سلیمانی
امریکہ کا صدی معاملہ مردود اور ناقابل عمل / بیت المقدس کو بیچنے کی اجازت نہیں دی جائےگی
تہران میں نماز جمعہ کے عارضی خطیب نے صدی ڈیل کو ناقابل عمل ، سازشی اور فریب پر مبنی ڈیل قراردیتے ہوئے کہا ہےکہ امریکہ صدی ڈیل کو عملی جامہ پہنانے کی تمنا قبر میں لے جائےگا۔ بیت المقدس کو فروخت کرنے کی اجازت نہیں دی جائےگی۔ خطیب جمعہ نے عشرہ فجر کی آمد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ حضرت امام خمینی (رہ) کی زحمتوں کو ضائع نہیں ہونے دیں گے اورہم ان کی کوششوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں اور ان کی کوششوں کو زندہ رکھنا سب سے عمدہ اور اہم تقوی ہے۔
خطیب جمعہ نے کہا کہ جب امام خمینی (رہ) نے اسلامی تحریک کا آغاز کیا تو انھوں نے کہا کہ اللہ تعالی ہمارے ساتھ ہے اور انھوں نے استقامت اور پائداری کے ساتھ انقلاب اسلامی کو کامیابی کے ساحل سے ہمکنار کردیا ۔ آیت اللہ موحدی کرمانی نے کہا کہ ایرانی عوام حضرت امام خمینی (رہ) اور شہداء کی قربانیوں کو ضائع نہیں ہونےدیں گے اور ہم ان کی راہ پر استقامت کے ساتھ گامزن رہیں گے۔
آیت اللہ موحدی کرمانی نے عین الاسد میں امریکی ايئر بیس پر ایرانی سپاہ کے دفاعی میزائل حملے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ سپاہ اسلام نے امریکہ کے غرور اور تکبر کو توڑدیا ہےاور ایرانی میزائلوں نے امریکی غرور کو خاک کے ساتھ یکساں کردیا ہے۔
خطیب جمعہ نے فلسطین کے بارے میں امریکہ کے یکطرفہ سازشی معاملے کو مردود قراردیتے ہوئے کہا کہ فلسطین کا تعلق فلسطینی عوام سے ہے اور امریکی صدر ٹرمپ کے سازشی اور مکر و فریب پر مبنی معاملہ مردہ پیدا ہوا ہے اور اس کی ناکامی یقینی ہے۔ خطیب جمعہ نے کہا کہ فلسطینیوں نے امریکی صدر کے معاملے کو باہمی اتحاد کے ساتھ مسترد کردیا ہے اور دنیائے اسلام نے بھی صدی معاملے کو مردود قراردیدیا ہے بعض عرب ممالک کے خائن عرب حکمرانوں نے امریکی صدر کے سازشی معاملے کی حمایت کی ہے جس کے بعد دنیائے اسلام اور امت مسلمہ کے سامنے ان کا منافقانہ اور ظالمانہ چہرہ مزید نمایاں ہوگيا ہے۔
امریکی غصبہ کے خلاف عراقی عوام کی اونچی آواز: عراق سے نکل جاؤ 2_ عراق کی آزادی اور خودمختاری کی جمعہ میں قوم کی کئی ملین موجودگی 3- عراقی عوام خطے سے امریکہ کی باہر نکلنے میں پیشتاز ہیں 4-غاصب امریکی کی انخلا کے لیے عراق میں عوامی ریفرنڈم
اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای کے مشیر برائے بین الاقوامی امور اور سابق وزیر خارجہ ڈاکٹر علی اکبر ولایتی نے خبرنگاروں کیساتھ گفتگو کرتے ہوئے "صدی کی ڈیل" نامی متنازعہ امریکی امن منصوبے کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ آج عالم اسلام ایک اہم مسئلے سے دوچار ہے، کیونکہ جھوٹ بولنے اور دھوکہ دینے والے امریکی صدر نے بھٹکتے پھرتے صیہونیوں کی مدد سے صیہونی و صلیبی مقاصد کی خاطر اسلامی سرزمینوں کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے بیچ ڈالنے کا خواب دیکھ رکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں پر مسلط کردہ صلیبی جنگیں 180 سال طولانی تھیں، جبکہ بالآخر یہ مسلمان ہی تھے، جو فتحیاب ہوئے۔
ایرانی سپریم لیڈر کے بین الاقوامی امور کے مشیر ڈاکٹر علی اکبر ولایتی نے کہا کہ جب پہلی جنگ عظیم کے بعد برطانوی فوجی بیت المقدس میں داخل ہوئے تھے تو انہوں نے صلیبی جنگ کے خاتمے کا اعلان کیا تھا، لیکن بش جونیئر نے صلیبی جنگ کے دوبارہ سے شروع کرنے کا اعلان کیا جبکہ یہ "صیہونی"، "جدید دور کے صلیبی جنگجوؤں" کے کٹھ پتلی ایجنٹ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ امریکی و صیہونی منصوبہ کبھی کامیاب نہیں ہوگا، کیا انہوں نے یہ سوچ رکھا ہے کہ جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد اب اسلامی مزاحمتی محاذ کمزور پڑ گیا ہے؟ لیکن وہ نہیں جانتے کہ ہمارے مکتب میں شہادت، تحریک کو زندہ کرنے کا باعث ہے۔
ایران کے سابق وزیر خارجہ علی اکبر ولایتی نے شام میں عوامی مزاحمتی فورسز اور مسلح افواج کے ذریعے ادلب کی آزادی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ دنیا بھر میں اسلامی مزاحمتی محاذ کی کامیابیاں یونہی جاری رہیں گی، جبکہ آج فلسطین کے اندر حاصل ہونے والا مسلم اتحاد بےمثال ہے۔ انہوں نے کہا کہ فلسطین کا آخری حل یہ ہے کہ وہاں فلسطینیوں کی مرضی کے مطابق ان کا سیاسی نظام تشکیل پائے اور بےگھر فلسطینی اپنے گھروں میں واپس پلٹ جائیں۔ ڈاکٹر علی اکبر ولایتی نے کہا کہ آج امریکہ اپنے زوال کی منزلیں تیزی کیساتھ طے کر رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ امریکی اپنے اندرونی مسائل سے توجہ ہٹانے کیلئے ایسے بےبنیاد اقدامات اٹھا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران اس حوالے سے خاموش تماشائی کا کردار ادا نہیں کرے گا اور باقی اسلامی ممالک کو بھی اپنے تعاون اور مشوروں کے ذریعے غفلت سے باہر نکالے گا جبکہ یہ امریکہ ہی ہوگا، جو آخرکار خطے کے ممالک کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہوگا۔
سپریم لیڈر کیلئے بین الاقوامی امور کے مشیر ڈاکٹر علی اکبر ولایتی نے امریکہ کی طرف سے صدی کی ڈیل کو منظر عام پر لانے کیلئے منعقد کی جانیوالی تقریب میں بعض عرب ممالک کی شرکت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس شرمناک تقریب میں شریک بعض عرب ممالک اس منصوبے کے عملدرآمد کی ضمانت نہیں لے سکتے، کیونکہ یہ کوئی پہلی بار نہیں کہ اس طرح کا بےبنیاد منصوبہ امریکہ کیطرف سے پیش کیا گیا ہو بلکہ امریکہ کیطرف سے کیمپ ڈیوڈ اور میڈرڈ معاہدوں سمیت متعدد بےبنیاد منصوبے پیش کئے گئے ہیں، جن کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا اور نہ کبھی نکلے گا۔ انہوں نے کہا کہ آج فلسطینی عوام بیدار اور فرنٹ لائن پر موجود ہیں، جبکہ متعدد دوسرے ممالک بھی ان کے حامی ہیں۔
ڈاکٹر علی اکبر ولایتی نے کہا کہ اس (صدی کی ڈیل کے) حوالے سے کھیلا جانیوالا کھیل درحقیقت ایک "میڈیا شو" ہے، جو اس خطے سمیت پوری دنیا میں ہونیوالی کھلی امریکی شکست کو چھپانے کیلئے رچایا جا رہا ہے تاہم امریکہ ایک طرف سے عراق میں جبکہ دوسری طرف سے شام میں بری طرح ناکام ہوا ہے اور اب اُسے خطے سے باہر نکلنا ہے۔ ڈاکٹر علی اکبر ولایتی نے کہا کہ امریکہ عراق میں باقی رہنے کیلئے ناکام کوششیں کر رہا ہے، کیونکہ عراقی پارلیمنٹ نے امریکی انخلاء کا حکم صادر کر دیا ہے، جس پر عراقی عوام نے بھی کثیر تعداد میں سڑکوں پر آکر اپنی مُہر ثبت کر دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی طرف سے اختیار کردہ موقف منطقی اصولوں پر استوار ہے، جو ہر آزاد انسان کو قبول ہے جبکہ ہمارا ایمان ہے کہ فلسطینی عوام اپنے گھروں کو واپس جائیں اور ریفرنڈم کے ذریعے اپنے لئے اپنی مرضی کا حکومتی نظام منتخب کریں۔
طالبان کا افغانستان میں امریکی فوج کے خلاف آپریشن جاری رہےگا
افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ طالبان کا افغانستان میں امریکی فوج کے خلاف آپریشن جاری رہےگا۔ ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ ہم امریکہ طیارے کو گرانے کے حوالے سے دقیق اطلاعات کسی کو فراہم نہیں کریں گے اور امریکہ کے خلاف مستقبل میں ایسے حملے جاری رہیں گے۔ طالبان کے ترجمان نے کہا کہ ہم افغانستان میں امریکی فوج کے خلاف آپریشن جاری رکھیں گے اور امریکی فوج کو افغانتسان سے نکلنے پر مجبور کریں گے۔ ذرائع کے مطابق امریکی فوجی طیارے میں 80 سے زائد امریکی اعلی فوجی افسر ہلاک ہوئے ہیں جن میں سی آئی اے کے اعلی اہلکار بھی شامل ہیں ۔ ہلاک ہونے والے امریکی افسروں میں شہید عماد مغنیہ اور شہید قاسم سلیمانی کو شہید کرنے والا ماسٹر مائند کمانڈر مائیک اندوریا بھی شامل ہے۔ لیکن امریکی حکومت نے ابھی تک اس کی ہلاکت کے بارے میں خاموشی اختیار کررکھی ہے۔
امریکہ نے ایران کے حملے میں اب 50 فوجیوں کے زخمی ہونے کا اعتراف کرلیا
امریکی وزارت دفاع پینٹاگون نے اب عراق میں امریکی فوجی اڈے پر ایرانی میزائل حملے میں 50 امریکی فوجی اہلکاروں کے زخمی ہونے اور دماغ فعل ہونے کا اعتراف کیا، اور ان میں سے اکثر تاحال زیر علاج ہیں۔ امریکی وزارت دفاع کے صدر دفتر پینٹاگون کے ترجمان لیفٹیننٹ کرنل تھامس کیمپبیل نے اپنے حالیہ بیان میں اعتراف کیا ہے کہ عراق میں عین الاسد فوجی اڈے پر ایران کے میزائل حملوں سے متاثر ہونے والے امریکی فوجیوں کی تعداد 50 ہوگئی ہے۔ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ ان اہلکاروں کو شدید دماغی چوٹیں آئی ہیں اور وہ سر درد، چکر آنا، متلی ہونا اور روشنی سے حساسیت کا شکار ہوگئے ہیں۔ جن میں سے اکثر زیرعلاج ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ 15 نئے مریض سامنے آئے ہیں۔ لیفٹیننٹ کرنل تھامس کیمپبیل نے بتایا کہ 18 امریکی فوجیوں کو علاج کے لیے جرمنی اور ایک کو کویت بھی بھیجا گیا جب کہ 31 اہلکاروں کا علاج عراق میں ہوا اور وہ ڈیوٹی پر واپس آگئے ہیں۔واضح رہے کہ 8 جنوری کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایرانی حملے پر پالیسی بیان میں امریکی فوجیوں کے زخمی یا ہلاک ہونے کی تردید کی تھی تاہم بعد میں پینٹاگون نے 31 اہلکاروں کے زخمی ہونے کا اعتراف کرلیا تھا۔
امریکی صدر نے سینچری ڈیل کی رونمائی کر دی
ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے بیان میں دعوی کیا کہ آج مشرق وسطی میں امن کی جانب ایک بڑا قدم اٹھایا گیا۔ انہوں نے اسی طرح دعوی کیا کہ صیہونی حکومت امن کے درپے ہے۔
امریکی صدر نے سینچری ڈیل کے نام سے مشہور امریکی- صیہونی نام نہاد منصوبے کے بارے میں کہا کہ لینڈن جانسن کے دور حکومت کے زمانے سے اب تک اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان امن کے لئے متعدد کوششیں ہوئی ہیں لیکن کامیابی حاصل نہیں ہوئی لیکن جو منصوبہ میں نے تیار کیا ہے وہ امن کا بہت ہی تفصیلی منصوبہ ہے جو 80 صفحات پر مشتمل ہے اور اس میں بہت زیادہ تفصیلات شامل ہیں۔
امریکی صدر نے دعوی کیا کہ امریکی-صیہونی امن منصوبے کی بنیاد پر امریکا، بیت المقدس کے تمام علاقوں کو اسرائیل کا حصہ سمجھے گا اور مقبوضہ جولان پر اس حکومت کے قبضے کو بھی باضابطہ قبول کرتا ہے۔
انہوں نے دعوی کیا کہ ہماری تجویز، دونوں فریق کی جیت جیت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل اور فلسطینی دونوں ہی امن کے خواہشمند ہیں۔ میں وزیر اعظم نتن یاہو کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے جرآتمندانہ طریقے سے یہ قدم اٹھایا۔
امریکی صدر نے دہشت گردانہ واقعے میں شہید قاسم سلیمانی اور ابومھدی کو مارنے کا زکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ اچھے کام نہیں کرتے تھے وہ اسرائیل سے نفرت کرتے اور آزادی قدس کے لییے جنگ کے خواہشمند تھے۔/
حضرت فاطمہ زہرا (س) ، پیغمبر اسلام اور حضرت خدیجہ کے اخلاق و صفات کا آئینہ
حضرت فاطمہ زھرا(س) جود و سخا اور اعلیٰ افکارمیں اپنی والدہ گرامی حضرت خدیجہ کی والا صفات کا واضح نمونہ اور ملکوتی صفات و اخلاق میں اپنے باپ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آئینہ دار تھیں۔ آپ کا نام فاطمہ اور مشہور لقب زہرا ، سیدۃ النساء العالمین ، راضیۃ ، مرضیۃ ، شافعۃ، صدیقہ ، طاھرہ ، ذکیہ،خیر النساء اور بتول ہیں۔ آپ کی مشہور کنیت ام الآئمۃ ، ام الحسنین، ام السبطین اور امِ ابیہا ہے۔ ان تمام کنیتوں میں سب سے زیادہ حیرت انگیز ام ابیھا ہے، یعنی اپنے باپ کی ماں ، یہ لقب اس بات کا مظہرہے کہ آپ اپنے والد بزرگوار کو بے حد چاہتی تھیں اور کمسنی کے باوجود اپنے بابا کی روحی اور معنوی پناہ گاہ تھیں ۔پیغمبر اسلام (ص) نے آپ کو ام ابیھا کا لقب اس لئے دیا ۔ کیونکہ عربی میں اس لفظ کے معنی، ماں کے علاوہ اصل اور مبداء کے بھی ہیں لہذااس لقب( ام ابیھا) کا ایک مطلب نبوت اور ولایت کی بنیاد اور مبدابھی ہے۔ کیونکر یہ آپ ہی کا وجود تھا، جس کی برکت سے شجرہ ٴ امامت اور ولایت نے رشد پایا ، جس نے نبوت کو نابودی اور نبی خدا کو ابتریت کے طعنہ سے نجات دلائی۔
پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آۂہ وسلم نے فرمایا: جس سے فاطمہ (س)راضی ہوں اس سے اللہ تعالی راضي ہوتا ہے اور جس سے فاطمہ ناراض ہوں اس سے اللہ تعالی ناراض ہوتا ہےسیدہ فاطمہ زہرا (س)کی فضیلت میں پیغمبر اسلام کی بیشمار حدیثیں وارد ہوئی ہیں ان میں سے اکثر حدیثیں علماء اسلام کے نزدیک متفقہ ہیں . جیسے "فاطمہ (س)بہشت میں جانے والی عورتوں کی سردار ہیں .ْ
فاطمہ ایما ن لانے والی عوتوں کی سردار ہیں " فاطمہ تما م جہانوں کی عورتوں کی سردار ہیں " . " فاطمہ(س) کی رضا سے الله راضی ہوتا ہے اور فاطمہ (س)کی ناراضگی سےاللہ ناراض ہوتا ہے " جس نے فاطمہ کو اذیت پہنچائی اس نے رسول (ص)کو اذیت پہنچائی.,جس نے رسول خدا کو اذیت پہنچائی اس نے خدا کو اذیت پہنچائی اور خدا کو اذیت پہنچانے والے کا ٹھکانہ جہنم ہے ۔
فاطمہ زہرا (س) پر پڑنے والی مصیبتیں
افسوس ہے کہ وہ فاطمہ(س) جن کی تعظیم کو رسول اسلام (ص)کھڑے ہوجاتے تھے اور رسول اسلام کی وفات کے بعد اہل زمانہ نے اپنارخ ان کی طرف سے پھیر لیااور ان پر طرح طرح کے ظلم و ستم ڈذانے لگے حضرت علی علیہ السّلام سے خلافت چھین لی گئ۔پھر آپ سے بیعت کا سوال بھی کیا جانے لگا اور صرف سوال ہی پر اکتفا نہیں بلکہ جبروتشدّد سے کام لیا جانے لگا. انتہا یہ کہ سیّدہ عالم کے گھر پر لکڑیاں جمع کردیں گئیں اور آگ لگائی جانے لگی . اس وقت آپ کو وہ جسمانی صدمہ پہنچا، جسے آپ برداشت نہ کر سکیں اور وہی آپ کی وفات کا سبب بنا۔ ان صدموں اور مصیبتوں کا اندازہ سیّدہ عالم کی زبان پر جاری ہونے والے ان کلمات سے لگایا جا سکتا ہے کہ
صُبَّت علیَّ مصائبُ لوانھّا صبّت علی الایّام صرن لیالیا
یعنی مجھ پر اتنی مصیبتیں پڑیں کہ اگر وہ دِنوں پر پڑتیں تو وہ رات میں تبدیل ہو جاتے۔
حضرت زہرا سلام اللہ علیھا کو جو جسمانی وروحانی صدمے پہنچے ان میں سے ایک، فدک کی جائداد کا چھن جانا بھی ہے جو رسول اسلام (ص) نے بی بی دوعالم کو مرحمت فرمائی تھی۔ جائیداد کا چلاجانا سیدہ کے لئے اتنا تکلیف دہ نہ تھا جتنا صدمہ اپ کو حکومت کی طرف سے آپ کے دعوے کو جھٹلانے کا ہوا. یہ وہ صدمہ تھا جس کا اثر سیّدہ کے دل میں مرتے دم تک باقی رہا اور آپ نے اپنے اوپر ظلم کرنے والوں کے ساتھ مرتے دم تک کلام نہیں کیا اور نہ ہی انھیں اپنے جنازے میں شرکت کرنے کی اجازت دی۔
فلسطینی صدر نے امریکی صدر ٹرمپ کے صدی معاملے کو مسترد کردیا
فلسطینی صدر محمود عباس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے صدی معاملے کو فلسطینیوں کے ساتھ بہت بڑی خیانت قراردیتے ہوئے مسترد کردیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق فلسطینی صدر محمود عباس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے لیے پیش کردہ امن منصوبے " صدی معاملے " کے رد عمل میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ فلسطینیوں کے حقوق پر کوئی سودے بازی نہیں ہو گی، یہ ڈیل سازش ہے جو کامیاب نہیں ہو گی اور ہم اس ڈیل کو ایک ہزار بار مسترد کرتے ہیں۔
فلسطینی صدر کا کہنا تھا کہ اگر مقبوضہ بیت المقدس فلسطینی ریاست کا دارالحکومت نہیں تو ہم اسے کیسے قبول کریں گے، امریکی صدر اور اسرائیلی وزیراعظم سے کہتا ہوں مقبوضہ بیت المقدس اور فلسطینوں کے حقوق برائے فروخت نہیں۔ انہوں نے عالمی برادری سے بھی اس منصوبے کو مسترد کرنے کا مطالبہ کیا۔
واضح رہے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں فلسطین اور اسرائیل امن منصوبے کا اعلان کیا جسے " ڈیل آف دی سینچری" کا نام دیا گیا اور اس میں ٹرمپ نے کہا کہ مقبوضہ بیت المقدس اسرائیل کا اٹوٹ دارالحکومت ہی رہے گا۔
صدی معاملہ ، اس صدی کی سب سے بڑی خیانت
اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان سید عباس موسوی نے صدی معاملے کو اس صدی کی سب سے بڑی خیانت قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ صدی معاملے میں فلسطینیوں کے حقوق کو نظر انداز اور اسرائیل کے حقوق کو مکمل تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ فلسطینی سرزمین فلسطینیوں کی ہے اور دنیائے اسلام فلسطینی سرزمین کے بارے میں کسی بھی معاملے کو قبول نہیں کرےگی۔ ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ اسرائیلی حکومت غاصب حکومت ہے اورغاصب حکومت کا خاتمہ کئۓ بغیر مسئلہ فلسطین کا حل ممکن نہیں ہے مسئلہ فلسطین کا بہترین راہ حل جمہوری ہےاور فلسطین کے اصلی باشندے ہی اسے حل کرسکتے ہیں۔ سید عباس موسوی نے صدی معاملے میں بعض اسلامی ممالک کی طرف سے امریکہ کی حمایت کرنے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بعض عرب اور اسلامی ممالک فلسطین اور بیت المقدس کا سودا کرکے اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ آشکارا خیانت کررہے ہیں جنھیں تاریخ کبھی معاف نہیں کرےگی۔
سعودی عرب اور امارات کا صدی معاملے کی مالی حمایت کا اعلان
یمن کی قبائلی کونسل نے ایک بیان میں فاش کیا ہے کہ سعودی عرب اورمتحدہ عرب امارات نے مسئلہ فلسطین کے بارے میں بڑے شیطان امریکہ کے صدی معاملے کی مکمل مالی حمایت کا اعلان کیا ہے۔
یمنی قبائلی کونسل نے کہا کہ یمنی عوام ، صدی معاملے کو سازشی معاملہ سمجھتے ہیں کیونکہ اس معاملے میں فلسطینی عوام کے حقوق کو نظر انداز اور اسرائیل کے حقوق کو تحفظ فراہم فراہم کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ صدی معاملے کا کل امریکی صدرٹرمپ نے ایک تقریب میں اعلان کیا اس تقریب میں بحرین، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور عمان کے سفراء بھی موجود تھے۔
عمودی یا افقی، انتخاب آپ کا
تحریر: محمد صرفی
مغربی ایشیا میں امریکی فوجی مداخلت کی تاریخ تقریباً 60 سال پہلے شروع ہوتی ہے۔ امریکہ کے 34 ویں صدر ڈوائٹ آئزن ہاور نے اپنے دوسرے صدارتی دورے میں نئی ڈاکٹرائن کا اعلان کیا جسے کانگریس میں بھی منظور کر لیا گیا۔ یہ نئی حکمت عملی جو "آئزن ہاور ڈاکٹرائن" کے نام سے معروف ہوئی دنیا کے مختلف حصوں میں امریکہ کی حامی حکومتوں کی پشت پناہی کیلئے فوجی طاقت کے استعمال پر مبنی تھی۔ البتہ اس سے پہلے سابق امریکی صدر ٹرومین کے دور میں امریکہ نے یورپ میں سابق سوویت یونین کے اثرورسوخ کو روکنے کیلئے وہاں فوجی موجودگی قائم کر رکھی تھی۔ آئزن ہاور کی جانب سے نئی ڈاکٹرائن کے اعلان کے بعد امریکہ نے سرکاری سطح پر 1958ء میں لبنان میں فوج بھیج دی اور یوں مغربی ایشیا میں امریکی فوجی موجودگی کا آغاز ہو گیا۔ لبنان میں فوج بھیجنے کیلئے امریکہ نے وہاں کی عیسائی حکومت کے تحفظ اور حمایت کا بہانہ بنایا۔ آئزن ہاور نے اس خطے میں امریکہ کی فوجی موجودگی کو "پینڈورا باکس" نام دیا تھا۔ آج تک پیش آنے والے حالات سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کی پیشن گوئی اور تجزیہ درست تھا۔
البتہ مغربی ایشیائی خطے میں امریکہ کی فوجی مداخلت کا سلسلہ آئزن ہاور ڈاکٹرائن کے سرکاری اعلان سے کافی عرصہ پہلے شروع ہو چکا تھا۔ 1953ء میں آئزن ہاور کے پہلے صدارتی دورے میں ایران میں عوامی مینڈیٹ کی حامل ڈاکٹر مصدق کی حکومت کے خلاف بغاوت درحقیقت امریکہ اور برطانیہ کی ملی بھگت سے انجام پائی۔ یہ اقدام تاریخ میں بیرونی مداخلت کا معروف ترین نمونہ جانا جاتا ہے۔ دوسری عالمی جنگ سے لے کر آج تک امریکہ نے مغربی ایشیا خطے میں تقریباً 25 مرتبہ فوجی اور سکیورٹی مداخلت انجام دی ہے۔ یعنی تقریباً ہر تین برس میں ایک بار مداخلت کی ہے۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ امریکہ کی مداخلت نہ صرف کم نہیں ہوئی بلکہ اس کا دائرہ وسیع سے وسیع تر، شدید تر اور زیادہ مالی اور جانی نقصان کے ہمراہ ہوتا چلا گیا ہے۔ نائن الیون واقعے کے بہانے افغانستان اور پھر عراق پر فوجی قبضہ فوجی مداخلت پر مبنی ان اقدامات میں سے واضح ترین مصداق ہیں۔ اکثر سیاسی ماہرین حتی امریکی تجزیہ کاروں نے انہیں "نہ ختم ہونے والی جنگوں" کا نام دیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مغربی ایشیا خطے میں امریکہ کی تمام تر فوجی مداخلتیں ڈکٹیٹر اور آمر حکمرانوں سے مقابلے کے عنوان سے انجام پائی ہیں۔
امریکی حکمرانوں نے ہمیشہ ہر جنگ شروع کرنے سے پہلے روشن مستقبل، ملک کی تقدیر عوام کے سپرد کرنے، ظلم و ستم کا شکار عوام کو آزادی اور انصاف فراہم کرنے جیسے کھوکھلے وعدوں کا سہارا لیا ہے۔ لیکن ہمیشہ امریکہ کی فوجی جارحیتوں کا نتیجہ اس ملک میں بدامنی اور انارکی میں اضافے، عام شہریوں کے قتل عام، دہشت گرد گروہوں کے فروغ اور شدت پسندی میں اضافے کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔ وہی عوام جنہیں آزادی اور انصاف دلوانے کے وعدے کئے گئے تھے بے دردی سے قتل عام کا شکار ہوئے ہیں۔ یہ گولوں اور بموں کے ذریعے امریکی جمہوریت کے فروغ کا نتیجہ ہے۔ گذشتہ دو عشروں سے امریکہ کے تھنک ٹینکس اور میڈیا نے فوجی جارحیت کے بعد عوامی نظام حکومت تشکیل پانے پر مبنی امریکی حکمرانوں کے نظریے کی توجیہات پیش کرتے ہوئے اس کی نظریاتی بنیادیں فراہم کی ہیں۔ افغانستان اور عراق میں امریکہ کے فوجی اقدامات نے واضح طور پر ثابت کر دیا ہے کہ یہ نعرے، وعدے اور نظریے محض فریب اور دھوکہ تھے اور خالص حماقت تھی۔ بمباری اور تباہی پھیلانے کے ذریعے آزاد قوم اور ریاست کا قیام ایک سفید جھوٹ ہے۔
اب تک امریکہ کی ان تمام جنگوں کے اخراجات وہ بڑی بڑی اسلحہ ساز کمپنیاں ادا کرتی آئی ہیں جن کی بقا اور منفعت انہی جنگوں پر منحصر تھی۔ یہ کمپنیاں درحقیقت موت کی سوداگر ہیں۔ مغربی ایشیا خطے میں بدامنی اور سکیورٹی بحران ایک طرف امریکہ کی مختلف کمپنیوں کے حصص میں گراوٹ کا باعث بنا ہے جبکہ دوسری طرف بڑی بڑی امریکی اسلحہ ساز کمپنیوں کے حصص چوٹی پر جا پہنچے ہیں۔ ان کمپنیوں میں نارتروپ گرومین، لاک ہیڈ مارٹن، ایل تھری ہیریس ٹیکنالوجیز، ریتھیون، ہنٹنگٹن انگلز، ٹرانس ڈائم گروپ اور جنرل ڈائنامیکس کا نام قابل ذکر ہے۔ فوجی صنعتی کمپلکسز کی جانب سے ڈونلڈ ٹرمپ کی الیکشن مہم کے اخراجات فراہم کرنا بھی ایک انتہائی دلچسپ اور تفصیلی ٹاپک ہے جس کیلئے علیحدہ تحریر کی ضرورت ہے۔ مذکورہ بالا سات امریکی اسلحہ ساز کمپنیاں 400 ارب ڈالر کے اثاثے رکھتی ہیں اور پینٹاگون کی شراکت سے خلیج عرب ریاستوں اور دیگر ممالک کو اسلحہ سپلائی کرنے والی سب سے بڑی کمپنیاں شمار ہوتی ہیں۔ میزائل، جنگی طیارے، ریڈار وغیرہ موت کی سوداگر ان کمپنیوں کی تازہ ترین مصنوعات شمار کی جاتی ہیں۔ اسلحہ کی ساخت اور فروخت کیلئے ایک مفروضہ اور نقلی دشمن کا ہونا ضروری ہے۔
اگر دشمن نہ ہو تو خطے میں موجود دودھ دینے والی گائیوں کو کیسے دوہا جائے؟ خطے میں اپنے فوجی اڈوں کے خاتمے اور فوجی موجودگی ختم کرنے سے متعلق پائی جانے والی رائے عاملہ کے سامنے امریکی حکمرانوں کی مزاحمت درحقیقت انہی وجوہات کی بنا پر ہے۔ امریکی حکام یہ دعوی کرتے نظر آتے ہیں کہ وہ عراقی قوم اور حکومت کی حفاظت کیلئے اس ملک میں موجود ہیں۔ لیکن اب جب عراقی حکومت اور عوام دونوں نے امریکہ سے فوجی انخلا کا بھرپور مطالبہ کر دیا ہے تو امریکی حکمران انتہائی بے شرمی سے یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ وہ عراق چھوڑ کر نہیں جائیں گے۔ جمعہ 24 جنوری کے دن عراق میں امریکی فوجی انخلا کا بل منظور کرنے پر پارلیمنٹ کی حمایت میں ملین مارچ کا انعقاد ہوا۔ یہ ملین مارچ درحقیقت ملک سے امریکہ کے فوجی انخلا کے بارے میں ایک عوامی ریفرنڈم تھا۔ عراقی عوام امریکہ کو نہ صرف نجات دہندہ تصور نہیں کرتے بلکہ اس سے شدید نفرت رکھتے ہیں۔ یہ ملین مارچ دہشت گرد امریکی فوج کو عراقی عوام کی اتمام حجت تھی۔ عراقی عوام ابھی ابوغریب جیل میں امریکی فوجیوں کے غیر انسانی اور مجرمانہ اقدامات کو نہیں بھولے۔
امریکہ جو اس بات کا دعویدار تھا کہ وہ عراقیوں کی درخواست پر اس ملک میں آیا ہے گذشتہ چند ہفتوں سے انتہائی گستاکی اور بدمعاشی سے عراقی پارلیمنٹ اور عوام کے سامنے ڈٹ کر کہہ رہا ہے کہ عراق سے باہر نہیں نکلے گا۔ عراقی قوم اور حکومت کے اس قانونی اور برحق مطالبے کے مقابلے میں امریکی حکمرانوں کا کہنا ہے کہ اگر وہ عراق سے باہر نکلتے ہیں تو داعش دوبارہ سرگرم عمل ہو جائے گی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ عراق میں داعش کا بیج خود امریکہ نے بویا تھا اور جب تک امریکہ شام اور عراق میں موجود ہے اس وقت تک داعش مکمل طور پر نابود نہیں ہو گی۔ داعش درحقیقت امریکہ کی جانب سے اپنی فوجی موجودگی کا جواز فراہم کرنے کیلئے ایک شیطانی ہتھکنڈہ ہے۔ جمعہ 24 جنوری کے روز امریکہ کے خلاف عراقی عوام کا ملین مارچ ایک قومی ریفرنڈم تھا اور اس کا نتیجہ تمام دنیا والوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ اس بھرپور عوامی ریفرنڈم کے بعد عراق میں امریکہ کی فوجی موجودگی ایک نیا معنی و مفہوم رکھتی ہے۔ اب یہ فوجی موجودگی قبضے، غصب اور استعمار کے زمرے میں آتا ہے۔ امریکی حکمرانوں کیلئے عراقی عوام کا یہ واضح پیغام تھا کہ تمہیں عراق سے نکلنا ہو گا اور عمودی جانا ہے یا افقی یہ انتخاب آپ کا ہے۔
جب تک عراق میں امریکی موجودگی باقی رہے گی اس ملک میں سکون اور امن و امان پیدا نہیں ہو سکتا۔ امریکہ اس قدر گستاخ ہو گیا ہے کہ عراق میں ایران اور عراق کے دو اعلی سطحی فوجی کمانڈروں کی ٹارگٹ کلنگ کر چکا ہے۔ امریکہ کا یہ اقدام ظاہر کرتا ہے کہ اس کی نظر میں عراق کی خودمختاری اور خود اردیت ذرہ برابر اہمیت نہیں رکھتی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عراقی عوام میں حالیہ بیداری کی لہر شہید قاسم سلیمانی اور شہید ابو مہدی المہندس کے پاکیزہ خون کی برکت سے ہے۔ ان پاکیزہ اور متقی افراد کا خون دنیا کے شقی ترین اور ظالم ترین شخص کے ہاتھوں بہایا گیا ہے۔ ایران اور عراق کے ان دو اعلی سطحی فوجی کمانڈروں کی ایک جگہ شہادت نے ایرانی اور عراقی قوموں کے درمیان ایک اٹوٹ اور گہرا تعلق قائم کر دیا ہے اور اب یہ نعرہ سننے میں آ رہا ہے کہ "ایران و العراق لا یمکن الفراق"۔ عراق کے ملین مارچ میں لگنے والا یہ نعرہ امریکی حکمرانوں کو عراقی عوام کا واضح پیغام ہے۔ اگر امریکی حکمران اس واضح پیغام کو نہیں سنتے تو یقیناً اس کے نتیجے میں ایک نئی صورتحال پیدا ہو گی۔ اس وقت گیند ٹرمپ کے کورٹ میں ہے اور اسے یہ حتمی فیصلہ کرنا ہے کہ عراقی عوام کا یہ پیغام سننا ہے یا کسی دوسری زبان میں ردعمل سے روبرو ہونا ہے۔