سلیمانی
جنین میں فوجی کاروائی شکست سے دوچار ہوگئی، صہیونی میڈیا کا اعتراف
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، صہیونی اخبار ہارٹز نے بدھ کی ایڈیشن میں لکھا ہے کہ غرب اردن کے شمالی شہر جنین پر صہیونی حکومت کی فوجی کاروائی اپنے اہداف کے حصول میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔
اخبار کہ نے تاکید کی ہے ان کاراوئیوں کے نتیجے میں نہ صہیونی آبادکاروں کو سکون ملا ہے اور نہ مغربی کنارے کے حالات میں کوئی تبدلی آئی ہے۔
دوسرے اخبار یدیعوت احارونوت نے لکھا ہے کہ صہیونی خفیہ ایجنسی شاباک کی فہرست میں موجود مطلوبہ افراد میں صرف 30 کو پکڑنے میں صہیونی فوج کامیاب ہوسکی ہے۔ اس سے پہلے صہیونی فورسز جنین میں انفراسٹرکچر اور کو نقصان پہنچانے اور مقاومتی تنظیموں کے اراکین کو گرفتار کرنے میں کسی حد تک کامیاب ہوگئی تھی۔
یاد رہے کہ صہیونی حکومت کی دہشت گردانہ کاروائی میں دو دنوں میں 12 فلسطینی شہید ہوئے ہیں جن میں پانچ بچے بھی شامل ہیں۔ جبکہ 140 زخمی ہوگئے ہیں جن میں سے 30 کی حالت نازک بتائی جاتی ہے۔
فلسطینی ذرائع ابلاغ میں صہیونی دہشت گرد فورسز کے ہاتھوں جنین میں ہونے والے نقصانات اور جارح افواج کی عقب نشینی کی تصاویر منتشر ہورہی ہیں۔ صہیونیوں نے اب تک ایک فوجی اہلکار کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔
بعض مغربی ممالک میں قرآن کی توہین کیساتھ کھلی مخالفت امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے: ایرانی صدر
تہران، ارنا – ایرانی صدر مملکت نے سویڈن اور بعض مغربی ممالک میں قرآن کریم اور اسلامی مقدسات کی بے حرمتی اور فلسطین میں صہیونی حکومت کی جارحیت کے حوالے کہا ہے کہ امت مسلمہ کا فرض ہے کہ ان حالات میں قرآن کریم کی توہین اور صہیونی حکومت کی جارحیت کے خلاف موثر انداز میں احتجاج کرے۔
یہ بات آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی نے جمعہ کے روز الجزائر کے ہم منصب عبدالمجید تبون سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے کہی۔
انہوں نے کہا کہ نے الجزائر کی حکومت اور عوام کو عید قربان کی مبارک باد پیش کرتے ہوئے کہا کہ بعض مغربی ممالک کی جانب سے قرآن کریم کی توہین اور صہیونی حکومت کی جارحیت کے خلاف موثر صدائے احتجاج بلند کرنا امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے۔
صدر رئیسی نے سویڈن اور بعض مغربی ممالک میں قرآن کریم اور اسلامی مقدسات کی بے حرمتی اور فلسطین میں صہیونی حکومت کی جارحیت کے حوالے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے کہ ان حالات میں قرآن کریم کی توہین اور صہیونی حکومت کی جارحیت کے خلاف موثر انداز میں احتجاج کرے۔
صدر مملکت نے کہا کہ ایران کی پالیسی یہ ہے کہ اسلامی ممالک کے ساتھ روابط اور تعلقات کو مزید مستحکم کیا جائے۔ امید ہے کہ ایران اور الجزائر بھی تجارت اور اقتصادی شعبوں میں تعاون کو مزید وسعت دیں۔
اس موقع پر الجزائر کے صدر عبدالمجید تبون نے ایرانی حکومت اور عوام کو مبارک باد پیش کی اور کہا کہ الجزائر اسلامی تشخص اور ایران کے ساتھ تمام شعبوں میں دوستانہ تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے لئے پرعزم ہے
سویڈن کی ناپاک جسارت اور امریکہ کی مکروہ حمایت
مہذب معاشروں میں ہمیشہ سے ہی اختلاف کے باوجود ایک دوسرے کے عقائد اور جذبات کا احساس کیا جاتا رہا ہے، تاہم آج کے اس دور میں خود کو انسانی حقوق کا چیمپئن قرار دینے والے غیر مسلم ممالک کی جانب سے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو بری طرح سے مجروح کرنے کے واقعات بڑھتے جارہے ہیں، کبھی آزادی اظہار کے نام پر قرآن مجید کی بے حرمتی کی جاتی ہے تو کبھی نبی کریم (ص) کی شان اقدس میں گستاخی ہوتی ہے۔ حال ہی میں سویڈن کی جانب سے سرکاری چھتری تلے قرآن کریم کو نذر آتش کرنے کی ناپاک اور ننگی جسارت کی گئی۔ سویڈن میں 37 سالہ لبرل انتہاء پسند عراقی سلوان مومیکا جو کئی سال قبل سویڈن فرار ہو گیا تھا، نے عید کے روز اس وقت مقدس ترین کتاب کی بے حرمتی کی جب مسلمانوں سویڈن میں عید الاضحی منا رہے تھے۔ او آئی سی نے قرآن مجید کی بے حرمتی کے خلاف اجلاس بلایا، آئی سی کا اجلاس ادارے کے جدہ میں واقع ہیڈکوارٹر میں ہوگا جس میں عید الاضحیٰ کے موقع پر سویڈن کے شہر اسٹاک ہوم میں قرآن مجید کی بے حرمتی کے شرمناک واقعے کے بارے میں تبادلہ کیا جائے گا۔
اجلاس کے دوران واقعے پر ردعمل دکھاتے ہوئے مشترکہ موقف اور ضروری اقدامات کے حوالے سے بھی گفتگو کی جائے گی۔ اجلاس بلانے کا فیصلہ ایرانی وزیر خارجہ عبداللہیان اور او آئی سی کے سیکرٹری جنرل حسین ابراہیم طہ کے درمیان ٹیلفونک گفتگو کے بعد کیا گیا جس میں ایرانی وزیر خارجہ نے اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کا ہنگامی اجلاس بلانے کی تجویز دی تھی۔ جہاں مسلم ممالک نے اشتعال انگیز واقعے کی شدید مذمت کی ہے وہیں امریکا نے سویڈن حکومت کے قرآن جلانے کے اجازت نامے کی حمایت کی اور اسے آزادی اظہار سے تعبیر کیا ہے۔ امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان میٹ میلر کا کہنا تھا کہ ہم یہ مانتے ہیں کہ اس مظاہرے کے لیے دیا گیا اجازت نامہ آزادی اظہار کی حمایت کرتا ہے۔ امریکہ کے اس مکروہ اقدام پر مسلم امہ میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ دوسری جانب روسی صدر نے امریکی ردعمل کے برخلاف قرآن کی بے حرمتی کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے امت مسلمہ کے دل جیت لئے۔
قرآن پاک کی بے حرمتی کے افسوسناک واقعہ کے فوری بعد روسی صدر ولادمیر پیوٹن داغستان پہنچے، جہاں انہوں نے ایک مسجد کا دورہ کیا اور مذہبی رہنماؤں سے ملاقات کی۔ اس موقع پر پیوٹن نے سویڈن میں قرآن پاک کی بے حرمتی کے واقعے کی مذمت کی اور کہا کہ اس طرح کا اقدام اگر روس میں سرزد ہوتا تو سزا دی جاتی کیونکہ روس میں قرآن پاک کی بے حرمتی جرم ہے۔ انہوں نے مسلم رہنماوں سے بات چیت کے دوران قرآن پاک کو سینے سے لگائے رکھا۔ روسی صدر کے اس اقدام کو مسلم دنیا میں کافی سراہا جارہا ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ مذہبی مقدسات کی توہین کے پے در پے واقعات کے باوجود اس سلسلے کو ابھی تک نہیں روکا جاسکا۔ او آئی سی کا اجلاس حسب روایت طلب کیا جاتا ہے، مسلم حکمرانوں کی جانب سے انفرادی طور پر مذمتیں بھی سامنے آتی ہیں، امت مسلمہ احتجاجی مظاہرے بھی کرتی ہے، اقوام متحدہ کو خطوط بھی لکھے جاتے ہیں، تاہم اس سب کے باوجود غیر مسلم ممالک میں یہ واقعات پیش آتے رہے ہیں۔
سویڈن حکومت کی جانب سے اس قسم کے واقعہ نے ایک مرتبہ پھر نہ صرف عالمی سظح پر مسلمانوں کے جذبات کیساتھ کھلواڑ کیا ہے بلکہ مغرب کی مذہبی آزادی کے دعووں کی قلعی بھی کھول دی ہے، امریکہ کی طرف سے اس قبیح اقدام کی کھلم کھلا حمایت نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ علاوہ ازیں دیگر یورپی ممالک کی جانب سے قرآن پاک کی بے حرمتی کی مذمت نہ کرنا ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے، اس صورتحال میں مسلم ممالک کے مشترکہ فورم او آئی سی کا اجلاس بلایا جانا ایک احسن اقدام ہے، تاہم اگر یہ اجلاس بھی ماضی کی نشستوں کی طرح بے سود ثابت ہوتا ہے تو یہ مسلم امہ کیلئے قابل افسوس ہوگا۔ مسلم حکمرانوں کو اس حوالے سے سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا اور اس معاملہ پر تمام تر سیاسی و علاقائی اختلافات کو پس پشت ڈال کر کسی حتمی نتیجہ پر پہنچنا ہوگا۔ کسی کو بھی آزادی اظہار رائے کی بنیاد پر مقدسات کی توہین کی اجازت ہرگز نہیں دی جاسکتی۔
