سلیمانی

سلیمانی

مہر خبررساں ایجنسی نے پاکستانی میڈیا سے نقل کیا ہے کہ جمعہ کو وزیراعظم محمد شہباز شریف کی زیرِ صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس وزیراعظم ہاؤس میں منعقد ہوا۔وزیراعظم نے اجلاس میں کابینہ ارکان کو دورہ ایران پر بریفنگ دی۔وفاقی کابینہ کے اراکین کا خیرمقدم کرتے ہوئے وزیراعظم نے اُن کو اپنے گزشتہ روز کے پاک۔ایران سرحد کے دورے کے بارے میں تفصیلات سے آگاہ کیا۔

وزیراعظم نے کہا کہ ایرانی صدر کی ذاتی دلچسپی اور وزیراعظم کی ذاتی نگرانی میں ایران سے100 میگا واٹ سستی بجلی کی درآمد کا منصوبہ قلیل مدت میں مکمل ہوا جوکہ عرصہ دراز سے التواء کا شکار تھا، اس منصوبے سے جنوبی بلوچستان خصوصاً گوادر میں بجلی کی ترسیل یقینی بنائی گئی ہے، اس منصوبے سے بلوچستان کے پسماندہ علاقوں میں ترقی اور خوشحالی آئے گی،اسی طرح”مند۔پشین بارڈر مارکیٹ“ کا بھی افتتاح کیا جس سے پاک۔ ایران سرحد کے دونوں اطراف کے رہائشیوں کے لیے کاروبار اور روزگار کے نئے مواقع میسر ہوں گے اور ترقی کا نیا سفر شروع ہوگا۔

وزیراعظم نے کہا کہ ایرانی صدر نے پاک۔ایران تجارت کے باہمی فروغ میں بھی خصوصی دلچسپی کا اظہار کیا۔اس کے علاوہ زراعت، سائنس و ٹیکنالوجی اور شمسی توانائی کے شعبوں میں تعاون پر بھی مفید بات چیت ہوئی۔وزیراعظم نے کہا کہ وزیر خارجہ کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطحی وفد ایران کا دورہ کرے گا تاکہ اِن امور پر ٹھوس پیشرفت ہو۔وزیراعظم نے کابینہ ارکان کو بتایا کہ دونوں ممالک نے 900 میل طویل سرحد پر سرحد پار دہشت گردی کو روکنے کے لئے مشترکہ کوششوں پر زور دیا اور سیکورٹی کے نظام کو مزید بہتر کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔ وزیراعظم نے ایرانی صدر کو پاکستان کے دورے کی دعوت بھی دی جو انہوں نے قبول کی۔

 

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایرانی صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی نے جمعرات کے روز، صوبۂ سیستان و بلوچستان کے اپنے آخری ایک روزہ دورے کے دوران، اس صوبے کے قبائلی سربراہوں اور دیگر شخصیات سے خصوصی ملاقات کی۔

حجۃ الاسلام‌ رئیسی نے صوبۂ سیستان و بلوچستان کے اسلامی قبیلوں اور فرقوں کے درمیان اتحاد و اتفاق کو مثالی قرار دیا اور کہا کہ آج کے دور میں جب دشمن کا ہدف تفرقہ اور اختلاف پیدا کرنا ہے، لہٰذا صوبے کے بزرگ اور قبیلوں کے سربراہان کو اتحاد و اتفاق کے مسئلے پر زیادہ حکمت عملی سے توجہ دینی چاہیئے۔

ایرانی صدر نے کہا کہ صوبۂ سیستان اور بلوچستان کی سرحد کو غیر محفوظ بنانے کیلئے کئے جانے والے اقدامات کے باوجود، اس بارڈر پر کوئی خطرہ نہیں ہے اور پاکستان کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی تعلقات کی ترقی کے سلسلے میں کیے گئے اچھے معاہدوں بشمول 7 مشترکہ سرحدی منڈیوں کی تعمیر کے حوالے سے مجھے یقین ہے کہ سیستان و بلوچستان میں بہترین اور قابلِ بھروسہ تاجر حضرات موجود ہیں جو پڑوسی ممالک کے ساتھ تجارتی معاملات میں مؤثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔

انہوں نے صوبۂ سیستان و بلوچستان میں امن و امان کے استحکام کو نیز خدا کی جانب سے نعمت اور شہداء کی کوششوں اور قربانیوں کا ثمر قرار دیا اور مزید کہا کہ ہمیں کچھ مفاد پرست عناصر کو منظم سازش کے تحت جرائم کا ارتکاب کرنے سے روکنا چاہیئے تاکہ اس صوبے کی سلامتی میں خلل نہ ڈال سکیں۔

آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی نے گزشتہ سال کے فسادات میں دشمنوں کی جانب سے ملک کی سلامتی اور امن وامان کو متاثر کرنے کے عزائم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ سال کے واقعات کے دوران کچھ عناصر ملک کی سلامتی کو درہم برہم کرنے کے خواہشمند تھے اور احتجاج کے نام پر نظم و ضبط میں خلل ڈالنا چاہتے تھے جس کی کسی بھی پرامن شہری ہرگز اجازت نہیں دیتا۔

آخر میں ایرانی صدر نے سیستان اور بلوچستان کو ایران کا اہم ترین علاقہ قرار دیا اور کہا کہ یقیناً آج صوبۂ سیستان و بلوچستان کی صورتحال اسلامی انقلاب سے پہلے اور انقلاب کی فتح کے بعد کے ابتدائی سالوں سے بہت مختلف ہے اور اس صوبے میں عوامی انفراسٹرکچر بنانے کیلئے وسیع پیمانے پر اقدامات کئے جا چکے ہیں۔ لیکن صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا جائے گا بلکہ صوبے کے لوگوں کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے مزید اس صوبے کی خوشحالی کیلئے کوششیں کی جائیں گی۔

خداوند متعال نے انسان کو فطرتاً علم دوست خلق کیا ہے اور یہ انسان ہمیشہ سے علم کی طرف میل و رغبت رکھتا آ رہا ہے علماء میں رفت و آمد کو اپنے لئے باعث افتخار سمجھتا رہا ہے اور یہ رجحان نوع بشر کو دیگر تمام موجودات سے ممتاز کرتا ہے اور علم ہی کی بنیاد پر آدم کو ملائکہ پر فضیلت دی گئی اور ملائکہ نے آدم پر تعظیمی سجدہ بجالایا، رسول خدا نے اہمیت علم کے ذیل میں فرمایا: اطلبوا العلم ولو بالصين».[وسائل الشيعه، ج ۲۷، ص ۲۷.] "علم حاصل کرو چاہے چین جانا پڑے۔" دین اسلام کی علم کے سلسلے میں تمامتر تاکیدات کے باوجود انسانی معاشرہ علم و دانش سے دور نظر آرہا تھا گویا اس نے جہالت کا لبادہ اوڑھ لیا ہو ،یا حکومتیں مانع ہو رہیں تھیں جیسا کہ نقل احادیث پر پابندی عائد کی گئی یا خود لوگ بغض وعداوت کی وجہ سے خلاف فطرت علم سے دور ہو رہے تھے، آفتاب علم موجود تھا لیکن لوگ علم کی شعاعیں سےمستفید نہیں ہو رہے تھے ،جھالت کو دور کرنے کے لئے اسلام کا دغدغہ تھا لیکن ایک مستقل دانشگاہ، یونیورسٹی یا درسگاہ کا وجود نہ تھا جو دین اسلام کو نابود کر نے کے لئے دشمنان اسلام کے پاس ایک غنیمت موقع تھا، ان تمام مشکلات کے باوجود ہمارے ائمہ علیہم السلام موقع کے تلاش میں تھے کہ علوم کو نشر کیا جائے لہذا بنی عباس کا قیام اور بنی امیہ کے ساتھ جنگ، یہ امام صادق علیہ السلام کو ایک سنہرہ موقع دستیاب ہوا اور امام نے اس موقع کا بھرپور استفادہ کیا ایک یونیورسٹی کو تشکیل دیا جس میں ۴ ہزار سے زائد مختلف فرقوں کے افراد زیر تعلیم تھے امام کے اس کارنامے کے بعد انسانی معاشرہ کبھی پھیچے موڑ کر نہیں دیکھا ،اسلامی تہذیب و تمدن ترقی کی راہ پر گامزن ہوئی اور انسانیت کامیابی کے مراحل میں جاری و ساری ہے ،آج جو دنیا ترقی کر رہی ہے یہ امام صادق علیہ السلام کی دین ہے اور پوری انسانیت ان کی مدیون منت ہے۔

اس سے پہلے کہ اس بحث کا آغاز کیا جائے ضروری ہے کہ امام صادق علیہ السلام کے حالات زندگی پر اجمالی نگاہ ڈالی جائے تاکہ امام کے اقدامات بطور احسن درک ہو سکیں۔

سیاسی حالات:

