جس چیز نے واقعہ غدیر کو جاویدانہ قرار دیا اور اس کی حقیقت کو ثابت کیا ھے وہ اس روز کا ”عید“ قرار پانا ھے۔ روز غدیر، عید شمار ھوتی ھے، اور اس کے شب و روز میں عبادت، خشوع و خضوع، جشن اور غریبوں کے ساتھ نیکی نیز خاندان میں آمد و رفت ھوتی ھے ، اور مومنین اس جشن میں اچھے کپڑے پھنتے اور زینت کرتے ھیں۔
جب مومنین ایسے کاموں کی طرف راغب ھوں تو ان کے اسباب کی طرف متوجہ ھوکر اس کے روایوں کی تحقیق کرتے ھیں اور اس واقعہ کو نقل کرتے ھیں، اشعار پڑھتے ھیں، جس کی وجہ سے ھر سال جوان نسل کی معلومات میں اضافہ ھوتا ھے، اور ھمیشہ اس واقعہ کی سند اور اس سے متعلق احادیث پڑھی جاتی ھیں، جس کے بنا پر وہ ھمیشگی بن جاتی ھیں۔ عید غدیر سے متعلق دو طرح کی بحث کی جاسکتی ھے:
۱۔ شیعوں سے مخصوص نہ ھونا
یہ عید صرف شیعوں سے مخصوص نھیں ھے۔ اگرچہ اس کی نسبت شیعہ خاص اہتمام رکھتے ھیں؛ مسلمانوں کے دیگر فرقے بھی عید غدیر میں شیعوں کے ساتھ شریک ھیں، غیر شیعہ علماء نے بھی اس روز کی فضیلت اور پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی طرف سے حضرت علی علیہ السلام کے مقام ولایت پر فائز ھونے کی وجہ سے عید قرار دینے کے سلسلہ میں گفتگو کی ھے؛ کیونکہ یہ دن حضرت علی علیہ السلام کے چاھنے والوں کے لئے خوشی و مسرت کا دن ھے چاھے آپ کو آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کا بلا فصل خلیفہ مانتے ھوں یا چوتھا خلیفہ۔
بیرونی ”الآثار الباقیة “ میں روز غدیر کو ان دنوں میں شمار کرتے ھیں جس کو مسلمانوں نے عید قرار دیا ھے [1]ابن طلحہ شافعی کہتے ھیں:
”حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے اپنے اشعار میں روز غدیر خم کا ذکر کیا ھے اور اس روز کو عید شمار کیا ھے، کیونکہ اس روز رسول اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے آپ کو اپنا جانشین منصوب کیا اور تمام مخلوقات پر فضیلت دی ھے۔“[2]
نیز موصوف کہتے ھیں:
”لفظ مولا کا جو معنی بھی رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے لئے ثابت کرنا ممکن ھو وھی حضرت علی علیہ السلام کے لئے بھی معین ھے، اور یہ ایک بلند مرتبہ، عظیم منزلت، بلند درجہ اور رفیع مقام ھے جو پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے حضرت علی علیہ السلام سے مخصوص کیا، لہٰذا اولیائے الٰھی کے نزدیک یہ دن عید اور مسرت کا روز قرار پایا ھے۔“[3]
تاریخی کتب سے یہ نتیجہ حاصل ھوتا ھے کہ امت اسلامیہ مشرق و مغرب میں اس دن کے عید ھونے پر متفق ھیں، مصری، مغربی اور عراقی (ایرانی و ھندی) اس روز کی عظمت کے قائل ھیں، اوران کے نزدیک روز غدیر نماز، دعا، خطبہ اور مدح سرائی کا معین دن ھے ،اور اس روز کے عید ھونے پر ان لوگوںکا اتفاق ھے[4]
ابن خلّکان کہتے ھیں:
”پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)حجة الوداع میں مکہ سے واپسی میں جب غدیر خم میں پھنچے، اپنے اور علی کے درمیان ”عقد اخوت“ پڑھا، اور ان کو اپنے لئے موسیٰ کے نزدیک ھارون کی طرح قرار دیا اور فرمایا: ”خدا یا! جو ان کی ولایت کو قبول کرے اس کو دوست رکھ اور جو ان کی ولایت کے تحت نہ آئے اور ان سے دشمنی کرے اس کو دشمن رکھ، اور ان کے ناصروں کا مددگار ھوجا، اور ان کو ذلیل کرنے والوں کو رسوا کردے“۔ اور شیعہ اس روز کو خاص اھمیت دیتے ھیں [5]مسعودی نے ابن خلّکان کی گفتگو کی تائید کی ھے، چنانچہ موصوف کہتے ھیں:اولاد علی علیہ السلام اور ان کے شیعہ اس روز کی یاد مناتے ھیں[6]
ثعالبی، شب غدیر کو امت اسلامیہ کے نزدیک مشھور شبوں میں شمار کرتے ھوئے کہتے ھیں:
”یہ وہ شب ھے جس کی کل میں پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے غدیر خم میں اونٹوں کے کجاؤں کے منبر پر ایک خطبہ دیا اور فرمایا: ”من کنت مولاہ فعلیّ مولاہ“، اور شیعوں نے اس شب کو محترم شمار کیا ھے اور وہ اس رات میں عبادت اور شب بیداری کرتے ھیں۔“[7]
۲۔ عید غدیر کی ابتدائ
تاریخ کی ورق گرانی سے یہ معلوم ھوتا ھے کہ اس عظیم عید کی ابتداء پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے زمانہ سے ھوئی ھے۔ اس کی شروعات اس وقت ھوئی جب پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے غدیر کے صحرا میں خداوندعالم کی جانب سے حضرت علی علیہ السلام کو امامت و ولایت کے لئے منصوب کیا۔ جس کی بنا پر اس روز ھر مومن شاد و مسرور ھوگیا، اور حضرت علی علیہ السلام کے پاس آکر مبارکباد پیش کی۔ مبارک باد پیش کرنے والوں میں عمر و ابوبکر بھی ھیں جن کی طرف پھلے اشارہ ھوچکا ھے، اور اس واقعہ کو اھم قرار دیتے ھوئے اور اس مبارکباد کی وجہ سے حسان بن ثابت اور قیس بن سعد بن عبادہٴ انصاری وغیرہ نے اس واقعہ کو اپنے اشعار میں بیان کیا ھے۔
غدیر کے پیغامات
اس زمانہ میں بعض افراد ”غدیر کے پیغامات“ کو اسلامی معاشرہ میں نافذ کرنا چاہتے ھیں۔ لہٰذا مناسب ھے کہ اس موضوع کی اچھی طرح تحقیق کی جائے کہ ”غدیر خم “کے پیغامات کیا کیا ھیں ؟ کیا اس کے پیغامات رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی حیات مبارک اور آپ کی وفات کے بعد کے زمانہ سے مخصوص ھیں یا روز قیامت تک ان پر عمل کیا جاسکتا ھے؟ اب ھم یھاں پر غدیر کے پیغام اور نکات کی طرف اشارہ کرتے ھیں جن کی یاددھانی جشن اور محفل کے موقع پر کرانا ضروری ھے:
۱۔ ھر پیغمبر کے بعد ایک ایسی معصوم شخصیت کا ھونا ضروری ھے جو ان کے راستہ کو آگے بڑھائے اور ان کے اغراض و مقاصد کو لوگوں تک پھنچائے، اور کم سے کم دین و شریعت کے ارکان اور مجموعہ کی پاسداری کرے، جیسا کہ رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے اپنے بعد کے لئے ان چیزوں کے لئے جانشین معنی کیا اور ھمارے زمانہ میں ایسی شخصیت حضرت امام مہدی علیہ السلام ھیں۔
۲۔ انبیاء علیھم السلام کا جانشین خداوندعالم کی طرف سے منصوب ھونا چاہئے جن کا تعارف پیغمبر کے ذریعہ ھوتا ھے، جیسا کہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے اپنے بعد کے لئے اپنا جانشین معین کیا؛ کیونکہ مقام امامت ایک الٰھی منصب ھے اور ھر امام خداوندعالم کی طرف سے خاص یا عام طریقہ سے منصوب ھوتا ھے۔
۳۔ غدیر کے پیغامات میں سے ایک مسئلہ رھبری اور اس کے صفات و خصوصیات کا مسئلہ ھے، ھر کس و ناکس اسلامی معاشرہ میں پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کا جانشین نھیں ھوسکتا، رھبر حضرت علی علیہ السلام کی طرح ھو جو پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے راستہ پر ھو، اور آپ کے احکام و فرمان کو نافذ کرے، لیکن اگر کوئی ایسا نہ ھو تو اس کی بیعت نھیں کرنا چاہئے۔ لہٰذا غدیر کا مسئلہ، اسلام کے سیاسی مسائل کے ساتھ متحد ھے۔
چنانچہ ھم ”یمن“ میں ملاحظہ کرتے ھیں کہ چوتھی صدی کے وسط سے جشن غدیر کا مسئلہ پیش آیا اور ھر سال عظیم الشان طریقہ پر یہ جشن منعقد ھوتا رھا، اور مومنین ھر سال اس واقعہ کی یاد تازہ کرتے رھے اور نبوی معاشرہ میں رھبری کے شرائط سے آشنا ھوتے رھے، اگرچہ چند سال سے میں حکومت وقت اس جشن کے اھم فوائد اور پیغامات کی بنا پر اس میں آڑے آنے لگی، یھاں تک کہ ھر سال اس جشن کو منعقد کرنے کے اصرار کی وجہ سے چند لوگ قتل ھوجاتے ھیں، لیکن پھر بھی مومنین اسلامی معاشرہ میں اس جشن کی برکتوں اور فوائد کی وجہ سے اس کو منعقد کرنے پر مصمم ھیں۔
۴۔ غدیر کا ایک ھمیشگی پیغام یہ ھے کہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے بعد اسلامی معاشرہ کا رھبر اور نمونہ حضرت علی علیہ السلام یا ان جیسے ائمہ معصومین میں سے ھو۔ یہ حضرات ھم پر ولایت اور حاکمیت رکھتے ھیں، لہٰذا ھمیں ان حضرات کی ولایت کو قبول کرتے ھوئے ان کی برکات سے فیضیاب ھونا چاہئے۔
۵۔ غدیر اور جشن غدیر ، شیعیت کی نشانی ھے، اور در حقیقت غدیر کا واقعہ اس پیغام کا اعلان کرتا ھے کہ حق (کہ حضرت علی علیہ السلام اور آپ کی اولاد کی محوریت میں ھے) کے ساتھ عہد و پیمان کریں تاکہ کامیابی حاصل ھوجائے۔
۶۔ واقعہ غدیر سے ایک پیغام یہ بھی ملتا ھے کہ انسان کو حق و حقیقت کے پھنچانے کے لئے ھمیشہ کوشش کرنا چاہئے اور حق بیان کرنے میں کوتاھی سے کام نھیں لینا چاہئے؛ کیونکہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)اگرچہ یہ جانتے تھے کہ ان کی وفات کے بعد ان کے وصیت پر عمل نھیں کیا جائے گا، لیکن لوگوں پر حجت تمام کردی، اور کسی بھی موقع پر مخصوصاً حجة الوداع اور غدیر خم میں حق بیان کرنے میں کوتاھی نھیں کی۔
۷۔ روز قیامت تک باقی رھنے والا غدیر کا ایک پیغام اھل بیت علیھم السلام کی دینی مرجعیت ھے، اسی وجہ سے پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے انھیں دنوں میں حدیث ”ثقلین“ کو بیان کیا اور مسلمانوں کو اپنے معصوم اھل بیت سے شریعت اور دینی احکام حاصل کرنے کی رھنمائی فرمائی۔
۸۔ غدیر کا ایک پیغام یہ ھے کہ بعض مواقع پر مصلحت کی خاطر اور اھم مصلحت کی وجہ سے مھم مصلحت کو نظر انداز اور اس کو اھم مصلحت پر قربان کیا جاسکتا ھے۔ حضرت علی علیہ السلام حالانکہ خداوندعالم کی طرف سے اور رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے ذریعہ اسلامی معاشرہ کی رھبری اور مقام خلافت پر منصوب ھوچکے تھے، لیکن جب آپ نے دیکھا کہ اگر میں اپنا حق لینے کے لئے اٹھتا ھوں تو قتل و غارت اور جنگ کا بازار گرم ھوجائے گا اور یہ اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت میں نھیں ھے تو آپ نے صرف وعظ و نصیحت، اتمام حجت اور اپنی مظلومیت کے اظھار کو کافی سمجھا تاکہ اسلام محفوظ رھے؛ کیونکہ حضرت علی علیہ السلام اگر اس کے علاوہ کرتے جو آپ نے کیا تو پھر اسلام اور مسلمانوں کے لئے ایک دردناک حادثہ پیش آتا جس کی تلافی ممکن نھیں تھی، لہٰذا یہ روز قیامت تک امت اسلامیہ کے لئے ایک عظیم سبق ھے کہ کبھی کبھی اھم مصلحت کے لئے مھم مصلحت کو چھوڑا جاسکتا ھے۔
۹۔ اکمال دین، اتمام نعمت اور حق و حقیقت کے بیان اور لوگوں پر اتمام حجت کرنے سے خداوندعالم کی رضایت حاصل ھوتیھے، جیسا کہ آیہٴ شریفہ ”اکمال“ میں اشارہ ھوچکا ھے۔
۱۰۔ تبلیغ اور حق کے بیان کے لئے عام اعلان کیا جائے، اور چھپ کر کام نہ کیا جائے، جیسا کہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے حجة الوداع میں ولایت کا اعلان کیا اور لوگوں کے متفرق ھونے سے پھلے ملاٴ عام میں ولایت کو پھنچا دیا۔
۱۱۔ خلافت، جانشینی اور امت اسلامیہ کی صحیح رھبری کا مسئلہ تمام مسائل میں سر فھرست ھے اور کبھی بھی اس کو ترک نھیں کرنا چاہئے، جیسا کہ رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)حالانکہ مدینہ میں خطرناک بیماری پھیل گئی تھی اور بہت سے لوگوں کو زمین گیر کردیا تھا لیکن آپ نے ولایت کے پھنچانے کی خاطر اس مشکل پر توجہ نھیں کی اور آپ نے سفر کا آغاز کیا اور اس سفر میں اپنے بعد کے لئے جانشینی اور ولایت کے مسئلہ کو لوگوں کے سامنے بیان کیا۔
۱۲۔ اسلامی معاشرہ میں صحیح رھبری کا مسئلہ روح اسلامی اور شریعت کی جان کی طرح ھے کہ اگر اس مسئلہ کو بیان نہ کیا جائے تو پھر اسلامی معاشرہ کے ستون درھم و برھم ھوجائیں گے، لہٰذا خداوندعالم نے اپنے رسول سے خطاب کرتے ھوئے فرمایا:
<۔۔۔وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ۔۔۔>[8]
”اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نھیں پھنچایا۔“
[1] الآثار الباقیة فی القرون الخالیة، ص۳۳۴۔
[2] مطالب السوٴول، ص۵۳۔
[3] مطالب السوٴول، ص۵۶۔
[4] وفیات الاعیان، ابن خلکان، ج۱، ص۶۰ و ج۲، ص۲۲۳۔
[5] وفیات الاعیان، ابن خلکان، ج۱، ص۶۰ و ج۲، ص۲۲۳۔
[6] التنبیہ و الإشراف، مسعودی، ص۲۲۱۔
[7] ثمار القلوب، ثعالبی، ص۵۱۱۔
[8] سورہ مائدہ، آیت ۶۷۔
source : http://www.al-shia.org/