سلیمانی

سلیمانی

عدلیہ میں اصلاحات پر مبنی بل کی منظوری نے غاصب صیہونی رژیم کے خلاف مقبوضہ فلسطین میں شدید عوامی احتجاج اور مظاہروں کی نئی لہر کو جنم دیا ہے۔ ہفتہ 15 جولائی 2023ء کے دن مسلسل 28 ہفتے سے برپا ہونے والے مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا۔ رپورٹس کے مطابق اس ہفتے منعقد ہونے والے مظاہروں میں لاکھوں صیہونیوں نے شرکت کی۔ مظاہرین شدت پسند حکمران کابینہ کی جانب سے عدلیہ میں اصلاحات کے فیصلے کی مخالفت کا اعلان کر رہے تھے۔ حکومت مخالف رہنماوں نے اگلے ہفتے منگل کے دن کو "یوم قیامت" کا نام دے رکھا ہے۔ اگرچہ صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے دعوی کیا ہے کہ عدالتی اصلاحات پر مبنی بل کا مقصد عدلیہ کو کمزور کرنا نہیں لیکن مخالفین اسے قبول کرنے سے انکاری ہیں اور بدستور احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں۔
 
اگرچہ گذشتہ کچھ ہفتوں سے اس احتجاج کی شدت میں کچھ حد تک کمی واقع ہوئی تھی لیکن اب کابینہ میں اس بل کی منظوری نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے اور عوامی احتجاج اور مظاہرے ایک بار پھر شدت اختیار کر گئے ہیں۔ اس ہفتے بھی معمول کے مطابق ہفتہ کی رات مظاہرین سڑکوں پر آئے اور نیتن یاہو اور اس کی شدت پسند کابینہ کی جانب سے عدلیہ میں اصلاحات کی مخالفت کا اظہار کیا۔ صیہونی اخبار ہارٹز نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ دسیوں ہزار مظاہرین تل ابیب کی کیپلان روڈ پر جمع ہوئے اور نیتن یاہو اور اس کی پالیسیوں کے خلاف نعرے بازی کی۔ پولیس کی مداخلت پر مظاہرین اور پولیس میں تصادم پیش آیا اور تشدد آمیز اقدامات دیکھنے میں آئے۔ صیہونی فوج کے سابق چیف آف آرمی اسٹاف دانی ہالوتس نے بھی مظاہرین سے خطاب کیا۔
 
دانی ہالوتس نے بنجمن نیتن یاہو کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ہر گز پائلٹس کی وفاداری کو آزمانے کی کوشش نہ کرے۔ مقبوضہ بیت المقدس میں بھی سینکڑوں مظاہرین نے پیرس چوک بند کر دیا جس کے باعث اس علاقے میں ٹریفک کی لمبی لائنیں لگ گئیں۔ مزید برآں، مقبوضہ فلسطین کی کئی اور سڑکیں بھی مظاہرین کے ہاتھوں بند کر دی گئیں۔ صیہونی اخبار یدیعوت آحارنوٹ نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ اس ہفتے مظاہروں میں شریک افراد کی تعداد سے اندازہ ہوتا ہے کہ آئندہ ہفتے حکومت کو ٹف ٹائم دیا جائے گا۔ نیوز ویب سائٹ والا شمار کے مطابق تل ابیب کی کیپلان روڈ پر مظاہرین کی تعداد 1 لاکھ 90 ہزار کے قریب تھی۔ اسی طرح دیگر شہروں اور علاقوں میں بھی تقریباً 2 لاکھ افراد نے حکومت مخالف مظاہروں میں شرکت کی ہے۔
 
ان مظاہروں میں کئی سابق حکومتی عہدیدار بھی شریک تھے۔ صیہونی رژیم کے اپوزیشن لیڈر یائیر لاپید نے مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا: "ہماری کابینہ انتہائی نامعقول ہے۔" ایک اور حکومت مخالف رہنما پروفیسر شیکما بریسلر نے بھی تقریر کرتے ہوئے کہا: "اگر نیتن یاہو کی کابینہ اسی طرح اپنی پالیسیوں کو آگے بڑھانے پر اصرار کرتی رہے تو اگلے ہفتے منگل کے دن تاریخ کے سب سے بڑے مظاہرے منعقد کریں گے۔" اس کے بقول اگلے دس دن ملک کی تاریخ میں اہم ترین دن ثابت ہوں گے۔ مظاہرین نے اس بات پر بھی زور دیا کہ اگلے ہفتے منگل کا دن اسرائیل کیلئے "یوم قیامت" ثابت ہو گا۔ صیہونی اخبار ہارٹز کے مطابق حکومت مخالف عناصر اپنے مظاہروں کو ملک جام کرنے کی حد تک شدت دینا چاہتے ہیں تاکہ یوں کابینہ کو دباو میں لا کر عدلیہ میں اصلاحات کے بل کو واپس لینے پر مجبور کر سکیں۔
 
ہارٹز کے مطابق صیہونی رژیم میں ہڑتالوں کا سلسلہ جاری ہے اور توقع کی جا رہی ہے آئندہ ہفتے تک صیہونی فوجیوں کی مزید تعداد اس ہڑتال میں شرکت کرے گی۔ اسی طرح کچھ بڑی ورکرز یونینز اور کمپنیوں نے بھی ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔ یاد رہے عدلیہ میں اصلاحات پر مبنی بل پہلے مرحلے میں کابینہ میں منظور کر لیا گیا ہے جبکہ دوسرے مرحلے میں بہت جلد صیہونی پارلیمنٹ کینسٹ میں پیش کیا جائے گا۔ مقبوضہ فلسطین میں حکومت مخالف صیہونیوں نے اگلے ہفتے پیر کے دن تک اپنی احتجاجی سرگرمیاں بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ اس مدت میں متنازعہ بل پارلیمنٹ میں پیش کئے جانے کا امکان ہے۔ دوسری طرف حکومت مخالف رہنما ملک گیر ہڑتال کی منصوبہ بندی بھی کر رہے ہیں۔ ان کے بقول آنے والے دنوں میں ملک بھر میں بڑی بڑی کمپنیوں اور اداروں کو ہڑتال میں شامل کرنے کی مہم چلائی جائے گی۔
 
صیہونی حکمرانوں نے فوج میں نافرمانی اور بغاوت کے آثار پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ صیہونی رژیم نے حالات کنٹرول کرنے کیلئے ایک نفسیاتی ہتھکنڈہ بھی استعمال کیا ہے اور ان دنوں مسلسل حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ کے بارے میں ڈاکیومنٹریز نشر کی جا رہی ہیں جبکہ حزب اللہ لبنان کے خلاف ممکنہ فوجی کاروائی کا اعلان بھی کیا جا رہا ہے۔ صیہونی رژیم کے سکیورٹی سربراہان حزب اللہ لبنان کو خطرہ قرار دے کر اس کی فوجی صلاحیتوں کو بیان کر رہے ہیں اور یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اگر صیہونی فوج کمزور ہوئی تو حزب اللہ لبنان مقبوضہ علاقوں پر حملہ ور ہو جائے گی۔ دوسری طرف حکومت مخالف قوتوں نے اسے حکومتی پروپیگنڈہ قرار دے کر صیہونیوں کو اس پر توجہ نہ دینے کی ہدایت کی ہے

تحریر: فاطمہ محمدی

Wednesday, 19 July 2023 08:03

مقصد امام حسین (ع) اور ہم

حوزہ نیوز ایجنسی | امام حسین (علیہ السلام) نے مدینہ سے روانہ ہوتے وقت اپنے بھائی حضرت محمد حنفیہ سے وصیت کی جس میں یہ لکھا کہ میں اپنے نانا کی امّت کی اصلاح كے لئے نکل رہا ہوں- میں چاہتا ہوں کہ لوگوں کو نیکی کی طرف بلاؤں اور برائیوں سے روکوں اور اپنے نانا اور بابا حضرت علی ابن ابیطالب (علیہ السلام) کی سیرت پر چلوں۔

اِس وصیت سے امام کا مقصد بھی واضح ہو رہا ہے اور اس مقصد کو پُورا کرنے كے لئے کیا Line of action ہونا چاہئے اور کیا Guidelines ہونی چاہئے یہ بھی واضح ہو رہا ہے-
یعنی امام کا مقصد یا Objective ہے : اُمّت کی اِصلاح
اس مقصد یا Objective کو پُورا کرنے كے لئے جو Line of action ہے وہ ہے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر یعنی لوگوں کو اچھائی کی طرف بلانا اور برائی سے روکنا-
اور اِس Line of action كے لئے ہمارے سامنے Guidelines ہونی چاہئے، اچھائی اور برائی کا کیا معیار ہے یہ طے ہونا چاہئے- اس کے لئے ہم کو رسولؐ اور امامؑ کی سیرت کو معیار بنانا ہو گا-

جو امام حسین (علیہ السلام) کا مقصد تھا، جو ان کا مشن تھا، وہ دسویں محرم سن 61 ھجری کو ختم نہیں ہوا بلکہ اس نے عالمی سطح کی ایک تحریک اور ظہورامامؑ زمانہ تک جاری رہنے والے ایک Movement کی شکل اختیار کرلی- عزاداری اسی تحریک اور Movement کا نام ہے- قیامت تک آنے والی نسلیں جنہیں امام کی آوازِاستغاثہ سنائی دے رہی ہے اور جو یہ خواہش ظاہر کرتے ہیں کی کاش ہَم کربلا میں ہوتے، وہ آج بھی امام كے اِس تحریک اور مِشن کا حصہ بن سکتے ہیں-

اِس عزاداری كے ذریعے سے ہم کو چاہئے كہ سب سے پہلے ہَم خود اپنی اصلاح کریں- پِھر اپنے اہل وعیال اور اپنے گھر کی پِھر اپنے رشتہ داروں اورمعاشرے کی-

اس کے لئے ہمیں رسول اللہؐ اور ائمئہ معصومین کی سیرت کو ریفرنس لائن (Reference Line) مان کر دیکھنا ہو گا کی کہاں کہاں ہَم لائن سے ہٹ رہے ہیں۔

ہم کو ہرField اور ہر میدان میں یہ دیکھنا ہو گا کہ معصومین کی سیرت کیا ہے اور ہَم کہاں اسٹینڈ (Stand) کر رہے ہیں-