رپورٹ: سید عدیل زیدی
قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا أَنزِلْ عَلَيْنَا مَآئِدَةً مِّنَ السَّمَاء تَكُونُ لَنَا عِيداً لِّأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا وَآيَةً مِّنكَ وَارْزُقْنَا وَأَنتَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ
قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا أَنزِلْ عَلَيْنَا مَآئِدَةً مِّنَ السَّمَاء تَكُونُ لَنَا عِيداً لِّأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا وَآيَةً مِّنكَ وَارْزُقْنَا وَأَنتَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ
آیه 114 سوره مائده
عیسٰی بن مریم نے کہا خدایا پروردگار !ہمارے اوپر آسمان سے دستر خوان نازل کردے کہ ہمارے اول و آخر کے لئے عید ہوجائے اور تیری قدرت کی نشانی بن جائے اور ہمیں رزق دے کہ تو بہترین رزق دینے والا ہے
خطیب عرفہ کا مسلمانوں میں اتحاد پر زور
یوم عرفہ کی تقریب کے مقرر نے غریبوں اور مسکینوں کی مدد پر تاکید کرتے ہوئے مسلمانوں کے درمیان تفرقہ پیدا کرنے سے خبردار کیا اور کہا: اس سال کے حج کا سب سے اہم یادگار تحفہ، اسلامی ملک میں اتحاد اور فتنہ پروری کی خاموشی ہونی چاہیے۔
ایکنا نے المیادین کے حوالے سے بتایا ہے کہ یوم عرفہ کی تقریب کے خطیب اور سعودی عرب کے سینئر علماء کی کونسل کے رکن یوسف بن محمد بن سعید نے عرفہ کے دن مسجد نمرہ میں اپنے خطبہ میں کہا: اسلامی شریعت مسلمانوں کی صفوں میں اختلاف پیدا کرنے والے مسائل کی پیروی کرنے سے منع کرتا ہے، یہ مسلمانوں کو خدا تعالیٰ سے ڈرنے، اس کی اطاعت کرنے، اس کی شریعت پر عمل کرنے اور اس کی حدود کو برقرار رکھنے کی ترغیب دیتا ہے اور اس کی دعوت دیتا ہے۔
ابن سعید کے کلام کا نچوڑ امن پر انحصار، اتحاد کو فروغ دینا، تفرقہ بازی سے گریز اور عالم اسلام میں فتنہ کو خاموش کرنا تھا۔
انفرادی اخلاقی طریقوں کی اصلاح کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طریقے کا اظہار کرتے ہوئے، آپ نے اسلامی فرقوں کے ساتھ سماجی بقائے باہمی کو فروغ دینے کو آج کی دنیا میں حج کا سب سے اہم مشن قرار دیا۔
بن سعید نے عرفہ کے دن مسجد نمرہ سے اپنے خطبہ میں قرآن کریم کی آیات اور احادیث نبوی کا حوالہ دیتے ہوئے غریبوں اور مسکینوں کی مدد کرنے اور خدا کی رسی کو تھامے رکھنے پر زور دیا۔
منارہ الحرمین کی ویب سائٹ پر ان خطبات کا بیک وقت 30 زبانوں میں ترجمہ کیا گیا ہے۔
سوئیڈن میں قرآن سوزی کے اعادہ پر مسلم دنیا سراپا احتجاج
جدہ : سوئیڈن میں قرآن سوزی پر مسلم دنیا سراپا احتجاج بن گئی اور سوئڈش حکومت سے ایسے اقدامات روکنے کا مطالبہ کیا۔ سعودی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ نفرت انگیز اور بار بار کی گئی کارروائیوں کو کسی بھی جواز کے ساتھ قبول نہیں کیا جا سکتا۔ یہ واضح طور پر نفرت اور نسل پرستی کو ہوا دیتے ہیں۔ ترک وزیر خارجہ حقان فیدان نے کہاکہ آزادیِ اظہار کے بہانے اسلام مخالف اقدامات کی اجازت ناقابلِ قبول ہے۔ایسے ظالمانہ کاموں سے آنکھیں موندنے کا مطلب ان میں شریک جرم ہونے کے مترادف ہے۔
ایرانی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ مسلمانوں کے مقدس موقع پر مقدسات کی توہین ایک کھلی اشتعال انگیزی کے مترادف، غیر منصفانہ، اور ناقابل قبول عمل ہے۔ ادھر مراکش نے سویڈن سے اپنے سفیر کو غیر معینہ مدت کےلیے واپس بلا لیا جبکہ رباط میں سویڈن کے ناظم الامور کو طلب کرکے واقعہ کی شدید مذمت کی۔
