranto‘‘ نامی علاقے پر قبضہ ان کی آخری پیش قدمی تھی وہ اپنی سلطنت کو متحد اور منظم کئے بغیر ہی اللہ کو پیارے ہوگئے، جس سے ترکی کی خلافت عثمانیہ کو زبردست دھچکا لگا۔ امریکہ میں ایک ہزار سے زائد ریڈیو سٹیشنز اور جرائد کو چلانے والے ادارے npr نے 10 جولائی 2020ء کو لکھا، ’’Turkey Converts Istanbuls Iconic Hagia Sophia Back into A Mosque‘‘ یعنی ترکی نے مشہور زمانہ آیا صوفیا کو دوبارہ مسجد میں بدل دیا۔ دیگر کئی عالمی مضامین میں بھی یہی بتایا گیا ہے کہ ترکی میں آیا صوفیا کا اسلامی تشخص بحال کردیا گیا ہے۔

نیو یورپ میں شائع شدہ تحقیق کے مطابق بازنطینی حکمران نے ہی اسے مسجد میں بدلنے کی التجا کی۔ انہوں نے اصرار کیا کہ آرائش و تزئین کے بعد اسے مسجد میں ڈھال دیا جائے۔ سلطان محمد دوئم سے رابطوں کی تصدیق کئی دیگر جرائد و مضامین سے بھی ہوتی ہے۔ اس ضمن میں کیا گیا معاہدہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ سلطان محمد کی منشاء یہ ہرگز نہ تھی، وہ شاہی محل اور شاہی خاندان کی عبادت گاہ کے طور پر ہی اسے قائم و دائم رکھنا چاہتے تھے لیکن سابق حکمرانوں کی خواہش کے آگے سر جھکائے بنا نہ بنی۔ آخر کار انہوں نے چار میناروں کی تعمیر کے بعد اس شاہی محل نما عمارت کو مسجد میں بدل دیا۔ خلافت عثمانیہ کے پاس شاہی انجینئرز اور ماہرین تعمیرات کی کمی نہ تھی،سابق حکمران کے دل کی آواز کو سنتے ہوئے اسی وقت اسے مسجد میں ڈھالنے کا حکم دے دیا گیا۔

1453ء میں اسے مکمل طور پر مسجد کے قالب میں ڈھال دیا گیا اور یہاں اذان کی آواز گونجنے لگی۔ مرکزی حصے میں قائم ہونے کی وجہ سے اسلامی پہچان بنانے والے آیا صوفیا کو منفرد حیثیت حاصل تھی۔ پہلی جنگ عظیم کے نتیجے میں خلافت عثمانیہ کے حصے بخرے کردیئے گئے اور مصطفیٰ کمال اتاترک کی سربراہی میں روشن خیال حکومت برسراقتدار آگئی۔ کمال اتاترک نے 1935ء میں اولین حکم میں مسجد کا تشخص ختم کرتے ہوئے اس عظیم الشان عبادت گاہ کو عجائب گھر میں بدل دیا۔ کئی سو سال پرانی مسجد آیا صوفیا کو عجائب خانہ بنانے کی ڈگری جاری کردی گئی۔ سیکولر وزارتی کونسل نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ آیا صوفیا کی منفرد تاریخی اہمیت اور استنبول کے مرکز میں واقع ہونے کے پیش نظر اسے عجائب گھر میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔

یہ عجائب گھر پوری مشرقی دنیا کے سیاحوں کے لئے اہمیت کاحامل ہوگا جس سے اقوام عالم کو نئے علوم سے روشناس ہونے میں مدد ملے گی‘‘۔ (بحوالہ کتاب ’’آیا صوفیا، ہولی وزڈم، ماڈرن مونیومنٹ مصنف رابرٹ نیلسن)۔ دنیا کے اس حصے کو نئے علم سے روشناس کرانے کے نام پر عالم اسلام کو پر شکوہ عبادت گاہ سے محروم کردیا گیا۔ قریب قریب دو صدیوں میں یہاں کروڑوں مسلمان اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوئے لیکن مصطفیٰ کمال نے جذبات کی پرواہ نہ کی۔ کیونکہ ہر سال لاکھوں افرد جوتوں سمیت اس پاک جگہ میں داخل ہوتے رہے۔

شائد مغرب کی حمایت کا حصول ان کے پیش نظر ہو، ان کا خیال ہوگا کہ خلافت عثمانیہ کی پالیسیوں سے اختلاف کرکے ہی وہ مغرب کے ساتھ زندہ رہ سکتے تھے جیسے مغرب خوش ویسے ہی وہ بھی خوش۔ مصطفیٰ کمال اتاترک نے شکست خوردہ سابق حکمران کی خواہش کو بھی نظر انداز کردیا جس میں انہوں نے خود اس جگہ پر مسجد بنانے کی درخواست کی تھی۔ ان کے فیصلے کے خلاف کسی غیر ملکی نے یہ نہیں کہا کہ جناب آپ اسلامی تشخص کا خاتمہ کیوں کر رہے ہو۔ تاریخی حیثیت میں تبدیلی کی مخالفت کسی عالمی تنظیم یا ادارے نے نہیں کی۔ یہ الگ بات ہے کہ ترک عوام نے مصطفیٰ کمال اتاترک کا یہ فیصلہ کبھی تسلیم نہیں کیا۔

بناوٹ، گنبد اور مینار
مسجد کے 197 فٹ بلند چار مینار اللہ کی رحمت کی نشانیاں ہیں۔ پنسل کی مانند بلند و بالا یہ چاروں مینار اپنی نوعیت کے اعتبار سے منفرد ہیں۔ اتنے بلند، پنسل سے مشابہہ مینار دنیا کے کسی اور حصے میں قائم نہیں۔ 1974ء میں لاہور میں ہونے والی اسلامی سربراہ کانفرنس کے بعد بنایا گیا اسلامی سمٹ مینار بھی اسی طرز پر بنایا گیا ہے۔ مرکزی گنبد کا قطر 102 فٹ ہے۔ گنبد کی بناوٹ آسمان سے مشابہہ رکھی گئی ہے۔ گنبد دیکھ کر اندر سے ایسے لگتا ہے جیسے آسمان سر پر سایہ فگن ہو۔ آسمان سے مشابہہ رکھنے کے لئے چھت کئی حصے نیلے رنگ سے ڈھانپ دیئے گئے۔ کہیں کہیں زرد رنگ بھی نمایاں ہے۔ مرکزی گنبد کے چاروں طرف 40 کھڑکیاں ہیں، جبکہ اندرونی حصے میں اسلامی خطاطی کے نمونے آویزاں ہیں، چھت کے اندرونی حصوں پر کی گئی پچی کاری کی اپنی ہی شان ہے۔