1- کیا ہمارے عقائد وہی ہیں جو معصومین نے بتائے ہیں؟ کیا ہم نے اپنے بچّوں کو عقائد کی تعلیم دی ہے؟ نہ جانے کتنے رسم و رواج ہمارے سماج میں ایسے ہیں جو ہمارے کمزورعقائد کا نتیجہ ہیں- اس کے لئے ہَم کیا کر رہے ہیں؟

2- کیا ہَم اپنی زندگی میں حرام و حلال کا لحاظ رکھتے ہیں؟ کیا ہَم اور ہماری قوم كے بچّے حرام و حلال اور احكام دین سے واقف ہیں؟ جب معاشرے میں حرام کو رائج کیا جا رہا ہو تو کیا ہَم اسکے خلاف کوئی قدم اٹھاتے ہیں؟

3- کیا ہمارا اخلاق وہ ہے جیسا معصومین نے سکھایا ہے؟ کیا غیرمسلیمین كے ساتھ، جس اخلاق کا مظاہرہ معصومین نے کیا تھا، ہَم کرتے ہیں؟

4- کیا ہمارا معاشرہ تعلیم میں اس مقام پر ہے جہاں معصومین نے پہنچانا چاہا ہے؟ کیا اس کے لئے ہَم کچھ کر رہے ہیں؟

5- کیا ہماری اقتصادی حالت (economy) اس لیول پر ہے جس لیول پر معصومین ہمیں لانا چاہتے ہیں؟ کیا ہَم نوجوانوں كے روزگار كے لئے صرف سرکارکوذمہ دارٹھہراتے رہینگے یا خود بھی کچھ کرینگے؟

6- کیا ہم کو politicallyاتنا مضبوط نہیں ہونا چاہئے کہ قوم کو منظم و متحد رکھیں اور ظالم حکمرانوں كے مکرو فریب اور سازشوں میں پھنسنے سے بچاتے رہیں؟ قوم کی ترقّی میں آنے والی مشکلات اور رکاوٹوں کو دور کرتے رہیں؟

اگر ہَم واقعی مقصد امام حسین (علیہ السلام) کو سمجھیں اور ہر میدان میں امّت کی اصلاح كے لئے اٹھ کھڑے ہوں تو ہماری قوم دُنیا میں ایک آئیڈیل (ideal) قوم اور ہمارا معاشرہ ایک مثالی معاشرہ بن کر سامنے آئے گا- اِس سے نہ صرف ہماری قوم کا فائدہ ہو گا بلکہ ہَم دوسری دبی کچلی قوموں كے لئے سہارا بن کر انہیں بھی پستی سے بلندی کی طرف لا سکیں گےـ
اللہ ہمیں اس قابل بنا دے کہ ہم امام حسین (علیہ السلام) کے مِشن کا حصّہ بن سکیں اور ان کی آوازِ استغاثہ پر لبیک کہتے ہوئے کھڑے ہو سکیں-

تحریر: جناب ضیاء زیدی

 

واضح ہو کہ محرم کا مہینہ اہلبیت علیہم السلام اور ان کے پیروکاروں کے لئے رنج و غم کا مہینہ ہے ۔امام علی رضا ـسے روایت ہے کہ جب ماہ محرم آتا تھا تو کوئی شخص والد بزرگوار امام موسٰی کاظم علیہ السلام کو ہنستے ہوئے نہ پاتا تھا ،آپ پر حزن و ملال طاری رہا کرتا اور جب دسویں محرم کا دن آتا تو آہ وزاری کرتے اور فرماتے کہ آج وہ دن ہے جس میں امام حسین علیہ السلام کو شہید کیا گیا تھا ۔
پہلی محرم کی رات
سید نے کتاب اقبال میں اس رات کی چند نمازیں ذکر فرمائی ہیں :
(١)سورکعت نماز جس کی ہر رکعت میں سورئہ الحمد اور سورئہ توحید پڑھے :
(٢)دورکعت نماز جس کی پہلی رکعت میں سورئہ الحمد کے بعد سورئہ انعام اور دوسری رکعت میں سورئہ الحمد کے بعد سورئہ یاسین پڑھے :
(٣)دو رکعت نماز جس کی ہر رکعت میں سورئہ الحمد کے بعد گیارہ مرتبہ سورئہ توحید پڑھے :
روایت ہوئی ہے کہ رسول خدا ۖنے فرمایا کہ جو شخص اس رات دو رکعت نماز ادا کرے اور اس کی صبح جو کہ سال کا پہلا دن ہے روزہ رکھے تو وہ اس شخص کی مانند ہو گا جو سال بھر تک اعمال خیر بجا لاتا رہا ،وہ شخص اس سال محفوظ رہے گا اور اگر اسے موت آجائے تو وہ بہشت میں داخل ہو جائے گا ،نیز سید نے محرم کا چاند دیکھنے کے وقت کی ایک طویل دعا بھی نقل فرمائی ہے۔
پہلی محرم کا دن
اسلامی سال کا پہلا دن ہے اس کے لئے دو عمل بیان ہوئے ہیں ۔
(١)روزہ رکھے،اس ضمن میں ریان بن شبیب نے امام علی رضا ـسے روایت کی ہے ۔ کہ جو شخص پہلی محرم کاروزہ رکھے اور خدا سے کچھ طلب کرے تو وہ اس کی دعا قبول فرمائے گا ،جیسے حضرت زکریا ـکی دعا قبول فر مائی تھی ۔
(٢)امام علی رضا ـسے روایت ہوئی ہے کہ حضرت رسول ۖپہلی محرم کے دن دو رکعت نماز ادا فرماتے اور نماز کے بعد اپنے ہاتھ سوئے آسمان بلند کر کے تین مرتبہ یہ دعا پڑھتے تھے :
اَللّٰھُمَّ َنْتَ الْاِلہُ الْقَدِیمُ، وَھذِہِ سَنَة جَدِیدَة، فَسَْلُکَ فِیھَا الْعِصْمَةَ مِنَ الشَّیْطانِ
اے اللہ! تو معبود قدیمی ہے اور یہ نیا سال ہے جو اب آیا ہے پس اس سال کے دوران میں شیطان سے بچاؤ کا سوال کرتاہوں اس
وَالْقُوَّةَ عَلَی ھذِہِ النَّفْسِ الْاََمَّارَةِ بِالسُّوئِ وَالاشْتِغالَ بِما یُقَرِّبُنِی ِلَیْکَ یَا کَرِیمُ،
نفس پر غلبے کا سوال کرتا ہوں جو برائی پر آمادہ کرتا ہے اور یہ کہ مجھے ان کاموں میں لگا جو مجھے تیرے نزدیک کریں اے مہربان
یَا ذَا الْجَلالِ وَالْاِکْرامِ یَا عِمادَ مَنْ لا عِمادَ لَہُ یَا ذَخِیرَةَ مَنْ لا ذَخِیرَةَ لَہُ یَا حِرْزَ
اے جلالت اور بزرگی کے مالک اے بے سہاروں کے سہارے اے تہی دست لوگوں کے خزانے اے بے کسوں کے نگہبان
مَنْ لاَ حِرْزَ لَہُ یَا غِیاثَ مَنْ لاَ غِیاثَ لَہُ یَا سَنَدَ مَنْ لاَ سَنَدَ لَہُ یَا کَنْزَ مَنْ لاَ کَنْزَ لَہُ
اے بے بسوں کے فریاد رس اے بے حیثیتوں کی حیثیت اے بے خزانہ لوگوں کے خزانے اے بہتر آزمائش کرنے والے
یَا حَسَنَ الْبَلائِ یَا عَظِیمَ الرَّجائِ یَا عِزَّ الضُّعَفائِ یَا مُنْقِذَ الْغَرْقیٰ یَا مُنْجِیَ الْھَلْکَیٰ
اے سب سے بڑی امید اے کمزوروں کی عزت اے ڈوبتوں کو تیرانے والے اے مرتوں کو بچانے والے اے نعمت والے
یَا مُنْعِمُ یَا مُجْمِلُ یَا مُفْضِلُ یَا مُحْسِنُ َنْتَ الَّذِی سَجَدَ لَکَ سَوادُ اللَّیْلِ وَنُورُ النَّھارِ
اے جمال والے اے فضل والے اے احسان والے تو وہ ہے جس کو سجدہ کرتے ہیں رات کے اندھیرے دن کے اجالے چاند کی
وَضَوْئُ الْقَمَرِ، وَشُعاعُ الشَّمْسِ، وَدَوِیُّ الْمائِ، وَحَفِیفُ الشَّجَرِ یَا اﷲُ لاَ شَرِیکَ
چاندنیاں سورج کی کرنیں پانی کی روانیاں اور درختوں کی سرسراہٹیں اے اللہ تیرا کوئی شریک نہیں اے اللہ ہمیں لوگوں نیک گماں
لَکَ اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنا خَیْراً مِمَّا یَظُنُّونَ وَاغْفِرْ لَنا مَا لاَ یَعْلَمُونَ وَلاَ تُؤاخِذْنا بِما یَقُولُونَ
سے بھی زیادہ نیک بنا دے لوگ ہم کو اچھا سمجھتے ہیں ہمارے وہ گناہ بخش جن کو وہ نہیں جانتے اور جو کچھ وہ ہمارے بارے میں کہتے ہیں
حَسْبِیَ اﷲُ لاَ ِلہَ ِلاَّ ھُوَ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ، وَھُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیمِ
اس پرہماری گرفت نہ کر اللہ کافی ہے اسکے سوا کوئی معبود نہیں میں اسی پر بھروسہ کرتا ہوں اور وہ عرش عظیم کا پروردگار ہے ہمارا ایمان
آمَنَّا بِہِ کُلّ مِنْ عِنْدِ رَبِّنا وَمَا یَذَّکَّرُ ِلاَّ ُولُوا الْاََلْبابِ، رَبَّنا لا تُزِغْ
ہے کہ سب کچھ ہمارے رب کیطرف سے ہے اور صاحبان عقل کے سوا کوئی نصیحت حاصل نہیں کرتا اے ہمارے رب ہمارے دلوں
قُلُوبَنا بَعْدَ ِذْ ھَدَیْتَنا وَھَبْ لَنا مِنْ لَدُنْکَ رَحْمَةً ِنَّکَ َنْتَ الْوَھَّابُ ۔
کو ٹیڑھا نہ ہونے دے جبکہ ہمیں تو نے ہدایت دی ہے اور ہمیں اپنی طرف سے رحمت عطا کر بے شک تو بہت عطا کرنے والا ہے ۔
شیخ طوسی نے فرمایا کہ محرم کے پہلے نو دنوں کے روزے رکھنا مستحب ہے مگر یوم عاشورہ کو عصر تک کچھ نہ کھائے پیئے، عصر کے بعد، تھوڑی سی خاک شفا سے فاقہ شکنی کرے، سید نے پورے ماہ محرم کے روزے رکھنے کی فضیلت لکھی اور فرمایا ہے کہ اس مہینے کے روزے انسان کو ہر گناہ سے محفوظ رکھتے ہیں۔(١)
تیسری محرم کا دن
یہ وہ دن ہے جس دن حضرت یوسف ـقید خانے سے آزاد ہوئے تھے ،جو شخص اس دن کا روزہ رکھے حق تعالیٰ اس کی مشکلات آسان فرماتا ہے اور اس کے غم دور کر دیتا ہے نیز حضرت رسول ۖسے روایت ہوئی ہے کہ اس دن کا روزہ رکھنے والے کی دعا قبول کی جاتی ہے ۔
نویں محرم کا دن
یہ روز تاسوعا حسینی ہے ،امام جعفر صادق ـسے روایت ہے کہ نو(٩) محرم کے دن فوج یزید نے امام حسین ـاور ان کے انصار کا گھیراؤ کر کے لوگوں کو ان کے قتل پر آمادہ کیا ابن مرجانہ اور عمر بن سعد اپنے لشکر کی کثرت پر خوش تھے اور امام حسینـ کو ان کی فوج کی قلت کے باعث کمزور و ضعیف سمجھ رہے تھے ۔انہیں یقین ہو گیا تھا کہ اب امام حسین ـکا کوئی یار و مددگار نہیں آسکتا اور

