سلیمانی

سلیمانی

ہران، ارنا – ایرانی صدر مملکت نے اپنے ترکمان ہم منصب کے ساتھ گفتگو میں مسجد الاقصی، فلسطین اور لبنان کے عوام کے خلاف صیہونی حکومت کے حالیہ جرائم کیے جانے والے جرائم کا ذکر کرتے ہوئے اسلامی ممالک کےمزید اتحاد کی ضرورت پر زور دیا۔

یہ بات آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی نے جمعہ کے روز اپنے ترکمان ہم منصب سردار بردی محمد اف کے ساتھ ٹیلی فون پر گفتگو میں کہی۔

انہوں نے رمضان المبارک کے مقدس مہینے کی آمد پر مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ مسجد الاقصی، فلسطین اور لبنان کے عوام کے خلاف صیہونی حکومت کے حالیہ جرائم کا ذکر کرتے ہوئے اسلامی ممالک کے مزید اتحاد کی ضرورت پر زور دیا۔

رئیسی نے ایران اور ترکمانستان کے درمیان دوطرفہ تعلقات کی توسیع کو جاری رکھنے کی ضرورت پر زور دیا۔

اس موقع پر ترکمانی صدر سردار بردی محمد اف نے رمضان المبارک کے مہینے کو مبارکباد پیش کرنے کےساتھ ساتھ مختلف سیاسی اور اقتصادی شعبوں میں تہران اور اشک آباد کے درمیان تعلقات پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ

ترکمانستان دونوں ممالک کے مفادات کے مطابق اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ تمام شعبوں میں تعلقات کو فروغ دینے کے لیے پرعزم ہے۔

خداوند متعال کی نظر میں سب سے بڑا گناہ ظلم و ستم ہے جو بعض انسانی معاشروں میں قبیح ترین عمل بھی جانا جاتا ہے۔ قرآن کریم اور احادیث معصومین علیہم السلام میں بھی بہت مقامات پر ظلم کی شدید مذمت کی گئی ہے اور اس کے خلاف جدوجہد اور قیام واجب قرار دیا گیا ہے۔ مسئلہ فلسطین بھی ظلم و ستم کا ایک واضح مصداق ہے جو مغربی استعماری قوتوں کی جانب سے غاصب صیہونی رژیم جیسی جعلی ریاست کی تشکیل سے شروع ہوا اور اب تک جاری ہے۔ اس ناجائز ریاست کو تشکیل پائے 70 برس کا عرصہ گزر چکا ہے جس میں فلسطین کے مقامی باشندوں کی تاریخ، تشخص اور آزادی پر مسلسل ڈاکہ ڈالا گیا ہے۔ لیکن خدا کا وعدہ ہے ظلم کبھی بھی ہمیشہ کیلئے باقی نہیں رہتا جبکہ انسانی تاریخ بھی اس حقیقت کی گواہ ہے۔

خداوند متعال نے تمام انسانوں کو آزاد، برابر اور برادر پیدا کیا ہے اور ان کی ایکدوسرے پر برتری کا واحد معیار تقوی ہے۔ تقوی کے علاوہ کوئی چیز کسی انسان کی دوسرے انسان پر برتری کا معیار قرار نہیں پا سکتی چاہے وہ دین ہو، مذہب ہو، نسل ہو یا ثقافت ہو۔ لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ خداوند متعال کی جانب سے بھیجے گئے انبیاء کا ایک اہم ترین مقصد ظلم و ستم کا مقابلہ کرنا تھا۔ اسی مقصد کو مدنظر قرار دیتے ہوئے امام خمینی رح نے ماہ مبارک رمضان کے آخری جمعہ کو “روز قدس” قرار دیا اور اس دن پوری امت مسلمہ پر مظلوم فلسطینی قوم کے حق میں آواز اٹھانے کی تاکید کی۔ امام خمینی رح کے اس اقدام کا مقصد امت مسلمہ میں اتحاد اور ہم آہنگی کو فروغ دینا تھا۔ گذشتہ چالیس برس سے اسلامی دنیا میں ہر سال روز قدس بھرپور مذہبی جوش اور جذبے سے منایا جاتا ہے۔

روز قدس وہ دن ہے جب باطل کے مقابلے میں حق کا محاذ استقامت اور پائیداری کا مظاہرہ کرتا ہے اور یوں اسلام دوبارہ زندہ ہو جاتا ہے۔ یہ دن، دنیا بھر میں حریت پسند افراد کی وحدت کا مرکز اور جہاد فی سبیل اللہ کا واضح مصداق ہے۔ اس دن دنیا بھر میں عدل و انصاف کے حامی انسان مظلوم فلسطینی قوم کا دفاع کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں۔ اسی طرح یوم القدس کے دن دنیا بھر میں غاصب صیہونی رژیم کے ظالمانہ اقدامات کی مذمت کی جاتی ہے اور اس سے بیزاری کا اظہار کیا جاتا ہے۔ آج روز قدس کے انعقاد کو چالیس برس کا عرصہ بیت چکا ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ اس کی برکت سے پوری دنیا میں مسئلہ فلسطین اجاگر ہوا ہے اور نہ صرف اسلامی ممالک بلکہ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی مظلوم فلسطینی قوم کے حق میں آواز اٹھی ہے۔

ابتدا میں مظلوم فلسطینیوں کے پاس اپنے جائز حقوق کا دفاع کرنے کیلئے کوئی وسائل نہیں تھے۔ دھیرے دھیرے اسے عالمی سطح پر حمایت حاصل ہونا شروع ہوئی اور اقوام متحدہ میں بھاری اکثریت سے فلسطین کی خودمختار ریاست کو تسلیم کر لیا گیا۔ فلسطینی جوان شروع میں غاصب صیہونی رژیم کے ظلم کا مقابلہ کرنے کیلئے پتھروں کا سہارا لیتے تھے جبکہ آج وہ جدید ترین فوجی ہتھیاروں سے لیس ہو چکے ہیں۔ اسی طرح خطے کے دیگر ممالک میں بھی اس سرطانی غدے سے مقابلہ کرنے کی جرات پیدا ہوئی۔ جیسا کہ گیس اور تیل کے قدرتی ذخائر پر مبنی اپنے حقوق کا دفاع کرنے کیلئے لبنان نے اسرائیل سے ٹکر لی یا فٹبال ورلڈ کپ کے دوران قطر نے ملک میں صیہونیوں اور صیہونی میڈیا کے داخلے پر پابندی عائد کر دی۔ متحدہ عرب امارات کی جانب سے اسرائیلی وزیراعظم کا دورہ منسوخ کئے جانا بھی ایک مثال ہے۔

ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد امام خمینی رح اور ان کے بعد امام خامنہ ای مدظلہ العالی نے ہمیشہ سے مسئلہ فلسطین کو اپنی پہلی ترجیح قرار دیا ہے۔ یہ کام صرف نعرے کی حد تک نہیں رہا بلکہ عملی میدان میں بھی ایران نے فلسطینی مجاہدین کی ہر لحاظ سے بھرپور مدد کی۔ یہی وجہ ہے کہ غاصب صیہونی رژیم نے اسرائیل کو دنیا میں اپنا سب سے بڑا دشمن قرار دے رکھا ہے اور آئے دن ایران کے خلاف نت نئی سازشیں کرتا رہتا ہے۔ دوسری طرف خطے کے بعض حکمران بھی بظاہر فلسطین کی حمایت کا دعوی کرتے ہیں لیکن جب ان کے مفادات خطرے میں پڑتے ہیں تو فوراً پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ چند سال پہلے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اس بات پر زور دیا تھا کہ فلسطین کی آزادی کیلئے مغربی کنارے میں بھی غزہ کی طرح مسلح جدوجہد کا آغاز ضروری ہے۔

گذشتہ کچھ ماہ سے مغربی کنارے میں بھی مسلح مزاحمت میں تیزی آئی ہے اور کئی اسلامی مزاحمتی گروہ تشکیل پائے ہیں۔ اس وقت موجودہ صیہونی حکومت کئی بحرانوں سے روبرو ہے۔ خطے کے بعض ممالک سے اس کے تعلقات کشیدہ ہیں جبکہ اندرونی سطح پر بھی وہ شدید بحران کا شکار ہے۔ لہذا مقبوضہ فلسطین میں اسلامی مزاحمتی گروہوں کی تشکیل اور پھیلاو کیلئے یہ مناسب ترین موقع ہے۔ اگر غزہ کے ساتھ ساتھ مغربی کنارے اور مقبوضہ بیت المقدس میں بھی مسلح جدوجہد کی شدت میں تیزی آتی ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ فلسطین کی آزادی یقینی ہو جائے گی۔ اگرچہ ولی امر مسلمین امام خامنہ ای مدظلہ العالی نے چند سال پہلے یہ پیشن گوئی کی تھی کہ اسرائیل آئندہ 25 سال میں نابود ہو جائے گا لیکن مقبوضہ فلسطین میں بڑھتی ہوئی مزاحمتی کاروائیوں کے تناظر میں یوں دکھائی دیتا ہے کہ یہ پیشن گوئی بہت جلد حقیقت کا روپ دھار لے گی۔ انشاءاللہ