سویڈن کے وزیراعظم الف کرسٹرسن نے قرآن سوزی کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ احتجاج قانونی لیکن مناسب نہیں تھا، پولیس پر منحصر تھا کہ وہ اس کی اجازت دیتی ہے یا نہیں۔ واضح رہے کہ عدالت کی اجازت کے بعد انتہا پسندوں نے عید الاضحیٰ کے پہلے روز سوئیڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم کی مرکزی مسجد کے باہر قرآن کو نذرآتش کیا۔
ایرانی حجاج کی میدان عرفات میں مشرکین سے بیزاری/ مردہ باد امریکہ و اسرائیل کی گونج
عرفات کے صحرا میں حج و زیارات کے امور میں ولی فقیہ کے نمائندے اور ایرانی حجاج کی موجودگی میں مشرکین سے بیزاری کے مراسم منعقد ہوئے۔
عرفات کے میدان میں ہونے والے اس پروگرام کا سب سے اہم حصہ رہبر معظم انقلاب اسلامی کی جانب سے حج کے موقع پر جاری ہونے والا پیغام تھا۔ ولی فقیہ کے نمائندے سید عبدالفتاح نواب نے نے مشرکین سے بیزاری کے مراسم میں اس پیغام کو پڑھ کر سنایا۔
رہبر انقلاب اسلامی کا پیغام حج؛ حج معنویت اور اخلاق پر استوار ایک حیات بخش عالمی منشور زندگی ہے
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے حج بیت اللہ کی مناسبت سے پیغام میں کہا ہے کہ فریضہ حج انسانی رشد اور بشریت کی معنوی و اخلاقی پیشرفت کی عالمی دعوت ہے۔ حج کے عالمی سطح پر موثر واقع ہونے کے لئے امت مسلمہ کو چاہئے کہ اس عظیم فریضے کے دو اراکان یعنی وحدت اور معنویت پر مبنی حیات بخش پیغام کی صحیح شناخت حاصل کرے۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے حجاج کرام کے نام پیغام جاری کیا جو حسب ذیل ہے:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
والحمد للہ ربّ العالمین و صلّی اللہ علی الرسول الاعظم محمد المصطفی و آلہ الطیبین و صحبہ المنتجبین.
حج ابراہیمی کی صلائے عام اور اس کی عالمی دعوت نے ایک بار پھر تاریخ کی گہرائيوں سے پوری دنیا کو مخاطب کیا اور ذکر خدا کرنے والے مشتاق دلوں میں ہلچل مچا دی۔
داعی کی آواز بنی نوع انسان کی فرد فرد کے لیے ہے: "و اَذِّن فی الناس بالحجّ" (اور لوگوں میں حج کی عام منادی کر دیجیے) اور کعبہ، تمام انسانوں کا مبارک میزبان اور رہنما ہے: "انّ اوّلَ بیتٍ وُضع للنّاس للّذی ببکّۃ مبارکاً و ھدیً للعالمین" (بے شک سب سے پہلا گھر جو لوگوں (کی عبادت) کے لیے بنایا گیا، وہی ہے جو مکے میں ہے، بڑی برکت والا اور عالمین کے لیے مرکز ہدایت ہے۔)
تمام مسلمانوں کی توجہ کے مرکز پرکار اور اصلی محور کی حیثیت کے حامل کعبہ اور عالم اسلام کے گوناگوں جغرافیا کے ایک چھوٹے سے مرقعے کی حیثیت سے حج کا پروگرام، انسانی معاشرے کے عروج اور تمام انسانوں کے امن و سلامتی کا ضامن بن سکتا ہے۔ حج، پوری انسانیت کو معنوی عروج اور روحانی و اخلاقی ارتقاء کی اعلی ترین منزل پر پہنچا سکتا ہے اور یہ، آج کے انسان کی حیاتی ضرورت ہے۔
حج، آج اور آئندہ کل کے انسان کے اخلاقی زوال کی موجب سامراج اور صیہونیت کی تمام سازشوں کو ناکام اور بے اثر بنا سکتا ہے۔
اس عالمی تاثیر کی ضروری شرط یہ ہے کہ مسلمان قدم اول کے طور پر، حج کے حیات بخش خطاب کو پہلے خود صحیح طریقے سے سنیں اور اسے عملی جامہ پہنانے میں کوئي دقیقہ فروگزاشت نہ کریں۔
اس خطاب کے دو بنیادی ستون، اتحاد اور معنویت ہیں۔ وحدت و روحانیت، عالم اسلام کی مادی و معنوی پیشرفت کی ضامن ہے اور یہ پوری دنیا پر ضو فشانی کر سکتی ہے۔ اتحاد کا مطلب، فکری اور عملی رابطہ ہے، یہ دلوں، افکار اور مواقف کے قریب ہونے سے عبارت ہے، اس کا مطلب علمی و تجرباتی تعاون ہے، یہ اسلامی ملکوں کے معاشی رشتے کے معنی میں ہے، مسلم حکومتوں کے باہمی اعتماد و تعاون کے معنی میں ہے، یہ مسلّمہ اور مشترکہ دشمنوں کے مقابلے میں ایک دوسرے کی مدد کے معنی میں ہے، وحدت کا مطلب یہ ہے کہ دشمن کی تیار کردہ سازش، اسلامی فرقوں یا عالم اسلام کی مختلف قوموں، نسلوں، زبانوں اور ثقافتوں کو ایک دوسرے کے مد مقابل نہ لا سکے۔