ہر نمازی کے دل و دماغ میں اللہ کی شان اور اس کی عظمت کی ہیبت بیٹھ جاتی ہے۔ خطاطی کے یہ تمام نمونے درجہ کمال پر ہیں، کسی بھی عالمی شاہکار سے کم نہیں۔ مسجد کے چاروں بنائے گئے چھوٹے گنبد اسے دیگر مساجد سے ممتاز حیثیت عطا کرتے ہیں۔ یہ خلافت عثمانیہ کے انجینئرز اور کاریگروں کی اعلیٰ کاوشوں کا نمونہ ہیں۔ بظاہر یہ عجائب گھر تھا لیکن اللہ تعالیٰ کے مبارک ناموں کی خطاطی اورحضرت محمد مصطفیٰ (ص) کے نام مبارک اسے عجائب گھر سے کہیں زیادہ ممتاز اور اعلیٰ و ارفع مقام عطا کرتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ مصطفیٰ کمال کا فیصلہ ترک عوام نے کبھی قبول نہیں کیا، وہ برسوں سے نماز پڑھنے کی جستجو کررہے ہیں، مسجد کی بحالی کے لئے کئی مرتبہ قانونی اور عدالتی کارروائیاں کی گئیں لیکن عوام کی خواہش پوری نہ ہوسکی۔ آخری مقدمہ 16 برس قبل دائر کیا گیا تھا، جس میں یہ مؤقف بھی اختیار کیا گیا تھا کہ آیا صوفیا کی زمین دراصل سلطان محمد کی ملکیت تھی اور انہوں نے ہی اسے مسجد میں تبدیل کیا تھا، کمال اتاترک سلطان کا فیصلہ تبدیل کرنے کا مجاز نہ تھے۔

سید ذوالقرنین حیدر

رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دنیا سے پردہ کر جانے کے بعد اُمت مسلمہ میں ایک عجیب پریشانی کی لہر نظر آنے کو ملتی ہے۔ اُنکے بعد مسلمان ایسے بکھرے جیسے تسبیح کی ڈوری ٹوٹ جانے پہ اُسکے دانے بکھر جاتے ہیں اور اُنکو چننا اور اکٹھا کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ پھر چاہے وہ سقیفہ کا اجلاس ہو یا فدق کا معاملہ، ہر محاذ پہ رسول کے اصحاب میں تشویش کی لہر نظر آئی۔ ایک گروہ خلیفہ اول کے سائے میں پروان چڑھنے لگا اور خلافت کو اپنا نظام تسلیم کیا جبکہ دوسرا گروہ ولایت علی کا پرچار کرنے لگا۔ اقتدار خلیفہ اول کے ہاتھوں میں ہونا چاہیے تھا یہ علی ابنِ ابی طالب کے، اس سوال نکو لے کر ہر دور کا عام فہم مسلمان آپس میں دست و گریباں ہوئے بیٹھا ہے۔ خدا کے قوانین کی خلاف ورزی ہو رہی ہو یا آپس میں سیاسی مخالفت کی وجہ سے ہنگامے، تاریخ میں جنگِ صفین رونما ہونا تھا کہ خلافت مستقل مزاجی سے جاری نہ رہ پائی اور امیر شام نے اسے رد کرتے ہوئے خود اقتدار سمبھالا اور علی ابنِ ابی طالب سے جنگ کا اعلان کیا۔ بالآخر علی ابن ابی طالب کے خیمے کا محاصرہ انہی کے لشکر نے کیا اور اُنہیں جنگ روکنا پڑی۔ رسول کے بعد خدا کا قانون ہمیشہ سے ہی خطرے میں رہا اور اسکی اہم وجہ خدا کے قانون میں خرافات اور شرک کا آ جانا تھی۔
گزشتہ صدی دین کے نام پہ بننے والی بےشمار تنظیمیں، حزب اور خرافاتی نظریات نے دین کی اصل پہچان کو ہم سے دور کرنا چاہا۔ لیکن دوسری طرف جہاں دینِ خدا ایک طویل عرصے سے اپنا سیاسی وقار کھو بیٹھا تھا وہ اب دوبارہ سے دنیا کی سیاست میں اپنا قدم جمانے لگا۔ جہاں امام خمینی نے دین کو صرف عبادات سے نکال کر انسان کے سیاسی اور معاشرتی نظام کو نافذ کرنے کی طرف قدم بڑھایا، وہاں دوسری طرف اس نظام کو باطل و فاسد قرار دینے کے لئے ایک خودکار بنایا ہوا دین جو اسلام کا لبادہ اوڑے ولایتِ فقیہ پہ انگلی اٹھاتا دکھائی دیا۔ دینِ خدا کا لبادہ اوڑے یہ شیرازی خاندان جس نے دین کی تمام تر تعلیمات مغربی خودکار تعلیمی اداروں میں حاصل کی اور ولایت کا دعویدار بن کر دنیا کے سامنے آیا، اس نے نہ صرف دنیا میں نظامِ خدا نافذ کرنے میں رکاوٹیں کھڑی کیں بلکہ ہمیشہ اپنے اوچے ہتھکنڈوں سے باز نہیں آیا۔ صیہونی طاقتوں اور شیطانی ہتھکنڈوں کی بدولت تیار پانے والا یہ شیطانی ٹولہ دو طرح کی مختلف خرافات معاشرے میں پھیلتا نظر آیا۔ ایک طرف تو خدا کی ذات کے ساتھ علی کو شریک ٹھیرایا جانے لگا اور دوسری طرف خانوادئہ رسول کی شان میں مستقل مزاجی کے ساتھ گستاخی کی جانے لگی۔ ان دنوں مقاصد کے حصول کے لیے MI6 اور CIA نے عمامہ پہنے جعلی علامہ، خطیب اور ذاکرین کو تعلیم مہیا کی۔ جنہوں نے علی اللہ، ازواج رسول و اصحاب رسول کی بے حرمتی اور خاندانِ رسول کی بے حرمتی جیسے افکار کو معاشرے میں عام کیا۔ سب سے بڑ کر انہوں نے ولایتِ فقیہ کو اپنے ان تمام خرافاتی نظریات کے ذریعے اپنا نشانہ بنایا۔ جہاں دنیا میں ولایت فقیہ کا پرچار ہونے سے صیہونی و استکباری طاقتوں کو ہر محاذ پہ کاری ضرب لگی، وہیں دوسری طرف مظلوم اقوام کو نہ صرف سہارا ملا بلکہ یمن، عراق، فلسطین، بحرین، لبنان، کشمیر اور ایسی بہت ساری بےشمار اقوام اور ملک اس کے سائے تلے متحد ہوئے اور ہر محاذ پہ اس نظام کے ذریعے خود کو کبھی اکیلا نہیں پاتے۔
یہاں اُن شخصیات کا ذکر کرنا لازم ہے جنہوں نے ایک عام فہم مسلمان کی ذہن میں شیعہ اثنا عشری، ولایت فقیہ، مرجعیت اور ازواجِ مطہرات و اصحاب رسول اللہ کی توہین کے متعلق افکار کو ابھارا لیکن جب اُنکو ان بنیادوں پہ پابندی کا سامنا کرنا پڑا تو استکباری طاقتوں نے انسانی حقوق کا مطالبہ کرتے ہوئے اُسے نہ صرف جیل سے آزاد کروایا بلکہ مختلف پلیٹ فارم مہیا کیے جہاں بیٹھ کر اس نے دین سے متعلق خرافات کو عام کیا۔ یہ وہی شخص ہے جسکا نام یاسر الحبیب، جو شیرازی خاندان کا داماد ہے۔ اِنہیں کھلے عام اب یہ موقع فراہم ہوا کہ وہ نہ صرف اصحاب رسول اور ازواج کی شان میں گستاخی کر سکتے ہیں بلکہ ولایتِ فقیہ کو نشانہ بنانا ہی اُنکا اصل ہدف قرار پایا۔ فقہاء کو اُن القابات سے پُکارا گیا جو بیان کرنا بھی مناسب نہیں لیکن کھلے عام ان واقعیات کا ٹیلیویژن پہ نشر ہونے سے استکباری طاقتوں کا اصل چہرہ نمایاں طور پہ سامنے آنے لگا۔
جیسے جیسے ان فاسد نظریات کا رجحان امریکہ اور برطانیہ کی پشت پناہی سے عرب ممالک میں بڑھنے لگا، ویسے ہی ان نظریات کی سامنے ایک عام فہم مسلمان شیعہ اثنا عشری سے متعلق خرافات کا شکار ہوتا چلا گیا۔ عرب ممالک سے یہ خرافاتی فضا جب پاکستان اور ہندوستان کی سرزمین میں داخل ہوئے تو یہ ایک بہت ہی بھیانک شکل اختیار کر چکی تھی۔ بات صرف اصحاب رسول و ازواج مطہرات کی بے حرمتی تک نہ رہی بلکہ اللہ کے ساتھ علی کو شریک ٹھیرایا جانا معمول بن گیا اور یہاں تک کہ خدا سے اوپر قرار دیا جانے لگا۔ ناصبیت اور غلو اور خانوادئہ رسول کی بے حرمتی کا باقاعدہ آغاز جنگِ صفین کے بعد سے ہوا، جب اُمت نے علی کو خدا کا دشمن اور اصحاب و ازواج کی بے حرمتی کی۔ فاسد افکار کی جو چنگاری رسول خدا کے جانے کے بعد اُمت میں لگی وہ آج ایک بہت بگڑی ہوئی شکل اختیار کر چکی ہے۔ جہاں اُمت قرآن سے دور نظر آئی وہی اُمت امیر شام کے کہنے پہ قرآنِ ناطق کے سامنے قرآن نیزوں پہ لیے کھڑی نظر آئی۔ آج بھی رسول کے وہی اُمتی قرآن نیزوں پہ اٹھائے ولایت کا پرچار کرنے والوں کے سامنے کھڑی ہے اور اُنہیں کوئی روکنے اور پوچھنے والے نہیں۔
1978 عیسوی میں ایک فوجی حاکم کے دورِ حکومت میں مفتی جعفر حسین کا حکومت سے شیعہ اثنا عشری کے حقوق کا مطالبہ کرنا اور سڑکوں پہ نکلنا اور اُنکے بعد شہید عارف حسین الحسینی کا لاہور میں ایک جلسہ منعقد کروانا اور اُن مطالبات کو منظور کروانا اس بات کو واضع کر دیتا ہے کہ کہیں نہ کہیں حکومتی نمائندے بھی استکباری طاقتوں کے ہاتھوں استعمال ہوتے نظر آئے اور شیعہ اثنا عشری کی پہچان کو مسخ کرنے کے لیے ہر حد تک گئے۔ جب ان ہتھکنڈوں سے کام نہ بنا تو اندورنی اور بیرونی جہاد تشکیل پایا اور شہید عارف حسین الحسینی اسکی نظر ہو گئے۔ جہاں خرافات کو ایک طرف سے عام فہم مسلمانوں کے اذہان میں ڈالا گیا وہیں دوسری طرف جہاد کے نام پہ شیعہ اثنا عشری کو سرے سے ختم کرنے کی لئے قتلِ عام کیا گیا۔ جس نے ساری پاکستانی قوم کو اپنی لپیٹ میں لیا۔ 30 سال تک پاکستانی حکومتی نمائندوں کی پشت پناہی میں مسلمانوں کا قتلِ عام، مساجد میں ناصبیت و غلوویت کا پرچار اور مسلمانوں میں تفرقہ عام ہوا، انہی بنیادوں پہ ہمیں دہشگردوں کی پشت پناہی کرنے والے ممالک میں شمار قرار دیا گیا۔ جہاں قتلِ عام میں کمی آئی تو تکفیر کو بنیاد بنا کر توہینِ اصحاب و ازواج کی گئی اور ہوتی چلی آ رہی ہے۔ آخر کیوں اس قوم کا مسلمان اس قدر خرافات کو اپناتا چلا آ رہا ہے، آخر یہ تکفیر کب دم لے گی؟؟