تحریر: ڈاکٹر محمد مہدی جہان پرور

ایک بار پھر ہم لوگ یوم قدس منانے کی تیاری کر رہے ہیں، یوم قدس ایسا دن ہے، جب ہم تمام مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر لا کر اسرائیل کے خلاف پرزور احتجاج کر سکتے ہیں، لیکن افسوس مسلمان اسی بات پر متحد ہیں کہ آپس میں افتراق کا شکار رہیں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ فلسطین کا تعلق عرب خطے سے ہے، لیکن آج عربی ممالک اسرائیل سے دوستی کی پینگیں بڑھا رہے ہیں جبکہ ایک عجمی ملک نے اسرائیل کے خلاف احتجاج اور مظلوموں کی حمایت کا پرچم ہاتھوں میں بلند کیا ہوا ہے۔ یہی چیز ہمیں اسلام کی حقانیت کی طرف بھی متوجہ کرتی ہے کہ اسلام کسی خاص جغرافیے یا خطے سے مخصوص نہیں، یہ فطرت کی ایسی آواز ہے، جو بھی اس پر لبیک کہے گا، یہ اس کے وجود کے اندر انقلاب بپا کر دے گی، پھر وہ دنیا میں کسی ظلم و ستم کو برداشت نہیں کرسکتا۔ اس کے لئے اسلام اہم ہوگا، ظالم کے خلاف وہ ڈٹے گا، کیونکہ اسلامی تعلیمات ہی یہی ہیں، اسے خطے یا جغرافیا سے کچھ لینا دینا نہیں ہوگا۔ وہ یہ دیکھے گا کہ اسلامی قلمرو کیا ہے، جہاں بھی توحید کے نغمے ہوں گے، وہاں اسے اپنے وجود کا احساس ہوگا، وہ توحید کے سایے میں آگے بڑھے گا، توحید کے پرستاروں کو اپنا بھائی سمجھے گا، چاہے انکا ملک کہیں ہو، وہ کسی خطے سے متعلق ہوں، اس کے اپنے ہوں گے۔

امام خمینی رضوان اللہ علیہ کے کارناموں میں ایک بڑا کارنامہ مسئلہ فلسطین کو ایک اسلامی اور انسانی مسئلہ کی صورت بیان کرنا ہے۔ یہ کوئی معمولی کارنامہ نہیں کہ امام خمینی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ نے فلسطین کے مسئلہ کو ایک اسلامی مسئلہ کے طور پر پیش کیا، جبکہ بعض ممالک اسے ایک عربوں کے مسئلہ کے طور پر پیش کر رہے تھے۔ امام خمینی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ نے یہ ایک بنیادی کام کیا کہ اسے عالم اسلام کا مسئلہ بنا دیا اور اسے ہر ایک مسلمان سے جوڑ دیا۔ امام خمینی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ نے اسرائیل کو نہ صرف امت مسلمہ کا مسئلہ بنا دیا بلکہ مسلمانوں اور عربوں کے نزاع سے بھی اسے نکال کر انسانی مسئلہ بنا دیا ِجبکہ یوم قدس کے طور پر احتجاجی اعلان سے قبل فلسطین کو ایسے مسئلہ کے طور پر دیکھا جاتا تھا، جس کا تعلق عربوں اور یہودیوں کے درمیان نزاع و اختلاف سے ہے، اسی وجہ سے اگر آپ اسرائیل و عرب ممالک کی جنگ کو دیکھیں تو ملے گا کہ یہ نہیں کہا جاتا ہے کہ یہ جنگ مسلمان ممالک و اسرائیل کے مابین ہوئی بلکہ کہا جاتا ہے کہ یہ جنگ عربوں اور اسرائیل کے درمیان ہوئی۔

یعنی اس معاملہ کو ایک عربی نزاع کے طور پر پیش کیا جاتا رہا ہے، جبکہ امام خمینی (رہ) نے اسے ایک الگ شناخت دی، الگ نام دیا۔ آپ نے کہا یہ اسرائیل و عرب کی جنگ نہیں ہے بلکہ آپ اس سے بھی آگے بڑھے اور آپ نے کہا کہ یہ مسلمانوں اور یہودیوں یا مسلمانوں اور اسرائیل کی جنگ بھی نہیں ہے بلکہ یہ مستضعفین و مستکبرین کی جنگ ہے۔ فلسطین میں محض مسلمان ہی نہیں رہتے ہیں یا اسرائیل میں محض یہودی ہی نہیں بستے ہیں بلکہ مقبوضہ فلسطین میں مسلمان، یہودی اور عیسائی سب مشترکہ طور پر رہتے ہیں۔ امام خمینی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ نے مسئلہ فلسطین کو ایک عمومی مسئلہ کے طور پر پیش کیا اور اسی بنیاد پر آخری جمعہ کو یوم القدس کا نام دیا، تاکہ دنیا کے تمام مستضعفین مستکبرین کے خلاف اٹھیں اور اپنی آواز بلند کریں۔ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے اسرائیل کے خلاف لوگوں میں بیداری لانے کے لئے یوم القدس کے طور پر ایک ایسی تحریک کا آغاز کیا، جس سے ظلم کے خلاف ایک عمومی و ایک اجتماعی مخالفت سامنے آسکے۔

آپ نے بیت المقدس کی اور فلسطین کی یوں تو ہمیشہ ہی حمایت کی، آخری ماہ مبارک رمضان کو قدس کے طور پر منائے جانے کا اعلان کرکے آپ نے پوری دنیا کے حریت پسندوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی جو کوشش کی، وہ بے نظیر ہے۔ خاص طور پر اس لحاظ سے ماہ مبارک رمضان کے آخری جمعہ کو پوری امت مسلمہ کی کوشش ہوتی ہے کہ نماز میں حاضر ہو، ماہ مبارک رمضان کی بنا پر روح و دل آمادہ ہوتے ہیں کہ حق و صداقت کا ساتھ دیں، لہذا اس سے بہتر کیا ہوگا کہ درونی شیطان سے مقابلہ کے بعد ماہ مبارک رمضان کے آخری جمعہ کو بیرونی شیطانوں سے مقابلہ کے دن کے طور پر منایا جائے۔ آپ نے صہیونیت کے خلاف صرف نعرے بازی سے کام نہیں لیا، بلکہ اسلامی انقلاب کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران کی سیاسی حکمت عملی کو بھی تبدیل کیا اور اسی کے تحت ان لوگوں سے تعلقات کم یا ختم کر دیئے، جو صہیونی حکومت کی حمایت کر رہے تھے۔ چنانچہ آپ نے 1979ء میں مصری حکومت سے اپنے سفارتی تعلقات منقطع کر لئے اور کہا کہ ہم اس لئے مصر سے اپنے سفارتی تعلقات ختم کر رہے ہیں کہ مصر نے اسرائیل سے تعلقات کی نئی داغ بیل ڈالی ہے۔

اگرچہ موجودہ دور میں بھی بہت سے ممالک ایسے ہیں، جن کے اسرائیل سے گہرے تعلقات ہیں، جیسے سعودی عرب، امارات و۔۔۔۔۔ لیکن کسی کے تعلقات کھلم کھلا نہیں ہیں، سب ڈھکے چھپے ہیں۔ اقتصادی، عسکری اور سکیورٹی ہر شعبے میں اسرائیل سے بعض اسلامی ممالک کے مخفیانہ تعلقات ہیں، لیکن اس دور میں مصر نے کھلم کھلا و علنی طور پر تعلقات بنائے تھے اور اس کا برملا اظہار بھی کیا تھا۔ یہ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کی صداقت ہے کہ نہ کل اور نہ آج اسلامی جمہوریہ ایران کے اسرائیل سے تعلقات کبھی قائم نہ ہوسکے اور نہ ہی ان ممالک سے کبھی تعلقات اچھے رہے، جن کے تعلقات اسرائیل سے گہرے اور دوستانہ ہیں۔ امام خمینی رضوان اللہ کا ایک اور کام ایک ایسی اصطلاح کو رائج کرنا ہے، جو بین الاقوامی طور پر بہت اہم ہے اور وہ ہے اسرائیل کے ساتھ غاصب کی اصطلاح، اس اصطلاح کے ذریعہ آپ نے یہ بتانا چاہا کہ دنیا میں چاہے کتنے ہی ممالک تمہارے ساتھ کیوں نہ آجائیں، لیکن تم غاصب ہی کہلاو گے، اگر اس غاصب کے لیبل کو ہٹانا ہے تو فلسطین سے نکلنا ہوگا۔

