سلیمانی

سلیمانی

منگل کے روز ترکمنستان کی پیپلز کاؤنسل "مصلحت" کے سربراہ قربان قلی بردی محمداف نے ایک اعلیٰ سطحی سیاسی و اقتصادی وفد کے ہمراہ تہران کا دورہ کیا۔ ملاقات اور گفتگو کے بعد دونوں ممالک کے اعلیٰ حکام نے ایک مشترکہ نشست میں بھی حصہ لیا۔

اس موقع پر صدر ایران سید ابراہیم رئیسی نے کہا کہ ہم مغربی ممالک کے برخلاف کہ جو انسانی حقوق کا صرف دعویٰ کرتے ہیں، ہم حقیقتاً انسانی حقوق کے درپے ہیں اور علاقے میں ایران کی پالیسی صلح و آشتی، استحکام اور سکیورٹی کی تقویت پر مبنی ہے۔

صدر ایران نے ترکمنستان کے ساتھ اپنے ملک کے تعلقات کو گہرے تمدنی اور ثقافتی اشتراکات کا حامل اور صرف ہمایسگی پر استوار تعلقات سے بالاتر قرار دیا۔ سید ابراہیم رئیسی نے مزید کہا کہ تہران اور عشق آباد کے باہمی تعلقات میں گزشتہ دو برسوں کے دوران خوب فروغ پائے ہیں اور یہ پڑوسی ممالک کے ساتھ ہماری پالیسی کا نتیجہ ہے۔

صدر ایران نے واضح کیا کہ دونوں ممالک کے مابین تعلقات کے فروغ میں کسی قسم کی رکاوٹ موجود نہیں ہے اور دونوں ممالک سائنس و ٹکنالوجی، انرجی، ٹرانزٹ، نقل و حمل، کسٹم اور زراعت کے شعبوں میں باہمی تعاون کے لئے بہت سی گنجائشوں کے حامل ہیں۔

انہوں نے دونوں ممالک کی مشترکہ اقتصادی و تجارتی نمائشوں کے انعقاد پر مبنی ترکمنستان کی پیپلز کاؤنسل "مصلحت" کے سربراہ کی تجویز کا خیرمقدم بھی کیا۔

اس نشست میں قربان قلی بردی محمداف نے بھی کہا کہ ایران اور ترکمنستان دو دوست اور ہمسایہ ممالک کی حیثیت سے ہمیشہ تعلقات کی تقویت اور ان میں گہرائی کے درپے رہے ہیں اور اُن کا ملک علاقائی سطح پر صلح و آشتی، استحکام اور سکیورٹی کی تقویت پر مبنی اسلامی جمہوریہ ایران کی پالیسیوں کی حمایت کرتا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ ایران اور ترکمانستان نے دو باہمی تعاون کے معاہدوں اور تین مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط بھی کئے ہیں۔

سحر نیوز/ایران: ایران کی وزارت دفاع کے ایئر انڈسٹریز آرگنائزیشن کے ماہرین کے طیار کردہ ٹرانسپورٹ طیارے سیمرغ کی اڑان کا ٹیسٹ لیا گیا جس میں وہ کامیاب رہا۔ یہ طیارہ ایران کی وزارت دفاع نے اپنے ماہرین اور نالج بیسڈ کمپنیوں کے مشترکہ تعاون سے ملکی ضروریات اور علاقائی آب و ہوا کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے بین الاقوامی معیارات کے مطابق تیار کیا ہے۔

 

کم وزن، سامان ڈھونے کی مناسب گنجائش، طولانی پرواز، ملک کے موسمی تقاضوں کے ساتھ سازگاری، چھوٹے رن وے سے اڑنے اور اُس پر اترنے کی توانائی اور حادثات جیسے اضطراری مواقع پر سریع الحرکت خدمات کی انجام دہی سیمرغ نامی اس طیارے کی اہم خصوصیات ہیں۔

اندرون ملک تیار ہونے کے باعث اس پر ہوئے اخراجات میں اس نوعیت کے دیگر غیر ملکی طیاروں کی بنسبت قابل توجہ حد تک کمی آئی ہے اور ساتھ ہی ماہرین کی بڑی تعداد کے لئے براہ راست یا بالواسطہ طور پر روزگار کے مواقع بھی فراہم ہوئے ہیں۔ ایران کے وزیر دفاع میجر جنرل محمد رضا آشتیانی نے ملک کی اس کامیابی پر رہبر انقلاب اسلامی اور اپنی وزارت کے پورے مجموعے کو مبارکباد پیش کی۔

انہوں نے کہ گزشتہ دنوں آٹھ ماہ کے دوران بحری جنگی جہاز دنا ڈسٹرایر کا دنیا کے گرد چکر لگانا، پھر اسکے بعد خرمشہر چار (خیبر) بیلسٹک میزائل کا کامیاب تجربہ اور اب سیمرغ طیارے کی کامیاب اڑان، سال کے لئے رہبر انقلاب اسلامی کے اعلان کردہ سلوگن کو عملی جامہ پہنانے اور مسلح افواج کی مکمل حمایت کی راہ میں ملکی وزارت دفع کے عزم کا ثبوت ہے۔

قابل ذکر ہے کہ عالمی سامراج بالخصوص امریکہ کی شدیدترین پابندیوں کے باوجود ایرانِ اسلامی جادۂ خودکفالت پر گامزن رہتے ہوئے ترقی و پیشرفت کی راہیں تیزی سے طے کر رہا ہے۔

ولیعہدی جیسے بڑے چیلنجوں کا سامنا ہونے کے باوجود، امام علیہ السّلام نے مختلف شعبوں میں تحیر العقول کارنامے انجام دیئے ہیں۔

عشرۂ کرامت یعنی ایام ولادتِ باسعادت حضرت امام رضا علیہ السّلام کی مناسبت سے آپ کی سیرت طیبہ پر مختصر روشنی ڈالتے ہوئے کچھ اہم سیرت پر گفتگو کرتے ہیں۔

