سلیمانی

سلیمانی

آج دنیا میں آزادی، مساوات اور حقوق کے زور شور سے نعرے لگائے جا رہے ہیں اور ان مسائل کی خلاف ورزی کی صورت میں آئے دن احتجاجات بھی ہو رہے ہیں۔ ان نظریات کے حامیوں میں ان لوگوں کی خاصی تعداد ہوتی ہے، جو مذہب بالخصوص اسلام کو ان نظریات کی عمل آوری میں رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ وہ اسلام کو ایک قدیم رواج پر مبنی مذہب تسلیم کرتے ہوئے اسے معاصر زندگی سے متضاد سمجھتے ہیں۔ حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی ولادت کے روز، ہم انہی موضوعات کو آپ کی حیات طیبہ اور سیرت و کردار کے عملی نمونے سے پیش کرتے ہیں۔ آزادی، مساوات اور حقوق آنحضرت کی زندگی اور تعلیمات کا مرکزی حصہ رہے ہیں۔ آپ نے آئیڈیل سماج کی تشکیل اور انسانی حقوق کے استحکام کے لیے ہمہ تن جدوجہد کی اور محض ترسٹھ برس عمر میں اپنے کردار و اخلاق سے ہمیشہ کے لیے امر ہوگئے۔

آپ بطور مذہبی ہادی و رہنماء، دین میں جبر و زبردستی کے خلاف تھے، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد الٰہی ہے: "دین میں کوئی جبر نہیں۔" (سورہ بقرہ، آیت:256) آیت کا عملی ثبوت "میثاق مدینہ" (622 عیسوی) میں واضح طور پر مشاہدہ کیا جاسکتا ہے، جس میں آپ نے اسلامی ریاست کے ماتحت رہنے والے غیر مسلم، یہودی، عیسائی اور مشرکوں کو آزادانہ ماحول فراہم کیا تھا۔ اس دستاویز میں تمام مذہبی گروہ کو شہر مدینہ میں پرامن طور پر رہنے کی ضمانت دے کر ایک تکثیری معاشرے ( Pluralistic Society) کی بنیاد رکھی، جس میں مذہبی اقلیتوں کو تحفظ حاصل تھا۔ اسی طریقہ سے "معاہدہ نجران" میں آنحضرت نے عیسائیوں کو یقین دلایا کہ وہ بغیر کسی مداخلت کے اپنے عقیدے پر عمل کریں۔ عبادت گاہوں، املاک اور ان کے پادریوں کی حفاظت کرنے کا وعدہ کیا۔ اس طرح آپ نے اسلامی ریاست میں مذہبی آزادی کو یقینی بنایا، جس کی آج شدید ضرورت ہے۔

پیغمبر اسلام کے انقلابی تعلیمات میں "سماجی مساوات" کو خاصی اہمیت حاصل ہے۔ آپ نے قبائلی، طبقاتی اور نسلی تفریق پر مبنی نظام کا خاتمہ کیا۔ افریقی غلام، بلال بن رباح کے ساتھ اپنے قریبی ساتھیوں کی طرح پیش آئے۔ بلال حبشی کی مؤذن بنانا، نسلی تفریق کے خاتمہ کی اہم ترین مثال ہے۔ اسی طرح، سلمان فارسی (ایرانی) اور صہیب الرومی (ایک بازنطینی رومی) کو نہایت عزت و وقار سے نواز کر نسلوں میں سرایت کرچکے تعصب کی بنیاد کو مسمار کر دیا۔ خطبہ حجۃ الوداع میں آپ نے مساوات کی اعلیٰ ترین مثال پیش کی۔ آپ نے فرمایا: ’’تمام بنی نوع انسان آدم اور حوا کی اولاد ہیں۔ کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت نہیں اور نہ ہی کسی عجمی کو عربی پر۔ کسی گورے کو کالے پر اور نہ ہی کسی کالے کو گورے پر کوئی فضیلت حاصل ہے۔ کسی کو کسی پرکوئی فضیلت حاصل نہیں سوائے تقویٰ اور نیک عمل کے۔"

پیغمبر اسلامﷺ نے "حقوق نسواں" کے تحفظ کے لیے وہ کارہائے نمایاں انجام دیئے، جو رہتی دنیا تک بے مثال اور بے نظیر مانا جائے گا۔ خواتین کو جائیداد (Property) سمجھنے والے عرب ماحول میں ان کو شادی، طلاق، جائیداد کی ملکیت اور وراثت میں رضامندی کا حق دیا۔ لڑکیوں کو قتل (زندہ دفن) کے خلاف سخت قدم اٹھایا۔ ان کی پاس و حرمت اور ان کے حقوق کی علمبرداری کرتے ہوئے تعلیم دینے کی اہمیت پر زور دیا اور فرمایا: "علم حاصل کرنا ہر مسلمان؛ مرد اور عورت پر فرض ہے۔" آزادی، مساوات اور انسانی حقوق آئیڈیل سماج کی بنیادی کڑیاں ہیں۔ ایک سالم معاشرہ کی تشکیل میں ان اصول کی پابندی نہایت ضروری ہے۔ پیغمبر اسلام کی سیرت و تعلیمات نے انسان کو جسمانی اور روحانی دونوں زاویوں سے آراستہ کیا ہے۔

انہوں نے معاشرہ میں پھیلی قبائلی تفریق اور نسلی برتری کے مضبوط قلعہ کو مسمار کیا۔ غلاموں کو آزاد کیا اور انہیں اپنے پاس جگہ دی۔ صدقہ، خمس و زکواۃ۔۔۔ کی صورت میں غلاموں اور پسماندہ لوگوں کو اقتصادی مشکلات سے آزاد کیا۔ ان کے حقوق دلائے اور پھر انہیں اپنے پاس جگہ دے کر مساوات کی عمدہ مثال پیش کی۔ آج دنیا میں آزادی، مساوات اور حقوق کی لڑائی لڑنے والے ہر انسان کو پیغمبر اسلام ﷺ کی کوششوں کو سراہنا چاہیئے اور آنحضرت کی حق کی لڑائی کو دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہیئے۔ اسلام آزادی، مساوات اور حقوق کو علمبردار ہے۔ اگر آج پیغمبر اسلام ہمارے درمیان جسمانی طور پر موجود ہوتے تو آزادی، مساوات اور حقوق انسانی کے سب سے بڑے علمبر دار اور رہنماء ہوتے۔

تحریر: عظمت علی (قم المقدسہ، ایران)

Saturday, 21 September 2024 05:45

وحدت کے امام

متفقہ علیہ حدیث ہے, جو حدیث ثقلین کے نام سے مشہور ہے, رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمھارے درمیان اللہ کی کتاب (یعنی قرآن) اور عترت اہل بیت چھوڑے جا رہا ہوں، تم ان کا دامن تھامے رکھو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔ اہل بیت عظام نے جہاں دین کے تمام پہلوئوں پر واضح اور نجات بخش راہنمائی فرمائی ہے، وہیں وحدت امت کے حوالے سے اپنے کردار اور اقوال سے سرمایہ گراں بہا چھوڑا ہے، لیکن جہاں ہم نے راہنماء کتاب قرآن مجید کو مہجور چھوڑ دیا ہے، وہیں ہم نے اہل بیت سے صرف عقیدت و محبت کا تعلق رکھا ہے، راہنمائی کے لیے اپنے دل پسند مسائل میں متوجہ ہوتے ہیں، اب جبکہ امت تفرقے کا شکار ہے، ہمیں اہل بیت کی طرف متوجہ ہونا ہوگا۔ اس مختصر سے مضمون میں تعلیمات آل محمدؐ سے چند موتی پیش خدمت ہیں، جن سے وحدت امت کے لیے راہنمائی ملتی ہے۔

