سلیمانی

سلیمانی

سعودی عرب کے وزیر خارجہ آج ہفتے کے روز تہران میں ایرانی حکام کے مہمان ہیں۔ سعودی عرب کے وزیر خارجہ فیصل بن فرحان کا یہ پہلا دورہ ایران ہے، جو اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان کی دعوت کے جواب میں انجام پا رہا ہے۔ گذشتہ چند مہینوں کے دوران ایران اور سعودی عرب قریبی سیاسی اور سکیورٹی تعلقات کی طرف بڑھے ہیں اور کئی بالمشافہ ملاقاتوں کے بعد دوطرفہ سیاسی اور سفارتی تعلقات کی بحالی پر ایک معاہدے پر پہنچ چکے ہیں۔ "رائے الیوم" اخبار نے لبنان کے بعض سیاسی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ "فیصل بن فرحان شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی جانب سے صدر ابراہیم رئیسی کے لیے خصوصی پیغام لائے ہیں، جس میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی ترقی و فروغ پر تاکید ہے۔" اس ذریعے نے مزید کہا ہے کہ بن فرحان اس سفر کے دوران ایران کے صدر اور کئی دیگر حکام سے ملاقاتیں اور بات چیت کریں گے، تاکہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کا جائزہ لیا جاسکے۔ سعودی وزیر خارجہ کا دورہ ایران ریاض اور تہران کے درمیان 7 سال کے وقفے اور اختلاف کے بعد تعلقات کی بحالی کی طرف ایک اور قدم ہے۔

خلیج فارس کی نئی تشکیل
ایران اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کا سیاسی معاہدہ ان بڑی تبدیلیوں کا حصہ ہے، جو ہم ان دنوں خلیج فارس میں دیکھ رہے ہیں۔ خلیج فارس کے تمام ممالک چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو گہرا کر رہے ہیں اور چین اب خطے کے ممالک کی توانائی کی سب سے بڑی منڈی بن رہا ہے۔ 2001ء میں سعودی عرب کی چین کے ساتھ تجارت صرف 4 بلین ڈالر تھی، جو کہ امریکہ اور یورپی یونین کے ساتھ سعودی عرب کی تجارت کا دسواں حصہ تھی، لیکن 2021ء میں سعودی عرب کی چین کے ساتھ تجارت تقریباً 87 بلین ڈالر تک پہنچ گئی، جو کہ سعودی عرب کی امریکہ اور یورپی یونین کے ساتھ تجارت سے دوگنی ہے۔ 2022ء اور 2023ء سے اقتصادی تعلقات تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق چین کے نہ صرف سعودی عرب کے ساتھ وسیع تعلقات ہیں بلکہ بیجنگ بیک وقت متحدہ عرب امارات میں بھی ایک بڑی فوجی تنصیب بنا رہا ہے۔

سعودی عرب اور خلیج فارس کے ممالک امریکہ سے مکمل طلاق و علیحدگی کے خواہاں نہیں ہیں بلکہ وہ صرف واشنگٹن پر انحصار کرنے کے بجائے خارجہ پالیسی میں آزادی اور اپنے غیر ملکی شراکت داروں میں تنوع چاہتے ہیں۔ خلیج فارس کے عرب ایک طرف چین اور روس کے ساتھ قریبی اقتصادی تعلقات کو اپنے لئے ایک موقع سمجھتے ہیں اور دوسری طرف وہ امریکہ کے ساتھ  ایران سمیت کسی بھی سیاسی کشیدگی میں نہیں پڑنا چاہتے۔ ریاض نے تہران کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے لیے واشنگٹن کی خواہشات کے خلاف قدم اٹھایا ہے اور ایران کے ساتھ تعلقات کی توسیع کا خیرمقدم کیا ہے۔ تہران کی طرف ریاض کے اس اقدام کا اندازہ بیجنگ اور ماسکو کے تہران کے ساتھ قریبی روابط کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔

دوسرے لفظوں میں ریاض، چین و روس اور ایران کے ساتھ اتحاد کے ساتھ مغرب کے ساتھ تعلقات بہتر رکھنے کی بھی کوشش کر رہا ہے، البتہ وہ چین اور روس کے ساتھ تعلقات میں بہتری کا خواہاں بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایران کے ساتھ تعلقات بھی اس کے ایجنڈے میں شامل ہیں۔ سعودی عرب سے پہلے پچھلے چند سالوں میں متحدہ عرب امارات، عمان اور قطر کے بھی تہران کے ساتھ قریبی تعلقات تھے۔ لہذا ریاض کا تہران سے دور رہنے کا مطلب  علاقائی ترقی سے دور رہنا تھا۔ ایسے حالات میں جب متحدہ عرب امارات، عمان، قطر اور حتیٰ کہ کویت تہران کے ساتھ سیاسی تعلقات کو وسعت دینے کی کوشش کر رہے ہیں، سعودی عرب کے لیے خطے میں اس سفارتی نقل و حرکت سے دور رہنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ اسی لیے ریاض بھی تہران کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے اور اس میں وسعت دینے کی طرف بڑھ رہا ہے۔

کم تناؤ، زیادہ متحرک معیشت
یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان سیاسی تعلقات کی بحالی سعودی معیشت کی ترقی اور توسیع کے لیے محمد بن سلمان کے اقتصادی تسلسل اور ویژن 2030ء کو مکمل کرتی ہے۔ ریاض کے رہنماء اس بات سے آگاہ ہیں کہ ان کے ملک میں اقتصادی ترقی علاقائی امن اور جنگ سے دور رہنے کی صورت میں ہی ممکن ہے۔ ریاض اپنے جنوبی پڑوسی ملک یمن کی افواج کے میزائلوں کے مسلسل خطرے میں نہیں رہ سکتا، اسی لئے ریاض کے رہنماء یمن میں جنگ کے معاملے کو بند کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سعودیوں کو اس بات کا علم ہے کہ یمن سے جنگ بندی کا راستہ تہران سے ہوکر جاتا ہے۔ تہران کے ساتھ اختلافات کو دور کرکے ہی وہ اس مقصد تک پہنچ سکتا ہے۔ سعودی عرب یمن کے حالات کو پرسکون کرکے اس جنگ کی دلدل سے نکلنے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔

یمن کی جنگ سے ریاض کی دستبرداری سعودی عرب کی بڑھتی ہوئی معیشت میں نئی ​​جان ڈالے گی اور سعودی عرب کو 2030ء کے لیے محمد بن سلمان کے بلند و بالا اقتصادی اہداف کے قریب لے آئے گی۔ گذشتہ سات برسوں کے دوران شام، لبنان، یمن اور عراق میں تہران کے ساتھ ریاض کی علاقائی کشیدگی کا نہ صرف سعودیوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوا بلکہ بعض صورتوں میں سعودی اثر و رسوخ میں کمی اور لبنان جیسے ممالک میں اس کی پسپائی کا باعث بنی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ریاض کے حکام تہران کے ساتھ اپنے تعلقات بحال کرنے کے ساتھ ساتھ شام اور یمن سمیت خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ اپنے علاقائی تعلقات کو کشیدگی اور تنازعات سے پاک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہتے ہیں۔

ترتیب و تنظیم: علی واحدی

تہران، ارنا –2016 میں ایرانی سپاہ پاسداران انقلاب کی جانب سے غیر قانونی طور پر ایران کے سمندری پانیوں میں داخل ہونے والے امریکی ملاحوں کو گرفتار کرنے اور تذلیل کے بعد 2023 میں ایک چینی جنگی جہاز نے آبنائے تائیوان میں ایک امریکی بحری جہاز کا راستہ روک دے کر علاقے میں ان کی غیر قانونی موجودگی کے بارے میں خبردار کیا۔

تہران، ارنا - ایک ڈنمارکی شہری تھامس کیمس جسے نومبر 2022 میں ایران میں حالیہ بدامنی کے دوران گرفتار کیا گیا تھا، ہفتے کے روز 3 جون کو یورپ پہنچ گیا۔ رہائی کے بعد انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا کہ"ایران میں میرے ساتھ ایک مہمان جیسا سلوک کیا گیا۔ انہوں نے مہمان نوازی میں میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ کوئی جسمانی اذیت اور تشدد نہیں تھا۔"

سحر نیوز/ ایران: اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج کے چیف آف اسٹاف جنرل محمد باقری نے وزارت دفاع کے اعلی عہدے داروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت دنیا، ایک نئے نظام میں داخل ہو رہی ہے۔ ایسا نظام کہ جس میں امریکہ، طاقت کی بلندیوں سے نیچے اتر چکا ہے اور صیہونی حکومت زوال سے دوچار ہے اور مدمقابل اسلامی جمہوریہ ایران ہے جو مزید طاقتور ہونے کے راستے پر گامزن ہے اور اپنی صلاحیتوں اور گنجائشوں کی بنیاد پر ہر شعبے میں تیز رفتار ترقی کر رہا ہے۔

