سلیمانی

سلیمانی

 دنیا کے تین براعظموں میں لوگوں نے فلسطین میں صہیونی حکومت کی جارحیت کے خلاف مظاہرہ کیا۔ 

تفصیلات کے مطابق آسٹریلیا کے ساحلی شہر سڈنی میں صہیونی حکومت کے خلاف مظاہرہ کیا۔ جنین میں فلسطینی عوام پر وحشیانہ حملوں اور عوامی املاک کو نقصان پہنچانے پر احتجاج کے شرکاء نے غاصب صہیونی فورسز کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔

یورپ میں بھی صہیونی حکومت کے خلاف مظاہرے جاری ہیں۔ اٹلی کے دارالحکومت روم میں احتجاجی ریلی نکالی گئی اور شرکاء نے جنین میں فلسطینی عوام کے خلاف صہیونی کاروائیوں پر غاصب فورسز کی شدید مذمت کی۔

امریکہ میں بھی مختلف ریاستوں میں احتجاجی ریلی نکالی گئی۔ نیویارک اور نیوجرسی سمیت دیگر ریاستوں میں عوام کی بڑی تعداد نے مظاہرے میں شرکت کرکے فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا اور صہیونی حکومت کی مذمت کی۔

ریلی کے شرکاء نے امریکی حکومت سے مطالبہ کیا کہ صہیونی حکومت کو فلسطین میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔

مہر خبررساں ایجنسی نے ریڈیو پاکستان کے حوالے خبر دی ہے کہ پاکستان نے آج زاہدان میں سیکورٹی اہلکاروں پر دہشت گردی کے واقعے شدید مذمت کی ہے جس میں دو پولیس اہلکار شہید ہوگئے تھے۔

وزارت خارجہ کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد دہشت گردی کا شکار ہونے والے پولیس اہلکاروں کے لواحقین کے غم میں برابر شریک اور زخمیوں کے لئے نیک تمنائیں رکھتا ہے۔

بیان میں دہشت گردی کے خلاف پاکستان اور ایران کی مشترکہ کوششوں پر زور دیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ سردار دوست علی جلیلیان نے میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ آج صبح زاہدان میں پولیس اسٹیشن پر چار دہشت گردوں نے حملہ کیا۔ سائلین کے لباس میں ملبوس دہشت گردوں نے دروازے سے اندر جانے کی کوشش کی۔ گیٹ کی نگرانی پر مامور پولیس اہلکار نے جرائت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دہشت گردوں کو روکا۔ دوران تصادم کے نتیجے میں مذکورہ اہلکار شہید ہوگیا۔

گیٹ سے اندر داخل ہونے کے بعد پولیس اہلکاروں اور دہشت گردوں کے درمیان جھڑپ ہوئی اس دوران ایک دہشت گرد ہلاک ہوگیا۔ دہشت گردوں دھماکہ خیز مواد اور ہینڈ گرنیڈ سے مسلح تھے۔

پولیس کی جانب سے بروقت کاروائی کی وجہ سے چاروں دہشت گرد ہلاک ہوگئے۔ واقعے میں سیستان و بلوچستان پولیس کے دو اہلکار بھی شہید ہوگئے۔

سردار جلیلیان نے واقعے میں ملوث دہشت گردوں اور ان کی پشت پناہی کرنے والوں پر واضح کیا کہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ملکی سالمیت پر ہونے والے ہر حملے کو پوری طاقت کے ساتھ ناکام بنادیں گے۔

اسم گرامی : موسیٰ
لقب : کاظم
کنیت : ابو الحسن
والد کانام :جعفر (ع) 

والدہ کا نام : حمیدہ ( اسپین کی رھنے والی تھیں)
تاریخ ولادت : ۷/ صفر ۱۲۸ھ۔
جائے ولادت : مدینہ منورہ
مدت امامت : ۳۵ / سال
عمر مبارک : ۵۵/ سال
تاریخ شھادت : ۲۵/ رجب
شھادت کی وجہ : ھارون رشید نے آپ کو زھر دے کر شھید کر دیا
روضہ اقدس : عراق ( کاظمین )
اولاد کی تعداد : ۱۹/ بیٹے اور ۱۸ /بیٹیاں
بیٹوں کے نام :
(۱) علی (۲) ابراھیم (۳) عباس(۴) قاسم (۵) اسماعیل (۶) جعفر (۷) ھارون (۸) حسن (۹) احمد (۱۰) محمد (۱۱) حمزہ (۱۲) عبد اللہ (۱۳) اسحاق(۱۴) عبید اللہ (۱۵) زید (۱۶) حسن (۱۷) فضل (۱۸) حسین (۱۹) سلیمان
بیٹیوں کے نام :
(۱) فاطمہ کبریٰ (۲) لبابہ (۳) فاطمہ صغریٰ (۴) رقیہ (۵) حکیمہ (۶) ام ابیھا (۷) رقیہ صغریٰ (۸) ام جعفر (۹) لبابہ (۱۰) زینب (۱۱) خدیجہ (۱۲) علیا (۱۳)آمنہ (۱۴) حسنہ (۱۵) بریھہ (۱۶) عائشہ (۱۷) ام سلمہ (۱۸) میمونہ
بیویوں کی تعداد تاریخ میں موجود نھیں ھے ۔
انگوٹھی کے نگینے کا نقش : "کن مع اللہ حرزاً"

