سلیمانی

سلیمانی

حضرت علی اکبر (ع) بن ابی عبداللہ الحسین (ع) 11 شعبان سن43 ھ (1) کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوے
آپ امام حسین بن علی بن ابی طالب (ع) کے بڑے فرزند تھے اور آپ کی والدہ ماجدہ کا نام لیلی بنت مرّہ بن عروہ بن مسعود ثقفی ہے ـ لیلی کی والدہ میمونہ بنت ابی سفیان جوکہ طایفہ بنی امیہ سے تھیں ـ (2)
اس طرح علی اکبر (ع) عرب کے تین مہم طایفوں کے رشتے سے جڑے ہوے تھے
والد کیطرف سے طایفہ بنی ھاشم سے کہ جس میں پیعبر اسلام (ص) حضرت فاطمہ (س) ، امیر المومنین علی بن ابیطالب (ع) اور امام حسن (ع) کے ساتھ سلسلہ نسب ملتا ہے اور والدہ کی طرف سے دو طایفوں سے بنی امیہ اور بنی ثقیف یعنی عروہ بن مسعود ثقفی ، ابی سفیان ، معاویہ بن ابی سفیان اور ام حبیبہ ھمسر رسول خدا (ص) کے ساتھ رشتہ داری ملتی تھی اور اسی وجہ سے مدینہ کے طایفوں میں سب کی نظر میں آپ خاصا محترم جانے جاتے تھے ـ ابو الفرج اصفہانی نے مغیرہ سے روایت کی ہے کہ: ایک دن معاویہ نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا کہ : تم لوگوں کی نظر میں خلافت کیلۓ کون لایق اور مناسب ہے ؟ اسکے ساتھیوں نے جواب دیا : ہم تو آپ کے بغیر کسی کو خلافت کے لایق نہیں سمجھتے ! معاویہ نے کہا نہیں ایسا نہیں ہے ـ بلکہ خلافت کیلۓ سب سے لایق اور شایستہ علی بن الحسین (ع) ہے کہ اسکا نانا رسول خدا (ص) ہے اور اس میں بنی ھاشم کی دلیری اور شجاعت اور بنی امیہ کی سخاوت اور ثقیف کی فخر و فخامت جمع ہے (3)
حضرت علی اکبر (ع) کی شخصیت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کافی خوبصورت ، شیرین زبان پر کشش تھے ، خلق و خوی ، اٹھنا بیٹھنا ، چال ڈال سب پیغمبر اکرم (ص) سے ملتا تھا ـ جس نے پیغبر اسلام (ص) کو دیکھا تھا وہ اگر دور سے حضرت علی اکبر کو دیکھ لیتا گمان کرتا کہ خود پیغمبر اسلام (ص) ہیں ۔ اسی طرح شجاعت اور بہادری کو اپنے دادا امیر المومنین علی (ص) سے وراثت میں حاصل کی تھی اور جامع کمالات ، اور خصوصیات کے مالک تھے ـ (4)
ابوالفرج اصفھانی نے نقل کیا ہے کہ حضرت علی اکبر (ص) عثمان بن عفان کے دور خلافت میں پیدا ہوے ہیں (5) اس قول کے مطابق شھادت کے وقت آنحضرت 25 سال کے تھے
حضرت علی اکبر (ع) نے اپنے دادا امام علی ابن ابی طالب (ع) کے مکتب اور اپنے والد امام حسین (ع) کے دامن شفقت میں مدینہ اور کوفہ میں تربیت حاصل کرکے رشد و کمال حاصل کرلیا
امام حسین (ع) نے ان کی تربیت اور قرآن ، معارف اسلامی کی تعلیم دینے اور سیاسی اجتماعی اطلاعات سے مجہز کرنے میں نہایت کوشش کی جس سے ہر کوئی حتی دشمن بھی ان کی ثنا خوانی کرنے سے خودکو روک نہ پات تھا
بہر حال ، حضرت علی اکبر (ع) نے کربلا میں نہایت مؤثر کردار نبھایا اور تمام حالات میں امام حسین (ع) کے ساتھ تھے اور دشمن کے ساتھ شدید جنگ کی ـ (6)
شایان زکر ہے کہ حضرت علی اکبر (ع) عرب کے تین معروف قبیلوں کے ساتھ قربت رکھنےکے باوجود عاشور کے دن یزید کے شپاہیوں کے ساتھ جنگ کے دوران اپنی نسب کو بنی امیہ اور ثقیف کی طرف اشارہ نہ کیا ، بلکہ صرف بنی ھاشمی ہونے اور اھل بیت (ع) کے ساتھ نسبت رکھنے پر افتخار کرتے ہوے یوں رجز خوانی کرتے تھے :

أنا عَلي بن الحسين بن عَلي      نحن و بيت الله اَولي بِالنبيّ
أضرِبكُم بِالسّيف حتّي يَنثني       ضَربَ غُلامٍ هاشميّ عَلَويّ
وَلا يَزالُ الْيَومَ اَحْمي عَن أبي        تَاللهِ لا يَحكُمُ فينا ابنُ الدّعي


عاشور کے دن بنی ھاشم کا پہلا شھید حضرت علی اکبر (‏ع) تھے اور زیارت معروفہ شھدا میں بھی آیا ہے : السَّلامُ عليكَ يا اوّل قتيلٍ مِن نَسل خَيْر سليل.(7)
حضرت علی اکبر (ع) نے عاشور کے دن دو مرحلوں میں عمر سعد کے دو سو سپاہیوں کو ھلاک کیا اور آخر کار مرّہ بن منقذ عبدی نے سرمبارک پر ضرب لگا کر آنحضرت کو شدید زخمی کیا اور اسکے بعد دشمن کی فوج میں حوصلہ آيا اور حضرت پر ہر طرف سے حملہ شروع کرکے شھید کیا
امام حسین (ع) انکی شھادت پر بہت متاثر ہوے اور انکے سرہانے پہنچ کر بہت روے اور جب خون سے لت پت سر کو گود میں لیا ، فرمایا: عَلَي الدّنيا بعدك العفا.(8)
شھادت کے وقت حضرت علی اکبر (ع) کی عمر کے بارے میں اختلاف ہے ـ بعض نے 18 سال ، بعض نے 19 سال اور بعض نے 25 سال کہا ہے (9)
مگر یہ کہ امام زین العابدین (ع) سے بڑے تھے یا چھوٹے اس پر بھی مورخوں اور سیرہ نویسوں کا اتفاق نہیں ہے ـ البتہ امام زین العابدین (ع) سے روایت نقل کی گی ہے کہ جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ سن کے اعتبار سے علی اکبر (ع) سے چھوٹے تھے ـ امام زین العابدین (ع) نے فریایا ہے : کان لی اخ یقال لہ علی ، اکبر منّی قتلہ الناس ـ ـ ـ (10)


حوالہ:

1- مستدرك سفينه البحار (علي نمازي)، ج 5، ص 388
2- أعلام النّساء المؤمنات (محمد حسون و امّ علي مشكور)، ص 126؛ مقاتل الطالبيين (ابوالفرج اصفهاني)، ص 52
3- مقاتل الطالبيين، ص 52؛ منتهي الآمال (شيخ عباس قمي)، ج1، ص 373 و ص 464
4- منتهي الآمال، ج1، ص 373
5- مقاتل الطالبيين، ص 53
6- منتهي الآمال، ج1، ص 373؛ الارشاد (شيخ مفيد)، ص 459
7- منتهي الآمال، ج1، ص 375
8- همان
9- همان و الارشاد، ص 458
10- نسب قريش (مصعب بن عبدالله زبيري)، ص 85، الطبقات الكبري (محمد بن سعد زهري)، ج5، ص 211

تہران، ارنا - ایرانی وزیر خارجہ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ایرانی طالبات کو مشتبہ زہر دینے کے حوالے سے بعض مغربی حکام کے مداخلت پسندانہ موقف دشمن کی پیچیدہ جنگ کا تسلسل ہے۔

یہ بات حسین امیرعبداللہیان نے جمعہ کے روز اپنے ٹوئٹر پیج میں کہی۔
انہوں نے کہا کہ ملک کے متعلقہ ادارے اس مسئلے کی سنجیدگی سے پیروی کر رہے ہیں اور اس کی مختلف جہتوں کا مطالعہ کر رہے ہیں۔
امیرعبداللہیان نے اس معاملے میں بعض مغربی حکام کی مداخلت کے جواب میں کہا کہ ایرانی عوام اچھی طرح جانتے ہیں کہ مگرمچھ کے آنسو کون بہاتا ہے!