انہوں نے امریکی فوجیوں کے افغانستان سے فرار، عراق سے بھاگ نکلنے اور علاقے سے بڑے پیمانے پر انخلا کو واشنگٹن کی یک قطبی پالیسیوں کی شکست کا منہ بولتا ثبوت جبکہ اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کے بحری بیڑے کے پوری دنیا کے سفر کو، ایران کی عزت و وقار اور ملک کی مسلح افواج کے استحکام اور جغرافیائی دائرے میں اضافے کا واضح نمونہ قرار دیا۔

- خاندان معاشرے کی اہم ترین اکائی شمار کی جاتی ہے جس کی کافی اہمیت واضح ہے اور ہر انسان کو اس پر توجہ کی ضرورت ہے اور اس میں رابطہ و تعلق سے افراد خانوادہ پر گہرا اثر پڑتا ہے۔

حضرت ابراهیم(ع) کی تربیتی روش میں اہم ترین چیز میں خاندان پر توجہ نظر آتی ہے۔ قرآن کریم میں

حضرت ابراهیم(ع) کے حوالے سے اس پہلو کو اجاگر کیا گیا ہے۔

پہلے حصے میں ابراہیم ایک جوان فرد ہے جو اپنے چچا آزر کو گمراہ دیکھتا ہے اور دوستانہ انداز میں نصیحت کرتا ہے، دوسرے حصے میں حضرت ابراهیم(ع) ایک باپ ہے جو اپنی اولاد کو نصیحت کرتے دیکھائی دیتا ہے اور اپنے اولاد کے لیے دعا کرتے نظر آتے ہیں۔

 

  1. ابراهیم بعنوان فرزند

اس تصویر میں حضرت ابراهیم(ع) اپننے چچا کو بت پرستی سے روکتے ہیں مگر وہ جواب دیتا ہے: «قَالَ أَرَاغِبٌ أَنتَ عَنْ ءَالِهَتىِ يَإِبْرَاهِيمُ لَئنِ لَّمْ تَنتَهِ لَأَرْجُمَنَّكَ وَ اهْجُرْنىِ مَلِيًّا؛ کہا: اے ابراهيم! کیا تم میرے معبود سے رو گردان ہو؟! اگر (اس کام) سے ہاتھ نہ روکو گے تو تم کو سنگسار کرونگا!  اور طولانی دور کے لیے مجھ سے دور ہوجا»(مریم:46).

تاہم حضرت ابراهیم ناراض ہونے یا ضد بازی کی جگہ خیرخواہانہ انداز میں فرماتے ہیں،: «قالَ سَلَامٌ عَلَيْكَ سَأَسْتَغْفِرُ لَكَ رَبىّ إِنَّهُ كاَنَ بىِ حَفِي؛ (ابراهيم) نے کہا: سلام ہو تم پر! میں جلد اپنے رب سے تمھارے لیے بخشش طلب کرونگا؛ کیونکہ وہ ہمیشہ مجھ پر مہربان رہا ہے!»(مریم:47). ابراہیم انکے مقابل جھگڑے کی بجائے بہترین انداز اختیار کرتا ہے۔

  1. ابراهیم بعنوان والد

حضرت ابراهیم (ع) باپ کے عنوان سے دو اہم شعبوں پر توجہ دیتے ہیں:

الف. عاقبت اولاد کے لیے طلب دعا

حضرت ابراهیم(ع) قرآن میں نظر آتے ہیں کہ وہ دعاوں میں صرف اپنی زات پر توجہ نہیں کرتے بلکہ دعاوں میں اپنی اولاد اور نسل کے لیے بھی خدا سے خیر طلب کرتا ہے اور ہمیں درس دیتا ہے کہ اپنی اولاد اور نسلوں کے لیے بھی دعا کرنی چاہیے۔

«رَبّ‏ اجْعَلْنىِ مُقِيمَ الصَّلَوةِ وَ مِن ذُرِّيَّتىِ رَبَّنَا وَ تَقَبَّلْ دُعَاء ؛ (ابراهیم نے کہا) پروردگارا! مجھے نماز قایم کرنے والا بنا، اور میری اولاد  (بھی)، پروردگارا! میری دعا قبول فرما»(ابراهیم:40).

