سلیمانی

سلیمانی

 

 

 

 

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: اسلامی جمہوریہ ایران نے گذشتہ 45 سالوں کے دوران صحت کے میدان میں شاندار کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ ذیل میں حفظان صحت کے میدان کی چند اہم کامیابیوں کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے:

 

1: اوسط عمر کی شرح

 

ایران میں اوسط عمر کی شرح انقلاب سے پہلے کے مقابلے میں اب 22 سال کی بڑھوتری رکھتی ہے جو کہ عمر کے عالمی اوسط سے بھی زیادہ ہے۔ انقلاب سے پہلے اوسط عمر کا تناسب 55 سال تھا جو کہ عالمی اوسط درجے میں سب سے کم تھا۔ لیکن آج ایران میں اوسط عمر 77 سال تک پہنچ گئی ہے۔ عالمی بینک نے بھی اسلامی جمہوریہ ایران کی اس اہم کامیابی کی طرف اشارہ کیا ہے۔

 

2: شیر خوار بچوں اور حاملہ ماؤں کی شرح اموات

 

صحت کے شعبے میں اسلامی جمہوریہ ایران کی ایک اور اہم کامیابی شیر خوار بچوں اور حاملہ ماؤں کی شرح اموات میں 10 گنا کمی ہے۔

 

انقلاب سے پہلے زچگی کی شرح اموات 274 فی 100,000 افراد پر تھی لیکن اب یہ 16 فی 100,000 افراد تک پہنچ گئی ہے۔ اس کے علاوہ بچوں کی شرح اموات 82 فی 1000 افراد سے کم ہو کر 11 فی 1000 افراد پر آ گئی ہے جو کہ ایک اہم کامیابی ہے۔ اس کے علاوہ شعبہ صحت عامہ میں ترقی کی بدولت پانچ سال سے کم عمر بچوں کی اموات میں بڑی کمی آئی ہے، جو کہ انقلاب سے پہلے کے دور کے مقابلے میں نمایاں طور پر قابل ستائش اضافہ ہے۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق پہلوی (شاہی رجیم) دور حکومت میں ہر سال 140,000 سے زائد بچے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے تھے جو کہ حالیہ برسوں میں کم ہو کر 20,000 سے نیچے رہ گئے ہیں۔

 

3: علاج معالجے تک عام رسائی

 

علاج معالجے تک رسائی کے اشارئے میں ڈاکٹروں، ہسپتالوں اور علاج کے مراکز اور ادویات تک رسائی شامل ہے۔ اسلامی انقلاب سے پہلے ملک کے زیادہ سے زیادہ 37 فیصد شہروں کو ہسپتالوں اور طبی مراکز تک رسائی حاصل تھی لیکن اب یہ تعداد 97 فیصد سے زیادہ ہو چکی ہے۔ ملک میں ہسپتالوں کے بستروں کی تعداد 50 ہزار سے بڑھ کر 150 ہزار ہو گئی ہے۔ اس کے علاوہ انقلاب سے پہلے ملک میں فی 10 ہزار افراد پر 3 ڈاکٹر ہوتے تھے لیکن اب یہ تعداد 16 ڈاکٹروں تک پہنچ گئی ہے۔ اس لیے پچھلے 45 سالوں میں فی کس ڈاکٹروں کی تعداد میں 5 گنا اضافہ ہوا ہے۔ جب کہ ملک کی آبادی میں 2.5 گنا اضافہ ہوا ہے۔ یہ اہم اور قابل توجہ پیش رفت ڈاکٹروں کی تعداد میں تقریباً 12 گنا اضافے کے بعد حاصل ہوئی ہے۔ انقلاب سے پہلے ملک میں تقریباً 14000 ڈاکٹرز تھے جن میں جنرل پریکٹیشنرز اور مختلف شعبوں کے ماہرین شامل تھے اور اس تعداد کا نمایاں حصہ غیر ملکی ڈاکٹروں پر مشتمل تھا لیکن اب ملک میں 160,912 ڈاکٹرز ہیں جو کہ 11 گنا سے بھی زیادہ بڑھ چکے ہیں۔ . اس وقت تقریباً 60,000 ڈاکٹر جنرل ڈاکٹریٹ اور طبی معاونین تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اگر ہم انہیں بھی شامل کریں تو ملک میں ڈاکٹروں کی تعداد تقریباً دولاکھ ہوجائے گی اورغیر ملکی ڈاکٹروں کی ضرورت نہیں رہتی۔

 

4: خواتین ڈاکٹروں کی تعداد میں اضافہ

 

دشمنوں نے گزشتہ سال خاص طور پر ایران میں خواتین پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ خواتین اسلامی جمہوریہ ایران کے ڈھانچے میں ترقی نہیں کر رہی ہیں اور انہیں صنفی امتیاز یا تشدد کا سامنا ہے۔ لیکن درج ذیل اعدادوشمار ان دعووں کی مکمل تردید کرتے ہیں کہ صرف خواتین کی صحت سے متعلق شعبے میں 60% ماسٹر ڈگری حاصل کرنے والی خواتین ہیں۔ ڈاکٹریٹ کی سطح پر، 52% خواتین ہیں۔ اس وقت ایران میں خواتین ڈاکٹروں کی تعداد 71,000 تک پہنچ گئی ہے جو کہ انقلاب کے آغاز کے مقابلے میں 35 گنا زیادہ ہے۔ 1984 میں اسپیشلسٹ خواتین ڈاکٹروں کی تعداد تین تھی لیکن اب 1600 کے لگ بھگ ہے۔

 

5: صحت عامہ کے شعبے میں شاندار کامیابیاں

 

صحت عامہ کے میدان میں وبائی امراض کی روک تھام اور ان پر قابو پانا اسلامی جمہوریہ ایران کی گزشتہ 45 برسوں میں نمایاں کامیابیوں میں سے ایک ہے۔ صحت عامہ کے شعبے میں کالی کھانسی، تپ دق، چیچک، پولیو، بچوں کی تشنج، جذام، خسرہ، روبیلا اور خناق جیسی بیماریوں کا خاتمہ کیا گیا ہے اور اسہال کی بیماریوں پر قابو پایا گیا ہے اور دیگر متعدی امراض جیسے ہیپاٹائٹس اور شدید سانس کے انفیکشن وغیرہ کی روک تھام میں اہم کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔ 

 

6: فارماسیوٹیکل یا طبی ادویات کے شعبے میں ترقی

 

پہلوی دور حکومت میں ملک میں طبی آلات کے شعبے میں 50 کے قریب مینوفیکچرنگ کمپنیاں تھیں، جن میں سے تمام خام مال بیرون ملک سے درآمد کر کے ایران کے اندر اسمبل کرتی تھیں۔ یہ کمپنیاں ملک کی ضروریات کا صرف 3 فیصد فراہم کر پاتی تھیں۔ اسلامی انقلاب کے بعد، 500 سے زائد طبی سازوسامان بنانے والی کمپنیاں فعال ہیں اور ملک کی 80% سے زیادہ ضروریات فراہم کرتی ہیں۔ اس وقت ملک میں طبی آلات تیار کرنے والے یونٹ 8 ہزار سے زائد اقسام کے طبی آلات مختلف شعبوں میں تیار کرتے ہیں اور ملکی اور غیر ملکی مارکیٹوں کو فراہم کرتے ہیں۔ آج اسلامی جمہوریہ ایران خطے میں دواسازی کی پیداوار میں پہلے نمبر پر ہے اور ملک کو درکار ادویات کا 97 فیصد مقامی طور پر ہی پیدا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اب ایران ایشیا میں ادویات کی ریکومبیننٹ میں چوتھے نمبر پر ہے اور اب تک اس قسم کی 14 ادویات ملک میں تیار کی جا چکی ہیں۔ ریکومبیننٹ دوائی بنیادی طور پر لاعلاج بیماریوں جیسے کینسر، کچھ وائرل بیماریوں، ایم ایس اور ہیموفیلیا کے علاج میں استعمال ہوتی ہے۔

 

نتیجہ

 

طب اور صحت کے شعبوں میں حاصل ہونے والی پیش رفت سے ظاہر ہوتا ہے کہ گزشتہ 45 سالوں میں اسلامی جمہوریہ ایران کی اہم ترین ترجیحات میں سے ایک عوام کی زندگیوں پر توجہ دینا اور صحت کے اشاریوں کو بہتر بنانا ہے۔ 

 

