سلیمانی

سلیمانی

رہبر انقلابِ اسلامی نے امام خمینی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی 34ویں برسی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ امام خمینی (رح) کی قیادت میں وجود میں آنے والے انقلاب جو کہ اسلامی اور عوامی انقلاب ہے، فلسطین کے مسئلے کو عالمی مسئلہ بنا دیا۔

رہبر انقلابِ اسلامی حضرت آیت اللہالعظمیٰ سید علی خامنہ ای نے امام خمینی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی 34ویں برسی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ امام خمینی (رح) کی قیادت میں وجود میں آنے والے انقلاب جو کہ اسلامی اور عوامی انقلاب ہے، فلسطین کے مسئلے کو عالمی مسئلہ بنا دیا۔

امام خمینی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی 34ویں برسی کی تقریب، عوام، قومی و عسکری حکام اور غیر ملکی سفیروں کی موجودگی میں مرقد امام خمینی رحمۃ اللّٰہ علیہ تہران میں جاری ہے۔رہبرِ انقلابِ اسلامی نے امام خمینی رحمۃ اللّٰہ علیہ کو زبردست الفاظ میں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ ملک کی نئی نسلوں کو امام رحمۃ اللّٰہ علیہ کے بارے میں مزید جاننے کی ضرورت ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ امام بزرگوار ابن سینا اور شیخ طوسی سے زیادہ متنوع شخصیت کے حامل ہیں۔ امام خمینی رحمۃ اللّٰہ علیہ کا روشن چہرہ اپنی دلکش اور دلفریب آواز سے سب کے سامنے اپنا تعارف کرواتا ہے۔ امام نے شہنشاہیت کا تختہ الٹ کر اس کی جگہ عوامی جمہوریت کو بحال کر دیا۔

انہوں نے مزید فرمایا کہ انقلابِ اسلامی نے ظلم و استبداد کو آزادی میں بدل دیا۔ انقلابِ اسلامی نے "ہم کر سکتے ہیں" کے جذبے کو پروان چڑھایا۔ امام رحمۃ اللّٰہ علیہ کے انقلابی اقدام سے مسئلہ فلسطین عالم اسلام کا اولین مسئلہ بن گیا۔ امام رحمۃ اللّٰہ علیہ کو تاریخ کے اوراق سے حذف نہیں کیا جا سکتا۔

امام خمینی رحمۃ اللّٰہ علیہ تاریخی رہبروں میں سے ایک ہیں

رہبر انقلابِ اسلامی نے حضرت امام خمینی (رح) کو تاریخی رہبروں میں سے ایک قرار دیا اور تاکید فرمائی کہ تاریخی اشخاص کو تاریخ سے حذف نہیں جا سکتا اور نہ ہی ان کو مسخ کیا جا سکتا ہے۔

امام رحمۃ اللّٰہ علیہ کی مدد کرنے والے عوامل آپ کے ایمان اور امید تھے۔

انہوں نے مزید فرمایا کہ شہید مطہری رحمۃ اللّٰہ علیہ پیرس میں امام (رح) سے ملاقات کے بعد، آپ کے ایمان پر حیرت کا اظہار کیا کرتے تھے۔

رہبرِ انقلابِ اسلامی نے دشمنوں کی لوگوں کے ایمان اور امید کو تباہ کرنے کی کوششوں کے بارے میں کہا کہ مغربی سیکورٹی اداروں کی طرف سے مختلف فسادات میں مالی، ہتھیار اور میڈیا کی مدد فراہم کی جاتی رہی۔ فسادات میں دشمنوں کی منصوبہ بندی ایسی تھی کہ لوگ سمجھنے لگے تھے کہ اسلامی جمہوریہ کا کام ختم ہو گیا ہے، لیکن ان احمقوں نے اپنی غلطی دہرائی تھی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ کے پرعزم جوانوں نے علمی میدانوں میں بڑے اور مؤثر کام کئے۔

آپ دیکھیں! ایرانی نوجوان کس عظمت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ہماری مساجد میں ہزاروں جوانوں کی تربیت ہوتی ہے۔

رہبر انقلابِ اسلامی نے آنے والے انتخابات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ انتخابات بہت اہم ہیں۔ دشمن آج سے ہی ہمارے آنے والے انتخابات پر نظر رکھے ہوئے ہے۔
https://taghribnews.

 ایرانی صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی نے کہا ہے کہ امام خمینی رح کی وفات کو 34 سال گزرنے کے باوجود وہ آج بھی زندہ ہیں، کیونکہ امام کی میراث، راہ و روش اور کلام زندہ ہے۔ آج امام خمینی رحمۃ اللّٰہ علیہ کا راستہ، طرزِ زندگی اور ایرانی قوم اور دنیا کی دیگر آزادی پسند قوموں کیلئے ان کے راہ نما فرامین پہلے سے زیادہ مقبول و پر رونق ہیں۔ امام خمینی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی 34 ویں برسی کی تقریب سے خطاب میں ایرانی صدر نے کہا کہ آج ہمیں امام راحل رح کی شخصیت، سیرت، کلام اور ان کی سربراہی میں کامیاب ہونے والے عظیم انقلاب کو جاننا چاہیئے۔انقلابِ اسلامی کی بنیاد امام خمینی نے رکھی اور آج بھی آپ کے نام سے ہی جانا جاتا ہے۔ ہمیں معاشرے میں امام راحل رح کی یاد اور نام کو زندہ رکھنا چاہیئے، کیونکہ کچھ لوگ انقلاب کی یادوں کو مٹانے اور اس کی غلط تبلیغ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لہٰذا اس سعادت مندی کے باعث اور روشن راستے کو جاری و ساری رکھنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ آیت اللہ رئیسی نے مزید کہا کہ امام راحلؒ دین کو ذاتی اور انفرادی اعمال اور احکامات کے سلسلہ کے طور پر نہیں، بلکہ معاشرے کے نظم و نسق کیلئے ایک مکمل، جدید اور ترقی یافتہ نظریہ کے طور پر پیش کرتے تھے اور امام کی اس روش سے، نئے نظام، نئی تہذیب اور دین کے نام پر ایک اسلامی معاشرہ قائم ہو سکتا ہے۔

امام خمینی رح کی 34 ویں برسی کے موقع پر بڑے اعتماد کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ بانی انقلاب اسلامی نے اسلام کی کئی تعلیمات کو اس کے حقیقی فلسفہ کے ساتھ پیش کرکے ان کا دوبارہ احیا کیا ہے۔ آپ جہاں ایک فقیہ تھے، وہاں ایک عارف بھی تھے۔ آپ جہاں ایک فلسفی تھے، وہاں دوسری طرف اخلاق کے ایک بااثر معلم بھی تھے۔ آپ ایک جانب علم کلام کے استاد اور دوسری طرف قرآن پاک کے بے بدل مفسر بھی تھے۔ آپ کی شخصیت کے حوالے سے صفات کو اگر دریا کو کوزے میں بند کیا جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ آپ نے اسلام کو اپنے حقیقی اور جوہری معانی کے ساتھ درک کیا۔ امام حمینی کے راستے پر چلنے والوں کے لئے آپ کی زندگی ایک کھلی کتاب کی مانند ہے، آپ نے انقلاب کے مختلف مراحل میں جہاد و فداکاری کا راستہ اختیار کیا۔

آج اگر ہم امام خمینی کے راستے پر چلنا چاہتے ہیں تو ہمیں استقامت و مقاومت کا راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ سمجھوتوں اور کمپرومائیز کا امام خمینی کی سیرت سے دور کا بھی کوئی راسطہ نہیں تھا۔ سلمان رشدی کا مسئلہ ہو یا اسلام کے خلاف کسی قسم کا اقدام ہو، آپ نے کبھی مصلحتوں سے کام نہیں لیا۔ آپ استقامت و مزاحمت میں اقوام کی بقا قرار دیتے تھے۔ آپ نے مقاومت اور استقامت کے جس مکتب کی بنیاد رکھی، اس نے ماضی میں شہید چمران، شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی اور حال ہی میں شہید قاسم سلیمانی جیسی شخصیات کو پیدا کیا۔ امام خمینی کے حوالے سے ان کی شخصیت کے کئی پہلؤوں پر لکھا جاسکتا ہے، لیکن آج ہم امام خمینی اور مکتب استقامت و مقاومت پر چند جملے تحریر کرنے کی کوشش کریں گے۔

