سلیمانی

سلیمانی

اسلامی جمہوریہ ایران جوہری توانائی کی بین الاقوامی ایجنسی آئی اے ای اے کا رکن ملک ہے۔ آئی اے ای اے ایک عالمی ادارہ ہے اور قانونی طور پر اپنے رکن ممالک کے حقوق کے دفاع کا ذمہ دار ہے۔ حال ہی میں (اتوار 11 اپریل 2021ء) نطنز میں واقع ایران کے یورینیم افزودگی کے ایک مرکز میں تخریب کاری انجام پائی ہے جس میں اسرائیل کے ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد پائے گئے ہیں۔ لیکن اب تک آئی اے ای اے نے اس واقعہ پر پراسرار خاموشی اختیار کر رکھی ہے جبکہ بین الاقوامی جوہری توانائی کا ادارہ ہونے کے ناطے اس سے توقع کی جا رہی تھی کہ وہ اس واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے اس میں ملوث قوتوں کے خلاف موثر اقدامات انجام دیتا۔
 
نطنز کا شمار اسلامی جمہوریہ ایران کے یورینیم افزودگی کے ایسے متعدد مراکز میں ہوتا ہے جو جوہری توانائی کے عالمی ادارے آئی اے ای اے کی زیر نگرانی فعالیت انجام دے رہے ہیں۔ نطنز میں تخریب کاری کا یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب ایران میں "قومی اٹامک ٹیکنالوجی ڈے" کی مناسبت سے اس مرکز میں جدید نسل کے سینٹری فیوجز نصب کئے گئے تھے اور ان کا افتتاح ہونا تھا۔ اسرائیل نے نطنز میں انجام پانے والی تخریب کاری کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ یہ تخریب کاری اس مرکز کے الیکٹرک پاور ڈسٹری بیوشن سسٹم میں خلل پیدا کر کے کی گئی تھی۔ اسرائیلی چینل "کان" کی فوجی نیوز رپورٹر کارمیلا مناشیہ نے کہا کہ یہ دھماکہ ایران کے جوہری پروگرام کو روکنے کیلئے انجام پایا ہے۔
 
اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ ڈاکٹر محمد جواد ظریف نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے نام خط میں ماضی میں اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کی جانب سے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملوں کی دھمکیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے: "ایسے جوہری مرکز پر دہشت گردانہ حملہ جو آئی اے ای اے کی زیر نگرانی کام کر رہا ہے اور وہاں سے بڑے پیمانے پر تابکاری پھیلنے کا خطرہ بھی پایا جاتا ہے، درحقیقت جوہری دہشت گردی کا ایک مجرمانہ اقدام ہے۔" جوہری ٹیکنالوجی کے حامل ممالک میں سے ایران کا شمار ایسے ممالک میں ہوتا ہے جس کا جوہری پروگرام بارہا دشمنوں کی جانب سے مختلف حملوں اور خطروں کا نشانہ بن چکے ہیں۔
 
اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم، جو خود جوہری ہتھیاروں کا بڑا ذخیرہ رکھتی ہے، ہمیشہ سے ایران کے جوہری پروگرام کے خاتمے پر زور دیتی آئی ہے۔ تل ابیب نے اب تک ایران میں جوہری سائنسدانوں کی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ بھی انجام دیا ہے جس کی تازہ ترین مثال گذشتہ برس تہران میں سیٹلائٹ سے کنٹرول ہونے والی مشین گن کے ذریعے ڈاکٹر محسن فخری زادہ کی شہادت ہے۔ گذشتہ چند سالوں میں اسرائیل نے ایران کی جوہری تنصیبات پر سائبر حملے کرنے کی بھی متعدد کوششیں انجام دی ہیں۔ ان میں سے سب سے زیادہ خطرناک کوشش اسٹاکس نیٹ نامی وائرس کے ذریعے کیا گیا تھا۔ یہ وائرس اسرائیل نے خاص طور پر ایران کی جوہری تنصیبات کیلئے تیار کیا تھا۔
 
اس کے بعد جولائی 2020ء میں نطنز میں ہی سینٹری فیوجز تیار کرنے والے ہال میں دھماکہ ہوا۔ اس دھماکے میں بھی اسرائیلی حکام نے ملوث ہونے کا اعتراف کیا تھا۔ اس وقت بھی ویانا میں بین الاقوامی اداروں میں ایران کے مستقل نمائندے اور سفیر کاظم غریب آبادی نے آئی اے ای اے کے اجلاس میں اس مسئلے کو اٹھایا تھا اور اس میں اسرائیل کے ملوث ہونے کی نشاندہی بھی کی تھی۔ کاظم غریب آبادی نے آئی اے ای اے کے حکام سے اس حملے کی مذمت کرنے کا مطالبہ بھی کیا تھا لیکن انہوں نے ایسا کرنے سے گریز کیا۔ دوسری طرف جوہری توانائی کی عالمی ایجنسی آئی اے ای اے کی مختلف قراردادوں میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ وہ اپنے رکن ممالک کے حقوق کا دفاع کرے گی۔
 
آئی اے ای اے اپنی مختلف قراردادوں میں واضح کر چکی ہے کہ: "پرامن مقاصد کے تحت سرگرم جوہری تنصیبات پر کسی قسم کا دہشت گردانہ حملہ اقوام متحدہ کے منشور، بین الاقوامی قانون اور آئی اے ای اے کے دستور کی خلاف ورزی قرار پائے گا۔" ایران کی جوہری توانائی تنظیم کے سربراہ علی اکبر صالحی نے بھی عالمی برادری سے نطنز میں انجام پانے والی دہشت گردی کے خلاف موثر موقف اختیار کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس وقت یہ سوال موجود ہے کہ جرمنی اور روس کی جانب سے اس تخریب کاری کی مذمت کئے جانے کے باوجود کیوں آئی اے ای اے اس پر پراسرار خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے؟ اگرچہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ دہشت گردانہ اقدام عالمی قوانین اور آئی اے ای اے کے دستور کی بھی کھلی خلاف ورزی ہے۔

تحریر: ڈاکٹر سید رضا میر طاہر

اے معبود! مجھے اس مہینے میں ذہانت اور بیداری عطا فرما اور مجھ  سے بےوقوفی اور بےعقلی کودور رکھ اور اپنی جود و سخا کے واسطے، میرے لئے اس مہینے کے دوران نازل ہونے والی ہر خیر و نیکی میں نصیب اور حصہ قرار دے، اے سب سے بڑے صاحب جود و سخا۔

اسلامی جمہوریہ ایران نے حال ہی میں اپنی جوہری تنصیبات میں یورینیم کی افزودگی 60 فیصد کی حد تک بڑھا دینے کا اعلان کیا ہے۔ یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا ہے جب گذشتہ ہفتے نطنز میں واقع ایران کی جوہری تنصیبات میں مبینہ تخریب کاری کا واقعہ رونما ہوا۔ ایران کا دعوی ہے کہ اس تخریب کاری میں اسرائیل ملوث ہے جبکہ اسرائیل ایسا اقدام ہر گز امریکہ کی رضامندی حاصل کئے بغیر انجام نہیں دے سکتا۔ یہ تخریب کاری ایسے وقت انجام پائی ہے جب امریکی وزیر دفاع اسرائیل کے دورے پر تھا اور اسرائیل کے انٹیلی جنس ادارے کا سربراہ امریکہ کے دورے میں مصروف تھا۔ اس تخریب کاری کا ایک مقصد امریکہ کی جانب سے ایران پر دباو ڈال کر جنیوا میں انجام پانے والے جوہری مذاکرات میں ایران سے اپنی شرائط منوانا ہو سکتا ہے۔
 
اسلامی جمہوریہ ایران کی ایٹمی توانائی کی تنظیم کے سربراہ علی اکبر صالحی نے اس بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا: "نطنز میں انجام پانے والا اقدام ظاہر کرتا ہے کہ ایران کی صنعتی اور سیاسی ترقی کے مخالفین کو شکست ہوئی ہے اور وہ جوہری صنعت کے شعبے میں ہماری ترقی اور ظالمانہ پابندیوں کے خاتمے کیلئے مذاکرات کی کامیابی روکنے میں ناکام رہے ہیں۔" ڈاکٹر علی اکبر صالحی نے مزید کہا: "اسلامی جمہوریہ ایران اس پست اقدام کی پرزور مذمت کرنے کے ساتھ ساتھ عالمی برادری اور ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی سے اس جوہری دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔ اسی طرح ہم اس دہشت گردی میں ملوث قوتوں کے خلاف مناسب کاروائی کرنے کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔"
 
سیاسی ماہرین کے مطابق نطنز میں تخریب کاری میں ملوث قوتوں خاص طور پر اسرائیل کا مقصد جنیوا میں جاری جوہری مذاکرات کو سبوتاژ کرنا اور ایران کے پاس موجود جدید سینٹری فیوجز کو نقصان پہنچا کر اسے مزید یورینیم افزودگی سے محروم کرنا تھا۔ لیکن وہ اپنے دونوں مقاصد میں ناکام رہے ہیں۔ اسی طرح اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اس اقدام کے ذریعے اندرونی سطح پر اپنی پوزیشن بہتر بنانے کا خواہاں تھا۔ اس مقصد میں بھی اسے شکست حاصل ہوئی ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے اراکین پارلیمنٹ نے بھی اس دہشت گردانہ اقدام پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ سیاسی ہتھکنڈوں کے ذریعے ایران کا جوہری پروگرام روکنے میں ناکام ہونے کے بعد ان اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آیا ہے۔ نطنز میں تخریب کاری کا نتیجہ نہ صرف اسلامی جمہوریہ ایران کے دشمن ممالک کے حق میں ظاہر نہیں ہوا بلکہ الٹا ان کے نقصان میں ظاہر ہوا ہے۔
 
ایران نے اس کھلی دہشت گردی کے جواب میں اپنی یورینیم کی افزودگی 60 فیصد کی سطح تک بڑھا دینے کا اعلان کیا ہے۔ تازہ ترین رپورٹس کے مطابق ایران نے اس پر عمل کرنا بھی شروع کر دیا ہے اور جدید نسل کے سینٹری فیوجز کو بروئے کار لا چکا ہے۔ ایران کے نائب وزیر خارجہ عباس عراقچی نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ اس ضمن میں ایران نے آئی اے ای اے کے سربراہ کو بھی ایک خط کے ذریعے مطلع کر دیا ہے۔ کچھ ہفتے پہلے ہی اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اپنی تقریر میں واضح کیا تھا کہ ایران اپنے ملک کو درپیش ضروریات کے پیش نظر یورینیم افزودگی کو 60 فیصد کی سطح تک بھی بڑھا سکتا ہے۔
 
ایران کی جانب سے یورینیم افزودگی کی سطح 60 فیصد تک بڑھا دیے جانے کا اعلان درحقیقت اس تخریب کاری کا ردعمل ہے جس کا مقصد ایران کی جوہری سرگرمیوں میں بنیادی خلل ایجاد کرنا تھا۔ دوسری طرف یورپی ممالک، جو گذشتہ تین برس سے ایران کے خلاف اچھے پولیس مین کے طور پر عمل کر رہے ہیں، نے نہ صرف اس تخریب کاری کی مذمت نہیں کی بلکہ محض ایک بیانیے پر اکتفا کیا ہے۔ ان کا یہ بیانیہ اسرائیل کی مذمت کی بجائے اسے شاباش دینے کے مترادف دکھائی دیتا ہے۔ اسرائیلی حکام نے دعوی کیا ہے کہ اس تخریب کاری کے باعث نطنز میں جوہری تنصیبات کی سرگرمیاں 9 ماہ کیلئے روک دی گئی ہیں۔ لیکن ایران کی جانب سے چند دن بعد ہی انہی جوہری تنصیبات میں 60 فیصد یورینیم افزودگی کے آغاز نے اس جھوٹے دعوے کی قلعی کھول دی ہے۔
 
اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے فوری طور پر یورینیم افزودگی کی سطح 60 فیصد تک بڑھا دیے جانے کا عمل امریکہ اور اسرائیل کیلئے ایک خاص پیغام کا حامل ہے۔ انہیں یہ پیغام دیا گیا ہے کہ امریکہ کی بدمعاشی اور ظالمانہ اقدامات کے مقابلے میں خاموشی اختیار کرنے کا وقت گزر چکا ہے اور اب امریکہ یا اسرائیل کے جارحانہ اقدامات کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔ اسی طرح ایران کا یہ عمل دنیا کی دیگر اقوام کو بھی یہ اہم پیغام دے رہا ہے کہ وہ بھی امریکہ اور اسرائیل کی بدمعاشی کے خلاف اٹھ کھڑی ہوں۔ ایران نے نطنز میں تخریب کاری کا شکار ہونے والی آئی آر 1 سینٹری فیوجز کی جگہ ایسی نئی نسل کے سینٹری فیوجز نصب کئے ہیں جو آئی آر 1 کی نسبت پانچ گنا زیادہ تیزی سے افزودگی انجام دیتے ہیں۔

تحریر: علی احمدی

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے محفل انس با قرآن سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: امریکہ حق بات کو قبول نہیں کرنا چاہتا جبکہ مذاکرات کو طولانی کرنے کی اجازت بھی نہیں دینی چاہیے۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے رمضان المبارک کے پہلے دن محفل انس با قرآن سے خطاب کرتے ہوئےفرمایا: قرآن مجید کی ہدایات کسی خاص علاقہ یا خطہ اور کسی خاص قوم اور قبیلہ کے لئے نہیں بلکہ قرآن مجید کی ہدایات پوری دنیا اور عالم بشریت کے لئے ہیں۔ قرآن مجید میں انسانی زندگی کے ہر شعبہ کے لئے خاص منصوبہ موجود ہے ۔ قرآن مجید میں ہر درد کی دوا موجود ہے اور بشری مشکلات کے راہ حل بھی موجود ہیں۔ قرآن انسان کے لئے بہترین ہادی اور رہنما ہے کیونکہ یہ اللہ کی کتاب ہے اور اللہ نے ہی انسان کو بھی پیدا کیا ہے اور اس کے ہدایت کا منشور بھی قرآن مجید کی شکل میں نازل کیا ہے ہمیں قرآن مجید کے دستورات کے مطابق زندگی بسر کرنی چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مذاکرات میں شریک حکام کو متنبہ کرتے ہوئے فرمایا: مذاکرات کو با مقصد بنانے کی کوشش کریں اور مذاکرات کو طول دینے کی اجازت نہ دیں کیونکہ امریکہ حق بات کو قبول نہیں کرنا چاہتا اور مذاکرات کے ذریعہ ایران کا وقت ضائع کرنے کی کوشش کررہا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: یورپی ممالک خصوصی جلسات میں ایران کے بر حق ہونے کی تائيد کرتے ہیں لیکن امریکہ کی منہ زوری کے سامنے وہ بھی بے بس ہوجاتے ہیں۔ امریکہ حق بات قبول نہیں کرےگا بلکہ وہ اپنی باطل بات کو مسلط کرنے کی کوشش کرےگا لہذا ایرانی حکام کو ہوشیار رہنا چاہیے۔

اے معبود! مجھے اس مہینے میں اپنی خوشنودی سے قریب تر فرما اور مجھے اپنی ناراضگی اور انتقام سے دور رکھ، اور مجھے اپنی آیات کی قرائت اور تلاوت  کی توفیق عطا فرما، اے مہربانوں کے سب سے بڑے مہربان۔

(بقره185) ماه رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ہے جو لوگوں کے لئے ہدایت ہے اور اس میں ہدایت اور حق و باطل کے امتیاز کی واضح نشانیاں موجود ہیں لہٰذا جو شخص اس مہینہ میں حاضر رہے اس کا فرض ہے کہ روزہ رکھے اور جو مریض یا مسافر ہو وہ اتنے ہی دن دوسرے زمانہ میں رکھے. خدا تمہارے بارے میں آسانی چاہتا ہے زحمت نہیں چاہتا. اور اتنے ہی دن کا حکم اس لئے ہے کہ تم عدد پورے کردو اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہدایت پر اس کی کبریائی کا اقرار کرو اور شاید تم اس طرح اس کے شکر گزار بندے بن جاؤ

مہر خبررساں ایجنسی نے چینی وزارت خارجہ کی وبگاہ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان ژاؤ لیجیان نے عالمی سطح پرمسلمانوں کے خلاف امریکی سازشوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ نے کافی عرصہ سے دنیا بھر کے مسلمانوں کو مصیبت میں مبتلا کررکھا ہے۔ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے چین کے صوبہ سینکیانگ میں مسلمانوں کی صورتحال کے بارے میں امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلینکن کے بیان کو رد کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ اپنے ملک میں سرخ فام اور سیاہ فام لوگوں کی نسل کشی کررہا ہے اور اس نے کئی برسوں سے عالمی سطح پر مسلمانوں کو بڑی بڑی مصیبتوں میں ڈال رکھا ہے۔ چینی وزارت خآرجہ کے ترجمان نے کہا کہ مسلمان ممالک اور چین کے درمیان اختلاف ڈالنے کی امریکی سازش ناکام ہوجائےگی اور آج دنیا بھر کے مسلمان امریکہ کو اپنا ایک نمبر کا دشمن سمجھتے ہیں۔ اس نے کہا کہ امریکہ اب تک دہشت گردی کو بہانہ بنا کر80 ممالک میں 8 لاکھ  سے زائد افراد کو قتل کرچکا جن میں 3 لاکھ 30 ہزار عام شہری بھی شامل ہیں۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر حسن روحانی نے رمضان المبارک کی آمد پر اسلامی ممالک کے سربراہان کو اپنے علیحدہ علیحدہ پیغامات میں مبارکباد پیش کی ہے۔ صدر روحانی نے کہا کہ رمضان املبارک کا مہینہ اللہ تعالی کی ضیافت کا مہینہ ہے یہ مہینہ اللہ تعالی کی بندگی ، عبادت ، تقوی اور پرہیز گاری کا مہینہ ہے ۔ صدر روحانی نے اسلامی ممالک کی پیشرفت ، ترقی اور باہمی اتحاد و یکجہتی کے سلسلے میں دعا کی ۔ صدر روحانی نے اپنے پیغام میں کہا کہ اللہ تعالی اس مہینے میں مسلمانوں پر رحمت ، برکت اور مغفرت نازل فرمائے اور انھیں سرافرازی اور سربلندی عطا فرمائے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ماہ مبارک رمضان کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا: اے لوگو! تمہاری طرف رحمتوں اور برکتوں والا مہینہ آرہا ہے۔ جس میں گناہ معاف ہوتے ہیں۔ یہ مہینہ خدا کے ہاں سارے مہینوں سے افضل و بہتر ہے۔ جس کے دن دوسرے مہینوں کے دنوں سے بہتر، جس کی راتیں دوسرے مہینوں کی راتوں سے بہتر اور جس کی گھڑیاں دوسرے مہینوں کی گھڑیوں سے بہتر ہیں۔ یہی وہ مہینہ ہے جس میں حق تعالیٰ نے تمہیں اپنی مہمان نوازی میں بلایا ہے اور اس مہینے میں خدا نے تمہیں بزرگی والے لوگوں میں قرار دیا ہے کہ اس میں سانس لینا تمہاری تسبیح اور تمہارا سونا عبادت کا درجہ پاتا ہے۔ اس میں تمہارے اعمال قبول کیے جاتے اور دعائیں منظور کی جاتی ہیں۔ پس تم اچھی نیت اور بری باتوں سے دلوں کے پاک کرنے کے ساتھ اس ماہ میں خدائے تعالیٰ سے سوال کرو کہ وہ تم کو اس ماہ کے روزے رکھنے اور اس میں تلاوتِ قرآن کرنے کی توفیق عطا کرے، کیونکہ جو شخص اس بڑائی والے مہینے میں خدا کی طرف سے بخشش سے محروم رہ گیا، وہ بدبخت اور بدانجام ہوگا۔

اس مہینے کی بھوک پیاس میں قیامت والی بھوک پیاس کا تصور کرو، اپنے فقیروں اور مسکینوں کو صدقہ دو، بوڑھوں کی تعظیم کرو، چھوٹوں پر رحم کرو اور رشتہ داروں کے ساتھ نرمی و مہربانی کرو، اپنی زبانوں کو ان باتوں سے بچاؤ کہ جو نہ کہنی چاہئیں، جن چیزوں کا دیکھنا حلال نہیں، ان سے اپنی نگاہوں کو بچائے رکھو، جن چیزوں کا سننا تمہارے لیے روا نہیں، ان سے اپنے کانوں کو بند رکھو، دوسرے لوگوں کے یتیم بچوں پر رحم کرو ،تاکہ تمہارے بعد لوگ تمہارے یتیم بچوں پر رحم کریں، اپنے گناہوں سے توبہ کرو، خدا کی طرف رخ کرو، نمازوں کے بعد اپنے ہاتھ دعا کے لیے اٹھاؤ کہ یہ بہترین اوقات ہیں، جن میں حق تعالیٰ اپنے بندوں کی طرف نظر رحمت فرماتا ہے اور جو بندے اس وقت اس سے مناجات کرتے ہیں، وہ انکو جواب دیتا ہے اور جو بندے اسے پکارتے ہیں، ان کی پکار پر لبیک کہتا ہے۔

 اے لوگو! اس میں شک نہیں کہ تمہاری جانیں گروی پڑی ہیں۔ تم خدا سے مغفرت طلب کرکے ان کو چھڑانے کی کوشش کرو۔ تمہاری کمریں گناہوں کے بوجھ سے دبی ہوئی ہیں، تم زیادہ سجدے کرکے ان کا بوجھ ہلکا کرو، کیونکہ خدا نے اپنی عزت و عظمت کی قسم کھا رکھی ہے کہ اس مہینے میں نمازیں پڑھنے اور سجدے کرنے والوں کو عذاب نہ دے اور قیامت میں ان کو جہنم کی آگ کا خوف نہ دلائے۔ اے لوگو! جو شخص اس ماہ میں کسی مؤمن کا روزہ افطار کرائے تو اسے گناہوں کی بخشش اور ایک غلام کو آزاد کرنے کا ثواب ملے گا۔ آنحضرت کے اصحاب میں سے بعض نے عرض کی یا رسول اللہ! ہم سب تو اس عمل کی توفیق نہیں رکھتے، تب آپ نے فرمایا کہ تم افطار میں آدھی کھجور یا ایک گھونٹ شربت دے کر بھی خود کو آتشِ جہنم سے بچا سکتے ہو، کیونکہ حق تعالیٰ اس کو بھی پورا اجر دے گا، جو اس سے کچھ زیادہ دینے کی توفیق نہ رکھتا ہو۔

 اے لوگو! جو شخص اس مہینے میں اپنا اخلاق درست کرے تو حق تعالیٰ قیامت میں اس کو پل صراط پر سے با آسانی گزار دے گا، جبکہ لوگوں کے پاؤں پھسل رہے ہوں گے۔ جو شخص اس مہینے میں اپنے غلام اور لونڈی سے تھوڑی خدمت لے تو قیامت میں خدا اس کا حساب سہولت کے ساتھ لے گا اور جو شخص اس مہینے میں کسی یتیم کو عزت اور مہربانی کی نظر سے دیکھے تو قیامت میں خدا اس کو احترام کی نگاہ سے دیکھے گا۔ جو شخص اس مہینے میں اپنے رشتہ داروں سے نیکی اور اچھائی کا برتاؤ کرے تو حق تعالیٰ قیامت میں اس کو اپنی رحمت کے ساتھ ملائے رکھے گا اور جو کوئی اپنے قریبی عزیزوں سے بدسلوکی کرے تو خدا روز قیامت اسے اپنے سایہ رحمت سے محروم رکھے گا۔ جو شخص اس مہینے میں سنتی نمازیں بجا لائے تو خدائے تعالیٰ قیامت کے دن اسے دوزخ سے برائت نامہ عطا کرے گا اور جو شخص اس ماہ میں اپنی واجب نمازیں ادا کرے تو حق تعالیٰ اس کے اعمال کا پلڑا بھاری کر دے گا، جبکہ دوسرے لوگوں کے پلڑے ہلکے ہوں گے۔

جو شخص اس مہینے میں قرآن پاک کی ایک آیت پڑھے تو خداوند کریم اس کے لیے کسی اور مہینے میں ختم قرآن کا ثواب لکھے گا۔ اے لوگو! بے شک اس ماہ میں جنت کے دروازے کھلے ہوئے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ وہ انہیں تم پر بند نہ کرے۔ دوزخ کے دروازے اس مہینے میں بند ہیں۔ پس خدائے تعالیٰ سے سوال کرو کہ وہ انہیں تم پر نہ کھولے اور شیطانوں کو اس مہینے میں زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے۔ پس خدا سے سوال کرو کہ وہ انہیں تم پر مسلط نہ ہونے دے۔ رمضان مبارک اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے اور یہ سارے مہینوں سے افضل ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے، جس میں جنت اور رحمت کے دروازے کھل جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں۔ اس مہینے میں ایک رات ایسی بھی ہے، جس میں عبادت کرنا ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر ہے۔

امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ جو شخص اس بابرکت مہینے میں نہیں بخشا گیا تو وہ آیندہ رمضان تک نہیں بخشا جائیگا، سوائے اس کے کہ وہ عرفہ میں حاضر ہو جائے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے وصیت فرمائی ہے کہ جب تم روزہ رکھو تو تمہارے سب اعضاء بھی روزہ دار ہونے چاہیئے، یعنی ان کو حرام بلکہ مکروہ چیزوں اور کاموں سے بچائے رکھو۔ نیز فرمایا کہ تمہارے روزے کا دن عام دنوں کی طرح نہ ہو۔ پھر فرمایا کہ روزہ صرف کھانے پینے سے اجتناب کرنا نہیں بلکہ حالتِ روزہ میں اپنی زبان کو جھوٹ سے اور آنکھوں کو حرام سے دور رکھو۔ روزے کی حالت میں کسی سے لڑائی جھگڑا نہ کرو، حسد نہ کرو۔ کسی کا گلہ شکوہ نہ کرو اور جھوٹی قسم نہ کھاؤ، بلکہ سچی قسم سے بھی پرہیز کرو، گالیاں نہ دو، ظلم نہ کرو، جہالت کا رویہ نہ اپناؤ۔ بیزاری ظاہر نہ کرو اور یاد خدا اور نماز سے غفلت نہ برتو۔ ہر وہ بات جو نہ کہنی چاہیئے، اس سے خاموشی اختیار کرو، صبر سے کام لو، سچی بات کہو، برے آدمیوں سے الگ رہو۔ بری باتوں، جھوٹ بولنے، بہتان لگانے، لوگوں سے جھگڑنے، گلہ کرنے اور چغلی کرنے جیسی سب چیزوں سے پرہیز کرو۔ اپنے آپ کو آخرت کے قریب جانو۔

رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سنا کہ ایک عورت بحالت روزہ اپنی کنیز کو گالیاں دے رہی ہے تو حضرت نے کھانا منگوایا اور اس عورت سے کہا کہ یہ کھانا کھا لو۔ اس نے عرض کی کہ میں روزے سے ہوں، آنحضرت نے فرمایا کہ یہ کس طرح کا روزہ ہے جبکہ تو نے اپنی کنیز کو گالیاں دی ہیں۔ بنابریں روزہ محض کھانے پینے سے اجتناب کرنے کا نام نہیں بلکہ حق تعالیٰ نے تو روزے کو تمام قبیح کاموں یعنی بدکرداری و بدگفتاری وغیرہ سے محفوظ قرار دیا ہے، پس اصل و حقیقی روزے دار بہت کم اور بھوکے پیاسے رہنے والے بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا کہ کتنے ہی روزہ دار ہیں کہ جن کے لئے اس میں بھوکا پیاسا رہنے کے سوا کچھ نہیں اور کتنے ہی عبادت گزار ہیں کہ جن کا حصہ ان میں سوائے بدن کی زحمت اور تھکن کے کچھ نہیں ہے۔ کیا کہنا اس عقل مند کی نیند کا جو جاہل کی بیداری سے بہتر ہے اور کیا کہنا اس صاحب فراست کا، جس کا روزے سے نہ ہونا روزداروں سے بہتر ہے۔

ماہ مبارک رمضان توبہ اور مغفرت کے لئے بہترین مہینہ ہے، کیونکہ اس مہینہ میں انسان کا خدا سے رابطہ پہلے کی نسبت زیادہ ہو جاتا ہے۔ توبہ ایک لطف الہیٰ ہے جو انسان کے اندر خدا کی طرف واپسی اور اس کی بندگی میں شدت کا باعث بنتا ہے اور انسان کو ناامیدی سے نکال دیتا ہے۔ توبہ رجوع کرنے اور پلٹنے کے معنی میں ہے، یعنی اپنے گناہوں پر پشیمان ہو اور خدا کی طرف رجوع کرے۔ حقیقت توبہ یہ ہے کہ انسان اپنے گذشتہ برے کاموں سے پشیمان ہو، اس کے ساتھ ارادہ کرے کہ وہ ان کاموں کو چھوڑ دے گا اور ان کی طرف دوبارہ پلٹ کر بھی نہیں دیکھے گا۔ علامہ حلی رہ فرماتے ہیں: توبہ یعنی انجام دیئے ہوئے گناہوں پر پشیمان ہونا اور آئندہ ان کاموں کے انجام نہ دینے کا عزم و ارادہ کرنا ہے۔

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: جب بندہ توبہ نصوح کرتا ہے تو خداوند عالم اس سے محبت کرتا ہے اور اس کے گناہوں کو دنیا و آخرت میں چھپا دیتا ہے۔ امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں: خداوند اپنے بندوں کو اتنی قدرت و مہلت دیتا ہے کہ جو چیزیں خدا کی مخالفت اور نافرمانی میں انجام دی ہیں، ان کو چھوڑ کر دوبارہ خدا کی طرف پلٹ آئیں۔ آپ توبہ کی اہمیت بیان کرتے ہوئے مثال دیتے ہیں کہ جو شخص سفر میں اپنے قافلے سے بچھڑ گیا ہو اور کاروان کو گم کر دیا ہو، رات کی تاریکی میں قافلے کی تلاش کی کوشش کرے اور حالت یہ ہو کہ وہ بھوکا اور پیاسا ہو، خوف کے مارے مارے پھر رہا ہو، لیکن جب ناامید اور مایوس ہو جائے اور اسی وقت کاروان مل جائے تو وہ شخص کتنا خوش ہوگا، جب انسان توبہ و استغفار کرتا ہے  تو خداوند متعال کو اس شخص سے بھی زیادہ خوشی و مسرت ہوتی ہے۔

توبہ انسان کے دلوں پر گناہوں کی وجہ سے لگے ہوئے زنگ کو صاف کر دیتی ہے۔ امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں: ہر مومن انسان کے دل پر ایک سفید رنگ کا وسیع نقطہ ہے، جو نورانی ہے، جب انسان گناہ کا مرتکب ہوتا ہے تو اس سفید نقطہ پر ایک کالا نقطہ ابھر آتا ہے۔ اگر وہ توبہ کرے تو سیاہی مٹ جاتی ہے، لیکن اگر توبہ نہ کرے اور گناہون کو بجا لاتا رہے تو سیاہی دن بدن بڑھتی ہے، یہاں تک کہ پوری سفیدی سیاہی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ توبہ کرنے میں دیر کرنے کی صورت میں انسان تین بڑے خطرات میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
1۔ اگر انسان توبہ کرنے میں دیر کرے تو موت اس کے گلے لگ سکتی ہے اور اس کو توبہ و استغفار کا وقت میسر نہیں ہوسکتا۔
2۔ انسان توبہ نہ کرے یا توبہ کرنے میں دیر کرے تو گناہوں کے سبب وہ شقاوت اور قساوت کے درجے تک پہنچ جاتا ہے اور جب دلوں پر زنگ کا ڈھیر لگ جائے تو علاج ممکن نہیں۔
3۔ اگر انسان توبہ کرنے میں دیر کرے تو ممکن ہے کہ اس کے اعمال صالح بھی خدا کے ہاں قبول نہ ہوں، چونکہ قرآن کریم میں ارشاد الہیٰ ہے: خداوند متعال فقط متقی افراد کے اعمال کو قبول کرتا ہے۔

حضرت علی علیہ السلام توبہ و استغفار کے لئے کچھ شرائط بیان فرماتے ہیں:
1۔ انسان اپنے گذشتہ انجام دیئے ہوئے برے اعمال ہر اظہار پشیمانی کرے۔
2۔ انسان ارداہ کرے کہ آئندہ ان گناہوں کو انجام نہیں دے گا۔
3۔ اگر اس کی گردن پر کوئی حقوق الناس ہو تو اسے ادا کرے۔
4۔ جن واجبات کو بجا نہ لایا ہو انہیں بجا لائے۔
بنابریں ماہ مبارک رمضان میں انسان کو چاہیئے کہ وہ صحیح معنوں میں خالق کی عبادت بجا لائے اور اس بابرکت مہینے میں مہمان خدا بننے کی کوشش کرے اور اعمال صالح کے ذریعے اپنے درجات کو بلند کرے۔ عظیم ہیں وہ لوگ جنہیں اس بابرکت مہینے میں مہمان خدا بننے اور توبہ و استغفار کرنے کا شرف حاصل ہو جائے اور بدبخت ہیں وہ لوگ جنہیں مہمان خدا بننے کی توفیق حاصل نہ ہو اور یہ مقدس مہینہ بغیر بخشش و عفو کے گزر جائے۔ بنابریں ہمیں اس مقدس مہینے میں توبہ و استغفار کرکے کسب فیض حاصل کرنا چاہیئے اور اس عظیم موقع کو ضائع نہیں کرنا چاہیئے۔ خدا ہمیں ماہ مبارک رمضان میں عبادت الہیٰ بجا لانے اور توبہ و استغفار کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔

تحریر: محمد لطیف مطہری کچورو