سلیمانی

سلیمانی

مساجد « لقمان» «التوحید» اور مسجد « عمر الفاروق» زامبیا کے دارالحکومت شهر « لوساکا»، میں واقع ہے جہاں روزانہ افریقی ممالک سے بڑی تعداد میں لوگ سیر کو آتے ہیں اور اسلامی طرز و فن معماری کے ان شاہکار نمونوں کو داد دیتے ہیں۔/

 
 

میزائل، فضائی دفاع، ڈرون اور خلائی کارروائیوں کے شعبوں میں ایرانی سپاہ پاسداران کی ایرو اسپیس فورس کی کامیابیوں کی نمائش آج سے 15 دنوں تک قم میں جاری ہوگی۔

 
 
 
 

قائد اسلامی انقلاب نے فرمایا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران اور عمان کے درمیان تعلقات بڑھانا دونوں ممالک کے مفاد میں ہے، سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کی بحالی صدر رئیسی کی حکومت کی اچھی پالیسی کا نتیجہ ہے اور ہم مصر کے ساتھ تعلقات کی بحالی کا خیر مقدم کرتے ہیں۔

ان خیالات کا اظہار حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے پیر کے روز ایران کے دورے پر آئے ہوئے عمان کے سلطان ہیثم بن طارق آل سعید کے ساتھ ایک ملاقات کے دوران کیا۔
رہبر معظم نے ایران اور عمان کے تعلقات کو دیرینہ اور گہری جڑیں قراردیتے ہوئے فرمایا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان تمام شعبوں میں تعلقات کی توسیع سے دونوں فریقوں کو فائدہ ہوگا۔
آیت اللہ خامنہ ای نے ایرانی اور عمانی فریقین کے درمیان مذاکرات کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اہم بات یہ ہے کہ ٹھوس نتائج حاصل کرنے تک یہ مذاکرات سنجیدگی سے پیروی کی جانی چاہیئے اور آخر کار تعلقات کو بڑھایا جائے۔
اہم بات یہ ہے کہ ان مذاکرات کی سنجیدگی سے پیروی کی جانی چاہیے جب تک کہ ٹھوس نتائج نہ پہنچ جائیں، اور آخر کار رابطے کو بڑھایا جائے۔
ایرانی سپریم لیڈر نے خطے میں جعلی صیہونی حکومت کی موجودگی کے بارے میں خبردار کیا اور فرمایا کہ جعلی صیہونی حکومت اور اس کے حامیوں کی پالیسی خطے میں انتشار اور عدم تحفظ پیدا کرنا ہے۔ اس لیے خطے کے تمام ممالک کو اس مسئلے پر توجہ دینی چاہیے۔
انہوں نے فرمایا کہ عمان اور ایران کے درمیان بڑھتا ہوا تعاون اہم ہے کیونکہ دونوں ممالک آبنائے ہرمز کی آبی گزرگاہ پر مشتمل ہیں۔
سلطان ہیثم نے اپنی طرف سے آیت اللہ خامنہ ای سے ملاقات پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک پڑوسیوں بالخصوص اسلامی جمہوریہ کے ساتھ تعلقات کو وسعت دینے کی پالیسی رکھتا ہے۔
قائد اسلامی انقلاب نے اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ تعلقات بحال کرنے پر مصر کی رضامندی کے سلسلے میں عمانی سلطان کے بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ ہم اس موقف کا خیرمقدم کرتے ہیں اور ہمیں اس سلسلے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی بحالی پر عمان کے سلطان کے اطمینان پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ موضوعات صدر رئیسی کی حکومت کی اچھی پالیسی کا نتیجہ ہے اور ہم مصر کے ساتھ تعلقات کی بحالی کا خیر مقدم کرتے ہیں۔
آخر میں انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ حکومتوں کے درمیان تعلقات کی توسیع سے امت اسلامیہ دوبارہ اپنی شان و شوکت حاصل کرے گی اور اسلامی ممالک کی صلاحیتوں اور سہولیات سے تمام اسلامی اقوام، ممالک اور ریاستیں مستفید ہوں گی۔
سلطان ہیثم نے اپنی طرف سے آیت اللہ خامنہ ای سے ملاقات پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا ملک پڑوسیوں بالخصوص اسلامی جمہوریہ کے ساتھ تعلقات کو وسعت دینے کی پالیسی رکھتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ تہران میں ہونے والے مذاکرات کے دوران تعاون کے مختلف شعبوں پر تبادلہ خیال کیا گیا، مذاکرات کے تسلسل سے ایران اور عمان اپنے دوطرفہ تعلقات کو وسعت دینے کے قابل ہو جائیں گے۔
یاد رہے کہ ہیثم بن طارق اتوار کے روز ایرانی دارالحکومت تہران پہنچ گئے اور سعد آباد کمپلیکس میں ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے ان کا باضابطہ استقبال کیا۔
اس کے بعد دونوں سربراہان مملکت نے ایک تقریب میں شرکت کی جہاں ایران اور عمان کے اعلیٰ حکام نے دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی اور توانائی کے تعاون کو وسعت دینے کے لیے مفاہمت کی چار یادداشتوں پر دستخط کیے۔

