سلیمانی

سلیمانی

اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے ایرانی دارالحکومت تہران میں جمعے کی نماز کے پرشکوہ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے شہید جنرل قاسم سلیمانی، ابومھدی المھندس اور انکے ساتھی شہداء کے تشیعِ جنازہ کے دن جس میں لوگوں نے معجزہ آسا انداز میں شرکت کی اور سپاہ پاسداران ایران کیطرف سے امریکی فوجی اڈے پر جوابی کارروائی کے دن کو دو "ایام اللہ" قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایرانی قوم نے میدان میں اپنی اس حاضری کے ذریعے اپنے روشن ضمیر یعنی شیاطین کے مقابلے میں مزاحمت اختیار کرنے کا بھرپور مظاہرہ کیا ہے جبکہ اس عزت آفرین رَستے کے جاری رکھے جانے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ خود کو طاقتور بنانا ہے۔

آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے خطبے کا آغاز اللہ تعالی کیطرف سے حضرت موسی علیہ السلام کو "ایام اللہ" کی یاددہانی پر مبنی سورۂ ابراہیمؑ کی آیات سے کیا اور کہا کہ صابر لوگ وہ ہیں جو صبرواستقامت کے پیکر ہیں اور کسی طور بھی میدان سے خارج نہیں ہوتے جبکہ شاکر وہ ہیں جو اللہ تعالی کی کھلی اور پوشیدہ نعمتوں کی قدر کرتے اور ان کے جواب میں اپنی ذمہ داری کا پورا احساس کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ "ایام اللہ" یعنی جس واقعے میں الہی قدرت کی جھلک ہو، لہذا سپاہِ پاسداران کے کمانڈر کا خون طلب کرنیکی خاطر ایران میں ملین ھا جبکہ عراق اور دوسرے ممالک میں لاکھوں لوگوں کا سڑکوں پر آ جانا اور شہداء کے اجساد کو دنیا کے سب سے بڑے اور بیمثال وداعی اجتماع میں رخصت کرنا ایام اللہ کی مثالوں میں سے ہے کیونکہ اس عظمت کیلئے الہی قدرت کے سوا کوئی اور محرک موجود نہیں تھا۔ انہوں نے امریکی فوجی اڈے پر سپاہ پاسداران کیطرف سے میزائلوں کی بارش کو بھی ایام اللہ کی ایک مثال قرار دیتے ہوئے کہا کہ کسی قوم کا ایسی جرأت اور روحانی طاقت کیساتھ ایک عالمی متکبر اور بدمعاش قوت کے منہ پر زوردار طمانچہ رسید کرنا الہی دستِ قدرت کو ظاہر کرتا ہے لہذا وہ دن بھی ایام اللہ میں سے ایک ہے۔

ایران کے سپریم لیڈر اور مسلح افواج کے چیف کمانڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے نمازِ جمعہ کے اپنے خطبے میں کہا کہ ان مجاہدین کے تشیع جنازہ کے علاوہ خود انکی شہادت بھی الہی آیات میں سے ایک ہے کیونکہ شہید قاسم سلیمانی کی شہادت  پورے خطے میں دہشتگردی کیخلاف جنگ کے مشہور اور طاقتور ترین کمانڈر کی شہادت ہے جو کہ اس بےآبرو امریکی حکومت کی مزید رسوائی کا سبب بنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکی اس بہادر مجاہد کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنانے کیلئے اسکے سامنے میدان میں نہیں آئے بلکہ انہوں نے چوری چھپے اور بزدلانہ طریقے سے یہ جرم انجام دیا ہے جو انکی کہیں زیادہ رُسوائی کا سبب بنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے قبل عراق اور افغانستان میں بھی امریکیوں نے بیشمار جرائم انجام دیئے ہیں اور بےانتہاء قتل و غارت کی ہے لیکن اس دفعہ خود امریکی صدر نے اپنی زبان سے کہہ دیا کہ "ہم دہشتگرد ہیں" جس سے بڑھ کر کوئی اور بدنامی ممکن نہیں۔

آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے امریکی اور برطانوی حکام کیطرف سے ایران کے اندرونی معاملات میں مداخلت اور اس کے نتیجے میں چند روز قبل ہونے والے ہنگاموں کیطرف اشارہ کیا جس میں برطانوی سفیر کے ہمراہ چند لوگوں نے تہران کی ایک یونیورسٹی کے سامنے شہید قاسم سلیمانی کی تصاویر نذر آتش کی تھیں، اور کہا کہ کیا وہ چند لوگ جنہوں نے ہمارے اس باافتخار اور عظیم سپہ سالار کی تصاویر کی بےحرمتی کی تھی، ایران کی عوام ہیں اور یہ عظیم جمعیت ایران کے عوام نہیں جو شہید قاسم سلیمانی کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے سڑکوں پر نکلے ہوئے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ امریکی کبھی ایرانی قوم کیساتھ کھڑے نہیں ہوئے مگر صرف اور صرف ایرانیوں کے سینے میں زہرآلود خنجر گھونپنے کیلئے تاہم تاحال وہ اس کام میں کامیاب نہیں ہو پائے اور نہ ہی وہ اس کے بعد کوئی اور غلطی کر پائیں گے! انہوں نے کہا کہ انتقام کی فریاد ایران کے گوش و کنار سے اٹھی تھی اور دراصل وہی اُن میزائلوں کا ایندھن تھی جنہوں نے امریکی فوجی اڈے کو تہس نہس کر دیا۔ انہوں نے یورپی حکمرانوں کے بے اعتماد ہونے اور انکے ساتھ مذاکرات کے بےفائدہ ہونے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ جنٹلمین جو مذاکرات کی میز پر بیٹھتے ہیں، دراصل بغداد کی ایئرپورٹ کے دہشتگرد ہیں جنہوں نے اپنا حلیہ بدل رکھا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے سپاہِ پاسداران کیطرف سے امریکیوں کو ابتدائی جواب کے دیئے جانے کو ظالم اور متکبر امریکی حکومت کے رُعب و دَبدبے کو مٹی میں ملا دینے کے مترادف قرار دیتے ہوئے کہا کہ دراصل اُنکی اصلی سزا خطے سے اُنہیں نکال باہر کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دشمن نے اندھے پیسے، غیرذمہ دار لوگوں اور شیطانی پراپیگنڈے کے ذریعے ایران اور عراق کی عظیم قوموں کو ایکدوسرے سے بدگمان کرنے کی پوری کوشش کی تھی لیکن اس عظیم شہادت نے انکی تمامتر شیطانی سازشوں اور وسوسوں کو ناکام بنا دیا۔ انہوں نے کہا کہ جب بھی ان شیطانی قوتوں کو عوامی تحریکوں کے وجہ سے مجبور ہو کر کسی ملک سے نکلنا پڑا تو انہوں نے اپنی پوری طاقت اس ملک کیخلاف سازشوں، جاسوسی اور سیاسی و اقتصادی قبضے میں صَرف کر دی جبکہ یہی وہ قوتیں ہیں جنہوں نے مغربی ایشیائی ممالک کے درمیان اس خطے کے قلب میں ایک ایسا صیہونی ناسور بھی بنایا ہے جو تمامتر ممالک کیلئے ایک مستقل خطرہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ دشمن کا میڈیا ایران پر پراکسی وار کا الزام عائد کرتا ہے درحالیکہ یہ ایک سفید جھوٹ ہے اور خطے کی قومیں اب بیدار ہو چکی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خطے کا روشن مستقبل، امریکی قبضے سے اسکی آزادی اور صیہونی حکمرانی سے فلسطین کی آزادی میں مضمر ہے جو انہی قوموں کی ہمت سے عنقریب حاصل ہو جائیگا۔

آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے عالم اسلام سے تفرقہ اور اختلاف کے اسباب کو ختم کرنے پر زور دیتے ہوئے "جدید اسلامی طرز زندگی میں مسائل کے حل کیلئے علمائے دین کے اتحاد"، "علم و ٹیکنالوجی کی پیشرفت اور جدید اسلامی تمدن کی بنیادیں ڈالنے کیلئے اسلامی یونیورسٹیز کے باہمی تعاون"، "عوامی تمدن کی اصلاح کیلئے اسلامی میڈیا کی باہمی ہم آہنگی"، "خطے سے جنگ اور جارحیت کو دور کرنے کیلئے خطے کی اسلامی مسلح افواج کے درمیان نزدیکی رابطے"، "خطے کے اسلامی ممالک کی معیشت کو غارتگر اور لٹیری کمپنیوں کے قبضے سے باہر نکالنے کیلئے اسلامی منڈیوں کے آپسی رابطے" اور "خطے کی مسلمان عوام کی آپسی آمد و رفت، ایکدوسرے کی زبان سمجھنے، ہمدردی، اتحاد اور دوستی میں اضافے" کو مسلمانوں کے درمیان سے تفرقہ ختم کرنے اور انکے درمیان اتحاد و اتفاق کو رائج کرنے کے اسباب قرار دیا اور انکے حصول پر زور دیا۔