یہ بات تو واضح ہے کہ حضرت علی علیہ السلام خلافت کے عنوان سے اپنا موقف رکھتے تھے اور پوری زندگی جب موقع ملا، آپ نے اس پر دلائل بھی دیئے۔ آج امت مسلمہ کا ایک طبقہ حضرت علی علیہ السلام کے اسی موقف کا حامی ہے، کیونکہ اس موقف کے داعی حضرت علی علیہ السلام خود تھے۔ انھوں نے اختلاف کے باوجود موقع کی نزاکت کے پیش نظر جو حکمت عملی اپنائی ہے، وہ آج بھی مشعل راہ ہے۔کسی کو بھی حق حاصل نہیں ہے کہ وہ امام علی علیہ السلام سے ہٹ کر کوئی اور راستہ اپنائے۔ حضرت علی علیہ السلام ایک خط میں ابو موسیٰ اشعریؓ کو لکھتے ہیں: ’’تم کو معلوم ہونا چاہیئے کہ کوئی بھی شخص مجھ سے زیادہ امت محمدؐ کی شیرازہ بندی اور باہمی اتحاد کا خواہش مند نہیں ہے اور اس سے میرا مقصد صرف حسن ثواب اور آخرت میں کامیابی ہے۔‘‘ (نہج البلاغہ مکتوب،۷۸)

جب حضرت علیؑ خود فرما رہے ہیں کہ وہ سب سے زیادہ اس امت کے اتحاد کے خواہاں ہیں تو وہ اس نسبت سے امام اتحاد امت قرار پاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اتحاد کے لیے آپ کا دور مثالی دور تھا، جب امت مختلف نکتہ نظر رکھنے کے باوجود متحد تھی۔ آپ نے مزید فرمایا: ’’خدا کی قسم! اگر مسلمانوں کے انتشار اور کفر کی طرف ان کی بازگشت اور دین کی تباہی کا خوف نہ ہوتا تو پھر ہم ان کے ساتھ دوسرے طریقے سے پیش آتے۔‘‘ (امام شیخ مفید، ص ۱۵۵، بحارالانوار، ج۲۹، ص ۶۳۴) انتشار و افتراق کے جو مضمرات پیش آسکتے ہیں، حضرت امام علی ؑ نے ان سے بچانے کے لیے تحمل، برداشت کی راہ کو اپنایا ہے۔ آج بھی امت کو یہی خدشات درپیش ہیں کہ وہ اپنے افتراق کی وجہ سے اپنے ہدف و منزل کی طرف نہیں بڑھ رہی ہے بلکہ الحادی گروہ اسے ہی عنوان بنا کر اسلام پر حملہ آور ہو رہے ہیں، نئی نسل پریشان ہے کہ بے چارہ مسلمان کدھر جائے، کیونکہ حق ایک دوسرے سے دست و گریبان ہے۔

آپ نے بصرہ روانہ ہونے سے پہلے ایک خطبہ میں امت کو انتشار سے بچانے کے لیے اپنی حکمت عملی کا ہدف بیان کیا ہے، فرماتے ہیں: ’’میں نے غور کیا تو یہ محسوس کیا کہ (اپنے حق خلافت سے محرومی پر) مسلمانوں کی تفریق و خون ریزی سے صبر ہی بہتر ہے، کیونکہ لوگ تازہ مسلمان ہوئے ہیں اور دین دودھ کی مشک کی مانند ہے کہ جو معمولی سستی پر بھی برباد ہو جاتا ہے اور کمزور آدمی بھی اسے پلٹ دیتا ہے۔‘‘ (بحارالانوار، علامہ مجلسی، ج۳۲، ص۶۲) یہ کہنا کہ شاید آپ کو مواقع میسر آتے تو آپ کا رویہ مختلف ہوتا جبکہ تاریخی حقائق کے مطابق رحلت ختمی المرتبتؐ کے بعد جب آپ کا نکتہ نظر سامنے آیا تو ایسے لوگوں نے رابطہ کیا کہ وہ اس کے لیے آپ کو لشکر مہیا کرسکتے ہیں، مگر آپ نے اس پیشکش کو ٹھکرا دیا اور امت میں اتحاد کو برقرار رکھا۔ آپ نے حضرت عمرؓ کی قائم کردہ شوریٰ میں شریک ہو کر اپنا موقف پیش کیا جبکہ بعض نے اس میں شریک نہ ہونے کا بھی مشورہ دیا تھا، مگر آپ نے اپنے اختلاف کے باوجود عملی اتحاد کی روش کو اپنایا اور شوریٰ کے اجلاس میں شریک ہوئے۔

آج جب اختلاف ہوتا ہے تو سلام دعا سے بھی جاتے ہیں جبکہ اس میں آپ کا راستہ واضح موجود ہے کہ اپنا موقف رکھنے کے باوجود تعاون کا سلسلہ جاری رکھا جائے۔اسی لیے کہا جاتا ہے کہ جس طرح اسلام اپنے وجود و بقاء میں جتنا حضرت علیؑ کی تلوار کا مرہون منت ہے، اس سے زیادہ آپ کی خاموشی اور تحمل و بردباری کا مرہون منت ہے۔ آپ کی تلوار اسلام کی طاقت منوانے اور دشمنان اسلام کو تباہ کرنے کا سبب تھی تو آپؑ کی خاموشی اسلام کی بقاء و اتحاد امت کا سبب بنی۔ آپ نے اس بات کا اظہار نہج البلاغہ میں یوں کیا: ’’یہ تو تم سبھی جانتے ہو کہ میں خلافت کا سب سے زیادہ حق دار ہوں۔ خدا کی قسم! میں اس وقت تک خاموش رہوں گا، جب تک مسلمانوں کے امور منظم رہیں گے اور میرے علاوہ کسی پر ظلم نہیں ہوگا اور میں اس عمل کی جزاء خدا سے طلب کروں گا اور زیب و زین اور آرائش سے الگ رہوں گا، جس کے لیے تم مقابلہ آرائی کرتے ہو۔‘‘ (نہج البلاغہ، خطبہ ۱۷۴)

ان چند شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ نے اتحاد و وحدت کو اہمیت دی اور امت محمدی کو یکجا رکھا۔ جو اختلافات مسلمانوں کو ایک دوسرے سے دور رکھتے ہیں، ان میں عبادات سرفہرست ہیں، کیونکہ تمام مسلمان اللہ کو ایک مانتے ہیں، حضور ختمی المرتبت کو آخری کتاب مانتے ہیں، قرآن مجید کو اللہ کی آخری کتاب اور قیامت پر یقین رکھتے ہیں۔ اسی طرح نماز قائم کرنے میں بھی اتفاق ہے۔ نمازوں کی تعداد، رکعات، اوقات اور قیام رکوع سجود اور تشہد و سلام سب پر اتفاق ہے، مگر ہاتھ کھولنے اور باندھنے پر اختلاف کے علاوہ چند جزوی مسائل نماز میں فرق نظر آتا ہے۔ افتراق و انتشار اور فرقہ واریت کا ایک سبب نمازوں کی ادائیگی میں مسلمانوں کا ایک پیش امام کی اقتداء نہ کرنا ہے۔ چند صدی قبل تک مسلمانوں کی ایک ہی مسجد ہوتی تھی، سب مسلمان اپنے جزوی مسائل کے باوجود ایک پیش امام کی اقتداء میں نماز ادا کرتے تھے، فرقہ واریت کے سبب اب مساجد فرقوں کی عبادت گاہیں بن چکی ہیں۔