(١) سوائے یوم عاشور کے کیونکہ اس دن کا روزہ مکروہ ہے اور بعض کے نزدیک حرام ہے۔
عراق والے ان کی کچھ بھی مدد نہیں کرسکتے امام جعفر صادق ـنے یہ بھی فرمایا کہ اس غریب و ضعیف یعنی امام حسین ـ پر میرے والد بزرگوار فدا وقربان ہوں ۔

دسویں محرم کی رات
یہ شب عاشور ہے ،سید نے اس رات کی بہت سی بافضیلت نمازیں اور دعائیں نقل فرمائی ہیں ۔ان میں سے ایک سو رکعت نماز ہے ،جو اس رات پڑھی جاتی ہے اس کی ہر رکعت میں سورئہ الحمد کے بعد تین مرتبہ سورئہ توحید پڑھے اور نماز سے فارغ ہونے کے بعد ستر مرتبہ کہے :
سُبْحانَ اﷲِ، وَالحَمْدُ ﷲِ، وَلاَ ِلہَ ِلاَّ اﷲُ، وَاﷲُ َکْبَرُ، وَلاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ ِلاَّ باﷲِ
پاک تر ہے اللہ حمد اللہ ہی کے لئے ہے اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اللہ بزرگتر ہے اور نہیں ہے کوئی طاقت وقوت مگر وہی جو
العَلِیِّ العَظِیمِ ۔
خدائے بلند و برتر سے ملتی ہے ۔
بعض روایات میں ہے کہ العَلِیِّ العَظِیمِکے بعد استغفار بھی پڑھے :اس رات کے آخری حصے میں چار رکعت نماز پڑھے کہ ہر رکعت میں سورئہ الحمد کے بعد دس مرتبہ آیةالکرسی۔دس مرتبہ سورئہ توحید دس مرتبہ سورئہ فلق اور دس مرتبہ سورئہ ناس کی قرائت کرے اور بعد از سلام سومرتبہ سورئہ توحید پڑھے :
آج کی رات چار رکعت نماز ادا کرے جس کی ہر رکعت میں سورئہ الحمد کے بعد پچاس مرتبہ سورئہ توحید پڑھے ،یہ وہی نماز امیرالمؤمنین ہے کہ جس کی بہت زیادہ فضیلت بیان ہوئی ہے۔ اس نماز کے بعد زیادہ سے زیادہ ذکر الہی کرے حضرت رسول ۖپر صلوات بھیجے اور آپۖ کے دشمنوں پر بہت لعنت کرے ۔
اس رات بیداری کی فضیلت میں روایت وارد ہوئی ہے کہ اس رات کو جاگنے والا اس کے مثل ہے جس نے تمام ملائکہ جتنی عبادت کی ہو، اس رات میں کی گئی عبادت ستر سال کی عبادت کے برابر ہے، اگر کسی شخص کیلئے یہ ممکن ہو تو آج رات کو اسے سر زمین کربلا میں رہنا چاہیے، جہاں وہ حضرت امام حسین ـکے روضہ اقدس کی زیارت کرے اور حضرت امام حسین ـ کے قرب میں شب بیداری کرے تاکہ خدا اس کو امام حسینـ کے ساتھیوں میں شمار کرے جو اپنے خون میں لتھڑے ہوئے تھے۔
دسویں محرم کادن
یہ یوم عاشور ہے جو امام حسینـ کی شہادت کا دن ہے یہ ائمہ طاہرین٪ اور ان کے پیروکاروں کیلئے مصیبت کا دن ہے اور حزن و ملال میں رہنے کادن ہے ،بہتر یہی ہے کہ امام علی ـ کے چاہنے اور ان کی اتباع کرنے والے مومن مسلمان آج کے دن دنیاوی کاموں میں مصروف نہ ہوں اور گھر کے لئے کچھ نہ کمائیں بلکہ نوحہ و ماتم اور نالہ بکاء کرتے رہیں ،امام حسین ـ کیلئے مجالس برپا کریں اور اس طرح ماتم و سینہ زنی کریں جس طرح اپنے کسی عزیز کی موت پر ماتم کیا کرتے ہوں آج کے دن امام حسینـ کی زیارت عاشور پڑھیں جو تیسرے باب میں ذکر ہوگی ،حضرت کے قاتلوں پر بہت زیادہ لعنت کریں اور ایک دوسرے کو امام حسینـ کی مصیبت پر ان الفاظ میں پرسہ دیں۔
َعْظَمَ اﷲُ ُجُورَنا بِمُصأبِنا بِالْحُسَیْنِں وَجَعَلَنا وَِیَّاکُمْ مِنَ الطَّالِبِینَ
اللہ زیادہ کرے ہمارے اجر و ثواب کو اس پر جو کچھ ہم امام حسینـ کی سوگواری میں کرتے ہیں اور ہمیں تمہیںامام حسینـ کے خون کا
بِثارِہِ مَعَ وَلِیِّہِ الْاِمامِ الْمَھْدِیِّ مِنْ آلِ مُحَمَّدٍ عَلَیْھِمُ اَلسَّلَامُ
بدلہ لینے والوں میں قرار دے اپنے ولی امام مہدی کے ہم رکاب ہو کر کہ جو آل محمد ٪ میں سے ہیں ۔
ضروری ہے کہ آج کے دن امام حسینـ کی مجلس اور واقعات شہادت کو پڑھیں خود روئیں اور دوسروں کو رلائیں ،روایت میں ہے کہ جب حضرت موسیٰ ـکو حضرت خضر ـسے ملاقات کرنے اور ان سے تعلیم لینے کا حکم ہوا تو سب سے پہلی بات جس پر ان کے درمیان مذاکرہ مکالمہ ہوا وہ یہ ہے کہ حضرت خضر ـنے حضرت موسیٰ ـکے سامنے ان مصائب کا ذکر کیا جو آل محمد ٪ پہ آنا تھے ،اور ان دونوں بزرگواروں نے ان مصائب پر بہت گریہ و بکا کیا ۔
ابن عباس سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا:میں مقام ذیقار میں امیرالمؤمنینـ کے حضور گیاتو آپ نے ایک کتابچہ نکالا جو آپ کا اپنا لکھا ہوا اور رسول اللہ ۖکا لکھوایا ہوا تھا، آپ نے اس کا کچھ حصہ میرے سامنے پڑھا اس میں امام حسینـ کی شہادت کا ذکر تھا اور اسی طرح یہ بھی تھا کہ شہادت کس طرح ہو گی اور کون آپ کو شہید کرے گا ،کون کون آپ کی مدد و نصرت کرے گا اور کون کون آپ کے ہمرکاب رہ کر شہید ہوگا یہ ذکر پڑھ کر امیرالمؤمنینـ نے خود بھی گریہ کیا اور مجھ کو بھی خوب رلایا ۔مؤلف کہتے ہیں اگر اس کتاب میں گنجائش ہوتی تو میں یہاں امام حسینـ کے کچھ مصائب ذکر کرتا ،لیکن موضوع کے لحاظ سے اس میں ان واقعات کا ذکر نہیں کیا جاسکتا ،لہذا قارئین میری کتب مقاتل کی طرف رجوع کریں ۔خلاصہ یہ کہ اگر کوئی شخص آج کے دن امام حسینـ کے روضہ اقدس کے نزدیک رہ کر لوگوں کو پانی پلاتا رہے تو وہ اس شخص کی مانند ہے، جس نے حضرت کے لشکر کو پانی پلایا ہو اور آپ کے ہمرکاب کربلا میں موجود رہا ہو آج کے دن ہزار مرتبہ سورئہ توحید پڑھنے کی بڑی فضیلت ہے، روایت میں ہے کہ خدائے تعالیٰ ایسے شخص پر نظر رحمت فرماتا ہے ،سید نے آج کے دن ایک دعا پڑھنے کی تاکید فرمائی ہے ۔جو دعائے عشرات کی مثل ہے ،بلکہ بعض روایات کے مطابق وہ دعا ئے عشرات ہی ہے ۔
شیخ نے عبداللہ بن سنان سے انہوں نے امام جعفر صادق ـ سے روایت کی ہے کہ یوم عاشور کو چاشت کے وقت چار رکعت نماز و دعا پڑھنی چاہیے کہ جسے ہم نے اختصار کے پیش نظر ترک کر دیا ہے پس جو شخص اسے پڑھنا چاہتا ہو وہ علامہ مجلسی کی کتاب زادالمعاد میں ملاحظہ کرے۔ یہ بھی ضروری اور مناسب ہے کہ شیعہ مسلمان آج کے دن فاقہ کریں، یعنی کچھ کھائیں پئیں نہیں، مگر روزے کا قصد بھی نہ کریں عصر کے بعد ایسی چیز سے افطار کریں جو مصیبت زدہ انسان کھاتے ہیں مثلا دودھ یا دھی و غیرہ نیز آج کے دن قمیضوں کے گریبان کھلے رکھیں اور آستینیں چڑھا کر ان لوگوں کی طرح رہیں جو مصیبت میں مبتلا ہو تے ہیں یعنی مصیبت زدہ لوگوں جیسی شکل و صورت بنائے رہیں ۔
علامہ مجلسی نے زادالمعاد میں فرمایا ہے کہ بہتر ہے کہ نویں اور دسویں محرم کا روزہ نہ رکھے کیونکہ بنی امیہ اور ان کے پیروکار ان دو دنوں کو امام حسینـ کو قتل کرنے کے باعث بڑے بابرکت وحشمت تصور کرتے ہیں اور ان دنوں میں روزہ رکھتے تھے ،انہوں نے بہت سی وضعی حدیثیں حضرت رسول ۖکی طرف منسوب کر کے یہ ظاہر کیا کہ ان دو دنوں کا روزہ رکھنے کا بڑا اجر و ثواب ہے حالانکہ اہلبیت٪ سے مروی کثیر حدیثوں میں ان دودنوں اور خاص کر یوم عاشور کا روزہ رکھنے کی مذمت آئی ہے ،بنی امیہ اور ان کی پیروی کرنے والے برکت کے خیال سے عاشورا کے دن سال بھر کا خرچہ جمع کر کے رکھ لیتے تھے اسی بنا پر امام رضاـ سے منقول ہے کہ جو شخص یوم عاشور اپنا دنیاوی کاروبار چھوڑے رہے تو حق تعالیٰ اس کے دنیا و آخرت سب کاموں کو انجام تک پہنچا دے گا ،جو شخص یوم عاشور کو گریہ و زاری اور رنج و غم میں گزارے تو خدائے تعالیٰ قیامت کے دن کو اس کیلئے خوشی و مسرت کا دن قرار دے گا اور اس شخص کی آنکھیں جنت میں اہلبیت٪ کے دیدار سے روشن ہوں گی ،مگر جو لوگ یوم عاشورا کو برکت والا دن تصور کریں اور اس دن اپنے گھر میں سال بھر کا خرچ لا کر رکھیں تو حق تعالیٰ ان کی فراہم کی ہوئی جنس و مال کو ان کے لئے بابرکت نہ کرے گا اور ایسے لوگ قیامت کے دن یزید بن معاویہ ،عبیداللہ بن زیاد اور عمرابن سعد جیسے ملعون جہنمیوں کے ساتھ محشور ہوں گے اس لئے یوم عاشور میں کسی انسان کو دنیا کے کاروبار میں نہیں پڑنا چاہیے اور اس کی بجائے گریہ و زاری ،نوحہ و ماتم اور رنج و غم میں مشغول رہنا چاہیے نیز اپنے اہل و عیال کو بھی آمادہ کرے کہ وہ سینہ زنی و ماتم میں اس طرح مشغول ہوں جیسے اپنے کسی رشتہ دار کی موت پر ہوا کرتے ہیں ۔آج کے دن روزے کی نیت کے بغیر کھانا پینا ترک کیئے رہیں اور عصر کے بعد تھوڑے سے پانی و غیرہ سے فاقہ شکنی کریں اور دن بھر فاقے سے نہ رہیں مگر یہ کہ اس پر کوئی روزہ واجب ہو جیسے نذر وغیرہ آج کے دن گھر میں سال بھر کیلئے غلہ و جنس جمع نہ کرے ،آج کے دن ہنسنے سے پرہیز کریں، اور کھیل کود میں ہرگز مشغول نہ ہوں اور امام حسینـ کے قاتلوں پر ان الفاظ میں ہزار مرتبہ لعنت کریں:
اَللّٰھُمَّ الْعَنْ قَتَلَةَ الْحُسَیْنِ ں
اے اللہ:امام حسین ـکے قاتلوں پر لعنت کر
مؤلف کہتے ہیں اس حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ یوم عاشور کا روزہ رکھنے کے بارے میں جو حدیثیں آئیں وہ سب جعلی اور بناوٹی ہیں اور ان کو جھوٹوں نے حضرت رسول ۖکی طرف منسوب کیا ہے :
اَللَّھُمَّ انَّ ھَذَا یُوْمَ تَبَرَکْتَ بِہ بَنُوْ اُمَیَّةِ ۔
اے اللہ ! یہ وہ دن ہے جس کو بنی امیہ نے بابرکت قرار دیا ہے ۔
صاحب شفا ء الصدور نے زیارت کے مندرجہ بالا جملے کے ذیل میں ایک طویل حدیث سے اس کی تشریح فرمائی ہے ۔جس کا خلاصہ یہ ہے کہ بنی امیہ آج کے منحوس دن کو چند وجوہات کی بنا پر بابرکت تصور کرتے تھے ۔
(١) بنی امیہ نے آج کے دن آیندہ سال کے لئے غلہ و جنس جمع کر رکھنے کو مستحب جانا اور اس کو وسعت رزق اور خوشحالی کا سبب قراردیا ،چنانچہ اہلبیت٪ کی طرف سے ان کے اس زعم باطل کی باربار تردید اور مذمت کی گئی ہے ۔
(٢)بنی امیہ نے آج کے دن کو روز عید قرار دیا اور اس میں عید کے رسوم جاری کیے ۔جیسے اہل و عیال کے لئے عمدہ لباس و خوراک فراہم کرنا ،ایک دوسرے سے گلے ملنا اور حجامت بنوانا وغیرہ لہذا یہ امور ان کے پیروکاروں میں عام طور پر رائج ہو گئے ۔
(٣)انہوں نے آج کے دن کا روزہ رکھنے کی فضیلت میں بہت سی حدیثیں وضع کیں اور اس دن روزہ رکھنے پر عمل پیرا ہوئے ۔
(٤)انہوں نے عاشور کے دن دعا کرنے اور اپنی حاجات طلب کرنے کو مستحب قرار دیا اس لئے اس سے متعلق بہت سے فضائل اور مناقب گھڑ لیے ،نیز آج کے دن پڑھنے کے لئے بہت سی دعائیں بنائیں اور انہیں عام کیا تاکہ لوگوں کو حقیقت واقعہ کی سمجھ نہ آئے چنانچہ وہ آج کے دن اپنے شہروں میں منبروں پر جو خطبے دیتے ،ان میں یہ بیان ہوا کرتا تھا کہ آج کے دن ہر نبی کے لئے شرف اور وسیلے میں اضافہ ہوا مثلا نمرود کی آگ بجھ گئی حضرت نوح کی کشتی کنارے لگی ،فرعون کا لشکر غرق ہوا حضرت عیسیٰ کو یہودیوں کے چنگل سے نجات حاصل ہوئی یعنی یہ سب امور آج کے دن وقوع میں آئے ۔تاہم ان کا یہ کہنا سفید جھوٹ کے سوا کچھ نہیں ہے ۔

