سلیمانی

سلیمانی

رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ہفتہ وحدت کی مناسبت سے ایران بھر کے اہل سنت ائمہ جمعہ اور مدارس کے سربراہان سے ملاقات کی اور امت اسلامی کا تشخص برقرار رکھنے کی ضرورت پر تاکید کی اور کہا کہ دشمن امت اسلامی کا تشخص مٹانے کی مذموم سازش کررہے ہیں لہذا اس موضوع کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ امت اسلامی کا تشخص برقرار رکھنا قومی تشخص سے بھی زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ جغرافیائی سرحدیں امت اسلامی کے تشخص کو ختم نہیں کرسکتی ہیں۔ دشمن مسلمانوں کو اسلامی تشخص سے محروم کرنے کی سازشیں کررہے ہیں۔ غزہ اور دیگر مقامات پر مسلمانوں کی مشکلات سے دوسرے مسلمانوں کو درد محسوس نہ ہونا اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔

رہبر معظم نے اہل سنت علماء کو اسلامی تشخص پر تکیہ کرنے کی تاکید کرتے ہوئے کہا کہ دشمن عالم اسلام مخصوصا ایران میں مذہبی اختلافات کو ہوا دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ دشمن اسلامی ممالک میں مختلف وسائل استعمال کرتے ہوئے شیعہ اور سنی کے درمیان جدائی ڈالنے میں مصروف ہیں۔ اس کام کے لئے بعض افراد کو دوسرے فرقے کے بارے میں بدگوئی اور توہین جیسے کاموں کے لئے تیار کررہے ہیں۔

انہوں نے ان سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لئے وحدت اور اتحاد پر تاکید کی اور کہا کہ وحدت قرآنی اصولوں میں سے ایک ہے۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے کہا کہ دشمن کی سازشوں کے باوجود اہل سنت برادری نے بھرپور مقابلہ کیا ہے۔ دفاع مقدس کے دوران اور دیگر مواقع پر 15 ہزار سے زائد اہل سنت حق اور انقلاب کی حفاظت کے لئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ امت اسلامی کی عزت بچانے کا طریقہ اتحاد ہے۔ آج غزہ اور فلسطینی مظلوم عوام کی حمایت قطعی واجبات میں سے ہے۔ اگر کوئی اس وظیفے پر عمل کرنے میں سرکشی کرے تو اللہ اس سے ضرور سوال کرے گا۔

ملاقات کے دوران سیستان و بلوچستان سے تعلق رکھنے والے اہل سنت عالم دین مولوی عبدالرحمن چابھاری، ہرمزگان سے تعلق رکھنے والے مولوی عبدالرحیم خطیبی اور مغربی آذربائجان سے تعلق رکھنے والے ماموستا عبدالسلام امامی نے بھی گفتگو کی اور اہل سنت برادری کی حمایت اور امت مسلمہ کی وحدت کے لئے کوششوں پر رہبر معظم کا شکریہ ادا کیا اور تکفیری افکار اور انتہاپسندی سے مقابلہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔

ؤ

ارنا کے مطابق صدر ایران ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے آج پیر کو  اپنی پہلی پریس کانفرنس میں 300 سے زائد ملکی اور غیر ملکی نامہ نگاروں سے کہا کہ مجھ سے سوال کیا  جارہا تھا کہ پریس کانفرنس کیوں نہیں کررہے ہیں میں کہتا تھا کہ کچھ کام کرلوں اس کے بعد پریس کانفرنس کروں گا۔

 انھوں نے کہا کہ پہلی پریس کانفرنس کے لئے جس دن کا انتخاب کیا گیا ہے کہ وہ ہمارے نظریئے سے مطابقت رکھتا ہے ، یہ ہفتہ وحدت کے آغاز کا دن ہے اور میرا نظریہ، یہ ہے کہ اس ملک میں رہنے والے سبھی لوگوں کو یہ حق حاصل ہے کہ قومیت اور نسل سے ماورا ہوکر اپنی توانائی اور صلاحیتوں کے مطابق ان کو جگہ ملے ۔

 انھوں نے کہا کہ رسول خدا جب مدینے پہنچے ہیں تو اس وقت اہل مدینہ میں کافی اختلافات تھے۔

انھوں نے کہا کہ حضرت علی نے فرمایا کہ ہے کہ سارے انسان، آدم سے لے کر آج تک ایک کنگھی کے دندانوں کی طرح ہیں۔ کسی بھی عرب کو عجم پر یا گورے کو کالے پر کوئی برتری حاصل نہیں ہے،اسلام میں صرف اس کو برتری حاصل ہے جس کا تقوی زیادہ ہے۔  

انھوں نے کہا کہ ہم نے اتحادویک جہتی کو اپنے کام کی بنیاد قرار دیا ہے اور قومی وفاق کے ساتھ آگے بڑھنے کی کوشش کی ہے۔

 صدر مملکت نے اس پریس کانفرنس میں پارلیمان کے تعاون کا ذکر کیا اور اس کی قدردانی کی۔

صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے کہا کہ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بھی بہت مدد کی ہے جس کے نتیجے میں ہم قومی وفاق کی حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

صدر مملکت نے ایک نامہ نگار کے اس سوال کے جواب میں کہ ان کی حکومت عوام کے معاشی مسائل کو حل کرنے میں کیسے کامیاب ہوگی، کہا  کہ پابندیوں کے خاتمے کے لئے ہم ایف اے ٹی ایف کے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کریں گے۔   

انھوں نے دنیا سے ایران کے روابط کے بارے میں  کہا کہ ہم ترجیحی بنیاد پر پہلے اپنے پڑوسیوں سے روابط مزید بہتر کریں گے ۔

صدرڈاکٹر مسعود پزشکیان نے اس حوالے سے اپنے دورہ عراق کا ذکر کیا اور کہا کہ بغداد اورعراق کے کردستان ریجن کے حکام کے ساتھ ملاقاتوں میں اس بات پر اتفاق ہوا ہے کہ اپنے مشترکہ اسٹریٹیجک منصوبوں  اور پروگراموں کو تحریر میں لائیں اور ان کے مطابق آگے بڑھیں۔   

 صدر ایران نے کہا کہ یہی طرزعمل اور راستہ ہم  پاکستان، ترکمنستان ، آذربائیجان اور ترکیہ نیز دیگر پڑوسی ملکوں کے ساتھ روابط کے تعلق سے بھی اپنائیں گے۔

   انھوں نے چین کے نامہ نگآر کے سوال  کے جواب میں کہا کہ اس وقت ہمارے روابط چین، روس اور دیگر پڑوسی ملکوں کے ساتھ بہت اچھے ہیں۔

صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے ایک نامہ نگار کے سوال کے جواب کہا کہ میرے ذہن ميں ہمیشہ یہ بات رہی ہے کہ ہم مسلمان ملکوں کے باہمی روابط ایسے کیوں نہ  ہوں کہ دوسرے انہیں حسرت کی نگاہ سے دیکھیں۔