گذشتہ دنوں سوپور میں ساٹھ سالہ بزرگ بشیر احمد کو قابض بھارتی افواج نے گولیاں مار کر شہید کر دیا۔ بشیر احمد خان کی خون میں لت پت لاش پہ بیٹھے اس کے تین سالہ معصوم نواسے عیاد کی مسلمان حکمرانوں کی بزدلی پہ ماتم کناں تصویر نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ بچے کی معصومیت بھری اس تصویر نے ہر آنکھ کو اشکبار اور ہر دل کو لرزا دیا۔ یہ اس طرح کی پہلی تصویر نہیں ہے جو منظرِ عام پہ آئی ہے۔ اس سے پہلے بھی ایسی تصاویر یمن، شام اور فلسطین سمیت دنیا کے مختلف گوشہ و کنار سے سامنے آتی رہی ہیں۔ سال 2015ء میں ترکی کے ساحل سمندر پہ اوندھے منہ مردہ حالت میں پڑے شامی بچے ایلان کردی کی تصویر جب دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ پہ شائع ہوئی تو اس نے پوری دنیائے انسانیت کو لرزا کر رکھ دیا تھا۔ ایلان کردی کے اس المناک واقعہ کے کچھ عرصہ بعد ایک آنکھ سے محروم دو ماہ کے معصوم بچے کی تصویر نے ہر آنکھ نم کر دی، یمن سے بھی آئے روز غذائی قلت سے دوچار بچوں کی رونگٹے کھڑے کر دینے والی تصاویر سامنے آتی ہیں، مگر افسوس یہ تمام تصاویر انسانی حقوق کے نام نہاد ذمے داروں کے خواب آلود ضمیر نہ جگا سکیں۔

سوپور میں پیش آنے والا یہ دردناک واقعہ بھارتی ظلم و بربریت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ واقعہ انسانی حقوق کے ان نام نہاد علمبرداروں کے لئے لمحہ فکریہ ہے، جنہوں نے مقبوضہ کشمیر میں جاری ان مظالم پر مکمل اور مجرمانہ خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ ہمارے کشمیری مسلمان بھائی گذشتہ برس سے شدید اذیت سے دوچار ہیں۔ اس دوران مسلم کش مودی سرکار نے متنازعہ شہریت قانون نافذ کرکے مسلمانوں کے ساتھ اظہار نفرت کیا، کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کیا اور اب مودی سرکار صیہونی پالیسی پہ عمل پیرا ہو کر وادی کشمیر میں مسلم آبادی کا تناسب بگاڑنے کا گھناونا کھیل کھیلنے جا رہی ہے۔ بھارت اور اسرائیل کے تعلقات اب کوئی راز نہیں ہیں، مودی نے گجرات کی وزارت اعلیٰ کے دوران ہی اسرائیل کا دورہ کیا اور برسرِ اقتدار آتے ہی اس دوستی کو مزید مضبوط کرتے ہوئے مسلم دشمنی کے لئے کمر کس لی۔

بلا شبہ بھارت اور اسرائیل میں ایک قدر مشترک ہے، دونوں اسلام و مسلم دشمنی میں ایک جیسی پالیسیوں پہ عمل پیرا ہیں۔ اس وقت کشمیر کو دوسرا فلسطین بنانے کی بھرپور کوششیں جاری ہیں۔ درست اسی طرح جس طرح فلسطین میں مسلمانوں کا علیحدہ تشخص ختم کرنے لئے یہودیوں کی آباد کاری کی گئی۔ اسی طرح کشمیر میں بھی یہی کیا جا رہا ہے۔ 1917ء میں جب صیہونی ریاست کے قیام کا اعلان کیا گیا، اس وقت پورے فلسطین میں یہودی آبادی 10 فیصد یا اس سے بھی کم تھی، لیکن پھر ایک گھناونی  سازش کے تحت دنیا بھر کے یہودیوں کو وہاں آباد کیا گیا۔ دوسری طرف آبادی کے تناسب میں بگاڑ پیدا کرنے کے لئے فلسطینیوں کا قتل عام شروع کیا گیا۔ ان سے ان کی املاک چھین لی گئیں، اپنے ہی علاقوں سے بے دخل کیا گیا۔ یوں آج فلسطینی اپنی ہی سرزمین پر اقلیت کی صورت میں موجود ہیں۔