اہل بیت اطہارؑ اپنے پیروکاروں کو تاکید فرماتے رہتے تھے کہ وہ نماز جماعت کے ساتھ ادا کریں اور اہل سنت کے پیش امام کی اقتداء کرسکتے ہیں۔ اس سلسلہ میں روایات اتنی ہیں کہ صاحب ’’وسائل الشیعہ‘‘ نے ایک علیحدہ باب بعنوان ’’باب استحباب حضور الجماعۃ خلف من لا یقتدی بہ لتقیہ و القیام فی الصف الاول‘‘ قائم کیا۔ یعنی باب ایسے لوگوں کو اقتداء میں نماز پڑھنا، جن کے پیچھے تقیہ کی وجہ سے نماز نہیں پڑھی جاتی اور ان کے پیچھے نماز پڑھنا۔‘‘ مذہبی اختلاف رکھنے والوں کے ساتھ نماز پڑھنے کی اہمیت کے سلسلہ میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی دو روایات بطور نمونہ پیش کی جاتی ہیں۔ آپ فرماتے ہیں: ’’جس شخص نے ان کے ساتھ پہلی صف میں کھڑے ہو کر نماز پڑھی، گویا اس نے پہلی صف میں رسول اکرمؐ کے ساتھ نماز پڑھی۔‘‘ (وسائل الشیعہ، شیخ حرعاملی، ج۸، ص ۲۹۹)

اس میں جہاں امامؑ اپنے پیروکاروں کو دوسرے مسالک کی نماز جماعت میں شرکت کی ترغیب دے رہے ہیں بلکہ اس کے اجر و ثواب کی طرف توجہ دلا رہے ہیں کہ یہ عمل کس قدر اعلیٰ ہے۔ اسی سے ہی اتحاد کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے کہ روزانہ کے اس عمل سے جہاں عام مسلمانوں سے رابطہ ہوتا ہے، وہاں اختلاف رکھنے کے باوجود دوسرے مسلک کے فرد کو مسلمان مانا گیا ہے، یہ تکفیریت کے خلاف زبردست حکمت عملی ہے۔ اسحاق بن عمار سے روایت ہے کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا: ’’اے اسحق! کیا تم مسجد میں ان کے ساتھ نماز پڑھتے ہو؟ میں نے عرض کی: جی ہاں! امام نے فرمایا: ان کے ساتھ نماز پڑھا کرو، کیونکہ ان کے ساتھ صف اول میں نماز پڑھنے والا ایسا ہی ہے، جیسے راہ خدا میں تلوار کھینچنے والا۔‘‘ (وسائل الشیعہ، شیخ حر عاملی، ج۸، ص ۳۰۱) آیت اللہ ابو القاسم الخوئی نے لکھا ہے کہ ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل سنت کے ساتھ ان کی نماز وغیرہ میں شریک ہونے کی حکمت، مصلحت نوعیہ اور مسلمانوں کا اتحاد تھا اور ان کے ساتھ نماز جماعت نہ کرنے میں کسی ضرر کا خوف نہیں تھا۔ (کتاب الطہارۃ سید ابو القاسم الخوئی، ج ۴،ص۳۱۶)

ایسی روایات سے ہمیں ترغیب دی گئی ہے کہ ہم اہل سنت کے ساتھ روابط رکھیں، ان کی نماز جماعت میں شریک ہوں، یقیناً اس عمل سے اتحاد کی فضاء ہموار ہوگی۔امت محمدی کا ایک بڑا اجتماع حج ہے، جو اپنے اندر عبادی و اجتماعی پہلو رکھے ہوئے ہے۔ اس دور میں بھی اسے امت کے اتحاد کا مرکزی مظہر قرار دیا جاتا ہے۔ جہاں تمام مسالک کے لوگ ایک امام کی اقتداء میں اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ حج کے تمام اعمال پر جزوی اختلاف کے ساتھ  امت کا اتفاق و اتحاد ہے۔ اس عظیم اجتماعی عبادت گاہ کی انجام دہی کے لیے آل محمدؐ نے راہنمائی فرمائی ہے۔ آئمہ اطہارؑ نے بھی اپنی زندگی میں بارہا حج کی سعادت حاصل کی ہے اور ان کے ہمراہ آپ کے رفقاء اور پیروکار بھی ہوتے تھے۔ حج کے تمام اعمال دیگر مسلمانوں کے ہمراہ ادا فرماتے تھے۔ عیدین یا ماہ رمضان، حج کے تعین میں بھی عام مسلمانوں کے ساتھ اتفاق کرتے تھے۔ اس ضمن میں ایک روایت پیش خدمت ہے۔

’’ایک سال عید قربان کے بارے میں ہمیں شک ہوگیا۔ جب امام محمد باقرؑ کی خدمت میں حاضر ہوا تو امامؑ کے بعض اصحاب کو دیکھا کہ وہ عید منا رہے ہیں، پس امام محمد باقرؑ نے فرمایا: ’’عید اس روز ہے، جس روز لوگ عید منائیں اور عید قربان اس روز ہے، جس روز لوگ عید قربان منائیں اور روزہ اس روز ہے، جس دن لوگ روزہ رکھیں۔‘‘ (وسائل الشیعہ، شیخ حر عاملی، ج۱۰، ص۱۳۳) انہی تعلیمات کی روشنی میں جب ۱۴۲۸ھ میں رویت ہلال کا اعلان ہوا تو ایران عراق و سعودی عرب کی روئیت میں دو روز کا فرق تھا، اس سے پریشانی ہوئی کہ حاجیوں کے اعمال خصوصاً شیعوں کے اعمال شرعی کا حکم کیا ہے۔ اس موقع پر سارے مراجعین نے اعلان کیا کہ حاجیوں کو روئیت کے مطابق عمل کرنا چاہیئے اور ان کے اعمال صحیح ہیں۔ ایک اور راہنمائی جو اہل بیت عظامؑ نے فرمائی، وہ عام مسلمانوں سے حسن معاشرت اور رواداری کی تاکید کی ہے۔ روایت میں بھی ہے کہ:

’’میں نے امام جعفر صادقؑ کی خدمت میں عرض کیا، ہم اپنی قوم والوں اور ان معاشرے والوں کے ساتھ کہ جو شیعہ نہیں ہیں، کیسا سلوک روا رکھیں؟  امامؑ نے فرمایا: اپنے آئمہؑ کو دیکھو، جن کی تم پیروی کرتے ہو، پس جو ان کی روش ہے، اسی روش کو اختیار کرو۔ خدا کی قسم! وہ (ائمہ) غیر شیعہ لوگوں کے بیماروں کی عیادت کے لیے جاتے ہیں، ان کے جنازوں کی تشیع میں شرکت کرتے ہیں، وہ ان کے حق میں اور ان کے خلاف (حق کے مطابق) گواہی دیتے ہیں اور ان کی امانت کو انھیں واپس کرتے ہیں۔‘‘ (وسائل الشیعہ، شیخ حر عاملی، ج۱۲، ص۶) اس روایت سے جہاں اس دور کے حالات پر روشنی پڑتی ہے کہ مسالک کے بارے میں لوگ تذبذب کا شکار تھے، ویسے ہی امام کا جواب اس دور کے ساتھ ساتھ آج کے دور کے لیے بھی نمونہ عمل ہے۔ اسی فرمان پر عمل کرنے سے اتحاد امت کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے۔ نفرت و بیزاری کی فضاء جو بین المسالک دیکھنے کو ملتی ہے، اس کا بھی خاتمہ ہوسکتا ہے۔ ائمہ اطہارؑ نے اپنے پیروکاروں کو ان امور میں منع فرمایا ہے، جو وحدت امت کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ اس میں سب سے زیادہ مخالفین کو لعن طعن اور گالی گلوچ ہے، جس سے سوائے نفرت، تعصب اور دشمنی کے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ آپ اپنے پیغام کا ابلاغ نہیں کرسکتے۔

جیسا کہ جنگ صفین کے موقع پر حضرت علی علیہ السلام نے دیکھا کہ بعض لوگ شام والوں پر لعنت و نفرین کر رہے ہیں تو آپؑ نے انھیں اس کام سے روکتے ہوئے فرمایا: ’’مجھے تمھارے لیے یہ بات پسند نہیں ہے کہ لعن طعن کرنے والے بن جائو (کیونکہ نتیجہ میں) وہ بھی تم پر لعن طعن کریں گے اور تم سے بیزار ہو جائیں گے، لیکن کتنا اچھا ہو کہ تم ان کے ناشائستہ اعمال کو بیان کرو۔ یہ اچھا استدلال ہے اور اگر ان پر لعن کرنے اور ان سے بیزاری کرنے کی بجائے یہ کہو (اور خدا سے دعا کرو) اے اللہ! ہماری اور ان کی جان کی حفاظت فرما، ہماری اور ان کی اصلاح فرما، انھیں گمراہی سے نجات عطا فرما کہ وہ حق نہیں پہچانتے ہیں، وہ حق کو پہچان لیں اور جو حق سے روگرداں ہیں، جو حق کی طرف آجائیں۔ یہ چیز مجھے یہ زیادہ پسند اور تمھارے لیے بہتر ہے۔‘‘ (بحارالانوار، علامہ مجلسی، ج۳۲، ص،۳۹۹)