اسلامی نظام کی حمایت میں حالیہ ریلیوں میں ایرانیوں کے وسیع ٹرن آؤٹ کو سراہتے ہوئے، تہران کے امام جمعہ نے کہا کہ اسلامی انقلاب اپنی اس عظمت، عظیم عوامی سرمائے اور مضبوط سماجی بنیاد کے ساتھ خدا کی مدد سے بیرونی اقتصادی رکاوٹوں کو دور کرلے گا۔

ایران کے دار الحکومت تہران کی نماز جمعہ جو مصلائے امام خمینی میں ادا کی گئی، کے خطبوں کے دوران اس ہفتے کے امام جماعت حجة الاسلام سید محمد حسن ابو ترابی نے رواں سال اسلامی انقلاب کی سالگرہ کے موقع پر 11 فروری کو انقلاب کی حمایت میں نکلنے والی ریلیوں میں عوامی شرکت کو بے مثال قرار دیا اور کہا کہ قوم نے اس سال حق کی معرفت، استقامت اور پائیداری کی عملی تفسیر پیش کی اور ایک مرتبہ پھر اپنی وفاداری کو ثابت کیا۔ 

انہوں نے کہا کہ ایرانی عوام نے اپنی گہری سیاسی بصیرت اور عزت و استقامت کے صحیح فہم کے ساتھ استکباری طاقتوں کی ہزیمت زدہ آنکھوں کے سامنے اسلامی نظام کی حاکمیت کو اجاگر کیا۔

حجة الاسلام ابوترابی فرد نے کہا کہ ایرانی عوام نے ثابت کیا کہ مشکلات اور معاشی دباؤ کے باوجود وہ ملک کی حاکمیت کو برقرار رکھنے کے لیے رہبر انقلاب اسلامی کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔

انہوں نے یہ بھی یقین دلایا کہ قوم بیرونی ممالک کی طرف سے عائد معاشی دباؤ پر قابو پالے گی۔ انہوں نے انقلاب اسلامی کے چاہنے والوں اور حامیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اے تسلط کے نظام کے ستونوں کو ہلانے والو، یقین رکھو اور پوری قوت و اقتدار کے ساتھ بڑھتے رہو کیونکہ اس عظمت، عظیم عوامی سرمائے اور مضبوط سماجی بنیاد کا حامل انقلاب، خدا کی مدد سے بیرونی معاشی مشکلات سے گزر جائے گا اور سخت فوجی میدان جنگ کی شاندار فتح کو معاشی میدان جنگ میں بھی دہرائے گا۔

تہران کے امام جمعہ نے مزید کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ آپ یہ جو دیکھ رہے ہیں کہ دشمن اس تناور شجرہ ﴿اسلامی نظام﴾ پر دباؤ ڈالنے کے لیے اپنے تمام ہتھیار اور وسائل استعمال کر رہا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے اپنے تفصیلی تجزیے میں دیکھ لیا ہے کہ طاقت و اقتدار اور اعلیٰ مقام تک پہنچنے کے لیے ایران کا روڈ میپ درست سمت میں آگے بڑھ رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ انقلاب کے آغاز میں 1979 کے دوان جس ملک کی جامعات میں ایک لاکھ ستر ہزار طلبہ پڑھتے تھے اور ان کی اکثریت بھی صرف تہران میں تھی، ملک میں پی ایچ ڈی کا کوئی ایک طالب علم بھی نہیں تھا، کیسے علم و دانش کی پیداوار میں اتنے اونچے مقام تک پہنچا؟ آج ایران کی جامعات میں 33 لاکھ سے زائد طلبہ زیر تعلیم ہیں اور آج ملک میں پی ایچ ڈی میں زیر تعلیم طلبہ کی تعداد 1979 میں پورے ملک کے طلبہ کے برابر ہوچکی ہے۔ 