لیکن اسلامی جمہوریہ ایران کے دشمن ان واضح اور ٹھوس کامیابیوں کا انکار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ قاب ذکر بات یہ ہے کہ ان شعبوں میں پیش رفت ایسی حالت میں ہوئی ہے جب ایران پر 8 سالہ جنگ مسلط کرنے کے ساتھ ساتھ مغرب بالخصوص امریکہ کی طرف سے ظالمانہ پابندیاں بھی لگائی گئیں اور یہ ناجائز اور ظالمانہ پابندیاں کورونا وائرس کے عروج کے دوران بھی رہیں لیکن رہبر معظم انقلاب کی جانب سے مختلف سائنسی شعبوں بالخصوص طبی میدان میں شاندارترقی پر تاکید کے سبب اسلامی جمہوریہ ایران نے ملک کی صحت عامہ کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دی۔ بلاشبہ یہ پیش رفت انقلاب اسلامی کے دوسرے مرحلے میں بھی جاری رہے گی۔

 

 

 

 

 

اسلام ٹائمز: آج آزادی اور آزادی کے سائے میں ایران علم و سائنس کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے اور مختلف سائنسی میدانوں میں دنیا کے 10 بہترین ممالک میں شامل ہے۔ اس تیز رفتار سائنسی ترقی نے دشمن کو ایرانی سائنسدانوں کو قتل کرنے اور اپنی غداری و خیانت کی گہرائی کو اور زیادہ ظاہر کر دیا ہے۔ دفاعی میدانوں میں سائنسی ترقی اس حد تک آگے بڑھی ہے کہ ایران کے دشمنوں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ انہیں ایک مضبوط فوج اور منظم جنگی سسٹم کا سامنا ہے، جو "ڈیٹرنس" کی سرحدیں عبور کرچکی ہے اور پیشگی حملے کی استعداد رکھتی ہے۔ ایران کی اس فوجی ترقی نے نیٹو جیسے اداروں کو نئے چیلنجوں سے دوچار کر دیا ہے۔

تحریر: محمد کاظم انبارلوی

 

1۔ اسلامی انقلاب کی سب سے بڑی کامیابیوں میں سے ایک ایران میں دینی حکومت کا قیام ہے۔ ایرانی عوام کا شمار دنیا کے سب سے زیادہ مذہبی لوگوں میں ہوتا ہے۔ شاہ ایران کے وقت لوگوں نے اپنے آپ سے سوال کیا کہ مٹھی بھر شرابی، کرپٹ اور ظالم لوگ ہم پر حکومت کیوں کریں؟ وہ لوگ جو محرم اور صفر کے دوران امام حسین علیہ السلام کے مقام و منزلت کی حفاظت اور عاشورا کے عبادات میں اپنی تمام تر کوششیں صرف کرتے تھے، وہ اپنے آپ سے سوال کرتے تھے کہ ایک بے لگام شخص ہم پر حکومت کیوں کرے؟ ایک مذہبی شخص اور دینی نظام ہم پر حکمران کیوں نہیں ہونا چاہیئے؟ امام خمینی (رح) نے اس مطالبے کو نظریہ ولایت فقیہ کی شکل میں پیش کیا اور لوگوں نے اپنا سب کچھ اس پر فدا کر دیا اور یوں اسلامی جمہوریہ قائم ہوا۔ اسلامی جمہوریہ سے مراد وہ لوگ ہیں، جو مسلمان ہیں اور چاہتے ہیں کہ خدا ان پر حکومت کرے اور اسلامی انقلاب کی فتح کا مطلب ہے کہ ایران میں اور ان شاء اللہ دنیا میں خدا کی حکومت کا آغاز! تب سے لے کر اب تک امریکہ کھلم کھلا اسلام اور ہماری قوم کے خلاف کھڑا ہے اور وہ چار دہائیوں سے زیادہ عرصے سے اپنی دشمنانہ روش سے باز نہیں آیا ہے۔

 

2۔ پچھلی دو صدیوں میں ملک کی آزادی، ارضی سالمیت اور علاقائی سالمیت ایرانی قوم کے اہم مطالبات میں سے ایک رہا ہے۔ قاجار اور پہلوی ادوار میں عالمی طاقتوں نے ایران پر حملہ کیا۔ آج کا ایران قاجار کے ابتدائی دور کے ایران کا ایک تہائی ہے۔اسلامی انقلاب ملک کے معاملات اور تقدیر میں غیر ملکیوں کے تسلط اور مداخلت کو قبول نہیں کرتا اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اسلامی انقلاب علاقائی سالمیت کے تحفظ اور خطے اور دنیا میں ایران کے اثر و رسوخ اور حکمت عملی کی گہرائی کو وسعت دینے کا آغاز تھا۔ آج عالمی استکبار دنیا بھر بالخصوص مغربی ایشیا میں اسلامی ایران کے حامیوں کی سیاسی اور قانونی یلغار کے دباؤ میں ہے۔ انقلاب اسلامی کے قائدین دنیا میں ایرانیوں کی عزت اور ملک کی آزادی اور ارضی سالمیت کے علمبردار ہیں اور یہ ایران کی عصری تاریخ میں واضح طور پر درج ہے۔ تمام عالمی مبصرین تسلیم کرتے ہیں کہ آج کا سیاسی، ثقافتی اور عسکری ایران اس سرزمین کے قدرتی جغرافیہ سے کہیں بڑا ہے۔

 

3۔ آج ایران میں سب سے زیادہ مقبول و عوامی حکومت ہے اور ایران دنیا کا سب سے آزاد ملک ہے۔ آزادی گویا پہلوی اور قاجار کے دور کا کھویا ہوا خزانہ ہے۔ انسانی وقار کو ظلم کے بوٹ تلے روند دیا گیا تھا۔ آج آزادی کے مخالفین اور ظلم کے حامی اپنے اصلی وطنوں یعنی امریکہ، انگلستان اور فرانس کی طرف ہجرت کرچکے ہیں اور سی آئی اے، موساد اور ایم آئی 6 کی سرمایہ کاری سے 250 ٹیلی ویژن اور سیٹلائٹ چینلز سے ایران کے خلاف پروپیگنڈا کر رہے ہیں۔ انقلاب کے بعد ایران میں 40 سے زائد انتخابات کے انعقاد نے مذہبی جمہوریت کو تقویت دی ہے اور ایران سے ظلم کو نکال باہر کیا ہے۔

 

4۔ آج آزادی اور آزادی کے سائے میں ایران علم و سائنس کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے اور مختلف سائنسی میدانوں میں دنیا کے 10 بہترین ممالک میں شامل ہے۔ اس تیز رفتار سائنسی ترقی نے دشمن کو ایرانی سائنسدانوں کو قتل کرنے اور اپنی غداری و خیانت کی گہرائی کو اور زیادہ ظاہر کر دیا ہے۔ دفاعی میدانوں میں سائنسی ترقی اس حد تک آگے بڑھی ہے کہ ایران کے دشمنوں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ انہیں ایک مضبوط فوج اور منظم جنگی سسٹم کا سامنا ہے، جو "ڈیٹرنس" کی سرحدیں عبور کرچکی ہے اور پیشگی حملے کی استعداد رکھتی ہے۔ ایران کی اس فوجی ترقی نے نیٹو جیسے اداروں کو نئے چیلنجوں سے دوچار کر دیا ہے۔

 

5۔ پورے ملک میں مدارس کی توسیع اور مساجد اور حسینیہ کی ترقی کی ایران کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ اب صوبوں کے مراکز حتیٰ کہ چھوٹے شہروں میں بھی دینی مدارس ہیں۔ نوجوان اور انقلابی طلبہ کی تربیت دینی نظام تعلیم کے ایجنڈے میں شامل ہے۔ قم، مشہد اور دیگر بڑے شہروں میں سو سے زائد ممالک کے طلباء زیر تعلیم ہیں۔ اس سال ملک بھر کی 70 ہزار مساجد میں 10 لاکھ سے زائد افراد نے اعتکاف کی روحانی عبادت میں شرکت کی۔ تین دن کے اعتکاف کے بعد انہوں نے اپنی عبادت کی خوشبو سے ملک کی روحانی فضا کو معطر کیا۔

 

6۔ دشمن نے ایرانی قوم کو تباہ کرنے اور مفلوج کرنے والی پابندیاں لگا رکھی ہیں۔ انہوں نے عالمی ایٹمی معاہدے کے تمام وعدے پس پشت ڈال دیئے۔ آج ایران میں ایک ایسی حکومت ہے، جس نے عوام کی مرضی سے پابندیوں کو عبور کیا ہے۔ ایران ایف اے ٹی ایف کے بغیر، اپنا تیل بیچتا ہے اور اس کا پیسہ ملک کو لوٹاتا ہے۔ دشمن کے کارٹل اور ٹرسٹ اس نظام کے خلاف کمربستہ ہیں۔ آج حکومت نے بند اور نیم بند فیکٹریوں اور اقتصادی اداروں کو شروع کرکے پیداوار کا پہیہ متحرک کر دیا ہے اور خالی دھمکیوں کو نظر انداز کرکے آگے بڑھنے کا عزم بالجزم کیا ہے۔ اسلامی انقلاب کی کامیابیاں بے شمار ہیں۔ مذکورہ چھ نکات انتہائی ٹھوس، واضح اور عملی کامیابیاں ہیں، جن کا اختصار سے ذکر کیا گیاہے 