اتحاد کا مطلب یہ ہے کہ مسلم اقوام ایک دوسرے کو، دشمن کے فتنہ انگیز تعارف سے نہیں بلکہ آپسی رشتوں، بات چیت اور آمد و رفت سے پہچانیں، ایک دوسرے کے وسائل اور صلاحیتوں سے واقف ہوں اور ان سے استفادے کے لیے پروگرام تیار کریں۔
اتحاد کا مطلب یہ ہے کہ عالم اسلام کے سائنسداں اور یونیورسٹیاں ایک دوسرے کے کندھے سے کندھا ملائيں، اسلامی مذاہب کے علماء ایک دوسرے کو حسن ظن، رواداری اور انصاف پسندی کی نظر سے دیکھیں اور ایک دوسرے کی باتیں سنیں، ہر ملک اور ہر مذہب کے دانشور عوام کو ایک دوسرے کے مشترکات سے آشنا کریں اور انھیں باہمی زندگي اور اخوت کی ترغیب دلائيں۔
اسی طرح وحدت اس معنی میں ہے کہ اسلامی ملکوں میں سیاسی و ثقافتی رہنما پوری ہماہنگي کے ساتھ خود کو درپیش عالمی نظام کے حالات کے لیے تیار کریں، دنیا کے نئے تجربے میں، جو موقعوں اور خطروں سے بھرا ہوا ہے، امت اسلامی کے شایان شان مقام کو اپنے ہاتھوں سے اور اپنے ارادے سے یقینی بنائيں اور پہلی عالمی جنگ کے بعد مغربی حکومتوں کے ہاتھوں انجام پانے والے مغربی ایشیا کے سیاسی و علاقائي تغیرات کے تلخ تجربے کو دوہرائے جانے کی اجازت نہ دیں۔
معنویت، دینی اخلاق کے ارتقاء کے معنی میں ہے۔ دین کی نفی کے ساتھ اخلاق کی فسوں کاری کا انجام، جس کی عرصے تک مغرب کے فکری ذرائع کی جانب سے ترویج کی جاتی رہی، مغرب میں اخلاقیات کا تیز رفتار زوال ہے جس کا دنیا میں سبھی مشاہدہ کر رہے ہیں۔ معنویت اور اخلاق کو، حج کے مناسک سے، احرام میں سادگي سے، خیالی امتیازات کی نفی سے، "و اطعموا البائس الفقیر" (اور تنگ دست محتاج کو کھانا کھلاؤ) (کی تعلیم) سے، "لارَفَث و لافسوق و لاجدال" (حج کے دوران کوئی شہوانی فعل، کوئی بد عملی اور کوئی لڑائی جھگڑا نہ ہو) (کی ہدایت) سے، توحید کے محور کے گرد پر امید طواف سے، شیطان کو کنکریاں مارنے سے اور مشرکین سے اعلان برائت سے سیکھنا چاہیے۔
حج کا فریضہ انجام دینے والے بھائيو اور بہنو! حج کے موقع کو اس بے نظیر فریضے کے رموز کے بارے میں گہرائي سے غور و فکر کرنے کے لیے استعمال کیجئے اور اپنی پوری عمر کے لیے توشہ تیار کر لیجیے۔ اتحاد اور معنویت کو ماضی سے کہیں زیادہ اس وقت سامراج اور صیہونیت کی دشمنی اور خلاف ورزیوں کا سامنا ہے اور سامراجی تسلط کی دوسری طاقتیں، مسلمانوں کے اتحاد اور مسلم اقوام، ممالک اور حکومتوں کے آپسی افہام و تفہیم اور ان اقوام کی نوجوان نسل کے جذبہ دینداری کی سخت مخالف ہیں اور ہر ممکن طریقے سے ان چیزوں پر حملے کر رہی ہیں۔ اس خباثت آمیز امریکی و صیہونی سازش کے مقابلے میں ڈٹ جانا ہم سب کی اور تمام اقوام اور حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔
خداوند علیم و قدیر سے مدد طلب کیجیے، اپنے اندر مشرکین سے اظہار برائت کے جذبے کو مضبوط بنائیے اور خود کو اپنی زندگي کے ماحول میں اسے پھیلانے اور مزید گہرائي عطا کرنے کا ذمہ دار سمجھیے۔
سبھی کے لیے خداوند عالم سے توفیق اور آپ ایرانی اور غیر ایرانی حجاج کے لیے 'مقبول و مشکور حج' کی دعا کرتا ہوں اور سبھی کے لیے حضرت بقیۃ اللہ الاعظم ارواحنا فداہ کی مستجاب دعا طلب کرتا ہوں۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ
6 ذی الحجہ 1444 ہجری قمری
4 تیر 1402 مطابق 25 جون 2023
امام محمد باقر علیہ السلام نے اسلامی تہذیب و تمدن کو انحراف سے بچایا
