سلیمانی

سلیمانی

ا ررہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے طلبہ پر زور دیا ہے کہ وہ دنیا کے بڑے مسائل کے حل میں موثر کردار ادا کرنے کےلیے خود کو تیار کریں۔

 یورپ میں اسلامی طلبہ تنظیموں کے اتحاد (UISA) کی سالانہ کانگریس کے نام اپنے تحریری پیغام میں رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے کہا کہ آپ کی مستحکم اور معروف یونین اور اس کی سرگرمیوں کا تسلسل خوش آئند ہے۔ 

 رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای کے پیغام میں آیا ہے کہ اسلامی طلبہ تنظیموں کا اتحاد اپنے اندازے کے مطابق، دنیا کے موجودہ پیچیدہ مسائل میں اپنا کردار ادا کرسکتا ہے۔ 

آپ نے کہا کہ بڑے مسائل پر اثر انداز ہونا، کسی بھی طرح کی تعداد سے زیادہ، سرگرم افراد کے جذبے، ایمان اور خود اعتمادی پر منحصر ہوتا ہے اور بحمد اللہ یہ گرانقدر سرمایہ آپ مومن اور انقلابی ایرانی جوانوں میں موجود اور قابل مشاہدہ ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای کے پیغام میں آيا ہے کہ آپ اہم مسائل اور نئے پرانے زخموں کو پہچانتے ہیں اور ان میں سب سے تازہ مسئلہ، غزہ کا المیہ ہے، ان میں سب سے نمایاں مسئلہ، مغرب، مغربی سیاستدانوں اور مغربی تمدن کی اخلاقی، سیاسی اور سماجی شکست ہے۔ 

پیغام میں مزید کہا گیا ہے کہ ان مسائل میں سب سے عبرت آمیز مسئلہ، اظہار رائے کی آزادی کو یقینی بنانے میں لبرل ڈیموکریسی اور اس کے دعویداروں کی ناتوانی اور معاشی و سماجی انصاف کے سلسلے میں ان کی مرگ بار خاموشی ہے 

حضرت آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے غزہ کی حمایت میں چلنے والی عالمی طلبہ تحریک کو اہم تبدیلی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یورپ اور امریکا میں عوامی احتجاج بالخصوص اسٹوڈنٹس کے احتجاج کی مدھم امید افز
ا روشنی کی کرن ہے۔
https://taghribnews.com
 
 
صیہونی حکومت کے چینل 12 نے ہفتہ کے روز ایک سروے شائع کیا جس میں تقریباً 70 فیصد صیہونیوں نے اس بات پر زور دیا کہ انہیں غزہ کی جنگ میں یقینی فتح کی کوئی امید نہیں ہے اور ان میں سے 68 فیصد نے اس جنگ کے بارے میں نیتن یاہو کی کارکردگی کو انتہائی برا قرار دیا ہے۔

غزہ جنگ کے 9 ماہ کے بعد صیہونی حکومت کے چینل 12 نے آج صیہونیوں کے درمیان کئے جانے والے  ایک سروے کی رپورٹ شائع کی ہے جس کے مطابق تقریباً 70 فیصد اسرائیلیوں کا خیال ہے کہ موجودہ اسرائیلی کابینہ کی طرف سے غزہ جنگ کا  مینیجمنٹ  "خراب" ہے۔

اس چینل  کے مطابق، زیادہ تر صہیونی اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی جنگ سے متعلق کارکردگی کے بارے میں  اچھا نظریہ نہيں رکھتے۔

 چنانچہ صرف 28 فیصد کا خیال ہے کہ جنگ میں نیتن یاہوکی کارکردگی اچھی رہی ہے۔

سروے کے مطابق 46 فیصد شرکاء کا کہنا تھا کہ اسرائیل کے وزیرجنگ  یوو گالانٹ نے جنگ کو خراب طریقے  آگے بڑھایا ہے۔

اس سوال کے جواب میں کہ کیا اسرائیل جنگ میں مکمل فتح کے قریب ہے، 68  فیصد نے کہا کہ اسرائيل کی  فتح کا "امکان نہیں"، 23 فیصد  نے کہا کہ یہ قریب ہے، اور  /vdc7 فیصد  نے کوئی رائے نہیں ظاہر کی
https://taghribnews.com

انسانی حقوق کے عالمی اداروں اور تنظیموں نے ہمیشہ سے امریکہ اور یورپ کی جانب س اسرائیل کو فراہم کی جانے والی امداد کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے جبکہ مغربی طاقتیں ہمیشہ سے اس مسئلے پر پردہ ڈال کر اسے چھپانے کی کوشش کرتے آئے ہیں۔ اس کے باوجود عالمی ذرائع ابلاغ میں گاہے بگاہے اس بارے میں حقائق منظرعام پر آتے رہتے ہیں۔ مڈل ایسٹ مانیٹر کی رپورٹ کے مطابق غزہ جنگ کے دوران امریکہ اور جرمنی نے سب سے زیادہ اسرائیل کو فوجی امداد فراہم کی ہے۔ انہوں نے اب تک اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کو ہلکے سے لے کر بھاری تک مختلف قسم کے فوجی ہتھیار فراہم کئے ہیں۔ قابل غور بات یہ ہے کہ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق امریکہ اب تک اسرائیل کو 100 سے زیادہ فوجی سازوسامان کے پیکج فراہم کر چکا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ غزہ میں انجام پانے والے جنگی جرائم میں برابر کا شریک ہے۔
 