انھوں نے کہا کہ رسول نے فرمایا ہے کہ مسلمین ایک دوسرے کے بھائی ہیں تو ہمارے درمیان تعلقات کے فروغ میں یہ سرحدیں کیوں حائل رہیں؟ وہ اپنی حکومت اور اپنا قومی اقتدار اعلی رکھیں اور ہم اپنی حکومت اور اپنا قومی اقتداراعلی رکھیں لیکن مثال کے طور جو لوگ پاکستان، افغانستان، قزاقستان میں یا ایران میں ہیں وہ آسانی کے ساتھ ٹرین میں بیٹھ کر نجف، کربلا،مکے ، مدینے اور استنبول کیوں نہیں جاسکتے؟

انھوں نے کہا کہ اگر ہم نے آپس میں ایک دوسرے کے ہاں آمدورفت کو آسان بنادیا یعنی ایک دوسرے کے سلامتی کی حفاظت کو یقینی بنادیا اور اس طرح اپنے اقتصادی اور ‍ثقافتی روابط کو توسیع دی ، اپنے بازاروں کو ترقی دی اور ہمارا نقطہ نگاہ اور ہماری بات ایک ہوگئ تو ہم ان کے مقابلے میں ڈٹ جائيں گے جو ہمارے خلاف کچھ کرنا چاہیں گے۔

صدر ایران نے الجزیرہ کے نامہ نامہ گار کے اس سوال کے جواب ميں کہ کہ ماہرین کہتے ہیں کہ ایران نے انصاراللہ یمن کو ہائپر سونک میزائل دیئے ہیں یا یمنیوں کو اس کی ٹیکنالوجی دی ہے، کیا ایران نے غزہ اور اسرائیل کی جںگ کے دوران یمن کو ہائپر سونک میزائل  دیئے ہیں کہا کہ یمن تک افرادی قوت پہنچنے میں ایک ہفتہ لگ جاتا ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ یہاں سے یمن  میزائل پہنچ جائيں اور انہیں نظر بھی نہ آئيں؟

ڈاکٹر پزشکیان نے کہا کہ یمن نے جس نوعیت کا ہائپر سونک میزائل اسرائیل کے خلاف استعمال کیا ہے، وہ ہمارے پاس  نہیں ہے۔

 انھوں نے کہا کہ یمنیوں نے جو دفاعی  توانائی اپنے اندر پیدا کرلی ہے وہ ایک دو دن، چند ہفتے حتی ایک سال دوسال میں بھی ممکن نہیں ہے۔ ایک سال کی جںگ  میں بھی یہ توانائی حاصل نہیں ہوسکتی۔

صدر ایران نے کہا  کہ ہمارے اندر ہم آہنگی پائی جاتی ہے، ہم ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں،اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینی عوام کی نسل کشی پر معترض ہیں اور اس حوالے سے ہمارا نظریہ ایک ہے۔

 انھوں نے کہا کہ اسرائلی حکومت دنیا والوں کی نگاہوں کے سامنے مظلوم فلسطینی عوام کا قتل عام اور ان کی نسل کشی کررہی ہے اور کوئی اعتراض بھی نہیں کررہا ہے۔ اگر مغرب کو اسرائیل کی سلامتی کی فکر ہے تو غزہ اور فلسطین کی فکر کیوں نہیں ہے؟

صدر ایران ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے کہا کہ دنیا کو اس بات کی اجازت نہيں دینا چاہئے کہ  ایک گروہ (صیہونیوں کا گروہ) بے گناہ عوام کی نسل کشی کرے۔ اس کے بجائے انہیں اس کی فکر ہے کہ ایران نے یمن کو میزائل دیئے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ مغرب اچھی طرح جانتا ہے کہ ایران یمن کو میزائل دے ہی نہیں سکتا۔ ہمارے پاس میزائلی توانائی ہے لیکن ہم نے یمن کو میزائل نہیں دیئے ہیں۔

صدر ایران نے کہا کہ جنگ سے پہلے ہی یمن نے میزائل بنانے کی توانائی حاصل کرلی تھی۔

  ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے کہا کہ طاقت کے مقابلے میں طاقت حاصل کرنا ضروری ہے۔ ہمیں اپنے عوام اور ملک کی سلامتی کے تحفظ کے لئے دفاعی طاقت کی ضرورت ہے۔ ہم نے کبھی بھی جنگ شروع نہیں کی ہے ۔ آپ گزشتہ 200 سال کی تاریخ دیکھیں۔

صدر ایران نے کہا کہ  عوام کے دفاع کے لئے جو دفاعی طاقت ہم نے حاصل کی ہے اس کو باقی رکھیں گے الایہ کہ سبھی اپنے اسلحے ختم کردیں۔

 انھوں نے کہا کہ ہمارے درمیان اتحاد ہونا چاہئے اختلاف نہیں۔ ہر ایک کو اس کا حق ملنا چاہئے۔ پڑوسیوں سے ہم یہی کہتے ہیں کہ گفتگو کریں لڑائی نہ کریں۔

 انھوں نے کہا کہ ایسا نہیں ہے کہ اگر ہم دنیا سے گفتگو اور معاملہ کریں گے تو اپنے دوستوں کو فراموش کردیں گے۔

 صدر ایران نے کہا کہ روس بھی ہمارا پڑوسی ہے ۔ اس کے ساتھ ہمارے اقتصادی سماجی اور اسٹریٹیجک روابط ہیں ۔

انھوں نے کہا کہ شہید رئیسی کا جو نقطہ نگاہ تھا ہم اس کو آپریشنل کریں گے۔ ہمیں یقین ہے کہ علاقائی اور برکس کے رکن ملکوں کے ساتھ ہمارے تعلقات اچھے ہوں گے اور جو غیر منصفانہ پابندیاں ہم پر لگائی گئی ہیں وہ موثر نہیں ہوں گی۔

ڈاکٹر مسعود پزشکیان  نے کہا کہ ہم دوسروں سے اختلاف رکھنا اور روابط منقطع کرنا نہیں چاہتے لیکن ہمیں یہ بھی منظور نہیں ہے کہ کوئی ہمارے ساتھ زور زبرستی کرے ۔ ہم زور زبرستی ہرگز قبول نہیں کریں گے۔

 صدر ایران نے کہا کہ ہم امریکا کے دورے کا پروگرام بنارہے  ہیں اور اپنے عوام کے حقوق کا دفاع کریں گے۔

صدر ایران نے اس دورے میں ، امریکی صدر سے ملاقات کے امکان کے بارے  میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ پہلے وہ اپنا خلوص نیت ثابت کریں اور ہم دیکھیں گے کہ وہ اپنے وعدوں کے پابند ہیں یا نہیں کیونکہ انھوں نے ہم پر سارے راستے بند کردیئے ہیں ۔

   ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے کہا کہ امریکیوں  کو یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ ہم سے دشمنی نہیں رکھتے۔ ہم نے ان کے ملک کے اطرف میں فوجی اڈے نہیں بنائے ہیں اور ہم نے ان پر پابندیاں نہیں لگائی ہیں بلکہ ہم امریکی عوام کو بھائي سمجھتے ہیں۔