کشمیر میں بھی بالکل اسی طرح مودی سرکار نے پہلے کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کیا اور اب 25 ہزار ہندووں کو کشمیری ڈومیسائل دے کر اس علاقے کا رہائشی بنایا جا رہا ہے، جس کے بعد انہیں ووٹ کا حق بھی حاصل ہوگا اور وہ اس علاقے میں ملازمتیں بھی حاصل کرسکیں گے۔ اس بھارتی اقدام کا مقصد مقبوضہ کشمیر میں مسلم اکثریت کے خاتمے کے بعد غیر مسلم آبادی میں اضافہ کرنا ہے، تاکہ مقبوضہ وادی کا اسلامی تشخص برقرار نہ رہے۔ اس طرح جب اس علاقے کے اصلی وارث کشمیری مسلمان اقلیت میں آجائیں گے اور غیر مسلم آبادی بڑھا دی جائے گی تو وہاں کا اسلامی تشخص بھی ختم ہو جائے گا۔ اس وقت بھارت استصواب رائے پہ رضامندی ظاہر کرے گا، کیونکہ اب کشمیر کا الحاق بھارت سے ہونے میں کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہے گی۔

بلاشبہ اس وقت کشمیر اور فلسطین مسلم امہ کے سینے پہ دو رستے ہوئے زخم ہیں۔ انہیں ظالم سامراج سے بچانا انتہائی ضروری ہے، لیکن امت مسلمہ کے نگہبان کہاں ہیں۔ ننھے عیاد جیسے کئی بچے حسرت بھری نگاہوں سے مسلمان حکمرانوں اور خصوصاً او آئی سی کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ پاکستان نے اگرچہ کشمیر ایشو پہ بہترین سفارت کاری کی ہے اور دنیا بھر کے مسلم و غیر مسلم حکمرانوں پہ واضح کیا ہے کہ کس طرح مظلوم کشمیریوں پہ زندگی کے ایام تنگ کئے جا رہے ہیں، لیکن کیا صرف اتنا ہی کافی ہے۔ باقی مسلمان ممالک کہاں ہیں اور مظلوم کشمیریوں اور فلسطینیوں کے لیے کیا کر رہے ہیں۔

کشمیر اور فلسطین کے علاوہ یمن، شام و عراق سمیت اور بھی کئی ایسے ایشوز ہیں، جن کے حل کے لئے مسلمان ممالک کا اتحاد انتہائی ضروری ہے۔ مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم او آئی سی اس وقت مردہ گھوڑا اور عضو معطل بن کر رہ گئی ہے۔ اس میں جان ڈالنا انتہائی ضروری ہے یا پھر ان تمام مسائل کے حل کے لئے کوئی دوسرا راہ حل نکالنا پڑے گا۔ ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمان اور تیل کی دولت سے مالا مال اسلامی ریاستیں اگر باہمی رنجشیں اور اختلاف بھلا کر ایکا کر لیں تو کشمیر اور فلسطین سمیت تمام ایشوز بطریقِ احسن حل ہو سکتے ہیں۔ ورنہ
پھرتمہاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں

تحریر: محمد ثقلین واحدی

وہ روایات جن میں امام مہدی علیہ السلام کا مخصوص ایام یا اوقات میں ذکر زیادہ فضیلت کا حامل ہے، ان کے بارے میں کتاب نجم الثاقب میں یوں بیان کیا گیا ہے:
اول: شب قدر
دوم: جمعہ کا دن
سوم: عاشور کا دن
چہارم: ہر روز (سورج کی سُرخی سے جب وہ غروب ہونے لگے تا اس وقت جب تک کہ مکمل غروب نہ ہو جائے۔)
پنجم: پیر اور جمعرات، عصر کے وقت
ششم: 15 شعبان المعظم (دن اور رات)
ذکر شدہ ایام اور اوقات میں سے کچھ کا ہم ذیل میں ذکر کرتے ہیں:

جمعہ کا دن:
یہ ان ایام میں سے ہے جنھیں امام مہدی علیہ السلام سے زیادہ منسوب کیا گیا ہے۔ اس دن کی فضیلت میں بہت سی روایات ذکر ہیں۔ اس کی اہمیت کو یوں بیان کیا کہ اسے مسلمانوں کی عیدوں میں سے شمار کیا گیا ہے۔ اس دن کے لیے بہت سے اعمال ذکر ہوئے ہیں، جن میں سے کچھ مفاتیح الجنان، مصباح المتھجد اور دیگر دعاؤں کی ذیل میں بیان ہیں۔ علامہ حسین نوری طبرسی ؒ کتاب نجم الثاقب میں فرماتے ہیں کہ اس دن کی اہمیت کا حامل ہونا ان بنا پر ہے:
1) امام علیہ السلام کی ولادت باسعادت اسی دن ہوئی۔
2)  امام ؑ کا ظہور بھی اسی دن ہوگا۔
امام باقر علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:
آسمان سے منادی ندا دے گا کہ قائمؑ کا ظہور ہوگیا ہے، جو کہ پورے عالم میں سنائی دے گی۔۔۔ اور یہ آواز دینے والے جبرائیل امینؑ ہونگے اور فرمایا: یہ آواز شب جمعہ (متفقہ علیہ ہے کہ مغرب کے بعد اگلا دن شروع ہو جاتا ہے۔) ۲۳ ماہ رمضان میں آئے گی۔۔۔ حضرت مہدی (عج) کے ظہور سے لوگوں کی زبانوں پر جاری ہوگا کہ حق اولاد محمد (ص) کے ساتھ ہے اور ان کے سوا سب باطل پر ہیں۔(تاریخ ما بعد الظہور/۱۷۶ـ کشف الغمہ ج۳،  ص ۲۶۰، وافی، ج ۲، ص۴۴۵۔۴۴۶، کتاب الغیبہ، شیخ طوسی، ص   ۴۳۵و ۴۵۴ و۴۵۳ ارشاد، ج۲، ص ۳۷۱؛ کمال الدین / ۶۵۱بحار الأنوار، ج۵۲، ص۲۰۴۔۲۸۸۔۲۹۰؛ منتخب الاثر، ص ۴۵۹، غیبت نعمانی/۲۵۴)