انہوں نے یہ بھی کہا کہ انقلاب کے آغاز میں ملک کی ایک اعشاریہ دو فیصد آبادی اعلیٰ تعلیم یافتہ تھی جبکہ آج ملک کی تقریباً 20 فیصد آبادی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے۔ یہی وہ عظیم قومی سرمایہ ہے جو انقلاب کی قوت محرکہ شمار ہوتا ہے۔   

انہوں نے زور دے کر کہا کہ کرنسی کا اتار چڑھاؤ جو بلاتردید اہم ہے اور اس پر قابو پانا ضروری ہے، دشمن اسے ترقی اور پیشرفت کا معیار نہیں سمجھتے بلکہ وہ سائنسی ترقی، علم کی ٹیکنالوجی میں تبدیلی اور جدید ٹکنالوجی کی سمت آگے بڑھنے کو ترقی کی علامت سمجھتے ہیں اور اس بات پر فکر مند ہیں کیونکہ اسلامی ایران نے اس میدان میں انتہائی بڑے اور شاندار اقدامات کیے ہیں۔

حجة الاسلام ابوترابی فرد نے اس بات پر بھی زور دیا کہ علم و دانش اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ایران کی کامیابیاں ایک عظیم کارنامہ ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران سائنس اور علم سے پیدا ہونے والی طاقت کی طرف بڑھ رہا ہے اور اس میں یہ پیغام بھی پوشیدہ ہے کہ آپ کی غیر ملکی زرمبادلہ کمائی کا تعین تیل کی فروخت سے نہیں بلکہ علم و سائنس اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز کی پیداوار سے کیا جائے گا۔
https://taghribnews

 حوزہ علمیہ اصفہان میں امور تہذیب و تبلیغ کے وائس چانسلر حجۃ الاسلام والمسلمین سید حسین مومنی نے اصفہان میں موجود حفظِ قرآنِ کریم کے خصوصی مدرسہ "شہید طباطبائی نژاد" سے قرآن کریم حفظ کرنے والے طلباء کے اعزاز میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ایک مسلمان کے لیے قرآن مجید حفظ کرنا، اس پر عمل کرنا اور قرآن سے اُنس پیدا کرنا بہت زیادہ فضیلت رکھتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا: جب ایک طالب علم حافظِ قرآن بنتا ہے تو اس وقت اس کا فائدہ دوگنا ہو جاتا ہے کیونکہ طلباء کے تمام امور اور دینی معاملات میں سب سے اہم منبع اور حوالہ جات کی دستاویز قرآنِ کریم ہی ہے۔

حجۃ الاسلام سید حسین مومنی نے کہا: حوزہ علمیہ اصفہان میں تعلیم و تربیت کے سلسلہ میں انتہائی اچھے اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔ ایک طالب علم ہونے کے ناطے ہم قرآنِ کریم سے جتنا زیادہ انس رکھیں گے، اتنا ہی معاشرے کے لئے مؤثر ہوں گے کیونکہ قرآن سند، نزول اور تاریخی لحاظ سے "لاریب فیہ" کتاب ہے۔

انہوں نے کہا: قرآن مجید دین کی تبلیغ کا بہترین ذریعہ ہے۔ اگر کوئی شخص دینی میدان میں سرگرم عمل ہو یا دینی معلومات حاصل کرنا چاہتا ہو یا دینی مسائل میں کوئی نظریہ وغیرہ پیش کرنا چاہے تو اس کا سب سے اہم ماخذ قرآن مجید ہی قرار پاتا ہے۔

حوزہ علمیہ اصفہان میں امور تہذیب و تبلیغ کے وائس چانسلر نے کہا: آج کرۂ ارض پر قرآن کے سوا کوئی توحیدی کتاب ایسی نہیں ہے۔ جس کے پیروکار یہ دعویٰ کر سکیں کہ اس میں تحریف نہیں ہوئی ہے۔

حجۃ الاسلام مومنی نے کہا: قرآن نور ہے اور اگر یہ نور انسان کے ہمراہ ہو جائے تو اس کا اثر دوگنا ہو جاتا ہے۔

ایکنا -  میڈل ایسٹ آئی کے مطابق پارلیمنٹ میں سال 2032 کے لیے فنڈ میں مسلمانوں کو تعلیم سے دور رکھنے کی کوشش کی گیی ہے۔

یہ وہی جگہ ہے جہاں مودی سرکار خود کو مسلمان خواتین کے لیے نجات دہندہ پیش کرتی ہے درحالیکہ انکے سیاسی اور اجتماعی حقوق ضائع کیے جارہے ہیں۔

اقلیتوں کے فنڈ میں کمی سے اثرات مرتب ہوں گے اور اس سے انکے اسکولوں کو ملنے والی رقم میں کمی ہوگی۔

حجاب سے لیکر کام کرنے، ہر جگہ مسلمان خواتین خطروں سے دوچار ہیں اور حکومتی دعوں کے برعکس مسلمان خواتین مشکلات کا سامنا کررہی ہیں۔

 

اگلے سال کے لیے اقلیتوں کے لیے فنڈ کو ۲۵۱۵ کروڑ روپیہ سے کم کرکے ۱۶۸۹ کروڑ کردی گیی ہے اور ٹیکنکل شعبوں میں بھی فنڈ کو خطرناک حد تک کم کردی گیی ہے۔

قابل ذکر ہے کہ دسمبر میں بھی مولانا آزاد تعلیمی فنڈ کو ختم کرنے کا اعلان ہوا تھا یہ مسلمان تعلیمی مسائل کو کم کرنے کے حوالے سے دس سال قبول منظور کیا گیا تھا۔

انڈیا میں مسلم طبقہ پہلے ہی سے تعلیمی شعبوں میں مسائل کا شکار ہے اور اعلی تعلیمی اداروں میں مسلمان طلبا کو داخلہ یا اسکالرشپ کم ہی ملتا ہے اور مسلم طلبا اکثر غیرسرکاری اداروں سے وابستہ ہوتے ہیں اور اس معمولی امداد میں مزید کمی سے انکی مشکلات مزید بڑھ سکتی ہیں۔

وزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، کاؤنٹرپنچ (CounterPunch.org) نامی ایک امریکی ویب سائٹ نے ایک مضمون شائع کیا ہے اور اس بات سے پردہ اٹھانے کی کوشش کی ہے کہ کس طرح امریکہ میں میڈیا اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس ملک میں رہنے والے مذہبی گروہوں بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ دوہرا سلوک کر رہے ہیں۔

اس آرٹیکل کے مطابق امریکہ کی انٹیلی جنس ایجنسیاں اور وہاں کا میڈیا بھی مسلمانوں کی جاسوسی کو درست سمجھتا ہے لیکن اگر یہی کام عیسائیوں کے ساتھ کیا جائے تو ان کے مطابق یہ برا کام بن جاتا ہے۔

مصنف کا کہنا ہے کہ 11 ستمبر 2001 کو امریکہ میں ہونے والا دہشت گردانہ حملہ درحقیقت اس ملک میں ہونے والا بدترین دہشت گردانہ حملہ نہیں تھا، بلکہ، میری رائے میں، ایک سفید فام عیسائی قوم پرست، ٹموتھی میک ویگ کا اوکلاہوما سٹی کا حملہ زیادہ خطرناک تھا۔ اس شخص کے انتہا پسندوں سے قریبی تعلقات تھے۔

اس امریکی ویب سائٹ کی طرف سے اخذ کردہ نتیجہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ امریکہ میں دائیں بازو کا میڈیا عیسائیت کو انتہائی مقدس مذہب کے طور پر پیش کرتا ہے جب کہ وہ اسلام کو ایک مشتبہ مذہب کے طور پر پیش کرتا ہے۔ وہ دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کے مقابلے میں مذہبی کیتھولک کو زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ امریکہ میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک پر مبنی کئی خبریں اس سے قبل بھی شائع ہو چکی ہیں۔

سرینگر: مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی جارحیت جاری، ایک اور کشمیری نوجوان شہید ہوگیا مقبوضہ وادی کے ضلع پلواما میں قابض بھارتی فوج نے داخلی اور خارجی راستوں کو بند کرکے سرچ آپریشن کے دوران گھر گھر تلاشی لی۔ اہلکار چادر و چار دیواری کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے گھروں میں گھس گئے۔ خواتین کے ساتھ بدتمیزی کی گئی جب کہ بزرگوں اور بچوں کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اس دوران ایمبولینس کو بھی علاقے میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی جب کہ موبائل فون اور نیٹ سروس بھی معطل کردی گئی۔ بھارتی فوج نے ایک گھر پر اندھا دھند فائرنگ کرکے نوجوان کو شہید کردیا۔

،جنیوا میں تخفیف اسلحہ کی کانفرنس کے اعلیٰ سطحی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے کہا کہ آج عالمی تخفیف اسلحہ کے لیے ٹھوس اقدامات کرنا ایک بنیادی ضرورت ہے۔ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں بالخصوص جوہری ہتھیاروں کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے بغیر بین الاقوامی اور علاقائی امن و سلامتی کو مستحکم کرنا حقیقت پسندانہ نہیں ہوگا۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے آٹھ دہائیوں بعد جوہری تخفیف اسلحہ کا ہدف تمام بین الاقوامی کوششوں کے باوجود ابھی تک ناپید ہے۔

امیر عبداللہیان نے کہا کہ جوہری ہتھیار رکھنے والی ریاستوں نے اپنے جوہری ہتھیاروں کی توسیع کو جاری رکھا ہوا ہے اور جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاو کے متعلق اپنی ذمہ داری کو بالائے طاق رکھ کر نئی نسلیں تیار کر کے اپنے جوہری ہتھیاروں کو جدید بنایا، جس نے این پی ٹی کو نقصان پہنچایا اور بین الاقوامی امن و سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا۔

انہوں نے کہا کہ اہم مسئلہ یہ ہے کہ کچھ جوہری ہتھیار رکھنے والی ریاستیں سمجھتی ہیں کہ جوہری عدم پھیلاو کا معاہدہ ﴿این پی ٹی﴾ صرف غیر جوہری ہتھیاروں والی ریاستوں کو پابند بنانے کے لیے ہے نہ کہ خود ان کے لیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ جوہری ہتھیاروں سے پاک علاقوں کا قیام جوہری تخفیف اسلحہ اور امن و سلامتی کی جانب ایک بنیادی قدم ہے۔ صہیونی ریاست قانونی طور پر پابند بنانے والے کسی بھی بین الاقوامی معاہدے کا حصہ بنے بغیر اور کسی جوابدہی، حفاظتی اقدامات یا تصدیقی طریقہ کار کے تابع ہوئے بغیر امریکی حمایت سے ہر قسم کے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا ذخیرہ جاری رکھے ہوئے ہے۔

امیر عبداللہیان نے یہ بھی کہا کہ اپنے قیام سے لے کر اب تک اس قانون شکن رجیم ﴿صہیونی ریاست﴾ نے تمام بین الاقوامی بنیادی جرائم کا ارتکاب کیا ہے جن میں اپنے تمام پڑوسیوں کے خلاف جارحیت، جنگی جرائم، انسانیت کے خلاف جرائم اور متعدد پڑوسی ممالک کے علاقوں پر قبضے شامل ہیں۔ اس دہشت گرد رجیم نے کئی بے گناہ ایٹمی سائنسدانوں کو قتل کیا ہے اور بار بار دھمکی دی ہے کہ وہ ہمارے ملک کی محفوظ پرامن ایٹمی تنصیبات پر حملہ کرے گی۔ اگر اس حکومت نے ایسی احمقانہ جارحیت کی تو اسے بھاری اور ناقابل برداشت قیمت چکانی پڑے گی۔

انہوں نے کہا کہ جے سی پی او اے کی موجودہ صورتحال امریکی پالیسیوں اور غلط حسابات کا نتیجہ ہے۔ ماضی کے تجربات نے ایران کو مزید احتیاط اور حساسیت کے ساتھ مذاکرات کے نئے دور میں شامل ہونے کا درس دیا ہے۔

ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ ایران مارچ میں آئی اے ای اے کے بورڈ آف گورنرز کے آئندہ اجلاس کے کسی بھی ممکنہ غیر دانشمندانہ فیصلے کے متعلق خبردار کرتا ہے اور کہا کہ ایران مناسب جواب دینے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔

انہوں نے بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی پر بھی زور دیا کہ وہ سیاسی نقطہ نظر کو ترک کر دے کیونکہ تکنیکی حل بہت قریب ہے۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ دنوں میں آئی اے ای اے کی دو تکنیکی ٹیموں نے ایران کا دورہ کیا اور ہم نے ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل کو بھی ایران کا دورہ کرنے کی دعوت دی ہے۔ اگر ایجنسی اپنا سیاسی نقطہ نظر ترک کرتی ہے، تو ہم تکنیکی حل کے بہت قریب ہیں۔

مہر خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے اپنی ایک ٹویٹ میں شام کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے عرب ممالک کے پارلیمانوں کے وفد کے دورہ دمشق کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ شام کے ساتھ عرب ممالک کے تعلقات میں حالیہ آغاز بشمول حالیہ تباہ کن زلزلے کے بعد شام سے اظہار یکجہتی کے لیے عرب ملکوں کے پارلیمانوں کے وفد کا دورہ دمشق حقیقت پسندانہ ہونے کے ساتھ ساتھ اسلامی یکجہتی کی راہ میں ایک مثبت قدم ہے۔ 

انہوں نے مزید لکھا کہ خطے کے ممالک حقیقت پسندی اور ایک خود مختار قومی نقطہ نظر اختیار کر کے مکالمے اور علاقائی میکانزم کا استعمال کرتے ہوئے اپنے مسائل حل کرسکتے ہیں بشرطیکہ غیر ملکی تسلط پسند طاقتوں کی خواہشات کو نظر انداز کیا جائے۔ 

یاد رہے کہ عرب پارلیمنٹ کی یونین کے ایک وفد نے حال ہی میں حالیہ تباہ کن زلزلے کے بعد شامی حکومت سے یکجہتی کے اظہار کے لیے دمشق کا دورہ کیا تھا۔

در ایں اثنا اتوار کے روز عراقی پارلیمنٹ کے اسپیکر محمد الحلبوسی کی سربراہی میں عرب پارلیمنٹس کے سربراہان کا وفد دمشق پہنچا اور شام کے صدر بشار الاسد سے ملاقات کی۔

اس ملاقات کے بعد شام کی پارلیمنٹ کی میزبانی میں ایک مشترکہ اجلاس منعقد ہوا جس میں مصر، عراق، متحدہ عرب امارات، لبنان، فلسطین اور اردن کی پارلیمانوں کے سربراہان نے خطاب کیا۔

عبرانی میڈیا نے اعلان کیا کہ مغربی کنارے میں اپنی گاڑیوں پر پتھراؤ اور فائرنگ کے نتیجے میں ایک افسر اور ایک فوجی سمیت متعدد اسرائیلی زخمی ہوئے، اور رام اللہ کے مغرب میں آباد کاروں کی بس میں آگ لگ گئی۔

سماء نیوز ایجنسی کے مطابق رام اللہ کے شمال میں وادی الحرامیہ کے قریب پتھراؤ سے ایک افسر اور ایک فوجی سمیت تین آباد کار زخمی ہو گئے۔

نیز نابلس کے جنوب مشرق میں قصرہ بستی کے قریب ایک کار پر فائرنگ کے نتیجے میں ایک خاتون آباد کار زخمی اور چار افراد خوفزدہ ہوگئے۔

عبرانی ذرائع کے مطابق رام اللہ کے مغرب میں ایک آباد کار بس کو مودیین روڈ پر مولوٹوف کاک ٹیل پھینکے جانے کے بعد آگ لگ گئی۔
https://taghribnews.