 انھوں نے مسلمان اور دوست ملک مصر کے بارے میں کہا کہ پہلی فرصت میں مصر کے صدر اور وزرا اور دیگر حکام سے ملاقات کریں گے ۔  ہم مسلمان ایک دوسرے کے بھائی ہیں ۔ شیطان ہماے درمیان تنازعہ پیدا کرتا ہے۔

صدر ایران نے ایٹمی مذاکرات کے بارے میں کہا کہ ہم اب بھی معاہدے کے پابندی ہیں، وہ خود اس کے پابند نہیں ہیں۔  یہ نہیں ہوسکتا کہ ہم عمل کریں اور وہ عمل نہ کریں۔

ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے کہا کہ ہم  نے قانونی دائرے کے اندر عمل کیا انھوں نے اس کو پھاڑا۔ ہم نہ لڑائی کرنا چاہتے ہیں اور نہ ہی ایٹمی اسلحہ بنانا چاہتے ہیں۔  لیکن ہمیں یہ ہرگز منظور نہیں ہے کہ کوئی ہم سے زور زبرستی کرے ۔ ہمیں یہ بھی منظور نہیں ہے کہ وہ اسرائیل کو سر تا پا مسلح کریں۔

صدر ایران نے کہا کہ یہ نہيں ہوسکتا کہ ہم جب بھی بات کریں وہ کہیں کہ ہم ماریں گے وہ ماریں گے تو ہم بھی ماریں گے۔

انھوں نے کہا کہ اسرائیل اسی طرح نسل کشی کررہا ہے۔ اسرائیلیوں کو الٹی میٹم دیں۔  

صدر ایران نے کہا کہ ہم کوشش کررہے ہیں کہ غزہ عوام کا قتل عام اور جنگ بند ہو۔ جو لوگ انسانی حقوق کی باتیں کرتے ہیں وہ کتنی آسانی سے عام لوگوں کا قتل عام کرتے ہیں۔

انھوں نے ایک بار پھر کہا کہ ہم ایٹمی اسلحہ بنانا ہرگز نہیں چاہتے بلکہ اپنی علمی سائنسی اور تکنیکی ضرورت پوری کرنا چاہتے ہیں۔ ہم ایٹمی معاہدے کے پابند تھے اور اس کو باقی رکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن اگر مغرب نے اس کی پابندی نہیں کی تو ہم بھی نہیں کریں گے۔

انھوں نے کہا کہ امریکی ہمارے عوام کے حقوق کا احترام کریں اور ہمارے ملک کے خلاف سازش نہ کریں

صدرایران نے کہا کہ ہم جاپان کی ثالثی کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ ہم ہر اس کوشش کا خیر مقدم کریں گے جس سے دنیا میں امن قائم ہو۔

 ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے کہا کہ یہ مغرب ہے جو ایٹمی بم بنارہا ہے اور ایسے اسلحے تیار کررہا ہے جو انسانوں کو آگ میں جلاکر مار دیتے ہیں۔ وہ خود ممنوعہ اسلحے بناتے ہیں اور دوسروں سے کہتے ہیں تم نے کیوں بنایا؟ تو پھر ہم کیا کریں کیا تمہیں اس بات کی اجازت دے دیں کہ تم ہمیں مار ڈالو؟

ڈاکٹر پزشکیان نے کہا کہ اگر ہم مسلمان متحد ہوں تو اسرائیلی غزہ کے عوام کے ساتھ زورزبرستی نہیں کرسکتے  

رہبر انقلاب آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے  ہفتہ وحدت کے آغاز اور عید میلاد النبی کے موقع پر پیر کے روز ایران کے کچھ اہل سنت علماء، ائمہ جمعہ اور اہل سنت کے  مدرسوں کے پرنسپلوں سے ملاقات کی۔

رہبر انقلاب نے اس ملاقات میں کہا: اسلامی امت کا موضوع، بنیادی اور قومیت کے دائرے سے باہر کی چيز ہے اور جغرافیائی سرحدیں، اسلامی امت کی شناخت اور حقیقت کو بدلتی نہيں۔

انہوں نے مسلمانوں کو اپنی اسلامی شناخت کی جانب سے لاپروا کرنے کے لئے دشمنوں کی  مخاصمانہ کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے کہ کوئی مسلمان غزہ یا دنیا کے کسی بھی گوشے  کے دوسرے مسلمان کے غموں سے غافل رہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے علمائے اہل سنت کو اسلامی شناخت اور اسلامی امت پر اعتماد کی دعوت دی اور عالم اسلام خاص طور پر ایران میں مذہبی اختلافات کو ہوا دینے کی بد خواہوں کی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ لوگ ذہنی، تشہیراتی اور معاشی حربوں کا استعمال کرکے ہمار ے ملک اور دوسرے تمام اسلامی علاقوں میں شیعہ- سنی کو ایک دوسرے سے الگ کرنے کی کوشش کر رہے ہيں اور دونوں طرف سے کچھ لوگوں کو ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے  پر مامور کرکے ضد اور اختلافات کی آگ بھڑکاتے ہيں۔

رہبر انقلاب آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ان سازشوں کے مقابلے کی واحد راہ اتحاد کو قرار دیا اور کہا کہ اتحاد حکمت عملی نہيں بلکہ قرآنی اصول ہے۔

انہوں نے " اسلامی امت" کی گراں قدر شناخت کی حفاظت کو ضروری قرار دیا اور اسلامی اتحاد کی اہمیت اور اسے کمزور کرنے کی مخاصمانہ کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ " اسلامی امت " کی بات کو کبھی نہيں بھولنا چاہیے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے شیعہ و سنی کے اتحاد کو کمزور کرنے کے لئے دانستہ و نادانستہ کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یقینی طور پر اتنے وسیع پیمانے پر سازشوں کے باوجود ہمارے  اہل سنت معاشرے نے اس قسم کی کاوشوں کا سنجیدگی کے ساتھ مقابلہ کیا ہے جس کا ایک ثبوت ، مقدس دفاع اور دیگر مواقع پر 15 ہزار اہل سنت شہید اور اسی طرح حق و انقلاب کی راہ میں اہل سنت علماء کی بڑی تعداد کی شہادت ہے۔

رہبر انقلاب نے اسلامی اقتدار جیسے اہم ہدف کے حصول کو اتحاد کے علاوہ کسی اور راستے سے نا ممکن قراردیا اور کہا کہ آج ایک یقینی فریضہ غزہ و فلسطین کے مظلوموں کی حمایت ہے اور اگر کوئي اس فریضہ پر عمل نہيں کرتا تو یقینا اللہ کے سامنے اسے جواب دینا ہوگا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، سٹی اف نالج پبلک اسکول جیک آباد پاکستان کے زیرِ اہتمام عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم اور ہفتۂ وحدت کی مناسبت سے ایک پروقار تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ تقریب کے مہمان خصوصی مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنما علامہ مقصود علی ڈومکی، جبکہ اعزازی مہمان ایم ڈبلیو ایم ضلع جیکب آباد کے صدر نذیر حسین جعفری تھے۔