امام صادق علیه السلام کا دور دیگر ائمہ علیہم السلام کے ادوار سے مختلف و منفرد تھا کیونکہ سیاسی طور پر وہ دور اموی حکومت کی کمزوری و تزلزل اور عباسیوں کی طاقت میں اضافے کا دور تھا اور ایک مدت سے ان دونوں میں کشمکش رہی اور یہ دونوں آپس میں لڑتے رہے. ہشام بن عبدالملک کے زمانے سے عباسیوں کی تبلیغی اور سیاسی مہم شروع ہوئی اور ١٢٩ ھجری میں مسلح فوجی کارروائیوں کا آغاز ہوا اور آخر کار ۱۳۲ ھجری میں بنی امیہ کو ایک طرفہ شکست دے کر خود اقتدار پر قابض ہو گئے ۔ چونکہ اس دور میں بنی امیہ بہت سے سیاسی مشکلات میں دوچار تھی ،اس لئے انہیں امام اور شیعوں پر پابندی عائد کرنے اور سختی برتنے کا موقع نہیں ملا ۔عباسیوں نے بھی کیونکہ خاندان رسول کی حمایت کی آڑ میں اقتدار حاصل کیا تھا لہذا حکومت کو اور محکم اور استوار کرنے کے لئے امام پر دباؤ ڈالا نہیں گیا۔اس لئے یہ دور امام صادق علیہ السلام اور شیعوں کے لئے نسبتاً امن و آزادی کا دور تھا اور امام کی علمی سرگرمیوں کے لئے ایک بہترین موقع فراہم ہوا۔(سیرہ پیشوایان ص ٣٦٥)

ثقافتی صورتحال:

فکری اور ثقافتی لحاظ سے امام صادق علیہ السلام کا دور فکری اور ثقافتی تحریک کا دور تھا۔اس وقت اسلامی معاشرے میں علمی جوش و خروش ایجاد ہوا اور مختلف علوم جیسے: علم قرئت قرآن،علم تفسیر،علم حدیث،علم فقہ،علم کلام یا دنیاوی علوم جیسے: علم طب ،فلسفہ ،ریاضیات، علم نجوم اور علم کیمیا وغیرہ وجود میں آئے ،اس بناپر معاشرہ میں علمی تشنگی کا احساس بڑھتا گیا اور امام صادق علیہ السلام نے ایک یونیورسٹی کو تشکیل دے کر معاشرہ کو مختلف علوم سے سیراب فرمایا ۔(حمید احمدی ،تاریخ امامان شیعه ص ١٩٠)

اقدامات امام صادق علیہ السلام:

(١) امام صادق علیہ السلام موقع شناس تھے آپ اپنے دور کے تمام حالات سے با خبر تھے آپ نے دیکھا کہ نشر علوم کے لئے بہترین موقع ہے لہذا امام نے بے ثمر فعالیت سے اجتناب کیا، اس وقت کئی مقامات پر بنی امیہ کے خلاف قیام بپا کئے گئے لیکن امام ان میں شریک نہیں ہوئے اور اپنے شیعوں سے بھی سکوت اور قیام سے دوری کے لئے سفارش کرتے رہے اور اسی طرح بنی عباس نے بھی آپ کو خلافت کے لئے دعوت دی آپ نے اس سے انکار کیا جیسا کہ ابو مسلم نے امام صادق علیہ السلام سے بیعت کرنے کی تجویز پیش کی اور ایک خط میں لکھا:"آپ اگر خلافت کے لئے راغب ہیں تو آپ سے بہتر کوئی نہیں ۔امام نے جواب میں لکھا " ما اَنْتَ مِنْ رجالی وَ لا الزَّمانُ زَمانی "نہ تم میرے یاران میں سے ہو اور نہ یہ زمانہ میرا زمانہ ہے(شهرستانی، الملل و النحل، تحقیق: محمد سید گیلانی، ج۱، ص ۱۵۴)۔ اس طرح امام نے غنیمت موقع کو ضایع ہونے نہیں دیا ۔
(٢) امام صادق علیہ السلام نے نشر و حفظ علوم کے لئے اور اسے نسلوں تک منتقل کرنے کے لئے کتابت و تدوین کا آغاز کیا درحالی کہ امام سے پہلے مسلمانوں میں ایک مدت تک احادیث کی تدوین پر ممانعت رائج تھی.
صادق علیہ السلام کی اسی محنت اور کوشش کی وجہ سے آپ کے شاگردوں نے علوم اسلامی کے مختلف مسائل پر مقالات اور کتابیں مرتب کرنا شروع کیں جیسا کہ محمد بن نعمان احول " کتاب الامامۃ و کتاب الرد علی المعتزله فی امامۃ المفضول" یہ کتاب ان کے آثار میں سے ہیں.(شهرستانی، الملل و النحل، تحقیق: محمد سید گیلانی، ج۱، ص١٨٧). اسی طرح امام صادق علیہ السلام نے کتابت کی اھمیت میں فرمایا: "قیدوا العلم بالکتابۃ""علم کو کتابت و تدوین کے ذریعے قید کرو"(محمد بن حسن طوسی،الامالی ،ص ٩٥)
(۳) امام صادق علیہ السلام کا اپنے زمانے میں سب سے نمایاں اقدام نشر علوم کے لئے یہ تھا کہ جس شخص کو جس علم میں شوق و ذوق تھا اسے اسی علم کا ماہر و متخصص بناتے تھے ،امام صادق علیہ السلام کے ایک مناظرہ کو بیان کرتے ہیں تاکہ یہ بات روشن ہوجائے ۔" ایک مرتبہ ایک شامی امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور امام پر سلام کیا ،امام نے جواب دیا اور فرمایا: تمھاری خواہش کیا ہے اور تم یہاں کیوں آئے ہو ؟, شامی نے کہا: میں نے سنا ہے کہ آپ تمام علوم سے واقف ہیں ،اس لئے میں مناظرہ کے لئے آیا ہوں،امام نے فرمایا: کس مورد میں ؟اس نے کہا: قرآن کے سلسلے میں ،حروف مقطعات کے بارے میں اور اعراب قرآن کے سلسلے میں ،امام نے فرمایا: اس سلسلے میں میرے شاگرد حمران ابن اعین سے مناظرہ کرو،شامی نے کہا میں آپ ہی سے مناظرہ کرنا چاہتا ہوں دوسروں سے نہیں ،امام نے فرمایا: حمران ابن اعین سے مناظرہ کرو اگر اس پر غالب آگئے تو گویا مجھ پر غالب آگئے ، پس شامی نے حمران سے مناظرہ شروع کر دیا اور تھک ہار کر بے بس نظر آیا ،امام نے فرمایا:اے شامی ! تم نے اسے کیسے پایا ؟ شامی نے کہا:میں نے حمران کو ماہر و مانوس پایا اور مجھے مکمل جواب ملے ،پھر شامی مرد نے کہا عربی علوم کے سلسلے میں مناظرہ کرنا چاہتا ہوں ،امام نے ابان ابن تغلب کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا: اس سے جو چاہو وہ دریافت کرلو،وہ ابان ابن تغلب کے پاس گیا اور ان سے مناظرہ میں شکست کا سامنا کیا ،پھر امام سے عرض کیا میں علم فقہ میں مناظرہ کرنا چاہتا ہوں ،امام نے اپنے ایک اور شاگرد کا تعارف کروایا جس کا نام زرارہ تھا امام نے شامی سے فرمایا: اس سے بحث کرو ،وہ تمہیں قانع کرے گا ،زرارہ سے شکست کے بعد شامی نے امام صادق علیہ السلام سے مخاطب ہوکر کہا اس بار آپ سے علم کلام کے سلسلے میں مناظرہ کرنا چاہتا ہوں ،اس بار بھی امام نے اپنے ایک شاگرد مومن طاق سے فرمایا: دیکھو اس کے اشکالات کیا ہیں ،مومن طاق نے مرد شامی سے مناظرہ کیا اور اس پر غالب آگئے اور اسی طرح ہشام بن سالم کے ساتھ توحید اور خدا شناسی کے سلسلے میں اور ہشام ابن حکم سے امامت و خلافت کے سلسلے میں مناظرہ ہوا اور شامی آدمی کو شکست ہوئی۔
امام صادق علیہ السلام مسکرا رہے تھے ،اس شامی نے کہا : گویا آپ مجھے یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ آپ کے شیعوں میں ایسے لوگ ہیں جو مختلف علوم سے واقف و ماہر ہیں؟
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: اسی طرح سمجھو(۔اختيار معرفة الرّجال : ص 275، ح 494)
اسی خد و خال سے امام نے اپنے تمام شاگردوں کو متخصص و ماہر بنایا اور نشر علوم کے لئے امام کی یہ روش کارگر ثابت ہوئی ۔
(۴) امام صادق علیہ السلام نے نشر علوم کے لئے جو علوم کا مرکز و محور ہے یعنی قرآن مجید کی واقعی تفسیر کو بیان فرمایا، جو اسرار قرآن پنہان تھے ان کو لوگوں کے فہم کے مطابق اجاگر کیا آج جتنی بھی تفاسیر روایی ہیں ان میں بیشتر روایات امام صادق علیہ السلام سے منقول ہیں یہ اقدام امام صادق علیہ السلام کا بے حد متاثر کن رہا اس لئے کہ اگر قرآن کی واقعی تفسیر نہ کی جاتی تو دیگر علوم پایدار و مستحکم نہ ہوتے لہذا امام کا یہ کارنامہ نشر علوم کے لئے ایک محور و مرکز قرار پایا۔

 حضرت«عزیر»  نسل هارون برادر موسی سے تعلق رکھتا ہے. وہ اسکا بھائی «عزیز»  بیت المقدس میں پیدا ہوئے تھے اور بعض کے مطابق ارمیا انکی جائے پیدائش بتایا جاتا ہے۔

قوم بنی‌اسرائیل کے انبیاء میں شمار ہوتے ہیں. عزیر ایرانی ایمپائر هخامنشیان کے دور میں ایران میں رہتا تھا.