ولادت 
سات صفر128ھ میں آپ کی ولادت ھوئی . اس وقت آپ کے والد بزرگوار حضرت امام جعفر صادق علیہ السّلام مسند امامت پرمتمکن تھے اور آپ کے فیوض علمی کادھارا پوری طاقت کے ساتھ بھہ رھا تھا .اگرچہ امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام سے پھلے آپ کے دو بڑے بھائی اسماعیل اور عبدالله پید اھوچکے تھے مگر اس صاحبزادے کی ولادت روحانی امانت کی حامل تھی جو رسول کے بعد اس سلسلہ کے افراد میں ا یک دوسرے کے بعد چلی آرھی تھی .
نشو ونما اور تربیت
آپ نے اپنی عمرکے بیس برس اپنے والد بزرگوار امام جعفر صادق علیہ السّلام کے سایہ تربیت میں گزارے. ایک طرف خدا کے دیئے ھوئے فطری کمال کے جوھر اور دوسری طرف اس باپ کی تربیت جس نے پیغمبر کے بتائے ھوئے فراموش شدہ مکارم اخلاق کو ایساتازہ کر دیا تھاکہ چاروں طرف اسی کی خوشبو پھیلی ھوئی تھی. امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام نے بچپنہ او رجوانی کاکافی حصہ اسی مقدس آغوش تعلیم میں گزارا. یھاں تک کہ تمام دنیا کے سامنے آپ کے کمالات وفضائل روشن ھوگئے اور امام جعفر صادق علیہ السّلام نے آپ کو اپنا جانشین مقرر فرمادیا . باوجودیکہ آپ کے بڑے بھائی بھی موجود تھے مگر خدا کا عطا کردہ منصب میراث کا ترکہ نھیں ھوتا ھے بلکہ ذاتی کمال کی بنیاد پر رھتا ھے . سلسلہ معصومین علیہ السّلام میں امام حسن علیہ السّلام کے بعد بجائے ان کی اولاد کے امام حسین علیہ السّلام کاامام ھونا اور اولاد امام جعفر صادق علیہ السّلام میں بجائے فرزند اکبر کے امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام کی طرف امامت کامنتقل ھونا اس بات کا ثبوت ھے کہ معیار امامت میں نسبتی وراثت کو مدِنظر نھیں رکھا گیا ھے .
امامت
148ھ میں امام جعفر صادق علیہ السّلام کی شھادت ھوئی ، اس وقت سے حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام بذاتِ خود فرائض امامت کے ذمہ دار ھوئے . اس وقت سلطنت عباسیہ کے تخت پر منصور دوانقی بیٹھا تھا . یہ وھی ظالم بادشاہ تھا جس کے ھاتھوں لاتعداد سادات مظالم کا نشانہ بن چکے تھے اور تلوار کے گھاٹ اتار دیئے گئے یا دیواروں میں چنوا دیئے یاقید رکھے گئے تھے . خود امام جعفر صادق علیہ السّلام کے خلاف طرح طرح کی سازشیں کی جاچکی تھیں اور مختلف صورتوں سے تکلیفیں پھنچائی گئی تھیں یھاں تک کہ منصور ھی کا بھیجا ھوا زھر تھا جس سے اب آپ دنیا سے رخصت ھورھے تھے .ان حالات میں آپ کو اپنے جانشین کے متعلق یہ قطعی اندیشہ تھاکہ حکومتِ وقت اسے زندہ نہ رھنے دے گی اس لیے آپ نے ایک اخلاقی توجہ حکومت کے کاندھوں پر رکھنے کے لیے یہ صورت اختیار فرمائی کہ اپنی جائداد اور گھر بار کے انتظام کے لیے پانچ افراد پر مشتمل ایک جماعت مقرر فرمائی . جس میں پھلا شخص خود خلیفہ وقت منصور عباسی تھا . اس کے علاوہ محمد بن سلیمان حاکم مدینہ اور عبدالله فطح جو سن میں امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام کے بڑے بھائی تھے اور حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام نیز ان کی والدہ حمیدہ خاتون.
امام کا اندیشہ بالکل صحیح تھا اور آپ کاطریقہ بھی کامیاب ثابت ھوا. چنانچہ جب حضرت کی وفات کی اطلاع منصور کو پھنچی تو اس نے پھلے تو سیاسی مصلحت کے طور پر اظھار رنج کیا. تین مرتبہ اناللهِ واناالیہ راجعون کھااور کہا کہ اب بھلاجعفر کا مثل کون ھے ? ا س کے بعد حاکم مدینہ کو لکھا کہ اگر جعفر صادق نے کسی شخص کو اپنا وصی مقرر کیا ھوتو اس کا سر فوراً قلم کردو . حاکم مدینہ نے جواب لکھا کہ انھوں نے تو پانچ وصی مقرر کئے ھیں جن میں سے پھلے آپ خود ھیں . یہ جواب پڑھ کر منصور دیر تک خاموش رھا اور سوچنے کے بعد کھنے لگا تو اس صورت میں تو یہ لوگ قتل نھیں کیے جاسکتے . اس کے بعد دس برس تک منصور زندہ رھا لیکن امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام سے کوئی تعرض نھیں کیا اور آپ مذھبی فرائض امامت کی انجام دھی میں امن وسکون کے ساتھ مصروف رھے . یہ بھی تھا کہ اس زمانے میں منصور شھر بغداد کی تعمیر میں مصروف تھا جس سے 157ھ میں یعنی اپنی موت سے صرف ایک سال پھلے اسے فراغت ھوئی . اس لئے وہ امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام کے متعلق کسی ایذا رسانی کی طرف متوجہ نھیں ھوا .
دور مصائب
158ھ کے آخر میں منصور دوانقی دنیا سے رخصت ھوا تو اس کا بیٹا مھدی تخت سلطنت پر بیٹھا . شروع میں تو اس نے بھی امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام کی عزت واحترام کے خلاف کوئی برتاؤ نھیں کیا مگر چند سال کے بعد پھر وھی بنی فاطمہ کی مخالفت کاجذبہ ابھرا اور 164ھ میں جب وہ حج کے نام پر حجاز کی طرف آیاتو امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام کو اپنے ساتھ مکہ سے بغدادلے گیا اور قید کردیا . ایک سال تک حضرت اس کی قید میں رھے . پھر اس کو اپنی غلطی کا احساس ھوا اور حضرت کو مدینہ کی طرف واپسی کاموقع دیا گیا , مھدی کے بعد اس کابھائی ھادی192ھ میں تخت سلطنت پر بیٹھا اور صرف ایک سال ایک مھینے تک اُس نے حکومت کی . اس کے بعد ھارون رشید کازمانہ آیا جس میں پھر امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام کو آزادی کے ساتھ سانس لینا نصیب نھیں ھوا ۔
اخلاق واوصاف
حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام اسی مقدس سلسلہ کی ایک فرد تھے جس کو خالق نے نوع انسان کے لیے معیار کمال قرار دیا تھا .ا س لیے ان میں سے ھر ایک اپنے وقت میں بھترین اخلاق واوصاف کا مرقع تھا .بے شک یہ ایک حقیقت ھے کہ بعض افراد میں بعض صفات اتنے ممتاز نظر آتے ھیں کہ سب سے پھلے ان پر نظر پڑتی ھے , چنانچہ ساتویں امام میں تحمل وبرداشت اورغصہ کوضبط کرنے کی صفت اتنی نمایاں تھی کہ آپ کالقب »کاظم « قرار پایا جس کے معنی ھیں غصے کو پینے والا . آپ کو کبھی کسی نے تر شروئی اور سختی کے ساتھ بات کرتے نھیں دیکھا اور انتھائی ناگوار حالات میں بھی مسکراتے ھوئے نظر آئے . مدینے کے ایک حاکم سے آپ کو سخت تکلیفیں پھنچیں . یھاں تک کہ وہ جناب امیر علیہ السّلام کی شان میں بھی نازیبا الفاظ استعمال کیا کرتا تھا مگر حضرت نے اپنے اصحاب کو ھمیشہ اس کو جواب دینے سے روکا .
جب اصحاب نے اس کی گستاخیوں کی بھت شکایات کیں اور یہ کھا کہ ھمیں ضبط کی تاب نھیں . ھمیں اس سے انتقام لینے کی اجازت دی جائے تو حضرت نے فرمایا کہ » میں خود اس کاتدارک کروں گا ." اس طرح ان کے جذبات میں سکون پیدا کرنے کے بعد حضرت خود اس شخص کے پاس ا سکی زراعت پر تشریف لے گئے اور کچھ ایسا احسان اور سلوک فرما یا کہ وہ اپنی گستاخیوں پر نادم ھوا ا ور اپنے طرزِ عمل کو بدل دیا . حضرت نے اپنے اصحاب سے صورت حال بیان فرماکر پوچھا کہ جو میں نے اس کے ساتھ کیا وہ اچھا تھا یا جس طرح تم لوگ اس کے ساتھ کرنا چاھتے تھے ؟ سب نے کھا , یقیناً حضور نے جو طریقہ استعمال فرمایا وھی بھتر تھا . اس طرح آپ نے اپنے جدِ بزرگوار حضرت امیر علیہ السّلام کے اس ارشاد کو عمل میں لا کر دکھلایا جو آج تک نھج البلاغہ میں موجود ھے کہ اپنے دشمن پر احسان کے ساتھ فتح حاصل کرو کیونکہ اس قسم کی فتح زیادہ پر لطف اور کامیاب ھے. بیشک اس کے لیے فریق مخالف کے ظرف کاصحیح اندازہ ضروری ھے اور اسی لیے حضرت علی علیہ السّلام نے ان الفاظ کے ساتھ یہ بھی فرمایا ھے کہ "خبردار یہ عدم تشدد کاطریقہ نااھل کے ساتھ اختیار نہ کرنا ورنہ اس کے تشدد میں اضافہ ھوجائے گا ."
یقیناً ایسے عدم تشدد کے موقع کو پھچاننے کے لیے ایسی ھی بالغ نگاہ کی ضرورت ھے جیسی امام کو حاصل تھی مگر یہ اس وقت میں ھے جب مخالف کی طرف سے کوئی ایسا عمل ھوچکا ھو جو اس کے ساتھ انتقامی جواز پیدا کرسکے لیکن اس کی طرف سے اگر کوئی ایسا اقدام ابھی نہ ھوا تو یہ حضرات بھر حال ا س کے ساتھ احسان کرنا پسند کرتے تھے تاکہ اس کے خلاف حجت قائم ھو اور اسے اپنے جارحانہ اقدام کے لیے تلاش کرنے سے بھی کوئی عذر نہ مل سکے .بالکل اسی طرح جیسے ابن ملجم کے ساتھ جناب امیر علیہ السّلام نے کیا جو آپ کو شھید کرنے والا تھا ، آخری وقت تک جناب امیر علیہ السّلام اس کے ساتھ احسان فرماتے رھے . اسی طرح محمد ابنِ اسمٰعیل کے ساتھ جو امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام کی جان لینے کاباعث ھوا , آپ برابر احسان فرماتے رھے , یھاں تک کہ اس سفر کے لیے جو اس نے مدینے سے بغداد کی جانب خلیفہ عباسی کے پاس امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام کی شکائتیں کرنے کے لیے کیا تھا ، ساڑھے چار سو دینار اور پندرہ سو درھم کی رقم خود حضرت ھی نے عطا فرمائی تھی جس کو لے کر وہ روانہ ھوا تھا . آپ کو زمانہ بھت ناساز گار ملا تھا . نہ اس وقت وہ علمی دربار قائم رہ سکتا تھا جوامام جعفر صادق علیہ السّلام کے زمانہ میں قائم رہ چکا تھا نہ دوسرے ذرائع سے تبلیغ واشاعت ممکن تھی . بس آپ کی خاموش سیرت ھی تھی جو دنیا کو آلِ محمد کی تعلیمات سے روشناس کراسکتی تھی .
آپ اپنے مجمعوں میں بھی اکثر بالکل خاموش رھتے تھے یھاں تک کہ جب تک آپ سے کسی امر کے متعلق کوئی سوال نہ کیا جائے آپ گفتگو میں ابتدا بھی نہ فرماتے تھے . اس کے باوجود آپ کی علمی جلالت کا سکہ دوست اور دشمن سب کے دل پر قائم تھا اور آپ کی سیرت کی بلندی کو بھی سب مانتے تھے , اسی لیے عام طور پر آپ کو کثرت عبادت اور شب زندہ داری کی وجہ سے »عبد صالح « کے لقب سے یاد جاتا تھا . آپ کی سخاوت اور فیاضی کابھی خاص شھرہ تھا۔آپ فقرائے مدینہ کی اکثر پوشیدہ طور پر خبر گیری فرماتے تھے۔ ھر نماز کے صبح کی تعقیبات کے بعد آفتاب کے بلند ھونے کے بعد سے پیشانی سجدے میں رکھ دیتے تھے اور زوال کے وقت سراٹھاتے تھے . پاس بیٹھنے والے بھی آپ کی آواز سے متاثر ھو کر روتےرھتے تھے .
170ھ میں ھادی کے بعد ھارون تخت خلافت پر بیٹھا . سلطنت عباسیہ کے قدیم روایات جو سادات بنی فاطمہ کی مخالفت میں تھے اس کے سامنے تھے خود اس کے باپ منصور کارویہ جو امام جعفر صادق علیہ السّلام کے خلاف تھا اسے معلوم تھا اس کا یہ ارادہ کہ جعفر صادق علیہ السّلام کے جانشین کو قتل کر ڈالاجائے یقیناً اس کے بیٹے ھارون کو معلوم ھوچکا ھوگا . وہ تو امام جعفر صادق علیہ السّلام کی حکیمانہ وصیت کا اخلاقی دباؤ تھا جس نے منصور کے ھاتھ باندہ دیئے تھے اور شھر بغداد کی تعمیر کی مصروفیت تھی جس نے اسے اس جانب متوجہ نہ ھونے دیا تھا ورنہ اب ھارون کے لیے ان میں سے کوئی بات مانع نہ تھی . تخت سلطنت پر بیٹھ کر اپنے اقتدار کو مضبوط رکھنے کے لیے سب سے پھلے اس کے ذھن میں تصور پیدا ھوسکتا تھا کہ اس روحانیت کے مرکز کو جو مدینہ کے محلہ بنی ھاشم میں قائم ھے توڑنے کی کوشش کی جائے مگر ایک طرف امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام کامحتاط اور خاموش طرزِ عمل اور دوسری طرف سلطنت کے اندرونی مشکلات جن کی وجہ سے نوبرس تک ھارون کو بھی کسی امام کے خلاف کھلے تشدد کا موقع نھیں ملا .
اس دوران میں عبدالله ابن حسن کے فرزند یحییٰ کاواقعہ درپیش ھوا اور وہ امان دیئے جانے کے بعد تمام عھدو پیمان کوتوڑ کردردناک طریقے پر پھلے قید رکھے گئے او رپھر قتل کئے گئے . باوجودیکہ یحییٰ کے معاملات سے امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام کو کسی طرح کا سروکار نہ تھا بلکہ واقعات سے ثابت ھوتا ھے کہ حضرت ان کو حکومت وقت کی مخالفت سے منع بھی فرماتے تھے مگر عداوت بنی فاطمہ کاجذبہ جو یحییٰ ابن عبدالله کی مخالفت کے بھانے سے ابھر گیا تھا اس کی زد سے امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام بھی محفوظ نہ رہ سکے . ادھر یحییٰ ابن خالد بر مکی نے جو وزیر اعظام تھا امین (فرزند ھارون رشید) کے اتالیق جعفر ابن محمد اشعث کی رقابت میں اس کے خلاف یہ الزام قائم کیا کہ یہ امام موسی کاظم علیہ السّلام کے شیعوں میں سے ھے اور ان کے اقتدار کاخواھاں ھے .
براہ راست اس کا مقصد ھارون کو جعفر سے برگزشتہ کرنا تھالیکن بالواسطہ ا س کا تعلق حضرت امام موسی علیہ السّلام کاظم کے ساتھ بھی تھا . اس لیے ھارون کو حضرت کو ضرر رسانی کی فکر پیدا ھوگئی.اسی دوران یہ واقعہ ھو اکہ ھارون رشید حج کے ارادہ سے مکہ معظمہ میں آیا .اتفاق سے اسی سال امام موسی کاظم علیہ السّلام بھی حج کے لئے تشریف لائے ھوئے تھے . ھارون نے اپنی آنکھ سے اس عظمت اور مرجعیت کا مشاھدہ کیا جو مسلمانوں میں امام موسی کاظم علیہ السّلام کے متعلق پائی جاتی تھی . اس سے بھی اس کے حسد کی آگ بھڑک اٹھی اس کے بعد اس میں محمد بن اسمٰعیل کی مخالفت نے اورا ضافہ کر دیا .

واقعہ یہ ھے کہ اسمٰعیل امام جعفر صادق علیہ السّلام کے بڑے فرزند تھے اور اس لیے ان کی زندگی میں عام طور پر لوگوں کا خیال یہ تھا کہ وہ امام جعفر صادق علیہ السّلام کے قائم مقام ھوں گے . مگر ان کا انتقال امام جعفر صادق علیہ السّلام کے زمانے میں ھوگیا اور لوگوں کا یہ خیال غلط ثابت ھوا . پھر بھی بعض سادہ لوح اصحاب اس خیال پر قائم رھے کہ جانشینی کاحق اسمٰعیل میں منحصر ھے . انھوں نے امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام کی امامت کو تسلیم نھیں کیا چنانچہ اسماعیلیہ فرقہ مختصر تعداد میں سھی اب بھی دنیا میں موجود ھے- محمد, ان ھی اسمٰعیل کے فرزند تھے اور اس لئے امام موسٰی کاظم علیہ السلام سے ایک طرح کی مخالفت پھلے سے رکھتے تھے مگر چونکہ ان کے ماننے والوں کی تعداد بھت کم تھی اور وہ افراد کوئی نمایاں حیثیت نہ رکھتے تھے اسی لئے ظاھری طور پر امام موسٰی کاظم علیہ السلام کے یھاں آمدورفت رکھتے تھے اور ظاھر داری کے طور پر قرابت داری کے تعلقات قائم کئے ھوئے تھے-
ھارون رشید نے امام موسٰی کاظم علیہ السلام کی مخالفت کی صورتوں پر غور کرتے ھوئے یحییٰ برمکی سے مشورہ لیا کہ میں چاھتا ھوں کہ اولاد ابوطالب علیہ السّلام میں سے کسی کو بلا کر اس سے موسٰی بن جعفر علیہ السّلام کے پورے پورے حالات دریافت کروں- یحییٰ جو خود عداوتِ بنی فاطمہ میں ھارون سے کم نہ تھا اس نے محمد بن اسمٰعیل کا پتہ دیا کہ آپ ان کو بلا کر دریافت کریں تو صحیح حالات معلوم ھو سکیں گے چنانچہ اسی وقت محمد بن اسمٰعیل کے نام خط لکھا گیا-
شھنشاهِ وقت کا خط محمد ابن اسمٰعیل کو پھنچا تو انھوں نے اپنی دنیوی کامیابی کا بھترین ذریعہ سمجھ کر فوراً بغداد جانے کا ارادہ کر لیا- مگر ان دنوں ھاتھ بالکل خالی تھا- اتنا روپیہ موجود نہ تھا کہ سامان سفر کرتے- مجبوراً اسی ڈیوڑھی پر آنا پڑا جھاں کرم و عطا میں دوست اور دشمن کی تمیز نہ تھی- امام موسٰی کاظم علیہ السلام کے پاس آ کر بغداد جانے کا ارادہ ظاھر کیا- حضرت خوب سمجھتے تھے کہ اس بغداد کے سفر کی بنیاد کیا ھے- حجت تمام کرنے کی غرض سے آپ نے سفر کا سبب دریافت کیا- انھوں نے اپنی پریشان حالی بیان کرتے ھوئے کھا کہ قرضدار بھت ھو گیا ھوں- خیال کرتا ھوں کہ شاید وھاں جا کر کوئی بسر اوقات کی صورت نکلے اور میرا قرضہ ادا ھو جائے- حضرت نے فرمایاکہ وھاں جانے کی ضرورت نھیں ھے- میں وعدہ کرتا ھوں کہ تمھارا تمام قرضہ ادا کر دوں گا-
افسوس ھے کہ محمد نے اس کے بعد بھی بغداد جانے کا ارادہ نھیں بدلا- چلتے وقت حضرت سے رخصت ھونے لگے- عرض کیا کہ مجھے وھاں کے متعلق کچھ ھدایت فرمائی جائے- حضرت نے اس کا کچھ جواب نہ دیا- جب انھوں نے کئی مرتبہ اصرار کیا تو حضرت نے فرمایا کہ» بس اتنا خیال رکھنا کہ میرے خون میں شریک نہ ھونا اور میرے بچوں کی یتیمی کے باعث نہ ھونا« محمد نے اس کے بعد بھت کھا کہ یہ بھلا کون سی بات ھے جو مجھ سے کھی جاتی ھے, کچھ اور ھدایت فرمایئے- حضرت نے اس کے علاوہ کچھ کھنے سے انکار کیا- جب وہ چلنے لگے تو حضرت نے ساڑھے چار سو دینار اور پندرہ سو درھم انھیں مصارف کے لئے عطا فرمائے- نتیجہ وھی ھوا جو حضرت کے پیش نظر تھا- محمد ابن اسمٰعیل بغداد پھنچے اور وزیر اعظم یحییٰ برمکی کے مھمان ھوئے۔ اس کے بعد یحییٰ کے ساتھ ھارون کے دربار میں پھنچے۔ مصلحت وقت کی بنا پر بھت تعظیم و تکریم کی گئی- اثنائے گفتگو میں ھارون نے مدینہ کے حالات دریافت کئے- محمد نے انتھائی غلط بیانیوں کے ساتھ وھاں کے حالات کا تذکرہ کیا اور یہ بھی کھا کہ میں نے آج تک نھیں دیکھا اور نہ سنا کہ ایک ملک میں دو بادشاہ ھوں- اس نے کھا کہ اس کا کیا مطلب؟ محمد نے کھا کہ بالکل اسی طرح جس طرح آپ بغداد میں سلطنت قائم کئے ھوئے ھیں اسی طرح وھاں مدینے میں موسیٰ کاظم بھی سلطنت قائم کئے ھوئے ھیں۔ اطراف ملک سے ان کے پاس خراج پھنچتا ھے اور وہ آپ کے مقابلے کے دعوے دار ھیں-
یھی وہ باتیں تھیں جن کے کھنے کے لئے یحییٰ برمکی نے محمد کو منتخب کیا تھا۔ ھارون کا غیظ و غضب انتھائی اشتعال کے درجے تک پھنچ گیا- اس نے محمد کو دس ھزار دینار عطا کر کے رخصت کیا- خدا کا کرنا یہ کہ محمد کو اس رقم سے فائدہ اٹھانے کا ایک دن بھی موقع نہ ملا- اسی شب کو ان کے حلق میں درد پیدا ھوا- صبح ھوتے ھوئے وہ دنیا سے رخصت ھو گئے- ھارون کو یہ خبر پھنچی تو اس نے اشرفیوں کے توڑے واپس منگوا لئے مگر محمد کی باتوں کا اثر اس کے دل میں ایسا بیٹھ گیا تھا کہ اس نے یہ طے کر لیا کہ امام موسٰی کاظم علیہ السلام کا نام صفحہ ھستی سے مٹا دیا جائے-
چنانچہ 179ھ میں پھر ھارون رشید نے مکہ معظمہ کا سفر کیا اور وھاں سے مدینہ منورہ گیا- دو ایک روز قیام کے بعد کچھ لوگ امام موسٰی کاظم علیہ السلام کو گرفتار کرنے کے لئے روزانہ کئے- جب یہ لوگ امام کے مکان پر پھنچے تو معلوم ھوا کہ حضرت روضئہ رسول پر ھیں- ان لوگوں نے روضہ پیغمبر کی عزت کا بھی خیال نہ کیا- حضرت اس وقت قبر رسول کے نزدیک نماز میں مشغول تھے- بے رحم دشمنوں نے آپ کو نماز کی حالت میں ھی قید کر لیا اور ھارون کے پاس لے گئے- مدینہ رسول کے رھنے والوں کی بے حسی اس سے پھلے بھی بھت دفعہ دیکھی جا چکی تھی- یہ بھی اس کی ایک مثال تھی کہ رسول کا فرزند روضئہ رسول سے اس طرح گرفتار کر کے لے جایا جا رھا تھا مگر نام نھاد مسلمانوں میں ایک بھی ایسا نہ تھا جو کسی طرح کی آواز بطور احتجاج بلند کرتا- یہ بیس شوال 917ھ کا واقعہ ھے-
ھارون نے اس اندیشے سے کہ کوئی جماعت امام موسٰی کاظم علیہ السلام کو رھا کرنے کی کوشش نہ کرے دو محملیں تیار کرائیں- ایک میں حضرت امام موسٰی کاظم علیہ السلام کو سوار کیا اور اس کو ایک بڑی فوجی جمعیت کے حلقے میں بصرہ روانہ کیا اور دوسری محمل جو خالی تھی اسے بھی اتنی ھی جمعیت کی حفاظت میں بغداد روانہ کیا- مقصد یہ تھا کہ آپ کے محل قیام اور قید کی جگہ کو بھی مشکوک بنا دیا جائے۔ یہ نھایت حسرت ناک واقعہ تھا کہ امام کے اھل حرم اور بچے وقت رخصت آپ کو دیکہ بھی نہ سکے اور اچانک محل سرا میں صرف یہ اطلاع پھنچ سکی کہ حضرت سلطنت وقت کی طرف سے قید کر لئے گئے ھیں۔ اس سے بیبیوں اور بچوں میں کھرام برپا ھو گیا اور یقیناً امام کے دل پر بھی اس کا جو صدمہ ھو سکتا تھا وہ ظاھر ھے- مگر آپ کے ضبط و صبر کی طاقت کے سامنے ھر مشکل آسان تھی-
معلوم نھیں کتنے ھیر پھیر سے یہ راستہ طے کیا گیا تھا کہ پورے ایک مھینہ سترہ روزکے بعد سات ذی الحجہ کو آپ بصرہ پھنچائے گئے- پورے ایک سال تک آپ بصرہ میں قید رھے- یھاں کا حاکم ھارون کا چچا زاد بھائی عیسٰی ابن جعفر تھا شروع میں تو اسے صرف بادشاہ کے حکم کی تعمیل مدنظر تھی بعد میں اس نے غور کرنا شروع کیا- آخر ان کے قید کئے جانے کا سبب کیا ھے- اس سلسلے میں اس کو امام کے حالات اور سیرت زندگی اور اخلاق و اوصاف کی جستجو کا موقع بھی ملا اور جتنا اس نے امام کی سیرت کا مطالعہ کیا اتنا اس کے دل پر آپ کی بلندی اخلاق اور حسن کردار کا قائم ھو گیا- اپنے ان تاثرات سے اس نے ھارون کو مطلع بھی کر دیا- ھارون پر اس کا الٹا اثر ھوا کہ عیسٰی کے متعلق بدگمانی پیدا ھو گئی- اس لئے اس نے امام موسٰی کاظم علیہ السلام کو بغداد میں بلا بھیجا اور امام کو فضل ابن ربیع کی حراست میں دے دیا اور پھر فضل کا رجحان شیعیت کی طرف محسوس کر کے یحیی برمکی کو اس کے لئے مقرر کیا- معلوم ھوتا ھے کہ امام کے اخلاق واوصاف کی کشش ھر ایک پر اپنا اثر ڈالتی تھی- اس لئے ظالم بادشاہ کو نگرانوں کی تبدیلی کی ضرورت پڑتی تھی-
شھادت
سب سے آخر میں امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام سندی بن شاھک کے قید خانے میں رکھے گئے یہ شخص بھت ھی بے رحم اور سخت دل تھا- آخر اسی قید میں حضرت کوانگور میں زھر دیا گیا- 25رجب 183ھ میں 55 سال کی عمر میں حضرت کی شھادت ھوئی۔ بعد شھادت آپ کے جسد مبارک کے ساتھ بھی کوئی اعزاز کی صورت اختیار نھیں کی گئی بلکہ حیرتناک طریقے پر توھین آمیز الفاظ کے ساتھ اعلان کرتے ھوئے آپ کی لاش کو قبرستان کی طرف روانہ کیا گیا- مگر اب ذرا عوام میں احساس پیدا ھو گیا تھا اس لئے کچھ اشخاص نے امام کے جنازے کو لے لیا اور پھر عزت و احترام کے ساتھ مشایعت کر کے بغداد سے باھر اس مقام پر جواب کاظمین کے نام سے مشھور ھے، دفن کیا-

وحدت نیوز(ڈی آئی خان) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری تنظیم سازی علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ توہین قرآن کریم کے حوالے سے فی الفور قانون سازی کرتے ہوئے اسے سنگین جرم اور دہشت گردی قرار دے۔ یہ بات انہوں نے ڈیرہ اسماعیل خان میں سویڈن میں قرآن کریم کی بے حرمتی کے خلاف ملک گیر یوم احتجاج کے موقع پر شیعہ علماء کونسل اور ایم ڈبلیو ایم کے مشترکہ احتجاجی مظاہرہ سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے کہا کہ مغرب میں قرآن کریم اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توہین کے شرمناک واقعات تسلسل کے ساتھ جاری ہیں۔ انبیاء کرام اور آسمانی کتابوں کی توہین سنگین جرم اور دہشت گردی ہے۔

اقوام متحدہ توہین قرآن کریم کے حوالے سے فی الفور قانون سازی کرتے ہوئے اسے سنگین جرم اور دہشت گردی قرار دے۔ انہوں نے کہا کہ پیغمبر رحمت (ص) اور قرآن کریم کی توہین کے واقعات مغرب کی اسلام دشمن ذہنیت کا عکاس ہے۔ مسلمان ملکوں پر لشکر کشی، مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی اور اسلاموفوبیا مغربی سامراجی قوتوں کی مجرمانہ ذہنیت کو ظاہر کرتی ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ تمام مسلمان ممالک سویڈن سفراء کو ملک بدر کریں اور سویڈن مصنوعات کا بائیکاٹ کریں۔ احتجاجی مظاہرے سے شیعہ علماء کونسل کے مرکزی رہنماء علامہ محمد رمضان توقیر و دیگر نے بھی خطاب کیا۔

 
 
 

 

 یَااٴَیُّہَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا اٴُنزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ وَاللهُ یَعْصِمُکَ مِنْ النَّاسِ إِنَّ اللهَ لاَیَہْدِی الْقَوْمَ الْکَافِرِینَ
”اے پیغمبر ! آپ اس حکم کو پہنچادیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے، اور اگر یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا“۔

سورہ مائدہ ، آیت 67
Thursday, 06 July 2023 06:21

واقعہ غدیر کیا ہے ؟

 یَااٴَیُّہَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا اٴُنزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ وَاللهُ یَعْصِمُکَ مِنْ النَّاسِ إِنَّ اللهَ لاَیَہْدِی الْقَوْمَ الْکَافِرِینَ (1)
”اے پیغمبر ! آپ اس حکم کو پہنچادیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے، اور اگر یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا“۔
اہل سنت کی متعدد کتابوں نیز تفسیر و حدیث اور تاریخ کی (تمام شیعہ مشہور کتابوں میں) بیان ہوا ہے کہ مذکورہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے۔
ان احادیث کو بہت سے اصحاب نے نقل کیا ہے، منجملہ: ”ابوسعید خدری“، ”زید بن ارقم“، ”جابر بن عبد اللہ انصاری“، ”ابن عباس“، ”براء بن عازب“، ”حذیفہ“، ”ابوہریرہ“، ”ابن مسعود“اور ”عامر بن لیلی“، اور ان تمام روایات میں بیان ہوا کہ یہ آیت واقعہ غدیر سے متعلق ہے اور حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ ان میں سے بعض روایات متعدد طریقوں سے نقل ہوئی ہیں، منجملہ:
حدیث ابوسعید خدری ۱۱/طریقوں سے۔
حدیث ابن عباس بھی ۱۱/ طریقوں سے۔
اور حدیث براء بن عازب تین طریقوں سے نقل ہوئی ہے۔
جن افراد نے ان احادیث کو (مختصر یا تفصیلی طور پر ) اپنی اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے ان کے اسما درج ذیل ہیں:
حافظ ابو نعیم اصفہانی نے اپنی کتاب ”ما نُزِّل من القرآن فی علیّ“ میں (الخصائص سے نقل کیا ہے، صفحہ۲۹)
ابو الحسن واحدی نیشاپوری ”اسباب النزول“ صفحہ۱۵۰۔
ابن عساکر شافعی ( الدر المنثور سے نقل کیا ہے، جلد دوم، صفحہ۲۹۸)
فخر الدین رازی نے اپنی ”تفسیر کبیر“ ، جلد ۳، صفحہ ۶۳۶ ۔
ابو اسحاق حموینی نے ”فرائد السمطین“ (خطی)
ابن صباغ مالکی نے ”فصول المہمہ“ صفحہ ۲۷ ۔
جلال الدین سیوطی نے اپنی تفسیر الدر المنثور ، جلد ۲، صفحہ ۲۹۸ ۔
قاضی شوکانی نے ”فتح القدیر“ ، جلد سوم صفحہ ۵۷ ۔
شہاب الدین آلوسی شافعی نے ”روح المعانی“ ، جلد ۶، صفحہ ۱۷۲ ۔
شیخ سلیمان قندوزی حنفی نے اپنی کتاب ”ینابیع المودة“ صفحہ ۱۲۰ ۔
بد ر الدین حنفی نے ”عمدة القاری فی شرح صحیح البخاری“ ، جلد ۸، صفحہ ۵۸۴ ۔
شیخ محمد عبدہ مصری ”تفسیر المنار“ ، جلد ۶، صفحہ ۴۶۳۔
حافظ بن مردویہ (متوفی ۴۱۸ئھ) (الدر المنثور سیوطی سے نقل کیا ہے) اور ان کے علاوہ بہت سے دیگرعلمانے اس حدیث کو بیان کیا ہے ۔
البتہ اس بات کو نہیں بھولنا چاہئے کہ بہت سے مذکورہ علمانے حالانکہ شان نزول کی روایت کو نقل کیا ہے لیکن بعض وجوہات کی بنا پر (جیسا کہ بعد میں اشارہ ہوگا) سرسری طور سے گزر گئے ہیں یا ان پر تنقید کی ہے، ہم ان کے بارے میں آئندہ بحث میں مکمل طور پر تحقیق و تنقیدکریں گے۔(انشاء اللہ )
واقعہٴ غدیر
مذکورہ بحث سے یہ بات اجمالاً معلوم ہوجاتی ہے کہ یہ آیہٴ شریفہ بے شمار شواہد کی بنا پر امام علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے، اور اس سلسلہ میں (شیعہ کتابوں کے علاوہ) خود اہل سنت کی مشہور کتابوں میں وارد ہونے والی روایات اتنی زیادہ ہیں کہ کوئی بھی اس کا انکار نہیں کرسکتا۔
ان مذکورہ روایات کے علاوہ بھی متعددروایات ہیں جن میں وضاحت کے ساتھ بیان ہوا ہے کہ یہ آیت غدیر خم میں اس وقت نازل ہوئی کہ جب پیغمبر اکرم (ص) نے خطبہ دیا اور حضرت علی علیہ السلام کو اپنا وصی و خلیفہ بنایا، ان کی تعداد گزشتہ روایات کی تعداد سے کہیں زیادہ ہے، یہاں تک محقق بزرگوار علامہ امینی ۺ نے کتابِ ”الغدیر“ میں ۱۱۰/ اصحاب پیغمبر سے زندہ اسناد اور مدارک کے ساتھ نقل کیا ہے، اسی طرح ۸۴/ تابعین اور مشہور و معروف۳۶۰/ علماو دانشوروں سے اس حدیث کو نقل کیا ہے۔
اگر کوئی خالی الذہن انسان ان اسناد و مدارک پر ایک نظر ڈالے تو اس کو یقین ہوجائے گا کہ حدیث غدیر یقینا متواتر احادیث میں سے ہے بلکہ متواتر احادیث کا بہترین مصداق ہے، اور حقیقت یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ان احادیث کے تواتر میں شک کرے تو پھر اس کی نظر میں کوئی بھی حدیث متواتر نہیں ہوسکتی۔
ہم یہاں اس حدیث کے بارے میں بحث مفصل طور پر بحث نہیں کرسکتے ، حدیث کی سند اور آیت کی شان نزول کے سلسلہ میں اسی مقدار پر اکتفاء کرتے ہیں، اور اب حدیث کے معنی کی بحث کرتے ہیں، جو حضرات حدیث غدیر کی سند کے سلسلہ میں مزید مطالعہ کرنا چاہتے ہیںوہ درج ذیل کتابوں میں رجوع کرسکتے ہیں:
۱۔ عظیم الشان کتاب الغدیر جلد اول تالیف ،علامہ امینی علیہ الرحمہ۔
۲۔ احقاق الحق، تالیف ،علامہ بزرگوار قاضی نور اللہ شوستری، مفصل شرح کے ساتھ آیت اللہ نجفی، دوسری جلد ، تیسری جلد، چودھویں جلد، اور بیسوی جلد۔
۳۔ المراجعات ،تا لیف ،مرحوم سید شرف الدین عاملی۔
۴۔ عبقات الانوار ، تالیف عالم بزرگوار میر سید حامد حسین ہندی (لکھنوی) ۔
۵۔ دلائل الصدق ، جلد دوم، تالیف ،عالم بزرگوار مرحوم مظفر۔
حدیث غدیر کا مضمون
ہم یہاں تمام روایات کے پیش نظر واقعہ غدیر کا خلاصہ بیان کرتے ہیں، (البتہ یہ عرض کردیا جائے کہ بعض روایات میں یہ واقعہ تفصیلی اور بعض میں مختصر طور پر بیان ہوا ہے، بعض میں واقعہ کے ایک پہلو اور بعض میں کسی دوسرے پہلو کی طرف اشارہ ہوا ہے، چنا نچہ ان تمام روایات کا خلاصہ یہ ہے:)
پیغمبر اکرم (ص) کی زندگی کا آخری سال تھا”حجة الوداع “کے مراسم جس قدر باوقار اور باعظمت ہو سکتے تھے وہ پیغمبر اکرم کی ہمراہی میں اختتام پذیر ہوئے، سب کے دل روحانیت سے سرشار تھے ابھی ان کی روح اس عظیم عبادت کی معنوی لذت کا ذائقہ محسوس کررہی تھی ۔ اصحاب پیغمبر کی کثیر تعداد آنحضرت (ص) کے سا تھ اعمال حج انجام دینے کی عظیم سعادت پر بہت زیادہ خوش نظر آرہے تھے ۔(1)
(1) پیغمبر کے ساتھیوں کی تعداد بعض کے نزدیک ۹۰ہزار اور بعض کے نزدیک ایک لاکھ بارہ ہزار اور بعض کے نزدیک ایک لاکھ بیس ہزار اور بعض کے نزدیک ایک لاکھ چوبیس ہزار ہے
نہ صرف مدینہ کے لوگ اس سفر میں پیغمبر کے ساتھ تھے بلکہ جزیرہ نمائے عرب کے دیگر مختلف حصوں کے مسلمان بھی یہ عظیم تاریخی اعزازوافتخار حاصل کرنے کے لئے آپ کے ہمراہ تھے۔
سرزمین حجاز کا سورج درودیوار اور پہاڑوںپر آگ برسارہا تھا لیکن اس سفرکی بے نظیر روحانی حلاوت نے تمام تکلیفوں کو آسان بنارہا تھا۔ زوال کا وقت نزدیک تھا، آہستہ آہستہ ”جحفہ“ کی سرزمین او راس کے بعد خشک اور جلانے والے”غدیرخم“ کا بیابان نظر آنے لگا۔
در اصل یہاں ایک چوراہا ہے جو حجاز کے لوگوں کوایک دوسرے سے جدا کرتا ہے، شمالی راستہ مدینہ کی طرف دوسرا مشرقی راستہ عراق کی طرف،تیسرا مغربی ممالک او رمصر کی طرف اور چوتھا جنوبی راستہ سرزمین یمن کو جاتا ہے یہی وہ مقام ہے جہاں اخری او راس عظیم سفر کااہم ترین مقصدانجام دیاجا نا تھا اور پیغمبر مسلمانوں کے سامنے اپنی آخری اور اہم ذمہ داری کی بنا پر آخری حکم پہچا نا چا ہتے تھے ۔
جمعرات کا دن تھا اورہجرت کا دسواں سال، آٹھ دن عید قربان کو گزرے تھے کہ اچانک پیغمبر کی طرف سے سب کو ٹھہر نے کا حکم دیا گیا، مسلمانوں نے بلندآواز سے قافلہ سے آگے چلے جانے والے لو گوں کوواپس بلایااوراتنی دیر تک رکے رہے کہ پیچھے آنے والے لوگ بھی پہنچ گئے۔ آفتاب خط نصف النہار سے گزر گیا تو پیغمبر کے موٴذن نے ”اللہ اکبر “کی صداکے ساتھ لوگوں کونماز ظہر پڑھنے کی دعوت دی، مسلمان جلدی جلدی نماز پڑھنے کے لئے تیار ہوگئے، لیکن فضا اتنی گرم تھی کہ بعض لوگ اپنی عبا کا کچھ حصہ پاؤں کے نیچے اور باقی حصہ سر پر رکھنے کے لئے مجبور تھے ورنہ بیابان کی گرم ریت اور سورج کی شعاعیں ان کے سر اور پاؤں کو تکلیف دے رہی تھیں۔
اس صحرا میں کوئی سایہ نظر نہیں آتا تھا اور نہ ہی کوئی سبزہ یاگھاس صرف چند خشک جنگلی درخت تھے جو گرمی کا سختی کے ساتھ مقابلہ کر رہے تھے کچھ لوگ انہی چند درختوں کا سہارا لئے ہوئے تھے، انہوں نے ان برہنہ درختوں پر ایک کپڑاڈال رکھا تھا اور پیغمبر کے لئے ایک سائبان بنا رکھا تھا لیکن سورج کی جلا دینے والی گرم ہوا اس سائبان کے نیچے سے گزر رہی تھی ،بہرحال ظہر کی نمازادا کی گئی۔
مسلمان نماز کے بعد فوراً اپنے چھوٹے چھوٹے خیموں میں جاکر پناہ لینے کی فکر میں تھے لیکن رسول اللہ نے انہیں آگاہ کیا کہ وہ سب کے سب خداوندتعالیٰ کا ایک نیا پیغام سننے کے لئے تیار ہوجائیں جسے ایک مفصل خطبہ کے ساتھ بیان کیا جائے گا۔
جو لوگ رسول اللہ (ص) سے دور تھے وہ اس عظیم اجتماع میں پیغمبر کا ملکوتی اور نورانی چہرہ دیکھ نہیں پارہے تھے لہٰذا اونٹوں کے پالانوں کا منبر بنایا گیا،پیغمبر اس پر تشریف لے گئے،پہلے پروردگار عالم کی حمد وثنا بجالائے اور خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے یوں خطاب فرمایا:میں عنقریب خداوندمتعال کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے تمہارے درمیان سے جا نے والاہوں ،میں بھی جوابدہ ہوں اورتم لو گ بھی جوابدہ ہو ،تم میرے بارے میں کیا کہتے ہو ؟سب لو گوں نے بلند آواز میں کہا :
”نَشھَد اٴنّکَ قَد بَلَغْتَ وَ نَصَحْتَ وَ جَاھَدتَّ فَجَزَاکَ اللّٰہُ خَیْراً“
”ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے فریضہٴ رسالت انجام دیا اورخیر خواہی کی ذمہ داری کو انجام دیا اور ہماری ہدایت کی راہ میں سعی و کوشش کی،خدا آپکوجزا ئے خیر دے“۔
اس کے بعد آپ نے فرمایا : کیا تم لوگ خدا کی وحدانیت،میری رسالت اور روز قیامت کی حقانیت اوراس دن مردوں کے قبروں سے مبعوث ہونے کی گواہی نہیں دیتے؟
سب نے کہا:کیوں نہیں ہم سب گواہی دیتے ہیں۔
آپ نے فرمایا: خدایا!گواہ رہنا۔
آپ نے مزید فرمایا:اے لوگو ! کیا تم میری آواز سن رہے ہو؟
انہوں نے کہا: جی ہاں۔
اس کے بعد سارے بیابان پر سکوت کا عالم طاری ہوگیا، سوائے ہوا کی سنسناہٹ کے کوئی چیز سنائی نہیں دیتی تھی ، پیغمبر نے فرمایا:دیکھو! میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں بطور یادگار چھوڑے جارہا ہوں تم ان کے ساتھ کیا سلوک کروگے؟
حاضرین میں سے ایک شخص نے پکار کر کہا:یا رسول اللہ (ص) وہ دو گرا نقدر چیزیں کونسی ہیں؟
تو پیغمبراکرم نے فرمایا: پہلی چیز تو اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے جو ثقل اکبر ہے، اس کا ایک سرا پروردگار عالم کے ہاتھ میں ہے اور دوسرا سراتمہارے ہاتھ میں ہے،اس سے ہاتھ نہ ہٹانا ورنہ تم گمراہ ہو جاؤگے، دوسری گرانقدر یادگار میرے اہل بیت ٪ ہیں اور مجھے خدائے لطیف وخبیر نے خبردی ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ بہشت میں مجھ سے آملیں گے۔
ان دونوں سے آگے بڑھنے (اور ان سے تجاوز کرنے) کی کوشش نہ کرنا اور نہ ہی ان سے پیچھے رہنا کہ اس صورت میں بھی تم ہلاک ہو جاؤگے۔
اچانک لوگوں نے دیکھا کہ ر سول اللہ اپنے ارد گرد نگاہیں دوڑارہے ہیں گویا کسی کو تلاش کررہے ہیں جو نہی آپ کی نظر حضرت علی علیہ السلام پر پڑی فوراً ان کا ہاتھ پکڑلیا اور انہیں اتنا بلند کیا کہ دونوں کی بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگی اور سب لوگوں نے انہیں دیکھ کر پہچان لیاکہ یہ تو اسلام کا وہی سپہ سالار ہے کہ جس نے کبھی شکست کا منہ نہیں دیکھا۔
اس موقع پر پیغمبر کی آواز زیادہ نمایاں اوربلند ہوگئی اور آپ نے ارشاد فرمایا:
”اٴیُّھا النَّاس مَنْ اٴولیٰ النَّاسِ بِالمَوٴمِنِیْنَ مِنْ اٴَنْفُسِھم“
اے لوگو! بتاؤ وہ کون ہے جو تمام لوگوں کی نسبت مومنین پر خود ان سے زیادہ اولویت رکھتا ہے ؟ اس پر سب حاضرین نے بہ یک آواز جواب دیا کہ خدا اور اس کا پیغمبر بہتر جانتے ہیں۔
تو پیغمبر نے فرمایا: خدا میرا مولا اوررہبر ہے اور میں مومنین کا مولااوررہبر ہوں اورمیں ان کی نسبت خود ان سے زیادہ حق رکھتا ہوں(اور میرا ارادہ ان کے ارادے پرمقدم ہے)۔
اس کے بعد فرمایا:
”فَمَن کُنْتُ مَولَاہُ فَہذَا عَلِیّ مَولاہ“۔
”یعنی جس کا میں مولاہوں علی بھی اس کے مولا اوررہبر ہیں“۔
پیغمبر اکرم نے اس جملے کی تین مرتبہ تکرار کی، او ربعض راویوں کے قول کے مطابق پیغمبر نے یہ جملہ چار مرتبہ دہرایا اور اس کے بعد آسمان کی طرف سر بلند کر کے بارگاہ خداوندی میں عرض کی:
”اَللّٰھُمَّ وَالِ مَنْ وَالاٰہُ وَعَادِ مَنْ عَادَاہُ وَاٴحب مَنْ اٴحبہُ وَ ابغِضْ مَنْ اٴبغَضہُ وَ انْصُرْمَنْ نَصَرُہُ وَاخْذُلْ مَنْ خَذَلَہُ، وَاٴدرِالحَقّ مَعَہُ حَیْثُ دَارَ“
یعنی بار الٰہا! جو اس کو دوست رکھے تو اس کو دوست رکھ او رجو اس سے دشمنی رکھے تو اس سے دشمنی رکھ، جو اس سے محبت کرے تو اس سے محبت کر اور جو اس سے بغض رکھے تو اس سے بغض رکھ، جو اس کی مدد کرے تو اس کی مددکر ، جو اس کی مدد سے کنارہ کشی کرے تو اسے اپنی مددسے محروم رکھ اور حق کو ادھرموڑدے جدھر وہ رخ کرے۔
اس کے بعد فرمایا:
”اٴلَا فَلْیُبَلِّغ الشَّاہدُ الغائبُ“
” تمام حاضرین آگاہ ہوجائیں کہ یہ سب کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کوان لوگوں تک پہنچائیں جو یہاں پر اس وقت موجود نہیں ہیں “۔
پیغمبر کا خطبہ ختم ہوگیا پیغمبر پسینے میں شرابور تھے حضرت علی علیہ السلام بھی پسینہ میں غرق تھے، دوسرے تمام حاضرین کے بھی سر سے پاؤں تک پسینہ بہہ رہا تھا۔
ابھی اس جمعیت کی صفیں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوئی تھیں کہ جبرئیل امین وحی لے کر نازل ہوئے اور پیغمبر کو ان الفاظ میں تکمیلِ دین کی بشارت دی:

<الْیَوْمَ اٴَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَاٴَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی(2)
”آج کے دن ہم نے تمہارے لئے تمہارے دین اور آئین کو کامل کردیا اور اپنی نعمت کو تم پر تمام کردیا“۔
اتمام نعمت کا پیغام سن کر پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا:
”اللّٰہُ اٴکبرُ اللّٰہُ اٴکبرُ عَلیٰ إکْمَالِ الدِّینِ وَإتْمَام النِعْمَةِ وَرَضیٰ الربِّ بِرسَالَتِی وَالوِلاٰیَة لِعَلیّ مِنْ بَعْدِی“
”ہر طرح کی بزرگی وبڑائی خداہی کے لئے ہے کہ جس نے اپنے دین کو کامل فرمایا اور اپنی نعمت کو ہم پر تمام کیا اور میری نبوت ورسالت اور میرے بعد علی کی ولایت کے لئے خوش ہوا۔“
پیغمبر کی زبان مبارک سے امیرالموٴمنین علی ابن ابی طالب علیہما السلام کی ولایت کا اعلان سن کر حاضرین میں مبارک باد کا شور بلند ہوا لوگ بڑھ چڑھ کر اس اعزازومنصب پر حضرت علی کو اپنی طرف سے مبارک باد پیش کرنے لگے چنانچہ معروف شخصیتوں میں سے حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کی طرف سے مبارک باد کے یہ الفاظ تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہیں کہ انہوں نے کہا:
”بخٍ بخٍ لک یا بن اٴبِی طالب اٴصبحتَ وَاٴَمسیتَ مولای و مولاکُلّ موٴمن و موٴمنةٍ“
”مبارک ہو ! مبارک ! اے فرزند ابو طالب کہ آپ میرے اور تمام صاحبان ایمان مردوں اورعورتوں کے مولا اور رہبر ہوگئے“۔
اس وقت ابن عباس نے کہا :بخدا یہ عہد وپیمان سب کی گردنوں میں باقی رہے گا۔
اس موقع پر مشہور شاعر حسان بن ثابت نے پیغمبر اکرم (ص) سے اجازت طلب کی کہ اس
موقع کی مناسبت سے کچھ شعر کہوں ،چنا نچہ انھو ں نے یہ مشہور و معروف اشعار پڑھے:
یَنادِیْھِمْ یَومَ الغَدِیرِ نَبِیُّھُمْ بِخُمٍّ وَاٴسْمِعْ بِالرَّسُولِ مُنَادِیاً
فَقَالَ فَمَنْ مَولٰاکُمْ وَنَبِیُّکُمْ؟ فَقَالُوا وَلَمْ یَبْدُو ھُناکَ التَّعامِیا
إلٰھکَ مَولانَا وَاٴنتَ نَبِیُّنَا َولَمْ تَلْقِ مِنَّا فِی الوَلایَةِ عَاصِیاً
فَقَالَ لَہُ قُمْ یَا عَلیّ فَإنَّنِی رَضِیْتُکَ مِنْ بَعْدِی إمَاماً وَ ھَادیاً
فَمَنْ کُنْتُ مَولاہُ فَھَذَا وَلِیُّہُ فَکُونُوا لَہُ اَتْبَاعَ صِدْقٍ مَوَالِیاً
ھَنَاکَ دَعَا اَللّٰھُمَّ وَالِ وَلِیَّہُ وَکُنْ لِلَّذِی لَہُ اٴتْبَاعَ عَلِیًّا مُعَادِیاً
(1)
یعنی: ”پیغمبر اکرم (ص) روز غدیر خم یہ اعلان کررہے تھے اور واقعاً کس قدر عظیم اعلان تھا۔
فرمایا: تمہارامولاا ور نبی کون ہے؟ تو مسلمانوں نے صاف صاف کہا:
”خداوندعالم ہمارا مولا ہے اور ہمارے نبی ہیں، ہم آپ کی ولایت کے حکم کی مخالفت نہیں کریں گے۔
اس وقت پیغمبر اکرم (ص) نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا: یا علی اٹھو ، کیونکہ میں نے تم کو اپنے بعد امام اور ہادی مقرر کیا ہے۔
اس کے بعد فرمایا: جس کامیں مولا و آقا ہوں اس کے یہ علی مولا اور رہبر ہیں ، لہٰذا تم سچے دل سے اس کی اطاعت و پیروی کرنا۔
اس وقت پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: پالنے والے! اس کے دوست کو دوست رکھ! اور اس کے دشمن کو دشمن۔
(1) ان اشعار کو اہل سنت کے بڑے بڑے علمانے نقل کیا ہے ، جن میں سے حافظ ”ابونعیم اصفہانی،حافظ ”ابو سعید سجستانی“، ”خوارزمی مالکی“، حافظ ”ابو عبد اللہ مرزبانی“،”گنجی شافعی“، ”جلال الدین سیوطی“، سبط بن جوزی“ اور ”صدر الدین حموی“ کا نام لیا جاسکتا ہے
قا ر ئین کرام !یہ تھا اہل سنت اور شیعہ علماکی کتابوں میں بیان ہونے والی مشہور و معروف حدیث غدیر کا خلاصہ۔
آیہ بلغ کے سلسلہ میں ایک نئی تحقیق
اگر ہم مذکورہ آیت کی شان نزول کے بارے میں بیان ہونے والی احادیث اور واقعہ غدیر سے متعلق تمام روایات سے قطع نظر کریں اور صرف اور صرف خود آیہٴ بلغ اور اس کے بعد والی آیتوں پر غور کریں تو ان آیات سے امامت اور پیغمبر اکرم (ص) کی خلافت کا مسئلہ واضح و روشن ہوجائے گا۔
کیونکہ مذکورہ آیت میں بیان ہونے والے مختلف الفاظ اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ اس مسئلہ کی تین اہم خصوصیت ہیں:
۱۔ اسلامی نقطہ نظر سے اس مسئلہ کی ایک خاص اہمیت ہے ، کیونکہ پیغمبر اکرم (ص) کو حکم دیا گیا ہے کہ اس پیغام کو پہنچادو، اور اگر اس کام کو انجام نہ دیا تو گویا اپنے پروردگار کی رسالت کو نہیں پہنچایا! دوسرے الفاظ میں یوں کہیں کہ ولایت کا مسئلہ نبوت کی طرح تھا ، کہ اگر اس کو انجام نہ دیا تو پیغمبر اکرم کی رسالت ناتمام رہ جاتی ہے:<وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ
واضح رہے کہ اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ یہ خدا کا کوئی معمولی حکم تھا، اور اگرخدا کے کسی حکم کونہ پہنچایا جائے تو رسالت خطرہ میں پڑجاتی ہے، کیونکہ یہ بات بالکل واضح ہے اور اس کے بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے، حالانکہ آیت کا ظاہر یہ ہے کہ یہ مسئلہ ایک خاص اہمیت کا حامل ہے جو رسالت و نبوت سے خاص ربط رکھتا ہے۔
۲۔ یہ مسئلہ اسلامی تعلیمات جیسے نماز، روزہ، حج، جہاد اور زکوٰة وغیرہ سے متعلق نہیں تھا کیونکہ یہ آیت سورہ مائدہ کی ہے، اور ہم جانتے ہیں کہ یہ سورہ پیغمبر اکرم (ص) پر سب سے آخر میں نازل ہوا ہے، (یا آخری سوروں میں سے ہے) یعنی پیغمبر اکرم (ص) کی عمر بابرکت کے آخری دنوں میں یہ سورہ نازل ہوا ہے جس وقت اسلام کے تمام اہم ارکان بیان ہوچکے تھے۔(3)
۳۔ آیت کے الفاظ اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ یہ مسئلہ ایک ایسا عظیم تھاجس کے مقابلہ میں بعض لوگ سخت قدم اٹھانے والے تھے، یہاں تک کہ پیغمبر اکرم (ص) کی جان کو بھی خطرہ تھا، اسی وجہ سے خداوندعالم نے اپنی خاص حمایت کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا:< وَاللهُ یَعْصِمُکَ مِنْ النَّاسِ ”اور خداوندعالم تم کولوگوں کے (احتمالی) خطرے سے محفوظ رکھے گا“۔
آیت کے آخر میں اس بات کی تاکید کی گئی ہے: ”خداوندعالم کافروں کی ہدایت نہیں فرماتا“< إِنَّ اللهَ لاَیَہْدِی الْقَوْمَ الْکَافِرِینَ
آیت کا یہ حصہ خود اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ بعض مخالف آنحضرت (ص) کے خلاف کوئی منفی قدم اٹھانے والے تھے۔
ہماری مذکورہ باتوں سے یہ بات اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ اس آیت کا مقصد پیغمبر اکرم (ص) کی جانشینی اور خلافت کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا۔
جی ہاں پیغمبر اکرم (ص) کی آخری عمر میں صرف یہی چیز مورد بحث واقع ہوسکتی ہے نہ کہ اسلام کے دوسرے ارکان ، کیونکہ دوسرے ارکان تو اس وقت تک بیان ہوچکے تھے، صرف یہی مسئلہ رسالت کے ہم وزن ہوسکتا ہے، اور اسی مسئلہ پر بہت سی مخالفت ہوسکتی تھی اور اسی خلافت کے مسئلہ میں پیغمبر اکرم (ص) کی جان کو خطرہ ہوسکتا تھا۔
اگر مذکورہ آیت کے لئے ولایت، امامت اور خلافت کے علاوہ کوئی دوسری تفسیر کی جائے تو وہ آیت سے ہم آہنگ نہ ہوگی۔
آپ حضرات ان تمام مفسرین کی باتوں کو دیکھیں جنھوں نے اس مسئلہ کو چھوڑ کر دوسری تاویلیں کی ہیں، ان کی تفسیر آیت سے بےگانہ دکھائی دیتی ہیں، حقیقت تو یہ ہے کہ یہ لوگ آیت کی تفسیر نہیں کرپائے ہیں۔
توضیحات
۱۔ حدیث غدیر میں مولی کے معنی
جیسا کہ معلوم ہو چکا ہے کہ حدیث غدیر ”فمن کنت مولاہ فعلیٌّ مولاہ“ تمام شیعہ اور سنی کتا بوں میں نقل ہو ئی ہے: اس سے بہت سے حقائق روشن ہوجاتے ہیں۔
اگرچہ بہت سے اہل سنت موٴلفین نے یہ بات باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ ”مولی“ کے معنی ”ناصر یا دوست “ کے ہیں، کیونکہ مولی کے مشہور معنی میں سے یہ بھی ہیں، ہم بھی اس بات کو مانتے ہیں کہ ”مولیٰ“ کے معنی دوست اور ناصر ومددگار کے ہیں، لیکن یہاں پر بہت سے قرائن و شواہدہیں جن سے معلوم ہوتا ہے مذکورہ حدیث میں ”مولیٰ“ کے معنی ”ولی ، سرپرست اور رہبر“ کے ہیں، ہم یہاں پر ان قرائن و شواہد کو مختصر طور پر بیان کرتے ہیں:
۱۔ حضرت علی علیہ السلام سے تمام مومنین کی دوستی کوئی مخفی اور پیچیدہ چیز نہ تھی کہ جس کے لئے اس قدر تاکید اور بیان کی ضرورت ہوتی، اور اس بات کی کوئی ضرورت نہ تھی کہ اس بے آب و گیاہ اور جلتے ہوئے بیابان میں اس عظیم قافلہ کو دوپہر کی دھوپ میں روک کرایک طویل و مفصل خطبہ دیا جائے اور سب لوگوں سے اس دوستی کا اقرارلیا جائے۔
قرآن مجید نے پہلے ہی وضاحت کے ساتھ یہ اعلان فردیا ہے: < إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ(4)”مومنین آپس میں ایک دوسرے کے بھائی ہیں“
ایک دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے:< وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُہُمْ اٴَوْلِیَاءُ بَعْض(5) ”مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے ولی اور مددگار ہیں“۔
خلاصہ یہ کہ اسلامی اخوت اور مسلمانوں کی ایک دوسرے سے دوستی اسلام کے سب سے واضح مسائل میں سے ہے جو پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ سے چلی آرہی ہے، اور خود آنحضرت (ص) نے اس بات کو بارہا بیان فرمایا اوراس سلسلہ میں تاکید فرمائی ہے، اور یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں تھا جس سے آیت کا لب و لہجہ اس قدر شدید ہوجاتا، اور پیغمبر اکرم (ص) اس راز کے فاش ہونے سے کوئی خطرہ محسوس کرتے۔ (غور کیجئے )
۲۔ ”اٴلَسْتُ اٴولیٰ بِکُمْ مِنْ اٴنفُسِکم“ (کیا میں تم لوگوں پر تمہارے نفسوں سے زیادہ اولی اور سزاور نہیں ہوں؟) حدیث کا یہ جملہ بہت سی کتابوں میں بیان ہوا ہے جو ایک عام دوستی کو بیان کرنے کے لئے بے معنی ہے، بلکہ اس جملہ کا مفہوم یہ ہے کہ جس طرح مجھے تم پر اولویت و اختیار حاصل ہے اور جس طرح میں تمہارا رہبر اور سرپرست ہوں بالکل اس طرح علی علیہ السلام کے لئے بھی ثابت ہے، اورہمارے عرض کئے ہوئے اس جملے کے معنی کے علاوہ دوسرے معنی انصاف اور حقیقت سے دور ہیں، خصوصاً ”من انفسکم“ کے پیش نظر یعنی میں تمہاری نسبت تم سے اولیٰ ہوں۔
۳۔ اس تاریخی واقعہ پرتمام لوگوں کی طرف سے خصوصاً حضرت ”عمر “ اور حضرت ”ابوبکر“ کا امام علی علیہ السلام کی خد مت میں مبارکباد پیش کرنا اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ یہ مسئلہ صرف خلافت کا مسئلہ تھا، جس کی وجہ سے تبریک و تہنیت پیش کی جارہی تھی، کیونکہ حضرت علی علیہ السلام سے دوستی کا مسئلہ تو سب کو معلوم تھا اس کے لئے تبریک کی کیا ضرورت تھی؟!!
مسند احمد میں بیان ہوا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) کے اعلان کے بعد حضرت عمر نے حضرت علی علیہ السلام کو ان الفاظ میں مبارک باد دی:
”ھنئیاً یا بن اٴبِی طالب اٴصبحتَ وَاٴَمسیتَ مولی کُلّ موٴمن و موٴمنةٍ“(6)
”مبارک ہو مبارک! اے ابو طالب کے بیٹے! آج سے تم ہر مومن اور مومنہ کے مولا بن گئے“۔
علامہ فخر الدین رازی نے < یَااٴَیُّہَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا اٴُنزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ کے ذیل میں تحریر کیا ہے کہ حضرت عمر نے کہا: ”ھنئیاً یا بن اٴبِی طالب اٴصبحتَ وَاٴَمسیتَ مولی کُلّ موٴمن و موٴمنةٍ“جس سے معلوم ہو تا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کوخود حضرت عمر اپنااور ہر مومن و مومنہ کا مولا سمجھتے تھے۔
تاریخ بغداد میں روایت کے الفاظ یہ ہیں: ”بخٍ بخٍ لک یا بن اٴبِی طالب اٴصبحتَ وَاٴَمسیتَ مولای و مولاکُلّ مسلم“(7) ”اے ابو طالب کے بیٹے مبارک ہو مبارک! آپ آج سے میرے اور ہر مسلمان کے مولا ہوگئے“۔
فیض القدیر اور صواعق محرقہ دونوں کتابوں میں نقل ہوا ہے کہ حضرت ابوبکر اور عمر دونوں نے حضرت علی علیہ السلام سے کہا: ”وَاٴَمسیتَ یابن اٴبی طالبٍ مولی کُلّ موٴمن و موٴمنةٍ“
یہ بات واضح ہے کہ ایک عام دوستی تو سبھی مومنین کے درمیان پائی جاتی تھی، تو پھر اتنا اہتمام کیسا؟! لہٰذا معلوم یہ ہوا کہ یہ اس وقت صحیح ہے جب مولی کے معنی صرف اور صرف حا کم اور خلیفہ ہوں۔
۴۔ حسان بن ثابت کے مذکورہ اشعار بھی اس بات پر بہترین گواہ ہیں کہ جن میں بلند مضامین اور واضح الفاظ میں خلافت کے مسئلہ کو بیان کیا گیا ہے، جن کی بنا پر مسئلہ کافی واضح ہے (آپ حضرات ان اشعار کو ایک مرتبہ پھر پڑھ کر دیکھیں)
۲۔ قرآن کی آیات واقعہ غدیر کی تائید کرتی ہیں
بہت سے مفسرین اورراویوں نے سورہ معارج کی ابتدائی چند آیات: <سَاٴَلَ سَائِلٌ بِعَذَابٍ وَاقِعٍ # لِلْکَافِرینَ لَیْسَ لَہُ دَافِعٌ # مِنْ اللهِ ذِی الْمَعَارِجِ (ایک سائل نے واقع ہونے والے عذاب کا سوال کیا جس کا کافروں کے حق میں کوئی دفع کرنے والا نہیں ہے، یہ بلندیوں والے خدا کی طرف سے ہے،)کی شان نزول کو بیان کیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے:
”پیغمبر اکرم (ص) نے حضرت علی علیہ السلام کو غدیر خم میں خلافت پر منصوب کیا، اوران کے بارے میں فرمایا: ”مَن کُنْتُ مَولَاہُ فَہذَا عَلِیّ مَولاہ“۔ تھوڑی ہی دیر میں یہ خبر عام ہوگئی، نعمان بن حارث فہری (8)(جو کہ منافقوں میں سے تھا ) پیغمبر اکرم (ص) کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کرتا ہے: آپ نے ہمیں حکم دیا کہ خدا کی وحدانیت اور آپ کی رسالت کی گواہی دیں ہم نے گواہی دی، لیکن آپ اس پر بھی راضی نہ ہوئے یہاں تک کہ آپ نے (حضرت علی علیہ السلام کی طرف اشارہ کرکے کہا) اس جوان کو اپنی جانشینی پر منصوب کردیا اور کہا : ”مَن کُنْتُ مَولَاہُ فَہذَا عَلِیّ مَولاہ“۔کیا یہ کام اپنی طرف سے کیا ہے یا خدا کی طرف سے؟ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: اس خداکی قسم جس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے، یہ کام میں نے خدا کی طرف سے انجام دیا ہے“۔
نعمان بن حارث نے اپنا منھ پھیر لیا اور کہا: خداوندا! اگر یہ کام حق ہے اور تیری طرف سے ہے تو مجھ پر آسمان سے پتھر برسا!۔
اچانک آسمان سے ایک پتھر آیا اور اس کے سر پر لگا ، جس سے وہ وہیں ہلاک ہوگیا،اس موقع پر آیہٴ <سَاٴَلَ سَائِلٌ بِعَذَابٍ وَاقِع نازل ہوئی ۔
(قارئین کرام!) مذکورہ روایت کی طرح مجمع البیان میں بھی یہ روایت ابو القاسم حسکانی سے نقل ہوئی ہے(9)، اور اسی مضمون کی روایت بہت سے اہل سنت مفسرین اور راویان حدیث نے مختصر سے اختلاف کے ساتھ نقل کی ہے، منجملہ: قرطبی نے اپنی مشہور تفسیرمیں(10) آلوسی نے اپنی تفسیر روح المعانی میں(11)، اور ابو اسحاق ثعلبی نے اپنی تفسیر میں۔(12)
علامہ امینی علیہ الرحمہ نے کتاب الغدیر میں تیس علمااہل سنت سے ( معہ منابع )اس روایت کو نقل کیا ہے، جن میں سے: سیرہٴ حلبی، فرائد السمطین حموینی، درر السمطین شیخ محمد زرندی، السراج المنیرشمس الدین شافعی، شرح جامع الصغیر سیوطی، تفسیر غریب القرآن حافظ ابوعبید ہروی، اور تفسیر شفاء الصدور ابو بکر نقّاش موصلی ، وغیرہ بھی ہیں۔(13)
 


(1) سورہ مائدہ ، آیت 67
(2)سورہٴ مائدہ ، آیت3
3) فخر رازی اس آیت کے ذیل میں تحریر کرتے ہیں: بہت سے علما(محدثین اور مورخین) نے لکھا ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد پیغمبر اکرم (ص) صرف ۸۱ /دن یا ۸۲/ دن زندہ رہے، (تفسیر کبیر ، جلد ۱۱، صفحہ ۱۳۹) ، تفسیر المنار اور بعض دیگر کتابوں میں یہ بھی تحریر ہے کہ پورا سورہ مائدہ حجة الوداع کے موقع پر نازل ہوا ہے، (المنار ، جلد ۶ صفحہ ۱۱۶) البتہ بعض موٴلفین نے مذکورہ دنوں کی تعداد کم لکھی ہے.
(4)سورہٴ حجرات ، آیت ۱۰
(5)سورہٴ توبہ ، آیت73
(6) مسند احمد ، جلد ۴، صفحہ ۲۸۱ ،(فضائل الخمسہ ، جلد اول، صفحہ ۴۳۲ کی نقل کے مطابق )
(7) تاریخ بغداد ، جلد ۷، صفحہ ۲۹۰
(8) بعض روایات میں ”حارث بن نعمان“ اور بعض روایات میں ”نضر بن حارث“ آیا ہے
(9) مجمع البیان ، جلد ۹و۱۰، صفحہ ۳۵۲
(10) تفسیر قرطبی ، جلد ۱۰، صفحہ ۶۷۵۷
(11) تفسیر آلوسی، ، جلد ۲۹، صفحہ ۵۲
(12) نور ا لابصار شبلنجی ، صفحہ ۷۱ کے نقل کے مطابق
(13) تفسیر پیام قرآن ، جلد ۹، صفحہ ۱۸۱

 

 

https://makarem.ir › 
 
 

جس چیز نے واقعہ غدیر کو جاویدانہ قرار دیا اور اس کی حقیقت کو ثابت کیا ھے وہ اس روز کا ”عید“ قرار پانا ھے۔ روز غدیر، عید شمار ھوتی ھے، اور اس کے شب و روز میں عبادت، خشوع و خضوع، جشن اور غریبوں کے ساتھ نیکی نیز خاندان میں آمد و رفت ھوتی ھے ، اور مومنین اس جشن میں اچھے کپڑے پھنتے اور زینت کرتے ھیں۔

جب مومنین ایسے کاموں کی طرف راغب ھوں تو ان کے اسباب کی طرف متوجہ ھوکر اس کے روایوں کی تحقیق کرتے ھیں اور اس واقعہ کو نقل کرتے ھیں، اشعار پڑھتے ھیں، جس کی وجہ سے ھر سال جوان نسل کی معلومات میں اضافہ ھوتا ھے، اور ھمیشہ اس واقعہ کی سند اور اس سے متعلق احادیث پڑھی جاتی ھیں، جس کے بنا پر وہ ھمیشگی بن جاتی ھیں۔ عید غدیر سے متعلق دو طرح کی بحث کی جاسکتی ھے:

۱۔ شیعوں سے مخصوص نہ ھونا

یہ عید صرف شیعوں سے مخصوص نھیں ھے۔ اگرچہ اس کی نسبت شیعہ خاص اہتمام رکھتے ھیں؛ مسلمانوں کے دیگر فرقے بھی عید غدیر میں شیعوں کے ساتھ شریک ھیں، غیر شیعہ علماء نے بھی اس روز کی فضیلت اور پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی طرف سے حضرت علی علیہ السلام کے مقام ولایت پر فائز ھونے کی وجہ سے عید قرار دینے کے سلسلہ میں گفتگو کی ھے؛ کیونکہ یہ دن حضرت علی علیہ السلام کے چاھنے والوں کے لئے خوشی و مسرت کا دن ھے چاھے آپ کو آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کا بلا فصل خلیفہ مانتے ھوں یا چوتھا خلیفہ۔

بیرونی ”الآثار الباقیة “ میں روز غدیر کو ان دنوں میں شمار کرتے ھیں جس کو مسلمانوں نے عید قرار دیا ھے [1]ابن طلحہ شافعی کہتے ھیں:

”حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے اپنے اشعار میں روز غدیر خم کا ذکر کیا ھے اور اس روز کو عید شمار کیا ھے، کیونکہ اس روز رسول اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے آپ کو اپنا جانشین منصوب کیا اور تمام مخلوقات پر فضیلت دی ھے۔“[2]

نیز موصوف کہتے ھیں:

”لفظ مولا کا جو معنی بھی رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے لئے ثابت کرنا ممکن ھو وھی حضرت علی علیہ السلام کے لئے بھی معین ھے، اور یہ ایک بلند مرتبہ، عظیم منزلت، بلند درجہ اور رفیع مقام ھے جو پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے حضرت علی علیہ السلام سے مخصوص کیا، لہٰذا اولیائے الٰھی کے نزدیک یہ دن عید اور مسرت کا روز قرار پایا ھے۔“[3]

تاریخی کتب سے یہ نتیجہ حاصل ھوتا ھے کہ امت اسلامیہ مشرق و مغرب میں اس دن کے عید ھونے پر متفق ھیں، مصری، مغربی اور عراقی (ایرانی و ھندی) اس روز کی عظمت کے قائل ھیں، اوران کے نزدیک روز غدیر نماز، دعا، خطبہ اور مدح سرائی کا معین دن ھے ،اور اس روز کے عید ھونے پر ان لوگوںکا اتفاق ھے[4]

ابن خلّکان کہتے ھیں:

 ”پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)حجة الوداع میں مکہ سے واپسی میں جب غدیر خم میں پھنچے، اپنے اور علی کے درمیان ”عقد اخوت“ پڑھا، اور ان کو اپنے لئے موسیٰ کے نزدیک ھارون کی طرح قرار دیا اور فرمایا: ”خدا یا! جو ان کی ولایت کو قبول کرے اس کو دوست رکھ اور جو ان کی ولایت کے تحت نہ آئے اور ان سے دشمنی کرے اس کو دشمن رکھ، اور ان کے ناصروں کا مددگار ھوجا، اور ان کو ذلیل کرنے والوں کو رسوا کردے“۔ اور شیعہ اس روز کو خاص اھمیت دیتے ھیں [5]مسعودی نے ابن خلّکان کی گفتگو کی تائید کی ھے، چنانچہ موصوف کہتے ھیں:اولاد علی علیہ السلام اور ان کے شیعہ اس روز کی یاد مناتے ھیں[6]

ثعالبی، شب غدیر کو امت اسلامیہ کے نزدیک مشھور شبوں میں شمار کرتے ھوئے کہتے ھیں:

 ”یہ وہ شب ھے جس کی کل میں پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے غدیر خم میں اونٹوں کے کجاؤں کے منبر پر ایک خطبہ دیا اور فرمایا: ”من کنت مولاہ فعلیّ مولاہ“، اور شیعوں نے اس شب کو محترم شمار کیا ھے اور وہ اس رات میں عبادت اور شب بیداری کرتے ھیں۔“[7]

۲۔ عید غدیر کی ابتدائ

تاریخ کی ورق گرانی سے یہ معلوم ھوتا ھے کہ اس عظیم عید کی ابتداء پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے زمانہ سے ھوئی ھے۔ اس کی شروعات اس وقت ھوئی جب پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے غدیر کے صحرا میں خداوندعالم کی جانب سے حضرت علی علیہ السلام کو امامت و ولایت کے لئے منصوب کیا۔ جس کی بنا پر اس روز ھر مومن شاد و مسرور ھوگیا، اور حضرت علی علیہ السلام کے پاس آکر مبارکباد پیش کی۔ مبارک باد پیش کرنے والوں میں عمر و ابوبکر بھی ھیں جن کی طرف پھلے اشارہ ھوچکا ھے، اور اس واقعہ کو اھم قرار دیتے ھوئے اور اس مبارکباد کی وجہ سے حسان بن ثابت اور قیس بن سعد بن عبادہٴ انصاری وغیرہ نے اس واقعہ کو اپنے اشعار میں بیان کیا ھے۔

غدیر کے پیغامات

اس زمانہ میں بعض افراد ”غدیر کے پیغامات“ کو اسلامی معاشرہ میں نافذ کرنا چاہتے ھیں۔ لہٰذا مناسب ھے کہ اس موضوع کی اچھی طرح تحقیق کی جائے کہ ”غدیر خم “کے پیغامات کیا کیا ھیں ؟ کیا اس کے پیغامات رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی حیات مبارک اور آپ کی وفات کے بعد کے زمانہ سے مخصوص ھیں یا روز قیامت تک ان پر عمل کیا جاسکتا ھے؟ اب ھم یھاں پر غدیر کے پیغام اور نکات کی طرف اشارہ کرتے ھیں جن کی یاددھانی جشن اور محفل کے موقع پر کرانا ضروری ھے:

۱۔ ھر پیغمبر کے بعد ایک ایسی معصوم شخصیت کا ھونا ضروری ھے جو ان کے راستہ کو آگے بڑھائے اور ان کے اغراض و مقاصد کو لوگوں تک پھنچائے، اور کم سے کم دین و شریعت کے ارکان اور مجموعہ کی پاسداری کرے، جیسا کہ رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے اپنے بعد کے لئے ان چیزوں کے لئے جانشین معنی کیا اور ھمارے زمانہ میں ایسی شخصیت حضرت امام مہدی علیہ السلام ھیں۔

۲۔ انبیاء علیھم السلام کا جانشین خداوندعالم کی طرف سے منصوب ھونا چاہئے جن کا تعارف پیغمبر کے ذریعہ ھوتا ھے، جیسا کہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے اپنے بعد کے لئے اپنا جانشین معین کیا؛ کیونکہ مقام امامت ایک الٰھی منصب ھے اور ھر امام خداوندعالم کی طرف سے خاص یا عام طریقہ سے منصوب ھوتا ھے۔

۳۔ غدیر کے پیغامات میں سے ایک مسئلہ رھبری اور اس کے صفات و خصوصیات کا مسئلہ ھے، ھر کس و ناکس اسلامی معاشرہ میں پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کا جانشین نھیں ھوسکتا، رھبر حضرت علی علیہ السلام کی طرح ھو جو پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے راستہ پر ھو، اور آپ کے احکام و فرمان کو نافذ کرے، لیکن اگر کوئی ایسا نہ ھو تو اس کی بیعت نھیں کرنا چاہئے۔ لہٰذا غدیر کا مسئلہ، اسلام کے سیاسی مسائل کے ساتھ متحد ھے۔

چنانچہ ھم ”یمن“ میں ملاحظہ کرتے ھیں کہ چوتھی صدی کے وسط سے جشن غدیر کا مسئلہ پیش آیا اور ھر سال عظیم الشان طریقہ پر یہ جشن منعقد ھوتا رھا، اور مومنین ھر سال اس واقعہ کی یاد تازہ کرتے رھے اور نبوی معاشرہ میں رھبری کے شرائط سے آشنا ھوتے رھے، اگرچہ چند سال سے میں حکومت وقت اس جشن کے اھم فوائد اور پیغامات کی بنا پر اس میں آڑے آنے لگی، یھاں تک کہ ھر سال اس جشن کو منعقد کرنے کے اصرار کی وجہ سے چند لوگ قتل ھوجاتے ھیں، لیکن پھر بھی مومنین اسلامی معاشرہ میں اس جشن کی برکتوں اور فوائد کی وجہ سے اس کو منعقد کرنے پر مصمم ھیں۔

۴۔ غدیر کا ایک ھمیشگی پیغام یہ ھے کہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے بعد اسلامی معاشرہ کا رھبر اور نمونہ حضرت علی علیہ السلام یا ان جیسے ائمہ معصومین میں سے ھو۔ یہ حضرات ھم پر ولایت اور حاکمیت رکھتے ھیں، لہٰذا ھمیں ان حضرات کی ولایت کو قبول کرتے ھوئے ان کی برکات سے فیضیاب ھونا چاہئے۔

۵۔ غدیر اور جشن غدیر ، شیعیت کی نشانی ھے، اور در حقیقت غدیر کا واقعہ اس پیغام کا اعلان کرتا ھے کہ حق (کہ حضرت علی علیہ السلام اور آپ کی اولاد کی محوریت میں ھے) کے ساتھ عہد و پیمان کریں تاکہ کامیابی حاصل ھوجائے۔
۶۔ واقعہ غدیر سے ایک پیغام یہ بھی ملتا ھے کہ انسان کو حق و حقیقت کے پھنچانے کے لئے ھمیشہ کوشش کرنا چاہئے اور حق بیان کرنے میں کوتاھی سے کام نھیں لینا چاہئے؛ کیونکہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)اگرچہ یہ جانتے تھے کہ ان کی وفات کے بعد ان کے وصیت پر عمل نھیں کیا جائے گا، لیکن لوگوں پر حجت تمام کردی، اور کسی بھی موقع پر مخصوصاً حجة الوداع اور غدیر خم میں حق بیان کرنے میں کوتاھی نھیں کی۔
۷۔ روز قیامت تک باقی رھنے والا غدیر کا ایک پیغام اھل بیت علیھم السلام کی دینی مرجعیت ھے، اسی وجہ سے پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے انھیں دنوں میں حدیث ”ثقلین“ کو بیان کیا اور مسلمانوں کو اپنے معصوم اھل بیت سے شریعت اور دینی احکام حاصل کرنے کی رھنمائی فرمائی۔
۸۔ غدیر کا ایک پیغام یہ ھے کہ بعض مواقع پر مصلحت کی خاطر اور اھم مصلحت کی وجہ سے مھم مصلحت کو نظر انداز اور اس کو اھم مصلحت پر قربان کیا جاسکتا ھے۔ حضرت علی علیہ السلام حالانکہ خداوندعالم کی طرف سے اور رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے ذریعہ اسلامی معاشرہ کی رھبری اور مقام خلافت پر منصوب ھوچکے تھے، لیکن جب آپ نے دیکھا کہ اگر میں اپنا حق لینے کے لئے اٹھتا ھوں تو قتل و غارت اور جنگ کا بازار گرم ھوجائے گا اور یہ اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت میں نھیں ھے تو آپ نے صرف وعظ و نصیحت، اتمام حجت اور اپنی مظلومیت کے اظھار کو کافی سمجھا تاکہ اسلام محفوظ رھے؛ کیونکہ حضرت علی علیہ السلام اگر اس کے علاوہ کرتے جو آپ نے کیا تو پھر اسلام اور مسلمانوں کے لئے ایک دردناک حادثہ پیش آتا جس کی تلافی ممکن نھیں تھی، لہٰذا یہ روز قیامت تک امت اسلامیہ کے لئے ایک عظیم سبق ھے کہ کبھی کبھی اھم مصلحت کے لئے مھم مصلحت کو چھوڑا جاسکتا ھے۔
۹۔ اکمال دین، اتمام نعمت اور حق و حقیقت کے بیان اور لوگوں پر اتمام حجت کرنے سے خداوندعالم کی رضایت حاصل ھوتیھے، جیسا کہ آیہٴ شریفہ ”اکمال“ میں اشارہ ھوچکا ھے۔
۱۰۔ تبلیغ اور حق کے بیان کے لئے عام اعلان کیا جائے، اور چھپ کر کام نہ کیا جائے، جیسا کہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے حجة الوداع میں ولایت کا اعلان کیا اور لوگوں کے متفرق ھونے سے پھلے ملاٴ عام میں ولایت کو پھنچا دیا۔
۱۱۔ خلافت، جانشینی اور امت اسلامیہ کی صحیح رھبری کا مسئلہ تمام مسائل میں سر فھرست ھے اور کبھی بھی اس کو ترک نھیں کرنا چاہئے، جیسا کہ رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)حالانکہ مدینہ میں خطرناک بیماری پھیل گئی تھی اور بہت سے لوگوں کو زمین گیر کردیا تھا لیکن آپ نے ولایت کے پھنچانے کی خاطر اس مشکل پر توجہ نھیں کی اور آپ نے سفر کا آغاز کیا اور اس سفر میں اپنے بعد کے لئے جانشینی اور ولایت کے مسئلہ کو لوگوں کے سامنے بیان کیا۔
۱۲۔ اسلامی معاشرہ میں صحیح رھبری کا مسئلہ روح اسلامی اور شریعت کی جان کی طرح ھے کہ اگر اس مسئلہ کو بیان نہ کیا جائے تو پھر اسلامی معاشرہ کے ستون درھم و برھم ھوجائیں گے، لہٰذا خداوندعالم نے اپنے رسول سے خطاب کرتے ھوئے فرمایا:
<۔۔۔وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ۔۔۔>[8]
”اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نھیں پھنچایا۔“
[1] الآثار الباقیة فی القرون الخالیة، ص۳۳۴۔
[2] مطالب السوٴول، ص۵۳۔
[3] مطالب السوٴول، ص۵۶۔
[4] وفیات الاعیان، ابن خلکان، ج۱، ص۶۰ و ج۲، ص۲۲۳۔
[5] وفیات الاعیان، ابن خلکان، ج۱، ص۶۰ و ج۲، ص۲۲۳۔
[6] التنبیہ و الإشراف، مسعودی، ص۲۲۱۔
[7] ثمار القلوب، ثعالبی، ص۵۱۱۔
[8] سورہ مائدہ، آیت ۶۷۔
 

 


source : http://www.al-shia.org/

اگر چہ پوری اسلامی دنیا میں ہم شیعوں کا ہی واقعہ غدیر سے گہرا رابطہ ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ مسئلہ غدیر فقط شیعوں سے ہی مخصوص نہیں ہے بلکہ پورے عالم اسلام سے متعلق ہے ۔

مرسل اعظم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اخری حج کی واپسی پر میدان غدیر خم میں وہ واقعہ رونما ہوا جس کا ایک گوشہ کفار سے متعلق تو دوسرا گوشہ مسلمانوں سے متعلق تھا ، قران کریم کے بیان کے مطابق اس دن کفار نا امید ہوگئے اور مسلمانوں کے لئے دین کامل ہوگیا «الْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ دِينِكُمْ ؛ اج کفار تمہارے دین سے مایوس ہوگئے» ۔ [1] یعنی کفار واقعہ غدیر کی وجہ سے اسلامی معاشرہ میں رخنہ اندازی سے مایوس ہوگئے ۔  

مرسل اعظم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی موجودی اور اپ کی حیات میں کفار و یہود میں جرائت نہیں تھی کہ دین اسلام میں کسی قسم کی تحریف لاسکیں چونکہ وہ براہ راست رسول خدا (ص) کے سخت عکس سے روبرو ہوتے ، اسی بنیاد پر انہیں گمان اور ان کی خام خیالی تھی کہ رسول خدا (ص) کی رحلت کے بعد شاید دین اسلام کو اپنے حق میں تحریف اور بدل سکیں گے کیوں کہ ماضی کی شریعتوں کے مخالفین اس عمل کو انجام دے چکے تھے ، توریت و زبور و انجیل اپنے حقیقی معانی اور الھی مفاھیم سے کوسوں دور ہوچکی تھی ، خداوند متعال نے قران کریم میں اس حقیقت سے پردہ اٹھاتے ہوئے فرمایا : «مِنَ الَّذينَ هادُوا يُحَرِّفُونَ الْکَلِمَ عَنْ مَواضِعِهِ ؛ یہودیوں میں وہ لوگ بھی ہیں جو کلمات الٰہٰیہ کو ان کی جگہ سے ہٹا دیتے ہیں » ۔[2]

مگر واقعہ غدیر خم نے کفار کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ، ان کی تدبیروں کو الٹ کر رکھ دیا کیوں کہ خداوند متعال نے ایسی شخصیت کو اپنے حبیب اور اخری رسول (ص) کا جانشین و خلیفہ مقرر کیا جو نبی کا روح و جان تھا اور انہیں کے مانند دین میں ہرگز تحریف نہ کرنے دیتا ، جیسا کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا : «لكُلِّ نَبِيٍّ وَصِيٌّ وَ وَارِثٌ وَ إِنَّ عَلِيّاً وَصِيِّي وَ وَارِثِی ؛ ہر نبی کے لئے وصی اور وارث ہے اور یقینا میرے وصی اور وارث علی ہیں»  [3]

اس واقعہ کا دوسرا رخ اور خطاب عام مسلمان ہیں کیوں کہ خداوند متعال نے فرمایا ہم نے اج کے دن دین کامل کردیا ، یعنی غدیر کے وسیلہ دین اسلام پر کمال کی مہر لگا دی گئی کیوں کہ دین اسلام کو معاشرہ مسائل کے حل اور لوگوں کے سوالات و شبہات کے جوابات دینے کے لئے ایک امام اور ہادی کی ضرورت تھی جو علم و حلم میں تمام مسلمانوں میں برتر ہو اور رسول خدا (ص) کے بعد معاشرہ کی تمام ضرورتوں کو پورا کرسکے اور ان کے تمام سوالات کے جوابات دے سکے کہ اس کام کے لئے امیرالمومنین علی ابن طالب علیہ السلام کے سوا کوئی اور شخصیت و ذات موجود نہ تھی ، [4] کیوں کہ خلفاء مسائل اور مشکلات کے حل اور سوالات کے جوابات دریافت کرنے کے لئے خود اور لوگوں کو بھی اپ کے پاس بھیجا کرتے تھے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ:

[1]. قران کریم ، سورہ مائده ، ایت 3.

[2]. قران کریم ، سورہ نساء ، ایت 46.

[3]. خوارزمی، مناقب الامام امیرالمومنین(ع) ، ص86.

[4]. متقی هندی، کنزالعمال، ج11، ص614.

 

ایکنا نیوز- نیوز چینل الجزیره کے مطابق برطانوی صحافی رابرٹ کارٹر نے قرآن پاک کی حرمت شکنی کی اجازت کو جرمنی نازی کی پالیسی کی مانند قرار دیا جب وہ ان کتابوں کو آئیڈیالوجیکل مخالف قرار دیتے ہوئے جلا دیتے تھے۔

 کارٹر نے اس مظاہرے میں جو لندن میں سوئیڈن کے سفارت خانے کے مقابل انجام پائے تھے جوشیلے خطاب میں قرآن سوزی کی اجازت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔

انہوں نے سوئیڈن کی حکومت کو خطاب میں کہا: اسلام سے غیر منطقی خوف اور مسلمان مہاجرین کا ڈر ایک شرم آور اور خلاف حقیقت امر ہے۔

کارٹر کا کہنا تھا: تم اظھار آزادی کا دعویدار ہو لیکن ادبیات، شعر اور عظیم ترین پیام کی حامل کتاب کو تم نے جلایا اور جرمن نازیسم کو ترویج دیں رہے ہو۔

کارٹر کا کہنا تھا: حققیت یہ ہے کہ مسلمانوں نے کافی صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا اور انکو مختلف ممالک میں تحقیر کا نشانہ بنایا گیا اور انکی خواتین سے حجاب کو زبردستی اتارا گیا۔

کارٹر کی تقریر کو سوشل میڈیا نے خوب کوریج دیا اور مختلف لوگوں نے قرآن سوزی کی مذمت میں انکے جوشیلے خطاب کو سراہا ہے۔/

 خبررساں ادارے الریاض کے مطابق پاکستان کے صدر عارف علوی، نے ہفتے کی شام مسجدالنبی میں حاضری دی اور روضہ رسول اسلام کے پاس دعا کے بعد نماز ادا کی۔

مسجدالنبی کے بعض اعلی حکام اور سیکورٹی اہلکار بھی اس موقع پر انکے ساتھ موجود تھے۔

 

صدر مملکت نے مناسک حج کی سعادت کے بعد مکه مکرمه سے مدینہ کا رخ کیا جہاں رسول اکرم(ص) کی زیارت کی سعادت حاصل کی۔

 

بنگلہ دیش کے صدر محمد شهاب‌الدین، نے بھی مکہ میں مناسک حج کے بعد مدینه منورهمیں زیارت مسجدالنبی کی سعادت حاصل کی ہے۔

 

بنگلہ دیشی صدر نے بھی روضہ رسول اکرم(ص) کے قریب جاکر دعا و مناجات کی اور نفل نماز ادا کی۔/