 

 

 

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے پیر 5 فروری کی صبح ملک کی فضائيہ اور فوج کے ائير ڈیفنس شعبے کے بعض کمانڈروں سے ملاقات میں امریکا کی جانب سے صیہونی حکومت کی پشت پناہی سے غزہ میں سامنے آنے والے انسانیت سوز مظالم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے صیہونی حکومت پر کاری ضرب لگائے جانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

8 فروری سن 1979 کو فضائيہ کے ایک خصوصی دستے 'ہمافران' کی جانب سے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی تاریخی بیعت کی سالگرہ کے موقع پر ہونے والی اس ملاقات میں انھوں نے اس واقعے کو، انقلاب کو رفتار عطا کرنے والا عنصر بتایا اور اس میں اہم افراد اور خواص کے کردادر کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ انقلاب کے اہداف کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ضروری رفتار پیدا کرنے میں خواص کے کندھوں پر بھاری ذمہ داری ہے۔

 

رہبر انقلاب اسلامی نے خواص کو معاشرے کے بڑے اور بامقصد کاموں کو رفتار عطا کرنے والے حقیقی افراد بتایا اور کہا کہ خواص سے مراد وہ لوگ ہیں جو قوم کے ہر طبقے میں غور و فکر، شناخت اور امور کے تعین کی قوت کے ساتھ کام کرتے ہیں اور اپنے آس پاس کے ماحول کی اندھی تقلید کیے بغیر پوری شجاعت کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو بر وقت پورا کرتے ہیں۔

 

انھوں نے ظلم اور ظالم سے مقابلے، دنیا بھر کے منہ زوروں کے مقابلے میں ڈٹ جانے، عوام کی دنیا اور ملک کے مستقبل پر توجہ اور ساتھ ہی روحانیت پر مکمل توجہ جیسے اسلامی انقلاب کے اندرونی پرکشش عناصر کو، نئی نئی پیشرفتوں کا سبب بتایا اور کہا کہ ان ذاتی پرکشش امور کے باوجود انقلاب اور ملک کو رفتار عطا کرنے والے عناصر کی ضرورت ہے تاکہ بڑے بڑے کاموں میں ہماری رفتار دھیمی نہ پڑنے پائے۔

 

آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے کہا کہ جو بھی یونیورسٹی والوں، اسٹوڈنٹس، سیاستدانوں، علمائے دین، تاجروں، میڈیا والوں، سپاہیوں اور کسی بھی دوسرے طبقے کے درمیان مسائل کے ادراک اور دوست اور دشمن کی محاذ آرائی کی شناخت کے ساتھ کام کرتا ہے، وہ خواص میں شامل ہے۔

 

انھوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ دشمن محاذ نے خواص کے لیے ایک خاص پروگرام تیار کر رکھا ہے، کہا کہ دشمن کا ہدف یہ ہے کہ خواص شک وشبہے میں پھنس کر اور دنیوی لذتوں میں گرفتار ہو کر ضروری اور حساس مواقع پر، ضروری کام نہ کریں اور رفتار عطا کرنے کا اپنا کردار ادا نہ کر سکیں۔

 

انھوں نے اس سازش کے مقابلے میں تشریح و بیان کے جہاد اور بدخواہوں کی جانب سے شکوک و شبہات پھیلانے کی کوشش کو ناکام بنائے جانے کو خواص کی ذمہ داری بتایا۔

 

رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ خواص کی ذمہ داری حقائق کو صاف صاف بیان کرنا اور ذو معنی باتوں سے پرہیز کرنا ہے۔ انھوں نے کہا کہ آج علماء، دانشوروں، سیاستدانوں اور میڈیا والوں سمیت عالم اسلام کے خواص کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کا ایک سنجیدہ میدان، غزہ کا موضوع ہے۔

 

انھوں نے امریکا کی جانب سے صیہونی حکومت کی پشت پناہی سے غزہ میں سامنے آنے والے انسانیت سوز مظالم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے صیہونی حکومت پر کاری ضرب لگانے کے لیے مسلم اقوام کے اندر اپنی حکومتوں سے ایک عمومی مطالبہ پیدا کرنے کو اہم شخصیات اور خواص کی اہم ذمہ داری بتایا اور کہا کہ کاری ضرب کا مطلب صیہونی حکومت کے خلاف جنگ میں شامل ہو جانا نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب صیہونی حکومت سے معاشی اور اقتصادی تعلقات منقطع کر لینا ہے۔

 

رہبر انقلاب اسلامی نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ اقوام میں، حکومتوں کو صحیح ڈگر پر لانے اور انھیں صیہونی حکومت کی حمایت اور پشت پناہی ختم کرنے پر مجبور کرنے کی صلاحیت پائی جاتی ہے، کہا کہ اگرچہ یہ ظالم اور بھیڑیا صفت حکومت عورتوں، بچوں اور بیماروں پر حملے کر رہی ہے اور اس نے ہزاروں لوگوں کو قتل کر دیا ہے لیکن اس کے باوجود بعض اسلامی ممالک نہ صرف اس کی معاشی مدد کر رہے ہیں بلکہ یہاں تک سننے میں آیا ہے کہ وہ صیہونی حکومت کو ہتھیار بھی دے رہے ہیں۔

 

آيت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے اپنے خطاب کے ایک دوسرے حصے میں فضائيہ کے بعض اہلکاروں کی جانب سے 8 فروری 1979 کو امام خمینی کی بیعت کے حیرت انگیز واقعے کو کبھی نہ ختم ہونے والے سبق اور عبرت کا حامل بتایا اور کہا کہ فضائیہ کے اہلکار اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے اس مخلصانہ اور شجاعانہ کام کے ساتھ، انقلاب سے جڑنے میں سب سے آگے ہو گئے اور 22 بہمن مطابق 11 فروری کو اسلامی انقلاب کی کامیابی میں انھوں نے رفتار بڑھانے والے انتہائی اہم عنصر کا کردار ادا کیا۔

 

انھوں نے طاغوت اور آمریت کے دور کی فضائيہ کو کمان، پالیسی اور ہتھیاروں کے لحاظ سے پوری طرح امریکیوں کے کنٹرول میں اور ان کا تابع فرمان ادارہ بتایا اور کہا کہ مومن اور انقلابی اہلکاروں نے خود کفالت کے جہاد کے ذریعے فضائیہ کو امریکا کی ملکیت سے باہر نکالا اور اسے پوری طرح ایک ایرانی فورس میں تبدیل کر دیا۔

 

رہبر انقلاب اسلامی نے 22 بہمن (11 فروری) اور اسلامی انقلاب کی کامیابی کی سالگرہ کے قریب آنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ پچھلے 45 برس عوام بغیر کسی ناغے کے ملک کے تمام شہروں اور دیہی علاقوں میں سڑکوں پر آئے ہیں اور نعرے لگا کر انھوں نے اپنے انقلاب کا دفاع کیا ہے اور امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی پیروی اور ان سے بیعت کا اعلان کیا ہے، اسی طرح اس سال بھی عزیز عوام 22 بہمن کی ریلیوں میں، جو قومی اقتدار کی ایک نشانی ہے، بھرپور طریقے سے شرکت کریں گے۔

 

 

 

ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمارے رہبر و رہنماء معصومین ہیں، یعنی ایسی ہستیاں اور شخصیات جن کا کردار و عمل، جن کا سونا جاگنا، جن کا کھانا پینا، جن کا چلنا پھرنا، جن کا بولنا اور چپ رہنا، جن کا ہر ہر عمل رہتی دنیا تک اسوہ کی حیثیت سے موجود رہیگا اور کسی کو جراءت نہ ہوگی کہ وہ ان کے کسی بھی عمل پہ انگلی اٹھائے۔ پروردگار عالم نے یہ کائنات خلق کی، اس میں انسانوں کی رہنمائی کیلئے اپنے پسندیدہ بندوں کو بھیجا، انبیاء، اوصیاء، آئمہ، اولیاء کا ایک سلسلہ قائم کیا۔ ہماری خوش بختی ہے کہ ہم نے اس دامن کو پکڑا، جو کامل و اکمل اسوہ کی صورت ہمارے رہبر و رہنماء اور منتخب ہیں۔ رسول خدا ؐکی ذات اقدس اور ان کے بعد امیر المومنین علی ابن ابی طالب ؑ کی ہستی، جن کے فضائل و مناقب اور عظمت و بلندی کا اندازہ لگانا ممکن نہیں۔

