سلیمانی

سلیمانی

تحریر: اکبر حسین مخلصی

مقاومتی بلاک کے نام سے ہم سب آشنا ہیں، لیکن فقط نام تک کی آشنائی کافی نہیں، اگر ہم مشرق وسطیٰ میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی شکست کو سمجھنا چاہتے ہیں تو ہمارے لئے مقاومتی بلاک کی اصطلاح، قیام اور حکمت عملی کو سمجھنا ضروری ہے۔ مقاومتی بلاک کی تشکیل کا خلاصہ یہ ہے کہ غربی استعمار کی جارحانہ عسکری اور ثقافتی یلغار نے مستضعف قوموں کو non aligned movement جیسے کاونٹر فورم اور اسلامی مقاومتی بلاک کی تشکیل پر مجبور کیا۔ یہ اتحاد مشرق وسطیٰ میں مغرب اور اس کے اتحادیوں کو شکست سے دوچار کر رہا ہے۔ سامراجی قوتیں استقامتی بلاک کو داخلی خلفشار کی خلیج میں دھکیلنے کے لیے وار آن ٹیرر کا ڈرامہ رچا رہی ہیں۔ اس پلان کو حاصل کرنے کے لیے خطے کے عرب آمروں کو 34 ملکی اتحاد کا برگ حشیش دے کر مسلم دنیا کی آنکھوں میں وار آن ٹیرر کی دھول جھونکی جا رہی ہے۔ لیکن یہ پالیسی غیر متوقع حد تک ناکام ہوتی نظر آرہی ہے، کیونکہ مقاومتی بلاک کے تزویراتی اقدامات زیادہ موثر اور فیصلہ کن نتائج رکھتے ہیں۔

عرب خطے کی عوامی قوتیں مغرب کے اخلاقی دوہرے پن اور انسانی حقوق کے پرفریب نعروں کو تہذیبوں کے تصادم جیسے انتہاء پسندانہ پس منظر کی حامل نفسیاتی جنگ کے حربے کے طور پر دیکھتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے خلاف استعماری قوتوں کا منفی پروپیگنڈا عالمی سطح پر نہ صرف فلاپ ہوا ہے بلکہ معکوس نتائج دینے لگا ہے۔ اسی لیے پسماندہ ترین سیاسی نظام رکھنے والے عرب ممالک کی رائے عامہ مغربی استکبار کے سیاسی دوغلے پن کو جمہوریت مخالف رویئے کے طور پر لیتی ہے۔ عرب رائے عامہ میں پائی جانے والی یہ تشویش بتدریج مغرب مخالف تحریکوں کی شکل اختیار کرکے عرب ممالک میں آمریت نوازی کے سامراجی پلان کو چیلینج کرتے ہوئے مقاومتی بلاک کی کاونٹر پالیسی کو تزویراتی بیک اپ دے گی۔ یوں استقامتی بلاک مشرق وسطی میں دفاعی پوزیشن سے اقدامی پوزیشن کی طرف سفر کریگا، جس کے ابتدایی نتائج شام، عراق اور یمن کے محاذ میں مقاومتی بلاک کی عسکری حکمت عملی کی واضح کامیابی کے طور پر سامنے آنے لگے ہیں۔

گریٹر مشرق وسطیٰ کا ناقوس بجانے والی غربی، عبری اور عربی ٹرائیکا یمن کی دلدل میں پھنس چکی ہے اور پراکسی وار کی بحرانی کیفیت سے نکلنے کے لیے شام میں سیف زون کا اسٹریٹیجک محاذ کھول کر مقاومتی بلاک کو انگیج رکھنا چاہتی ہے۔ جس کے لیے ترکی کو خلافت کا جھانسہ دے کر میدان میں اتارا گیا ہے، جو  فلسطینی انتفاضہ کی مزاحمتی طاقت کو مضمحل کرکے اسرائیل کے مفادات کو تحفظ دے گا۔  لطف کی بات یہ ہے کہ سیف زون کا کیموفلاج جہاں اسرائیل کو وقتی طور پر تحفظ دے گا، وہیں فلسطین کاز کے حل کے لیے استقامتی بلاک کو مزاحمتی سرگرمیوں کے لیے وسیع میدان بھی فراہم کرے گا، جس سے غاصب صہیونی دجالیت کو عبرتناک انجام تک پہنچانے میں بنیادی مدد ملے گی۔ البتہ اس پس منظر میں مخصوص مسلکی رجحانات کی حامل تکفیری قوتوں کے منافقانہ کردار کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ جو امپورٹیڈ جہادی عناصر کے ذریعے مقاومتی بلاک کو داخلی محاذ میں الجھانے کا ٹاسک رکھتی ہیں۔

جس کا اہم ہدف ایران فوبیا کے نفسیاتی داو پیچ استعمال کرکے عرب دنیا کی مزاحمتی قوتوں کو مقاومتی بلاک سے جدا کرنا ہے، لیکن وہ کامیاب نہیں ہو رہی، کیونکہ خطے کی رائے عامہ عرب آمریتوں کے جہادی ایجنڈے کی حقیقت کا بخوبی ادراک رکھتی ہے۔ اس تناظر میں معروضی حقائق اس بات کا کھلا اشارہ دے رہے ہیں کہ نیو ورلڈ آرڈر کی عالمگیریت کا خواب، مغرب کو ناگزیر طور پر نظام مہدویت سے براہ راست محاذ آرایی کی طرف لے جا رہا ہے۔ دوسرے لفظوں میں، اب وہ دن دور نہیں کہ اسرائیل جیسا غاصب اور جارح ملک جلد ہی ہمیشہ کے لیے مشرق وسطیٰ کے نقشے سے معدوم ہونے والا ہے۔ البتہ اس کیلئے سارے مسلمانوں کو ایران فوبیا سے نکلنا ہوگا، چونکہ مشرق وسطیٰ میں اسوقت ایران ہی مقاومتی بلاک کا مرکزی ستون ہے۔

یورپ کی نام نہاد جمہوری حکومتیں اور خلیجی ممالک کی آمریتیں اسرائیل کے تحفظ کے لیے تکفیری جہادیوں کو مجاہدین کا لقب دے کر مشرق وسطیٰ میں مضبوط کر رہی ہیں۔ تاکہ یہ باور کرایا جا سکے کہ فلسطین کی آزادی کا حل مقاومت نہیں بلکہ پرامن ٹیبل ٹاک ہے۔ دو ریاستی حل جیسے امریکی ایجنڈے کو مسلم دنیا کے ردعمل سے بچنے کے لیے غیر سفارتی انداز میں پروموٹ کیا جا رہا ہے۔ پی ایل او اور الفتح جیسی تنظیمیں مجوزہ حل کے تباہ کن نتائج کو نظرانداز کرکے سکیورٹی کونسل سے آس لگائے بیٹھی ہیں۔ یہ عمل درحقیقت اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کو قانونی جواز فراہم کرکے فلسطینیوں کو اپنی دھرتی سے محروم کرنے کے صہیونی ایجنڈے کی تکمیل  کا باعث بنے گا۔

ایسے حساس سناریو میں مقاومتی بلاک ہی وہ واحد طاقت ہے، جو انتفاضہ کی ڈگمگاتی قیادت کو روشن مستقبل کی امید دلا کر مظلوم فلسطینی نسلوں میں آبرومندانہ آزادی کی امنگ پیدا کر رہا ہے اور اسرائیل کی نابودی کے لیے کاونٹ ڈاون ایکسپیڈیشن لانچ کر رہا ہے۔ اگر استقامت جاری رہی تو ایک دن ارض مقدس سے صہیونی تسلط کے سیاہ بادل چھٹ جائیں گے اور بیت المقدس کے افق پر آزادی کی کرنیں جگمگائیں گی۔ یوں صہیونی سامراج کا نیو ورلڈ آرڈر، مقاومتی بلاک کے ہاتھوں عبرتناک انجام کو پہنچے گا اور فلسفہ انتظار مقتدرانہ حیثیت میں عالمی نجات دہندہ کے ظہور کی زمینہ سازی کے لیے راہ ہموار کرے گا۔ نتیجتاً عالمی معاشرے کا انسان نظام مہدویت کے سائے میں حقیقی سعادت سے بہرہ مند ہوگا۔ بقول اقبال رہ:  
شب گریزاں ہوگی آخر جلوہ خورشید  سے
یہ چمن معمور ہوگا نغمہ توحید سے

تحریر: علی احمدی

امریکہ کی اقتصاد اور معیشت انجان پانیوں میں ڈوب رہی ہے۔ ماہرین اقتصاد کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ ایک جمود اور بحران کی جانب گامزن ہے۔ چونکہ اس وقت امریکہ کی اقتصادی سرگرمیاں اور کاروبار کرونا وائرس کے سائے میں جام ہو کر رہ گئی ہیں۔ البتہ یہ پیشن گوئی کرنا بہت مشکل ہے کہ یہ اقتصادی جمود اور بحران کس حد تک شدت اختیار کرے گا اور اس سے نکلنے میں امریکہ کو کتنا عرصہ درکار ہو گا۔ آکسفورڈ ایکنامکس سے وابستہ اعلی سطحی ماہر اقتصاد جرج ڈیکو کا کہنا ہے کہ امریکی معیشت آئندہ چھ ماہ میں جمود کے کم از کم دو مرحلے طے کرے گی۔ پہلے تین ماہ کے دوران امریکہ کی اقتصادی ترقی کی شرح 0.4 فیصد جبکہ اگلے تین ماہ میں 12 فیصد تک گراوٹ کا شکار ہو گی۔ یہ امریکہ کی تاریخ میں معیشت میں سب سے بڑا موسمی جمود ہو گا۔ اس جمود کی شدت اور ترقی یافتہ معیشت میں تقریباً تمام بڑے شہروں کی بندش ایک بے سابقہ امر ہے اور معیشتی بحران سے زیادہ جنگ جیسی صورتحال سے ملتا جلتا ہے۔

مورگن اسٹینلے سے وابستہ ماہر اقتصاد ایلن زینتھنر کا کہنا ہے: "حتی گذشتہ حکومتوں میں بھی کبھی ایسا نہیں ہوا کہ لوگوں کو گھر سے باہر جانے یا مختلف قسم کے اجتماعات میں شرکت کرنے سے روکا گیا ہو۔" انہوں نے مزید کہا: "چھٹی کمپنیوں کو انتہائی شدید دھچکہ پہنچے گا کیونکہ ان کی مالی ذخائر تک رسائی محدود ہے جبکہ بینکوں میں کافی حد تک سرمائے سے بھے برخوردار نہیں ہیں۔ لہذا ممکنہ اقتصادی بحران کی صورت میں چھوٹے پیمانے پر جاری کاروبار اور اقتصادی سرگرمیاں دیوالیہ ہو جائیں گی۔" روز بروز بیروزگاری میں اضافے، تجارت اور سیر و سیاحت میں کمی کے باعث ماہرین اقتصاد روزانہ کی بنیاد پر اپنی معلومات اور ماڈلز کو اپ ٹو ڈیٹ کرنے پر مجبور ہیں۔ مستقبل قریب میں اقتصادی معلومات نہ صرف غیر معتبر بلکہ ناقابل تشخیص ہو جائیں گی۔ جرج ڈیکو کا خیال ہے کہ اپریل کے مہینے میں امریکہ میں بیروزگاری کی شرح 10 فیصد تک جا پہنچے گی۔ یہ مقدار ماضی کے تناظر میں بے سابقہ ہے جبکہ یہ امکان بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ آئندہ چند ماہ میں بیروزگاری کی شرح میں مزید اضافہ دیکھا جائے گا۔ امریکہ کے وزیر خزانہ اسٹیون مینوچین نے حکومت کی جانب سے موثر اقدامات انجام نہ دینے کی صورت میں بیروزگاری کی شرح 20 درصد بڑھ جانے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔

اگر جرج ڈیکو کی پیشن گوئی کے مطابق امریکہ میں بیروزگاری کی شرح 10 فیصد تک جا پہنچتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ 16.5 ملین افراد بیروزگار ہو جائیں گے۔ یہ تعداد فروری میں 5.8 ملین بیروزگار کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ دوسری طرف روس اور سعودی عرب کے درمیان خام تیل کی صنعت کے شعبے میں جنگ نے بھی امریکہ کی اقتصادی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے۔ عالمی منڈی میں خام تیل کی فراہمی میں اضافے کے باعث خام تیل کی قیمت میں بہت حد تک کمی واقع ہوئی ہے جس نے امریکہ کی خام تیل کی صنعت کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ امریکن یونیورسٹی کے لیکچرر اور اقتصادی تاریخ کے ماہر گیبریل میٹی اس بارے میں کہتے ہیں: "یہ ممکنہ طور پر دنیا کا پہلا جمود اور بحران ہے جو سہولیات کے شعبے میں شروع ہو رہا ہے۔ ہم اندرونی خالص پیداوار میں اضافے کی نسبت روزگار کے مواقع میں زیادہ تیزی سے کمی کے شاہد ہوں گے۔" اس وقت امریکہ میں کرونا وائرس کا مسئلہ بھی بڑھتا جا رہا ہے اور صورتحال پیچیدہ سے پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے۔

ورلڈ میٹر نامی ویب سائٹ پر آنے والے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں 3 لاکھ 8 ہزار 257 افراد کرونا وائرس کا شکار ہو چکے ہیں جن میں سے 13068 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ وائرس کا شکار ہونے والے افراد میں سے 95 ہزار 828 افراد صحت یاب بھی ہو چکے ہیں۔ تازہ ترین رپورٹس کے مطابق اس وقت دنیا کے چار ممالک میں کرونا وائرس کی وبا سب سے زیادہ پھیلی ہوئی ہے۔ یہ ممالک بالترتیب اٹلی، امریکہ، اسپین، اور جرمنی ہیں۔ ان چار ممالک میں کرونا وائرس انتہائی تیزی سے پھیل رہا ہے۔ اٹلی میں گذشتہ ایک روز میں کرونا وائرس کے 6557 نئے کیسز سامنے آئے ہیں۔ اٹلی کے بعد امریکہ ایسا ملک ہے جہاں کرونا وائرس کے پھیلاو میں بہت تیزی دیکھی جا رہی ہے۔ امریکہ میں گذشتہ چوبیس گھنٹوں میں 6674 نئے کیسز سامنے آئے ہیں۔ اب تک امریکہ میں 26 ہزار 868 افراد اس وائرس کا شکار ہو چکے ہیں۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے امریکی معیشت پر کرونا وائرس کے ممکنہ اثرات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے: "ماہرین اقتصاد نے خبردار کیا ہے کہ امریکی معیشت انتہائی کٹھن حالات کی جانب گامزن ہے جس کے نتیجے میں مستقبل قریب میں شدید اقتصادی بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔"
 
 
 

 رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے حضرت امام موسی  کاظم علیہ السلام کے روز شہادت کے موقع پر نئے ہجری شمسی سال 1399 کی آمد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی مقدس بارگاہ میں سلام اور درود پیش کیا اور عید مبعث اور عید نوروز کی مناسبت سے ایرانی قوم خاص طور پر شہیدوں، جانبازوں کے اہلخانہ اور اسی طرح صحت کے شعبے میں سرگرم مجاہدوں اور دن رات کام کرنے والوں کو مبارکباد پیش کی اور نئے سال کو "پیداوار کے فروغ اور ترقی"  کے نام سے موسوم کیا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے گزشتہ سال 1398 ہجری شمسی کے شہیدوں منجملہ شہدائے مدافع حرم، سرحدوں کے شہداء اور سرفہرست سپاہ اسلام کے عظیم شہید جنرل سلیمانی، شہید ابو مہدی المہندس اور ان کے ساتھی شہیدوں کے اہلخانہ کو مبارکباد اور تعزیت پیش کی، اسی طرح کرمان کے حادثے کے شہداء ، طیارہ حادثے کے شہداء اور صحت کے شعبہ سے منسلک شہداء کے اہلخانہ کو بھی تبریک اور تعزیت پیش کی اور گزشتہ سال "1398"  ہجری شمسی کو مختلف نشیب و فراز کا سال قرار دیتے ہوئے فرمایا: گزشتہ سال کا آغاز سیلاب سے ہوا اور اختتام  کورونا پر ہوا اور سال کے دوران بھی زلزلہ اور اقتصادی پابندیوں جیسےمختلف اور گوناگون حوادث رونما ہوئے لیکن ان حوادث میں سب سے عظیم حادثہ، اسلام و ایران کے نامور اور عظیم کمانڈر شہید قاسم سلیمانی کی شہادت تھا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ گزشتہ سال سخت اور دشوار سال تھا اور عوام کو بھی مشکلات کا سامنا رہا لیکن ان سختیوں کے ساتھ  ساتھ بعض بے نظیر اور اہم کامیابیاں بھی حاصل ہوئیں اور ایرانی قوم کی درخشندگی نمایاں رہی۔

حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ پابندیوں کی وجہ سے نقصانات  کے ساتھ ساتھ بہت فائدے بھی ہوئے اور ان پابندیوں نے ہمیں ملکی سطح پر ضروریات زندگی کی اشیاء اور سامان کی پیداوار کی جانب قدم  بڑھانے پر ترغیب دلائی اور یہ سلسلہ انشاء الله اسی طرح جاری رہے گا۔

مقامِ حضرت علی علیہ السلام کو سمجھنے کا ایک بہترین اور اہم ترین ذریعہ علمائے اہلِ سنت کے نظریات اور اُن کا کلام ہے۔ یہ انتہائی دلچسپ بات ہوگی کہ علی علیہ السلام کے بلند وبالا مقام کو اُن افراد کی زبانی سنیں جو مسند ِ خلافت کیلئے تو دوسروں کو مقدم سمجھتے ہیں لیکن علی علیہ السلام کی عظمت کے قائل بھی ہیں اور احادیث ِ نبوی کی روشنی میں علی علیہ السلام کی خلافت ِ بلافصل کو مانتے بھی ہیں لیکن چند صحابہ کے قول و فعل کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وصیت و نصیحت پر ترجیح دیتے ہیں۔اس سے خود اُن کو بہت بڑا نقصان ہوا کیونکہ وہ علومِ اہلِ بیت سے فائدہ اٹھانے سے محروم رہے اور حکمت و دانائی کے وسیع خزانوں اور قرآن کی برحق تفسیر سے ہدایت و رہنمائی حاصل کرنے سے قاصر رہے۔
علمائے اہلِ سنت کے نظریات کو لکھنے کا ایک مقصد یہ ہے کہ ان بزرگوں کے اقوال اور نظریات پر غور و فکر کیا جائے جو علی علیہ السلام کی شان میں کہے گئے ہیں اور جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ حضرت علی کی شخصیت، پیغمبر اسلام کے مقدس وجود کے بعد سب سے بلند ہے جیسے کہ قرآن کی آیات، احادیث ِ نبوی اور کلامِ خلفاء کو جمع کرنے کے بعد حضرت علی علیہ السلام کی شخصیت واضح ہوئی ہے۔ اب ہم علمائے اہلِ سنت کے کلام اور نظریات کا مطالعہ کرتے ہیں کہ وہ مولیٰ علی علیہ السلام کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔اُمید ہے کہ حق طلب حق کو پالیں گے، انشاء اللہ۔شروع میں ابن عباس کے کلام کا مطالعہ کرتے ہیں۔ ابن عباس کو اُمت ِمسلمہ کے تمام فرقے قبول کرتے ہیں۔

ابن عباس

ابن عباس نے اپنی عمر کے آخری لمحوں میں سربلند کرکے یہ کہا:
”اَلَّلھُمَّ اِنِّی اَ تَقَرَّبُ اِلَیْکَ بِحُبِّ الشَّیْخِ عَلِیِّ بْنِ اَبِیْ طٰالِب“۔
”پروردگارا! میں علی کی دوستی اورمحبتکا واسطہ دے کر تیری قربت چاہتا ہوں“۔

ابن ابی الحدید معتزلی

”میں اُس شخص کے بارے میں کیا کہوں کہ جس پر تمام فضائلِ انسانی کی انتہاہوجاتی ہے۔ تمام اسلامی فرقے اُسے اپنا سمجھتے ہیں۔ وہ تمام خوبیوں کا مالک ہے اور تمام فضیلتوں کا سرچشمہ ہے۔ وہ پہلوں میں کامیاب ترین شخص تھا اور بعد میں آنے والوں میں اگر کوئی فضیلت دیکھی گئی تو تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ خوبی بھی وہاں سے ہی شروع ہوئی۔ پس چاہئے کہ خوبیاں اُسی پر اکتفا کریں اور اُس جیسے کی اقتداء کریں“۔
حوالہ
ابن ابی الحدید،شرح نہج البلاغہ، جلد1،صفحہ16۔
ابن ابی الحدید اپنے قصیدہ عینیہ جو کہ اُس کے سات قصیدوں میں بہترین قصیدہ ہے اور وہ اس کو سونے کے پانی کے ساتھ مولیٰ علی علیہ السلام کے روضے پر لکھنے میں سالہا سال مصروف رہا، اُس میں کہتے ہیں:
”میں نے اُس برق سے جس نے رات کی تاریکی کو پھاڑ دیا، مخاطب ہوکرکہا:
اے برق! اگر تو سرزمین نجف میں نہیں تو بتا کہاں ہے؟ کیا تجھے پتہ ہے کہ تجھ میں کون کونسی ہستیاں پوشیدہ ہیں؟
موسیٰ بن عمران، عیسیٰ مسیح اور پیغمبر اسلام اس میں ہیں اورنورِ خدائے ذوالجلال تجھ میں ہے بلکہ جو بھی چشمِ بینا رکھتا ہے، آئے اور دیکھ لے۔
خدا کی قسم! اگر علی نہ ہوتے تو نہ تو زمین ہوتی اور نہ ہی اُس پر کوئی مرد ہوتا۔
قیامت کے روز ہمارا حساب کتاب اُسی کے وسیلہ سے خدا کے حضور پیش کیا جائے گا۔قیامت کے ہولناک دن وہی ہمارا ایک مددگار ہوگا۔
یا علی !میں آپ ہی کی خاطر مکتب اعتزال کو بڑا سمجھتا ہوں اور آپ ہی کی خاطر سب شیعوں کو دوست رکھتا ہوں۔
حوالہ
ابن ابی الحدید، کتاب”علی علیہ السلام،چہرئہ درخشانِ اسلام“،حصہ پیش لفظ، صفحہ9۔
وہ مزید کہتے ہیں:
”یا علی ! اگر آپ میں آثارِ حدث موجود نہ ہوتے تو میں کہتا کہ آپ ہی بخشنے والے اور جانداروں کی روح کو قبض کرنے والے ہیں۔ اگر طبعی موت آپ پر اثر انداز نہ ہوتی تو میں کہتا کہ آپ ہی سب کے روزی رساں ہیں اور آپ ہی جس کو کم یا زیادہ چاہیں، بخشیں۔ میں تو بس اتنا جانتا ہوں کہ دین اسلام کے پرچم کو پوری دنیا میں لہرانے اور اس جہاں میں عدل و انصاف بھرنے کیلئے آپ کے بیٹے مہدی علیہ السلام جلد تشریف لائیں گے“۔
حوالہ
داستانِ غدیر، صفحہ285،بہ نقل از ”المراجعات السبع العلویات“، صفحہ43۔
ابن ابی الحدید نہج البلاغہ کی شرح میں لکھتے ہیں:
اِنَّہُ علیہ السلام کَانَ اَولٰی بِالْاَمْرِوَاَحَقَّ لَاعَلٰی وَجْہِ النَّصِّ، بَلْ عَلٰی وَجْہِ الْاَفْضَلِیَّةِ،فَاِنَّہُ اَفْضَلُ الْبَشَرْبَعْدَ رَسُوْلِ اللّٰہ وَاَحَقُّ بِالْخِلاٰ فَةِ مِنْ جَمِیْعِ الْمُسْلِمِیْنَ۔
”حضرت علی علیہ السلام منصب ِ ولایت کیلئے سب سے بہتر اور سب سے زیادہ حقدار تھے۔ وہ اس کیلئے از طریقِ نص نہیں بلکہ اپنے افضل ہونے کی وجہ سے اہل تھے کیونکہ رسول اللہ کے بعد وہ سب سے افضل بشر تھے اور تمام مسلمانوں سے زیادہ خلافت پر حق اُن کا تھا“۔