مذہبی تواریخ کے مطابق عزیر جوانی میں خدا کے امر سے انتقال کرجاتے ہیں اور پھر دوبارہ سو سال کے بعد زندہ ہوجاتا ہے۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب عزیر ایک گاوں سے گزرتا ہے جہاں صرف پرانی قبریں موجود تھیں عزیر کے دل میں خیال آیا کہ خدا ان بوسیدہ ہڈیوں کو کیسے زندہ کرے گا۔

خدا کے حکم سے اسی وقت اسکی موت واقع ہوتی ہے اور سو سال کے بعد وہ دوبارہ زندہ ہوجاتا ہے اور اسے لگتا ہے کہ وہ ایک دن سونے کے بعد اٹھا ہے۔

بعض تفاسیر کے مطابق عزیر ایک ایسا انسان تھا جس نے بنی اسرائیل کو سو سالہ غلامی سے نجات دلاکر بابل سے فلسطین واپس لایا۔

بخت النصر جو تاریخ کے مطابق بابل کا ظالم حاکم بتایا جاتا ہے اس نے بیت المقدس پر حملہ کیا اور یہودی عبادت خانوں کو مسمار کرکے تورات کو شہید کیا اور بنی اسرائیل کے کافی لوگوں کو قتل کرکے انکو غلامی میں لیا اور انکو بابل منتقل کیا۔

حضرت عزیر نے اس وقت جب ایرانی ایمپائر کورورش نے هخامنشی دور میں بابل کو فتح کیا تو اس نے کوروش سے درخواست کی کہ وہ یہودیوں کو بیت المقدس واپس جانے کی اجازت دیں۔

عزیر کو تورات دوبارہ زندہ کرنے کا پیغمبر بھی کہا جاتا ہے. تورات کو شهر بیت المقدس میں حملے کے وقت نذر آتش کیا گیا تھا، عزیر کو تورات زبانی یاد تھا اس نے دوبارہ اس کو پڑھا اور لوگوں نے اس کو تحریر کیا۔

 

حضرت «عزیر» کا نام قرآن میں ایک بار آیا ہے اور وہ آیت 30 سوره توبه میں ہے جہاں کہا گیا ہے کہ یہودی اسے خدا کا بیٹا جانتا تھا، اسی طرح انکی سوسالہ موت کے بعد کا قصہ نام لیے بغیر آیت

259 سوره بقره میں آیا ہے۔

عزیر نبی کے مزار بارے کئی مقامات منسوب ہیں فلسطین میں غزہ کی پٹی، عراق کے صوبہ میسان کے جنوب میں اور اسی طرح ایران میں بھی عزیر سے منسوب مزار موجود ہے۔

فلسطین کی مزاحمتی تنظیموں کے مشترکہ وار روم نے غزہ پٹی پر آج کے حملوں کے نتائج کا ذمہ دار غاصب صیہونی حکومت کے رہنماؤں کو ٹھہراتے ہوئے کہا ہے کہ وہ وہ اس کی قیمت ادا کرنے کے لیے تیار رہیں۔

فلسطین کی مزاحمتی تنظیموں کے مشترکہ وار روم نے غزہ پٹی پر صیہونی حکومت کی فوج کے فضائی حملوں پر ردعمل میں ایک بیان جاری کیا اور تاکید کی کہ غاصب صیہونی حکومت اس کی قیمت ادا کرے گی۔

اس بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم بچوں، خواتین اور جہاد اسلامی تحریک کے عسکری بازو سرایا القدس کے شہید کمانڈروں کا سوگ منا رہے ہیں۔

فلسطین کی مزاحمتی تنظیموں کے مشترکہ وار روم نے اس بیان میں مزید کہا کہ مشترکہ وار روم مجرم دشمن کو اس بزدلانہ جرم کے نتائج کا مکمل ذمہ دار سمجھتا ہے اور صیہونی حکام کو خبردار کرتا ہے کہ وہ خود کو اس کی قیمت چکانے کے لیے تیار رکھیں۔

جہاد اسلامی تحریک کے ترجمان طارق سلمی نے المسیرہ چینل سے گفتگو میں کہا کہ صیہونی دشمن کو اس جرم کی قیمت چکانی پڑے گی اور ہم اس جرم کا جواب دینے کا اپنا فرض ادا کریں گے۔

وائٹ ہاؤس نے اطلاع دی ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے شامی حکومت کے خلاف یکطرفہ پابندیوں کی مدت میں مزید ایک سال کی توسیع کا فیصلہ کیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق یہ فیصلہ واشنگٹن کی طرف سے 2004 سے 2012 تک دمشق کے خلاف عائد کی گئی متعدد پابندیوں کے قوانین پر مبنی ہے۔

 ان پابندیوں میں خاص طور پر بعض افراد اور قانونی اداروں کے اثاثے منجمد کرنا اور شام کے لیے امریکی خصوصی اشیا اور خدمات کی برآمدات پر پابندی شامل ہے۔

اس بارے میں امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ میں شامی حکومت کے اقدامات کی وجہ سے شام کے حوالے سے ملک کی قومی صورتحال میں مزید ایک سال کی توسیع کر رہا ہوں۔

شام کی عرب لیگ میں واپسی سے متعلق ایک سوال کے جواب میں وائٹ ہاؤس کی ترجمان کرین جین پیئر نے کہا کہ شام کے خلاف امریکی پابندیاں جاری رہیں گی اور واشنگٹن دمشق کے ساتھ اپنے تعلقات کو معمول پر نہیں لائے گا۔

انہوں نے کہا کہ ہم اس سلسلے میں اپنے دوستوں اور شراکت داروں سے ان کی سرگرمیوں اور منصوبوں کے بارے میں بات چیت کر رہے ہیں اور ہم واضح طور پر کہتے ہیں کہ ہم بشار الاسد کی صدارت میں دمشق کے ساتھ اپنے تعلقات کو معمول پر نہیں لائیں گے۔

سحر نیوز/ دنیا: جعلی اور غاصب صیہونی حکومت کے قیام کی 75ویں برسی کے موقع پر ڈوئچے ویلے خبر رساں ادارے نے رپورٹ دی ہے کہ یہ حکومت پہلے سے کہیں زیادہ منقسم ہے۔

اس جرمن خبر رساں ادارے نے اپنی رپورٹ کے مقدمے میں لکھا ہے کہ تل ابیب بظاہر ایک دوراہے پر کھڑا ہے اور صیہونی حکومت کی انتہائی دائیں بازو کی کابینہ کی عدالتی اصلاحات نے گہرے اختلافات کو جنم دے دیا ہے۔

اس رپورٹ میں مقبوضہ علاقوں میں اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نتن یاہو کی حکومت کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہروں کی طرف اشارہ کیا گیا اور لکھا گیا ہے کہ ہر ہفتے کی رات مقبوضہ علاقوں میں ہزاروں افراد نتن یاہو کی انتہائی دائیں بازو کی کابینہ کے عدالتی نظرثانی کے منصوبے کے خلاف مظاہرے کرتے ہیں۔

ہر ہفتے نتن یاہو مخالف مظاہروں میں حصہ لینے والے ایک ریٹائرڈ یہودی کیمسٹ نے ڈوئچے ویلے کو بتایا ہے کہ میں فطرت کے لحاظ سے بہت پر امید ہوں لیکن ان دنوں میں بہت مایوسی کا شکار ہوں، لیکن ہم ہار نہیں مان رہے ہیں۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ گزشتہ چار مہینوں میں اس متنازعہ منصوبے کے مخالفین اور حامیوں کے درمیان معاشرے میں تقسیم مزید بڑھ گئی ہے۔ اس منصوبے کے مخالفین کا کہنا ہے کہ عدالتی نظرثانی سے اسرائیل کی جمہوریت کو خطرہ ہے جبکہ حامیوں کا کہنا ہے کہ اس پر لگام لگانا ضروری ہے جسے وہ حد سے زیادہ طاقتور سپریم کورٹ قرار دیتے ہیں۔

مقبوضہ علاقے کے ایک صیہونی باشندے کا کہنا ہے کہ وہ اس حکومت کے مستقبل کے بارے میں بہت پریشان ہیں اور اس بات پر زور دیتے ہیں کہ عدالتی نظرثانی کے منصوبے پر تنازعہ "خانہ جنگی کا باعث بن سکتا ہے"۔

اسلام ٹائمز۔ ایران کے صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی نے کہا ہے کہ فلسطین اور شام کی اقوام نے حالات کو مزاحمتی محاذ کے حق میں تبدیل کردیا ہے اور آج صیہونی حکومت ہر زمانے سے زیادہ کمزور ہو چکی ہے۔ اپنے دو روزہ دورے کے دوران دمشق کے زینبیہ علاقے میں واقع روضہ حضرت زینب سلام اللہ علیہا میں خطاب کرتے ہوئے ایرانی صدر کہا کہ دشمنوں نے بارہ سال تک فتنہ انگیزی کی، سازشیں رچیں، حرام پیسے دہشتگرد گروہوں اور داعش کو دیئے، شام کے مظلوم عوام کے خلاف سامراجی میڈیا کا بھرپور استعمال کیا، بچوں کو قتل کیا، خواتین کو بے گھر کیا، مگر ان تمام ہولناک ظلم و جبر کے باوجود آج شام سرفرازی کے ساتھ کھڑا ہوا ہے۔