ان کی ذات گرامی کیساتھ ہم خود کو مربوط و منسلک کرتے ہیں، ان سے محبت کے دعوےدار ہیں، ان سے حب اور عقیدت کا اظہار کرتے ہیں، بالخصوص جب ان کے ایام ہائے ولادت و شہادت ہوتے ہیں تو ہم اپنے اپنے انداز سے محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ ہمیں معصومین ؑ کی سیرت و کرادر کو نمایاں کرنا چاہیئے۔ نئی نسل تک ان کی زندگیوں کے روشن پہلوئوں کو عملی شکل میں دکھانا چاہیئے کہ عمل ہی اصل تبلیغ و ترویج ہوتا ہے، زبانی کلامی باتوں کا اثر وقت ہوتا ہے۔ رسول اللہ ؐکے فرامین کی روشنی میں یہ امر مسلم ہے کہ قرآن اور اہل بیت ؑایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں اور دونوں مل کر انسانوں کی ہدایت و راہنمائی کے لئے مینارہ نور ہیں۔

ان کے دامن سے تمسک ہی ابدی سعادت و کامیابی کی ضمانت ہے، کیونکہ آنحضرتؐ نے اپنی مشہور حدیث ثقلین میں ارشاد فرما دیا: "انی اوشک ان ادعی فاجیب، وانی تارک فیکم الثقلین: کتاب اللہ، وعترتی، کتاب اللہ حبل ممدود من السماالی الارض، وعترتی اھل بیتی، وان اللطیف الخبیر اخبرنی انہما لن یفترقا حتی یردا علی الحوض فانظرونی بما تخلفونی فِیھِما" یعنی: "مجھے جلدی دعوت دی جانے والی ہے اور میں اس پر لبیک کہنے والا ہوں، میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں، ایک اللہ کی کتاب اور دوسری میری عترت، کتاب الہیٰ آسمان سے زمین تک لٹکی ہوئی رسی ہے۔ میری عترت، میرے اہل بیت ہیں اور لطیف و خبیر اللہ نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ دونوں ہرگز جدا نہ ہوں گے، یہاں تک کہ میرے پاس حوض (کوثر) تک پہنچ جائیں۔ پس تم دیکھنا میرے بعد ان کے ساتھ کیا سلوک کرو گے۔"

علی علیہ السلام اہل بیتؑ کی اہم شخصیت ہیں، اس حدیث میں انہیں اور قرآن کو لازم و ملزوم اور علی ؑکو قرآن کے ہم پلہ قرار دیا گیا ہے۔ اِسی مطلب کو پیغمبر اسلامؐ نے اپنی ایک اور حدیث میں یوں بیان فرمایا ہے: "علی مع القرآن، والقرآن مع علی، لا یفترقان حتی یردا علی الحوض" یعنی: "علی ؑ قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن علیؑ کے ساتھ ہیں، یہ دونوں آپس میں جدا نہ ہوں گے، یہاں تک کہ میرے پاس حوض پر پہنچ جائیں۔" وصی رسول، امیر کائنات امام علی علیہ السلام کا جتنا بھی مقام و منزلت ہے، وہ ہم سب جانتے ہیں، پہچانتے ہیں۔ ان کی طرف رجوع کریں تو آپ ؑ اپنی ساری عزت اور شرف کو اس طرح سے بیان کر رہے ہیں آپ فرماتے ہیں: "إِلَهِی کَفَی بِی عِزّاً أَنْ أَکُونَ لَکَ عَبْداً وَ کَفَی بِی فَخْراً أَنْ تَکُونَ لِی رَبّاً أَنْتَ کَمَا أُحِبُّ فَاجْعَلْنِی کَمَا تُحِبُّ"، "اللہ میری عزت کے لئے کہ بس یہی کافی ہے کہ میں تیرا بندہ ہوں اور میرے فخر کے لئے یہی بہت ہے کہ تو میرا رب ہے تو ویسا ہی ہے، جیسا میں چاہتا ہوں اور مجھے بھی ویسا قرار دے جیسا تو چاہتا ہے۔"

امام نے ہمیں یہ بتا دیا کہ ساری عزت خدا کا بندہ ہونے میں ہے، اس سے بڑھ کر کوئی عزت نہیں ہے اور ہمارا سب سے بڑا فخر یہی ہے کہ خدا ہمارا رب ہے، مولائے کائنات کے فضائل کو آپ کی شجاعت و سخاوت وغیرہ کے بارے میں ہم بہت پڑھتے اور سنتے ہیں، لیکن اگر ہمیں موقع اور فرصت ملے تو آپ کی عبادت کے بارے میں بھی غور کریں تو سمجھ میں آئے گا کہ آپ سے بڑا کوئی عابد نہیں ہے، زین العابدین اور سید الساجدین اگرچہ چوتھے امام کا لقب ہے، لیکن جب آپ عبادت کرتے کرتے تھک جاتے تھے اور آپ کے چہرے کا رنگ بدل جاتا تھا، آپ سے کہا جاتا تھا کہ آخر آپ اتنی عبادت کیوں کرتے ہیں تو آپ فرماتے تھے: "من یقوی علی عبادة علی (ع)"، "علی علیہ السلام کی طرح کون عبادت کرسکتا ہے۔" اگرچہ آپ ہر لحظہ بارگاہ خداوندی میں خود کو حاضر پاتے تھے، مگر نماز کے وقت بارگاہ خداوندی میں جاتے ہوئے ان کے چہرے کا رنگ بدل جاتا تھا۔

ایک روایت کہیں پڑھی ہے کہ اصبغ ابن نباتہ بیان کرتے ہیں کہ ضرار بن ضمرہ معاویہ کے پاس گئے تو اس نے کہا کہ علی کی تعریف کرو، ضرار تعریف کرنا شروع کرتے ہیں اور تعریف کرتے کرتے کہتے ہیں: "رَحِمَ اَللَّهُ عَلِيّاً كَانَ وَ اَللَّهِ طَوِيلَ اَلسَّهَادِ قَلِيلَ اَلرُّقَادِ يَتْلُو كِتَابَ اَللَّهِ آنَاءَ اَللَّيْلِ وَ أَطْرٰافَ اَلنَّهٰارِ وَ لَوْ رَأَيْتَهُ إِذْ مُثِّلَ فِي مِحْرَابِهِ وَ قَدْ أَرْخَى اَللَّيْلُ سُدُولَهُ وَ غَارَتْ نُجُومَهُ وَ هُوَ قَابِضٌ عَلَى لِحْيَتِهِ يَتَمَلْمَلُ تَمَلْمُلَ اَلسَّلِيمِ وَ يَبْكِي بُكَاءَ الحزین قَالَ فَبَكَى مُعَاوِيَةُ وَ قَالَ حَسْبُكَ يَا ضِرَارُ كَذَلِكَ كَانَ وَاَللَّه عَلِيٌّ رَحِمَ اَللَّهُ أَبَا اَلْحَسَنِ" (امالی صدوق ص 625 ناشر- کتابچی تہران): "خدا علی پہ رحمت نازل کرے، وہ رات کو زیادہ جاگتے تھے اور کم سوتے تھے۔ پوری رات اور دن میں بھی قرآن کی تلاوت کرتے تھے، اگر علی کے اوپر نظر ڈالتے تو وہ محراب میں نظر آتے اور جب رات ہو جاتی تھی تو اپنی ریش مبارک کو ہاتھوں میں لئے ہوئے ایسے تڑپتے تھے، جس طرح سانپ کا کاٹا ہوا تڑپتا ہے اور کوئی غم رسیدہ گریہ کرتا ہے، ضرار تعریف کرتے جا رہے تھے کہ ایک مرتبہ معاویہ رونے لگا اور کہتا ہے کہ ضرار بس کرو، خدا کی قسم علی ایسے ہی تھے۔ خدا ابوالحسن کے اوپر رحمت نازل کرے۔"

مولائے متقیان امام علی ابن ابی طالب ؑ کی زندگی کے جس گوشے پر بھی نظر دوڑائیں ہم حیرت کدہ میں داخل ہو جائیں گے۔ آپ کی ہستی ہی ایسی ہے، جس پر لوگوں نے خدا ہونے کا گمان کیا، جبکہ بندگی و اطاعت ایسی کہ خود آئمہ طاہرین بیان کرتے ہوئے یہ فرماتے ہیں کہ کوئی ان کی عبادت تک نہیں پہنچ سکتا۔ اگرچہ آپ نے فرمایا کہ: "میں نے تیری عبادت نہ ہی جنت کے لالچ میں کی ہے اور نہ ہی جہنم کے خوف سے بلکہ تجھے لائق عبادت پایا، اس لئے تیری عبادت کی۔" افسوس کہ ایسی ہستی سے خود کو منسوب کرنے والے، امیر المومنین ؑسے نسبت کی بنا خود کو مومنین میں شمار کرنے کے دعویدار اس قدر گمراہی کے راستے پر چلتے دکھائی دیتے ہیں کہ دشمنان تشیع، دشمنان اہلبیت کو انگلیاں اٹھانے کا موقعہ ملتا ہے۔

