سلیمانی

سلیمانی

مہر خبررساں ایجنسی نے المیادین کے حوالے سے بتایا ہے کہ حالیہ برسوں میں امریکہ میں آتشیں اسلحے کی دستیابی اور شہریوں کے لیے ان کے استعمال کی آزادی کے نتیجے میں تشدد کی لہر میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جو قتل وغارت کی ہوشربا شرح پر منتج ہوئی ہے۔

یہ اس حقیقت کے باوجود ہے کہ ان برسوں میں امریکہ میں آتشیں اسلحے کی تعداد ملک کی آبادی سے زیادہ ہو گئی ہے اور آتشیں اسلحے کے استعمال کی وجہ سے دنیا میں سب سے زیادہ اموات امریکہ میں ریکارڈ کی گئی ہیں۔

اس وقت ریاستہائے متحدہ میں آتشیں اسلحے سے قتل کی لہر بڑھنے کے ساتھ  2022 اور 2023 کے درمیان ڈکیتیوں اور جنسی حملوں میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا جن کے اعداد و شمار الگ سے درج ذیل انفوگرافک میں دکھائے گئے ہیں:

امریکہ میں قتل، ڈکیتی اور عصمت دری کی شرح میں ہوشربا اضافہ؛ خوفناک اعداد و شمار


اس بنیاد پر جرائم کی اوسط شرح (بشمول قتل اور چوری) 2022 کے پہلے چھ ماہ میں 15,793 واقعات کے مقابلے میں 2023 کے پہلے چھ ماہ میں 20,547 واقعات کے ساتھ 30 فیصد بڑھ گئی ہے۔

یعنی امریکہ میں قتل کی تعداد میں 28 فیصد اضافہ ہوا ہے جو کہ 2022 کے مقابلے میں 126 واقعات سے بڑھ کر 2023 میں 161 تک پہنچ گئی ہے۔

پرتشدد جرائم کی مقدار میں بھی 37 فیصد اضافہ ہوا جو کہ 2022 کے پہلے چھ مہینوں میں 2,350 واقعات سے بڑھ کر 2023 کے اندر 3,216 ہو گئے۔

اس کے علاوہ ملکیت سے متعلق جرائم کی تعداد 2022 کے پہلے چھ ماہ میں 13 ہزار 443 کیسز سے 29 فیصد بڑھ کر 2023 کی اسی مدت میں 17 ہزار 331 ہو گئی۔
حقیقی املاک کو جلانے میں بھی ان دو مدتوں کے مقابلے میں خوف ناک حد تک کئی گنا اضافہ ہوا ہے اور 2023 میں 2022 کے پہلے چھ مہینوں میں دو کیسز سے 8 کیسز تک پہنچ گئے ہیں۔

جنسی حملوں کی شرح میں بھی 2022 کے پہلے چھ مہینوں اور 2023 کے اسی دورانیے کے درمیان 19 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

2022 اور 2023 کے درمیان امریکہ میں کار چوری کی شرح بھی دوگنی ہو گئی ہے اور خطرناک اور بھاری ہتھیاروں سے حملوں میں بھی چار فیصد اضافہ ہوا ہے۔

کی رپورٹ کے مطابق، ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ شیراز میں امامزادہ شاہچراغ کے مزار پر ہونے والے دہشت گردانہ حملے کی شدید مذمت کرتے ہیں۔

ناصر کنعانی نے حادثے میں شہید ہونے والے حرم کے خادم حاج عباس غلامی کو سلام پیش کرتے ہوئے کہا کہ ایرانی سیکورٹی فورسز کی مستعدی اور ہوشیاری کے باعث دہشت گرد کو موقع پر گرفتار کیا گیا ہے۔ قانونی کاروائی مکمل کرنے کے لئے متعلقہ اداروں کے حوالے کرکے تحقیقات کی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ بے گناہ زائرین پر حملہ ایرانی سکیورٹی فورسز کی دشمن کے خلاف کامیاب کاروائیوں کا انتقام لینے کی ایک ناکام کوشش ہے۔ انہوں نے کہا کہ ابھی تک واقعے میں ملوث دہشت گردوں کی شہریت کے بارے میں کوئی تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں۔

کنعانی نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ امریکہ نے کئی عرصے سے ایران کے اثاثوں کو غیر قانونی طور پر منجمد کررکھا تھا۔ حالیہ دنوں میں ان اثاثوں کی بحالی کے لئے حکومت اور وزارت خارجہ کوشش کررہی ہیں۔ گذشتہ دنوں پیش سامنے آنے والی خبریں ایرانی عوام کے حقوق کے لئے ہونے والی کوششوں کی ایک کڑی ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت اور سفارتی حلقے ملک اور عوام کے حقوق کے لئے اپنے اختیارات استعمال کریں گے۔ اثاثوں کی بحالی اور بے گناہ قید ایرانیوں کی رہائی کے لئے حکومت سنجیدگی سے اقدامات کررہی ہے۔ ایران نے معاہدے کی شقوں پر عملدرامد کے سلسلے میں فریق دوم سے ضمانت حاصل کرلی ہے۔

ترجمان نے شیراز میں پیش آنے والے دہشت گردی کے واقعے کے بارے میں کہا کہ شہید حاج قاسم سلیمانی اور دیگر شہداء کو سلام پیش کرتے ہیں کیونکہ ان کی قربانی کے نتیجے میں ہمیں امنیت حاصل ہے۔ اگر ان کی قربانی نہ ہوتی تو خطے میں ہر روز دہشت گردی کے واقعات رونما ہوتے۔

انہوں نے کہا کہ شہید قاسم سلیمانی نے داعشی تکفیری دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ سیاسی اور دفاعی مبصرین ان کی قربانی سے بخوبی واقف ہیں۔ آج صہیونی حکومت کے خلاف لبنانی مقاومت کی فتح کا دن ہے۔ امریکہ نے اس شخص سے انتقام لیا جس نے صہیونی حکومت کے خلاف فیصلہ کن کردار ادا کیا تھا۔

ناصر کنعانی نے صدر رئیسی کے دورہ سعودی عرب کے حوالے سے کہا کہ ابھی تک دورے کا وقت معین نہیں ہوا ہے۔ وزیرخارجہ کا دورہ ریاض دونوں ممالک کے درمیان تعاون اور علاقائی و بین الاقوامی سطح پر ہماہنگی کے سلسلے میں معاون ثابت ہوگا۔

اسلامی جمہوریہ ایران کی بحریہ کے 86ویں نیول گروپ کے کمانڈر، عملے اور اہل خانہ نےاتوار صبح رہبر معظم انقلاب اسلامی سے ملاقات کی۔

اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کے 86ویں بحریہ اسکواڈرن نے حال ہی میں 65000 کلومیٹر سے زائد سمندری راستے اور 8 ماہ کی کشتی رانی کے بعد دنیا بھر میں 360 ڈگری کا اپنا تاریخی مشن مکمل کیا۔

اس ملاقات میں رہبر معظم انقلاب کے بیانات کا ایک اقتباس حسب ذیل ہے:

آپ نے جو کارنامہ انجام دیا وہ بہت بڑا اعزاز تھا۔

اللہ کا شکر ہے کہ آپ کے عزیر چاہنے والے واپس آگئے اور آپ نے انہیں گلے لگایا لیکن شہداء کے اہل خانہ کے پیاروں کا خلا پر نہیں ہوسکا۔

میں شہیدوں کے اہل خانہ سے ملاقات کے وقت اکثر کہتا ہوں کہ خدا آپ کا سایہ ایرانی قوم پر قائم رکھے۔

اس ملاقات کا مقصد 86ویں بحری گروپ کا شکریہ ادا کرنا ہے جس نے ایک عظیم مشن مکمل کیا اور کامیابی کے ساتھ پوری دنیا کا چکر لگایا، جو ہمارے ملک کی بحریہ کی تاریخ میں نہیں ہوا تھا۔ میں آپ میں سے ہر ایک کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں اور آپ کے اہل خانہ کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔

میرے عزیزو! آپ کے پیشرو اسلاف کی محنتیں اور اقدامات انقلاب سے لے کر آج تک، آپ کی موجودہ کامیابی کی بنیاد ہیں۔ ہمیں ان کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ 
فوج اور سپاہ پاسدران انقلاب نے سمندر میں بہت قربانیاں دیں اور یہ  قربانیاں آج رنگ لائیں۔ آپ لوگ وہ پھول ہیں جنہیں انہوں نے اگایا تھا اور آپ ان کے لگائے گئے درخت کا میٹھا پھل ہیں۔ آپ نے ثابت کیا کہ آزاد سمندر پر سب کا حق ہے اور ان کا یہ کہنا کہ بعض جہازوں کو آبنائے سے گزرنے کی اجازت نہیں دیتے، بہت بڑی غلطی ہے۔

آپ کا یہ اقدام سکیورٹی کی ضمانت تھا۔ ان دور دراز علاقوں جیسے بحرالکاہل اور بحر اوقیانوس میں آپ کی موجودگی نے ملک کی سلامتی کو یقینی بنایا۔

 آپ نے دنیا کو عملا دکھایا کہ سمندر پر سب کا حق ہے اور آزاد سمندر کسی کے لیے خاص نہیں۔


اگر ان نام نہاد سپر طاقتوں کا بس چلے تو یہ سمندروں کو بھی اپنے نام کر لیں گی اور دوسری اقوام کو محروم کر دیں گی۔ یہ امریکہ کی خصوصیات میں سے ایک ہے لیکن آپ نے اسے توڑا ہے اور یہ جرات آپ اس اقدام کام کے واضح نتائج میں سے ایک ہے۔ 

آپ نے ثابت کیا کہ آزاد سمندر پر سب کا حق ہے اور ان کا یہ کہنا کہ بعض جہازوں کو آبنائے سے گزرنے کی اجازت نہیں دیتے، بہت بڑی غلطی ہے۔

سمندر اور ہوا تمام قوموں کے لیے آزاد ہونا چاہیے، تمام ممالک کے لیے جہاز رانی اور بحری نقل و حمل کی حفاظت کو یقینی بنانا چاہیے، آج امریکی آئل ٹینکرز پر حملے کرتے ہیں، سمندری اسمگلنگ کرنے والے گروہوں کی مدد کرتے ہیں، یہ ہمارے خطے میں ان کا بڑا جرم ہے۔ دوسری جگہوں پر بھی وہ اس طرح کی حرکتیں کرتے ہیں۔ لیکن یہ ناقابل معافی بین الاقوامی انسانی قانون کی خلاف ورزی ہے۔ آپ نے اس اقدام کے ذریعے سمندر کی حفاظت کے قانون کو عملی طور پر سب کے لیے نافذ کیا۔

آپ کا یہ عمل ایران کے بین الاقوامی امیج کو بڑھانے اور بہتر کرنے میں کامیاب رہا۔ آپ کے اس کام کی سیاسی قدر اس کی عسکری قدر سے اگر زیادہ نہیں تو کم نہیں تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ سمندر پر اتنی بڑی مہم کرنے کے قابل تھے گویا ایران کے پاس اتنی طاقت، سائنسی صلاحیت اور مہارت تھی کہ وہ اس عظیم کام کو انجام دینے کے قابل بنا جس سے ملک کے بین الاقوامی امیج میں بہتری آئی۔ آپ کی اس بحری مہم نے ہم سب اور ہر اس شخص کے لیے جو آپ کی اس مہم کے بارے میں جانتا ہے ایران کے اسلامی انقلاب کی اہمیت کو واضح کر دیا۔ کیوں؟ کیونکہ انقلاب نے ہمیں یہ علم، یہ صلاحیت، یہ خود اعتمادی عطا کی ہے ۔ 

انقلاب نے ہی ہمیں اتنا عظیم کام کرنے کی یہ یہ ہمت عطا کی ہے۔ جب کہ انقلاب سے پہلے ایسا ممکن نہیں تھا۔ پہلویوں اور قاجاریوں کے ذلت آمیز دور میں ہم اتنے ساحلوں، اتنی سمندری سہولیات کے ساتھ سمندر کو نہیں جانتے تھے۔ ہماری بحریہ دیگر کاموں میں مصروف تھی۔ انقلاب نے سمندر کو بندش اور فراموشی سے نکالا۔

مہر خبررساں ایجنسی، سیاسی ڈیسک: نامہ نگار نفیسہ عبداللہی: «سزد کراچی و لاهور، قبه السلام / ‏‬ که هست یاری اسلام کار پاکستان. مدام تشنه صلح است ملتش / ‏‬هرچند که نیست کم ز کسی اقتدار پاکستان» 

شاید یہ اشعار فارسی گو شاعر اقبال لاہوری کی بہترین توصیف ہو۔

پاکستان یا پاک لوگوں کی سرزمین، برصغیر کے ثقافتی دائرے کا گیٹ وے ہے۔ یہ ملک اور یقیناً ہندوستان کا شمال ہمیشہ سے فارسی زبان کا ثقافتی علاقہ سمجھا جاتا رہا ہے لیکن انگریزوں کی آمد اور اس خطے سے فارسی زبان کو ختم کرنے کی منصوبہ بندی کی وجہ سے فارسی ان علاقوں میں کم نمایاں ہو گئی ہے۔  تاہم اب بھی ان دونوں ممالک میں اس کی موجودگی کے بہت سے آثار موجود ہیں۔ مثال کے طور پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کا قومی ترانہ زیادہ تر فارسی الفاظ پر مشتمل ہے، جیسے: پاک سرزمین شاد باد، کشور حَسین شاد باد، مرکز یقین شاد باد.

پاکستان دوسرا سب سے زیادہ آبادی والا مسلمان ملک اور واحد اسلامی ملک ہے جس کے پاس ایٹم بم ہے۔ اس ملک میں بیرونی مداخلت ہمیشہ سے ایک مسئلہ رہی ہے اور پاکستان کے ایک سابق عہدیدار کے مطابق اگر استعمار نہ ہوتا تو آج ہم اور ایرانی فارسی بول رہے ہوتے۔

اسلامی جمہوریہ ایران پاکستان کے لوگوں کے لیے ایک اسٹریٹجک ثقافتی اور تہذیبی گہرائی ہے، اس لیے ان میں سے بہت سے لوگ ایران کو اپنا دوسرا ملک سمجھتے ہیں۔

پاکستان کے زمینی مشاہدات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے عوام میں باہمی محبت کے جذبات سے سرشار ہیں۔ جب پاکستانیوں کو ایرانیوں کی شناخت معلوم ہوتی ہے تو وہ جلدی سے اپنی خوشی اور مسرت کا اظہار کرتے ہیں۔

ایران کی سڑکوں پر پاکستانی مشہور شخصیات اور پاکستان کی سڑکوں اور اہم مقامات پر ایرانی مشہور شخصیات کے نام، فارسی زبان کی اعلی مشترکات کے ساتھ، دونوں قوموں کے گہرے تعلق کی عکاسی کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں ایرانی وزیر خارجہ کے حالیہ دورے کے دوران کراچی کی ایک شاہراہ کا نام تبدیل کر کے امام شاہراہ خمینی رکھ دیا گیا۔

پاکستان وہ پہلا ملک ہے جس نے اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوریہ ایران کی تشکیل کو تسلیم کیا۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کئی سالوں سے امریکہ میں ایران کے مفادات کا محافظ رہا ہے اور اس نے 8 سالہ جنگ کے دوران مدد کی اور ہماری مسلح افواج کو رسد فراہم کی۔

ہمالیہ کی بلندی کو چھوتے ایران_ پاکستان کے تعلقات

اس لیے اگر ہم برصغیر پاک و ہند کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں تو اس کا گیٹ وے پاکستان ہے، جو ایک مسلمان اور دوست ملک ہے جو کبھی بھی ایران اور ایرانیوں کے ساتھ تصادم کا شکار نہیں رہا۔ بلاشبہ اسلامی جمہوریہ ایران بھی پہلا ملک ہے جس نے قیام پاکستان اور اس خطے کے مسلمان عوام کی برطانوی استعمار سے آزادی کے وقت اسے تسلیم کیا۔

پاکستان کی قومی اسمبلی کے سپیکر راجہ پرویز اشرف نے ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان سے ملاقات میں کہا: ہم کبھی نہیں بھولیں گے کہ ایران پہلا ملک تھا جس نے پاکستان کی آزادی کو تسلیم کیا۔

