سلیمانی

سلیمانی

تل ابیب: صیہونی حکومت نے پارلیمنٹ کے اگلے سیشن میں عدالتی اصلاحات کا بل لانے کا اعلان کردیا۔ وزیر ٹرانسپورٹ میری ریگیو نے کہا کہ حکومت وقفے کے فوری بعد اپنے عدالتی اصلاحات کے منصوبے کے ساتھ آگے بڑھے گی۔ منصوبے کو عارضی طور پر روکا تھا۔ 25 اپریل کو یوم آزادی کے بعد پارلیمنٹ کا سیشن ہوگا۔ اس کے بعد ہم قانون سازی کو جاری رکھیں گے۔ انہوں نے کہاکہ وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے مذاکرات کی خاطر قانون سازی میں وقفہ دیا ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا ہے تو ہم اسے دوبارہ تصدیق کے لیے لائیں گے۔ حزب اختلاف کے رہنما ایویگڈور لائبرمین نے اپوزیشن جماعتوں سے عدالتی اصلاحات کے قانون پر حکومت کے ساتھ مذاکرات کو منجمد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ نیتن یاہو کے پاس قانون سازی کرنے کا واضح منصوبہ ہے ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔

تہران : ایرانی پاسداران انقلاب کے کمانڈر میجر جنرل حسین سلامی نے لبنان میں 41 سال سے لاپتہ ایرانی فوجی افسر احمد متوسلیان سمیت چار افراد کی شہادت کی تصدیق کردی۔ میجر جنرل حسین سلامی نے احمد متوسلیان، سعید، محمد طوقانی اور مہدی ذاکر حسینی کے اہل خانہ سے نوروز کے موقع پر ملاقاتیں کیں۔ اس ملاقات میں انہوں نے احمد متوسلیان کی شہادت کی باضابطہ طور پر تصدیق کردی۔ میجر جنرل حسین سلامی نے کہا کہ آج ایران میں سلامتی، امن، ترقی اور طاقت ان کی مرہون منت ہے۔ انہوں نے احمد متوسلیان کو القدس فتح کرنے کی راہ کا پہلا ایرانی شہید قرار دیا اور کہاکہ آج مزاحمتی محاذ کی فتوحات ان کے شروع کیے گئے اسی راستے کا نتیجہ ہیں جسے انہوں نے القدس کو آزاد کرنے اور فتح کرنے کے لیے کھولا تھا۔احمد متوسلیان ان چار ایرانیوں میں سے ایک تھے جو 5 جولائی 1982 کو اس وقت لبنان میں لاپتہ ہو گئے تھے جب وہ سیاسی اور فوجی رہنماؤں کے ایک اعلیٰ سفارتی گروپ کےحصے کےطورپر شام آئے تھے اورپھر لبنان چلے گئے تھے۔ جس گاڑی میں احمد متوسلیان جار ہے تھے اس میں ان کے ساتھ ایک گروپ تھا ۔ یہ گروپ بیروت جاتے ہوئے ایک چوکی پر غائب ہوگیا تھا۔

پاکستان کی پارلیمنٹ کے اسپیکر راجہ پرویز اشرف اور ان کے نائب زاہد اکرم درانی نے ہفتہ کے روز اس موقع پر ایران کو مبارکباد کے پیغامات بھیج گئے۔
بلاشبہ 1 اپریل 1979 ایران کے اسلامی انقلاب کی تاریخ میں ایک اہم موڑ ہے۔ کیونکہ پہلوی کی ظالم حکومت کے کا تختہ الٹنے کے بعدایران کے عوام نے اپنے  دانشمند قائد اور بانی اسلامی انقلاب امام خمینی (رح) کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے وسیع شرکت سے 98 فیصد ووٹوں کے ساتھ، "اسلامی جمہوریہ" کو اسلامی طرز حکمرانی کے نظام اور نمونے کے طور پر منتخب کیا اور اسلامی انقلاب کے قیام میں دینی جمہوریت اور قوم کی پختہ ارادے کے مظہر کو تاریخ میں درج کر کے دنیا کو دکھایا۔

سپاہ پاسداران نے اتوار کے روز شام کے دارالحکومت کے مضافاتی علاقے میں جمعہ کی صبح ناجائز صیہونی ریاست کے ایک گھناؤنے حملے کے دوران زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے فوجی مشیر کی شہادت کی تصدیق کے لیے ایک بیان جاری کیا۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ بلاشبہ جعلی اور مجرم حکومت کی طرف سے کیے گئے جرم کا جواب دیا جائے گا اور ناجائز صیہونی ریاست سپاہ پاسداران کے فوجی مشیر کی شہادت کی قیمت ادا کرے گی۔
سپاہ پاسداران نے معزز شہید کے اہل خانہ اور دوستوں سے تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے اعلان کیا کہ اتوار کی سہ پہر ایک سوگ کی تقریب منعقد کی جائے گی۔
جمعہ کی صبح دمشق کے قریب شامی فوجی اڈے پر ناجائز صیہونی ریاست کے بمبار طیاروں کے مجرمانہ حملے میں سپاہ پاسداران کے ایک اور فوجی مشیر میلاد حیدری شہید ہو گئے۔
حیدری اور مہقانی جعفرآبادی کو بدھ کو بالترتیب ہمدان اور گلستان صوبوں میں سپرد خاک کیا جائے گا۔

مہر خبررساں ایجنسی نے فلسطینی الیوم ویب سائٹ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ گزشتہ شام بیت المقدس میں کم از کم 35 ہزار فلسطینیوں نے عشاء اور تراویح کی نمازیں ادا کیں۔

واضح رہے کہ صہیونی حکومت کی طرف سے مسجد الاقصی میں فلسطینیوں کی آمد پر پابندی عائد کرنے کے بعد بڑے پیمانے پر فلسطینیوں نے بیت المقدس کا رخ کیا ہے۔

یاد رہے کہ مختلف فلسطینی گروہوں نے لوگوں سے کہا ہے کہ وہ آنے والے دنوں میں، خاص طور پر 6 سے 12 اپریل تک مسجد اقصیٰ میں بڑی تعداد میں شرکت کریں۔

رپورٹ کے مطابق، آج علی الصبح فلسطینی ذرائع نے مقبوضہ بیت المقدس اور مغربی کنارے کے مختلف علاقوں پر صہیونیوں کی طرف سے حملے کی اطلاع دی ہے۔

فلسطینی ذرائع نے گذشتہ شام شہر جنین میں مزاحمتی جنگجوؤں کی طرف سے صہیونیت مخالف متعدد کارروائیوں کی اطلاع دی ہے۔

اطلاع کے مطابق، جنین کے مغربی علاقوں میں مزاحمتی گروہوں کی جانب سے صہیونی فوجیوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

خدیجۂ کبری سلام اللہ علیہا
خَدیجَہ بنت خُوَیلِد (متوفی سنہ 10 بعثت) خدیجۃ الکبری و ام المومنین کے نام سے مشہور، پیغمبر اکرمؐ کی اولین زوجہ اور حضرت زہراؑ کی مادر گرامی ہیں۔ آپ نے بعثت سے پہلے حضرت محمدؐ کے ساتھ شادی کی۔ آپ آنحضرت پر ایمان لانے والی پہلی خاتون ہیں۔

حضرت خدیجہؑ نے اپنی ساری دولت اسلام کی راہ میں خرچ کی۔ پیغمبر اکرمؐ نے حضرت خدیجہؑ کے احترام میں ان کی زندگی کے دوران دوسری زوجہ اختیار نہیں کی اور آپ کی وفات کے بعد بھی آپ کو اچھے الفاظ میں یاد فرماتے تھے۔

ایک قول کی بنا پر پیغمبر اکرمؐ کے حضرت خدیجہؑ سے دو بیٹے قاسم و عبداللہ، چار بیٹیاں زینب، رقیہ، ام کلثوم اور حضرت فاطمہؑ تھیں۔ اس بنا پر ابراہیم کے علاوہ پیغمبر اسلامؐ کی باقی اولاد حضرت خدیجہؑ سے ہی تھیں۔

حضرت خدیجہؑ نے ہجرت سے تین سال پہلے 65 سال کی عمر میں مکہ میں وفات پائی۔ پیغمبر اکرمؐ نے آپ کو قبرستان معلاۃ میں سپرد خاک فرمایا۔
سوانح حیات

حضرت خدیجہؑ، خویلد بن اسد بن عبد العزی بن قصی القرشیہ الاسدیہ[1]اور فاطمہ بنت زائدہ[2] کی بیٹی تھیں۔ آپ بعثت سے تیس یا چالیس سال پہلے مکہ میں پیدا ہوئیں اور اسی شہر میں اپنے والد کے گھر پر پرورش پائی۔[3]

تاریخی مآخذ میں اسلام سے پہلے حضرت خدیجہ کے بارے میں کوئی دقیق معلومات میسر نہیں صرف اتنا ملتا ہے کہ آپ ایک مالدار خاتون تھیں، تجارت کرتی تھیں اور اپنے سرمایہ کو مضاربہ اور تجارت کے لئے لوگوں کو استخدام کرنے میں صرف کرتی تھیں۔[4]

تاریخی مآخذ میں آپ کے مقام و منزلت اور حسب و نسب کے اعتبار سے نیک نامی کی طرف اشارہ ہوا ہے؛ ابن سید الناس اس سلسلے میں کہتے ہیں: "آپ ایک شریف اور با درایت خاتون تھیں جنہیں خدا نے خیر اور کرامت عطا کی۔ نسب کے لحاظ سے عرب کے ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں لیکن عظیم شرافت اور دولت کی مالکہ تھیں۔[5]

بلاذری نے واقدی سے یوں نقل کیا ہے: خدیجہؑ بنت خویلد اعلی حسب و نسب کی مالکہ اور ایک دولت مند تاجر خاتون تھیں۔[6]

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ

پیغمبر اکرمؐ سے شادی

تمام تاریخی مآخذ حضرت خدیجہ کو پیغمبر اکرمؐ کی پہلی زوجہ مانتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود اس ازدواج کی تاریخ دقیق مشخص نہیں ہے۔ حضرت خدیجہ سے شادی کے وقت حضرت محمدؐ کی عمر 21 سے 37 سال کے درمیان ذکر کی گئی ہے۔[7] لیکن جو چیز تمام مورخین کے یہاں قابل اعتماد ہے وہ 25 سال ہے۔[8] چنانچہ مآخذ میں آیا ہے کہ جب حضرت خدیجہؑ حضرت محمدؐ کے نیک سلوک، اچھے گفتار، اعلی اخلاقی اقدار اور امانت داری سے متاثر ہوئیں تو انہوں نے پبغمبر اکرمؐ کو اپنے تجارتی سامان پر امین مقرر کرکے تجارت کے لئے شام روانہ کیا اور اس سفر سے واپسی پر جب میسرہ نامی اپنے غلام کی زبانی پیغمبر اکرمؐ کے منفرد خصوصیات سے آشنا ہوئیں تو انہوں نے حضرت محمدؐ سے شادی کی خواہش ظاہر کی۔[9] بعض مورخین اس بات کے معتقد ہیں کہ حضرت خدیجہ نے پیغمبر اکرمؐ کی صداقت، امانت‌، حسن خلق اور نیک سلوک سے متاثر ہو کر آپ سے شادی کی خواہش ظاہر کی۔[10] ابن اثیر نے بھی کتاب اسد الغابہ میں انہیں عوامل کو بیان کیا ہے۔[11] اہل سنت کے اکثر تاریخی مآخذ میں پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے سے پہلے حضرت خدیجہ (س) کے شوہر دار اور بچہ دار ہونے کا ادعا ملتا ہے؛[حوالہ درکار] بلاذری انساب الاشراف میں ابو ہالہ ہند بن نباش کو پیغمبر اکرمؐ سے پہلے حضرت خدیجہ کا شوہر قرار دیتے ہیں۔[12] اسی طرح "عتیق بن عابد بن عبداللہ بن عمر بن مخزوم" کو بھی حضرت خدیجہ (س) کا شوہر قرار دیا گیا ہے۔[13]

ان سب کے باوجود بعض شیعہ علماء اس بات کے معتقد ہیں کہ حضرت خدیجہ (س) نے پیغمبر اکرمؐ کی زوجیت میں آنے سے پہلے کسی سے شادی نہیں کی ہیں۔ ابن شہر آشوب کے مطابق سید مرتضی اپنی کتاب شافی اور شیخ طوسی اپنی کتاب التلخیص میں پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ شادی کے موقع پر حضرت خدیجہ کے باکرہ ہونے کی طرف اشارہ کئے ہیں۔[14] بعض محققین اس بات کے معتقد ہیں کہ سرزمین حجاز میں رائج قومی اور نژادی تعصبات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس بات کو قبول نہیں کیا جا سکتا کہ حضرت خدیجہ جو قریش کے بزرگوں میں سے تھیں، کی شادی قبیلہ بنی تمیم اور قبیلہ بنی مخزوم کے دو اعرابی سے انجام پائی ہو[15] اور جن اولاد کی نسبت حضرت خدیجہ کی طرف دی جاتی ہیں حقیقت میں وہ ان کی بہن ہالہ کی تھیں جن کی وفات کے بعد ان کے بچے حضرت خدیجہ کی زیر سرپرستی پلی بڑی ہیں۔[16]

آنحضرت سے شادی کے وقت آپ کی عمر

پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ شادی کے وقت حضرت خدیجہؑ کی عمر کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے اس بنا پر اس وقت آپ کی عمر 25 سے 46 سال تک بتائی گئی ہیں۔ اکثر مورخین نے پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ شادی کے وقت آپ کی عمر 40 سال بتائی ہیں۔[17] لیکن اس سلسلے میں مزید روایات بھی ہیں۔[18] جبکہ بعض مصادر کے مطابق آپ کی عمر 25 سال تھی[19] اسی طرح 28 سال[20]، 30 سال [21]، 35 سال[22]، 44 سال[23]، 45 سال[24] اور 46 سال[25] بھی کہا گیا ہے۔

پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ شادی کے وقت حضرت خدیجہ کی عمر سے متعلق صحیح معلومات حاصل کرنا دشوار ہے۔ اس کے باوجود اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ پیغمبر اکرمؐ اور خدیجہؑ کی مشترکہ زندگی کل 25 سال پر محیط تھی (15 سال بعثت سے پہلے [26]اور 10 سال بعثت کے بعد) اور تاریخی شواہد کے مطابق وقات کے وقت خدیجہؑ کی عمر 65 سال یا 50 سال تھی، یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ شادی کے وقت آپ کی عمر 25 سے 40 سال کے درمیان تھی۔ پس اگر وفات کے وقت حضرت خدیجہؑ 50 سال کی تھیں تو اس کا مطلب ہے کہ شادی کے وقت آپؑ کی عمر 25 سال تھی، اسی نظریے کو بعض محققین نے بھی ترجیح دی ہے[27] لیکن دوسری طرف سے پیغمبر اکرمؐ اور حضرت خدیجہ کا بیٹا قاسم کی وفات بعثت کے بعد ہوئی[28] جس کا لازمہ یہ نکتا ہے کہ قاسم کی ولادت کے وقت حضرت خدیجہؑ کی عمر کم از کم 55 سال جو مذکورہ نظریے کے ساتھ سازگار نہیں ہے۔

البتہ پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ شادی کے وقت حضرت خدیجہ کے کنوارہ ہونے سے متعلق بعض شیعہ علماء کے نظریے[29] سے اس نظریے کو بھی تقویت ملتی ہے کیونکہ قریش جیسے اعلی خاندان سے تعلق رکھنے والی ایسی شان و منزلت والی خاتون کا 40 سال تک بغیر شادی کے رہنا بہت بعید نظر آتا ہے۔ ان دلائل کی بنا پر بعض محققین نے شادی کے وقت خدیجہؑ کی عمر 25 یا 28 سال ذکر کی ہیں۔[30]
پیغمبر اکرمؐ سے آپ کی اولاد

اولاد پیغمبر اکرم

ابراہیم کے علاوہ پیغمبر اکرمؐ کی تمام اولاد حضرت خدیجہ سے تھیں۔[31] مشہور قول کی بنا پر پیغمبرؐ اور خدیجہ کبریؑ کی اولاد کی تعداد 6 ہیں۔[32] دو بیٹے قاسم اور عبداللہ جبکہ چار بیٹیاں؛ زینب، رقیہ، ام کلثوم اور حضرت فاطمہ(س)۔[33] بعض مصادر میں آپ کے فرزندوں کی تعداد سات یا آٹھ لکھی گئی ہے[34]، مثلا کے طور پر ابن اسحاق، ابن ہشام، اور کلینی کہتے ہیں کہ رسول خداؐ کے حضرت خدیجہ سے تین بیٹے تھے، قاسم بعثت سے پہلے جبکہ طیب اور طاہر بعثت کے بعد متولد ہوئے۔[35] بعض مورخین کا خیال ہے کہ پیغمبر اکرمؐ اور حضرت خدیجہ کی اولاد کی تعداد میں اختلاف ان کے اسماء اور القاب میں اشتباہ کی وجہ سے پیدا ہوا ہے؛ کیونکہ عبداللہ کو بعثت اور ظہور اسلام کے بعد متولد ہونے کی وجہ سے طیب و طاہر کا لقب دیا گیا تھا[36] لیکن بعض نے یہ خیال کیا کہ طیب و طاہر پیغمبر اکرمؐ کے دو اور بیٹوں کے نام ہیں۔[37]

بعض نے کہا ہے کہ پیغمبرؐ اور خدیجہؑ کے فرزندوں کی تعداد میں اختلاف کی وجہ ان کے نام اور لقب کا آپس میں مل جانا ہے۔ اس نظر کے مطابق پیغمبرؐ اور خدیجہؑ کے فرزندوں کی تعداد 6 ہیں دو بیٹے قاسم اور عبداللہ، چار بیٹیاں زینب، رقیہ، ام کلثوم، اور فاطمہؑ۔[38]

اسی طرح بعض مورخین کے مطابق حضرت فاطمہ(س) پیغمبر اکرمؐ کی اکلوتی بیٹی تھی جبکہ زینب، رقیہ اور ام کلثوم حضرت خدیجہ اور پیغمبر اکرمؐ کی ربیبہ تھیں۔[39]

    حضرت خدیجہ کی دوسری اولاد

بعض مآخذ میں کہا گیا ہے کہ حضرت خدیجہ نے پیغمبر اکرمؐ سے پہلے دو دفعہ شادی کی جن سے آپ کی اولاد بھی ہوئی۔[40] اسی سلسلے میں ہند بن ابی‌ ہالہ کو حضرت خدیجہ اور ان کے پہلے شوہر کی اولاد قرار دیتے ہیں۔[41] اس کے مقابلے میں بعض کہتے ہیں کہ حضرت خدیجہ پیغمبر اکرمؐ سے شادی کے وقت دوشیزہ تھیں اور اس سے پہلے آپ نے کوئی شادی نہیں کی تھیں[42]۔
اسلام لانا
تفصیلی مضمون: اولین مسلمان

بعض مورخین جیسے بلاذری[43] اور ابن‌ سعد (کاتب واقدی)[44] (تیسری صدی ہجری)، ابن‌ عبدالبر (پانچویں صدی ہجری)[45] اور ابن‌ خلدون (آٹھویں صدی ہجری)[46] آپ کو پیغمبر اسلام پر ایمان لانے والے پہلے مسلمان قرار دیتے ہیں۔ بعض مورخین کے مطابق اس بات پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے کہ حضرت خدیجہ پیغمبر اسلام پر ایمان لانے والی پہلی شخصیت تھیں۔[47]

اسی طرح اسلام میں السّابقون کے مصادیق کی تعیین میں بعض مآخذ حضرت خدیجہ (س) اور حضرت علیؑ کو پیغمبر اکرمؐ پر ایمان لانے والے پہلے اشخاص قرار دیتے ہیں۔[48] اسی طرح ان مآخذ میں سب سے پہلے نماز قائم کرنے والوں میں بھی حضرت علیؑ کے ساتھ حضرت خدیجہ کا نام لیتے ہیں۔[49]
اسلام میں آپ کا کردار

حضرت خدیجہؑ کی مالی امداد کی بدولت رسول خداؐ تقریبا غنی اور بے نیاز ہو گئے۔ خداوند متعال آپؐ کو اپنی عطا کردہ نعمتوں کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: وَ وَجَدَكَ عَائِلاً فَأَغْنَى(ترجمہ: اور (خدا نے) آپ کو تہی دست پایا تو مالدار بنایا)[50] رسول خداؐ خود بھی فرمایا کرتے تھے: ما نَفَعَنِي مالٌ قَطُّ ما نَفَعَني (أَو مِثلَ ما نَفَعَني) مالُ خَديجة (ترجمہ: کسی مال نے مجھے اتنا فائدہ نہیں پہنچایا جتنا فائدہ مجھے خدیجہؑ کی دولت نے پہنچایا۔)[51] رسول خداؐ نے خدیجہؑ کی ثروت سے مقروضوں کے قرض ادا کئے؛ یتیموں، تہی دستوں اور بے نواؤں کے مسائل حل کئے۔

شعب ابی طالبؑ کے محاصرے کے دوران حضرت خدیجہؑ کی دولت بنی ہاشم [اور بنی المطلب] کی امداد میں صرف ہوئی۔ یہاں تک کی احادیث میں آیا ہے کہ: أنفق أبو طالب وخديجة جميع مالہما" (ترجمہ: ابو طالبؑ اور خدیجہؑ نے اپنا پورا مال (اسلام اور قلعہ بند افراد کی راہ میں) خرچ کیا۔)[52] شعب ابی طالبؑ میں محاصرے کے دوران حضرت خدیجہؑ کا بھتیجا حکیم بن حزام گندم اور کھجوروں سے لدے ہوئے اونٹ لایا کرتا تھا اور بے شمار خطرات اور زحمت و مشقت سے بنی ہاشم کو پہونچا دیتا تھا۔[53]

یہ بخشش اس قدر قابل قدر اور خالصانہ تھی کہ خداوند عالم نے اس کی قدر دانی کرتے ہوئے اس نیک کام کو اپنی طرف سے اپنے حبیب حضرت محمدؐ کو عطا کردہ نعمات میں شمار فرمایا۔[54] پیغمبر اکرمؐ بھی اس عظیم المرتبت خاتون کی بخشندگی اور ایثار کو ہمیشہ یاد فرماتے تھے۔[55]
مقام و مرتبت

حضرت خدیجہ باعظمت، مالدار اور اپنے زمانے کے مؤثر خواتین میں سے تھیں۔[56] جابر بن عبداللہ انصاری پیغمبر اکرمؐ سے منقول ایک حدیث میں حضرت خدیجہ(س)، حضرت فاطمہ(س)، مریم اور آسیہ کو عالمین کے عورتوں کی سرادار قرار دیتے ہیں۔[57] اسی طرح پیغمبر اکرمؐ حضرت خدیجہ(س) کو دنیا کے با کمال [58] اور بہترین خاتون قرار دیتے ہیں۔[59] اسلامی مآخذ میں حضرت خدیجہ کو طاہرہ، زکیہ، مرضیہ، صدیقہ، سیدہ نساء قریش [60]، خیرالنساء [61] اور باعظمت خاتون [62] کے القاب اور ام المؤمنین کی کنیت سے یاد کرتے ہیں۔[63]

متعدد روایات میں پیغمبر اکرمؐ کے نزدیک حضرت خدیجہ کے خاص مقام و منزلت کی طرف اشارہ ہوا ہے۔ مآخذ میں آیا ہے کہ حضرت خدیجہ(س) پیغمبر اکرم کے لئے بہترین اور صادق ترین وزیر اور مشاور کی حیثیت رکھتی تھیں نیز آپ حضورؐ کے لئے سکون دل کا باعث بھی تھیں۔[64] پیغمبر اکرمؐ آپ کی وصال کے سالوں بعد بھی آپ کو یاد فرماتے ہوئے آپ کو بے نظیر اور بے مثال خاتون قرار دیتے تھے۔ جب حضرت عایشہ نے پیغمبر اکرمؐ سے کہا کہ خدیجہ آپ کے لئے ایک بوڑھی زوجہ سے زیادہ کچھ نہیں تھی، تو پیغمبر اکرمؐ بہت ناراض ہو گئے اور اس بات کے جواب میں فرمایا: "خدا نے میرے لئے خدیجہ سے بہتر کوئی زوجہ عطا نہیں فرمایا، اس نے اس وقت میری تصدیق کی جب میری تصدیق کرنے والا کوئی نہیں تھا، اس نے اس وقت میری مدد کی جب میری مدد کو کوئی حاضر نہیں تھا اور اس وقت اپنی دولت کا مکمل اختیار مجھے دے دیا جب دوسرے مجھے اپنی دولت سے دور رکھے جا رہے تھے۔" [65]

بعض معتقد ہیں کہ حضرت خدیجہ کی مادی اور دنیاوی دولت سے زیادہ ان کی معنوی ثروت اہمیت کا حامل تھی۔ انہوں نے قریش کے بزرگان اور اشراف کی طرف سے دی گئی شادی کی پیشکش کو ٹھکرانے اور پیغمبر اکرمؐ کو اپنے شوہر کے طور پر انتخاب کرنے کے ذریعے مادی اور دنیوی مال دولت پر اخروی سعادت اور بہشت کے ابدی نغمات سے بہرہ مند ہونے کو ترجیح دے کر اپنی عقلمندی اور دور اندیشی کا ثبوت دیا۔ انہوں نے ان نعمتوں سے بہرہ مند ہونے کے لئے سب سے پہلے پیغمبر اکرمؐ کی تصدیق کی اور ان کی معیت میں نماز قائم کر کے اولین مسلمان ہونے کا اعزاز بھی اپنے نام کر لیا۔
وفات

اکثر تاریخی مآخذ میں حضرت خدیجہؑ کی تاریخ وفات کو بعثت کا دسواں سال (یعنی ہجرت مدینہ سے 3 سال پہلے) قرار دیا ہے۔[66] ان مآخذ میں وفات کے وقت آپ کی عمر 65 سال ذکر کی ہیں۔[67] ابن عبدالبر کا کہنا ہے کہ خدیجہؑ کی عمر بوقت وفات 64 سال چھ ماہ تھی۔[68] بعض مصادر میں ہے کہ حضرت خدیجہؑ کا سال وفات ابو طالبؑ کا سال وفات ہی ہے۔[69] ابن سعد کا کہنا ہے کہ حضرت خدیجہؑ ابو طالبؑ کی رحلت کے 35 دن بعد رحلت کر گئی ہیں۔[70] وہ اور بعض دوسرے مؤرخین نے کہا ہے کہ آپ کی وفات کی صحیح تاریخ رمضان سنہ 10 بعثت ہے۔[71] پیغمبر اکرمؐ کے چچا ابوطالب بھی اسی سال رحلت کر گئے تھی لہذا پیغمبر اکرمؐ نے اس سال کو عام الحزن کا نام دیا۔[72]
آرامگاہ

اسلامی احادیث کے مطابق رسول اللہؐ نے آپ کو اپنی ردا اور پھر جنتی ردا میں کفن دیا اور مکہ کے بالائی حصے میں واقع پہاڑی (کوہ حجون) کے دامن میں، مقبرہ معلی' (جنت المعلی) میں سپرد خاک کیا۔[73]

آٹھویں صدی ہجری میں حضرت خدیجہ (س) کا مقبرہ ایک مرتفع گنبد کے ساتھ بنایا گیا۔[74] احتمالا یہ آرامگاہ سنہ 950 ہجری تک جس میں عثمانی پادشاہ سلطان سلیمان قانونی نے اس مقبرے کو مصری مقبروں کے طرز پر بلند گنبد کے ساتھ تجدید بنا کیا، تخریب نہیں ہوا تھا۔ نئی عمارت کی تعمیر تک حضرت خدیجہ (س) کا مزار فقط لکڑی کے ایک صندوق پر مشتمل تھا۔ اس آرامگاہ پر نصب سائن بورڈ کے مطابق سنہ 1298 میں اس کی مرمت ہوئی ہے۔[75] تیرہویں صدی میں فراہانی[76] اس مزار کے پر موجود مخمل کے کپڑوں میں ڈھانپی ہوئی لکڑی کی ضریح اور اس کی دیکھ بال پر مامور متولی اور زیارتنامہ پڑھنے والے کے متعلق خبر دیتے ہیں۔ اسی طرح آل سعود کی حکومت اور ان کے توسط سے بہت سارے مذہبی اور تاریخی مقامات کے تخریب ہونے سے پہلے مکہ جانے والے بہت سارے حجاج حضرت خدیجہ کے مقبرے کا ذکر کرتے تھے۔[77] موجودہ زمانے میں حضرت خدیجہ کے آرامگاہ پر ایک چھوتی عمارت بنی ہوئی ہے اور حج پر مکہ جانے والے حجاج اس کی زیارت سے مشرف ہوتے ہیں۔
حوالہ جات

ابن اثیر جزری، أسدالغابہ فی معرفۃ الصحابہ، ج۶، ص۷۸.
الاستيعاب، ج‏۴، ص۱۷-۱۸
ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۸، ص۱۱، شمارہ ۴۰۹۶.
ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، ج۲، ص۲۹۳؛ ابن سید الناس، عیون الاثر، ج۱، ص۶۳.
ابن سید الناس، عیون الاثر، ج۱، ص۶۳.
بلاذری، الانساب الاشراف، ج۱، ص۹۸.
ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، ۱۴۰۷ق، ج‏۵، ص۲۹۳۔
ابن شہرآشوب، المناقب آل ابی طالب، ۱۳۷۶ق، ج۱، ص۱۴۹؛ یعقوبی، تاریخ یعقوبی، بیروت، ج۲، ص۲۰؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک، ، ۱۳۸۷ق، ج۲ ، ص۲۸۰۔
ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۲۹۳۔
ابن سیدالناس، عیون الاثر، ۱۴۱۴ق، ج۱، ص۶۳۔
ابن اثیر جزری، اسد الغابہ، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۲۳۔
بلاذری، الانساب الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۴۰۶؛ ابن حبیب، المنمّق، ۱۴۹۵ق، ص۲۴۷۔
ابن حبیب، المحبّر، بیروت، ص۴۵۲۔
ابن شہرآشوب، المناقب آل ابی طالب، قم، ج۱، ص۱۵۹: «روی أحمد البلاذری و أبوالقاسم الکوفی فی کتابیہما و المرتضی فی الشافی و أبو جعفر فی التلخیص: أن النبی (ص) تزوج بہا و کانت عذراء»۔
عاملی، الصحیح، ۱۴۱۵ق، ج۲، ص۱۲۳۔
عاملی، الصحیح، ۱۴۱۵ق، ج۲، ص۱۲۵۔
ابن اثیر، الکامل، ج۲، ص۳۹؛ ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۸ ،ص۱۷۴؛ ابن اثیر جزری، اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ، ج۱، ص۲۳؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج۱،ص۹۸ و ج۹ ،ص۴۵۹ ؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک ، ج۲ ،ص۲۸۰۔
مسعودی، مروج الذہب، ج۲، ص۲۸۷ :«و فی سنۃ ست و عشرین کان تزویجہ بخدیجۃ بنت خویلد، و ہی یومئذ بنت أربعین، و قیل فی سنہا غیر ہذا»۔
بیہقی، دلائل النبوۃ، ج۲، ص۷۱؛ السیرۃ الحلبیہ، ج۱، ص۱۴۰؛ البدایۃ و النہایۃ، ج۲، ص۲۹۴: «‌وکان عمرہا إذ ذاک خمسا و ثلاثین و قیل خمسا و عشرین سنہ»؛ بلاذری انساب الاشراف، ج۱، ص۹۸۔
بلاذری، انساب الاشراف، ج۱، ص۹۸: «وتزوّج رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم خدیجۃ و ہو ابن خمس و عشرین سنہ، وہی ابنۃ أربعین سنہ۔»
جعفر مرتضی عاملی، الصحیح من سیرۃ النبی الاعظمؐ، ج۲، ص۱۱۵۔ بہ نقل از السیرۃ الحلبیہ، ج۱، ص۱۴۰؛ تہذیب تاریخ دمشق، ج۱، ص۳۰۳؛ تاریخ الخمیس، ج۱، ص۲۶۴۔
ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، ج۲، ص۲۹۵ ؛ ابن کثیر، السیرۃ النبویۃ، ج۱، ص۲۶۵۔
واقدی، مختصر تاریخ دمشق، ج۱، ص۳۰۳
واقدی، مختصر تاریخ دمشق، ج۲، ص۲۷۵؛ تہذیب الاسماء، ج۲، ص۳۴۲۔
بلاذری، انساب الاشراف، ج۱، ص۹۸: «یقال إنہ تزوّجہا و ہی ابنۃ ست و أربعین سنہ»۔
ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، ج۲، ص۲۹۵؛ بیہقی، دلائل النبوۃ، ج۲، ص۷۲۔
بیہقی، دلائل النبوۃ، ج۲، ص۷۱ ؛ جعفر مرتضی عاملی، الصحیح من سیرۃ النبی الاعظمؐ، ج۲، ص۱۱۴۔
ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، ج۲، ص۲۹۴: «و قال غیرہ بلغ القاسم أن یرکب الدابۃ و النجیبۃ ثم مات بعد النبوۃ»۔
ابن شہر آشوب، المناقب آل ابی طالب ، ج۱، ص۱۵۹: «روی أحمد البلاذری و أبو القاسم الکوفی فی کتابیہما و المرتضی فی الشافی و أبو جعفر فی التلخیص: أن النبیؐ تزوج بہا و کانت عذراء»۔
جعفر مرتضی عاملی، الصحیح من سیرۃ النبی الاعظمؐ، ج۲، ص۱۱۴۔
ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ق، ج۸ ، ص۱۷۴؛ ابن کثیر، البدایۃ والنہایۃ، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۲۹۴۔
ابن‌ سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ق، ج۸ ، ص۱۷۴؛ ابن کثیر، البدایۃ والنہایۃ، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۲۹۴۔
زرکلی، الاعلام، ۱۹۸۹م، ج۲، ص۳۰۲۔
ابن اثیر جزری، اسد الغابہ، ۱۴۰۹ق، ج۶، ص۸۱۔
ابن ہشام، سیرۃ النبی، بیروت، ج ۱، ص ۲۰۶۔
یعقوبی، تاریخ یعقوبی، بیروت، ج۲، ص۲۰؛ زرکلی، الاعلام، ۱۹۸۹م، ج۲، ص۳۰۲۔
طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۷۶ش، ج۱، ص۲۷۵۔
زرکلی، الاعلام، ج۲، ص۳۰۲: «فولدت لہ القاسم (وکان یکنی بہ) و عبداللہ (و ہو الطاہر و الطیب) و زینب و رقیہ و‌ام کلثوم و فاطمہ»۔
عاملی، الصحیح، ۱۴۱۵ق، ج ۲، صص ۲۰۷-۲۲۰۔
ابن اثیر جزری، اسد الغابہ، ۱۴۰۹ق، ج ۵، ص۷۱؛ امین، اعیان الشیعہ، ۱۴۰۹ق، ج ۶، ص۳۰۸- ۳۰۹۔
امین، اعیان الشیعہ، ۱۴۰۹ق، ج ۶، ص۳۰۸- ۳۰۹۔
ابن شہر آشوب، اسے بعض علماء سے نقل کرتے ہیں: المناقب، قم، ج۱، ص۱۵۹؛ برای استدلال‌ہا در رد فرزند داشتن حضرت خدیجہ، نک: عاملی، الصحیح، ۱۴۱۵ق، ج ۲، ص۲۰۷-۲۲۰۔
بلاذری، أنساب‏ الأشراف، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۴۷۱.
ابن‌ سعد، الطبقات‏ الكبرى، ۱۴۱۰ق، ج۳، ص۱۵.
ابن عبدالبر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۵۴۶.
ابن خلدون، تاریخ‏ ابن‏‌خلدون، ۱۴۰۸ق، ج۲، ص۴۱۰.
ابن‌اثیر، الكامل، ۱۳۸۵ق، ج۲، ص۵۷.
مقریزی، امتاع الاسماء، ۱۴۲۰ق، ج۹، ص۸۸ .
ابن اثیر جزری، أسد الغابہ، ۱۴۰۹ق، ج‏۶، ص۷۸؛ ابن عبد البر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج۳، ص۱۰۸۹
سورہ ضحی (93) آیت 8۔
مجلسی، بحار الانوار، ج19، ص 63۔
مجلسی، بحار الانوار، ج19، ص 16۔
ابن ہشام، سیرۃ النبی، ترجمہ: رسولی محلاتی، ج1، ص 221۔
مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۳۵، ص۴۲۵؛ ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی طالب، قم، ج۳، ص۳۲۰۔
ابن عبد البر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج‏۴، ص۱۸۱۷۔
طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۲، ص۲۸۱۔
ابن کثیر، البدایۃ والنہایۃ، ۱۴۰۷ق، ج‏۲، ص۱۲۹۔
ابن کثیر، البدایۃ والنہایۃ، ۱۴۰۷ق، ج‏۲، ص۱۲۹۔
مقریزی، إمتاع‏ الأسماع، ۱۴۲۰ق، ج‏۱۵، ص۶۰۔
ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، ۱۴۰۷ق، ج۳، ص۱۵۔( ابن کثیر وحی کے ابتدائی ایام میں حضرت خدیجہ(س) کے ان القابات کی طرف اشارہ کرتے ہیں)؛ بیہقی، دلائل النبوۃ، ۱۴۰۵ق، مقدمہ کتاب، ص۱۶۔
ابن اثیر جزری، أسد الغابہ، ۱۴۰۹ق، ج‏۶، ص۸۳۔
مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۱۰۰، ص۱۸۹۔
السیلاوی، الأنوار الساطعۃ، ۱۴۲۴ق، ص۲۴۔
ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۶۱ ؛ ابن اثیر جزری، أسد الغابہ، ۱۴۰۹ق، ج‏۱، ص۲۶۔
ابن عبدالبر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج۴، ص۱۸۲۴۔
مسعودی، مروج‏ الذہب، ج2، ص 282؛ ابن سیدالناس، عیون الاثر، ج1، ص 151؛ ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج4، ص1817؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج11، ص 493؛ ابن سعد، الطبقات الکبری، ج8 ، ص 14۔
طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج11، ص493: «و توفيت قبل الہجرۃ بثلاث سنين، و ہي يومئذ ابنۃ خمس و ستين سنہ»۔
ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج4، ص 1818۔
طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج11، ص 493؛ ابن سیدالناس، عیون الاثر، ج1، ص 151۔
ابن سعد، الطبقات‏ الكبرى، ج‏1، ص96۔
ابن سعد، الطبقات‏ الكبرى، ج 8 ، ص14۔
مقریزی، امتاع الاسماع، ۱۴۲۰ق، ج۱، ص۴۵.
ابو الحسن بکری، الانوار الساطعہ من الغرّاء الطاہرۃ، ص735۔
جاسر، اماکن تاریخی اسلامی در مکہ مکرّمہ، ۱۳۷۶ش، ص۱۱۵۔
رفعت پاشا، مرآۃ الحرمین، ۱۳۷۷ش، ص ۶۴۔
فراہانی، سفرنامہ میرزا محمد حسین حسینی فراہانی، ۱۳۶۲ش، ص۲۰۲۔

    حسام السلطنہ، دلیل الانام، ۱۳۷۴ش، ص۱۲۶؛ حیدرآبادی، روزنامچہ سفر حج و عتبات، ۱۳۹۰ش، ص۲۳۵۔ : ماخوذ از شیعہ ویکی

شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) ایران سعودی عرب تعلقات کی بحالی میں شہید قاسم سلیمانی کے کردار کے حوالے سے سابق عراقی وزیر اعظم عادل عبد المہدی کی تحریر۔

"حال ہی میں چین، سعودی عرب اور ایران کی جانب سے بیجنگ میں جاری کردہ مشترکہ اعلامیہ تاریخی اہمیت کا حامل ہے اور اس میں بہت سوں کا کردار ہے۔ یہ ایسا اقدام ہے جس کی کامیابی کی صورت میں خطے اور حتی دنیا کا چہرہ تبدیل ہو سکتا ہے۔ کیونکہ یہ مسئلہ محض دو باہمی اختلافات کے حامل ممالک میں تعلقات کی بحالی تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کے علاوہ یہ معاہدہ خطے میں جاری بعض حساس اور خطرناک ایشوز حل ہو جانے کا باعث بنے گا۔ اس معاہدے سے متعلق اہم اور نیا نکتہ اس پر چین کی نظارت ہونا اور خطے میں نئی مساواتیں قائم کرنے میں چین کی صلاحیتیں ہیں۔ میں ستمبر 2019ء میں چین کے سرکاری دورے پر تھا۔ چینی صدر اور وزیراعظم سے ملاقات سے پہلے شہید قاسم سلیمانی نے مجھے فون کیا اور کہا کہ آیا آپ سعودی عرب جا سکتے ہیں؟

میں نے ان سے وجہ پوچھی تو وہ کہنے لگے: "ہمارے اور سعودی عرب کے درمیان ثالثی کیلئے۔ یہ مسئلہ فوری ہے۔” میں نے انہیں جواب دیا کہ جیسے ہی بغداد واپس جاوں گا ریاض جانے کی تیاری کروں گا۔ میں نے شہید قاسم سلیمانی کی اس خواہش کو چینی حکام کے سامنے بھی بیان کیا اور انہوں نے اس کا بہت خیرمقدم کیا۔ میں نے شہید قاسم سلیمانی سے ان کی پیشکش کے بارے میں پوچھ گچھ کی۔ انہوں نے اس بارے میں جو وضاحتیں پیش کیں ان کا خلاصہ یہ ہے: "ہم قومی یکجہتی حکومت کے ذریعے یمن بحران حل ہونے میں مدد کر سکتے ہیں۔ سعودی عرب اور عراق کے درمیان تعلقات میں فروغ اور عراقی عوام سے وسیع پیمانے پر تعلقات قائم کرنے کی حمایت کر سکتے ہیں۔ دیگر ممالک کی نسبت ہمسایہ ممالک سے گفتگو آسان ہوتی ہے۔”

شہید قاسم سلیمانی نے مزید بیان کیا: "آئندہ دس سال تک تناو میں کمی کرنے کا وعدہ، غالب اور مغلوب کی بنیاد پر نہیں بلکہ باہمی احترام کی بنیاد پر، خلیج فارس میں آمدورفت کی یقین دہانی، شام، لیبیا اور خطے کے دیگر حصوں میں مسائل کو مشترکہ طور پر حل کرنا اور وزرائے امور خارجہ کا اجلاس۔” میں نے اس کے بعد سعودی برادران سے رابطہ کیا اور انہیں اطلاع دی کہ اس دورے کا مقصد آپ اور ایران کے درمیان ثالثی ہے اور شہید قاسم سلیمانی نے ایسی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے بھی اس کا خیرمقدم کہا اور میں 25 ستمبر 2019ء کی صبح ریاض روانہ ہو گیا۔ انٹیلی جنس کے سربراہ مصطفی الکاظمی، وزیر تیل ثامر الغضبان اور میرے آفس سیکرٹری محمد الہاشمی بھی میرے ہمراہ تھے۔ سعودی فرمانروا نے ایئرپورٹ پر ہمارا استقبال کیا اور رات کے آخری حصے میں ہم نے سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کی۔

یہ خبر بھی پڑھیں سعودی عرب اور شام کے درمیان مذاکرات کا آغاز

اس وقت سعودی عرب کی آرامکو تیل تنصیبات میزائل حملوں کا نشانہ بن چکی تھی اور اس کا الزام ایران پر عائد کیا جا رہا تھا۔ اگرچہ ایران نے اس واقعہ میں ملوث ہونے کا انکار کیا تھا۔ 5 ستمبر 2019ء کے دن امریکی وزیر خارجہ مائیک پمپئو نے مجھے فون کیا اور کہا کہ افواہوں کے برخلاف، آرامکو پر گرنے والے میزائل خلیج فارس کے شمال سے فائر کئے گئے ہیں اور عراق سے نہیں آئے۔ اس وقت تناو کی شدت عروج پر تھی اور سعودی ولیعہد غصے میں بات کر رہا تھا۔ جب اس کی بات ختم ہوئی تو میں نے کہا: "کیا آپ ایران سے جنگ کے خواہاں ہیں؟” اس نے کہا: "نہیں”۔ میں نے کہا اگر جنگ کا ارادہ نہیں ہے تو پھر دو راستے ہی باقی بچ جاتے ہیں۔ یا تو تناو باقی رہے اور ہر لمحہ کنٹرول سے خارج ہونے کا امکان ہے، یا مذاکرات اور گفتگو انجام پائے۔”

سعودی ولیعہد نے کہا: "ہم کئی بار اس کی کوشش کر چکے ہیں لیکن کامیاب نہیں ہوئے۔” میں نے اسے مرحوم ہاشمی رفسنجانی اور مرحوم ملک عبداللہ کے درمیان کامیاب مذاکرات کی یادہانی کروائی۔ اس نے کہا آپ کی پیشکش کیا ہے؟ میں نے کہا مذاکرات کا آغاز کریں، اپنا موقف لکھ کر دے دیں اور ہم اسے ایرانی حکام تک پہنچا دیں گے۔ ہمیں یقین ہے کہ اس کا نتیجہ وسیع مذاکرات کے آغاز کی صورت میں نکلے گا۔ سعودی ولیعہد نے ایک کاغذ پر 9 نکات لکھ دیے جن میں عالمی قوانین کا احترام، ہمسایہ کے حقوق کا احترام، دہشت گردی کے خلاف جنگ اور دنیا کے ممالک خاص طور پر ہمسایہ ممالک سے تعلقات کو فروغ دینا شامل تھا۔ یہ خط بہت خشک تھا اور میں نے اس میں کچھ تبدیلیاں پیدا کر کے اسے شہید قاسم سلیمانی کے سپرد کر دیا۔

جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت سے چند دن پہلے میں نے ان سے ایران حکام کے جواب کے بارے میں پوچھا۔ سعودی حکام بھی یہ سوال پوچھ رہے تھے۔ شہید قاسم سلیمانی نے کہا کہ ایرانی حکام نے اس پیغام کا جائزہ لیا ہے اور وہ جیسے ہی بغداد پہنچیں گے اس کا جواب دیں گے۔ لیکن انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ سابق امریکی حکومت نے بزدلانہ اور احمقانہ اقدام انجام دیتے ہوئے انہیں بغداد ایئرپورٹ پر شہید کر دیا اور بدقسمتی سے ان کا بیگ بھی مکمل طور پر جل گیا تھا اور وہ جواب ہمیں نہ مل سکا۔ 7 مئی 2020ء کے دن مصطفی الکاظمی نے میری جگہ وزارت عظمی کا قلمدان سنبھال لیا۔ انہوں نے بھی اس کام کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا اور مذاکرات آگے بڑھے۔ ان مذاکرات کی کامیابی میں چین کا کردار بہت اہم اور فیصلہ کن ثابت ہوا ہے۔

تحریر: عادل عبدالمہدی (سابق عراقی وزیراعظم)

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، صیہونی حکومت کے سابق وزیر اعظم نے کہا ہے کہ وہ نیتن یاہو کے ساتھ عدالتی عمل میں اصلاحات کے لیے بات چیت کے لیے تیار ہیں لیکن وہ نیتن یاہو کو اسرائیلی تاریخ کا سب سے بڑا دھوکہ باز اور منافق سمجھتے ہیں۔

اسرائیل کے اپوزیشن لیڈر اور صیہونی حکومت کے سابق وزیر اعظم یائر لاپڈ نے نیتن یاہو کو اسرائیل کی تاریخ کا سب سے بڑا بدمعاش اور منافق کہہ کر مخاطب کیا۔

اسی طرح انہوں نے اپنے ٹوئٹر ہینڈل پر لکھا : میں صدر سے بات چیت کا مطالبہ کرتا ہوں اور پورا اسرائیل مجھ پر ایک منصف ثالث کے طور پر بھروسہ اور یقین رکھتا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے لکھا کہ نیتن یاہو نے اب وہ کام کر دیا ہے جس کا ان کے مخالفین دو ماہ قبل سے مطالبہ کر رہے تھے۔

یائر لیپڈ تین دن پہلے نیتن یاہو کے فیصلے کا حوالہ دے رہے تھے جس میں انہوں نے عدالتی عمل میں اصلاحات کو فی الحال روکنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ماہرین صیہونی حکومت کے انتہا پسند صیہونی وزیر اعظم کے خلاف کئی ہفتوں سے جاری مظاہروں کو سیاسی بغاوت کے طور پر دیکھ رہے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ ناجائز صیہونی حکومت اپنے اندر ہونے والی بدامنی اور مظاہروں کی وجہ سے دن بدن اپنے خاتمے کے قریب تر ہوتی جا رہی ہے، اور اس بربادی اور تباہی کے لیے اس ملک کو کسی غیر ملکی طاقت کی دخالت کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی۔

دی ہیگ : عالمی عدالت انصاف نے ایران کے اثاثے منجمد کرنےکا امریکی اقدام بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دے دیا۔ دی ہیگ میں قائم عالمی عدالت انصاف نے اثاثے منجمد کرنے کیخلاف ایرانی درخواست کا فیصلہ سنادیا۔ عدالت نے فیصلہ دیا کہ امریکہ نے اپنی عدالتوں کو ایرانی شخصیات اور کمپنیوں کے تقریباً دو ارب ڈالر کے اثاثے ضبط کرنے کی اجازت دے کر بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کی تھی۔ عدالت نے امریکا کو ہرجانہ ادا کرنے کا بھی حکم دیا جس کی رقم کا تعین بعد کے مرحلے میں کیا جائے گا۔ تاہم عدالت نے کہا کہ اس کے پاس نیویارک کے سٹی بینک اکاؤنٹ میں ایران کے مرکزی بینک کے منجمد اثاثوں میں 1.75 ارب ڈالر سے زیادہ کا دائرہ اختیار نہیں ہے۔ ایران نے یہ مقدمہ 2016 میں 1955ء میں طے شدہ دوستی معاہدے کی خلاف ورزی پردائر کیا تھا۔اس کے تحت امریکی عدالتوں کو ایرانی کمپنیوں کے اثاثے منجمد کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔ ایرانی وزارت خارجہ نے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ اسلامی جمہوریہ کے موقف کی قانونی حیثیت اور امریکہ کے غیر قانونی رویے کو ظاہر کرتا ہے۔ عدالت نے امریکہ کےغیرمصدقہ دفاع کو بجا طور پر مسترد کر دیا اور ایران کو حق پرست فریق تسلیم کیا۔

امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : لاَ تَقُولُوا هَذَا رَمَضَانُ وَ لاَ ذَهَبَ رَمَضَانُ وَ لاَ جَاءَ رَمَضَانُ فَإِنَّ رَمَضَانَ اِسْمٌ مِنْ أَسْمَاءِ اَللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ لاَ يَجِيءُ وَ لاَ يَذْهَبُ وَ إِنَّمَا يَجِيءُ وَ يَذْهَبُ اَلزَّائِلُ وَ لَكِنْ قُولُوا « شَهْرُ رَمَضٰانَ »  فَإِنَّ اَلشَّهْرَ مُضَافٌ إِلَى اَلاِسْمِ وَ اَلاِسْمُ اِسْمُ اَللَّهِ عَزَّ ذِكْرُهُ وَ هُوَ اَلشَّهْرُ «اَلَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ اَلْقُرْآنُ »  جَعَلَهُ مَثَلاً وَ عِيداً ۔ (۱)

نہ کہو کہ رمضان ایا اور نہ کہو کہ رمضان چلا گیا ، کیوں کہ رمضان خدا کے ناموں میں سے ایک نام ہے جو نہ جاتا ہے اور نہ اتا ہے ، مٹنے اور زائل ہونے والی چیز اتی اور جاتی ہے بلکہ ماہ رمضان کہو اور فقط ماہ کا اضافہ کردو کیوں کہ یہ نام ، خدا کا نام ہے ، ماہ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قران نازل ہوا اور خداوند متعال نے اسے وعد و وعید کے مانند قرار دیا ہے ۔

امام علی ابن موسی الرضا علیہ السلام سے ماہ مبارک رمضان کے روزوں کی تعداد کے بارے میں فرمایا: فلمَ امروا بالصوم شهر رمضان لا اقلّ من ذلك و لا اكثر قيل لانّه قوّة العبادة الذي يعمّ فيها القوي و الضعيف، و انما اوجب اللّه تعالي الفرائض علي اغلب الاشياء و اعمّ القوي، ثم رخص لاهل الضعف و رغب اهل القوة في الفضل، و لو كانوا يصلحون علي اقلّ من ذلك لنقصهم و لو احتاجوا الي اكثر من ذلك لزادهم ۔ (۲)

اگر کسی نے سوال کیا کہ کیوں فقط ماہ مبارک رمضان ہی روزے واجب ہیں نہ اس سے زیادہ اور نہ ہی اس سے کمتر ، تو جواب دو کہ یہ مقدار وہ مقدار جسے کمزور اور طاقتور دونوں ہی رکھ سکتے ہیں اور خداوند متعال نے اپنے احکام اغلب افراد کو نگاہوں میں رکھتے ہوئے معین کیا ہے اور پھر ناتوان کو یہ اختیار دیا ہے کہ اگر اس دل کرے اور اس کے لئے سخت بھی نہ ہو تو انجام دے یعنی روزے رکھے اور طاقتور کی حوصلہ افزائی ہے کہ ماہ مبارک رمضان کا روزہ رکھ کر خدا سے تقرب حاصل کرے ، یقینا اگر اس سے کم انسانوں کے حق میں بہتر ہوتا تو خداوند متعال کم روزے واجب کرتا اور اگر اس سے زیادہ روزے انسانوں کے حق میں بہتر ہوتے تو خداوند متعال اس سے زیادہ روزوں کے حکم دیتا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ:

۱: کلینی ، اصول کافی ، ج۴ ، ص۶۹ ۔

۲: مجلسی ، محمد باقر، بحارالانوار ، ج۹۳ ، ص۳۷۰