اس روایت کے علاوہ مزید احادیث و روایات میں بھی امام علیہ السلام کے ظہور کے دن کے حوالے سے جمعۃ المبارک کا ذکر ہوا ہے۔ اس دن امامؑ سے قربت اور انتظار فرج باقی دنوں کی نسبت زیادہ ہوتا ہے۔ اسی بنا پر امامؑ سے مختص زیارت جس کا اس دن پڑھنے کا ذکر زیادہ روایات میں موجود ہے، وہ یہ ہے: يا مولاي يا صاحب الزمان صلوات الله عليک و علي آل بيتک هذا يوم الجمعه و هو يومک المتوقع فيه ظهورک و الفرج فيه للمومنين علي يدک۔۔۔۔۔ جمعۃ المبارک کے دن کو عید کا دن شمار کیا جاتا ہے۔ یہ دن مومنین، اولیاء اللہ کے لیے بڑا بابرکت دن ہے، اس دن ان کی آنکھیں اور دل منور و روشن اور خوش و خرم ہوتے ہیں۔"( نجم الثاقب، ص۸۱۰) اس دن کی فضیلت پر بہت سی روایات اور احادیث مبارکہ نقل کی گئی ہیں، جیسے کہ نبی پاک ﷺ فرماتے ہیں: "دن اور رات جمعہ کا دن 24 گھنٹوں پر مشتمل ہے اور پروردگار ہر گھنٹے میں 6 لاکھ لوگوں کو جہنم کی آگ سے نجات دیتا ہے۔"(الخصال، جلد ‏ ۲، صفحہ  ۴۵۱) امام جعفر صادق علیہ السلام ، نبی پاک ﷺ سے حدیث نقل فرماتے ہیں: "اللہ تعالیٰ نے دنوں میں جمعہ کے دن کا انتخاب کیا، راتوں میں سے شب قدر، مہینوں میں سے ماہ رمضان المبارک۔۔۔"(إثبات الوصیہ، صفحہ ۴۹۶)

اس دن کیلئے جن اعمال کا خصوصی طور پر ذکر ہوا:
دعا ندبہ کا پڑھنا، امامؑ کی جدائی میں گریہ کرنا، روز جمعہ کی زیارت کا پڑھنا جو مفاتیح اور جمال الاسبوع میں ذکر ہے: "اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يا حُجَّةَ اللهِ في اَرْضِهِ ، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يا عَيْنَ اللهِ في خَلْقِهِ ، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يا نُورَ اللهِ الَّذي يَهْتَدي بِهِ الْمُهْتَدُونَ۔ جمعہ کے دن نماز عصر سے لے کر غروب تک نبی اکرم ﷺ پر بہت زیادہ صلوات بھیجنے کا ذکر بیان کیا گیا ہے: الّلهُمَّ صلّ علی محمّد و عجِّل فَرَجھم و أهلِك عَدوَّهم مِنَ الجِنِّ و الإنس مِن الاولینَ و الآخِرین(صحیفہ مہدیہ، ص۲۰۴)
اس کے علاوہ صبح اور ظہر کی نماز کے بعد اس دعا کے پڑھنے کا کہا گیا ہے: اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ وَ عَجِّلْ فَرَجَهُمْ لَمْ يَمُتْ حَتَّى يُدْرِكَ الْقَائِم‏(مصباح المتہجد و سلاح المتعبد، جلد۱، ص۳۶۸) ان صلوات کے علاوہ ایک اور صلوات جس کو جمعہ کے دن نبی پاک ﷺ پر بھیجنے کی تاکید کی گئی ہے: اللَّهُمَّ اجْعَلْ صَلَاتَكَ‏ وَ صَلَاةَ مَلَائِكَتِكَ وَ رُسُلِكَ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ وَ عَجِّلْ فَرَجَهُمْ یا اس طرح پڑھیں: اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ وَ عَجِّلْ فَرَجَهُم‏ (مصباح المتہجد و سلاح المتعبد، جلد۱، ص۲۸۴)

 صلوات "ضراب اصفہانی" جو مفاتیح الجناں میں جمعہ کے دن اور رات کے اعمال میں ذکر کی گئی ہے۔ سید بزرگوار ابن طاووس ؒ فرماتے ہیں: یہ صلوات مقدسہ نبی کریمﷺ اور ان کی آل مبارکہ علیہم السلام پر جمعہ کو عصر کے وقت پڑھنے کے لیے امام زمانہ علیہ السلام سے نقل ہوئی ہے۔ اس کی فضیلت کے بارے میں فرمایا گیا کہ اگر انسان تعقیبات عصر کو کسی عذر کی وجہ سے چھوڑ بھی دے تو اس صلوات کو نہ چھوڑے۔(صحیفہ مہدیہ، ۲۵۹) دعا ضراب اصفہانی: اَللّهُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّد سَیِّدِ الْمُرْسَلینَ وَ خاتَمِ النَّبِیِّینَ وَ حُجَّةِ رَبِّ الْعالَمینَ الْمُنْتَجَبِ فِى الْمیثاقِ الْمُصْطَفى فِى۔۔۔ مُدَّ فى اَعْمارِهِمْ وَ زِدْ فى اجالِهِمْ وَ بَلِّْهُمْ اَقْصى امالِهِمْ دینًا وَ دُنْیا وَ اخِرَةً إنَّکَ عَلى کُلِّ شَىْء قَدیرٌ۔ اس مقالہ کے اختصار کی وجہ سے اس صلوات مبارکہ کا شروع اور آخر والا حصہ دیا گیا ہے۔

پیر اور جمعرات، عصر کے وقت:
احادیث اور روایات کے مطابق اس وقت تمام انسانوں کے اعمال امامؑ کی خدمت میں پیش ہوتے ہیں۔ جیسے کہ نبی پاک ﷺ کے زمانے میں ان کے پاس اعمال لے جائے جاتے تھے۔ اس سلسلے میں آیات قرآنی اور احادیث و روایات میں سے چند ایک کو ذیل بیان کرتے ہیں: امام زمانہ علیہ السلام کے لئے اللہ کی جانب سے احاطہ علمی ہے کہ کائنات کی ہر شی کا علم امام کے پاس موجود ہوتا ہے اور روزانہ کے اعمال کا علم اور اشیاء میں ردوبدل کا علم جزئیات و کلیات کا علم امام کے لئے حاصل ہے، سورہ یٰسین میں آیت ”وَ کُلَّ شَیۡءٍ اَحۡصَیۡنٰہُ فِی اِمَامٍ مُّبِیۡنٍ“ (سورہ یٰسین، آیت ۲۱ٍٍٍٍٍ)(اور ہر چیز کو ہم نے ایک امام مبین میں جمع کر دیا ہے۔) کی تفسیر میں بھی اسے بیان کیا گیا ہے اور امام زمانہ علیہ السلام کی توقیعات میں بھی ہے کہ آپ بندگان کے تمام اعمال بارے احاطہ علمی رکھتے ہیں۔

قرآن مجید کی آیات اور معصومین ﴿علیہم السلام کی روایتوں سے یہ نکتہ بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر اکرم ﷺ اور آئمہ اطہارؑ، اُمت کے اعمال کے بارے میں آگاہی رکھتے ہیں۔ قرآن مجید میں آیا ہے: وقُلِ اعْمَلُوا فَسَيَرَى اللَّهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ وَالْمُؤْمِنُونَ(سورہ توبہ، آیت ۱۰۵) "اور پیغمبر! کہہ دیجئے کہ تم لوگ عمل کرتے رہو کہ تمھارے عمل کو اللہ، رسول اور صاحبان ایمان سب دیکھ رہے ہیں۔" اس سلسلہ میں جو روایتیں نقل کی گئی ہیں، ان کی تعداد زیادہ ہے، من جملہ اسی آیہ شریفہ کی تفسیر میں امام صادق ﴿ؑ سے نقل کیا گیا ہے کہ حضرت ﴿علیہ السلام نے فرمایا: ”لوگوں کے تمام نیک و بد اعمال ہر روز صبح سویرے پیغمبر اکرمﷺ کی خدمت میں پیش کئے جاتے ہیں، اس لئے ہوشیار رہئے۔“(الکلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۱، ص ۲۱۹، كتاب الحجۃ، باب عرض الاعمال علی النبی و الائمۃ، دارالکتب الاسلامیۃ، تہران،ـ۱۳۶۵ھ.ش.)