گالی و لعنت سے معاشرے کی فضاء میں عداوت ہی پنپتی ہے اور فتنہ فساد پھیلتا ہے، جس کے نتیجہ میں وہ حق بات سننے سے بھی دور ہو جاتے ہیں۔ اس کے بجائے ان کے برے اعمال کی نشاندہی کریں اور ان کی اصلاح کے لیے اللہ کی بارگاہ میں دعا بھی کریں۔ اصل مقصد تو ان کی اصلاح ہے۔ اس ضمن میں ایک حدیث بھی روایت ہوئی ہے۔ حضور اکرمؐ نے فرمایا: ’’میں لعنت و نفرین کرنے کے لیے مبعوث نہیں ہوا ہوں بلکہ (دین حق کی طرف) دعوت دینے والا اور رحمت بن کر مبعوث ہوا ہوں۔ اے اللہ! میری قوم کی ہدایت فرما کہ وہ مجھے نہیں جانتی۔‘‘ (سنن النبیؐ، علامہ طباطبائی، ص ۱۴۱۳، صحیح مسلم، مسلم نیشاپوری،ج۸، ص ۲۴) حضور ختمی المرتبتؐ کی امت کو بھی اسی مشن پر چلنا چاہیئے۔

یہ دیکھا گیا ہے کہ لعن، طعن، گالی گلوچ کا وہ سہارا لیتا ہے، جو اپنے موقف پر دلیل و برہان نہیں رکھتا۔ اس لیے جاہل لوگ ہی اس عمل کا سہارا لیتے ہیں، وہ وقتی طور پر اپنا غبار نکال لیتے ہیں۔ مگر مستقل طور پر تبلیغ کا راستہ مسدود کر دیتے ہیں، جبکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنے مخالف کو اپنے قریب کرکے ان کی اصلاح کی کوشش کی جائے۔ مزید برآں اہانت و گالی کے ذریعے نہ صرف یہ کہ کسی غلط راستے سے نہیں روکا جاسکتا بلکہ اس کے برعکس ایسے لوگوں میں مزید جہالت آمیز تعصب بڑھ جاتا ہے اور وہ ضد پر اتر آتے ہیں اور اپنی باطل روش پر اڑ جاتے ہیں۔ اگرچہ اس وحدت امت اور اس کے تقاضوں کے بارے میں آئمہ اطہار کی بہت زیادہ روایات موجود ہیں، مگر یہاں نمونے کے طور پر چند حوالے پیش کیے گئے۔

تحریر: سید نثار علی ترمذی

Wednesday, 18 September 2024 03:04

عالمی امن کے لئے خطرہ کون؟

صیہونی حکومت عالمی امن و سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے اور اس خطرے کی بڑی وجہ غزہ میں نسل کشی اور جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے میں اس کا شامل نہ ہونا ہے۔ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کی جنرل کانفرنس کا 68 واں سالانہ اجلاس 16 سے 20 ستمبر 2024ء آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں منعقد ہو رہا ہے۔ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کی جنرل کانفرنس ایجنسی کے اہم پالیسی ساز اداروں میں سے ایک ہے، جو تمام رکن ممالک پر مشتمل ہے۔ یہ کانفرنس ہر سال ستمبر میں ایجنسی کے ہیڈ کوارٹر ویانا میں منعقد ہوتی ہے اور اس میں رکن ممالک کے اعلیٰ حکام اور رکن ممالک کے نمائندے بعض امور پر تبادلہ خیال کرتے ہیں۔

ایران کی ایٹمی توانائی کی تنظیم کے سربراہ محمد اسلامی نے اس اجلاس میں تاکید کی ہے کہ "اسرائیلی حکومت کا این پی ٹی میں شمولیت سے انکار اور اپنی ایٹمی تنصیبات کو ایجنسی کے تحفظ میں رکھنے سے انکار بین الاقوامی امن و سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔" بلا شبہ صیہونی حکومت آج عالمی امن و سلامتی کے لیے سب سے اہم خطرہ ہے اور اس کی کئی وجوہات ہیں: یہ حکومت 7 اکتوبر 2023ء سے غزہ میں نسل کشی جاری رکھے ہوئے ہے۔ سرکاری اور غیر سرکاری بین الاقوامی اداروں اور دنیا کے اکثر ممالک کے لوگوں نے غزہ میں صیہونی حکومت کی طرف سے کیے جانے والے جرم کی مذمت کرتے ہوئے اسے نسل کشی کی مثال قرار دیا ہے۔

تاہم، یہ حکومت اس نسل کشی کو جاری رکھے ہوئے ہے اور یہاں تک کہ مغربی ایشیائی خطے میں جنگ کو وسعت دینے کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اس سلسلے میں ایران کی ایٹمی توانائی کی تنظیم کے سربراہ نے بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کی جنرل کانفرنس کے سالانہ اجلاس میں کہا: اس وقت دنیا کو سنگین اور تشویشناک چیلنجوں کا سامنا ہے، جن میں صیہونیوں کے جرائم بھی شامل ہیں۔ فلسطین میں یہ حکومت حالت جنگ میں ہے اور اس نے غزہ میں 41000 سے زیادہ لوگوں کا قتل عام کیا ہے، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔ یہ ناجائز حکومت امریکہ اور بعض ممالک کی حمایت سے اپنے جرائم اور نسل کشی کو ڈھٹائی سے جاری رکھے ہوئے ہے۔

اس کے علاوہ صیہونی حکومت نے ہمیشہ بین الاقوامی ضابطوں، معاہدوں اور دستاویزات کا مذاق اڑایا ہے۔ بین الاقوامی قوانین، معاہدوں اور بین الاقوامی قانونی دستاویزات میں مسلح تصادم کی دفعات بیان کی گئی ہیں، ان حقوق میں سے طبی، تعلیمی، خواتین، بچوں اور عام شہریوں پر حملہ کرنا ممنوع ہے، لیکن صیہونی حکومت ان ممانعتوں کو کھلے عام نظر انداز کرتی ہے۔ اس کے میزائلوں اور ٹینکوں نے نہ صرف عوامی اہداف کے بلکہ طبی مراکز، ہسپتال، اسکول اور پناہ گزین کیمپوں کو بھی نشانہ بنایا۔ بلاشبہ صیہونی حکومت کی جانب سے بین الاقوامی قوانین کے ضوابط کی صریح اور کھلی خلاف ورزی کو عالمی امن و سلامتی کے لیے خطرہ سمجھا جاتا ہے۔

جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے (این پی ٹی) میں شامل ہونے سے صیہونی حکومت کا انکار غاصب حکومت کی جانب سے عالمی امن اور سلامتی کے لیے خطرے کی ایک اور مثال ہے۔ صیہونی حکومت نے اس معاہدے کی توثیق کے بعد ایٹمی ہتھیار حاصل کیے اور آج تک اس معاہدے سے متعلق اضافی پروٹوکول میں شامل ہونے سے بھی  انکار کیا ہے۔ یہ حکومت مغربی ایشیائی خطے میں واحد ریاست ہے، جس کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں۔ اس سلسلے میں ایران کی جوہری توانائی کی تنظیم کے سربراہ محمد اسلامی نے اس بات پر زور دیا کہ ایٹمی تخفیف اسلحہ بین الاقوامی برادری کی اہم ترجیح ہے اور موجودہ حالات میں پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں سے پاک زون تشکیل دیا جائے۔ مغربی ایشیائی خطے میں ہتھیاروں پر کنٹرول اس لئے بھی اہم ہے کہ صرف پچھلے ایک سال میں، بچوں کو مارنے والی صیہونی حکومت کے حکام نے متعدد مواقع پر ایران کی عظیم قوم اور غزہ کے مظلوم عوام کو اپنے ایٹمی ہتھیاروں سے ڈرایا ہے۔