ابوحامدغزالی (شافعی مذہب کے سکالر)

ابوحامد محمد ابن محمد غزالی کتاب”سِرّالعالمین“میں لکھتے ہیں:
”اَسْفَرَتِ الْحُجَّۃُ وَجْھَھٰاوَاَجْمَعَ الْجَمٰاھِیْرُعَلٰی مَتْنِ الْحَدِیْثِ عَنْ خُطْبَۃِ یَوْمِ غَدِیْرِ خُمٍّ بِاتِّفَاقِ الْجَمِیْعِ وَھُوَ یَقُوْلُ:مَنْ کُنْتُ مَوْلاٰہُ فَعَلِیٌّ مَوْلاٰہُ فَقٰالَ عُمَرُ بَخٍ بَخٍ لَکَ یٰااَبَالْحَسَنِ لَقَدْ اَصْبَحْتَ مَوْلاٰیٰ وَمَوْلٰی کُلِّ مُوٴْمِنٍ وَمُوٴْمِنَۃٍ۔ھٰذَا تَسْلِیْمٌ وَرَضِیٍّ وَتَحْکِیْمٌ۔ثُمَّ بَعْدَ ھَذٰاغَلِبَ الْھَوٰی لِحُبِّ الْرِّیٰاسَۃِ وَحَمْلِ عَمُودِ الْخِلاٰفَۃِ۔۔۔۔۔الخ۔
”رخِ حقیقت سے پردہ اٹھ گیا اور تمام مسلمانانِ عالم حدیث ِ غدیرِ خم اور خطبہٴ یومِ غدیر کے متن پر متفق ہیں۔ جب پیغمبر اسلام نے فرمایا تھا کہ جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی مولا ہے، اُس وقت عمر نے کہا:اے ابا الحسن ! مبارک مبارک ۔ آج آپ نے اس حال میں صبح کی کہ میرے بھی مولیٰ ہیں اور تمام موٴمن مردوں اور موٴمن عورتوں کے بھی مولیٰ ہیں۔ اس طرح مبارک باد دینا پیغمبر کے فرمان کو تسلیم کرنا ہے اور علی علیہ السلام کی خلافت پر راضی ہونا ہے(لیکن افسوس) اس کے بعد نفس امارہ نے ریاست طلبی اور خلافت طلبی کی خاطر اُن پر غلبہ پالیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“۔
حوالہ
شبہائے پشاور،صفحہ608،نقل از ”سِرّ العالمین“، غزالی۔


عبدالفتاح عبدالمقصود (مصنف معروف مصری)

”حضرتِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد میں نے کسی کو نہیں دیکھا جو آپ کی جانشینی کے قابل ہو، سوائے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاک فرزندوں کے والد یعنی علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے۔ میں یہ بات اہلِ تشیع کی طرفداری کیلئے نہیں کہہ رہا بلکہ یہ ایسی بات ہے کہ تاریخی حقائق اس کے گواہ ہیں۔ امام (علی علیہ السلام) سب سے بلند مرتبہ مرد ہے جسے کوئی بھی ماں آخری عمر تک پیدا نہ کرسکے گی اور وہ ایسی شخصیت ہے کہ جب بھی ہدایت تلاش کرنے والے اُس کے کلام، ارشادات اور نصیحتوں کو پڑھیں گے تو ہر جملے سے اُن کو نئی روشنیاں ملیں گی۔ ہاں! وہ مجسم کمال ہے جو لباسِ بشریت میں اس دنیا میں بھیجا گیا“۔
حوالہ
داستانِ غدیر،صفحہ291،نقل از”الغدیر“، جلد6۔

ابوحنیفہ (مذہب ِحنفی کے امام)

”کسی ایک نے بھی علی سے جنگ و جدل نہیں کیا مگر یہ کہ علی علیہ السلام اُس سے اعلیٰ اور حق پر تھے۔ اگر علی علیہ السلام اُن کے مقابلہ میں نہ آتے تو مسلمانوں کو پتہ نہ چلتا کہ اس قسم کے افراد یا گروہ کیلئے اُن کی شرعی ذمہ داری کیا ہے“۔
حوالہ
مہدی فقیہ ایمانی،کتاب”حق با علی است“، نقل از مناقب ِ ابو حنیفہ، خوارزمی،83/2،اشاعت ِ حیدرآباد۔

فخر رازی (اہلِ سنت کے مشہور و معروف مفکر)

”جو کوئی دین میں حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو اپنا رہبر و پیشوا تسلیم کرے گا، وہی کامیاب ہے اور اس کی دلیل خود پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمانِ پاک ہے۔ آپ نے فرمایا: ”پروردگار!حق کو اُدھر پھیر دے جدھر علی ہو“۔
حوالہ
داستانِ غدیر،مصنف: بہت سے استاد، صفحہ285، نقل از تفسیر فخر رازی، جلد1،صفحہ 111، اور الغدیر جلد3، صفحہ179۔

زمخشری (اہلِ سنت کے مشہور مفکر)

”میں اُس مرد کے فضائل کے بارے میں کیا کہوں کہ جس کے دشمنوں نے اپنے حسد اور کینہ کی وجہ سے اُس کے فضائل سے انکار کیا اور اُس کے دوستوں نے خوف و ترس کی وجہ سے اُس کے فضائل چھپائے۔ مگر اس کے باوجود اُس کے فضائل دنیا میں اتنے پھیلے کہ مشرق و مغرب کو گھیر لیا“۔
زمخشری اس حدیث ِ قدسی کے ضمن میں کہتے ہیں:
”مَنْ اَحَبَّ عَلِیّاً اَدْخَلَہُ الْجَنَّۃَ وَاِنْ عَصَانِیْ وَمَنْ اَبْغَضَ عَلِیّاً اَدْخَلَہُ النّٰارَ وَاِنْ اَطَاعَنِی“
جس نے علی علیہ السلام سے محبت کی، وہ جنت میں جائیگا ،گرچہ وہ میرا نافرمان ہی کیوں نہ ہو اور جس نے علی سے دشمنی و بغض رکھا، وہ جہنم میں جائیگا، بے شک وہ میرا فرمانبردار ہی کیوں نہ ہو“۔
اس کے بارے میں زمخشری کہتے ہیں کہ محبت و تسلیم ولایت ِعلی علیہ السلام انسان کے ایمان کے کمال کا سبب ہے اور اگر کمالِ ایمان ہو تو فروع میں چھوٹی غلطی زیادہ نقصان نہیں پہنچاتی، لیکن اگر محبت و ولایت ِعلی نہ ہو تو ایمان ناقص ہے اور وہ شخص جہنم کا مستحق ہے۔
حوالہ
1۔ داستانِ غدیر،صفحہ284بہ نقل از زندگانیِ امیر الموٴمنین علیہ السلام، صفحہ5۔
2۔ مباحثی در معارفِ اسلامی،مصنف:علامہ فقید آیت اللہ حاجی سید بہبہانی، صفحہ169۔

شافعی (رہبر مذہب ِشافعی)

”اگر مولیٰ علی مرتضیٰ اپنے ظاہر وباطن کو لوگوں پر ظاہر کردیں تو لوگ کافر ہوجائیں گے کیونکہ وہ انہیں اپناخدا سمجھ کر سجدہ میں گرجائیں گے ۔ اُن کے فضائل و عظمت کیلئے بس یہی کافی ہے کہ بہت سے لوگ یہ نہ سمجھ سکے کہ علی خدا ہیں یا خدا علی ہے یاپھر علی علیہ السلام مخلوقِ خدا ہیں“۔
حوالہ
سید یحییٰ برقعی، کتاب ”چکیدہ اندیشہ ہا“،صفحہ297۔

حافظ ابو نعیم (اہلِ سنت کے مشہور عالم)

”علی ابن ابی طالب علیہ السلام سردارِ قوم، محب ِ ذاتِ مشہود،محبوبِ ذاتِ کبریا،بابِ شہر علم، مخاطب ِآیاتِ ایمانی، عالمِ رمزِ قرآنی، تلاشِ راہِ حق کیلئے بڑی نشانی، ماننے والوں کیلئے شمعِ جاودانی، مولائے اہلِ تقویٰ و ایمان، رہبر عدالت و قاضیان، ایمان لانے والوں میں سب سے اوّل، یقین میں سب سے بڑھ کر، بردباری میں سب سے آگے، علم و دانش کا منبع، اہلِ عرفان کی زینت، حقائقِ توحید سے باخبر، خداپرستی کا عالم، حکمت و دانائی کا سرچشمہ، حق سننے اور حق بولنے والا، وفائے عہد کا بادشاہ، اہلِ فتنہ کی آنکھ پھوڑنے والا، امتحاناتِ الٰہی میں سرفراز و سربلند، ناکثین کو دورکرنے والا، قاسطین و مارقین کو ذلیل و رسوا کرنے والا، خدا کے دین میں سخت کاربند، ذاتِ الٰہی میں فانی حضرتِ علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہ۔
حوالہ
حافظ ابونعیم، کتاب حلیة الاولیاء،جلد1،صفحہ61،بابِ ذکر ِعلی علیہ السلام۔

احمد بن حنبل (رہبر مذہب ِحنبلی)

