سلیمانی

سلیمانی

تہران، ارنا - ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے صیہونی حکومت کی طرف امریکہ میں رائے عامہ کی شدید تبدیلی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا ہے کہ امریکیوں بالخصوص اشرافیہ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے ملک کی غاصب حکومت کی حمایت پر سوال اٹھائیں جو ان کے اپنے مفادات کی قیمت پر آتی ہے۔

یہ بات ناصر کنعانی نے اتوار کے روز اپنے ٹویٹر پیج میں کہی۔
انہوں نے کہا کہ رائے عامہ کے تازہ ترین سروے پورے امریکہ میں رائے عامہ میں جعلی صیہونی حکومت کی نسل پرستانہ نوعیت کی طرف مضبوط تبدیلی کو ظاہر کرتے ہیں۔
کنعانی نے اس معاملے پر امریکی عوام کے رویوں پر یونیورسٹی آف میری لینڈ کے ایک حالیہ سروے کا بھی اشارہ کیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ 20 فیصد ریپبلکن اور 44 فیصد ڈیموکریٹس نے اسرائیل کو نسل پرست حکومت کے طور پر بیان کیا جو کہ نسل پرستی کی طرح ہے۔
انہوں نے کہا کہ انتخابات کی بنیاد پر بائیکاٹ، ڈیوسٹ اور پابندیاں  تحریک کی حمایت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ یقیناً اس جعلی اسرائیلی حکومت کی نوعیت اور وجود کے خلاف مزید حیران کن نتائج برآمد ہوں گے اگر صیہونیوں کے خلاف آزادی اظہار کے لیے زمین ہموار کی جائے، امریکا کو صیہونی لابی کے قبضے سے آزاد کر دیا جائے اور اس سے زیادہ وسیع اور آزاد سروے کیا جائے۔ ا
ایرانی محکمہ ترجمان نے کہا کہ امریکہ میں عام عوام اور اشرافیہ دونوں اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے حقدار ہیں کیونکہ امریکی انتظامیہ نے غصہ کرنے والی، رنگ برنگی، غیر جمہوری، اور زوال پذیر صیہونی حکومت کے فائدے کے لیے اپنے ملک اور دسیوں دوسرے ممالک کے عوام کے مفادات کو قربان کر دیا ہے جنہیں وہ بظاہر "اتحادی" کہتے ہیں۔
واضح رہے کہ اکانومسٹ میگزین نے ایک تجزیاتی رپورٹ میں صیہونی حکومت کو درپیش خطرات کا ذکر کیا ہے اور ان میں سے اہم ترین اندرونی تنازعات کو قرار دیا ہے۔ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسرائیل کے موجودہ غیر لبرل سیاسی راستے میں، امریکہ میں اس کی عوامی حمایت کمزور ہو جائے گی اور مزید دھڑے بندی ہو جائے گی۔ تاکہ چار میں سے ایک امریکی یہودی کہے کہ اسرائیل ایک نسل پرست ادارہ ہے۔
ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے


 
کچھ دن پہلے کی بات ہے جب پیرس کے سیکٹر 10 میں حکومت مخالف مظاہرین دیگچیاں، فرائی پین اور مختلف قسم کے چمچ اور دھاتی برتن لے کر سڑکوں پر نکل آئے۔ اس کے بعد اب تک شہر کے مختلف حصوں میں ان برتنوں کے ٹکرانے کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔ یوں فرانس میں احتجاج کے طور پر دھاتی برتنوں کو آپس میں ٹکرانے کی روایت دوبارہ زندہ ہو چکی ہے اور وزراء جہاں بھی جاتے ہیں ان آوازوں سے روبرو ہوتے ہیں۔ دوسری طرف میکرون حکومت اس قسم کے احتجاج کو روکنے کیلئے عجیب قسم کے اقدامات انجام دینا شروع ہو گئی ہے۔ مثال کے طور پر عوامی مظاہروں میں دھاتی برتن لانا قانون کی خلاف ورزی قرار دے دیا گیا ہے۔ فرانس کی پولیس نے اعلان کیا ہے کہ اگر مظاہرے میں کسی کے پاس دھاتی برتن پائے گئے تو اس سے ضبط کر لئے جائیں گے۔
 
دھاتی برتنوں پر پابندی کے قانون نے فرانسیسی صدر ایمونوئیل میکرون اور ان کی حکومت کو تمسخر آمیز بیانات کا نشانہ بنا دیا ہے۔ فرانس کی کمیونسٹ پارٹی کے ترجمان نے کہا ہے کہ انہیں ایسا قانون بنائے جانے کی توقع نہیں تھی جس میں فرائی پین پر پابندی عائد کی گئی ہو۔ گرین پارٹی کی معروف رکن پارلیمنٹ سینڈرین روسو نے کہا: "کیا فرائی پین پر پابندی عائد کر کے جمہوری بحران سے نمٹا جا سکتا ہے؟" اسی طرح ذرائع ابلاغ کی بڑی تعداد نے مظاہرین کے مقابلے میں پولیس اور میکرون کے ردعمل کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ مثال کے طور پر برطانوی اخبار "ٹائمز" نے اس بارے میں ایک کارٹون شائع کیا جس میں دکھایا گیا ہے کہ دھاتی برتن فرانسیسی صدر ایمونوئیل میکرون کے اقتدار کیلئے چیلنج بن چکے ہیں۔
 
فرانس میں گذشتہ چند ہفتوں سے عوامی احتجاج جاری ہے۔ یہ احتجاج اس وقت شروع ہوا جب حکومت نے ریٹائرمنٹ کی عمر میں چند سال کا اضافہ کر دیا۔ فرانس کی وزیراعظم الزبتھ بورن نے صدر میکرون کے حکم پر کہا تھا کہ آئین کی شق 43 کے پیراگراف تین کی روشنی میں اس قانون کی تشکیل کیلئے حکومت کو اسے پارلیمنٹ سے منظور کروانے کی ضرورت نہیں ہے۔ یوں فرانسیسی حکومت نے 14 اپریل کے دن ریٹائرمنٹ کی عمر 62 سال سے بڑھا کر 64 سال کر دی۔ اب ایمونوئیل میکرون نے اپنے ٹی وی خطاب میں وزیراعظم کو حکم دیا ہے کہ وہ اگلے سو دن کے اندر اندر ملک بھر میں جاری احتجاجی مہم کو کنٹرول کریں۔ فرانسیسی اخبار "لومونڈ" نے موجودہ صورتحال کے تناظر میں ایمونوئیل میکرون کو "بحرانوں کا صدر" قرار دیا ہے۔
 
معروف فرانسیسی سیاست دان میرین لوپن کا کہنا ہے کہ صدر ایمونوئیل میکرون نے ریٹائرمنٹ کا نیا قانون تشکیل دے کر اپنے اور عوام کے درمیان گہری خلیج پیدا کر دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب وہ وزیراعظم سے اگلے سو دن کے اندر اندر ملک بھر میں جاری عوامی مظاہرے کنٹرول کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ یاد رہے ریٹائرمنٹ کے نئے قانون کی تشکیل کے بعد فرانسیسی حکومت بری طرح متزلزل ہوئی تھی اور اسے عدم اعتماد کی تحریک کا سامنا کرنا پڑ گیا تھا۔ البتہ بہت کم ووٹوں سے یہ تحریک کامیاب نہیں ہو سکی۔ ایک سروے کے مطابق 74 فیصد فرانسیسی شہریوں کا خیال ہے کہ صدر ایمونوئیل میکرون نے عوامی غیض و غضب سے بچنے کیلئے فوری طور پر اس متنازعہ قانون کو منظور کر کے لاگو کر دیا ہے۔
 
میکرون نے ریٹائرمنٹ سے متعلق قانون کی تشکیل کے مسئلے میں اس حقیقت کو واضح کیا ہے کہ وہ اپنے مطلوبہ اہداف کے حصول کیلئے قانون کو بھی بالائے طاق رکھنے پر تیار ہیں۔ اخبار ایکسپریس نے اپنی ایک رپورٹ میں میکرون کو زبردستی اقدامات والا صدر قرار دیا اور لکھا: "جب انہوں نے یہ اعلان کیا کہ ریٹائرمنٹ کے قانون میں اصلاحی تبدیلی ایک مجبوری تھی اور اس سے زیادہ بہتر راستہ موجود نہیں تھا تو انہوں نے اپنے بارے میں ایک ایسی تصویر پیش کی جو مختلف سیاسی مسائل میں نظر آنے والی ان کی ہمیشہ کی تصویر سے بہت مختلف تھی۔ یوں دکھائی دیتا ہے کہ فرانس کے صدر نے اپنی حالیہ تقریر میں پانچ سالہ منصوبے کے دیگر حصوں پر توجہ مرکوز کرنے کی کوشش کی ہے اور وہ قانون میں مذکورہ بالا تبدیلی کو حتمی تصور کرتے ہیں۔"
 
کئی سروے رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایمونوئیل میکرون کی محبوبیت 26 فیصد کی کمترین حد تک آن پہنچی ہے۔ ریٹائرمنٹ قانون میں اصلاحات کے بعد ان کی محبوبیت میں شدید کمی واقع ہوئی ہے۔ یہ سروے ان کی اس حالیہ تقریر کے بعد انجام پائے ہیں جس میں انہوں نے وزیراعظم کو عوامی مظاہرے ختم کرنے کیلئے سو دن کی ڈیڈ لائن دی ہے۔ ماہر تاریخ پیپر روزنوالون کے بقول فرانس حکومت نے اپنے اقدامات کے ذریعے قانون کی روح کی بے حرمتی کی ہے اور یوں ملک کو الجزائر جنگ کے خاتمے کے بعد شدید ترین جمہوری بحران کا شکار کر دیا ہے۔ عوامی مظاہرین کے خلاف حکومتی اقدامات سے واضح ہوتا ہے کہ جمہوریت کا گہوارہ ہونے جیسے عناوین محض دکھاوا ہیں اور جمہوریت، آزادی اور انسانی حقوق جیسے خوبصورت نعرے کوئی حقیقت نہیں رکھتے۔

 

تحریر: فاطمہ محمدی
 

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے منگل کے دن یونیورسٹی طلباء کے ایک گروپ سے ملاقات میں آزادی کی اہمیت پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ آزادی مختلف جہتوں کی حامل ہے اور اسے انسانی عظمت کا باعث بننا چاہیئے۔ آزادی ان محوروں میں سے ایک ہے، جس کو مغربی طاقتیں اپنے لیے پروپیگنڈے نیز اپنے مخالف ممالک پر دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ اس کی ایک مثال اسلامی جمہوریہ ایران ہے، جس کے خلاف مغرب آزادی کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ مغربی نقطہ نظر سے آزادی کی مرکزی علامت و مفہوم انفرادیت اور دنیا پرستی ہے۔ مغرب سیاسی میدان میں آزادی کو بس اس حد تک قبول کرتا ہے، جب تک وہ مغربی اقدار اور اصولوں سے متصادم نہ ہو اور خود اسے چیلنج نہ کرے۔

آزادی کی اس تعریف اور فہم کو اسلام قبول نہیں کرتا۔ اسلام انسانوں کی آزادی پر زور دیتے ہوئے، نسل، مذہب اور رنگ وغیرہ کے لحاظ سے انسانوں میں فرق نہیں کرتا۔ اسلام کے مطابق آزادی کی دنیاوی اور اخروی دونوں جہتیں ہیں اور اس میں دنیا اور آخرت دونوں کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ آزادی کو صرف دنیوی زندگی کی حدود میں بیان کرنا آزادی کو پست و حقیر کرنا ہے۔ اسلامی نقطۂ نظر سے آزادی کا حتمی مقصد انسان کا کمال اور اس کی سربلندی ہے، نہ کہ انسان کو شہوت و عارضی لذتوں میں مصروف رکھنا آزادی ہے۔

طلباء سے ملاقات میں رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: “آزادی بہت اہم ہے، اسلام میں نظریہ آزادی کا سب سے اہم حصہ اس مادی فریم ورک سے آزادی ہے۔ یہ مادی فریم کہتا ہے کہ تم پیدا ہوئے، تم چند سال زندہ رہو، پھر تم فنا ہو جاؤ گے، گویا ہم سب کو فنا ہونے کی سزا ہے۔ مادہ پرست اس مادی پنجرے میں کچھ آزادی دیتے ہیں، وہ آزادی ہوس و شہوت کی آزادی، غصے کی آزادی، جبر کی آزادی، یہ آزادی حقیقی آزادی نہیں ہے۔ حقیقی آزادی اسلامی آزادی ہے۔ اسلام ہمیں اس فریم ورک میں رکھتا ہے، جو مادیت کے پنجرے میں بند نہیں کرتا۔۔۔۔ مرنا اختتام نہیں؛ مرنا ایک نئے مرحلے کا آغاز ہے، (اور درحقیقت) اہم مرحلہ کی طرف سفر ہے۔ جب آزادی کو اس طرف دیکھو گے تو آپ کا افق و ویژن بلند ہوگا۔ آپ اپنی ترقی کے لیے خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہیں گے۔ آپ کی فضیلت کی کوئی حد نہیں ہوگی، یہ آزادی ہے۔”

قائد انقلابو ملک کو مثالیت، امید اور عقلانیت کی ضرورت ہے
ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ مغربی دنیا میں سیاسی آزادیوں اور انسانی حقوق کے دعوے اس وقت تک معنی خیز ہیںو جب تک وہ دنیا میں مغرب کے سیاسی اور ثقافتی اثر و رسوخ کو چیلنج نہیں کرتے۔ مغرب میں اسلامو فوبیا اور پیغمبر اسلام اور قرآن پاک کی توہین اور مغربی حکومتوں کی طرف سے ایسے اقدامات کی حمایت مغرب کے اس طرز عمل کی مثالیں ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مغربی معاشروں میں سیاسی آزادی عملی طور پر محض دعویٰ اور پروپیگنڈہ ہے۔

درحقیقت مغرب اپنی بیان کردہ سیاسی آزادی کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کا بھی استعمال کرتا ہے، جس کی تعریف وہ اپنے نظریات کے مطابق کرتا ہے اور اسے دوسرے ممالک پر دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال بھی کرتا ہے۔ طلباء کے ساتھ ملاقات میں رہبر انقلاب نے شخصی آزادی اور اظہار رائے کی آزادی کے ساتھ ساتھ دقیانوسیت، جمود، مختلف پسماندگیوں، غیر ضروری تعصبات، سپر پاورز اور آمروں کی قید سے آزادی پر زور دیا ہے اور اس بات پر تاکید کی کہ آزادی کا حقیقی مفہوم یہ ہے نہ کہ مغرب کا من گھڑت نظریہ آزادی۔

تحریر: سید رضی عمادی

حسین امیرعبداللہیان نے پیر کے روز اسماعیل ہنیہ کے ساتھ ایک ٹیلی فونک رابطے کے دوران عید الفطر کی آمد پر مزاحمتی تحریک اور فلسطینی قوم کو مبارکباد پیش کی۔

ایرانی وزیر خارجہ نے یوم القدس کے موقع پر رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ ای کے خطاب میں قوم اور فلسطینی مزاحمت کی اہمیت کا حوالہ دیتے ہوئے فلسطینی مزاحمت اور قوم سے ایران کی روحانی- سیاسی حمایت پر زور دیا۔

تحریک حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نےعید الفطر کی آمد پر ایرانی حکومت اور قوم کو مبارکباد دیتے ہوئے ایرانی سپریم لیڈر اور صدر کو گرمجوشی سے سلام پیش کیا۔

حماس کے سیاسی دفتر کے سربراہ نے قابض حکومت کی جارحیت کے خلاف فلسطینی گروہوں اور عوام کی مزاحمت جاری رکھنے کے پختہ عزم پر زور دیا۔

ہنیہ نے ایران اور سعودی عرب کے حالیہ معاہدے کا خیر مقدم کرتے ہوئے  اس معاہدے کو دونوں ممالک اور پورے خطے کے مفاد میں قرار دیا اور کہا کہ البتہ صہیونی رجیم اس معاہدے سے ناراض ہے۔

عید فطر دراصل فطرت کی طرف لوٹنے کا نام ہے اور اس دن کے ساتھ روحانی سال کا آغاز ہوتا ہےجس کے بعد اگلے رمضان تک بندے کو روحان سرمایے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

 

عید فطر کا معنی

عید کی ایک اہم وجہ جشن و خوشحالی ہے یعنی جب انسان اوج پر جاتا ہے تو اس کی فطرت پاک ہوجاتی ہے اور یہ ایک مبارک واقعہ ہوتا ہے ۔

عید کا مطلب بازگشت ہے بازگشت یعنی اصل فطرت کی طرف لوٹ آنا اور اس کے مطابق انسان اپنی حقیقت اور پاک فطرت پر واپس لوٹ آتا ہے اور عید یعنی اسی بات کی خوشی اور انعام کا نام ہے۔

 

عید فطر روحانی سال کا آغاز ہے

یہ احساس درست نہیں کہ ہم رمضان کے اختتام کو عید سمجھے اور اگلے سال تک رمضان سے خداحافظی کرے بلکہ ہم تازہ رمضانی ہوگیے ہیں اور جو زخیرہ میسر آیا ہے اگلے سال تک کا خرچہ ہے۔

حقیقت میں عرفاء کے نزدیک سال کا آغاز شب قدر سے ہوتا ہے اور اس معنی میں ہم ابھی تو روحانی سال کے ابتدائی ایام میں ہیں لہذا کہنا چاہیے کہ عید سے سال نو کا آغاز ہوتا ہے اور اگلے سال تک کا خرچہ ہم نے جو رمضان سے لیا ہے اس کو اگلے رمضان تک کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔

اگر دیکھنا ہے کہ اس مہینے میں ہمیں کیا کچھ نصیب ہوا ہے تو دیکھنا چاہیے کہ اگر ہمیں گناہوں سے نفرت ہونے لگا ہے تو پھر اچھی علامات ہیں۔

جو پرہیزگار اور متقی نمازی ہے انکو بھی دیکھنا چاہیے کہ جو نماز وہ رمضان سے قبل یا رمضان کے آغاز میں ادا کرتا تھا اب کی نماز سے فرق کرتی ہے کہ نہیں، زیادہ توجہ اور روحانیت سے ادا کرتے ہیں کہ نہیں اگر تبدیلی آئی ہے تو پتہ چل جاتا ہے کہ انکو رمضان میں خرچہ ملا ہے اور اگر کوئی تبدیلی محسوس نہیں کرتے تو امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے بقول انکو صرف بھوک وپیاس اور کم خوابی ملی ہے۔

جنہوں نے اس مقدس مہمانی سے استفادہ کیا ہے جب قرآن پڑھتا ہے تو دل نرم ہوتا ہے جب خدا کا نام لیتا ہے تو سکون ملتا ہے رمضان کے خاص عنایات ہیں اس کو درک کرنا چاہیے۔

ہمیں اس روحانی سرمایے کی قدر کرنی چاہیے اور اس کا ایک راستہ قرآن سے زیادہ مانوس ہونا اور مقدس زیارات کو جانا اور خدا سے روحانی تعلقات کو مزید مضبوط کرنا اور اولیاء خدا سے توسل کرنا ہے وگرنہ رمضان کے بعد یہ سارے سرمایے برباد ہوسکتے ہیں۔/

 

* جامعہ المصطفی کے علمی بورڈ کے رکن مهدی رستم‌نژاد کی نیوز ایجنسی (ایکنا) سے گفتگو

اسلام میں تین عیدیں ہیں جو خود رسول اکرم (ص) کی زبان مبارک سے بیان ہوئی ہیں؛ ان میں عید الاضحی، عید فطر اور عید غدیر ہے اور عید غدیر زیادہ تر اهل بیت(ع) کی روایات میں موجود ہے جس کو عید الله اکبر کہا گیا ہے۔

ایکنا نیوز- رہبری ویب سائٹ کی رپورٹ کے مطابق، ایران کی مومن اور عظیم قوم نے آج پورے ملک میں عید الفطر کی نماز نہایت شان و شوکت سے ادا کی اور عید الفطر کے مبارک دن کو " شکر اور سرافرازي " کے جشن کے طور پر منایا، اس معنوی اور قومی شان و شوکت کا نقطہ عروج، تہران کی نماز عید تھی جہاں لاکھوں فرزندان توحید نے مصلائے امام خمینی (رہ)میں رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی کی امامت میں نماز عید فطرادا کی۔

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے نماز عید کے پہلے خطبے میں ملت ایران اور امت اسلامیہ کو عید کی مبارکباد دی اور ایران کے لئے اس سال کے ماہ مبارک رمضان کو روحانیت، خضوع و خشوع، توسل و مناجات سے معمور مہینہ قرار دیا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اس سال کا رمضان کا مہینہ بہت پر جوش اور رحمتوں سے سرشار تھا اور شبہائے قدر میں لوگوں خاص طور سے نوجوانوں نے اچھے انداز میں عبادت کی اور ان کی آنکھوں سے اشک جاری تھا۔

 

آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے عالمی یوم القدس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اس سال عالمی یو م القدس کی ریلیوں میں ایران اور پوری دنیا کے لوگوں نے تاریخی اور مثالی شرکت کی حالانکہ شب قدر کی وجہ سے لوگوں نے ساری رات عبادت کی اور پھر صبح روزے کی حالت میں ریلیوں میں  بھر پور طریقے سے شرکت کی اور دشمنوں کے منہ پر زور دار طانچہ رسید کیا۔

 

رہبرانقلاب اسلامی نے نماز عید کے دوسرے خطبے میں ماہ مبارک رمضان کی خصوصیات میں سے ایک ارادے کی تقویت کو قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ارادہ ایک ایسی چیز ہے جسے خدا وند متعال نے انسان کی پیشرفت کے لئے اسے عطاء کیا اور انسان کو چاہئیے کہ اس سے رمضان کے مہینے کے بعد بھی خدا کی خوشنودی اور پیشرفت کے لئے استفادہ کرے۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے عوام کو اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کرنے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا کہ دشمن ہمارے اتحاد اور باہمی تعاون کا مخالف ہے اس لئے دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لئے ہمیں اتحاد و وحدت کا مظاہرہ کرنا چاہئیے۔

آپ نے فرمایا کہ دشمن، عوام کے مابین بد گمانیاں پیدا کرنا چاہتا ہے اور دس سال قبل کسی دوسرے طریقے سے کام کرتا تھا اور پہلے دشمن فوجی طریقے سے دوسرے ممالک میں داخل ہوتا تھا لیکن اب اس نے اپنی پالیسی بدل دی اس لئے کہ جس طریقے سے دشمن افغانستان میں داخل ہوا اور اسے جس طریقے سے ناکامی اور مایوسی کا منہ دیکھنا پڑا اور شکست ہوئی یہ اس کی تازہ مثال ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اب اس نے اپنی پالیسی بدل دی لیکن اس کے باوجود ہم دشمن کو شکست دیں گے۔

رہبر معظم کا کہنا تھا کہ ہماری عوام نے بیداری سے دشمن کی متعدد سازشوں کو ناکام بنایا ہے اور آئندہ بھی ناکام بناتے رہیں گے۔/

 
 

ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنانی نے کہا ہے کہ امریکی حکومت داعش کی گاڈ فادر ہے۔

یہ بات ناصر کنعانی نے جمعہ کو اپنے ٹوئٹر پیج میں کہی۔
انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ داعش کا خالق امریکہ ہے۔
کنعانی نے کہا کہ لیکن ان لوگوں کے لیے جنہوں نے جان بوجھ کر سچ سے آنکھیں بند کیں، جان ایف کینیڈی کے بھتیجے رابرٹ ایف کینیڈی کا یہ بیان کہ "ہم نے داعش کو بنایا" اس حقیقت کی تصدیق کرتا ہے کہ امریکی حکومت داعش دہشتگردوں کا گاڈ فادر ہے۔
سابق امریکی صدر جان ایف کینیڈی کے بھتیجے رابرٹ ایف کینیڈی جونیئر ڈیموکریٹک پارٹی کے اندر اگلے سال ہونے والے صدارتی انتخابات میں موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن کے نئے چیلنجر بن گئے۔
رابرٹ کینیڈی نے تقریباً دو گھنٹے تک جاری رہنے والی تقریر میں کہا کہ "پولیس بدعنوان ہے۔" "ہم نے داعش کو بنایا"، ہم نے 20 لاکھ پناہ گزینوں کو یورپ بھیجا اور وہاں جمہوریت کو غیر مستحکم کیا جس کی وجہ سے برطانیہ یورپی یونین سے نکل گیا۔
ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے

تہران، ارنا - ایرانی صدر مملکت نے اس بات پر زور دیا ہے کہ خلیج فارس کے علاقے میں پیشرفت علاقائی ممالک کے درمیان بات چیت اور تعاون کے ذریعے حاصل کی جا سکتی ہے۔

یہ بات علامہ سید ابراہیم رئیسی نے جمعرات کو قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی کے ساتھ ایک ٹیلی فونگ رابطے کے دوران گفتکو کرتے ہوئے کہی۔
 انہوں نے رمضان کے مقدس مہینے کے اختتام پر آنے والے عید الفطر کے موقع پر مبارکباد دی۔
صدر رئیسی نے کہا کہ پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات کی توسیع اور مضبوطی اسلامی جمہوریہ ایران کی خارجہ پالیسی کی ترجیحات میں شامل ہے۔
مزید برآں، انہوں نے مسجد الاقصی میں فلسطینیوں کے خلاف جعلی صیہونی حکومت کے حالیہ جرائم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایسے گھناؤنے اقدامات کی روک تھام کے لیے مسلم اقوام کے درمیان ہم آہنگی اور اتحاد پر زور دیا۔
قطر کے امیر نے اپنی طرف سے عید الفطر کے موقع پر ایرانی حکومت اور عوام کو مبارکباد پیش کی اور ایران کے ساتھ تمام شعبوں میں تعلقات کو وسعت دینے کے لیے آمادگی کا اظہار کیا۔
شیخ تمیم نے حالیہ ہفتوں میں صیہونیوں کے فلسطینیوں کے خلاف کیے گئے جرائم کی بھی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ قطر نے ہمیشہ فلسطین کے مظلوم عوام کا ساتھ دیا ہے۔

ترجمہ: اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہو سکتا ہے جو اللہ کی مسجدوں میں اللہ کے ذکر سے (اللہ کے بندوں کو) روکے اور ان کی ویرانی و بربادی کی کوشش کرے حالانکہ ان (روکنے والوں) کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ مسجدوں میں داخل ہوں مگر ڈرتے ڈرتے۔ ان لوگوں کے لئے دنیا میں ذلت و رسوائی اور آخرت میں بڑا عذاب ہے.

ایران کے مغربی علاقہ جزیرہ شیف کے امام جمعہ شیخ جاسم بن ہاجر نے صحافیوں سے گفتگو کے دوران کہا: عید الفطر مسلمانوں کی اہم ترین اعیاد میں سے ایک ہے۔ جو کہ ماہِ رمضان المبارک کے اختتام اور ماہ شوال کی پہلی تاریخ کو منائی جاتی ہے۔ اس دن مسلمانوں کے لیے روزہ رکھنا حرام اور ان پر فطرہ ادا کرنا واجب ہے۔

انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا: عیدالفطر کا اعلان کرتے ہوئے ہمیں ولی فقیہ کے حکم سے ہماہنگ ہونا چاہیے۔ یہ چیز اہلسنت اور شیعہ بھائیوں کے درمیان اتحاد و ہم آہنگی میں اضافہ کا باعث اور اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کی ناکامی کا سبب بنے گا۔

جزیرہ شیف کے اہلسنت امام جمعہ نے کہا: موجودہ زمانے میں عید الفطر کی نماز فرض نہیں ہے بلکہ مستحب ہے، اس نماز میں اذان و اقامت نہیں ہے، لیکن اس کے باوجود مسلمانوں کے درمیان عید الفطر کی نماز خاص اہمیت کی حامل اور عالم اسلام میں امت کے اتحاد و یکجہتی کی علامت ہے۔

شیخ جاسم بن ہاجر نے فقہِ شافعی میں عید الفطر کی نماز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: شافعی مسلک میں عید الفطر کی نماز بھی دو رکعت ہے اور اس میں بارہ تکبیریں کہی جاتی ہیں، پہلی رکعت میں تکبیرۃ الاحرام کے بعد اور سورۂ فاتحہ اور دوسری سورہ سے پہلے سات تکبیریں اور دوسری رکعت میں سورۂ فاتحہ سے پہلے پانچ تکبیریں پڑھی جاتی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا: نماز عید کے بعد امام جماعت خطبہ پڑھتے ہیں اور مقتدی امام جماعت کا خطبہ سنتے ہیں اور اہلسنت میں عید الفطر کی نماز کا وقت طلوع آفتاب کے بعد سے شروع ہوتا ہے اور زوالِ ظہر تک باقی رہتا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی