سلیمانی

سلیمانی

آیت اللہ شیخ عیسی قاسم نے مسلم علماء اور دانشوروں سے مطالبہ کیا کہ وہ مسئلہ فلسطین کے بارے میں اپنی ذمہ داریوں پر عمل کرتے ہوئے اللہ تعالی کے دین اور امت مسلمہ کے مفادات کی حفاظت کے لئے فلسطینی مسلمانوں کا بھر پور ساتھ دیں۔ انہوں نے کہا کہ مسجد الاقصی اور فلسطین کی آزادی کے سلسلے میں امت مسلمہ کو اپنی تمام توانائیوں اور صلاحیتوں سے بھر پور فائدہ اٹھانا چاہیے۔

آیت اللہ شیخ عیسی قاسم نے بعض عرب حکومتوں کے بزدلانہ اور منافقانہ موقف کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ ساز باز کرنے والی عرب ریاستوں کی غداری کو مسلمان اور عرب عوام کبھی فراموش نہیں کریں گے، استقامت، پائیداری اور مزاحمت مسئلہ فلسطین کا واحد حل ہے، اللہ تعالی کا وعدہ بر حق ہے" یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا إِن تَنصُرُوا اللَّهَ یَنصُرْکُمْ وَیُثَبِّتْ أَقْدَامَکُمْ۔"

آیت اللہ شیخ عیسی قاسم نے امت مسلمہ اور مزاحمتی گروہوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آج مسلسل مزاحمت کی ضرورت ہے کیونکہ مزاحمت اور استقامت کے بغیر فلسطین اور بیت المقدس کی آزادی ممکن نہیں ہے۔

 
0
 
Monday 18 May 2020 16:53

یوم القدس، ملت مرحومہ کیلئے حیات بخش دن

یوم القدس، ملت مرحومہ کیلئے حیات بخش دن
تحریر: مجتبیٰ ابن شجاعی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

سرزمین فلسطین انبیاء کرام کی سرزمین ہے، یہاں انبیاء کرام کی ایک بڑی تعداد یا تو مدفون ہے یا پھر اسی سرزمین سے دیگر ممالک کی جانب ہجرت کرکے چلے آئے ہیں۔ قبلہ اول جو آج غاصب اسرائیل کے نرغے میں ہے، بھی اسی سرزمین پر موجود ہے۔ ظہور اسلام سے قبل اور ظہور اسلام کے بعد اس مقدس و محترم سرزمین نے مختلف ادوار دیکھے، زمانہ کے نشیب و فراز سے اس قطعہ ارض کو گزرنا پڑا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ فلسطین ہمیشہ دعوت الٰہی کا مرکز رہا۔ انبیاء نے دعوت حق کے مقدس مشن کے لیے اس سرزمین پر اقامت اختیار کی۔ آسمانی کتابوں میں ارض قدس کی مرتبت و منزلت بیان ہوئی ہے۔ قرآن پاک کے مطابق خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم سفر معراج کے دوران مسجد الحرام سے یہاں پہنچے تھے۔ قرآن پاک کے سورہ مبارکہ اسراء آیت نمبر 1 میں ﷲ تبارک و تعالیٰ نے اس مسجد (قبلہ اول) کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے۔ ”پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے (پیامبر گرامی) کو راتوں رات مسجد الحرام سے مسجد الاقصیٰ تک کی سیر کرائی۔“ حضور اکرم نے اس مقدس مقام کی صرف سیر نہیں کی بلکہ تبدیلی قبلہ کے حکم سے قبل مسجد الاقصیٰ کی جانب رخ کرکے نماز ادا کی۔ تحویل قبلہ کے بعد مسلمانوں کا قبلہ کعبہ شریف بنا۔ گویا فلسطین سرزمین انبیاء ہے، اس مقدس و محترم سرزمین سے نہ صرف فلسطینی عوام بلکہ دنیا بھر کے کھربوں مسلمانوں کی دلی وابستگی ہے۔

تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ آج سے تقریباً تہتر سال پہلے اس سرزمین پر اسرائیل نامی صیہونی ریاست کا کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ پہلی جنگ عظیم سے قبل مٹھی بھر یہودی ارض فلسطین پر آباد تو تھے، یہ اپنے ازلی حریف عیسائیوں کے شر سے محفوظ رہنے کے لیے سینکڑوں سال تک مسلمانوں کے زیر سایہ اپنی زندگی بسر کر رہے تھے اور مسلمانوں کے ہوتے ہوئے بنا کسی خوف و خطر کے اپنے مذہبی امور انجام دیتے تھے۔ صیہونی دہشتگردی نامی کتابچہ کے مطابق 1800ء سے قبل صرف چھ ہزار سات سو یہودی فلسطین میں آباد تھے، ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت دنیا بھر سے یہودیوں کو اکٹھا کرکے فلسطین کی سرزمین پر بٹھایا گیا اور 1915ء میں فلسطین میں یہودیوں کی تعداد ستاسی ہزار پانچ سو تک پہنچ گئی اور یہ تعداد بتدریج بڑھتی گئی، 1947ء تک فلسطین کی سرزمین پر چھ لاکھ تیس ہزار یہودیوں کو بسایا گیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 1948ء میں امریکہ اور برطانیہ کی ناجائز اولاد غاصب صیہونی ریاست ”اسرائیل“ وجود میں آگیا۔

پہلی جنگ عظیم ہی تاریخ کا وہ منحوس ترین دور دورہ تھا، جب اسلام دشمن قوتوں نے ارض مقدس فلسطین پر یہودی ریاست کی تشکیل کا منصوبہ بنا لیا۔ اس منصوبہ کا ماسٹر مائنڈ برطانیہ اور شیطان بزرگ امریکہ تھا۔ جنہوں نے جدید صیہونیت کے بانی کار تھوڈور ہرٹزل نامی منحوس شخص کو استعمال کیا۔ کڑی سازشوں اور ناپاک منصوبوں کے بعد 14 مئی 1948ء کا وہ تاریک اور منحوس ترین دن آپہنچا کہ فلسطین کی مقدس سرزمین پر صیہونی ریاست کے قیام کو عملی جامہ پہنایا گیا اور مسلمانوں کے قلب میں اسرائیل نام کی غاصب اور غیر قانونی ریاست اسرائیل کے وجود کا اعلان کیا گیا۔ اس طرح سے حقوق بشر کے نام نہاد دعویدار نے دنیا بھر کے کھربوں مسلمانوں کے جذبات کے ساتھ کھلوڑ کیا اور اقوام متحدہ نے بھی تقسیم فلسطین کا منصوبہ منظور کرکے مسلمانان عالم کو اپنا حقیقی چہرہ دکھایا۔ اسرائیل کا وجود حقوق بشر کے تابوت میں آخری کیل اور انسانیت کے چہرے پر بدنما داغ ثابت ہوا۔

تاریخ گواہ ہے کہ اپنے ناپاک وجود سے لیکر آج تک برطانیہ اور امریکہ کی اس ناجائز اولاد نے فلسطین کی سرزمین پر حق رکھنے والے وہاں کے اصلی باشندوں کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنا کر انہیں فلسطین سے بے دخل کر دیا۔ ریکارڈ توڑ مظالمِ کے سہارے فلسطینیوں کو محدود دائرے میں مقید کرکے رکھ دیا۔ مظلوم فلسطینی عوام کو درندگی کا نشانہ بنانے کے لیے موساد نامی دہشتگرد گروہ تیار کئے، جنہوں نے نہ صرف دسیوں ہزار فلسطینیوں کی قتل و غارتگری کی بلکہ بدنام زمانہ قید خانوں میں ان کے اعضاء کی چوری کی۔ تاریخ کی ورق گردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ صیہونی اپنے جنم دن سے ہی شرپسندی کا نمونہ بنے ہوئے ہیں، یہ ٹولہ کرہ ارض پر قتل و غارتگری سود خوری، شراب خوری اور دیگر انسانیت سوز برائیوں کے انجام دہی میں پیش پیش رہا۔

یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ یہودی اور عیسائی وجود اسرائیل سے قبل ایک دوسرے کے سخت ترین دشمن شمار ہوتے تھے۔ آپس میں خون کے پیاسے ہیں۔ عیسائی عقیدے کے مطابق یہودیوں کے بانی کار نے ہی قتل عیسٰی ؑ کے منصوبے کو عملی جامہ پہنایا، اسی تناظر میں ہٹلر نے بھی اس ٹولہ کو تہہ تیغ کیا۔ لیکن مسلمانوں کے خلاف دونوں حریف متحد ہوگئے، آپس میں گلے مل گئے۔ عالمی سامراج نے ناجائز اولاد ”اسرائیل“ کو جنم دیا، اس کی پرورش کی۔ سامراج کو ایک بہت بڑا فائدہ یہ ہوا کہ مشرق وسطیٰ میں مسلمانوں پر اپنا دبدبہ قائم کرنے کے لیے انہیں ایک اڈہ ملا۔ گذشتہ سات دہائیوں سے امریکہ اور برطانیہ کی بھرپور فوجی و اقتصادی مدد سے غاصب، جابر و سفاک اسرائیل نے اس ملک کے اصلی باشندوں پر ظلم و بربریت کے پہاڑ ڈھائے۔ قتل و غارتگری لوٹ مار اور بستیوں پر بلڈوزر چلا کر اپنے ناجائز قبضے کا دائرہ وسیع کرتا رہا، لیکن افسوس صد افسوس ان سات دہائیوں میں مٹھی بھر مجاہدین ملت کے سوا کسی ایک نام مسلمان نے اسرائیل کی ناپاک حرکتوں پر اعتراض نہ جتایا۔

اپنی بدنصیب آنکھوں سے فلسطینی عوام کے قتل عام اور قبلہ اول کی بار بار بے حرمتی اور توہین کا نظارہ کرتا رہا۔ اگرچہ ایک دوسرے کے خلاف کفر کے فتوے لگانے میں ذرا برابر بھی دیر نہیں کی۔ مسلکوں کے نام پر جنت کو تقسیم کیا۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ فلسطین کی سرزمین پر ننھے اور معصوم بچوں، نوجوانوں اور عمر رسیدہ افراد کے ظلم و ستم پر زبان کھولنے تک کی زحمت نہ کی۔ سچ بات یہ ہے کہ امت مسلمہ نے قبلہ اول کو بُری طرح سے فراموش کیا۔ انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی کے چند ماہ بعد اس انقلاب کے بانی حضرت امام خمینی ؒنے فلسطینی عوام کی حمایت اور قبلہ اول کی بازیابی کے لیے یوم قدس کا تاریخ ساز فتویٰ اگست 1979ء میں جاری کیا۔ امام خمینیؒ نے یہ فتویٰ صیہونیت کی جانب سے منائے جانے والے یوم یروشلم کی مخالفت کے تناظر میں جاری کیا۔ یوم قدس کے اس تاریخ ساز فتوے نے اسرائیل کے ایوانوں میں ہلچل مچا دی۔ غاصب اسرائیل اور اس کے آقا بخوبی سمجھ گئے کہ امام خمینی ؒ کے اس اقدام سے فراموش شدہ مسئلہ، مسئلہ فلسطین زندہ و جاوید بن جائے گا۔

لہذا انہوں نے جمہوری اسلامی ایران کے خلاف بھی چالبازیاں اور پروپیگنڈہ شروع کر دیا۔نت نئے حربے اور ہتھکنڈے آزمائے، لیکن ایک ایک کرکے سب ناکام ثابت ہوگئے۔ آئے روز پابندیوں کا دائرہ وسیع کر دیا اور اسلامی انقلاب کی قیادت کو زیر کرنے کی حتیٰ الامکان کوشش کی، لیکن امام راحل ؒ کی اس مدبرانہ اور ولولہ انگیز قیادت نے جھکنے، بکنے اور تھکنے کا نام تک بھی نہ لیا، نہ ہی کبھی فلسطینیوں کی حمایت سے دستبرداری کا احساس کیا۔ امام راحل نے کردار یزیدی کے مقابل حسینیؑ کردار نبھایا، اپنے وطن عزیز سے عالمی سامراج کو بے دخل اور مشرق وسطیٰ سے اس کے اثر و رسوخ کا خاتمہ کیا۔ ہمارے عرب حکمرانوں نے عالمی سامراج کے ساتھ سودا کیا۔ ان کے ہاتھوں میں ہاتھ اور کندھے کے ساتھ کندھا ملایا۔ اپنے دشمن کو سر آنکھوں پر بٹھایا۔ فلسطین سمیت دیگر مظلومین و مستضعفین جہاں کو تنہا و بے آسرا چھوڑا۔ لیکن سرزمین ایران سے مسلمانان عالم کا ایک خیر خواہ اٹھا، جس نے اسلام ناب محمدی کو سمجھ لیا تھا۔ آیت ﷲ امام خمینی ؒ نامی اس عظیم الشان ہستی نے امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل کا بیڑا غرق کرکے وقت کے اس بڑے طاغوت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔

یوم قدس کا تاریخ ساز فتویٰ جاری کرکے امام راحل ؒ نے مرحوم ملت کو بیدار کیا اور سامراج کو باور کرایا کہ مسلمان غاصب ریاست کو کسی بھی صورت میں برداشت نہیں کریں گے، بلکہ تل ابیب کو صفحہ ہستی سے ہی مٹا دیں گے۔ یوم قدس دراصل برطانیہ، امریکہ اور اسرائیل سمیت دیگر غاصب، ظالم و جابر قوتوں کے خلاف نفرت و بیزاری کے اظہار کا دن ہے، ملت مرحومہ کے لیے حیات بخش دن ہے، مسلمانوں کی آزادی کا دن ہے، قبلہ اول کی بازیابی کا دن ہے، القدس لنا کا یہ نعرہ رسول اسلام کے مقدس مشن کا نعرہ ہے۔ انقلاب اسلامی کے اس پروردہ نعرے نے شرق و غرب کے مظلوم عوام کو ظلم و جور کے آگے سر اٹھا کے چلنے کا سلیقہ سکھایا۔ اس نعرہ نے مظلوم کو ظالم کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت اور حوصلہ عطا کیا۔ اسی نعرے کی برکات سے قائد مقاومت و مزاحمت سید حسن نصر ﷲ کی قیادت والے حزب اللہ لبنان نے صرف اور صرف 33 روز میں جدید ساز و سامان سے لیس غاصب، جابر، سفاک اور وقت کے سب سے بڑے طاغوت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا اور تحریک حماس کے جانباز جوانوں نے حالیہ برسوں میں واشنگٹن کی ناجائز اولاد اسرائیل کو عسکری وسائل کی قلت کے باوجود سر جھکانے پر مجبور کردیا۔ یہی سبب بنا کہ آج اسرائیل ذہنی تناو میں مبتلا ہوکر جنگ بندی کی بولی بول رہا ہے۔

امام خمینی ؒنے 1979ء میں دنیا بھر کے مسلمانوں سے رمضان المبارک کے آخری جمعے کو یوم قدس منانے کی اپیل کی۔ آج بلا لحاظ مسلک و ملت و مذہب 80 سے زائد ممالک میں آزاد منش افراد رمضان المبارک کے آخری جمعے کو روز جہانی قدس کے طور پر مناتے ہیں۔ امام خمینی ؒ فرماتے ہیں: ”میری دنیا بھر کے مسلمانوں سے اپیل ہیں کہ وہ ماہ رمضان کے آخری جمعہ کو یوم القدس کے طور پر منائیں اور اس دن فلسطین کے مسلمان عوام کے قانونی حقوق حمایت میں اپنے اتحاد و یکجہتی کا عملی مظاہرہ کریں۔“ امام خمینی ؒ فرماتے ہیں: ”میں عرصہ دراز سے تمام مسلمانوں کو غاصب اسرائیل کے خطرے سے آگاہ کر رہا ہوں، جس نے ان دنوں ہمارے فلسطینی بھائیوں، بہنوں پر اپنے مظالم میں اضافہ کر دیا ہے۔ میں امت اسلامیہ بالخصوص اسلامی حکومتوں سے درخواست کرتا ہوں کہ اس غاصب (اسرائیل) اور اس کے حامیوں کے ہاتھ کاٹنے کے لیے متحد ہو جائیں اور تمام مسلمانوں کو دعوت دیتا ہوں کہ رمضان المبارک کے آخری جمعے کو یوم القدس قرار دے کر کسی بھی پروگرام کے ذریعے بین الاقوامی سطح پر فلسطینی مسلمان عوام،تمام مسلمان اور مظلومین جہاں کے ساتھ ہمدردی کا اعلان کریں۔“(صحیفہ امام) آپ فرماتے ہیں کہ ”یوم القدس عالمی ہے یہ صرف قدس سے متعلق نہیں بلکہ مستکبرین کے ساتھ مقابلہ کا دن ہے۔ رسول اکرم ﷺ کا دن ہے، یہ اسلام کا دن اسلامی حکومت اور اتحاد بین المسلمین کا دن ہے۔“

یوم قدس کے تناظر میں رہبر انقلاب حضرت امام خامنہ ای فرماتے ہیں کہ ”یوم قدس منانا چاہیئے، اگر دنیا کا میڈیا اس کی کوریج کرے یا نہ کرے، وہ لوگ جو فلسطین کے زندانوں میں قید ہیں، آپ کی اس صادقانہ نیت اور عزم سے قوت کا احساس کرتے ہیں اور دشمن کے خلاف مقاومت کرتے ہیں۔ فلسطین کی سرزمین کی ایک ایک بالشت تمام مسلمانوں کے گھر کی ایک ایک بالشت ہے۔ اس سرزمین پر فلسطینی حکومت کے علاوہ کوئی بھی دوسری حکومت غاصب ہے۔“ بہرحال یوم قدس ایک بہترین موقع ہے کہ تمام مسلمان متحد و بیدار ہو جائیں۔ فروعی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر قبلہ اول کی بازیابی اور فلسطینی عوام کی حمایت کا اعلان کریں۔ نہ صرف اعلان بلکہ زمینی سطح پر فلسطین کی آزادی کے لیے جدوجہد کریں اور مسلم ممالک میں استعماری سازشوں کا خاتمہ کرکے اپنی تقدیر کا فیصلہ خود کریں۔ ”نصر من ﷲ و فتح قریب۔“
غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوقِ یقین پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں (علامہ اقبال)ؒ

بالفور ڈیکلریشن (2 نومبر 1917ء کو برطانوی وزیر خارجہ آرتھر جیمز بالفور کا اعلامیہ) برطانوی استعمار کے انسانیت سوز مظالم کا سیاہ ترین باب ہے، جس کے ذریعے صیہونی فسطائیت کو فلسطین جیسی اسلامی سرزمین ہتھیانے کا غیر قانونی راستہ فراہم کیا گیا۔ انسانی


احقوق کا ناٹک رچانے والے امریکی استکبار اور برطانوی سامراج نے ایک آزاد قوم کے حقوق پر ڈاکہ ڈالتے ہوئے ارض فلسطین کی بندر بانٹ کرکے انسانی حقوق کی دھجیاں اڑائی، جبکہ بین الاقوامی قانون کی رو سے برطانیہ اپنے زیرانتداب مقبوضہ جات سے متعلق علاقے کے عوام کی رائے اور حق خودارادیت کے احترام کا پابند قرار پاتا ہے۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ نام نہاد تہذیب کے فرزندوں نے اس وحشتناک جرم پر معافی مانگنے کی بجائے ناجائز صیہونی قبضے کو لیگ آف نیشن کے ذریعے قانونی جواز فراہم کرنے کی بھونڈی کوشش کی۔ عالم اسلام کے قلب اور انبیاء کی سرزمین پر نسل پرست صیہونی جرثومہ اعظم کا غاصبانہ قبضہ ایک ایسا جارحانہ عمل ہے، جس کے خلاف آج دنیا بھر کے منصف مزاج، آزاد انسان سراپا احتجاج ہیں۔

یہ احتجاج اسرائیل کے جرائم اور توسیع پسندانہ عزائم کے خلاف فلسطین کی آزادی کے حق میں عالمگیر آواز بن کر استکباری قوتوں اور ان کے لوکل گماشتوں کی نیندیں حرام کرچکا ہے۔ امام خمینی عالمی مسائل کے دقیق اور گہرے تجزیئے کی بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کرچکے تھے کہ مسئلہ فلسطین اور کشمیر سمیت تمام بین الاقوامی تنازعات کا حل استکباری طاقتوں کے خلاف مستضعف اقوام کی مزاحمت اور استقلال طلب جدوجہد میں ہی مضمر ہے۔ لہذا فلسطینی مظلوموں کی آواز کو عالمگیر جہت دے کر عالمی ضمیر کو جگانے کے لیے خمینی بت شکن نے یوم القدس منانے کا حکم دیا۔ امام راحل نے نام نہاد مسلم حکمرانوں کی طرح صرف زبانی جمع خرچ کو کافی نہیں سمجھا بلکہ استقامتی بلاک کو اسٹریٹیجک گائیڈ لائن اور مصافیاتی نظام العمل فراہم کرکے مقاومت اور مزاحمت کا راستہ دکھایا۔

الفتح اور پی ایل او جیسی تنظیمیں جو کبھی پرامن ٹیبل ٹاک کے ذریعے فلسطین کاز کے حل کا خواب دیکھتی تھیں، آج مقاومت اور انتفاضہ کی زبان میں بات کرنے پر مجبور ہوچکی ہیں۔ کیونکہ مذاکرات کی میز پر مخملی ہاتھ ملانے والوں کے پس پردہ آہنی ہاتھ اور دھونس دھمکی کا مشاہدہ محمود عباس (الفتح کے موجودہ راہنما) بخوبی کرچکے ہیں۔ کاش الفتح کی قیادت کو مقاومت کی طاقت کا اندازہ بہت پہلے ہو جاتا تو آج حالات کچھ اور ہوتے، چلو دیر آید درست آید۔ امام خمینی کی دوراندیش نگاہیں عالمی طاغوت کی نفسیاتی بزدلی اور عسکری برتری کے کھوکھلے پن کا مشاہدہ کرچکی تھیں، لہذا آپ نے اسرائیل جیسے ناسور کو عالم اسلام کے قلب سے کاٹ پھینکنے کا واحد نسخہ، اسلامی مقاومت بتایا۔ دنیا آپ کے بتائے ہوئے نسخے کی طاقت کا بڑی حیرت سے مشاہدہ کر رہی ہے۔

1967ء کی جنگ میں عرب ملکوں کو چھے دنوں کے اندر شکست دینے والا اسرائیل 2006ء کی جنگ میں حزب اللہ جیسی خدائی ابابیل کے ہاتھوں شرمناک شکست سے دوچار ہوا۔ اس تینتیس روزہ جنگ میں حزب اللہ نے ملٹری سائنس کے رائج فارمولوں کی قلعی کھول کر رکھ دی۔ امریکہ اور اسرائیل کی ملٹری ٹیکنالوجی کا طلسم ٹوڑ ڈالا۔ صیہونی عسکری بالادستی کے افسانوں کی حقیقت عیاں ہوگئی، اسرائیل کی شکست ناپذیری کا کھوکھلاپن دینا پر واضح ہوگیا۔ آج مقاومتی بلاک اقدامی پوزیشن کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے، جبکہ صیہونیت نواز دجالی ٹرائیکا   دفاعی پوزیشن اپنانے پر مجبور ہوچکی ہے۔ مسئلہ فلسطین اور اس قبیل کے تمام ایشوز کو اقوام عالم تک پہنچانے کے لیے یوم القدس ایک موئثر عالمگیر پلیٹ فارم کی شکل اختیار کر رہا ہے۔ لیکن بی بی سی اور سی این این طرز کا زائونسٹ کنٹرولڈ میڈیا، مسلم نوجوانوں کے اذہان کو گمراہ کرنے کی خاطر مسئلہ فلسطین کو اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان متنازعہ ایشو بنا کر پیش کر رہا ہے۔

جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مسئلہ فلسطین عالم اسلام کا مسئلہ ہے اور قبلہ اول کو صیہونی تسلط سے آزاد کرانے کے لیے جدوجہد کرنا تمام مسلمانوں کا مشترکہ فریضہ ہے۔ مسلم نوجوان نسل کے ذہنوں میں یہ سوال ڈالا گیا ہے کہ عالم اسلام کے دیگر حل طلب ایشوز کی نسبت قضیہ فلسطین کو اس قدر ہائی لائٹ کیوں کیا جاتا ہے۔؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے ہمیں صیہونی رجیم اور اس کو وجود میں لانے والے امریکہ اور برطانیہ کے پس منظر اور ان کی ریاستی ہیت ترکیبی کا جائزہ لینا ہوگا، تاکہ مسئلہ فلسطین اور دیگر عالمی تنازعات کے حل کی راہ میں حائل اصل رکاوٹ کی تشخیص ممکن ہوسکے۔ عالمی جغرافیے میں موجود ممالک کی تاریخی حرکیات کے مطالعے سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل کے وجود کی عمارت ہی دیگر اقوام کے قتل و غارت اور استحصال پر کھڑی کر دی گئی ہے، اقوام عالم میں یہ واحد منحوس مثلث ہے، جو اپنے غاصبانہ پس منظر اور جارحانہ کردار کے سبب سیاہ ترین مجرمانہ تاریخ رکھتی ہے۔

امریکی استعمار، ریڈ انڈینز کی زمینوں پر ناجائز قبضے کے ذریعے ان کی نسل کشی اور برطانوی گوروں کی آبادکاری کے لیے سیاہ فام افریقی اقوام کو غلام بنا کر ان سے جبری بیگار لینے کے نتیجے میں وجود میں آیا، یعنی امریکہ کی بنیاد ہی ریڈ انڈینز قبائل اور سیاہ فام افریقیوں کے خون پر رکھی گئی ہے، اسی طرح اسرائیل جیسے ناجائز ملک کی بنیاد بھی فلسطین پر ناجائز قبضے کے ذریعے علاقے کے اصل باشندوں کی جبری بے دخلی کے سبب ممکن ہوئی ہے۔ برطانیہ ان دونوں ملکوں کو  وجود میں لانے کا بنیادی عامل ہے۔ گویا دیگر اقوام کے وسائل پر ناجائز قبضہ کرنا اور   اوچھے ہتھکنڈوں کے ذریعے قوموں کا استحصال، اس وحشی تکون کے اجتماعی مزاج کا حصہ رہا ہے۔ موجودہ عالمی تنازعات، سیاسی اضطراب اور معاشی بحران کا غیر جانبدارانہ تجزیہ کیا جائے تو اس ناہمواری کا بنیادی فیکٹر بھی یہی دجالی ٹرائیکا نظر آتا ہے۔ مثال کے طور پر ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف طرز کے معاشی استحصالی اداروں  کے ذریعے کمزور اقوام کو مالی امداد کے نام پر سودی قرضوں کے شکنجے میں جکڑ لینے کا مذموم عمل ان تینوں ممالک کی استحصالی ذہنیت کی واضح دلیل ہے۔

عالمی امن کو سبوتاژ کرنے کے لیے جنگوں کا بزنس بھی اس تاریک مثلث کے مجرمانہ ٹریک ریکارڈ کا حصہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام خمینی جیسی نبض شناس شخصیت نے انسانی معاشرے کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھتے ہوئے صیہونیت نواز امریکی استکبار اور برطانوی استعمار کو عالمی ناہمواریوں کا بنیادی عامل بتایا اور یوم القدس کے ذریعے اس شیطانی تکون کے مظالم اور جرائم کو برملا کرنے کا حکم دیا۔ یوم القدس صرف فلسطین کاز کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ تمام عالمی تنازعات کے بنیادی عامل یعنی اسرائیل کے جارحانہ منصوبوں سے دنیا کو آگاہ کرنے کا پلیٹ فارم ہے۔ یوم القدس مقاومت کا استعارہ ہے، جو مستضعفین جہاں کو اسرائیل اور اس کے لے پالک گماشتوں کے توسیع پسندانہ عزائم کو خاک میں ملانے کا عزم بخشتا ہے۔ یوم القدس، اقوام عالم کو اسرائیل کی شکل میں موجود اصل عالمی خطرے کی طرف متوجہ کرنے کا نام ہے۔ دنیا کو اسرائیل کی جارحیت کو عالمی امن کے لیے حقیقی خطرہ قرار دے کر   صیہونی مظالم کے خلاف سنجیدہ اقدام کرنا ہوگا۔ اسرائیلی کنیسٹ پر کندہ عبارت میں نیل سے فرات تک کا علاقہ اسرائیل کی قلمرو میں شامل کرنے کا اعلان، مغربی ایشیا کے اسلامی ممالک کے لیے ایک طرح کی کھلی دھمکی اور سکیورٹی تھریٹ ہے۔

ایسے حالات میں مسئلہ فلسطین خطے کے دیگر تنازعات کے حل کا بنیادی راستہ ہے، جو مزاحمت کے ذریعے ہی طے کیا جا سکتا ہے۔ آج انقلاب اسلامی ایران کی کامیاب حکمت عملی کی بدولت مسئلہ فلسطین عالمی توجہ کا مرکز بنتا جا رہا ہے، جو کہ مقاومتی بلاک کی تزویراتی کامیابی اور اسرائیل کی سیاسی شکست کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یوم القدس، جہاں صیہونی مظالم کے خلاف آواز اٹھانے کا ذریعہ ہے، وہاں فلسطینی انتفاضہ اور مزاحمتی بلاک کی جملہ اخلاقی، سیاسی اور عسکری کامیابی کے اظہار کا طاقتور پلیٹ فارم بھی ہے۔ یوم القدس، اسلامی دنیا اور مستضعف اقوام کو اپنی تقدیر خود اپنے ہاتھوں سے لکھنے کا پیغام دیتا ہے۔ لہذا     اس تقدیر ساز دن کی حیاتیاتی اہمیت کو سمجھتے ہوئے عالمی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اظہار نفرت اور فلسطین، کشمیر، یمن، عراق اور سیریا کے مظلومین سے یکجہتی کا اظہار کرنا تمام انسانوں پر فرض ہے، تاکہ جارح اور غاصب طاقتوں کی بساط لپیٹی جا سکے۔ ان شاء اللہ مقاومت کی بدولت مظلوموں کا خون ایک دن ضرور رنگ لائے گا اور صیہونی مظالم کی سیاہ رات کا خاتمہ ہو جائے گا۔ بقول شاعر:
ظلم بس ظلم ہے آغاز سے انجام تلک
خون پھر خون ہے سو شکل بدل سکتا ہے

تحریر: ڈاکٹر ابوبکر عثمانی

جمعة الوداع قریب ہے۔ دنیا بھر کے مسلمان سردار الایام (جمعۃ الوداع، دنوں کا سردار دن) کو خشوع و خضوع سے منانے کیلئے تیاریوں میں مصروف ہیں۔ کورونا وائرس کے باعث حکومت اور اداروں کی جانب سے بھی خصوصی اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ مساجد، مدارس، عیدگاہوں کی تزئین و آرائش بھی جاری ہے۔ مذہبی و سیاسی تنظیموں، تحریکوں کی جانب سے اپنی خدمات یا عزائم کی تشہیری مہم عروج پہ ہے۔ کہیں مبارکباد تو کہیں درخواست، کہیں خیر مقدمی تو کہیں احتجاجی بینرز، پینا فلیکسز آویزاں ہیں اور مزید بھی نصب کئے جا رہے ہیں۔ تمام اقدامات سر آنکھوں پہ، مگر سوال یہ ہے کہ مقبوضہ بیت المقدس، قبلہ اول کیا کسی ایک خاص مکتب فکر کا ہے۔؟ کیا فلسطین کی آزادی کی جدوجہد ایک مخصوص مسلک کیلئے ہے۔؟ اگر نہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ قبلہ اول، بیت المقدس کی آزادی، فلسطین کی آزادی، اسرائیل کے خاتمے، کشمیر کی آزادی سے تجدید عہد پہ مبنی پوسٹرز، بینرز ایک ہی مسلک و مکتب کی جانب سے جاری کئے جا رہے ہیں۔

کیا وجہ ہے کہ الیکٹرانک، پرنٹ و سوشل میڈیا میں بھی اسی مسلک کے رہنماؤں، اکابرین کی جانب سے عالم اسلام کے اجتماعی مفادات، حقوق کا نعرہ حق بلند ہے۔؟ کیا وجہ ہے کہ اسی مکتب فکر کی جانب سے مسلمانوں کے ساتھ ہونیولی عالمی ناانصافیوں کے خلاف آواز بلند کی جا رہی ہے۔ شہر شہر میں انہی کی جانب سے قبلہ اول پہ صہیونی قبضے کے خلاف احتجاجی ریلیوں اور لانگ مارچ کی کال دی جا رہی ہے۔؟ ایسا کیوں ہے۔؟ کیا ہم نے آزادی فلسطین کا مقدمہ کسی ایک مکتب کے سپرد کر دیا ہے؟ یا ہم نے قبلہ اول پہ صہیونی قبضے کو قبول کر لیا ہے۔؟ یقیناً دونوں باتوں میں صداقت نہیں ہے۔ آپ ایران کے انقلاب اسلامی سے چاہے اختلاف کریں یا امام خمینی کے نظریات سے اتفاق نہ کریں، مگر مقدمہ فلسطین کے حوالے سے ان کے اس احسان کو کبھی بھی فراموش نہیں کرسکتے کہ جو انہوں نے جمعة الوداع کو یوم القدس قرار دیکر تمام عالم اسلام پہ کیا ہے۔

دنیائے اسلام اس عنوان سے امام خمینی کی ممنون ہے کہ انہوں نے یوم القدس منانے کا فرمان جاری کرکے قبلہ اول کی آزادی کی تحریک میں نئی روح پھونکی۔ ایک ایسے مقدمے کو زندہ کیا، جسے بھلا دیا گیا تھا۔ فلسطین کی آزادی کے اس نعرے کو پھر سے ببانگ دہل بلند کیا کہ جسے تقریباً تقریباً فراموش کر دیا گیا تھا۔ امام خمینی جمعة الوداع کو یوم القدس قرار دیکر قدس کی آزادی، فلسطین کی آزادی کا مطالبہ کمرہ بند اجلاسوں سے، عالمی ایوانوں میں ہونے والی مخفی میٹنگز سے، حکومتی خط و کتابت سے نکال کر عوامی سطح تک لے آئے۔ دنیا بھر کے انصاف پسند انسانوں کی زبان کو موقع فراہم کیا کہ وہ اسرائیل کے ناجائز وجود کے خلاف آواز بلند کریں۔ آزادی فلسطین، بیت المقدس کی آزادی کے لیے اس سے بڑھ کر کیا خدمت ہو گی کہ جمعة الوداع کے موقع پہ دنیا بھر میں عظیم الشان انسانی اجتماع برپا ہوتے ہیں اور کروڑوں لوگ قبلہ اول مقبوضہ بیت المقدس کی، فلسطین کی آزادی کا نعرہ بلند کرتے ہیں۔

تاریخ کے چند حقائق کو سامنے رکھیں تو امام خمینی کی اس خدمت کا بہتر ادراک ہوتا ہے کہ جو انہوں نے جمعة الوداع کو یوم القدس قرار دیکر کی ہے۔ نومبر 1917ء میں آزاد عربوں کی سرزمین (فلسطین) میں یہودیوں کو آباد کرنے کی عالمی سازش کا آغاز ہوا۔ جس کے خلاف اس وقت کے تقریباً تمام مسلمان ممالک نے شدید احتجاج کیا۔ ابھی قیام پاکستان عمل میں نہیں آیا تھا، مگر اس وقت بانی پاکستان کی فلسطین میں یہودیوں کو بسانے کے حوالے سے گفتگو ملاحظہ فرمائیں۔ اکتوبر 1937ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں خطبہ صدارت کے دوران مسئلہ فلسطین پہ بات کرتے ہوئے قائداعظم نے فرمایا تھا کہ ''یہ سب برطانیہ کا کیا دھرا ہے، عربوں کو جنگ عظیم میں استعمال کرنے کے بعد ان پہ بالفور اعلامیہ مسلط کیا گیا۔ برطانیہ وعدہ خلافی کرکے اپنی قبر کھودے گا۔ برصغیر کے مسلمان عربوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اسی اجلاس میں منظور ہونے والی قرار داد میں کہا گیا تھا کہ اگر برطانیہ اپنے اقدام سے باز نہیں آیا تو مسلمان برطانیہ کو اسلام کا دشمن تصور کرینگے اور اس کے خلاف اپنے ایمان کے تحت اقدامات کریں گے۔''

فلسطین کی آزادی کے حوالے سے یہ بانی پاکستان کا وہ ویژن ہے کہ جس کی بنیاد قیام پاکستان سے بھی پہلے رکھی گئی اور نہایت شفاف الفاظ میں ہر اس طاقت کے خلاف قیام کا عزم ظاہر کیا گیا کہ جو کسی بھی طریقے سے اسرائیل کو تحفظ دینے کی کوشش کرے۔ یاد رہے کہ جس وقت بانی پاکستان اس عزم کا اظہار کر رہے تھے، اس وقت برصغیر برطانیہ کے زیر تسلط تھا اور قائداعظم فلسطین کی آزادی کیلئے اسی مسلط برطانوی سامراج کے خلاف قیام کو ایمان سے مشروط بیان فرما رہے تھے اور برطانیہ کو اسلام کا دشمن قرار دے رہے تھے، حالانکہ برطانوی سامراج کے زیرتسلط مساجد بھی آباد تھیں۔ مدارس بھی چل رہے تھے۔ مدارس کو حکومتی آشیرباد اور فنڈنگ بھی حاصل تھی۔ نماز، روزہ، حج، زکواة پہ بھی کوئی پابندی یا قدغن نہیں تھی، مگر اس کے باوجود بانی پاکستان یا قیام پاکستان کی تحریک کے ہراول دستے نے مسئلہ فلسطین کو صرف عربوں کا مسئلہ نہیں سمجھا، خطے کا مسئلہ نہیں کہا اور نہ ہی اسے سیاسی مسئلہ قرار دیا بلکہ زور دیکر اسرائیل کے محافظ کو اسلام کا دشمن قرار دیا اور آزادی فلسطین کی جدوجہد کو ایمان سے منسلک بتایا۔ کیا پاکستان بنانے والوں کا فلسطین کی آزادی اور اسرائیل کی نابودی سے متعلق یہ نظریہ پاکستانی حکومتوں اور عوام کیلئے واضح اور شفاف راستہ نہیں۔؟

1947ء میں پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔ 1979ء میں انقلاب اسلامی برپا ہوا اور اگست 1979ء میں امام خمینی نے جمعة الوداع کو یوم القدس قرار دیا اور فلسطین کی آزادی کے حق میں اور اسرائیل کے خلاف عوامی مظاہروں کا اعلان کیا۔ قیام پاکستان سے لیکر امام خمینی کی جانب سے جمعة الوداع کو یوم القدس قرار دیئے جانے کا درمیانی عرصہ تقریباً 35 برس ہے۔ ان 35 سالوں میں فلسطین کی آزادی کا مطالبہ سیاسی رہنماؤں کے اخباری بیانات میں کبھی کبھار تو ملتا ہے، مذہبی و سیاسی جماعتوں کی کانفرنسز میں بھی خال خال ملتا ہے، مگر عوامی سطح پہ، گلی کوچوں میں شہر بہ شہر اسرائیل کے خلاف اور قبلہ اول کی آزادی کے حق میں عوامی اجتماعات ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتے۔ نہ ہی عوامی سطح پہ اس مسئلہ کی حساسیت کا ادراک تھا اور نہ ہی یہ مطالبہ زبان زدعام تھا۔ باالفاظ دیگر انقلاب اسلامی ایران سے قبل اسرائیل کے خلاف عوامی مظاہرے اور آزادی فلسطین کیلئے عوامی اجتماعات اس مقدار اور تعداد میں نہیں ملتے کہ جو انقلاب ایران کے بعد دنیا بھر میں ملتے ہیں۔ اب یہ کریڈٹ تو بہرحال امام خمینی اور انقلاب اسلامی ایران کو ہی جاتا ہے کہ آج دنیا بھر میں صہیونیت کو اپنے خلاف عظیم عوامی غیض و غضب کا سامنا ہے۔

پاکستان سمیت پوری اسلامی دنیا میں ایسے عناصر کی بھی کمی نہیں کہ جو محض انقلاب اسلامی سے نظری اختلاف کی بناء پہ یوم القدس کے اجتماعات اور عوامی ریلیوں کے خلاف ''دور کی کوڑی'' لاتے ہیں۔ میرا سوال اپنے انہی بھائیوں سے ہے کہ آیا آپ کو قبلہ اول پہ یہودی قبضہ قبول ہے۔؟ یا تحریک آزادی قبلہ اول و فلسطین کے تمام حقوق آپ ایک مخصوص مکتب و مسلک (اہل تشیع) کو سونپ چکے ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہے تو جناب اپنی خانقاہوں، مدارس، مساجد اور حجروں سے باہر آئیں۔ اسرائیل کے خلاف، امریکہ کے خلاف، برطانیہ کے خلاف نعرہ حق بلند کریں۔ سیدالایام قرار پانے والے جمعة الوداع کے موقع پہ حالت روزہ میں سوکھے گلے اور خشک لبوں کے ساتھ قبلہ اول کی، مسجداقصیٰ کی آزادی کا نعرہ بلند کریں۔ دنیا بھر کے مظلومین کے حق میں آواز اٹھائیں۔ عالمی سامراج کے خلاف خم ٹھونک کر میدان میں اتریں۔ یہی پاکستان کے مفاد میں بھی ہے اور عالم اسلام کے بھی مفاد میں اور اسی سے اسلام کا بھی بول بالا ہوگا۔ (نوٹ: اگر بات دل کو نہیں لگی تو تعصب کی عینک اتار کر دوبارہ پڑھیں)

بیت المقدس یا قدس شریف محض ایک مقدس مقام ہی نہیں بلکہ ایسی سرزمین ہے جس کا انبیاء الہی اور ابراہیمی ادیان سے بہت گہرا تعلق ہے۔ ہزاروں سال سے الہی ادیان نے اس پر نظریں جما رکھی ہیں اور اسے اپنا "نقطہ آغاز" اور "مقصد" قرار دیتے ہیں۔ بندگی کا نقطہ آغاز اور بندگی کا مقصد۔ یہی وجہ ہے کہ ان ہزاروں برس کے دوران قدس شریف جنی اور انسی شیاطین کی جانب سے شدید یلغار کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ الہی ادیان کے آغاز سے ہی قدس شریف کی آزادی اور اسارت ایک ساتھ آگے بڑھے ہیں اور بیت المقدس بعض اوقات آزاد جبکہ بعض اوقات مقبوضہ رہا ہے۔ اس کی آزادی کی علامت اس مقدس مقام میں تمام ادیان سے وابستہ افراد کی آزادی سے مذہبی رسومات اور عبادت کی ادائیگی جبکہ اس کی اسارت کی علامت بعض کینہ توز اور متعصب عناصر کی جانب سے اس مقدس مقام کو اپنے تک محدود کرنا اور دیگر مذاہب سے وابستہ افراد کو وہاں آنے اور مذہبی رسومات کی ادائیگی سے محروم کرنا ہے۔ آج یہ مقدس مقام مقبوضہ ہے اور اسارت کی حالت میں ہے اور ابراہیمی ادیان کے پیروکاروں سے اپنی آزادی کی فریاد کر رہا ہے۔ قدس شریف آزادی کیلئے انسانیت کو اپنی جانب پکار رہی ہے اور زخمی قدس شریف کی اس پکار کے پہلے مخاطب دیندار اور مذہبی افراد ہیں۔

قدس شریف اپنی آزادی کیلئے ہمیں پکار رہا ہے اور ہمیں آزاد ہونے کی ترغیب دلا رہا ہے۔ قدس شریف کو آزاد کروانے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم خود آزاد ہوں۔ خوف سے آزاد، انسان نما شیطانوں کی غلامی سے آزاد، وقت کے طاغوت اور فرعونوں سے آزاد، ہر اس چیز سے آزاد ہوں جس نے ہمارے پاوں باندھ کر ہمیں زمین سے چپکا رکھا ہے، پرانی اور نئی سازشوں اور پراپیگنڈوں سے آزاد، تن آسانی اور عیاشی سے آزاد، جھوٹی طاقتوں کے رعب اور دبدبے سے آزاد، موت کے خوف سے آزاد، فرعونوں، نمرودوں، ابوسفیانوں اور ابوجہلوں سے آزاد ہوں۔ جی ہاں، قدس شریف چاہتا ہے کہ ہم آزاد ہوں۔ جیسا کہ ہمارے زمانے کے بت شکن امام خمینی رح نے فرمایا ہے: "یوم قدس تمام مسلمانوں اور مستضعفین عالم کی آزادی کا دن ہے۔" قدس شریف آج ایک ایسی "نسل" کے قبضے میں ہے جس نے پوری انسانیت کو "یرغمال" بنا رکھا ہے۔ صہیونزم ایک نسلی سازش ہے اور صہیونی انسانیت کو "یہودیت" کے مساوی اور مترادف قرار دیتے ہیں۔ وہ انسانیت کا کوئی اور معنی قبول کرنے کو تیار نہیں۔ دوسری طرف اس چیز کے برعکس جو دکھائی دیتی ہے، یہودیت اور یہودی بھی دو ایک جیسی چیزیں نہیں جو قدس شریف میں اکٹھی ہو گئی ہوں۔ یہودیت ایک نسل پرستانہ سوچ ہے جو یہود اور یہودیوں کو بھی قبول نہیں کرتے۔ اسی وجہ سے یہودی صہیونزم کو دین نہیں سمجھتے اور صہیونی بھی حضرت موسی علیہ السلام کی تعلیمات کو خرافات قرار دیتے ہیں اور ہر اس چیز سے دوری اختیار کرتے ہیں جس میں "خدا" کا نام پایا جاتا ہو۔

صہیونزم کی نظر میں قدس شریف کی کوئی عزت اور حیثیت نہیں ہے۔ جیسا کہ ہم ماضی میں مشاہدہ کر چکے ہیں ایریل شیرون فوجی بوٹوں اور تلوار کے ساتھ قدس شریف اور قبہ الصخرا میں داخل ہوا، وہاں قتل و غارت کا بازار گرم کیا اور عبادت کے پرسکون ماحول کا خاتمہ کر دیا تھا۔ اس سے 52 سال پہلے بھی صہیونیوں نے مسجد اقصی کو آگ لگا دی تھی جس کے اثرات آج بھی اس مسجد کی دیواروں، چھت، منبر اور محراب پر قابل مشاہدہ ہیں۔ گذشتہ کئی برس سے صہیونی قدس شریف کے نیچے کھدائی میں مصروف ہیں جس کے باعث اس مقدس مقام کی بنیادیں کھوکھلی ہو رہی ہیں اور اس کی نابودی کا خطرہ پایا جاتا ہے۔ وہ "ہیکل داود" نامی ورثہ تلاش کرنے کے بہانے اس ابراہیمی ورثے کو نابود کر رہے ہیں۔ اسی طرح جیسے انہوں نے الخلیل کو "ہیبرون" کے نام پر عبادت اور مذہبی رسومات سے عاری کر ڈالا ہے۔ الخلیل کی تقسیم انسانوں اور انسانیت کی تقسیم تھی ورنہ ابراہیمی ادیان کے پیروکاروں کو تقسیم کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ صہیونزم ایک دین نہیں ہے اور صہیونی کسی دین کے پیروکار بھی نہیں ہیں۔ صہیونزم ایک سیاسی فرقہ "کالٹ" (Kalt) ہے۔ ایسا سیاسی فرقہ جس کا آغاز سوئٹزرلینڈ کے شہر بال میں ایک بیانیے سے ہوا اور اس کی جڑیں 15 ویں اور 16 ویں صدی (قرون وسطایی) کے دولت مند اور سرمایہ دار خاندانوں تک پہنچتی ہیں۔ روتھ شیلڈز اور راک فلرز نامی خاندان جو نسل پرست سرمایہ دار تھے۔

صہیونزم عالم بشریت کیلئے ایک نئی تاریخ رقم کرنے کے درپے ہے۔ ایسی تاریخ جس میں "خون" کی حکومت ہو اور جو زیادی خونخوار ہو اسے حکومت کرنے کا زیادہ حق حاصل ہو۔ وہ اپنی عبادت خون سے شروع کرتے ہیں، ان کی سجدہ گاہوں پر بھی خون جاری ہوتا ہے اور ان کے محراب سے خون کی بو آتی ہے۔ صہیونیوں کیلئے خون کہانی کا آغاز ہے اور "قابیل" ان کا سب سے بڑا لوگو ہے۔ صہیونزم کے پنجے جو خاموش مشعل کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں اپنے مرکز میں "صلیب" تک جا پہنچتے ہیں تاکہ حضرت عیسی علیہ السلام کے بے رحمانہ قتل میں ان کے اسلاف کی یاد تازہ کر سکیں۔ وہ آج دنیا بھر میں عیسائیوں کے طاقت کے مراکز پر مسلط ہو چکے ہیں اور حضرت عیسی علیہ السلام کے قتل کے قصے بیان کرنے سے دریغ نہیں کرتے جنہیں خداوند متعال نے ان کے چنگل سے نجات دلائی تھی۔ صہیونزم کے مرکزی رہنماوں کی نظر میں یہودا اور عیسی علیہ السلام کی کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی اور ہر عیسائی کو یہودا کی نسل کے سامنے صہیونزم کے پنجوں کا زخم برداشت کرنا ہو گا۔ صہیونزم نے عیسائیت کے قتل اور نابودی کیلئے کمر کس رکھی ہے اور آج مستی کے عالم میں الیزے، بیکنگھم اور وائٹ ہاوس پر قبضہ کر رکھا ہے۔ لیکن وہ اس حد تک راضی نظر نہیں آتے اور جب تک چرچ کی آواز مکمل طور پر بند نہیں کر دیتے چین سے نہیں بیٹھیں گے۔

صہیونزم ایک "کالٹ" ہے اور اس کا انحصار نسل اور خون پر ہے اور وہ خون کے ذریعے تاریخ لکھ رہا ہے اور خون کے ذریعے ہی تاریخ کا آغاز کرتا ہے۔ صہیونزم اگرچہ یہودی نہیں لیکن یہودیوں کے نام پر خیبر واپس پلٹنا چاہتا ہے۔ صہیونزم مسلمانوں کی سرزمین بنی قریظہ، بنی المصطلق اور بنی قینقاع کے سپرد کرنا چاہتا ہے اور چونکہ اچھی طرح جانتا ہے کہ عرب اقوام کی طاقت ختم ہو چکی ہے لہذا حجاز، ابوظہبی، کویت، مسقط اور دوحہ کے محلوں میں غلاموں کی تلاش میں ہے تاکہ ان کی مدد سے بنی قریظہ کی نیابت میں صہیونیت کو سرزمین وحی میں پھیلا سکے۔ صہیونزم نے یہاں بھی خون سے شروع کیا ہے اور خون کے ذریعے تاریخ لکھنے میں مصروف ہے۔ یمن میں جنگ، عرب مسلمانوں میں نفرت کی آگ پھیلانے اور عرب اور عجم میں دشمنی ڈالنے کے ذریعے آج کے ابوسفیانوں، ابوجہلوں اور عکرموں کے ساتھ اتحاد قائم کر رکھا ہے۔ لیکن سکے کا دوسرا رخ قدس شریف ہے۔ سکے کا دوسرا رخ الہی تقدیر کے ذریعے تشکیل پایا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا نمرود پر غلبہ، حضرت موسی علیہ السلام کی فرعون کے مقابلے میں کامیابی، حضرت عیسی علیہ السلام کا ہامان، یہودا اور ہیدرین کے فتنہ انگیز افراد کو شکست دینا، حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا خیبر اور خاقان پر غلبہ، حضرت علی علیہ السلام کا ابوسفیان کی اولاد پر غلبہ اور صہیونزم کے مقابلے میں قدس شریف کی فتح۔

اس ابراہیمی سلسلے کی کہانی سرزمین کی کہانی نہیں، مادی تسلط پسندی بھی نہیں، تسلط اور قبضہ نہیں، امن کے مقابلے میں اسلحہ کا انتخاب نہیں بلکہ اس کی کہانی آزادی کی کہانی ہے۔ اس کہانی میں قدس شریف آزادی کی علامت ہے۔ انسان کی آزادی، دین کی آزادی، انبیاء کی آزادی اور خدا کی آزادی۔ اس وقت جب کسی محدودیت کے بغیر اس کی پرستش کی جائے، اس وقت جب کوئی کسی بندے کا غلام نہ ہو اور ہر سلام اور سجدے سے بندگی کے پھول نکھر رہے ہوں۔ جیسا کہ کہا گیا ہے: "لا تکن عبد غیرک و قد جعلک اللہ حرا" (کسی کے بندے نہ بنو بالتحقیق خدا نے تمہیں آزاد پیدا کیا ہے۔) صہیونزم مسلح ہو کر میدان میں آیا ہے تاکہ مومنین کے درمیان امن کا خاتمہ کر دے اور اس کے بعد امن کے نام پر انسانیت کو اپنا غلام بنا لے۔ لیکن آج صہیونزم کا اسلحہ اور امن اپنی حیثیت کھو چکا ہے اور بندوں کے درمیان امن حاصل ہو چکا ہے۔ انقلاب اسلامی ایران نے چالیس سال پہلے صہیونزم کی حقیقت کو "وہم" میں تبدیل کر دیا اور اس کی مشینری روک دی۔ اس کے بعد سے صہیونزم کیمپ ڈیوڈ، ایناپولس وغیرہ میں بھیک مانگنے پر مجبور ہو گیا ہے۔ اس وقت صہیونزم ابراہیم علیہ السلام، موسی علیہ السلام، عیسی علیہ السلام اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فرزندوں کے محاصرے میں آ چکا ہے۔ حزب اللہ لبنان، فلسطین میں حماس اور اسلامک جہاد، یمن میں انصاراللہ، عراق میں حشد الشعبی، شام میں اسلامی مزاحمت اور دسیوں بریگیڈز خطے کے چپے چپے میں موجود ہیں اور اسرائیل دلدل میں ہاتھ پاوں مار رہا ہے۔

آج تل ابیب کی حکومت دیوالیہ ہو چکی ہے۔ الیکشن پر الیکشن اور واپس پہلے خانے میں۔ فلسطین کو یہودیانے کی کوششیں بے سود ہو چکی ہیں اور "سینچری ڈیل" دم توڑ چکی ہے۔ فلسطین کو یہودیانے کی مشینری گذشتہ ستر برس سے ناکارہ ہو چکی ہے اور صہیونزم کی باقیماندہ عمر میں بھی کچھ حاصل نہ کر پائے گی۔ شاہی دربار اور وقت کے عبدالعزیز اب مزید کاغذوں پر دستخط کر کے فلسطین کو یہودیانے میں کامیاب نہیں ہو پائیں گے۔ وقت کے بن سلمان اور بن زاید اور دیگر بادشاہ زادے اب کچھ نہیں کر سکیں گے۔ صہیونزم اس وقت اپنے پرچم میں دو نیلی لکیروں سے امید وابستہ کرنے کی بجائے ان دیواروں کے بارے میں سوچ رہا ہے جو اسے فلسطینیوں کی نفرت آمیز نگاہوں سے بچا سکیں۔ نیل سے فرات تک کا صہیونزم اس وقت تل ابیب میں نیم مردہ حکومت کا روپ دھار چکا ہے۔ نیل سے فرات تک اور ہر جگہ تک اس وقت تل ابیب سے مغربی بیت المقدس تک محصور ہو چکا ہے۔ صہیونزم آج مقبوضہ فلسطین کی شمالی سرحدوں کے قریب جنگی مشقیں منعقد کرتا ہے تاکہ شاید ان سرنگوں کا سراغ لگا سکے جن سے ہر لمحہ حزب اللہ کے مجاہدین کے حملہ ور ہونے کا خطرہ موجود ہے۔ اسی طرح مقبوضہ فلسطین کی جنوبی سرحدوں پر غزہ سے لے کر صحرائے سینا اور وہاں سے لے کر مغربی کنارے تک ان سرنگوں کی تلاش میں ہے جن میں سے حماس اور اسلامک جہاد کے مجاہدوں کے ممکنہ حملوں کا خطرہ محسوس کرتا ہے۔

صہیونزم نے آج واشنگٹن اور آئی پیک سے امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں لیکن انتہائی مایوسی سے عراق اور شام میں امریکی فوجیوں کے انجام کا مشاہدہ کر رہا ہے۔ وہی انجام جسے آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے خطے سے امریکی انخلاء کی صورت میں شہید قاسم سلیمانی کا خون بہا قرار دیا ہے۔ خونخوار صہیونزم بخوبی جانتا ہے کہ الیزہ، بیکنگھم اور وائٹ ہاوس کے ساتھ اس کی روایتی دوستی اور قربت اب مزید معجزات دکھانے سے قاصر ہے اور مغرب کے تمدنی اور سیاسی عروج کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ صہیونزم جانتا ہے کہ مغرب جو گذشتہ 72 سالوں کے دوران اس کی اصلی پناہ گاہ رہی ہے آج خود بے شمار مشکلات اور بحرانوں کی لپیٹ میں ہے اور اس سے اپنی بقا کیلئے مدد کی امیدیں وابستہ کرنا بیہودہ امر ہے۔ لہذا آج تل ابیب کی چھاونیوں اور آبادیوں میں اسرائیل کے اختتام کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔ صہیونزم کا خاتمہ ہو چکا ہے اور جیسا کہ مصر میں رمضان کی سیریل میں کہا گیا ہے اسرائیل اپنی سو سالہ سالگرہ نہیں دیکھ پائے گا۔ لیکن اس کے باوجود صہیونزم اب بھی خونریزی میں مصروف ہے، اب بھی بمب گرا رہا ہے، اب بھی ٹارگٹ کلنگ کر رہا ہے، اب بھی لبنان کی فضا سے شام میں جارحیت کر رہا ہے، اب بھی سازشیں کر رہا ہے اور غزہ کے محصور فلسطینیوں پر آگ برسا رہا ہے۔ اس وقت بھی انتہائی کم قیمت میں عرب غلاموں کو خرید رہا ہے، خطے کے درباروں سے امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں اور اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری للکار برقرار رہنی چاہئے، ہاتھ بلند رہنے چاہئیں اور قدم استوار رہنے چاہئیں۔ قدس شریف آزادی کے دہانے پر ہے اور ہمیں آخر تک یہ راستہ جاری رکھنا ہے۔

تاریخ بشریت گواہ ہے کہ پروردگار نے انسان کی ہدایت کیلئے انبیاء، رسول اور ائمہ کو منتخب کیا۔ ختم نبوت کے بعد سلسلہ امامت کا دور شروع ہوتا ہے۔ فانوسِ امامت کا پہلا چراغ امام علی ابن ابیطالب ہیں، جس طرح دیگر الٰہی نمائندوں نے سختی و مشکلات کا سامنا کیا تھا، اسی طرح آپ نے بھی بے پناہ سختیوں اور دشواریوں کا سامنا کرتے ہوئے نظام الٰہی برقرار رکھا۔ تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو رحلت رسول اکرمؐ کے بعد امیرالمومنین کی زندگی کے سخت اور دشوار ایام شروع ہوگئے۔ امام کے سخت اور دشوار کاموں کی ابتدا مصلحت کی رعایت کرتے ہوئے اپنے حقوق کو چھوڑ دینا تھی، جو یقیناً امام کیلئے بہت سخت تھا۔ ایک ایسے عظیم انسان کیلئے جو جانتا ہو کہ وہ صاحب حق، صاحب قدرت ہے، اس کے باوجود امام نے تمام چیزوں سے صرف نظر کیا اور مصلحت کی رعایت کرتے ہوئے حکومت خلفائے ثلاثہ میں 25 سال خاموشی کے گزار دیئے کہ کہیں دین محمد خطرہ میں نہ پڑ جائے۔ ممکن تھا کہ امام ان ایام سے فائدہ اٹھاتے اور لوگوں کے درمیان یہ ظاہر کرتے کہ آپ ہی حق خلافت رکھتے ہیں، لیکن امام نے ایسا نہ کرتے ہوئے خلفائے ثلاثہ کی مدد بھی کی اور ایک امین مشاور بن کر ہمیشہ ان کے ساتھ رہے، تاکہ اسلام کا رنگ باقی رہے۔ قتل عثمان کے بعد وہ وقت بھی آیا کہ لوگوں نے آپ کو مسند خلافت پر بیٹھنے پر مجبور کیا۔ امام نے "دعونی والتمسوا غیری" مجھے چھوڑو، کسی اور کی تلاش میں جاؤ، کی صدا بلند کی۔

مذکورہ جملہ سے امام کے درد کا احساس ہوتا ہے کہ لوگ 25 سال کے بعد اس در پر آئے، جہاں انہیں روز اول ہونا چاہیئے تھا۔ لیکن لوگوں کے اصرار پر امام نے خلافت کو قبول کیا، چونکہ خلافت الٰہی کو دنیوی سلطنت کی شکل دیدی تھی، لیکن امام نے سلطنت کو الٰہی نظام خلافت میں بدل دیا۔ لہٰذا اول روز امام نے عدالت کا پرچم لہرایا اور الٰہی احکام نافذ کیے۔ امیرالمومنین کا اپنے زمانے میں ایسے افراد سے سامنا تھا، جو کسی بھی صورت اس عظیم شخصیت اور کھری عدالت کے خواہاں نہ تھے۔ رحلت رسول اکرمؐ اور خلافت امیرالمومنینؑ کے درمیان 25 سال کے فاصلے نے تمام چیزوں کو بدل ڈالا تھا۔ امیرالمومنین ؑنے خلافت کے آغاز میں اس درد کو بیاں کیا اور کہا (الا و إن بليتكم عادت كهيئتها يوم بعثت الله نبيه)آج وہ تمام مصائب پلٹ آئے ہیں، جو رسول اکرمؐ کے زمانے میں تھے۔ یعنی مکتب اسلام فراموش کر دیا گیا، ایمان کا رنگ پھیکا پڑ گیا ہے، ذخیرہ اندوزی لوگوں کا پیشہ بن گیا اور اسلام لوگوں کے لئے فقط ایک لفظ بن کر رہ گیا تھا۔ اس کا اندازہ امیر المومنینؑ کے 25 سال کے آخری حوادث سے لگایا جا سکتا۔

امت رسولؐ کا لوگوں نے وہ حال کیا، جسے انسانیت تو نہیں کہا جا سکتا۔ ربذہ میں جناب ابوذر ؒکا جاں بلب ہوکر شہید ہو جانا۔ مسجد میں حق کا ساتھ دینے پر عبداللہ بن مسعود کے دانت اور سینے کی ہڈیوں کا توڑا جانا، یہ سیاہ داستان تاریخ کے صفحوں پر تحریر ہے۔ امیرالمومنینؑ کی خلافت سے پہلے کوفہ میں نااہل حضرات نے حکومت سنبھالی تھی، اس لیے امیرالمومنینؑ کیلئے نہایت سخت تھا کہ وہ دوبارہ لوگوں کے دلوں میں آیات قرآنی کے نقش و نگار ابھاریں اور وہ بھی اس شہر میں جہاں ولید جیسے فاسق و فاجر کی حکومت رہی ہو۔ امیرالمومنین علیؑ بن ابیطالب ؑنے چار سال 10 ماہ مشکلات سے لبریز حکومتی ایام گزارے۔ ایسے مشکل اور دشوار حوادث کا سامنا کیا، جو ضعیف الایمان اور سطحی سوچ کے حامل افراد کے ایمان کو لے اڑے۔ یقیناً ان کے ایمان ساحلی جھاڑ جیسے تھے، جن کی موج سیلاب نے بیخ کنی کر دی۔

امیرالمومنینؑ کے دور کی سب سے بڑی مصیبت وہ فتنہ تھا، جو کالی اور تاریک کھٹا بن کر لوگوں پر چھایا ہوا تھا۔ ایسا فتنہ جس میں پہلی نظر حق و باطل میں تمیز نہیں دے پاتی، فقط دقیق تدبر و تفکر ہی ایک واحد راستہ تھا، جو انسان کو حق و باطل کی تمیز کرتا، لیکن یہ کوئی آسان راہ نہیں۔ غبار فتنہ میں حق و باطل کو  پہچاننا ان افراد کیلئے جنہوں نے حدود اسلام میں تازہ قدم رکھا تھا، بہت مشکل تھا۔ ہر انقلاب اور نظام کی بربادی اسی لمحے شروع ہو جاتی ہے، جب اس نظام میں حق و باطل مخلوط ہو جائے۔ رسول اکرمؑ کے زمانے میں مومنین کو اپنی راہ کا انتخاب کرنا بہت آسان تھا، وہ جس طرف کافرین اور مشرکین کو پاتے، ان کے مقابل کھڑے ہو جاتے، لیکن امیرالمومنین ؑکا زمانہ ایسا تھا، جہاں غبار فتنہ نے حق وب اطل کو ملا دیا تھا۔ لوگوں کا ایک طرف ہونا بہت مشکل تھا، فقط ان افراد نے امام کا ساتھ دیا، جن کے ایمان نے غبار کو چھانٹ کر رکھا تھا۔ اس کی سادہ مثال جناب عمار ؑکی شخصیت ہے، جنہوں نہ صرف امام کا ساتھ دیا بلکہ جب کبھی فساد کی آنچ امام تک پہنچتی، آپ امام کی سامنے کھڑے ہو جاتے۔

امام علی علیہ السلام کے دور میں نہ صرف حق و باطل مخلوط تھے، بلکہ باطل، حق کا چولا پہنے ہوئے تھا، لہٰذا امیرالمومنینؑ کا بعد رسول انداز جنگ یہ رہا کرتا تھا کہ ہر جنگ سے پہلے خطبہ دیتے، تاکہ لوگ اس مکر و فریب سے بچ جائیں۔ ان کے وہ تمام خطبات دفتر تاریخ میں ثبت ہیں۔ اگر امیرالمومنینؑ کی تقریباً پانچ سالہ حکومت پہ نظر ڈالیں تو ہم اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ اس زمانے میں لوگوں کے سیاسی تجربات بہت ضعیف تھے۔ غلط تحلیل کی بناء پر امام کے خلاف جنگ جمل لڑی گئی۔ زبیر ابن عوام جیسا شخص جو یقیناً کوئی معمولی شخصیت نہیں تھے، ان کے قتل کے بعد جب امامؑ کی نظر زبیر کی تلوار پہ پڑتی ہے تو فرماتے ہیں کہ یہ وہی تلوار کہ جب اٹھتی تو رسول کے چہرے سے غبار غم کو دھو ڈالتی تھی، لیکن غلط تحلیل کی بناء پر ان کا دم مرگ مقام کیا ہے۔۔۔۔؟!

ایک سب سے تکلیف دہ چیز دوران امام علی میں یہ رہی کہ کچھ منافق حضرات، اسلام کے نام پر اسلام سے جنگ کر رہے تھے۔ قرآن کے ذریعے معارف قرآن سے جنگ، نام نہاد مسلمانوں کے ذریعے مسلمانوں سے جنگ، جو یقیناً امام کیلئے بہت تکلیف کا باعث بنا کہ وہ اس میدان میں جنگ کے لئے حاضر ہیں، جہاں دونوں طرف نمازیں پڑھی جا رہی ہیں اور اسلامی پرچم لہرایا جا رہا ہے۔ کیا اس سے بڑھ کر امام کیلئے اور کوئی مصیبت ہوسکتی ہے۔ یقیناً ان تمام مشکلات کے باوجود امام علی علیہ السلام کے حکومتی ایام تاریخ میں ایک نمایاں خصوصیت کے حامل ہیں۔ امام کا ہر حکم مرضی الٰہی کے موافق تھا، جو یقیناً امام کیلئے بہت سخت تھا، ان تمام مشکلات میں سب سے اہم جو مسئلہ تھا، وہ لوگوں کی سطحی فکر تھی۔ خوارج اسی بیماری کا شکار تھے۔ جنگ صفین کے بعد جو گروہ خوارج کے نام سے مشہور ہے، ان کا اصل ہدف ظواہر دین پر سطحی طور پر عمل کرنا تھا، حقیقت سے نا آشنا معارف سے دور فقط ظواہری دین کو ماننا اور عمل کرنے پر موقوف تھا۔

گذشتہ تاریخی سچائی سے کیا ہم بھی سبق لیں گے یا نہیں، تاکہ ہمیں معلوم تو ہو کہ کہیں ہم میں تو وہ تمام عیب موجود نہیں، جو آنے والی حکومت کیلئے دشواری اور پریشانی کا سبب بنیں یا اس حکومت کے جاری ہونے میں سدراہ۔ کہیں ہم سطحی فکر کے حامل تو نہیں۔؟ کیا ہم میں اتنی صلاحیت موجود ہے کہ ہم حق اور حق نما میں تمیز کر سکیں، یا اتنی تیز فہمی ہے کہ ہم قرآن مجید کو نیزہ پر بلند کرنے کا مقصد سمجھ سکیں۔ یقیناً آج قرآن تو نہیں، مگر عزاداری و نماز کے نازک مسائل کے ذریعے لوگوں کو ورغلانے کی کوشش جاری ہے۔ کیا ہم میں اس کی حقیقت اور اس میں چھپے مقاصد کو سمجھنے کی صلاحیت ہے؟ کیا ہمارے ایمان میں اتنی قوت ہے کہ ہم سایہ فگن فتنہ کو چیر سکیں اور اگر ایسا نہیں ہے تو صدائے العجل سے پہلے ہماری ذمہ داری یہی ہے کہ ہم پہلے اپنے ایمان کو مضبوط کریں، فکر کو بالا اور پھر اس آفاقی حکومت کے آرزومند ہوں اور اس شخصیت کے منتظر، جو اس پُرطلاطم بحر میں سکون برپا کرے گی اور دنیا کو پھر سے سکون دریافت ہو جائے گا۔

Wednesday, 13 May 2020 14:22

علیؑ اور عدل و انصاف

تحریر: سید ذہین علی کاظمی

عدالت پر کائنات کا نظام قائم ہے. بڑے بڑے سیاروں سے لے کر چھوٹے چھوٹے ذرات تک، سب میں عدالت کار فرما ہے اور اگر ان میں عدالت کا توازن ذرا سا بگڑ جائے تو نظام ہستی درہم برہم ہو جائے گا۔ خود انسان کا وجود اور اس کے بدن کا سسٹم، خدا کے نظام توازن اور تعادل کا بہترین مظہر ہے۔ بدن کے اسی متوازن نظام میں خلل پیدا ہو جانے کی صورت میں انواع و اقسام کی مہلک امراض وجود میں آتی ہیں۔ جب کائنات کا نظام شمسی، نظام قمری اور انسان کا جسمانی نظام بغیر توازن اور عدالت کے نہیں چل سکتا تو پھر اتنا بڑا انسانی سماج اور پورا نظام حیات، عدالت و توازن کے بغیر کیسے منزل مقصود تک پہنچ سکتا ہے۔؟ لہذا پرسکون اور بے خوف و خطر زندگی گزارنے اور کمال کی منزلوں کو طے کرنے کے لئے ضروری ہے کہ انسانی سماج اور نظام حیات بھی عدالت اور توازن کے مستحکم ستونوں پر استوار ہو، تاکہ تباہی و بربادی سے محفوظ رہ سکے۔ انسانی معاشرے کی اسی ضرورت کے پیش نظر، اللہ تعالیٰ نے انبیاء و مرسلین کو بھی دنیا میں عدل قائم کرنے کیلئے بھیجا ہے۔

عدل کے لغوی معنی
اہل لغت جیسے راغب اصفہانی کے نزدیک عدل، مساوات کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔۔۔۔ عدل برابری کی بنیاد پر تقسیم کرنا۔ فیومی کے نزدیک عدل لفظ جَوْر کا مخالف ہے۔ جور ظلم ہے اور ظلم کسی چیز کو اس کے اپنے مقام کی بجائے دوسرے مقام پر رکھنا ہے۔ گویا ہر چیز کو اس کے مقام پر رکھنا عین عدل ہے۔ لغت میں برابری، سچائی، استقامت اور حد وسط کے معنی میں آیا ہے۔ عدل بمعنی فدیہ جیسے سورہ انعام 70 اِن تَعدِل کلَّ عدلا۔ گروہ فدیہ(معاوضہ بدلہ) دینا چاہے عدل بمعنی تعادل و تساوی۔ عدل کسی چیز کا وزن اور مقدار میں مثل اور عدل غیر جنس سے کسی چیز کا مثل جیسے قول اللہ أَوْ كَفَّارَةٌ طَعَامُ مَسَاكِينَ اَوْعَدْلُ ذلک قیاما۔۔۔ وہ (ساٹھ) مسکینوں کو کھانا کھلائیں یا وہ اس کے برابر روزے رکہیں۔ اصطلاحی اعتبار سے علم فقہ، علم کلام اور علم نحو میں عدل کا لفظ مختلف معانی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔۔

چنانچہ خدا نے قرآن مجید میں انبیاء و مرسلین کی بعثت کا فلسفہ ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔ ’’ولقد ارسلنا رسلنا بالبینات لیقوم الناس با لقسط‘‘ یعنی: ہم نے واضح دلائل کے ساتھ اپنے رسولوں کو بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب و میزان نازل کیا، تاکہ انسانی سماج میں عدالت کا قیام ہو۔ اسلام کی نظر میں عدالت کا تعلق بین الاقوامی حقوق سے ہے، یعنی اسلام عدالت کا برتاؤ برتنے میں مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے درمیان تفریق کا قائل نہیں ہے. چنانچہ خداوند متعال فرماتا ہے: ’’یا ايّهاالذین آمنوا کونوا قوامین للّه شهدئ بالقسط..." اے صاحبان ایمان! ہمیشہ اللہ کے لئے قیام کرو اور بر بنائے عدالت گواہی دو اور کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی قوم کی دشمنی تم کو عدالت کے راستہ سے ہٹا دے تم ہمیشہ عدل و انصاف کا برتاؤ کرو کہ عدالت پر ہیزگاری کے زیادہ نزدیک ہے۔

عدالت کیوں ضروری ہے؟
تاکہ معاشرے کا نظم و نسق بہترین انداز سے چل سکے۔۔۔ قرآن کریم کے ایک عظیم الشان مفسر، علامہ طباطبائی نے عدالت کے بارے میں بہت ہی عمدہ اور مفید وضاحت کی ہے۔ عدالت زندگی کے کسی ایک پہلو تک محدود نہیں ہے، بلکہ انسانی زندگی کے تمام انفرادی اور اجتماعی پہلوؤں پر محیط ہے، عدالت کا مطلب یہ ہے کہ ان تمام اشیاء اور اشخاص کے درمیان برابری اور مساوات کا برتاؤ کیا جائے، جو ایک مرتبہ اور منزلت رکھتے ہوں۔ اسلامی تعلیمات میں لفظ عدالت کا تین مقامات پر استعمال ہوتا ہے۔
(۱) عدالت الہیٰ۔
(۲) عدالت ذاتی، جو کہ قضاوت، نماز جمعہ و جماعت کی امامت وغیرہ کی شرط ہے۔
(۳) عدالت اجتماعی، جو کہ سماج اور معاشرہ کے تمام شعبوں کو اپنے اندر شامل کر لیتی ہے۔
ہم اس تحریر میں عدالت کی ابتدائی دو صورتوں سے صرف نظر کرتے ہوئے فقط تیسری صورت یعنی عدالت اجتماعی کے بارے میں حضرت علی کے اقوال و ارشادات اور آپ کی سیرت طیبہ کا جائزہ لے رہے ہیں۔

حضرت علی کی نظر میں عدل کی اہمیت
جیسا کہ اوپر کی سطروں سے واضح ہو چکا ہے کہ عدالت وہ عظیم حقیقت ہے، جسے نافذ کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے انبیاء اور مرسلین بھیجے۔ حضرت علی عدالت کو ہر شئی پر ترجیح دیتے تھے، چنانچہ ایک شخص نے آپ سے پوچھا: *عدالت افضل ہے یا جود و سخاوت تو آپ نے فرمایا : عدالت افضل ہے* جبکہ ایک سادہ لوح انسان کی نظر میں جود و سخاوت عدالت سے بالا تر ہے اور پھر حضرت علی نے دلیل یہ دی کہ عدل اس لئے افضل ہے کہ زندگی کے امور اور مسائل کو اپنی جگہوں پر قرار دیتا ہے، جبکہ سخاوت انہیں اپنی جگہوں سے ہٹا دیتی ہے۔ چونکہ عدالت کا مطلب یہ ہے کہ معاشرہ اپنے طبیعی مزاج پر چل رہا ہے اور ہر چیز اپنی صحیح جگہ پر ہے، لیکن جودو سخاوت کا مطلب یہ ہے کہ معاشرہ اپنے طبیعی مزاج سے ہٹ گیا ہے، جس کی وجہ سے یہ ضرورت پیش آئی کہ معاشرہ کے کسی ایک فرد کو اس کے حق سے زیادہ دے کر اس کی ضرورت پوری کی جائے۔ آپ نے عدل کی برتری پر دوسری دلیل یہ دی: عدالت ایک عام قانون اور عمومی مدیر ہے، جو پورے معاشرہ پر محیط ہوتا ہے؛ جبکہ سخاوت ایک استثنائی صورت حال ہے۔ ‘‘نتیجتاً عدل برتر اور افضل ہے۔

آپ عدالت کو ہمیشہ اور ہر حال میں فوقیت دیتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’فان فی العدل سعۃ...‘‘ یعنی: عدل میں وسعت اور لا محدود گنجائش ہے اور جو کوئی عدالت کی وسیع فضا میں بھی تنگی محسوس کرے تو وہ ظلم و ناانصافی کی تنگ فضا میں بدرجہ اولی تنگی گھٹن اور محسوس کرے گا۔ حضرت علی علیہ السلام عدالت کو ایک فریضہ الہیٰ بلکہ ناموس الہیٰ سمجھتے ہیں اور اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دیتے کہ انسان کے سامنے ظلم و ستم ہو اور وہ خاموش تماشائی بنا کھڑا دیکھتا رہے؛ بلکہ اس کا فرض ہے کہ حتی الامکان ظلم و ستم کو ختم کرنے اور عدل و انصاف کو عام کرنے کی سعی و کوشش کرے۔ چنانچہ آپ خطبہ شقشقیہ میں فرماتے ہیں: اما والذی فلق... یعنی: آگاہ ہو جاؤ، قسم ہے اس خدا کی، جس نے دانہ کو شگافتہ کیا اور ذی روح کو پیدا کیا، اگر حاضرین کی موجودگی اور مدد کرنے والوں کی وجہ سے مجھ پر حجت قائم نہ ہوگئی ہوتی اور اللہ نے علماء سے یہ عہد و پیمان نہ لیا ہوتا کہ وہ ظالم کے ظلم اور مظلوم کی مظلومیت پر خاموش نہ رہیں تو میں خلافت کی رسی کو اس کی گردن پر ڈال کر آج بھی ہنکا دیتا۔۔۔۔

*عام لوگوں کی نظر میں حکومت کا مقصد اقتدار، عیش و عشرت اور لذت طلبی ہے، لیکن نمائندگان پروردگار کی نظر میں حکومت کا مقصد، معاشرہ میں عدل و انصاف کا قیام، ظلم و جور کا خاتمہ اور دنیا و آخرت میں نوع انسانی کی کامیابی اور کامرانی سے ہمکنار کرنا ہے۔* ایک مرتبہ ابن عباس، حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اس وقت آپ علیہ السلام اپنا پھٹا پرانا جوتا سی رہے تھے۔ آپ علیہ السلام نے ابن عباس سے پوچھا۔ ’’اس جوتے کی کیا قیمت ہوگی‘‘؟ انہوں نے کہا: کچھ نہیں! تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: میری نظر میں اس حکومت و ریاست کی قدر و قیمت اس جوتے سے بھی کمتر ہے، مگر یہ کہ حکومت کے ذریعے میں عدالت کو نافذ کرسکوں، حق کو قائم کرسکوں اور باطل کو مٹا سکوں۔ حضرت علی علیہ السلام نے عدالت کو اتنی اہمیت دی اور اس طرح عدالت کو اپنی زندگی میں سمو لیا کہ عدالت آپ کی شخصیت کا ایسا حصہ بن گئی کہ جب بھی آپ علیہ السلام کا تذکرہ ہوتا ہے، بلا فاصلہ ذہن، عدالت کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے۔

اسی طرح جب کبھی عدالت کا ذکر ہوتا ہے تو وہ عادل امام علیہ السلام بےساختہ یاد آجاتا ہے، جس نے اعلان بھی کیا تھا اور اپنے عمل سے ثابت بھی کیا تھا کہ: واللہ! اگر مجھے سات اقلیم اس شرط پر دیئے جائیں کہ میں ایک چیونٹی کے منہ سے جو کا ایک چھلکا چھین لوں تو میں انہیں ٹھوکر مار سکتا ہوں، لیکن اس حد تک بھی بے عدالتی اور ظلم نہیں کرسکتا۔ اللہ اکبر۔۔۔ حضرت علی علیہ السلام نے اپنی ذاتی زندگی سے لے کر اجتماعی، سماجی اور حکومتی زندگی کے ہر پہلو میں مکمل طور پر عدالت کو نافذ کیا اور بدیہی ہے کہ ان سارے موارد کی جمع آوری، اس تحریر میں ہرگز نہیں ہوسکتی، لہذا ذیل کی سطروں میں ہم حکومتی اور اجتماعی مسائل میں بعض عناوین کے تحت آپ کی عدالت کے کچھ نمونے نھج البلاغہ کے تناظر میں پیش کر رہے ہیں۔

قانون سازی اور قانون کی عملداری میں عدل
حضرت علی علیہ السلام نے اپنی حکومت کے لئے جو قوانین مرتب کئے تھے، وہ من و عن وہی قوانین تھے، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسلامی حکومت کے لئے معین فرمائے تھے ، چنانچہ حضرت علی علیہ السلام کی عدالت کے بارے میں پیغمبر اسلام (ص) کا ارشاد ہے: *کفّی و کفّ علی فی العدل سواء* یعنی: عدالت میں میرا اور علی کا ہاتھ بالکل برابر ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسلام مالی اور دیگر مادی حتی معنوی مسائل میں سارے انسانوں کو ایک ہی خانہ میں جگہ نہیں دیتا اور اس مسئلہ میں اسلام مارکسزم کا شدید مخالف ہے؛ لیکن جہاں قانون کا مسئلہ ہوتا ہے، وہاں اسلام، عالم و جاہل، غریب و امیر، دوست و دشمن سب کو ایک نظر سے دیکھتا ہے۔ حضرت علی علیہ السلام اس سلسلہ میں فرماتے ہیں: ’’علیک بالعدل فی الصدیق والعدو‘‘ یعنی: دوست اور دشمن دونوں کے ساتھ عدالت سے پیش آؤ۔

آپ علیہ السلام نے ایک نافرمان عامل کی تنبیہ کرتے ہوئے ایک خط میں فرمایا: واللّہ لو ان الحسن والحسین۔۔۔ یعنی: واللہ اگر حسن علیہ السلام و حسین علیہ السلام نے بھی یہ کام کیا ہوتا، تو ان کے لئے بھی میرے پاس کسی نرمی کا امکان نہیں تھا۔۔۔۔ آپ علیہ السلام قانون کے نفاذ میں کسی مروت، خاندان پرستی اور تعلقات کے قائل نہیں تھے، چنانچہ جناب عقیل علیہ السلام نے جو کہ آپ کے سگے بھائی تھے، جب آپ سے اپنا قرض ادا کرنے کے لئے بیت المال سے کچھ اضافی رقم کا مطالبہ کیا تو آپ نے نہایت سختی سے انکار کر دیا۔ *آج کی حکومتوں کو حضرت علی علیہ السلام کی سیرت کو اپناکر ایسے قوانین بنانا چاہیں، جن میں صرف حکمرانوں کا نہیں بلکہ پوری قوم کا فائدہ ہو اور دنیا کو چاہیئے کہ ملکی اور عدالتی قوانین کے نفاذ میں تفریق کی قائل نہ ہو۔* *ایک مقام پر فرماتے ہیں۔۔* اتامرونی ان اطلب النصر بالجور...‘‘ یعنی: کیا تم لوگ مجھے مشورہ دے رہے ہو کہ میں ظلم و جور کے سہارے فتح و کا میابی حاصل کروں۔۔۔۔ *اور اس جملہ کے ذریعے آپ نے اس نظریہ پر خط بطلان کھینچ دیا، جو کہتا ہے کی بلند اور نیک مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے اچہے برے ہر قسم کے وسائل کا سہارا لیا جاسکتا ہے۔*

مالی وسائل کی تقسیم میں عدل
رسول اللہ (ص) عرب و عجم اور سیاہ و سفید کی تفریق کے بغیر سارے مسلمانوں کو بیت المال سے برابر کا حق دیا کرتے تھے۔ لیکن رسول اللہ (ص) کے بعد کی حکومتوں نے آپ کی سیرت کے بر خلاف بیت المال اور مال غنیمت کی تقسیم میں رنگ و نسل اور ذات پات کو معیار بنا لیا۔ لیکن حکومت ملتے ہی حضرت علی علیہ السلام نے اس غلط اور غیر اسلامی سیرت کی مخالفت کی اور دوبارہ سیرت رسول (ص) کا احیاء فرمایا اور عرب و عجم، سیاہ و سفید اور مہاجر و انصار کی تفریق ختم کر دی، جس کے نتیجے میں اہل باطل کی ایک بڑی تعداد آپ کی مخالف ہوگئی۔ ایک مقام پر امام علیہ السلام نے فرمایا: والله لو وجد ته قد تزوج به النساء۔۔۔۔ یعنی: خدا کی قسم! اگر میں مسلمانوں کے عمومی اموال اس حالت میں پاتا کہ اسے عورت کا مہر بنا دیا گیا ہے یا کنیز کی قیمت کے طور پر دیا گیا ہے تو اسے بھی واپس کرا دیتا۔۔۔۔ آپ علیہ السلام بیت المال کو مال خدا اور مسلمانوں کا حق سمجھتے تھے۔ آپ نے کبھی بھی بیت المال کو اپنے ذاتی منافع کے لئے استعمال نہیں کیا اور نہ ہی اپنے کسی عامل کی طرف سے بیت المال میں خیانت اور اسراف کو برداشت کیا۔ نہج البلاغہ کے مختلف خطبات اور مکتوبات اس بات پر گواہ ہیں کہ امیر المومنین علیہ السلام نے بیت المال میں معمولی خیانت کرنے والوں کی شدید تنبیہ و سرزنش کی ہے اور بہت سے گورنروں کو اس خطا پر معزول بھی کیا ہے۔

فیصلوں میں عدل
آپ کی عدالت اس سلسلے میں شہرہ آفاق ہے اور اس موضوع پر بہت سی مستقل کتابیں لکھی گئی ہیں۔ ہم ذیل کی سطروں میں فقط دو تین نمونوں کے ذکر کرنے پر اکتفاء کر رہے ہیں:
الف: ایک مرتبہ ایک شخص نے قاضی کے دربار میں حضرت علی علیہ السلام کے خلاف شکایت کی، حضرت علی علیہ السلام اس شخص کے ساتھ قاضی کے دربار میں پہنچے تو قاضی نے کہا: اے ابو الحسن! آپ اپنے مدّعی کے ساتھ بیٹھ گئے، جب مقدمہ کا فیصلہ ہوچکا تو قاضی نے حضرت علی علیہ السلام کے چہرے پر ناراضگی کے آثار دیکھ کر اس کا سبب پوچھا، آپ علیہ السلام نے فرمایا: ’’تم نے گفتگو کے دوران میرے مدّعی کو نام لے کر بلایا، مگر مجھے کنیت کے ساتھ بلایا، حالانکہ عدل و انصاف کا تقاضا یہ تھا کی تم مجھے بھی نام لے کر بلاتے۔
ب: حضرت علی علیہ السلام نے اپنے مشہور صحابی ابو الاسود دوئلی کو ایک جگہ قاضی بنایا اور پھر کچھ ہی عرصے کے بعد معزول کر دیا تو انہوں نے پوچھا: یا امیر المومنین میں نے نہ تو کوئی خیانت کی اور نہ ہی کسی طرح کی ناانصافی اور ظلم، پھر آپ نے مجھے کیوں معزول کر دیا؟ تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: ’’میں نے دیکھا کی تمہاری آواز مدعی کی آواز سے بلند ہو جاتی ہے. لہذا تمہیں معزول کر دیا۔

حضرت علی علیہ السلام نے فیصلہ، قضاوت اور حدود الہیٰ کے نفاذ میں اپنے پرائے، دوست و دشمن، غلام و آقا، عرب و عجم سب کو ایک نگاہ سے دیکھا. چنانچہ تاریخ میں ایسے بہت سے شواہد ملتے ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے حکم الہیٰ کی مخالفت اور جرم کے مرتکب ہونے کی صورت میں اپنے قریبی ترین چاہنے والوں پر بھی حدود الہیٰ کو جاری کیا۔ چنانچہ نجاشی نام کے آپ کے ایک قریبی چاہنے والے نے، جو بہت بڑے شاعر تھے اور ہمیشہ آپ کی حمایت میں اشعار کہا کرتے تھے، شراب پی لی. تو آپ نے اس پر بھی شراب پینے کی حد جاری کر دی اور جب اس کے قبیلہ والوں نے اعتراض کیا تو فرمایا: ’’اے بنی نہد کے بھائیو! نجاشی بھی امت مسلمہ کا ایک فرد ہے۔ لہذا ہم نے کفارہ کے طور پر اس پر بھی شریعت کی حد جاری کی ہے۔۔۔۔

قیدیوں اور مجرموں کے ساتھ عدل
آج عدالت کے علمبردار اور حقوق انسانی کا ڈھنڈورا پیٹنے والے کس طرح سے عدالت اور حقوق انسانی کی دھجیاں اڑا رہے ہیں، یہ کسی بھی صاحب عقل و شعور سے پوشیدہ نہیں ہے۔ آج امریکہ، یورپ اور دیگر ممالک میں اسیروں اور مجرموں کے ساتھ جو برتاو کیا جاتا ہے۔ اس کی معمولی مثالیں گوانتا نامو اور عراق میں ابو غریب اور دیگر امریکی جیلوں سے ملنے والی کچھ سنسنی خیز خبریں ہیں، جنہیں سن کر ہر انسان کا بدن لرز جاتا ہے اور دل دہل جاتا ہے۔ ایک طرف قیدیوں کے ساتھ یہ سلوک ہو رہا ہے اور دوسری طرف حضرت علی علیہ السلام اپنے قاتل کے سامنے دودھ کا پیالہ پیش کر رہے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ عدالت کے تشنہ انسان کو صرف اسلام ہی کے چشمہ زلال اور سر چشمہ حیات سے سیرابی حاصل ہوسکتی ہے۔ حضرت علی علیہ السلام نے اپنے قاتل کے بارے میں جو وصیتیں کی ہیں، وہ درحقیقت منشور انسانیت ہیں۔ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں: *’’دیکھو اگر میں اس ضربت سے جانبر نہ ہوسکا تو میرے قاتل کو ایک ہی ضربت لگانا؛ اس لئے کہ ایک ضربت کی سزا اور قصاص ایک ہی ضربت ہے اور دیکھو، میرے قاتل کے جسم کو ٹکڑے ٹکڑے نہ کرنا، کیونکہ میں نے سرکار دو عالم سے سنا ہے کہ خبردار! کاٹنے والے کتے کو بھی مثلہ نہ کرنا (اس کے بدن کے اعضاء نہ کاٹنا)*

مذہبی اقلیتوں کیساتھ عدل
تاریخ شاہد ہے کہ مذہبی اقلیتوں، مثلاً اسلامی مملکت میں رہنے والے عیسائیوں اور یہودیوں وغیرہ کے لئے حضرت علی علیہ السلام کی حکومت کا زمانہ ان کی پوری تاریخ کا سب سے سنہرا اور پرامن دور ہے۔ ان کے علماء اور مفکرین بھی اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں۔ حضرت علی علیہ السلام اپنے گورنروں کو غیر مسلموں کے حقوق اور ان کے احترام کے بارے میں خصوصی تاکید کیا کرتے تھے، جس کی ایک مثال مالک اشتر کا عہدنامہ ہے. بطور مثال، صرف ایک جملہ ملاحظہ ہو: *سارے لوگ تمہارے بھائی ہیں، کچھ دینی اور کچھ انسانی اعتبار سے، لہذا تمہیں سب کے حقوق کا لحاظ رکھنا ہوگا۔۔۔۔* تاریخ میں یہ واقعہ بہت مشہور ہے کہ آپ نے ایک پریشان حال بوڑھے عیسائی کو دیکھ کر مسلمانوں کی سخت توبیخ کی اور پھر بیت المال سے اس کے لئے ماہانہ وظیفہ معین کر دیا۔ ایک لشکر نے جب ’’انبار‘‘ پر حملہ کیا اور اس کے ایک سپاہی نے ایک کافر ذمی عورت کا پازیب اور گوشوارہ چھین لیا تو آپ علیہ السلام نے مسلمانوں کو جمع کرکے ایک خطبہ دیا اور فرمایا: *اس دردناک اور شرمناک واقعہ پر اگر کوئی مسلمان افسوس کرتے ہوئے مر جائے تو وہ قابل ملامت نہیں ہے*

آپ کی عدالت اتنی مشہور ہوئی کہ دین و مذہب کی حدوں سے گزر کر ہمہ گیر شکل اختیار کر گئی اور آج دنیا کا ہر مفکر اور دانشور، خواہ وہ کسی بھی ملت و مذہب سے تعلق رکھتا ہو، آپ کی عدالت کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کو اپنا شرف سمجھتا ہے۔ چنانچہ جارج جرداق نام کے ایک مسیحی دانشور نے آپ کی عدالت کے موضوع پر 5 جلدوں پر مشتمل ’’صوت العدالۃ الانسانیہ‘‘ نام کی کتاب بھی تالیف کردی، جو دنیا کی مختلف مشہور زبانوں میں ترجمہ بھی ہوچکی ہے۔ مسیحی مصنف جارج جرداق کی امام علی علیہ السلام کے بارے میں لکھی ہوئی کتاب "ندائے عدالت انسانی" سے کچھ اقتباسات۔ امیر الموٴمنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی شخصیت ایک ایسی شخصیت ہے، جس سے اپنے اور غیر سبھی مفکرین اور دانشمند متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔ جس کسی نے اس عظیم انسان کے کردار، گفتار اور اذکار میں غور کیا، وہ دریائے حیرت میں ڈوب گیا۔ غیر مسلم محققین اور دانشوروں نے جب امام المتقین علیہ السلام کے اوصاف کو دیکھا تو دنگ رہ گئے، کیونکہ انہوں نے افکارِ علی کو دنیا میں بے نظیر اور لاثانی پایا۔

جارج جرداق کی تحقیق
لبنان کے مشہور عیسائی محققق، دانشور اور لکھاری جارج جرداق نے حضرت علی علیہ السلام کی سیرت پر "ندائے عدالت انسانی" نامی مشہور کتاب لکھی ہے، جارج جرداق کے مطابق جب اس نے اس کتاب کو مکمل کیا تو کوئی بھی پبلشر اس کتاب کو شائع کرنے پر راضی نہیں تھا۔ وہ کہتا ہے کہ اس لئے میں بے چین ہو کر لبنان کے ایک چرچ میں چلا گیا، جہاں ایک عیسائی بشپ نے میری بے چینی کی وجہ پوچھ کر مجھے ایک تھیلی میں رقم دے کر کتاب چھاپنے کا کہا۔ جب یہ کتاب چھپ گئی اور لبنان سمیت دنیا بھر میں اس سے منافع حاصل ہوا تو میں نے بشپ کو رقم تھیلی میں بند کرکے شکریہ کے ساتھ واپس کرنا چاہی، لیکن بشپ نے جواب میں کہا کہ *اس میں شکریہ اور احسان کی کوئی بات نہیں، میں نے تم پر کوئی احسان نہیں کیا بلکہ امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کے ان احسانوں کا ایک معمولی سا شکریہ ادا کیا ہے۔

 چونکہ جب حضرت علیؑ، امیرالمومنین و خلیفۃ المسلمین بن گئے تو آپ نے تمام اقلیتوں بشمول عیسائیوں کے نمائندوں کو طلب کیا اور فرمایا کہ مجھ علی کے دور میں تم اقلیتوں کو تمام تر اقلیتی حقوق اور تحفظ حاصل رہے گا، اس لئے حضرت محمد رسول اللہ (ص) کے بعد اس کے وصی امیر المومینن حضرت علی (ع) کا دور خلافت اقلیتوں بالخصوص عیسائیوں کے ساتھ مثالی ترین دور تھا، جس میں اقلیتوں بالخصوص عیسائیوں کے خلاف کہیں بھی ظلم و جبر نہ ہوا، اس لئے میں (بشپ) نے علی (ع) کے احسان کا معمولی شکریہ ادا کیا ہے، جارج جرداق جا کر یہ رقم غریبوں میں بانٹ دو۔* جارج جرداق اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ انسانی معاشرہ میں واحد لیڈر علی بن ابی طالب (ع) ہیں، جنہوں نے انسانیت اور عدالت کی بنیاد پر بیت المال کی تقسیم کی ہے۔ *جب آپ (ع) نے اہل کوفہ سے سوال کیا کہ کیا تم میں کوئی ایسا ہے، جو بھوکہ ہو تو سب نے کہا یاعلی! آپ حاکم ہیں، اب یہاں کوئی بھوکہ نہیں ہے۔ سوال کیا کوئی ہے، جس کے پاس لباس نہ ہو۔؟ سب نے کہا یاعلی! اب سب کے پاس لباس ہے ۔ سوال کیا کوئی ہے، جس کے پاس مکان نہ ہو۔؟ سب نے کہا یاعلی! سب کے پاس مکان ہے۔ امام علی (ع) نے عدالت کا جو نمونہ پیش کیا، اسے دیکھ کر دنیا آج تک حیرت زدہ ہے۔*

جارج جرداق اس واقعے کا بھی ذکر کرتا ہے، جب امام علی (ع) نے ایک بوڑھے یہودی کو کوفے میں بھیک مانگتے ہوئے دیکھا تھا۔ امام نے سوال کیا کہ یہ میری حکومت میں بھیک کیوں مانگ رہا ہے۔ اس نے کہا یاعلی! کل تک مجھ میں قوت تھی، میں کام کرتا تھا، لیکن اب مجھ میں قوت نہیں رہی۔ امام نے فرمایا اس کی تمام ضرورتوں کو بیت المال کے ذریعہ پورا کیا جائے اور اسے ماہانہ وظیفہ دیا جائے۔ کسی نے کہا یاعلی! یہ یہودی ہے۔ آپ نے فرمایا یہ ایک انسان ہے، جب تک اس کے جسم میں قوت تھی، اس نے معاشرے کی خدمت کی ہے۔ اب حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اس کی ضرورتوں کو پورا کرے۔ یہ علی بن ابی طالب (ع) ہیں، جنہوں نے انسانی بنیادوں پر تقسیم اموال کیا ہے۔ یہ عدالت انسانی کی آواز ہے اور عدالت کی حدود عالمی حدود ہیں۔ اس پر غور و فکر ہونا چاہیئے، اس پر گفتگو اور کام ہونا چاہیئے۔

ایک اور جگہ ندائے عدالت انسانی میں لکھا ہے: ’’علی کی تمام تر توجہ مساوات و عدل کے قوانین کو موثر طریقے سے بروئے کار لانے پر مرکوز تھی۔ ان کے افکار اور اندازفکر حکومت اور ان تمام تر حکمت اسی مقصد کے حصول کے لئے وقف تھی۔ جب کسی ظالم نے عوام کے حقوق کی پائمال کی یا کسی کمزور سے تحقیر آمیز رویہ اختیار کیا، علی اس سے سختی سے نمٹے۔ حضرت علی نے معاشرتی زندگی میں عدل کو کتنا لازمی قرار دیا ہے، اس کا اندازہ اس واقعہ سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ ایک دن کچھ لوگ جنہوں نے آپ کی بیعت بھی کر رکھی تھی، آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ ہم آپ کے خیر خواہ ہیں، آپ کو یہ مشورہ دینے آئے ہیں کہ اگر آپ اشراف عرب کو دوسروں پر ترجیح دیں تو ان کی پیش رفت کے لئے مناسب ہوگا۔ آپ اس تجویز سے ناراض ہوئے اور فرمایا، کیا تم مجھے یہ حکم دیتے ہوکہ میں رعایا پر ظلم کروں یا دوستوں کا ایک گروہ اپنے گرد جمع کر لوں۔؟ خدا کی قسم جب تک دنیا موجود ہے اور ستاروں کی گردش باقی ہے، میں یہ کام نہیں کرسکتا۔ اگر یہ مال میرا اپنا بھی ہوتا تو بھی اسے برابر تقسیم کرتا جبکہ یہ مال تو ہے ہی خدا کا۔‘‘

ایک جگہ جارج جرداق اپنی کتاب میں  لکھتا ہے: تاریخ اور حقیقت ِانسانی کیلئے یکساں ہے کہ کوئی علی علیہ السلام کو پہچانے یا نہ پہچانے، تاریخ اور حقیقت ِ انسانی خود گواہی دے رہی ہے کہ علی علیہ السلام کا ضمیر زندہ و بیدار تھا۔ وہ شہید ِراہِ خدا تھے اور شہداء کے جد تھے، عدالت ِ انسانی کی فریاد تھے۔ مشرق کی ہمیشہ زندہ رہنے والی شخصیت تھے۔ *ایک کُلِ جہان!* کیا تیرے لئے ممکن ہے کہ باوجود اپنی تمام قوتوں کے، اپنی ترقیِ علم و ہنر کے لئے علیؑ جیسا ایک اور انسان جو علیؑ جیسی عقل رکھتا ہو، اُسی جیسا دل، ویسی ہی زبان اور ویسی ہی تلوار رکھتا ہو، اس دنیا کو عطا کر دے؟

آپکی شہادت اور جارج جرداق
اکیس رمضان المبارک حضرت علی (ع) کی شہادت کا دن ہے۔ آپ کی شہادت سے متعلق جارج جرداق یوں لکھتا ہے: علی (علیہ السلام) مسجد میں آئے، رب العزت کے حضور سرجھکایا، ابن ملجم زہر آلود تلوار ہاتھ میں لئے آیا اور حضرت کے سر پر وار کیا کہ جس کے متعلق اس کا کہنا تھا کہ اگر یہ وار سارے شہر کے باشندوں پر پڑے تو ایک شخص بھی زنده نہ بچے۔ خدا کی لعنت ہو ابن ملجم پر اور تمام لعنت کرنے والوں کی لعنت ہو اس پر، اس پر دنیا میں ہر آنے والے اور دنیا سے ہر جانے والے کی لعنت ہو، ہر اس شخص کی لعنت ہو، جو خدا کے حکم سے پیدا ہؤا۔ خداوند عالم ابن ملجم پر ایسی لعنت کرے کہ وہ لعنت دریاؤں پر پڑے تو وہ خشک ہو جائیں، کھیتوں پر پڑے تو وه نیست و نابود ہو جائیں اور سرسبز پودوں کو زمین کے اندر ہی جلاکر راکھ کر دے۔ جہانوں کا خالق و مالک جہنم کے بهڑکتے شعلے اس پر مسلط فرمائے اور اسے منہ کے بل جہنم میں ڈال دے۔ اس جگہ جہاں آگ کے شعلے لپک رہے ہوں اور قہر الہیٰ کا جوش و خروش ظاہر ہو رہا ہو۔

محبان علی (علیہ السلام) کو عظیم ترین صدمہ پہنچا، زمانے نے علی (علیہ السلام) پر گریہ کیا اور آنے والی صدیاں بھی علی (علیہ السلام) پر گریہ کریں گی۔ دنیا کی ہر چیز شکستہ و اندوہ گین ہوئی، سوائے علی ابن ابی طالب (علیہما السلام) کے، جن کا چہرہ ہشاش بشاش تها۔ آپ (علیہ السلام) نے نہ انتقام کی خواہش ظاہر کی نہ غیظ و غضب کا اظہار کیا بلکہ ”فزت برب الکعبة” کہہ کر اپنی کامیابی کا اعلان فرما دیا۔ لیکن آپ (علیہ السلام) کے چہرے کی بشاشت تمام مصائب و آفات سے بڑھ کر اندوہناک تھی۔ اس وقت آپ کا چہره سقراط کے چہرے سے مشابہ تها، جس وقت جاہل اور نادان عوام نے اسے زہر پلایا تها۔ عیسیٰ ابن مریم (علی نبی نا و آلہ و علیہ السلام) کے چہرے جیسا تها، جبکہ قوم یہود آپ (علیہ السلام) کو کوڑوں سے اذیت پہنچا رہے تھے، محمد مصطفیٰ (صلی الله علیہ و آلہ و سلم) کے چہرے جیسا تها، جب آپ (صلی الله علیہ و آلہ و سلم) پر طائف کے نادان پتھر برسا رہے تھے اور یہ نہ سمجھ رہے تھے کہ ہم کس بزرگترین ہستی کو یہ پتھر مار رہے ہیں۔

علی بن ابی طالب(ع) کی شہادت
کوفہ کا سب سے بڑا طبیب حاذق اثیر بن عمرو ہانی آیا اور زخم کے معائنے کے بعد اس نے مأیوسی کا اظہار کیا، آپ نے حسن اور حسین (علیہماالسلام) کو اپنے پاس بلا کر وصیتیں فرمائیںو جن میں سے چند جملے یہ ہیں: *میرے قتل کی وجہ سے ہنگامہ یا خونریزی نہ کرنا، اپنے پڑوسیوں کا لحاظ کرنا، فقراء اور مساکین کا خیال رکهنا اور انہیں بھی اپنی روزی اور معاش میں شریک رکهنا، اچهی بات کہنا، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ترک نہ کرنا، آپس میں لطف اور مہربانی سے پیش آنا، بی تکلفی اور سادگی برتنا، ایک دوسرے سے نہ کٹنا، متفرق نہ ہونا و۔۔۔ بروز جمعہ صبح کے وقت آپ (علیہ السلام) کے فرق مبارک پر ضربت لگی تھی، اس کے بعد دو روز تک انتہائی کرب و اذیت کے عالم میں زنده رہے، مگر آپ* (علیہ السلام) نے اف تک نہ کی، لوگوں کو احسان و نیکی اور رحم و کرم وصیت فرماتے رہے۔ ماه رمضان کی اکیسویں شب کو آپ (علیہ السلام) نے اس دنیا سے رحلت فرمائی۔

آپ دنیا سے رخصت ہوگئے اور اپنے بعد ایسا خاندان چھوڑ گئے، جس کا ایک ایک فرد راه حق میں شہید ہوا، اپنے بعد دکھیاری بیٹی زینب (سلام الله علیہا) کو دنیا بھر کے مصائب و آلام جھیلنے کے لئے چھوڑ گئے اور دنیا نے ان کے ساتھ وه بے رحمی و شقاوت کا سلوک کیا، جیسا کسی کے ساتھ نہ کیا ہوگا۔ حسن اور حسین (علیہما السلام) کو ابو سفیان کی اولاد اور دیگر خون کے پیاسے دشمنوں میں چھوڑ گئے۔ علی (علیہ السلام) اور فرزندان علی (علیہم السلام) کے خلاف سازش کا پہلا دور تمام ہؤا، اس کے بعد بے شمار دور آئے اور ہر دور اپنی آغوش میں ہولناک تر اور سخت تر اور شدید تر مصائب لئے ہوئے تھا۔ امام (علیہ السلام) اپنے دشمنوں کو دنیا میں زندہ چهوڑ گئے، لیکن ان کی یہ زندگی عین ہلاکت تھی۔ علی محراب کوفہ میں اپنی شدت عدل کی بنا پر مارے گئے تھے۔

*کیا آج دنیا میں عدالت کا نعرہ بلند کرنے والی حکومتوں میں مسلم اقلیتیں بھی پر امن اور محفوظ ہیں؟!!* *ایسے امام عادل یا ایسے خلیفہ عادل کی محبت و مودت کا دم بھرنے والوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ جن کا امام شدت عدل کی وجہ سے مسجد میں حالت سجدہ میں ایک شقی کی ضرب کھا کر ان کلمات *فزت برب الکعبہ* کہ علی کامیاب ہوا، کیساتھ شہید ہوا ہو۔ انہی کی پیروی کرنے والے خدانخواستہ عدل سے نہ صرف دور ہوں، بلکہ عدل کو ناپسند کرتے ہوں تو پھر ایسی حالت میں اپنی محبت پر فاتحہ ہی پڑھی جا سکتی۔۔۔۔ آیئے مولائے کائنات علیہ السلام کی مظلومانہ شہادت کے موقع پر یہ عزم کریں کہ باقی ماندہ زندگی امیر المومنین علیہ السلام کے بتائے ہوئے آئین *یعنی عدل* کیساتھ گزاریں گے اور کبھی عدل کو نظر انداز نہیں کریں گے، چاہے اس میں ہمارا ذاتی نقصان ہی کیوں نہ ہو۔۔۔۔ خدا کا درود و سلام ہو، اس جسم اطہر پر، جس کے دفن ہونے کے ساتھ عدالت بھی دفن ہوگئی۔
 
 
 
ایران اور پاکستان کی مسلح افواج کے سربراہوں نے ٹیلی فونک ملاقات میں دونوں ملکوں کے درمیان دفاعی، اقتصادی شعبہ جات میں تعلقات کو فروغ دینے پر تاکید کی ہے۔ پاکستان اور ایران دو ہمسایہ برادر ممالک ہیں۔ دونوں کے عوام میں محبت و اخوت کا گہرا رشتہ ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان قدیم زمانے سے مذہبی، ثقافتی رشتے استوار ہیں۔ ایران کے پندرہ ہمسایہ ممالک میں سے پاکستان کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ دونوں ممالک کی سمندری اور زمینی دونوں سرحدیں ایک دوسرے سے ملی ہوئی ہیں۔ پاکستان کا گوادر پورٹ اور ایران کی چاہ بہار بندرگاہ دونوں ملکوں کے درمیان سمندری تجارت کے فروغ میں بنیادی کردار ادا کرسکتی ہیں۔

پاکستان چین کے ساتھ گوادر کے راستے سی پیک جیسے عظیم اقتصادی منصوبے پر کام کر رہا ہے، جبکہ گوادر اور چاہ بہار کے درمیان بہت کم فاصلہ دونوں ممالک کے درمیان ایک گیم چینجر ثابت ہوسکتا ہے۔ پاکستان اور ایران کے درمیان اسٹریٹیجک تعلقات مزید فروغ پا سکتے ہیں، لیکن علاقے کی بعض عرب طاقتیں پاکستان کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنے میں کوشاں رہتی ہیں۔ دوسری طرف افغانستان میں سیاسی عدم استحکام اور پاک ہند کشیدگی کیوجہ سے امریکہ اپنا الو سیدھا کرنے میں لگا رہتا ہے۔ علاقے کی جیو پولیٹیکل صورت حال اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ پاکستان اور ایران تمام داخلی و خارجی عوامل کو پسِ پشت ڈال کر باہمی تعلقات کو مثالی بنائیں۔

پاکستان اور ایران کے درمیان اس وقت جو موضوعات کشیدگی کا باعث بن سکتے ہیں اور بنے ہیں، وہ دونوں ممالک کے سرحدی علاقوں میں انسانی اور منشیات کی اسمگلنگ ہے، اس کے علاوہ بعض فرقہ وارانہ عناصر بھی ایران پاکستان سرحد پر دہشت گردانہ کارروائیاں انجام دیکر دونوں ممالک کی سکیورٹی فورسز کے لیے مسائل پیدا کرتے ہیں۔ پاکستان اور ایران کی مسلح افواج کے سربراہوں کی ملاقاتوں کا سلسلہ مثبت پیش رفت کا پیش خیمہ ہے۔ دونوں ممالک کی فورسز اگر اسمگلنگ، ڈرگ مافیا اور سرحدوں کے اردگرد موجود فرقہ پرست عناصر پر قابو پانے میں کامیاب ہو جائیں تو دونوں ملکوں کی حکومتیں اور عوام ترقی و پیش رفت کے لیے سفر کا آغاز کرسکتے ہیں۔
 
 
 
عرب ای مجلے المعلومہ کو انٹرویو دیتے ہوئے عراق پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سکیورٹی و دفاع کے رکن کاطع الرکابی نے کہا ہے کہ قابض امریکی افواج کے انخلاء پر مبنی پارلیمانی قرارداد پر عملدرآمد نومنتخب وزیراعظم مصطفی الکاظمی کی اولین ترجیح ہے۔ کاطع الرکابی نے زور دیتے ہوئے کہا کہ امریکی درخواست کے مطابق آئندہ ماہ جون میں بغداد اور واشنگٹن کے درمیان اسٹریٹیجک تعاون کے معاہدے پر گفتگو کی جائے گی۔

عراقی پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سکیورٹی و دفاع کے رکن نے کہا کہ وزیراعظم مصطفی الکاظمی نے قابض امریکی افواج کے انخلاء کے حوالے سے ایک نظام الاوقات ترتیب دے دیا ہے جس کی تفصیلات عنقریب ہی منظر عام پر آ جائیں گی۔ واضح رہے کہ جاری سال کے شروع میں امریکہ کی طرف سے ٹارگٹ کلنگ کی ایک کارروائی میں ایرانی سپاہ قدس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی اور عراقی حشد الشعبی کے ڈپٹی کمانڈر ابومہدی المہندس کے شہید کر دیئے جانے کے فورا بعد عراقی پارلیمنٹ نے اپنی سرزمین سے امریکی افواج کے فوری انخلاء کی قرارداد کو بھاری اکثریت کے ساتھ منظور کر لیا تھا۔
 
 
 

رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ

امریکہ بلا شرکتِ غیرے دنیا پہ حکمرانی کا خواب پورا کرنا چاہتا ہے۔ جنگ و جدل، سازش اور دغا بازی، ظلم و جور اور ہر طرح کا ظلم و ستم اپنانے کے ساتھ الزامات اور جھوٹ کا سہارا بھی لیتا ہے۔ کرونا وائرس کو ایک تنازعہ کا رنگ دینے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے، تاکہ امریکہ اسے اپنے حق میں استعمال کرسکے۔ امریکی صدر ٹرمپ کے قرب ترین سمجھے جانے والے ری پبلکن پارٹی کے سینیٹر ٹام کاٹن نے فروری کے آخر میں کرونا وائرس کے بارے میں الزام لگایا کہ یہ وائرس حادثاتی طور پر نہیں پھوٹا بلکہ اسے ایک منصوبے کے تحت جنم دیا گیا ہے۔ انہوں نے چین کے آزاد آن لائن سائنسی جریدے ChinaXiv کے حوالے سے چینیوں کے اس دعوے کی تردید کی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ ووہان کی مچھلی مارکیٹ سے یہ وائرس کسی انسان کو منتقل ہوا، نومبر کے آخر میں ووہان سے باہر کسی مقام پر یہ جرثومہ کسی انسان سے دوسرے انسان میں منتقل ہوا۔ اس دوسرے آدمی یا Patient Zero سے یہ جرثومہ ووہان کے کسی قصاب اور کارکن کو منتقل ہوا، جس کے بعد وہاں آنے والے صارفین متاثر ہوئے۔ سینیٹر کاٹن بار بار اصرار کرتے رہے کہ Patient Zero کی تفصیل فراہم کی جائے۔ انہوں نے دھمکی دی تھی کہ امریکی حکومت چاہے نہ چاہے، وہ چینی حکومت کے خلاف تحقیقات کا مطالبہ جاری رکھیں گے۔ وہ جنگجو اور پھر سیاستدان ہیں، ان کے اصرار میں فوجی ذہنیت بھی ہے اور سیاست چمکانے کیلئے ایک نعرہ بھی۔

اسی طرح انسدادِ دہشت گردی کے ماہر اور فوجی محکمہ سراغ رسانی کے سابق اہلکار فلپ جیلارڈی کا موقف بھی سامنے آیا کہ کورونا وائرس کے کچھ حصے فطری نہیں، ان کی افزائش بلکہ پیدائش ہتھیار بندی کے لیے کی گئی ہے، کورونا وائرس تغیر پذیری (Mutation) کی فطری صلاحیت سے عاری ہے، لہٰذا اسے لیبارٹری میں جنم دیا گیا ہے، یعنی اس پر ایک حیاتیاتی ہتھیار ہونے کا شبہ ہوتا ہے، یہ جرثومہ ووہان کے انسٹی ٹیوٹ برائے جرثومیات (Virology) سے لیک ہوکر کسی انسان یا جانور کے جسم میں داخل ہوگیا، جہاں سے مچھلی مارکیٹ پہنچا اور اب ساری دنیا میں قیامت ڈھا رہا ہے۔ اس تجزیے کے بعد سینیٹر ٹام کاٹن کے مؤقف میں بھی مزید سختی آگئی۔ ان کے خیال میں کورونا وائرس کی تخلیق چینی فوج کا کارنامہ ہے، جسے ووہان کے فوجی انسٹی ٹیوٹ برائے جرثومیات میں تخلیق کیا گیا۔ اپنے ساتھی کے اس الزام کے بعد صدر ٹرمپ نے کورونا وائرس کو ووہان جرثومہ، غیر ملکی جرثومہ اور چینی جرثومہ کہنا شروع کر دیا تھا، لیکن اپنی ٹیکنیکل ٹیم کے مشورے پر انہوں نے یہ سلسلہ اب ترک کر دیا ہے۔

لیکن چین نے جوابی الزام لگایا کہ ووہان آنے والے امریکی فوج کے کھلاڑیوں نے کورونا وائرس ووہان میں پھیلایا، جہاں اکتوبر 2019ء میں دنیا کے فوجی کھیل منعقد ہوئے تھے، ان مقابلوں میں شرکت کے لیے پینٹاگون نے 280 کھلاڑیوں پر مشتمل امریکی فوج کی17 ٹیمیں ووہان بھیجی تھیں۔ چینیوں کو شک ہے کہ کھلاڑیوں کے روپ میں آنے والے حیاتیاتی جنگ کے ماہرین نے یہ جرثومہ ووہان میں پھیلایا ہے۔ اسی طرح چین نے دعویٰ کیا کہ امریکہ، فرانس، جاپان اور آسٹریلیا میں جو لوگ اس مرض میں مبتلا ہوئے ہیں، اُن میں سے کم از کم پانچ افراد ایسے تھے، جنھوں نے نہ ملک سے باہر سفر کیا اور نہ ہی کسی مریض سے ان کی ملاقات ہوئی، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ووہان میں پھوٹ پڑنے سے پہلے کورونا وائرس چین سے باہر بھی موجود تھا، اور امریکی مریضوں کی اکثریت دارالحکومت کے قریب رہائش پذیر لوگوں کی تھی، جہاں سے امریکی فوج کی فورٹ ڈیٹرک حیاتیاتی لیبارٹری بہت دور نہیں۔

مارچ 2020ء میں پاکستان کے سابق عبوری وزیر خارجہ اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل نمائندے جناب عبداللہ حسین ہارون نے اعداد و شمار اور استثنائی حقوق (Patent) کی تفصیل کے ساتھ کورونا وائرس کو امریکہ کا حیاتیاتی ہتھیار ثابت کیا ہے۔ اپنے طویل ویڈیو خطاب میں انہوں نے کہا کہ اس قسم کا ہتھیار شام میں بھی استعمال کیا جا چکا ہے۔ وائرس کی تخلیق برطانیہ میں ہوئی اور اسے ائیر کینیڈا کے ذریعے چین بھیجا گیا۔ اس کی ویکسین اسرائیل نے بنائی ہے، جسے صرف وہی ملک خرید سکیں گے، جن کے اسرائیل سے سفارتی تعلقات ہیں۔ جناب حسین ہارون کا کہنا تھا کہ وائرس سے چین کو ہدف بنانے کا مقصد چین کو معاشی طور پر مفلوج کرنا تھا، جو حجم کے اعتبار سے امریکہ کے بعد دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ انہوں نے بل گیٹس فائونڈیشن اور امریکہ کے طبی علوم کے مشہور تحقیقی مرکز جامعہ ہاپکنز کو بھی اس کام میں ملوث قرار دیا۔ احباب کو یقیناً علم ہوگا کہ کورونا وائرس کی ویکسین کی تیاری کے کام کی نگرانی جامعہ ہاپکنز کر رہی ہے۔

جبکہ روس کے ایک سائنسی جریدے میں شائع ہونے والے مقالے میں بتایا گیا کہ  COVID-19 کی جائے پیدائش امریکہ ہے۔ روسی اخبار اسپتنک کے مطابق کورونا وائرس شمالی یورپ کے ننھے سے بلقانی ملک لیٹویا (Latvia) میں نیٹو کی ایک فوجی تجربہ گاہ میں متولد ہوا۔ انسدادِ حیاتیاتی دہشت گردی کے ماہر اور امریکہ کے حیاتیاتی دہشت گردی کے خلاف قانون مجریہ 1989ء کا ابتدائی مسودہ تحریر کرنیوالے امریکی قانون دان پروفیسر لارنس بوائل کا بیان عالمی ذرائع ابلاغ میں نقل ہوا کہ جس میں پروفیسر صاحب نے شک ظاہر کیا کہ کورونا وائرس امریکہ کا حیاتیاتی اسلحہ ہے، جسے جرثومے کی شکل میں پھیلایا گیا۔ پریس ٹی وی کا دعویٰ بھی سامنے آیا کہ امریکی ریاست میری لینڈ میں فورٹ ڈیٹرک کے حیاتیاتی اسلحہ کے ریسرچ سینٹر پر امریکہ اور اسرائیل کے ماہرین نے یہ جرثومہ تخلیق کیا، ساتھ ہی اسرائیلی سائنس دانوں کا یہ دعویٰ پیش کیا، جس میں کہا گیا تھا کہ 90 روز میں Infectious Bronchitis Virus (IBV) کے خلاف ویکسین تیار کر لی جائے گی۔ ایرانی ماہرین کا کہنا ہے کہ ویکسین کی تیکنیکی تفصیل سے صاف ظاہر ہے کہ یہ COVID-19 کی ویکسین ہے۔

اس سے پہلے 2015ء، 2017ء اور 2018ء میں بل گیٹس نے کہا کہ دنیا میں علاج معالجہ، خاص طور سے وبائی امراض سے حفاظت کے انتظامات ناکافی اور غیر تسلی بخش ہیں، جس کی بنا پر کئی ملک کسی بڑی وبا کا مؤثر انداز میں مقابلہ نہیں کرسکیں گے، کسی بھی وباء کے پھوٹ پڑنے پر اس کے مقابلے کے لیے ویکسین کی بروقت تیاری سب سے اہم اور مقدم ہے، لیکن دنیا کے ڈاکٹر، سائنس دان اور تحقیقاتی ادارے اس کے لیے تیار نہیں، تعلیم و ایجادات کی وجہ سے دنیا کے زیادہ تر لوگوں کا معیارِ زندگی نسبتاً بلند ہوگیا ہے، لیکن اب بھی کسی عالمی وبا کے مقابلے کے لیے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک بھی تیار نہیں، دنیا کو وبا سے نبرد آزما ہونے کے لیے اسی نوعیت کی تیار کرنی چاہیئے، جیسی دنیا کے ممالک جنگ اور فوجی حملے کے مقابلے کے لیے کرتے ہیں۔

جبکہ 2019ء میں امریکہ کی مشہور میڈیا کمپنی Netflix کی Next Pandemic کے عنوان سے بننے والی دستاویزی فلم میں بل گیٹس نے چین کے کسی مچھلی بازار سے ایک خوفناک وائرس کے پھوٹ پڑنے کا خطرہ ظاہر کیا تھا۔ مچھلی بازار کے بجائے جناب گیٹس نے wet market کا لفظ استعمال کیا تھا۔ دستاویزی فلم میں چینی شہر لیانگ ہوا (Lianghua) کا ایک گوشت بازار بھی دکھایا گیا، جہاں جانوروں کو صارفین کے سامنے ذبح کرکے گوشت فروخت ہوتا ہے۔ لیانگ ہوا جنوبی چین کے ساحلی صوبے گوانگ ڈونگ میں واقع ہے۔ یہاں بھی ووہان کے ہونان مچھلی بازار کی طرح مچھلی اور جانوروں کا تازہ گوشت فروخت ہوتا ہے۔ یقیناً یہ حُسنِ اتفاق ہے، لیکن کورونا وائرس کا ظہور بالکل اسی انداز میں ہوا، جس کا خدشہ بل گیٹس نے اس دستاویزی فلم میں ظاہر کیا تھا۔ چینی حکام، ایرانی میڈیا، روسی جرائد اور امریکی سیاست دانوں اور ماہرین کے بیانات بھی ابھی تک مفروضوں، خدشات اور قیاس پر مشتمل ہیں۔ کسی بھی جانب سے کوئی ٹھوس دستاویزی ثبوت سامنے نہیں آیا۔ لیکن سی این این اور فاکس نیوز نے اپنی رپورٹس میں بتایا تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور خارجہ سیکرٹری مائیک پومپیو کی جانب سے کورونا کو لیبارٹری میں تیار کیے جانے کے خدشات ظاہر کیے جانے کے بعد امریکا نے معاملے کی تفتیش کا آغاز کر دیا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک اور بیان میں کہا تھا کہ اگر یہ ثابت ہوگیا کہ چین نے واقعی کورونا لیبارٹری میں تیار کرکے پھیلایا تو اسے نتائج کو بھگتا پڑے گا اور اگر یہ سب کچھ غلطی سے ہوا ہے تو غلطی کسی سے بھی ہوسکتی ہے۔ گذشتہ دنوں نے امریکی صدر نے پھر کہا ہے کہ ہم چین سے خوش نہیں ہیں، ہم پوری صورتحال سے خوش نہیں ہیں، کیونکہ ہمارا ماننا ہے کہ اس کو جڑ سے روکا جا سکتا تھا، اسے تیزی سے روکا جا سکتا تھا اور اسے پوری دنیا میں نہیں پھیلنا چاہیئے تھا اور انہیں اس کا ذمے دار ٹھہرانے کے لیے کئی راستے موجود ہیں۔ اس موقع پر ٹرمپ سے ایک جرمن اخبار کے ادارے کے حوالے سے سوال پوچھا گیا، جس نے چین سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ وائرس سے جرمن معیشت کو پہنچنے والے نقصان پر 165 ارب ڈالر ہرجانہ ادا کرے۔ جب ٹرمپ سے پوچھا گیا کہ کیا امریکا بھی ایسا ہی کچھ کرے گا تو امریکی صدر نے جواب دیا کہ ہم اس سے آسان راستہ اختیار کریں گے اور ابھی ہم نے حتمی رقم کے بارے میں فیصلہ نہیں کیا۔ واضح رہے کہ امریکا میں اب تک 56 ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں، جبکہ تقریباً 10 لاکھ افراد وائرس سے متاثرہ ہوئے ہیں۔

دنیا بھر میں انسانیت خوف اور بیماری کیساتھ ساتھ بے روزگاری اور بھوک سے سسک رہی ہے، لیکن امریکی استعماری ذہنیت کی غمازی کرنیوالے صدر ٹرمپ کی زبان پہ صرف چین پہ جرمانے کرنے اور پیسے بٹورنے کی بات ہے۔ امریکہ میں وائرس کے موجود ہونے اور مریضوں کے سامنے آنے سے پہلے انہوں نے یہ بھی کہا کہ چین کی معیشت ڈوب رہی ہے، اس لیے دنیا بھر کے سرمایہ کار چین سے اپنی سرمایہ کاری نکال لیں، ورنہ ان کا پیسہ ڈوب جائیگا اور انہیں معاشی نقصان اور خسارے کا سامنا کرنا پڑیگا۔ لاکھوں افراد کو بارود برسا برسا کر موت کی وادی میں دھکیلنے والی ظالم سامراجی طاقت سے اس کے سوا کیا توقع کی جا سکتی ہے کہ پوری دنیا کے انسانوں کو مصیبت اور زندگی اور موت کی کشمکش میں صرف اپنے مفادات کیلئے ہی اقدامات کریں۔ لیکن ساتھ ساتھ یہ فرعونی طاقتیں ظاہری طور پر کمزور اور سادہ لوح انسانوں کو یہ بھی باور کرواتی ہیں کہ وہ ہر قسم کی کمزوری سے پاک ہیں، لیکن پے در پے غلطیاں اور ناکامیاں ان کا مقدر بنتی ہیں۔ اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے چین نے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ جاننے کے لیے عالمی سطح پر آزادانہ تحقیقات کے مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی مطالبات کی بنیاد سیاسی اور وبا کے خلاف جنگ سے چین کی توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