محمد ابن منصور کہتے ہیں کہ ہم احمد بن حنبل کے پاس تھے کہ ایک شخص نے اُن سے کہا کہ اے اباعبداللہ! مجھے اس حدیث کے بارے میں بتائیں جو حضرتِ علی علیہ السلام سے روایت کی گئی ہے:
”اَنَا قَسِیْمُ النّٰارِوَالْجَنَّۃ“
”میں جنت اور دوزخ کو تقسیم کرنے والا ہوں“
احمد بن حنبل نے جواب دیا:
”وَمٰا تُنْکِرُوْنَ مَنْ ذٰا؟“
”تم اُس سے انکار کیوں کررہے ہو؟“کیا تمہارے پاس یہ روایت نہیں پہنچی جس میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی علیہ السلام کو مخاطب کرکے فرمایا ہے:
”یٰا عَلِیُ: لا یُحِبُّکَ اِلَّا مُوٴْمِنٌ وَلَا یُبْغِضُکَ اِلَّا مُنَافِقٌ“
”یا علی ! تم سے محبت نہیں رکھے گا مگر موٴمن اور تم سے بغض نہیں رکھے گا مگر منافق“۔
ہم نے کہا:ہاں۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے ہی علی علیہ السلام سے فرمایا تھا۔ احمد بن حنبل نے کہا کہ اب بتاؤ کہ مرنے کے بعد موٴمن کی کونسی جگہ ہونی چاہئے؟ ہم نے کہا:بہشت۔ احمد بن حنبل نے پھر پوچھا کہ بتاؤ کہ مرنے کے بعد منافق کی کونسی جگہ ہونی چاہئے؟ ہم نے کہا:آتش جہنم۔ اس پر احمد بن حنبل نے کہا کہ بے شک
”فَعَلِیٌّ قَسِیْمُ النّٰارِ وَالْجَنَّۃ“
حوالہ
آثار الصادقین،جلد14،صفحہ440،نقل از امام الصادق،جلد4،صفحہ503۔
عبداللہ بن احمد حنبل کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے علی علیہ السلام اور امیر معاویہ کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ علی علیہ السلام کے بہت زیادہ دشمن تھے۔ انہوں نے علی علیہ السلام کے عیب ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی لیکن ایک بھی نہ ڈھونڈ سکے۔لہٰذا علی علیہ السلام کی شخصیت کو ختم کرنے کیلئے دشمنانِ علی علیہ السلام کی مدح سرائی کی۔
حوالہ
1۔ کتاب”شیعہ“ مذاکراتِ علامہ طباطبائی مرحوم اور پروفیسر ہنری کرین کے درمیان ،صفحہ429،بابِ توضیحات،نقل از صواعق،صفحہ76۔
2۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی نے کتاب ینابیع المودة،باب سوم،صفحہ344پر نقل کیا ہے۔
”جتنے فضائل حضرت علی علیہ السلام کی شان میں آئے ہیں، اتنے فضائل کسی اور صحابیِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی شان میں نہیں آئے“۔
حوالہ
1۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی،کتاب ینابیع المودة،باب59،صفحہ335۔
2۔ حاکم، المستدرک میں،جلد3،صفحہ107۔
3۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق ، بابِ شرح حالِ علی ،ج3ص63حدیث1108شرح محموی
”علی ہمیشہ حق کے ساتھ تھے اور حق بھی ہمیشہ علی کے ساتھ تھا، جہاں کہیں بھی علی ہوں“۔
حوالہ
بوستانِ معرفت،مصنف:سید ہاشم حسینی تہرانی، صفحہ680،نقل از ا بن عساکر، تاریخ حضرت علی علیہ السلام،جلد3،صفحہ84،روایت1117۔
”عبداللہ بن احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ ایک دن میں اپنے والد کے پاس بیٹھا تھا کہ کچھ لوگ وہاں آئے اور حضرت ابوبکر،حضرت عمر اور حضرت عثمان کی خلافتوں کے بارے میں تبادلہٴ خیال کرنے لگے، یہاں تک کہ خلافت ِ علی کا بھی ذکر آگیا تو میرے والد نے خلافت ِعلی کے بارے میں کہا:
”اِنَّ الْخِلَافَۃَ لَمْ تَزَیَّنْ عَلیّاً بَلْ عَلِیٌّ زَیَّنَھَا“
”خلافت از خود علی علیہ السلام کیلئے باعث ِ زینت نہیں تھی بلکہ علی علیہ السلام کا خلیفہ بننا خلافت کیلئے زینت تھا“۔
حوالہ
1۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق ،باب شرح حالِ امام علی ،جلد3،صفحہ114،حدیث1154
2۔ خطیب،تاریخ بغدار میں،جلد1،صفحہ135،بابِ شرح حالِ علی علیہ السلام، شمارہ1۔
احمد بن حنبل کے بیٹے عبداللہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے صحابیوں کی افضلیت کے بارے میں سوال کیا تو میرے والد نے جواب دیا کہ ا بوبکر، عمر،عثمان(یعنی حضرت ابوبکرحضرت عمر سے افضل اور حضرت عمرحضرتِ عثمان سے افضل)۔ میں نے پھر سوال کیا کہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام کس مرتبہ پر فائز ہیں تو میرے والد نے جواب دیا:
”ھُوَمِنْ اَھْلِ الْبَیْتِ لَایُقَاسُ بِہ ھَوٴُلَاءِ“
”وہ(یعنی حضرت علی علیہ السلام) اہلِ بیت سے ہیں، اُن کا ان سے کوئی مقابلہ ہی نہیں“۔

ابن صباغ (مذہب ِ مالکی کے مشہور مفکر)

ابن صباغ علی علیہ السلام کے بارے میں کہتے ہیں کہ:
”حکمت و دانائی اُن کے کلام سے جھلکتی تھی۔عقل و دانش ظاہری اور باطنی اُن کے دل میں بستی تھی۔ اُن کے سینے سے ہمیشہ علوم کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے دریا اُبلتے تھے اور رسولِ خدا نے اُن کے بارے میں فرمایا:
”اَنَامَدِیْنَۃُ الْعِلْمِ وَعَلِیٌّ بَابُھَا“
”میں علم کا شہر ہوں اور علی اُس کا دروازہ ہے“۔
حوالہ
بوستانِ معرفت،صفحہ698، نقل از فصول المہمة،تالیف ابن صباغ ،فصل اوّل،ص18

شبلنجی (عالمِ مذہب ِشافعی، اہلِ مصر)

”سب تعریف اُس خدائے بزرگ کیلئے جس نے نعمتوں کا مکمل لباس ہمیں پہنا دیا اور ہمارے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام عرب و عجم پر چن لیا اور اُن کے خاندان کو سارے جہان پر برتری بخشی اور فضل و کرم سے اُن کو سب سے اعلیٰ مقام پر فائز کیا۔ وہ دنیا و آخرت کی سرداری میں گویا سب سے آگے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ظاہر و باطن کے کمالات اُن کو عطاکردئیے اور وہ قابلِ فخر افتخارات و امتیازات کے مالک بنے۔۔۔۔۔۔۔“۔
حوالہ
بوستانِ معرفت،صفحہ699،نقل از نورالابصار،تالیف شبلنجی۔

ابوعَلَم شافعی (عالمِ مذہب ِشافعی)

”اُس خاندانِ پاک کے بارے میں تم کیا سوچتے ہو کہ جس کے بارے میں خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
”اِنَّمَایُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْراً“
”پس یہ اللہ کا ارادہ ہے کہ اے اہلِ بیت تم سے ہر قسم کے رجس (کمزوری، برائی، گناہ اور ناپاکی) کو دور رکھے اور تمہیں ایسا پاک رکھے جیسا پاک رکھنے کا حق ہے“۔
پس یہ خاندان عنایت ِ پروردگار سے معصوم ہیں اور قوتِ پروردگار سے اُس کی بندگی و اطاعت کیلئے آمادہ ہیں۔ ان کی دوستی اللہ نے موٴمنوں پر واجب کردی ہے۔ اس کو ایمان کا ستون قرار دیا ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
”قُلْ لَا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْراً اِلَّاالْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰی“
”آپ کہہ دیجئے کہ میں اس پر کوئی اجر ِرسالت تم سے نہیں مانگتا سوائے اس کے کہ تم میرے قریبیوں (اہلِ بیت) سے محبت کرو“۔
پیغمبر اسلام نے بڑے واضح طریقہ سے بیان کیا ہے کہ میرے اہلِ بیت کشتیِ نجات ہیں اور اُمت کو اختلافات اور انحراف کی ہلاکتوں سے پناہ دینے والے ہیں۔
حوالہ
بوستانِ معرفت،صفحہ702،نقل از کتاب اہلِ بیت ،مصنف ابوعلم شافعی،آغازِکتاب۔

خطیب ِخوارزمی (مفکر مذہب ِحنفی)

” امیر الموٴمنین علی علیہ السلام،شجاعت و بہادری کا مرکز،علمِ نبوت کا وارث، قضاوت میں سب صحابہ سے بڑھ کر دانا، دین کا مضبوط قلعہ، امین خلیفہ، ہر اُس انسان سے زیادہ دانا اور عقلمند جو اس روئے زمین پر ہے اور آسمان کے نیچے ہے۔
رسولِ خدا کے بھائی اور چچا کے بیٹے کے غم و تکلیف کو مٹانے والا، اُس کا بیٹا پیغمبر خدا کا بیٹا، اُس کا خون پیغمبر خدا کا خون، اُس کا گوشت پیغمبر خدا کا گوشت، اُس کی ہڈیاں پیغمبر خدا کی ہڈیاں، اُس کی عقل و دانش پیغمبر خدا کی عقل و دانش، اُس کی اُس سے صلح جس سے پیغمبر خدا کی صلح اور اُس سے لڑائی جس کی پیغمبر خدا سے لڑائی ہے۔
دنیا میں فضیلتیں ڈھونڈنے والوں کو انہی کے درسے فضائل ملتے ہیں۔ توحید و عدل کے باغ انہی کے شگفتہ کلام سے سرسبز ہیں۔
وہی ہدایت کا سرچشمہ ہیں۔ وہی اندھیروں میں چراغ ہیں۔ اصل دانائی وہی ہیں۔ سر سے پاؤں تک انہی کی غیبی طاقت (حضرتِ جبرائیل ) تعریف کرتی ہے اور ان کے فضائل کی گواہ ہے“۔
حوالہ
بوستانِ معرفت،مصنف: سید ہاشم حسینی تہرانی، صفحہ 698، نقل از مناقب ِخوارزمی۔
”کیا ابوتراب کی طرح کوئی جوان ہے؟ کیا اُس کی طرح پاکیزہ نسل کوئی رہبر و پیشوا ہے۔ جب بھی میری آنکھ میں درد پیدا ہوتا ہے، اُسی کے قدموں کی خاک میری آنکھ کا سرمہ بنتی ہے۔ علی وہی ہے جو رات کو بارگاہِ ایزدی میں گرکر روتا ہے اور دن کو ہنستے ہوئے میدانِ جنگ کی طرف جاتا ہے۔ اُس کا دامن بیت المال کے سرخ اور زرد ہیروں اور جواہرات سے پاک ہے۔ وہ وہی ہے جو بت توڑنے والا ہے۔ جس وقت اُس نے دوشِ پیغمبر پر اپناپاؤں رکھا، ایسے لگتا تھا جیسے تمام لوگ جسم کی کھال کی مانند ہیں اور مولیٰ اُس جسم کا مغز ہیں“۔
حوالہ
”داستانِ غدیر“،صفحہ286،نقل از ”الغدیر“، جلد4، صفحہ 385 (جو مطالب بیان کئے گئے ہیں، یہ قصیدہ خوارزمی کے چند اشعار کا ترجمہ ہے)۔

ابن حجر عسقلانی (مفکرمعروف شافعی)

”امام علی جنگ ہائے جمل و صفین میں، جہاں بہت کشت و خون ہوا تھا،حق پر تھے“۔
حوالہ
”حق با علی است“،مصنف:مہدی فقیہ ایمانی، صفحہ215،نقل از فتح الباری،شرح صحیح بخاری،244/12۔

حمّوئی (عالمِ مذہب ِحنفی)

”سب تعریف اُس خدائے بزرگ کیلئے ہے جس نے اپنی نبوت و رسالت کو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر منتہا کیا اور ان کے چچا زاد بھائی سے ولایت کا آغازکیا جو حضرت محمدکیلئے وہی نسبت رکھتے ہیں جو ہارون حضرت موسیٰ سے رکھتے تھے، سوائے اس کے کہ نبی نہ تھے۔ حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اکرمکے پسندیدہ وصی تھے۔ علی علیہ السلام شہر علم کا دروازہ تھے۔ احسان و بخشش کی مشعل ، دانائی و حکمت کے مرکز، اسرارِ قرآن کے عالم، اُن کے معنی سے مطلع،قرآن کی ظاہری و باطنی حکمتوں سے آگاہ، جو لوگوں سے پوشیدہ ہے ،وہ اُن سے واقف اور اللہ تعالیٰ نے انہی کے خاندان پر ولایت کو ختم کیایعنی اُن کے بیٹے حضرتِ حجت ابن الحسن علیہ السلام پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“۔
حوالہ
بوستانِ معرفت،صفحہ696،نقل از فرائد السمطین،مصنف:حموینی،اوّلِ کتاب۔

فواد فاروقی (اہلِ سنت کے مشہور مفکرو مصنف)

