سلیمانی

سلیمانی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

بزرگ عالم دین مرحوم آيت اللہ الحاج شیخ محمد امامی کاشانی رحمۃ اللہ علیہ کے انتقال پر میں ان کے محترم اہل خانہ، پسماندگان، شاگردوں اور عقیدت مندوں کی خدمت میں تعزیت پیش کرتا ہوں۔

یہ متقی و خدمت گزار عالم دین، طویل عرصے تک، چاہیے انقلاب سے پہلے جدوجہد کرنے والے علمائے دین کے ساتھ یا انقلاب کے بعد شوری نگہبان، مجلسِ خبرگان، امام جمعہ تہران کی حیثیت سے خدمات، ادارۂ برائے اسلامی تبلیغات اور حوزہ علمیہ شہید مطہری کے سربراہ جیسے حساس منصبوں پر ملک اور اسلامی جمہوری نظام کی خدمت میں مصروف رہے ہیں اور امید ہے کہ ان کی یہ ساری نیکیاں، بارگاہِ پروردگار میں قبول و منظور قرار پائیں گی۔ خداوند عالم اپنی رحمت و مغفرت، مرحوم و مغفور کے شامل حال فرمائے۔

سید علی خامنہ ای

3 مارچ 2024ء

انسان کو اسمائے الہٰی کا مظہر کہا جاتا ہے۔ خداوند کریم نے انسان کو اپنا نائب بنایا تو اس کو اپنی صفات بھی ودیعت کیں، تاکہ اس منصب کے ساتھ عدل ہو اور ان صفات کو نکھار کر ہی انسان کمال حاصل کرسکتا ہے۔ چونکہ یکتائی صرف خدا کی ذات کو زیبا ہے اور اسی کا حق ہے، اس لیے اس نے کائنات میں موجود ہر چیز کو جوڑوں میں پیدا کیا۔ جیسا کہ وہ اپنی کتاب مبین میں فرماتا ہے: "وَمِنۡ كُلِّ شَىۡءٍ خَلَقۡنَا زَوۡجَيۡنِ لَعَلَّكُمۡ تَذَكَّرُوۡنَ"، "اور ہر چیز کی ہم نے دو قسمیں بنائیں، تاکہ تم نصیحت پکڑو" (الذاريات:49)

اسی طرح انسان کو بھی اس نے جوڑے کی صورت میں پیدا کیا۔ جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے کہ ہم نے انسان کو نفس واحدہ سے پیدا کیا اور پھر اس میں سے مذکر اور مؤنث بنائے۔ یعنی ایک کامل مرد اور ایک کامل عورت کے ملاپ سے ہی "انسان کامل" وجود میں آتا ہے۔ کمال انسانی تک تنہاء مرد یا تنہاء عورت کبھی نہیں پہنچ سکتے۔ معاشرے کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہاں سوال جنم لیتا ہے کہ جب مرد اور عورت کو اتنی زیبائی سے خدا نے لازم و ملزوم قرار دیا ہے تو ان کے تعلق میں یہ خوبصورتی نظر کیوں نہیں آتی؟ یہ ایک دوسرے کی ارتقا و کمال کا موجب کیوں نہیں بنتے؟ کیوں ایک دوسرے سے اتنا بےزار ہیں۔؟

ایک جواب جو میری ناقص عقل میں آتا ہے، وہ یہ ہے کہ یہ دونوں اپنی حقیقت اور فطرت سے ناآشنا ہیں۔ جیسے اقبالؒ کہتے ہیں:
تو اگر اپنی حقیقت سے خبردار رہے
نہ سیہ روز رہے پھر نہ سیہ کار رہے
یہاں ہر ایک دوسرے جیسا بننے کی کوشش کر رہا ہے۔ ہر ایک دوسرے سے برتر ہونے کی کاوش میں مصروف ہے۔ جیسے کوئی دوڑ لگی ہو کہ WHO IS SUPERIOR? دوسرے کو نیچا دکھاتے دکھاتے ہم خود اتنا نیچے گر جاتے ہیں کہ اپنی ضروریات اور انفرادیت فراموش کر بیٹھتے ہیں۔ آج میں یہاں فقط "انثی" کی بات کروں گی، کیونکہ میرا تعلق بھی اس صنف سے ہے اور میرا موضوعِ سخن بھی فی الحال یہی ہے۔

وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ
اقبالؒ نے کیا خوب کہا ہے، مگر اس مصرعے کو سن کر میرے ذہن میں ایک سوال آتا ہے کہ یہ عورت جس کی بدولت کائنات رنگین ہے، اس کا اپنا رنگ کیا ہے؟ اس کی شناخت اور اس کا مقام بحیثیت عورت کیا ہے۔؟ یہ سوالات ہر عورت کے لیے لمحۂ فکریہ ہونا چاہیے! موجودہ دور میں عمومی طور پر عورت کی دو اقسام پائی جاتی ہیں۔ پہلی قسم کو "مشرقی عورت" کا نام دیتے ہیں اور اس کے تمغوں کی لسٹ میں رجعت پسندی، قدامت پسندی، فرسودہ سوچ اور غلامی آتے ہیں۔ یہ عورت ماضی کی روایات کی اندھی مقلد ہے اور یہ وہ گائے ہے، جسے جس مرضی کھونٹی سے باندھ دو، اسکو فرق نہیں پڑتا، کیونکہ اسکی زندگی کا نہ کوئی مقصد ہے، نہ اسے اپنے مقام کا فہم ہے۔ یہ مکمل طور پر ایک Dependent مخلوق ہے، جو نہ اپنے لیے کچھ کر سکتی ہے، نہ معاشرے کے لیے، چونکہ اس کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں منجمد ہوچکی ہیں۔۔۔

اس کے مقابلے میں دوسری قسم جو چمکیلی، بھڑکیلی "مغربی عورت" کی ہے، جو اس خام خیالی میں ہے کہ اس نے روایاتِ ماضی سے خود کو آزاد کروا لیا ہے اور وہ اپنی مرضی کی مالک ہے۔ اس لئے وہ "میرا جسم، میری مرضی" کے بےبنیاد نعرے لگا کر اپنی بےچارگی کا اظہار کرتی ہے، مگر اس نادان کو یہ نہیں معلوم کہ درحقیقت اس نے فقط چادر و عفت سے خود کو آزاد کیا ہے، وہ بھی کروایا گیا ہے۔ اس کا ذہن، اس کی فکر اور اس کی زندگی ابھی بھی مقید ہیں۔ فرق صرف اتنا آیا کہ قیدخانہ بدل گیا۔ پہلے وہ ماضی کی فرسودہ روایات کی اسیر تھی، اب وہ سرمایہ دار طبقے اور استعمار کے لیے ایک کھلونا ہے، جسے وہ اپنے مفاد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔۔۔ دونوں صورتوں میں عورت کا اصل رنگ کونسا ہے؟ اس کی اپنی شناخت کونسی ہے؟ اور عورت کو کس چیز نے مجبور کیا کہ وہ مشرقی یا مغربی رنگ اپنائے۔؟