صرف یہ اصطلاح ہی نہیں، آپ نے ایک اور بات کی وضاحت کی کہ اسرائیل یوں خود ہی اکیلے بل پر غاصب نہیں ہے بلکہ یہ استعمار کے ہاتھوں کا پروردہ ہے اور مشرق و مغرب کے استعمار نے اسے خطے میں اپنے مفادات کے حصول کے لئے اپنی بیساکھیوں پر کھڑا کیا ہے اور خطے میں انہوں نے یوں ہی اسرائیل کو کھڑا نہیں کیا بلکہ اس کی وجہ اسلام کا درخشاں تمدن ہے۔ آپ کے سامنے اسلامی تمدن کے مختلف مراحل ہیں، آپ کے سامنے اس اسلامی تمدن کا زوال بھی ہے، اگر غور کریںگے تو نظر آئے گا کہ ہر اس جگہ جہاں پر اسلامی تمدن انحطاط کا شکار ہوا ہے،  صہیونیوں اور یہیودیوں کے ہاتھ نظر آرہے ہیں۔ اسلامی تمدن کی گفتگو اگرچہ ایک بڑی اہم گفتگو ہے، اس کی جگہ یہاں نہیں ہے، ہم صرف اشارہ کر رہے ہیں اور وہ یہ کہ اگر بہت سرسری طور پر دیکھیں تو ہمیں نظر آئے گا کہ اسلامی تمدن کی بنیاد مدینہ النبی میں حضور سرور کائنات کے ذریعہ پڑی اور پہلی صدی سے پانچویں صدی تک  اس کا عروج نظر آتا ہے، اس کے بعد اس کا زوال شروع ہوتا ہے۔

چنانچہ ساتویں اور آٹھویں صدی میں اسلامی تمدن کا انحطاط صاف طور پر دکھتا نظر آتا ہے اور یہ وہ دور ہے، جس میں مغلوں کی یلغار اور صلیبی جنگیں ہیں۔ تاریخ میں یدطولی رکھنے والے افراد اس بات کا اظہار کرتے ہیں۔ ماہرین تاریخ یہ بتاتے ہیں کہ چاہے مغلوں کی جانب سے تاراجی و یلغار کا دور ہو یا صلیبی جنگیں ہوں، دونوں ہی کے پس پشت یہی یہودی رہے ہیں۔ ایک طرف یہودی ثروت مندوں کی پشت پناہی پر عیسائیوں نے صلیبی جنگوں کا آغاز کیا تو دوسری طرف یہودیوں ہی کی تحریک پر عباسی خلافت کو یہودیوں ہی نے تباہ کیا۔ اگرچہ عباسی حکومت ہمارے لئے کبھی قابل قبول نہ رہی، لیکن یہاں پر بات مسلمانوں کی ہو رہی ہے۔ بطور عموم انہیں توحید سے ہمیشہ خطرہ رہا، چاہے وہ کھوکھلی توحید ہی کیوں نہ ہو۔ اسی لئے انہوں نے ہر دور میں کوشش کی کہ کوئی مضبوط اسلامی حکومت قائم نہ رہ سکے، بھلے وہ نام ہی کی کیوں نہ ہو۔

اس دور کے بعد جسے ہم نے بیان کیا، تین اور جہان اسلام میں بڑے تمدن وجود میں  آتے ہیں، ایران میں صفویہ، ترکی میں عثمانی، ہندوستان میں مغل، یہ تینوں تمدن وہ ہیں، جو جغرافیائی حوالے سے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ ان تینوں کا باہمی تعلق اسلامی تمدن کی ایک نئی تاریخ رقم کرسکتا تھا، لیکن اسی دور میں استعمار کی بنیاد پڑتی ہے اور سب کا سب تباہ ہو جاتا ہے اور اسی دور میں پہلی اور دوسری عالمی جنگیں ہوتی ہیں۔ اس کے بعد وہ دور آتا ہے، جہاں اسرائیل کے ایک ملک کی صورت وجود میں آنے کی فضا فراہم ہو جاتی ہے۔ چنانچہ جب دوسری عالمی جنگ میں برطانوی سلطنت ضعف و اضمحلال کا شکار ہو جاتی ہے تو اب اس کے لئے ضروری ہے کہ یوں ہی علاقے کو چھوڑ کر نہ نکل بھاگے بلکہ اپنے لئے کوئی جگہ بنا کر جائے۔ لہذا اگر ہم یہ سمجھنا چاہتے ہیں کہ امریکہ و اسرائیل نے ہزار جتن کرکے کیوں علاقے میں اسرائیل کے وجود کو اپنے لئے ضروری جانا تو ہمارے لئے ضروری ہے کہ دیکھیں وہ کون لوگ تھے، جنہوں نے امریکہ کو بنایا اور دوسرے علاقوں سے امریکہ کی طرف ہجرت کی، تاکہ کچھ  ایسا کرسکیں کہ ان کے مفادات کی تکمیل ہوتی رہے اور دوسروں کو غارت کرتے رہیں۔

جب ہم امریکہ کے قیام کو دیکھتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ اس کے قیام میں یہودی ثروت مندوں کا بڑا ہاتھ رہا ہے۔ خاص طور پر روچیلڈ خاندان جس نے جہان اسلام خاص طور پر برصغیر میں بھی استمعاری حربوں کو خوب خوب استعمال کیا، یہ روچیلڈ خاندان عالمی جنگ میں ایک ہی محاذ پر ہے اور اس نے امریکہ کے وجود میں آنے میں بڑا کردار ادا کیا۔ پھر یہی اسرائیل کے پیچھے بھی نظر آتا ہے اور برطانیہ کے ساتھ ساتھ اس کا ہم و غم بھی یہی ہے کہ مشرق وسطیٰ میں اپنی ایک جگہ بنائی جا سکے، جہاں اپنے لئے انہیں ایک قیام گاہ کی ضرورت تھی۔ یہ وہ چیز ہے، جسے امام خمینی رضوان اللہ تعالی نے بڑے ہی خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے اور واضح کیا ہے کہ اسرائیل کے وجود میں برطانوی اسستعمار کا ہاتھ واضح ہے۔ لہذا کوئی یہ نہ سوچے کہ یہ دینی معاملہ ہے، یہودیوں کی اپنی زمین کا مسئلہ ہے، ہرگز ایسا نہیں ہے۔ قطعاً ایسا نہیں یے، یہودی اپنی سرزمین پر جانا چاہتے ہوں اور ایک مستقل ملک انکی ضرورت ہو، بلکہ یہ ایک سیاسی کھیل ہے۔

یہ استعماری طاقتیں یہ چاہتی تھیں کہ ایک ایسا ملک مسلمانوں کے قلب میں وجود میں لاسکیں، جس کے چلتے ان کے مفادات پورے ہوتے رہیں۔ رہبر انقلاب اسلامی نے بڑا خوبصورت جملہ یہاں بیان کیا ہے ’’یہ لوگ یہ چاہتے ہیں کہ خطے میں ان کا ایک نگرانی کرنے والا، پہرا دینے والا کتا رہے، علاقے میں ایسا کتا رہے، جو انہیں بھونک بھونک کر با خبر کرتا رہے۔ سید حسن نصر اللہ نے بھی ایک تقریر میں اسی استعماری سازش سے پردہ اٹھاتے ہوئے امام خمینی (رہ) کی بصیرت کو ان الفاظ میں سراہا ہے کہ ’’امام خمینی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ کے بنیادی کاموں میں ایک کام یہ تھا کہ آپ نے ہمیں یہ سمجھایا کہ اسرائیل کی غاصب حکومت کا معاملہ عربوں یا مسلمانوں کا معاملہ نہیں ہے، ہمارا دھیان اس بات پر رہے کہ ایک استعماری کھیل ہے، ایسا نہیں ہے کہ یہودی اپنے علاقوں میں واپس جانا چاہتے ہوں یا اپنا ایک مستقل ملک چاہتے ہوں، ہرگز ایسا نہیں ہے یہ ایک سیاسی کھیل ہے۔‘‘

امام خمینی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ نے اسرائیل سے نفرت کے اظہار کے لئے ایک اور اصطلاح کا استعمال کیا، جو بظاہر تو بہت سادہ لیکن اپنے اندر مفاہیم کا دریا لئے ہوئے ہے اور وہ ہے اسرائیل کو کینسر کے پھوڑے سے تعبیر کرنے کی اصطلاح۔ جس طرح آپ نے بہت ہی سادے الفاظ میں امریکہ کو شیطان بزرگ کہہ کر اس کی شیطنت کو لوگوں کے سامنے ظاہر کیا، ویسے ہی اسرائیل کو سرطانی غدے یا کینسر کے پھوڑے سے تعبیر کرکے اس کو پیکر اسلام سے کاٹ کر پھینک دینے اور اس کے پورے خطے میں پھیل جانے کی طرف اشارہ کیا۔ امام خمینی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ کا کمال یہ تھا کہ اتنے رسا انداز میں اپنی بات کہتے کہ ہر ایک کی سمجھ میں آجائے۔ امریکہ  شیطان بزرگ ہے، یہ بات معمولی نہیں ہے، ایسی ہے کہ پوری دنیا سمجھ سکتی ہے، کیونکہ ہر ایک شیطان سے واقف ہے، چاہے یہودی ہو، ہندو ہو، عیسائی ہو، بودھشٹ ہو یا زرتشتی و مجوسی ہر ایک جانتا ہے کہ شیطان کسے کہتے ہیں۔