اسلام ٹائمز۔ لبنان کی مقاومتی تحریک "حزب الله" کے سیکرٹری جنرل "سید حسن نصر الله" نے آج شب، لبنان کی صیہونی پنجوں سے آزادی کے حوالے سے خطاب کیا۔ یہ دن "عید مقاومت" اور "آزادی" کے نام سے منسوب ہے۔ واضح رہے کہ 25 مئی 2000ء کو اسرائیل کو حزب الله کے سامنے شدید حزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ جنوبی لبنان میں اپنے داخلے کے تقریباََ 20 سال بعد صیہونی رژیم، حزب الله کی مقاومت کی وجہ سے بھاگنے پر مجبور ہوئی۔ اسی وجہ سے یہ دن عید مقاومت کے نام سے معروف ہے۔ اس دن کی مناسبت سے خطاب کرتے ہوئے سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ عید مقاومت ایک اہم موقع ہے جو ہمیں آج کے دن حاصل ہونے والی ایک بڑی فتح کی یاد دلاتا ہے۔ لہٰذا میں شہداء، زخمیوں، اسیروں، مجاہدوں اور ان کے لواحقین سمیت تمام افراد کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اس فتح میں اپنا کردار ادا کیا۔ ہم مقاومت کے حامیوں کے بھی قدردان ہیں۔ انہوں نے اس موقع پر لبنان کی فوج، سکیورٹی اداروں، فلسطینی گروہوں، اسلامی جمہوریہ ایران اور شام کے کردار کو سراہا۔

سید حسن نصر الله نے ایران و شام کا خاص طور پر تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ دونوں ممالک آج بھی مقاومت اور تمام جہادی گروپوں کے حامی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جو بھی یہ سمجھتا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ ہماری جنگ ختم ہو چکی ہے وہ خوابوں کی دنیا میں رہتا ہے۔ کیونکہ ابھی بھی ہماری سرزمین ایک حصہ دشمنوں کے قبضے میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اس اہم مناسبت کو باقی رکھنا اور اپنی اگلی نسلوں کو متعارف کروانا چاہئے۔ ہماری اگلی نسل کو جاننا چاہئے کہ ہمیں یہ کامیابی مفت میں نہیں ملی۔ جو اس عظیم کامیابی کو چھوٹا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں ہم ان کی اصلاح کریں گے۔ 2000ء میں جنوبی لبنان اور غزہ سے صیہونی رژیم کے خروج کے بعد گریٹر اسرائیل کے کسی نظریے کا وجود نہیں۔ حزب الله کے سربراہ نے اس امر کی جانب اشارہ کیا کہ اسرائیل اس وقت دیوار کے ساتھ لگ چکا ہے۔ یہ رژیم فلسطینی عوام کے ساتھ مذاکرات میں اپنی شرائط تک نہیں منوا سکتی۔ امریکہ اب سپر پاور نہیں رہا اور دنیا اس وقت مختلف بلاکس میں تقسیم ہو چکی ہے۔ یہی امر اسرائیل کی پریشانی کا باعث ہے۔ 