”میری جان علی علیہ السلام پر فدا ہو جن کے دل میں شجاعت اوردرد،بازؤوں میں طاقت،آنکھوں میں چمک۔۔۔۔۔۔وہ اُس کسی(پیغمبر اسلام)کے سوگ میں آنسو بہاتا ہے جو اس دنیا میں سب سے زیادہ صرف دو انسانوں سے محبت کرتے تھے، پہلی اُن کی بیٹی فاطمہ سلام اللہ علیہا اور دوسرے آپ کے شوہر ۔“
حوالہ
25 سالہ سکوتِ علی علیہ السلام،مصنف: فواد فاروقی،صفحہ16۔
”حضرت علی علیہ السلام کو دوسرے تمام مسلمانوں پر یہ فضیلت حاصل ہے کہ علی علیہ السلام خانہٴ کعبہ میں پیدا ہوئے ۔ اس لحاظ سے موٴرخین و مصنفین اُن کو فرزند کعبہ بھی کہتے ہیں کیونکہ اُن کی والدہ نے انہیں کعبہ میں جنا جو تمام مسلمانوں کیلئے مقدس ہے۔ علی علیہ السلام سب سے پہلے مرد ہیں جنہوں نے اسلام کو قبول کیا“۔
حوالہ
25سال سکوتِ علی علیہ السلام،مصنف:فواد فاروقی،صفحہ38۔
”دوسری بڑی فضیلت جو اللہ تعالیٰ نے علی علیہ السلام کو عنایت فرمائی ،وہ یہ ہے کہ اُنہوں نے بچپن ہی سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر میں پرورش دلائی اور براہِ راست وہ حضرتِ خدیجہ اور پیغمبر خدا کے زیر سایہ اور زیر عنایات رہے“۔
حوالہ
25سال سکوتِ علی علیہ السلام، مصنف: فواد فاروقی،صفحہ137۔
”اس بارے میں کوئی شک نہیں کہ علی علیہ السلام بعدپیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود کو مسلمانوں کی رہنمائی و خلافت کیلئے سب سے زیادہ حقدار سمجھتے تھے لیکن اس کے باوجود جب تاریخ میں خلافت کا مسئلہ علی علیہ السلام کی خواہش قلبی کے برعکس طے ہوا تو انہوں نے مخالفت کی پالیسی اختیار نہ کی کیونکہ علی علیہ السلام کے نزدیک اسلام سب سے زیادہ اہم تھا“۔
حوالہ
25سال سکوتِ علی علیہ السلام،مصنف: فواد فاروقی،صفحہ39۔
”جب بھی بزرگانِ دین اور مفکرین کسی مسئلے کے حل کیلئے بے بس ہوجاتے تھے ،جانتے تھے کہ اب علی علیہ السلام کے پاس جانا چاہئے۔ ایسے دوست کے پاس جانا چاہئے جہاں سے وہ مدد مانگ سکیں اور جس کے بارے میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اُن کی قضاوت کی تائید فرمائی ہو“۔
حوالہ
25سال سکوتِ علی علیہ السلام،مصنف: فواد فاروقی، صفحہ54۔
”حضرت علی علیہ السلام نے تمام زندگی اسلام اور مسلمین کی خدمت کرتے ہوئے تکالیف برداشت کیں۔چاہے وہ زمانہ پیغمبر اسلام کے ساتھ جنگوں میں شامل ہوکر شمشیر زنی کی ہو یا زمانِ خلافت ِصحابہ ہو یا اپنی خلافت کا زمانہ۔لیکن تاریخ گواہ ہے کہ علی علیہ السلام نے سب سے زیادہ تکالیف اپنی خلافت و امامت کے زمانہ میں اٹھائیں کیونکہ وہ عدل و انصاف کے نمونہ تھے اور جتنی سختیاں مسلمانوں کو راہِ راست پر لانے کیلئے برداشت کرنا پڑیں، اُن سے کئی سو گنا سختیاں علی علیہ السلام نے اپنی ذات پر برداشت کیں اور اُن کے گھر والوں نے برداشت کیں تاکہ اُن کے تقدس میں کوئی خلل نہ آنے پائے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کئی صدیاں گزرجانے کے باوجود حضرت علی علیہ السلام کی حکمرانی دلوں پر قائم ہے ، زندہ باد نامِ علی علیہ السلام“۔
حوالہ
25سال سکوتِ علی علیہ السلام،مصنف:فواد فاروقی،صفحہ281۔

شیخ عبداللہ شبراوی (عالم مذہب ِشافعی)

”یہ سلسلہٴ ہاشمی کہ جس میں خاندانِ مطہر نبوی،جماعت ِعلوی اوربارہ امام شامل ہیں، ایک ہی نور سے پیوستہ ہیں جس نے سارے جہان کو روشن کیا ہوا ہے۔ یہ بہت فضیلتوں والے ہیں۔ اعلیٰ صفات کے مالک ہیں۔ شرف و عزتِ نفس والے ہیں اور باطن میں بزرگیِ محمدی رکھتے ہیں“۔
حوالہ
”آئمہ اثنا عشری“،مصنف:شیخ احمد بن عبداللہ بن عباس جوہری،مقدمہ :آیت اللہ صافی گلپائیگانی،صفحہ45،نقل از ”الاتحاف بحب الاشراف“،مصنف:شیخ عبداللہ شبراوی شافعی۔

ابوھذیل (اہلِ سنت کے مفکر اور دانشمند و استاد ابن ابی الحدید)

ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ میں لکھتے ہیں: ”میں نے اپنے اُستاد ابوھذیل سے سنا ہے: جب کسی شخص نے اُن سے پوچھا کہ خدا کے نزدیک علی علیہ السلام افضل ہیں یا حضرتِ ابوبکر؟ تو جواب میں ابوھذیل نے کہا:
وَاللّٰہِ لَمُبٰارِزَةِ عَلِیٍّ عَمْرویَوْمَ الْخَنْدَقِ تَعْدِلُ اَعْمٰال الْمُھٰاجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِوَطٰاعٰاتِھِمْ کُلَّھَا تُرْبٰی عَلَیْھَا فَضْلاً عَنْ اَبِیْ بَکْرٍ وَحْدَہُ۔
”خدا کی قسم! علی علیہ السلام کا جنگ ِخندق میں عمروبن عبدودسے مقابلہ بھاری ہے تمام مہاجرین و انصار کی عبادتوں اور اطاعتوں پر، حضرتِ ابوبکر کا تنہا کیا مقابلہ!“
حوالہ
محمد رازی، کتاب’چراشیعہ شدم‘نقل از شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید،ج4ص334

ابن مغازلی (عالم معروف مذہب ِشافعی)

خدا کی حمدوثناء اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام کے بعد لکھتے ہیں:
”درودوسلام ہو علی علیہ السلام پر ،مومنوں کے امیر ، مسلمانوں کے آقا،سفید اور چمکدار پیشانی والوں کے رہبر، نیکوکاروں کے باپ، روشن چراغ۔
درود ہو سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا پر، بتول عذرا پر،نساء العالمین کی سردا رپر،دختر رسول پر اور اُن کے دوفرزندوں پر،رسول کے نواسوں پر،جوانانِ جنت کے سرداروں پر“۔
حوالہ
بوستانِ معرفت،ص694،نقل از مناقب،مصنف:ابن مغازلی،کتاب کے آغاز میں

عبدالرؤوف مناوی(عالم مذہب ِشافعی)

”اوّل و آخر کا خالق جانتا ہے کہ کتابِ خدا کو سمجھنے کا انحصار علمِ علی علیہ السلام پر ہے“۔
حوالہ
بوستانِ معرفت، صفحہ680،نقل از” مناوی در فیض القدیر“جلد3،صفحہ47پر عبدالرؤوف مناوی نے حدیث2705(انا مدینة العلم و علی بابھا) میں لکھا ہے۔

جاحظ (مفکر مذہب ِمعتزلی)

”۔۔حضرت علی کرم اللہ وجھہ نے برسرِ منبر کہا:’ہمارے خاندان کا کسی سے مقابلہ نہیں ہوسکتا‘۔ بالکل صحیح فرمایا۔ کس طرح مقابلہ ہو اُس خاندان سے کسی کا!اسی خاندان سے تو پیغمبر خداہیں اور اسی سے دو پاک فرزند (حسن اور حسین ) ہیں اور سب سے پاک یعنی علی و فاطمہ اور پیغمبر اسلام اور راہِ خدا کے دو شہید :شیر خدا حمزہ اور صاحب ِ عظمت حضرتِ جعفر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“۔
حوالہ
بوستانِ معرفت،صفحہ688،نقل از شیخ سلیمان قندوزی حنفی، ینابیع المودة، باب52۔
”حقیقت میں ذاتی دشمنیاں عقلِ سلیم کو نقصان پہنچاتی ہیں اورانسان کے اخلاقِ حسنہ کوخراب کرتی ہیں اور خصوصاً اہلِ بیت علیہم السلام سے دشمنی ،یعنی اُن کے فضائل اور اُن کی مسلّمہ افضلیت کو دوسروں کے مقابلہ میں جھگڑے کاباعث بنانا۔ لہٰذا ہم پر واجب ہے کہ ہم حق طلب کریں۔ اُسی کی پیروی کریں اور قرآن سے وہی مراد چاہیں جو حقیقتاً منظورِ خدا ہے۔ یہ سب اسی صورت میں ممکن ہے جب ہم تعصب و خواہشاتِ نفس اور متقدمین(باپ دادا اور اساتذہ) کی غلط تقلیدکو دور پھینک دیں اور اہلِ بیت ِ اطہار علیہم السلام اور عترتِ پیغمبرکی دوسروں پر افضلیت کو تسلیم کریں“۔
حوالہ
بوستانِ معرفت،صفحہ999،نقل از شیخ سلیمان قندوزی حنفی، باب52،ینابیع المودة۔
”امیر الموٴمنین علی علیہ السلام کے کئی سو اقوالِ حکمت ہیں اور آپ کے ہر قول سے ہزار ہزار حکیمانہ اقوال تفسیر ہو سکتے ہیں“۔
حوالہ
بوستانِ معرفت،صفحہ690،نقل از مناقب ِ خوارزمی،باب24،صفحہ271۔

 ایمان والو بس تمہارا ولی اللہ ہے اور اس کا رسول اور وہ صاحبانِ ایمان جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکات دیتے ہیں

 ۔ مائدہ55

پہلی بات تو یہ ہے کہ جب مجسمے کی رونمائی کی گئی تو وہاں موجود لبنانیوں کے زبردست اجتماع میں جنرل قاسم سلیمانی کے دونوں بیٹے بھی موجود تھے جبکہ حزب اللہ کے متعدد بڑے کمانڈر اور جنوبی لبنان کے عوام بھی وہاں موجود تھے۔ دوسری بات جس نے سبھی دیکھنے والوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کر لی وہ مجسمے کے پیچھے نظر آنے والا فلسطین کا پرچم تھا اور جنرل قاسم سلیمانی اپنی انگلی سے الجلیل شہر کی جانب اشارہ کر رہے ہیں جو فلسطینی شہر ہے تاہم اسرائیل نے اس پر قبضہ کر رکھا ہے۔

جہاں ایک طرف معرالنوراس میں جنرل قاسم سلیمانی کے مجسمے کی رونمائی کی گئی وہیں دوسری جانب اسی وقت عراق کے دار الحکومت بغداد کے گرین زون علاقے میں واقع امریکی سفارتخانے کے پاس امریکی چھاونی پر تین راکٹ فائر کئے گئے جبکہ شمالی شہر کرکوک میں امریکی چھاونی پر کے-1 میزائل فائر کئے گئے۔

ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ایران اور مقاومتی محاذ کی جانب سے پوری کوشش ہو رہی ہے کہ جنرل قاسم زندہ جاوید ہو جائیں اور ان کی تصاویر کروڑوں افراد کے اذہان میں ہمیشہ زندہ رہے۔ مارون الرأس میں نصب کئے گئے جنرل قاسم سلیمانی کے مجسمے کو دیکھنے کے لئے ہر روز بڑی تعداد میں لوگ پہنچ رہے ہیں۔ اس کے ساتھ یہ بھی پیغام دیا جا رہا ہے کہ جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کا انتقام رکنے والا نہیں ہے۔ عین الاسد پر ایران کا میزائل حملہ پورا انتقام نہیں بلکہ انتقام کا آغاز تھا۔

جنرل قاسم سلیمانی کے مجسمے کے پیچھے فلسطین کا پرچم اور الجلیل شہر کی جانب اشارہ کرتی ان کی انگلی خاص پیغام دینے کے لئے ہے۔ اس سے یہ بتایا گیا ہے کہ اس عظیم کمانڈر نے فلسطینی تنظیموں کی بے مثال مدد کی۔ لبنان میں حماس کے نمائندے نے بتایا کہ جنرل قاسم سلیمانی نے غزہ پٹی کا خفیہ دورہ بھی کیا ۔ اس کمانڈر کو انہیں عظیم خدمات کی وجہ سے شہید کیا گیا۔ اس لئے ہم اگر کبھی اچانک سنیں کہ اسرائیلی اور امریکی مفاد پر بڑے پیمانے پر حملے شروع ہوگئے تو ہمیں حیرت نہیں ہونی چاہئے۔

ایران نے علاقے میں مزاحمت کا جو محاذ بنایا ہے وہ بہت طاقتور ہے اور اس کا صبر بھی بہت زیادہ ہے وہ جلد بازی کے بغیر اپنی ترجیحات کے مطابق کام کرتا ہے۔ عراق کے اندر 18 فوجی چھاونیوں میں 5200 امریکی فوجیوں کو باہر نکالنے کا فیصلہ، عراقی پارلیمنٹ سے جاری ہو چکا ہے اور بغداد اور کرکوک میں امریکی چھاونیوں پر حملے یا تو انتقام کی تیاری ہے یا پھر بڑی تبدیلی کا آغاز ہے۔ 

ماہ رجب کی فضیلت اور اس کے اعمال

واضح رہے کہ ماہ رجب، شعبان اور رمضان بڑی عظمت اور فضیلت کے حامل ہیں اور بہت سی روایات میں ان کی فضیلت بیان ہوئی ہے۔ جیساکہ حضرت محمد کا ارشاد پاک ہے کہ ماہ رجب خداکے نزدیک بہت زیادہ بزرگی کا حامل ہے۔ کوئی بھی مہینہ حرمت و فضیلت میں اس کا ہم پلہ نہیں اور اس مہینے میںکافروں سے جنگ و جدال کرنا حرام ہے۔آگاہ رہو رجب خدا کا مہینہ ہے شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان میری امت کا مہینہ ہے۔ رجب میںایک روزہ رکھنے والے کو خدا کی عظیم خوشنودی حاصل ہوتی ہے‘ غضب الہی اس سے دور ہوجاتا ہے‘ اور جہنم کے دروازوں میں سے ایک دروازہ اس پر بند ہوجاتا ہے۔ امام موسٰی کاظم -فرماتے ہیں کہ ماہ رجب میںایک روزہ رکھنے سے جہنم کی آگ ایک سال کی مسافت تک دور ہوجاتی ہے اورجو شخص اس ماہ میں تین دن کے روزے رکھے تو اس کے لیے جنت واجب ہوجاتی ہے۔ نیز حضرت فرماتے ہیں کہ رجب بہشت میںایک نہر ہے جس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ شیریں ہے اور جو شخص اس ماہ میں ایک دن کا روزہ رکھے تو وہ اس نہر سے سیراب ہوگا۔
امام جعفر صادق -سے مروی ہے کہ حضرت رسول اکرم نے فرمایا: کہ رجب میری امت کے لیے استغفار کامہینہ ہے۔ پس اس مہینے میں زیادہ سے زیادہ طلب مغفرت کرو کہ خدا بہت بخشنے والا اور مہربان ہے۔ رجب کو اصبّ بھی کہاجاتا ہے کیونکہ اس ماہ میںمیری امت پر خدا کی رحمت بہت زیادہ برستی ہے۔ پس اس ماہ میںبہ کثرت کہا کرو:
اَسْتَغْفِرُ اﷲ وَ اَسْئَلُہُ التَّوْبَۃَ
’’ میں خدا سے بخشش چاہتا ہوں اور توبہ کی توفیق مانگتا ہوں‘‘
ابن بابویہ نے معتبر سند کے ساتھ سالم سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: میں اوخر رجب میں امام جعفر صادق -کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضرت نے میری طرف دیکھتے ہوئے فرمایا کہ اس مہینے میںروزہ رکھا ہے؟ میں نے عرض کیا فرزند رسول (ص) ! واﷲ نہیں! تب فرمایا کہ تم اس قدر ثواب سے محروم رہے ہوکہ جسکی مقدارسوائے خدا کے کوئی نہیں جانتا کیونکہ یہ مہینہ ہے جسکی فضیلت تمام مہینوںسے زیادہ اور حرمت عظیم ہے اور خدا نے اس میں روزہ رکھنے والے کا احترام اپنے اوپرلازم کیا ہے۔ میںنے عرض کیا اے فرزند رسول (ص)! اگرمیں اسکے باقی ماندہ دنوں میں روزہ رکھوں توکیا مجھے وہ ثواب مل جائیگا؟
آپ (ص)نے فرمایا: اے سالم!
جو شخص آخر رجب میں ایک روزہ رکھے تو خدا اسکو موت کی سختیوں اور اس کے بعدکی ہولناکی اورعذاب قبر سے محفوظ رکھے گا۔جوشخص آخر ماہ میں دوروزے رکھے وہ پل صراط سے آسانی کے ساتھ گزرجائے گا اور جو آخررجب میں تین روزے رکھے اسے قیامت میں سخت ترین خوف‘تنگی اورہولناکی سے محفوظ رکھا جائے گا اور اس کوجہنم کی آگ سے آزادی کاپروانہ عطا ہوگا۔
واضح ہوکہ ماہ رجب میں روزہ رکھنے کی فضیلت بہت زیادہ ہے جیساکہ روایت ہوئی ہے اگر کوئی شخص روزہ نہ رکھ سکتاہو وہ ہرروز سو مرتبہ یہ تسبیحات پڑھے تو اس کو روزہ رکھنے کاثواب حاصل ہوجائے گا۔
سُبْحانَ الْاِلہِ الْجَلِیلِ سُبْحانَ مَنْ لاَ یَنْبَغِی التَّسْبِیحُ إلاَّ لَہُ سُبْحانَ الْاَعَزِّ الْاَکْرَمِ
پاک ہے جو معبود بڑی شان والا ہے پاک ہے وہ کہ جس کے سوا کوئی لائق تسبیح نہیں پاک ہے وہ جو بڑا عزت والا اور بزرگی والا ہے
سُبْحانَ مَنْ لَبِسَ الْعِزَّ وَھُوَ لَہُ ٲَھْلٌ ۔
پاک ہے وہ جولباس عزت میں ملبوس ہے اور وہی اس کا اہل ہے۔

ماہ رجب کے مشترکہ اعمال


دعایہ روزانہ ماہ رجب

یہ ماہ رجب کے اعمال میں پہلی قسم ہے یہ وہ اعمال ہیں جومشترکہ ہیں اورکسی خاص دن کے ساتھ مخصوص نہیں ہیں اور یہ چند اعمال ہیں۔
﴿۱﴾
رجب کے پورے مہینے میں یہ دعا پڑھتا رہے اور روایت ہے کہ یہ دعا امام زین العابدین -نے ماہ رجب میں حجر کے مقام پر پڑھی:
یَا مَنْ یَمْلِکُ حَوائِجَ السَّائِلِینَ، وَیَعْلَمُ ضَمِیرَ الصَّامِتِینَ، لِکُلِّ مَسْٲَلَۃٍ مِنْکَ سَمْعٌ
اے وہ جوسائلین کی حاجتوں کامالک ہے اور خاموش لوگوں کے دلوں کی باتیں جانتا ہے ہر وہ سوال جو تجھ سے کیا جائے تیرا
حَاضِرٌ، وَجَوَابٌ عَتِیدٌ ۔ اَللّٰھُمَّ وَمَواعِیدُکَ الصَّادِقَۃُ، وَٲَیادِیکَ الْفَاضِلَۃُ، وَرَحْمَتُکَ
کان اسے سنتا ہے اور اس کا جواب تیار ہے اے معبود تیرے سب وعدے یقینا سچے ہیں تیری نعمتیں بہت عمدہ ہیں اور تیری رحمت
الْوَاسِعَۃُ فَٲَسْٲَلُکَ ٲَنْ تُصَلِّیَ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَٲَنْ تَقْضِیَ حَوائِجِی لِلدُّنْیا
بڑی وسیع ہے پس میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ محمد(ص)(ص)وآل(ع) محمد(ص)(ص) پر رحمت نازل فرما اور یہ کہ میری دنیا اور اور آخرت کی حاجتیں
وَالاَْخِرَۃِ، إنَّکَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ ۔
پوری فرما بے شک تو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔
﴿۲﴾
یہ دعا پڑھے کہ جسے امام جعفر صادق -رجب میں ہر روز پڑھا کرتے تھے۔
خابَ الْوافِدُونَ عَلَی غَیْرِکَ، وَخَسِرَ الْمُتَعَرِّضُونَ إلاَّ لَکَ، وَضاعَ الْمُلِمُّونَ إلاَّ بِکَ
نا امید ہوئے تیرے غیرکی طرف جانے والے گھاٹے میں رہے تیرے غیر سے سوال کرنے والے تباہ ہوئے تیرے غیر کے ہاں
وَٲَجْدَبَ الْمُنْتَجِعُونَ إلاَّ مَنِ انْتَجَعَ فَضْلَکَ بَابُکَ مَفْتُوحٌ لِلرَّاغِبِینَ وَخَیْرُکَ مَبْذُولٌ
جانے والے، قحط کاشکار ہوئے تیرے فضل کے غیر سے روزی طلب کرنے والے تیرا در اہل رغبت کیلئے کھلا ہے تیری بھلائی طلب
لِلطَّالِبِینَ، وَفَضْلُکَ مُباحٌ لِلسَّائِلِینَ، وَنَیْلُکَ مُتَاحٌ لِلاَْمِلِینَ، وَرِزْقُکَ مَبْسُوطٌ لِمَنْ
گاروں کو بہت ملتی ہے تیرا فضل سائلوں کیلئے عام ہے اور تیری عطا امید واروں کیلئے آمادہ ہے تیرا رزق نافرمانوں کیلئے بھی فراواں
عَصَاکَ وَحِلْمُکَ مُعْتَرِضٌ لِمَنْ نَاوَاکَ عَادَتُکَ الْاِحْسانُ إلَی الْمُسِیئِینَ وَسَبِیلُکَ
ہے تیری بردباری دشمن کے لیے ظاہر و عیاں ہے گناہگاروں پر احسان کرنا تیری عادت ہے اور ظالموں کو باقی رہنے دینا
الْاِ بْقائُ عَلَی الْمُعْتَدِینَ اَللّٰھُمَّ فَاھْدِنِی ھُدَی الْمُھْتَدِینَ وَارْزُقْنِی اجْتِہادَ الْمُجْتَھِدِینَ
تیرا شیوہ ہے اے معبود مجھے ہدایت یافتہ لوگوں کی راہ پر لگا اور مجھے کوشش کرنے والوں کی سی کوشش نصیب فرما
وَلاَ تَجْعَلْنِی مِنَ الْغَافِلِینَ الْمُبْعَدِینَ، وَاغْفِرْ لِی یَوْمَ الدِّینِ ۔
مجھے غافل اور دورکیے ہوئے لوگوں میں سے قرار نہ دے اور یوم جزا میں مجھے بخش دے۔
﴿۳﴾
شیخ نے مصباح میں فرمایا ہے کہ معلٰی بن خنیس نے امام جعفرصادق -سے روایت کی ہے۔ آپ(ع) نے فرمایا کہ ماہ رجب میں یہ دعا پڑھا کرو:
اَللّٰھُمَّ إنِّی ٲَسْٲَ لُکَ صَبْرَ الشَّاکِرِینَ لَکَ، وَعَمَلَ الْخَائِفِینَ مِنْکَ، وَیَقِینَ الْعَابِدِینَ
اے معبود میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ مجھے شکر گزاروں کا صبر ڈرنے والوں کا عمل اور عبادت گزاروں کا یقین عطا
لَکَ اَللّٰھُمَّ ٲَنْتَ الْعَلِیُّ الْعَظِیمُ وَٲَنَا عَبْدُکَ الْبَائِسُ الْفَقِیرُ ٲَنْتَ الْغَنِیُّ الْحَمِیدُ وَٲَنَا
فرما اے معبود تو بلند و بزرگ ہے اور میں تیرا حاجت مند اور بے مال ومنال بندہ ہوں تو بے حاجت اور تعریف والا ہے اور میں تیرا
الْعَبْدُ الذَّلِیلُ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِہِ وَامْنُنْ بِغِنَاکَ عَلَی فَقْرِی، وَبِحِلْمِکَ عَلَی
پست تر بندہ ہوں اے معبود محمد(ص)(ص) اور انکی آل(ع) پر رحمت نازل فرما اور میری محتاجی پر اپنی تونگری سے میری نادانی پر اپنی ملائمت و بردباری
جَھْلِی وَبِقُوَّتِکَ عَلَی ضَعْفِی یَا قَوِیُّ یَا عَزِیزُ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِہِ الْاَوْصِیائِ
سے اور اپنی قوت سے میری کمزوری پر احسان فرما اے قوت والے اسے زبردست اے معبود محمد(ص) اورانکی آل(ع) پر رحمت نازل فرما
الْمَرْضِیِّینَ وَاکْفِنِی مَا ٲَھَمَّنِی مِنْ ٲَمْرِ الدُّنْیا وَالاَْخِرَۃِ یَا ٲَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ
جو پسندیدہ وصی اور جانشین ہیں اور دنیا و آخرت کے اہم معاملوں میں میری کفایت فرما اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے۔
مؤلف کہتے ہیں کہ کتاب اقبال میں سید بن طائوس نے بھی اس دعا کی روایت کی ہے اس سے ظاہر ہوتاہے کہ یہ جامع ترین دعا ہے اور اسے ہروقت پڑھاجاسکتا ہے۔
﴿۴﴾شیخ فرماتے ہیں کہ اس دعا کو ہر روز پڑھنا مستحب ہے۔
اَللّٰھُمَّ یَا ذَا الْمِنَنِ السَّابِغَۃِ وَالاَْلاَئِ الْوَازِعَۃِ وَالرَّحْمَۃِ الْوَاسِعَۃِ، وَالْقُدْرَۃِ الْجَامِعَۃِ
اے معبود اے مسلسل نعمتوں والے اور عطا شدہ نعمتوں والے اے کشادہ رحمت والے۔ اے پوری قدرت والے۔
وَالنِّعَمِ الْجَسِیمَۃِ وَالْمَواھِبِ الْعَظِیمَۃِ وَالْاَیادِی الْجَمِیلَۃِ وَالْعَطایَا الْجَزِیلَۃِ یَا مَنْ
اے بڑی نعمتوں والے اے بڑی عطائوں والے اے پسندیدہ بخششوںوالے اور اے عظیم عطائوں والے اے وہ جس کے وصف
لاَ یُنْعَتُ بِتَمْثِیلٍ وَلاَ یُمَثَّلُ بِنَظِیرٍ وَلاَ یُغْلَبُ بِظَھِیرٍ یَا مَنْ خَلَقَ فَرَزَقَ وَٲَلْھَمَ فَٲَنْطَقَ
کیلئے کوئی مثال نہیں اور جسکا کوئی ثانی نہیں جسے کسی کی مدد سے مغلوب نہیںکیا جاسکتا اے وہ جس نے پیدا کیاتوروزی دی الہام کیاتو
وَابْتَدَعَ فَشَرَعَ، وَعَلا فَارْتَفَعَ، وَقَدَّرَ فَٲَحْسَنَ، وَصَوَّرَ فَٲَتْقَنَ، وَاحْتَجَّ فَٲَبْلَغَ،
گویائی بخشی نئے نقوش بنائے تورواں کردیئے بلند ہوا تو بہت بلند ہوا اندازہ کیا تو خوب کیا صورت بنائی تو پائیدار بنائی حجت قائم کی
وَٲَنْعَمَ فَٲَسْبَغَ، وَٲَعْطی فَٲَجْزَلَ، وَمَنَحَ فَٲَفْضَلَ یَا مَنْ سَمَا فِی الْعِزِّ فَفاتَ نَواظِرَ
تو پہنچائی نعمت دی تو لگاتار دی عطا کیا تو بہت زیادہ اور دیا تو بڑھاتا گیا اے وہ جو عزت میں بلند ہوا تو ایسا بلند کہ
الْاَ بْصارِ، وَدَنا فِی اللُّطْفِ فَجازَ ھَواجِسَ الْاَفْکارِ یَا مَنْ تَوَحَّدَ بِالْمُلْکِ فَلا نِدَّ لَہُ
آنکھوں سے اوجھل ہوگیا اور تو لطف و کرم میں قریب ہوا تو فکر و خیال سے بھی آگے نکل گیا اے وہ جو بادشاہت میں
فِی مَلَکُوتِ سُلْطَانِہِ وَتَفَرَّدَ بِالاَْلاَئِ وَالْکِبْرِیائِ فَلاَ ضِدَّ لَہُ فِی جَبَرُوتِ شَٲْنِہِ یَا مَنْ
یکتا ہے کہ جسکی بادشاہی کے اقتدار میں کوئی شریک نہیں وہ اپنی نعمتوں اور اپنی بڑائی میںیکتا ہے پس شان و عظمت میں کوئی اسکا
حارَتْ فِی کِبْرِیائِ ھَیْبَتِہِ دَقائِقُ لَطائِفِ الْاَوْہامِ، وَانْحَسَرَتْ دُونَ إدْراکِ عَظَمَتِہِ
مقابل نہیں اے وہ جس کے دبدبہ کی عظمت میں خیالوں کی باریکیاں حیرت زدہ ہیں اور اس کی بزرگی کو پہچاننے میں مخلوق
خَطَائِفُ ٲَبْصَارِ الْاَنامِ ۔ یَا مَنْ عَنَتِ الْوُجُوھُ لِھَیْبَتِہِ، وَخَضَعَتِ الرِّقابُ لِعَظَمَتِہِ،
کی نگاہیں عاجز ہیں اے وہ جس کے رعب کے آگے چہرے جھکے ہوئے ہیں اور گردنیں اسکی بڑائی کے سامنے نیچی ہیں
وَوَجِلَتِ الْقُلُوبُ مِنْ خِیفَتِہِ ٲَسْٲَلُکَ بِھَذِہِ الْمِدْحَۃِ الَّتِی لاَ تَنْبَغِی إلاَّ لَکَ وَبِما وَٲَیْتَ
اور دل اسکے خوف سے ڈرے ہوئے ہیں میں سوال کرتا ہوں تیری اس تعریف کے ذریعے جو سوائے تیرے کسی کو زیب نہیں اور اس
بِہِ عَلَی نَفْسِکَ لِداعِیکَ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ وَبِما ضَمِنْتَ الْاِجابَۃَ فِیہِ عَلَی نَفْسِکَ
کے واسطے جو کچھ تو نے اپنے ذمہ لیا پکارنے والوں کی خاطر جو کہ مومنوں میں سے ہیں اس کے واسطے جسے تونے پکارنے والوں کی
لِلدَّاعِینَ یَا ٲَسْمَعَ السَّامِعِینَ، وَٲَبْصَرَ النَّاظِرِینَ، وَٲَسْرَعَ الْحَاسِبِینَ، یَا ذَا الْقُوَّۃِ
دعا قبول کرنے کی ضمانت دے رکھی ہے اے سب سے زیادہ سننے والے اے سب سے زیادہ دیکھنے والے اے تیز تر حساب کرنے
الْمَتِینَ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ خَاتَمِ النَّبِیِّینَ وَعَلَی ٲَھْلِ بَیْتِہِ وَاقْسِمْ لِی فِی شَھْرِنا ہذَا
والے اے محکم تر قوت والے محمد(ص)(ص) پر رحمت نازل فرما جو خاتم الانبیائ ہیں اور ان کے اہلبیت پر بھی اور اس مہینے میں مجھے اس سے بہتر
خَیْرَ مَا قَسَمْتَ وَاحْتِمْ لِی فِی قَضَائِکَ خَیْرَ مَا حَتَمْتَ، وَاخْتِمْ لِی بالسَّعادَۃِ فِیمَنْ
حصہ دے جو تو تقسیم کرے اور اپنے فیصلوں میں میرے لیے بہتر و یقینی فیصلہ فرما کر مجھے نواز اور اس مہینے کو میرے لیے خوش بختی پر
خَتَمْتَ وَٲَحْیِنِی مَا ٲَحْیَیْتَنِی مَوْفُوراً وَٲمِتْنِی مَسْرُوراً وَمَغْفُوراً وَتَوَلَّ ٲَنْتَ نَجَاتِی
تمام کر دے اور جب تک تو مجھے زندہ رکھے فراواں روزی سے زندہ رکھ اور مجھے خوشی و بخشش کی حالت میں موت دے
مِنْ مُسائَلَۃِ البَرْزَخِ وَادْرٲْ عَنِّی مُنکَراً وَنَکِیراً، وَٲَرِ عَیْنِی مُبَشِّراً وَبَشِیراً، وَاجْعَلْ
اور برزخ کی گفتگو میں تو خود میرا سرپرست بن جامنکر و نکیر کو مجھ سے دور اور مبشر و بشیر کو میری آنکھوں کے سامنے لا اور مجھے اپنی رضا
لِی إلَی رِضْوَانِکَ وَجِنانِکَ مَصِیراً وَعَیْشاً قَرِیراً، وَمُلْکاً کَبِیراً، وَصَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ
مندی اور بہشت کے راستے پر گامزن کر دے وہاں آنکھوں کو روشن کرنے والی زندگی اور بڑی حکومت عطا فرما اور تو محمد(ص)(ص) پر اور ان کی
وَآلِہِ کَثِیراً ۔
آل(ع) پر رحمت نازل فرما بہت زیادہ۔


نام پدر : علی بن موسی الرضا
نام مادر : سبیکہ ( پیامبر اسلام کی بیوی ماریہ قبطیہ کے خاندان سے )(1)
کنیت : ابو جعفر ثانی
القاب : تقی ، جواد
اریخ شھادت : ۲۲۰ ھ بغداد

ھمعصر خلفاء
امام جواد علیہ السلام اپنے دور امامت میں دو عباسی خلفاء کے ھمعصر تھے :
۱۔ مامون الرشید ( ۱۹۳ ۔ ۲۱۸ )
۲۔ معتصم ( مامون کا بھائی ) ( ۲۱۸ ۔ ۲۲۷ )

امام علیہ السلام کے زندگی کا مختصر جائزہ
علماء کا بیان ہے کہ امام محمدتقی علیہ السلام بتاریخ ۱۰/ رجب المرجب ۱۹۵ ھ ( ۸۱۱ میلادی ) یوم جمعہ بمقام مدینہ منورہ متولد ہوئے(3)
شیخ مفیدعلیہ الرحمة فرماتے ہیں چونکہ حضرت امام علی رضاعلیہ ا لسلام کے کوئی اولاد آپ کی ولادت سے قبل نہ تھی اس لئے لوگ طعنہ زنی کرتے ہوئے کہتے تھے کہ شیعوں کے امام منقطع النسل ہیں یہ سن کرحضرت امام رضاعلیہ السلام نے ارشادفرمایاکہ اولادکا ہونا خداکی عنایت سے متعلق ہے اس نے مجھے صاحب اولاد قرار دیا ہے اورعنقریب میرے یہاں مسندامامت کاوارث پیداہوگا چنانچہ آپ کی ولادت باسعادت ہوئی(4)
علامہ طبرسی لکھتے ہیں کہ حضرت امام رضاعلیہ السلام نے ارشاد فرمایاتھا کہ میرے ہاں عنقریب جوبچہ پیداہوگا وہ عظیم برکتوں کاحامل ہوگا(15)
ولادت سے متعلق لکھا ہے کہ امام رضاعلیہ السلام کی بہن جناب حکیمہ خاتون فرماتی ہیں کہ ایک دن میرے بھائی نے مجھے بلاکر کہاکہ آج تم میرے گھرمیں حاضر رہو،کیونکہ خیزران کے بطن سے آج رات کوخدا مجھے ایک فرزندعطافرمائے گا ،میں نے خوشی کے ساتھ اس حکم کی تعمیل کی ، جب رات ہوئی تو ہمسایہ کی چندعورتیں بھی بلائی گئیں، نصف شب سے زیادہ گزرنے پریکایک وضع حمل کے آثارنمودارہوئے یہ حال دیکھ کر میں خیزران کوحجرہ میں لے گئی، اورمیں نے چراغ روشن کردیا تھوڑی دیرمیں امام محمدتقی علیہ السلام پیداہوئے ، میں نے دیکھاکہ وہ مختون اورناف بریدہ ہیں ، ولادت کے بعد میں نے انہیں نہلانے کے لیے طشت میں بٹھایا، اس وقت جوچراغ روشن تھا وہ گل ہوگیا مگر پھر بھی اس حجرہ میں اتنی روشنی بدستور رہی کہ میں نے آسانی سے بچہ کونہلادیا. تھوڑی دیرمیں میرے بھائی امام رضاعلیہ السلام بھی وہاں تشریف لے آئے میں نے نہایت عجلت کے ساتھ صاحبزادے کوکپڑے میں لپیٹ کر حضرت (ع) کی آغوش میں دیدیا آپ نے سر اورآنکھوں پربوسہ دیے کر پھرمجھے واپس کردیا، دودن تک امام محمدتقی علیہ السلام کی آنکھیں بند رہیں تیسرے دن جب آنکھیں کھولیں تو آپ نے سب سے پہلے آسمان کی طرف نظرکی پھرداہنے بائیں دیکھ کرکلمہ شہادتین زبان پرجاری کیا میں یہ دیکھ کر سخت متعجب ہوئی اورمیں نے سارا ماجرا اپنے بھائی سے بیان کیا، آپ نے فرمایا تعجب نہ کرو، یہ میرا فرزندحجت خدا اور وصی رسول خدا ہیں اس سے جوعجائبات ظہورپذیرہوں ،ان میں تعجب کیا ، محمدبن علی ناقل ہیں کہ حضرت امام محمدتقی علیہ السلام کے دونوں کندھوں کے درمیان اسی طرح مہر امامت تھی جس طرح دیگرآئمہ علیہم السلام کے دونوں کندھوں کے درمیان مہریں ہواکرتی تھیں(6)

آپ کی ازواج اوراولاد
علماء نے لکھا ہے کہ حضرت امام محمدتقی علیہ السلام کے چند بیویاں تھیں ، ام الفضل بنت مامون الرشید اورسمانہ خاتون یاسری . امام علیہ السلام کی اولاد صرف جناب سمانہ خاتون جوکہ حضرت عماریاسر کی نسل سے تھیں، کے بطن مبارک سے پیدا ہوئے ہیں، آپ کے اولادکے بارے میں علماء کااتفاق ہے کہ دونرینہ اوردوغیرنرینہ تھیں، جن کے نام یہ ہیں ۱ ۔ حضرت امام علی نقی علیہ السلام، ۲ ۔ جناب موسی مبرقع علیہ الرحمة، ۳ ۔ جناب فاطمہ، ۴ ۔ جناب امامہ(7)

پر برکت مولود
امام رضا علیہ السلام کے خاندان اور شیعہ محافلوں میں ، حضرت امام جواد علیہ السلام کو مولود خیر پر برکت کے عنوان سے یاد کیا جاتا تھا ۔ جیسا کہ ابویحیای صنعانی کہتا ہے : ایک دن میں امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں بیھٹا تھا ، آپ کا بیٹا ابوجعفر جو کہ کمسن بچہ تھا لایا گیا ، امام علیہ السلام نے فرمایا : ہمارے شیعوں کیلئے اس جیسا کوئی مولود بابرکت پیدا نہیں ہوا ہے(8)
شاید ابتداء میں یہ تصور ہوجائے کہ اس حدیث سے مراد یہ ہے کہ امام جواد علیہ السلام پہلے تمام اماموں کی نسبت زیادہ بابرکت ہیں ، حالانکہ اس طرح نہیں ہیں ، بلکہ جب موضوع کی جانچ پڑتال کی جائے اور قرائن و شواھد کا ملاحظہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس حدیث کا مقصد یہ ہے کہ امام جواد علیہ السلام کی ولادت ایسے گھٹن حالات میں واقع ہوئی ہے جو شیعوں کیلئے خاص خیر و برکت کا تحفہ کہا جاسکتا ہے ۔ کیوں اس لئے کہ امام رضا علیہ السلام کا زمانہ ایک خاص عصر میں پڑھا تھا کہ آنحضرت (ع) اپنے ما بعد کا جانشین اور امام کے پہچنوانے میں مشکلات کا سامنا ہوچکا تھا جو اس سے پہلے کے اماموں کے دور میں ایسا نہیں ہوا تھا ۔ کیونکہ ایک طرف امام کاظم علیہ السلام کے شہادت کے بعد واقفیہ کا گروہ امام رضا علیہ السلام کی امامت کا منکر ہوچکے تھے تو دوسری طرف امام رضا علیہ السلام ۴۷ سال کی عمر شریف تک کوئی اولاد نرینہ نہیں تھی جس کی وجہ سے دشمن طعنہ دے رہا تھا کہ امام رضا مقطوع النسل ہیں اور ہم خود امامت زیر سوال آچکی تھی کہ اس کے بعد کوئی امام کا نام و نشان نہیں ہے جبکہ پیغمبر اسلام کے حدیث شریف کے مطابق بارہ امام ہیں اور امام حسین علیہ السلام کے نسل سے ۹ امام پیدا ہونگے ۔

کمسن امام :
امام جواد علیہ السلام کی زندگی کے مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت سب سے پہلا وہ امام ہیں جو بچپنی کے عالم میں امامت کی منصب پر فائز ہوچکے ہیں اور لوگوں کیلئے یہ سوال بن چکا تھا کہ ایک نوجوان امامت کی اس سنگین اور حساس مسئولیت کو کیسے سنبھال سکتا ہے ؟ کیا کسی انسان کیلئے یہ ممکن ہے کہ اس کمسنی کی حالت میں کمال کی اس حد تک پہنچ جائے اور پیغمبر کے جانشین ہونے کا لائق بن جائے ؟ اور کیا اس سے پہلے کے امتوں میں ایسا کوئی واقعہ پیش آیا ہے ؟
اس قسم کے سوالات کوتاہ فکر رکھنے والے لوگوں کے اذھان میں آکر اس دور کے جامعہ اسلامی مشکل کا شکار ہوچکی تھی لیکن جب قادر مطلق و حکیم کے خاص لطف و عنایت جو ہر زمانے میں جامعہ بشریت کیلئے ارمغان لاچکی ہے اپنے آپ کو احساس کمتری میں مبتلا کردیا تھا۔ اس مطلب کے ثبوت کیلئے ہمارے پاس قرآن و حدیث کی روشنی میں شواہد و دلائل فراوان موجود ہیں ۔
۱۔ حضرت یحیی علیہ السلام : یا یحیی خذالکتاب بقوۃ و آتیناہ الحکم صبیا ( سورہ مریم آیہ ۱۲ )
۲۔ حضرت عیسی علیہ السلام کا بچپنی میں تکلم کرنا ( سورہ مریم آیات ۳۰ سے ۳۲ تک کا تلاوت )
یہ بات ہمارے ائمہ کے اقوال میں بھی استفادہ ہوتا ہے اور واقعات جو تاریخ میں موجود ہیں ۔ (والسلام)
--------------
(1)کلینی ، اصول کافی ، ج1 ص 315 و 492 ، تهران ، مکتبه الصدوق ، 1381هـ ؛ ابن شهر آشوب ، مناقب آل ابیطالب ، ج 4 ، ص 379 ، قم ، المطبعه العلمیه
(2)کلینی ، اصول کافی ، ج 1 ، ص 492 ، تهران ، مکتبه الصدوق ، 1381هـ ؛ شیخ مفید ، الارشاد ، ص 316 ، قم ، مکتبه بصیرتی . بعض علماء نے آپ کی ولادت اسی سال کے ۱۵ رجب کو قرار دیا ہے ( طبرسی ، اعلام الوری ، ص 344 ، الطبعه الثالثه ، دارالکتب الاسلامیه )
(3)روضة الصفاجلد ۳ ص ۱۶ ؛ شواہدالنبوت ص ۲۰۴ ، انورالنعمانیہ ص ۱۲۷
(4)ارشاد ص ۴۷۳
(5)اعلام الوری ص ۲۰۰
(6)المناقب، ج4، ص394
(7)ارشاد مفید ص ۴۹۳ ؛ صواعق محرقہ ص ۱۲۳ ؛ روضة الشہداء ص ۴۳۸ ؛ نورالابصار ص ۱۴۷ ؛ انوارالنعمانیہ ص ۱۲۷ ؛ کشف الغمہ ص ۱۱۶ ؛ اعلام الوری ص ۲۰۵
(8) شیخ مفید ، الارشاد ، ص 319 ، قم ، مکتبه بصیرتی ؛ طبرسی ، اعلام الوری ، ص 347 ، الطبعه الثالثه ، المکتبه الاسلامیه ؛ فتال نیشابوری ، روضه الواعظین ، ص 261 ، الطبعه الاولی ، بیروت ، موسسه الاعلمی للمطبوعات 1406 هـ ؛ کلینی ، اصول کافی ، ج1 ، ص 321 ، تهران ، مکتبه الصدوق ؛ علی بن عیسی الاربلی ، کشف الغمه ، ج3 ، ص 143 ، تبریز ، مکتبه بنی هاشئ 1381 هـ .
 

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ہندوستانی مسلمانوں  کے ہندو انتہا پسندوں کے ہاتھوں بہیمانہ قتل کی شدید الفاظ ميں مذمت کرتے ہوئے فرمایا: ہندوستانی حکومت کومسلمانوں کے قتل عام کو روکنے کے سلسلے میں اپنی ذمہ داریوں پر عمل اور انتہا پسند ہندوؤں کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ مہر نیوز کے مطابق رہبر معظم انقلاب اسلامی کے دفتر حفظ و نشر آثار نے ایک بیان میں کہا ہے کہ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے بیان میں ہندوستانی مسلمانوں کے قتل عام کو روکنے پر زوردیتے ہوئے فرمایا: ہندوستانی مسلمانوں کے قتل عام سے دنیا بھر کے مسلمانوں کے دل مجروح ہوئے ہیں اور بھارتی حکومت کو مسلمانوں کے قتل عام کو روکنے کے سلسلے میں ہندو انتہا پسندوں اور ان سے وابستہ تنظیموں پر پابندی عائد کرنی چاہیے اور ہندوستان کو دنیائے اسلام سے الگ تھلگ کرنے کی کوششوں کو ناکام بنانا چاہیے۔

 آئندہ چند دنوں میں 3 لاکھ طاقتور طبی ٹیموں کے ہمراہ کورونا وائرس کا ملک بھر سے خاتمہ کردیا جائےگا۔

ایرانی وزیر صحت نے ملک میں کورونا وائرس کو کنٹرول کرنے کے سلسلے میں کئے گئے اقدامات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے کے سلسلے میں ملک بھر میں بہت بڑا طبی آپریشن جاری ہے۔ بہت سے مریض صحتیاب ہوکر اسپتالوں سے رخصت ہوگئے ہیں۔  ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم کورونا وائرس کا پیچھا کرکے اسے ختم کریں گے اور اس کو اپنے تک آنے کی اجازت نہیں دیں گے اور اس سلسلے میں ملک بھر میں جراثیموں کو ختم کرنے کی بڑی مہم کا آغاز ہوگیا ہے اور آئندہ چند دنوں میں تین لاکھ طاقتورطبی ٹیموں کے ذریعہ ملک بھر سے کورونا وائرس کو ختم کرنے کا آپریشن شروع کیا جائےگا۔ وزیر صحت نے کہا کہ عوام کو اجتماعات میں شرکت کرنے سے پرہیز  اور طبی دستورات پر عمل کرنا چاہیے۔