امریکی سیاست دان بظاہر غزہ میں جنگ اور عام شہریوں کے قتل عام پر جو تشویش اور افسوس کا اظہار کرتے رہتے ہیں اس کا واحد مقصد فیس سیونگ اور عوام کو دھوکہ دینا ہوتا ہے۔ ہم اس تحریر میں غزہ جنگ کے دوران اسرائیل کی سب سے زیادہ فوجی امداد کرنے والے دو مغربی ممالک کا ذکر کریں گے اور اس کی جانب سے غاصب صیہونی رژیم کو فراہم کئے گئے فوجی سازوسامان کا تفصیلی جائزہ لیں گے۔ غاصب صیہونی رژیم کے اصلی ترین حامی کے طور پر امریکہ اسرائیل کو سب سے زیادہ فوجی امداد فراہم کرنے والا ملک ہے۔ 2019ء سے 2023ء کے دوران اسرائیل نے جتنا بھی اسلحہ خریدا اس کا 69 فیصد امریکہ نے اسے فراہم کیا ہے۔ یہ اعدادوشمار اسٹاک ہوم کے تحقیقاتی ادارے انٹرنیشنل پیس اسٹڈیز انسٹی ٹیوٹ نے شائع کئے ہیں۔ حماس کی جانب سے 7 اکتوبر 2023ء کے دن اسرائیل کے خلاف طوفان الاقصی انجام پانے کے بعد سے امریکہ نے اسرائیل کی فوجی امداد میں بھی اضافہ کر دیا ہے۔
 
طوفان الاقصی آپریشن سے اب تک امریکہ اسرائیل کو 100 فوجی پیکج فراہم کر چکا ہے۔ یہ فوجی پیکجز مختلف قسم کے فوجی ہتھیار جیسے ایئر ڈیفنس سسٹمز، گائیڈڈ بم اور میزائل، توب کے گولے، ٹینک کے گولے اور ہلکے ہتھیاروں پر مشتمل تھے۔ امریکہ نے اسرائیل میں آئرن ڈوم نامی میزائل ایئر ڈیفنس سسٹم کو مضبوط بنانے اور اسرائیل کو زیادہ جدید ایئر ڈیفنس سسٹم سے لیس کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ سرکاری رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ نے اسرائیل کو وسیع پیمانے پر چھوٹے سائز کے انٹیلی جنٹ بم فراہم کرنے کے ساتھ ایسی جدید ٹیکنالوجیز بھی فراہم کی ہیں جن کی بدولت بم اور میزائلوں کو ٹھیک نشانے پر مارا جا سکتا ہے۔ امریکی حکومت کی جانب سے اسرائیل کو فراہم کئے گئے مختلف ہتھیاروں میں 155 ملی میٹر کے توپ کے گولے، ہیل فائر میزائل، 30 ملی میٹر کے گولیاں اور 120 ملی میٹر کے ٹینک کے گولے بھی شامل ہیں۔
 
اسی طرح کچھ رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ نے اسرائیل کو رات کو دیکھنے والے آلات اور مورچے تباہ کرنے والے بم بھی فراہم کئے ہیں۔ صیہونی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ جنوری 2024ء کے آخر تک امریکہ اسرائیل کو ایف 35 جنگی طیارے، آپاچی فوجی ہیلی کاپٹر، بلیک ہاک فوجی ہیلی کاپٹر، سی ہاک فوجی ہیلی کاپٹر، مختلف قسم کے ڈرون طیارے، ایم 270 راکٹ لانچر، ایف 16 فیلکن جنگی طیارے اور توپ کے ہزاروں گولے فراہم کرنے کا منصوبہ رکھتا تھا۔ اسی طرح مارچ 2024ء کے آخر تک بائیڈن حکومت نے 2.5 ارب ڈالر مالیت کے 25 ایف 35 جنگی طیارے اور جنگی طیاروں کے دیگر پرزہ جات جیسے انجن وغیرہ اسرائیل کو فراہم کئے تھے۔ بائیڈن حکومت کی جانب سے اسرائیل کو فراہم کردہ ہتھیاروں میں 1800 عام بم اور 500 گائیڈڈ بم بھی شامل تھے۔
 