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے حشد الشعبی کے ڈپٹی کمانڈر ابومھدی المھندس اور سپاہ پاسداران کے عظیم سپہ سالار جنرل قاسم سلیمانی کی علی الاعلان ٹارگٹ کلنگ کو عراقی سرزمین پر امریکہ کا عظیم ترین فتنہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ عراق کے اندر اپنے پلید مقاصد کے حصول کیلئے وہاں فتنہ، خانہ جنگی اور بالآخر عراق کو تقسیم کر کے وہاں موجود مومن، جانثار، مجاہد اور وطن دوست افواج کو ختم کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے امریکی انخلاء کے بارے میں عراقی پارلیمنٹ کے حکم کے سامنے امریکیوں کے گستاخانہ اظہارات کو امریکی فتنہ انگیزیوں کی ایک اور مثال قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ جو خود کو جمہوریت کا حامی ظاہر کرتے تھے، آج اپنی تمامتر مکاریوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے کھلم کھلا کہتے ہیں کہ وہ عراق سے نکلنے کو تیار نہیں۔ انہوں نے تمامتر مسلمان اقوام کو مخاطب کر کے زور دیتے ہوئے کہا کہ اسلامی دنیا کو اب تاریخ کا نیا صفحہ پلٹنا ہے اور تمامتر اقوام کے اندر زندہ ضمیر، مومن قلب اور خوداعتمادی کو جگانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سب کو یہ جان لینا چاہئے کہ اقوام کی نجات کا واحد راستہ تدبیر، مزاحمت اور دشمن سے نہ ڈرنا ہے۔

تحریر: ساجد علی گوندل


اقتدار کا نشہ بھی عجیب نشہ ہے۔ انسان کو اس قدر مست کر دیتا ہے کہ وہ بھول جاتا ہے کہ وہ کون ہے اور کیا ہے۔ اس کی مستی نے انسان سے ’’انا ربکم الاعلیٰ‘‘ تک کا دعویٰ کروایا۔۔۔۔ کبھی قتل کروائے۔۔۔ تو کبھی بھری و آباد بستیوں کو ویران بنایا۔۔۔ حتیٰ بھائی نے بھائی کا خون پیا۔ یہ ایک ایسی مستی ہے کہ جس کے سامنے ماں، باپ، بھائی، بہن جیسے رشتوں کے کوئی معنی نہیں۔۔۔ یہ نشہ بس خون اور ویرانی کا طلبگار ہے اور اگر اس کے ساتھ مال و دولت کا درخت بھی رُشد کرنے لگے۔۔۔ کہ جو کبھی پھل دار نہیں ہوتا اور ہمیشہ پیاسہ ہی رہتا ہے۔۔۔ تو انسان کے اندر بغاوت اور سرکشی کا عنصر پنپنے لگتا ہے۔ خوش قسمتی سے اگر کوئی ان دونوں کے چنگل سے بچ نکلے تو تمدن سے کوسوں دور دراز صحراوں کی طرف سے ۔ خرقہ پہنے۔۔۔ درویشانہ انداز میں کوئی ظاہر ہوتا ہے کہ جس کے باطل تفکرات کی ڈوریاں۔۔۔ تجسمِ حق کو لمس کرتے ہوئے پھر باطل کی طرف مڑ جاتی ہیں، کہ جن کی حقیقت بالکل ویسی ہی ہوتی ہے، جیسے دور سے نظر آنے والے صحرائی منظر میں پانی کی حقیقت۔

وہ اپنے نرم و ملائم اور تظاہرانہ صداقت پر مبنی بیانات سے معاشرے کو علم کے قالب میں جہالت بیچتا ہے اور اس کے غلیظ خطابات کی گرد فضاء کو اس قدر آلودہ کرتی ہے کہ نہ تو لوگ اس میں اپنی آنکھیں کھول پاتے ہیں اور نہ ہی درست سمت میں قدم بڑھا سکتے ہیں۔ درحقیقت معاشرہ اس مرحلے میں پہنچ جاتا ہے کہ ’’وہ نہیں جانتا‘‘ کہ جسے علمِ لاجیک میں جہل مرکب کہا جاتا ہے اور نتیجتاً بند آنکھوں سے چلتے چلتے وہ کسی گہری کھائی میں جا گرتے ہیں۔ لہذا جب معاشرے میں فرعون و آل فرعون جیسے افراد، قدرت و اقتدار کے نشے میں مست ہوں۔۔۔ قارون اور اس کے حواری جب دولت و ثروت کے بل بوتے پر علم بغاوت بلند کر لیں۔۔۔ اور پھر معاشرے میں کچھ بچی کچھی انسانی اقدار کو سامری جیسے افراد پامال کر دیں، تو خدا کو موسیٰؑ جیسے نبی کو بھیجنا پڑتا ہے، تاکہ وہ ان کو شرافت کا درس دے اور بہتے دریا میں سے راستہ بنا کر ان کو ذلت کے پانیوں سے عزت کے ساحل تک لے جائے۔

کہا موسیٰؑ ’’ان ائت القوم الظالمین۔۔۔ قوم َفرعون‘‘[1] آل فرعون کی طرف جاؤ۔۔۔ وہ سرکش ہوچکی ہے۔۔۔ اور کیا بنی اسرائیل کی آہ و بقاء تم تک نہیں پہنچ رہی۔۔۔ کہ آل فرعون ’’یذبحون ابنائھم و یستحیون نسائھم‘‘ وہ ان کے بچوں کو ذبح کر رہے ہیں۔۔۔ ان کی بیٹیوں کی عزتیں محفوظ نہیں۔۔۔ فرمایا جاؤ۔۔۔ فرعون و قارون کی جانب۔۔۔ ’’استکبروا و کانوا قوما مجرمین‘‘[2] انہوں نے کبریائی کا دعویٰ کیا ہے۔۔۔ لہذا جاؤ۔۔۔ اور ان کے جھوٹے دعوے کو سر سے پکڑ کر زمین پر دے مارو۔۔۔ اور اس کا سر پھوڑ دو۔۔۔۔ لہٰذا جب بھی قوموں پر ایسا وقت آتا ہے۔۔۔ تو ایک موسیٰ کی ضرورت پڑتی ہے کہ جو مجسمہ کبر کو پکڑ کر سر کے بل زمین میں گاڑ دے۔ سوال یہاں ہے کہ کیا آج اس امت کو موسیٰ کی ضرورت نہ تھی۔۔۔؟ کیا آج کل ِاستعمار، امریکہ اور اس کے حواری، نمادِ قدرت و اقتدار نہیں ہیں۔۔۔؟ کیا انہوں نے کبر و بڑائی اور سپرپاور ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔۔؟

کیا آج اسرائیل اور اس کے کارندے نمادِ دولت و ثروت نہیں۔۔۔؟ کہ جو ناجائز طور پر زمین کے ایک ٹکڑے کی خاطر کب سے خون بہیں۔ ا رہے ہکیا آج طالبان، النصرہ، داعش اور کچھ عرب ممالک کہ جو اپنی مکاریوں کو چھپانے کے لئے اسلام کی چادر اڑھے ہوئے ہیں۔۔۔۔ سامری کی طرح آج بھی فریب و مکر کا واضع نمونہ نہیں ہیں۔۔۔؟۔۔۔۔ ہاں جنرل قاسم سلیمانی وہ موسیٰ زماں ہیں کہ جس نے آج کے فرعون (امریکہ) کے تکبر کو خاک میں ملا دیا اور زمانے کے قارون نما اسرائیل کی خون آلودہ دولت کا حقیقی چہرہ لوگوں پر عیاں کیا۔ آج کے سامری کردار طالبان، داعش اور اسلام کے جھوٹے دعویداروں کے خلاف عملی میدان میں۔۔۔ ان کے بنائے ہوئے گوسالے کو آگ لگا کر اس کی راکھ  کو دریا میں بہا دیا۔

یاد رہے ایک حق موسیٰ کا تھا کہ جو اس نے ادا کر دیا اور ایک حق بنی اسرائیل کے ذمے ہے۔۔۔ کہ وہ میدان نہ چھوڑے۔۔۔۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمیں موسیٰ زماں مبارزے کے لئے پکارے تو ہم یہ کہتے ہوئے نظر آئیں کہ۔۔۔ موسیٰ ۔۔’’ان فیھا قوما جبارین و انا لن ندخلھا حتی یخرجوا منھا‘‘[3] وہ کہاں اور ہم کہاں۔۔۔ وہ امریکہ ہے، اس کے پاس جدید ٹیکنالوجی ہے۔۔۔۔ وہ سپرپاور ہے۔۔۔ ہم اس سے نہیں لڑ سکتے۔۔۔۔ ہاں تم جاؤ لڑو، ہم بس بیٹھ کر تبصرے کریں گے۔۔۔۔ ہاں اگر وہ خود ہم پر عنایت کر دیں تو ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے۔۔۔۔ اور ہمیں اس سے بھی کوئی غرض نہیں کہ آج کا فرعون یمن، شام، فلسطین و کشمیر میں ہماری بیٹیوں کی عزتوں سے کھیل رہا ہے۔۔۔۔ کیونکہ وہ ہمارا مسئلہ نہیں ہے۔۔۔ وہ تو شام کا مسئلہ ہے۔۔۔ وہ فلسطین و کشمیر کا مسئلہ ہے اور ہمارا اس سے بھی کوئی تعلق و واسطہ نہیں ہے کہ کل کے فرعون کی طرح آج کا فرعون بھی ہمارے بچوں کو زندہ درگور کر رہا ہے۔۔۔ گلے کاٹ رہا ہے۔۔۔ جسموں کے ٹکڑے کر رہا ہے۔۔۔ اور جو بچ گے ہیں، ان کو ایسے تعلیمی نظام کی نذر کر دیا کہ جس نے ان کو زندہ لاشوں میں تبدیل کر دیا ہے۔ بقول شاعر
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی

شاید آج بھی ہم وہی بنی اسرائیل ہیں کہ جنہوں نے کہا کہ اے موسیٰؑ ہم میں ان سے لڑنے کی طاقت نہیں۔۔۔ مگر ہم بھول گے کہ موسیٰؑ کون ہے۔۔ وہ کہ جس پر ایمان ہو تو دریا رستہ دیتے ہیں اور اگر صرف اپنی طاقت پر گھمنڈ ہو تو وہی دریا اس طاقت و گھمنڈ کو عبرت کا نشاں بنا دیتے ہیں اور یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ آج کے فرعون کا غرور بھی جنرل قاسم سلیمانی کے خون میں دفن ہوگیا۔ جب موسیٰؑ کے اژدھا نے جادوگروں کے بنائے ہوئے سانپوں کو نگل لیا۔۔۔ تو سب سجدے میں گر گئے اور کہا کہ ہم موسیٰؑ و ہارونؑ کے رب پر ایمان لاتے ہیں۔ جیسے ہی فرعون نے یہ سنا تو کہا کہ میں مخالف سمت سے تمہارے ہاتھ اور پاوں کٹوا دونگا۔۔۔کہا۔۔۔’’ لا ضَیرَ (لنا)‘‘[4] ہم اس سے نہیں ڈرتے۔۔۔ حق ہم پر نمایاں ہوچکا ہے۔۔۔۔ ہم موسیٰؑ کو نہیں چھوڑنے والے۔ تو کیا آج امت مسلمہ پر حق واضح نہیں ہوا۔۔۔؟ کیا اس خون کے بعد بھی کوئی حجت باقی ہے۔۔۔؟  کیوں آج بھی ہم میں بہت سارے افراد ایسے ہیں کہ جو زمانے کے فرعون امریکہ کی اس کھوکھلی دھمکی ’’لاصلبنکم فی جذوع النخل‘‘[5] سے سہم ہوئے ہیں۔

کیا ان کو اصحاب فیل کا واقع یاد نہیں۔۔؟ یا پھر کل کے آل قارون کی طرح وقت کے قارون یعنی اسرائیل اور اس کے حواریوں کے ناپاک مال سے بنایا گیا سامری کا گوسالہ۔۔۔ لوگوں کے ضمیروں کو سلائے ہوئےہے۔۔؟ بقول قرآن ۔۔۔’’من زینۃالقوم‘‘[6] یعنی وہ گوسالہ آل قارون کے مال سے بنایا گیا تھا۔ یہ بات تو مسلم ہے کہ فرعون ہو، قارون ہو یا مکار سامری، کبریائی کی ردا فقط خدا کے لیے ہے۔۔۔ لہذا ایران کا عین الاسد ائیر بیس پر حملہ کرکے امریکہ کے غرور کو خاک میں ملانا، عیناً قرآنی لب و لہجہ ہے۔۔۔ اور یہ بھی یاد رہے کہ ماضی میں جیسے قارون اپنے مال و اسباب سمیت زمین میں دھنس گیا۔۔۔۔ اسی طرح عنقریب اسرائیل بھی اپنے حواریوں سمیت عبرت کا نشان بنے گا اور آخر میں یہ کہ جیسے موسیٰ ایک شخص نہیں بلکہ ایک شخصیت کا نام ہے۔۔۔ بالکل اسی طرح قاسم سلیمانی بھی ایک شخص نہیں بلکہ ایک مشن کا نام ہے اور وہ مشن یہ ہے کہ اب امت مسلمہ کو اپنے اختلافات بھلانے ہوں گے۔۔۔۔ اتحاد کے دامن کو تھام کر آگے بڑھنا ہوگا۔۔۔۔ دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنی ہوگی اور دشمن کو بتانا ہوگا کہ ہماری قوم کا ہر جوان کل کا موسیٰ اور آج کا قاسم سلیمانی ہے کہ جو فرعون، قارون اور سامری جیسے کرداروں سے لڑنے کا  بھرپور جذبہ رکھتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1]۔ شعرائ ۱۱
[2]۔ یونس ۷۵
[3]۔ مائدہ ۲۲
[4]۔ شعرائ ۵۰
[5]۔ طہ ۷۱
[6]۔ طہ ۸۷

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ نے دارالحکومت تہران میں نماز جمعہ کے خطبوں میں ایام اللہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: جس دن سپاہ اسلام کی طرف سے امریکی ايئر بیس پر میزائل داغے گئے وہ دن بھی یوم اللہ ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تقوی کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: تقوی میں نصرت الہی ہے ، تقوی میں ہدایت الہی ہے ، سماجی، سیاسی اور اقتصادی مشکلات کا حل تقوی میں ہے۔

ایام اللہ کی اہمیت قرآن مجید میں بیان کی گئی ہے۔، حضرت موسی کو حکم دیا گیا کہ وہ ایام اللہ کو عوام کے سامنے بیان کریں۔وہ دن بھی ایام اللہ میں ہے جس دن لوگ ظالم اور ستمگر طاقتوں سے نجات پائیں۔

‍گذشتہ دو ہفتہ مجھر پر سخت گزرے ہیں، جس دن عراق، ایران اور دیگر ممالک میں کئی ملین افراد نے سپاہ اسلام کے مجاہد عظيم کمانڈر کو الوداع کیا وہ دن بھی ایام اللہ میں شامل ہے۔ جس دن ایرانی میزائل عراق میں امریکی ايئر بیس پر داغے گئے وہ دن بھی یوم اللہ ہے۔

یہ دن تاریخ ساز دن ہیں یہ عام دن نہیں ان دنوں کی تاثیر لوگوں کے دلوں ميں باقی رہےگی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ایرانی قوم کی کامیابیوں میں اللہ تعالی کا ہاتھ ہے اور اللہ تعالی ہی ایرانی قوم کا حامی اور مدد گار ہے۔ ایرانی قوم بھی اللہ تعالی کی نعمتوں کی قدرداں ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے شہید قاسم سلیمانی کی شہادت میں کئی ملین افراد کی شرکت کو اللہ تعالی کی مدد اور نصرت کا مظہر قراردیتے ہوئے فرمایا: شہیدقاسم سلیمانی کی تشییع جنازہ میں کئی ملین مسلمانوں نے امریکی اور اسرائیلی پرچموں کو نذر آتش کردیا ، کیونکہ امریکی اور اسرائیلی پرچم ظلم و جبر و استبداد کی علامت ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: سپاہ اسلام کے عظيم کمانڈر میجر جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت نے امریکہ کو ایک بار پھر عالمی سطح پر رسوا کردیا اور ثابت کردیا کہ امریکہ اور اسرائیل دونوں دہشت گرد حکومتیں ہیں۔ امریکی صدر نے شہید سلیمانی کے قتل کا اعتراف کرکے دنیا کے سامنے ثابت کردیا کہ امریکہ دہشت گرد ملک ہے جو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتا اور دنیا میں دہشت گردی کو فروغ دیتا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: امریکہ نے افغانستان، عراق اور دیگر جگہوں پر بہت سے انسانوں کو قتل کیا ہے لیکن  اعتراف نہیں کیا ، شہید قاسم سلیمانی کے بہیمانہ اور بزدلانہ قتل کا امریکی صدر نے آشکارا اعتراف کیا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عراق میں امریکی ايئر بیس پر ایرانی سپاہ کے میزائل حملے کے دن کو اللہ کا دن قراردیتے ہوئے فرمایا: ایرانی سپاہ نے امریکہ پر میزائل داغ کر امریکہ کی ہیبت اور اس کے رعب و دبدبہ کو خاک میں ملا دیا۔

تحریر: دانش بلتستانی مقپون
 
موت تجدید مذاق زندگی کا نام ہے
خواب کے پردے میں بیداری کا اک پیغام ہے
موت کو سمجھے ہیں غافل اختتامِ زندگی
یہ ہے شام زندگی صبح دوامِ زندگی       علامہ اقبال
کائنات کی متفق علیہ حقیقتوں میں سے ایک بڑی حقیقت موت ہے، یعنی موت کا آنا، ہر ذی روح کے لیے موت کا واقع ہونا، دنیا کا ہر انسان موت کے یقینی ہونے پر ایمان رکھتا ہے، چاہے وہ کسی دین و مذہب کا قائل ہو یا نہ ہو۔ اگرچہ ہر ایک کی خواہش ہوتی ہے کہ اسے موت نہ آئے، مگر اپنی تمام تر خواہشوں اور تمناؤں کے باوجود موت کے آنے پر یقین رکھتے ہیں، کیونکہ یہ کائنات کی ایک ناقابل انکار اور اٹل حقیقتوں میں سے ایک ہے، جس سے کسی کو مفر ممکن نہیں۔
 
جہاں ایک طرف عالمِ انسانیت کائنات کی اس بڑی حقیقت سے آگاہ ہے، یعنی ہر ذی روح کے لیے موت کے حتمی ہونے پر یقین رکھتا ہے، دوسری طرف یہ بھی ایک بڑی حقیقت ہے کہ انسان اس موت کی آمد سے لے کر اس کے بعد واقع ہونے والے حساب و کتاب، ارواح مردگان کے احوال و اختیار و مقامات سے آگاہی بہت ہی کم رکھتا ہے اور یہ کوئی اچھنبے کی بات بھی نہیں ہے، کیونکہ موت انسان کا موجودہ عالم مادے سے دوسرے عالم مجردات میں انتقال کا عمل ہے اور وہ عالم ہمارے لئے عالم غیب ہے۔ ہم اس مادی و محدود دنیا میں رہتے ہوئے اس غیر مادی و غیر محدود عالم کا ادراک کماحقہٗ نہیں کرسکتے، جس طرح شکم مادر میں موجود بچہ باہر کی دنیا کو درک نہیں کرسکتا، اس کا مطلب یہ نہیں کہ باہر کوئی دنیا موجود ہی نہیں بلکہ موجود ہے اور ہم سب یہاں زندگی بسر کر رہے ہیں۔

اسی طرح اگر آج ہم بعد از موت کی حقیقتوں کو کماحقہٗ درک نہیں کرسکتے تو اس کا بھی یہ مطلب نہیں کہ بعد الموت کوئی زندگی، حیات یا نظام زندگی ہے ہی نہیں بلکہ پورا ایک اعلیٰ و عادلانہ نظام  موجود ہے اور یقیناً ہے، کیونکہ دنیا کا ہر مذہب اس کی تائید کرتا ہے، چاہے وہ الہامی ادیان ہو یا غیر الہامی اور دنیا کا 99 فیصد انسان کسی نہ کسی مذہب یا دین سے تعلق رکھتا ہے۔ اگرچہ دنیا میں لامذہب یا دہریہ کہلانے والے افراد بھی پائے جاتے ہیں، مگر ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ لہذا ان کے خیالات کوئی قابل اعتناء نہیں ہیں، کم از کم ان افراد کے لئے تو بالکل بھی نہیں، جو کسی مذہب کا پیروکار کہلاتا ہے۔

بہرحال اس وقت میں جس حقیقت کی طرف اشارہ کرنا چاہ رہا ہوں، وہ یہ ہے کہ انسان جب تک اس مادی دنیا میں ہے، محدود ہے اور وہ یہاں رہتے ہوئے اس لامحدود دنیا کی حقیقت کو کماحقہ درک نہیں کرسکتا، مگر مرنے کے بعد انسان اس مادی و محدود دنیا سے ایک مجرد و لامحدود عالم میں قدم رکھتا ہے اور وہاں اپنے عالم کی حقیقت سے بھی آگاہ ہو جاتا ہے اور اس محدود مادی دنیا کو بھی دیکھ سکتا ہے، جس طرح ہم شکم مادر میں موجود بچے کے حوالے سے آگاہی حاصل کرسکتے ہیں، اس کی ضرورت کے مطابق خوراک ادویات دے سکتے، اسی طرح عالم برزخ کے افراد بھی اس مادی دنیا کو دیکھ سکتے ہیں، یہاں کے حالات محسوس کرسکتے ہیں اور یہاں موجود افراد کی مدد و نصرت بھی کرسکتے ہیں، لیکن یہ سب کون لوگ کرسکتے ہیں یا کس حد تک کر سکتے ہیں اور کیسے کرتے ہیں، اس کا تعلق ان کی اپنی قابلیت، صلاحیت، لیاقت، اختیارات و مقام و منزلت کے حساب سے ہوسکتا ہیں۔

لہٰذا اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ وہ کسی کو قتل کرکے، مار کر اسے اس کے مقاصد، اہداف یا مشن سے روک سکتا ہے تو یہ سب سے بڑی نادانی اور نری حماقت کی بات ہوگی، کیونکہ کوئی جب تک اس دنیا میں موجود ہے، بہت ہی محدود ہے، وہ ہر وقت، ہر جگہ، جب چاہے، جہاں چاہے نہیں جا سکتا، وہ ہر ادارے میں کام نہیں کرسکتا، وہ ہر قسم کے افراد سے نہیں مل سکتا، وہ ہر ایک کو اپنا پیروکار نہیں بنا سکتا، وہ ہر ایک کو اپنا ہم خیال نہیں بنا سکتا، کہیں قانونی پابندی ہوتی ہے اور کہیں سیاسی مسئلہ ہوتا ہے، کہیں جغرافیائی پابندیاں ہوتی ہیں تو کہیں پکڑے جانے کا خدشہ انسان کے قدم روکتا ہے۔ سو جب تک اس مادی دنیا میں ہے، اس قسم کی پابندیوں، حد بندیوں اور رکاوٹوں کا سامنا رہتا ہے، لیکن جیسے ہی مر جاتا ہے یا موت واقع ہوتی ہے، وہ ان تمام رکاوٹوں سے آزاد ہو جاتا ہے، جو عالم مادہ کی محدودیت کی وجہ سے پیش آتی تھیں۔

کیونکہ موت جسم و روح کے درمیان جدائی کا نام ہی تو ہے اور جسم سے جدا ہونے کے بعد روح کی طاقتِ پرواز کا اندازہ تو ہم اس دنیا میں رہتے ہوئے بھی کرسکتے ہیں۔ کیا ہم خوابوں میں پل بھر میں دنیا کے گوشہ و کنار سے ہو کر واپس نہیں آتے؟ ایک لمحے میں کےٹو کے دامن میں تو اگلے لمحے سمندر کے کنارے۔ پل میں امریکہ تو اگلے پل میں افریقہ کے جنگل میں۔ دنیا کے آخری کونے میں ہوں اور کوئی ہمیں نیند سے اٹھانے لگے تو لمحوں میں واپس نہیں آجاتے؟ نہ کہیں جانے کے لیے ویزے کی ضرورت ہے اور نہ آنے کے لئے پاسپورٹ کی، نہ تو کسی طرح کا پرمٹ چاہیئے اور نہ ہی کوئی سرٹیفیکیٹ، یہ ہے عام روحوں کی طاقت پرواز جس کا ٹریلر ہم خوابوں میں مشاہدہ کرتے رہتے ہیں۔
 
اگر ہم ان پاکیزہ ارواح کی بات کریں، جو تہذیب یافتہ، خود سازی کے مراحل طے کئے ہوئے، منازل عرفان میں قدم رکھتے ہوئے، اسی لباس مادی میں ہوتے ہوئے عالم ملکوت و جبروت کا مشاہدہ کرتے ہوئے، اس عالم بقا و بالا تر میں قدم رکھتے ہیں، کیا کہنا ان کی طاقت پرواز کے بارے میں۔ خصوصاً اگر کوئی روح ملکوتی اس مادی قفس عنصری سے شہادت کے سبب آزادی پائے تو پھر اس کی طاقت پرواز، قوت فاعلیت و قادر مطلق کی جانب سے ان کو ملنے والے اختیارات و اقتدار کا یہاں رہتے ہوئے اندازہ کر ہی نہیں سکتے۔ اسی لیے عالم غیبت کے حالات سے آگاہ کرنے والی مستند ترین کتاب قرآن مجید میں شہداء کے حوالے سے واضح اعلان ہے کہ انہیں تم مردہ نہ کہو، بلکہ سوچو بھی مت یعنی گمان تک نہ کرو کہ وہ مر گئے ہیں۔ وہ ایسی برتر زندگی کا حامل ہے، جو تمھاری ادراک سے بھی بالاتر ہے۔

بلاشبہ ایسی ہی بلند مرتبہ ہستیوں میں سے ایک ہستی عالم اسلام کے بطل جلیل، پاسبان قدس کے کمان دار، جنرل حاج قاسم سلیمانی تھے۔ ان کے کمالات، صفات اور خصوصیات اہل مشرق کے لیے بالعموم اور عالم اسلام کے لیے بالخصوص آپ کی خدمات کے بیان کے لیے الگ سے دفتر کے دفتر درکار ہیں، جو الگ کسی موقع پر بیان ہوگا، انشاءاللہ۔ فی الحال میں اتنا بتانا چاہ رہا ہوں کہ امریکہ و دیگر اسلام دشمن قوتوں کے لیے، زندہ حاج قاسم سلیمانی سے زیادہ شہید حاج قاسم سلیمانی بھاری پڑے گا، کیونکہ زندہ حاج قاسم سلیمانی اپنے مادی جسم کی تقاضائے محدودیت کے ساتھ اور مخصوص جغرافیے سے تعلق کے سبب محدود پیمانے پر ہی کام کرسکتا تھا، اب جسم مادی سے آزاد ہو کر، ہر قید و بند سے آزاد ہو کر پہلے سے کہیں زیادہ اقتدار و اختیار و طاقت پرواز کا مالک ہو کر اپنے مشن کو آگے بڑھا سکتا ہے۔ اس کی کچھ جھلکیاں تو ان کی تدفین سے پہلے ہی دنیا مشاہدہ کرچکی ہے، بقیہ آنے والے وقتوں میں دیکھیں گی۔ ان کی بلند مرتبہ روح اور پاکیزہ لہو جوانوں کی رگوں میں، بزرگوں کی فکروں میں، ماؤں کے شیروں میں ایسے سرائیت کر جائے گا، جیسے ہواؤں میں خوشبو۔
 
پہلے وہ محدود دائرے میں رہ کر کام کرسکتے تھے اور کر رہے تھے، مگر اب وہ ایرانی و تورانی کے دائرے سے نکل کر آفاقی بلکہ آسمانی ہوگئے ہیں۔ لہذا اب وہ اپنے مشن کو آگے بڑھانے کے لیے شعراء سے اشعار، خطباء سے تقریریں، مصوروں سے تصویریں، علماء سے کتابیں، تجزیہ نگاروں سے تجزیے، کالم نگاروں سے کالمز، مصنفین سے مقالے و تحریریں لکھوائیں گے۔ منبروں سے خطبے، محرابوں سے تکبیریں، میڈیا سے اشاعتیں، اسمبلیوں سے قراردادیں، ماؤں سے تربیتیں، استادوں سے تہذیب نفس، مجاہدین سے استقامت اور دنیا کے ہر ذرائع کو اپنے پاکیزہ مشن کو آگے بڑھانے کے لیے بروے کار لائیں گے۔ اب ان کی طویل و جہد مسلسل سے بھری زندگی و مجاہدانہ کارناموں سے پرورش یافتہ روح، جہاں دشمنوں کے دل میں خوف و وحشت پیدا کرے گی، وہاں اہل ایمان کے دلوں میں ولولہ، جوش اور جذبہ جہاد و شہادت ایجاد کرے گی اور یوں شہید قاسم سلیمانی دشمنوں کے لیے پہلے اگر خطرناک تھے تو اب خطرناک تر ثابت ہونگے۔
لبنان کی اسلامی مزاحمتی تحریک حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے اسلامی مزاحمتی محاذ کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی اور ابو مھدی المھندس کی شہادت کے پہلے ہفتے کی مناسبت سے خطاب کیا۔ ان کا یہ خطاب لبنان کے بہت سے شہروں میں براہ راست دیکھا جا رہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ شام، فلسطین، عراق، یمن، افغانستان، بحرین، پاکستان، بھارت اور افریقہ سمیت دنیا بھر میں ان کی شہادت پر عوام نے تقریبات منعقد کرکے اپنے غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنرل قاسم سلیمانی اپنے خاندان یا ایران کے نمائندے نہیں تھے بلکہ وہ خطے میں اسلامی مزاحمتی محاذ کے ایک سپہ سالار تھے۔ انہوں نے کہا کہ جنرل قاسم سلیمانی اور ابو مھدی المھندس کے بارے میں گفتگو کرنے کا مقصد امام خمینیؒ کے مکتب میں پروان چڑھنے والے اسلامی محاذ کے سپہ سالاروں کی پہچان کروانا ہے۔

حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ شہید قاسم سلیمانی ہمیشہ ہمارے پاس آیا کرتے تھے، ہمارے ساتھ رہتے، ہماری ضرورتوں کو پورا کرتے بلکہ ہماری توقع سے بڑھ کر ہمارا خیال رکھتے تھے، جبکہ ان کی امداد میں مادی، معنوی اور فکری امداد شامل تھی اور اس سے قبل اسلامی مزاحمتی محاذ کو اس طرح کی مدد کسی اور نے فراہم نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ وہ سال 1999ء میں قدس بریگیڈ کے کمانڈر مقرر ہوئے اور سال 2000ء میں ہمیں آزادی نصیب ہوئی، جبکہ وہ اس آزادی میں شریک تھے، لیکن اس بارے میں کسی طرف سے بات نہیں کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ سال 2006ء میں وہ جنگ کے دوران لبنان آئے اور ہم سب حیران تھے کہ وہ کیسے لبنان پہنچ گئے، البتہ وہ جنگ کے دنوں میں ہمارے ساتھ رہے، جبکہ وہ تہران میں رہ کر بھی ہماری مدد کرسکتے تھے، لیکن انہوں نے میدان جنگ میں رہنے کو ترجیح دی۔ سید مقاومت نے کہا کہ جنگ کے دنوں میں بےگھر ہو جانیوالے لبنانیوں کو جنگ کے بعد گھروں میں آباد کرنے میں شہید قاسم سلیمانی نے ہی مدد فراہم کی جبکہ کوئی بھی ایسا بے گھر فرد باقی نہیں بچا تھا، جو آباد نہ ہوگیا ہو۔

سید حسن نصراللہ نے کہا کہ دشمن اسلامی مزاحمتی محاذ کی کامیابیوں کو عوام کی نظر میں چھوٹا کرکے پیش کرتا ہے، جبکہ داعش کیخلاف جنگ سے پہلے اسلامی مزاحمتی محاذ کو اسرائیل کیلئے صرف ایک معمولی خطرہ سمجھا جاتا تھا، لیکن اب اسرائیلی و لبنانی حکام اسلامی مزاحمتی محاذ کو ایک بلند سطح پر لے گئے ہیں، جہاں اسلامی مزاحمتی محاذ کو "اسرائیل کے وجود کیلئے" ایک بڑا خطرہ سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب حزب اللہ نہ صرف اپنے بلکہ لبنانی ذخائر کے دفاع کی صلاحیت بھی رکھتی ہے اور یہ سب کچھ رہبر معظم انقلاب امام خامنہ ای اور شہید قاسم سلیمانی کے مرہون منت ہے۔ انہوں نے کہا کہ شہید ابو مھدی المھندس کی شخصیت شہید قاسم سلیمانی کیساتھ انتہائی مشابہ تھی، جبکہ ان دونوں سپہ سالاروں کی شہادت اپنا ایک خاص اثر رکھتی ہے، جیسا کہ عراقی عوام آج دیکھ رہے ہیں کہ ان کے سپہ سالار ایرانی سپہ سالاروں کے ہمراہ شہید ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر عراق میں امریکہ کی بنائی ہوئی داعش کو شکست نہ ہوتی تو خلیجی ممالک سمیت جو اس کی مکمل حمایت کر رہے تھے، پورا خطہ داعش کی لپیٹ میں آ جاتا۔ لہذا پورے خطے کی عوام کو چاہیئے کہ وہ جنرل قاسم سلیمانی، ابو مھدی المھندس اور ان تمام مجاہدین کی قدردانی کریں، جنہوں نے عراق میں داعش کو شکست دی اور اب بھی داعش کیساتھ لڑ رہے ہیں۔

حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے کہا کہ اسلامی مزاحمتی محاذ کے سپہ سالاروں کی شہادت پر مبنی امریکی مجرمانہ اقدام کا جواب صرف ایک کارروائی نہیں بلکہ لمبے عرصے پر محیط ایک مزاحمتی سلسلہ ہے، جس کے نتیجے میں خطے سے امریکی موجودگی ختم ہو جائیگی۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کو مشرق وسطی یا جیسا کہ رہبر معظم نے کہا ہے کہ مغربی ایشیاء سے نکلنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ جو کچھ عین الاسد میں ہوا ہے، صرف ایک طمانچہ ہے، جو جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کا جواب نہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ طمانچہ اس زلزلہ آفرین مزاحمتی سلسلے کی پہلی کڑی ہے، جس کا نتیجہ خطے سے امریکی موجودگی کا مکمل خاتمہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے کسی امریکی فوجی اڈے پر حملہ نہیں ہوا، تاہم آج ایران کے علاوہ دنیا میں کس ملک کے اندر یہ ہمت ہے کہ وہ امریکی فوجی اڈے کو نشانہ بنائے؟ سید مقاومت کا کہنا تھا کہ عین الاسد کو نشانہ بنانے کی ایرانی کارروائی انتہائی شجاعت پر مبنی ہے، جبکہ ٹرمپ نے 52 ایرانی مقامات کو نشانہ بنانے کی دھمکی دے رکھی تھی، لیکن وہ کچھ کر نہیں پائے، تاہم امریکہ اور اسکے اتحادی جان لیں کہ یہ (ایرانی) کمانڈرز ایسے لوگ ہیں، جو شکست اور عقب نشینی سے واقف ہی نہیں۔

سید مقاومت سید حسن نصراللہ نے کہا کہ امریکہ کے منہ پر پڑنے والے اس طمانچے نے ایرانی فوجی طاقت سے پردہ اٹھایا ہے، کیونکہ وہ میزائل جو سو فیصد ایرانی ساخت کے ہیں، سینکڑوں کلومیٹرز کا فاصلے طے کرکے ٹھیک اپنے اہداف کے اوپر جا لگے ہیں اور وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب امریکی کئی دنوں سے مکمل طور پر الرٹ تھے۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے پاس اس سے بھی زیادہ پیشرفتہ اور طاقتور میزائل موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس ایرانی طمانچے میں ان ممالک کیلئے کھلا پیغام موجود ہے جو امریکہ کیساتھ اتحاد کرتے ہیں اور اسرائیل کیلئے بھی جو ایران پر حملے کی دھمکیاں دیتا رہتا ہے، اس میں ایک پیغام موجود ہے۔ سید مقاومت نے کہا کہ ایرانی میزائل عراق میں موجود عین الاسد نامی امریکی فوجی اڈے پر لگے، لیکن اس کا درد اور اس پر رونا پیٹنا اسرائیل میں ہو رہا تھا، کیونکہ ایران نے اتنی فوجی صلاحیت پیدا کر لی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہلاکتوں سے ہٹ کر جسے وقت ثابت کرے گا، اس میزائل حملے کا سب سے بڑا اثر خطے میں موجود ہر دوست و دشمن کی نگاہ میں امریکی رعب و دبدبے کو خاک میں ملا دینا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس واقعے کے بعد اسرائیل کے اندر اب یہ کہا جا رہا ہے کہ آخرکار امریکہ نہ صرف عراق سے بلکہ پورے خطے سے ہی نکل جائے گا اور ہمیں اکیلا چھوڑ دے گا۔ انہوں نے کہا کہ کیا آپ نے ٹرمپ اور اس کے ساتھیوں کے چہرے دیکھے تھے؟ کیا ان کے چہرے یہ ظاہر کر رہے تھے کہ وہ فتحیاب ہوئے ہیں یا یہ کہ وہ عزادار ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ایران نے امریکیوں کو کہہ رکھا تھا کہ اگر تم نے جواب دیا تو خطے میں موجود تمام امریکی فوجی اڈے اور اسرائیل کو فوری طور پر خاک میں ملا دیا جائیگا۔

حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے عراق میں ایرانی کارروائی کیطرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، چونکہ امریکہ کیطرف سے عراق کے اندر ہی مجرمانہ کارروائی انجام دی گئی تھی، لہذا ایران سے باہر امریکہ کو جواب دینے کیلئے عراق ہی بہترین میدان تھا، کیونکہ امریکہ نے عراق کی خود مختاری کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بغداد ایئرپورٹ کے قریب کارروائی کی تھی، جس میں اس نے ایرانی سپہ سالار کیساتھ ساتھ عراقی اعلیٰ فوجی افسروں کو بھی شہید کیا تھا، جو عراقی سرزمین کے دفاع میں مصروف تھے۔ انہوں نے عراقی کرد لیڈر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آج مسعود بارزانی کو بھی شہید قاسم سلیمانی کا مرہون منت ہونا چاہیئے، کیونکہ جب اس نے اپنے امریکی دوستوں سے مدد مانگی تھی تو وہ اس کی مدد کو نہیں آئے تھے، بلکہ یہ حاج قاسم سلیمانی ہی تھے، جو حزب اللہ کے دوستوں کے ہمراہ مسعود بارزانی کی مدد کرنے اس کے پاس گئے تھے لیکن وہ ڈر سے لرز رہا تھا۔ انہوں نے کہا ہمیں امید ہے کہ مسعود بارزانی عراقی حکام کے ہمراہ عراقی عوام کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر عراق سے امریکی فوجی انخلاء کی حمایت کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ عراقی وزیراعظم عادل عبدالمہدی پارلیمنٹ کے فیصلے کو بہادری کیساتھ عملی جامہ پہنا رہے ہیں اور انہوں نے امریکیوں سے ان کے انخلاء کا میکنزم بھی طلب کر لیا ہے۔ اسلامی مزاحمتی محاذ کے سپہ سالار سید حسن نصراللہ نے کہا کہ اسلامی مزاحمتی محاذ اب اپنا کام شروع کرنے ہی والا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی مزاحمتی فورسز نے ایک بہت بڑے ہدف کا اعلان کیا ہے اور وہ اس کے حصول میں سنجیدہ اور صادق بھی ہیں، جبکہ امریکیوں کو اپنے فوجی اڈے سمیٹ کر یہاں سے نکلنا ہوگا، تاہم اسلامی مزاحمتی فورسز کا ایک ہی ہدف ہے اور وہ یہ کہ امریکی افقی حالت میں واپس نہ جائیں، بلکہ عمودی حالت میں واپس پلٹیں۔ سید مقاومت سید حسن نصراللہ نے کہا کہ ہم خطے کے شروع ہونے والے نئے دور کے بارے میں بات کر رہے ہیں، جبکہ آنیوالے دنوں کی خبریں آپ کو اس کا پتہ دیتی رہیں گی۔ انہوں نے کہا کہ یہ پوری امتِ مسلمہ کی ذمہ داری ہے جبکہ میں امیدوار ہوں کہ امریکی قاتلوں کو جنہوں نے یہ جرم انجام دیا ہے، اس کا بھاری تاوان ادا کرنا پڑے گا اور بالآخر انہیں یقین ہو جائیگا کہ ان کا حساب کتاب غلط تھا۔
 
 
 

پاکستان کے وفاق المدارس کے نائب سربراہ حجۃ الاسلام سید نیاز نقوی نے سپاہ اسلام کے مایہ ناز اور عظیم کمانڈر میجر جنرل شہید قاسم سلیمانی ، شہید ابو مہدی مہندس اور ان کے ساتھیوں کی مظلومانہ شہادت پررہبر معظم انقلاب اسلامی کے نام تعزیتی پیغام ارسال کیا ہے۔

سید نیاز نقوی نے اپنے پیغام میں انقلاب اسلامی کے ساتھ امریکہ کی دیرینہ اور گہری دشمنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ نے اس سے پہلے بھی ایرانی عوام کے خلاف ہولناک جرائم کا متعدد بار ارتکاب کیا ہے اور ایرانی عوام نے اسے منہ توڑ جواب بھی دیئے ہیں اور اس بار بھی ایرانی عوام اور سپاہ اسلام کے غیور اور بہادر جوان جنابعالی کی سرپرستی میں امریکہ کو مناسب وقت پر مناسب جواب دیں گے۔ حجۃ الاسلام سید نیاز نقوی نے رہبر معظم انقلاب اسلامی اور ایرانی عوام کے ساتھ ایک بار پھر ہمدردی اور تعزیت کا اظہار کیا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے صوبہ بوشہر میں دو ہزار شہیدوں کی کانگریس منعقد کرنے والی کمیٹی کے ارکان سے ملاقات میں جذبہ جہاد و مزحمت کی راہیں آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے ہموار کرنے پر تاکید کی ، یہ ملاقات 23 دیماہ کو انجام پذير ہوئی اور رہبر معظم کے انقلاب اسلامی کے بیان کو آج اس کانگریس میں پیش کیا گيا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس ملاقات میں صوبہ بوشہر کو عسکری افتخارات سے سرشار اور حساس علاقہ قراردیتے ہوئے فرمایا: بوشہر کو کئی برسوں تک سامراجی طاقتوں اور ایران کے دشمنوں کے خطرات کا سامنا رہا ، لیکن قوم نے علماء کی ہدایت اور رئيس علی دلواری جیسے عالی مقام شہیدوں کی فداکاری کی بدولت ،استقامت اور پائداری کے ساتھ حملہ آوروں کا مقابلہ کیا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بوشہر میں دلواری، مہدوی ، عاشوری اور گنجی جیسے نامورشہیدوں کی پرورش کو اس علاقہ میں عوام کی اسلام کے سائے میں انقلاب اور جہاد کے متعلق گہرے ادارک اور عمیق فہم کا نمونہ اور اس حقیقت کو مختلف نسلوں میں دہرائے جانے کا مظہرقراردیتے ہوئے فرمایا: ایسا کام کریں تاکہ ان شہیدوں اور ممتاز شخصیات کی یادیں آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے یادگار اورباقی رہیں۔  

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے برطانوی سامراج کا مقابلہ کرنے کے سلسلے میں ملک کے عظيم مدافع اور مجاہد رئیس دلواری کی شجاعت اور دلاوری  اور اسی طرح نادر مہدوی جیسے عالمی جہادی کی شخصیت کو نمونہ عمل بنانے پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: افسوس کا مقام ہے کہ جدید نسل ان عظیم شخصیتوں کے نام سے آشنا نہیں ہے جبکہ تبلیغاتی اداروں کو عظیم مجاہدوں کی جہادی فکر کو فروغ دینے پر توجہ مبذول کرنی چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس حقیقی اور واقعی احساس کو ہمہ گیر بنانے کو نجات اور شہیدوں کی راہ پر گامزن رہنے کا واحد راستہ قراردیتے ہوئے فرمایا: مختلف وسائل سے سرشار، انرجی، معدن ، جغرافیائی اہمیت کے حامل ، اب و ہوا کے لحاظ سے متنوع ، دشمنوں کی طمع اور لاچ کا شکار ، 80 ملین آبادی پر مشتمل ایران جیسے عظیم ملک کو چلانے کے لئے جہادی تلاش و کوشش کی ضرورت ہے تاکہ کوئی ایران کی عزت اور عظمت کو  پامال نہ کرسکے ۔ البتہ آج انقلاب اسلامی کی برکت اور بدولت ایرانی قوم استقامت کے ساتھ کھڑی ہے لیکن جہاد اور مزاحمت کے جذبہ کو مسلسل اور پیہم  فروغ دینا چاہیے تاکہ یہ جذبہ آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے بھی مشعل راہ قرار پائے۔

 اسلامی جمہوریہ ایران کی عدلیہ کے ترجمان غلام حسین اسماعیلی نے کہا ہے کہ شہید میجر جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت پر ایران نے امریکی صدر ٹرمپ کے خلاف عالمی عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے شہید میجر جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کےاحکامات دینے کا اعتراف کیا ہے جو عدالت میں پیش کیے جانے کے لیے مضبوط ثبوت ہے۔ ایرانی عدلیہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکی فوجیوں کا اقدام  دہشتگردی کی کارروائی تھی۔ انھوں نے کہا کہ عالمی عدالت میں کیس طوالت اختیار کرسکتا ہے لیکن ایران اسے اختتام تک پہنچائےگا۔ ایران کا کہنا ہے کہ امریکہ عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی کا ارتکاب کررہا ہے اور خطے میں دہشت گردی کو فروغ دے رہا ہے۔ واضح رہے کہ 3 جنوری کو عراق میں امریکہ کی جانب سے  ایرانی کمانڈرمیجر جنرل  قاسم سلیمانی کوہوائی حملے کا نشانہ بنا کر شہید کردیا گیا تھا امریکی حملے میں حشد الشعبی کے نائب سربراہ ابو مہدی مہندس بھی شہید ہوگئے۔ شہید قاسم سلیمانی عراقی حکومت کی دعوت پر عراق  کے سرکاری دورے پر تھے۔

Friday, 10 January 2020 21:40

آل از ویل

تحریر: ناصر رینگچن

ایک دفعہ کسی شخص کو سفر پر جانے کے لئے گھوڑے کی ضرورت پڑی، وہ اپنے دوست کے پاس جاتا ہے، تاکہ اُس کا گھوڑا مانگ سکے۔ وہ شخص اپنے دوست کے پاس پہچتا ہے اور اپنی مجبوری بیان کرتا ہے، دوست نہایت ہی افسوس کے ساتھ اُس سے معذرت کرتا ہے کہ گھوڑے کو تو کوئی اور شخص لے کر گیا ہے، اتنی دیر میں گھر کے کونے سے گھوڑے کی آواز آتی ہے۔ یہ شخص تعجب سے اپنے دوست سے پوچھتا ہے کہ یار تم تو کہہ رہے تھے کہ گھوڑا نہیں ہے، اب یہ آواز کس چیز کی ہے۔؟ دوست جواب میں کہتا ہے کہ تمھے گھوڑے کی آواز پر بروسہ ہے یا اپنے دوست کی بات پر۔ ایران کا عراق میں موجود قدیم ترین امریکی ملٹری بیس پر میزائلوں سے حملہ اور امریکی صدر ٹرمپ کا بیان بھی کچھ اسی طرح کا ہے۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ ایران کے بلاسٹک میزائلوں نے امریکی بیس کو ہدف بنایا ہے، لیکن ٹرمپ ٹوئٹ کرتا ہے "آل از ویل" پھر طویل خاموشی کے بعد کہتا ہے کہ ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ یہ الگ بات ہے کہ اسرائیلی نیوز رپورٹر نے جب عراق سے دو سو پینتالیس امریکی زخمی فوجیوں کو اسرائیلی ہسپتال میں منتقل کرنے کی خبر نشر کی تو اس کا ٹویٹر اکائونٹ ہی بند کر دیا گیا۔

اب حالات یہ ہیں کہ امریکی صدر ٹرمپ جو ایرانی حملے سے کچھ دیر پہلے تک ایران کو دھمکیاں دے رہا تھا اور حملے کی صورت میں منہ توڑ جواب دینے کا کہہ رہا تھا، ایران کی طرف سے ایک ہی تھپڑ میں سدھر گیا ہے اور ایران کو غیر مشروط مذاکرات کی پیشکش کر رہا ہے۔ لیکن ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای کا کہنا تھا کہ "عراق میں موجود عین الاسد فوجی اڈے پر ایران کا میزائل حملہ امریکیوں کے منہ پر زودار طمانچہ ہے، لیکن یہ انتقام نہیں۔" کیوں انتقام نہیں؟ کیونکہ جنرل سلیمانی کی شخصیت کے برابری کا امریکہ میں کوئی ہے ہی نہیں۔ جنرل سلیمانی کی شخصیت اور ان کے قصاص کے حوالے سے بات کرتے ہوئے لبنان کی مقاومتی تحریک حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصراللہ کا کہنا تھا کہ "ٹرمپ کا سر بھی قاسم سلیمانی کے جوتے کے برابر نہیں ہوسکتا" اور یہ کوئی مبالغہ بھی نہیں ہے۔

جس جنرل نے چالیس سال امریکہ اور اسرائیل کو ناکو چنے چبوا دیئے ہوں، لبنان، عراق، شام، یمن اور فلسطین سے لیکر افغانستان، غرض ہر محاذ پر دشمنوں کو شکست دی ہو۔ شام اور عراق میں امریکی پیداوار داعش جیسی لعنت کو ملیا میٹ کیا ہو، اس عظیم شخصیت کے کون برابر ہوسکتا ہے۔ جنرل سلیمانی کی یہ تعریفیں صرف ہم نہیں کر رہے ہیں بلکہ خود مغربی میڈیا اور مغربی شخصیات بھی ان کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے ہیں۔ ان کی مقبولیت اور شخصیت کا اندازہ تو دنیا کو ان کی شہادت کے بعد ہوا ہے، اگر اس شخص کا جذبہ ایمانی نہ ہوتا تو آج عراق اور شام میں امن نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی اور آج اگر دنیا میں سامراجی طاقتوں اور عالمی غنڈوں سے کوئی برسر پیکار ہے تو یہ اسی شخص کے تربیت یافتہ افراد ہیں۔ جنرل قاسم سلیمانی کی مجاہدانہ زندگی اور ان کے کارناموں کو اگر دیکھیں تو کئی جلد کتاب کی شکل بن جائے، لہذا ایسی شخصیت کے برابر کون ہوسکتا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ڈونلڈ ٹرمپ کی پریس کانفرنس کے بعد ایران اور امریکہ کی کشیدگی میں کمی آئے گی؟ میرے نظر میں اب کشیدگی میں کمی کا امکان نہیں ہے، کیونکہ ایران کی طرف سے کم از کم شہید قاسم سلیمانی کا قصاص امریکہ کا مشرق وسطیٰ سے مکمل انخلاء ہے، جو امریکہ آسانی سے نہیں مانے گا۔ لیکن امریکہ اس وقت سخت پریشر اور بکھلاہٹ کا شکار ہے۔ امریکہ اب وہ سُپر پاور نہیں رہا، جس کے جنگی جہاز جب کسی ملک کی طرف رخ کرتے تھے تو وہاں کی حکومت گر جاتی تھی اور امریکہ کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتے تھے۔ اب امریکہ کی حالت یہ ہے کی ایک دفعہ فوجی انخلاء کا لیٹر جاری کر دیتا ہے، پھر مس ٹائپنگ کہہ کر بیان کو واپس لیا جاتا ہے۔اس وقت سینکڑوں سوالات امریکہ پر اٹھ رہے ہیں اور ٹرمپ ان سب سوالوں کے جواب میں کہہ رہے ہیں تم لوگوں کو میری باتوں پر یقین نہیں ہے۔؟

یہاں ایک اور اہم بات کا ذکر کرتا چلوں کہ ایک اہم سوال یہ بھی کیا جا رہا ہے کہ امریکہ کے سب سے بڑے فوجی بیس پر حملہ ہوا ہے اور امریکیوں نے جوابی کارروائی تک نہیں کی؟ ان کے پاس تو دنیا کا بہترین ڈیفنس سسٹم موجود تھا، پھر کیا ہوا کہ ایرانی میزائلوں کو نہیں روک سکا؟ ان کا جواب امریکہ تو نہیں دے سکا، مگر ایران کے جنرل حاجی زادہ نے دے دیا ہے، ان کا کہنا تھا کہ "ہم نے امریکی دہشت گرد فوج کے اڈے عین الاسد پر حملے کے وقت ایک سائبر اٹیک کے ذریعے امریکہ کے جنگی بحری بیڑے اور ان کے ڈرون طیاروں کے نظام کو بھی مفلوج کر دیا تھا، جو اطلاع رسانی کا کام کرتے تھے، ہم اس حملے میں کسی کو قتل نہیں کرنا چاہتے تھے، بلکہ ہم اس مرحلے پر دشمن کی عسکری طاقت کو ضرب لگانا چاہتے تھے۔"

یہ کوئی پہلے بار نہیں ہے کہ ایران نے امریکہ کو بے بس کر دیا ہے، اس سے پہلے بھی ایران نے امریکی ڈرون کو باحفاظت زمین پر اتار کر بھی دنیا کو حیران کر دیا تھا، یعنی بے شک امریکہ اپنے آپ کو سپر پاور کہلائے اور ساری دنیا احمقوں کی طرح اُس کو سُپر پاور تسلیم کرے، مگر دنیا میں ہمیشہ ایسا رہا ہے کہ جب بھی کسی ظالم و جابر نے خدائی کا دعویٰ کیا ہے، اُس وقت ایک قلیل تعداد نے خدا کی وحدانیت اور حاکمیت پر یقین رکھتے ہوئے وقت کی سپر پاور کو للکارا ہے اور ہمیشہ فتح اُن قلیل مظلوموں کی ہوئی ہے۔ ساری دنیا امریکہ سے ڈرتی ہے، حتیٰ روس اور چین بھی اس سے دو بدو ہونے سے اجتناب کرتے ہیں اور واحد ایران اور مقامتی تحریکیں ہیں، جو شیطان بزرگ اور اس کی ناجائز اولاد اسرائیل سے نبرد آزما ہیں اور خداوند عالم نے ہمیشہ انہیں فتح و کامرانی عطا کی ہے۔

لیکن ہمارے کمزور عقیدہ رکھنے والے مسلمان اور اسلامی کرپٹ حکمران اب بھی امریکہ اور عالمی طاقتوں سے مرعوب ہیں، حالانکہ اس وقت اسلامی حکومتوں کو چاہیئے تھا کہ وہ ایران کی سپورٹ کرتے یا کم از کم حوصلہ افزائی ہی کرتے، مگر ہمارے حکمرانوں کو ایسا کرنا نصیب نہیں ہوا۔ بہرحال زندہ دل لوگ جہاں کہیں بھی ہیں ،وہ اس وقت ایران کی جرات کو سلام پیش کر رہے ہیں اور ایران کے جواب کو عالم اسلام کی طرف سے جواب قرار دے رہے ہیں، لیکن ابھی یہ جنگ ختم نہیں ہوئی ہے، بلکہ ابھی تو شروع ہوئی ہے اور یہ امریکہ اسرائیل کی نابودی تک جاری رہے گئی۔ ابھی تو حزب اللہ لبنان اور حزب اللہ عراق کی طرف سے بدلہ لینا بھی باقی ہے اور ان شاء اللہ ہم دیکھیں گے کہ ایک دن امریکہ مشرق وسطیٰ سے اُسی طرح رسوا ہو کر جائے گا، جس طرح اسرائیل جنوبی لبنان سے گیا تھا۔

امریکی ایوان نمائندگان نے صدرڈونلڈ ٹرمپ کے جنگ کے اختیار کو محدود کرنے کی قرارداد منظور کرلی۔ اطلاعات کے مطابق ایوان نمائندگان نے جنگ کے امکانات کو کم کرنے کےلیے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے جنگ  سے متعلق اختیار کو محدود کرنے کی قرارداد کو منظور کرلیا ہے۔

 قرارداد کے حق میں 224 جب کہ مخالفت میں 194 ووٹ پڑے۔ ری پبلکن پارٹی کے 3 ارکان نے بھی قرارداد کے حق میں ووٹ دیا جب کہ ڈیموکریٹس کے 8 ارکان نے پارٹی کے برعکس قرارداد کی مخالفت کی۔ امریکی نمائندگان کی قرا داد اب سینیٹ میں پیش کی جائے گی۔

 قرارداد میں 1973 کے جنگی اختیارات کے قانون کا حوالہ دیا گیا ہے، جس میں کانگریس کو امریکی صدر کی جنگ کے اختیارات کے استعمال کے متعلق جانچ کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔

 ذرائع کے مطابق اگرایوان کی جانب سے پیش کردہ یہ قرارداد کانگریس سے منظورہوجاتی ہے تواسے ٹرمپ کے ممکنہ ویٹو کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔  اس قرارداد کو یک وقتی قرار داد کے طورپرپیش کیا گیا ہے جس کی منظوری کے لیے صدارتی دستخط کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔

 اس متعلق اسپیکرایوان نمائندگان نینسی پلوسی نے کہا کہ امریکی حکومت کومزید تشدد روکنا چاہیے جب کہ ٹرمپ کے فوجی اقدامات محدود کرنے سے امریکی جانوں اوراقدارکا تحفظ ہوگا۔

واضح رہے کہ بغداد ايئر پورٹ کے قریب  امریکہ کے بزدلانہ حملے میں  سپاہ اسلام کے عظیم جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد ایران کی جانب سے  عراق میں امریکی فوجی اڈوں پرحملوں میں 80 امریکی فوجی ہلاک اور 230 زخمی ہوگئے ہلاک اور زخمی ہونے والے امریکی فوجویں کو اسرائیل اور اردن منتقل کردیا گیا ہے۔ امریکہ اپنے فوجیوں کی ہلاکت کو چھپانے کی کوشش کررہا ہے لیکن زمینی حقائق سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ کا بھاری نقصان ہوا ہے۔