 

ب. اولاد کو آخری عمر میں وصیت

قرآن میں حضرت ابراهيم کی تصویر کشی سے دوسروں کو بتایا گیا ہے کہ وہ ابراهیم(ع)، کی طرح اولاد کے مستقبل پر توجہ کریں. اپنی اولاد کی صرف دنیا پر نہیں بلکہ آخرت اور معنوی امور پر کو بھی اہمیت دیں۔

«وَ وَصىَ‏ بهِا إِبْرَاهِمُ بَنِيهِ وَ يَعْقُوبُ يَابَنىِ‏ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَى‏ لَكُمُ الدِّينَ فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَ أَنتُم مُّسْلِمُون ؛ اور ابراهيم و يعقوب (نے آخری اوقات میں،) اپنی اولاد کو اس آئین پر نصیحت کی؛ (اور اولادوں سے کہا:) «میرے بچو! خدا ن تمھارے لیے اس پاک قانون کو چنا ہے؛ اور تم صرف اسلام [خدا کے برابر تسلیم] کے بغیر دنیا سے مت جانا!»(بقره:132)

ایکنا نیوز- خبررساں ادارے «صدی البلد» نیوز کے مطابق الازھر فتوی مرکز نے فضیلت حج بیت‌الله الحرام اور خانہ کعبہ کی زیارت کے حوالے سے بیان جاری کیا ہے۔

 

اس مرکز کے مطابق «حج اسلام کا پانچواں رکن ہے اور اسلام میں اس پر خاص تاکید کی گیی ہے جو قابل استطاعت ہے ان پر حج پر واجب ہے۔».

 

الازهر مرکز کے بیان میں کہا گیا ہے: «حج بھترین عمل ہے جو قرب خدا کا باعث ہے.  رسول الله(ص) کی روایت کے مطابق یہ بھترین عمل ہے جو خدا پر ایمان اور جھاد جیسا افضل ہے».

 

حج گناہوں کی بخشش کا ضامن ہے اور کہا گیا ہے : رسول اکرم(ص) اس حوالے سے فرماتا ہے: «مَنْ حَجَّ ِللهِ فَلَمْ یَرْفَثْ وَ لَمْ یَفْسُقْ رَجَعَ کَیَوْمٍ وَلَدَتْهُ اُمُّهُ: جس نے کعبہ کو خدا کی رضا کے لیے زیارت کی اور اس دوران اس سے بیہودہ بات سرزد نہ ہوئی اس حال میں اس کی واپسی ہوگی جیسے وہ ابھی متولد ہوا ہو۔».

 

الازهر الیکٹرونک فتوی مرکز کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ رسول گرامی اسلام  (ص)، کی روایت کے مطابق حج جھاد کی مانند افضل عبادت شمار ہوتا ہے۔/

 

ایرانی سپاہ پاسداران کی بحریہ کے کمانڈر جنرل حاجی زادہ نے پہلے ایرانی ہائپرسونک میزائل کی تقریب رونمائی میں کہا کہ یہ ہائپرسونک میزائل ایک ایسا میزائل ہے جو دنیا میں منفرد ہے۔ اس میزائل کی نقاب کشائی کے ساتھ ایران ان ٹیکنالوجی کے حامل چار ممالک میں شامل ہو گیا ، ''فتاح' میزائل کو اپنی ٹیکنالوجی کی وجہ سے کوئی اینٹی میزائل نہیں ہے۔ ''فتاح' میزائل کو مختلف سمتوں میں حرکت کرنے کی وجہ سے کسی بھی میزائل سے تباہ نہیں کر سکتا ہے

فلسطین الیوم کی رپورٹ کے مطابق دو سالہ فلسطینی بچے محمد ہیثم التمیمی کو صیہونیوں نے گولی مار کر شہید کردیا۔

اس فلسطینی بچے کا تعلق رام اللہ کے گاؤں "نبی صالح" سے ہے۔

دو روز قبل صہیونی حملے کے دوران صیہونی عناصر کے ہاتھوں شدید زخمی ہوئے اور آج شہید ہو گئے۔

صیہونی آبادکاروں نے اتوار کی رات نابلس کے شمال مغرب میں واقع "برقہ" علاقے پر بھی حملہ کیا اور کاروں کو تباہ کر کے فلسطینیوں کے گھروں پر حملہ کیا۔

فلسطینی ہلال احمر نے اعلان کیا ہے کہ برقہ میں ان حملوں میں 59 فلسطینی زخمی ہوئے۔

اس رپورٹ کے مطابق صیہونی فوجیوں نے آبادکاروں کی حمایت کرتے ہوئے برقہ میں فلسطینیوں پر فائرنگ کر کے متعدد افراد کو گرفتار کرلیا۔

فلسطینیوں نے گزشتہ دنوں کے دوران نابلس کے مختلف علاقوں میں صیہونی حکومت کے خلاف مظاہرے کیے۔