سید مقاومت نے کہا کہ اسرائیل کے داخلی بحران کے مقابلے میں استقامتی بلاک روز بروز مضبوط ہوتا جا رہا ہے۔ انہوں نے ایران کے صدر آیت الله "سید ابراهیم رئیسی" کے دورہ شام کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ شام کے خلاف 12 سالہ عالمی جنگ کے بعد ایرانی صدر کے دورہ دمشق نے مقاومت کے ساتھ اپنی حمایت کی نشان دہی کی ہے۔ آج مقاومت انسانی جدوجہد بن چکی ہے، مقاومت روحانی طور پر اعلیٰ سطح پر پہنچ چکی ہے۔ جتنا بھی لوگ استقامتی مرکز کے گرد جمع ہوتے جائیں گے اسرائیل اتنا ہی ضعیف ہوتا جائے گا۔ سید حسن نصر الله نے اسرائیل کے وزیراعظم نتین یاہو اور ان کے کابینہ کے ارکان کی بڑھکوں کا جواب دیا۔ انہوں نے کہا کہ آپ نہیں بلکہ ہم آپ کو ایک بڑی جنگ کی دھمکی دیتے ہیں۔ یہ عظیم جنگ اسرائیل کی تمام سرحدوں کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ جس میں لاکھوں مجاہدین محاذ پر سرگرم دکھائی دیں گے۔ انسانی حوالے سے ہمیں کافی برتری حاصل ہے۔ دشمن کی داخلی محاذ پر کمزوری ہماری قوت کا باعث ہے۔

حزب الله کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ اسرائیل داخلی طور پر کمزور ہو چکا ہے اور صیہونی اس ریاست سے فرار ہونے کے راستے ڈھونڈ رہے ہیں۔ ہمیں فلسطین کی آزادی، مسجد اقصیٰ میں نماز کی ادائیگی اور اسرائیل کی نابودی کی امید ہے۔ حالیہ زمانے میں مقاومت کی صلاحیت بڑھ رہی ہے۔ لبنان میں ہماری جنگی ٹیکنالوجی اس بات کی واضح مثال ہے۔ امریکہ اور صیہونی حکومت اس وقت جنگ کا غلط اندازہ لگاتے ہیں جب وہ مزاحمتی محاذ میں موجود کسی گروہ یا جماعت کو کرائے کے فوجی سمجھتے ہیں۔ صیہونی دشمن کو جن مسائل کا سامنا ہے ان میں سے ایک کاونٹر سکیورٹی کا مسئلہ ہے۔ سید حسن نصر الله نے کہا کہ حزب الله کی حالیہ مشقوں نے اسرائیل اور امریکہ کو وحشت میں مبتلا کر دیا ہے۔ حزب الله کی حالیہ مشقیں کسی بھی جنگ کے لئے تیاری کا اعلان ہیں۔ ہمارے اس اقدام سے مقبوضہ فلسطین میں سیاحت اور شمالی فلسطین میں صیہونی آبادکاروں پر گہرا اثر پڑے گا۔ ڈالر کے مقابلے میں اپنی کرنسی کی گرواٹ کی وجہ سے صیہونیوں نے اپنی دھمکیوں کو روک لیا ہے۔ 

حزب الله کے سربراہ نے صیہونی وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ محتاط رہو اور اپنی معلومات اپڈیٹ رکھو۔ ایسا نہ ہو کہ مغربی کنارے، فلسطین، شام یا ایران میں تم سے کوئی غلطی سرزد ہو جائے، جس سے تمام خطہ آگ کی لپیٹ میں آ جائے اور ایک بڑی جنگ شروع ہو جائے۔ ممکن ہے تمہارے غلط اندازے کسی بڑی علاقائی جنگ کا سبب بنیں۔ اگر ایسا ہوا تو کم از کم تمہارا وجود باقی نہیں رہے گا۔ سید مقاومت نے اسرائیل کی عرب ممالک کے ساتھ تعلقات کی بحالی کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ صیہونی رژیم، عرب حکومتوں سے تو تعلقات بحال کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے لیکن عرب اقوام کے ساتھ نہیں۔ یہ رژیم مختلف اقوام کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کی طاقت نہیں رکھتی۔ انہوں نے کہا کہ ہار ماننے، سمجھوتہ کرنے اور ہتھیار ڈالنے کے کلچر کے مقابلے میں مقاومت پر اعتماد بڑھ رہا ہے۔ انہوں فلسطینی مزاحمتی مرکز کی صورتحال کے بارے میں کہا کہ فلسطینی مقاومتی گروہوں کا سب سے مضبوط پوائنٹ یہ ہے کہ وہ نسلی ہیں، کیونکہ فلسطینی عوام اپنی سرزمین، حقوق اور نظریہ کی وارث ہے۔ 