اسرائیل کو فوجی امداد فراہم کرنے والا دوسرا بڑا مغربی ملک جرمنی ہے۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 2019ء سے 2023ء تک اسرائیل نے جتنا اسلحہ خریدا اس کا 25 فیصد جرمنی نے اسے فراہم کیا تھا۔ جرمنی اسرائیل کو زیادہ تر سب میرینز، جنگی کشتیاں، مختلف گاڑیوں، جہازوں اور جنگی طیاروں کے انجن اور تارپیڈو فراہم کرتا آیا ہے۔ لیبرز ان فلسطین نامی ادارے کی رپورٹ کے مطابق جرمنی اسرائیل کو فراہم کئے جانے والے ہتھیار اور فوجی سازوسامان کا ایک تہائی حصہ فوجی امداد کی صورت میں اسے دیتا ہے۔ 7 اکتوبر 2023ء سے پہلے جرمنی نے اسرائیل کو براہ راست طور پر 326 ملین یورو کا فوجی اسلحہ فراہم کرنے کی منظوری دے رکھی تھی۔ البتہ جرمنی اسرائیل کو فوجی ٹریننگ کے شعبے میں بھی بہت زیادہ تعاون فراہم کرتا ہے۔ سرکاری رپورٹس کے مطابق جرمن حکومت نے مختلف فوجی ٹیکنالوجیز، الیکٹرونک آلات، جنگی کشتیوں، سمندری ہتھیاروں جیسے بم، تارپیڈو، راکٹ، میزائل وغیرہ اسرائیل کو فراہم کرنے کی بھی منظوری دے رکھی ہے۔
 
جرمنی نے اسرائیل کو مرکاوا 4 ٹینک میں استعمال ہونے والا ڈیزل انجن بھی فراہم کیا ہے۔ یاد رہے غزہ جنگ میں غاصب صیہونی رژیم مرکاوا 4 ٹینکوں کا وسیع استعمال کر رہی ہے۔ اکتوبر 2023ء کے آخر سے اسرائیل نے غزہ میں شہری آبادی اور مراکز کو مرکاوا 4 ٹینکوں سے نشانہ بنایا ہے۔ جنوری 2024ء میں جرمن اخبار اشپیگل نے رپورٹ دی ہے کہ جرمنی اسرائیل کو 120 ملی میٹر توپ کے گولے فراہم کرنے کی منظوری دے چکا ہے۔ صیہونی حکمرانوں نے نومبر 2023ء میں جرمنی کو یہ گولے دینے کی درخواست دی تھی۔ البتہ سرکاری رپورٹس میں جن اعدادوشمار کا ذکر ہوا ہے وہ اس مقدار سے بہت کم ہے جو حقیقت میں امریکہ اور جرمنی نے اسرائیل کو فوجی امداد فراہم کی ہے۔ امریکہ اور جرمنی کے علاوہ اٹلی اور برطانیہ بھی اسرائیل کے اصلی فوجی حامیوں میں شامل ہیں۔ عالمی سطح پر غزہ میں صیہونی جرائم کے خلاف شدید احتجاج اور مخالفت کے باوجود یہ مغربی ممالک اسرائیل کو فوجی امداد جاری رکھے ہوئے ہیں۔

تحریر: علی احمدی

 انتخابات غیر یقینی نتائج تک پہنچنے کا ایک خاص معین طریقہ ہے۔ ایران میں مذہبی جمہوریت کے عمل کے طور پر جو کچھ ہو رہا ہے، وہ اقتدار و طاقت کی سطح کے تعین کے لیے عوامی ووٹوں کے ذریعے صحت مند، سب سے زیادہ قابل اعتماد اور قابل قدر نظام ہے۔ چودھویں صدارتی انتخابات کے حتمی نتائج نے ظاہر کیا ہے کہ نتائج کے بارے میں بدخواہوں اور دشمنوں کی قیاس آرائیاں حقائق سے میل نہیں کھاتیں۔ نتائج نے پابندیاں عائد کرنے والوں اور دھوکہ دہینے والوں کے دعووں کو اسکینڈلائز کر دیا اور انتخابات میں 50% کی شرکت نے ان کے تمام شکوک کو باطل کر دیا ہے۔ انقلاب کے بعد یہ پہلا الیکشن تھا، جس میں مخالف نے گارڈین کونسل کی توہین نہیں کی اور نگرانی و صوابدید کا مذاق نہیں اڑایا۔ شکست کھانے والے نے انتخابات کی سالمیت پر اعتماد، نظام کی امانت داری پر یقین اور دھاندلی کا کوئی الزام عائد نہیں کیا۔

وزارت داخلہ کی جانب سے مسعود پزشکیان کی جیت کا اعلان جہاں اس اعتماد  یا ’’ٹرسٹ‘‘ پر مہر تصدیق تھی، وہاں نظام کے نظریئے پر اعتراف کا عملی نمونہ تھا۔ امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا تھا کہ ایران میں انتخابات منصفانہ اور آزادانہ نہیں ہیں۔ نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ یہ "منصفانہ" بھی ہیں اور "آزاد" بھی۔ امریکیوں نے منافقوں اور شاہ پرستوں کو  آگے کرکے بیرون ملک ووٹ دینے والوں کو مارنے اور گالیاں دینے جیسے گھٹیا اقدامات سے بھی گریز نہیں کیا۔ امریکیوں کا یہ نقطہ نظر ظاہر کرتا ہے کہ جمہوریت کو سمجھنے کا ان کا طریقہ نہ تو ’’آزاد‘‘ ہے اور نہ ہی منصفانہ۔

 جناب مسعود پزشکیان امام خامنہ ای کی طرف سے صدارت کے عہدے کی تنفیذ کے بعد سرکاری طور پر ملک کے قانونی اور شرعی صدر ہونگے۔ وہ نہ صرف ان لوگوں کے صدر ہیں، جنہوں نے انہیں ووٹ دیا تھا بلکہ ان لوگوں کے بھی صدر ہیں، جنہوں نے انہیں ووٹ نہیں دیا تھا اور وہ ان کے حریف تھے اور وہ ان لوگوں کے بھی صدر ہیں، جو کسی بھی وجہ سے ووٹ دینے سے قاصر رہے۔ انتخابی مہم کے دوران منتخب صدر نے جو آیات اور احادیث پڑھی ہیں، ان کے مطابق وہ خود کو اسلام، قرآن اور پیغمبر اسلام کی تعلیمات کا پابند سمجھتے ہیں۔ اپنے وعدے کے مطابق وہ آئین کے دائرے اور قیادت کی عمومی پالیسیوں کے دائرے میں اور ساتویں پلان کے قانون پر عمل درآمد کریں گے۔

آئین کے آرٹیکل 121 کے مطابق انہیں پارلیمنٹ میں عدلیہ کے سربراہ اور گارڈین کونسل کے ارکان کی موجودگی میں یہ کہنا ہے کہ وہ
A۔ سرکاری مذہب، اسلامی جمہوریہ کے نظام اور آئین کے محافظ ہونگے۔
B۔ مذہب اور اخلاق کی ترویج، حق کی حمایت اور انصاف کو پھیلائیں گے۔
C۔ اسے عوام کی خدمت اور خود مختاری سے بچنے کے لیے خود کو وقف کرنا ہے۔
D۔ وہ افراد کی آزادی اور وقار کی حمایت کریں گے۔
E۔ وہ ملک کی سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی سرحدوں اور آزادی کے تحفظ کا  حلف اٹھائیں گے۔

ان پر خدا اور عوام کا فرض واضح ہے اور اس آئین اور اس حلف کے دائرے میں ان کے لیے عوام کا فرض اور ذمہ داری بھی واضح ہے۔ جو لوگ خدا کے اس حق و فرض کو چھوڑ کر کوئی اور خلا پیدا کرنا چاہتے ہیں، وہ دشمن کی صف میں شامل ہونگے۔ اگر وہ یہ کام کرتے ہیں کہ جیسے کوئی بھوت آیا اور پری چلی گئی یا کالا آیا اور سفید چلا گیا تو وہ صحیح سمت میں نہیں ہیں۔ وہ کئی بار کہہ چکے ہیں کہ وہ کسی جماعت یا گروہ کے رکن نہیں ہیں اور انہوں نے حمایت کرنے والے حقیقی اور قانونی افراد سے غیر قانونی و غیر آئینی کوئی وعدہ نہیں کیا ہے۔ اب یہ دیکھنا ہے کہ وہ اس پر کس طرح عمل کرتے ہیں۔
 
 
تحریر: محمد کاظم انبارلوی

حجۃ الاسلام والمسلمین سید عبدالفتاح نواب، امور حج و زیارت کے نمائندے اور ایرانی زائرین کے نگران کی الوداعی تقریب 28 مئی بروز جمعہ دوپہر کو امام خمینی (رہ) میں منعقد ہوئی۔

حجۃ الاسلام والمسلمین نواب نے تہران روانگی سے قبل امام خمینی انٹرنیشنل اسکوائر پر اس سال کے حج اسٹاف کے ساتھ ملاقات میں رہبر معظم کے رہنما اصولوں کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا: اس سال کے حج کے نعرے کی بنیاد قرآن پر مبنی، ہمدردی اور اتحاد ہے۔ اور اس کی تاکید ہمیشہ امام اور راحیل نے کی ہے۔ اسلامی اقتدار اور اس کے ساتھ مشرکین کی بریت اور ظالموں سے بیزاری بھی حج 1403 کے محور میں سے ہے۔

 

مکہ اور مدینہ میں قرآنی محفلیں

حج و زیارت کے امور میں ولی فقیہ کے نمائندے نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ اس سال حج کی تقریب کے دوران مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں متعدد قرآنی مجالس منعقد کی جائیں گی، کہا کہ رہبر معظم نے اس سال حج کے حکام سے ملاقات میں بعض نکات بیان کئے جنمیں۔ اتحاد ان نکات کا نچوڑ ہے جن کا امام خمینی (رہ) اور رہبر معظم نے حج اور زیارت کے دوران اپنے نمائندوں سے مسلسل اظہار کیا ہے۔

انہوں نے اتحاد، ہمدردی اور یکجہتی کو آج کے معاشرے کی ضرورتوں میں شمار کیا اور کہا: «یا أیها المسلمون اتحدوا اتحدوا» کا نعرہ قرآنی آیت " اِعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللّه جَمِیعاً وَلاَ تَفَرَّقُوا سب" سے لیا گیا ہے۔

اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ اسلامی حاکمیت اور مسئلہ فلسطین اس سال کے حج کے نعرے کا ایک اور حصہ ہے، حج و زیارت کے امور میں ولی فقیہ کے نمائندے نے کہا: اگر امت کے درمیان اسلامی اتحاد ہوگا تو اسلامی اقتدار کا مسئلہ حل  ہوگا۔ اور اسلامی اقتدار بھی مظلوم فلسطینی قوم کا دفاع ہے۔

صیہونی حکومت کے لیے نفرت کا اظھار

 

حجۃ الاسلام والمسلمین نواب نے مزید اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ صیہونی حکومت کی نفرت کا مسئلہ حج کے موسم سے مخصوص نہیں ہے اور یہ مسئلہ آج پوری دنیا میں موجود ہے، اور فرمایا: امریکہ اور یورپ کےعلمی مراکز۔ آج صیہونی حکومت سے نفرت کا اظہار کر رہے ہیں۔ بیت اللہ الحرام کے تمام زائرین بھی صیہونی حکومت سے نفرت کرتے ہیں لیکن بیزاری کا یہ اظہار اس طرح کیا جانا چاہیے کہ حج کے علاقے کی حرمت اور خدا کے محفوظ مقام کی حفاظت ہو اور مشرکین سے بری ہونے کا اہم مسئلہ اجاگر ہو۔ یقینی طور پر سعودی عرب کے قوانین کے دائرے میں رہتے ہوئے اور مسلمانوں کے اتحاد کو مضبوط کرنے کے لیے کیا جانا چاہیے۔

معصومیت کی قرآنی منطق کو عالم اسلام میں منتقل کرنا

 

ایکنا کے نامہ نگار کے اس سوال کے جواب میں کہ رہبر معظم کے وفد کی بریت کی قرآنی منطق کو عالم اسلام میں منتقل کرنے کے لیے کیا عملی منصوبے ہیں، انہوں نے کہا: حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سیرت، اخلاقی اور تعلیمی زندگی کو جاننا اور متعارف کرانا؟ (ص) بریت کی قرآنی منطق کو عالم اسلام تک پہنچانے کا بہترین ذریعہ ہے اور اس سلسلے میں رہبر معظم کے مشن کی طرف سے حال ہی میں "ابراہیمیت" کے نام سے ایک کتاب شائع ہوئی ہے۔

آخر میں حجۃ الاسلام والمسلمین نواب نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بریت کے بانی ہیں اور فرمایا: بیزار کا اظھار ہونا فطری ہے اور اس تناظر میں ابراہیم خلیل اللہ کی شخصیت اور زندگی کے بارے میں جاننا بہت ضروری ہے۔/

 

 ارنا کے مطابق رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے اس پیغام میں فرمایا ہے کہ اس تلخ  سانحے میں ملت ایران نے ایک اہم اور مخلص خدمت گزار کھودیا۔ ان کے لئے عوام کی بھلائی اور ان کی خوشی جس کا سرچشمہ رضائے الہی ہے، ہر چیز پر ترجیح رکھتی تھی۔   

 آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے صدر سید ابراہیم رئیسی ، وزیر خارجہ امیر عبداللیہان ، مشرقی آذربائيجان میں نمائندہ ولی فقیہ حجت الاسلام والمسلمین آل ہاشم، مشرقی آذربائیجان کے گورنر رحمتی اور ان کے دیگر ساتھیوں کی شہادت پر تعزیت پیش کی ہے۔

 آپ کے پیغام کا متن مندرجہ ذیل ہے:

 بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔

 عالم مجاہد، انتھک ، باصلاحیت اورعوامی صدر مملکت اور خادم الرضا علیہ السلام، حجت الاسلام والمسلمین جناب آ‍قائے  سید ابراہیم رئیسی اور ان کے ساتھیوں، رضوان اللہ علیہم کی شہادت کی اندوہناک خبر ملی۔

 یہ ناگوار حادثہ خدمت رسانی کی کوشش کے دوران پیش آیا؛ اس عظیم اور فداکار انسان کی ذمہ داریوں کی پوری مدت چاہے صدارت کی مختصر مدت ہو،یا اسلام اور ملک و قوم کی ان کی خدمات کا اس سے پہلے کا دور ہو، انتھک محنتوں اور سعی و کوشش میں گزری ہے۔