دشمنان مکتب و مذہب جعفریہ کو طعن دیں، مذہب پر سوال اٹھائیں، جشن کے نام پر رجب و شعبان میں اب بہت زیادہ بے ہودگی، غیر اسلامی، غیر قرآنی امور سرانجام پاتے ہیں، ایسے امور جن کا کسی امام، کسی معصوم، کسی ہستی کے اسوہ زندگی میں سوچنا بھی گناہ کے زمرے میں آتا ہے۔ آخر ایسا مکتب جعفری کے نام پر کیوں کیا جاتا ہے۔ اپنے ذاتی خیالات، ذاتی انداز، ذاتی عقیدت کے انداز کو مکتب سے منسوب کرکے کیوں پیش کیا جاتا ہے۔ کیا اس کی اجازت ہونا چاہیئے، میں تو کہوں گا کہ ہرگز نہیں۔ ایسے لوگوں کو ملت سے کھل کر جدا کرنا چاہیئے، ان سے لاتعلقی سامنے لائی جائے، تاکہ دشمن کو زبان درازی کا موقعہ نہ ملے اور جہاں کہیں بھی جشن برپا کیا جائے، اس میں اسلامی، امامی، جعفری ثقافت کو نمایاں کیا جائے، بالخصوص آئمہ کی سیرت و کردار کو اجاگر کیا جائے۔

اہل علم، اہل محراب و منبر کو چاہیئے کہ وہ میدان میں نکلیں، ایسے معاملات میں جتنی تاخیر کریں گے، معاشرے میں خرابیاں جڑ پکڑیں گی اور بدعات، خرافات قوی ہو جائیں گی۔ جن کو وقت گزرنے کیساتھ دین کا حصہ بنا لیا جائے گا، تب جو نسل ہوگی، وہ کسی کی بھی نہیں سنے گی۔ لہذا آج کردار ادا کرنا ہوگا، میدان میں نکلنا ہوگا، معاشرہ کو آلودہ ہونے سے بچانے کیلئے وقت، مال، توانائی، خرچ کرنا پڑے تو گریز نہیں کرنا چاہیئے۔ یہی اسوہ امیر المومنین و آؑئمہ طاہرین ؑہے۔

ایکنا نیوز- رہبری ویب سائٹ کے مطابق رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے انقلابی تحریک اور مسلط کردہ جنگ کے دوران جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے تہران کے شہدا کی یاد میں کانفرنس منعقد کرنے والی کمیٹی کے ارکان سے خطاب کرتے ہوئے غزہ جیسے انتہائی اہم مسئلے پر اسلامی ملکوں کے رویہ اور کارکردگی پر تنقید کی۔

 

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اسلامی ممالک کے حکام نامناسب رویہ اور غزہ کے باشندوں کے سامنے تمام تر مشکلات اور مصائب و آلام کے باوجود، جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے، اللہ صاحبان ایمان کے ساتھ ہے اور جہاں بھی ہوں گے وہ فاتح اور کامیاب رہیں گے۔

 

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ غزہ کے عوام کی فتح اور کامیابی یقینی ہے اور خداوند عالم عنقریب یہ فتح و کامرانی امت مسلمہ کو دکھائے گا اور پوری دنیا کے مسلمان اور خاص طور پر فلسطین اور غزہ کے عوام کے دل خوش ہوجائیں گے۔

 

سحرنیوز/ ایران: ہمارے نمائندے کی رپورٹ کے مطابق تہران چیمبر آف کامرس اینڈ انڈٹسٹریز اور کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے ایک مشترکہ بیان میں اعلان کیا ہے کہ وہ ایران اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے کے لیے سفارتی اقدامات کی حمایت کرتے ہیں۔

اس مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ تاریخی پرامن بقائے باہمی کے ساتھ ساتھ دونوں ہمسایہ ممالک کی باہمی اور مسلسل حمایت خطے کی مشترکہ خوشحالی اور ترقی کی راہ ہموار کرے گی۔

فلسطین میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس نے ایک بیانیہ جاری کیا ہے جس میں 7 اکتوبر 2023ء کے روز غاصب صیہونی رژیم کے خلاف طوفان الاقصی آپریشن انجام دینے کی وجوہات بیان کی گئی ہیں۔ اس بیانیے کا عنوان ہے "یہ ہے ہماری کہانی، طوفان الاقصی کیوں؟" اس بیانیے میں آیا ہے: قابض اور استعماری طاقتوں کے خلاف ہماری جدوجہد کا آغاز 7 اکتوبر کے دن نہیں ہوا بلکہ 105 برس پہلے ہوا ہے۔ ہماری ملت تیس برس تک برطانوی سامراج کے پنجوں میں جکڑی رہی اور اس کے بعد گذشتہ 75 برس سے غاصب صیہونی رژیم کے ناجائز قبضے کا شکار ہے۔ ہماری قوم نے گذشتہ کئی عشروں کے دوران مختلف قسم کے دھونس، ظلم و ستم، بنیاد حقوق سے محرومیت اور نسل پرستانہ متعصبانہ پالیسیوں کا سامنا کیا ہے۔ غزہ کی پٹی گذشتہ 17 برس سے شدید ترین گھیراو اور محاصرے کا شکار ہے جس کے نتیجے میں وہ دنیا کا سب سے بڑا کھلا زندان بنا ہوا ہے۔
 
غزہ کی پٹی اب تک پانچ تباہ کن جنگوں سے روبرو ہو شکی ہے اور ہر بار ان جنگوں کا آغاز اسرائیل کی صیہونی رژیم نے کیا ہے۔ 2000ء سے لے کر ستمبر 2023ء تک 11 ہزار 299 فلسطینیوں کو شہید جبکہ 1 لاکھ 56 ہزار 767 فلسطینیوں کو زخمی کیا جا چکا ہے جن میں اکثریت عام شہری ہیں۔ اقوام متحدہ میں غاصب صیہونی رژیم کا نمائندہ دنیا کے مختلف ممالک کے نمائندوں کے سامنے ہیومن رائٹس کونسل کی رپورٹ پھاڑ کر پھینک دیتا ہے۔ غاصب صیہونی رژیم نے مغربی کنارے میں غیر قانونی یہودی بستیاں تعمیر کر کے اور اس خطے کو یہودیانے کے ذریعے عملی طور پر ایک آزاد اور خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کا امکان ہی ختم کر ڈالا ہے۔ کیا ایسے حالات میں ہماری قوم سے یہ توقع کی جا رہی تھی کہ وہ اقوام متحدہ اور اس سے وابستہ دیگر ناچار عالمی تنظیموں سے امید لگا کر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہے؟
 
طوفان الاقصی آپریشن، مسئلہ فلسطین اور فلسطین کاز کے خاتمے کیلئے انجام پانے والی سازشوں کا مقابلہ کرنے کیلئے ایک فطری ردعمل اور ضروری اقدام تھا۔ طوفان الاقصی فلسطینی سرزمین پر تل ابیب کے قبضے اور مسجد اقصی پر صیہونیوں کی حاکمیت قائم کرنے کیلئے جاری منصوبوں کا مقابلہ کرنے کیلئے انجام پایا۔ طوفان الاقصی غزہ کے ظالمانہ محاصرے کو ختم کرنے کیلئے ضروری عمل تھا اور غاصب صیہونی رژیم کے تسلط سے رہائی پانے کیلئے ایک فطری اقدام تھا۔ یہ آپریشن دیگر اقوام کی طرح ہماری قوم کی آزادی اور خودمختاری کے حصول کیلئے نیز اپنی تقدیر کا فیصلہ خود کرنے کیلئے قدرتی عمل تھا۔ طوفان الاقصی قدس شریف کی مرکزیت میں خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کیلئے فطری اقدام تھا۔ سات اکتوبر کے دن انجام پانے اس آپریشن نے صیہونی فوجی ٹھکانوں کو نشانہ بنایا اور اپنے قیدیوں کی آزادی کیلئے انہیں اسیر بنایا گیا۔
 
طوفان الاقصی آپریشن کی توجہ کا مرکز صیہونی فوج کی کور "غزہ" اور غزہ کی پٹی کے قریب واقع دیگر صیہونی فوجی ٹھکانے تھے۔ سویلین افراد خاص طور پر خواتین، بچوں اور بوڑھوں کو نشانہ نہ بنانا ہماری مذہبی اور اخلاقی ذمہ داری تھی جس کی روشنی میں حماس کے فرزندان کی تربیت ہوئی ہے۔ ہماری مزاحمت دین مبین اسلام کے قوانین اور احکامات کی پابند ہے اور ہمارے مجاہدین صرف قابض صیہونی فوجیوں اور اپنے خلاف اسلحہ اٹھانے والے افراد کو نشانہ بناتے ہیں۔ اگرچہ ہمارے پاس جدید ٹارگٹڈ فوجی ہتھیار موجود نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود ہم سویلین افراد اور ایسے افراد جو ہمارے خلاف اسلحہ نہیں اٹھاتے، کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم نے جنگی اسیروں سے غزہ میں بہت اچھا سلوک روا رکھا ہے اور پہلے دن سے انہیں جلد از جلد آزاد کرنے کی کوشش کی ہے۔
 