انقلابِ اسلامی ایران اور امام خمینیؒ کی شخصیت نے بہت سے در واء کئے ہیں۔ یہ انقلاب دنیا میں مستضعفین کیلئے ایک عظیم مثال ثابت ہوا ہے اور ساتھ ہی امام خمینیؒ کی عظیم شخصیت نے یہ بھی ثابت کیا کہ قرب الہیٰ حاصل کرکے آپ دنیا میں کوئی بھی ہدف حاصل کرسکتے ہیں۔ یہ اللہ کی ذاتِ با برکات پر یقینِ کامل کی ایک شاندار روایت ہے، جس نے جہاں مظلوموں کیلئے آس کے چراغ روشن کئے، وہیں اللہ کی ذات سے وابستگی کو بھی کاملیت بخشی، کہ رب کی ذات اُن کی مدد کرتی ہے، جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں۔ امام خمینیؒ کے اس انقلاب نے جہاں اسلام نابِ محمدی کا پرچم بلند کیا، وہیں امام کی پالیسیوں اور حکمتِ عملی سے استعمار کے منحوس و بھیانک چہرے سے نقاب بھی اُترے۔

اس انقلاب نے ثابت کیا کہ استعمار ہمیشہ حکمرانوں اور صاحبانِ اقتدار کو اپنے مفاد کیلئے استعمال کرتا ہے اور جب کسی ’’ایجنٹ حکمران‘‘ پر بُرا وقت آتا ہے، تو اسے بے یارو مدد گار چھوڑ دیتا ہے۔ ایسا ہی کچھ شاہِ ایران کیساتھ بھی ہوا۔ انقلاب اسلامی کی روشنی میں جہاں شاہ کی تاریک رات کا خاتمہ ہوا، تو شاہ کو اپنی جان کے لالے پڑ گئے۔ شاہ، ایران سے تو فرار ہوگیا، مگر اسے پناہ لینے کیلئے بہت پاپڑ بیلنے پڑے۔ انہیں جن پر تکیہ تھا، وہاں سے مایوسی ملی۔ مصر کے معروف صحافی محمد ہیکل نے اپنی کتاب ’’دی ریٹرن آف آیت اللہ‘‘ میں لکھا ہے کہ شاہ ایران نے ایران سے اپنے فرار کو بھی ایک رنگ دینے کی کوشش کی۔ شاہ ایران نے میڈیا کو یہ بتایا کہ وہ مصر کے سرکاری دورے پر جا رہے ہیں۔ وہ پہلے اردن جانا چاہتے تھے، مگر اردن نے ان کی درخواست پر مثبت جواب نہیں دیا، بلکہ اردن کے شاہ نے بہت ہی اچھے انداز میں ان کی درخواست کو مسترد کر دیا۔

اردن بھی صورتحال کو دیکھ رہا تھا، انہیں بھی حقائق کا علم تھا۔ اردن سے صاف جواب ملنے کے بعد شاہ اپنے وفد کو لے کر دریائے نیل کے کنارے اسوان ریزورٹ پہنچ گیا۔ وہاں بھی شاہ ایران نے خود کو ایران کے سربراہِ مملکت کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی۔ وہاں شاہ ایران نے مصر کے صدر انور سادات کیساتھ تین دن ملاقاتیں کیں، مختلف اجلاس منعقد ہوئے اور پانچ روز وہ وہاں مقیم رہے۔ اس موقع پر مصر میں شاہ ایران کی ملاقات سابق امریکی صدر جیرالڈ فورڈ سے بھی ہوئی۔ وہاں بھی دال نہ گلی تو شاہ ایران نے آگے کا رختِ سفر باندھ لیا اور 22 جنوری کو مراکش چلے گئے۔ شاہ ایران نے پلان یہ تشکیل دے رکھا تھا کہ وہ مراکش میں 5 دن رہیں گے اور یہاں سے وہ صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد یا تو ایران واپسی کا ماحول دیکھیں گے یا پھر امریکہ چلے جائیں گے۔ لیکن صورتحال چونکہ شاہ کیخلاف تبدیل ہوچکی تھی۔ اس لئے امریکہ سے بھی انہیں ’’صاف جواب‘‘ دیدیا گیا۔