تحریر: سید رضا عمادی

Wednesday, 18 September 2024 02:59

جہاد میں نجات

یمنی انقلاب اور انصار اللہ تحریک کے رہبر و قائد "سید عبدالملک الحوثی" نے پیغمبر اکرم (ص) کی ولادت باسعادت کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ امت اسلامیہ  کو دشمنوں کی طرف سے نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ایک منصوبہ بندی کے ساتھ امت کے طور پر اس کے وجود کو خطرات لاحق ہیں۔ عبدالملک نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ قرآن کریم نے امت اسلامیہ کو بتایا ہے کہ کفر اور نفاق دو ہم آہنگ محاذ ہیں، جو اس معاشرے کے لیے سب سے اہم خطرہ تصور کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے تاکید کی ہے کہ کفر کا محاذ اسوقت دشمنی، مجرمانہ اقدامات، جبر اور بدعنوانی کا سرچشمہ ہے۔ عبدالملک نے اس بات پر تاکید کی کہ کافروں اور منافقوں کو روکنے اور ان کی سازشوں کو شکست دینے کے لیے راہ خدا میں جہاد کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جہاد پیغمبر اسلام کے الہیٰ مشن اور آپ کے دینی وابستگیوں کا حصہ تھا۔ اگر سفارتی ذرائع یا اسلامی امت کی حمایت کا کوئی دوسرا ذریعہ کھلا اور مفید ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم بھی وہی راستہ اختیار کرتے۔ تحریک انصار اللہ کے سربراہ نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ امت اسلامیہ کے پاس جہاد کے علاوہ اپنے آپ کو بچانے کا کوئی راستہ نہیں ہوگا، کہا: صیہونی دشمن امریکی بموں سے کپڑوں کے خیموں میں رہنے والے بے گھر لوگوں کو نشانہ بنا رہا ہے؛ وہ بھی ان جگہوں پر جنہیں اس نے خود محفوظ کہا تھا۔ انصار اللہ کے سربراہ نے کہا کہ دشمن فلسطینی کے خلاف محاصرے، تشدد اور اپنے تمام مجرمانہ، سفاکانہ اور جارحانہ اقدامات کو جاری رکھے ہوئے ہے۔

انصار اللہ کے سربراہ نے کہا کہ کچھ عرصہ قبل، ہم نے یہودیوں کی عبادت گاہ بنانے کے منصوبے اور سازش اور مسجد اقصیٰ کے لیے ایک نئے خطرے کے بارے میں سنا تھا۔ مسجد اقصیٰ کی تعمیر اور اسے تباہ کرنے کی کوشش صہیونیوں کے واضح مقاصد میں سے ایک ہے۔ صہیونی جانتے ہیں کہ مسجد اقصیٰ کو تباہ کرنے کا جرم خطرناک ہے، اسی لیے وہ اس کے لیے رائے عامہ تیار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ عبدالملک الحوثی نے فلسطین میں صیہونیوں کے جرائم کے بارے میں عرب ممالک کے غیر فعال موقف پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ عرب لیگ کے وعدے اور سرکاری کانفرنسوں میں قراردادوں کی منظوری کے علاوہ کچھ نہیں۔

یہ چیز مسلمان عربوں کو اس بات پر آمادہ نہیں کرے گی کہ وہ فلسطین کی مدد کے لیے ایک مخصوص پوزیشن پر آئیں۔ مسجد اقصیٰ کے خلاف خطرہ روز بروز بڑھتا جا رہا ہے، خاص طور پر اگر امت اسلامیہ دشمن کے جرائم اور اس کے معاندانہ اقدامات سے مطمعن ہو کر خاموش ہو جاتی ہے۔ انہوں نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ مسلمانوں کی خاموشی کی وجہ سے مغربی کنارے میں صیہونی حکومت کے جرائم میں اضافہ ہوا ہے۔ عبدالملک  نے یہ بات زور دیکر کہی کہ فلسطین کے واقعات میں امریکہ اسرائیل کا سب سے قریبی ساتھی ہے۔

ترتیب و تنظیم: علی واحدی

الجزیرہ ٹی وی نے ایک سیکیورٹی ذریعے کے حوالے سے بتایا ہے کہ پیجر پھٹنےکے یہ واقعات بیروت ، البقہہ اور جنوبی لبنان میں پیش آئے۔ 

لبنانی نیشنل نیوز ایجنسی کے مطابق یہ دھماکے جنوبی بیروت اور لبنان کے دیگر علاقوں میں پی اے جے آر نیٹ ورک میں ایک جدید ٹیکنالوجی استعمال اور ہیکنگ کے ذریعے کئے گئے ہیں۔ 

رائٹرز نے یہ بھی اطلاع دی ہے کہ دھماکے کے نتیجے میں لبنان میں کم از کم چار افراد زخمی ہوئے تھے۔

لبنانی وزارت صحت نے تمام اسپتالوں اور طبی مراکز کو تیار رہنے کا حکم دیا ہے. 

لبنانی وزارت صحت نے تمام لبنانی شہریوں سے بھی فوری طور پر کسی بھی پیجرڈیوائس سے دور رہنے کی اپیل کی ہے۔

ز- فرہنگیاں یونیورسٹی کی فیکلٹی کے رکن مسعود عمرانی نے ایک نوٹ میں پیغمبر اسلام (ص) کی شخصیت کے بارے میں لکھا ہے جو انہوں نے ایکنا خراسان رضوی کو فراہم کیا تھا: کچھ مغربی اور غیر مسلم مفکرین نے اسلام کی عظمت اور اس کے بارے میں بات کی ہے۔ پیغمبر کی شخصیت کی شان (ص)اور تاریخ نے ان کے پیغمبر کی عظمت کا اعتراف درج کیا ہے۔

 
«La Martin»، ایک فرانسیسی مفکر، نے اپنی کتاب «History of Turkey» میں لکھا: اگر وہ اصول اور قوانین جن کے ذریعے ہم انسان کی اشرافیہ اور ذہانت کی پیمائش کرتے ہیں، تو سہولیات کی کمی کے باوجود اہداف اور نتائج حیرت انگیز ہیں، تو پھر کون کچھ کرنے کی ہمت نہیں کرتا؟ کیا اسے تاریخ کے بزرگوں کا پیغمبر محمد مصطفیٰ (ص) سے موازنہ کرنا چاہیے؟ دنیا کے مشہور لوگوں نے ہتھیار بنائے اور اپنے لیے قوانین بنائے اور سلطنتیں شروع کیں، لیکن ظاہری شان و شوکت کے علاوہ، جسے کچھ ہی عرصے بعد ان کی اولاد میں تباہ اور فراموش کر دیا گیا. لیکن تاریخ کے اس عظیم انسان نے یہ کام کیے بغیر سیدھا راستہ لوگوں کے سامنے رکھ دیا۔