سید حسن نصر الله کہا کہ بلاشبہ ایران، فلسطینی مقاومتی گروہوں کی مدد کرتا ہے لیکن پھر بھی حتمی فیصلہ فلسطینی عوام نے کرنا ہے۔ اسرائیلی اپنی ڈیٹرنس پاور کو بڑھانے میں ناکام ہو گئے ہیں اور اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ انہیں اپنی جارحیت کی قیمت چکانا ہو گی۔ انہوں حالیہ "حروں کے انتقام" کے نام سے فلسطینی جوابی کارروائی میں اسرائیل کی شکست کا ذکر بھی کیا۔ انہوں نے وضاحت کے ساتھ کہا اسرائیل کو اس جنگ میں شکست ہوئی اور اسی وجہ سے وہ شدید تشویش میں مبتلا ہیں۔ دوسری جانب حزب الله کی جنگی مشقوں کے بعد صیہونی آباد کاروں کے درمیان خوف کی فضاء پیدا ہو گئی ہے، جس سے یہ رژیم بیک فُٹ پر گئی ہے۔ دشمن کو پیچھے ہٹنا پڑے گا۔ اپنے خطاب کے اختتام پر سید مقاومت نے کہا کہ خطے میں ایک بڑی جنگ اسرائیل کی نابودی پر ختم ہو گی۔ خطے میں طاقت کا توازن ہمارے لئے خوشی کا باعث ہے۔ اسرائیل حتماََ نابود ہو گا۔ انہوں نے شامی پناہ گزینوں کے حوالے سے کہا کہ لبنان کے اعلیٰ سطحی وفد کو شام جا کر سنجیدگی سے اس مسئلے کو حل کرنا چاہئے۔
 
 
 

مہر خبررساں ایجنسی نے ادارۂ حج کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ؛ 2023ء کے ایرانی عازمین حج کا پہلا قافلہ، آج صبح امام خمینی انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے مدینہ منورہ پہنچا ہے۔ ایرانی حجاج کرام کا مدینہ ایئر پورٹ پہنچنے پر پھولوں اور گلاب سے استقبال کیا گیا اور پھر ہوٹلوں میں قیام کیلئے روانہ ہوئے تو ہوٹل انتظامیہ کی جانب سے نیز پھولوں، مٹھائیوں اور کھجوروں سے ان کا استقبال کیا گیا۔

ایرانی حجاج کا مدینہ ایئر پورٹ پر استقبال + تصاویر

ایرانی حجاج کرام مدینہ منورہ میں قیام کے دوران، روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم اور بقیع میں آئمہ معصومین علیہم السلام کی قبور کی زیارت کرتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کے شہر کے روحانی فیوض و برکات سے بہرہ مند ہوتے ہیں۔

ایرانی حجاج کا مدینہ ایئر پورٹ پر استقبال + تصاویر

یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ رواں سال، 87 ہزار 550 ایرانی حجاج قافلوں کی صورت میں سرزمین وحی جائیں گے۔

مہر خبررساں ایجنسی کے نامہ نگار کے ساتھ گفتگو میں کاوه دلیری نے ایرانی صدر کے جکارتہ کے دورے کا تذکرہ کرتے ہوئے انڈونیشیاء کے ساتھ ایران کے تجارتی اور اقتصادی تعلقات کی صورتحال پر تبصرہ کیا اور کہا کہ اس حقیقت کے باوجود کہ ایران انڈونیشیا کے درمیان سیاسی اور دیگر مختلف شعبوں میں تعلقات کی صورتحال بہتر ہے، لیکن دونوں ممالک میں صلاحیتیں موجود ہونے کے باوجود، اقتصادی اور تجارتی شعبوں میں پیشرفت نہیں ہوئی ہے، البتہ انڈونیشیاء مشرقی ایشیاء کے ساتھ تجارتی معاملات میں دوسرے نمبر پر ہے، لیکن مزید ان معاملات کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔

مشرقی ایشیاء کے ٹریڈ ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن کے ڈائریکٹر جنرل نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ انڈونیشیاء آنے والے سالوں میں ایران کے اہم شراکت داروں میں سے ایک ہو سکتا ہے، مزید کہا کہ انڈونیشیاء کی آبادی 270 ملین ہے اور دنیا کا چوتھا اور مسلم ممالک میں سب سے زیادہ آبادی والا اسلامی ملک ہے، لہٰذا انڈونیشیاء کے پاس تجارتی مواقع موجود ہیں اور ایران اس ملک کے تجارتی معاملات میں شریک ہو سکتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ انڈونیشیاء معاشی حوالے سے دنیا کے مضبوط ممالک میں سے ایک شمار ہوتا ہے اور اس وقت دنیا کی 16ویں بڑی معیشت ہے۔ بین الاقوامی اداروں کی رپورٹس کے مطابق، کورونا وائرس کے دوران بھی انڈونیشیاء کی معیشت ترقی کی طرف گامزن تھی اور بتایا جاتا ہے کہ انڈونیشیاء آئندہ 10 سالوں میں دنیا کی 5 بڑی معیشتوں میں شامل ہو سکتا ہے، لہٰذا انڈونیشیاء کو ایران کے اہم شراکت داروں میں سے ایک کے طور پر متعارف کیا جا سکتا ہے۔

دلیری نے انڈونیشیاء میں ایران کے اثر و رسوخ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ انڈونیشیاء نے 2022ء میں مختلف ممالک سے تقریباً 230 بلین ڈالر کی درآمدات کیں جبکہ ایران نے تقریباً 800 ملین ڈالر کی درآمدات کیں۔ دوسری طرف دنیا سے ہماری درآمدات 59 بلین ڈالر تھیں جس میں انڈونیشیاء کا حصہ 100 ملین ڈالر تھا، لہٰذا انڈونیشیاء کا ایران کے ساتھ تجارتی معاملات میں کوئی نمایاں کردار نہیں ہے اور اسے مضبوط کیا جانا چاہیئے۔

مشرقی ایشیاء کے ٹریڈ ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن کے ڈائریکٹر جنرل نے مزید کہا کہ دوسری طرف، انڈونیشیاء کی مختلف ممالک سے درآمد کی جانے والی مصنوعات اور پروڈکٹ گروپوں میں بھی ایران کا کوئی اہم رول نہیں ہے، جبکہ ایران کے اندر انڈونیشیاء کو درکار پروڈکٹس کافی مقدار میں موجود ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ مثال کے طور پر انڈونیشیاء کے دارالحکومت کی جکارتہ سے نوسنتارا منتقلی میں ایران کو تکنیکی اور انجینئرنگ خدمات، خام مال، تعمیراتی مصنوعات، بجلی اور سڑک کی تعمیر کی مصنوعات وغیرہ برآمد کرنے کیلئے دسیوں ارب ڈالر کا تجارتی موقع فراہم ہو سکتا ہے۔

دلیری نے آخر میں ایرانی صدر کے دورے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ صدر کے دورے کے دوران کسٹم، لاجسٹکس، کلیئرنگ، انجینئرنگ تکنیکی خدمات اور سب سے اہم ترجیحی تجارتی معاہدے کے شعبوں میں کئی دستاویزات پر دستخط ہوئے، جو کہ خوش آئند بات ہے۔

 ایران کے خلاف عراق کی جارحیت کی جنگ میں خرمشہر کی آزادی کی 41 ویں سالگرہ کے موقع پر، تہران نے اپنے خرمشہر بیلسٹک میزائل کی چوتھی نسل کو خیبر کے نام سے متعارف کرایا ہے۔

ایرانی وزیر دفاع محمد رضا اشتیانی کی موجودگی میں جمعرات کی صبح 2,000 کلومیٹر کی رینج اور 1,500 کلوگرام وار ہیڈ کے حامل بیلسٹک میزائل کی ایک تقریب میں نقاب کشائی کی گئی۔
خیبر کی نمایاں خصوصیات میں فوری تیاری اور لانچ کا وقت شامل ہے، جو میزائل کو حکمت عملی کے ساتھ ساتھ ایک حکمت عملی کا ہتھیار بھی بناتا ہے۔