اس بارے میں شیخ صدوق نے جبلہ مکیہ سے نقل کیا ہے کہ میں نے میثم تمار سے سنا وہ کہتے تھے: خدا کی قسم ! یہ امت اپنے نبیۖ کے فرزند کو دسویں محرم کے دن شہید کرے گی اور خدا کے دشمن اس دن کو بابرکت دن تصور کریں گے یہ سب کام ہو کر رہیں گے اور یہ باتیں اللہ کے علم میں آچکیں ہیں یہ بات مجھے اس عہد کے ذریعے سے معلوم ہے ،جو مجھ کو امیرالمؤمنینـ کی طرف سے ملا ہے جبلہ کہتے ہیں کہ میں نے میثم سے عرض کی کہ وہ لوگ امام حسینـ کے روز شہادت کو کس طرح بابرکت قراردیں گے ؟تب میثم رو پڑے اور کہا لوگ ایک ایسی حدیث وضع کریں گے جس میں کہیں گے کہ آج کا دن ہی وہ دن ہے کہ جب حق تعالیٰ نے حضرت آدم ـکی توبہ قبول فرمائی۔
حالانکہ خدائے تعالیٰ نے ان کی توبہ ذی الحجہ میں قبول کی تھی وہ کہیں گے آج کے دن ہی خدانے حضرت یونسـ کو مچھلی کے پیٹ سے باہر نکالا حالانکہ خدانے ان کو ذی القعدہ میں شکم ماہی سے نکالا تھا وہ تصور کریں گے کہ آج کے دن حضرت نوح ـ کی کشتی جودی پر رکی ،جبکہ کشتی ١٨ ذی الحجہ کو رکی تھی وہ کہیں گے کہ آج کے دن ہی حق تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ـکیلئے دریا کو چیرا ،حالانکہ یہ واقعہ ربیع الاول میں ہوا تھا خلاصہ یہ کہ میثم تمار کی اس روایت میں مذکورہ تصریحات وہ ہیں جو اصل میں نبوت و امامت کی علامات ہیں اور شیعہ مسلمانوں کے برسر حق ہونے کی روشن دلیل ہیں ۔ کیونکہ اس میں ان باتوں کا ذکر ہے جو ہو چکی ہیں اور ہو رہی ہیں پس یہ تعجب کی بات ہے کہ اس واضح خبر کے باوجود ان لوگوں نے اپنے وہم وگمان کی بنا پر قراردی ہوئی جھوٹی باتوں کے مطابق دعائیں بنا لی ہیں جو بعض بے خبر اشخاص کی کتابوں میں درج ہیں کہ جن کو ان کی اصلیت کا کچھ بھی علم نہ تھا ۔

ان کتابوں کے ذریعے سے یہ دعائیں عوام کے ہاتھوں میں پہنچ گئی ہیں، لیکن ان دعاؤں کا پڑھنا بدعت ہونے کے علاوہ حرام بھی ہے ان بدعت و حرام دعاؤں میں سے ایک یہ ہے۔
بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمنِ الرَّحِیمِ، سُبْحانَ اﷲِ مِلئَ الْمِیزانِ، وَمُنْتَھَی الْعِلْمِ، وَمَبْلَغَ
خدا کے نام سے جو رحمن و رحیم ہے پاک ہے اللہ ترازو کے پورا ہونے علم کی آخری حدوں اور خوشنودی
الرِّضا، وَزِنَةَ الْعَرْشِ۔
کی رسائی اور وزن عرش کے برابر ۔
دو تین سطروں کے بعد یہ ہے کہ دس مرتبہ صلوات پڑھے پھر یہ کہے :
یَا قَابِلَ تَوْبَةِ آدَمَ یَوْمَ عاشُورائَ یَارافِعَ ِدْرِیسَ ِلَی السَّمائِ یَوْمَ عاشُورائَ یَا مُسَکِّنَ
اے روز عاشور آدم کی توبہ قبول کرنے والے اے عاشور کے دن ادریس کو آسمان پر لے جانے والے اے
سَفِینَةِ نُوحٍ عَلَی الْجُودِیِّ یَوْمَ عاشُورائَ، یَا غِیاثَ ِبْراھِیمَ مِنَ النَّارِ یَوْمَ عاشُورائَ ۔
اے روز عاشور نوح کی کشتی کو جودی پہاڑ پر ٹکانے والے اے یوم عاشور ابراہیم کو آگ سے نجات دینے والے …
اس میں شک نہیں کہ یہ دعا مدینے کے کسی ناصبی یا مسقط کے کسی خارجی نے یا ان کے کسی ہم عقیدہ نے گھڑی ہے ،اس طرح اس نے وہ ظلم کیا ہے جو بنی امیہ کے ظلم کو انتہاء تک پہنچا دیتا ہے یہ بیان کتاب شفاء الصدور کے مندرجات کا خلاصہ ہے جو یہاں ختم ہو گیا ہے ۔بہرحال یوم عاشور کے آخری وقت میں امام حسینـ کے اہل حرم انکی دختران اور اطفال کے حالات و واقعات کو نظر میں لانا چاہیے کہ اس وقت میدان کربلا میں ان پر کیا بیت رہی ہے ۔جب کہ وہ دشمنوں کے ہاتھوں قید میں ہیں اور اپنی مصیبتوں میں آہ و زاری کررہے ہیں، سچ تو یہ ہے کہ اہلبیت٪ پر وہ دکھ اور مصیبتیں آئی ہیں جو کسی انسان کے تصور میں نہیں آسکتیں اور قلم دان کو لکھنے کا یارا نہیں ،کسی شاعر نے اس سانحہ کو کیا خوب بیان کیا ہے :
فاجِعة ِنْ َرَدْتُ َکْتُبُھا
مُجْمَلَةً ذِکْرَةً لِمُدَّکِرِ
یہ ایسی مصیبت ہے اگر اسے لکھوں
کسی یاد کرنے والے کیلئے مجمل سی یاد دھانی
جَرَتْ دُمُوعَی فَحالَ حائِلُھا
مَا بَیْنَ لَحْظِ الْجُفُونِ وَالزُّبُرِ
تو میرے آنسو نکل پڑتے ہیں اور
میری آنکھوں اور اوراق کے درمیان حائل ہو جاتے ہیں
وَقال قَلْبی بُقْیا عَلَیَّ فَلاَ
وَاﷲِ مَا قَدْ طُبِعْتُ مِنْ حَجَرِ
میرا دل کہتا ہے رحم کر مجھ پر نہیں میں
بخدا کو ئی پتھر کہ میری تو جان نکلے جارہی
بَکَتْ لَھَا الْاََرْضُ وَالسَّمائُ
وَمَا بَیْنَھُما فی مَدامِعٍ حُمُرِ
اس پر روئے ہیں زمین و آسماں
اور جو کچھ ان کے درمیان ہے خون کے آنسو

یوم عاشور کے آخر وقت کھڑا ہو جائے اور رسول اللہ ۖ، امیرالمؤمنین، جناب فاطمہ، امام حسن اور باقی ائمہ٪ جو اولادامام حسینـ میں سے ہیں ،ان سب پر سلام بھیجے اور گریہ کی حالت میں ان کو پرسہ دے اور یہ زیارت پڑھے :
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وارِثَ آدَمَ صَفْوَةِ اﷲِ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وارِثَ نُوحٍ نَبِیِّ اﷲِ،
آپ پر سلام ہو اے آدم کے وارث جو برگزیدئہ خدا ہیں آپ پر سلام ہو اے نوح کے وارث جو اللہ کے نبی ہیں
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وارِثَ ِبْراھِیمَ خَلِیلِ اﷲِ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وارِثَ مُوسی کَلِیمِ اﷲِ
آپ پر سلام ہو اے ابراہیم کے وارث جو اللہ کے دوست ہیں آپ پر سلام ہو اے موسیٰ کے وارث جو خدا کے کلیم ہیں
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وارِثَ عَیسی رُوحِ اﷲِ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وارِثَ مُحَمَّدٍ حَبِیبِ اﷲِ
آپ پر سلام ہو اے عیسٰی کے وارث جو خدا کی روح ہیں آپ پر سلام ہو اے محمدۖ کے وارث جو خدا کے حبیب ہیں
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وارِثَ عَلِیٍّ َمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ وَ لِیِّ اﷲِ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وارِثَ
آپ پر سلام ہو اے علی کے وارث جو مؤمنوں کے امیر اور ولی خدا ہیں آپ پر سلام ہو اے حسن
الْحَسَنِ الشَّھِیدِ سِبْطِ رَسُولِ اﷲِ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَابْنَ رَسُولِ اﷲِ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ
کے وارث جو شہید ہیں اللہ کے رسولۖ کے نواسے ہیں آپ پر سلام ہو اے خدا کے رسول ۖکے فرزند آپ پر سلام ہو
یَابْنَ الْبَشِیرِ النَّذِیرِ وَابْنَ سَیِّدِ الْوَصِیِّینَ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَابْنَ فاطِمَةَ سَیِّدَةِ نِسائِ
اے بشیر و نذیر اور وصیوں کے سردار کے فرزند آپ پر سلام ہو اے فرزند فاطمہ جو جہانوں کی عورتوں کی
الْعالَمِینَ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا َبا عَبْدِ اﷲِ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا خِیَرَةَ اﷲِ وَابْنَ خِیَرَتِہِ،
سردار ہیں آپ پر سلام ہو اے ابو عبداللہ آپ پر سلام ہو اے خدا کے پسند کیے ہوئے اور پسندیدہ کے فرزند
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا ثارَ اﷲِ وَابْنَ ثارِہِ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ َ یُّھَا الْوِتْرُ الْمَوْتُورُ، اَلسَّلَامُ
آپ پر سلام ہو اے شہید راہ خدا اور شہید کے فرزند آپ پر سلام ہو اے وہ مقتول جس کے قاتل ہلاک ہوگئے آپ پر
عَلَیْکَ َیُّھَا الْاِمامُ الْھادِی الزَّکِیُّ وَعَلَی َرْواحٍ حَلَّتْ بِفِنائِکَ وََقامَتْ فَی جِوارِکَ
سلام ہو اے ہدایت و پاکیزگی والے امام اور سلام ان روحوں پر جوآپ کے آستاں پر سوگئیں اور آپ کی قربت میں رہ رہی ہیں
وَوَفَدَتْ مَعَ زُوَّارِکَ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ مِنِّی مَا بَقِیتُ وَبَقِیَ اللَّیْلُ وَالنَّھارُ،
اور سلام ہو ان پر جو آپکے زائروں کیساتھ آئیں میرا آپ پر سلام ہو جب تک میں زندہ ہوں اور جب تک رات دن کا سلسلہ قائم ہے
فَلَقَدْ عَظُمَتْ بِکَ الرَّزِیَّةُ وَجَلَّ الْمُصابُ فِی الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُسْلِمِینَ وَفِی َھْلِ السَّمٰوَاتِ
یقینا آپ پر بہت بڑی مصیبت گزری ہے اور اس سے بہت زیادہ سوگواری ہے مومنوں اور مسلمانوں میں آسمانوں میں رہنے والی
َجْمَعِینَ وَفِی سُکَّانِ الْاََرَضِینَ فَِنَّا لِلّٰہِ وَ ِنَّا ِلَیْہِ راجِعُونَ، وَصَلَواتُ اﷲِ
ساری مخلوق میں اور زمین میں رہنے والی خلقت میں پس اللہ ہم ہی کیلئے ہیں اور ہم اس کی طرف لوٹ کر جائیں گے خدا کی رحمتیں
وَبَرَکاتُہُ وَتَحِیَّاتُہُ عَلَیْکَ وَعَلَی آبائِکَ الطَّاھِرِینَ الطَّیِّبِینَ الْمُنْتَجَبِینَ وَعَلَی ذَرارِیھِمُ
ہوں اس کی برکتیں آپ پر سلام ہو اور آپ کے آباء واجداد پر جو پاک نہاد نیک سیرت اور برگزیدہ ہیں اور ان کی اولاد پر
الْھُداةِ الْمَھْدِیِّینَ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا مَوْلایَ وَعَلَیْھِمْ وَعَلَی رُوحِکَ وَعَلَی َرْواحِھِمْ،
کہ جو ہدایت یافتہ پیشوا ہیں آپ پر سلام ہو اے میرے آقا اور ان سب پرسلام ہو آپ کی روح پر اور ان کی روحوں پر
وَعَلَی تُرْبَتِکَ وَعَلَی تُرْبَتِھِمْ اَللّٰھُمَّ لَقِّھِمْ رَحْمَةً وَرِضْواناً وَرَوْحاً وَرَیْحاناً اَلسَّلَامُ
اور سلام ہو آپکے مزار پر اور ان کے مزاروں پر اے اللہ !ان سے مہربانی خوشنودی مسرت اور خوش روئی کے ساتھ پیش آئے آپ
عَلَیْکَ یَا مَوْلایَ یَا َبا عَبْدِ اﷲِ یَابْنَ خاتَمِ النَّبِیِّینَ، وَیَابْنَ سَیِّدِ الْوَصِیِّینَ، وَیَابْنَ
پر سلام ہو اے میرے سردار اے ابوعبداللہ اے نبیوں کے خاتم کے فرزند اے اوصیاء کے سردار کے فرزند اے جہانوں
سَیِّدَةِ نِسائِ الْعالَمِینَ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا شَھِیدُ، یَابْنَ الشَّھِیدِ، یَا َخَ الشَّھِیدِ، یَا َبَا
کی عورتوں کی سردار کے فرزند آپ پر سلام ہو اے شہید اے فرزند شہید اے برادر شہید اے پدر
الشُّھَدائِ ۔ اَللّٰھُمَّ بَلِّغْہُ عَنِّی فی ھذِہِ السَّاعَةِ وَفِی ھذَا الْیَوْمِ وَفِی ھذَا الْوَقْتِ وَفِی
شہیداں اے اللہ! پہنچا ان کو میری طرف سے اس گھڑی میں آج کے دن میں اور موجودہ وقت میں اور ہرہر
کُلِّ وَقْتٍ تَحِیَّةً کَثِیرَةً وَسَلاماً، سَلامُ اﷲِ عَلَیْکَ وَرَحْمَةُ اﷲِ وَبَرَکاتُہُ یَابْنَ سَیِّدِ
وقت میں بہت بہت درود اور سلام، آپ پر اللہ کا سلام ہواللہ کی رحمت اور اس کی برکات ہوں اے جہانوں
الْعالَمِینَ وَعَلَی الْمُسْتَشْھَدِینَ مَعَکَ سَلاماً مُتَّصِلاً مَا اتَّصَلَ اللَّیْلُ وَالنَّھارُ اَلسَّلَامُ
کے سردار کے فرزند اور ان پرجو آپ کے ساتھ شہید ہوئے سلام ہو لگاتار سلام جب تک رات دن باہم ملتے ہیں
عَلَی الْحُسَیْنِ بْنِ عَلِیٍّ الشَّھِیدِ، اَلسَّلَامُ عَلَی عَلِیِّ بْنِ الْحُسَیْنِ الشَّھِیدِ، اَلسَّلَامُ
حسین ابن علی شہید پر سلام ہو علی ابن حسین شہید پر سلام ہو
عَلَی الْعَبَّاسِ بْنِ َمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ الشَّھِیدِ اَلسَّلَامُ عَلَی الشُّھَدائِ مِنْ وُلْدِ َمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ
عباس ابن امیر المؤمنین شہید پر سلام ہوان شہیدوں پر سلام ہو جو امیرالمؤمنین کی اولاد میں سے ہیں
اَلسَّلَامُ عَلَی الشُّھَدائِ مِنْ وُلْدِ الْحَسَنِ، اَلسَّلَامُ عَلَی الشُّھَدائِ مِنْ وُلْدِ الْحُسَیْنِ،
ان شہیدوں پر سلام ہو جواولاد حسن سے ہیں ان شہیدوں پر سلام ہو جو اولاد حسین سے ہیں
اَلسَّلَامُ عَلَی الشُّھَدائِ مِنْ وُلْدِ جَعْفَرٍ وَعَقِیلٍ اَلسَّلَامُ عَلَی کُلِّ مُسْتَشْھَدٍ مَعَھُمْ مِنَ
ان شہیدوں پر سلام ہو جو جعفر اور عقیل کی اولاد سے ہیں مومنوں میں سے ان سب شہیدوں پر سلام ہو جو ان کے ساتھ
الْمُؤْمِنِینَ ۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَبَلِّغْھُمْ عَنَّی تَحِیَّةً کَثِیرَةً وَسَلاماً ۔
شہید ہوئے اے اللہ! محمدۖ و آل محمدۖ پر رحمت نازل کر اور پہنچا ان کو میری طرف سے بہت بہت درود اور سلام
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُولَ اﷲِ َحْسَنَ اﷲُ لَکَ الْعَزائَ فَی وَلَدِکَ الْحُسَیْنِ، اَلسَّلَامُ
آپ پر سلام ہو اے خدا کے رسولۖ خدائے تعالیٰ آپ کے فرزند حسین کے بارے میں آپ کے ساتھ بہترین تعزیت کرے آپ پر
عَلَیْکِ یَا فاطِمَةُ َحْسَنَ اﷲُ لَکِ الْعَزائَ فَی وَلَدِکِ الْحُسَیْنِ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا َمِیرَ
سلام ہو اے فاطمہ خدائے تعالیٰ آپ کے فرزند حسین کے بارے میں آپ کے ساتھ بہترین تعزیت کرے آپ پر سلام ہو اے
الْمُؤْمِنِینَ َحْسَنَ اﷲُ لَکَ الْعَزائَ فِی وَلَدِکَ الْحُسَیْنِ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا َبا مُحَمَّدٍ
امیرالمؤمنین خدائے تعالیٰ آپ کے فرزند حسین کے بارے میں آپ کے ساتھ بہترین تعزیت کرے آپ پر سلام ہو اے ابومحمد
الْحَسَنَ َحْسَنَ اﷲُ لَکَ الْعَزائَ فَی َخِیکَ الْحُسَیْنِ، یَا مَوْلایَ یَا َبا عَبْدِ اﷲِ
حسن خدائے تعالیٰ آپکے بھائی حسین کے بارے میں آپکے ساتھ بہترین تعزیت کرے اے میرے سردار اے ابوعبداللہ
َنَا ضَیْفُ اﷲِ وَضَیْفُکَ وَجارُ اﷲِ وَجارُکَ، وَ لِکُلِّ ضَیْفٍ وَجارٍ قِریً وَقِرایَ فِی
میں اللہ کا مہمان اور آپ کا مہمان ہوں اور خدا کی پناہ اور آپکی پناہ میں ہوں یہاں ہر مہمان اور پناہ گیر کی پذیرائی ہوتی ہے اور اس
ھذَا الْوَقْتِ َنْ تَسَْلَ اﷲَ سُبْحانَہُ وَتَعَالی َنْ یَرْزُقَنِی فَکَاکَ رَقَبَتِی مِنَ النَّارِ
وقت میری پذیرائی یہی ہے کہ آپ سوال کریں اللہ سے جو پاک تر اور عالی قدر ہے یہ کہ میری گردن کو عذاب جہنم سے آزاد کردے
ِنَّہُ سَمِیعُ الدُّعائِ قَرِیب مُجِیب ۔
بے شک وہ دعا کا سننے والا ہے نزدیک تر قبول کرنے والا ۔

پچیسویں محرم کا دن
بہت سے علما کے نزدیک ٢٥ محرم ٩٤ھ کے دن امام زین العابدینـ کی شہادت واقع ہوئی تھی، بعض علماء نے آپکی شہادت کا دن ١٢ محرم ٩٥ھ بیان کیا ہے، کہ جس سال کو سنةالفقہاء کا نام دیا گیا ہے ۔

عورت کا پردہ معاشرہ کا فطری تقاضا ہے اور بے پردگی ، بے حیائی اورآوارگی نسلوں کی تباہی و بربادی کا سبب ہے ، دین اسلام نے روز اول ہی سے بے پردگی اور عفت کے مخالف اعمال سے مخالفت کا اعلان کیا ہے، خداوند متعال نے سوره نور کی 31 ویں ایت شریفہ میں مومنین کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: اے پیغمبر اور مومنات سے کہہ دیجئے کہ وہ بھی اپنی نگاہوں کو نیچا رکھیں ، اپنی عفت کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کا اظہار نہ کریں ، علاوہ اس کے جو ازخود ظاہر ہے ،  اپنے دوپٹہ کو اپنے گریبان پر رکھیں ، اپنی زینت کو اپنے باپ ، دادا، شوہر، شوہر کے باپ دادا ، اپنی اولاد ، اپنے شوہر کی اولاد ، اپنے بھائی اور بھائیوں کی اولاد ، اپنی بہنوں کی اولاد ، اپنی عورتوں ، اپنے غلام ، کنیزوں اور ایسے تابع افراد جن میں عورت کی طرف سے کوئی خواہش نہیں رہ گئی ہے ، وہ بچےّ جو عورتوں کے پردہ کی بات سے کوئی سروکار نہیں رکھتے ہیں ان سب کے علاوہ کسی پر ظاہر نہ کریں اور خبردار اپنے پاؤں پٹک کر نہ چلیں تاکہ جو زینت چھپی ہوئی ہے اس کا اظہار ہوجائے اور صاحبانِ ایمان تم سب اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرتے رہو کہ شاید اسی طرح تمہیں فلاح اور نجات حاصل ہوجائے ۔

قران کی اس ایت اور اسلام کے اس حکم کے مطابق، عورت کا پورا بدن یوں ڈھکا اور چھپا رہے کہ جب وہ کسی نامحرم کے سامنے آئے تو اُس کا سراپا دیکھ کراُس کے قد وقامت کا اندازہ نہ لگا سکے ، جب عورت اپنے بدن کی نمائش کرتی ہے تو اجنبی مردوں کو نظر بازی کی دعوت دیتی ہے ، شریعت اور دینی معاشرہ ایسی عورت کو بے حیا کہتا ہے ، حیا کا تعلق ایمان سے ہے ، مرسل اعظم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی فرمایشات کے مطابق شرم و حیا ایمان کی ایک شاخ ہے ، گویا بے حیا عورت ایمان کی نعمت سے محروم ہوجاتی ہے ۔

ماضی میں مسلم حکومتوں نے خواتین سے مخصوص بازاروں کی بنیاد رکھی تھی جس میں فروخت کرنے والی بھی خواتین ہوا کرتی تھی ، ان کے پردے اور باوقار انداز رہاش سے متاثر ہوکر غیر مسلم خواتین نے بھی اپنے پردہ کا اھتمام کیا ، وہ نقاب تو نہیں پہنتی تھی مگر ان کے بدن پورے طورے سے کپڑے میں چھپے رہتے تھے ، سر پر آنچل اور سینے پر موجود پلو ، الھی ایات میں موجود پیغام کی نشانی ہے ۔

مگر عیسائی اور یہودی قوموں کی بَنی بَنائی سازش نے اسلامی معاشرہ کی دیوار میں لرزہ پیدا کردیا ، عورتوں کا مردوں سے میل جول ، کلبز اور ہوٹلوں میں نامحرموں اور غیر مردوں سے آزادنہ میل جول ، شراب خواری اور رنگ ریلیوں نے ، انسانی معاشرہ کی دھجیاں اڑا کر رکھدیں ، جس سے کم و بیش اسلامی معاشرہ بھی متاثر ہوا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ:

۱: وَ قُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ یَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِ‌هِنَّ وَ یَحْفَظْنَ فُرُ‌وجَهُنَّ وَ لَایُبْدِینَ زِینَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ‌ مِنْهَا وَ لْیَضْرِ‌بْنَ بِخُمُرِ‌هِنَّ عَلَى جُیُوبِهِنَّ وَ لَایُبْدِینَ زِینَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِی إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِی أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِینَ غَیْرِ‌ أُولِی الْإِرْ‌بَهِ مِنَ الرِّ‌جَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِینَ لَمْ یَظْهَرُ‌وا عَلَى عَوْرَ‌اتِ النِّسَاءِ وَ لَایَضْرِ‌بْنَ بِأَرْ‌جُلِهِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِینَ مِن زِینَتِهِنَّ وَ تُوبُوا إِلَى اللَّـهِ جَمِیعًا أَیُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ ۔ قران کریم ، سوره نور ، ایت 31 ۔

 
Thursday, 13 July 2023 07:10

مباہلہ ایک نگاہ میں

 

مرسل اعظم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے علاقہ کے دیگر حکمراں اور مذھبی راہنما کی طرح نجران کے پادری«ابوحارثہ» جو خط لکھا اور اس خط میں نجران کے رہنے والوں کو اسلام کی دعوت دی ۔

خط پاکر نجران کے ایک باشندہ نے کہا کہ میں نے متعدد بار اپنے گذشتہ دینی پیشواوں سے سنا ہے کہ ایک دن منصب نبوت نسل اسحاق سے نسل اسماعیل میں منتقل ہوجائے گا ، کچھ بعید نہیں محمد کہ جو اولاد اسماعیل سے ہیں ، وہی بشارت شدہ پیغمبر ہوں ۔ اس کی بات پر توجہ کئے بغیر ایک گروہ مدینہ روانہ کیا گیا تاکہ نبوت کی دلیلیں دریافت کرسکے ۔ اس سلسلہ میں نجران کے ۶۰ افاضل اور دانشورں کا انتخاب کیا گیا جس میں دین دینی علماء بھی تھے ۔

نجران کے نمائندے جب رسول خدا(ص) کے حضور پہنچے اور اپ کی رسالت کے سلسلہ میں پوچھا  تو پیغمبر خدا (ص) نے فرمایا : میں تمہیں دین توحید ، ایک خدا اور اس کے احکام کی اطاعت کی دعوت دیتا ہوں ۔

نجران کے نمائندوں نے عرض کیا کہ اگر اسلام سے مراد اپ کا ایک خدا پر ایمان لانا ہے تو ہم پہلے ہی اس پر ایمان لاچکے ہیں اور اس کے احکامات پر عمل کرتے ہیں ۔

رسول خدا (ص) نے ان کے جواب میں فرمایا: اسلام کی نشانیاں ہیں اور پھر تم لوگ یہ کیسے کہ رہے ہو کہ ایک خدا کی پرستش کرتے ہو جبکہ صلیب کی پوجا کرتے ہو ، سؤر کا گوشت کھانے سے پرھیز نہیں کرتے نیز حضرت عیسائی (ع) کو خدا کا بیٹا مانتے ہو ۔

نجران کے نمائندوں نے کہا: جی ہاں ! وہ خدا کے بیٹے ہیں چونکہ اپ کی مادر گرامی حضرت مریم (س) نے بغیر ہمبستری کے اپکو پیدا کیا لہذا اپ خدا کے بیٹے ہیں مگر رسول خدا (ص) نے اس چیز کو حضرت عیسی (ع) کی برتری کا سبب نہ جانا ۔

اسی لمحہ فرشتۂ وحی سورہ ال عمران کی ۵۹ ویں ایت شریفہ لیکر نازل ہوا : إِنَّ مَثَلَ عِيسَىٰ عِنْدَ اللَّهِ كَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَهُ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ (۱) ؛ اللہ کے نزدیک عیسٰی علیہ السّلام کی مثال آدم علیہ السّلام جیسی ہے کہ انہیں مٹی سے پیدا کیا اور پھر کہا وجود میں اجا تو وجود میں اگئے ۔ لہذا حضرت عیسی (ع) کی بغیر باپ کے ولادت ان کے خدا ہونے یا خدا کے بیٹے ہونے کی نشانی اور دلیل نہیں ہے ۔

نجران کے عیسائی وحی الھی اور انحضرت کا برجستہ جواب سن کر مبہوت ہوگئے لہذا انہوں نے جدل کرنا شروع کردیا اور رسول خدا(ص) کو مباہلہ کی پیشکش کی ، اس وقت خدا کا فرشتہ خدا کا پیغام لیکر نازل ہوا اور رسول خدا (ص) کو مباہلہ کا حکم دیا ۔ (۲)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ:

ا: قران کریم ، سورہ ال عمران ، ایت ۵۹ ۔

۲: مجلسی ، محمد باقر، بحار الانوار، ج ۲۱ ، ص ۲۸۵ ؛ و ویکی شیعہ ، داستان مباہلہ ۔

Tags: 
رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے بدھ کے روز دینی تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ اور مبلغین سے ملاقات میں، دین اور دینی مقاصد کی تبلیغ کو، دینی مدارس کی سب سے اہم ذمہ داری قرار دیا۔ 
     

رہبر انقلاب اسلامی نے تبلیغ کے عصری اور موثر وسائل یعنی " لوگوں کی شناخت، اقدامی انداز اختیار کرنے کے لئے عالمی  سطح پرہونے والے پروپگنڈوں سے واقفیت اور مجاہدانہ جذبے" کا ذکر کرتے ہوئے زور دیا کہ ملک کے مستقبل کے مالک اور معمار کی حیثیت سے نوجوانوں کو تخلیقی اور نئے طریقوں کی بنیاد پر کی جانے والی  تبلیغ و ہدایت کا اصل مرکز بنایا جانا چاہیے۔ 

 رہبر انقلاب اسلامی نے ماہ محرم سے قبل ہونے والی اس ملاقات میں کہا کہ جتنی سرگرمیاں ہو رہی ہيں ملک کو تحقیقات پر مبنی تبلیغ کی اس سے کہیں زيادہ ضرورت ہے۔ 

رہبر انقلاب اسلامی نے تبلیغ اور اس کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں قرآن مجید کی متعدد آیات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: عوام میں صحیح تبلیغ کے علاوہ کسی اور ذریعے سے خدا کے دین پر عمل نہیں ہو سکتا۔ 

آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے مغرب میں پروپیگنڈے کے وسائل میں توسیع اور پروپیگنڈوں کو عوام کے لئے قابل یقین بنانے کے طریقوں میں جدت کو عصر حاضر کے حقائق قرار دیا اور کہا کہ مغرب کے لوگ، نفسیات جیسے علوم سے فائدہ اٹھا کر سو فیصد غلط بات کو، ایک صحیح بات کی شکل میں لوگوں کے ذہنوں میں ڈال دیتے ہيں۔ 

انہوں نے خبردار کیا کہ اگر ہم تبلیغ کے سلسلے میں روز سامنے آنے والے نئے نئے طریقوں سے غافل رہے یا ان کے بارے میں ہم نے کوتاہی سے کام لیا تو ہم ثقافتی دگرگونی کا شکار ہو جائيں گے اور مغرب کی طرح دھیرے دھیرے گناہان کبیرہ اور برائیوں کو غلط سمجھنا ختم کر دیں گے کہ جس کی تلافی آسانی سے ممکن نہيں ہوگی جیسا کہ امام خمینی (رہ) ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ اگر ایران میں اسلام کو گزند پہنچا تو اس کے اثرات برسوں تک باقی رہیں گے۔ 

رہبر انقلاب اسلامی نے تبلیغ دین کی بے پناہ اہمیت کو بیان کرنے کے بعد تبلیغ کے عملی طریقوں پر روشنی ڈالی۔ 

آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ہر طرح کی تبلیغ و ہدایت کے لئے ان لوگوں کی شناخت کو ضروری قرار دیا جن کے درمیان تبلیغ و ہدایت کرنا ہو۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے نوجوانوں، بچوں اور عام لوگوں کی دن بہ دن بڑھتی معلومات کا ذکر کرتے ہوئے کہا: لوگوں کی فکری سطح اور ضرورت پر توجہ کے بغیر کی جانے والی تبلیغ، بے اثر ہوگي۔

انہوں نے بچوں پر والدین کی بالواسطہ اور براہ راست باتوں اور تعلیم کا اثر ختم ہونے کی مشکل کا ذکر کیا اور اسے ایک حقیقی مسئلہ قرار دیا اور کہا: بڑے افسوس کی بات ہے کہ سائبر اسپیس اور ذرائع ابلاغ کی بھیڑ میں، تعلیم و تربیت کی روایتی و گھریلو آواز کہیں گم ہو گئي ہے۔ 

رہبر انقلاب اسلامی نے  کہا کہ قرآن مجید میں "لسان قوم " سے مراد، لوگوں کی ذہنی سطح پر توجہ ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ اگر تبلیغ کی سطح لوگوں کے اور ان کی ضرورت کے مطابق نہ ہو تو مبلغ ناکام رہے گا۔ 

رہبر انقلاب اسلامی نے اسلامی نظام کے مد مقابل محاذ کو جو خود کو لبرل ڈیموکریسی کا نام دیتا ہے، جھوٹوں کا محاذ قرار دیا اور کئي مثالیں دے کر فرمایا : ایرانی قوم کے مد مقابل جو محاذ ہے وہ حریت و آزادی کے خلاف اور سامراجی طاقتوں سے ناوابستہ ہر طرح کی جمہوریت کا دشمن ہے اور اس محاذ کے خلاف ایرانی قوم اور اسلامی نظام کی جد وجہد و جنگ ، تہذیب و تمدن کی عالمگیر جنگ ہے۔ 

انہوں نے یوکرین کی  بے سہارا قوم کو مغرب کی سامراجی ذہنیت اور لوٹ مار کے جاری رہنے کا ثبوت قرار دیا اور کہا: یوکرین کے لوگ اس لئے قتل کئے جائیں کہ مغربی اسلحہ ساز کمپنیوں کے مفادات، یوکرین کی جنگ کے جاری رہنے میں ہیں! 

رہبر انقلاب اسلامی نے مغرب کو آج کسی بھی دوسرے وقت سے زيادہ کمزور قرار دیا اور کہا: امریکہ بھی، جسے امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے" شیطان بزرگ" کے لقب سے نوازا، آج سیاسی میدان، اقوام عالم سے اور خود امریکی قوم سے مقابلہ آرائي، نسلی امتیاز، جنسی بے راہ روی ، جرائم اور بے رحمی میں،  خباثت سے بھرے شیطان صفت لوگوں کا اڈہ ہے۔   

آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اس بات پر بھی زور دیا کہ خود کو صرف دفاعی پوزيشن میں ہی محصور نہیں رکھنا چاہیے بلکہ عالمی حقائق پر صحیح طرح سے نظر ڈال کر اور انہیں صحیح طریقے سے بیان کرکے، دشمنوں کی بنیادوں کو نشانہ بنانا چاہیے۔

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای  کی تقریر سے قبل، اس ملاقات میں حوزہ علمیہ کے سربراہ حجت الاسلام والمسلمین اعرافی نے بھی تقریر کی ۔

 
 
 

ررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایرانی صدر آیت اللہ رئیسی نے یوگنڈا میں اپنے ہم منصب کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد افریقی ممالک مخصوصا یوگنڈا کے ساتھ تعلقات میں اضافہ ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایرانی عوامی حکومت کی پالیسی یہ ہے افریقی ممالک کے ساتھ تعلقات کو فروغ دیا جائے اور مختلف شعبوں میں روابط کو مزید مستحکم کریں۔

صدر رئیسی نے کہا کہ مغربی ممالک چاہتے ہیں کہ دوسرے ممالک سے تیل اور دیگر خام مال لے جاکر افزودہ کریں اور مہنگے دام فروخت کریں۔ ایران کی پوری کوشش ہے کہ خام مواد کی فروخت کا راستہ روکا جائے۔

انہوں نے کہا کہ ایران اور یوگنڈا استعمار مخالف فکر میں اتفاق رائے رکھتے ہیں۔ یوگنڈا کے مغرب میں 40 طالب علموں کا شدت پسندوں کے ہاتھوں قتل انتہائی دردناک تھا۔ یوگنڈا کا دہشت گردی کے خلاف موقف قابل تحسین ہے۔ 

صدر رئیسی نے مزید کہا کہ مغربی ممالک انسانی حقوق کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ ایران دنیا میں انسانی حقوق کا علمبردار ہے جبکہ مغربی ممالک انسانی حقوق کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔

اس موقع پر یوگنڈا کے صدر یووری موسونی نے کہا کہ وسیع تجربے کا حامل ملک ہے جو یوگنڈا کے پاس نہیں ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ جب یوگنڈا میں تیل ذخائر دریافت ہوئے تو ہمارے ماہرین نے مشورہ دیا کہ ملکی ریفائنری نہیں لگانا چاہئے کیونکہ اس کا کوئی فایدہ نہیں ہے۔ تو میں نے کہا کہ ایران جیسے ممالک کے پاس ریفائنری کیوں ہے؟ جب ایران کے دورے پر گیا تو یقین ہوا کہ ہماری اپنی ریفائنری ہونا چاہئے۔

عید غدیر دنیائے اسلام کی سب سے بڑی عید ہے۔اللہ تعالی نے اپنے تمام انبیاء کوعید غدیر کی عظمت، بزرگی اور شان و شوکت سے آگاہ کیا۔پیغمبر اسلام حضرت محمد (ص) نے 18 ذی الحجہ سن دس ہجری میں حجةالوداع سے واپسی کے موقع پر غدیر خم کے مقام پر حاجیوں کے عظیم اور تاریخی اجتماع میں اللہ تعالی کے حکم سے حضرت علی (ع) کو اپنا خلیفہ، جانشین اور وصی مقرر کیا۔آنحضور (ص) نے اس مقام پر حضرت علی (ع) کی خلافت، ولایت اور امامت کا اعلان کرکے دین اسلام کو پایہ تکمیل تک پہنچا دیا۔

یہی وہ اہم پیغام تھا جسے پہنچانے کے لئے اللہ تعالی نے قرآن مجید کے سورہ مائدہ کی ایت نمبر 67 میں آنحضور (ص) کو زبردست تاکید کرتے ہوئے فرمایا: ۔۔۔یاایھاالرسول بلغ ما انزل الیک من ربک وان لم تفعل فما بلغت رسالتہ ۔۔۔ اے رسول (ع) اپنے پروردگار کا پیغام پہنچا دیجئے اگریہ پیغام نہ پہنچایا تو گویا آپ نے رسالت کا کوئی کام انجام نہیں دیا۔

لہذا انحضور (ص) نے اللہ تعالی کی مرضی اور حکم کے مطابق حضرت علی (ع) کو غدیر خم میں اپنا خلیفہ ،وصی اور جانشین مقرر کردیا۔ عید غدیر کا دن وہ دن ہے جس دن حضرت موسی کو ساحروں اور جادوگروں پر کامیابی نصیب ہوئی، اس دن اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم پر نار نمرود کو گلزار بنایا، اسی دن حضرت موسی نے یوشع بن نون کو اپنا خلیفہ اور جانشین مقرر کیا، اسی دن حضرت عیسی نے شمعون الصفا کو اپنا خلیفہ بنایا اور اسی دن حضرت سلیمان نے آصف بن برخیا کو اپنا جانشین بنانے کے لئے اپنی امت کو گواہ بنایا۔

یہ وہ مبارک دن ہے جس دن پیغمبر اسلام (ص)نے غدیر خم کے میدان میں حجاج اور صحابہ کے عطیم الشان اجتماع میں حضرت علی (ع) کو اپنا خلیفہ اور جانشین مقرر کرتے فرمایا: من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ ، جس جس کا میں مولا ہوں اس اس کے علی مولا ہیں جس کا میں ولی ہوں اس کے علی ولی ہیں، جس کا میں سرپرست ہوں اس کے علی(ع) سرپرست ہیں، جس کا میں حاکم ہوں اس کے علی (ع) حاکم ہیں۔

اس طرح پیغمبر اسلام نے 18 ذی الحجہ سن 10 ہجری کو اللہ کے حکم سے اپنا خلیفہ اور جانشین مقرر کرکے اپنے بعد دین اسلام کی سرپرستی اور حاکمیت کو حضرت علی (ع) اور ان کے گیارہ فرزندوں کے حوالے کردیا اور غدیر خم کو خلافت الھیہ کے تسلسل کا مرکز اور محور بنا دیا۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، فرانسیسی پولیس کے ہاتھوں الجزائری نژاد 17 سالہ نوجوان کے قتل کے بعد شروع ہونے والے مظاہرے دوبارہ زور پکڑنے لگے ہیں۔ صدر میکرون نے مظاہروں کو ختم کرنے کے لئے پیرس کی سڑکوں پر آنے والوں کے خلاف سخت ایکشن لینے کا حکم جاری کیا تھا۔

ہفتے کی پیرس کے مرکزی علاقے میں عوام نے پولیس کے نامناسب رویے کے خلاف احتجاج کیا۔

ان مظاہروں کا ایک مقصد جولائی 2016 میں فرانسیی پولیس کے ہاتھوں قتل ہونے والے 24 سالہ سیاہ فام ایڈم ترائورہ کی یاد منانا بھی ہے جو فرانسیی پولیس کے ہاتھوں حوالات میں تشدد کی وجہ سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا۔

رائیٹرز کے مطابق اس روز کی مناسب سے پیرس کے شمال میں مظاہرے کا اعلان کیا گیا ہے۔ فرانسیسی حکام اس روز کی مناسبت سے احتجاجی مظاہروں کی مخالفت کررہے ہیں۔ پولیس اور دیگر اداروں کی جانب سے سخت پہرے اور دباو کے باوجود سینکڑوں لوگوں نے متعلقہ مقام پر حاضر ہوکر احتجاج میں حصہ لیا اور پولیس کی نسل پرستی اور امتیازی سلوک کے خلاف نعرے لگائے۔

روزنامہ گارڈین کے مطابق پیس پولیس کے سربراہ نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ نسل پرستی اور پولیس کے امتیازی سلوک کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ پیرس سے دوسرے شہروں تک پھیل سکتا ہے۔

شمالی شہر لیل میں بھی ہفتے کو ایک احتجاجی مظاہرے کا اعلان کیا گیا تھا لیکن فرانسیی حکام نے اس پر پابندی لگادی جبکہ مارسے میں عوام نے شہر کے مرکز میں احتجاج کرنے کے بعد نسل پرستی اور پولیس کے رویے کے خلاف پیدل مارچ کیا۔

یاد رہے کہ اقوام متحدہ میں نسل پرستی کے خلاف قائمہ کمیٹی نے فرانس سے مطالبہ کیا ہے کہ پولیس اور دیگر اداروں میں نسلی امتیاز کے واقعات کے خلاف تحقیقات کرے۔

فرانسیسی ذرائع ابلاغ کے مطابق گذشتہ دنوں پولیس کے ہاتھوں 17 سالہ نوجوان کے قتل کے بعد احتجاجی مظاہروں میں پولیس نے تقریبا 4000 افراد کو گرفتار کیا ہے۔

یمنی چینل المسیرہ کے حوالے سے کہا ہے کہ یمن کی حکومت کے وزیرصنعت و تجارت محمد مطہر نے کہا ہے کہ قرآن مجید اور اسلامی مقدسات کی بے حرمتی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے یمن میں سویڈن کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے گا۔

المسیرہ چینل سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یمن میں درامد ہونے والی مصنوعات کی خصوصی نگرانی کی جائے گی اور کسٹم افسران سویڈن سے درامد ہونے والی اشیاء کو ملک میں لانے سے روکیں گے۔

انوہں نے پابندی کی زد میں آنے والی سویڈش مصنوعات کے بارے میں وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ یمن کے متعلقہ تجارتی اداروں کی جانب سے اس حوالے سے فہرست مرتب کی گئی ہے جو جلد میڈیا میں نشر کی جائے گی۔ اس فہرست میں 100 سے زائد سویڈش مصنوعات کو شامل کیا گیا ہے جن کی یمن میں درامد پر پابندی ہوگی۔

محمد مطہر نے مذکورہ اشیاء پر پابندی کو حتمی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یمن ادارے ان اشیاء کے متبادل تلاش کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

یاد رہے کہ یمنی تنظیم انصاراللہ کے سربراہ عبدالملک بدرالدین الحوثی نے کہا تھا کہ سویڈن میں قرآن کریم کی بے حرمتی کے مسلسل واقعات سوچی سمجھی سازش کا حصہ ہیں اور ان واقعات کے پیچھے صہیونی سازش کارفرما ہے۔

انہوں نے بے حرمتی کے واقعے کے بعد عالم اسلام میں ظاہر ہونے والے ردعمل کو ناکافی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ قرآن کریم کو جلانے کا واقعہ مسلمانوں کی غیرت کو جگانے کے لئے کافی ہے۔ اس واقعے کا کمترین ردعمل یہ ہے کہ سویڈن کا