بلاشبہ امام خمینی مزاحمت و استقامت کے مکتب کے بانی ہیں۔ امام کی نظر میں مزاحمت کی مختلف جہتیں ہیں۔ ان میں سے ایک جہت القدس کی قابض حکومت کے حوالے سے ہے۔ صیہونی حکومت کے بارے میں امام خمینی کا نظریہ اور اس حکومت کے خلاف قیام کی ضرورت کو امام خمینی اسلامی انقلاب کی فتح سے پہلے تسلسل سے بیان کرتے تھے۔ اسلامی انقلاب کی فتح سے قبل صیہونی حکومت کے خلاف امام کا مبارزہ کسی سے پوشیدہ نہیں تھا۔ آپ اسرائیل کی صحیح شناخت جانتے ہوئے، اس حکومت کو ایک غیر قانونی اور غاصب حکومت قرار دیتے تھے۔ آپ اس غاصب حکومت کو مختلف ناموں اور القاب سے پکارا کرتے جیسے، بدعنوانی کا جراثیم، بدعنوانی کا مرکب، کینسر کی رسولی، کرپشن کا نمونہ، وغیرہ وغیرہ۔۔۔

امام خمینی اسرائیل کے غاصبانہ خطرے کے بارے میں بارہا خبردار کرتے۔ مثال کے طور پر انقلاب اسلامی سے پندرہ سال پہلے 1342 شمسی کے عاشورا کو آپ نے محمد رضا شاہ پہلوی اور اسرائیل کے خلاف احتجاج کیا اور اس غاصب حکومت کو اسلام اور ایران کے دشمن کے طور پر متعارف کرایا۔ اس احتجاج کے ایک سال بعد آپ نے ایرانی قوم کی تمام پریشانیوں کی وجہ اسرائیل کو قرار دیا اور اس سرطانی رسولی کو تمام مسلمانوں کے لیے ایک سنگین خطرہ کہا۔ حضرت امام خمینی استعمار کا ہدف صرف فلسطین پر قبضہ نہیں سمجھتے تھے، بلکہ ان کی رائے میں سامراج کا ہدف تمام اسلامی ممالک پر حکومت کرنا اور انہیں القدس جیسی سرنوشت سے دوچار کرنا ہے۔

ایران کے اسلامی انقلاب کی فتح کے بعد امام خمینی نے فلسطینی مزاحمت کی نظریاتی اور عملی حمایت جاری رکھی۔ اسلامی انقلاب کی فتح کے ایک ہفتہ سے بھی کم عرصہ بعد امام خمینی نے اعلیٰ سطحی فلسطینی حکام کے ساتھ ملاقات میں “آج ایران، کل فلسطین” کے نعرے کو اپنی خارجہ پالیسیوں کی ترجیح قرار دیا۔ تاہم امام راحل کی مزاحمت کی حمایت کا عروج ان کے تاریخی اقدام میں تھا، جس میں آپ نے رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو عالمی یوم قدس کے طور پر متعارف کرایا۔ عالمی یوم قدس کا اعلان انقلاب کی فتح کے چھ ماہ بعد کیا گیا۔ آپ نے ایک پیغام میں رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو یوم القدس کے دن کے طور پر منانے کا اعلان کیا۔

اس پیغام کا متن کچھ یوں ہے: “کئی سالوں سے میں نے مسلمانوں کو اسرائیل پر قبضے کے خطرے سے خبردار کیا ہے، جس نے فلسطینی بھائیوں اور بہنوں پر اپنے وحشیانہ حملوں کو تیز کر دیا ہے اور فلسطینی جنگجوؤں کو تباہ کرنے کے مقصد سے، خاص طور پر جنوبی لبنان میں ان کے گھروں اور گھروں پر بمباری کی ہے۔” میں دنیا کے تمام مسلمانوں اور اسلامی حکومتوں سے کہتا ہوں کہ وہ اس غاصب اور اس کے حامیوں کے ہاتھ کاٹنے کے لیے متحد ہو جائیں اور میں دنیا کے تمام مسلمانوں کو رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو یوم القدس منانے کی دعوت دیتا ہوں۔ میں اللہ تعالیٰ سے مسلمانوں کی اہل کفر پر فتح کی دعا کرتا ہوں۔” عالمی یوم قدس مظلوموں کے حقوق کے دفاع اور حمایت اور عالمی استکبار کا مقابلہ کرنے کی سمت میں بانی انقلاب اسلامی کے اقدام کی میراث ہے۔

امام راحل کی نظر میں مزاحمت کا ایک اور اہم پہلو اسلام کے دفاع کے مقصد سے استکبار کے خلاف مزاحمت ہے۔ یہ جہت انقلاب اسلامی سے پہلے امام کے خطابات اور طرز عمل میں بھی دیکھی جا سکتی ہے، جس کا ایک مظہر ایران میں کیپچولیشن بل کی مخالفت تھی۔ اس بل کے مطابق پہلوی حکومت نے ایران میں امریکی فوجیوں اور ان کے اہل خانہ کو عدالتی استثنیٰ دے دیا تھا۔ امام کو اس بل کی مخالفت کی بہت بڑی قیمت ادا کرنا پڑی۔ ترکیہ کی طرف جلاوطنی اور پھر عراق اور فرانس میں جلاوطنی کا سلسلہ 14 سال تک جاری رہا۔

امام خمینی (رہ) کی قیادت میں ایران کے اسلامی انقلاب کی فتح کے بعد استکبار کے خلاف جنگ جاری رہی۔ انقلاب سے پہلے، ایران خطے کا ایک ایسا ملک تھا، جس کے فیصلے امریکہ کرتا تھا اور مغربی ایشیاء کے علاقے میں نکسن کی حکمت عملی کے دو ستونوں میں سے ایک تھا۔ انقلاب اسلامی کی فتح کے بعد، ایران امریکہ کے خلاف جنگ کا علمبردار بن گیا۔ ایران ایک ایسا کھلاڑی بن گیا، جو مغربی ایشیائی خطے میں کسی بھی امریکی مداخلت کی مخالفت اور مقابلہ کرتا تھا۔ مشہور امریکی تھیوریسٹ Zbigniew Brzezinski کہتے ہیں: “شاہ کے زوال کے ساتھ پورے خطے میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ اور ایران کی وجہ سے پیدا ہونے والی افراتفری نے ایک ایسے خطے میں ہمارے مفادات کے لیے مستقل خطرہ پیدا کر دیا ہے، جس پر مغربی دنیا کی زندگیوں کا مکمل طور پر انحصار ہے۔”

اس کے علاوہ امام خمینی (رہ) کی قیادت میں اسلامی انقلاب کی فتح کے ساتھ ہی مغربی ایشیائی خطے میں آزادی کی تحریکیں ابھریں اور پھیلیں، جن تحریکوں کی اہم خصوصیت صیہونی حکومت اور امریکہ کے خلاف جدوجہد ہے۔ امام راحل نے مشرق وسطیٰ کے مسلمانوں کی اصل شناخت پر زور دیتے ہوئے استکبار اور غاصب حکومت کے خلاف اسلامی بیداری کا احیاء کیا۔ درحقیقت امام خمینی (رہ) نے اپنی قیادت کے ذریعے استعمار مخالف نظریات اور مزاحمت کے محور کے قیام کا سنگ بنیاد رکھا، جو آج علاقہ کا سب سے بڑا بلاک ہے۔ آج اسلامی انقلاب اور مزاحمت کا بلاک صہیونی امریکی بلاک اور مغربی ایشیاء میں اس کے اتحادیوں کے لئے ڈراؤنا خواب بن چکا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے بانی نے خطے میں غیروں اور استعمار کے خلاف جنگ میں جہاد اور عوامی مزاحمت کے علاوہ کسی بھی طریقہ کو کارآمد نہیں سمجھا اور اس بات کا یقین دلایا کہ جارحین کے خلاف سیاسی یا سفارتی طریقوں سے مسئلہ حل ہونے والا نہیں ہے۔

آج امام خمینی کی رحلت کے 34 سال بعد یہ نظریہ ثابت ہوا کہ مذاکرات اور سمجھوتہ سے نہ صرف اسلامی ممالک اور بالخصوص فلسطین کے مفادات کا تحفظ نہیں ہوا ہے، بلکہ قابض حکومت کے ساتھ کسی بھی قسم کے سمجھوتے اور تعلقات نے اس غاصب حکومت کو مزید جری کیا ہے۔ پائیداری اور مزاحمت کی خصوصیت، یہ وہ چیز ہے، جس نے امام کو ایک مکتب فکر کی شکل میں، ایک نظریئے کی حیثیت سے، ایک فکر کے طور پر، ایک راستے کے طور پر متعارف کرایا۔ امام خمینی کے نظریہ استقامت کے بار ے میں رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ خامنہ ای فرماتے ہیں کہ میں جب امام کی اس خصوصیت کے بارے میں سوچتا ہوں اور قرآنی آیات پر نظر ڈالتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ امام نے حقیقت میں اپنی اسی استقامت و مزاحمت کے ذریعے قرآن کی بہت سی آیتوں کی عملی تصویر پیش کی۔

مثال کے طور پر قرآن کریم کی یہ آیت کہتی ہے؛ “فَلِذالِکَ فَادعُ وَاستَقِم کَما اُمِرتَ وَ لا تَتَّبِع اَهواءَهُم” دھمکی، لالچ اور فریب کی کوششوں کا امام پر کبھی کوئی اثر نہ ہوا۔ ایسا نہیں تھا کہ امام کو دھمکی نہیں دی گئی، لالچ نہیں دیا گيا یا فریب دینے کی کوشش نہیں کی گئی۔ کیوں نہیں، یہ سب ہوا، لیکن امام خمینی پر ان کوششوں کا رتی برابر بھی اثر نہیں ہوا، ان کی استقامت و مزاحمت پر ذرہ برابر بھی اس کا اثر نہیں پڑا۔ مزاحمت سے مراد کیا ہے؟ مزاحمت سے مراد یہ ہے کہ انسان نے کسی راستے کو چنا ہے، جسے وہ حق کا راستہ سمجھتا ہے، صحیح راستہ مانتا ہے۔ اس راستے پر وہ اپنا سفر شروع کر دے اور راستے کی رکاوٹیں اسے پیش قدمی جاری رکھنے اور سفر سے روک نہ پائیں۔ یہ مزاحمت و استقامت کا مفہوم ہے۔ مثال کے طور پر کبھی کسی راستے میں انسان کے سامنے سیلابی طوفان آجاتا ہے، کوئی گڑھا آجاتا ہے، یا کوہستانی علاقے میں کسی چوٹی پر پہنچنے کی کوشش کر رہا ہے اور راستے میں کوئی بڑی چٹان آجاتی ہے۔

کچھ لوگ ایسا کرتے ہیں کہ جب چٹان سامنے آجائے یا کوئی اور بڑی رکاوٹ آجائے، کوئی چور موجود ہو، کوئی بھیڑیا موجود ہو تو وہیں سے قدم واپس کھینچ لیتے ہیں، سفر جاری رکھنے کا ارادہ ترک کر دیتے ہیں۔ مگر کچھ لوگ ہیں، جو ایسا نہیں کرتے۔ وہ دیکھتے ہیں کہ کہیں سے گھوم کر اس چٹان سے آگے بڑھنے کا راستہ ہے یا نہیں۔ اس رکاوٹ سے نمٹنے کا طریقہ کیا ہے۔؟ وہ اس راستے کو تلاش کر لیتے ہیں، اس رکاوٹ کو دور کرتے ہیں یا پھر دانشمندی سے کام لیتے ہوئے گھماؤ دار راستے پر چل کر اس رکاوٹ کو عبور کر لیتے ہیں۔ مزاحمت و استقامت کا یہی مطلب ہے۔ امام خمینی ایسے ہی تھے۔ آپ نے ایک راستہ چن لیا تھا اور اس راہ پر گامزن تھے۔ یہ راستہ کیا تھا؟ امام کی بات کیا تھی، جس پر آپ استقامت و ثابت قدمی کا مظاہرہ کر رہے تھے۔؟ امام کا موقف تھا کہ دین خدا کی حکمرانی، دین خدا کی حاکمیت، مسلمانوں پر اور عوام کی عمومی زندگی پر مکتب الہیہ کی حکمرانی۔ یہ امام کا موقف تھا۔

یہ بھی ظاہر ہے کہ دنیا کی جابر قوتیں اس موقف اور اس روش کی مخالف ہیں۔ دنیا کا استکباری نظام ظلم پر استوار ہے۔ جس وقت امام خمینی نے اس تحریک کا آغاز کیا، اس وقت دو سال سے مغربی حکومتیں دنیا کے گوشہ و کنار میں، ایشیاء میں، افریقہ میں، مختلف ممالک میں قوموں کو اپنے بے تحاشا مظالم کے نشانے پر رکھے ہوئے تھیں۔ انگریزوں نے ہندوستان اور اس علاقے کے دیگر ممالک میں، فرانسیسیوں نے افریقا میں، الجزائر اور دیگر ممالک میں، بعض دیگر یورپی ممالک نے دوسرے گوناگوں ملکوں میں آشکارا طور پر ظلم کا بازار گرم کر رکھا تھا۔ ظاہر ہے اس نعرے سے ان طاقتوں کا برافروختہ ہونا لازمی تھا۔

یہ مزاحمت رفتہ رفتہ اسلامی جمہوریہ کی حدود سے باہر نکلی۔ ایسا نہیں تھا کہ ہم اس مزاحمت کو ایک فکر اور نظریئے کے طور پر باہر پھیلا رہے تھے، جیسا کہ بعض سیاسی رہنماء اور دیگر افراد گوشہ و کنار میں اعتراض کرتے ہیں کہ آپ انقلاب کو برآمد کرنے کی فکر میں کیوں ہیں؟! ہم انقلاب کو ایکسپورٹ نہیں کر رہے ہیں۔ انقلاب ایک فکر ہے، ایک نظریہ ہے، ایک راستہ ہے، اگر کوئی قوم اسے پسند کرنے لگے تو وہ قوم خود بخود اسے اپنا لے گی۔ امام نے مزاحمت کا راستہ اختیار کیا۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ امام نے ہیجان زدہ ہو کر یہ راستہ نہیں چنا، جذبات و احساسات کے بہاؤ میں اس راستے کا انتخاب نہیں کیا۔ اس منطقی فکر کا ایک پہلو یہ ہے کہ مزاحت جبر و زیادتی پر ہر باوقار اور آزاد منش قوم کا فطری ردعمل ہوتا ہے۔ اس کے لئے کسی اور وجہ کی ضرورت نہیں ہے۔ جو قوم بھی اپنے وقار کو، اپنے تشخص کو، اپنی انسانیت کو خاص ارزش و احترام کی نگاہ سے دیکھتی ہے، اگر وہ محسوس کرے کہ اس پر کوئی چیز مسلط کی جا رہی ہے تو ضرور مزاحمت کرتی ہے۔

دوم: مزاحمت کی صورت میں دشمن پسپائی پر مجبور ہوتا ہے، ہتھیار ڈال دینے کی صورت میں ایسا نہیں ہوتا۔ جب دشمن آپ سے زبردستی کا برتاؤ کرے اور آپ ایک قدم پیچھے ہٹ جائیں تو وہ آگے آجائے گا، اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ اس کو آگے بڑھنے سے روکنے کا راستہ یہ ہے کہ آپ اپنی جگہ ڈٹ جائیے! دشمن کے بے جا مطالبات، غنڈہ ٹیکس وصولی اور باج خواہی کے مقابلے میں مزاحمت و استقامت دشمن کی پیش قدمی روکنے کا موثر طریقہ ہے۔ لہذا کفایتی روش مزاحمت کی روش ہے۔ مزاحمت کی منطق کا تیسرا پہلو وہ چیز ہے، جسے میں نے ایک دو سال قبل اسی جلسے میں ذکر کیا اور وہ یہ ہے کہ مزاحمت و استقامت کی ایک قیمت ادا کرنا ہوتی ہے، ایسا نہیں ہے کہ اس کی کوئی قیمت نہ چکانی پڑے، لیکن دشمن کے سامنے ہتھیار ڈال دینے کی جو قیمت ہے، وہ استقامت و مزاحمت کی صورت میں چکائی جانے والی قیمت سے کہیں زیادہ ہے۔ جب آپ دشمن کے سامنے ہتھیار ڈال دیتے ہیں تو آپ کو ایک قیمت چکانی پڑتی ہے۔

آج سعودی حکومت پیسہ بھی دیتی ہے، ڈالر بھی ادا کرتی ہے، امریکہ کے اشارے پر اپنا موقف طے کرتی ہے، لیکن پھر بھی اسے توہین برداشت کرنا پڑتی ہے، اسے دودھ دینے والی گائے کہتے ہیں! مصالحت کر لینے، ہتھیار ڈال دینے، مزاحمت نہ کرنے کی قیمت مزاحمت و استقامت کرنے کی قیمت سے کئی گنا زیادہ ہے۔ مادی قیمت بھی چکانی پڑتی ہے اور معنوی قیمت بھی چکانی پڑتی ہے۔ اسلامی جمہوری نظام میں جس مزاحمتی مکتب فکر کی بنیاد ہمارے بزرگوار امام نے رکھی، اس کا چوتھا پہلو اور چوتھا عنصر یہ قرآنی حصہ اور اللہ کا وعدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی متعدد آیتوں میں مکرر یہ وعدہ کیا ہے کہ اہل حق اور حق کے طرفداروں کو حتمی فتح ملے گی۔ اس مفہوم پر قرآن کی بہت سی آیتیں دلالت کرتی ہیں۔ ممکن ہے کہ انھیں قربانی دینی پڑے، لیکن اس مقابلے میں آخر میں انھیں شکست نہیں ہوتی بلکہ وہ فتحیاب ہوتے ہیں۔ قربانی برداشت کرنی پڑتی ہے، لیکن ناکامی برداشت نہیں کرنی پڑتی۔