صیہونی رژیم کی جانب سے یہ پروپیگنڈہ کہ قسام کے مجاہدین نے 7 اکتوبر کے دن اسرائیلی سویلینز کو نشانہ بنایا ہے سو فیصد جھوٹ اور بہتان پر مشتمل ہے۔ ہمارے مجاہدین نے ہر گز سویلین افراد کو نشانہ نہیں بنایا بلکہ ان کی بڑی تعداد صیہونی فوج اور پولیس کے ہاتھوں قتل ہوئی ہے۔ صیہونی دشمن نے ہم پر چالیس شیر خوار بچوں کو قتل کرنے کا جھوٹا الزام لگایا جسے ہم نے سختی سے مسترد کر دیا۔ اسی طرح اسرائیلی خواتین کو زیادتی کا نشانہ بنانے کا شرمناک الزام بھی عائد کیا گیا جو سراسر جھوٹ پر مبنی ہے۔ غزہ پر صیہونی جارحیت کے نتیجے میں اسرائیلی یرغمالیوں کی بڑی تعداد ہلاک ہو چکی ہے۔ طوفان الاقصی کے روز بعض مسلح یہودی آبادکاروں نے مزاحمت کی اور مجاہدین کے ہاتھوں ہلاک ہوئے جنہیں صیہونی رژیم نے عام شہری کے طور پر پیش کیا تھا۔ اگر اس بارے میں درست اور غیرجانبدار تحقیق انجام پائے تو ہمارا دعوی ثابت ہو جائے گا۔
 
ہم دنیا کے بڑے ممالک خاص طور پر امریکہ، جرمنی، کینیڈا اور برطانیہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ فلسطین میں انجام پانے والے جرائم کی تحقیق کریں۔ ہم انٹرنیشنل کریمینل کورٹ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ فلسطین میں انجام پانے والے تمام مجرمانہ اقدامات اور قانون کی خلاف ورزیوں کی تحقیق کیلئے فوری طور پر یہاں تشریف لائیں۔ یہ ممالک اس حقیقت کا اعتراف نہیں کرنا چاہتے کہ مشکلات اور بحرانوں کی اصل وجہ ناجائز قبضہ اور ہماری قوم کو آزادانہ زندگی کے حق سے محروم کرنا ہے۔ اپنی سرزمین پر غاصبانہ اور ناجائز قبضے کے خلاف مزاحمت ہمارا شرعی اور قانونی حق ہے۔ غاصب صیہونی حکمرانوں کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔ صیہونی رژیم کی حامی عالمی طاقتوں کے دوغلے اور منافقانہ معیاروں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی جائے۔ ملت فلسطین اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کر سکتی ہے اور کسی کو اس کی تقدیر کا فیصلہ کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔
 
 
 
Monday, 22 January 2024 15:48

مسلمان عورت کي عزّت

اسلام نے عورت کو  بہت اعلي مقام عطا کيا ہے اور آج کے جديد دور ميں مغربي خواتين کي حالت زرا ديکھ کر بخوبي اندازہ لگايا جا سکتا ہے کہ اسلام نے عورت کو کس قدر تحفظ فراہم کيا ہے - مسلمان عورتوں کو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ ہمارے مذہب اسلام نے جو عزت دي ہے غير مسلم معاشرے اسکا تصور بھي نہيں کرسکتے يہاں ہر حيثيت ميں عورتوں کي عزت کي جاتي ہے چاہے ماں ہو يا بيوي،بيٹي يا بہن- جب ہم مغرب ميں عورت کي بے بسي ديکھتي ہيں تو اسلام ميں اسکي حيثيت پر رشک کرتي ہيں-اسي طرح مسلم عورت کو عزت و آبرو کي حفاظت کا حق، نکاح سے گلو خلاصي کا حق اور علم حاصل کرنے کا حق ہے جس کے تحت عورت مذہبي اور عصري تعليم اسي طرح حاصل کرسکتي ہے، جس طرح مرد حاصل کرتے ہيں ، اسلام جہيز دينے کي حوصلہ افزائي نہيں کرتا پھر بھي جو لوگ ديتے ہيں وہ لڑکي کے لئے ہوتا ہے جبکہ دوسرے سماجوں ميں جہيز مردوں کا حق ہو جاتا ہے، اسلام نے عورتوں کي جسماني (فزيکلي) کمزوري کا اندازہ لگا کر انہيں خاوند اور اولاد کے علاوہ، خاندان کے دوسرے افراد کي خدمت سے مبرا رکھا ہے، يہاں تک کہ عورت پر گھر کے کام و کاج کي ذمہ داري بھي عائد نہيں ہوتي، ايسے مثالي حقوق و اختيارات کے باوجود مسلم عورتيں اگر آج پسماندگي کا شکار ہيں اور ان سے ہمدردي کے جاوبے جا اظہار کي ضرورت پيش  آ رہي ہے تو اس کي ايک وجہ تو وہي ہے جو پہلے بيان کي گئي يعني مسلم قوم کي عام غريبي، مسلم عورتوں کو با اختيار و طاقتور بنانے کے ساتھ ساتھ عام مسلم مردوں کي بدحالي کي فکر بھي ہونا چاہئے، ان کے بھوکے پيٹ، کمزور جسم اور تعليم سے محروم بچوں کا خيال بھي ضروري ہے کيونکہ اس سچائي سے انکار نہيں کيا جا سکتا کہ جب تک عام مسلمانوں کا حال درست نہيں ہو گا، ان کا معيار زندگي بہتر نہ بنے گا، نہ ان کي عورتوں کي حالت سدھرے گي ، نہ وہ اپنے بال بچوں کو پڑھا لکھا سکيں گي-

’ مسلمان عورتوں کو ايک بنيادي فيصلہ کرنا ہے کہ کيا ہم مغربي معاشرت اور اسکے زير اثر پروان چڑھنے والے حقوقِ نسواں کي عالمي تحريکوں کا حصہ بننا چاہتي ہيں يا اسلام کے عطا کردہ حقوق کے حصول کيلئے تحريک بپا کرنا ہے؟‘‘اس کيلئے ضروري ہوگا کہ ہم ان نظريات ،تخيلات سے اپنے دماغوں کو خالي کرليں جو ہم نے مغرب سے مستعار لے رکھے ہيں- ہميں اسلامي تصورات کو غير اسلامي تصورات ميں خلط ملط ہونے سے بچانا ہوگا- اور اپنے معاشروں اور آئندہ نسلوں کو بگاڑ سے بچانے کيلئے عورتوں اور مردوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا-

 


 

Thursday, 18 January 2024 06:18

جنگ کب ختم ہوگی؟

غزہ کے خلاف صیہونی حکومت کی جنگ کو سو سے زیادہ دن گزر چکے ہیں، لیکن ابھی تک اس جنگ کے خاتمے کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا ہے۔ کینیڈا کے مفکر مائیکل بریچر اپنی کتاب "کرائسز ان ورلڈ پولیٹکس" میں بحران کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں، ایک ایسی صورت حال جس میں ممالک کی اہم اقدار اور مفادات کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔ اسی طرح جب کوئی بحران آتا ہے تو حکومتوں کو غیر متوقع صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مائیکل بریچر بحران کی شدت اور حد کا تعین کرنے کے لیے درج ذیل چھ عوامل کو بیان کرتے ہیں۔
1۔ جغرافیائی اہمیت
2۔ بحران کا موضوع
3۔ فریقین کے درمیان تشدد کی سطح
4۔ فریقین کی تعداد،
5۔ طاقت کا موازنہ
6۔ بڑی طاقتوں کی مداخلت کی سطح

آیئے غزہ جنگ کے بارے میں مائیکل بریچر کے مندرجہ بالا نظریئے کی روشنی میں یہ تجزیہ کرتے ہیں کہ یہ جنگ کیوں جاری ہے اور اس کے خاتمے کا کتنا امکان ہے۔ پہلا عامل غزہ کی جغرافیائی اہمیت ہے۔ غزہ ایک چھوٹی سی پٹی ہے، لیکن یہ مقبوضہ فلسطین کے قرب و جوار میں واقع ہے اور اسے مغربی ایشیائی خطے میں مزاحمت کے اہم مراکز میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے غزہ میں صیہونی حکومت کی شکست اس حکومت کے لیے ناقابل قبول ہے۔