امریکہ سے شاہ کے داماد اور امریکہ میں ایران کے سفیر نے انہیں مراکش میں پیغام بھجوایا کہ ’’امریکہ نے اپنی آنکھیں پھیر لی ہیں، وہ آپ کی میزبانی کیلئے بالکل تیار نہیں۔‘‘ شاہ کیلئے یقیناً یہ لمحات حیران کن اور غیر یقینی ہوں گے۔ وہ امریکہ جس کیلئے شاہ ایران نے اپنی ساری زندگی "وقف" کر رکھی تھی، اب مشکل وقت آن پڑا ہے تو امریکہ نے گرکٹ کی طرح رنگ بدل لیا ہے۔ 21 دن بعد مراکش کے شاہ نے اپنے ایک چپڑاسی کو شاہ کے پاس یہ پیغام دے کر بھیجا کہ ’’ہمارا دل تو کرتا ہے کہ ہم آپ کو یہاں سیاسی پناہ دے دیں، لیکن اب حالات بدل چکے ہیں اور ہم چاہتے ہوئے بھی آپ کو یہاں اپنے ملک میں نہیں رکھ سکتے۔‘‘ یوں شاہ ایران کو یہاں بھی جگہ نہ ملی، لیکن شاہ ایران نے مراکش کے شاہ سے ایک وعدہ لے لیا کہ وہ دفن ہونے کیلئے مراکش میں دو گز زمین لینا چاہتے ہیں، اس سے انکار نہ کیا جائے۔ جس پر مراکش کے شاہ نے وعدہ کر لیا اور زندگی کے آخری دنوں میں شاہ نے مراکش میں ہی قیام کیا اور وہیں 27 جولائی 1980ء میں اسے کینسر نے آ لیا اور وہیں مراکش میں ہی جان دیدی۔ شاہ ایران کو وہیں مراکش میں ہی دفن کر دیا گیا۔

ایران میں جو شاہ کے دست و بازو بنے ہوئے تھے اور شاہ کی ایماء پر ایرانی عوام پر مظالم کے پہاڑ توڑ رہے تھے۔ ایران کی عدالت نے انہیں بھی عبرت کا نشان بنا دیا۔ شاہ کی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی ’’سواک‘‘ کے سربراہ جنرل نصیری کا نمبر آنا لازمی تھا۔ جنرل نصیری نے تو مظالم کی اتنہاء کر رکھی تھی۔ جنرل نصیری کو اپنے قریبی ساتھیوں جنرل ربی اور خولرو دادکر کیساتھ عدالتی ٹرائل کا سامنا کرنا پڑا۔ انقلاب اسلامی ایران کے بعد یہ سب سے پہلا اسلامی نظام کے مطابق فیصلہ تھا، جو عدالت نے دیا، امام خمینیؒ نے صادق خلیلی کو اس کیس کی سماعت کی ہدایت کی۔ عدالت نے تینوں ملزمان کیخلاف چارج شیٹ پیش کی، انہیں صفائی کا پورا پورا موقع دیا گیا، تینوں نے اپنے جرائم کا اعتراف کیا۔ ملزمان کے اعتراف کے بعد عدالت نے شرعی قوانین کے عین مطابق فیصلہ سنایا اور تینوں کو گولی مار کر انجام پر پہنچا دیا گیا۔

امام خمینیؒ نے صادق خلیلی کو خصوصی ہدایت کی تھی کہ ملزمان کا موقف بھی سنا جائے اور انہیں اپنی صفائی کا پورا پورا موقع دیا جائے۔ ملزمان نے اپنی چارج شیٹ کو تسلیم کیا اور اپنے انجام کو پہنچ گئے۔ دوسری جانب وہ شاہِ ایران، جو کبھی ایران کے سیاہ و سفید کا مالک تھا، امریکی غلامی میں اس حد تک چلا گیا تھا کہ اسے اپنے عوام سے زیادہ امریکی مفاد عزیز ہوگیا تھا۔ اس کا انجام یہ ہوا کہ اسے ایران میں دفن ہونے کیلئے دو گز زمین تک نہ ملی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ یہ انجام ہوتا ہے، اپنے عوام پر غیروں کے مفادات کو ترجیح دینے والوں کا، یقیناً یہ عبرت ہے، ان حکمرانوں کیلئے بھی جو اب بھی اپنے ملک اور اپنے عوام کی بجائے امریکہ کے مفادات کے محافظ بنے پھرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اگر مشکل وقت آن پہنچا تو امریکہ انہیں پناہ دے دے گا، مگر امریکہ کی تاریخ بتاتی ہے کہ وہ مشکل وقت میں کام نہیں آیا کرتا اور یہی امریکہ کی روایت ہے۔