مہر نیوز ایجنسی، گروہ عقیدہ و دین؛ سات ذی الحجہ کو آسمان امامت کے پانچویں ستارے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کا یوم شہادت ہے۔ آپ کا لقب باقر ہے جس کے معنی ہیں علوم کا پردہ چاک کرنے والا۔ آپ بنی ہاشم میں سب سے زیادہ علم وزھد اور تقوی کے مالک تھے جس کی دوست و دشمن سب گواہی دیتے تھے۔
امام محمد باقر علیہ السلام نے زمانے کے تقاضے کو سمجھتے ہوئے حکمرانوں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھایا اور علوم وحیانی کی ترویج میں سرگرم رہے۔ آپ نے علم کو بند گلی سے نکال کر شکوفائی عطا کی اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے لئے بنیاد فراہم کی۔ اس دور کے جید علماء جن میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعض اصحاب اور اہل سنت علماء بھی شام تھے، نے آپ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا۔
امام محمد باقر علیہ السلام کے یوم شہادت کی مناسبت سے مہر نیوز نے آپ کی سیاسی اور علمی سیرت پر روشنی ڈالنے کے لئے حوزہ اور یونیورسٹی کے نامور استاد حجت الاسلام عبدالکریم پاک نیا سے گفتگو کی جو کہ قارئین کی خدمت میں پیش کی جاتی ہے۔
حوزہ علمیہ کے استاد حجت الاسلام پاک نیا نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے دور امامت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی امامت کا دور ان ادوار میں شمار ہوتا ہے جب اسلامی تمدن اور فرھنگ کو شدید انحرافی خطرات لاحق تھے۔ بنی امیہ نے دینی تعلیمات میں تحریف اور انحراف ایجاد کرنے خطرناک منصوبے شروع کئے تھے۔ ان منصوبوں کی تکمیل کی خاطر خاندان نبوت کو وحشیانہ طریقے سے کربلا میں قتل کیا گیا۔ مدینہ والوں نے احتجاج کیا تو بے رحمی کے ساتھ کچل دیا گیا۔ عدالت خواہی کے لئے قیام کرنے والے علوی سادات کو تہہ تیغ کیا گیا۔ سخت ترین اقتصادی ناکہ بندی کی گئی۔ بنی امیہ اسلام کے فکری اور علمی آثار کو نابود کرنے کے درپے تھے۔ مال و دولت کے ذریعے بعض لوگوں کو حدیث گھڑنے کے لئے تیار کیا گیا۔
بنی امیہ کی یہ حرکات وقت کے امام سے پوشیدہ نہ تھیں۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے تعلیمی درسگاہ کی تاسیس کی اور نظریہ پردازی کے ذریعے اسلامی فرقوں کو ایک دوسرے کے نزدیک لانے میں اہم کردار ادا کیا۔ آپ نے اسلامی تہذیب و تمدن کو انحرافی راستے پر چلنے سے نجات دی۔ آپ نے جب دیکھا کہ الہی اور قرآنی علوم کی تعلیم کے لئے میدان کھلا ہے تو تمام علوم میں نئے باب کھولے۔ یہ وہی بشارت تھی جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دی تھی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے اصحاب کے سامنے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی امامت پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہوئے آپ کے علمی مقام و منزلت کے بارے میں بتایا تھا۔ آپ کو لقب اسی وجہ سے باقر رکھا گیا۔
حجت الاسلام پاک نیا نے کہا کہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کا دور انتہائی حساس تھا۔ بنی امیہ کی سیاسی اور فکری سوچ کے حامل لوگ معاشرے میں رونما ہوئے۔ ان کے تفسیری، حدیثی اور تاریخی رجحانات عالم اسلام کے لئے بہت خطرناک تھے۔ داعش اور القاعدہ جیسے شدت پسند گروہ اسی فکر کا نتیجہ ہے۔ کسی خاص ہدف کے تحت اور کینہ کی بنیاد پر تاریخ نویسی کے باعث انحراف کا ماحول بن گیا تھا۔ بنی امیہ شیعوں کو خاک و خون میں نہلانے کے ساتھ ساتھ سنت نبوی کو مکمل ختم کرنا چاہتے تھے اسی لیے فکری اور مذہبی طور پر منحرف فرقے ایجاد کررہے تھے۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے اس دور میں بڑا جہاد کیا اور تمام منحرف فرقوں کے ساتھ خوب مقابلہ کیا۔ آپ کی علمی تحریک کی بنیاد منحرف فرقوں سے مقابلے پر استوار تھی۔ آپ نے گمراہ فرقوں سے متاثر افکار اور انحرافات کو معاشرے میں عیاں اور غلط ثابت کردیا۔ اس دور میں انبیاء کا معصوم نہ ہونا، اللہ کے لئے جسم ہونا، بیت المقدس کا کعبہ سے افضل ہونا وغیرہ ایسے اعتقادی انحرافات میں سے تھے جو عالم اسلام میں پیدا ہوئے اور امام محمد باقر علیہ السلام نے ان کا مقابلہ کیا۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے بعد آنے والے ائمہ نے بھی یہودیوں کے شبیہ نہ بنو جیسی تعبیروں کے ذریعے مسلمانوں میں پیدا ہونے والے فکری اور ثقافتی ناپسندیدہ اثرات کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ اہل بیت علیہم السلام کے پیروکاروں نے بھی ان انحرافات کے مقابلے میں استقامت دکھائی اور خود کو گزند پہنچانے سے دور رکھا۔ آج استعماری طاقتوں کی جانب سے اسلام پر وارد ہونے والے اعتراضات کی جڑیں ان اسرائیلیات کے اندر پائی جاتی ہیں۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی برکت سے شیعہ کتابیں ان سے پاک ہیں۔
حجت الاسلام پاک نیا نے کہا کہ معاشرے میں مذاکرے کا ماحول پیدا کرنا بہت ضروری ہے۔ معاشرے کے رہنما جدید طریقے پیش کرکے معاشرے کے رسم و رواج کو آگے بڑھاتے ہیں۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے اپنے زمانے جدید علوم متعارف کرائے اور غاصب حکمرانوں کے ایجاد کردہ انحرافی افکار سے اسلامی تمدن اور فرھنگ کو بچایا۔ آپ دین کا اصلی راستہ لوگوں کو دکھایا اور شبہات اور منحرف عقاید کے سامنے سینہ سپر ہوکر کھڑے ہوگئے۔
انہوں نے کہا کہ دین میں حصول علم ایک اصل اور بنیادی امر ہے کیونکہ قرآن اور دین کو سمجھنا علم پر منحصر ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے لوگوں کو علم حاصل کرنے کی تشویق کرتے ہوئے واجب قرار دیا۔ قرآنی تعلیمات میں علم حاصل کرنے پر بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے اور علماء کو معاشرے میں فضیلت دی گئی ہے۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے ایک علمی تحریک شروع کی جس کی بنیادیں وحیانی اور نبوی علوم کے اندر پیوست ہیں۔ اگر آپ کی علمی محنتوں کو جدا کیا جائے تو اسلامی تمدن خطرات سے روبرو ہوجائے گا۔ اسلامی تمدن کو رونق اور شکوفائی عطا کرنے کے لئے اہل بیت کے علمی اثرات بہت ہی اہم اور قابل توجہ ہیں۔ شاگردوں اور ان علوم کے حافظوں اور وارثوں کی تربیت اسلامی تمدن کے تحفظ کے پہلووں میں سے ایک ہے۔
امام نے عملی طور پر مدارس کی تعمیر اور علمی محافل سجا کر علمی رجحان پر مبنی مذاکرے کی بنیاد رکھی اور اسے فروغ دیا۔ امام باقر علیہ السلام اور امام صادق علیہ السلام کے علمی اقدامات نے ایک ثقافت سے مالامال ایک مکتب کو وجود میں لایا جو بعد میں جعفری مکتب کے نام سے مشہور ہوا، یہ مکتبہ فکر جو باقاعدگی سے تمام شعبوں میں اہل بیت کے علوم کو پیش کرتا ہے، نصف صدی سے زیادہ ان دونوں شیعہ اماموں کی مسلسل محنت اور کوشش کا نتیجہ ہے۔
حوزہ علمیہ کے استاد نے مزید کہا کہ اس زمانے کے سیاسی معاشرے میں اس طرح کی پالیسی اختیار کرنا جب اموی اور بعد میں عباسی خلفاء اپنی حکومت کی بقا کے لیے کسی بھی قسم کی مخالفت برداشت کرنے کے لئے تیار نہ تھے، سیاسی اقدامات کے ساتھ ناممکن تھیں۔ امام نے اس دور میں اسلامی معارف کو بیان کیا اور دینی ثقافت کی ترویج کی۔ آپ خلافت کو اپنا اور اپنے آباء و اجداد کا حق سمجھتے تھے جس کو طاقت کے بل بوتے غصب کیا گیا تھا۔ آپ نے کھل کر حکمرانوں کی مخالفت کی اور ان کے خلاف موقف اپنایا۔
امام محمد باقر علیہ السلام نے شیعوں اور اسلامی تمدن و تہذیب کی حفاظت کا بیڑا اٹھایا۔ آپ اپنے زمانے کے معتبر ترین فرد شمار ہوتے تھے جس کا سب اعتراف کرتے تھے۔ اسی لئے ایران اور دوسرے علاقوں سے سینکڑوں لوگ مدینہ آکر آپ کی علمی محفلوں میں شرکت کرتے تھے۔ اہل بیت کی اس درسگاہ میں 4000 سے زائد طلباء نے استفادہ کیا۔