دوسرا عامل بحران کا موضوع ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ غزہ کی حالیہ جنگ کا اصل مسئلہ و موضوع صیہونی حکومت کی کھوئی ہوئی ساکھ ہے۔ اس حکومت کے پاس فوجی اور انٹیلی جنس کے حوالے سے مجموعی طور پر اعلیٰ سطح کی ڈیٹرنس ساکھ تھی، لیکن طوفان الاقصیٰ نے ان سب کو تباہ کر دیا۔ صیہونی حکومت کی کمزوری کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ گذشتہ 100 دنوں میں حماس سے اپنے قیدیوں کو بھی رہا کروانے میں ناکام رہی، جس نے تل ابیب کی انٹیلی جنس کی ساکھ پر مزید سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔

تیسرا عامل اداکاروں کے درمیان تشدد کی سطح ہے۔ طوفان الاقصیٰ آپریشن میں 1500 سے زائد صہیونی مارے گئے۔ یہ مسئلہ صیہونی حکومت کے لیے اس لئے بھی قابل قبول نہیں ہے، کیونکہ اسے آبادی کے مسائل کا سامنا ہے اور اس نے مقبوضہ علاقوں میں آبادی کی حمایت کو اپنے فوجی نظریئے کے ستونوں میں سے ایک بنا دیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ صیہونی حکومت نے غزہ کے خلاف جس قدر تشدد کا استعمال کیا ہے، وہ غیر معمولی سطح ہے، جس کی وجہ سے وہ عملی طور پر تشدد اور نسل کشی کے جاری رہنے سے خوفزدہ نہیں ہے۔

چوتھی وجہ یا عامل فریقین کی کثرت ہے۔ اگرچہ اس جنگ کے دو اہم فریق صیہونی حکومت اور تحریک حماس ہیں، لیکن صرف ان کو اس جنگ کے فریقین نہیں سمجھا جاسکتا۔ امریکہ اور بعض یورپی ممالک نے سرکاری طور پر صیہونی حکومت کا ساتھ دیا ہے۔ دوسری طرف یمن اور لبنان کی حزب اللہ نے بھی اس جنگ میں غزہ اور حماس کی حمایت کی ہے۔ جب کسی بحران میں فریقین کی تعداد زیادہ ہوتی ہے، تو بحران کے خاتمے کے لیے کسی معاہدے تک پہنچنے کا امکان کم ہو جاتا ہے۔ تاہم غزہ جنگ کے طویل ہونے کی اصل وجہ فریقین کی تعداد نہیں ہے بلکہ صیہونی حکومت اور امریکہ کی اپنے فوجی اہداف کو حاصل کرنے میں ناکامی ایک اہم عنصر ہے۔

پانچویں وجہ عدم مطابقت یا غیر مساوی ہونا ہے۔ صیہونی حکومت اور حماس کی فوجی طاقت نہ صرف برابر نہیں بلکہ اس کا موازنہ تک نہیں کیا جاسکتا ہے۔ صیہونی حکومت کو امریکہ اور کئی یورپی ممالک کی مکمل فوجی و سیاسی حمایت حاصل ہے، جبکہ حماس کے پاس فوجی لحاظ سے کچھ بھی نہیں ہے۔ جنگ کو طول دینے کے لیے فریقین کی فوجی طاقت کی عدم مطابقت ایک اہم عنصر ہے۔

آخر میں چھٹا عنصر بڑی طاقتوں کی مداخلت کی سطح ہے۔ غزہ کی جنگ میں بڑی طاقتوں کی مداخلت صرف اعلانیہ اور سیاسی حمایت تک محدود نہیں ہے بلکہ امریکہ، انگلستان، جرمنی اور فرانس نے غزہ کے خلاف جنگ میں ایک فریق بن کر غزہ کے خلاف صیہونی حکومت کے جرائم کو جائز دفاع کا ایک نمونہ بنا کر پیش کیا ہے۔ مغرب کا یہ طرز عمل غزہ کی جنگ کو طول دینے کا ایک اہم اور بنیادی عنصر ہے اور ایسا لگتا ہے کہ غزہ کے خلاف صیہونی حکومت کی جنگ اس وقت تک ختم نہیں ہوگی، جب تک یہ طاقتیں جنگ کے خاتمے کے لیے سنجیدہ عزم کا مظاہرہ نہیں کریں گی۔

تحریر: سید رضی عمادی

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے  ملک بھر کے ائمہ جمعہ کے ساتھ ملاقات میں "لوگوں کی موجودگی، خواہش اور عمل" کو اسلام کا بنیادی اصول قرار دیا اور ان کی وفاداری، صبر، دلچسپی، ذہانت اور لگن کو سراہا۔حضرت آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے مزید کہا کہ اس مہینے میں انسان جو سب سے زیادہ شائستہ عمل انجام دیتا ہے وہ استغفار ہے۔ ہم سب کو واقعی استغفار اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پناہ حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے غزہ کے مظلوم عوام کی استقامت اور توکل کو بھی دنیا کی طرف سے قابل تعریف قرار دیا، اسلام کی ترویج اور قوموں کی قرآن کی طرف توجہ دلائی اور یمنی قوم اور انصار اللہ کی حکومت کی سرگرمی کو بھی قابل تعریف قرار دیا۔ غزہ کے لوگوں کا دفاع جہاد فی سبیل کی واضح مثال ہے۔

اس ملاقات کے آغاز میں آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے ماہ رجب کو سال کے افضل ترین دنوں میں سے ایک قرار دیا اور عوام اور مومنین کو اس عظیم الہی نعمت اور اس کی خیر خواہی اور دعاؤں اور استغفار سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنے کی تلقین کی۔

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے جمعہ کی امامت کو مشکل ترین کاموں میں سے ایک قرار دیا۔ کیونکہ نمازِ جمعہ کے الٰہی فریضے سے اما جمعہ کو  آگاہ ہونا چاہیے اور اس کے اطمینان کے ساتھ ساتھ لوگوں کے مفادات اور ان کے اطمینان کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے۔

آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے نماز جمعہ میں لوگوں کی توجہ کو اسلام میں لوگوں کے بنیادی مقام اور اسلامی زندگی اور تحریک میں ان کے نمایاں کردار کی نشانی قرار دیا اور مزید کہا: اسلامی نظام میں لوگوں کا کردار اور حق ایسا ہے کہ امیر المومنین (ع) کے پاس اگر لوگ نہ چاہیں اور اگر وہ نہ آئیں تو ان جیسا حق رکھنے والے کی ذمہ داری ختم ہوجاتی ہے۔ لیکن اگر لوگ چاہیں تو اس پر ذمہ داری قبول کرنا واجب ہو جاتا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے پیغمبر اکرم(ص) کی مدد کے بارے میں قرآن کریم کی ایک آیت کا حوالہ دیتے ہوئے مزید فرمایا: خدا پیغمبر کی مدد و نصرت کے سلسلہ میں مومنین کی مدد کا اظہار کرتا ہے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہر کوئی کسی بھی درجہ میں ہے۔ ۔

آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے لوگوں کو متوجہ کرنے اور اسٹیج پر لانے کے لیے معاشرے میں حکام اور بااثر افراد کے مختلف فرائض کا ذکر کرتے ہوئے کہا: نماز جمعہ کی الہی حکمت لوگوں کی موجودگی کے اصول کو یقینی بنانا اور اس موجودگی کو فروغ دینا اور وسعت دینا ہے۔ اسی وجہ سے امام جمعہ کا فرض ہے کہ وہ اپنے خطبوں میں نمازیوں سے گفتگو کرے اور انہیں خیالات، طریقے اور منصوبے پیش کرے۔

آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے وسیع تر معنوں میں تبلیغ کو نماز کے خطبوں کا بنیادی محور قرار دیا اور مزید فرمایا: تبلیغ صرف روحانی اور اخلاقی مسائل سے ہی مخصوص نہیں ہے بلکہ اس میں سیاسی اور سماجی حوالے بھی شامل ہیں۔

حضرت آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے خطبات کے مواد کے تقاضوں میں سے "ملکی اور عالمی مسائل، دشمنوں کی سازشوں اور منصوبوں اور معاشرے کی ضروریات اور حقائق" کے بارے میں لوگوں کو آگاہ کرنا درج کیا اور سماجی خطبات کی مثالیں دیتے ہوئے کہا: اس میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔ آبادی کو بڑھانا اور ملک کی افرادی قوت کو مضبوط کرنا، کم عمری میں شادی کے مسئلے کی مناسبیت اور بہت سے معاملات میں واقعی نقصان دہ اسراف سے بچنے کی ضرورت کی وضاحت کرنا ان شعبوں میں سے ایک ہے جس میں سماجی تبلیغ کی ضرورت ہے۔

رہبر معظم انقلاب حضرت آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے بہت سے اخلاقی خطبوں کو ضروری اور روحانی نرمی کا باعث قرار دیا اور اپنی تقریر کے اس حصے کو خلاصہ کرتے ہوئے فرمایا: سیاسی، سماجی اور اخلاقی خطبات و تقریتوں کا مقصد سامعین کے ذہنوں کو منور کرنا ہے۔ کہ انفرادی اور معاشرتی زندگی کے مسائل اور ان کے حل کے بارے میں ان کے ذہن مضبوط ہوتے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے نماز جمعہ کے خطبوں کے تقاضوں کو بیان کرتے ہوئے "ضروریات کی تشخیص اور سامعین کی آگاہی" کے موضوع پر زور دیا اور فرمایا: نماز جمعہ کے سامعین مردوں اور عورتوں، بوڑھوں اور جوانوں کے درمیان خواندگی کے مختلف درجات ہیں اور آگہی، اور جمعہ کے امام کا فن اس مواد کا اظہار کرنا ہے جس سے ہر ایک سامعین اس سے مستفید ہو سکے۔

اس بات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہ آج کے نوجوانوں کے ذہن مختلف قسم کے خیالات اور الفاظ کی کثرت سے آشنا ہیں، حضرت آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے ان کے ذہنی مسائل کے علم کو ان کی ضروریات کا صحیح جواب دینے کے لیے ضروری سمجھا اور مزید کہا: ضرورتوں کا اندازہ لگانے اور صحیح طریقے سے سمجھنے کے لیے سامعین کے ذہن کے لیے ضروری ہے کہ لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہیں اور ایک عوامی شخص بنیں۔

حضرت آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے قرآن، حدیث اور تعلیمی کتب کے مطالعہ اور اس سے واقفیت کو نماز جمعہ کے خطبوں کو تقویت دینے اور حاضرین کی ضروریات کا صحیح جواب دینے کے لیے ایک اہم ضرورت قرار دیا اور فرمایا: امام جمعہ کے اہم مشن کی تکمیل کے لیے ایک اور ضرورت ہے۔ 

حضرت آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے ایرانی عوام کی گہری محبت کرنے والے لوگوں کی منفرد خصوصیات کو بیان کرتے ہوئے کہا: ہمارے لوگ بہت اچھے اور دیانت دار لوگ ہیں اور وہ لوگ بھی جو کچھ عملی ظہور کے پابند نہیں ہیں ان کے دل خدا اور روحانی معانی اور تصورات کے ساتھ ہیں۔ اس کے علاوہ، عملی طور پر عدم عزم ہم سب کے کچھ طرز عمل میں کسی نہ کسی طرح موجود ہے۔

رہبر انقلاب حضرت آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے شرپسندوں کے ہر قسم کے پروپیگنڈے، عملی، سیاسی اور اقتصادی حملوں کے مقابلے میں ایران اور اسلامی نظام کے دفاع کے مختلف میدانوں میں شرکت کی وفاداری اور تیاری کو عوام کی ایک اور ممتاز خصوصیت قرار دیا اور فرمایا: عوام جس بھی حالات میں ملک اور انقلاب کی ضرورت ہو انہوں نے سڑکوں پر آکر، صبر و تحمل، نعرے اور حمایت سے اپنا دفاع کیا اور میدان جنگ میں جا کر بھی اپنی وفاداری کا ثبوت دیا۔

حضرت آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے مزید کہا: حقیقی معنوں میں ہمیں ایران کے وفادار، دلچسپی رکھنے والے، وفادار اور ذہین لوگوں کی قدر کرنی چاہیے اور ان سے گہری محبت کرنی چاہیے۔ اس کے علاوہ لوگوں سے محبت ایک امرت کی مانند ہے جو آپ کی باتوں کو لوگوں کے دلوں میں موثر بنا دے گی۔

حضرت آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے نماز جمعہ کے خطبوں میں تقویٰ کی دعوت کو انفرادی مسائل تک محدود نہیں سمجھا اور فرمایا: قرآن میں نیک کاموں میں تعاون و تعاون اور تقویٰ کا حکم دیا گیا ہے۔ 

اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ اسلام ایک سیاسی مذہب ہے اور تمام مسلمانوں کو سیاسی منظر نامے میں موجود ہونا چاہیے، حضرت آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے مزید کہا: بلاشبہ سیاست کا میدان ایک پھسلن والا میدان ہے اور پھسلنے سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ "سیاسی تقویٰ، خود غرضی" سے لیس ہونا ضروری ہے۔ تحمل اور کھلی آنکھیں" اس صورت میں دشمن کی نفسیاتی جنگ بے اثر ہو جاتی ہے۔

حضرت آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے نماز جمعہ کے خطبوں میں مختلف سیاسی اور سماجی میدانوں میں لوگوں کی شرکت کی ترغیب دینا ضروری قرار دیا اور فرمایا: لوگوں کو سماجی نیک کاموں کی ترغیب دینا جیسے کہ اسکولوں اور اسپتالوں کی تعمیر میں حصہ لینا اور ضرورت مند قیدیوں کی رہائی میں مدد کرنا یا ان کی حوصلہ افزائی کرنا۔ میدان سیاست میں حصہ لینا الیکشن کی طرح ایک ضروری چیز ہے۔

حضرت آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے انتخابات میں شرکت کو عوام کا فرض اور حق دونوں میں شمار کیا اور کہا: انتخابات میں عوام کی شرکت حقیقی معنوں میں ضروری ہے۔ بلاشبہ انتخابات صرف ایک فرض نہیں بلکہ عوام کا حق ہے کہ وہ قانون ساز، قانون نافذ کرنے والے اداروں یا ماہرین کی اسمبلی کے ارکان کا انتخاب کرسکیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ فصاحت کا جہاد لوگوں کو اسٹیج پر آنے کی ترغیب دینے میں کارگر ہے، انہوں نے محض تقریر کی دعوت کو کافی نہیں سمجھا اور فرمایا: عمل، اچھا چہرہ، جوابدہ زبان اور لوگوں کے مختلف اجتماعات میں موجودگی بالخصوص نوجوانوں کے اجتماعات ضروری ہیں۔

حضرت آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے اپنے خطاب کے آخری حصے میں اس بات پر تاکید کی کہ آج غزہ کے بین الاقوامی مسئلے میں خدا کا ہاتھ نمایاں اور نظر آرہا ہے اور فرمایا: غزہ کے مظلوم اور طاقتور لوگ اپنی جدوجہد سے دنیا پر اثر انداز ہونے میں کامیاب ہوئے اور آج غزہ کے عالمی مسائل میں خدا کا ہاتھ نمایاں ہے۔ دنیا ان لوگوں اور جنگجوؤں کی مرہون منت ہے اور ان کا مزاحمتی گروپ ہیرو کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتا ہے۔

حضرت آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے ظلم و ستم کی برتری اور اس کے ساتھ ہی اہل غزہ کی فتح کو دنیا کی نظروں میں ان کے صبر اور توکل کا کارنامہ اور برکات قرار دیا اور مزید کہا: دوسری طرف آج دنیا میں کوئی بھی اس پر یقین نہیں رکھتا۔ غاصب صیہونی حکومت کی جنگ میں فتح اور دنیا اور سیاست دانوں کی نظر میں یہ حکومت ایک ظالم، بے رحم، خونخوار بھیڑیا، شکست خوردہ اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ غزہ کے عوام نے اپنے موقف سے اسلام کو پھیلایا اور قرآن کو دنیا کے متلاشی لوگوں کی نظروں میں مقبول بنایا، رہبر انقلاب نے خدا سے مزاحمتی محاذ کے جنگجوؤں بالخصوص عوام کے بڑھتے ہوئے فخر کے لیے دعا کی۔

حضرت آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے غزہ کے عوام کی حمایت میں یمنی قوم اور انصار اللہ حکومت کے عظیم کام کی بھی تعریف و توصیف کی اور کہا کہ یمنی عوام نے صیہونی حکومت کے اہم چینلز کو نشانہ بنایا اور وہ امریکہ کی دھمکیوں سے نہیں ڈرے کیونکہ ایک خدا ترس ہے۔ انسان خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا اور یہ ان کا کام ہے، سچی بات یہ ہے کہ یہ اللہ کی راہ میں جہاد کی ایک مثال ہے۔

حضرت آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے اس امید کا اظہار کیا: خدا کے حکم سے یہ جدوجہد، مزاحمت اور سرگرمیاں فتح تک جاری رہیں گی اور خدا ان تمام لوگوں کی مدد اور مدد فرمائے جو اس کی رضا کے راستے پر چلتے ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای کے بیانات سے قبل جمعہ کے اماموں کی پالیسی کونسل کے سربراہ حجۃ الاسلام حاج علی اکبری نے ملک بھر کے اماموں کے چھبیسویں اجلاس میں تقریباً 900 جمعہ کے اماموں کی حاضری کی رپورٹ پیش کی۔