پانچواں نکتہ جو مزاحمتی منطق کے تعلق سے مدنظر رکھنا چاہیئے، چنانچہ امام خمینی رحمۃ اللہ بھی اسے مدنظر رکھتے تھے اور ہم بھی اسے جانتے ہیں، سمجھتے ہیں اور تخمینہ لگاتے ہیں، وہ یہ ہے کہ مزاحمت ایک ممکن عمل ہے۔ ان لوگوں کی غلط سوچ کے بالکل بر خلاف جو کہتے ہیں اور پرچار کرتے ہیں کہ “جناب! کوئی فائدہ نہیں ہے۔ آپ کیسے مزاحمت کریں گے؟ فریق مقابل تو بہت بڑا غنڈہ ہے، بہت طاقتور ہے۔” یہی سب سے بڑی بھول ہے، سب سے بڑی غلطی یہی ہے کہ کوئی یہ تصور کر لے کہ دنیا کی جابر قوتوں کے مدمقابل مزاحمت نہیں کی جا سکتی، ان کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ اندازے کی غلطی ہے۔ کسی بھی مسئلے میں تخمینے کی غلطی وہاں پیدا ہوتی ہے، جہاں ہم اس قضیئے کے گوناگوں عوامل اور پہلوؤں کو دیکھ نہیں پاتے۔

جب ایک مقابلے کی بات ہو رہی ہے، دو محاذوں کے تصادم کی بات ہو رہی ہے تو اندازے کی غلطی اس لئے پیدا ہوتی ہے کہ ہم اپنے محاذ سے بھی بخوبی واقف نہیں ہیں اور دشمن محاذ کو بھی اچھی طرح نہیں پہچانتے۔ اگر ہمیں شناخت نہیں ہے تو اندازہ لگانے میں بھی ہم سے ضرور غلطی ہوگی۔ اگر ہمارے پاس صحیح شناخت ہو تو ہمارے تخمینے الگ ہوں گے۔ میں یہی عرض کر رہا ہوں کہ دنیا کی جابر قوتوں کے مقابلے میں مزاحمت کے مسئلے میں اندازہ اور تخمینہ لگائیں تو ضروری ہے کہ ان قوتوں کے حقائق کا ہمیں صحیح علم ہو اور ہمیں اپنے حقائق سے بھی پوری آگاہی ہو۔ ان حقائق میں سے ایک مزاحمتی محاذ کی طاقت ہے۔

تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

خدیجہ رضائی نے مہر نیوز سے گفتگو میں کہا کہ میرے لئے میڈل سے محروم ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا، فلسطینیوں کو بتانا چاہتی ہوں کہ ہمیں ان کا خیال ہے، اپنے حق اور چند سال کی محنت کے ثمر سے دستبردار ہورہی ہوں تاکہ آپ فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کرسکوں۔

مہر خبررساں ایجنسی، گروہ مجلہ؛ ایک مدت تک زخمی ہونے کے بعد گذشتہ ہفتے ذاتی خرچے پر خصوصی اکیڈمی کے ہمراہ عالمی میڈل حاصل کرنے کے لئے جارجیا کا سفر کیا لیکن منفرد سرنوشت اس کی منتظر تھی۔ ایسی تقدیر جس نے دنیا کے سامنے مقابلے کا نیا رخ پیش کیا۔ بین الاقوامی اعزازات کی مالک ایرانی جوجیتسو ٹیم کی رکن خدیجہ رضائی کھیل کے میدان میں واپسی کے بعد ایک اور کامیابی سے چند ہی قدم  کے فاصلے پر ایسا فیصلہ کیا جو کسی فائٹ سے کم نہ تھا۔ اس جوان خاتون کے اس فیصلے کے بارے میں ان کی رائے اور ان کہی باتیں جاننے کے لئے مہر نیوز کے ساتھ ان کا انٹرویو پیش کیا جاتا ہے۔

صہیونی کھلاڑی کا مقابلہ کرنے سے انکار، فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کے لئے ایرانی لڑکی میڈل سے دستبردار


جوجیتسو کے کھیل کے بارے میں کچھ بتائیں شاید بعض جوانوں کے لئے یہ کھیل نامانوس ہے۔

جوجیتسو سالوں سے دنیا میں کھیلا جارہا ہے اور تقریبا پوری دنیا اس کے بارے میں جانتی ہے۔ یہ ذاتی دفاع کے لئے بھی استعمال کیا جانے والا کھیل ہے۔ یہ کھیل کراٹے اور جوڈو سے زیادہ شباہت رکھتا ہے۔ کراٹے کی طرح اس کی بھی کئی شکلیں ہیں۔ مختلف پوزیشنز پر مقابلے کا اہتمام بھی اسی کے مطابق ہوتا ہے۔ میں نے چونکہ باکسنگ اور ووشو بھی کھیلا ہے اس لئے جوجیتسو میرے لئے دلچسپ تھا۔ 

مہر نیوز: اس سخت کھیل کو کیوں انتخاب کیا؟ نیا ہونے کی وجہ سے سپانسر کے حوالے سے مشکل نہیں ہوئی؟

خدیجہ رضائی: اس کھیل کی مدد کم کی جاتی ہے مخصوصا خواتین کے لئے مدد نہ ہونے کے برابر ہے۔ مقابلوں میں شرکت کے وقت سخت پروجیکٹ کرنا ہوتا ہے۔ سخت حالات سے پنجہ آزمائی کرنا پرتا ہے جن میں زخمی ہونے کے امکانات بھی ہوتے ہیں۔ لیکن پھر جوش و جذبے  کے ساتھ مشق کرتی ہوں۔ زخمی ہونے کی وجہ سے علاج کا مرحلہ طے کرتی ہوں تاکہ دوبارہ خود کو دنیا کے سامنے پیش کرسکوں۔
اس کھیل کے اخراجات زیادہ ہیں۔ ڈالر کی قیمت بڑھنے سے مالی مشکلات کئی گنا بڑھ گئی ہیں لیکن تمام تر سختیوں کے باوجود جوش و جذبے کی وجہ سے اس کھیل کو جاری رکھوں گی اور مشکلات کا مقابلہ کروں گی۔ میں چاہتی ہوں کہ اس کھیل میں آنے والی لڑکیوں اور خواتین کی مدد ہوجائے۔ ہماری لڑکیاں محنتی اور باصلاحیت ہونے کے باوجود منظر عام پر نہیں آتی ہیں۔ ان کی مدد نہیں کی جارہی ہے۔ اگر حالات بہتر ہوجائیں تو اس کھیل میں ایران کا مستقبل روشن ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ میری ذات کے بجائے اس کھیل کی مدد کی جائے۔ جن کھیلوں میں کھلاڑیوں کی بڑی تعداد محنت اور پریکٹس کرتی ہے، ان کی قومی سطح پر حوصلہ افزائی ہونا چاہئے۔ جوجیتسو کی بھی قومی سطح پر حمایت کی جائے تو ایک مستقل کھیل کے طور پر ابھر سکتا ہے۔

صہیونی کھلاڑی کا مقابلہ کرنے سے انکار، فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کے لئے ایرانی لڑکی میڈل سے دستبردار

مہر نیوز: اب تک کن سختیوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے؟

خدیجہ رضائی: زخمی ہونے کی وجہ سے بغیر کسی وقفے کے فیزیوتھراپی کے لئے جانا پڑا، پریکٹس کے دوران سیکھنے کی کوشش کرتی تھی ہر دفعہ قم سے تہران جانا پڑتا تھا۔ اس سفر کو سختی کے ساتھ طے کرتی تھی۔ ان تمام سختیوں کو برداشت کرنے کے بعد جب ٹورنامنٹ میں مقابلے کا شیڈول دیکھا تو صہیونی کھلاڑی سے میرا مقابلہ تھا جوکہ نہایت حیرت اور دردناک لمحہ تھا۔ پورا وقت اور توانائی خرچ کرنے کے بعد جب میڈل حاصل کرنے کا موقع آیا تو ناگہانی صورتحال کا سامنا ہونا کسی بھی لحاظ سے خوشگوار نہیں تھا۔

مہر نیوز: آپ نے شدید زخمی ہونے کے بعد خود عالمی مقابلے کے لئے تیار کیا اور صہیونی کھلاڑی سے مقابلہ رکھنے پر احتجاج کرتے ہوئے مقابلے سے دستبردار ہوگئیں، ایسا فیصلہ کیوں کیا؟

خدیجہ رضائی: جی ہاں! جب ٹورنامنٹ کا شیڈول دیکھا تو حیرت میں پڑ گئی لیکن کھلاڑیوں کے بھی جذبات ہوتے ہیں جن کے بل بوتے پر وہ لڑتے ہیں۔ میں خود کو چمپئن نہیں سجھتی لیکن ہر کوئی اپنے مربی اور کوچ وغیرہ سے جذبات اور آئیڈیا لیتا ہے۔ ہر جگہ کمی بیشی ہوتی ہے جن کے بارے میں گفتگو ہونا چاہئے لیکن بہرحال مجھے یہ فیصلہ کرنا لازم تھا۔