عبداللہ بن ابان ایک روایت میں کہتے ہیں: میں نے حضرت امام رضا ؑ کی خدمت میں عرض کی کہ: میرے اور میرے خاندان کے لئے ایک دعا فرمایئے۔ حضرتؑ نے فرمایا: ”کیا میں دعا نہیں کرتا ہوں؟ خدا کی قسم آپ کے اعمال ہر روز و شب میرے سامنے پیش کئے جاتے ہیں، لہذا ہر مناسب امر کے بارے میں دعا کرتا ہوں۔“ عبداللہ کہتے ہیں کہ امام ﴿ؑکا یہ کلام میرے لئے عجیب تھا کہ ہمارے اعمال ہر روز و شب امامؑ کی خدمت میں پیش کئے جاتے ہیں۔ جب امام ﴿ؑمیرے تعجب کے بارے میں آگا ہ ہوئے تو مجھ سے مخاطب ہوکر فرمایا: "کیا آپ خداوند متعال کی کتاب نہیں پڑھتے ہیں، جہاں پر خداوند متعال ارشاد فرماتا ہے: وقُلِ اعْمَلُوا فَسَيَرَى اللَّهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ وَالْمُؤْمِنُونَ اور اس کے بعد فرمایا: ”خدا کی قسم اس آیت میں مومنون سے مراد علی بن ابیطالبؑ ہیں۔“ (ایضاً، ج ۱، ۲۱۹، ح۴) چونکہ تمام ائمہ اطہار ﴿ؑنفس واحد کے مانند ہیں اور وہ سب ایک ہی نور ہیں، اس لئے جو بھی حکم ان میں سے ایک کے لئے ثابت ہو، باقی ائمہ علیہم السلام کے بارے میں بھی وہی حکم ثابت ہے۔

ہر روز (سورج کی سُرخی سے جب وہ غروب ہونے لگے تا اس وقت جب تک کہ مکمل غروب نہ ہو جائے۔):
ان اوقات میں سے جو امام ؑ سے منسوب ہیں، ہر روز سورج کی سُرخی سے جب تک کہ وہ مکمل طور پر غروب نہ ہو جائے، کیونکہ دن کو اگر حصوں میں تقسیم کیا جائے تو یہ دن کا بارہواں حصہ بنتا ہے۔ کتاب نجم الثاقب میں علماء نے مطلع فجر سے لے کر غروب آفتاب تک دن کو بارہ حصوں میں تقسیم کیا ہے اور ہر حصہ کو اس کی ترتیب کی بنا پر ہر امام علیہ السلام کے ساتھ نسبت دی گئی ہے، جیسا کہ دن کا پہلا حصہ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام سے مرتبط ہے اور بارہواں حصہ جو غروب آفتاب کے قریب سے شروع ہو جاتا ہے، آخری امامؑ سے منسوب ہے، اسی وجہ سے اس وقت امامؑ سے دُعا کرنے کا کہا گیا ہے۔ ان حصوں کو کم اور زیادہ سردیوں اور گرمیوں کے حساب سے کرتے ہیں۔(نجم الثاقب، ص ۸۲۰۔۸۲۱) صحیفہ مہدیہ میں دو دعاؤں کو بارہویں حصے کے لیے بیان کیا ہے: پہلی دعا: يَا مَنْ تَوَحَّدَ بِنَفْسِهِ عَنْ خَلْقِهِ يَا مَنْ غَنِيَ عَنْ خَلْقِهِ بِصُنْعِه‏۔۔۔ دوسری دعا: اللّهمَّ یا خالِقَ السّقفِ المَرفوع۔۔۔۔(صحیفہ مہدیہ، ص ۳۸۰۔۳۸۴)

عاشور کا دن:
یہ دن تو ہے ہی امام مہدی ؑ سے مخصوص، یہی وہ دن ہے، جب اللہ تعالیٰ کی جانب سے امام ؑ کے لیے"قائم" کا لقب عطا کیا گیا۔ شيخ جعفر بن محمد بن قولويہ اپنی کتاب کامل الزيارت میں محمد بن حمران سے جو امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں، بیان کیا کہ: "جب دشمنوں نے میرے جد امجد امام حسین علیہ السلام کو شہید کیا تو فرشتے مغموم ہوئے اور روتے اور آہ و نالہ کرتے ہوئے بارگاہ الٰہی میں عرض کیا: خداوندا! پروردگارا! کیا تو ان لوگوں سے درگذر کرے گا، جنہوں نے تیرے برگزیدہ بندے اور تیرے برگزیدہ بندے کے فرزند کو بزدلانہ طریقے سے قتل کیا؟" تو خداوند متعال نے فرشوں کے جواب میں ارشاد فرمایا: ’’اے میرے فرشتو! میری عزت و جلالت کی قسم! میں ان سے انتقام لونگا گو کہ اس میں کافی طویل عرصہ لگے گا۔" اس کے بعد خداوند متعال نے امام حسین علیہ السلام کے فرزندوں کا سایہ دکھایا اور پھر ان میں سے ایک کی طرف اشارہ کیا، جو حالت قیام میں تھے اور فرمایا: ’’میں اس قائم کے ذریعے امام حسین (ع) کے دشمنوں سے انتقام لوں گا۔‘‘

آیت کریمہ وَمَنْ قُتِلَ مظلوماً فقد جَعَلْنا لِوَلیّه سلطاناً  (سورہ اسراء آیت۳۳) (اور جو مظلومیت کے ساتھ قتل ہو، ہم نے اس کے وارث کو تسلط عطا کیا ہے) کی تفسیر میں امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: "اس آیت میں مظلوم سے مراد امام حسین علیہ السلام ہیں، جو مظلومیت کے ساتھ قتل کئے گئے اور جَعَلنا لِوَلیِّه سلطاناً سے مراد حضرت امام مہدی(عج) ہیں۔" (البرہان فی تفسیر القرآن، ج ۴، ص۵۵۹) اسی طرح کی روایت کو شیخ صدوق نے علل الشرائع میں ابو حمزہ ثمالی سے، جنہوں نے امام باقر علیہ السلام سے نقل کی ہے کو بیان کیا ہے۔ تفسير علی بن ابراہیم میں سورہ مبارکہ حج کی آیت 39: أُذِنَ لِلَّذينَ يُقاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَ إِنَّ اللَّهَ عَلى‏ نَصْرِهِمْ لَقَدير(جن لوگوں پر جنگ مسلط کی جائے، انہیں (جنگ کی) اجازت دی گئی ہے، کیونکہ وہ مظلوم واقع ہوئے اور اللہ ان کی مدد کرنے پر یقیناً قدرت رکھتا ہے۔) کی تفسیر کے ذیل میں فرماتے ہیں کہ "یہ قائم ؑ آل محمد علیہم السلام کے بارے میں بیان ہوئی ہے کہ وہ قیام کریں گے اور امام حسین ؑ کے خون کا انتقام لیں گے۔"