ولی امر مسلمین آیت اللہ خامنہ ای نے کہا ہے کہ بین الاقوامی معاملات میں حکمت عملی اور تدبیر سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ کسی بھی ملک کی عزت و سربلندی، آبرو مندانہ خارجہ پالیسی میں مضمر ہے۔ وزارت خارجہ کے اعلیٰ حکام اور سفیروں سے خطاب میں آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے کہاکہ بعض اوقات خارجہ پالیسی میں مصلحت سے کام لینے کی ضرورت ہوتی ہے اور مصلحت کا مطلب ہےکہ کہاں نرمی اور لچک دکھانے کی ضرورت ہے اور نرمی کا مطلب،اپنا راستہ ترک کرنا یا ذلت کو قبول کرنا ہرگز نہیں ہے اور نرمی اصولوں کے منافی عمل نہیں ہے۔ آپ نے ایک اچھی خارجہ پالیسی اور مؤثر سفارتی کاری کو ملکی کامیاب انتظامی امور کا بنیادی ستون قرار دیا اور خارجہ پالیسی سے متعلق 6 ضروری اصول بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ان ضروری اصولوں کی رعایت ایک کامیاب خارجہ پالیسی کی علامت ہے اور اگر ان اصولوں پر عمل درآمد نہ ہوا تو ہمیں خارجہ پالیسی کے نظریے یا سفارت کاری کے امور پر نظر ثانی کرنی چاہیئے۔ ولی امر مسلمین نے مختلف مسائل میں ملک کے نقطۂ نظر کی منطق کو اجراء کرنے کی صلاحیت کو ایک کامیاب خارجہ پالیسی کے پہلے اصول کے طور پر بیان کیا۔ انہوں نے اچھی خارجہ پالیسی اور کارآمد سفارتی ادارے کو ملکی نظام چلانے میں کلیدی حیثیت کا مالک قرار دیا اور خارجہ پالیسی کے چھے اہم ضوابط بیان کئے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کے گوناگوں سیاسی و اقتصادی معاملات، واقعات اور رجحانات میں موثر اور سمت دینے والی موجودگی، ایران کے خلاف خطر آمیز پالیسیوں اور فیصلوں کو رفع اور کم کرنا، خطرہ پیدا کرنے والے مراکز کو کمزور کرنا، ایران کی ہمراہی کرنے والی حکومتوں اور اتحادی آرگنائزیشنز کی تقویت اور ملک کی اسٹریٹیجک گہرائی کی توسیع، علاقائی و عالمی فیصلوں اور اقدامات کی پوشیدہ پرتوں کے ادراک کی صلاحیت کامیاب خارجہ پالسیی کے ضوابط ہیں۔ انہوں نے اپنے خطاب میں متعدد ملکوں کے ساتھ جن میں بعض بہت اہم اور با اثر ممالک شامل ہیں، ایران کی مشترکہ سرحدوں کا ذکر کیا اور ہمسایہ ممالک سے روابط بڑھانے کی موجودہ پالیسی کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ہمسایہ ممالک سے ایران کے تعلقات خراب کرنے کے لئے اغیار سرگرم ہیں، ان کی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دینا چاہئے۔ انہوں نے عالمی نظام میں تبدیلی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ عالمی سطح پر ہونے والی بحثوں میں یہ موضوع بار بار دہرایا جانے لگا ہے۔ آپ نے کہا کہ ورلڈ آرڈر کی تبدیلی نشیب و فراز والا ایک طولانی عمل ہے جس پر بہت سے ممکنہ واقعات کا گہرا اثر پڑ سکتا ہے اور الگ الگ ممالک اس کے بارے میں الگ الگ نظریہ اور رجحان رکھتے ہیں۔

 

 
 
رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے ادارہ حج کے عہدیداروں، کارگزاروں اور کچھ حجاج کرام سے ملاقات میں حج کے بارے میں درست نقطہ نگاہ اور اس اہم فریضے کے درست ادراک پر تاکید کرتے ہوئے کہا کہ حج ایک عالمی و تمدنی موضوع ہے اور اس کا ہدف مسلم امہ کا ارتقاء، مسلمانوں کے دلوں کو آپس میں قریب کرنا اور کفر، ظلم، استکبار اور انسانی و غیر انسانی بتوں کے مقابل امت اسلامیہ کا اتحاد ہے۔
     

رہبر انقلاب اسلامی نے آیات قرآنی کی روشنی میں دلیل پیش کرتے ہوئے خانہ کعبہ کو انسانی معاشروں کی عمارت قائم رہنے کا ذریعہ قرار دیا اور حج کے دنیاوی اور اخروی فوائد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر حج نہ ہو تو مسلمہ امہ بکھر جائے گی۔

رہبر انقلاب اسلامی نے حج کو عالمی وعدہ گاہ قرار دیا اور آیت قرآنی کو سند قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ حج کے لئے تمام انسانوں کو دعوت دی گئی ہے۔ آپ نے کہا کہ تمام انسانون کو تاریخ کے ہر دور میں ایک خاص جگہ پر، مخصوص ایام میں جمع ہونے کی دعوت انتہائی اہم اہداف اور کثیر منفعت کا پتہ دیتی ہے جو اس دعوت الہیہ میں موجود ہے۔

آیت اللہ خامنہ ای کا کہنا تھا کہ مسلم امہ کا اتحاد اور استکباری شیاطین سے مقابلہ ان اہداف کا جز ہے۔ انہوں نے کہا کہ حج کے گوناگوں دنیاوی فوائد میں سے ایک یہ ہے کہ اس عظیم اجتماع میں مسلمان صیہونی حکومت اور استکباری طاقتوں کی دخل اندازی کے مقابلے میں اپنی صف آرائی اور قوت کا مظاہرہ کریں اور دنیا کے ظالموں کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہو جائیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے حج کے اخروی فوائد کا ذکر کرتے ہوئے حج کے ہر عمل کو عالم غیب اور عالمی روحانیت کا ایک دریچہ قرار دیا اور حجاج کرام سے فرمایا کہ تضرع، دعا، اخلاص اور بندگی سے دلوں کو ہر اس چیز سے  پاک کر لیجئے جو یاد الہی میں رکاوٹ پیدا کرے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے دنیا کے مسائل و حالات سے آگاہی اور مسلم اقوام کی صورت حال سے واقفیت کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ حج کے ایام دنیا کی اقوام اور مسائل سے آگاہی کا بڑا اچھا موقع ہے کہ انسان جھوٹے میڈیا اور نیوز ایجنسیوں کی جھوٹی خبروں کی رو میں بہہ کر دنیا کے حقائق سے دور ہونے سے خود کو بچا سکتا ہے۔

آپ کا کہنا تھا کہ اگر ہم دنیا کے حالات سے باخبر رہیں گے تو دشمن کے اہداف اور بعض چیزوں پر اس کے اصرار کی اصلی غرض و غایت کو سمجھ سکیں گے، چنانچہ بہت سے امور میں ہمارے عہدیداران بھرپور طریقے سے بیدار تھے تو بہت سے علاقائی و عالمی معاملات میں ایران کو بہت اچھی پیشرفت حاصل ہوئی اور امریکہ تلملا کر رہ گيا، یہ حواس بجا رکھنے کا نتیجہ تھا۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ایک اہم نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ متمدن ہونے کے دعویدار ممالک جو در حقیقت تہذیب سے پوری طرح بیگانہ ہیں، آج بھی سیاہ فام اور سفید فام کی نسل پرستی اور یورپی و غیر یورپی ہونے کی نسل پرستی میں مبتلا ہیں،ان کی نظر میں ان کے پالتو جانور بھی بعض انسانوں سے بدرجہا بہتر ہیں، پناہ گزینوں کے سمندر میں غرق ہونے کے پے در پے واقعات سے اس اس حقیقت کی نشان دہی ہوتی ہے۔

آپ کا کہنا تھا کہ حج میں ہر نسل، تاریخ اور ثقافت کے افراد یکساں اور ایک رنگ میں نظر آتے ہیں جو حج کے اسرار کا جز ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے مسجد الحرام اور مسجد النبی میں نماز جماعت میں ایرانی حجاج کرام کی شرکت اور دیگر حجاج کرام سے رابطے پر تاکید کی۔ آپ کا کہنا تھا کہ اجتماعی طور پر دعائے کمیل پڑھنا بھی بہت اچھا ہے اور مشرکین سے اعلان برائت کا پروگرام بھی حج کے بہت وسیع اور عمیق گنجائشوں والے اعمال میں ہے جسے جاری رہنا چاہئے۔

اس ملاقات کے آغاز میں امور حج و زیارت میں ولی امر مسلمین کے نمائندے حجت الاسلام سید عبد الفتاح نواب نے حج کے تعلق سے کی گئی تیاریوں پر بریفنگ دی۔

 
 

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے ایک بیان میں بلوچستان پاکستان میں امیر جماعت اسلامی مولانا سراج الحق کے قافلے پر دہشت گردانہ حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔انہوں نے اپنے مذمتی میں پاکستان کی ممتاز شخصیت سینیٹر سراج الحق کو نقصان پہنچانے میں دہشت گردوں کے عزائم پر شدید ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس واقعہ میں زخمی ہونے والوں کی جلد صحتیابی کیلئے دعا کی ہے۔