کوہ ہندوکش کی بلندی جتنے عروج پاتے پاک ایران تعلقات 

محمد علی جناح، گاندھی کے دوستوں میں سے ایک تھے، جنہوں نے برصغیر کے مشہور فارسی شاعر اقبال لاہوری کے ساتھ مل کر ایک مسلم ملک کے قیام کی تجویز پیش کی اور پاکستان کی آزادی کے آغاز کے ساتھ ہی، حالانکہ اس سرزمین کو ہندوستان کا حصہ سمجھا جاتا تھا۔ مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان تلخ واقعات رونما ہونے سے بالآخر پاکستان ایک مسلم ملک کے طور پر ہندوستان سے الگ ہوگیا۔

اپنے دورہ پاکستان کے دوران ایرانی وزیر خارجہ حسین امیرعبداللہیان نے پاکستان کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح کے مزار پر حاضری دی اور  مرحوم رہنما کی یادگاری کتاب پر دستخط بھی کیے۔

آیت اللہ خامنہ ای کے دورہ پاکستان کے موقع پر پاکستان عوام کا پرتپاک استقبال

1981 سے 1989 تک اسلامی جمہوریہ ایران کہ جس پر جنگ مسلط کردی گئی تھی، نے خارجہ پالیسی اور سفارت کاری کے احیاء کو ایجنڈے پر رکھا۔ اس سلسلے میں اس وقت کے صدر آیت اللہ خامنہ ای نے کئی ملکوں کا دورہ کیا۔

1985 میں آیت اللہ خامنہ ای کا پاکستان کا دورہ ان دوروں میں سے ایک اہم ترین سفر تھا جس کا ذرائع ابلاغ اور میڈیا حلقوں میں بہت چرچا رہا۔ یہ استقبال اس قدر بے ساختہ اور تاریخی طور پر وسیع تھا کہ گویا پاکستانی عوام نے اپنے عوامی صدر کا استقبال کیا تھا۔ حتیٰ کہ امام خمینی (رح) نے اس سفر کے بعد اپنی ایک تقریر میں دنیا کی مسلم اور آزاد اقوام کی نوزائیدہ  اسلامی انقلاب سے دلچسپی کے اظہار کو آیت اللہ خامنہ ای کے دورے میں منعکس پایا۔

ہمالیہ کی بلندی کو چھوتے ایران_ پاکستان کے تعلقات

دونوں ممالک کے درمیان یہ ثقافتی تعلقات ا اتنے گہرے ہیں کہ پاکستانی عوام نے امام خمینی (رح) کے انتقال پر دس روزہ عوامی سوگ کا اعلان کیا۔

پاکستان کے ساتھ وسیع مفادات اور گہرے تعلقات کا پایا جانا اور تصادم کا فقدان

پاکستان کے سعودی عرب کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں اور سعودی عرب کے ساتھ ہمارے تعلقات میں بہتری تینوں ممالک کے ساتھ مل کر تعلقات میں مزید بہتری کا باعث بن سکتے ہیں۔

پاکستان میں سعودی عرب کے اثر و رسوخ کے باوجود ہم نے دیکھا کہ جب سعودی عرب اور بعض عرب ممالک نے یمن پر حملہ کیا تو پاکستان نے ایران کے ساتھ مشاورت کرتے ہوئے  یمن کی دلدل میں اترنے سے انکار کر دیا۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ سعودی عرب کے ساتھ اچھے تعلقات کے باوجود یہ ملک ایران کو اپنی تہذیب کا ہمدرد اور حقیقی بھائی سمجھتا ہے۔

اگرچہ پاکستان میں سلفی رجحانات موجود ہیں، لیکن ہمارے اور پاکستان کے درمیان مفادات کا وسیع تصادم کبھی نہیں ہوا اور دونوں ممالک اپنے وجود اور بہت سی مشترکات کی وجہ سے بعض ادوار میں پیدا ہونے والے سیاسی چیلنجوں کو سنبھالنے میں کامیاب رہے ہیں۔

پاکستان کے معاشی دل (شہرا کراچی) کا سفر 

پاکستان ایک بڑا ملک ہے جس کی بڑی آبادی اور اعلیٰ اقتصادی صلاحیت ہے۔ ایرانی انجینئرنگ کی اعلیٰ صلاحیت، پاکستان کی اچھی مارکیٹ اور زیادہ کھپت کے ساتھ جو کہ ایران سے تین گنا آبادی والا ملک ہے، دونوں ممالک کے درمیان تجارتی اور اقتصادی تعاون کو فروغ دے سکتی ہے۔

اس کے علاوہ ایرانی وزیر خارجہ کے دورہ کراچی کے دوران پاکستان کے اقتصادی مرکز میں ایران اور پاکستان کے درمیان سرمایہ کاری کے عنوان سے ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس میں تہران اور کراچی کے چیمبر آف کامرس کے درمیان تعاون کی دستاویز پر دستخط کیے گئے۔

ماضی میں امریکہ کے دباؤ نے ایران اور پاکستان کے درمیان اقتصادی تعاون کو روکا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور آخری دہائی میں امریکہ کے دباؤ کا کوئی اثر نہ ہوا اور پاکستان نے ایران کے ساتھ دوستی میں اپنی بہتری تلاش کرنے کا فیصلہ کیا۔ 

ہمالیہ کی بلندی کو چھوتے ایران_ پاکستان کے تعلقات

شنگھائی تعاون تنظیم، اسلامی کانفرنس، اسلامی تعاون تنظیم اور ای سی او میں ایران اور پاکستان کی رکنیت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ دونوں ممالک مختلف شعبوں میں دوطرفہ تعاون کر سکتے ہیں۔

لہٰذا ایران کی موجودہ حکومت کا سفارتی نظام، تاریخی، تہذیبی اور ثقافتی معاونت کے ساتھ ساتھ متوازن پالیسی اور مشرق کی طرف دیکھتے ہوئے ان پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات کو از سر نو استوار کر رہا ہے۔

ایف اے ٹی ایف اور امریکی پابندیاں ہمارے اور پاکستان کے کاروباری اہداف کے حصول میں رکاوٹ نہیں بنیں۔

وزارت خارجہ کی معاشی سفارت کاری کے نائب مہدی سفاری نے مہر نامہ نگار کو دونوں ممالک کی 5 سرحدی مارکیٹیں کھولنے کے منصوبے کے بارے میں بتایا: پاکستان کے ساتھ ہمارے اہم ترین مسائل میں سے ایک تجارت ہے۔ ہم نے کلیئرنگ کی بنیاد پر اس ملک کے ساتھ تجارت کی ہے۔

ہمالیہ کی بلندی کو چھوتے ایران_ پاکستان کے تعلقات

سفاری نے تاکید کی کہ اس وقت ایران اور پاکستان کے درمیان تجارت کا حجم 2.5 بلین ڈالر ہے۔

انہوں نے واضح کیا کہ ایف اے ٹی ایف اور امریکی پابندیاں جیسے مسائل ہمارے اور پاکستان کے تجارتی اہداف کے حصول میں رکاوٹ نہیں تھے، لیکن ہمارا ایک مسئلہ ٹیرف کا مسئلہ تھا جس کا طریقہ کار واضح نہیں تھا اور سرحدی اور نقل و حمل کے مسائل بھی حل طلب تھے جن میں سے بہت سے حل ہو چکے ہیں۔

وزارت خارجہ کی معاشی سفارت کاری کے نائب نے مذکورہ سفر کے دوران ایران اور پاکستان کے درمیان کلیئرنگ میکانزم کی تعریف کرتے ہوئے کہا: اب جب کہ پاکستانی فریق اس مسئلے کو سمجھ چکا ہے، ہم پاکستان کے ساتھ کلیئرنگ کو بڑھا سکتے ہیں۔

سفاری نے کہا کہ ان کا خیال تھا کہ کلیئرنگ کا مطلب یہ ہے کہ جو کوئی پروڈکٹ خریدتا ہے اسے بھی ایک پروڈکٹ ایکسپورٹ کرنا چاہیے، لیکن جب ہم نے کلیئرنگ کے طریقہ کار کی وضاحت کی تو انھوں نے کہا کہ پاکستان کی وزارت اقتصادیات اس معاملے پر فالو اپ دے گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم پاکستان کے ساتھ تجارتی حجم کو 5 بلین ڈالر تک بڑھانے کے خواہاں ہیں، اور اس کے بعد ہمارا اگلا ہدف سالانہ 10 بلین ڈالر کا تجارتی حجم حاصل کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگلے پیر کو ایران اور پاکستان کے درمیان مشترکہ راہداری کمیشن کا اجلاس ہوگا جس کے بعد ایران سے بھیجی جانے والی گاڑیاں بارڈر پر نہیں رہیں گی اور پاکستان جائیں گی، جسے ایک مثبت قدم قرار دیا جا سکتا ہے۔ .

ایران اور پاکستان کے درمیان 3 ارب ڈالر کا تبادلہ

ایرانی وزارت خارجہ کے جنوبی ایشیا کے ڈائریکٹر سید رسول موسوی نے بھی اس بارے میں مہر نیوز کے نامہ نگار کو بتایا کہ پاکستان کا دورہ گزشتہ 5 سالوں میں کامیاب ترین دوروں میں سے ایک تھا۔

ہمالیہ کی بلندی کو چھوتے ایران_ پاکستان کے تعلقات

امہوں نے کہا کہ اس سفر کے دوران، ہم نجی اور سرکاری دونوں شعبوں اور پاکستان میں موجود مختلف ڈھانچوں کے ساتھ اپنی بات چیت کو آگے بڑھانے اور اچھے معاہدے کرنے میں کامیاب رہے۔ بعض اوقات، دونوں ممالک کے درمیان موجود کچھ بڑی چیزیں چھوٹے مسائل سے دوچار ہوتی تھیں، اور ہم اس سفر کے دوران کچھ مسائل کو حل کرنے میں کامیاب ہوئے، کیونکہ چھوٹے مسائل کو حل کرنا ہی بڑے کام کرنے کی بنیاد ہے جیسے کلیئرنگ، بینکنگ،  تجارت اور سلامتی کے مسائل۔

سیکیورٹی سرحدوں کو اقتصادی سرحدوں میں تبدیل کرنے کا معاہدہ

موسوی نے یاد دلایا کہ اس سفر کے دوران، خصوصی سرحدی حفاظتی معاہدوں اور دونوں ممالک کے درمیان سرحد کو اقتصادی سرحد میں بدلنے کے لئے بات چیت، دونوں ممالک کے درمیان حاصل ہونے والی اہم کامیابیوں میں سے ایک ہے۔

انہوں نے ایران اور پاکستان کے درمیان مالیاتی تبادلوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا: اس وقت دونوں ممالک کے درمیان تقریباً 3 بلین ڈالر کے مالیاتی تبادلے ہو رہے ہیں اور گزشتہ سال کے مقابلے میں ہم دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تبادلوں میں ایک اچھا اضافہ دیکھ رہے ہیں۔ .

ایرانی وزارت خارجہ کے جنوبی ایشیا کے ڈائریکٹر جنرل نے افغانستان کے مسائل کے حوالے سے پاکستانی حکام کے ساتھ ہونے والی بات چیت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس سفر کے دوران عمومی طور پر افغانستان میں امن و استحکام کے لیے دونوں ممالک کی دلچسپی اور ایک قومی حکومت کی تشکیل کے لئے دونوں ممالک کے مشترکہ کوشش کے حوالے سے بات کی گئی تاکہ افغانستان میں ایک ترقی پذیر حکومت کا قیام عمل میں آسکے۔

حوزه نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، گلگت پاکستان برمس پائن امام بارگاہ قصر زینب سلام اللہ علیہا میں، حسب سابق امسال بھی عالمی یوم علی اصغر علیہ السلام عقیدت واحترام کے ساتھ منایا گیا۔

گلگت؛ عالمی یوم علی اصغر عقیدت واحترام کے ساتھ منایا گیا

عالمی یوم علی اصغر علیہ السلام کی مجلس سے جامعہ الخدیجہ الکبریٰ دنیور کی پرنسپل محترمہ رباب نے خطاب کیا۔

انہوں نے معاشرے میں پھیلتی دشمن کی سازش سمجھنے اور معاشرتی برائیوں پر قابو پانے کے عنوان سے سیر حاصل گفتگو کی اور علی اصغر علیہ السلام کے مصائب پیش کئے۔

عالمی یوم علی اصغر علیہ السلام کا انتظام، برمس پائن کی خواتین اور مجلسِ وحدت المسلمین گلگت کی سینئر خواتین اراکین کے تعاون سے کیا گیا اور سابقین مجلس وحدت المسلمین گلگت خواہر جنت، خواہر تاج حور، خواہر ریحانہ اور خواہر جمیلہ کی کئی سالوں سے جاری کاوشوں اور انتھک محنت کے بعد، عالمی یوم علی اصغر علیہ السلام کا یہ سلسلہ پورے گلگت میں فروغ پا گیا ہے۔

گلگت؛ عالمی یوم علی اصغر عقیدت واحترام کے ساتھ منایا گیا

اصلاح اُمّت کا جو مِشن لے کر امام حسین (علیہ السلام) مدینے سے روانہ ہوئے تھے وہ دسویں محرم سن 61 ھجری کو ختم نہیں ہوا بلکہ اس نے عالمی سطح کی ایک تحریک اور ظہور امام زمانہؑ تک جاری رہنے والے ایک Movement کی شکل اختیار کرلی- عزاداری اسی Movement اور تحریک کا نام ہے- قیامت تک آنے والی نسلیں جنہیں امام کی آوازِ استغاثہ سنائی دے رہی ہے اور جو یہ خواہش ظاہر کرتے ہیں کی کاش ہَم کربلا میں ہوتے، وہ آج بھی امامؑ كے اِس مِشن اور تحریک کا حصّہ بن سکتے ہیں-

عزاداری کا مقصد وہی ہے جوامام حسینؑ کے مِشن کا مقصد تھا۔ یعنی اصلاحِ اُمّت۔ امامؑ کی وصیّت کی روشنی میں اصلاحِ امّت کے لئے جو طریقئہ کار ہونا چاہئے وہ ہے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر۔ یعنی اچھائیوں کی طرف بلانا اور برایئوں سے روکنا۔ اچھایئوں اور برایئوں کا معیار طے کرنے کے لئے ہمیں رسول اللہؐ اور حضرت علیؑ کی سیرت پر نظر رکھنا ہوگا-

عزاداری ایک ایسی تحریک ہے جس نے صدیوں سے مخالف ہواؤں، ظلم و بربریت کے طوفانوں اور سازشوں کے سیلابوں کے باوجود ہمیں زندہ رکھا، ہماری پہچان کو باقی رکھا، ہمارے دین و ایمان کوسلامت رکھا اور ہمارے حوصلوں کو بلند رکھا- یہی وجہ ہے کہ صدیوں سے ظاہری اور باطنی شیاطین عزاداری پر حملے کر رہے ہیں اور چاہ رہے ہیں کہ کسی طرح اس تحریک کو کمزور کر دیں تاکہ ان کے لئے اصل دین کو ختم کرنا ممکن ہو سکے۔ لہٰذا یہ ہمارا فریضہ ہے کہ ہمیشہ شیاطین کی سازشوں سے چوکننے رہیں اور دیکھتے رہیں کہ کہیں ہماری عزاداری امامؑ کے مقصد سے دور تو نہیں ہو رہی ہے۔

قرآن کہتا ہے کہ نماز فحش اور لغو باتوں سے دور کرتی ہے۔ اگرہم دیکھیں کہ ہمارے اندر فحش اور بےحیائی کی باتیں پنپ رہی ہیں تو ہمیں اپنی نماز کو چک کرنا چاہئے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہماری نماز کا طریقہ رسول اللہؐ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق نہ ہو۔ کیا ہم نماز میں وہ شرائط پورے کر رہے ہیں جو اس کے صحیح ہونے کے لئے ضروری ہیں؟ جیسے جیسے ہم اپنی نماز کو بہتر سے بہتر طریقے سے ادا کریں گے ویسے ویسے ہم فحش اور لغو باتوں سے دور ہوتے جائیں گے۔

یہی عزاداری کا بھی معاملہ ہے۔ اگر ہم دیکھیں کہ ہمارے معاشرے میں سدھار آرہا ہے۔ پہلے جتنی خرابیاں پائی جاتی تھیں اب اتنی خرابیاں نہیں رہ گئیں ہیں تو سمجھیں کہ ہم صحیح طریقے سے عزاداری کر رہے ہیں- لیکن اگر اس کے برعکس ہمیں اپنے معاشرے میں پہلے سے زیادہ خرابیاں دکھائی دیں تو ہمیں چک کرنا چاہئے کہ ہم عزاداری کرنے میں کہاں کوتاہی کر رہے ہیں۔

اس بات کو ایک مثال کے ذریعے اور واضح کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً آج کل فضا میں آلودگی اتنی زیادہ بڑہ گئی ہے کہ انسان کے لئے سانس لینا بھی مشکل ہو رہا ہے۔ اس گھٹن کو دور کرنے کے لئے ایک شخص نے اپنے گھر میں ایئر پیوریفایر(Air Purifier) لگایا- جس کی وجہ سے گھٹن کم ہوئی اور اس نے سکون کی سانس لی- لیکن کچھ ہی مہینوں بعد دیکھا کہ پھر سے دم گھٹنے لگا۔ یہ دیکھ کر اس شخص نے مشین کے جانکار کو بلایا کہ دیکھ کر بتائے کہ مشین کیوں کام نہیں کر رہی ہے۔ شائد اس کا فلٹر(Filter) صاف کرنے کی ضرورت ہو-

اسی طرح اگرہم دیکھیں کہ ہمارا معاشرہ برائیوں سے آلودہ ہو رہا ہے، عقائد فاسد ہو رہے ہیں، اعمال برباد ہو رہے ہیں، اخلاقی معیار گر رہا ہے، بدعتیں پھیلائی جا رہی ہیں، حرام کو حلال سمجھا جا رہا ہے، امربالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والوں کے خلاف سازشیں ہو رہی ہیں، ظالم حکمرانوں کی طرفداری کی جا رہی ہے اور ماحول میں گھٹن محسوس ہو رہی ہو تو ہمیں چک کرنا چاہئے کہ عزاداری کرنے میں ہم سے کہاں کمی ہو رہی ہے؟ ہماری عزاداری ماحول کو آلودگی سے پاک کیوں نہیں کر رہی ہے؟ معاشرے کوpurify کیوں نہیں کر رہی ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ جانے انجانے میں ہماری عزاداری کا مقصد اصلاحِ امّت کے بجائے کچھ اور ہو گیا ہو؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم نے عزاداری میں امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے لئے کوئی جگہ نہیں رکھی ہو؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم عزاداری کرنے میں رسول اللہؐ اور حضرت علیؑ کی سیرت کو بھول گئے ہوں؟

کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں کہ ہم اُس طرح سے عزاداری کریں جس طرح معصومینؑ جاہتے ہیں اِس کے باوجود ہمارا معاشرہ ایک مثالی اورideal معاشرہ نہ بنے-

آیئے ہم اپنی عزاداری پر ایک نظر ڈالیں اور دیکھیں کہ کہاں پر ہم مقصد سے دور جا رہے ہیں- سب سے پہلے ہم شروع کرتے ہیں ایّامِ عزا کی تیاری سے۔ عام طور سے ہم ذی الحجہ کے مہینے سے بلکہ بعض اوقات رمضان المبارک سے محرم کی تیاریاں شروع کر دیتے ہیں۔ بانیانِ مجلس ذاکرین سے بات کرنے اورامامبارگاہوں کی صاف صفائی اور رنگ روغن کروانے میں مصروف ہو جاتے ہیں، ذاکرین مسوّدہ تیار کرنے میں، شعرا نئے کلام کی فکرمیں، سوزخوان و نوحہ خوان حضرات سلام و نوحوں اور مراثی کے انتخاب اور بیاضیں درست کرنے میں غرض کہ ہر عزادار اپنے اپنے حصے کے کاموں کو خلوص کے ساتھ بہتر سے بہتر طریقے سے انجام دینے کی کوشش میں لگ جاتا ہے۔ لیکن بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ان سب انتظامات میں ہم اتنا مصروف ہو جاتے ہیں کہ ہمارا focus مقصد عزا سے ہٹ جاتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ عزاداری کی تیاری شروع کرنے سے پہلے ہم اللہ سے دعا مانگیں کہ وہ ہماری مدد کرے کہ اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں کسی لمحے مقصدِ عزا سے ہمارا focus نہ ہٹے- پھر حضرت زہرا سلام اللہ علیہا سے وعدہ کریں کہ ہم اس سال ایّام عزا سے خود اپنی اصلاح شروع کریں گے، اپنے گھروالوں اور اپنے معاشرے کو بہتر بنانے کی اپنی طاقت بھر پوری کوشش کریں گےـ امام حسینؑ سے کہیں کہ مولا ہم گناہگار ہیں لیکن ہم آپ کی آوازِ استغاثہ پر لبیک کہتے ہیں۔ مولا جس طرح آپ نے جنابِ حُر کو معاف کرکے اپنے مِشن میں شریک کر لیا ہمیں بھی اپنے اس عظیم تحریک کا حصہ بنا لیجئے- اسی طرح امامِ زمانہؑ سے وعدہ کریں کہ ہم پوری کوشش کریں گے کہ کوئی ایسا کام نہ کریں جس سے آپ کو رنج ہو- اُن سے التجا کریں کہ مولا! ہمیں اس لائق بنا دیجئے کہ ہم شہدائے کربلا سے امامِ وقت کی اطاعت کا سلیقہ سیکھ سکھیں اور آپ کے احکام کو حاصل کرنے کے لئے آپ کے نائبین کی طرف رجوع کرسکیں-

اب آیئے ہم چلتے ہیں اُن لوگوں کی طرف جو کسی نہ کسی انداز سے عزاداری میں اپنا رول ادا کر رہے ہیں۔ مثلاً :
1- بانیانِ مجلس: بانیانِ مجلس کا عزاداری میں بہت ہی اہم کردار ہوتا ہے۔ اُن کے کاندھوں پر بہت بڑی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ذرا سی چوک کی وجہ سے بڑا نقصان ہو سکتا ہے اس لئے انھیں بہت احتیاط سے کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہےـ
(الف) عزاداری کے لئے فنڈ کا انتظام: اگر بانیِ مجلس عزاداری کے اخراجات اپنے جیب سے اٹھا رہا ہے تو اسے یہ دیکھنا ہوگا کہ مال جائز طریقے سے حاصل کیا ہو اور اس پر خمس باقی نہ ہو۔ اور اگر چندے سے انتظام کیا جا رہا ہے تو امانتداری کا پورا خیال رہے۔ چوری کی بجلی استعمال کرنے سے پرہیز کرے۔
(ب) ذاکر کا انتخاب: ذاکر کے انتخاب میں بعض لوگوں کا معیار یہ ہوتا ہے کہ ذاکر مشہور ہو تاکہ مجمع زیادہ ہو، ذاکر ایسا ہو کہ واہ واہ اور داد و تحسین سے چھتیں اُڑجایئں- ایسی ہی مجلسوں کو کامیاب سمجھا جاتا ہے جہاں مجمع زیادہ ہو اور واہ واہ زیادہ ہو۔ جبکہ ہمیں ایسے ذاکر کا انتخاب کرنا چاہیئے جوعالمِ باعمل ہو، با اخلاق ہو، وعدہ خلافی نہ کرتا ہو، ضروریاتِ دین کے خلاف نہ بولتا ہو، مجلس میں شرکت کرنے والوں کی توہین نہ کرتا ہو، سوالات اور حوالہ پوچھے جانے پر ناراض نہ ہوتا ہو، مراجع کرام کی توہین اور اُن کے احکام کے خلاف نہ بولتا ہو، ذکرِ معصومین اور ذکر کربلا کے ذریعہ اصلاح امّت کی کوشش کرتا ہو، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتا ہو اور سیرتِ معصومین کو سماج میں رائج کرنے کی کوشش کرتا ہو۔
(ج) بعض اوقات تبرک تقسیم کرنے میں دکھاوے، نام و نمود اور دوسروں سے مقابلے کا خیال ذہن میں آجاتا ہے جس سے نیک عمل بھی برباد ہو جاتا ہے۔ اس سے بچنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ہمیں چاہیئے کہ کوئی بہت خاص اورعجوبی چیز بانٹنے کی کوشش نہ کریں بلکہ ایسی چیز تقسیم کریں جس طرح کی چیزعام طور سے لوگ مجالس میں تقسیم کرتے ہوں۔ ہاں اہم بات یہ ہے کہ تبرک تقسیم کرنے میں عوام اور خواص میں فرق نہ کریں اور نہ کسی بچّے کو جھڑکیں۔ یہی خیال نذرِ مولا اور حسینی لنگر میں بھی رکھنا چاہیئے کہ عوام اور خواص میں فرق نہ کریں، سب ایک ساتھ ایک دسترخوان پر کھائیں۔ مجلس میں آنے والے سب حضرتِ زہرا سلام اللہ علیہا کے مہمان ہیں۔ اس وجہ سے ہمارے لئے سب خاص ہیں۔ سب لائق احترام ہیں۔
(د) ایسا کوئی کام نہ کریں جس سے دوسروں کو اذیت ہو۔ مثلاً ایسا ساؤنڈ باکس لگائیں جس سے صرف عزاخانے کے اندر آواز رہے۔ کسی کی دیوار پر پوسٹرلگانے سے پہلے اس کے مالک کی اجازت لیں، اگر آس پاس کوڑا پھیل گیا ہو تو مجلس کے بعد اسے صاف کروا دیں۔ وغیرہ وغیرہ۔

2- سوزخوان، نوحہ خوان اور شعراء اہلبیتؑ: نظم کے ذریعہ پیغاماتِ کربلا اور افکارِ معصومینؑ کو نشرکرنا اتنا اہم کام ہے کہ معصومینؑ نے ایسے شعراء کی حوصلہ افزائی کی ہے اور انعامات سے نوازا ہے۔ اس لئے ہماری ذمہ داری بھی بہت زیادہ۔ ہمیں بہت احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہے کہ کہیں ہمارا کوئی شعر معصومینؑ کی تعلیمات کے خلاف نہ جا رہا ہو۔ دشمنانِ دین کی سازشوں کو کامیاب بنانے میں مددگار نہ ہو رہا ہو۔ امّت کی اصلاح کے بجائے ان کے عقائد کو خراب نہ کر رہا ہو، بے عملی کی دعوت نہ دے رہا ہو۔ اس طرح کی بہت سی باتیں ہیں جنھیں بیان کرنے کے لئے ایک الگ مضمون بلکہ ایک کتابچہ کی ضرورت ہے۔

3- ذاکرینِ اہلبیتؑ: جب بھی کسی حکومت کو کوئی تحریک چلانی ہوتی ہے تو وہ حکومتی سطح پر کروڑوں روپئے خرچ کرتی ہے، اشتہاروں، جلسوں اور ریلیوں کے ذریعے عوام کو بیدار کرنے کی کوشش کرتی ہے اور یہ سب کچھ تھوڑے ہی عرصے تک چلتا ہے۔ اور پھر جب فنڈ ختم ہو جاتا ہے تو لوگوں کا جوش بھی ختم ہو جاتا ہے اور پھرتحریک بھی دم توڑ دیتی ہے۔ لاکھوں سلام ہو جنابِ زینبؑ کی دور بین نگاہوں پرکہ جنھوں نے عزاداری کی بنیاد رکھی۔ لاکھوں درود ہو ائمہِ معصومینؑ پر جنھوں نے عزاداری کو معاشرے میں رائج کیا اور اسے promote کیا۔ ایک ایسا system تیار کیا کہ ظہورامامؑ زمانہ تک نہ تو کبھی فنڈ کی کمی ہو اور نہ عزاداروں کے جوش و خروش اور جذبے میں کبھی زوال آئے۔ حالات کی سختیاں ہوں، ظالم حکونتوں کی ستم آرائیاں ہوں، دہشت گردوں کی بمباریاں ہوں یا کوئی اور مصیبت، سلسلئہ عزا کبھی کمزور ہوتا ہوا نہیں دکھائی دیا بلکہ جیسے جیسے مشکلیں بڑھتی گیئں عزاداروں کا جوش اور ولولہ بھی بڑھتا گیا۔ تحریک عزا اور پائیدار ہوتی رہی۔ اس سسٹم میں بانیانِ مجلس فنڈ کا انتظام کرتے ہیں، عزاداروں کو اکٹھا کرتے ہیں، تبرک کا اہتمام کرتے ہیں، ذاکرین کی زاد راہ اور نذرانے کا بند و بست کرتے ہیں اور فرش بچھا کر منبر کو ذاکرین کے حوالے کردیتے ہیں کہ وہ اب معصومینؑ کی تعلیمات اور پیغاماتِ کربلا نشر کریں۔ لیکن اگر کوئی ذاکراپنی ذمہ داری کو بھول جائے اور منبر سے ایسے نظریات پیش کرے جو معصومینؑ کی تعلیمات کے خلاف ہوں تو پھر اس سے ہونے والے نقصانات کی تلافی ممکن نہیں- اگر ہم نے منبر سے کوئی غلط نظریہ پیش کردیا اور بعد میں اپنی غلطی کا احساس ہوا تو ہو سکتا ہے کہ توبہ و استغفار کے بعد اللہ معاف کر دے لیکن اپنی غلطی کی تلافی کے لئے ایسے سیکڑوں لوگوں کو ہم کہاں تلاش کریں گے جن کے ذہنوں میں ہماری وجہ سے غلط نظریات بیٹھ گئے ہیں۔
افسوس کا مقام ہے کہ آج ہمارے معاشرے میں علماء کے لباس میں بہت سے ایسے لوگ آگئے ہیں جو منبر سے اصلاح کرنے کے بجائے باطل نظریات اور فاسد عقائد پیش کر رہے ہیں- عوام کی کم علمی کا فائدہ اٹھا کراپنی لفاظیوں سے انھیں مرعوب کرلیتے ہیں۔ ان کے خلوص اور محبت کا نا جائز فائدہ اٹھاتے ہوے انھیں معصومینؑ کے راستے سے بھٹکا دیتے ہیں۔ ایک طرف ہمارے سنجیدہ، ذمہ دار، مخلص اور باعمل علماء معاشرے کی اصلاح کے لئے اپنا خون پسینہ ایک کئے رہتے ہیں تو دوسری طرف غیر ذمہ دار نام نہاد علماء و ذاکرین ان کی کوششوں پر پانی پھیرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ ایسے ماحول میں اصلاحِ اُمّت کا کام یقیناً بہت بڑا challenge ہے۔ اس رکاوٹ کا مقابلہ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ذمہ دار اور سنجیدہ علماء مل کر معاشرے کا جائزہ لیں، سماج میں جو برائیاں پھیلی ہوئی ہیں ان کو دور کرنے کے لئے لائحئہ عمل تیار کریں۔ ہرسال کسی ایک برائی کو ختم کرنے کا بیڑا اٹھایئں اوراس کے لئے ایک منظم تحریک چلائیں۔ صرف منبر سے نہیں بلکہ زمینی سطح پر اتر کے بھی لوگوں کو بیدار کرنے کی کوشش کریں، ہرعلاقے میں باعمل ذاکرین، سنجیدہ شعراء، سمجھدار بانیانِ مجالس، انجمنوں کے بیدار اراکین کی ٹیم تیار کریں اور ان کی رہنمائی کریں اور ان کے ساتھ مل کر اس راہ میں پیش آنے والی رکاوٹوں کو دور کرنے کی کوشش کریں۔ یقیناً یہ کام مشکل ہے لیکن نا ممکن نہیں۔ جیسے جیسے لوگوں کی نگاہوں میں حق واضح ہوتا جائے گا لوگ خود بہ خود اہل حق کو پہچاننے لگیں گے۔ ماحول خراب کرنے والوں کے چہرے سے بھی نقاب ہٹ جائے گی۔ اللہ خیرالماکرین ہے۔ وہ سازش کرنے والوں کو کامیاب نہیں ہونے دے گا۔

4- ماتمی انجمنیں: نوجوانی کا زمانہ وہ ہوتا ہے کہ جس میں انسان سب سے زیادہ کام کر سکتا ہے۔ اگر نوجوان باعمل اور نیک ہوں تو قومیں ترقی کرتی ہیں اور اگر نوجوان بگڑ جائیں تو قومیں برباد ہو جاتی ہیں۔ ہمیں فخر ہے کہ ہمارے نوجوانوں میں محبتِ اہلبیتؑ کی شمع روشن ہے۔ اہلبیتؑ کے لئے اپنی جان بھی دینا پڑے تو وہ پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ زمانہ گواہ ہے کہ جب بھی ہمارے نوجوان مراجع کرام اورعلماء حق کی رہنمائی میں آگے بڑھتے ہیں وہ بڑے بڑے انقلاب لے آتے ہیں۔ عزاداری میں بھی ہمارے نوجوان بہت بڑا کردار ادا کررہے ہیں۔ بس ضرورت ہے تو مراجع کرام اور علماء حق کی رہنمائی میں منظم ہونے کی۔
کیا یہ ممکن ہے کہ کسی شہرمیں سیکڑوں یا ہزاروں نوجوان علماء حق کی سر پرستی اور رہنمائی میں منظم طریقے سے دو مہینے آٹھ دن حسینیت کی تبلیغ کریں اس کے بعد بھی شہر میں کوئی شخص واقعئہِ کربلا سے نا واقف ہو؟ ہم جلوس میں خود ہی نوحے پڑھتے ہیں اور خود ہی سمجھتے ہیں۔ کیا ہمارے جلوس کے قریب سے گزرنے والوں تک حسینیت کا کوئی پیغام پہنچتا ہے؟ غیروں کی کیا بات کی جائے خود ہمارے بچّے تعلیمات کربلا سے کتنا واقف ہیں اگر پوچھا جائے توشائد افسوس ہو۔

بہت دیرہوچکی ہے مزید تاخیرمناسب نہیں ہے۔ ہمیں پلان (plan) کرنا ہوگا کہ کس طرح سے ہم کربلا کا پیغام گھر گھر پہنچائیں۔ پلیکارڈ (placard)کے ذریعے، پوسٹرس(posters) اور ہورڈنگس (hoardings)کے ذریعے، لٹریچر(literature) تقسیم کر کے، فلاحی کاموں کے ذریعے، جلوسوں میں ڈیسیپلین(discipline) اور اچھے اخلاق اور انسانیت کا مظاہرہ کر کے ہمیں حسینیت کا پیغام دوسری قوموں تک پنہچانا ہوگا۔
ایامِ عزا اپنے اندر نصرتِ امامؑ کا جذبہ بیدار کرنے کا زمانہ ہے۔ مجالس میں بیٹھ کرعلماء کا بیان غور سے سنیں۔ اگر کوئی بات نہ سمجھ میں آئے تو پوچھیں۔ مجلس کے دوران باہر کھڑے ہو کر اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے والوں کو ادب کے ساتھ فرش عزا پر بیٹھنے کے لئے کہیں۔ خود اپنی بھی اصلاح کریں اور اپنے بھایئوں کو بھی اچھے انداز سے نیکی کی دعوت دیں اور برائی سے روکیں۔

سوا دو مہینے عزاداری کے ذریعے ہم نے اپنی فکروں کو پاک کیا، دِلوں کی مَیل کو صاف کیا، روح کو طاہر کیا اورغفلتوں سے بیدار ہوے۔ اب ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ کیا ایامِ عزا کے بعد ہم سال کے باقی دنوں میں پھر سو جائیں؟ نہیں، ہمیں اپنے مولا کے لئے کام کرنا ہے تمام انجمنوں کے ساتھ مل کر کام کرنا ہے۔ ایامِ عزا میں بھی اور اس کے بعد بھی نیک کاموں میں ایک دوسرے تعاون کریں۔ ایامِ عزا کے بعد معاشرے کی مشکلوں کو حل کرنے کے لئے پروگرام بنائیں اوراس پرعمل کریں۔ ہرانجمن آپس میں کام تقسیم کر لے۔ مثلاً کوئی تعلیم کو فروغ دینے کے لئے کام کرے تو کوئی قوم کی اقتصادی حالت کو بہتر بنانے کے لئے۔ کوئی سماجی مشکلات کو حل کرنے کے لئے اٹھے تو کوئی دوا اورعلاج کی دشواریوں کو آسان بنانے کے لئے۔ غرض کہ معاشرے میں نہ جانے کتنی ایسی مشکلیں ہیں جن کے لئے ہمیں کچھ کرنا ہوگا۔ ہماری قوم کے نوجوان اٹھیں تو بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ صرف نظم و ضبط اور پلانگ (planning) کے ساتھ کھڑے ہونے کی ضرورت ہے۔ یہ سب اصلاح امّت اور مقصدِ کربلا کا ایک حصہ ہے۔

آخر میں دعا ہے کہ یا اللہ تجھے امام حسین علیہ السلام کا واسطہ، ان کی مصیبتوں کا واسطہ، ان کی قربانیوں کا واسطہ کہ ہمیں اس لائق بنا دے کہ ہم امام مظلومؑ کے مقصد اور مشن کے لئے اس طرح سے کھڑے ہو سکیں کہ امامِ زمانہؑ ہمارا شمار اپنے ناصروں میں کر لیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایرانی معروف سنی عالم دین مولوی فائق رستمی نے صوبۂ کردستان میں جمعے کے خطبے میں سوئیڈن میں ایک مرتبہ پھر قرآن مجید کی توہین پر شدید ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ قرآن مجید اور دیگر ادیان کی مقدس کتابوں سمیت مختلف مقامات مقدسہ کی توہین کرنے والے تمدن و تہذیب اور انسانیت سے دور ہیں۔

امام جمعہ شہر سنندج نے مزید کہا کہ دشمنوں کی پوری کوششوں کے باوجود، قرآن مجید ایک ایسا نور ہے جسے کوئی بھی خاموش نہیں کر سکتا۔

ایرانی سنی عالم دین نے کہا کہ آسمانی کتابوں اور مقامات مقدسہ کی توہین مؤمن اور با ایمان انسانوں کی نظر میں قابلِ مذمت ہے اور آج اسلامی دنیا کو، ان بزدلوں سے مقابلہ کرنے کیلئے اتحاد و وحدت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔

مولوی رستمی نے کہا کہ اسلام اور مسلمانوں کے مقدسات کی توہین کو، ہرگز آزادی بیان سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا، بلکہ یہ حرکت مغربی دنیا کی غیر انسانی اور غیر اخلاقی سرگرمیوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

امام جمعہ شہر سنندج نے مزید کہا کہ دشمنوں نے اس غیر انسانی عمل سے اربوں مسلمانوں کے اعتقادات کی توہین کی ہے۔

ایرانی سنی عالم دین نے محرم الحرام اور اس مہینے میں رونما ہوئے واقعات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امام حسین علیہ السّلام کا تعلق تمام مسلمانوں سے ہے۔ امام حسین علیہ السّلام پیغمبرِ اِسلام صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کے نور چشم اور سب کے نزدیک محبوب ہیں۔

تہران: ڈنمارک میں قرآن پاک کی بےحرمتی پر ایران میں ڈنمارک کے سفیر کو دفتر خارجہ طلب کرلیا گیا۔ ایرانی وزارت خارجہ کے مطابق کوپن ہیگن میں قرآن کی بےحرمتی پر احتجاج کیلئے ڈنمارک کے سفیر کو طلب کیا گیا۔ ڈنمارک میں عراقی سفارتخانے کے سامنے قرآن پاک کی بےحرمتی کا واقعہ گزشتہ روز ہوا تھا۔


اتحاد اور وحدت کا موضوع ایک ایسا حساس اور اہم ترین موضوع ہے کہ موجودہ دور میں جس پر جتنی زیادہ لب کشائی اور تحریر کیا جائے تو کم ہے۔ اتحاد حقیقت میں کوئی نئی اصطلاح نہیں ہے۔ بنی نوع انسانیت کی تاریخ میں ہمیشہ سے اتحاد کا عنصر موجود رہا ہے۔ لہذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اتحاد اور وحدت ایک حقیقت ہے۔ یہ حقیقت کسی نہ کسی صورت میں ہر دور میں موجود رہی ہے۔ جب بھی عالم اسلام یا مسلمانوں کے مابین اتحاد کی بات کی جاتی ہے تو کچھ مقامات سے ایسی آوازیں بلند کی جاتی ہیں کہ جن کا مقصد اس اتحاد کی ضرورت کو کمزور یا غیر ضروری شمار کرنا ہوتا ہے۔ یعنی بعض مخالف قوتیں جن میں امریکہ، اسرائیل اور دیگر مغربی حکومتیں شامل ہیں، ہمیشہ سے مسلمانوں کے باہمی اتحاد کو سبوتاژ کرنے اور اس امر میں مانع ہونے کے لئے اپنے ذرائع ابلاغ سے اس موضوع پر مختلف حیلے بہانوں سے حملہ آور ہو جاتی ہیں۔ یعنی مغربی حکومتوں کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کو اتحاد کی کیا ضرورت ہے؟ حالانکہ اگر دیکھا جائے تو مغربی دنیا کی تمام ظالم و سفاک حکومتیں جو کفر کے نظام پر قائم ہیں، سب کی سب آپس میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف متحد ہیں۔

مثال کے طور پر جب بھی مسلم معاشروں میں مسئلہ فلسطین کے حل کے لئے مسلم دنیا کے اتحاد کی ضرورت پر زور دیا جاتا ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ یہی مغربی دنیا کی حکومتیں مسلمانوں کے اتحاد کے راستے میں رکاوٹ کھڑی کرتے ہوئے اپنے ذرائع ابلاغ پر مسلم دنیا کے اتحاد کے خلاف منفی پراپیگنڈا شروع کر دیتی ہیں اور کہتے ہیں کہ مسلم دنیا کی جانب سے فلسطین کے لئے اتحاد ایک سیاسی حکمت عملی کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ اتحاد اور وحدت ایک حقیقت ہے، جو ہمیشہ کسی نہ کسی صورت میں ہر دور میں موجود رہی ہے۔اسی طرح اگر مزید دقت کے ساتھ تحقیق کی جائے تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اتحاد کبھی بھی مسلم دنیا کے لئے ایک سیاسی حکمت عملی یا وسیلہ نہیں رہا بلکہ اتحاد ہمارے ایمان اور اعتقاد کا ایک فراموش شدہ حصہ ہے، جسے مسلم دنیا کو تلاش کرنا ہے۔

اگر مسلم معاشروں کے اتحاد کی مثالیں تلاش کریں تو ہمیں تاریخ میں ملتا ہے کہ ہمیشہ ہر مسلک کے علماء کا آپس میں باہمی ربط قائم رہا ہے اور یہی حقیقت میں اتحاد کی عملی شکل ہے۔ تمام مسالک سے تعلق رکھنے والے علماء نے ہمیشہ اتحاد کو اعتقاد کے طور پر آگے بڑھانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ ہمیں اپنی نئی نسل کو یہ بات سمجھانے کی اشد ضرورت ہے کہ اسلامی معاشروں میں اختلاف دراصل اسلامی تعلیمات اور عقل و فطرت کے خلاف ہے، جبکہ اتحاد اور وحدت اسلامی تعلیمات کے عین مطابق اور عقل و فطرت ہیں۔ اتحاد کی حقیقت کو مزید سمجھنے کے لئے ہم دیکھتے ہیں کہ دنیائے کفر جو کہ عالم اسلام سے ہر محاذ پر نبردآزما ہے۔دنیائے کفر کا سب کچھ باطل پر محیط ہے۔ لیکن یہ عالم کفر ایک نقطہ پر متفق ہیں اور وہ نقطہ کیا ہے؟ وہ نقطہ یہ ہے کہ عالم اسلام کو نقصان پہنچایا جائے، عالم اسلام کو تفریق کرکے ان پر حکومت قائم رکھی جائے۔

جیسا کہ حال ہی میں ہم دنیا کے مختلف گوش و کنار میں یہ سب حقیقت میں ملاحظہ اور تجربہ بھی کر رہے ہیں، یہی عالم کفر کا مقصد ہے۔ یہی عالم کفر باطل پر ہونے کے باجود آپس میں متحد ہے۔ یعنی اتحاد کے ساتھ ہے، کیونکہ انہوں نے اتحاد اور وحدت کی حقیقت کو پہچان لیا ہے۔ دوسری طرف عالم اسلام ہے کہ جو سو فیصد حق پر ہے، لیکن متحد نہیں ہے۔ یعنی عالم اسلام نے حق پر ہونے کے باجود بھی اتحاد کو اہمیت نہیں دی۔ نتیجہ کیا نکلا؟ عالم کفر نے فلسطین پر تسلط قائم کر لیا، افغانستان میں قتل عام کیا، عراق میں انسانیت کی دھجیاں اڑا دیں، کشمیر خون رو رہا ہے، یمن میں آگ و خون کی بارش کی گئی، نیجیریا، لیبیا، شام، لبنان، مصر اور نہ جانے کتنے ہی ایسے علاقے ہیں کہ جہاں عالم کفر نے باطل پر متحد ہونے کے نتیجہ میں عالم اسلام کو مسلسل نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔

اس کے برعکس جہاں جہاں بھی عالم اسلام نے اتحاد کی حقیقت کو درک کیا اور متحد ہو کر مسائل کا سامنا کیا، وہاں کی صورتحال تبدیل ہوگئی۔ فلسطین ہمارے سامنے ایک جیتی جاگتی مثال ہے کہ جس کی خاطر دنیائے اسلام باہمی متحد ہے اور کم سے کم مزاحمت سے تعلق رکھنے والے گروہوں کی بے مثال وحدت نے آج غاصب اسرائیل کو شکست کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔ اسی لئے ہم بارہا کہتے ہیں کہ اتحاد اور وحدت کوئی سیاسی مفادات حاصل کرنے کی حکمت عملی نہیں ہے، بلکہ حق کے راستے پر چلنے اور عالم کفر کے مقابلہ پر نبردآزما رہنے کی حقیقت کا نام ہی اتحاد اور وحدت ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ اتحاد ایک بنیادی کنجی ہے، جسے ہمارے اسلامی معاشروں میں ترجیح حاصل ہونی چاہیئے۔ خلاصہ یہ ہے کہ ہمیں اپنے اپنے معاشروں میں اتحاد کو فروغ دینا چاہیئے۔ اپنی آئندہ نسلوں کو بتانا چاہیئے کہ اتحاد ہمارے اعتقاد کا اہم ترین حصہ ہے۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اتحاد کی خاطر جدوجہد کریں اور اس کو قائم کرنے کے لئے کوئی کسر باقی نہ رکھیں۔
تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
 
 
 

 رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی حسینی خامنہ ای نے سویڈن میں قرآن کریم پر حملے کی بزدلی کو ایک تلخ، سازشی اور خطرناک واقعہ قرار دیا ہے۔ سوئیڈن میں قرآن کریم کی بے حرمتی کے خلاف اپنے احتجاجی بیان میں آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ سوئیڈن میں قرآن مجید کی شان میں جسارت، ایک تلخ حادثہ، سازش اور خطرناک واقعہ ہے، اس طرح کی حرکت کرنے والے کیلئے سارے علماء اسلام کا اتفاق ہے کہ اس کو شدید ترین سزا ملنی چاہیئے، سوئیڈن کی حکومت کو بھی معلوم ہونا چاہیئے کہ مجرم کی حمایت کرکے اس نے عالم اسلام کے خلاف جنگی مؤقف اختیار کیا ہے اور مسلم اقوام اور ان کی کئی حکومتوں کی نفرت اور دشمنی کو اپنی طرف راغب کیا ہے، اس حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ اس مجرم کو اسلامی ممالک کے قانونی اداروں کے حوالے کرے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے مزید کہا کہ پس پردہ سازش کرنے والے یہ جان لیں قرآن کی حرمت اور شان و شوکت ہر دن زیادہ سے زیادہ بڑھ رہی ہے اور اس سے نکلنے والے ہدایت کے انوار اور زیادہ نورانی ہو رہے ہیں، اس طرح کی سازشیں اور اس کو انجام دینے والے قرآن کی نورانیت کے سامنے انتہائی حقیر اور پست ہیں۔