«Mahatma Gandhi» نے « ینگ انڈیا» اخبار کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا: میں ایک ایسے شخص کی خوبیوں کو جاننا چاہتا تھا جس نے لاکھوں لوگوں کے دلوں پر بغیر کسی تنازعہ کے قبضہ کر رکھا ہو، مجھے پورا یقین تھا کہ اس نے تلوار کے ذریعے یہ مقام حاصل نہیں کیا، لیکن چونکہ اس کی سادہ زندگی کی وجہ اس کی بہادری، خلوص اور ہمت کے ساتھ ساتھ خدا اور اس کے مشن پر اس کا پختہ اعتماد تھا نیز «Rama Krishna» نے کتاب « محمد نبی» میں لکھا: محمد کے کردار کو اس کے تمام زاویوں سے جاننا ممکن نہیں ہے لیکن میں صرف اس کے وجود اور زندگی کے سمندر سے ایک قطرہ پیش کر سکتا ہوں۔. محمد (ص) ایک جج، ماہر اقتصادیات، سیاست دان، مصلح، یتیموں کا مددگار اور خواتین کو آزاد کرنے والا تھا۔ انسانی زندگی کے تمام راستوں میں ان تمام عظیم کرداروں نے انہیں انسانی تاریخ کا ہیرو بننے کے لائق بنا دیا ہے.
«Montgomery Wat» نے کتاب « محمد مکہ میں » میں لکھا ہے: اس آدمی کی قابلیت اور عقائد کی راہ میں مشکلات اور مصائب برداشت کرنے کی صلاحیت کے ساتھ ساتھ اس کی اعلیٰ اخلاقی فطرت، ان لوگوں کے سامنے جو اس پر یقین رکھتے تھے اور اسے کہتے تھے۔ وہ ان کا رہنما اور کمانڈر، ان کے منفرد شاہکاروں کے ساتھ، یہ سب ان کی شخصیت میں انصاف اور مستند خوبصورتی پر مبنی ہیں۔


Eward Gibbon Simon Oakley» نے کتاب «مشرق کے امپراتور» میں لکھا ہے یہ دعوت اسلام کی اشاعت نہیں ہے جو حیرت کا باعث بنتی ہے، بلکہ اس کے استحکام اور تسلسل نے ہمیں حیرت میں ڈال دیا ہے، اور پھر بھی وہ اچھا اور دلچسپ اثر جو محمد نے مکہ اور مدینہ میں ہندوستانیوں کے دلوں میں اپنی شان و شوکت سے پیدا کیا تھا۔ اور افریقی۔ اور ترک، 12 صدیوں کے گزرنے کے باوجود، اسلام کے آغاز سے ہی باقی ہیں.اگرچہ مسلمان صرف عقل اور انسانی جذبات سے خدا کو جانتے تھے، لیکن وہ خدا پر ایمان کے فتنوں کے خلاف ایک جسم کی طرح کھڑے ہونے کے قابل تھے اور الفاظ أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدا رسول الله»  آسانی سے گواہی اور اسلام اور مسلمانوں نے کہا.


«Dr. Zwimmer» نے کتاب «مشرق اور انکی عادات» میں لکھا: محمد بلاشبہ مسلمانوں کے سب سے بڑے مذہبی رہنماؤں میں سے ایک تھے اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ ایک طاقتور مصلح، فصیح خطیب، ایک دلیر جنگجو اور عظیم مفکر تھے، اور اس کی مخالفت کرنا جائز نہیں ہے۔ اس کی اور قرآن کی صفات جو اس نے لائی ہیں۔

 

تقریب بین الاقوامی خبر رساں ایجنسی کے نامہ نگار کے مطابق بنگلہ دیشی مفکر مولوی سید محمد امداد الدین نے 38ویں بین الاقوامی اتحاد اسلامی کانفرنس کے 10ویں ویبینار کے دوران کہا: اس بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد اسلامی اتحاد کی مشترکہ اقدار کے حصول کے لیے کیا گیا تھا۔ اسلام کی بنیاد یہ ہے کہ ہمارا رب عظیم ہے اور ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور ہماری کتاب قرآن کریم ہے۔ ان مشترکہ اقدار میں صرف خدا کی عبادت کرنا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرنا، نیز عدل، انصاف اور وفاداری شامل ہے۔
 
انہوں نے مزید کہا: ہماری دیگر مشترکہ اقدار میں سلامتی، صحت، محبت، مہربانی اور دوستی ہیں اور ان اقدار میں سے نیکی اور بھائی چارہ شامل ہیں۔
 
مولوی سید محمد امداد الدین نے ظلم، نفرت اور دشمنی کی مخالفت کو مسلمانوں کی دیگر مشترکہ اقدار کی فہرست میں شامل کیا اور کہا: قتل و غارت اور دہشت گردی، فتنہ اور تعصب کا مقابلہ بھی دیگر مشترکہ اقدار میں سے ایک ہے۔
 
انہوں نے مزید کہا: ہماری کتاب قرآن کریم خوبیوں کا ذخیرہ اور نیک اعمال کی کان ہے۔ خداتعالیٰ نے کلام الہٰی میں فرمایا ہے: ’’یہ قرآن ہے، یھدی للتی حی اکم‘‘ اس کے علاوہ، خداتعالیٰ ایک اور آیت میں مشترک اقدار کے حصول کے بارے میں فرماتا ہے: « إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَىٰ»اس آیت میں انسانوں کے درمیان اخوت اور بھائی چارے پر زور دیا گیا ہے۔
 
اس بنگلہ دیشی عالم نے مزید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کا حوالہ دیا اور کہا: اس سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانوں کے درمیان اخوت اور بھائی چارے کی وضاحت فرمائی اور فرمایا کہ کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی پر کوئی فضیلت نہیں ہے۔ - عربی کو عربی پر فضیلت نہیں ہے اور نہ ہی کسی کالے کو کسی عرب پر ہندوستانی اور ہندوستانی کو کالے پر کوئی فضیلت حاصل ہے سوائے تقویٰ کے۔ 
 
انہوں نے مزید کہا: دیگر آیات میں بھی خداوند متعال نے ظلم و تشدد سے منع کیا ہے اور فتنہ و حسد سے دور رہنے کی تاکید کی ہے۔

آخر میں انہوں نے کہا: فلسطین میں ہمارے بھائی ان مشترکہ اقدار کو کھو چکے ہیں۔ ان پر بھی انسانی حقوق کا اطلاق نہیں ہوتا۔ لہٰذا ہم مسلمانوں کو چاہیے کہ ان کی مالی، اقتصادی، سیاسی، وغیرہ کی حمایت کریں۔ ہم خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے ہمیشہ فلسطینی قوم کی حمایت کی ہے اور ہمیشہ امام خمینی (رہ) کی رہنمائی کے ساتھ فلسطینیوں کے ساتھ کھڑا رہا ہے

Tuesday, 17 September 2024 05:54

ہائپرسونک طمانچہ

یمن میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم انصاراللہ نے غزہ جنگ کے بعد پہلی بار غاصب صیہونی رژیم کے مرکز تل ابیب کو کامیابی سے ہائپرسونک بیلسٹک میزائل سے نشانہ بنایا ہے۔ اس حملے میں تل ابیب سے بیت المقدس جانے والے ریلوے ٹریک کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس کامیاب میزائل حملے نے صیہونی حکمرانوں کو شدید دھچکہ پہنچایا ہے جبکہ دوسری طرف اسلامی مزاحمت کی طاقت کا بھرپور اظہار کیا ہے۔ تل ابیب پر انصاراللہ یمن کے میزائل حملے کے بارے میں صیہونی کابینہ کے اکثر اراکین کی خاموشی سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس جعلی رژیم کو شدید شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس شکست کے مختلف پہلو واضح ہوتے جا رہے ہیں۔ یمن کی مسلح افواج کے ترجمان بریگیڈیئر یحیی سریع نے اعلان کیا کہ یمن نے انتقامی کاروائی کرتے ہوئے مقبوضہ فلسطین میں یافا (تل ابیب کا پرانا نام) کو ہائپرسونک میزائل سے نشانہ بنایا ہے۔
 