حجت الاسلام پاک نیا نے کہا کہ اگر علمی بنیادیں کمزور ہوں تو سب کچھ انحرافات اور شہات کے سیلاب میں بہہ جائیں گے۔ اس زمانے میں حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے اس نکتے پر خصوصی توجہ کی اور دین اور مذہب کی علمی بنیادوں کو مستحکم کیا۔ شاگردوں کی تربیت اور علمی محافل سجا کر آپ نے بے نظیر اقدام کیا جو آج تک جاری ہے۔ آپ نے اپنے والد گرامی کے دور میں ہی معاشرے کو قریب سے مشاہدہ کیا تھا اور انحرافی افکار سے بخوبی واقف تھے۔ امام زین العابدین علیہ السلام کی شہادت کے بعد آپ نے امامت کا فریضہ سنبھالا اور علمی خدمات انجام دیں۔
انہوں نے کہا کہ امام علی مقام نے اگلے مرحلے میں بنی امیہ کے انحرافات کا مقابلہ کرنے کے لئے اسلامی علوم کی بنیاد رکھی۔ اگر یہ اقدام نہ کرتے تو بنی امیہ فکری اور ثقافتی انحرافات کے ذریعے دین کی جڑوں کو ہلاکر رکھ دیتے اور اس امت مسلمہ کو حقیقی راستے سے ہٹادیتے۔ آپ نے دانشوروں کے ساتھ علمی مذاکروں کے ذریعے دین کی بنیادوں کو سقوط سے نجات دی۔ آپ نے علم کو حقیقی پہچان اور شناخت عطا کی۔ آپ حقیقی معنوں میں علوم کے پردوں کو چاک کرنے والے تھے۔
خلقت کے اسرار سوره غاشیه کے رو سے
ایکنا نیوز- قرآن کریم کا اٹھاسی واں سورہ «غاشیه» کے نام سے ہے. قرآن کے تیسویں پارے میں موجود اس سورہ میں 26 آیات ہیں۔ سور ہ غاشیه مکی سورتوں میں شمار ہوتا ہے جو ترتیب نزول کے حوالے سے اٹھسٹواں سورہ ہے جو قلب رسول گرامی اسلام (ص) پر نازل ہوا ہے.
غاشیه کا مطلب یا معنی «چھپانا یا ڈھانپنا» ہے اور یہ قیامت کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔
اس نام کی وجہ یہ ہے کہ روز قیامت میں قیامت اور حادثات تمام انسانوں کے گھیر لیں گے، یہ لفظ پہلی آیت میں استعمال ہوئی ہے۔
موضوع اصلی این سوره، روز قیامت است که مخصوص مجازات ها و عذاب های دردناک مجرمان و پاداش های مؤمنان است.
اس سورہ میں یوم قیامت کو عوام کی حالت زار پر اشارہ ہوا ہے اس دن لوگ دو گروپ میں تقسیم ہوں گے کچھ خوشحال اور کچھ شدید ناراضی کی حالت میں، ایک جنتی ہوگا اور دوسرا جہنمی۔
اس سوره میں دوسرا موضوع «توحید» اور خلقت کی باریکیوں کے حوالے سے ہے جسمیں اونٹ کی عجیب خلقت، آسمان اور پہاڑوں کے اسرار پر روشنی ڈالی گیی ہے اور انسان کو خالق کی طرف رہنمائی کی گیی ہے۔
اس سورے میں تیسرا موضوع، «مقام رسالت» اور پیغمبروں کی ذمہ داری بارے ہے. اس سورے میں رسول اسلام(ص) کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ لوگوں کو نصیحت کریں، دنیا کی خلقت اور لوگوں کی خدا کی طرف واپسی اور حساب کتاب کی طرف اشارہ ہوا ہے۔
ایک اور اہم موضوع جس کے بارے میں تاکید کی گیی ہے، اونٹ ہے: «أَفَلَا ینظُرُونَ إِلَی الْإِبِلِ کیفَ خُلِقَتْ: آیا کیا اونٹ پر غور نہیں کرتے کہ ہم نے کیسے خلق کیا ہے؟» (غاشیه/ 17). اونٹ ایسا جانور ہے جسمیں کافی صلاحیتیں موجود ہیں اور اس میں غور وفکر حیرت کا باعث ہے، اس کی پلکیں ریت کے طوفان کے مقابل مضبوط ہیں، اپنے کوھان میں چربی اور غذا کو زخیرہ کرتا ہے اور بھوک کے مقابل سخت دم ہے، بدن میں پانی کو زخیرہ کرسکتا ہے اور پیاس برداشت کرتا ہے اور بیابانوں میں بہ آسانی سفر کرتا ہے اس کے پاوں کو بیابان و ریگستان کے لیے تیار کیا گیا ہے اس کی گردن کو سواری اور سامان محفوظ رکھنے کے لیے معاون تیار کیا گیا ہے اور مجموعی طور پر عربوں کی طرح کہنا چاہیے : «اونٹ بیابانوں کی کشتی ہے». مضبوط ترين، كم خرچترين، فائدہ مندترين اور آرامترين بردبار جانور ہے۔/