  عزیز رئیسی انتھک خدمت میں مصروف تھے۔ اس تلخ حادثے میں ملت ایران ایک گرانقدر اور مخلص خدمتگزار سے محروم ہوگئی ۔ ان کے لئے عوا کی بھلائی اور ان کی خوشی، جس کا سرچشمہ رضائے الہی ہے، ہر چیز پر ترجیح رکھتی تھی۔ اس بناپر بعض بدخواہوں کی  ناشکری اور طنز، اصلاح امور اور پیشرفت کے لئے ان کی رات دن کی کوششوں میں کبھی بھی رکاوٹ نہ بن سکی۔

 اس تلخ حادثے میں تبریز کے محبوب اور معتبرامام جمعہ آل ہاشم، مجاہد اور فعال وزیر خارجہ حسین امیر عبداللّہیان، مشرقی آذربائیجان کے متدین اور انقلابی گورنر جناب  مالک رحمتی اور ان کے دیگر ساتھی جوار رحمت الہی میں چلے گئے۔

 میں پانچ دن کے عام سوگ کا اعلان اور ملت ایران کو تعزیت پیش کرتا ہوں۔

جناب آقائے مخبر آئین کی دفعہ 131 کے مطابق مجریہ کے سربراہ ہیں اور ان کا فریضہ ہے کہ مقننہ اور عدلیہ کے سربراہوں کے ساتھ  مل کے 50 دن کے اندر نئے صدر کا الیکشن کرانے کا اہتمام کریں۔

 آخر میں، جناب آقائے رئیسی کی مادرگرامی، صاحب فضیلت شریک حیات دیگر لواحقین اور شہید ہونے والے ان کے ساتھیوں کے پسماندگان بالخصوص جناب آل ہاشم کے والد ماجد کی خدمت میں تعزیت پیش کرتا ہوں، ان کے لئے صبر وسکون اور ان کے عزیزوں کے لئے رحمت الہی کی دعا کرتا ہوں ۔

 سید علی خامنہ ای

سعودی عرب کے شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے ہیلی کاپٹر حادثے میں ایران کے صدر حجت الاسلام و المسلمین سید ابراہیم رئیسی اور ان کے ساتھیوں کی شہادت پر تعزیت کا اظہار کیا ہے۔

سعودی پریس ایجنسی کے مطابق سعودی عرب کے بادشاہ اور ولی عہد نے ہیلی کاپٹر حادثے میں ایرانی صدر حجت الاسلام والمسلمین سید ابراہیم رئیسی اور ان کے ساتھیوں کے انتقال پر ایگزیکٹو برانچ کے سربراہ اور ایرانی نائب صدر محمد مخبر سے تعزیت کا اظہار کیا ہے۔

صدر ایران اور ان کے ساتھیوں کی شہادت پر پاکستان میں ایک دن کے عام سوگ کا اعلان کردیا گیا۔

وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے ایران کے  ساتھ دوستی و ہمدردی اور ایرانی عوام کے ساتھ یک جہتی  کا اعلان کرتے ہوئے اپنے ملک میں ایک دن کے عام سوگ کا اعلان کردیا ہے۔

 اس رپورٹ کے مطابق پاکستان کے وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے اپنے سماجی رابطے کے ایکس پیج پر ایک بیان جاری کے صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی کی شہادت پر تعزیت پیش کرتے ہوئے کہا  ہے کہ پاکستان، صدر ایران اور ان کے ساتھیوں کی شہادت پرایک دن کے سوگ کا اعلان کرتا ہے ۔

 میان شہباز شریف نے کہا کہ صدر اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کے سوگ میں آج قومی  جھکا رہے گا۔

انھوں نے کہا ہے کہ ایک مہینے سے بھی کم ہوا ہے کہ پاکستان صدر سید ابراہیم رئیسی اور وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان کے تاریخ دورے کے موقع پر ان کا میزبان تھا۔

انھوں نے کہا ہے کہ ہم ہیلی کاپٹر کے حادثے کی خبر پر تشویش اور پریشانی کے ساتھ نظر رکھے ہوئے تھے اور ہمیں اچھی خبر کی امید تھی لیکن افسوس کہ یہ امید پوری نہ ہوئی ۔

پاکستان کے وزیر اعظم میاں شہباز نے اپنے پیغام تعزیت میں کہا ہے کہ میں اپنی حکومت، اور پاکستان کے عوام کی جانب سے اس سانحے پر ایران کی حکومت اور عوام کو تعزیتش پیش کرتا  ہوں۔   

جوار رحمت الہی میں ارواح شہدا کے درجات بلند ہوں۔ ایران کی عظیم قوم ہمیشہ کی طرح اس دردناک مرحلے میں بھی سرافراز و سربلند رہے گی۔   

مغرب میں بار بار توہین قرآن کی جا رہی تھی، دنیا بھر کے مسلمانوں کے کلیجے جل رہے تھے، مختلف ممالک میں بڑے پیمانے پر مظاہرے کیے جا رہے تھے۔ چشم فلک نے دیکھا کہ ایک سید اقوام متحدہ میں پہنچا، ہاتھ میں اپنے جد پر نازل ہونے والی اللہ کی مقدس آخری کتاب قرآن اٹھائے ہوئے ہے۔ اس نے دنیا کی منافقت کو چاک کرتے ہوئے کہا: قرآن جل نہیں سکتا، یہ ابدی ہے، جب تک زمین زمین اور وقت وقت رہے گا، قرآن باقی رہے گا۔ توہین اور تحریف کی آگ  حقیقت کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ اس کے ساتھ سید نے قرآن کو دنیا کے سامنے لہرایا اور پھر ادب سے چوم کر آنکھوں سے لگا لیا۔ کروڑوں مسلمانوں کے دلوں کو ٹھنڈک پہنچی کہ ہمارا مقدمہ اقوام متحدہ میں لڑا گیا۔

کچھ رور پہلے سید پاکستان کے دور پر تشریف لائے، ایک پروگرام میں شرکت کا موقع ملا، سید نے کافی باتیں کیں، مگر جو جذبہ اہل فلسطین کے لیے سید کے وجود میں تھا، ان کی تقریر سے جھلک رہا تھا۔ ایسے لگ رہا تھا کہ ان کے بس میں ہو تو ابھی اسرائیل پر حملہ کر دیں۔ غزہ کی ماوں، بہنوں، بچوں اور جوانوں کے لیے ان کے دل میں تڑپ تھی۔ ہسپتالوں پر ہونے والے حملوں اور نہتے فلسطینیوں کی شہادتوں کو نم آنکھوں اور تڑپتے دل کے ساتھ بیان کر رہے تھے۔ ملت پاکستان کی عظمت کو بیان کر رہے تھے اور ان کی اہل فلسطین کے ساتھ والہانہ محبت کا ذکر کر رہے تھے۔ تمام مکاتب فکر کے علماء، سکالرز، پروفیسرز، بیروکریٹس اور سیاستدان بڑی تعداد میں وہاں موجود تھے۔ یہ سب ایسے نہیں آئے بلکہ انہیں سید کی محبت کھینچ لائی ہے۔

یہ بڑا المناک حادثہ ہے، اس حادثے میں خادم الرضا (ع) اور اسلامی جمہوریہ ایران کے آٹھویں صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی کے ہیلی کاپٹر کو قیز قلعہ سی ڈیم کا افتتاح کرکے تبریز شہر کی جانب لوٹتے وقت حادثے کا شکار ہوگیا۔ اس سانحے میں صدر سید ابراہیم رئیسی کے ساتھ تبریز شہر کے امام جمعہ اور ولی فقیہ کے نمائندے حجت الاسلام آل ہاشم، وزیر خارجہ ڈاکٹر حسین امیر عبداللہیان، صوبہ مشرقی آذربائیجان کے گورنر مالک رحمتی، صدارتی محافظوں کی ٹیم کے سربراہ جنرل سید مہدی موسوی، حفاظتی ٹیم کے کئی دیگر ارکان اور ہیلی کاپٹر کے پائیلٹس بھی شہید ہوئے ہیں۔

دنیا بھر کی آزاد اقوام ایرانی صدر جناب آیۃ اللہ ابراہیم رئیسی کی وفات پر اظہار تعزیت کر رہی ہیں کہ ایک بڑا رہنماء چلا گیا۔ حکومت پاکستان نے ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے ہیلی کاپٹر حادثے میں شہید ہونے پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان میں ایک روزہ عمومی سوگ کا اعلان کیا ہے۔پاکستان کے وزیراعظم "شہباز شریف" نے ایک پیغام میں ہیلی کاپٹر کے دردناک حادثے میں ڈاکٹر سید ابراہیم رئیسی اور ان کے اعلیٰ سطحی وفد کی شہادت پر تعزیت کی ہے۔ اپنے تعزیتی پیغام میں انہوں نے اعلان کیا: "پاکستان ایران کے صدر اور ان کے ساتھیوں کے احترام اور ایران کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر ایک دن کا سوگ منائے گا، اس میں پاکستان کا پرچم سرنگوں رہے گا۔"

حماس کی جانب سے جاری کردہ بیان میں ایران کے سپریم لیڈر سید علی خامنہ ای دام عزہ، ایرانی حکومت اور ایرانی عوام کے ساتھ اس بے پناہ نقصان پر تعزیت اور یکجہتی کا اظہار کیا گیا ہے، حماس نے فلسطین کی حمایت اور اسرائیل کی مخالفت کرنے پر ایرانی رہنماؤں کی تعریف کی۔ حماس اور اہل فلسطین کی حمایت سید کی زندگی کا مشن تھا۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ کل اتوار کو آذربائیجان کے صدر کے ہمراہ ڈیم کے افتتاح کے بعد تقریر میں آیۃ اللہ ابراہیم رئیسی نے ایک مرتبہ پھر فلسطینیوں کے لیے ایران کی غیر مشروط حمایت کا اعادہ کیا تھا۔

ایرانی صدر نے کہا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ فلسطین مسلم دنیا کا سرفہرست مسئلہ ہے اور ہمیں یقین ہے کہ ایران اور آذربائیجان کے عوام فلسطین اور غزہ کے عوام کی حمایت اور صہیونی حکومت سے نفرت کرتے ہیں۔ پتے کی بات یہ ہے کہ آیۃ اللہ رئیسی نے آذری عوام کی بات کی، حکومت کی بات نہیں کی، کیونکہ حکومت اسرائیل کے ساتھ تعلقات رکھتی ہے۔ امت مسلمہ کا بالعموم اور ملت ایران و فلسطین کا بالخصوص بڑا نقصان ہوا ہے۔ تین سال کے مختصر عرصے میں آیۃ اللہ سید ابراہیم رئیسی نے بین الاقوامی سطح پر موثر شناخت قائم کی تھی۔ اسی طرح ایران کی خارجہ پالیسی اور تنازعات کو مواقع میں تبدیل کرنے کی آپ کی دانشمندی نے بھی ایران کو بڑا فائدہ پہنچایا۔ سعودی  عرب سے سفارتی تعلقات کی چائنہ کی ذریعے بحالی نے بیک وقت کئی پیغام دیئے۔

اسی طرح مہسا امینی سے لے کر اسرائیل پر حملے تک بڑے چیلنجز آئے، سید نے بڑی حکمت اور دانش سے انہیں حل کیا۔ دنیا حیران ہے کہ پابندیوں کے باوجود ایران کی معیشت اس تیز رفتاری سے کیسے آگے بڑھ رہی ہے؟ ملت ایران مشکلات میں بہتر انداز میں آگے بڑھتی ہے اور مشکلات سے زیادہ مضبوط ہوکر نکلتی ہے۔ جب اسلامی جمہوری ایران کی پوری پارلیمنٹ اڑا دی گئی تھی، لوگ کہہ رہے تھے کہ انقلاب ابھی گیا کہ ابھی گیا۔ چشم فلک نے دیکھا کہ انقلاب وہیں رہا اور پہلے سے زیادہ طاقتور ہو کر ابھرا۔ آٹھ سالہ جنگ ایک بڑا مشکل مرحلہ تھا، مگر اسلامی جمہوری ایران کی قیادت بڑی دانشمندی سے اس سے نکلی۔

امام خمینیؒ کی وفات بھی بڑا مشکل مرحلہ تھا، مگر انقلاب کی نئی قیادت نے خط امام خمینیؒ کی پیروی میں انقلاب کو مضبوط سے مضبوط تر کیا۔ انقلاب کے اندرونی اور بیرونی دشمن ہر بار مایوس و نامراد ہوئے اور اللہ کی نصرت سے انقلاب پہلے سے زیادہ مضبوطی کے ساتھ ابھرتا رہا۔ اس مشکل گھڑی میں ہم  ملت ایران بالخصوص رہبر معظم دام ظلہ سے تعزیت کرتے ہیں، امید کرتے ہیں کہ یہ مشکل  وقت اہل ایران کو مزید مضبوط کر جائے گا۔ آیۃ اللہ ابراہیم رئیسی  کے ٹویٹر اکاوئنٹ پر آج یہ آیت لگائی گئی، جو حقیقت حال کی خوبصورت عکاسی کرتی ہے: سَلَامٌ عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ ‎﴿١٠٩﴾‏ كَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ ‎﴿١١٠﴾‏ إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِينَ ‎﴿١١١﴾‏الصافات "۱۰۹۔ ابراہیم پر سلام ہو۔۱۱۰۔ ہم نیکو کاروں کو ایسے ہی جزا دیتے ہیں۔۱۱۱۔ یقیناً وہ ہمارے مومن بندوں میں سے تھے۔"

تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

 اسلامی جمہوریہ ایران کے محبوب صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی مشرقی آذربائیجان کے علاقے ورزغان میں ہیلی کاپٹر کے حادثے میں شہید ہوگئے۔ صدر کو لے جانے والے ہیلی کاپٹر کے حادثے میں آیت اللہ سید محمد علی الہاشم، تبریز کے امام جمعہ، وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان اور تبریز کے گورنر ملک رحمتی بھی موجود تھے اور وہ بھی شہید ہوئے۔ اس حادثے میں شہید ہونے والوں میں صدر پروٹیکشن یونٹ کے سربراہ سردار سید مہدی موسوی، انصار المہدی کور کے ایک رکن، ایک پائلٹ اور ایک کو پائلٹ اور ایک ٹیکنیکل آفیسر بھی شامل ہیں۔ آیت اللہ رئیسی اور ان کے ساتھی جمہوریہ آذربائیجان کے صدر الہام علییف کی موجودگی میں قزقلاسی ڈیم کے افتتاح کی تقریب کے بعد ہیلی کاپٹر کے ذریعے تبریز جا رہے تھے، لیکن راستے میں ہیلی کاپٹر کو حادثہ پیش آیا، جو وارزغان کے علاقے میں گر کر تباہ ہوگیا۔