عنقریب بڑے سرپرائز آنے والے ہیں
انصاراللہ یمن کے اس میزائل حملے کے پیغامات واضح ہیں۔ صیہونی دشمن کو عنقریب منفرد فوجی کاروائیوں کیلئے تیار رہنا چاہئے جبکہ طوفان الاقصی کی پہلی سالگرہ بھی قریب ہے۔ انصاراللہ یمن کے بقول دشمن کو الحدیدہ بندرگاہ پر اپنے مجرمانہ اقدام کی سزا کیلئے تیار رہنا چاہئے۔ اگرچہ انصاراللہ یمن نے تل ابیب پر داغے گئے ہائپرسونک میزائل کے نام کا اعلان نہیں کیا لیکن کچھ ماہ پہلے یمن کی مسلح افواج نے حاطم 2 نامی ہائپرسونک میزائل متعارف کروایا تھا اور وہ اس میزائل کو بحیرہ عرب میں صیہونی کشتی MSC SARAH کو نشانہ بنانے میں بروئے کار بھی لا چکی ہیں۔ صیہونی ذرائع ابلاغ نے کل صبح اعلان کیا تھا کہ انہوں نے تل ابیب شہر کے قریب یمن کا ایک بیلسٹک میزائل دیکھا اور بڑی تعداد میں زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائلوں کے ذریعے اس کا مقابلہ کیا۔ صیہونی میڈیا کے مطابق اس میزائل نے یمن، سعودی عرب، اردن اور اسرائیل کی فضائی حدود میں 2 ہزار کلومیٹر کا سفر صرف 11 منٹ میں طے کیا۔
 
صیہونیوں کی جانب سے بڑی شکست کا اعتراف
صیہونی ذرائع ابلاغ نے اسرائیل کے فضائی دفاعی نظام کی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ یمن کی جانب سے داغے گئے بیلسٹک میزائل کی جانب فضائی دفاع کے 20 میزائل فائر کئے گئے لیکن وہ اس ہائپرسونک میزائل کو مار گرانے میں ناکام رہے اور وہ میزائل تل ابیب تک پہنچنے میں کامیاب رہا۔ یمن کا یہ میزائل تل ابیب کے بن گورین ایئرپورٹ کے قریب آ لگا۔ یہ فوجی کاروائی ظاہر کرتی ہے کہ انصاراللہ یمن مقبوضہ فلسطین میں ہر مقام کو نشانہ بنانے کی طاقت رکھتی ہے جبکہ اسرائیلی میزائل ڈیفنس سسٹم یمنی میزائلوں کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ صیہونی فوج نے اس ناکامی کے بعد وسیع پیمانے پر تحقیقات انجام دینے کا حکم جاری کیا ہے۔ اسی طرح حملے کی اطلاع ملنے کے بعد 20 لاکھ صیہونی شہریوں کو پناہ گاہوں میں گھس جانا بھی اسرائیلی تاریخ میں بے مثال ہے۔
 
تاریخی کاروائی کے پیغامات
انصاراللہ یمن کی اسرائیل کے خلاف اس عظیم فوجی کاروائی میں درج ذیل چھ پیغامات پوشیدہ ہیں:
1)۔ آج کے بعد مقبوضہ فلسطین میں صیہونیوں کیلئے کوئی محفوظ مقام باقی نہیں رہا اور اسلامی مزاحمت کے میزائل ہر وقت اور ہر جگہ صیہونی رژیم کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔
2)۔ اسلامی مزاحمتی بلاک نہ صرف صیہونی دشمن کے خلاف ذہانت آمیز، فیصلہ کن اور سرپرائز دینے والے فوجی حربے سیکھ چکا ہے بلکہ میدان جنگ میں انہیں بروئے کار بھی لا رہا ہے۔
3)۔ اسلامی مزاحمت کی جانب سے صیہونی رژیم کے مرکز تک فوجی کاروائیاں انجام دینے کا وعدہ پورا ہوا ہے اور آئندہ بھی پورا ہوتا رہے گا۔ یمن کے وزیر دفاع نے اس بارے میں کہا تھا: "غاصب صیہونی رژیم ہماری طاقت محسوس کرے گا اور یمن پر جارحیت کا بھاری تاوان ادا کرے گا۔ ہم مقبوضہ فلسطین میں اپنے اہداف واضح کر چکے ہیں جبکہ ہمارے پاس ان اہداف کو نشانہ بنانے کیلئے کافی حد تک فوجی صلاحیتیں بھی موجود ہیں۔"
 
4)۔ اسلامی مزاحمتی گروہوں کی جانب سے وسیع پیمانے پر جدید ہتھیاروں کے ذریعے مزاحمتی کاروائیاں انجام دینے کی صلاحیت نے باطل کے خلاف حق کا پلڑا بھاری کر دیا ہے۔ یمن کی جانب سے تل ابیب پر ہائپرسونک میزائل سے حملہ ظاہر کرتا ہے کہ اس کی فوجی صلاحیتیں کس حد تک ہیں اور اس نے محض 11 منٹ میں مطلوبہ ہدف کو نشانہ بنایا ہے۔
5)۔ یہ فوجی کاروائی اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کی کئی پہلووں پر مشتمل شکست عیاں کرتی ہے۔ یمن کی جانب سے فائر کیا گیا ہائپرسونک میزائل 15 فضائی دفاعی نظاموں سے عبور کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ صیہونی چینل 13 کے بقول یمن کے میزائل نے نہ صرف اسرائیل کے میزائل ڈیفنس سسٹمز کو شکست دی ہے بلکہ امریکہ اور عرب ممالک اور بحیرہ احمر میں اس کے اتحادیوں کے میزائل ڈیفنس سسٹمز سے بھی عبور کرنے میں کامیاب رہا ہے۔
 
6)۔ یمن کی جانب سے حالیہ میزائل حملہ مقبوضہ فلسطین میں جاری جنگ اور اس سے متعلقہ امور پر گہرا اثر ڈالے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انصاراللہ یمن کا یہ حملہ خطے کے حالات میں بھی بنیادی تبدیلیاں رونما کرے گا۔ غاصب صیہونی رژیم کچھ دن پہلے تک خود کو لبنان پر وسیع فوجی جارحیت کیلئے تیار کر رہی تھی لیکن اب اس میزائیل حملے کے بعد اور اپنے میزائل ڈیفنس سسٹم کی عدم افادیت آشکار ہو جانے کے بعد اسے لبنان پر حملہ کرنے سے پہلے بہت سی چیزوں کے بارے میں سوچنا ہو گا۔ وہ جان چکی ہے کہ اگر لبنان کے خلاف جنگ شروع کرتی ہے تو اسے اسلامی مزاحمتی گروہوں کی جانب سے فوری اقدامات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مختصر یہ کہ حوثی مجاہدین کی جانب سے اس شاندار اور فخرآمیز فوجی کاروائی نے صیہونی رژیم کی کمزوری عیاں کر دی ہے اور اب صیہونی رژیم شدید اسٹریٹجک، علاقائی اور جنگی ڈیڈلاک کا شکار ہو چکی ہے۔
 
 
تحریر: محمد علی زادہ
Tuesday, 17 September 2024 05:51

امریکہ میں خودسوزیاں

میٹ نیلسن نامی امریکی شہری نے غزہ جنگ کے جاری رہنے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے خود کو آگ لگالی۔ بدھ 11 ستمبر کو نیلسن نے بوسٹن میں اسرائیلی قونصل خانے کے بالکل سامنے فور سیزنز ہوٹل کے باہر خود کو آگ لگا لی۔ اس امریکی شہری نے یہ اقدام غزہ پٹی کے خلاف جاری جنگ میں صیہونی حکومت کے ہاتھوں 41 ہزار سے زائد فلسطینیوں کی شہادت اور اس حکومت کے ساتھ امریکہ کی ملی بھگت پر احتجاج کیا ہے۔ نیلسن نے اس واقعے سے پہلے جو ویڈیو شائع کی، اس میں اعلان کیا ہے کہ میرا نام میٹ نیلسن ہے اور میں سخت احتجاجی کارروائی کرنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ہم سب غزہ میں جاری نسل کشی کے ذمہ دار ہیں، اس احتجاج کا مقصد امریکی حکومت سے صیہونی حکومت کی مالی امداد بند کرنے کی درخواست کرنا ہے، جو کہ بے گناہ فلسطینیوں کو قید کرنے اور قتل کرنے کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔

نیلسن نے غزہ پٹی میں نسل کشی کے خاتمے کے لیے صیہونی حکومت پر دباؤ ڈالنے پر بھی زور دیا۔ انہوں  نے اس بات پر زور دیا کہ "جمہوریت سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ لوگوں کی مرضی کے مطابق ہو نہ کہ امیروں کے مفادات کے لیے۔ "اقتدار سنبھالو اور فلسطین کو آزاد کرو۔" نیلسن سے پہلے تین دیگر امریکی شہریوں نے غزہ جنگ کے جاری رہنے اور صیہونی حکومت کے جرائم اور اسرائیل کو بائیڈن حکومت کی جامع حمایت کے خلاف احتجاج میں خود سوزی کا ارتکاب کیا ہے۔ غزہ میں جنگ کے جاری رہنے اور امریکی حکومت کی اسرائیل کی حمایت میں یکطرفہ پالیسی کے خلاف احتجاج میں امریکیوں کی جانب سے خود سوزی کے اہم واقعات میں سے ایک 25 سالہ امریکی فضائیہ کے جوان کی موت کا بھی ہے۔ آرون بشنیل نامی اس افسر نے اتوار 25 فروری 2024ء کی سہ پہر کو غزہ جنگ میں اسرائیل کی نسل کشی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے واشنگٹن میں صہیونی سفارت خانے کے سامنے خود کو آگ لگا لی تھی۔

یہ اقدام دنیا کے گرم ترین موضوعات میں سے ایک بن گیا ہے اور غزہ کے لوگوں کے مصائب کو واضح طور پر اجاگر کرنے کا باعث بنا۔ اس امریکی فوجی کی خود سوزی اور اس کے ردعمل کو غزہ کے عوام پر ظلم و ستم اور صیہونی حکومت کی جارحیت اور غزہ پٹی میں جاری نسل کشی کے تحت فلسطینی مزاحمت کے بہاؤ کی ایک اور علامت کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ فوجی وردی میں ملبوس بشنیل نے آن لائن نشر ہونے والے ریمارکس میں کہا، "میں اب نسل کشی کا ساتھی نہیں رہوں گا۔" اس کے بعد، اس نے اپنے آپ پر ایک مائع ڈالا اور خود کو آگ لگاتے ہوئے "آزاد فلسطین" کے نعرے لگائے۔ اس نے اپنے فیس بک پیج پر لکھا: "ہم میں سے بہت سے لوگ اپنے آپ سے یہ پوچھنا پسند کرتے ہیں: "اگر غلامی کے دور میں ہوتے تو کیا کرتے۔ اگر میرا ملک نسل کشی کرتا ہے تو میں کیا کروں گا۔؟

بشنیل کے آخری الفاظ تھے "میں احتجاج کا ایک انتہائی اقدام کرنے والا ہوں۔" لیکن فلسطین کے لوگوں نے اپنے نوآبادکاروں کے ہاتھوں جو تجربہ کیا ہے، اس کے مقابلے میں یہ کوئی انتہائی اقدام نہیں ہے۔ ہمارے حکمران طبقے نے یہی فیصلہ کیا ہے کہ یہ معمول کا حصہ ہے۔ بائیڈن انتظامیہ کے اعلیٰ حکام نے بارہا صیہونی حکومت کے ہاتھوں غزہ جنگ کے دوران فلسطینیوں کی نسل کشی کی تردید کی ہے۔ ان میں وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے دعویٰ کیا کہ غزہ میں ہزاروں فلسطینیوں کی شہادتوں کے باوجود جو بائیڈن کی حکومت اسرائیل کے ہاتھوں غزہ میں فلسطینیوں کے قتل کو نسل کشی نہیں سمجھتی۔ سلیوان نے مئی 2024ء کے وسط میں وائٹ ہاؤس میں کہا کہ امریکہ حماس کی شکست دیکھنا چاہتا ہے: ہم نہیں مانتے کہ غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ نسل کشی ہے۔

یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ صیہونی حکومت کے اسٹریٹجک اتحادی کے طور پر امریکہ نے اس حکومت کی طرف سے غزہ کی جنگ کے دوران نسل کشی کی تردید کی ہو۔نومبر 2023ء کے اوائل میں جب غزہ جنگ کے آغاز کو ایک مہینہ گزر چکا تھا، وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے دعویٰ کیا کہ غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ صہیونیوں کے جرائم کی حمایت میں نسل کشی نہیں ہے۔ بلاشبہ گذشتہ چند مہینوں میں غزہ کے شہداء اور زخمیوں بالخصوص بچوں اور خواتین کی تعداد 41 ہزار سے زائد تک پہنچنے کے بعد بائیڈن انتظامیہ نے بظاہر جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ، ڈیموکریٹک پارٹی کے انتخابی پروگرام کے مسودے میں، جو جولائی کے وسط میں شائع ہوا تھا، میں غزہ میں "فوری اور دیرپا جنگ بندی" اور قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ تاہم اس میں غزہ کے چالیس ہزار سے زائد باشندوں، جن میں زیادہ تر بچے اور خواتین ہیں، ان کا کوئی ذکر نہیں ہے، جو حالیہ جنگ کے دوران شہید ہوئے اور نہ ہی اسرائیل کو ہتھیاروں کی امداد محدود کرنے کی ضرورت کا ذکر ہے۔

یہ اس حقیقت کے باوجود ہے کہ امریکہ نے حال ہی میں اسرائیل کو مزید 20 بلین ڈالر کے ہتھیاروں کی فروخت کی منظوری دی ہے۔ صیہونی حکومت کو امریکہ کی وسیع سیاسی اور فوجی حمایت کے باوجود اس حکومت نے غزہ جنگ میں جنگ بندی کی امریکی درخواست سمیت عالمی برادری کے مطالبات کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔ اس تمام کے باوجود بائیڈن حکومت اور سینیئر امریکی حکام نے محض انتباہات کا اظہار کیا ہے، جو تل ابیب کے لیے غیر موثر ہیں۔ امریکہ اسرائیل کو غزہ میں جنگ روکنے پر مجبور کرنے کے لیے سیاسی اور مالی دباؤ کا استعمال نہیں کر رہا، جس کے خلاف امریکہ میں ردعمل پایا جا رہا ہے اور لوگ خود سوزیاں کرکے اپنا احتجاج ریکارڈ کرا رہے ہیں۔

تحریر: سید رضا میر طاہر

اسلام ٹائمز۔ تحریکِ بیداری امتِ مصطفیٰؐ کے سربراہ علامہ سید جواد نقوی نے ایک اہم بیان میں کہا کہ پیغمبر اعظم ﷺ کی ولادت ان برکتوں کا نقطئہ آغاز ہے جو اللہ نے بشریت کیلئے مقدر فرمائی ہیں۔ آج کے دن آپ ﷺ کے سامنے سب سے بہترین ہدیہ یہ ہوگا کہ امت مسلمہ کا ہر طبقہ، خواہ وہ شیعہ ہو، سنی ہو، دیوبندی، اہلحدیث یا مشائخ، سب ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر عہد کریں کہ یا رسول اللہ! ہم آپ کی امت ہیں اور آپ کی خاطر اپنی باہمی دشمنیوں کو دفن کر چکے ہیں۔

علامہ سید جواد نقوی نے اس بات پر زور دیا کہ تفرقہ کسی کا مذہب نہیں بلکہ ایک کاروبار ہے۔ تفرقے کی بات کرنا یا تفرقہ پھیلانے والوں کی حمایت کرنا امت اور اسلام کیساتھ کھلی دشمنی ہے۔ مذہب کے نام پر فرقہ واریت ایک سنگین جرم ہے۔ امت مسلمہ کی بقاء کی بنیاد توحید اور قرآن کے محور پر اتحاد میں ہے، جبکہ طاغوتی اور استعماری طاقتوں کی بقاء بشریت کے درمیان تفرقے اور جدائی پر منحصر ہے