حاصل گفتگو:
روایات و احادیث جو مخصوص ایام یا اوقات کے حوالے سے ذکر کی گئیں، ان سے ہرگز یہ مطلب نہیں نکلتا کہ امام وقت حجت خدا کا ذکر صرف انہی دنوں یا وقت میں کرنا چاہیئے، یہ صرف ہر عبادت کے لیے فضیلت کا ذکر کیا گیا ہے، جیسے کہ نماز پڑھنی ہے، مگر اول وقت کی اہمیت اور پھر جماعت کے ساتھ پڑھنے وغیرہ کا ذکر اس عبادت کے درجہ کو کئی گنا بڑھا دیتا ہے۔ اس سے ہم بآسانی یہ سمجھ سکتے ہیں کہ امامؑ کا ذکر ہمیں ہر وقت اور ہر لمحہ ہی کرنا ہے، امامؑ شیخ مفید ؒ کے لیے صادر کردہ ایک توقیع فرماتے ہیں:۔۔۔ "ہم تمہارے حالات سے واقف ہیں اور تمہاری کوئی بات ہم سے پوشیدہ نہیں ہے، ہم نہ تم سے غافل ہیں اور نہ تمہیں فراموش کرتے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو مصائب و آلام کے پہاڑ تم پر ٹوٹ پڑتے اور دشمن تمہیں تارتار کرکے نابود کر دیتے۔۔۔"(الاحتجاج طبرسی) یہ کیسے ممکن ہے کہ انسان اس ہستی کے ذکر سے غافل ہو جائے، جو لمحہ بھر کے لیے اس سے غافل نہیں اور  وہی ہیں جن کہ بدولت اللہ تعالیٰ نے اس وقت کائنات کو بقا دی ہوئی تو کیسے ممکن ہے کہ ہم اپنی زندگی کا کوئی بھی لمحہ ان کی یاد کے بغیر گزاریں۔ اسی بات کو زیارت آل یاسین میں یوں بیان کیا گیا ہے: السَّلامُ عَلَيْكَ فِي آنَاءِ لَيْلِكَ وَ أَطْرَافِ نَهَارِكَ "سلام ہو آپؑ پر رات کے اوقات میں اور دن کی ہر گھڑی میں۔۔۔"

عرب نیوز چینل المیادین کے مطابق ایرانی سپاہ قدس کے کمانڈر جنرل اسمعیل قاآنی نے بحر اوقیانوس پر واقع امریکی بحریہ کے اڈے "سین ڈیاگو" پر جلتے امریکی جنگی بحری بیڑے "یو ایس ایس بونہام رچرڈ" کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ آج جو کچھ امریکہ میں وقوع پذیر ہو رہا ہے، خصوصاً امریکہ کا جلتا جنگی بحری بیڑہ، امریکی حکومت کے اعمال اور جرائم کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ الہیٰ وعدہ ہے کہ جو بھی ظلم و بربریت سے کام لے گا، اسے بالآخر الہیٰ عذاب سے دوچار ہونا پڑے گا۔ ایرانی سپاہ قدس کے کمانڈر نے کہا کہ انہوں (امریکیوں) نے چونکہ کلامِ الہیٰ کو جھٹلایا ہے اور ظلم و تعدی سے کام لیتے ہوئے انسانیت کے خلاف جرائم انجام دیئے ہیں، اب الہیٰ قہر و غضب کا شکا ہوچکے ہیں۔

ایرانی سپاہ قدس کے کمانڈر جنرل اسمعیل قاآنی نے امریکی حکام کو مخاطب کرتے ہوئے تاکید کی کہ امریکی بے جا طور پر (اس حادثے کے) ذمہ داروں کا کھوج نہ لگائیں اور دوسروں کو قصوروار بھی نہ ٹھہرائیں، کیونکہ (امریکی جنگی بحری بیڑے کو لگی) یہ آگ انہوں نے اپنے ہاتھوں سے ہی بھڑکائی ہے، جس نے اب انہیں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ جنرل قاآنی نے کہا کہ امریکیوں کو کہا جانا چاہیئے کہ پیش آنے والا یہ حادثہ تمہارے اپنے جرائم کا نتیجہ ہے، جبکہ یہ حادثہ بھی خود تمہارے ہی چیلوں کے ذریعے وقوع پذیر ہوا ہے۔ انہوں نے امریکی حکام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے ہی ہاتھوں سے تمہیں سزا دے رہا ہے۔

ایرانی انقلابی گارڈز سپاہ پاسداران کی ذیلی بریگیڈ سپاہ قدس کے کمانڈر جنرل اسمعیل قاآنی نے امریکی حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تاحال تمہارے خوشی کے دن چل رہے ہیں، جبکہ بہت جلد تمہارے اوپر سختی کے دن آنے والے ہیں، جن میں تمہیں اور غاصب صیہونی رژیم (اسرائیل) کو شدید حادثات کے ساتھ روبرو ہونا پڑے گا۔ جنرل اسمعیل قاآنی نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ امریکی فوج اب تھک کر فرسودہ اور اس کا فوجی سازوسامان لوہے کے کباڑ میں بدل چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مدتوں سے امریکی بحریہ کے کمانڈرز یہ کہتے چلے آرہے ہیں کہ امریکی جنگی بحری بیڑے اب لوہے کے کسی ڈھیر سے بڑھ کر کچھ نہیں رہے۔ سپاہ قدس کے کمانڈر نے کہا کہ امریکہ کو اپنی ناگفتہ بہ صورتحال کو قبول کرتے ہوئے انسانیت پر مزید ظلم و ستم ڈھانے سے ہاتھ کھینچ لینا چاہیئے۔
 
 
 

جامعہ بیت القرآن گلبرگ لاہور میں ملک کے جید علماء ومشائخ اور درگاہوں کے سجادہ نشینوں کی اتحاد امت کانفرنس۔ فرقہ واریت، دہشتگردی کیخلاف متحد ہونے کا عزم، پاک فوج کیخلاف کسی بھی قسم کی ہرزاہ سرائی قبول نہیں کریں گے۔ مفتی سید عاشق حسین کی زیر نگرانی اتحاد امت کانفرنس میں پیر سید حبیب عرفانی، میاں جلیل احمد شرقپوری، مفتی عاشق حسین، پیر علی جمیل خان، سجادہ نشین دربار عالیہ سندر شریف، مرکزی صدر پی ٹی آئی مذہبی امور ونگ پیر سید حبیب عرفانی، سجادہ نشین شرقپور شریف و رکن صوبائی اسمبلی میاں جلیل احمد شرقپوری، دربار میاں میر کے سجادہ نشین پیر سید علی رضا گیلانی، کل مسالک علماء بورڈ کے سربراہ مولانا محمد عاصم مخدوم، زیب آستانہ عالیہ دیوان علی عظمت سید محمد، آستانہ عالیہ ڈی ایچ اے لاہور خواجہ اسرارالحق نظامی، دربار عالیہ ملتان سے خواجہ محمد اکمل اویسی، دربار عالیہ پیر فضل شاہ ولی کے سجادہ نشین پیر علی رضا، پی ٹی آئی علماء و مشائخ ونگ کے مرکزی رہنما علامہ اصغر عارف چشتی اور سابق صوبائی ایڈوائزر جمیل خان نے شرکت کی۔

کانفرنس میں پیر اختر رسول قادری، پیر سید ارشد حسین گردیزی، مفتی شبیر انجم، علامہ پرویز اکبر ساقی، بابا محمد شفیق بٹ، مفتی لیاقت علی صدیقی، قاری محمد اعظم، علامہ محمد حسین گولڑوی، پیر محمد رمضان رضوی سیفی، مولانا محمد شفیق اللہ اجمل، پیر محمد امین ساجد، پیر، قاسم علی قاسمی، پیر عثمان نوری، ڈاکٹر امجد حسین چشتی، سید محمد شاہ ہمدانی و دیگر علمائے کرام و مشائخ عظام کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ کانفرنس کے شریک علماء نے متفقہ طور پر عزم کیا کہ اتحاد امت کیخلاف کسی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ ملک میں مسلکی، فرقہ وارانہ بحث نہیں چھڑنے دینگے، ملک کسی بھی قسم کی افراتفری اور فرقہ واریت کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت فرقہ ورانہ فسادات کو ہوا دینے والے عناصر کیخلاف کاروائی کرے۔ مشائخ عظام نے کہا کہ دہشتگردی کیخلاف پاک فوج کی لازوال قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں، قیام امن کیلئے اپنے ریاستی اداروں اور پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں، پاک فوج کیخلاف کسی بھی قسم کی ہرزاہ سرائی برداشت نہیں کریں گے۔

مقبوضہ جموں و کشمیر میں گذشتہ کچھ عرصہ سے کورونا وائرس کی عالمگیر وباء کے بیچ ہی آن لائن اور آف لائن مناظرہ بازی کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوگیا ہے، اس نے یہاں کے ذی حس طبقوں کو انتہائی مضطرب کر دیا ہے اور گذشتہ چند روز سے سوشل اور روایتی میڈیا کے توسط سے مسلسل اپیلیں کی جا رہی ہیں کہ اس طرح کی تفرقہ بازی سے اجتناب کیا جائے۔ مقامی سول سوسائٹی نے بارہا علماء دین اور مذہبی جماعتوں کو معاملہ کی نزاکت سمجھتے ہوئے باہمی اخوت کو فروغ دینے کی تاکید کرتے ہوئے مسلکی اور گروہی افتراق کو پنپنے نہ دینے کی اپیل کرکے عوام سے کہا کہ وہ دین کے بنیادی عقائد پر جمع ہوکر آپسی اتحاد و اتفاق کو زیادہ سے زیادہ مضبوط بنانے کی کوشش کریں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب بنیادی عقائد ایک ہیں تو پھر جھگڑوں کا کیا جواز بنتا ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اسلام اخوت اور اتحاد کا پیغام دیتا ہے، مگر جموں و کشمیر میں بالعموم اور وادی کشمیر میں بالخصوص مذہب و مسلک کے نام پر جس انداز میں قوم کو گروہوں میں تقسیم کرنے کی سازشیں رچائی جا رہی ہیں، وہ انتہائی افسوسناک ہے۔

ماضی قریب تک مقبوضہ وادی کشمیر میں ایسی کوئی روایت نہیں ہے بلکہ اسلامیان کشمیر بنیادی عقائد پر مجتمع ہوکر ملی اتحاد کا بھرپور مظاہرہ کر رہے تھے، تاہم اب جو ہوا چلنے لگی ہے، اگر فوری طور پر اس کو روکنے کی کوشش نہیں کی گئی تو کل یہ ہوا ایک آندھی کی شکل اختیار کرکے ملت کا شیرازہ بکھیرنے کا کام کرے گی اور اس وقت ہم چاہ کر بھی کچھ نہیں کر پائیں گے۔ مسلکی منافرت اور گروہ بندی کی تباہ کاریوں سے کوئی نا آشنا نہیں ہے۔ ایسے ہی فروعی معاملات کو لیکر کئی مسلم ممالک کو جو خمیازہ بھگتنا پڑا، وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے، اس کے باوجود بھی اگر کشمیر میں کوئی اس سمت میں جانے کی کوشش کرے تو وہ مذہب اور ملت کا بہی خواہ ہرگز نہیں ہوسکتا ہے۔ پہلے ہی عالم اسلام اس وقت کئی مسائل سے دوچار ہے۔ عالمی سطح پر اسلام اور مسلمانوں کی شبیہ مسخ کرنے کے لئے باضابطہ طور پر ایک مربوط مہم چل رہی ہے، جس کو اسلام دشمن قوتوں کی پشت پناہی حاصل ہے۔

اس مہم کے تحت مسلمانوں کو انتہاء پسندوں اور انسانیت دشمنوں کے طور پیش کرنے کی مکروہ کوششیں کی جا رہی ہیں، جبکہ اسی مہم کے تحت مسلک اور پارٹیوں کے نام پر مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کے منصوبے بھی بنائے جا رہے ہیں۔ اس نازک ترین صورتحال میں اگر امتِ مسلمہ طبقوں میں تقسیم ہو جائے تو اس کا براہ راست فائدہ ایسی قوتوں کو ہوگا، جنہیں ملت اسلامیہ کا وجود ایک آنکھ بھی نہیں بھاتا ہے۔ اتحاد میں طاقت اور وحدت ہی مسلم امہ کو موجودہ پریشان کن دور سے باہر نکال سکتی ہے۔ انتشار و افتراق کی صورتحال ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہونی چاہیئے، کیونکہ جب قرآن ایک ہے، نبی (ص) ایک ہے، قبلہ ایک ہے اور اسلام کے بنیادی عقائد مشترک ہیں تو کون سی چیز ہمیں ایک دوسرے کے خلاف لڑنے کے لئے آمادہ کر رہی ہے۔ ملت میں انتشار و افتراق ہمیں بنیادی اہداف سے کوسوں دور لے جائے گا، لہٰذا قوم کی یہ مشترکہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس پریشان کن صورتحال سے نمٹنے میں ادراک سے کام لے۔

علماء کرام، جن کا کام اسلام کی اشاعت ہے، ان کے کاندھوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ انہیں روز قیامت میں اس بات کا جواب دینا پڑے گا کہ انہوں نے اصلاح معاشرہ اور اتحاد ملت کے لئے کون سی ذمہ داریاں انجام دیں۔ وعظ و تبلیغ کا فریضہ انجام دیکر ہی مبغلین اسلام، مفتیاں کرام، ائمہ مساجد، علماء دین اور مذہبی اسکالر اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ نہیں ہوسکتے ہیں بلکہ ان پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ ملت کو اُس ڈگر پر لے جائیں، جس پر چل کر دنیا و آخرت میں سرخروئی مقدر بن سکے۔ ملت اسلامیہ میں پھیلی بیماریوں پر ان علماء سے جوابدہی ہوگی، لہٰذا انہیں بھی خاموش تماشائی بننے کی بجائے عملی طور پر اتحاد ملت کا خواب شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے اپنے آپ کو وقف کرنا ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ تمام قائدین، سماجی جماعتوں، سول سوسائٹی اور سماج کے ہر باشعور فرد کو انفرادی طور بھی اپنے آپ کو اس سنگین مسئلہ سے لاتعلق رکھنے کی بجائے اس کا تدارک کرنے کے لئے ہاتھ بٹانا چاہیئے۔

ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان سید عباس موسوی نے ٹوئٹر پر جاری ہونے والے اپنے ایک پیغام میں ایرانی سپاہ قدس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی عراقی حشد الشعبی کے ڈپٹی کمانڈر ابومہدی المہندس اور رفقاء سمیت ٹارگٹ کلنگ کی امریکی کارروائی کو بزدلانہ اور اقوام متحدہ کے منشور کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ سید عباس موسوی نے اپنے پیغام میں لکھا ہے کہ ہمارے خطے میں انسداد دہشتگردی کے ہیرو، جنرل قاسم سلیمانی کی ٹارگٹ کلنگ پر مبنی بزدلانہ (امریکی) کارروائی نہ صرف ایک "خودسرانہ قتل" بلکہ اقوام متحدہ کے منشور کی بھی کھلی خلاف ورزی تھی۔ ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے لکھا کہ امریکہ اس مجرمانہ اقدام کا ذمہ دار ہے جس سے وہ اقوام متحدہ پر اپنی شدید تنقید کے ذریعے "بری" نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے اپنے پیغام کے آخر میں لکھا کہ ہم اس (گھناؤنے امریکی جرم) کو بھولیں گے اور نہ ہی معاف کریں گے!