شاہِ ایران کیساتھ بھی یہی کچھ ہوا، امام خمینیؒ کی بصیرت اور حکمت عملی نے جہاں امریکہ کی اس پالیسی کو بے نقاب کیا، وہیں امریکہ کے نمک خواروں کو بھی درسِ عبرت دیا کہ وہ اپنے ملک اور اپنے ملک کے عوام کیلئے جینا سیکھیں، جو اپنی قوم کیلئے جیتا ہے، اسے عزت ملتی ہے، ان کے مزارات بنائے جاتے ہیں اور ان کی وفات کے بعد بھی ان کی خدمات کے اعتراف میں قومیں انہیں خراجِ عقیدت پیش کرتی رہتی ہیں اور جو اپنوں کیساتھ غداری کرتے ہیں، انہیں اپنے ملک میں دفن کیلئے دو گز زمین ملتی ہے، نہ ان کی قبروں پر کوئی فاتحہ پڑھنے والا ہوتا ہے۔
تحریر: تصور حسین شہزاد
 
 
 

گذشتہ دنوں مصر اور مقبوضہ فلسطین کی سرحد پر تعینات صیہونی فوجیوں کے ساتھ ہونے والی جھڑپوں میں تین صیہونی فوجیوں کو واصل جہنم کرنے والا مصری نوجوان فوجی بھی شہادت کی منزل کو پہنچ گیا۔ اس بات سے قطع نظر کہ العوجہ آپریشن کے اثرات مستقبل میں صیہونی اور مصری تعلقات میں کیا مرتب ہوں گے، فی الحال پوری دنیا میں مصری نوجوان فوجی کی بہادری اور شجاعت کے چرچوں نے نہ صرف عرب اقوام کو جان بخشی ہے بلکہ دنیا بھر کے حریت پسند اس بات سے توانائی حاصل کر رہے ہیں۔ دوسری جانب غاصب صیہونیوں کی صفوں میں ماتم ہی ماتم ہے۔ ماہرین سیاسیات یہ کہتے ہوئے نظر آرہے ہیں کہ اس آپریشن کے منفی اور مثبت اثرات خطے پر ہوسکتے ہیں۔ لیکن مصر میں شہید محمد صلاح کی ماں نے فخریہ انداز سے خوشی مناتے ہوئے کہا ہے کہ میں ہیرو کی ماں ہوں۔ تمام مصری مائیں یہی گن گنا رہی ہیں۔ دوسری طرف فلسطین کے مظلوم عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔

یہاں سب سے اہم بات یہ ہے کہ مصر اور غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے مابین نام نہاد امن معاہدے کے چالیس سال بعد ایک ایسا آپریشن سامنے آیا ہے کہ جو صہیونی وجود کے لئے خطرے کی گھنٹی بجا رہا ہے۔ اسرائیل جو پہلے ہی غزہ اور مغربی کنارے کے مختلف علاقوں میں مزاحمت فلسطین کا مقابلہ کرنے سے عاجز آچکا ہے، اب مصری سرحد پر ایسے غیر متوقع آپریشن کے بعد صیہونیوں کو باور ہوا ہے کہ ان کے لئے کسی طرف سے بھی امان نہیں ہے۔ یہ امان صرف ایک صورت ممکن ہوسکتی ہے کہ جب تک صیہونی فلسطین سے نکل نہ جائیں۔ دوسری طرف غاصب صیہونی ریاست کے اندرون خانہ سیاسی مبصرین نے نیتن یاہو پر شدید تنقید اور دباؤ بنانا شروع کر دیا ہے اور یہ سوال ابھر کر سامنے آرہا ہے کہ نیتن یاہو جو مسلسل خطے میں ایران اور لبنان سمیت شام کے خلاف جنگ کے عزائم بھڑکا رہے ہیں، وہ کس طرح صیہونیوں کی حفاظت کریں گے، جبکہ اسرائیلی فوج کی ناکامی اور پسپائی کا معائنہ مصری سرحد پر گذشتہ روز کیا جا چکا ہے۔