جس طرح آپ نے امریکہ کو شیطان بزرگ کہا، اسی طرح اسرائیل کو کینسر کا پھوڑا کہہ کر اس کے علاج کی طرف لوگوں کو متوجہ کیا ہے۔ کینسر کا پھوڑا کہیں نکل آئے تو دھیرے دھیرے پھیلتا جاتا ہے، ایسا نہیں ہے کہ اسے اپنی حالت پر چھوڑ دیا جائے، جتنا جلدی اسے کاٹ کر نکال دیا جائے، اتنا ہی اچھا ہے، ورنہ وہ پورے جسم کو خراب کر دے گا۔ جس طرح کینسر کا پھوڑا پورے جسم میں سرایت کر جاتا ہے، ویسے ہی علاقے میں اسرائیل کا وجود ہے کہ ایسا نہیں ہے، اسے چھوڑ دیا جائے تو ایک جگہ خاموش بیٹھ جائے گا، ایسا نہیں ہے، یہ علاقوں پر علاقے اپنے قبضے میں لیتا رہے گا، جیسا کہ ابھی ہو رہا ہے۔ شہر کے شہر اسرائیلی حکومت اپنے قبضے میں لے رہی ہے، مسلسل اپنی سرحدوں کو آگے بڑھا رہی ہے۔ شام و لبنان و اردن تک اس کی سرحدیں پہنچ چکیں ہیں، اب تو گولان کی پہاڑیوں کو بھی امریکہ نے قانونی طور پر اسرائیل کے حق میں قبول کر لیا ہے۔ اس سے سمجھ میں آتا ہے کہ امام خمینی رضوان اللہ نے کتنی زبردست بات کی تھی۔ شک نہیں کہ قرآن کے آئینہ میں یہودیوں کے اوصاف کو دیکھ کر ایک فقیہ ہی ایسی بات کہہ سکتا ہے۔
نوٹ: اس تحریر میں ڈاکٹر محمدی کے قدس کے سلسلہ سے لکھے گئے مطالب سے استفادہ کیا گیا ہے۔
تحریر: سید نجیب الحسن زیدی
 

صلح امام حسنؑ اور حقائق:
شیعہ اور اہل سنت منابع کے مطابق امیر المؤمنین حضرت علیؑ کی شہادت کے بعد سنہ 40 ھ کو مسلمانوں نے حسن بن علیؑ کی بعنوان خلیفہ بیعت کی۔ بلاذری (متوفی 279ھ) کے مطابق عبید اللہ بن عباس پیکر امام علیؑ کو دفن کرنے بعد لوگوں کے درمیان آئے اور آپ کی شہادت سے لوگوں کو باخبر کرتے ہوئے کہا: "آپ ایک شایستہ اور بردبار جانشین ہماری درمیان چھوڑ کر گئے ہیں۔ اگر چاہیں تو ان کی بیعت کریں۔" کتاب الارشاد میں آیا ہے کہ 21 رمضان جمعہ کے دن صبح کو حسن بن علیؑ نے مسجد میں ایک خطبہ دیا، جس میں اپنے والد کی شایستگی اور فضائل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ اپنی قرابتداری، اپنے ذاتی کمالات نیز اہل بیت کے مقام و منزلت کو قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں بیان فرمایا۔ آپ کی تقریر کے بعد عبداللہ بن عباس اٹھ کھڑے ہوئے اور لوگوں سے یوں مخاطب ہوئے: "اپنے نبی کے بیٹے اور اپنے امام کی جانشین کی بیعت کریں۔" اس کے بعد لوگوں نے آپ کی بعنوان خلیفہ بیعت کی۔ منابع میں آپ کی بیعت کرنے والوں کی تعداد 40 ہزار سے بھی زیادہ بتائی گئی ہے۔ بعض منابع کے مطابق قیس بن سعد بن عبادہ جو لشکر امام علیؑ کے سپہ سالار تھے،انہوں نے سب سے پہلے امام حسنؑ کی بیعت کی۔

حسین محمد جعفری اپنی کتاب تشیع در مسیر تاریخ میں کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرمؐ کے بہت سارے اصحاب جو اس وقت کوفہ میں مقیم تھے، انہوں نے امام حسنؑ کی بیعت کی اور انہیں بطور خلیفہ قبول کیا۔ جعفری بعض قرائن و شواہد کی بنا پر کہتے ہیں کہ مکہ و مدینہ کے مسلمان بھی حسن بن علیؑ کی بیعت میں عراق والوں کے ساتھ موافق تھے اور صرف آپ کو اس مقام کیلئے سزاوار جانتے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ یمن اور فارس کے لوگوں نے بھی اس بیعت کی تائید کی تھی یا کم از کم اس کے مخالف نہیں تھے۔ یہ بات تو سب جانتے ہیں کہ صلح صرف امام حسن  ؑسے ہی منسوب نہیں بلکہ خود آنحضرت ؐ نے بھی بعثت کے اوّل سالوں سے آخر تک صلح کی ہیں، جب تک آپؐ مکہ میں رہے اور ظاہراً مدینہ میں داخلے کے دوسرے سال تک آپ کی روش مشرکین کے مقابل مصالحت کی ہے، مشرکین کی طرف سے جتنی بھی تکلیفیں پہنچیں، یہاں تک کہ بعض مسلمان مشرکین کی قید میں مر بھی جاتے اور مسلمان جہاد و جنگ کی اجازت چاہتے تھے، اسکے باوجود آپؐ نے انہیں جنگ کی اجازت نہیں دی بلکہ ہجرت کی اجازت دی۔

اس کے بعد پھر ہم رسول خدا ؐ کو دیکھتے ہیں کہ مدینہ کی ہجرت کے بعد ایک موقع پر مشرکین اور یہود و نصاریٰ سے جنگ کرتے ہیں اور دوسرے موقع پر مشرکین مکہ سے جو کہ رسول خدا کے سب سے سخت ترین دشمن تھے، صلح حدیبیہ کی قرارداد پر دستخط کرتے ہیں اور اس کے بعد بھی مدینہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ آپ مدینہ کے یہودیوں سے قرارداد عدم تعرض پر دستخط کرتے ہیں۔ جب ہم امام حسن ؑ کے حالات کا امام حسین ؑ کے حالات سے موازنہ کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ یہ کسی بھی لحاظ سے قابل مقایسہ (موازنہ) نہیں اور آخری وجہ جو قیام امام حسین ؑ کا سبب بنی، وہ ظالم حکومت کے خلاف امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی شرط تھی جبکہ امام حسن ؑ کے لئے ابھی یہ مسئلہ پیدا نہیں ہوا تھا، امام حسن ؑ کے لئے زیادہ سے زیادہ یہ مسئلہ ہے کہ اگر یہ لوگ آگئے تو اس کے بعد ایسا کریں گے، ویسا کریںگے جبکہ یہ بات اس سے جدا ہے کہ کسی نے ایسا کام کیا ہے اور اب ہم اس کے جواب میں قیام کے لئے سند و صحت رکھتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ جو یہ کہتے ہیں کہ صلح امام حسن ؑ نے امام حسین ؑ کے قیام کے لئے بنیاد فراہم کی، ضروری تھا کہ امام حسن ؑ کچھ عرصہ کنارہ کشی اختیار کریں، تاکہ بنی امیہ کی اصلیت جو کہ لوگوں سے چھپی ہوئی اور مخفی تھی، آشکار ہو جائے اور بعد میں وہ قیام جس کی ضرورت ہے، انجام پاسکے اور از نظر تاریخ قیام موجھہ ہو، (یعنی قیام وجہ رکھتا ہو) اس قرارداد (صلح) کے بعد جب لوگوں نے دیکھا کہ معاویہ اس قرارداد پر کاربند نہیں تو شیعوں میں سے کچھ لوگ امام حسن ؑ کے پاس آئے اور آپ سے قیام کے بارے میں عرض کیا، آپ نے فرمایا ’’نہیں قیام معاویہ کے بعد کے لئے ہے‘‘ یعنی کم و بیش انہیں اتنی مہلت دی جائے، تاکہ وہ اس کی اصلیت و حقیقت کو خوب اچھی طرح لوگوں کو پہچنوا دیں، وہ وقت وقت قیام ہے۔ اس جملہ کے معنی یہ ہیں کہ اگر امام حسنؑ معاویہ کے بعد تک زندہ ہوتے اور اس صورتحال سے دوچار ہوتے کہ جس سے امام حسین ؑ دوچار ہوئے تو یقیناً قیام کرتے۔

متن قرارداد صلح امام حسن ؑ:
اب ہم صلح کی قرار دادوں میں سے کچھ کا جائزہ لیتے ہیں، تاکہ معلوم ہو کہ وضع قرارداد کیا تھی۔ (یعنی قرارداد میں کون سی شرایط تھیں)
1۔ حکومت معاویہ کو دی جاتی ہے، اس شرط پر کہ کتاب خدا، سنت پیغمبر اور سیرۃ خلفاء پر عمل کرے گا (یہاں پر اس امر کا بیان ضروری ہے) کہ امیر المومنین کی ایک منطق تھی اور وہ کہتے تھے کہ میں اس لئے کہ میں خلیفہ بنوں، باوجود اس کے کہ خلافت میرا حق ہے، قیام نہیں کروں گا۔ یہ لوگوں کا فرض ہے، میں اس وقت قیام کروں گا، جب جس نے خلافت پر قبضہ کیا ہے، وہ کاموں کو خلاف شرع انجام دے، جیسا کہ نہج البلاغہ کے خطبہ 72میں فرماتے ہیں: "جب تک ظلم صرف مجھ پر ہے اور میرا حق مجھ سے چھینا ہے اور اس کے علاوہ سارے کاموں میں درست ہے، میں خاموش رہوں گا۔ میں اس وقت قیام کروں گا کہ جب مسلمانوں کے امور کا نظم و نسق برقرار نہ رہے۔" اور امام حسن ؑ بھی دراصل اس طرح کی قرارداد کرتے ہیں کہ جب تک ظلم مجھ پر ہے اور صرف مجھے میرے حق سے محروم کیا گیا ہے، لیکن دوسری طرف وہ غاصب امور مسلمین کو صحیح طرح سے چلا رہا ہے تو میں اس شرط پر حکومت سے الگ ہونے پر تیار ہوں۔

2۔ قراردادوں میں ایک قرارداد یہ تھی کہ معاویہ کے بعد حکومت امام حسن ؑ کا حق ہے اور اگر ان کو کوئی حادثہ پیش آجائے تو امام حسین ؑ کا حق ہے۔ اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ صلح ایک مدت تک تھی، نہ کہ امام حسن ؑ نے کہہ دیا کہ اب اس کے بعد حکومت سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔ یہ صلح صرف معاویہ کے دور تک تھی اور معاویہ یہ حق نہیں رکھتا تھا کہ اپنے بعد کے زمانے کے لئے کسی کو اپنا جانشین مقرر کرے۔
3۔ ایک قرارداد  امیرالمومنین علی ابن ابی طالب پر کئے جانے والے تبرا کے رکوانے کی تھی، جو کہ معاویہ نے شام میں شروع کر رکھا تھا۔ اس صلح نامہ میں ایک قرارداد یہ تھی کہ معاویہ نمازوں میں امیر المومنین ؑ علی پر کی جانے والی لعنت کو بند کرے اور علی ؑ کو نیکی کے علاوہ یاد نہ کرے اور معاویہ نے اس شرط کو بھی مان لیا تھا (لیکن افسوس اس پر بھی اس نے عمل نہ کیا اور اس کے بعد بھی نوے سال تک یہ عمل قبیح جاری رہا)

4۔ بیت المال کوفہ کہ جس کی آمدنی پانچ ملین درہم ہے، مستثنیٰ ہوگا اور حکومت کو نہیں دیا جائے گا اور معاویہ ہر سال دو ملین درہم امام حسن ؑ کے لئے بھیجے گا، تاکہ شیعہ حکومت معاویہ کے محتاج نہ ہوں اور بخشش و ہدیوں میں بنی ہاشم کو بنی امیہ پر امتیاز دے اور ایک ملین درہم (دس لاکھ درہم) امیر المومنین ؑ کے ساتھیوں جو کہ جنگ جمل و صفین میں شہید ہوگئے ہیں، ان کے خاندانوں میں تقسیم کرے۔
5۔ خدا کی زمین پر ہر جگہ چاہے شام ہو یا عراق، یمن ہو یا حجاز لوگ امن و امان سے رہیں اور سیاہ پوست اور سرخ پوست سب امن و امان سے رہیں اور معاویہ ان کی غلطیوں سے چشم پوشی کرے، مخصوص وہ کینہ ہے، جو معاویہ ان سے جنگ صفین میں معاویہ کے خلاف لڑنے کی وجہ سے رکھتا تھا اور نہ عراق کے لوگوں سے اور نہ علی ؑ کے اصحاب سے، چاہے وہ جہاں کہیں بھی ہوں، پچھلے زمانے کی غلطیوں کا مواخذہ کرے گا اور جو کچھ اصحاب علی ؑ کے پاس ہے، وہ ان سے نہ لے گا اور اہل بیت رسول ؐ اور حسن ؐ و حسین ؐ کی جانوں کے خلاف کوئی سازش نہ کرے گا۔

یہ تھیں قراردادِ صلح کی شرایط کہ جن شرایط پر امام حسن ؑ نے معاویہ سے صلح کی اور معاویہ نے ان تمام شرایط کو بہت زیادہ قسموں کے ساتھ قبول کیا تھا کہ میں خدا اور پیغمبر کو ضامن بنا کر کہتا ہوں کہ ان پر عمل کروں گا اور اگر عمل نہ کروں تو یہ ہو۔۔ وہ ہو۔۔ پس ان تمام حالات و واقعات اور شرایط سے ظاہر (واضح) ہوتا ہے کہ امام حسن ؑ جن حالات میں زندگی گزار رہے تھے، ان حالات کا تقاضا یہی تھا کہ صلح کی جائے اور یہ کہ صلح امام حسن ؑ کا قیام امام حسین  ؑ سے مقایسہ کرنا درست نہیں، کیونکہ دونوں کے زمانے کے حالات بہت مختلف تھے اور دونوں کا اپنے اپنے وقت کے حساب سے فیصلہ بالکل درست اور حالات کے تقاضوں کے عین مطابق تھا بلکہ اگر امام حسن ؑ کے بجائے امام حسین ؑ معاویہ کے دور میں ہوتے تو وہ بھی صلح نامہ پر دستخط کرتے اور اسی طرح اگر امام حسین ؑ کی جگہ امام حسن ؑ ہوتے تو وہ یزید کیخلاف ضرور قیام کرتے۔

منابع میں آیا ہے کہ امام حسنؑ کی طرف سے صلح قبول کرنے پر آپ کے بعض پیروکاروں نے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا۔ یہاں تک کہ بعض لوگوں نے اس کام پر آپ کی سرزنش بھی کی اور بعض آپ کو "مذلّ المؤمنین" (مؤمنین کو ذلیل و خوار کرنے والا) کہہ کر پکارنے لگے۔ امامؑ نے اس حوالے سے ہونے والے اعتراضات اور سوالات کا جواب دیتے ہوئے "امام" کی اطاعت کے ضروری ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے صلح کے علل و اسباب کو بعینہ صلح حدیبیہ کے علل و اسباب بیان کرتے ہوئے اس کام کو حضرت خضر اور حضرت موسیٰ کی داستان میں حضرت خضر کے کاموں کی طرح قرار دیا، جہاں حضرت موسیٰ ان کاموں کے فلسفے سے آگاہ نہ ہونے کی وجہ سے ان کاموں پر اعتراض کرتے ہیں۔ متعدد تاریخی منابع میں آیا ہے کہ معاویہ نے اس صلح کے مندرجات پر عمل نہیں کیا اور حجر بن عدی سمیت بہت سارے شیعوں کو قتل کر ڈالا۔

تاریخ میں آیا ہے کہ معاویہ صلح کے بعد کوفہ چلا گیا اور لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا: "میری طرف سے رکھے گئے تمام شرائط کو واپس لیتا ہوں اور جو وعدہ دیا تھا، ان سب کی خلاف ورزی کرونگا۔" اسی طرح اس نے مزید کہا: "میں نے تم لوگوں سے نماز، روزہ اور حج کی انجام دہی کی خاطر جنگ نہیں کی، بلکہ تم لوگوں پر حکومت کرنے کیلئے میں نے جنگ کی ہے۔" آئمہ طاہرین کی حیات مبارکہ کو پڑھ کر ہم یہ جان سکتے ہیں کہ ہمارے آئمہ نے مظلوموں کو مقتدر قوتوں سے ان کا حق دلوانے کیلئے عظیم جدوجہد کی اور اس راہ میں قربانیوں سے دریغ نہیں کیا، مشکلات جھیلیں اور مسائل کا شکار رہے اور وقت کے حاکموں سے ٹکرانے سے گریز نہیں کیا۔ یقیناً ان کا اسوہ و سیرت ہمارے لیئے نمونہ عمل ہے۔

تحریر: ارشاد حسین ناصر

اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے آج، غاصب صہیونیوں کی جانب سے مسجد الاقصیٰ میں نہتے فلسطینی نمازیوں پر حملے میں شدت کے پیش نظر، اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر لکھا ہے کہ صہیونی، عالم اسلام میں اتحاد و وحدت کی لہر اور اندرونی تباہی کے واضح امکانات سے سخت پریشان ہیں۔

انہوں نے مزید کہا ہے کہ مسجد الاقصیٰ میں نمازیوں کی جعلی اور غاصب اسرائیلی حکومت کی فورسز کی بے حرمتی اور رات گئے کے مجرمانہ حملوں سے دردناک مناظر پیدا ہوئے جو کہ یقیناً صہیونی دہشت گردوں کے غیر انسانی جرائم پر خاموش تماشائی بنے ہوئے انسانی حقوق کے دعویداروں کی خاموشی کا نتیجہ ہیں۔

واضح رہے کہ صہیونی افواج نے گزشتہ دنوں متعدد بار مسجد الاقصی کی بے حرمتی کرتے ہوئے فلسطینی نمازیوں پر حملہ کرکے بے شمار نہتے فلسطینی نمازیوں کو زخمی کیا ہے ان حملوں میں کئی فلسطینیوں کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ آج علی الصبح صہیونی حکومت کے جنگجو طیاروں نے غزہ کی پٹی پر فلسطینی مزاحمتی و مقاومتی ٹھکانوں پر بمباری بھی کی ہے۔

تہران ارنا - قائد اسلامی انقلاب نے مغرب والوں کو اس دور کے مغولوں سے تعبیر کیا، لیکن ایک مختلف شکل میں،ل اور اس بات پر زور دیا ہے کہ وہ سب سے پہلے انسانی حقوق کے دشمن ہیں اور یہ کہ ان کے دعوی انسانی حقوق کا تحفظ غلط ہے۔

ان خیالات کا اظہار حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے بدھ کی شام امام حسن المجتبیٰ (ع) کے یوم ولادت کے موقع پر فارسی زبان و ادب کے پروفیسروں، بزرگ شاعروں کے ایک گروپ کے ساتھ ایک ملاقات کے دوران خطاب کرتے ہوئے کیا۔
اس ملاقات میں آیت اللہ خامنہ ای نے ملک میں شاعری کی دنیا کی وسعت پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے شاعری کو ایک مؤثر اور پائیدار آلہ قرار دیا اور تاریخ کے ادوار میں شاعری کی آفاقیت اور اس کی ناقابل تلافی اہمیت کی طرف اشارہ کیا۔ 
انہوں نے فرمایا کہ فارسی شاعری کی امتیازی خصوصیات میں سے ایک علمی اور اخلاقی وسائل کی پیداوار ہے جو فارسی شاعری کی چوٹیوں اور فردوسی، نظامی، مولوی، سعدی اور حافظ جیسے ممتاز شاعروں کی دانشمندانہ اور علمی نظموں کی تخلیق ہے.
رہبر معظم انقلاب نے ایران کی تاریخ کے مشکل ترین حالات مثلاً مغولوں کے حملے اور جارحیت کے دور میں بھی فارسی شاعری کے توازن اور جوہر کو برقرار رکھنے کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا کہ یقیناً اس دور کے مغولوں کا یعنی مغرب والوں کی شکل و صورت اور جارحیت مختلف ہے، اس لیے نوآبادیاتی دور میں ان کے جرائم کی سیاہ تاریخ کے علاوہ، وہ ہمارے دور میں اٹھے، صدام جیسے پاگل کتے کو ایران پر حملہ کرنے کے لیے ہر قسم کے ہتھیاروں بالخصوص کیمیائی ہتھیاروں سے لیس کر کے یا پھر پابندیوں کے ذریعے سرپٹ دوڑانے میں مصروف ہیں۔
انہوں نے ادویات پر پابندی اور مختلف بہانوں سے ویکسین کی آمد کو روکنے کو ایران کے خلاف مغربی حملوں کی دوسری مثالیں قرار دیا اور فرمایا کہ اگر وہ اسلامی جمہوریہ ایران اور اس کے عوام کو کھانے پینے کی اشیاء سے محروم کرنے کے لیے کچھ کر سکتے ہیں تو وہ ایسا کرنے سے دریغ نہیں کریں گے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے اس بات پر غور کیا کہ ایران کے دشمنوں کی مختلف جارحیتوں کا ایک اور حصہ میڈیا پر حملہ ہے اور جھوٹ، افواہوں اور انحرافات کو فروغ دینے کے لیے ان کے ہزاروں ذرائع ابلاغ کا استعمال ہے اور فرمایا کہ اس یلغار میں دشمن کا ہدف فکری اور علمی صلاحیتوں سے محروم کرنا، طاقت اور جذبہ آزادی، حب الوطنی کی استقامت، اتحاد اور اسلامی عمل کو کمزور کر دیتا ہے۔
انہوں نے خواتین کی مذہبیت کو کمزور کرنے کی کوشش کو ایران پر حملے کے دوسرے نکات میں سے ایک قرار دیا اور اسلامی انقلاب کی فتح اور اس کے بعد آنے والے مراحل میں خواتین کے موثر کردار کا حوالہ دیا اور فرمایا کہ مغربی لوگ ترس نہیں کھاتے، ایرانی خواتین اور ان کے حقوق کا احترام کرتی ہیں لیکن وہ ان کے خلاف نفرت رکھتی ہیں اور خود کو آزادی اور حقوق کی علمبردار کے طور پر پیش کرتی ہیں۔
رہبر انقلاب نے اس بات پر زور دیا کہ انسانی حقوق کا مطالبہ مغربیوں سے تعلق نہیں رکھتا اور وہ سمجھتے تھے کہ مغربی بنیادی طور پر انسانی حقوق کے دشمن ہیں، اور سب نے ان انسانی حقوق جن کا دعویٰ وہ داعش میں کرتے ہیں، لوگوں کو جلانا اور انہیں زندہ ڈبو دینا، یا منافقین اور صدام کی حمایت، یا غزہ اور فلسطین کے خلاف جرائم میں مشاہدہ کیا۔
انہوں نے تہران کی سڑکوں پر مذہبی نوجوانوں کے قتل و غارت گری میں مغرب کی حمایت کو انسانی حقوق کی حمایت کے جھوٹے دعوے کی ایک اور مثال قرار دیا اور فرمایا کہ آرمان علی وردی اور روح اللہ عجمیان جیسے ہمارے پاکباز جوانوں کو تشدد، اشتعال انگیزی اور مغربی میڈیا کی تربیت کے ذریعے قتل کیا گیا۔
آیت اللہ خامنہ ای نے دشمن اور اس کے مقاصد، طریقوں اور اہداف کو جاننے کی ضرورت پر تاکید کی اور فرمایا کہ دشمن کی نرم جنگ کی جہتوں کو جاننا ہر ایک کے لیے ضروری ہے لیکن ثقافتی اور فنی کارکنوں کے لیے بالکل ضروری ہے تاکہ وہ خود منفی نہ بن جائیں اور دوسروں کو بھی دشمن کے حملے سے آگاہ کریں۔
انہوں نے اس بات پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہ ملک میں بہت سے اچھے، دیانتدار اور انقلابی شاعر ہیں، شاعر کی روح لطیف اور جذباتی ہوتی ہے لیکن جب مسائل کا سامنا ہو تو جذباتی ہو کر کام نہیں کرنا چاہیے، بلکہ فن اور فکر کے ساتھ اپنا فرض ادا کرنا چاہیے۔ 
اس ملاقات میں درجنوں نوجوان اور تجربہ کار شاعروں نے رہبر معظم انقلاب اسلامی کی موجودگی میں اپنے اشعار پڑھے۔
اس ملاقات کے آغاز میں شعرا نے مغرب اور عشاء کی نمازیں رہبر معظم انقلاب کی امامت میں ادا کیں۔

پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دوسرے جانشین حضرت امام حسن بن علی بن ابیطالب علیہ السلام کو مکتب تشیع کے پیروکاران اپنا دوسرا امام اور پیشوا مانتے ہیں۔ امام حسن مجتبیٰ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں مدینہ منورہ میں 15 رمضان المبارک 3 ھ کو متولد ہوئے۔(الارشاد شیخ مفید، ص 346)۔ آپ کی امامت کی مدت دس سال (40-50ھ) پر محیط ہے۔ آپ تقریباً 7 مہینے تک خلافت کے عہدے پر فائز رہے۔ اہل سنت آپ کو خلفائے راشدین میں آخری خلیفہ مانتے ہیں۔ آپ نے اپنی عمر کے 7 سال اپنے نانا رسول خداؐ کے ساتھ گزارے، بیعت رضوان اور نجران کے عیسائیوں کے ساتھ مباہلہ میں اپنے نانا کے ساتھ شریک ہوئے۔ آپ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے اور پہلے امام امیر المومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام اور سیدۃ النساء العالمین بی بی فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کے فرزند ہیں۔

کسے معلوم نہیں کہ یہ وہ گھرانہ ہے، جہاں وحی کی آمد اور فرشتوں کا نزول ہوتا تھا۔ اس مقدس و محترم گھرانہ کی پاکیزگی و طہارت کے بارے میں قرآن نے ان الفاظ میں گواہی دی ہے: "اِنما یرِید اللہ لِیذہب عنکم الرِجس اہل البیتِ ویطہرکم تطہیرا۔" یعنی: (بس اللہ کا ارادہ یہ ہے، اے اہل بیت علیہم السلام کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے، جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے)۔ (سورہ احزاب آیہ33) امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام، امیرالمومنین علی بن ابیطالب اور سیدۃ النساء العالمین فاطمہ زہراء سلام اللہ کی پہلی اولاد تھے۔ پہلی اولاد پر روایتی طور پہ خاندان میں خوشیوں کا سماں بہت زیادہ ہوتا ہے، اس لئے آپ کی ولادت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت کے چاہنے والوں کی خوشیوں کا باعث بنی۔پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مولود کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی اور مولود کا نام حسن رکھا۔ (کشف الغمہ، ج2، ص82)

امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کے کئی القاب کتب میں وارد ہوئے ہیں، جن میں کچھ معروف ہیں: سبط اکبر، سبط اول، طیب، قائم، حجت، تقی، زکی، مجتبیٰ، وزیر، اثیر، امیر، امین، زاہد و بر، مگر سب سے زیادہ مشہور لقب "مجتبیٰ" ہے اور اپنے ماننے والوں میں آپ "کریم اہل بیت" کے لقب سے بھی مشہور ہیں۔ امام حسن مجتبیٰؑ کی کنیت، ابو محمد ہے۔(منتہی الآمال، ج1، ص 219) پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کو بہت چاہتے تھے اور آپ بچپن سے ہی نانا رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور والد امیر المومنین علی اور والدہ سیدۃ النساء العالمین فاطمہ زہراء (سلام اللہ علیہا) کی نورانی آغوش و تربیت میں پروان چڑھے اور ایک انسان کامل کی حیثیت سے امام عادل کے طور پر پہچانے گئے۔

فضائل و مناقب:
شیعہ اور اہل سنت منابع میں امام حسنؑ کے فضائل و مناقب کے سلسلے میں بہت سی احادیث نقل ہوئی ہیں۔ آپؑ اصحاب کساء میں سے تھے، جن کے متعلق آیہ تطہیر نازل ہوئی ہے، جس کی بنا پر شیعہ ان ہستیوں کو معصوم سمجھتے ہیں۔ آیہ اطعام، آیہ مودت اور آیہ مباہلہ بھی انہی ہستیوں کی شان میں نازل ہوئی ہیں۔ آپ نے دو دفعہ اپنی ساری دولت اور تین دقعہ اپنی دولت کا نصف حصہ خدا کی راہ میں عطا کیا۔ آپ کی اسی بخشندگی کی وجہ سے آپ کو "کریم اہل بیت" کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، تاریخ میں دسترخوان امام حسن ؑ بہت معروف ہے۔ مسجد نبوی میں وہ مقام موجود ہے، جہاں آپ کا دسترخوان مسکینوں، محتاجوں اور مسافروں کیلئے ہمہ وقت آباد رہتا تھا۔ آپ نے 20 یا 25 بار پیدل حج کیا۔ امام حسن و امام حسین علیہما السلام کے فضائل و مناقب تمام محدثین اور مفسرین نے نقل کئے ہیں۔ جن کی تفصیل کتب حدیث و تفسیر میں دیکھی جاسکتی ہے۔ یہاں فضائل و مناقب کے اس سمندر میں سے چند قطرے پیش کئے جاتے ہیں۔ اب ہم چند نمایاں عناوین کے تحت ان دونوں شہزادوں کے فضائل ومناقب پیش کرتے ہیں۔

امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کا نسب:
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک حدیث کے ذریعے اپنے نور چشم حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی فضیلت یوں بیان فرمائی ہے۔ فرمایا: "البتہ، حسن میرا فرزند اور بیٹا ہے، وہ میرا نور چشم ہے، میرے دل کا سرور اور میرا ثمرہ ہے، وہ بہشت کے جوانوں کا سردار ہے اور امت پر خدا کی حجت ہے۔ اس کا حکم میرا حکم ہے، اس کی بات میری بات ہے، جس نے اس کی پیروی کی، اس نے میری پیروی کی ہے، جس نے اس کی مخالفت کی، اس نے میری مخالفت کی ہے۔ میں جب اس کی طرف دیکھتا ہوں تو میرے بعد اسے کیسے کمزور کریں گے، اس یاد میں کھو جاتا ہوں؛ جبکہ یہ اسی حالت میں اپنی ذمہ داری نبھاتا رہے گا، جب تک کہ اسے ستم و دشمنی سے زہر دے کر شہید کیا جائے گا۔ اس وقت آسمان کے ملائک اس پر عزاداری کریں گے۔ اسی طرح زمین کی ہر چیز از جملہ آسمان کے پرندے، دریائوں اور سمندروں کی مچھلیاں اس پر عزاداری کریں گے۔" (بحارالانوار، ج44، ص 148)

پیغمبر اکرم ؐ آپ سے بے پناہ محبت کرتے تھے:
کئی ایک احادیث میں وارد ہوا ہے کہ رسول خدا اپنے نواسے حسن بن علیؑ کو بہت چاہتے تھے۔ منقول ہے کہ پیغمبر اکرمؐ امام حسنؑ کو اپنے کاندھوں پر سوار کرکے فرماتے تھے: "خدایا میں اسے دوست رکھتا ہوں، پس تو بھی اسے دوست رکھ۔" بعض اوقات جب پیغمبر اکرمؐ نماز جماعت میں سجدہ میں چلے جاتے تو امام حسنؑ حضورؐ کی پشت پر سوار ہوتے تھے، اس وقت پیغمبر اکرمؐ اس وقت تک سجدے سے سر نہیں اٹھاتے تھے، جب تک امام حسنؑ خود آپؐ کی پشت سے نیچے نہ اترتے، جب صحابہ سجدوں کے طولانی ہونے کے بارے میں پوچھتے تھے تو حضورؐ فرماتے تھے کہ میں چاہتا تھا کہ حسن خود اپنی مرضی سے میری پشت سے نیچے اتر آئے۔ فرائد السمطین نامی کتاب میں آیا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ آپ کے بارے میں فرماتے تھے: "وہ بہشت کے جوانوں کے سردار اور میری امت پر خدا کی حجت ہیں۔۔۔۔ جو بھی ان کی پیروی کرے گا، وہ مجھ سے ہے اور جو اس سے روگردانی کرے گا، وہ مجھ سے نہیں ہے۔"

حسنین شریفین پر صدقہ حرام ہے:
"عن ابی ہریرہ؛ قال: کان رسول (ص) اللہ یوتی بالتمر عند صِرام النخل، فیجی ہذا بتمر ،وہذا من تمرہ، حتی یصیر عندہ کوما من تمر، فجعل الحسن(ع) والحسین(ع) یلعبان بذالک التمر، فاخذ احدہما تمر، فجعلہ فی فیہ، فنظر الیہ رسول(ص) اللہ(ص)، فاخرجہا من فیہ، فقال: اما علِمت ان آل محمد لایاکلون الصدقہ؟! یعنی: "امام بخاری نے ابو ھریرہ سے نقل کیا ہے: "جب خرموں کے توڑنے اور چننے کا وقت ہو جاتا تھا تو لوگ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس خرمہ زکات کے طور پر لایا کرتے تھے، چنانچہ حسب دستور لوگ چاروں طرف سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں خرمہ لے کر آئے، جن کا ایک ڈھیر لگ گیا، حسنین علیھما السلام ان خرموں کے اطراف میں کھیل رہے تھے، ایک روز ان دونوں شہزادوں میں سے کسی ایک نے ایک خرمہ اٹھا کر اپنے دہن مبارک میں رکھ لیا! جب رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دیکھا تو اس کو شہزادے کے دہن سے باہر نکال دیا اور فرمایا: اما علِمت ان آل محمد لایاکلون الصدقہ۔؟ اے میرے لال! کیا تمھیں نہیں معلوم کہ آل محمد پر صدقہ حرام ہے، وہ صدقہ نہیں کھاتے؟!"

اسی طرح دوسری روایت امام بخاری نے امام حسن علیہ السلام سے یوں منسوب کی ہے: "ان الحسن بن علی اخذ تمرمن تمر الصدق، فجعلہا فی فیہ، فقال النبی(ص): کخ کخ لیطرحہا، ثم قال: اما شعرت انا لا ناکل الصدقہ۔"[3] یعنی: "ایک مرتبہ امام حسن بن علی (علیہماالسلام) نے صدقہ کا خرمہ منہ میں رکھ لیا تو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا: نہ، نہ، چنانچہ امام حسن (ع) نے خرمہ کو منہ سے باہر نکال دیا، اس وقت رسول اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: اے میرے لال! کیا تمھیں نہیں معلوم کہ آل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر صدقہ حرام ہے۔؟"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تحریر: ارشاد حسین ناصر

اسلامی جمہوریہ ایران اور سعودی عرب کے وزرائے خارجہ کے درمیان دوطرفہ ملاقات اور بات چیت بیجنگ میں انتہائی مثبت اور تعمیری ماحول میں ہوئی۔

"حسین امیرعبداللہیان" نے جمعرات کے روز بیجنگ میں اپنے سعودی ہم منصب کے ساتھ دوطرفہ ملاقات میں اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ تہران اور ریاض کے درمیان باضابطہ تعلقات آج سے ہی باضابطہ طور پر فعال ہو جائیں گے، انہوں نے کہا: ہونے والی بات چیت اور سعودی عرب کے بادشاہ کے درمیان ہونے والے پیغامات کو بھی مدنظر رکھتے ہوئے اور ہمارے ملک کے صدر دونوں ممالک کے رہنماؤں کی مرضی ان کے درمیان تعلقات کی ترقی اور گہرائی پر مبنی ہے۔

امیر عبداللہیان نے اس بات پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہ دونوں ہمسایہ، دوست اور برادر ممالک کے درمیان تعلقات معمول پر آچکے ہیں، اس بات پر زور دیا کہ اسلامی جمہوریہ ایران سعودی عرب کے ساتھ مفاد کے تمام شعبوں میں تعلقات کو فروغ دینے کے لیے تیار ہے۔

اقتصادی اور تجارتی شعبوں اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں تعلقات کو فروغ دینے کی اہمیت اور ضرورت پر زور دیتے ہوئے وزیر خارجہ نے دونوں ممالک کے درمیان مشترکہ اقتصادی کمیشن کے انعقاد کے لیے اسلامی جمہوریہ ایران کی آمادگی کا اعلان کیا۔

ایران کے وزیر خارجہ نے دونوں ملکوں کے درمیان بنیادی معاہدوں کی موجودگی کا ذکر کرتے ہوئے مزید کہا کہ موجودہ بنیادی دستاویزات نے دونوں ممالک کے رہنماؤں کی مرضی کے ساتھ تعاون کو فروغ دینے کے لیے ضروری قانونی اور قانونی بنیادیں فراہم کی ہیں۔

امیر عبداللہیان نے اس بات پر زور دیا کہ اقتصادی تعلقات میں اضافہ اور باہمی سرمایہ کاری سے تعلقات کو مضبوط بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔ تعاون کے اہم شعبوں میں سے ایک راہداری کا مسئلہ ہے اور ایران کی جغرافیائی سیاسی پوزیشن سعودی عرب اور خلیج فارس کے ممالک کو ایران کے شمالی ممالک کے ساتھ تجارتی تعاون کا منفرد موقع فراہم کرتی ہے۔

ریاض نے ایران اور سعودی عرب کے درمیان اعلیٰ سطح کے وفود کے تبادلے کا خیرمقدم کیا۔

اس ملاقات میں سعودی وزیر خارجہ نے بھی اس اجلاس کے انعقاد اور رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں دونوں ممالک کے درمیان باضابطہ تعلقات کے فعال ہونے پر اطمینان کا اظہار کیا اور اسے دونوں ممالک کے لیے خیر و برکت کی بنیاد قرار دیا۔

فیصل بن فرحان نے دونوں ملکوں کے تعلقات میں ایک نئے صفحے کے کھلنے اور ایران اور سعودی عرب کے دوستانہ اور برادرانہ تعلقات میں نئے افق کی تشکیل کا ذکر کرتے ہوئے دونوں کے درمیان موجودہ معاہدوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اپنے ملک کی تیاری پر زور دیا۔ ممالک اور اس مقصد کے لیے دونوں ممالک کے درمیان وفود کے تبادلے کو خوش آئند قرار دیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان نئے تعلقات نے پورے خطے میں ایک نئی مثبت فضا پیدا کی ہے اور سعودی عرب ایران کی مدد اور تعاون سے علاقائی تعلقات میں مذکورہ مثبت ماحول کو مضبوط بنانے کے لیے تیار ہے۔

اس ملاقات میں فریقین نے دونوں ممالک کے سفارتخانوں اور قونصل خانوں کو دوبارہ کھولنے کے لیے تیاری کے وفود کے تبادلے، مشترکہ معاہدوں کو فعال کرنے اور مختلف شعبوں میں تعلقات کو فروغ دینے کے لیے دونوں ممالک کے وفود کے تبادلے پر تبادلہ خیال کیا۔ معیشت، تجارت اور سرمایہ کاری کے شعبوں، وفود کے مذاکرات کا انعقاد، براہ راست پروازیں دوبارہ شروع کرنے کے لیے دونوں ممالک کے شہریوں کے لیے عمرہ کے ویزوں سمیت ویزوں کے اجرا میں سہولت فراہم کرنے اور بین الاقوامی فورمز میں مشترکہ تعاون کو مضبوط بنانے پر اتفاق کیا۔

دونوں وزراء نے دوطرفہ سرکاری دورے کے لیے ایک دوسرے کی باہمی دعوتوں کا شکریہ ادا کیا اور ان کا خیرمقدم کیا۔

نیز اس ملاقات کے اختتام پر مذاکرات کے مشترکہ اعلامیہ پر ایران اور سعودی عرب کے وزرائے خارجہ نے دستخط کئے۔

مقبوضہ علاقوں کے درجنوں آباد کاروں نے اس بار "عید فصح" کے بہانے اور صیہونی حکومت کی سیکورٹی فورسز کی مکمل حمایت کے ساتھ مسجد الاقصی پر دھاوا بول دیا۔

 فلسطینی علاقوں میں درجنوں آباد کار اسرائیلی سیکورٹی فورسز کی حفاظتی چھتری تلے آج مسجد الاقصی کے مختلف حصوں میں داخل ہوئے۔

یہ حملہ یہودیوں کے تہوار کے پہلے دن کیا جاتا ہے جسے "عید فصح" کہا جاتا ہے، جس میں آباد کار، قابض حکومت کی سیکورٹی فورسز کی بھاری حفاظت میں، اشتعال انگیز پروگرام اور رسومات اور تلمودی عبادت مسجد اقصیٰ کے اندر انجام دیتے ہیں۔ .

یہودی انتہا پسندوں کے مسجد اقصیٰ میں داخل ہونے سے قبل قابض حکومت کی سیکیورٹی فورسز نے اس پر حملہ کیا اور آباد کاروں کی آمد کے لیے جگہ تیار کرنے کے لیے اس مسجد کے مختلف حصوں سے تمام مسلمان نمازیوں کو باہر نکال دیا اور نمازیوں کو اندر جانے سے روک دیا۔ صبح کی نماز ادا کرنے کے لیے مسجد، جس کی وجہ سے مسجد کے باہر اور اردگرد کی گلیوں میں نمازیں قائم ہوئیں۔

گذشتہ رات مسجد الاقصی پر صہیونیوں کے حملے اور اس مسجد کے صحنوں کو مسلمان نمازیوں سے خالی کرنے اور رمضان کے زائرین پر وحشیانہ حملے اور انہیں مسجد سے بے دخل کرنے کا واقعہ دیکھا گیا۔

فلسطینی مزاحمتی قوتوں نے آج صبح اور گزشتہ شب حالیہ دنوں میں صیہونی حکومت کے جارحانہ حملوں اور مسجد الاقصی پر حملے کے جواب میں منگل کی رات اور بدھ کی صبح صیہونی بستیوں کو نشانہ بنایا۔

فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تحریک (حماس) نے گزشتہ روز ایک بیان میں یہودیوں کی پاسبانی کے بہانے مسجد الاقصی کے اندر مظلوم کو ذبح کرنے کے آباد کاروں کے منصوبے اور الاقصیٰ پر صیہونیوں کی طرف سے کسی بھی حماقت اور حملے کے خلاف سخت خبردار کیا ہے۔

اس سے قبل مغربی کنارے کے ایرن الاسود مزاحمتی گروپ نے بھی ایک بیان میں صیہونی حکومت کو دھمکی دی تھی اور غاصبوں سے کہا تھا: ’’یہ (صہیونی آباد کار) مسجد اقصیٰ میں جو بھی حماقت کریں گے، اس کی تمہیں بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔ جس کے بارے میں آپ سوچتے بھی نہیں ہیں۔
https://taghribnews.com/vdcdnn0kfyt0jx6.432y.html

ایکنا نیوز- حجت‌الاسلام والمسلمین محمد سروش محلاتی نے دعائے سحر کی تشریح کرتے ہوئے اس اقتباس «اَللَّـهُمَّ اِنّی اَسَئَلُکَ مِنْ نُورِکَ بِاَنْوَرِهِ وَکُلُّ نُورِکَ نَیِّرٌ؛ اے رب تجھ سے درخواست کرتا ہوں کہ اپنے نورانی ترین حق کے واسطے کہ تیرے سارے مراتب نورانی ہیں۔

روایات میں اس حوالے سے کہا جاتا ہے کہ دعا سحر میں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہوا ہے کہ نور کا دائرہ کار بہت وسیع ہے اور تمام اشیا میں اس نور کو دیکھا جاسکتا ہے۔

عدالت نور اور ظلم تاریکی ہے

قرآن کریم اور روایات  ہمیں ایک اور انسانی نورانی عالم کی طرف لے جاتے ہیں ، تاریکی اور ظالم ایکدوسرے کے ہمنشین ہیں جہاں ظلم وہاں ظلمت ہے۔

جو ادبیات ہمیں نور کی طرف بلاتے ہیں وہ ظلم کے خلاف ہیں اور ظلم کو ہٹا کر نور کو اس کی جگہ لانے کی ضرورت ہے، رب العزت سورہ زمر میں فرماتا ہے:

«وَأَشْرَقَتِ الْأَرْضُ بِنُورِ رَبِّهَا وَوُضِعَ الْكِتَابُ وَجِيءَ بِالنَّبِيِّينَ وَالشُّهَدَاءِ وَقُضِيَ بَيْنَهُمْ بِالْحَقِّ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ.»

نور سے مقصود حسی نور نہیں، نور کیسے زندگی پر جلوہ گر ہوتا ہے؟ فیض کاشانی کا کہنا ہے کہ نور کا جلوہ گر ہونا اس وقت ممکن ہے جب زمین پر عدل کا نفاز ہو اور عدل کے خدا نے عدل کو نور کہا ہے اور جب شہروں میں عدل عام ہوتا ہے اور ایک دوسرے کے حقوق کا احترام کیا جاتا ہے تو معاشرہ نورانی ہوتا ہے جیسے کہ ظلم تاریکی ہے۔/