دراصل میں جس صورتحال سے دوچار تھی وہ ظالم اور ظلم کے خلاف احتجاج کا مرحلہ تھا، فلسطین کے مظلوم عوام اور غاصب صہیونیوں کا معاملہ تھا اس کو قبول کرنا میرے لئے ناممکن تھا۔ میں کسی پر ظلم برداشت نہیں کرسکتی تھی اسی لئے ٹورنامنٹ سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کیا۔

میں اس موقع پر خود سے کہا کہ خدیجہ! تم سے سختیاں برداشت کیں لیکن۔۔۔ اب بھی میں یہی کہتی ہوں کہ مجھے ان پر غصہ آرہا ہے۔ یہ ایک موقع تھا جو سال میں ایک مرتبہ ہاتھ آتا ہے میں دو سالوں سے سخت محنت کی تھی۔ اسی دن کے لئے اپنی زندگی کے چار سال گزار دیے تھے تاکہ مقابلے میں شرکت کرکے میڈل حاصل کروں لیکن جب یہ موقع آیا تو خود سے کہا کہ میڈل سے محروم ہونا بڑی بات نہیں ہے لیکن اس فیصلے کے ذریعے فلسطینی عوام کو بتاسکتی ہوں کہ ان حالات میں بھی میں ان کی حمایت کرتی ہوں۔ اپنی حصے کی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے اپنے حق اور حقوق سے دستبردار ہورہی ہوں تاکہ معاشرے کے ایک فرد کی حیثیت سے آپ کا دفاع کرسکوں۔ کئی سال کی زحمت اور محنت کے پھل کو فلسطینیوں کی حمایت پر قربان کررہی ہوں۔

مہر نیوز: صہیونی لابی انتہائی طاقتور ہے اور آپ کے اس فیصلے کی وجہ سے مستقبل میں آپ کے لئے مشکلات ایجاد کرسکتی ہے چنانچہ دوسرے کھلاڑیوں کے ساتھ ایسا ہی ہوا ہے، آپ نے ان کے ساتھ نئی جنگ چھیڑی ہے، اس حوالے سے کیا سوچتی ہیں؟

خدیجہ رضائی: یہ امکان ہے کیونکہ وہ ایران کے حوالے سے زیادہ حساس ہیں۔ بعض اوقات دباو سے کام لینے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ ہماری دستبرداری کی وجہ جان سکیں اور اس کی توجیہ پیش کرسکیں۔ یہ ہمارے لئے پریشان کن ہے لیکن ہم اسرائیل کو کسی بھی صورت میں قبول نہیں کرتے ہیں میں بھی ایک کھلاڑی کی حیثیت سے اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتی ہوں اسی لئے میدان میں اترنے سے پہلے ہی دستبرداری کا اعلان کردیا۔ مجھے اپنے اوپر یقین تھا کہ جتنی محنت کی ہے اس کے بل بوتے پر حریف کو شکست دے کر میدان سے سربلند ہوکر باہر آوں گی لیکن فلسطینیوں کی خاطر اور بے گناہ قتل ہونے والوں کی خاطر اور ان جوانوں کی خاطر جو ورزش کی کم ترین سہولیات سے بھی محروم ہیں، مقابلے سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا۔ آج دنیا آگاہی کی دنیا ہے۔ ہم تصاویر دیکھتے ہیں اور حقائق کا مطالعہ کرتے ہیں اور ان کے جرائم کے بارے میں اچھی طرح آگاہی رکھتے ہیں۔ پوری دنیا کو ان چیزوں کے بارے میں آگاہ ہونا چاہئے۔

 

ں

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، آیت اللہ رئیسی نے کہا کہ دنیا میں طاقت کا توازن بدل رہا ہے، مستقبل میں عالمی اداروں کے بجائے علاقائی تنظیمیں زیادہ فعال کردار ادا کریں گی، سیکا کو رکن ممالک کے درمیان تعاون اور سیکریٹریٹ کو مزید فعال کرنے کی ضرورت ہے۔

کانفرنس برائے باہمی تعاون و اعتمادسازی ایشیا کے سیکریٹری جنرل غیرت ساری نے تہران میں ٰایران کے صدر آیت اللہ ابراہیم رئیسی سے ملاقات کی۔ اس موقع پر صدر رئیسی نے تنظیم کے رکن ممالک میں موجود استعداد اور مواقع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ رکن ممالک کے تعاون اور سیکریٹریٹ کو مزید فعال کرکے تنظیم کے کردار کو بڑھایا جائے۔

انہوں نے کہا کہ ایران تعلیم، ٹیکنالوجی، معیشت، دہشت گردی اور جرائم پیشہ تنظیموں کے خلاف آپریشن کے تجربات کی روشنی سیکا کے رکن ممالک کے ساتھ تعاون کرنے کے لئے تیار ہے۔ دنیا میں ایک طاقت کا تصور ختم ہورہا ہے۔ اس وقت کئی طاقتیں جنم لے رہی ہیں۔ ایک طاقت کی طرف جھکاو کا نظریہ ختم ہونے کے بعد خطے کی سطح پر فعال تنظیمیں زیادہ کردار ادا کریں گی۔

اس موقع پر تنظیم کے سیکریٹری جنرل غیرت ساری بای نے کہا کہ ایران نے دہشت گردی کے خلاف ہمیشہ تنظیم کے ساتھ تعاون کیا ہے۔ ایران نے تعلیم، اقتصاد اور ٹیکنالوجی کے میدان میں قابل قدر ترقی کی ہے۔ ہم ایران سے امید کرتے ہیں کہ ان شعبوں میں تنظیم کے ساتھ تعاون کرے۔

انہوں نے رکن ممالک کے فلاح و بہبود کے لئے مشترکہ فنڈ کی تاسیس کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے اس حوالے سے ایران کے کردار کی قدر دانی کی۔

گزشتہ روز مقبوضہ فلسطین کے طولکرم شہر کے قریب حرمیش صیہونی بستی میں فلسطینی جوانوں نے فائرنگ کر کے ایک صیہونی کو ہلاک کر دیا۔ اس مزاحمتی آپریشن کی ذمہ داری شہداء الاقصیٰ بریگیڈ سے وابستہ ایک گروہ نے قبول کی ہے۔

فلسطینی جوانوں کی کامیاب مزاحمتی کارروائی کے بعد حماس نے ایک بیان جاری کر کے فلسطین کے مغربی کنارے اور غرب اردن کے علاقوں منجملہ طولکرم میں فلسطینی جوانوں کے ہاتھوں فائرنگ کے واقعات نے یہ ثابت کر دیا ناجائز صیہونی حکومت اس علاقے میں مزاحمتی گروہوں اور انکے انتقامی جذبے کی سرکوبی میں ناکام رہی ہے۔

حماس کے ترجمان عبد اللطیف قانوع نے کہا کہ طولکرم آپریش اپنی مادر وطن اور مقدسات کے دفاع کو لے کر فلسطینی عوام کے پُرعزم ہونے کا ثبوت ہے۔

فلسطین عوامی محاذ کی مرکزی کمیٹی کے رکن محمد الغول نے بھی طولکرم آپریشن کو مزاحمتی محاذ کے سامنے صیہونی حکومت کی انٹیلیجنس کی شکست قرار دیا۔

فلسطین کی مجاہدین تنظیم نے بھی ایک بیان میں کہا کہ اس آپریشن نے ایک بار پھر جرائم پیشہ صیہونی حکومت کی کمزوری کو عیاں کرنے کے ساتھ ساتھ یہ ثابت کر دیا کہ فلسطینی مزاحمت دشمن پر کاری ضرب لگانے کے لئے آمادہ ہے۔

منگل کے روز ترکمنستان کی پیپلز کاؤنسل "مصلحت" کے سربراہ قربان قلی بردی محمداف نے ایک اعلیٰ سطحی سیاسی و اقتصادی وفد کے ہمراہ تہران کا دورہ کیا۔ ملاقات اور گفتگو کے بعد دونوں ممالک کے اعلیٰ حکام نے ایک مشترکہ نشست میں بھی حصہ لیا۔

اس موقع پر صدر ایران سید ابراہیم رئیسی نے کہا کہ ہم مغربی ممالک کے برخلاف کہ جو انسانی حقوق کا صرف دعویٰ کرتے ہیں، ہم حقیقتاً انسانی حقوق کے درپے ہیں اور علاقے میں ایران کی پالیسی صلح و آشتی، استحکام اور سکیورٹی کی تقویت پر مبنی ہے۔

صدر ایران نے ترکمنستان کے ساتھ اپنے ملک کے تعلقات کو گہرے تمدنی اور ثقافتی اشتراکات کا حامل اور صرف ہمایسگی پر استوار تعلقات سے بالاتر قرار دیا۔ سید ابراہیم رئیسی نے مزید کہا کہ تہران اور عشق آباد کے باہمی تعلقات میں گزشتہ دو برسوں کے دوران خوب فروغ پائے ہیں اور یہ پڑوسی ممالک کے ساتھ ہماری پالیسی کا نتیجہ ہے۔

صدر ایران نے واضح کیا کہ دونوں ممالک کے مابین تعلقات کے فروغ میں کسی قسم کی رکاوٹ موجود نہیں ہے اور دونوں ممالک سائنس و ٹکنالوجی، انرجی، ٹرانزٹ، نقل و حمل، کسٹم اور زراعت کے شعبوں میں باہمی تعاون کے لئے بہت سی گنجائشوں کے حامل ہیں۔

انہوں نے دونوں ممالک کی مشترکہ اقتصادی و تجارتی نمائشوں کے انعقاد پر مبنی ترکمنستان کی پیپلز کاؤنسل "مصلحت" کے سربراہ کی تجویز کا خیرمقدم بھی کیا۔

اس نشست میں قربان قلی بردی محمداف نے بھی کہا کہ ایران اور ترکمنستان دو دوست اور ہمسایہ ممالک کی حیثیت سے ہمیشہ تعلقات کی تقویت اور ان میں گہرائی کے درپے رہے ہیں اور اُن کا ملک علاقائی سطح پر صلح و آشتی، استحکام اور سکیورٹی کی تقویت پر مبنی اسلامی جمہوریہ ایران کی پالیسیوں کی حمایت کرتا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ ایران اور ترکمانستان نے دو باہمی تعاون کے معاہدوں اور تین مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط بھی کئے ہیں۔

سحر نیوز/ایران: ایران کی وزارت دفاع کے ایئر انڈسٹریز آرگنائزیشن کے ماہرین کے طیار کردہ ٹرانسپورٹ طیارے سیمرغ کی اڑان کا ٹیسٹ لیا گیا جس میں وہ کامیاب رہا۔ یہ طیارہ ایران کی وزارت دفاع نے اپنے ماہرین اور نالج بیسڈ کمپنیوں کے مشترکہ تعاون سے ملکی ضروریات اور علاقائی آب و ہوا کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے بین الاقوامی معیارات کے مطابق تیار کیا ہے۔

 

کم وزن، سامان ڈھونے کی مناسب گنجائش، طولانی پرواز، ملک کے موسمی تقاضوں کے ساتھ سازگاری، چھوٹے رن وے سے اڑنے اور اُس پر اترنے کی توانائی اور حادثات جیسے اضطراری مواقع پر سریع الحرکت خدمات کی انجام دہی سیمرغ نامی اس طیارے کی اہم خصوصیات ہیں۔

اندرون ملک تیار ہونے کے باعث اس پر ہوئے اخراجات میں اس نوعیت کے دیگر غیر ملکی طیاروں کی بنسبت قابل توجہ حد تک کمی آئی ہے اور ساتھ ہی ماہرین کی بڑی تعداد کے لئے براہ راست یا بالواسطہ طور پر روزگار کے مواقع بھی فراہم ہوئے ہیں۔ ایران کے وزیر دفاع میجر جنرل محمد رضا آشتیانی نے ملک کی اس کامیابی پر رہبر انقلاب اسلامی اور اپنی وزارت کے پورے مجموعے کو مبارکباد پیش کی۔

انہوں نے کہ گزشتہ دنوں آٹھ ماہ کے دوران بحری جنگی جہاز دنا ڈسٹرایر کا دنیا کے گرد چکر لگانا، پھر اسکے بعد خرمشہر چار (خیبر) بیلسٹک میزائل کا کامیاب تجربہ اور اب سیمرغ طیارے کی کامیاب اڑان، سال کے لئے رہبر انقلاب اسلامی کے اعلان کردہ سلوگن کو عملی جامہ پہنانے اور مسلح افواج کی مکمل حمایت کی راہ میں ملکی وزارت دفع کے عزم کا ثبوت ہے۔

قابل ذکر ہے کہ عالمی سامراج بالخصوص امریکہ کی شدیدترین پابندیوں کے باوجود ایرانِ اسلامی جادۂ خودکفالت پر گامزن رہتے ہوئے ترقی و پیشرفت کی راہیں تیزی سے طے کر رہا ہے۔

ولیعہدی جیسے بڑے چیلنجوں کا سامنا ہونے کے باوجود، امام علیہ السّلام نے مختلف شعبوں میں تحیر العقول کارنامے انجام دیئے ہیں۔

عشرۂ کرامت یعنی ایام ولادتِ باسعادت حضرت امام رضا علیہ السّلام کی مناسبت سے آپ کی سیرت طیبہ پر مختصر روشنی ڈالتے ہوئے کچھ اہم سیرت پر گفتگو کرتے ہیں۔

حضرت ابوالحسن علی ابن موسی الرضا علیہ السّلام خدا کی جانب سے مقرر کردہ رسول خاتم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کے جانشینوں میں سے آٹھویں جانشین ہیں۔ آپ کی کنیت "ابوالحسن" ہے اور مشہور و معروف لقب "رضا" ہے اور خاص افراد آپ کو "ابوعلی" کہا کرتے تھے۔ آپ علیہ السلام کے دیگر القابات میں صابر، زکی، ولی، وفی، سراج الله، نورالهدی، قرة عین المؤمنین، مکیدة الملحدین، کفو، الملک، کافی الخلق ہیں۔

ولادت:

آپ علیہ السلام 11 ذیقعدہ کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے، ولادت کے بارے میں مختلف تاریخ نقل ہوئی ہیں جن میں سے مرحوم کلینی نے ۱۴۸ ہجری قمری نقل کی ہے اور اسے اکثر علماء و مورخین بھی قبول کرتے ہیں۔

آپ نے ۲۰ سال امامت کے فرائض سرانجام دیئے۔ آپ کی حیات مبارک کے بارے میں مختلف اقوال نقل ہوئے ہیں، 47 سے 57 سال تک بتایا گیا ہے، لیکن ولادت اور شہادت کے بارے میں اکثر نے آپ کی حیات طیبہ کی مدت 55 سال بتائی ہے۔

آپ علیہ السلام کے والد گرامی، ساتویں امام حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام ہیں۔ آپ کی والدہ ماجدہ کنیز تھیں جن کا اسم گرامی تکتم تھا، ان کا یہ نام تب رکھا گیا جب حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام ان کے مالک ہوئے اور جب ان کے بطن مبارک سے حضرت امام رضا علیہ السلام دنیا میں آئے تو حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام نے "تکتم" کو طاہرہ کا نام دیا۔ نیز آپ کو اروی، نجمہ اور سمانہ بھی کہا گیا ہے اور آپ کی کنیت ام البنین ہے۔ ایک روایت میں نقل ہوا ہے کہ آنحضرت کی والدہ گرامی، پاک و پرہیزگار کنیز تھیں جن کا نام نجمہ تھا، ان کو حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی والدہ جناب حمیدہ نے خریدا اور اپنے بیٹے کو بخش دی اور حضرت امام رضا علیہ السلام کی ولادت کے بعد انہیں طاہرہ کہا گیا۔

امامت:

حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی شہادت کے بعد امام رضا علیہ السلام ۳۵ سال کی عمر میں مقام امامت پر فائز ہوئے۔ امامت کا مسئلہ اگرچہ آپ کے والد گرامی کی حیات کے آخری حصہ میں بہت پیچیدہ ہوگیا تھا، لیکن امام موسی کاظم علیہ السلام کے اکثر اصحاب نے آنحضرت کی طرف سے حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی خلافت کو قبول کرلیا۔

والد گرامی کے بعد آپ کی امامت تقریباً 20 سال تھی اور اس دوران ہارون الرشید، محمد امین اور مامون کی ظاہری حکومت رہی۔ دوسرے لحاظ سے دیکھا جائے تو اس میں سے سترہ سال مدینہ میں اور تین سال خراسان میں گزرے ہیں۔

ہجرت:

حضرت امام رضا علیہ السلام نے مدینہ سے مرو کی طرف 200 یا 201 ہجری قمری میں ہجرت کی۔ مامون الرشید نے امام علیہ السلام کیلئے خاص راستہ مقرر کیا تاکہ آپ شیعہ نشیں علاقوں سے نہ گزریں، کیونکہ وہ شیعوں کا امام علیہ السلام کے اردگرد ہجوم سے ڈرتا تھا، اس نے خاص طور پر حکم دیا کہ آنحضرت کو کوفہ کے راستہ سے نہیں بلکہ بصرہ، خوزستان، فارس اور نیشابور سے لایا جائے۔

حدیث سلسلۃ الذہب:

حدیث سلسلۃ الذہب ایسا اہم ترین اور مستندترین واقعہ ہے جو سفر کے دوران نیشابور میں پیش آیا کہ حضرت امام علی رضا (علیہ السلام) نے وہاں پر وہ حدیث ارشاد فرمائی جو سلسلۃ الذہب کے نام سے مشہور ہے۔

اسحاق ابن راہویہ کا کہنا ہے: جب حضرت امام رضا (علیہ السلام) خراسان کی طرف سفر کرتے ہوئے نیشابور پہنچے، اس کے بعد کہ جب آپ نے مامون کی طرف کوچ کرنا چاہا، محدثین جمع ہوگئے اور انہوں نے عرض کیا: اے فرزند پیغمبر! ہمارے شہر سے تشریف لے جا رہے ہیں اور ہمارے لیے کوئی حدیث بیان نہیں فرماتے؟ اس درخواست کے بعد حضرت نے اپنا سر مبارک کجاوہ سے باہر نکالا اور فرمایا:"میں نے سنا اپنے والد موسی ابن جفعر (ع) سے کہ انہوں نے فرمایا کہ میں نے اپنے والد جعفر ابن محمد (ع) سے سنا کہ انہوں نے فرمایا کہ میں نے اپنے والد محمد ابن علی (ع) سے سنا کہ انہوں نے فرمایا کہ میں نے اپنے والد علی ابن الحسین(ع) سے سنا کہ انہوں نے فرمایا کہ میں نے اپنے والد حسین ابن علی (ع) سے سنا کہ انہوں نے فرمایا کہ میں نے اپنے والد امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (ع) سے سنا کہ انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ (ص) سے سنا کہ آنحضرت نے فرمایا کہ میں نے جبرئیل سے سنا کہ انھوں نے کہا کہ میں نے پروردگار عزوجل سے سنا کہ اس نے فرمایا: " لا إلهَ إلّا اللَّه حِصْنى، فَمَن دَخَلَ حِصْنى أمِنَ مِن عَذابى" کلمہ "لا إِلهَ إِلَّا اللَّهُ‏" میرا قلعہ ہے، پس جو میرے قلعہ میں داخل ہوجائے، میرے عذاب سے بچ جائے گا"، پس جب حضرت کی سواری چل پڑی تو آپ نے بلند آواز سے فرمایا: "بِشُرُوطِهِا و أنا مِن شُرُوطِها" اس کی شرطوں کے ساتھ اور میں ان شرطوں میں سے ہوں۔

ولی عہدی:

جب مامون نے دیکھا کہ حضرت امام رضا (علیہ السلام) ہرگز خلافت کو قبول نہیں کررہے تو کہا: آپ جو خلافت کو قبول نہیں کررہے تو میرے ولی عہد اور جانشین بنیں تا کہ میرے بعد خلافت آپ تک پہنچے۔ حضرت امام رضا (علیہ السلام) نے جبکہ مامون کی نیت کو جانتے تھے، فرمایا: خدا کی قسم، میرے والد نے اپنے آباء سے اور انہوں نے امیرالمومنین علی (علیہ السلام) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے خبر دی ہے کہ مجھے انتہائی مظلومیت سے زہر دی جائے گی اور تم سے پہلے انتقال کروں گا، آسمان و زمین کے ملائکہ مجھ پر گریہ کریں گے، اور ایک غریب سرزمین میں ہارون کے پاس دفن کیا جاوں گا۔ مامون نے کہا: اے فرزند رسول اللہ! جب تک میں زندہ ہوں کس کی جرات ہے کہ آپ کی توہین کرے اور آپ کو قتل کرے؟ حضرت امام رضا (علیہ السلام) نے فرمایا: اگر میں بتانا چاہوں کہ کون مجھے قتل کرے گا تو بتا سکتا ہوں۔ مامون نے جب تمام راستے بند ہوئے دیکھے تو ایک اور چال چلتے ہوئے کہا: آپ اس بات کے ذریعہ اپنے آپ کو سبکدوش کرنا چاہتے ہیں کہ لوگ کہیں کہ آپ دنیا کے طالب نہیں ہیں اور دنیا کے پیچھے نہیں پڑے ہوئے! امام (علیہ السلام) نے فرمایا: خدا کی قسم! جب سے اللہ تعالی نے مجھے خلق کیا، میں ہرگز جھوٹ نہیں بولا اور دنیا اور لوگوں کی خاطر، دنیا سے دوری اختیار نہیں کی۔ اے مامون ! میں جانتا ہوں کہ تمہاری نیت کیا ہے۔ مامون نے کہا: میری نیت کیا ہے؟ امام (علیہ السلام) نے فرمایا: تو چاہتا ہے کہ مجھے اپنا ولی عہد بنائے تا کہ لوگ کہیں کہ یہ علی ابن موسی الرضا دنیا سے دوری اختیار نہیں کرنا چاہتے تھے بلکہ دنیا تک پہنچ نہیں سکے، دیکھو جب مامون نے ولی عہدی کی پیشکش کی تو اس نے کیسے خلافت اور ریاست کی لالچ کی اور اسے قبول کرلیا!۔ جب مامون نے دیکھا کہ حضرت امام رضا (علیہ السلام) اس کی نیت کو جانتے ہیں تو غصہ سے کہنے لگا: آپ ہمیشہ ناگوار باتیں میرے سامنے کرتے ہیں اور اپنے آپ کو میری ہیبت اور جلال سے امان میں سمجھتے ہیں! خدا کی قسم، اگر آپ نے میری ولی عہدی کو قبول کرلیا تو ٹھیک، ورنہ آپ کو مجبور کروں گا اور اگر پھر بھی قبول نہ کیا تو آپ کی گردن اڑا دوں گا۔

امام (علیہ السلام) نے جب دیکھا کہ مامون اپنے ارادہ سے ہرگز دستبردار نہیں ہوگا تو آپ نے کچھ شرائط کے ساتھ ولی عہدی کو قبول کیا۔

 امام رضا علیہ السلام نے اسلامی ثقافتی کو زندہ کیا ہے:

خداوندِ متعال نے حضرت محمد مصطفیٰ(ص) کی بعث کا مقصد آیاتِ الٰہی کی تلاوت، تزکیہ اور کتاب و حکمت کی تعلیم بیان کر کے اسلامی ثقافت کے خدّوخال کی نشاندہی فرمائی ہے۔ پیغمبر اکرم(ص) نے اِس عظیم ذمہ داری کو نہایت خوش اسلوبی سے انجام دے کر اسلامی ثقافت اور تہذیب و تمدُّن کی بنیاد رکھی اور اسے ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل کرنا آپؐ کے برحق جانشینوں کی ذمہ داری قرار پایا۔ پیغمبر اکرم(ص) کے آٹھویں جانشین عالمِ آلِ محمدؐ حضرت علی ابن موسیٰ الرضا علیہما السلام نے اِس ذمہ داری کو نہایت خوبصورت انداز میں انجام دے کر مدینۂ فاضلہ کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔ آپؑ کی سیرت اور تعلیمات میں اسلامی ثقافت کی اعلیٰ اَقدار کے حصول کے لیے معاشرے میں عقلانیت کو فروغ دیتے ہوئے علم کا بول بالا ضروری ہے۔

پیغمبر اکرم(ص) کے حقیقی جانشین کا تعارُف:

بظاہر علمی بحثوں میں دلچسپی کے حامل حکمران اور تحریکِ ترجمہ کے عروج کے باعث، حضرت امام علی رضا علیہ السلام کا دَورِ امامت علمی تحریک اور پیشرفت کے لحاظ سے درخشاں ترین دَور تھا۔ لہٰذا جب آپؑ مرو تشریف لائے تو عوام کا ایک گروہ معتقد تھا کہ امام کو خداوندِ متعال تعیین کرتا ہے، جبکہ دوسرا گروہ امام کو عوامی نمائندہ اور اُمت کا وکیل سمجھتا تھا۔ امام علی رضا علیہ السلام نے قرآن و سنّت کی روشنی میں پیغمبر اکرم(ص) کے حقیقی جانشینوں کا تعارُف کروا کر اُمت میں موجود اِس انحراف کی اصلاح فرمائی، تاکہ سب لوگ ایک قومی دھارے کی طرف متوجہ ہو جائیں؛ لہٰذا آپؑ نے فرمایا: ’’امام کی قدر و منزلت، شان و شوکت، لوگوں کے فہم و شعور سے اِس قدر بلند ہے کہ وہ اسے پَرکھیں یا اس کا انتخاب کریں۔[3] نیز آپؑ فرماتے ہیں: ’’بےشک امامت ہی اسلام کی پاک و پاکیزہ بنیاد اور اس کی بابرکت فرع ہے اور امام ہی کی بدولت نماز، زکات، روزہ، حج اور جہاد مکمل ہوتے ہیں۔

امام علی رضا علیہ السلام اور اسلامی ثقافت کا اِحیاء:

حضرت امام حسین علیہ السلام کی مظلومانہ شہادت کے بعد حضراتِ ائمہ معصومین علیہم السلام نے ثقافتی جدّوجہد کے ذریعے اسلامی اَقدار و تعلیمات کے اِحیاء کا بیڑا اُٹھایا اور اِس میدان میں حضرت امام محمد باقر و حضرت امام جعفر صادق علیہما السلام کے بعد، حضرت امام علی رضا علیہ السلام کو اسلامی ثقافت کے اِحیاء کا زیادہ موقع ملا؛ کیونکہ بنی عباس کے دَورِ حکومت میں روم، ایران، مصر اور یمن وغیرہ جیسے دنیا کے عظیم تہذیب و تمدُّن کے حامل ممالک، اسلامی نقشے میں شامل ہو چکے تھے اور زرتشتی، صابئی، نسطوری، رومی اور برہمنی مترجمین نے جب علمی آثار کو یونانی، فارسی، سریانی، ہندی اور لاتینی زبانوں سے عربی میں ترجمہ کیا تو ان کے فاسد، مخرِّب اور غیر اسلامی نظریات بھی اسلامی ثقافت میں داخل ہو گئے، جو نوجوان طبقے اور سادہ لوح افراد کے تنزُّل و تزلزل کا باعث بنے۔[5] ایسے ماحول میں خالص اسلامی ثقافت کے اِحیاء میں حضرت امام علی رضا علیہ السلام کا کردار نہایت اہمیت کا حامل تھا۔

اسلامی ثقافت کے اِحیاء سے متعلق حضرت امام رضاؑ کے اقدامات:
شاگردوں کی تربیت:

حضرت امام علی رضا علیہ السلام نے اٹھارہ سال مدینہ منوّرہ میں اور دو سال مرو میں اپنے قیام کے دوران متعدّد شاگردوں کی تربیت فرمائی۔ آپؑ کے اصحاب میں امام جعفر صادق اور امام موسیٰ کاظم علیہما اسلام کے اصحاب بھی شامل تھے۔ ہم نے مختلف کتابوں میں آپؑ کے اصحاب کی تعداد ۵۶۱ تک دیکھی ہے۔ آپؑ نے وکلاء کا ایک وسیع نیٹ ورک قائم کر کے مسلمانوں کی تربیت اور مدینۂ فاضلہ کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔

سنّتِ نبویؐ کے مطابق نمازِ عید:

عید الفطر کے دن مأمون نے آپؑ سے نمازِ عید پڑھانے کا اصرار کیا تو آپؑ نے اِس شرط پر یہ پیشکش قبول کی کہ آپؑ نمازِ عید پیغمبر اکرم(ص) اور امیرالمؤمنین علی ابن ابیطالب علیہما السلام کی سنّت کے مطابق پڑھائیں گے۔ جب عید کے دن امامؑ نبویؐ انداز میں خوشبو سے معطر، عبا اور کتّان کا عمامہ پہنے، ہاتھ میں عصا تھامے، پا برہنہ گھر سے باہر تشریف لائے اور تکبیر لگائی تو آپؑ کی اقتداء میں اَشک رواں لوگوں کی تکبیروں سے شہر گونج اُٹھا۔ مأمون نے یہ منظر دیکھ کر خطرے کا احساس کرتے ہوئے آپؑ کو نمازِ عید پڑھانے سے روک دیا اور واپس بیت الشرف لوٹ جانے کی درخواست کی۔

امامؑ سے منسوب کتابیں:

حضرت امام علی رضا علیہ السلام سے متعدّد کتابیں منسوب ہیں، جن میں فقہ الرضاؑ، محض الاسلام و شرائع الدین، صحیفۃ الرضاؑ اور رسالۂ ذہبیہ قابلِ ذکر ہیں۔

مختلف اَدیان کے پیروکاروں سے مناظرہ:

مأمون عباسی نے مختلف اَدیان کے ماہر اور نابغہ روزگار افراد سے حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے مناظروں کے پروگرام ترتیب دیئے اور اُسے یہ گمان تھا کہ حجاز میں رہنے والا قرآن و سنّت کا یہ عالِم روزمرہ کے جدید منطقی اور فلسفی دلائل کا مقابلہ نہیں کر پائے گا اور اِس طرح علمی بحثوں میں شکست سے اس کی شان و منزلت میں کمی آ جائے گی۔ یوں تو مأمون کے اِس طرزِ تفکر پر فراوان دلائل موجود ہیں لیکن ہم یہاں امام علی رضا علیہ السلام کے ایک بیان پر اکتفاء کرتے ہیں۔ آپؑ فرماتے ہیں: ’’جب میں اہلِ تورات کے ساتھ ان کی تورات سے، اہلِ انجیل کے ساتھ ان کی انجیل سے، اہلِ زبور کے ساتھ ان کی زبور سے، ستارہ پرستوں (صابئیوں) سے ان کی عبرانی زبان میں، اہلِ ہرابزہ (زرتشتیوں) سے ان کی پارسی زبان میں اور رومیوں سے ان کی زبان میں گفتگو اور استدلال کروں گا اور اُن سب کو اپنی صداقت پر قائل کرلوں گا تو خود مأمون پر واضح ہو جائے گا کہ اس نے غلط راستے کا انتخاب کیا ہے اور وہ یقیناً اپنے فیصلے پر پشیمان ہو جائے گا۔‘‘

حضرت امام رضا علیہ السلام نے متعدّد مناظروں میں شرکت کی، جنہیں مرحوم شیخ صدوقؒ نے ’’عیون اَخبار الرضاؑ‘‘ میں، علامہ مجلسیؒ نے ’’بحار الانوار‘‘ جلد ۴۹ میں اور علامہ عزیز اللہ عطاردیؒ نے ’’مسند الامام الرضاؑ‘‘ جلد ۲ میں ذکر کیا ہے۔ لیکن اِن مناظروں میں مختلف اَدیان کے سربراہوں کے ساتھ امامؑ کے وہ مناظرے اہم ترین ہیں جن میں آپؑ نے عیسائیوں کے پیشوا ’’جاثلیق‘‘، یہودیوں کے پیشوا ’’راس الجالوت‘‘، زرتشتیوں کے پیشوا ’’ہربزِ اکبر‘‘، حضرت یحییٰ ؑ کے پیروکاروں کے پیشوا ’’عمران صابئی‘‘، علم کلام میں مہارت رکھنے والے خراسان کے عالم ’’سلیمان مروزی‘‘، ’’علی ابن محمد ابن جہم‘‘ ناصبی اور بصرہ سے تعلق رکھنے والے مختلف مذاہب کے افراد سے مناظرے کئے ہیں۔
https://taghribnews.com

ایکنا نیوز- قرآن کریم کی اسی واں سورہ «عبس» کے نام سے ہے جسمیں 42 آیات موجود ہیں۔ عبس مکی سورہ ہے جو ترتیب نزول کے حوالے سے چوبیسواں سورہ ہے جو قلب رسول گرامی اسلام پر نازل ہوا ہے۔

اس سورہ کو «عَبَسَ» کہا جاتا ہے یعنی اس کا مطلب " غصے سے لال چہرہ" ہے۔

اس سورے کا مقصد خبردار کرنا ان لوگوں کو جو غریبوں سے زیادہ اہل ثروت پر توجہ کرتا ہے۔

اہل دنیا سے احترام کے ساتھ پیش آتا ہے اور اہل آخرت کو فضول سمجھتا ہے، خبردار کرنے کے بعد انسان کی خلقت اور کم اہمیتی کو بیان کیا جاتا ہے  جو نعمتوں کے کے مقابلہ ناشکری کرتا ہے۔

اس سورے میں خلقت کے مختلف مراحل بیان کیے جاتے ہیں اور پھر قیامت میں خوشحال اور غمگین چہروں کی بات ہوتی ہے۔

 

سوره عبس مختلف مسائل کو مختصر انداز میں بیان کرتا ہے اور بالخصوص مسئله معاد پر بات ہوئی ہے دیگر موضوعات میں:

۱.  ان لوگوں کی سرزنش جو انسان کے مختلف گروپ میں تقسیم کرتا ہے.

۲.  قرآن مجید اور کی اہمیت اور قدر

۳.  نعمتوں کے مقابل ناشکری.

۴. خدا کی بعض نعمتوں کا ذکر تاکہ شکر گزار بن سکے.

۵. قیامت کے ہولناک واقعات اور مومن و کفار کے انجام کی بات

اس سورے میں ایک سخت منظر کے حوالے سے یہ کہا گیا ہے کہ لوگ ایکدوسرے سے فرار کریں گے : «يَوْمَ يَفِرُّ‌ الْمَرْ‌ءُ مِنْ أَخِيهِ وَ أُمِّهِ وَ أَبِيهِ وَ صَاحِبَتِهِ وَ بَنِيهِ؛ جس دن لوگ اپنے بھائی اور ماں سے اور اپنی بیوی اور بیٹوں سے فرار کریں گے۔» (عبس/ 34 تا 37)

تفاسیر میں قیامت کے ہولناک واقعات کی منظر کشی کی گیی ہے جسمیں لوگ اپنے عزیز ترین افراد کو فراموش کریں گے بلکہ ان سے فرار کریں گے۔

 علامه طباطبایی کے مطابق فرار کی وجہ شدید سختیوں کی وجہ سے ہے جسمیں لوگ سمجھنے تک سے قاصر ہوں گے۔/