حضرت ابوالحسن علی ابن موسی الرضا علیہ السّلام خدا کی جانب سے مقرر کردہ رسول خاتم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کے جانشینوں میں سے آٹھویں جانشین ہیں۔ آپ کی کنیت "ابوالحسن" ہے اور مشہور و معروف لقب "رضا" ہے اور خاص افراد آپ کو "ابوعلی" کہا کرتے تھے۔ آپ علیہ السلام کے دیگر القابات میں صابر، زکی، ولی، وفی، سراج الله، نورالهدی، قرة عین المؤمنین، مکیدة الملحدین، کفو، الملک، کافی الخلق ہیں۔

ولادت:

آپ علیہ السلام 11 ذیقعدہ کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے، ولادت کے بارے میں مختلف تاریخ نقل ہوئی ہیں جن میں سے مرحوم کلینی نے ۱۴۸ ہجری قمری نقل کی ہے اور اسے اکثر علماء و مورخین بھی قبول کرتے ہیں۔

آپ نے ۲۰ سال امامت کے فرائض سرانجام دیئے۔ آپ کی حیات مبارک کے بارے میں مختلف اقوال نقل ہوئے ہیں، 47 سے 57 سال تک بتایا گیا ہے، لیکن ولادت اور شہادت کے بارے میں اکثر نے آپ کی حیات طیبہ کی مدت 55 سال بتائی ہے۔

آپ علیہ السلام کے والد گرامی، ساتویں امام حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام ہیں۔ آپ کی والدہ ماجدہ کنیز تھیں جن کا اسم گرامی تکتم تھا، ان کا یہ نام تب رکھا گیا جب حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام ان کے مالک ہوئے اور جب ان کے بطن مبارک سے حضرت امام رضا علیہ السلام دنیا میں آئے تو حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام نے "تکتم" کو طاہرہ کا نام دیا۔ نیز آپ کو اروی، نجمہ اور سمانہ بھی کہا گیا ہے اور آپ کی کنیت ام البنین ہے۔ ایک روایت میں نقل ہوا ہے کہ آنحضرت کی والدہ گرامی، پاک و پرہیزگار کنیز تھیں جن کا نام نجمہ تھا، ان کو حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی والدہ جناب حمیدہ نے خریدا اور اپنے بیٹے کو بخش دی اور حضرت امام رضا علیہ السلام کی ولادت کے بعد انہیں طاہرہ کہا گیا۔

امامت:

حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی شہادت کے بعد امام رضا علیہ السلام ۳۵ سال کی عمر میں مقام امامت پر فائز ہوئے۔ امامت کا مسئلہ اگرچہ آپ کے والد گرامی کی حیات کے آخری حصہ میں بہت پیچیدہ ہوگیا تھا، لیکن امام موسی کاظم علیہ السلام کے اکثر اصحاب نے آنحضرت کی طرف سے حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی خلافت کو قبول کرلیا۔

والد گرامی کے بعد آپ کی امامت تقریباً 20 سال تھی اور اس دوران ہارون الرشید، محمد امین اور مامون کی ظاہری حکومت رہی۔ دوسرے لحاظ سے دیکھا جائے تو اس میں سے سترہ سال مدینہ میں اور تین سال خراسان میں گزرے ہیں۔

ہجرت:

حضرت امام رضا علیہ السلام نے مدینہ سے مرو کی طرف 200 یا 201 ہجری قمری میں ہجرت کی۔ مامون الرشید نے امام علیہ السلام کیلئے خاص راستہ مقرر کیا تاکہ آپ شیعہ نشیں علاقوں سے نہ گزریں، کیونکہ وہ شیعوں کا امام علیہ السلام کے اردگرد ہجوم سے ڈرتا تھا، اس نے خاص طور پر حکم دیا کہ آنحضرت کو کوفہ کے راستہ سے نہیں بلکہ بصرہ، خوزستان، فارس اور نیشابور سے لایا جائے۔

حدیث سلسلۃ الذہب:

حدیث سلسلۃ الذہب ایسا اہم ترین اور مستندترین واقعہ ہے جو سفر کے دوران نیشابور میں پیش آیا کہ حضرت امام علی رضا (علیہ السلام) نے وہاں پر وہ حدیث ارشاد فرمائی جو سلسلۃ الذہب کے نام سے مشہور ہے۔

اسحاق ابن راہویہ کا کہنا ہے: جب حضرت امام رضا (علیہ السلام) خراسان کی طرف سفر کرتے ہوئے نیشابور پہنچے، اس کے بعد کہ جب آپ نے مامون کی طرف کوچ کرنا چاہا، محدثین جمع ہوگئے اور انہوں نے عرض کیا: اے فرزند پیغمبر! ہمارے شہر سے تشریف لے جا رہے ہیں اور ہمارے لیے کوئی حدیث بیان نہیں فرماتے؟ اس درخواست کے بعد حضرت نے اپنا سر مبارک کجاوہ سے باہر نکالا اور فرمایا:"میں نے سنا اپنے والد موسی ابن جفعر (ع) سے کہ انہوں نے فرمایا کہ میں نے اپنے والد جعفر ابن محمد (ع) سے سنا کہ انہوں نے فرمایا کہ میں نے اپنے والد محمد ابن علی (ع) سے سنا کہ انہوں نے فرمایا کہ میں نے اپنے والد علی ابن الحسین(ع) سے سنا کہ انہوں نے فرمایا کہ میں نے اپنے والد حسین ابن علی (ع) سے سنا کہ انہوں نے فرمایا کہ میں نے اپنے والد امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (ع) سے سنا کہ انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ (ص) سے سنا کہ آنحضرت نے فرمایا کہ میں نے جبرئیل سے سنا کہ انھوں نے کہا کہ میں نے پروردگار عزوجل سے سنا کہ اس نے فرمایا: " لا إلهَ إلّا اللَّه حِصْنى، فَمَن دَخَلَ حِصْنى أمِنَ مِن عَذابى" کلمہ "لا إِلهَ إِلَّا اللَّهُ‏" میرا قلعہ ہے، پس جو میرے قلعہ میں داخل ہوجائے، میرے عذاب سے بچ جائے گا"، پس جب حضرت کی سواری چل پڑی تو آپ نے بلند آواز سے فرمایا: "بِشُرُوطِهِا و أنا مِن شُرُوطِها" اس کی شرطوں کے ساتھ اور میں ان شرطوں میں سے ہوں۔

ولی عہدی:

جب مامون نے دیکھا کہ حضرت امام رضا (علیہ السلام) ہرگز خلافت کو قبول نہیں کررہے تو کہا: آپ جو خلافت کو قبول نہیں کررہے تو میرے ولی عہد اور جانشین بنیں تا کہ میرے بعد خلافت آپ تک پہنچے۔ حضرت امام رضا (علیہ السلام) نے جبکہ مامون کی نیت کو جانتے تھے، فرمایا: خدا کی قسم، میرے والد نے اپنے آباء سے اور انہوں نے امیرالمومنین علی (علیہ السلام) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے خبر دی ہے کہ مجھے انتہائی مظلومیت سے زہر دی جائے گی اور تم سے پہلے انتقال کروں گا، آسمان و زمین کے ملائکہ مجھ پر گریہ کریں گے، اور ایک غریب سرزمین میں ہارون کے پاس دفن کیا جاوں گا۔ مامون نے کہا: اے فرزند رسول اللہ! جب تک میں زندہ ہوں کس کی جرات ہے کہ آپ کی توہین کرے اور آپ کو قتل کرے؟ حضرت امام رضا (علیہ السلام) نے فرمایا: اگر میں بتانا چاہوں کہ کون مجھے قتل کرے گا تو بتا سکتا ہوں۔ مامون نے جب تمام راستے بند ہوئے دیکھے تو ایک اور چال چلتے ہوئے کہا: آپ اس بات کے ذریعہ اپنے آپ کو سبکدوش کرنا چاہتے ہیں کہ لوگ کہیں کہ آپ دنیا کے طالب نہیں ہیں اور دنیا کے پیچھے نہیں پڑے ہوئے! امام (علیہ السلام) نے فرمایا: خدا کی قسم! جب سے اللہ تعالی نے مجھے خلق کیا، میں ہرگز جھوٹ نہیں بولا اور دنیا اور لوگوں کی خاطر، دنیا سے دوری اختیار نہیں کی۔ اے مامون ! میں جانتا ہوں کہ تمہاری نیت کیا ہے۔ مامون نے کہا: میری نیت کیا ہے؟ امام (علیہ السلام) نے فرمایا: تو چاہتا ہے کہ مجھے اپنا ولی عہد بنائے تا کہ لوگ کہیں کہ یہ علی ابن موسی الرضا دنیا سے دوری اختیار نہیں کرنا چاہتے تھے بلکہ دنیا تک پہنچ نہیں سکے، دیکھو جب مامون نے ولی عہدی کی پیشکش کی تو اس نے کیسے خلافت اور ریاست کی لالچ کی اور اسے قبول کرلیا!۔ جب مامون نے دیکھا کہ حضرت امام رضا (علیہ السلام) اس کی نیت کو جانتے ہیں تو غصہ سے کہنے لگا: آپ ہمیشہ ناگوار باتیں میرے سامنے کرتے ہیں اور اپنے آپ کو میری ہیبت اور جلال سے امان میں سمجھتے ہیں! خدا کی قسم، اگر آپ نے میری ولی عہدی کو قبول کرلیا تو ٹھیک، ورنہ آپ کو مجبور کروں گا اور اگر پھر بھی قبول نہ کیا تو آپ کی گردن اڑا دوں گا۔

امام (علیہ السلام) نے جب دیکھا کہ مامون اپنے ارادہ سے ہرگز دستبردار نہیں ہوگا تو آپ نے کچھ شرائط کے ساتھ ولی عہدی کو قبول کیا۔

 امام رضا علیہ السلام نے اسلامی ثقافتی کو زندہ کیا ہے:

خداوندِ متعال نے حضرت محمد مصطفیٰ(ص) کی بعث کا مقصد آیاتِ الٰہی کی تلاوت، تزکیہ اور کتاب و حکمت کی تعلیم بیان کر کے اسلامی ثقافت کے خدّوخال کی نشاندہی فرمائی ہے۔ پیغمبر اکرم(ص) نے اِس عظیم ذمہ داری کو نہایت خوش اسلوبی سے انجام دے کر اسلامی ثقافت اور تہذیب و تمدُّن کی بنیاد رکھی اور اسے ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل کرنا آپؐ کے برحق جانشینوں کی ذمہ داری قرار پایا۔ پیغمبر اکرم(ص) کے آٹھویں جانشین عالمِ آلِ محمدؐ حضرت علی ابن موسیٰ الرضا علیہما السلام نے اِس ذمہ داری کو نہایت خوبصورت انداز میں انجام دے کر مدینۂ فاضلہ کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔ آپؑ کی سیرت اور تعلیمات میں اسلامی ثقافت کی اعلیٰ اَقدار کے حصول کے لیے معاشرے میں عقلانیت کو فروغ دیتے ہوئے علم کا بول بالا ضروری ہے۔

پیغمبر اکرم(ص) کے حقیقی جانشین کا تعارُف:

بظاہر علمی بحثوں میں دلچسپی کے حامل حکمران اور تحریکِ ترجمہ کے عروج کے باعث، حضرت امام علی رضا علیہ السلام کا دَورِ امامت علمی تحریک اور پیشرفت کے لحاظ سے درخشاں ترین دَور تھا۔ لہٰذا جب آپؑ مرو تشریف لائے تو عوام کا ایک گروہ معتقد تھا کہ امام کو خداوندِ متعال تعیین کرتا ہے، جبکہ دوسرا گروہ امام کو عوامی نمائندہ اور اُمت کا وکیل سمجھتا تھا۔ امام علی رضا علیہ السلام نے قرآن و سنّت کی روشنی میں پیغمبر اکرم(ص) کے حقیقی جانشینوں کا تعارُف کروا کر اُمت میں موجود اِس انحراف کی اصلاح فرمائی، تاکہ سب لوگ ایک قومی دھارے کی طرف متوجہ ہو جائیں؛ لہٰذا آپؑ نے فرمایا: ’’امام کی قدر و منزلت، شان و شوکت، لوگوں کے فہم و شعور سے اِس قدر بلند ہے کہ وہ اسے پَرکھیں یا اس کا انتخاب کریں۔[3] نیز آپؑ فرماتے ہیں: ’’بےشک امامت ہی اسلام کی پاک و پاکیزہ بنیاد اور اس کی بابرکت فرع ہے اور امام ہی کی بدولت نماز، زکات، روزہ، حج اور جہاد مکمل ہوتے ہیں۔

امام علی رضا علیہ السلام اور اسلامی ثقافت کا اِحیاء:

حضرت امام حسین علیہ السلام کی مظلومانہ شہادت کے بعد حضراتِ ائمہ معصومین علیہم السلام نے ثقافتی جدّوجہد کے ذریعے اسلامی اَقدار و تعلیمات کے اِحیاء کا بیڑا اُٹھایا اور اِس میدان میں حضرت امام محمد باقر و حضرت امام جعفر صادق علیہما السلام کے بعد، حضرت امام علی رضا علیہ السلام کو اسلامی ثقافت کے اِحیاء کا زیادہ موقع ملا؛ کیونکہ بنی عباس کے دَورِ حکومت میں روم، ایران، مصر اور یمن وغیرہ جیسے دنیا کے عظیم تہذیب و تمدُّن کے حامل ممالک، اسلامی نقشے میں شامل ہو چکے تھے اور زرتشتی، صابئی، نسطوری، رومی اور برہمنی مترجمین نے جب علمی آثار کو یونانی، فارسی، سریانی، ہندی اور لاتینی زبانوں سے عربی میں ترجمہ کیا تو ان کے فاسد، مخرِّب اور غیر اسلامی نظریات بھی اسلامی ثقافت میں داخل ہو گئے، جو نوجوان طبقے اور سادہ لوح افراد کے تنزُّل و تزلزل کا باعث بنے۔[5] ایسے ماحول میں خالص اسلامی ثقافت کے اِحیاء میں حضرت امام علی رضا علیہ السلام کا کردار نہایت اہمیت کا حامل تھا۔

اسلامی ثقافت کے اِحیاء سے متعلق حضرت امام رضاؑ کے اقدامات:
شاگردوں کی تربیت:

حضرت امام علی رضا علیہ السلام نے اٹھارہ سال مدینہ منوّرہ میں اور دو سال مرو میں اپنے قیام کے دوران متعدّد شاگردوں کی تربیت فرمائی۔ آپؑ کے اصحاب میں امام جعفر صادق اور امام موسیٰ کاظم علیہما اسلام کے اصحاب بھی شامل تھے۔ ہم نے مختلف کتابوں میں آپؑ کے اصحاب کی تعداد ۵۶۱ تک دیکھی ہے۔ آپؑ نے وکلاء کا ایک وسیع نیٹ ورک قائم کر کے مسلمانوں کی تربیت اور مدینۂ فاضلہ کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔

سنّتِ نبویؐ کے مطابق نمازِ عید:

عید الفطر کے دن مأمون نے آپؑ سے نمازِ عید پڑھانے کا اصرار کیا تو آپؑ نے اِس شرط پر یہ پیشکش قبول کی کہ آپؑ نمازِ عید پیغمبر اکرم(ص) اور امیرالمؤمنین علی ابن ابیطالب علیہما السلام کی سنّت کے مطابق پڑھائیں گے۔ جب عید کے دن امامؑ نبویؐ انداز میں خوشبو سے معطر، عبا اور کتّان کا عمامہ پہنے، ہاتھ میں عصا تھامے، پا برہنہ گھر سے باہر تشریف لائے اور تکبیر لگائی تو آپؑ کی اقتداء میں اَشک رواں لوگوں کی تکبیروں سے شہر گونج اُٹھا۔ مأمون نے یہ منظر دیکھ کر خطرے کا احساس کرتے ہوئے آپؑ کو نمازِ عید پڑھانے سے روک دیا اور واپس بیت الشرف لوٹ جانے کی درخواست کی۔

امامؑ سے منسوب کتابیں:

حضرت امام علی رضا علیہ السلام سے متعدّد کتابیں منسوب ہیں، جن میں فقہ الرضاؑ، محض الاسلام و شرائع الدین، صحیفۃ الرضاؑ اور رسالۂ ذہبیہ قابلِ ذکر ہیں۔

مختلف اَدیان کے پیروکاروں سے مناظرہ:

مأمون عباسی نے مختلف اَدیان کے ماہر اور نابغہ روزگار افراد سے حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے مناظروں کے پروگرام ترتیب دیئے اور اُسے یہ گمان تھا کہ حجاز میں رہنے والا قرآن و سنّت کا یہ عالِم روزمرہ کے جدید منطقی اور فلسفی دلائل کا مقابلہ نہیں کر پائے گا اور اِس طرح علمی بحثوں میں شکست سے اس کی شان و منزلت میں کمی آ جائے گی۔ یوں تو مأمون کے اِس طرزِ تفکر پر فراوان دلائل موجود ہیں لیکن ہم یہاں امام علی رضا علیہ السلام کے ایک بیان پر اکتفاء کرتے ہیں۔ آپؑ فرماتے ہیں: ’’جب میں اہلِ تورات کے ساتھ ان کی تورات سے، اہلِ انجیل کے ساتھ ان کی انجیل سے، اہلِ زبور کے ساتھ ان کی زبور سے، ستارہ پرستوں (صابئیوں) سے ان کی عبرانی زبان میں، اہلِ ہرابزہ (زرتشتیوں) سے ان کی پارسی زبان میں اور رومیوں سے ان کی زبان میں گفتگو اور استدلال کروں گا اور اُن سب کو اپنی صداقت پر قائل کرلوں گا تو خود مأمون پر واضح ہو جائے گا کہ اس نے غلط راستے کا انتخاب کیا ہے اور وہ یقیناً اپنے فیصلے پر پشیمان ہو جائے گا۔‘‘

حضرت امام رضا علیہ السلام نے متعدّد مناظروں میں شرکت کی، جنہیں مرحوم شیخ صدوقؒ نے ’’عیون اَخبار الرضاؑ‘‘ میں، علامہ مجلسیؒ نے ’’بحار الانوار‘‘ جلد ۴۹ میں اور علامہ عزیز اللہ عطاردیؒ نے ’’مسند الامام الرضاؑ‘‘ جلد ۲ میں ذکر کیا ہے۔ لیکن اِن مناظروں میں مختلف اَدیان کے سربراہوں کے ساتھ امامؑ کے وہ مناظرے اہم ترین ہیں جن میں آپؑ نے عیسائیوں کے پیشوا ’’جاثلیق‘‘، یہودیوں کے پیشوا ’’راس الجالوت‘‘، زرتشتیوں کے پیشوا ’’ہربزِ اکبر‘‘، حضرت یحییٰ ؑ کے پیروکاروں کے پیشوا ’’عمران صابئی‘‘، علم کلام میں مہارت رکھنے والے خراسان کے عالم ’’سلیمان مروزی‘‘، ’’علی ابن محمد ابن جہم‘‘ ناصبی اور بصرہ سے تعلق رکھنے والے مختلف مذاہب کے افراد سے مناظرے کئے ہیں۔
https://taghribnews.com
مساجد « لقمان» «التوحید» اور مسجد « عمر الفاروق» زامبیا کے دارالحکومت شهر « لوساکا»، میں واقع ہے جہاں روزانہ افریقی ممالک سے بڑی تعداد میں لوگ سیر کو آتے ہیں اور اسلامی طرز و فن معماری کے ان شاہکار نمونوں کو داد دیتے ہیں۔/

 
 

میزائل، فضائی دفاع، ڈرون اور خلائی کارروائیوں کے شعبوں میں ایرانی سپاہ پاسداران کی ایرو اسپیس فورس کی کامیابیوں کی نمائش آج سے 15 دنوں تک قم میں جاری ہوگی۔

 
 
 
 

قائد اسلامی انقلاب نے فرمایا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران اور عمان کے درمیان تعلقات بڑھانا دونوں ممالک کے مفاد میں ہے، سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کی بحالی صدر رئیسی کی حکومت کی اچھی پالیسی کا نتیجہ ہے اور ہم مصر کے ساتھ تعلقات کی بحالی کا خیر مقدم کرتے ہیں۔

ان خیالات کا اظہار حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے پیر کے روز ایران کے دورے پر آئے ہوئے عمان کے سلطان ہیثم بن طارق آل سعید کے ساتھ ایک ملاقات کے دوران کیا۔
رہبر معظم نے ایران اور عمان کے تعلقات کو دیرینہ اور گہری جڑیں قراردیتے ہوئے فرمایا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان تمام شعبوں میں تعلقات کی توسیع سے دونوں فریقوں کو فائدہ ہوگا۔
آیت اللہ خامنہ ای نے ایرانی اور عمانی فریقین کے درمیان مذاکرات کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اہم بات یہ ہے کہ ٹھوس نتائج حاصل کرنے تک یہ مذاکرات سنجیدگی سے پیروی کی جانی چاہیئے اور آخر کار تعلقات کو بڑھایا جائے۔
اہم بات یہ ہے کہ ان مذاکرات کی سنجیدگی سے پیروی کی جانی چاہیے جب تک کہ ٹھوس نتائج نہ پہنچ جائیں، اور آخر کار رابطے کو بڑھایا جائے۔
ایرانی سپریم لیڈر نے خطے میں جعلی صیہونی حکومت کی موجودگی کے بارے میں خبردار کیا اور فرمایا کہ جعلی صیہونی حکومت اور اس کے حامیوں کی پالیسی خطے میں انتشار اور عدم تحفظ پیدا کرنا ہے۔ اس لیے خطے کے تمام ممالک کو اس مسئلے پر توجہ دینی چاہیے۔
انہوں نے فرمایا کہ عمان اور ایران کے درمیان بڑھتا ہوا تعاون اہم ہے کیونکہ دونوں ممالک آبنائے ہرمز کی آبی گزرگاہ پر مشتمل ہیں۔
سلطان ہیثم نے اپنی طرف سے آیت اللہ خامنہ ای سے ملاقات پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک پڑوسیوں بالخصوص اسلامی جمہوریہ کے ساتھ تعلقات کو وسعت دینے کی پالیسی رکھتا ہے۔
قائد اسلامی انقلاب نے اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ تعلقات بحال کرنے پر مصر کی رضامندی کے سلسلے میں عمانی سلطان کے بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ ہم اس موقف کا خیرمقدم کرتے ہیں اور ہمیں اس سلسلے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی بحالی پر عمان کے سلطان کے اطمینان پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ موضوعات صدر رئیسی کی حکومت کی اچھی پالیسی کا نتیجہ ہے اور ہم مصر کے ساتھ تعلقات کی بحالی کا خیر مقدم کرتے ہیں۔
آخر میں انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ حکومتوں کے درمیان تعلقات کی توسیع سے امت اسلامیہ دوبارہ اپنی شان و شوکت حاصل کرے گی اور اسلامی ممالک کی صلاحیتوں اور سہولیات سے تمام اسلامی اقوام، ممالک اور ریاستیں مستفید ہوں گی۔
سلطان ہیثم نے اپنی طرف سے آیت اللہ خامنہ ای سے ملاقات پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا ملک پڑوسیوں بالخصوص اسلامی جمہوریہ کے ساتھ تعلقات کو وسعت دینے کی پالیسی رکھتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ تہران میں ہونے والے مذاکرات کے دوران تعاون کے مختلف شعبوں پر تبادلہ خیال کیا گیا، مذاکرات کے تسلسل سے ایران اور عمان اپنے دوطرفہ تعلقات کو وسعت دینے کے قابل ہو جائیں گے۔
یاد رہے کہ ہیثم بن طارق اتوار کے روز ایرانی دارالحکومت تہران پہنچ گئے اور سعد آباد کمپلیکس میں ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے ان کا باضابطہ استقبال کیا۔
اس کے بعد دونوں سربراہان مملکت نے ایک تقریب میں شرکت کی جہاں ایران اور عمان کے اعلیٰ حکام نے دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی اور توانائی کے تعاون کو وسعت دینے کے لیے مفاہمت کی چار یادداشتوں پر دستخط کیے۔

اسلام ٹائمز۔ لبنان کی مقاومتی تحریک "حزب الله" کے سیکرٹری جنرل "سید حسن نصر الله" نے آج شب، لبنان کی صیہونی پنجوں سے آزادی کے حوالے سے خطاب کیا۔ یہ دن "عید مقاومت" اور "آزادی" کے نام سے منسوب ہے۔ واضح رہے کہ 25 مئی 2000ء کو اسرائیل کو حزب الله کے سامنے شدید حزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ جنوبی لبنان میں اپنے داخلے کے تقریباََ 20 سال بعد صیہونی رژیم، حزب الله کی مقاومت کی وجہ سے بھاگنے پر مجبور ہوئی۔ اسی وجہ سے یہ دن عید مقاومت کے نام سے معروف ہے۔ اس دن کی مناسبت سے خطاب کرتے ہوئے سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ عید مقاومت ایک اہم موقع ہے جو ہمیں آج کے دن حاصل ہونے والی ایک بڑی فتح کی یاد دلاتا ہے۔ لہٰذا میں شہداء، زخمیوں، اسیروں، مجاہدوں اور ان کے لواحقین سمیت تمام افراد کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اس فتح میں اپنا کردار ادا کیا۔ ہم مقاومت کے حامیوں کے بھی قدردان ہیں۔ انہوں نے اس موقع پر لبنان کی فوج، سکیورٹی اداروں، فلسطینی گروہوں، اسلامی جمہوریہ ایران اور شام کے کردار کو سراہا۔

سید حسن نصر الله نے ایران و شام کا خاص طور پر تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ دونوں ممالک آج بھی مقاومت اور تمام جہادی گروپوں کے حامی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جو بھی یہ سمجھتا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ ہماری جنگ ختم ہو چکی ہے وہ خوابوں کی دنیا میں رہتا ہے۔ کیونکہ ابھی بھی ہماری سرزمین ایک حصہ دشمنوں کے قبضے میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اس اہم مناسبت کو باقی رکھنا اور اپنی اگلی نسلوں کو متعارف کروانا چاہئے۔ ہماری اگلی نسل کو جاننا چاہئے کہ ہمیں یہ کامیابی مفت میں نہیں ملی۔ جو اس عظیم کامیابی کو چھوٹا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں ہم ان کی اصلاح کریں گے۔ 2000ء میں جنوبی لبنان اور غزہ سے صیہونی رژیم کے خروج کے بعد گریٹر اسرائیل کے کسی نظریے کا وجود نہیں۔ حزب الله کے سربراہ نے اس امر کی جانب اشارہ کیا کہ اسرائیل اس وقت دیوار کے ساتھ لگ چکا ہے۔ یہ رژیم فلسطینی عوام کے ساتھ مذاکرات میں اپنی شرائط تک نہیں منوا سکتی۔ امریکہ اب سپر پاور نہیں رہا اور دنیا اس وقت مختلف بلاکس میں تقسیم ہو چکی ہے۔ یہی امر اسرائیل کی پریشانی کا باعث ہے۔ 

سید مقاومت نے کہا کہ اسرائیل کے داخلی بحران کے مقابلے میں استقامتی بلاک روز بروز مضبوط ہوتا جا رہا ہے۔ انہوں نے ایران کے صدر آیت الله "سید ابراهیم رئیسی" کے دورہ شام کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ شام کے خلاف 12 سالہ عالمی جنگ کے بعد ایرانی صدر کے دورہ دمشق نے مقاومت کے ساتھ اپنی حمایت کی نشان دہی کی ہے۔ آج مقاومت انسانی جدوجہد بن چکی ہے، مقاومت روحانی طور پر اعلیٰ سطح پر پہنچ چکی ہے۔ جتنا بھی لوگ استقامتی مرکز کے گرد جمع ہوتے جائیں گے اسرائیل اتنا ہی ضعیف ہوتا جائے گا۔ سید حسن نصر الله نے اسرائیل کے وزیراعظم نتین یاہو اور ان کے کابینہ کے ارکان کی بڑھکوں کا جواب دیا۔ انہوں نے کہا کہ آپ نہیں بلکہ ہم آپ کو ایک بڑی جنگ کی دھمکی دیتے ہیں۔ یہ عظیم جنگ اسرائیل کی تمام سرحدوں کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ جس میں لاکھوں مجاہدین محاذ پر سرگرم دکھائی دیں گے۔ انسانی حوالے سے ہمیں کافی برتری حاصل ہے۔ دشمن کی داخلی محاذ پر کمزوری ہماری قوت کا باعث ہے۔

حزب الله کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ اسرائیل داخلی طور پر کمزور ہو چکا ہے اور صیہونی اس ریاست سے فرار ہونے کے راستے ڈھونڈ رہے ہیں۔ ہمیں فلسطین کی آزادی، مسجد اقصیٰ میں نماز کی ادائیگی اور اسرائیل کی نابودی کی امید ہے۔ حالیہ زمانے میں مقاومت کی صلاحیت بڑھ رہی ہے۔ لبنان میں ہماری جنگی ٹیکنالوجی اس بات کی واضح مثال ہے۔ امریکہ اور صیہونی حکومت اس وقت جنگ کا غلط اندازہ لگاتے ہیں جب وہ مزاحمتی محاذ میں موجود کسی گروہ یا جماعت کو کرائے کے فوجی سمجھتے ہیں۔ صیہونی دشمن کو جن مسائل کا سامنا ہے ان میں سے ایک کاونٹر سکیورٹی کا مسئلہ ہے۔ سید حسن نصر الله نے کہا کہ حزب الله کی حالیہ مشقوں نے اسرائیل اور امریکہ کو وحشت میں مبتلا کر دیا ہے۔ حزب الله کی حالیہ مشقیں کسی بھی جنگ کے لئے تیاری کا اعلان ہیں۔ ہمارے اس اقدام سے مقبوضہ فلسطین میں سیاحت اور شمالی فلسطین میں صیہونی آبادکاروں پر گہرا اثر پڑے گا۔ ڈالر کے مقابلے میں اپنی کرنسی کی گرواٹ کی وجہ سے صیہونیوں نے اپنی دھمکیوں کو روک لیا ہے۔ 

حزب الله کے سربراہ نے صیہونی وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ محتاط رہو اور اپنی معلومات اپڈیٹ رکھو۔ ایسا نہ ہو کہ مغربی کنارے، فلسطین، شام یا ایران میں تم سے کوئی غلطی سرزد ہو جائے، جس سے تمام خطہ آگ کی لپیٹ میں آ جائے اور ایک بڑی جنگ شروع ہو جائے۔ ممکن ہے تمہارے غلط اندازے کسی بڑی علاقائی جنگ کا سبب بنیں۔ اگر ایسا ہوا تو کم از کم تمہارا وجود باقی نہیں رہے گا۔ سید مقاومت نے اسرائیل کی عرب ممالک کے ساتھ تعلقات کی بحالی کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ صیہونی رژیم، عرب حکومتوں سے تو تعلقات بحال کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے لیکن عرب اقوام کے ساتھ نہیں۔ یہ رژیم مختلف اقوام کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کی طاقت نہیں رکھتی۔ انہوں نے کہا کہ ہار ماننے، سمجھوتہ کرنے اور ہتھیار ڈالنے کے کلچر کے مقابلے میں مقاومت پر اعتماد بڑھ رہا ہے۔ انہوں فلسطینی مزاحمتی مرکز کی صورتحال کے بارے میں کہا کہ فلسطینی مقاومتی گروہوں کا سب سے مضبوط پوائنٹ یہ ہے کہ وہ نسلی ہیں، کیونکہ فلسطینی عوام اپنی سرزمین، حقوق اور نظریہ کی وارث ہے۔ 

سید حسن نصر الله کہا کہ بلاشبہ ایران، فلسطینی مقاومتی گروہوں کی مدد کرتا ہے لیکن پھر بھی حتمی فیصلہ فلسطینی عوام نے کرنا ہے۔ اسرائیلی اپنی ڈیٹرنس پاور کو بڑھانے میں ناکام ہو گئے ہیں اور اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ انہیں اپنی جارحیت کی قیمت چکانا ہو گی۔ انہوں حالیہ "حروں کے انتقام" کے نام سے فلسطینی جوابی کارروائی میں اسرائیل کی شکست کا ذکر بھی کیا۔ انہوں نے وضاحت کے ساتھ کہا اسرائیل کو اس جنگ میں شکست ہوئی اور اسی وجہ سے وہ شدید تشویش میں مبتلا ہیں۔ دوسری جانب حزب الله کی جنگی مشقوں کے بعد صیہونی آباد کاروں کے درمیان خوف کی فضاء پیدا ہو گئی ہے، جس سے یہ رژیم بیک فُٹ پر گئی ہے۔ دشمن کو پیچھے ہٹنا پڑے گا۔ اپنے خطاب کے اختتام پر سید مقاومت نے کہا کہ خطے میں ایک بڑی جنگ اسرائیل کی نابودی پر ختم ہو گی۔ خطے میں طاقت کا توازن ہمارے لئے خوشی کا باعث ہے۔ اسرائیل حتماََ نابود ہو گا۔ انہوں نے شامی پناہ گزینوں کے حوالے سے کہا کہ لبنان کے اعلیٰ سطحی وفد کو شام جا کر سنجیدگی سے اس مسئلے کو حل کرنا چاہئے۔
 
 
 

مہر خبررساں ایجنسی نے ادارۂ حج کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ؛ 2023ء کے ایرانی عازمین حج کا پہلا قافلہ، آج صبح امام خمینی انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے مدینہ منورہ پہنچا ہے۔ ایرانی حجاج کرام کا مدینہ ایئر پورٹ پہنچنے پر پھولوں اور گلاب سے استقبال کیا گیا اور پھر ہوٹلوں میں قیام کیلئے روانہ ہوئے تو ہوٹل انتظامیہ کی جانب سے نیز پھولوں، مٹھائیوں اور کھجوروں سے ان کا استقبال کیا گیا۔

ایرانی حجاج کا مدینہ ایئر پورٹ پر استقبال + تصاویر

ایرانی حجاج کرام مدینہ منورہ میں قیام کے دوران، روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم اور بقیع میں آئمہ معصومین علیہم السلام کی قبور کی زیارت کرتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کے شہر کے روحانی فیوض و برکات سے بہرہ مند ہوتے ہیں۔

ایرانی حجاج کا مدینہ ایئر پورٹ پر استقبال + تصاویر

یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ رواں سال، 87 ہزار 550 ایرانی حجاج قافلوں کی صورت میں سرزمین وحی جائیں گے۔

مہر خبررساں ایجنسی کے نامہ نگار کے ساتھ گفتگو میں کاوه دلیری نے ایرانی صدر کے جکارتہ کے دورے کا تذکرہ کرتے ہوئے انڈونیشیاء کے ساتھ ایران کے تجارتی اور اقتصادی تعلقات کی صورتحال پر تبصرہ کیا اور کہا کہ اس حقیقت کے باوجود کہ ایران انڈونیشیا کے درمیان سیاسی اور دیگر مختلف شعبوں میں تعلقات کی صورتحال بہتر ہے، لیکن دونوں ممالک میں صلاحیتیں موجود ہونے کے باوجود، اقتصادی اور تجارتی شعبوں میں پیشرفت نہیں ہوئی ہے، البتہ انڈونیشیاء مشرقی ایشیاء کے ساتھ تجارتی معاملات میں دوسرے نمبر پر ہے، لیکن مزید ان معاملات کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔

مشرقی ایشیاء کے ٹریڈ ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن کے ڈائریکٹر جنرل نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ انڈونیشیاء آنے والے سالوں میں ایران کے اہم شراکت داروں میں سے ایک ہو سکتا ہے، مزید کہا کہ انڈونیشیاء کی آبادی 270 ملین ہے اور دنیا کا چوتھا اور مسلم ممالک میں سب سے زیادہ آبادی والا اسلامی ملک ہے، لہٰذا انڈونیشیاء کے پاس تجارتی مواقع موجود ہیں اور ایران اس ملک کے تجارتی معاملات میں شریک ہو سکتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ انڈونیشیاء معاشی حوالے سے دنیا کے مضبوط ممالک میں سے ایک شمار ہوتا ہے اور اس وقت دنیا کی 16ویں بڑی معیشت ہے۔ بین الاقوامی اداروں کی رپورٹس کے مطابق، کورونا وائرس کے دوران بھی انڈونیشیاء کی معیشت ترقی کی طرف گامزن تھی اور بتایا جاتا ہے کہ انڈونیشیاء آئندہ 10 سالوں میں دنیا کی 5 بڑی معیشتوں میں شامل ہو سکتا ہے، لہٰذا انڈونیشیاء کو ایران کے اہم شراکت داروں میں سے ایک کے طور پر متعارف کیا جا سکتا ہے۔

دلیری نے انڈونیشیاء میں ایران کے اثر و رسوخ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ انڈونیشیاء نے 2022ء میں مختلف ممالک سے تقریباً 230 بلین ڈالر کی درآمدات کیں جبکہ ایران نے تقریباً 800 ملین ڈالر کی درآمدات کیں۔ دوسری طرف دنیا سے ہماری درآمدات 59 بلین ڈالر تھیں جس میں انڈونیشیاء کا حصہ 100 ملین ڈالر تھا، لہٰذا انڈونیشیاء کا ایران کے ساتھ تجارتی معاملات میں کوئی نمایاں کردار نہیں ہے اور اسے مضبوط کیا جانا چاہیئے۔

مشرقی ایشیاء کے ٹریڈ ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن کے ڈائریکٹر جنرل نے مزید کہا کہ دوسری طرف، انڈونیشیاء کی مختلف ممالک سے درآمد کی جانے والی مصنوعات اور پروڈکٹ گروپوں میں بھی ایران کا کوئی اہم رول نہیں ہے، جبکہ ایران کے اندر انڈونیشیاء کو درکار پروڈکٹس کافی مقدار میں موجود ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ مثال کے طور پر انڈونیشیاء کے دارالحکومت کی جکارتہ سے نوسنتارا منتقلی میں ایران کو تکنیکی اور انجینئرنگ خدمات، خام مال، تعمیراتی مصنوعات، بجلی اور سڑک کی تعمیر کی مصنوعات وغیرہ برآمد کرنے کیلئے دسیوں ارب ڈالر کا تجارتی موقع فراہم ہو سکتا ہے۔

دلیری نے آخر میں ایرانی صدر کے دورے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ صدر کے دورے کے دوران کسٹم، لاجسٹکس، کلیئرنگ، انجینئرنگ تکنیکی خدمات اور سب سے اہم ترجیحی تجارتی معاہدے کے شعبوں میں کئی دستاویزات پر دستخط ہوئے، جو کہ خوش آئند بات ہے۔

 ایران کے خلاف عراق کی جارحیت کی جنگ میں خرمشہر کی آزادی کی 41 ویں سالگرہ کے موقع پر، تہران نے اپنے خرمشہر بیلسٹک میزائل کی چوتھی نسل کو خیبر کے نام سے متعارف کرایا ہے۔

ایرانی وزیر دفاع محمد رضا اشتیانی کی موجودگی میں جمعرات کی صبح 2,000 کلومیٹر کی رینج اور 1,500 کلوگرام وار ہیڈ کے حامل بیلسٹک میزائل کی ایک تقریب میں نقاب کشائی کی گئی۔
خیبر کی نمایاں خصوصیات میں فوری تیاری اور لانچ کا وقت شامل ہے، جو میزائل کو حکمت عملی کے ساتھ ساتھ ایک حکمت عملی کا ہتھیار بھی بناتا ہے۔