تحریر: سیدہ مرضیہ زہرا نقوی
کوآرڈینیٹر رائٹنگ کلب ہوپ سوسائٹی پاکستان

اسلام ٹائمز۔ غزہ میں صیہونیوں کے جرائم کے خلاف احتجاج کے دوران امریکی فضائیہ کے پائلٹ آرون بشنیل کی خود سوزی کے ردعمل میں فلسطینی گروہوں نے اعلان کیا کہ یہ واقعہ امریکی حکومت کے لیے ایک پیغام ہے کہ وہ فلسطینی عوام کے خلاف غاصبانہ جرائم میں براہ راست شرکت بند کرے۔ اسی تناظر میں ایک بیان جاری کرتے ہوئے فلسطینی تحریک حماس نے اس امریکی پائلٹ کے اہل خانہ اور لواحقین کے ساتھ تعزیت اور مکمل یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کو ہارون بشنیل کی خود سوزی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہا ہے کہ آرون بشنیل نے انسانی اقدار کے محافظ اور مظلوم فلسطینی قوم کے ظلم و جبر کے طور پر اپنا نام ہمیشہ کے لیے امر کر دیا، بالکل اسی طرح جیسے 2003 میں رفح میں اسرائیلی بلڈوزر کی زد میں آ کر "ریچل کوری" نامی ایک امریکی کارکن ہلاک ہو گئی تھی۔ رفح وہی شہر ہے جس کے لیے بشنیل نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے کے لیے امریکی حکومت پر دباؤ ڈالا کہ وہ مجرم صہیونی فوج کو رفح پر حملہ نہ کرنے دے۔

واضح رہے کہ ریچل کوری ایک 23 سالہ امریکی لڑکی تھی، جسے 16 مارچ 2003 کو فلسطین میں اسرائیلی بلڈوزر نے برے طریقے سے کچل دیا تھا، جب وہ رفح شہر میں فلسطینیوں کے مکانات کی تباہی کے دوران صیہونی حکومت کی کاروائی کے خلاف احتجاج کر رہی تھی۔ یہ اس حقیقت ہے کہ امریکی حکومت کو ریچل کوری کے امریکی کارخانوں کے تیار کردہ بلڈوزر تلے کچلے جانے پر کبھی احساس نہیں ہوا اور نہ ہی اس نے افسوس کا اظہار کیا۔ حماس نے زور دے کر کہا ہے یہ المناک واقعہ جس کی وجہ سے بشنیل اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، امریکی عوام میں بڑھتے ہوئے غصے کو ظاہر کرتا ہے، جو اپنے ملک امریکہ کی اس پالیسی سے ناراض ہیں کہ ان کی حکومتیں فلسطینی عوام کو قتل اور تباہ کرنے میں مدد دیتی ہیں اور یہ انسانی اقدار کی سنگین خلاف ورزی ہے، اسی طرح امریکی حکومت قابض صیہونی حکومت کے نازی رہنماؤں کو مدد اور سیکورٹی فراہم کرکے ان پر مقدمہ چلائے جانے اور سزا دلوانے میں رکاوٹ بنتے ہیں۔

پاپولر فرنٹ فار لبریشن آف فلسطین نے ایک بیان میں تاکید کی ہے کہ اس امریکی فوجی کا فلسطین کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنا سب سے بڑی قربانی ہے اور امریکی حکومت کے لیے ایک موثر پیغام ہے کہ وہ فلسطین میں نہتے عوام کے خلاف قابض صیہونی گورسز کے جرائم میں براہ راست شرکت سے باز رہے، اس امریکی پائلٹ کی خود سوزی سے ظاہر ہوتا ہے کہ غزہ کی پٹی میں فلسطینی عوام کے خلاف صیہونیوں کی نسل کشی میں امریکہ کی مداخلت پر امریکی عوام کس قدر غصے میں ہیں اور اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ فلسطین کا مسئلہ اب عالمی اور اہم ایشو بن چکا ہے، خاص طور پر امریکی حلقوں میں، یہ واقعہ وحشی سامراج کے ہاتھوں میں استعماری آلہ کار کے طور پر صیہونی حکومت کی اصل نوعیت کو دنیا پر آشکار کرتا ہے۔

قبل ازیں نیویارک ٹائمز نے امریکی فضائیہ کے پائلٹ ایرون بشنیل کی غزہ میں صیہونیوں کے جرائم کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے خود سوزی کی خبر دی تھی، غزہ میں اسرائیل کی فوجی کارروائیوں کے آغاز کے بعد سے امریکہ میں تل ابیب کے خلاف مظاہرے تقریباً روز کا معمول بن گئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونیوالی ویڈیو میں فوجی وردی پہنے ہوئے، بشنیل نے ایک لائیو ویڈیو میں اعلان کیا کہ میں اب اس نسل کشی میں حصہ نہیں لوں گا، اس کے بعد اس نے اپنے اوپر ایک صاف مائع انڈیلا اور خود کو آگ لگاتے ہوئے کہا کہ فلسطین آزاد کرو۔ اس کے علاوہ دسمبر میں غزہ میں صیہونی حکومت کے جرائم اور اس علاقے کے بے گناہ لوگوں کی نسل کشی کے خلاف احتجاج کرنے والی ایک خاتون نے اٹلانٹا میں صیہونی حکومت کے قونصل خانے کے باہر خود کو آگ لگا لی تھی۔

صیہونی حکومت کی غزہ پر جاری جارحیت کو 140 دنوں سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے اور جنگ کو روکنے کے لیے غیر نتیجہ خیز بین الاقوامی کوششوں کے درمیان غزہ کے شہری مختلف قسم کے انسانیت سوز جرائم کا شکار ہو رہے ہیں۔ حال ہی میں اقوام متحدہ کے ماہرین نے اطلاع دی ہے کہ انہیں "معتبر اور قابل اعتماد" شواہد ملے ہیں کہ اسرائیلی جیلوں میں فلسطینی خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی ہے اور اقوام متحدہ کے ماہرین اس واقعہ کے مزید پہلوؤں کو واضح کرنے کے لیے مکمل تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہیں۔ گارڈین اخبار کے مطابق اقوام متحدہ کی ماہر کمیٹی نے بتایا کہ کم از کم دو کیسز ریپ اور دیگر کیسز میں جنسی تشدد، تذلیل اور ریپ کی دھمکیوں کے باقاعدہ شواہد ملے ہیں۔

خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد پر اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ ریم السلم نے کہا کہ جنسی تشدد کی حقیقی شرح اس سے کہیں زیادہ ہوسکتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ "ہوسکتا ہے کہ ہم متاثرین کی صحیح تعداد کو طویل عرصے تک نہ جان سکیں۔" انتقام کے خوف سے جنسی حملوں کے واقعات کی رپورٹنگ میں پردہ پوشی کی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ جنگ میں فلسطینی خواتین، بچوں اور شہریوں کے ساتھ تشدد اور غیر انسانی سلوک اب ایک معمول بن گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے ماہرین نے گذشتہ پیر کو جاری کردہ اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ "ہم خاص طور پر ان رپورٹس سے پریشان ہیں کہ حراست میں فلسطینی خواتین اور لڑکیوں کو بھی جنسی حملوں کا نشانہ بنایا گیا ہے، مرد اسرائیلی فوجیوں کی طرف سے فلسطینی خواتین کو برہنہ کرنا اور تلاشی لینا بھی اس میں شامل ہے۔

غزہ میں اب تک ہلاکتوں کی تعداد 30،000 کے قریب پہنچ رہی ہے۔ دوسری طرف بعض ماہرین ان رپورٹس کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جن میں خواتین اور لڑکیوں کو اپنے اہل خانہ کے ساتھ خودسرانہ سزائے موت کے خطرے سے دوچار کیا جاتا ہے، جن میں اکثر بچے بھی شامل ہوتے ہیں۔ "ان میں سیکڑوں انسانی حقوق کے محافظ۔ اور صحافی بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سی خواتین کو غیر انسانی اور ذلت آمیز سلوک اور شدید مار پیٹ کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ انہیں ماہواری کے دوران ضروری حفظان صحت کی اشیاء، خوراک اور ادویات کی فراہمی سے  بھی انکار کیا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ماہرین نے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے  کہ "ہم فلسطینی خواتین اور بچوں کو ان مقامات پر جہاں انہوں نے پناہ لی ہوتی ہے، دانستہ طور پر نشانہ بنانے اور غیر قانونی طور پر قتل کرنے کی خبروں سے حیران و پریشان ہیں۔

اطلاعات کے مطابق بعض اوقات ایسے بھی ہوا کہ ان میں سے کچھ  فلسطینیوں نے سفید کپڑے (ہتھیار ڈالنے کی علامت کے طور پر) اٹھائے ہوئے تھے، اس کے باوجود انہیں اسرائیلی فورسز نے گولی مار دی۔ ان نامہ نگاروں میں سے ایک نے فرانس 24 ٹی وی کو فلسطینی لڑکیوں اور خواتین کی جانب سے ملنے والی انتہائی چونکا دینے والی شہادتوں کے بارے میں بتایا ہے، ان کا کہنا ہے ’’ہم تک پہنچنے والی رپورٹس کے مطابق غزہ میں فلسطینی خواتین اور لڑکیوں کو من مانی طور پر انفرادی یا گروہی طور پر قتل کیا جا رہا ہے۔ یہ خاندان کے افراد کے ساتھ اور کبھی کبھی اپنے بچوں کے ساتھ قتل کی جاتی ہیں۔ اس طرح کے زیادہ واقعات دسمبر 2023ء اور جنوری 2024ء میں پیش آئے۔ اس رپورٹ میں مغربی کنارے اور غزہ میں غیر قانونی اور من مانی حراستوں میں خواتین کی وسیع پیمانے پر موجودگی کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق مغربی کنارے اور غزہ میں گرفتار ہونے والی خواتین کو رات کے لباس  میں گھروں سے سڑکوں پر لے جایا گیا اور بغیر کوئی ثبوت فراہم کیے انہیں حماس سے وابستہ جنگجو قرار دیا گیا۔

حماس کا موقف
اسلامی مزاحمتی تحریک حماس نے اقوام متحدہ سے بین الاقوامی تحقیقات شروع کرنے کا مطالبہ کیا اور اقوام متحدہ کی رپورٹ کے جواب میں ایک بیان میں کہا کہ یہ جرائم، نسل کشی اور نسلی تطہیر کے علاوہ ہیں، جو قابضین  اور نیتن یاہو کو جنگی مجرم ثابت کرتے ہیں۔ نیتن یاہو کی نازی فوج ہمارے لوگوں کے خلاف اس طرح کے متعدد جرائم کا ارتکاب کر رہی ہے۔ قابض فوج فلسطینی خواتین کے خلاف جنسی جارحیت کے علاوہ خود سرانہ پھانسیاں، من مانی گرفتاریاں، شدید مار پیٹ اور دوران حراست خوراک اور ادویات سے محروم کرنے جیسے اقدام کو جائز سمجھتی ہے۔ تحقیقات کے دوران عصمت دری اور توہین کی دھمکیوں کے علاوہ کئی غیر انسانی اقدامات سامنے آئے ہیں۔

حماس اس بدمعاش حکومت کے خلاف بین الاقوامی تحقیقات کے آغاز کا مطالبہ کرتی ہے اور اس کے رہنماؤں کو ان کے وحشیانہ جرائم کے لیے جوابدہ ٹھہراتی ہے۔ واضح رہے کہ حالیہ رپورٹ واحد اور پہلی رپورٹ نہیں ہے، جس میں حالیہ جنگ کے دوران فلسطینی خواتین کے خلاف منظم جرائم کے امکان کا اعلان کیا گیا ہے، جیسا کہ اس سے قبل دسمبر 2023ء میں فلسطینی العودہ مرکز نے ایک بیان میں غزہ پٹی میں اسرائیلی فوج کے ہاتھوں عصمت دری اور جنسی تشدد کے واقعات سے مطلع کیا تھا۔ اس مرکز نے قابض فوج اور اس کے سکیورٹی اہلکاروں کی طرف سے جنسی حملوں کی طویل تاریخ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ فلسطینی خواتین اور بچوں کے خلاف جرائم کا ارتکاب کرنے والے اکثر فوجیوں کو سزا نہیں ملتی۔

بہت سی فلسطینی لڑکیاں اور خواتین اس مسئلے کے بارے میں شکایت کرنے کو تیار نہیں ہیں، کیونکہ اس کا تعلق ان کی عزت و آبرو اور ان کے خاندانوں سے ہوتا ہے، وہ ان جرائم کے مرتکب افراد کے خلاف شکایت کرنے اور عدالت میں پیش ہونے کے لیے تیار نہیں ہوتیں، تاہم 2017ء میں ایک فلسطینی خاتون کی شکایت کے بعد مغربی کنارے میں اسرائیلی حراستی مراکز میں خواتین کے حقوق کی وسیع پیمانے پر خلاف ورزیوں کا انکشاف ہوا ہے۔ حراستی مرکز میں صہیونی فوجیوں کی طرف سے تشدد اور جنسی زیادتی سے متعلق اس خاتون کے چونکا دینے والے اعترافات کے بعد، "Haaretz اخبار" کے معروف اسرائیلی صحافی امر اورین نے 3 اپریل 2016ء کو ایک رپورٹ شائع کی، جس میں فوجی استغاثہ کا حوالہ دیتے ہوئے اسرائیلی فوج کی آرکائیو اور دستاویزات میں فلسطینی قیدیوں کے قتل، ان پر حملہ اور عصمت دری سمیت مختلف جنگی جرائم کے شواہد ملے ہیں۔

ان جرائم پر صہیونی حکام نے جرائم کے مرتکب افراد کو سزا دیئے بغیر ان کیسز پر خاموشی اختیار کر رکھی تھی۔ اس فلسطینی خاتون کو ان بے شمار مقدمات میں سے ایک قرار دیا جا سکتا ہے۔ ان دستاویزات سے یہ بات اچھی طرح ثابت ہوئی کہ عصمت دری اور جنسی حملے خاص طور پر خواتین کے خلاف منظم طریقے سے ہوتے ہیں، کیونکہ اسرائیلی فوج کے چیف ربی نے فلسطینی خواتین کے خلاف تشدد اور عصمت دری کے جائز ہونے کا فتویٰ جاری کیا تھا۔ ان دستاویزات میں کہا گیا تھا کہ اسرائیلی فوج کے چیف ربی "عیال کریم" نے "اسرائیلی فوجیوں کے لیے جنگ کے دوران فلسطینی خواتین اور لڑکیوں یعنی غیر یہودی خواتین کی عصمت دری کرنا جائز قرار دیا ہے۔"

بین الاقوامی عدالتوں میں فلسطینی خواتین کی عصمت دری کی پیروی
اقوام متحدہ کے نامہ نگاروں کی حالیہ رپورٹ غزہ جنگ میں صیہونی حکومت کی طرف سے انسانیت کے خلاف ہونے والے جرائم کے بارے میں ایک وسیع اور مفصل بین الاقوامی تحقیقات کے لیے ایک روزن اور ثبوت ثابت ہوسکتی ہے۔جنوبی افریقہ کی جانب سے غزہ میں نسل کشی کے بارے میں ہیگ کی بین الاقوامی فوجداری عدالت میں شکایت کے بعد گذشتہ ہفتوں میں اس عدالت کی طرف سے صیہونی حکومت کی مذمت کی گئی ہے۔ اس عدالتی کارروائی نے حالیہ جنگ کے دوران غزہ اور مغربی کنارے میں اسرائیل کے جرائم کے خلاف دوسرے ممالک کی طرف سے مزید شکایات کے لیے راستہ کھول دیا ہے۔بین الاقوامی فوجداری عدالت کے آئین (آرٹیکل 7 کے پیراگراف 1) میں واضح طور پر جنسی تشدد کو انسانیت کے خلاف جرم قرار دیا گیا ہے۔ اس شق سے مراد عصمت دری، جنسی غلامی، جبری جسم فروشی، جبری حمل، جبری نس بندی یا کسی بھی طرح کا جنسی تشدد ہے۔

اس کے علاوہ، چوتھے جنیوا کنونشن (1949ء) اور اس کے ضمیموں میں، خواتین کے خلاف پرتشدد رویئے کی مذمت پر کئی بار زور دیا گیا ہے، اس بین الاقوامی دستاویز کے پیراگراف 27 میں، خواتین کے وقار کی خلاف ورزی، عصمت دری، جبری جسم فروشی اور کسی بھی خلاف عصمت و عفت اقدام کو جرم قرار دیا گیا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر جنگوں میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کو بڑھانے کے لیے کئی دیگر کوششیں بھی کی گئی ہیں۔ ویانا اعلامیہ اور رہنماء خطوط، جو جون 1993ء میں انسانی حقوق کی عالمی کانفرنس کے ذریعے جاری کیے گئے تھے، اسی طرح بیجنگ اعلامیہ اور رہنماء خطوط، جو ستمبر 1995ء میں خواتین کے بارے میں اقوام متحدہ کی چوتھی کانفرنس کے ذریعے جاری کیے گئے تھے، اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ ان دونوں میں عورت کی تذلیل اور خواتین کے جنسی تشدد کا مقابلہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔

صہیونی، امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کی حمایت کی وجہ سے ہیگ کی عدالت کے حالیہ فیصلے سمیت بین الاقوامی فیصلوں سے منہ موڑ لیتے ہیں۔صیہونی تمام دنیا کی مخالفت کے باوجود رفح میں شہریوں پر نئے حملوں کی بڑی ڈھٹائی سے تیاری کر رہے ہیں۔ بہرحال جنگی جرائم کا کمیشن صیہونی حکومت کی حمایت کرنے والے ذرائع ابلاغ کے پروپیگنڈے کو غلط ثابت کرنے کے لئے صیہونی مظالم کی حمایت کرنے والے ممالک کے سیاسی حکام اور تل ابیب کے رہنماؤں کو جوابدہ بنانے میں اہم کردار ادا کرے، تاکہ انہیں ان کے اعمال کی سزا دی جاسکے۔
 
 ترتیب و تنظیم: علی واحدی
 
Friday, 23 February 2024 18:15

حضرت امام مہدی(ع)

قائم آل محمد، منجی عالم بشریت حضرت امام مہدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے یوم ولادت باسعادت

اسی مناسبت سے رسول اللہ کے بارہویں جانشین حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حیات طیبہ کے چند پہلوؤں کا ذکر کرتے ہیں:

 

نام و لقب:

آئمہ اہل بیت میں سےبارہویں اور آخری امام کا نام ’’م ح م د‘‘ ہے کہ جو حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے اکلوتے بیٹے ہیں ان کا معروف ترین لقب ’’مہدی‘‘ ہے اسی لقب کی وجہ سے آپ کو ’’امام مہدی‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ولادت باسعادت: امام زمانہ(عج) کی ولادت باسعادت عباسی خلیفہ معتمد کی حکومت کے دوران 15شعبان 255ہجری کو سامراء میں ہوئی۔ امام زمانہ(عج) کی ولادت کے بعد امام حسن عسکری علیہ السلام نے دس ہزار رطل روٹی اور دس ہزار رطل گوشت تقسیم کیا اور تین سو دنبے عقیقہ کے طور پر ذبح کیے۔ والدہ ماجدہ: امام زمانہ(عج) کی والدہ کا نام جناب ’’نرجس‘‘ہے۔ اپنے بابا کی شہادت کے وقت امام زمانہ(عج) کی عمر پانچ سال تھی۔ جس طرح اللہ نے حضرت یحیی کو بچپن میں ہی نبوت عطا کی اور حضرت عیسی کو گہوارے میں ہی اپنا رسول بنایا اسی طرح اللہ تعالی نے امام زمانہ کو کم سنی میں ہی امامت کے منصب پہ فائز کیا انھیں دانائی اور حق وباطل میں تمیز کرنے والے فصل الخطاب سے نوازا اور انھیں پوری دنیا کے لیے اپنی حجت اور نشانی قرارا دیا۔ اس کتاب کے’’امام مہدی منتظر‘‘ کے عنوان سے لکھے گئے باب میں ہم کہہ چکے ہیں کہ اسلام میں امام مہدی(عج) اور ان سے متعلق تمام امور کے بارے میں عقیدہ رکھنے کا پہلا اور بنیادی سبب اہل سنت اور شیعوں کی معتبر کتابوں میں موجود احادیثِ نبویہ(ص) ہیں، ہر دور میں مسلمانوں کا اس بات پہ اتفاق رہا ہے کہ آخری زمانہ میں اہل بیت میں سے مہدی نام کا ایک فرد ظہور کرے گا جو دین کی مدد و تائید کرے گا اور عدل و انصاف کی بات کرے گا اور پوری دنیا پر حکومت حاصل کرنے کے بعد اسے عدل و انصاف سے بھر دے گا۔ غیبت: امام مہدی(عج) کی دو غیبتیں ہیں: پہلی غیبت کو غیبت صغری کہتے ہیں اور دوسری غیبت کو غیبت کبری کہا جاتا ہے۔

غیبتِ صغری:

اس پہلی غیبت میں امام مہدی سوائے چند خاص لوگوں کے تمام لوگوں سے پوشیدہ رہے اور شیعوں سے ان کا رابطہ اپنے نمائندوں اور سفراء کے ذریعے رہا، شیعہ اپنے سوالات اور خطوط امام مہدی(عج) کے خاص سفیر کو دیتے اور وہ سفیر شیعوں کے خطوط کو امام مہدی تک پہنچا دیتا۔ امام مہدی(عج) کی طرف سے سوالوں اور خطوط کے جوابات کو متعلقہ افراد تک پہنچانا بھی امام کے سفیر کی ہی ذمہ داری تھی امام مہدی(عج) کی طرف سے لکھے گئے خطوط وغیرہ پہ امام کی مہر اور ان کے دستخط ہوا کرتے تھے۔

74سال تک یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہا اس عرصہ کو غیبتِ صغری کا نام دیا جاتا ہے اور اسے غیبت صغری اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ اس عرصہ میں امام مہدی(عج) کا لوگوں سے مکمل طور پر رابطہ منقطع نہیں تھا۔

  • امام مہدی(عج) کے پہلے سفیر:

امام مہدی(عج) کے پہلے سفیر اور نمائندے عثمان بن عمرو عمری اسدی تھے جناب عثمان بن عمرو پہلے امام علی نقی علیہ السلام اور پھر امام حسن عسکری علیہ السلام کے نمائندے تھے اور آخر میں امام مہدی(عج) کے نمائندے اور سفیر کی حیثیت سے آخری دم تک فرائض سرانجام دیتے رہے۔

  • امام مہدی(عج) کے دوسرے سفیر:

جب امام کے پہلے سفیر عثمان بن عمرو کا انتقال ہوا تو امام زمانہ(عج) کے حکم مطابق سفارت اور نمائندگی کے فرائض پہلے سفیر کے بیٹے محمد کو سونپ دیے گئے اس طرح محمد بن عثمان امام زمانہ(عج) کے دوسرے سفیر اور نمائندے بن گئے۔

  • امام مہدی(عج) کے تیسرے سفیر:

دوسرے سفیر کی وفات کے بعد حسين بن روح نوبختی کو امام زمانہ(عج) کے خاص نمائندے اور سفیر بننے کا شرف حاصل ہوا۔

  • امام مہدی(عج) کے چوتھے سفیر:

اپنے تیسرے سفیرکے اس دنیا سے رخصت ہونے پہ علی بن محمد سمری کو امام زمانہ(عج) نے اپنا سفیر اور نمائندہ مقرر کیا۔

غیبتِ كبرى:

جب چوتھے سفیر بھی انتقال کر گئے تو ان کے انتقال کے ساتھ ہی غيبت صغرى بھی اختتام پذیر ہو گئی اور غیبت کبری کا آغاز ہو گیا۔

غيبت كبرى کا آغاز پندرہ شعبان 328ہجری سے ہوا، اس کے بعد شیعوں کا امام زمانہ(عج) سے خصوصی نمائندوں اور سفراء کے ذریعے رابطہ منقطع ہو گیا اور اللہ تعالی ہی اس کی اصل وجہ اور اس میں پوشیدہ حکمت سے آگاہ ہے۔

غیبت کبری کا مسئلہ اللہ کے اسرار میں سے ہے اور خدائی اسرار میں شک سرکشی ہے کیونکہ خدا کے اسرار سے آگاہ نہ ہونا ان سے انکار کا عذر نہیں بن سکتا کیونکہ جو کچھ بھی اس کائنات میں موجود ہے اسے تفصیلی طور پر جاننا ضروری نہیں ہے ہم سب مسلمان قرآن کے ایک ایک حرف پہ ایمان رکھتے ہیں حالانکہ ہم میں سے اکثریت کو قرآنی الفاظ کے معانی معلوم نہیں ہیں۔ قرآن کی سورتوں کی ابتدا میں موجود ’’الم‘‘ وغیرہ جیسے الفاظ کے معانی سے ہم میں سے کوئی بھی آگاہ نہیں ہے کچھ مفسرین کہتے ہیں کہ ان کے معانی کا علم صرف اللہ کے پاس ہے اور کچھ مفسرین کا کہنا ہے کہ ان کا علم صرف اللہ اور حضرت محمد(ص) کے پاس ہے جبکہ ہم شیعہ کہتے ہیں قرآن کی سورتوں کی ابتدا میں موجود ’’الم‘‘ وغیرہ جیسے الفاظ کے معانی کا علم اللہ تعالی، رسول خدا(ص) اور آئمہ طاہرین(ع) کے پاس ہے۔

 

حوزہ نیوز ایجنسی کے نامہ نگار کے مطابق، جامعۃ الزہرا (س) کی استاد محترمہ ریحان حقانی نے حجاب سے متعلق سوالات و شبہات کے سلسلہ میں "صدرِ اسلام کی تاریخ میں خواتین کا پردہ" کے عنوان پر منعقدہ ایک خصوصی ریڈیو پروگرام میں کہا: اگر ہم حجاب کے مسئلہ کو پوری طرح اور واضح طور پر بیان کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں دیکھنا چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں معاشرے میں ثقافتی اور لباس پہننے کی کیا صورتحال تھی۔ پھر یہ دیکھیں گے کہ آیا ہمارا حجاب اس دور کے حجاب جیسا ہونا چاہیے یا نہیں۔

انہوں نے کہا: حقیقت یہ ہے کہ کچھ لوگ آزادی کا مطلب مختلف انداز سے رہنا سمجھتے ہیں اور فکر کرتے ہیں کہ آزادی کا مطلب پابندیوں اور برہنگی سے آزادی کا نام ہے، حالانکہ آزادی کا یہ مفہوم انسانی عقل و شعور کے بھی خلاف ہے۔

محترمہ ریحان حقانی نے مزید کہا: میں نے حجاب کے سلسلہ میں ان تمام الفاظ اور عنوانات کا استخراج کیا ہے جو دورِ جاہلیت اور صدر اسلام کے متون میں ہر قسم کے حجاب اور پردے کے لیے استعمال ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا: زمانۂ جاہلیت میں جب اسلام سرزمین حجاز اور عرب میں داخل ہوا تو اس وقت کے لوگوں میں بھی بے حجابی اور برہنگی کا کلچر عام نہیں تھا اور تاریخ میں ہم دیکھتے ہیں کہ اس وقت حجاز میں عورتیں امیر سے غریب تک مختلف سطح پر معاشرہ میں موجود تھیں اور اس وقت بھی معاشرے کے مختلف طبقات کے لیے حجاب انتہائی اہمیت رکھتا تھا اور ان کی ثقافت ایسی نہیں تھی کہ وہ بے پردہ اور برہنہ ہوں یا وہ کوئی مناسب لباس نہ پہنتی ہوں۔

حوزہ علمیہ کی اس استاد نے مزید کہا: پس تاریخی اسناد سے معلوم ہوتا ہے کہ حجاب اور پردہ زمانۂ جاہلیت میں بھی موجود تھا۔ اسی طرح سعودی عرب میں اسلام سے صدیوں قبل تاریخ کے حامل ملنے والے پتھروں کے نوشتہ جات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں بھی پردے کا وجود تھا۔ اس کے علاوہ جب ہم عربوں کے دورۂ جاہلیت کے متون و نصوص اور ادب کا مشہدہ کرتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ ان کا ادب اور لٹریچر ایسے مواد سے بھرا ہوا ہے کہ اگر اس وقت کوئی پردہ کو اہمیت نہی دیتا تو وہ اسے برا جانتے تھے اور اس پر تنقید کیا کرتے تھے۔

جامعۃ الزہرا (س) کی استاد نے آخر میں کہا: پردہ کرنے والا شخص اپنی عقل اور فطرت کے مطابق برتاؤ کر رہا ہوتا ہے۔ ہمارے پاس ایسے بہت سے دلائل موجود ہیں کہ اسلام بھی حجاب کا حکم دیتے وقت یہی کہتا ہے کہ خواتین کے حجاب اور پردے کا معاشرے میں احترام کیا جانا چاہیے۔ ہمارے اسلامی معاشرہ میں حکومت اسلامی ہے اور ہمارے قوانین بھی مذہبی تعلیمات سے ماخوذ ہیں لہٰذا ان قوانین کی پابندی ایک سالم اور متشرع یا قانون پسند شخص کے اس کے مذہبی اور اسلامی اصولوں پر کاربند رہنے کو ظاہر کرتی ہے۔

شیعہ نیوز: رہبر انقلاب اسلامی ایران آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے کہا ہے کہ آج عالم اسلام کا سب سے بڑا مسئلہ غزہ ہے اور عالم اسلام صیہونیت کے سرطانی ٹیومر کی تباہی کا مشاہدہ کرے گا۔

رپورٹ کے مطابق آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے آج جمعرات 22 فروری کو اسلامی جمہوریہ ایران میں منعقدہ 40 ویں بین الاقوامی قرآنی مقابلے کے شرکاء سے ملاقات کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قرآن کتاب انذار ہے ہمیں اس انذار (انتباہ) کی ضرورت ہے تاکہ ہمیں ان خطرات سے آگاہ کیا جائے جو اس دنیا اور آنے والی دنیا میں جو حقیقی زندگی ہے، انسانیت کے لیے خطرہ ہیں۔

 
 

رہبرانقلاب اسلامی نے فرمایا کہ قرآن کریم انسانی غموں کا علاج کرنے والی کتاب ہے، خواہ وہ انسانوں کے روحانی، اور فکری غم ہوں یا جنگوں، مظالم، ناانصافیوں جیسے انسانی معاشروں کے غم ہوں۔

انہوں نے کہا کہ اسلامی ایران کے عوام اور پوری امت اسلامیہ میں قرآن کی تعلیمات کو سمجھنے کی خواہش روز بروز بڑھنا چاہیے کیونکہ یہ قرآن کتاب ہدایت ہے اور ہم سب کو اس کی ضرورت ہے۔ قرآن ذکر کی کتاب ہے اور عموماً ہم غافل ہیں اور انسان اپنی معلومات کو بھول جاتے ہیں اور قرآن ہمیں یاد دھانی کراتا ہے۔

 

اس ملاقات میں رہبرانقلاب اسلامی کے بیانات کے چند اہم محور حسب ذیل ہیں:

 

*۔ آج عالم اسلام کا سب سے بڑا مسئلہ غزہ ہے
*۔ اسلامی ممالک کے سربراہان صیہونیت کی حمایت بند کرنے کا اعلان کیوں نہیں کرتے ؟
*۔ یقیناً عالم اسلام غزہ کے لیے سوگوار ہے
*۔ دنیا بھر غیر مسلم آزاد منش لوگ بھی غزہ کے لیے سوگوار ہیں
*۔ اسلامی دنیا صیہونیت کے سرطانی ٹیومر کی تباہی کا مشاہدہ کرے گی

Monday, 19 February 2024 13:29

غزہ میں قحط

غزہ میں رہنے والے صحافیوں میں سے ایک "ابراہیم مسلم" نے "اسلام ٹائمز" کے ساتھ گفتگو میں ان دنوں شمالی غزہ کی تازہ ترین صورتحال بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ شمالی غزہ کی صورت حال اب بھی انتہائی نازک ہے۔ صیہونی حکومت نے اس علاقے پر حملے جاری رکھے ہوئے ہیں اور آئے روز مزاحمتی قوتوں اور صیہونی فوج کے درمیان جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا ان دنوں غزہ میں جو انسانی حالات انتہائی ابتر ہیں اور غزہ کے شمال میں ان علاقوں کے مکینوں کی تعداد کو دیکھتے ہوئے انسانی امداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں پینے تک کا پانی بہت کم ہے۔

غزہ میں رہنے والے اس رپورٹر نے تاکید کی ہے کہ شمالی غزہ میں نقصانات اور تباہی کی مقدار اتنی زیادہ ہے کہ میونسپلٹی ابھی تک سڑکوں کو کھول نہیں سکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان گھروں تک پانی نہیں پہنچایا جاسکتا، جہاں مالکان اپنے گھروں کو لوٹ چکے ہیں، شمالی غزہ کی اس نازک صورت حال پر کسی کو شک و شبہ کی ضرورت نہیں ہے اور آنے والے دنوں میں حالات مزید نازک ہو جائیں گے۔

انہوں نے کہا ہے کہ خوراک کا ذخیرہ ختم ہو رہا ہے، مثال کے طور پر، غزہ جنگ کے آغاز سے ابھی تک شمالی غزہ میں آٹے کی تھوڑی سی مقدار بھی داخل نہیں ہوئی ہے، اسی طرح غزہ میں چینی اور چاول کا ذخیرہ بھی ختم ہو رہا ہے۔ یہ صورت حال شمال غزہ میں انسانی حالات کو مزید پیچیدہ بنا رہی ہے۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ صیہونی حکومت غزہ کے عوام کی مزاحمت کو کچلنے کے لیے جان بوجھ کر شمالی غزہ کو قحط کی طرف دھکیل رہی ہے۔

"ابراہیم مسلم" نے مزید کہا: ادویات کے لحاظ سے صحت عامہ اور طبی سامان کی سہولیات بہت کم ہیں۔ فلسطینی رپورٹر نے مزید کہا ہے کہ شمالی غزہ میں بڑی تعداد میں پناہ گزینوں کی واپسی ہو رہی ہے اور پناہ گزینوں کے لیے اسکولوں وغیرہ کی جگہوں کا انتظام کیا گیا ہے، لیکن ان اسکولوں اور رہائشی علاقوں میں پناہ گزینوں کی بستیوں میں پانی یا صفائی کی سہولیات بالکل نہیں ہیں۔
انٹرویو: معصومہ فروزان
 
 
 

وفاق ٹائمز، ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد خواتین کی کامیابیوں کا ذکرکریں تو ہمیںاس شعبے میں بہت ساری کامیابیاں نظر آرہی ہیں جس کے بارے میں عالمی خاص طورپر مغربی میڈیا غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں اور حق اور سچائی کو پوری طرح مسخ کر کے بیان کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
اسلامی انقلاب کے بعد عورت کو صنفی امتیاز اور ایک شے کے طور پر دیکھنے کے بجائے عورت کو جہاں تکریم و عزت دی گئی وہاں انہیں ان کا جائز مقام دلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے جس کے باعث ایران میں آج خواتین تمام شعبوں میں مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہیں بلکہ کئی شعبوں میں مردوں سے بھی آگے ہیں جس کا عالمی غیرجانبدادارے اعتراف بھی کرتے ہیں ،زیرنظر رپورٹ کو پڑھ کرآپ مغربی خاص پر امریکہ اوراسرائیلی سے وابستہ میڈیا کی غلط بیانی کا بخوبی اندازہ کرسکتے ہیں اور یہ بھی واضح ہوجائے گا کہ جو عالمی اور مغربی میڈیا میں کہا اور بتایا جارہا ہے وہ ایران دشمنی اور ایران کے خلاف میڈیا وار کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
خواتین اور صحت
ایران میں فی 100,000 خواتین کے تناسب سے60 دائیاں اور 2.8 زچگی کے ماہرین ڈاکٹرز کی موجود ہیں۔ 100 فیصد شہری رہائشیوں اور 99فیصد دیہاتیوں اور خانہ بدوشوں کے لیے قومی ہیلتھ کوریج نیٹ ورک کا نفاذ ہے۔خواتین کی اوسط عمرمیں20سال اضافہ کے ساتھ 78 سال ہوگئی ہے۔ نوزائیدہ بچوں کی اموات میں فی 100000 پیدائش میں 8.2 فیصد کی کمی ہوئی ہے۔ 5 سال سے کم عمر بچوں کی شرح اموات میں فی ایک لاکھ میں14.2فیصد کی کمی ہوئی ہے۔ ملک میں 98 فیصد گائناکالوجسٹ اور اسی شعبے سے وابستہ سرجن خواتین ہیں۔ 40% ماہر ڈاکٹرز اور 30% اعلیٰ مہارت کی حامل ڈاکٹر زخواتین ہیں۔ سروائیکل کینسر سے موت کی سب سے کم شرح کے لحاظ سے دنیا میں 10ویں نمبر پر ہے۔
خواتین اور تعلیم
خواتین یونیورسٹی فیکلٹی ممبران کے تناسب کو 3.33 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ملک کی میڈیکل سائنسز یونیورسٹیوں کے فیکلٹی ممبران میں خواتین کی تعداد 34% ہے۔ خواتین اور لڑکیوں کی ناخواندگی میں99.30% فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ملک میںسرکاری یونیورسٹیوںمیں زیرتعلیم سٹوڈنٹس کی56 فیصد خواتین ہیں۔ ملک میں پرائمری اور سیکنڈری تعلیم میں صنفی تفریق کا خاتمہ ہوا ہے۔ خواتین مصنفین کی تعداد9500 سے تجاوز کرگئی ہے جبکہ 840 خواتین پبلشرز کی اس وقت نشرو اشاعت کی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ پرائمری اسکول میں طالبات کے اندراج کی شرح میں 115 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ہائی اسکول میں طالبات کے اندراج کے فیصد میں 84% تک اضافہ ہوا ہے۔ طالب علموں کے مقابلے خواتین طلبہ کی تعداد میں48 فیصد کے تناسب سے اضافہ ہوا ہے۔
ورزش کے میدان میں خواتین کی کامیابیاں
عالمی مقابلوں میں خواتین کھلاڑیوں نے 3302 تمغے جیتے ہیں۔ خواتین اور پیشہ ور کھلاڑیوں کی طرف سے اولمپک اور پیرا اولمپک کوٹے کا بیک وقت حصول دیکھنے میں آیا ہے۔ قومی اور بین الاقوامی مقابلوں میں 88,366 خواتین ریفریز کی سرگرمی اور عالمی کھیلوں کی فیڈریشنوں میں 97 بین الاقوامی نشستوں پرایرانی خواتین کی موجودگی نیز خواتین کے لیے 16,111 سپورٹس کلبوں کا قیام ساتھ ہی سپورٹس فیڈریشنز میں51 خواتین صدور اور نائب صدورخدمات سرانجام دے رہی ہیں مزید صوبائی سطح پر کھیلوں کی 70ٹیموں کی سربراہ خواتین ہیں۔
حکمرانی اور فیصلہ سازی کے میدان میں خواتین
25.2 فیصدخواتین سرکاری اداروں میںاہم عہدوں پر فائز ہیں، بشمول اعلیٰ، درمیانی اور بنیادی ایگزیکٹو عہدوں پرخدمات سرانجام دے رہی ہیں۔ نیز نائب صدر برائے خواتین اور خاندانی امور کا عہدہ خواتین کے لئے مختص ہے مزید ملک میں 1121 خواتین ججز کی مختلف عدالتوں میں عوام کو انصاف کی فراہمی کے حوالے سے خدمات سرانجام دے رہی ہیں اور اسلامی کونسل میں خواتین کی شرکت کی شرح میں 5.59% تک اضافہ ساتھ ہی خواتین نے حکومت کے گیارہویں دورمیں اسلامی کونسل میں 111 نشستیں حاصل کیں۔ 11ویں دور میں پارلیمنٹ کی نمائندگی کے لیے رضاکارانہ طور اپنی خدمات پیش کرنے والی خواتین کی تعداد میں 227 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
ماحو لیات اور آب و ہوا کے شعبے میں خواتین کا کردار
انوائرنمنٹ آرگنائزیشن میں 40 اعلی عہدوں کی انچارج خواتین ہیں، ملک کی ماحولیاتی انتظامی پوسٹوں کا ایک چوتھائی حصہ خواتین کیلئے مختص ہیں، انوائرنمنٹ آرگنائزیشن میں 40 اعلی عہدوں کی انچارج خواتین ہیں، دیہی اور خانہ بدوش خواتین کے لیے صحت مند، معیاری اور مصدقہ مصنوعات تیار کرنے اور استعمال کرنے کے بارے میں ثقافتی بیداری کو فروغ دینے اور بڑھانے کے قومی منصوبے پر عمل درآمد ہے۔ 2021ء میں سیلاب زدہ علاقوں میں 117072 خواتین کے لیے بنیادی ضروریات (پانی، خوراک، کپڑے، کمبل)کی فراہمی۔ نیز 4مدتوں تک ماحولیات کی تنظیم کی صدرات خواتین کے پاس رہی ۔مزید 2021 میں موسمیاتی بحران سے متاثرہ 299120 خواتین کو ماہانہ گزارہ الاونس کی ادائیگی اور 2021 میں زلزلہ زدہ علاقوں میں خواتین کے عارضی قیام کے لیے 20166 محفوظ پناہ گاہوں کا قیام ساتھ ہی آبادی کے تناسب سے ایک چوتھائی حصہ سے زیادہ خواتین ماحولیاتی انتظامی عہدوں پر فائز ہیں، 2012 میں سیلاب زدہ علاقوں میں خواتین کیلئے 21014 محفوظ بستیوں کا قیام۔
کاروبار اور روزگار کے میدان میں خواتین کا کردار
خواتین کی بے روزگاری کی شرح میں 13.7 فیصد تک کمی ہوئی ہے علم پر مبنی کمپنیوں کی منیجنگ ڈائریکٹرز کے عہدوں پر735 خواتین کی اپنی خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔ خواتین کی طرف سے 250 علم پر مبنی کمپنیوں کا قیام ہوا ہے مزید علم سے وابستہ کمپنیوں کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ممبر کے طور پر 2390 خواتین کی ملک کی خدمات میں سرگرم ہیں۔ ملازمت کے متلاشی خواتین کو ملازمت کے مواقع کے حصول اور مارکیٹ سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ”پائیدار خاندان پر مبنی کاروباری نیٹ ورک” کے قومی منصوبے کا نفاذ ساتھ ہی دیہی اور قبائلی خواتین کیلئے روزگار میں اضافہ کے غرض سے قومی منصوبے کا اجراء اور خواتین کوآپریٹیو اور ان کی یونینوں کے لئے زمین کی فراہمی اور قدرتی وسائل تک رسائی میں اضافہ ممکن بنانے کے لئے اقدامات اور LNSIE ماڈل کی بنیاد پر دیہی اور قبائلی خواتین کے چھوٹے کاروبار کے لیے ایک منظم حکمت عملی پروگرام کا اجراء و دیہی خواتین اور لڑکیوں کے لیے سوشل سیکیورٹی انشورنس کا اجراء اور گھریلو خواتین کے لیے سوشل سیکیورٹی انشورنس کی فراہمی و گھر کی خواتین سربراہوں کے لیے سوشل سیکیورٹی انشورنس کا اجراء۔
خواتین اور میڈیا
انفارمیشن ٹیکنالوجی میں خواتین کی شرکت میں 31.5 فیصد اضافہ ہوا ہے خواتین کے لیے معلومات اور مواصلاتی ٹیکنالوجی تک رسائی میں اضافہ نیز فلم انڈسٹری میں 903 خواتین فلم سازوں کی فعال شمولیت اور سینماانڈسٹری میں پس پردہ2000 ماہرخواتین ماہرکی فعال موجودگی و 45بین الاقوامی فلمی میلوں میں جیوری کے طور پرایرانی خواتین ہدایت کاروں اور اداکاراں کی شرکت نیز خواتین فلم ساز وں نے مشہور فلم فیسٹیولز میں 114 قومی اور 128 قومی اوربین الاقوامی ایوارڈ اپنے نام کئے۔
معلومات اور مواصلاتی ٹیکنالوجی تک خواتین کی رسائی میں اضافہ
موبائل فون تک رسائی۔26 ملین لوگ (کل موبائل صارفین کا 45 فیصد)، کمپیوٹر تک رسائی:14.5 ملین لوگ (کل صارفین کا 48 فیصد)، انٹرنیٹ تک رسائی:لوگوں کو 18.7 ملین(صارفین کی کل تعداد کا 48 فیصد)،انٹرنیٹ تک رسائی:18.7 ملین لوگوں کو (صارفین کی کل تعداد کا 48 فیصد)۔

عورت کی ایک اہم ترین ذمہ داری گھر کی خانہ داری ہے۔ سبھی جانتے ہیں کہ میرا یہ ماننا نہیں ہے کہ عورتوں کو سیاسی اور سماجی کاموں سے دور رہنا چاہئے، نہیں، اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اگر اس کے معنی یہ لیے جائيں کہ ہم "خانہ داری" کو حقارت کی نگاہ سے دیکھنے لگیں تو یہ گناہ ہوگا۔ خانہ داری، ایک کام ہے، بڑا کام ہے، اہم ترین و حساس ترین کام ہے، مستقبل ساز کام ہے۔ افزائش نسل ایک عظیم مجاہدت ہے۔

امام خامنہ ای

1 مئی 2013