اس موقع پر اسکول کے طلباء اور طالبات نے بارگاہ رسالت مآبﷺ میں نذرانہ عقیدت پیش کیا۔

ربیع الاول کا مہینہ، اتحاد بین المسلمین کا عملی مہینہ ہے، علامہ مقصود علی ڈومکی

اس موقع پر طلباء و طالبات سے خطاب کرتے ہوئے مجلسِ وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنما علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا ہے کہ حضور سید الانبیاء کی ذات گرامی عالم بشریت کے لیے رہبر اور رہنما ہے ربیع الاول کا مبارک مہینہ عشق رسول ﷺ کا مہینہ ہے۔ عاشقان رسول ﷺ اپنی سیرت اور کردار سے سید الانبیاء ﷺ کے حقیقی پیروکار ہونے کا ثبوت دیں۔

انہوں نے کہا کہ ربیع الاول کا مہینہ اتحاد بین المسلمین کا مہینہ ہے، 12 سے 17 ربیع الاول ہفتہ وحدت کے موقع پر شیعہ سنی دیوبندی بریلوی اہل حدیث سب نے مل کر امت واحدہ کا ثبوت دینا ہے۔ اسلام دشمن سامراجی طاقتیں خصوصا امریکا اور اسرائیل مسلمانوں کو اپس میں لڑانا چاہتے ہیں ہم نے اپنے اتحاد اور وحدت سے دشمن کی سازشوں کو ناکام بنانا ہے۔

ربیع الاول کا مہینہ، اتحاد بین المسلمین کا عملی مہینہ ہے، علامہ مقصود علی ڈومکی

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے ضلعی صدر نذیر حسین جعفری نے کہا کہ ہفتہ وحدت کے موقع پر مجلس وحدت مسلمین شیعہ سنی وحدت اور اتحاد بین المسلمین کے لیے خصوصی پروگرام کرتی ہے۔ مجلسِ وحدت مسلمین پاکستان کے کارکن برادران اہل سنت کے جلوس میلاد کا پھولوں کے ہار پہنا کر اور پھول نچھاور کر کے استقبال کریں گے۔

تقریب سے مجلسِ علمائے مکتب اہل بیت علیہم السّلام ضلع جیکب آباد کے نائب صدر مولانا ارشاد علی سولنگی نے بھی خطاب کیا۔

تہران - ارنا – اتوار کی صبح تل ابیب پر یمنی میزائل حملے نے خوفزدہ صہیونیوں کو پناہ گاہوں میں جانے پر مجبور کر دیا

 ذرائع کے مطابق اس حملے میں 9 افراد زخمی ہوئے ہيں اور اس سے  ایک بار پھر  غاصب صیہونی حکومت کے دفاعی نظام کی ناکامی کا ثبوت  ملا ہے۔

صیہونی حکومت کے ذرائع ابلاغ نے اتوار کی صبح تل ابیب پر یمن کے میزائل حملے اور صیہونی حکومت کے دفاعی نظام کی ناکامی کی خبر دی۔

اس میزائل حملے کے بعد بڑے پیمانے پر آگ لگ گئی ہے۔

صیہونی حکومت کے ذرائع ابلاغ نے اعلان کیا کہ یمنی میزائل بہت طاقتور اور سپرسونک تھا اور اس نے تمام دفاعی رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے بن گورین ہوائی اڈے کے قریب "اللد" فوجی علاقے کو نشانہ بنایا۔

صیہونی حکومت کے اسپتال ذرائع نے اطلاع دی ہے کہ تل ابیب کے مشرق میں یمنی میزائل حملے کے نتیجے میں 9 صہیونی پناہ گاہ کی طرف بھاگتے ہوئے زخمی ہوئے ہیں۔

ذرائع کے مطابق صیہونی فائر فائٹرز یمنی میزائل سے لگنے والی آگ کو بجھا رہے ہیں

 
 
Sunday, 15 September 2024 09:03

فتح کی نوید دلاتا پیغام

حال ہی میں حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ یحیی السنوار نے غزہ سے حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ کو ان کے خط کا جواب بھیجا ہے جو درحقیقت فلسطین اور لبنان میں سرگرم اسلامی مزاحمتی گروہوں کے درمیان موجود گہرے اتحاد کی علامت ہے۔ یاد رہے حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے شہید اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد حماس کے نئے سربراہ کے طور پر یحیی السنوار کو خط لکھا تھا جس میں شہید ہنیہ کی شہادت کی مناسبت سے تعزیت اور تبریک پیش کی گئی تھی۔ یحیی السنوار نے اپنے جواب میں سید حسن نصراللہ کے خط کا شکریہ ادا کرتے ہوئے لکھا: "میں آپ کی اظہار حمایت اور ہمدردی کا شکریہ ادا کرتا ہوں جو سچے اور اعلی جذبات پر مشتمل تھا۔ آپ کی جانب سے حمایت کا یہ اظہار اسلامی مزاحمتی محاذوں پر آپ کے بابرکت اقدامات کے ہمراہ ہیں۔"
 
حماس کے سربراہ یحیی السنوار کے پیغام میں مزید آیا ہے: "ابوالعبد، طوفان الاقصی میں ہمارے کمانڈر تھے جو ہماری قوم کی تاریخ میں سب سے زیادہ شرافت مندانہ معرکہ تھا۔ وہ شہید ہو چکے ہیں۔ ہمارے کمانڈر کی شہادت اس بات کی گواہ ہے کہ ہمارے کمانڈرز اور مجاہدین کا خون اپنے ہم وطن افراد کے خون سے زیادہ قیمتی نہیں ہے۔ یہ پاکیزہ خون اور شہداء کے مبارک قافلے قابض قوتوں کے خلاف ہماری طاقت اور استقامت میں اضافے کا باعث بنیں گے۔ ہم جس راہ پر قدم آگے بڑھائیں گے وہ جہاد اور مزاحمت کے گرد فلسطینی قوم کا اتحاد ہے۔ اسی طرح ہم وحدت کی راہ پر گامزن ہوں گے جس کی مرکزیت صیہونزم کے خلاف وحدت پر استوار ہے۔ ہم قابض قوتوں کو نکال باہر کرنے اور قدس شریف کی مرکزیت میں مکمل حاکمیت سے برخوردار خودمختار ملک تشکیل دینے تک اپنے ان اصولوں پر گامزن رہیں گے۔"
 
یحیی السنوار کی جانب سے سید حسن نصراللہ کو لکھے گئے خط کے مختلف پہلو واضح کرنے کیلئے اس نکتے پر توجہ دینا ضروری ہے کہ آج اسلامی مزاحمتی بلاک میں شامل تمام قوتیں غاصب صیہونی رژیم نامی واحد دشمن کے خلاف متحد ہو چکی ہیں۔ طوفان الاقصی آپریشن کے دوران انجام پانے والی کامیاب کاروائیوں اور اس معرکے کا مقبوضہ فلسطین کے دیگر حصوں تک پھیل جانے نے نئے علاقائی نظم کے بارے میں بہت سے تجزیوں اور مفروضات کو جنم دیا ہے۔ ان سب کا مشترکہ نکتہ اس بات پر مبنی ہے کہ غاصب صیہونی رژیم کو اسٹریٹجک لحاظ سے شدید شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے اور خطے اور عالمی سطح پر نئی مساواتیں ابھر کر سامنے آ رہی ہیں۔ یقیناً ان نئے حالات میں غاصب صیہونیوں اور ان کے مغربی حامیوں کو مختلف قسم کے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔
 
طوفان الاقصی آپریشن ایک ہائبرڈ فتح کی علامت سمجھا جاتا ہے جس کا نتیجہ غاصب صیہونی رژیم پر اسلامی مزاحمتی بلاک کی اسٹریٹجک برتری کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ اسلامی مزاحمتی بلاک میں شامل مختلف قوتیں ایک خونخوار اور وحشی دشمن کے مقابلے میں متحدہ طور پر سرگرم عمل ہو چکی ہیں۔ غاصب صیہونی رژیم کے فوجی اور سیاسی سربراہان اس نکتے پر متفقہ رائے رکھتے ہیں کہ مقبوضہ فلسطین کے تمام حصے اسلامی مزاحمت کے میزائلوں کی زد میں ہیں۔ دوسرے الفاظ میں صیہونی حکمران سمجھ چکے ہیں کہ اب ان کے پاس کوئی "محفوظ مقام" باقی نہیں رہا۔ دوسرا اہم مسئلہ انتفاضہ ہے۔ تقریباً گذشتہ ایک عشرے سے صیہونی حکمرانوں کی پوری توجہ غزہ پر مرکوز رہی ہے لیکن اس وت پورا خطہ بلکہ پوری دنیا اسلامی مزاحمت کا نیا مورچہ بن چکی ہے۔ غزہ جنگ تاریخ ساز اور تحریک ساز ہے جس نے صیہونیوں کی موجودیت خطرے میں ڈال دی ہے۔
 
سیکرٹری جنرل حزب اللہ لبنان سید حسن نصراللہ کے نام حماس کے سربراہ یحیی السنوار کے جوابی خط کا ایک اہم نتیجہ دشمن کی نرم جنگ ناکام بنانا ہے۔ امریکہ، یورپی یونین اور غاصب صیہونی رژیم نے دنیا بھر میں فلسطینی مجاہدین کو دہشت گرد ظاہر کرنے کیلئے جو بھرپور پراپیگنڈہ شروع کر رکھا تھا وہ پوری طرح ناکام ہوا ہے اور آج مغربی ممالک سمیت دنیا بھر میں اہل غزہ کے حق میں عوامی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ لندن جیسے شہر میں برطانوی شہری اس ملک کی تاریخ کا سب سے بڑا مظاہرہ کر کے فلسطینیوں سے یکجہتی کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ امریکہ، فرانس اور دیگر مغربی ممالک میں شدید حکومتی دباو اور پولیس کی جانب سے طاقت کے بے جا استعمال کے باوجود آئے دن فلسطینیوں کے حق میں عوامی مظاہرے برپا ہو رہے ہیں۔ یہ مغرب کی بہت بڑی شکست ہے جو صرف غزہ جنگ تک محدود نہیں بلکہ درحقیقت نیو ورلڈ آرڈر تشکیل پا رہا ہے۔
 
یقیناً اس نئے عالمی نظام میں صیہونی رژیم، اس کے مغربی حامیوں اور اس سے سازباز کرنے والے عرب حکمرانوں کی حقیقی ہار اور شکست ہو گی۔ یہ حقیقت ہر زمانے سے زیادہ واضح ہو چکی ہے۔ لہذا امریکہ اور غزہ میں صیہونی رژیم کی نسل کشی کے دیگر حامیوں کی نرم جنگ نہ صرف مطلوبہ اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے بلکہ ان کے خلاف عالمی رائے عامہ پروان چڑھ رہی ہے۔ یحیی السنوار کا حالیہ خط صرف حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل کے نام نہیں تھا بلکہ اس میں عالمی رائے عامہ کو مخاطب قرار دیا گیا تھا اور ان تمام بیدار ضمیر انسانوں کا شکریہ ادا کیا گیا تھا جو غزہ اور خان یونس میں صیہونی رژیم کے مجرمانہ اقدامات پر خاموش نہیں بیٹھے اور اس کے خلاف آواز اٹھانے میں مصروف ہیں۔ نرم جنگ میں عوام کی سوچ اور عقائد کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور اسلامی مزاحمت نے اسی محاذ پر دشمن پر جوابی وار کیا ہے۔

چمران 1 ریسرچ سیٹلائٹ کو ایران الیکٹرانک انڈسٹریز اسپیس گروپ صا ایران نے ایرو اسپیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ اور  نالج بیسڈ نجی کمپنیوں کے تعاون اور شراکت  سے تیار کیا ہے۔

اس سیٹلائٹ کا وزن تقریباً 60 کلو گرام ہے اور اس کا بنیادی مشن ہارڈ ویئر اور سافٹ ویئر سسٹمز کی جانچ کرنا ہے ۔

قائم- 100  سیٹیلائٹ لانچر ٹھوس ایندھن  سے چلتا ہے ۔ اسے پاسداران انقلاب فوج کے ایرو اسپیس یونٹ کے ماہرین نے  تیار کیا ہے ۔ یہ لانچر  اپنے دوسرے آپریشن میں چمران 1 سیٹلائٹ کو کامیابی کے ساتھ  خلاء میں پہنچانے میں کامیاب رہا۔

Saturday, 14 September 2024 08:09

مغربی کنارے میں انتفاضہ

صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی طرف سے جنگ بندی کے مذاکرات کی ناکامی کے بعد صیہونی فوج نے غزہ میں خونریزی کا سلسلہ دوبارہ شروع کر دیا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ مغربی کنارے میں اسے دردناک ردعمل بھی ملا ہے۔ غزہ کی پٹی میں صیہونی حکومت کے سیاہ ریکارڈ میں ایک اور خونی جرم کا اضافہ ہوا ہے۔ دوسری طرف مغربی کنارے میں غاصبوں کو نشانہ بنانا فلسطین سے متعلق تازہ ترین خبروں میں شامل ہے۔ میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ غزہ پٹی میں پناہ گزینوں کے خیموں پر صیہونی حکومت کے جنگی طیاروں کے حملوں میں سو سے زیادہ فلسطینی شہید اور زخمی ہوئے ہیں۔ صیہونی حکومت کے فوجیوں نے خان یونس کے ان علاقوں میں فلسطینی پناہ گزینوں کو نشانہ بنایا، جنہیں وہ محفوظ علاقے قرار دیتے تھے۔

غزہ پٹی کی ریلیف اینڈ ریسکیو آرگنائزیشن کے ڈائریکٹر نے اعلان کیا ہے کہ ان حملوں کے نتیجے میں 40 سے زائد شہید اور 60 زخمی ہوئے ہیں۔ صہیونی فوجیوں نے امدادی گاڑیوں کو بھی نشانہ بنایا، جس سے غزہ پٹی کے جنوب میں ریسکیو اور ریلیف کا عمل نہایت مشکل ہوگیا ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ صیہونی حکومت نے غزہ پٹی میں فلسطینی پناہ گزینوں کے خیموں کو نشانہ بنایا ہے، البتہ اس بار ان وحشیانہ حملوں کے متاثرین کی تعداد زیادہ ہے اور ان میں استعمال ہونے والے بموں کی مقدار نے اس پٹی میں خون کی ہولی کھیلی گئی ہے۔

صیہونی فوجیوں کا فلسطینی پناہ گزین کیمپ پر جان لیوا حملہ
فلسطینی وزارت صحت نے غزہ کی پٹی میں اعلان کیا ہے کہ گیارہ ماہ سے جاری اس پٹی پر صیہونی حکومت کے جارحیت کے متاثرین کی تعداد 40,988 شہید اور 94,825 زخمی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل "انتونیو گوٹیرس" نے بھی ایسوسی ایٹڈ پریس کے ساتھ ایک انٹرویو میں اس بات پر زور دیا ہے کہ "جب سے وہ اس تنظیم کے سیکرٹری جنرل کے طور پر منتخب ہوئے ہیں، انہوں نے اس سطح کی ہلاکت اور تباہی کبھی نہیں دیکھی، جس کا وہ غزہ میں مشاہدہ کر رہے ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ نے بھی اپنے ایک بیان میں اعلان کیا ہے کہ "غزہ میں صیہونی حکومت کی طرف سے مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کے استعمال نے خطرناک اخلاقی اور قانونی خدشات پیدا کر دیئے ہیں۔"

فلسطینی وزارت صحت نے ایک بیان جاری کیا، جس میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ  "غزہ میں صحت کا نظام ایک منظم جنگ اور بڑی تباہی سے دوچار ہے۔" اس حوالے سے ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی نے گذشتہ اکتوبر میں اعلان کیا تھا کہ  ’’8700 سے زائد فلسطینی لاپتہ ہیں، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق غزہ پٹی سے ہے، جبکہ قابض حکام نے ان کے بارے میں نہ تو کوئی معلومات فراہم کی ہیں اور نہ ہی ریڈ کراس کو ان سے ملنے کی اجازت دی ہے۔ اسرائیلی حکومت نے 7 اکتوبر 2023ء سے غزہ کی پٹی کے خلاف تباہی کی جنگ شروع کر رکھی ہے۔ اس عرصے کے دوران غزہ کی پٹی کے 70% مکانات اور بنیادی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچا ہے اور بدترین محاصرہ اور شدید انسانی بحران کے ساتھ ساتھ بے مثال قحط اور بھوک نے اس علاقے کے مکینوں کی زندگیوں کو خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔

فلسطینی اتھارٹی کے انفارمیشن آفس نے اعلان کیا ہے کہ اسرائیلی قابض فوج نے 120 اسکولوں اور یونیورسٹیوں کو مکمل طور پر تباہ کردیا اور 340 دیگر یونیورسٹیوں اور اسکولوں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ ان تمام جرائم کے باوجود صیہونی حکومت نے اعتراف کیا ہے کہ 11 ماہ کی جنگ کے بعد بھی وہ ابھی تک اس جنگ کے اپنے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔ صیہونی حکومت کا مقصد تحریک حماس کو تباہ کرنا اور غزہ کی پٹی سے صیہونی قیدیوں کی واپسی ہے۔ دوسری جانب غزہ میں جنگ کے آغاز سے اب تک مغربی کنارے میں صیہونی مخالف کم از کم 4,973 آپریشن کیے جا چکے ہیں، جن کے دوران 38 آبادکار، 12 فوجی اور تین پولیس اہلکار ہلاک اور 285 دیگر زخمی ہوچکے ہیں۔

الکرامہ کراسنگ میں شوٹنگ کا نیا آپریشن
 غزہ میں تقریباً 12 ماہ سے جاری جنگ اور تشدد کے دوران غزہ کے عوام کے خلاف قابض صہیونی فوج کی نسل کشی سے اردنی شہریوں اور فلسطینی نژاد اردنی باشندوں کے غم و غصے کی شدت کو ظاہر کرتا ہے۔ مغربی کنارے میں حالیہ پیش رفت صیہونی مظالم کا ردعمل ہے۔ اردن اور مقبوضہ فلسطین کی سرحد پر واقع الکرامہ کراسنگ پر شوٹنگ کی کارروائی میں تین صیہونیوں کی موت واقع ہوئی، اس گاؤں سے تعلق رکھنے والا 47 سالہ شہید "عبدالسلام خالد سلیم الزوبی" ہے۔ جو صبح 10 بجے کے قریب اردن اور مقبوضہ فلسطین کی سرحد پر الکرامہ کراسنگ میں داخل ہوا اور اس کراسنگ میں موجود صہیونیوں پر پوائنٹ بلینک رینج سے فائرنگ شروع کر دی۔ اس کارروائی میں تین اسرائیلی مارے گئے اور آپریشن کے آپریٹر کو سکیورٹی فورسز نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔

واضح رہے کہ اس شہادت پسندانہ آپریشن کے بعد اردنی باشندے پرجوش ہوئے اور انہوں نے مقبوضہ فلسطین کے درمیان گزرگاہ پر مٹھائیاں تقسیم کیں۔ قابض فوج پہلے ہی مغربی کنارے میں کشیدگی کے دائرہ کار میں توسیع اور ایک اور انتفاضہ کے قیام کے حوالے سے اپنی تشویش کا اعلان کرچکی ہے۔ جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک اسرائیل کی سکیورٹی سروسز کے بیانات نے اس دعوے کی تصدیق کی ہے کہ شاباک اور IDF نے مغربی کنارے میں 1,100 سے زیادہ بڑی کارروائیوں میں حصہ لیا ہے۔ ماضی میں، مزاحمتی کارروائیاں صرف جنین اور اس کے کیمپ کے ساتھ ساتھ مغربی کنارے کے شمال میں منسلک علاقوں تک محدود تھیں۔ لیکن اب اسے مغربی کنارے کے جنوب تک بڑھا دیا گیا ہے

زیادہ اہم نکتہ یہ ہے کہ مغربی کنارے اور اسرائیل کے اندر کچھ گوریلا کارروائیاں ایسے نوجوان کرتے ہیں، جن کا تعلق کسی تنظیم سے نہیں ہے، جس نے اسرائیل کے لیے پہلے سے زیادہ مشکل بنا دی ہے۔ اسرائیل مغربی کنارے کو اپنی بنیادی کمزوری اور سب سے خطرناک محاذ سمجھتا ہے، کیونکہ یہ جغرافیائی طور پر اسرائیل کی گہرائی سے جڑا ہوا ہے۔ اگرچہ صیہونی حکومت مغربی کنارے میں مزاحمتی قوتوں کے خلاف نت نئے فوجی ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے، لیکن وہ صورت حال پر قابو پانے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے اور مزاحمتی حملوں کا سلسلہ بتدریج اردن تک پھیل رہا ہے، جہاں پناہ گزینوں کی آبادی کا 60 فیصد سے زیادہ حصہ موجود ہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر مسعود پزشکیان بدھ کے دن اپنے پہلے غیر ملکی دورے پر بغداد پہنچے، جہاں عراق کے وزیراعظم محمد شیعاع السوڈانی نے ان کا استقبال کیا۔ سرکاری استقبالیہ تقریب کے بعد ڈاکٹر پزشکیان اس ملک کے صدر عبداللطیف راشید سے ملاقات کے لیے عراقی صدارتی محل گئے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر نے اس کے بعد وزیراعظم کے محل میں السوڈانی سے ملاقات کی اور اس کے بعد دونوں ممالک کے اعلیٰ سطحی وفود کے ارکان کی مشترکہ ملاقات ہوئی۔ عراق میں صدر پزشکیان اس ملک کے اعلیٰ حکام سے اقتصادی، سیاسی، ثقافتی اور سکیورٹی سمیت مختلف شعبوں میں دوطرفہ تعاون کے حوالے سے مشاورت کریں گے۔ مقامات مقدسہ کی زیارت بھی اس پروگرام میں شامل ہے۔

عراق کے لیے روانگی سے قبل اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر نے تاکید کی ہے کہ ان پالیسیوں کی بنیاد پر جو اس سے پہلے اعلان کی جا چکی ہیں، پڑوسیوں کے ساتھ قریبی تعلقات کے حوالے سے رہبر معظم انقلاب اسلامی کی اعلان کردہ پالیسی کی بنیاد پر دوست ملک عراق کا دورہ کیا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا عراق کے  ایران سے بہت سے شعبوں میں تعلقات چلے آرہے ہیں اور وہ ہمارے ملک کے ساتھ اقتصادی، سیاسی اور سماجی شراکت دار ہے۔ ہمارا اس ملک کے ساتھ بہت زیادہ تعاون ہوسکتا ہے اور دونوں ممالک کے درمیان بہت سے معاہدوں پر دستخط ہوچکے ہیں۔ ایرانی صدر عراق کے کردستان علاقے اربیل اور سلیمانیہ کے شہروں میں بھی جائیں گے اور اس علاقے کے حکام سے دوطرفہ تعاون کی توسیع کے حوالے سے بات چیت کریں گے۔

اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ صدر پزشکیان کے پہلے غیر ملکی دورے کے طور پر عراق کو کیوں منتخب کیا گیا، وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا: "عراق کو پہلے ملک کے طور پر منتخب کیا جانا دونوں ممالک کے درمیان برادرانہ تعلقات کی گہرائی کو ظاہر کرتا ہے۔ عراق ایران کے لیے پڑوسی ملک سے زیادہ ہے۔ عراق ہمارا دوست و برادر ملک ہے اور ہمارے درمیان بہت سے نکات مشترک ہیں۔

ایران اور عراق؛ مشترکہ مقاصد کے حامل دو ممالک ہیں
مسعود پزشکیان کا بغداد کا دورہ اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران عراق کے ساتھ سیاسی، سکیورٹی، اقتصادی اور تجارتی تعلقات کو مضبوط کرنا چاہتا ہے اور اس کے علاوہ دونوں ممالک کی حکومتوں اور قوموں کے درمیان تعلقات کو وسعت دینے کی حکمت عملی ایک اہم قدم ہے، جو تہران کے لیے خصوصی اور اولین ترجیح ہے۔ عراق میں عوامی طاقتوں کی پوزیشن سمیت خطے میں مزاحمتی گروہوں کے بااثر کردار کو دیکھتے ہوئے نیز صیہونی حکومت اور ان کے اہم حامی امریکہ کی سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لیے مزاحمتی گروہوں کی حمایت کے لیے ایران اور عراق کی حکومتوں کے درمیان زیادہ تعاون اور ہم آہنگی کی اشد ضرورت ہے۔

ایرانی صدر کا عراق کا دورہ خطے میں ایران عراق تعاون کی اہمیت اور اثرات کی علامت ہے۔ دونوں ممالک کے کاروبار کی توسیع کے حوالے سے دوطرفہ مشاورتی معاہدوں پر عمل پیرا ہونا اور غیر ملکی مداخلت کو کم کرنے کے مقصد سے دوطرفہ اور علاقائی تعاون کو بڑھانا ان بنیادی مسائل میں سے ایک ہے، جن پر اس سفر میں توجہ دی جائے گی۔ ایران اور عراق، اوپیک کے تیل برآمد کرنے والے ممالک کے دو بااثر رکن ہونے کے ناطے، توانائی کی عالمی منڈی میں فیصلہ کن کردار رکھتے ہیں اور اس شعبے میں دونوں ممالک کا موثر تعاون اس شعبے کی ترقی اور خوشحالی کا باعث بن سکتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی خارجہ پالیسی کی اہم حکمت عملی پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات کی ترقی اور فروغ ہے اور صدر مسعود پزشکیان کا عراق کا دورہ تہران کے علاقائی کردار کو مزید تقویت دے گا اور غیر ملکیوں کے تخریبی اقدامات کا مقابلہ کرنے میں ایک موثر عنصر ثابت ہوگا۔

9 ربیع الاول کا دن امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت کے بعد پہلا دن ہے لہذا اسے امام زمانہ عج کی امامت کے آغاز کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن امام زمانہ عج سے تجدید بیعت کی جاتی ہے اور جس قدر یہ دن اہم ہے اس قدر توجہ کا مرکز قرار نہیں پا سکا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ محبین اور پیروکاران اہلبیت اطہار علیہم السلام اس دن کو مناتے نہیں بلکہ اسے اس طرح نہیں مناتے جس طرح اس کا حق ہے۔ اس سال ایران بھر میں یہ دن "سپاہی بننے کے عہد کی صبح" کے طور پر منایا جائے گا جس میں سب اپنے غائب لیکن حاضر امام سے تجدید بیعت کریں گے۔ خداوند متعال نے قرآن کریم میں "ایام اللہ" کو اہمیت دینے اور ان کی یاد تازہ رکھنے پر زور دیا ہے۔ ولی امر مسلمین امام خامنہ ای مدظلہ العالی بھی اس بارے میں فرماتے ہیں: "ایام اللہ کی یاد منانا جس کا حکم خدا نے بھی دیا ہے انسان ساز ہے۔ ایام اللہ کے دنوں میں جو واقعات رونما ہوئے ہیں وہ تاریخ اور انسانوں کیلئے سبق آموز اور بیدار کرنے والے ہیں۔"
 
امام زمانہ عج سے تجدید عہد کرنے کا ایک اہم نتیجہ یہ ہے کہ منتظرین اپنی ذمہ داریوں اور مشن پر توجہ دیتے ہیں۔ اسلامی تاریخ میں ظالم حکمران جن بڑے چیلنجز سے روبرو رہے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ قرآن کریم میں "اولی الامر" کی اطاعت واضح طور پر لازمی قرار دی گئی ہے۔ سورہ نساء کی آیت 59 میں ارشاد خداوندی ہوتا ہے: يٰا أَيُّهَا اَلَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اَللّٰهَ وَ أَطِيعُوا اَلرَّسُولَ وَ أُولِي اَلْأَمْرِ مِنْكُمْ ۔۔۔۔۔۔ (اے ایمان والو، خدا کی اطاعت کرو اور رسول خدا ص اور اولی الامر کی اطاعت کرو)۔ اسی طرح خداوند متعال سورہ نحل کی آیت 90 میں فرماتا ہے: إِنَّ اَللّٰهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ اَلْإِحْسٰانِ۔۔۔ (یقیناً خداوند متعال عدل اور نیکی کا حکم دیتا ہے)۔ پس ثابت ہوتا ہے کہ وہ اولی الامر جن کی پیروی اور اطاعت کا حکم خداوند متعال نے دیا ہے انہیں معصوم ہونا چاہئے۔
 
دوسری طرف یہ بھی خداوند متعال کیلئے شائستہ نہیں کہ اس نے اولی الامر کی اطاعت کا حکم تو دیا ہے لیکن اولی الامر کو متعارف نہ کروایا ہو۔ اسی طرح اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ صرف خدا ہی جان سکتا ہے کہ کون سا انسان معصوم ہے کیونکہ صرف خدا ہی انسانوں کے باطن سے آگاہ ہے۔ لہذا خدا ہی معصوم کو متعارف کروا سکتا ہے۔ یہ بھی سب جانتے ہیں کہ رسول خدا ص کی بات درحقیقت خدا کی بات ہے اور انہوں نے اپنی کئی احادیث میں نام لے کر اپنے بعد 12 برحق خلیفوں (ائمہ معصومین ع) کو پہچنوا دیا ہے اور یوں امت مسلمہ کیلئے اتمام حجت کر دی ہے۔ یہ حقائق بنی امیہ اور بنی عباس کے ظالم حکمرانوں کی نظر سے اوجھل نہیں تھے اور یہی وجہ تھی کہ وہ ائمہ معصومین ع کو اپنا سب سے بڑا اور خطرناک دشمن سمجھتے تھے کیونکہ ائمہ معصومین ع اپنی الہی ذمہ داری کے تحت ہمیشہ ظالموں کے خلاف آواز اٹھتے اور اسلامی معاشرے میں عدالت کی برپائی کیلئے کوشاں رہتے تھے۔
 
جس طرح سے تاریخ کے دوران ظالم حکمران اور سادہ لوح مبلغین پرچار کرتے آئے ہیں، الہی فرامین اور اسلام کے حیات بخش قوانین صرف فردی اور شخصی دستورات اور شرعی احکام تک محدود نہیں ہیں۔ اس بارے میں امام خمینی رح فرماتے ہیں: "آپ پچاس سے زیادہ فقہی کتب کا ملاحظہ فرمائیں، ان میں سے صرف سات یا آٹھ کتابیں ایسی ہیں جو عبادات کے بارے میں ہے جبکہ باقی تمام کتابیں سیاسیات، سماجیات اور معاشرتی امور کے بارے میں ہیں۔" دوسری طرف شرعی احکام اور الہی قوانین کو لاگو ہونے کیلئے سیاسی طاقت کی ضرورت ہے اور اسی سیاسی طاقت کو حکومت اسلامی کہا جاتا ہے۔ بعض ایسے افراد اور گروہ جو غیبت امام زمانہ عج میں اسلامی حکومت کا انکار کرتے ہیں وہ سمجھتے ہوئے یا ناسمجھی میں شرعی احکام اور الہی قوانین کا انکار کر رہے ہوتے ہیں۔ دین مبین اسلام کا دائرہ صرف فردی شرعی احکام تک محدود نہیں بلکہ اس میں سماجی نظامات بھی شامل ہیں۔
 
قرآن کریم میں انبیاء علیہم السلام کا ایک اہم ہدف عدل و انصاف کی خاطر قیام ذکر ہوا ہے۔ سورہ حدید کی آیت 25 میں ارشاد ہوتا ہے: لَقَدْ أَرْسَلْنٰا رُسُلَنٰا بِالْبَيِّنٰاتِ وَ أَنْزَلْنٰا مَعَهُمُ اَلْكِتٰابَ وَ اَلْمِيزٰانَ لِيَقُومَ اَلنّٰاسُ بِالْقِسْطِ۔۔۔۔ (بالتحقیق ہم نے اپنے رسولوں کو معجزات کے ہمراہ بھیجا ہے اور ان کے ساتھ کتاب بھی نازل کی ہے تاکہ عوام عدل کیلئے قیام کریں۔۔)۔ واضح ہے کہ جب ایک معاشرے میں اسلامی قوانین کا نفاذ کرنے کی کوشش کی جائے گی تو استکباری اور طاغوتی طاقتیں اسے ہر گز برداشت نہیں کریں گی اور اسے خلاف طرح طرح کی سازشیں اور اقدامات انجام دیں گی جن کا مقابلہ سیاسی طاقت اور اسلامی حکومت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ یہ سوچ اس سیکولر اسلام کے بالکل برعکس ہے جسے تاریخ کے دوران ظالم حکمرانوں نے اسلامی معاشروں میں فروغ دیا ہے۔ یہ دراصل حقیقی محمدی ص اسلام ہے اور اس میں سیاست اور جہاد بھی اسلامی تعلیمات کا حصہ ہے۔
 
امام زمانہ عج کے انتظار کا صحیح معنی تمام معاشرتی میدانوں میں حاضر رہ کر اسلام کی سربلندی کیلئے جدوجہد انجام دینا ہے۔ ائمہ معصومین ع کے فرامین میں ذکر ہوا ہے کہ امام زمانہ عج کے منتظرین کی ایک اہم علامت یہ ہے کہ ان کی باتیں اور عمل اسلام دشمن عناصر کے شدید غصے کا باعث بنتی ہیں۔ امام خامنہ ای مدظلہ العالی جہاد کی تعریف میں فرماتے ہیں: "جہاد ہر وہ عمل اور اقدام ہے جو اسلام دشمن عناصر کے خلاف انجام پاتا ہے اور انہیں غصے کا شکار کر دیتا ہے۔" آج کے زمانے میں اس کا اہم مصداق مظلوم فلسطینی عوام کی حمایت کرنا اور امریکہ، اسرائیل اور ان کے اتحادیوں کے خلاف سرگرم عمل ہونا ہے۔ لہذا 9 ربیع الاول یعنی امام زمانہ عج کی امامت کا آغاز کے دن درحقیقت تجدید عہد کا دن ہے۔ امام زمانہ عج جو اگرچہ غائب ہیں اور ظاہر نہیں ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ حاضر ہیں اور امت مسلمہ کی سرپرستی فرمانے میں مصروف ہیں۔

تحریر: حسین شریعتمداری