صدر ایران نے کہا کہ شام اور عراق میں امریکیوں اور صیہونیوں کے بارہ برسوں پر محیط جرائم کے بالمقابل استقامت، پائیداری، حریم ولایت کے دفاع اور عالمی سامراج کے مقابلے میں ثبات و پامردی کا نورانی صفحہ رقم ہوا ہے۔ سید ابراہیم رئیسی نے مزید کہا کہ جس وقت شام اور عراق پر تکفیریوں کی یلغار شروع ہوئی تو بعض لوگ صورتحال کے بارے میں غلط اندازوں کا شکار ہوئے، مگر رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے اس کو صحیح طور پر سمجھا اور بتایا کہ یہ ایک صیہونی تحریک ہے اور اس صحیح تجزیے کے ساتھ تکفیریوں کے مقابلے میں استقامتی محاذ کو کھڑا کردیا۔ انہوں نے اسی طرح تکفیریوں کے مقابلے میں شامی عوام کی استقامت و پامردی کی قدردانی کی اور کہا کہ شام کی حکومت و عوام نے دوراندیشی کے ہمراہ اس فتنے کا خوب مقابلہ کیا ہے۔

سید ابراہیم رئیسی نے یہ بھی کہا کہ آج صیہونی حکومت ہر زمانے سے زیادہ کمزور اور قابل شکست ہو چکی ہے جبکہ اس کے مقابلے میں حزب اللہ، مزاحمتی، انقلابی اور راہ خدا میں جاری تحریک ہر زمانے سے زیادہ مضبوط ہو چکی ہے۔ صدر ایران نے ایک بار پھر واضح کیا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی پالیسی مظلوم اقوام کی حمایت پر استوار تھی اور رہے گی اور ایران ہمیشہ شامی اور فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑا رہے گا۔ خطاب سے قبل صدر ایران نے بنت علی مرتضیٰ (ع) حضرت زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا کی ضریح اقدس پر جاکر زیارت کی اور ساتھ ہی شام کے مدافع حرم شہیدوں کے اہل خانہ سے ملاقات اور مختصراً گفتگو بھی کی۔

اپنے اہل و عیال کو بے جا سختیوں میں رکھنا

رسول خدا ؐنے فرمایا: بد ترین لوگ وہ ہیں جو اپنے اہل و عیال کو سختی میں رکھتے ہیں۔

مختصر وضاحت:
مومن، اللہ کے دیے ہوئے مال کو اپنی روزمرہ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے خرچ کرتا ہے۔ اگر اللہ زیادہ عطا کرے تو وہ اس مال کو کھلے دل سے اپنے اہل و عیال پر خرچ کرتا ہے لیکن اگر تنگدست ہو تو قناعت اختیار کرتا ہے۔

جبکہ اس کے برعکس کنجوس انسان خود مال و دولت کو اپنے اہل و عیال پر ترجیح دیتا ہے۔ جس کے نتیجے میں اس کے اہل و عیال بنا بتائے اس کے مال میں تصرف کرنا شروع کردیتے ہیں حتی وہ مرد گھر والوں کی نظروں سے گر جاتا ہے کیونکہ وہ مال کو زیادہ اہمیت دیتا ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، آیت اللہ مرتضی مطہری کے یوم شہادت کے موقع پر منائے جانے والے یوم اساتذہ کی مناسبت سے اساتذہ اور ثقافتی امور کے فعال افراد سے خطاب کرتے ہوئے رہبر معظم نے فرمایا کہ اسکولوں میں زیرتعلیم بچوں کے اندر اسلامی اور ایرانی تشخص کو بھی زندہ کریں۔ بچوں کو ایرانی ہونے پر فخر کا احساس ہونا چاہئے۔

رہبر معظم نے شہید مرتضی مطہری کو حقیقی استاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کے اندر وہ تمام خصوصیات موجود تھیں جو ایک استاد کے اندر ہونا چاہئے۔ ان کے اندر علم، احساس ذمہ داری اور نظم و ضبط سمیت تمام خوبیان بدرجہ اتم موجود تھیں۔ ان کی شہادت کے اثرات معاشرے میں ظاہر ہوگئے ہیں۔ میری نصیحت یہی ہے کہ ان کے آثار کا مطالعہ کیا جائے۔

رہبر معظم نے اساتذہ کو انقلاب اسلامی کے گمنام سپاہی قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ملک کے دور دراز علاقوں میں خاموشی کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں انجام دینے میں مصروف ہیں۔ اس راہ میں موجود تمام مشکلات برداشت کررہے ہیں۔ حقیقت میں اساتذہ ہی ملت کے نونہالوں کی تعلیم و تربیت کا فریضہ انجام دے رہے ہیں اور روشن مستقبل کے لئے ان کو معاشرے میں تیار کررہے ہیں۔

رہبر معظم نے مزید فرمایا کہ سرکاری اسکولوں کی تعلیمی کیفیت میں کمی نہیں آنا چاہئے۔ اگر سرکاری اسکولوں میں اچھی تعلیم نہ دی جائے تو غریب کے بچے متاثر ہوں گے اس کے نتیجے میں وہ علمی میدان میں پیچھے رہ جائیں گے جو کہ ناانصافی ہے اور کسی بھی لحاظ سے قابل قبول نہیں ہے۔

انھوں نے ملک کے ذہین بچوں اور نوجوانوں میں ایرانی و اسلامی تشخص اور قومی شخصیت کے احساس کی بحالی کو ایک بنیادی ذمہ داری بتایا اور کہا کہ طلباء کو قابل فخر ہستیوں اور ان کے ثقافتی، علمی اور تاریخ ماضی سے حقیقی معنی میں روشناس کرانا چاہیے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے ٹیچر سوسائٹی کے سلسلے میں حکومت کی جانب سے ذمہ داری کے بھرپور احساس کو ایک حقیقی ضرورت بتایا اور کہا کہ ٹیچروں کی معیشت بہت اہم ہے لیکن ٹیچروں کے صرف معاشی مسائل ہی نہیں ہیں بلکہ ان کا دائرہ بہت وسیع ہے جن میں مہارت کا حصول، تجربات کا حصول اور ٹیچرز یونیوسٹی پر توجہ جیسی باتیں بھی شامل ہیں۔

انھوں نے ملک کی ہمہ جہت پیشرفت کی دشوار وادیوں سے عبور کو، تعلیم و تربیت کے ادارے کی مدد اور اس کے رول کے بغیر ناممکن بتایا اور ملک کی مشکلات کو دور کرنے کے لیے اسکول کی مرکزی حیثیت پر مبنی متعدد ماہرین کے اتفاق رائے کی طرف اشارہ کرتے ہوے کہا کہ راہ حل، اسکولوں کی اصلاح کے لیے صحیح منصوبہ بندی اور عزم مصمم ہے اور تمام عہدیداران، فیصلہ کرنے والوں اور عوام کو، تعلیم و تربیت کے ادارے کی حیاتی اہمیت کو سمجھنا چاہیے۔

آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے تعلیم و تربیت کے مینجمنٹ میں عدم استحکام پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اتنے بڑے ادارے کو وزیر کی لگاتار تبدیلی سے نقصان پہنچتا ہے، خاص طور پر اس لیے بھی کہ وزیر کی تبدیلی کے ساتھ کبھی کبھی اس کے معاونین، اوسط درجے والے افسران یہاں تک کہ اسکولوں کے پرنسپل تک بدل دیے جاتے ہیں۔

انھوں نے تعلیم و تربیت کے ادارے کے ڈھانچے، نصاب اور تعلیمی سسٹم کو ملک کی ضرورتوں کے مطابق بنائے جانے کو بہت اہم بتایا اور زور دے کر کہا کہ ملک کو جتنی مفکرین اور دانشوروں کی ضرورت ہے، اتنی ہی کام کی ماہر افرادی قوت کی بھی ضرورت ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے تعلیم و تربیت کے ادارے کے بنیادی تغیرات کی دستاویز کے سلسلے میں بھی عہدیداران کو کچھ  اہم سفارشیں کی۔

انھوں نے نصابی کتابوں کو اپ ٹو ڈیٹ اور زمانے کی تبدیلی کے لحاظ سے تبدیل کرنے کے سلسلے میں اسلامی تعلیمات اور مشہور اسلامی اور ایرانی شخصیات کو ان کتابوں میں شامل کرنا، ایک ضروری کام بتایا اور کہا کہ زمانے کی تبدیلی سے بعض لوگوں کی مراد اصولوں کی تبدیلی ہے جبکہ عدل و انصاف اور محبت جیسی بنیادی باتیں کبھی نہیں بدلتیں بلکہ تحریر اور بیان کے طریقے جیسے عمارت کے اوپری حصے بدل سکتے ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آخری حصے میں تعلیم و تربیت کے ادارے میں تربیتی امور کے اہتمام کو سراہتے ہوئے کہا کہ ان تربیتی امور کا اہتمام اسکولوں میں بھی کیا جانا چاہیے۔

اس ملاقات کے آغاز میں تعلیم و تربیت کی وزارت کے سرپرست جناب صحرائي نے، پچھلے ایک سال کی سرگرمیوں اور آئندہ کے پروگراموں کے بارے میں ایک رپورٹ پیش کی