اسرائیلی مبصرین کے مطابق غاصب صیہونی حکومت شدید لاغر ہوچکی ہے اور ناکام پالیسیوں کی وجہ سے نہ صرف صیہونی فوجیوں کی جان خطرے میں ڈالی جا رہی ہے بلکہ صیہونی آباد کار بھی اس خطرے کی زد پر ہیں۔ کچھ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ مصر اور مقبوضہ فلسطین کی سرحد پر اسرائیلی فوجیوں کے خلاف ہونے والا آپریشن مصر اور اسرائیل کے مابین حالات کو کشیدہ کرسکتا ہے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو اسرائیل کے لئے مشکلات میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔ مصری عوام جو ہمیشہ سے فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑی رہی ہیں اور مصر ایک ایسا عرب افریقی ملک ہے کہ جس نے فلسطین کی آزادی کی دو جنگوں میں حصہ بھی لیا ہے۔ ایسے کشیدہ حالات میں مصر کی افواج کو عوام کی بے پناہ حمایت حاصل ہوگی جبکہ دوسری طرف صیہونی آباد کار خوف میں مبتلا ہو کر اپنے صیہونی فوجیوں کے خلاف سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔ اس صورتحال میں اسرائیل کے لئے ان حالات پر قابو پانا مشکل ہوچکا ہے۔

ایک اور نقطہ نظر کے مطابق ممکن ہے کہ غاصب صیہونی فوج اپنی کمزوریوں کی پردہ پوشی کرنے کے لئے اندرونی سطح پر تحقیقاتی کمیشن بنانے کا اعلان کرے، لیکن حقیقت میں یہ اسرائیل کی شکست ہی ہوگی۔ بہر حال ایک بات واضح ہے کہ مصری عوام اور جماعتوں کی جانب سے غاصب صیہونیوں کے خلاف اس آپریشن کی بھرپور حمایت کی جا رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر محمد صلاح کے نام سے ہیش ٹیگ گردش کر رہا ہے اور پوری دنیا اس نوجوان کو ہیرو قرار دے کر اس کارنامہ پر فخر کر رہی ہے۔ غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے لئے تمام تر فوجی اور تکنیکی معاملات کے ساتھ ساتھ سیاسی طور پر جو بات سخت ناگوار گزر رہی ہے، وہ مصری عوام کی جانب سے اس آپریشن کی تعریف کرنا ہے۔ ان ثرات کو روکنا صیہونی غاصب حکومت کے بس میں نہیں ہے۔ مصر کی سڑکوں پر خواتین نے نکل کر ایک مشہور گانا گاتے ہوئے نعرے لگائے کہ ”میں ہیرو کی ماں ہوں“، جس نے بہت سے اسرائیلی حکام کو چیخنے پر مجبور کیا کہ ''مصری ہم سے نفرت کرتے ہیں"، ”وہ ہم سے محبت نہیں کرتے۔“ٓ

خلاصہ یہ ہے کہ اس وقت مصر اور عرب دنیا میں ہونے والے تبصروں کے مطابق اس طرح کے صیہونی مخالف آپریشن کو نہ تو پہلا آپریشن قرار دیا جا رہا ہے اور نہ ہی آخری آپریشن۔ بہت سے صیہونیوں نے اس طرح کے آپریشن کے دہرائے جانے کے امکان کے بارے میں اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے نیتن یاہو کی شدید مذمت کی ہے۔ دوسری طرف مصری نوجوان ہے، جو اس وقت دنیا کے لئے آئیکون بن چکا ہے۔ واضح رہے کہ مصری فوج کے سنہ1956ء اور 1967ء کی جنگوں میں صیہونیوں کی جانب سے قتل کئے جانے والے مصری فوجیوں کے زخم بھی تازہ ہیں کہ جن کو صیہونیوں نے بے دردی سے قتل کیا تھا اور صحرائے سینا میں دفن کر دیا تھا۔

مصری پولیس اہلکار محمد صلاح کا آپریشن کوئی پہلا نہیں ہے اور یہ یقینی طور پر آخری بھی نہیں ہوگا اور کوئی طاقت اس رجحان کے پھیلاؤ کو روکنے میں کامیاب نہیں ہوگی۔ یہ مصری عوام کی غیرت کو جگانے کا کام کر گیا ہے اور عربیت کے شعلے از سر نو بھڑکا دیئے گئے ہیں، کیونکہ غاصب اسرائیلی دشمن کا ظلم اور فلسطینی عوام پر اس کی مسلسل جارحیت، مسجد اقصیٰ کی حرمت جہاں فلسطینی عوام کے لئے اہم ہے، وہاں مصر سمیت تمام عربی ممالک کے عوام کے لئے اہمیت کی حامل ہے۔ یہ غاصب صیہونیوں کے خلاف انتقامی اور دفاعی کاروائیاں ہیں، کیونکہ صیہونی جو مزید جرائم کرنے سے باز نہیں آتے، شہید محمد صلاح ہمیشہ تاریخ کے زندہ اوراق میں باقی رہے گا اور ہمیشہ ملت فلسطین کا سر اونچا اور وقار سے بلند رہے گا۔

تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان